Chitral Times

پوسٹ پارٹم ڈپریشن – میرسیما آ مان

Posted on

پوسٹ پارٹم ڈپریشن – میرسیما آ مان

آ پ نے کبھی دیکھا کہ ایک شخص گاڑی چلا رہا ہو اور ساتھ بیٹھے ہوئے دسیوں افراد پر ہر لمحہ اسے ٹوکتے ہوں سکھا رہے ہوں کہ گیر دباؤ ریس دباؤ بریک لو ٹرن لو یہ کرو وہ کرو۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ہوا شخص ایک لائینسس یافتہ ڈرائیور ہے ۔ ظاہری بات ہے ایسا سین ہم نے کبھی نہیں دیکھا ۔لیکن اک لمحے کے لئے ہم یہ فرض کر لیتے ہیں۔ کہ ایک وین میں بیٹھے پچیس افراد ڈرائیور کو بار بار  ہدایت دیں گے تو وہ کیا کرےگا ۔۔یقینا وہ گاڑی لے جاکر کسی دیوار پہ دے مارے گا کیونکہ ڈرائیونگ ایک انتہائی حساس کام ہے ۔میرے نزدیک اکیسویں صدی میں ایک ماں کی بھی وہی صورتحال ہے جو اس وین میں بیٹھے ڈرائیور کی ہے ۔اور مجھے سمجھ نہیں آئی کہ نپولین نے کس نشے کی دھت میں پڑ کر یہ بے کار جملہ ایجاد کیا تھا کہ تم مجھے ایک بہترین ماں دو میں  تمھیں بہترین قوم دونگا یا بچے کی پہلی تربیت گاہ ماں کی گود وغیرہ وغیرہ ۔

 

ہوسکتا ہے نپولین کا دور ہی اتنا محدود ہو کہ پوری قوم کی تربیت ماں کی گود پر منحصر ہوتا ہو ۔ یا ہوسکتا ہے اس دور میں ایک ماں کو وہ سارے حقوق حاصل ہوں جو تربیت کے حوالے سے ایک ماں کے ہیں لیکن آ ج کا دور اس بات کا قطعی منافی ہے ۔۔کیونکہ آج کا بچہ ایک ماں کی گود سے ذیادہ اردگرد کے ماحول سے سیکھتا ہے ماں کی گود تو اسکے لیے جیل خانہ ہے ۔ وہ ان تمام رشتوں کی طرف لپکتا ہے جو لاڈ کے نام پر اسے بے جا ضد اور بد تمیزی سکھاتے ہیں اور ماں اپنی آنکھوں سے یہ سب دیکھ کر صرف اسلیے صبر کے گھونٹ پیتی ہے کہ رشتوں کا لحاظ باقی رہے۔کوئی ناراضگی نہ ہو ۔ حالانکہ ماں کا حق ہے کہ وہ اولاد کی تربیت اپنی اصولوں اور خواہش کے مطابق کرے لیکن ہمارا معاشرہ عورت کو یہ حق بھی نہیں دیتا ۔بحرحال نفسیات کے مطابق عورت جب بچہ جنتی ہے تو کم ازکم  دو سے چھ ماہ تک کا دورانیہ زچہ کے لیے نفسیاتی اعتبار سے انتہائی نازک ہوتا ہے یہ دورانیہ ماں کے نفسیات پر گہرے نقوش چھوڑتا ہے ۔بعض اوقات تو عورت ڈپریشن کے اس لیول تک پہنچ جاتی ہے کہ اپنی یا بچے کی جان تک لے لیتی ہے ۔

 

اس عرصے کے ڈپریشن کو پوسٹ پارٹم ڈپریشن کہا جاتا ہے ۔یہ ٹاپک جتنا حساس ہے اس پر بہت لمبی بات ہونی چاہیے لیکن فی الحال میں اپنے پرخلوص معاشرے کو صرف یہ پیغام دینا چاہتی ہوں کہ جب تمھارے گھر میں کوئی بہن بیٹی بہو ماں بن جائے تو خدا آرا اسکی استاد مت بن جانا بلکہ بحیثیت انسان اسکا بازو بنو ۔اسکی مدد کرو ۔۔بچہ شہر خوار ہے ساری رات ماں کو سونے نہیں دیتا تم دن میں آ کر ایک ماں کو چند لمحے آ رام دو بچے کی خبر گیری کرو ۔جب بچہ چلنے پھرنے اور بولنے کی عمر کو پہنچے تو اپنی طرف سے بچے کو کوئی مثبت  عادت کوئی اچھی بات سکھاؤ جو خود تمھارے لیے صدقہ جاریہ بن جائے ۔ لیکن اگر تم ایسا کچھ نہیں کرسکتے تو خدا کے واسطے چپ رہو مداخلت نہ کرو وین میں بیٹھے وہ مسافر مت بنو جو ڈرائیور کو ڈرائیونگ سکھائیں ۔۔کیونکہ تمھارا یہ قدم خود تمھارا قد تو چھوٹا کرے گی ہی ساتھ ہی ان خوابوں کو بھی چکنا چور کرےگی جو ایک ماں نے اپنی اولاد کی تربیت کے لیے دیکھ رکھے تھے ۔کیونکہ میں نے اپنی گنہگار آ نکھوں سے ایسا معاشرہ دیکھا ہے جہاں ایک ماں کا بازو کوئی نہیں بنتا ۔لیکن وقت پڑنے پر اسے بلیم کرنے کے لیے سارے کردار سامنے آ جاتے ہیں۔

 

ہم مشرق کے خاندانی نظام پر فخر اسلیے کرتے تھے کہ یہ بچہ کو مہذب سوشل دیندار بناتا ہے اخلاق سنوارتا ہے مگر آج کا خاندانی نظام جو بچے کی بالوں سے لیکر جراب تک کپڑوں سے لیکر کھانے تک تو کیڑے نکال لیتی ہے ۔جو سوائے بچے کو احساس محرومی ،ضد اور بد تمیزی کے اور کچھ نہیں سکھاتی ہے اور میرے نزدیک ایسے سسٹم میں رہ کر ایک عورت جب ماں بنتی ہے تو چھ ماہ تو کیا ساری عمر اس پوسٹ پارٹم ڈپریشن سے نہیں نکل پاتی۔۔ اسلیے معزز نپولین جو معاشرہ ایک ماں کو نفسیاتی مریض بنائے وہ تمھیں بہترین قوم کبھی نہیں دے سکتی اس لیے اگر دوسری جنم ممکن ہے  تو آ ؤ  اس جملے کی تصیح کرو یا ایک بہترین ماں کی معنی کیا تھا اپنے معاشرے پر اس بات کو واضح کرو ۔یا  خدارا کوئی ایسا جملہ ایجاد کرنا جو  تمھاری قوم سے ایک ماں کے حقوق کی تحفظ کراسکے  کیونکہ اگر بچے کی درسگاہ واقعی ماں کی گود ہے تو اس گود کا ذہنی صحت کا  ٹھیک ہونا ازحد ضروری ہے ۔۔۔۔

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
87677

موسم بہار یا موسم آزمائش ۔ میر سیما آ مان

موسم بہار یا موسم آزمائش ۔ میر سیما آ مان

مارچ اپریل کا مہینہ پورے ملک سمیت چترال میں بھی بہار کا موسم تصور کیا جاتا ہے ۔چار ماہ کی اعصاب کو منجمد کرنے والی سردیوں کے بعد بہار کا پیغام لاکھوں تھکے ہوئے آعصاب کو اس خیال سے سکون دیتا ہے کہ چلو اب سردی کی لہر میں کمی آ ئیگی نامناسب موسم کے باعث رکے ہوئے روزگار دوبارہ بحال ہونگے ۔شجر کاری کا آ غا ز ہوگا گھر کے برآمدوں میں نت نئے پھول أگیں گے۔بہار کے فیسٹولز ماحول کو رونق بخشیں گے ۔ برف کی طرح منجمد تھکے ہوئے آعصاب کو تھوڑی راحت دیں گے۔لیکن یہ کیا بہار کی آمد تو پچھلے دو سالوں سے پورے ملک کے لیے بالعموم اور چترال جیسے علاقوں کے لیے بالخصوص موسم آ ذمائش بنتا آ رہا ہے ۔اس بار کی بارشوں اور بے وقت کی برف باری نے غریبوں بے بسوں مجبوروں کچے مکانات تو ایک طرف محلوں کا بھی نقشہ بگاڑ دیا ہے ۔

 

قصہ مختصر یہ کہ ایک شخص جسکے پاس مال و دولت ہو وہ اپنی زندگی میں سہولت کی ہر چیز خرید لیتا ہے حتیٰ کے مرنے پر اپنے پیچھے کروڑوں کی میراث چھوڑ جاتا ہے لیکن اسی ایک شخص کی جب اللہ صحت چھین لیتا ہے تو وہ اربوں کی مالیت کی جائداد بیچ کر بھی اپنے لیے نہ صحت خرید سکتا ہے نہ ہی اپنی موت روک پاتا ہے ۔ بلکل یہی صورتحال اسوقت ہماری ہے ۔ وقت نے تھوڑی ہی صحیح لیکن ترقی کی ہے۔اج ہمارے پاس ہر طرح کی مشینری موجود ہے ہمارا ایڈمنسٹر یشین سسٹم بہت بہتر ہوچکا ہے ۔ برف پڑے ملبے گریں بجلی چلی جائے ۔۔۔انتظامیہ چند گھنٹوں کے اندر روڈز کلیئر کروادیتی ہے ۔ملبے ہٹادیے جاتے ہیں ۔بجلی بحال ہو جاتی ہے ۔چند سالوں پہلے کی طرح نہ کہیں کہیں دن شب دیجور میں رہنا پڑتا ہے نہ کہیں کہیں مہینے دوسرے اظلاع سے کٹ آ ف رہنا پڑتا ہے ۔نہ اشیاء خوردونوش کی کوئی قلت ہوتی ہے حتیٰ کہ جن کو مالی نقصانات کا سامنا ہو وہ بھی بھر دیے جاتے ہیں لیکن اسکے باوجود ہمارے پاس ایسا کوئی بھی سسٹم نہیں ہے جو قدرتی آ فات کو روک سکے ۔

 

نہ ہی ایسا کوئی سسٹم کبھی بن سکتا ہے جو ہمیں کسی بھی طرح قدرتی آ فات سے بچا سکے ۔تو میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی ہوں کہ آ خر کیا وجہ ہے کہ موسم بہار آزمائش بنتا جارہا ہے تو موسم گرما موسم سیلاب بن کے ڈراتا ہے خزاں جب آتا ہے تو بے وقت کی باریشیں کھڑی فصلوں کو تباہ کر کے ہماری تدبیروں پر قہقہے لگاتا ہے ۔۔ شائد وہ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی گریبانوں پر جھانک بھی لیں اور تسلیم بھی کر لیں کہ ہم سے غلطی کہاں پر ہوئی ہے اور اسکا تدراک کیا ہے یا اسکا خمیازہ بھگتنے کا ہم میں کتنا دم ہے ۔ انتہائی مختصراً میں صرف اتنا کہوں گی کہ جب ہماری زبانوں پر لا الہ الااللہ ہو دلوں میں بغض رشتوں میں منافقت ،مذہب میں ریا کاری اور جھوٹ ہمارا اوڑھنا بچھونا ہو جائے تو ہمیں بے وقت کی آ ذمائشوں کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے ۔ بے شک اکیسویں صدی کا باسی ہونے کے باعث قدرتی آ فات کو نیچرل سورسز کی کاروائی بھی سمجھا جائے لیکن بحیثیت مسلمان اگر کہ ہم مسلمان ہیں تو اس بات کو قطعی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ قدرتی آ فات اس بات کی یاد دہانی کے لیے بھی آ تی ہیں کہ ایک ذات ایسی ہے جو ہر چیز پر قادر ہے ۔

 

کیونکہ خود اللہ کا فرمان ہے کہ والذین یمکرون الیست لھم عذاب الشدید یعننی جو لوگ بری چالوں میں لگے رہتے ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے ۔۔ اسلئے ہمیں اپنے اعمال کی پردہ پوشی کے بجائے انھیں تسلیم کرنا ہوگا اگر مسلمان ہیں تو اپنی طرز زندگی کو واقعی اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے اور مجھے یہ کہنے اور لکھنے میں کوئی جھجک نہیں کہ اسوقت ہمارے درمیان کوئی بھی صاحب ایمان نہیں ہے ہم میں سے کسی کا بھی قبلہ درست نہیں ہے کسی کی بھی زندگی حقیقی معنوں میں اسلامی اصولوں کے مطابق نہیں ہے ۔ ہم سب صرف نام کے مسلمان ہیں جنکی تعریف میں اوپر کر چکی ہوں ۔ بقول اقبال ۔
خرد نے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل ۔۔۔دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں ۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
87593

گروہ بندی – از کلثوم رضا

گروہ بندی – از کلثوم رضا

 

اپنا خاندان ،اپنی برادری اور اپنی قومیت میری طرح تقریباً سبھی کو عزیز ہوتے ہیں۔۔۔ ہونے بھی چاہییں کیونکہ طرز تکلم سے لیکر رہن سہن تک ایک دوسرے سے مطابقت جو رکھتے ہیں لیکن ایسی بھی کیا کہ کسی دوسری برادری کا ایک شریف انسان بھی اپنی برادری کے ادنیٰ اخلاق والے کے آگے کمتر لگے ۔۔ حالانکہ الله تعالیٰ نے تو تقویٰ کی بنیاد پر انسان کی پرکھ کو ترجیح دی ہے۔ اور ہم نے یکسر الگ انداز اپنائے ہوئے ہیں۔ امیروں کے ٹولے الگ، غریبوں کے الگ۔ قبیلے والوں کے الگ ،ہم زبانوں کے الگ۔۔۔۔
میرے نبی کا فرمان ہے کہ “مسلمان مسلمان کا بھائی ہے”۔ اسے بھی نظر انداز کر کے ہم لوگوں کو ذات سے دیکھنے لگے ہیں۔ اس پر غور کریں تو ذات کے حساب سے بھی سبھی آدم زاد ہی تو ہیں جو چیز لوگوں کو ایک دوسرے سے ممتاز کرتی ہے وہ اس کا اخلاق ہے ۔اس کا تقویٰ ہے ۔۔

 

الله تعالیٰ اپنے قرآن مجید میں اس گروہ بندی کی تعریف کچھ یوں کرتے ہیں کہ

و یوم تقوم الساعتہ یومئذ یتفرقون۔
جس روز وہ ساعت برپا ہو گی اس دن (سب انسان) الگ الگ گروہوں میں بٹ جائیں گے۔۔
(سورہ الروم ایت نمبر 14)

 

اور اس کی تفسیر مولانا مودودی رحمہ الله علیہ نے تفہیم القرآن جلد نمبر سوم اور صحفہ نمبر 738 میں یوں بیان کی ہے کہ۔۔

“یعنی دنیا کی وہ تمام گروہ بندیاں جو آج قوم ،نسل، وطن، زبان، قبیلہ اور برادری ،اور معاشی اور سیاسی مفادات کی بنیاد پر بنی ہوئی ہیں ،اس روز ٹوٹ جائیں گی، اور خالص عقیدے اور اخلاق کی بنیاد پر نئے سرے سےایک دوسری گروہ بندی ہوگی۔ ایک طرف نوع انسانی کی تمام اگلی پچھلی قوموں میں سے مومن و صالح انسان الگ چھانٹ لیے جائیں گے اور ان سب کا ایک گروہ ہو گا۔ دوسری طرف ایک ایک قسم کے گمراہانہ نظریات و عقائد رکھنے والے ،اور ایک قسم کے جرائم پیشہ لوگ اس عظیم الشان انسانی بھیڑ میں سے چھانٹ چھانٹ کر الگ نکال لیے جائیں گے اور ان کے الگ الگ گروہ بن جائیں گے دوسرے الفاظ میں یوں سمجھنا چاہیے کہ اسلام جس چیز کو اس دنیا میں تفریق اور اجتماع کی حقیقی بنیاد قرار دیتا ہے اور جسے جاہلیت کے پرستار یہاں ماننے سے انکار کرتے ہیں ، آخرت میں اسی بنیاد پر تفریق بھی ہوگی اور اجتماع بھی۔

اسلام کہتا ہے کہ انسانوں کو کاٹنے اور جوڑنے والی اصل چیز عقیدہ اور اخلاق ہے۔ایمان لانے والے اور خدائی ہدایت پر نظام زندگی کی بنیاد رکھنے والے ایک امت ہیں ،خواہ وہ دنیا کے کسی گوشے سے تعلق رکھتے ہوں، اور کفر و فسق کی راہ اختیار کرنے والے ایک دوسری امت ہیں، خواہ ان کا تعلق کسی نسل و وطن سے ہو۔ ان دونوں کی قومیت ایک نہیں ہو سکتی۔ یہ نہ دنیا میں ایک مشترک راہ زندگی بنا کر ایک ساتھ چل سکتے ہیں اور نہ آخرت میں ان کا انجام ایک ہو سکتا ہے۔ دنیا سے آخرت تک ان کی راہ اور منزل ایک دوسرے سے الگ ہے۔ جاہلیت کے پرستار اس کے برعکس ہر زمانے میں اصرار کرتے رہے ہیں اور آج اس بات پر مصر ہیں کہ گروہ بندی نسل اور وطن اور زبان کی بنیادوں پر ہونی چاہیے ،ان بنیادوں کے لحاظ سے جو لوگ مشترک ہوں ،انہیں بلا لحاظ مذہب و عقیدہ ایک قوم بن کر دوسری ایسی ہی قوموں کے مقابلے میں متحد ہونا چاہیے۔ اور اس قومیت کا ایک ایسا نظام زندگی ہونا چاہیے جس میں توحید اور شرک اور دہریت کے معتقدین سب ایک ساتھ مل کر چل سکیں ۔یہی تخیل ابو جہل اور ابو لہب اور سردارانِ قریش کا تھا، جب وہ بار بار محمد صلی الله علیہ وسلم پر الزام رکھتے تھے کہ اس شخص نے آ کر ہماری قوم میں تفرقہ ڈال دیا ہے۔ اسی پر قرآن مجید یہاں متنبہ کر رہا ہے کہ تمہاری یہ تمام جتھ بندیاں جو تم نے اس دنیا میں غلط بنیادوں پر کر رکھی ہیں آخر کار ٹوٹ جانے والی ہیں اور نوع انسانی میں مستقل تفریق اسی عقیدے اور نظریہِ حیات اور اخلاق وکردار پر ہونے والی ہے۔۔ جس پر اسلام دنیا کی اس زندگی میں کرنا چاہتا ہے۔ جن لوگوں کی منزل ایک نہیں ہے، ان کی راہ زندگی آخر کیسے ایک ہو سکتی ہے”؟
تو کیوں نہ ہم اپنے ہم ذات ، ہم نسل اور ہم منصب کے بجائے ہم خیال اور ہم عقیدوں کو ترجیح دیں تاکہ منزل تک پہنچنے کے لیے آسانی رہے۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامین
87194

خواتین کو با شعور اور با اختیار بنانے میں الکریم ویلفیئرسوسا ئٹی بونی کا کردار: آمِنہ نگار بونی اپر چترال

Posted on

خواتین کو با شعور اور با اختیار بنانے میں الکریم ویلفیئرسوسا ئٹی بونی کا کردار: آمِنہ نگار بونی اپر چترال

الکریم ویلفیئر سوسائٹی بونی (AKWS) ایک سول سوسائٹی ہے جسے گاؤں کے نوجوانوں نے مارچ، 1988میں احسان الحق جان کی قیادت میں قائم کیا تھا اور یہ باضابطہ طور پر 1993 میں سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ خیبر پختو نخوا کے ساتھ رجسٹرڈ ہوئی۔ یہ تنظیم اس وقت بنائی گئی تھی جب گاؤں کے نوجوانوں کو تیزی سے بدلتے زمانے کیلیے تیار کرنے کے لیے ایسے جدید پلیٹ فارمز کا کوئی تصّور نہیں تھا۔ اس لیے اس تنطیم کے ابندائی ادوار میں اس کے بنانے والوں کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس سے منسلک لوگ سعیِ پیہم کرتے رہے اور اسے کامیابی سے ہمکنار کیا۔اس کی دیکھا دیکھی دوسری تنطیم بھی بنتی رہیں اور اب چترال بھر میں ایسی بے شمار تنطیم موجود ہیں جو کہ نوجوانوں کی فلاح و بہبود کیلیے سرگرم عمل ہیں۔ مزید بر آں، یہ وہ واحد تنطیم تھی جس نے اس زمانے میں خواتین کو نہ صرف ممبر شب دی بلکہ ان کو اس تنطیم میں لیڈر شب رول بھی دیا تاکہ خواتین بھی وقت کے تقاضوں کے مطابق آپنے آپ کو تیار کرسکیں۔ لہذا امید ہے کہ آنے والے سالوں میں دوسری تنظیمیں بھی خواتین کو با شعور اور با ا ختیار بنانے کے لیے ایسے ہی مواقع فراہم کریں گے جو AKWS فراہم کر کر رہا ہے۔ الکریم ویلفیئر سوسائٹی (AKWS) کے و ژن اور مشن سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ شخصی، سماجی، معاشی و معاشرتی ترقی خواتین کو با اعتماد اور با اختیار بنانے سے مشروط ہے۔ اس لیے یہ تنطیم عورتوں کو عملیطورپربااختیاربنانے کے لیے ان کو مواقع فراہم کرتی ہے تاکہ وہ داپنے علم اور ہنر دونوں کو فروغ دیں اور ان کی مدد سے اپنے لیے ذریعہ معاش پیدا کریں۔ اور معاشرے کی سماجی اور معاشی ترقی میں اپنا حصّہ ڈال سکیں۔

خواتین کو با شعور اور با اختیار بنانے کے لیے الکریم ویلفیر سوسائٹی ہر دور کی ضرورت کے مطابق ان کی مدد کرتی آئی ہے۔ تنظیم کے ابتدائی ادوار میں خواتین کو اس لیے ممبرشب دی گئی تھی تاکہ وہ اپنے لیڈرشب کی مہارتوں کو بہتر بنا سکیں اور پروگرام کے لیے پلاننگ کرتے وقت فیصلہ سازی میں حصّہ لے سکیں۔ اس کے بعد ہر دور کے تقاضوں کے مطابق خواتین کی مدد کی گئی اور منصوبہ بندی اور فیصلہ سازی میں ان کی نمائندگی بڑھا دی گئی۔ چونکہ تنطیم کا بنیادی مقصد نسلِ نو کو ایسی سرگرمیوں میں شامل کرنا ہے جو ان کے لیے مفید ہو ں اور وہ ان کو بروئے کار لا کر اپنی زندگی بہتر بنا سکیں۔ اس لیے بدلتے ہوئے حالات اور ضروریات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے تنظیم نے پچھلے سال(USIP) United State Institute of Peace کے تعاون سے جدید معاونات سے بھر پور ریسورس سینٹر کا قیام عمل میں لایا ہے جو نوجوانوں کی Technical and Soft Skills کو فروغ دے کر ان کو بر سر روزگار بنانے میں کو شاں ہے۔جس کے نتیجے میں ایک سال سے کم عرصے میں106 نوجوانوں کو ڈیجیٹل اسکیل (freelancing, website development,Digital marketing, graphic Design etc) میں ٹریننگ دی گئی اور جن میں سے 54 خواتین شامل تھیں۔ اور اس طرح 302 نو جوانوں کو Soft Skill ( Critical thinking, leadership skills, presentation skills etc.) میں ٹریننگ دی گئی جن میں سے 158 خواتین شا مل تھیں۔ ان خواتین میں سے پانچ خواتین کورس کے مکمل ہونے کے بعد اپنے لیے ذریعہ معاش پیدا کرکے مختلف شعبوں میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔
مزید بر اں، الکریم ویلفئر سو سائٹی کی خواتین کی ایک الگ پلیٹ فارم ( AWS Women Wing) کے نام سے مصروف عمل ہے جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین کے ساتھ ساتھ نوجوان طلبہ کی بھی ممبر شب ہے۔ یہ پلیٹ فارم تنطیم کی مدد سے خواتین کو با شعور اور با اختیار بنانے کے لیے مختلف قسم کے مواقع مہیا کرتا ہے۔ پچھلے سا ل اس پلیٹ فارم کے ذریعے بچیوں اور ان کے والدین کے لیے مقامی کھیلوں کا مقابلہ کروایا گیا تھا۔ جس میں بڑی تعداد میں بچیاں اور ان کی مائیں شرکت کیں جو کہ عوامی حلقوں میں سراہا گیا۔

 

اسی طرح اس سالUSIP کے تعاون سے خواتین ڈے کو بڑے جوش و خروش کے ساتھ منا یا گیا اور اس پروگرام میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کے علاوہ بڑی تعداد میں طلبہ نے بھی حصہ لیا ۔ جہاں نوجواں طبقینے مختلف سرگرمیوں سے مثبت پیغام حاصل کیا وہاں وہ برابر لطف اندوز بھی ہوتے رہے۔

 

یہ سسلسہ اب بھی جاری ہے اور اس عید کے فوراً بعد الکریم ویلفئر سوسائٹی کے ویمن ونگ USIP کے تعاون سے بونی کے مختلف کاروبار کرنے والی خواتین کے لیے ایک رنگا رنگ نمائش کی منصوبہ بندی کی ہے جس میں بونی کی کاروبار کرنے والی خواتین اپنی بنائی گئی چیزوں کے اسٹال لگائیں گے۔اس اسٹال میں، لوکل قالین اور رضائی، لوکل جیو لیرز، دستکاری، مختلف ڈیزائن کے کپڑے، مختلف قسم کے کھانے، مقامی کھانے اور دوسری مقامی چیزیں شامل ہوں گی۔ اس نمائش سے خواتین کو آمدنی میں فائدے کے ساتھ ساتھ ان کی دوسرے کاروباری خواتین سے نیٹ ورکنگ بھی ہو گی جو کہ مستقبل میں ان کے لیے فائدہ مند ہو گا۔

 

خواتین کو با شعور اور با اختیار بنانے کے لیے الکریم ویلفئر سوسا ئٹی کی کو ششیں جاری ہیں اور انشا اللہ مستقبل میں خواتین کو اور بھی ایسے مواقع ملیں گے جو ان کو جدید دور کے تقاضوں اور ضرورتوں کے مطابق تیار کریں گے۔

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامین
87152

جہنم میں خواتین کی تعداد زیادہ مگر کیوں؟؟ – گل عدن چترال

Posted on

جہنم میں خواتین کی تعداد زیادہ مگر کیوں؟؟ – گل عدن چترال

جہنم میں عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہو گی مگر کیوں؟اگر یہ سوال ہم آجکل کی مولوی حضرات سے پوچھیں تو انکا جواب عورت کے جسم کے پردے سے شروع ہو کر پردے پر ہی ختم ہوجائیگی جبکہ روایات میں آتا ہے کہ بہت سی عورتیں جو صوم و صلوات اور پردے کی پابند ہوں گی وہ بھی جہنم میں جائیں گی کیونکہ انکا “اخلاق ” اچھا نہیں ہوگا۔پردہ مسلمان عورت کے لئے ایک اہم ترین حکم ہے لیکن اخلاق میں جو چیزیں شامل ہیں انکے بغیر دین نامکمل ہے۔ اخلاق یعنی زبان کا نرم ہونا،الفاظ اور لہجے کا مہذب ہونا،با ادب ہونا،احترام شائستگی ،گالم گلوچ اور لغویات سے پاک زبان،ایک دوسرے کا مذاق نہ اڑانا،ایک دوسرے کو برےنام سے نہ پکارنا،طعنہ نہ دینا،احسان نہ جتانا،دل آزاری سے بچنا،جھوٹ نہ بولنا،تہمت نہ لگانا،چغل خوری ،غیبت سے بچنا اور زمین پر اکڑ کر نہ چلنا اور بہت سی چیزیں اخلاق میں شامل ہیں۔۔۔۔ جو دیندار مرد اور عورت کی دین کو مکمل کرتی ہیں۔

 

معراج کے واقعہ میں ہم خواتین کے لئے سب سے اہم واقعہ جو تھا حضرت عمر فاروق رضی اللہ سے روایت ہے کہ “رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی ایک جماعت سے خطاب فرمایا ‘کہ اے عورتوں کی جماعت!تم صدقہ دو اور استغفار کیا کرو کیونکہ میں نے دیکھا کہ جہنم میں زیادہ تعداد میں عورتیں ہیں۔”جب وجہ پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” کیونکہ وہ لعن طعن بہت کرتی ہیں اور خاوند کی ناشکری کرتی ہیں ۔”ایک اور روایت میں یہ وجہ بھی شامل ہے کہ عورتیں ایک دوسرے کی “ٹوہ” میں زیادہ لگی رہتی ہیں۔۔ خیر یہ تینوں وجوہات اور اسکے علاوہ بھی چند ایک باتیں ہم تمام خواتین میں بالکل عام اور سو فیصد موجود ہیں۔ہر دوسری نہیں بلکہ ہر ایک عورت شوہر کی ناشکری کھبی نہ کھبی کہیں نہ کہیں ضرور کرتی ہے اور خود کو حق بجانب سمجھ کر کرتی ہے شاید یہیں مات کھاتی ہے ۔”لعن طعن “ہر ایک عورت نہیں کرتی،مگر ہر دوسری عورت عادتا کرتی ہے۔اور تیسری چیز ایک دوسرے کی ‘ٹوہ’ میں رہنا۔بلکل ہم عورتوں کی اکثریت پوری زندگی دوسروں کی ٹوہ میں رہ کر گزر جاتی ہے اور ہمیں کھبی احساس نہیں ہوتا کہ ہم اپنا قیمتی ترین وقت دوسروں کی برائیاں اور کمزوریاں ڈھونڈنے میں صرف کرچکے ہیں۔بڑی مصروف ہستیاں ہیں ہم عورتیں ہر وقت ہر دم مصروف۔شادی میں گئے تو کھانے میں نقص نکالا،بری اور جہیز میں عیب ڈھونڈے،انتظامات میں کمی بیشی ڈھونڈنا ۔۔میت پر گئے تو جانے والے کے پینشن، بینک بیلنس،ذمین جائیداد کی معلومات اکٹھی کرلیں’ سوگواروں کے چہرے پر آنسوؤں کی کھوج،کچھ نہ ملے تو گھر کے کونے کھدروں میں گندگی کی تلاش،وہ بھی نہ ملے تو میت کی چہرے پر نور کی تلاش۔۔تلاش ہی تلاش ۔کھوج ہی کھوج۔۔۔ استغفراللہ۔۔۔۔!!

 

اسی طرح چھوٹے موٹے جھوٹ ہماری نظر میں کسی حساب میں نہیں آتے لہذا اٹھتے بیٹھتے بلا وجہ بنا ضرورت ہمیں جھوٹ بولنے کا مرض لاحق ہوگیا ہے۔کسی کا فون جان بوجھ کر نہیں اٹھایا اور بعد میں بہانے کے غرض سے کہیں بلا وجہ جھوٹ بول دیے۔کسی شادی میں نہیں جانا چاہتے لیکن’ بہانہ’ بنان لازم ہوگیا ہے۔”جھوٹ “ہم عورتوں کی روز و شب کی اہم ضرورت بن چکی ہے۔اور ہمیں اسکی اتنی لت پڑ چکی ہے کے ہم انگلیوں پر گن نہیں سکتے کہ ہم نے صرف آج کتنے جھوٹ بولے۔حالانکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تو واضح حکم ہے کہ “جس نے مذاق میں بھی جھوٹ بولا وہ ہم میں سے نہیں ۔” تیسری چیز غیبت اور چغلی۔اس لت میں ہر دوسری تو نہیں مگر عورتوں کی اکثریت مبتلا ہے۔خاص طور پر وہ خواتین جنہیں فضول گوئی کی عادت ہو وہ جان ہی نہیں پاتی کہ باتوں باتوں میں وہ کتنی چغلی کتنا غیبت کر چکی ہیں۔اور جب آپ کسی کو متنبہ کرنا چاہیں بھی تو اکثر خواتین یہی کہتی ہیں کہ ہم تو بس گپ شپ کر رہے ہیں بات کر رہے ہیں اب ان معصوم عورتوں کو کون سمجھائے کہ یہ باتیں آپکو آگ میں جھونک سکتی ہیں۔اس کے علاوہ عورتوں میں جو گندی عادتیں بہت ذیادہ ہیں وہ انکی ضد ،خود پسندی اور مقابلہ بازی ہے۔ساس بہو تو ایسے ہی بدنام ہیں حقیقت یہ ہے کہ ہم عورتیں ایک چھت کے نیچے چاہے سگے رشتوں کے ساتھ رہیں ‘سسرالیوں کے ساتھ یا سوتیلے بہن بھائیوں کے ساتھ رہیں ۔۔۔اپنے ساتھ رہنے والی ہر دوسری عورت سے خود کو بہتر سمجھنا اور ثابت کرنا ہم خواتین کے دماغ کا ایک لا علاج مرض ہے۔خود پسندی کی وجہ سے غرور اور تکبر میں مبتلا ہوجانا عورت کی بد قسمتی کی انتہا ہے۔رشتوں ناطوں پر اپنی ضد کو فوقیت دے کر خالی ہاتھ رہ جانا ہم عورتوں کی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت اور الم ناک کہانی ہے۔ضد انسان کو نہ دین کا رہنے دیتا ہے نہ دنیا کا۔کیونکہ ضد جہالت سے شروع ہو کر فرعونیت پر ختم ہو جاتی ہے۔ضد رشتوں میں دراڑیں ڈالتی ہے اور دلوں میں نفرت پیدا کرتی ہے مگر عورت ناقص العقل ہونے کی وجہ سے اپنی ضدی ہونے پر بھی غرور کرتی ہے۔ایسے ہی بعض خواتین اتنی زیادہ خوبیوں کی مالک ہوتی ہیں۔انتہائی پاک،شریف النفس،رحمدل،خدمت گزار،وفا شعار اور نیک سیرت کہ انہیں دیکھ کر آپکو ان کی زندگی پر رشک آتا ہے اور انکے جنتی ہونے پر یقین آجاتا ہے۔لیکن عورت کی زبان کے شر،اسکی دل آزاریاں اسکی ضد،اسکا غرور و تکبر،اسکی ساری خوبیوں پر پانی پھیر سکتی ہے۔کیونکہ

 

جسطرح قطرہ قطرہ سمندر بن جاتا ہے ایسے ہی چھوٹے چھوٹے گناہ ہمیں جہنمی بنا سکتے ہیں۔ہمارا معاشرہ عورت کو مظلوم ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے عورت مظلوم تو ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ عورت نے خود اپنے آپ پر ظلم ڈھایا ہے۔اپنی چھوٹی چھوٹی بد عادات کی صورت میں۔اس تحریر میں ہم یہ مطالبہ تو نہیں کرسکتے کہ ضد چھوڑ دیں مقابلہ بازی ترک کر دیں۔لعنت ملامت نہ کریں مگر جہنم سے آزادی کے اس عشرہ میں اپنے کردار پر ایک نظر ڈال کر دل میں ہی صحیح ان عادات کو تسلیم کرکے معافی اور جہنم سے پناہ ضرور مانگیں اور جیسا کہ “رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ استغفار کرو اور صدقہ دو” یہ ہمارے لئے بہت بڑی آسانی ہے کہ ہم اپنی پختہ عادات کو نہیں چھوڑ پارہے تو کم از کم استغفار اور صدقات کی مقدار بڑھاتےجا یئں لہذا دل اور ظرف بڑا کرکے صدقہ کیا کریں جتنا زیادہ ہوسکے ۔اس تحریر کی توسط سے ایک گزارش ہر پڑھنے والے سے ہےاور وہ یہ کہ بیٹیوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دیں خاص طور پہ بیٹی کی دینی تربیت پر لازمی توجہ دیں۔ نپولین نے کہا تھا تم مجھے اچھی مائیں دے دو’میں تمہیں بہترین قوم دوں گا۔۔۔اس نے بلکل ٹھیک کہا تھا۔کیونکہ ایک عمارت کی بنیاد صحیح ہوگی تو پوری عمارت شاندار ہو گی۔بنیاد میں غلطی ہوئی تو عمارت ڈھے جائے گی۔اللہ ہم سب خواتین کو ہمارے آباؤ اجداد کو جہنم کی آگ سے بچائے ۔اور ہمیں نیک اعمال کی توفیق عطا۔آمین

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامین
87147

لیلۃ القدر- از کلثوم رضا

Posted on

لیلۃ القدر- از کلثوم رضا

اعوذباللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الھم اجعلنا من الذین امنو و عملو الصالحات و تواصو بالحق وتواصو بالصبر

 

اللہ تعالیٰ کا لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمیں رمضان کا تحفہ دیا اور اب خیر سے رمضان شریف اپنے آخری عشرے میں داخل ہو چکا ہے۔ ویسے تو پورا رمضان بڑی فضیلت والا ہے لیکن اس کا آخری عشرہ مزید فضلیت والا ہے۔

ایک حدیث کے مطابق کسی شخص کو رمضان کے آخری دس دن ملے وہ پھر بھی خود کو جہنم سے رہائی نہ دلا سکا، تو سب سے بڑا بد بخت ہے۔ بڑی محرومی ہے کہ اسے آخری عشرہ مل جائے اور وہ اپنی بخشش نہ کروا سکا۔

اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کو دیکھتے ہیں تو وہ ان آخری دس دنوں میں اپنی تہبند کس کر باندھتے اور عبادات کا زیادہ اہتمام کرتے ۔اعتکاف کرتے اور اپنی ازواج مطہرات کو بھی عبادت کے لیے جگاتے تھے۔ اب سوچنے کی بات ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آخری دنوں کو اتنی اہمیت کیوں دی؟
کیونکہ ان دس دنوں میں ایک رات ایسی ہے جو بہت خاص ہے۔

یعنی “لیلۃ القدر”اس سے پہلے کہ ہم لیلۃ القدر کی قدر قرآن کی روشنی میں دیکھیں اس کے بارے میں ایک ،دو باتوں پر بھی غور کرتے ہیں۔
ایک یہ کہ ہم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ لیلۃ القدر کونسی رات ہے؟ اس میں امت کے لیے بہت سے فائدے پوشیدہ ہیں ۔اس کو ایک چھوٹے سے واقعے سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ” سامنے ایک شخص جو سو رہا ہے اسے نماز کے لیے جگاؤ “.

تو علی رض نے اسے جگایا پھر آپ ص سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ص ہم نے عام طور پر آپ کو نیکی کا کام خود کرتے ہوئے ہی پایا ہے لیکن آج آپ نے اس شخص کو جگانے کے لیے مجھے کہا کیوں ؟ آپ ص نے فرمایا کہ اگر وہ تمہیں نماز کے لیے اٹھاتے ہوئے منع کرتا یا سستی دکھاتا تو وہ گنہگار نہ ہوتا لیکن اگر مجھے منع کرتا تو گنہگار ہوتا کیونکہ میں رسول ہوں”۔
یہ بھی اسی طرح ہے کہ اگر لیلۃ القدر کی صحیح رات کے بارے میں بتا دیا جاتا اور امت اس رات عبادات میں سستی دکھاتی تو گنہگار ہوتی۔

دوسری بڑی حکمت اس کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو یہ بتا رہے ہیں کہ تم پانچ کے پانچ رات (اگر طاق حساب سے لے لیں تو ) ورنہ دس کے دس دن (آخری عشرے کے حساب سے)
عبادت کرو اور اسے پاؤ ۔۔۔۔تو نہ بتانا کہ کونسی رات ہے؟ ہمارے لیے فائدہ ہی فائدہ ہے.. اللہ ایک کی جگہ سب راتوں میں ہمیں جگا رہا ہے ۔۔

اب لیلۃ القدر کی اہمیت و فضیلت قرآن کی روشنی میں لیتے ہیں ۔۔ اس کی اہمیت کے لیے یہ بھی کافی ہے کہ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ایک مکمل سورت “سورۃ القدر” نازل کی ہے۔۔۔ اور سورۃ “الدخان” میں بھی اس رات کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اور رسول اللہ ص نے بھی فرمایا ہے کہ جو شخص ایمان و احتساب کے ساتھ اس رات میں قیام کیا اللہ تعالیٰ اس کے سارے پچھلے گناہ معاف فرما دے گا۔ تو یہ بڑی سعادت ہے کہ آدمی اس رات قیام کرے ،نوافل پڑھے اور دعا مانگے۔ یہ سب بڑی فضیلت والی عبادات ییں۔

 

اب قدر کے معانی سمجھتے ہیں۔۔
🔻قدر کی ایک معنی ایسی چیز جس کی بہت زیادہ اہمیت ہو۔
🔻 قدر کا دوسرا معنی تقدیر ۔
🔻 قدر کا تیسرا معنی یہ بھی کہ بہت سی چیزیں ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہوں یعنی گنجائش سے بھی زیادہ ۔۔۔
🔻 قدر کا چوتھا معنی طاقتور بھی ہے۔۔۔

ان چاروں معانیوں کو سامنے رکھ کر سورۃ القدر کو ہم دیکھیں تو چاروں کے معانی صحیح سمجھ میں آ جائیں گے۔ ان شا اللہ

 

انا انزلنہ فی لیلتہ القدر وما ادراک ما لیۃ القدر ۔
ترجمہ:ہم نے اس قرآن کو نازل کیا لیۃ القدر میں۔۔ اور تم کیا جانو کہ لیلۃ القدر کیا ہے؟

اس کا مطلب ہے ۔”یہ رات اور اس کی فضیلتیں سارے قرآن کی وجہ سے ہیں۔ اور یہ رمضان اور اس کی ساری فضیلتیں صرف قرآن کی وجہ سے ہیں ۔ تو اپنا تعلق قرآن سے مضبوط کیجیے، قرآن کے ساتھ جڑ جائیے، ہر سال اس رات کا ملنا اس لیے ہے کہ اس رات میں ہمیں قرآن ملا ہے۔ سو قرآن کو اپنی زندگی میں اہمیت دیجئے ۔

اور یہ کہ “تم کیا جانو کہ یہ رات کیا ہے؟ مطلب یہ کہ ہم یعنی میں اور تم اس رات کی اہمیت کو جان ہی نہیں سکتے کہ یہ کیسی رات ہے ؟تو اللہ تعالیٰ آگے خود فرماتے ہیں کہ
“لیلتہ القدر خیر من الف شھر۔
یعنی لیلتہ القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔۔

اور اگر اس ہزار مہینوں کو ہم سالوں میں تبدیل کر دیں تو 83 سال بنتے ہیں۔ تو اس کا مطلب ہے یہ رات 83 سالوں سے بہتر ہے۔ اس بہتر کا آسان مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص نے 83 سال مسلسل عبادت کی، اور ایک شخص نے ایک رات میں عبادت کا حق ادا کیا تو یہ برابر ہو گئے۔ ذرا سوچیے امت مسلمہ کی عموماً عمر اسی 80 سال ہے تو کون ہے جو اسی 80 سال مسلسل عبادت کرتا ہے لیکن یہ رات اس کو اسی کی عبادات کا ثواب دلوا سکتی ہے۔

 

دوسرا مفہوم مفسرین نے اس کا یہ بتایا ہے کہ جیسے کچھ پودے ایک خاص موسم میں اگتے ہیں انہیں کسی دوسرے موسم میں اگانے کی کوشش کی جائے تو وہ کبھی نہیں اگیں گے۔ جیسے آم ہمیشہ گرمیوں میں ہی ہوتا ہے۔۔۔ اسی طرح اس رات کی عبادات کا کوئی اور متبادل نہیں ہے۔ اس رات میں کی جانے والی عبادت کے بارے میں ہم کہیں کہ پورے سال روزے رکھوں گی اور اگلے سارے سال تہجد پڑھوں گی تو بھی اس رات کے برابر نہیں ہوں گے۔

اس کی ایک تیسری تفسیر بھی مفسرین نے یوں بیان کی ہے اس کی معنی کو سمجھ لیجیے کہ لفظ بولا گیا ہے “خیر” یعنی بھلائی ہی بھلائی۔۔ اچھائی ہی اچھائی کے ہیں۔۔۔ “الف شھر” یہ الف شھر انسان کی کل زندگی ہے یعنی 83 سال ۔۔۔کسی شخص کو یہ رات مل گئی اور اس نے اس میں عبادت کی، دعائیں مانگی، اور اللہ کو راضی کیا ۔اس کی اگلی ساری زندگی چاہے وہ اسی سال، پچاس سال یا پچیس سال رہ گئی ہے وہ خیر سے بھر جائے گی ۔وہ اچھائی سے بھر جائے گی۔ وہ اللہ کی رحمتوں سے بھر جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اس رات کو طاقت ور کہا گیا ہے ۔چونکہ اس میں بدلنے کی طاقت ہے ۔ یہ ہمارے مستقبل کو، ہماری زندگی کو خیر سے بھر دے گی۔ اگر یہ ہمیں مل رہی ہے تو اللہ سے خیر مانگنی ہے اس رات میں۔۔۔

 

اگلا حصہ تنزل الملائکۃ و الروح فیھا باذن ربھم من کل امر ۔۔۔

یعنی اس رات فرشتے اترتے ہیں اپنے مہمان خصوصی جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ ۔۔۔ (قدر کی ایک معنی ہم نے لیا تھا کہ بہت سی چیزوں کا جمع ہونا) تو جو فرشتے اترتے ہیں وہ بھیڑ (congestion)کی صورت میں ہوتے ہیں ۔۔اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ ہر جانب بھر جاتے ہیں نور ہی نور ۔۔۔ آپ نماز میں کھڑے ہیں تو محسوس کیجیے کہ آپ کو فرشتے گھیرے ہوئے ہیں۔

اور اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ” من کل امر “ہر معاملہ میں۔ قدر کا ایک معنی ہم نے لیا تھا “تقدیر” وہ یہاں آپ کو سمجھ آ جائے گا کہ آپ کو کوئی بھی مسئلہ ،صحت، رزق یا کوئی بھی، کسی بھی قسم کا مسئلہ ہے تو یہ فرشتے آپ کی مدد کرنے آئے ہیں۔۔ آپ کی دعاؤں پر آمین کہنے آئے ہیں۔۔۔۔ اس سال جتنے بھی اہم کام ،اہم فیصلے ہونے ہیں ،کس نے مرنا ہے ،کس نے جینا ہے، کس کو کتنا رزق ملنا ہے، کس کے ساتھ کیا ہونا ہے؟ وہ تمام کام اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سپرد کر دیتے ہیں اور فرشتے انہیں کرنے میں لگ جاتے ہیں ۔سو فرشتوں کو اپنے ساتھ محسوس کیجئے ،جبریل ع کو اپنے ساتھ محسوس کیجئے کہ وہ آپ کی دعاؤں پر آمین کہنے آئے ہیں، آپ کے مسئلوں کو حل کرنے آئے ہیں۔ اپنے اللہ سے جو بھی مانگنا ہے مانگیے ۔۔۔

 

اور سب سے آخری حصہ ۔۔۔
“سلام ھی حتیٰ مطلع الفجر”۔۔۔
یعنی کہ یہ “سلامتی ہے صبح مطلع الفجر تک۔۔”

اس چھوٹے حصے کو بھی سمجھئے کہ یہ سلامتی ہی سلامتی ہے، امن ہی امن ہے، ایمان ہی ایمان ہے، سکون ہی سکون ہے۔۔ اور یہ سحری پہ ختم نہیں ہوتی بلکہ مطلع الفجر تک ،یعنی سورج جب نکلنا شروع کرتا ہے تب تک قائم رہتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے ہم پر۔۔۔ یہ رات شروع ہوتی ہے مغرب سے اور اس کی سلامتی رہتی ہے تب تک جب صبح کی روشنی پھیلنے لگتی ہے۔ یہ اللہ کا بہت بڑا احسان ہے ہم پر۔۔۔ لیکن اس میں اللہ تعالیٰ نے لفظ “سلام” استعمال کیا ہے ۔۔۔اسے آپ یوں سمجھیے جس طرح کلاس میں شور ہو رہا ہو اور ٹیچر کہے “سائلنٹ” اور سب چپ ہو جائیں ۔۔یا پھر کورٹ میں جج کہے آرڈر آرڈر اور سب چپ ہو جائیں ۔۔۔اسی طرح اللہ تعالیٰ کہتے ہیں” سلام” سلامتی میں آجاؤ ۔۔پر امن ہو جاؤ ۔۔اپنی لڑائی چھوڑ دو ۔۔اپنے دلوں سے نفرتوں کو ختم کرو۔۔۔غصہ ،کینہ چھوڑ دو۔۔ آپس میں بھی تم لوگ سلامتی میں آجاؤ ۔۔اور دین کے معاملے میں بھی سلامتی میں آجاؤ ۔۔

یہ اللہ کی طرف سے میرے اور اپ کے لیے آرڈر ہے۔۔ آپ کے دل میں کسی کے لیے کینہ یا بغض ہے تو نکال دیجیے۔۔۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ اس رات سب کی مغفرت فرما دیتا ہے سوائے اس شخص کے جس کے دل میں کسی کے لیے نفرت، بغض اور کینہ چھپا ہوا ہے۔۔۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو صاف کرے ۔۔ایسا نہ ہو کہ ہم ساری رات عبادت کریں اور صبح حقوق العباد میں ایسی کوتاہی کریں کہ ساری عبادات ضائع ہو جائیں۔یہی حقوق العباد میں کوتاہی ساری عبادات کو ضائع کر دیتی ہے۔

اور کہیں ایسا بھی نہ ہو کہ مغرب سے سحری تک ہم بازاروں میں گھومیں اور تھکاوٹ کی وجہ سے آخری عشرے کی عبادات سے محروم رہیں ۔۔۔ہمیں ان راتوں کی حفاظت کرنی ہے۔۔۔۔ ہمارے لیے یہ اہم نہیں کہ ہم اس رات کی نشانیاں ڈھونڈیں بلکہ اہم یہ ہے کہ راتوں کو اٹھیں اور عبادات کریں ۔۔دعا مانگیں۔۔۔ اپنی گناہوں کو بخشوائیں۔۔۔
تو وعدہ کریں ان راتوں کو کھڑے ہونا ہے ایمان و احتساب کے ساتھ ۔۔۔۔ اس ایمان و یقین کے ساتھ کہ یہ رات میرے لیے سلامتی کی رات ہے۔۔۔ اور اپنے کیے ہر چھوٹے بڑے گناہوں کو یاد کر کر کے معافی مانگنا ہے۔۔۔ اور معاف بھی کروانا ہے۔۔۔

تو دعا کیجیئے اپنے لیے، اپنے سے جڑے ہر رشتے کے لیے اور ساتھ میرے لیے بھی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس رات کی حفاظت کرنے اور اس کو پانے کی توفیق دے ۔۔۔الھم عفو فاعف عنا۔۔۔ آمین۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
87038

“مجاہدہ اور رمضان ” – از کلثوم رضا

“مجاہدہ اور رمضان ” – از کلثوم رضا

 

ایک جہاد جو غزوہ بدر کے نام سے مشہور ہے ۔۔رمضان کا مہینہ تھا۔۔۔بھوک اور پیاس اہل ایمان کے جذبہ جہاد کو کمزور نہ کر سکے اور صرف 313 مجاہدین ہزاروں کی تعداد کے خلاف نکل پڑے اور غالب رہے۔۔۔

 

ایک جہاد جو ابھی چل رہا ہے غزہ میں۔۔۔ جہاں اہل غزہ 57 اسلامی ممالک کی خاموشی کے سائے میں 313 کے لشکر کی مانند تن تنہا بے سازو سامان روزے کی حالتوں میں اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے ایمان کی آزمائش پر پورا اترتے ہوئے جوق در جوق جنتوں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔۔۔بعید نہیں اس لشکر کو بھی اللہ تعالیٰ 313 کی مانند فاتح قرار دے دیں۔۔۔

 

اور ایک جہاد جس کی طرف کل جامعہ میں درس قران کے بعد شرکاء میں سےایک بہن نے وقت مانگ کر چند سوالات شرکاء کے سامنے رکھ کر دلا دی۔۔کہ ہمارے رمضان کے پندرہ روزے مکمل ہوئے ۔ہم نے اپنی نمازوں کی بھی پابندی کی، درس قران کی کلاس سے بھی غیر حاضر نہیں ریے لیکن کیا اس کے ساتھ ہم نے اپنے روزوں کی حفاظت اس طرح کی جو اس کا حق یے؟
کیا ہم نے اپنی سوچوں،اپنی زبان ،اپنے ہاتھوں ،اپنے پیروں اور آنکھوں کو بھی روزے سے رکھا؟ یا ایسے ہی فاقے سے اپنے دن گزار رہے ہیں۔۔؟

سوالات بڑے دلچسپ اور غور طلب تھے۔۔۔

ساتھ اس نے یہ بھی کہا کہ میں کوئی عالمہ،حافظہ یا مدرسہ نہیں ایک ان پڑھ خاتون ہوں ،صرف سات پارہ ناظرہ پڑھا ہے۔۔ یہ اس محفل کی برکت ہے کہ مجھے سوچنا پڑا کہ شیطان ہمیں نفس کے تابع رہنے پر آمادہ کرتا ہے ۔ہمیں اس کے خلاف جہاد کرنا ہے۔۔ تبھی ہم اپنے روزوں کی حفاظت کر سکیں گے،اور رمضان کی برکات سمیٹیں گے۔

 

یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ شرکاء صرف سننے کی نہیں غور و فکر اور عمل کرنے کے لیے بھی جدو جہد کر رہی ہیں ۔۔۔اور یہ جدو جہد یقیناً ان ہی کے بھلے کے لیے ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ
ومن جاھد فانما یجاھد لنفسه ان الله لغنی عن العالمین ۔
ترجمہ: جو شخص بھی مجاہدہ کرے گا اپنے ہی بھلے کے لیے کرے گا،اللہ تعالیٰ یقیناً دنیا جہاں والوں سے بے نیاز ہے۔
(سورہ العنکبوت ایت نمبر 6)

 

“مجاہدہ” کے معنی کسی مخالف طاقت کے مقابلے میں کشمکشِ اور جدوجہد کرنے کے ہیں۔اور کسی خاص مخالف طاقت کی نشاندہی کیے بغیر اس کے معنی ہمہ گیر اور کل جہتی کشمکش ہے۔ مومن کی اس کشمکش کی نوعیت اس دنیا میں یہی ہے کہ اسے شیطان سے بھی لڑنا ہے جو اس کو ہر وقت نیکی کے نقصانات سے ڈراتا اور بدی کے فائدوں اور لذتوں کی لالچ دلاتا رہتا ہے۔اور اسے اپنے نفس سے بھی لڑنا پڑتا ہے جو اسے اپنی خواہشات کی پیروی پر اکساتا رہتا ہے۔یہاں تک کہ اپنے گھر سے لیکر آفاق تک کے تمام انسانوں سے بھی لڑنا پڑتا ہے جن کے نظریات ،رجحانات ،اصول اخلاق ،رسم ورواج،طرز تمدن،اور قوانین معیشت و معاشرت دین حق سے ٹکراتے ہوں۔اور ہاں اس ریاست سے بھی لڑنا پڑتا ہے جو خدا کی فرمانبرداری کے بجائے ملک میں اپنا فرمان چلائے ۔اپنی طاقت نیکی کے بجائے بدی کی فروغ میں استعمال کرے۔۔۔یہ “مجاہدہ” اسے ایک دو دن نہیں عمر بھر یعنی دن کے چوبیس گھنٹوں میں ہر لمحے ہے ۔اور کسی ایک میدان میں نہیں زندگی کے ہر پہلو میں ہر محاذ پر کرنا ہے۔اس کے متعلق حضرت حسن بصری رح کا قول مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ تفہیم القرآن میں کہتے ہیں کہ ان الرجل لیجاھد وما ضرب یوما من الدھر بسیف۔
“ادمی جہاد کرتا ہے خواہ کبھی ایک دفعہ بھی وہ تلوار نہ چلائے۔”

 

اس مجاہدے کا مطالبہ اللہ تعالیٰ انسان سے اس لیے نہیں چاہتا کہ انھیں اپنی خدائی قائم کرنے اور رکھنے کے لیے اسے اس کی مدد کی ضرورت ہے بلکہ یہی کشمکش اور جدوجہد انسان ہی کے لیے ترقی کا راستہ ہے ۔اسی ذریعے سے یہ بدی اور گمراہی کے چکر سے نکل کر نیکی اور صداقت کی راہ پر بڑھ سکتا ہے۔اسی سے انسان میں یہ طاقت پیدا ہو سکتی ہے کہ دنیا میں خیر و صلاح کے علم بردار اور آخرت میں جنت کے حق دار بن سکیں ۔یہ لڑائی لڑ کر انسان اللہ پر کوئی احسان نہیں کرتا بلکہ اپنا ہی بھلا کرتا ہے۔#

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامین
86921

استقبال رمضان – از: کلثوم رضا

Posted on

استقبال رمضان – از: کلثوم رضا

 

سویرے سویرے ایک روزگار سکیم کے حوالے سے الخدمت فاؤنڈیشن ویمن ونگ ضلع مالاکنڈ کی صدر بہن کا فون آیا۔ضروری کام کے علاوہ خیر وعافیت پوچھنے پر بتایا کہ سوات میں بعض لوگوں نے آج روزہ رکھ لیا ہے۔۔۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا کہ 28 شعبان کو؟ 29 30 ابھی باقی ہیں۔۔۔ جبکہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے چاند دیکھ کر روزہ رکھا عید منائی ورنہ مہینے کے تیس پورے کیے۔۔۔ کہا ہاں یہ تو ایسے ہی ہیں سعودی عرب کے ساتھ روزہ رکھتے ہیں اور اسی کے ساتھ عید مناتے ہیں۔۔۔ کچھ کہو تو کہتے ہیں پاکستان والے ایک روزہ کھا جاتے ہیں۔۔۔ یہ بھی عجیب بات تھی یہی ایک روزہ کھانا انہیں ناگوار گزرتا ہے جبکہ پاکستان میں کسی کا پورے کا پورا حق کھایا جاتا ہے اس کے ساتھ کوئی کھڑا نہیں ہوتا۔۔۔ اور مذید دلچسپ بات یہ بھی بتائی کہ ان لوگوں کی عید بھی دو ہوتی ہیں ایک سعودی عرب کے ساتھ دوسری حکومت پاکستان کے ساتھ۔۔۔ یعنی سعودی عرب کے ساتھ عید مناتے ہوئے صرف روزہ کھاتے ہیں وہاں کے عید گاہ جا نہیں سکتے یہاں کے لوگوں کا روزہ ہوتا ہے۔۔۔ اب دوسرے دن یہاں کے لوگوں کے ساتھ عید گاہ بھی نہیں جاتے کیوں کہ ان کی عید ایک دن پہلے تھی۔۔۔ اس طرح نماز عید سے بھی محروم رہے۔۔۔
خیر اس سے یاد آیا کل نہیں تو پرسوں ہمارا بھی روزہ ہو گا۔۔۔ سوچنا یہ ہے ہم اپنا رمضان کیسے گزاریں؟

ویسے تو اس کے لیے شیڈول مدارس اور سوشل میڈیا سے تیار ملتا ہے۔۔۔ کہ فلاں فلاں وقت سحری اور افطاری کے۔۔۔ فلاں فلاں سونے اور جاگنے کے۔۔۔ فلاں فلاں فرض اور نوافل کے۔۔۔ اور فلاں فلاں وقت ذکرو اذکار کے۔۔۔

اچھی بات ہے کہ ہر چیز ریڈی میڈ ملتی ہے۔۔۔ اب اس پر عمل کرنا آسان ہو گیا۔۔۔ لیکن پھر سوچتی ہوں کہ ہر گھر کی روٹین اور حالات ایک جیسے تو نہیں ہوتے۔۔۔ کسی کے گھر میں بیماری، کسی کے گھر میں ذیادہ بچے، کسی کے گھر میں بڑے بوڑھے ہو سکتے ہیں۔۔۔ اب ان بیماروں کی تیمارداری ،بچوں کی دیکھ بھال ،بڑے بوڑھوں کی ادویات و کھانے کے اوقات۔۔۔ انہیں اچھے انداز میں کرنے سے بھی تو ثواب ملتا ہوگا۔۔۔ ہمسایوں کی مزاج پرسی، تعزیت کے لیے جانا ،کسی کا سودہ سلف لا دینا ۔۔کسی کا غم بانٹنا، کسی کی تلخ باتوں کا جواب مسکرا کر دینا بھی باعث اجر ہو سکتا ہے۔۔۔ مومن کا سونا جاگنا بھی عبادت میں شمار ہوتا ہے اگر قرآن و سنت کے مطابق ہے تو ایسے بھی ہم اجر پا سکتے ہیں۔۔۔

 

عام دنوں میں بھی تلاوت قرآن جتنا ممکن ہو آسانی اور دلجمعی کے ساتھ پڑھنے کا حکم ہے تو رمضان میں بھی اسے اسانی اور دلجمعی کے ساتھ جتنا ممکن ہو سکے ہڑھ لیا جائے۔۔۔ کیا ہی بہتر ہے کہ فرض عبادات کو خشوع وخضوع کے ساتھ پڑھا جائے اور قرآن کی تلاوت کم مگر لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ، لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ اور لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ پر غور کر کے کی جائے۔۔۔ یعنی تقوی، ہدایت اور شکر کے مواقع تلاش کر کے خدا تک پہنچنے کا ذریعہ ڈھونڈا جائے۔۔۔ اب ان تین کاموں کے حصول کا کام کرتے ہوئے بھی سوچنا عبادت ہی تصور ہو گا۔۔۔ کیوں نہ ہم دین کو اپنے لیے آسان بنائیں تعین شدہ عبادات کے ساتھ گھر کے کاموں مثلاً کپڑے اور برتن دھوتے وقت گناہوں کی دھلائی کا سوچیں۔۔۔ آٹا گوندھتے اور کھانا بناتے وقت درود شریف کا اہتمام کا سوچیں۔۔۔ صفائی ستھرائی کو دلوں کی صفائی سمجھتے ہوئے کریں۔۔۔ روزے کی حالت میں کھانے پینے کی چیزوں سے اجتناب کے ساتھ گالی، جھوٹ، طنزو غیبت سے بھی اجتناب کا سوچیں۔ اور عمل کریں ۔۔تو ہو سکتا ہے روزے کی افادیت بہتر انداز میں حاصل کر سکیں۔۔۔

ہم روبورٹ تھوڑی ہیں کہ جو حکم ادھر ادھر سے ملے مانتے اور کرتے جائیں ۔۔۔ہم تو اپنے خالق کے بنائے جیتے جاگتے انسان ہیں ہماری سوچوں کا بھی کوئی زاویہ ہونا چاہیئے۔۔۔ کیا خیال ہے؟#

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامین
86150

صلاحیتوں کا اعتراف – ایک دن ہی کیوں؟ – از: کلثوم رضا

Posted on

صلاحیتوں کا اعتراف – ایک دن ہی کیوں؟ – از: کلثوم رضا

 

سالانہ 8 مارچ کو عالمی یوم خواتین ان خواتین کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے منایا جاتا یے جنہوں نے اپنے حقوق کی جنگ لڑی ۔اس دن کو منانے کے دیگر مقاصد میں خواتین کی اہمیت اجاگر کرنا اور خواتین پر تشدد کی روک تھام کرنا بھی ہے۔

مختلف ممالک میں مختلف ادوار میں اس دن کے منانے کی تاریخ اور طریقے مختلف رہے ہیں۔ لیکن 1975 میں خواتین کے عالمی دن کو سرکاری طور پر تسلیم کیا گیا۔ جب اقوام متحدہ نے اسے منانا شروع کیا۔ 1996 میں پہلی بار اس دن کو تھیم دی گئی جب کہ اقوام متحدہ نے اسے ماضی کا “جشن” اور مستقبل کی” منصوبہ بندی “کے عنوان سے منایا۔ تب سے خواتین کا عالمی دن ہر سال 8 مارچ کو منایا جاتا ہے۔ لیکن ہمیں بحیثیت مسلمان اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارے مذہب اسلام نے 1400 سال پہلے عورت کو جو مقام و مرتبہ اور عزت و تکریم دی۔۔۔ جس طرح عورت کے تحفظ و ناموس کے تحفظ کا سامان کیا اور بطور ماں، بہن، بیوی، بیٹی اور بحیثیت انسان جو فضیلت عطا فرمائی کسی اور مذہب نے اسے یہ مقام و مرتبہ نہیں دیا۔
8 مارچ کو خواتین کی خدمات کا اعتراف کرکے سال بھر کی خدمات پر مختلف اعزازات سے نوازا جاتا ہے۔ یہ دن مسلمان عورت سے بالخصوص اور تمام مذاہب کی عورتوں سے بالعموم کئی تقاضے کرتا ہے۔

الله تعالیٰ نے مرد وعورت دونوں کو انفرادی اور امتیازی خصوصیات سے تخلیق فرمایا ہے۔ بلا شبہ دونوں کی اپنی انفرادی شخصیت ہے۔ لہذا دونوں پر لازم ہے کہ ایک دوسرے کی جگہ لینے کے لیے اپنی انفرادی خصوصیات سے دستبردار ہونے کی کوشش نہ کریں۔

” عالمی یوم خواتین “منانے والے عورتوں کو خصوصی تاکید ہے کہ اپنے خاص اوصاف کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے بنیادی مقاصد اور ذمہ داریاں نبھانے کی کوشش کریں۔
ایک مسلمان عورت اپنے الله کی عطا کردہ صفات اور انفرادیت کو قائم رکھ کر ہی بلند مقام حاصل کر سکتی ہے۔ جب بھی وہ اپنی اس خاص وصف سے غفلت برتے گی، اس بلند مقام سے منہ کے بل گر کر اس کی شخصیت زوال پزیر ہو جائے گی۔

 

عورت جس طرح اپنے گھر کی زیبائش اور تربیت اولاد میں بہترین کارکردگی دکھا سکتی ہے اسی طرح اصلاح معاشرہ اور ملک کی تعمیر وترقی میں بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہے اور کر بھی رہی ہے۔ اس کی مثال وطن عزیز ہی میں تحریک پاکستان سے لے کر قیام پاکستان اور استحکام پاکستان تک خواتین نے عزم و ہمت کی داستانیں رقم کر کے مردوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا اور ثابت کر دیا کہ وہ صلاحیتوں کے اعتبار سے کسی طرح مردوں سے پیچھے نہیں۔ زندگی کے ہر شعبے میں عورت کا کردار بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عورت قومی ترقی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔قومی اور بین الاقوامی سطح پر عورت کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔

وہ زمانہ گیا جب عورت کو صنف نازک اور مستور شے سمجھ کر دفاعی اور معاشرتی کاموں سے دور رکھا جاتا تھا۔ آج کی عورت ان اداروں میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ تعلیم و تدریس، جہاز رانی، ہوائی اڑان، فضائی میزبانی، طب، انجینیرنگ، آئی ٹی ٹیکنالوجی، کھیل، وکالت، فوج، اخبارات اور ادب و ثقافت کونسا ایسا شعبہ ہے جہاں خواتین مردوں سے پیچھے ہیں۔ بلکہ وہ ادارے جہاں خواتین کام کرتی ہیں، بڑی تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔ آج کی عورت کمزور اور بزدل نہیں بلکہ ہر شعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ ہے۔
بڑے افسوس سے کہنا ہڑتا ہے کہ ان تمام شعبوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے باوجود ہمارے معاشرے میں عورت کو کمتر سمجھا جاتا ہے۔ اسے وہ سہولیات میسر نہیں جو مردوں کو حاصل ہیں۔۔۔ اسے وہ تحفظ حاصل نہیں جو ہونا چاہئے۔ گھر سے باہر نکلی عورت گوں ناگوں مسائل کی شکار رہتی ہے۔ مرد اسے وہ عزت نہیں دے پاتے جو اپنے گھروں کے اندر کی خواتین کو دیتے ہیں۔ جس طرح منٹو نے کہا تھا ہمارے معاشرے کے مردوں کو ان کے گھروں کی خواتین کے علاوہ باقی خواتین ایسے دکھتی ہیں جیسے کتوں کو قصاب کی دکان میں گوشت۔۔۔
معاشرے کو یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ مختلف شعبوں میں کام کرنے والی عورتیں معاشرے کی بھلائی اور بہتری کے لیے کوشاں ہیں۔ انہیں ہر ممکن سہولیات فراہم کی جائیں۔۔۔
نسوانی سرگرمیوں کی انجام دہی سے عورت کی شخصیت کو جلا ملتی ہے۔ وہ گردو پیش سے تجربات حاصل کر کے اپنی شخصیت میں نکھار پیدا کرتی ہے اور اپنے کاموں کو بہتر طریقے سے انجام دے سکتی ہے۔

عورت کو بھی اسلامی حدود وقیود کی پاسداری کرتے ہوئے خدا کی طرف سے ودیعت کردہ خصوصی فرائض سے غفلت برتنے سے گریز کرنا چاہیے۔ وہ اپنی خاندانی اور معاشرتی زمہ داریوں کو جس قدر بہتر انداز سے سر انجام دے گی اتنا ہی اس کی نسوانی شخصیت بلند مقام حاصل کرے گی۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ زمہ داریوں کی ادائیگی ہی کی مانند حقوق کا حصول بھی ایک اہم سرگرمی ہے۔ وہ حقوق جو اسلام نے اسے دئے ہیں برابر ملنے چاہئیں۔ اس لیے ذمہ داریاں نبھانا اور اپنے حقوق حاصل کرنا دونوں ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ دونوں کی ادائیگی ہی بہترین نتائج کو جنم دیتی ہیں۔
عورت حصول علم، شادی، افزائش نسل اور گھر داری کی احسن ادائیگی کے ساتھ ساتھ وقت نکال کر ملازمت، سیاسی امور کی بہتری اور سماجی کاموں میں حصہ لے سکتی ہے۔ عورت کے جو حقوق ہیں وہی اس کی ذمہ داریاں اور فرائض ہیں۔

دین اسلام نے عورت کے حقوق کے حوالے سے بڑا واضح راستہ اختیار کیا ہے۔ وہ سماجی امور میں حصہ لے سکتی ہے لیکن سماجی زندگی میں شرکت اور مردوں کے ساتھ میل جول کے کچھ آداب بھی مقرر کیے ہیں جن کی پاسداری عورت پر لازم ہے تاکہ نیکی اور بھلائی کے کاموں کو جاری رکھنے کے لیے اس کی زندگی کا بامقصد قافلہ کسی مشکل کا شکار ہو کر منزل پر پہنچنے سے پہلے دم نہ توڑ دے۔

آج کی عورت پر حقوق کے حصول کے ساتھ ساتھ کئی بھاری ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں جن سے عہدہ برآں ہو کر وہ دنیا اور آخرت دونوں میں سرخرو ہو سکتی ہے۔
آج کی عورت اپنی صلاحیتوں کے استعمال میں کسی طرح مرد سے کم نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عورتوں کی صلاحیتوں سے مستفید ہونے کے لیے انہیں مردوں جیسی سہولیات فراہم کی جائیں۔ اور اس کی صلاحیتوں کا اعتراف صرف یوم خواتین کے موقع پر نہیں بلکہ ہمہ وقت اس کی قیادت ،جرات اور قوت کا اعتراف کیا جائے ۔عورت کو تحفظ کے ساتھ بااخیتار بنایا جائے۔ وہ مرد سے بہتر منتظم ہے۔ صرف اس کے متعلق سوچ کی تبدیلی کی اشد ضرورت ہے اور یہ تسلیم کیا جائے کہ

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک
کہ شرف ہے اسی درج کا در مکنون۔۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامین
86069

محفوظ عورت – مضبوط خاندان – مستحکم معاشرہ – از: کلثوم رضا

Posted on

محفوظ عورت – مضبوط خاندان – مستحکم معاشرہ – از: کلثوم رضا

محفوظ عورت۔۔ مضبوط خاندان ۔۔۔مستحکم معاشرہ۔۔۔ یہ ایسا موضوع ہے جو تین سالوں سے جماعت اسلامی پاکستان حلقہ خواتین کی طرف سے لکھاری بہنوں کو دیا جا رہا ہے۔۔

کہ اس پر لکھیں اور خود باقاعدہ ایک مہم کے طور پر یہ بات گھر گھر پہنچانے کا زمہ لیا کہ خاندان کے تمام افراد ایک دوسرے کے حقوق و فرائض ادا کریں گے تو معاشرے کا استحکام ممکن ہو گا۔ کیونکہ موجودہ دور میں یہ ادارہ “خاندان” طوفانوں کی زد میں ہے جسے بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنا ضروری ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ خواتین خود کو محفوظ کرنے، اپنے خاندان کو مضبوط رکھنے اور مستحکم معاشرے کی تشکیل کے لیے کیا کیا کر سکتی ہیں اور انہیں کس قسم کے تعاون کی ضرورت ہے۔۔۔ جس پر ہم تھوڑی سی روشنی ڈالیں گے۔۔۔

ہم دیکھتے ہیں کہ حقوق نسواں اور عورت کی آزادی کے مطالبات بڑھتے بڑھتے الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم سے بغاوت ،گھر کی تحقیر اور آزادانہ تعلقات کے مطالبات تک جا پہنچے ہیں۔۔۔۔۔ خود کمانے اور خود کفیل ہونے کے گھمنڈ، معاشرتی بے راہ روی نے خاندانی نظام کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔۔۔
تقریباً دس پندرہ سال پہلے ہی امریکہ اور یورپی ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں طلاق کی شرح نا ہونے کے برابر تھی۔ لیکن بد قسمتی سے یہ رجحان بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ آئے دن طلاق اور خلع کی خبریں گردش کرتی رہتی ہیں۔ پاکستان میں فیملی کورٹ ایکٹ 2015 میں منظور ہوا تھا جس کے سیکشن 10 دفعہ 6 کے تحت قانونی طور پر طلاق و خلع کا عمل آسان تر کر دیا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے یہ عمل اور بھی بڑھ گیا۔

دوسری طرف اس ناپسندیدہ عمل کو مذید آسان بنانے میں میڈیا بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ آج کل کے ڈراموں میں طلاق و خلع کو موضوع بنایا جاتا ہے۔ اس سے بچنے کے بجائے طلاق دینے، دلوانے پر زیادہ فوکس ہوتا ہے۔ گھر بسانے اور مضبوط رکھنے کے حوالے سے راہنمائی نہیں ملتی۔ عدم اعتماد، بے صبری اور جلد بازی یہ سب بھی نئی نسل کو میڈیا ہی سے ملے ہیں۔۔ بچے بڑوں کی باتوں کو دقیانوسی قرار دے کر خود سے فیصلہ کرنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ اس سب سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ عورتیں چوکنا ہو جائیں ۔۔سیرت صحابیات سے استفادہ حاصل کر لیں اور بچوں کی تربیت اس رو پہ کریں جس سے وہ محفوظ ،مضبوط اور معاشرے کے لیے کار آمد ثابت ہو سکیں۔۔۔اور مردوں کو اپنا قوام تسلیم کرکے باہمی محبت سے اپنے خاندان کو بچانے کے لیے کمر بستہ ہو جائیں۔۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دور ہی ایسا آیا ہے کہ خواتین کا کام کرنا بھی لازم ٹھہرا ہے۔ اس میں کوئی قباحت نہیں سیرت صحابیات سے بے شمار مثالیں ہمیں ملیں گی جس میں خواتین کا اہم کردار رہا ہے۔ سب سے پہلے نبی آخر الزماں پر ایمان لانے والی حضرت خدیجہ رضی الله تعالیٰ عنہا اس جاہلیت کے دور اور زوال پذیر مردوں کے معاشرے میں “طاہرہ” کا لقب بھی پایا اور تجارت ایسے کرتیں کہ ان کا تجارتی قافلہ ایک طرف شام کو جاتا تو دوسری طرف یمن کو۔ اور ان کی چشم بصیرت کا کیا ہی کہنا کہ انہوں نے اپنی رائے کی آزادی کا استعمال بڑے سلیقے سے کر کے نبی آخر الزماں کو نکاح کا پیغام خود بھیجا۔ اور تن من دھن سے نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کی آبیاری کی اور ایمان و وفا کی لازوال داستان رقم کی۔

اس کے بعد کم سن علم و دانش کا چراغ حضرت عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا جن سے امت کو ایک تہائی دین ملا۔۔ بڑے بڑے صحابہ اکرام ان کے در پر حاضر ہو کر علم و فضل حاصل کر لیتے تھے۔ اور ان فقیہہ کی پاک دامنی کی گواہی الله تعالیٰ نے قرآن پاک میں دی۔

پھر لخت جگر حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم حضرت فاطمتہ الزہرا کو دیکھیں چھوٹی سی عمر میں کیسے اپنے والد گرامی کا ساتھ دیتی ہیں۔ علی رض کے ساتھ صابر و شاکر بیوی کا کردار نبھاتی ہیں اپنے بچوں کی تربیت کچھ اس انداز سے کرتی ہیں کہ علامہ اقبال رحمتہ الله علیہ ان کی شان میں فرماتے ہیں کہ “در آغوش شبیرے بگیری ” یعنی بی بی فاطمہ کی طرح بن جانا۔ اور اس زمانے کی نگاہوں سے چھپ جانا تاکہ تمہاری آغوش میں بھی ایک حسین پیدا ہو جائے۔

اور پھر صبرو شجاعت کی مثال بی بی زینب کو لے سکتے ہیں جن کے کوفے کے بازاروں اور یزید کے درباروں میں ولولہ انگیز خطبات نے امام حسین کی شہادت کو امر کر دیا۔ اور ام عمارہ کے بارے میں ایک جنگ کے دوران کا قصہ تو نبی پاک صلی الله علیہ وسلم نے خود بیان فرمایا کہ آج تو جدھر دیکھا ام عمارہ ہی نظر آئیں سبحان الله ۔۔۔کیسی کیسی جرات کی علمبردار گزری ہیں ۔۔۔ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر عورت اپنے گھر کو جنت کا نمونہ بنا سکتی ہے۔

اگر عورتیں گھر میں بےکار بیٹھیں گی تو آج ضروریات اور خواہشات کی فہرستیں اس قدر طویل ہو گئی ہیں جس کی تکمیل مرد کے لیے مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔۔۔دونوں اپنے حقوق و فرائض کی پاسداری کرتے ہوئے گھر اور باہر کے کام کرکے ایک دوسرے کا ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ مرد و عورت ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ ان کا ایک ایک کردار ایک دوسرے کے لیے اہم ہے ۔عورت کو اس کے محرم مردوں کی طرف سے تحفظ کا احساس ملنا چاہیئے ۔تا کہ وہ مضبوط خاندان اور مستحکم معاشرے کی تشکیل میں اپنا حصہ ڈال سکے ۔ ایک غیر مرد کا عورت کے حسن و جمال یا دیگر امور کی تعریف میں پل باندھ کر داستان بھی لکھ دینا اس ایک جملے کے سامنے کوئی معنی نہیں رکھتے جو اس کا محرم مرد کہے کہ میرے ہوتے ہوئے تمہیں کسی کی پرواہ نہیں ہونی چاہیے۔ اپنے محرم مردوں کے درمیاں خود کو محفوظ سمجھنے والی عورت ہی مضبوط خاندان بنا کر ایک مستحکم معاشرے کی تشکیل کر سکتی ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ خود کو اپنے محرم مردوں کے درمیاں بھی غیر محفوظ جانے۔۔۔ اسے لگے کہ اس کا باپ بیٹوں جیسا پیار اسے نہیں کرتا۔۔۔ اس کا بھائی حق میراث مانگنے پر اس سے قطع تعلق ہو سکتا ہے۔۔۔ اس کا شوہر آج نہیں تو کل اسے طلاق دے سکتا ہے یا دوسری شادی کر سکتا ہے۔۔۔ یا اس کا بیٹا اس کی کسی رائے کو اہمیت نہیں دیتا۔۔۔ تو ایسی دبی ،ڈری اور سہمی عورت اپنے خاندان کو کیسے مضبوط بنائے گی معاشرے کا استحکام تو درکنار۔

بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورتوں کے حسن و جمال پر غزلیں اور افسانے تو لکھے جاتے ہیں مگر جو حق انہیں اسلام نے دیا ہے اس پر کم ہی بات ہوتی ہے۔ اور عورتیں بھی تاریک راستوں سے مرد کو مسخر کرنے کا گر تو جانتی ہیں لیکن روز روشن کی طرح عیاں اپنا حقیقی حق، خصوصاً حق میراث تک کی بات کرنے پر شرم محسوس کرتی ہیں۔۔۔دونوں کو آدھا نہیں پورا سوچنا ہو گا کہ اپنے خاندان کو مضبوط بنا کر اپنی نسلوں کو باوقار بنانے کے لیے اپنی سوچوں کو مثبت بنائیں اور باہمی محبت سے مستحکم معاشرے کے لیے کمر کس لیں۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامین
86021

نوائے سُرود – تجھے خدا کو سونپا – شہزادی کوثر

Posted on

نوائے سُرود – تجھے خدا کو سونپا – شہزادی کوثر

اے ارض فلسطین کے معصوم بچو تم نے اپنی زندگی کا مقصد کتنی جلدی حاصل کر لیا القدس سے وفا کی پاداش میں تم اپنے والدین کے سائے سے محروم کیے گئے،اپنے اعضا کٹوا دئیے،گھروں سے بے دخل کیے گئے،بھوک،پیاس کی شدت برداشت کی،تمہارے وجود کے چھیتڑے اڑا دئیے گئے،اپنی ننھی جان کا نذرانہ پیش کیا،محمدؐ کے گلشن کی آبیاری اپنے خون سے کر کے اللہ اور اس کے رسولؐ کے سامنے سرخرو ہو گئے،۔ تمہاری زندگی پہ رشک آرہا ہے۔ قبلہ اول صرف تمہارا نہیں تھا وہ تمام مسلمانوں کے لئے مقدس تھا، لیکن بدقسمت مسلمان اس سے منہ موڑ گئے۔انہیں یہ اعزاز حاصل نہ ہو سکا کہ انبیا ؑ کی سرزمین کی خاطردشمنان اسلام سے لڑ جاتے، شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہوجاتے یا غازی کہلاتے۔ پیغمبرؐ اسلام نے مسلمانوں کو بھائی بھائی قرار دیا ہے،فلسطین کی تباہی پر چپ سادھ کر پیغمبرؐ کے فرمان کا بھی بھرم نہیں رکھا۔ یہ کیسے بھائی ہیں جو اپنے بھائیوں کے حق میں آواز تک بلند نہیں کر رہے،فلسطین ملیامیٹ ہو گیا مگر امت مسلمہ کان لپیٹے سو رہی ہے۔بے حسی میں اہل کوفہ کی مثال دی جاتی تھی لیکن اسلامی دنیا نے بے غیرتی اور بے حسی کی تاریخ رقم کرنے میں اہل کوفہ کو بھی مات دے دی ہے۔مسلمان ہر ذی روح ک لیے اپنے دل میں درد رکھتا تھا مگر اب فلسطین لہو لہو ہے،قبلہ اول پکار رہا ہے،فرزندان اسلام کو آواز دے رہا ہے،کوئی تو اس کی پکار پہ لبیک کہے

کوئی مسیحا ادھر بھی دیکھے
کوئی تو چارہ گری کو اترے
افق کا چہرہ لہو میں تر ہے
زمین جنازہ بنی ہوئی ہے

لیکن سب خاموش ہیں،کوئی نہیں سن رہا،کوئی نہیں سمجھنا چاہ رہا،کوئی مدد نہیں کر رہا،عرب نے مدد کی بھی تو کفن کی امداد بھیج کر۔۔ یہ نہیں سمجھ پایا کہ کفن فلسطینیوں کو درکارنہیں وہ تو شہادت کا جام پی کرحیات جاودانی سے سرفراز ہوگئے ہیں، کفن کی امداد باقی اسلامی ممالک کو چاہئیے جنھوں نے اپنے مردہ ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ اسرائیل نے پچاس ہزار ٹن سے زیادہ کا بارود گرا کر فلسطین کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہیہزاروں افراد کو اسرائیلی قیدخانوں میں مظالم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔تعلیمی اداروں کو برباد کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی سال 2023 کے تمام طالب علموں کو شہید کیا گیا۔ کئی ہسپتال برباد ہو گئے۔جو محفوظ ہیں وہاں علاج کی سہولیات ختم ہو چکی ہیں۔ بجلی کی عدم دستیابی سے انکیوبیٹرز میں موجود بچے بھی موت کی آغوش میں چلے گئے۔یہود و نصرانی اسلام دشمنی میں اتنے جنونی ہوگئے ہیں کہ بربریت کی تمام حدیں پار کر چکے ہیں۔۔دنیا ان کا ساتھ دے رہی ہے۔مسلم دنیا کچھ بھی نہں کر رہی۔ ایک آدھ مذمتی بیان، کوئی نعرہ بلند ہوتا ہے لیکن کسی کو سنائی دینے سے پہلے ہی دم توڑ دیتا ہے۔ یاد رکھیں اسرائیل کیخلاف نعرے لگانے کا یا اس کو کوسنے اور بددعا دینے کا وقت نہیں ہے بلکہ میزائیل داغ کر اسے صفحہ ہستی سے مٹانے کا وقت ہے۔لشکروں کی صف بندی کا وقت ہے۔عسکریکاروائیکاوقتہے اپنے ہتھیاروں کو آزمانے کا وقت ہے امت محمدیؐ ہونے کا ثبوت دینے کا وقت ہے۔مگرکوئی تو نعرہ تکبیر بلند کرے۔۔کوئی تو جہاد کا اعلان کرے۔۔کوئی غیرت مند دشمن کی آنکھیں نوچ لے۔۔ کسی کے دل میں جذبی ایمانی جوش مارے۔ کاش۔۔ کہیں سے صدا آئے کہ اسلامی ممالک نے اسرائیل کو خبردار کر دیا ہے کہ چوبیس گھنٹے کے اندرجنگ بند کرو،ورنہ تمہارا نام ونشان مٹا دیں گے۔۔ کوئی پکارے کہ اسلامی ممالک نے اپنے لشکر فلسطین کی طرف روانہ کر دئیے ہیں۔۔ مجاہدین نے فلسطین کا کنٹرول سنبھال لیا اور اسرائیلی فوج ہتھیا رڈالنے پر مجبور ہو گئی ہے۔۔۔ لیکن۔۔۔

کہاں ہے مسلمانوں کی غیرت؟ 56 اسلامی ممالک کی افواج کہاں ہیں؟ جذبہ جہاد کہاں سو گیا؟ میزائیل اور ایٹم بم کہاں چھپائے گئے ہیں؟ ان کی عسکری طاقت کیوں بغلیں جھانک رہی ہے؟ یا یہ سب کچھ نمائش میں رکھنے کے لیے ہیں؟۔۔۔کیا ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے؟ہم صرف للکارنے والے رہ گئے ہیں؟۔۔۔۔ ہر گز نہیں۔۔۔ مسلمانوں کے پاس وہ صلاحیت ہے جو دنیا کی کسی اور قوم میں نہیں پائی جاتی، ہم بے غیرتی کا مظاہرہ کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔۔۔ہم اپنے بھائیوں کو اپنے سامنے کٹ مرتے دیکھ سکتے ہیں۔۔۔ ہم دودھ پیتے بچوں کو خون میں لت پت دیکھ کر بھی اپنی پیشانی پہ بل آنے نہیں دیتے۔۔اپنی ماوں،بہنوں،بیٹیوں کو انسانی درندوں کے ہاتھوں لٹتے ہوئے بھی دیکھ سکتے ہیں۔بھوک سے بے حال، لہولہان،غموں سے چُور،جلے ہوئے تڑپتے ہوئیلوگوں کا تماشا کرنے کی جرات رکھتے ہیں۔ ہمارے حوصلے بلند ہیں کہ چار مہینوں سے کھیلی جانے والی ہولی سے ہم بیزار نہیں ہوئے۔ 32 ہزار افراد کو ہمارے سامنے بموں سے اڑایا گیا لیکن ہمارے پایہ استقلال میں لغزش نہیں آئی،ہماری دھڑکنیں نہیں رکیں،کیوں کہ ہم آہنی جرات وحوصلہ رکھنے والے “مسلمان” ہیں،کسی اور میں یہ صلاحیت موجود ہو توسامنے آئے۔۔۔۔۔

نام نہاد مہذب دنیا نہ صرف اس خونی کھیل کی تماش بین ہیبلکہ پروڈیوسر اور ڈائرکٹرکی ذمہداری بھی نبھا رہی ہے۔اقوام متحدہ،عالمی عدالت انصاف،سلامی کونسل،ڈبلیو،ایچ،او۔ یونیسیف،ایمینسٹی انٹرنشنل۔ ایف،اے،او۔ کوئی بھی ادارہ ایسا نظر نہیں آرہا جو اسرائیل کا ہاتھ روک سکے۔ مٹھی بھر یہود نے پوری دنیا کو یرغمال بنا رکھا ہے اوراسے اپنے اشاروں پر نچا رہئ ہے۔انسانی اور مذہبی اقدار کی پامالی انتہائی ڈھٹائی سے کر رہے ہیں۔ کئی کلیسا اورمساجد تباہ کئے گئے،خوراک،پانی اور طبی امداد کے ذرائع بموں سے اڑا دئے گئے۔ ہسپتال میں موجود زخمیوں کو باہر نکال کرزندہ درگور کر کے ان پر بلڈوزر چلایا گیا۔اسرائیل کے عقوبت خانوں میں سات ہزار سے زائد قیدی موجود ہیں لیکن سنا ہے کہ ان میں کسی کی بھی ہڈیاں سلامت نہیں ہیں،لوگ بھوک کی وجہ سیبلیاں اور گدھے ذبح کر کے کھانے پر مجبور ہو گئے ہیں اتنا کچھ ہونے کے باوجود مسلمان ممالک خاموش ہیں،کہیں سے بھی عملی اقدامات کی کوشش نہیں ہو رہی۔اب تو فلسطین کے حق میں بولنے کو بھی فیشن کہا جانے لگا ہے۔ یہودی مصنوعات کا بائکاٹ کا کہیں تو جواب ملتا ہے کہ ہم پاکستانی مصنوعات خرید کر اپنی صحت پر سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔۔۔۔ گویا یہ عمل برملا کہہ رہا ہے کہ ہم اپنے قبلہ اول کی حفاظت نہیں کریں گے لیکن ہندووں کو عرب میں مندر بنانے کی اجازت دیں گے۔۔ اپنا ایمان ان کے بھگوان کے چرنوں میں ڈالیں گے،فلسطینی ایمبولینس کو تیل نہیں دیں گے لیکن اسرائیلی طیاروں کے لییہمارے تیل کے ذخائر حاضر ہیں۔ غذہ کے لوگ پانی کو ترستے رہیں،نیل و فرات کا پانی ان کے لیے نہیں ہے۔ رقص وسرور کی محفلوں میں نوٹوں کی برسات ہو گی لیکن فلسطین کی امداد کے لئے ہم اپنی دولت خرچ نہیں کریں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اے فلسطین ہم شرمندہ ہیں۔۔اے پیغمبروں کی سر زمین۔۔ہمارا سر شرم سے جھک گیا ہے،ہم مجبور ہیں ہم غلام ہیں ہم اپنے آقا کے خلاف نہیں جا سکتے۔۔ تم اپنی جنگ خود ہی لڑنا۔۔ہم تیرے حق میں نہ آواز بلند کر سکتے ہیں نہ تلوار اٹھا سکتے ہیں اور نہ ہی دشمن کے مصنوعات کا بائکاٹ کر سکتے ہیں اس دنیا کی آسائشیں ہمیں بہت عزیز ہیں،بے غیرتی کی زندگی اگر چھوڑ دی تو ہمیں بھیک نہیں ملے گی، ہم غلامی کا طوق پہننے کے عادی ہو چکے ہیں ہمیں اسی طرح ہی جینے دے۔تیری حفاظت خدا خود کرے گا ۔۔۔ جا تجھے خدا کو سونپا۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامین
85928

ٹک ٹک دیدم،دم نا کشیدم – از: کلثوم رضا

Posted on

ٹک ٹک دیدم،دم نا کشیدم – از: کلثوم رضا

ایک زمانہ تھا جب اس دل میں اقوام متحدہ کی بڑی قدر تھی کیونکہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ جہاں کہیں بھی دو ملک آمنے سامنے آجاتے ہیں تو یہی واحد ادارہ ہے جو آڑے آکر جنگ بندی کراتا ہے۔ اب یہ راز کھلا کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور، اور دیکھانے کے اور ہوتے ہیں۔

فل۔۔۔س۔۔3 میں سات اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والی اس۔۔ را۔۔ ئیلی جنگ کو دیکھ کر تو لگتا تھا کہ جلد ہی امن کی فاختائیں جنگ بندی کرائیں گی۔ کیونکہ وہ کسی مسلمان ملک خصوصاً پاکستان میں کہیں کوئی عورت پر ظلم برداشت نہیں کر سکتے تو فل۔۔س۔۔3 میں اتنی جانوں کا ضیاع کیسے کروا سکتے ہیں لہذا جلد ہی یہ جنگ بند ہو جائے گی۔۔کیا پتہ تھا کہ یہ ادارہ ابرہہ وقت (اس۔۔را۔۔ئل) کے آگے کب سے سر خم کر چکا ہے۔ یہی نہیں اس نے بھی طائف کے سرداروں کی طرح اپنے بدرقے (امریکہ،فرانس وغیرہ) بھی اس وقت کے ابرہہ کے ساتھ لگائے ہیں کہ جسے مرضی کچل ڈالیں بس ہماری خیر ہو۔۔۔۔ کیا وہ یہ بھول گئے ہیں کہ یہی بدرقے تھے جنھوں نے یہودیوں پر زمین تنگ کی تھی۔۔

ان کی عبادت گاہوں کو مسمار کیا حتیٰ کہ “قبتہ الصخرۃ” (Dome of Rock) کو بھی کچرے کے ڈھیر سے ڈھک دیا تھا۔وہ مسلمانوں کے امیر حضرت عمر فاروق رضی الله تعالیٰ عنہ ہی تھے جنہوں نے بیت المقدس کو فتح کرکے یہودیوں کو شہر میں داخل ہونے کی اور بیت المقدس کی زیارت کی اجازت دی۔

بعد کی صلیبی جنگوں کے بعد بھی عیسائی جب پھر سے بیت المقدس پر قابض ہوگئے تو یہودیوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کا بھی قتل عام کیا۔ تب بھی مسلمان سلطان صلاح الدین ایوبی ہی تھے جنہوں نے بیت المقدس پھر سے فتح کرکے انہیں امن بخشا۔ بعد میں سلطنت عثمانیہ کے زمانے میں بھی یہودی قلیل تعداد میں رہے لیکن عیسائی ظلم و ستم اور ذلت و خواری کی زندگی سے بہتر حالت میں رہے۔۔۔

جب انیسویں صدی میں یورپ اور روس میں یہودیوں کے خلاف عیسائیوں میں شدید نفرت اور مظالم پھر سے ابھرے تو یہ مقہور قوم عسائیوں سے تنگ آکر لاکھوں کی تعداد میں بے سروسامان نقل مکانی کرکے فلسطین آ گئے اور غالباً سلطنت عثمانیہ کے آخری دور میں جب صیہونی تحریک نے زور پکڑا جس کا مقصد یہودیوں کے لیے اپنا ملک قائم کرنا تھا تو اس کے لیے انہوں نے فل۔۔س۔۔3 کو چنا۔یوں بڑی تعداد میں یہودی فل۔۔س۔۔3 آ کر زمینیں خرید کر آباد ہو گئے۔۔۔اور پھر فل۔۔س۔۔طی۔۔نی ابھی تک اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارنے کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔

کس سے ان کی دشمنی تھی بدلہ کس سے لے رہے ہیں۔۔۔ صدیوں پہلے جو شدید نفرت ان کے لیے عیسائیوں کے دل میں تھی اس سے کئی گنا شدید نفرت وہ اپنے محسن فل۔۔س۔۔طی۔نیوں سے کر رہے ہیں۔۔۔ انہیں نیست و نابود کرنے کے لیے کیا کیا مظالم نہیں ڈھائے۔۔

ٹینکوں، میزائلوں سے مارے، جلائے، بھوکے پیاسے رکھے، زندہ گھاڑ دیے اور بلڈوزروں سے کچل ڈالے۔۔ روزانہ ایسی ویڈیوز نظروں کے سامنے سے گزرتی ہیں کہ کہیں بچہ گھاس ایسے کھا رہا ہے جیسے چوکلیٹ،،اور امدادی ٹرکوں سے گرا اٹا دھول سمیت سمیٹ سمیٹ کر جیبوں میں ڈال رہے ہیں،کہیں درختوں کے پتوں کو روٹی کہتے ہوئے شاپر میں ڈال کر لے جا رہے ہیں تو کہیں پیاس کی شدت برداشت سے باہر ہو جانے پر گندا پانی پی رہا ہے۔۔۔ بن ماں باپ کے بے گھر بچے خیموں میں بھرے پانی میں سوئے ہیں تو کہیں کٹ پھٹ جسم بن دوا کے زخموں سے کراہ رہے ہیں۔۔ (انہیں دیکھ کر بھی یہ دل نہیں پھٹا تو واقع میں انسان بڑا ہی ظالم اور سخت ہے) اتنی شدید نفرت یہ اپنے محسنوں سے کر سکتے ہیں تو کیا چیز انہیں اپنے دشمنوں (جنھوں نے انہیں صدیوں پہلے اسی قسم کے ظلم و ستم سے دو چار کیا تھا)سے نہیں کریں گے۔۔۔ تب دیکھیں گےu امن کی فاختائیں اپنا بچاؤ کس طرح کرتی ہیں۔اب ان کے ساتھ 57 اسلامی ملکوں کو بھی شاید سانپ سونگھ گیا ہے جس کی وجہ سے “ٹک ٹک دیدم دم نا کشیدم” کے مصداق بیٹھے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامین
85681

حسن انتخاب – از : کلثوم رضا

حسن انتخاب – از : کلثوم رضا

اسلام میں شادی مردو زن کے درمیان ایک مبارک عقد(بندھن) کا نام ہے۔ جس کے ساتھ دونوں ایک دوسرے کے لیے حلال ہو کر طویل زندگی کا سفر شروع کرتے ہیں۔
اسلام نے مرد اور عورت دونوں کو جو اختیار دیا ہے اس میں سے ایک اختیار یہ بھی

ہے کہ وہ اپنے شریک سفر کا انتخاب بھی خود کریں ہاں البتہ وہ اپنی مصلحت اور خیر خواہی پر مبنی اپنے والدین کی راہنمائی اور خیر خواہی سے بے نیاز نہیں رہ سکتے، کیونکہ وہ دونوں لوگوں اور زندگی کے معاملات کو بچوں کی نسبت کہیں بڑھ کر جانتے اور سمجھتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ بچوں کو (چاہے بیٹا ہو یا بیٹی) والدین مجبور کر دیں کہ جہاں وہ نہیں چاہتے وہاں انکی شادیاں کر دی جائے۔۔۔ یا وہ پسند کسی اور کو کرتے ہیں اور والدین ان کی شادیاں اپنی مرضی سے کہیں اور کرتے ہیں ۔۔پھر تو وہ معاملہ سامنے آتا ہے کہ

 

میں اہل ہوں کسی اور کا میری اہلیہ کوئی اور ہے۔۔

بیٹے کی پسند نا پسند کا پھر بھی خیال رکھا جاتا ہے لیکن افسوس بیٹی سے اول تو کوئی پوچھتا نہیں یا پوچھنے پر بیٹی اپنی رضا مندی ظاہر کرے تو اسے بےحیائی تصور کیا جاتا ہے۔

اس معاملے میں ایک سمجھدار گھرانے کے لیے دینی ہدایات و راہنمائی موجود ہے۔ اس اہم فیصلے میں کسی بھی تعصب اور انا کو کو اڑے لائے بغیر فیصلہ کرنا چاہیے ۔۔۔ اگر معاملہ لڑکا لڑکی کی پسند ناپسند کا ہے تو بچوں کی رائے ہی اہمیت کی حامل ہے ۔اگر پسند نا پسند والا معاملہ نہیں تو والدین جہاں بہتر سمجھیں وہیں بچوں کی شادیاں کر سکتے ہیں ۔۔۔لیکن آجکل جو غیر ضروری شرائط شادی کے وقت لگائی جاتی ہیں ان سے اجتناب بہتر ہے۔۔ رشتے کے انتخاب میں شکل و صورت کی خوبصورتی ، ظاہری چمک دمک، عہدے کی رفعت اور سرمائے کی فراوانی کو اہم سمجھا جاتا ہے ۔حالانکہ جب دلوں کا میلاپ نہیں ہوگا تو یہ سب چیزیں بے کار ہیں۔۔دلوں میں محبت کا سبب شکل وصورت کی خوبصورتی ،عہدے کی رفعت اور سرمائے سے کہیں ذیادہ اہم اخلاق و کردار ،دینداری اور رشتوں کا تقدس ہے۔ اور ہمارے اس دین حنیف نے بھی انہی صفات کو دیکھنے کی رہنمائی فرمائی ہے ۔اس پر واضح دلیل بھی موجود ہیں۔ اگر کسی شخص یا خاتوں میں یہ صفات پائی جائیں تو اس سے شادی کرنا واجب ہے۔
ترمذی کی ایک حدیث ہے کہ

“جب تمہارے پاس ایسا شخص آئے (پیغام نکاح پیش کرنے والا) جس کے دین اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو ایسے شخص سے (اپنی بہن ،بیٹی وغیرہ کا )نکاح کر دینا ورنہ زمین میں وسیع و عریض فتنہ و فساد پھیل جائے گا۔”
یہی فیصلہ بیٹوں کے لیے بھی ضروری ہے۔جس طرح حضرت عمر فاروق رض گشت کے دوران ماں بیٹی کی باتیں سن کر خدا کو حاضر و ناظر جاننے والی لڑکی کو بہو بنا کر گھر لائے تھے۔

اس کے برعکس ہمارے معاشرے میں لڑکوں کی طرف سے لڑکی کا خوبصورت ہونا اور لڑکی کی طرف سے لڑکوں کے عہدے، سرمائے اور حسب نسب کو دیکھا جاتا ہے۔جس کی وجہ سے بہت سی بیٹیاں اور بیٹے کبھی خود کو کبھی خاندان کو کوستے رہتے ہیں۔ اور رشتہ نہ ہونے یا ہو کر ٹوٹنے کے ذمہ دار بھی انہی کو ٹھہراتے ہیں یا ساری عمر اسی خدشے سے بن بیاہے گزار دیتے ہیں۔

ایک سمجھدار اور ہدایت یافتہ گھرانہ ان ظاہری ریا ونمود سے متاثر نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی ان بچوں کی نگاہوں کو (جن کی تربیت دینی طرز پر کی گئی ہو ) دولت اور سرمایہ خیرہ کرتا ہے۔ بلکہ وہ رشتہ بناتے وقت اس ہاتھ کو پکڑتے ہیں جو اخلاق و دینداری سے لبریز ہو ۔جو آگے جا کے اپنے ان حقوق و فرائض کو صحیح معنوں میں ادا کر سکیں جو ان دونوں کے کندھوں پر عائد ہونے والے ہیں۔ یعنی ایک مسلمان خاندان کی تعمیر، پاک باز گروہوں کی تربیت، کشادہ جذبات، قلوب و عقول کی درست سمت میں تربیت اور یہ بھی مکمل ذہنی ہم آہنگی، دلی محبت اور کامل یکسانیت کے ماحول میں پورا کر سکیں۔ دیندار مرد اور دیندار عورتیں الله تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے اپنے اخلاق کے ظاہری فرق، مزاجوں کے قدرتی تضاد، طبع میں قدرے اختلاف اور دین میں گوں ناگوں امتیازی فرق کو اپنے چال ڈھال میں رکاوٹ کا سبب بنائے بغیر اپنی گردنوں میں لٹکی ہوئی امانت کی صحیح طور پر ہر رکھوالی کرنے کے لیے پہلو بہ پہلو رواں دواں رہتے ہیں۔ تاکہ اپنے پروردگار کے ہاں اپنا اجر عظیم پا سکیں۔

پر سکون زندگی کے لیے اور اس عظیم مقصد اور بڑے ہدف تک پہنچنے کے لیے انتہائی مضبوط ازدواجی تعلق، خاندانی ستونوں کی مضبوطی اور صحت مند بنیادوں پر اس کی تعمیر صرف اور صرف شریک حیات کے حسن انتخاب پر ہے۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامین
85437

میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکی قند- از; کلثوم رضا

میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکی قند- از; کلثوم رضا

 

گزشتہ روز ایک فلاحی تنظیم کی طرف سے منعقدہ ٹریننگ میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے راستے میں انتخابی مہم کے دوران لگائے گئے بینرز اور جھنڈیوں کو دیکھ کر سوچا کہ جس فراخدلی سے ان پر خرچ ہوا ہے وہ پیسہ آیا کہاں سے؟جب کہ ہمارا ملک غریب ، خزانہ خالی، عوام بدحال۔۔۔ مگر سیاست دان اتنے خوشحال کیسے؟ چوراہوں پر لٹکائے جھنڈیوں کی کثرت ان کےجیبوں کی مضبوطی کا ثبوت تھے۔۔۔

سوچوں کا سلسلہ تب ٹوٹا جب ساتھیوں میں سے کسی نے کہا کہ جماعت اسلامی کی دعوت، خدمت، فلاحی اور اصلاحی سبھی کام قابل ستائش ہیں لیکن سیاست میں یہ ناکام ہیں۔۔۔ تو مولانا مودودی رحمتہ الله علیہ کا وہ قول یاد آیا کہ “ناکام جماعت اسلامی نہیں ناکام وہ لوگ ہیں جو اسلامی نظام لانا نہیں چاہتے”۔
ان کا قول بالکل صحیح تھا ۔۔یہی وہ لوگ ہیں جو اسلام کی صرف بعض احکامات کو مانتے ہیں اور بعض سے کترا کر نکل جانا چاہتے ہیں ۔جن کے لیے قرآن نے صریح لفظوں میں اپنا حکم سنایا ہے کہ

 

ترجمہ؛ کیا تم کتاب الہی کی بعض باتوں کو مانتے ہو اور بعض کو نہیں مانتے، سو ایسا کرنے والوں کی سزا اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ دنیا میں ذلیل و خوار ہوں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف لے جائے جائیں۔”(سورہ بقرہ ایت نمبر 85)

 

جبکہ مسلمان کے لیے قرآن پر ایمان لانے اور مسلم ہونے کا مطلب ہے “اس کے کسی بھی جز کو نہیں چھوڑا جا سکتا ہے”۔
یہاں ہم ان لوگوں کا ذکر نہیں کرتے جو مسلمان ہوتے ہوئے بھی اسلام کے اعلانیہ باغی اور اس کے اصولوں کے سچائی کے منکر ہیں۔ بلکہ ان کا ذکر کرتے ہیں جو نیکی اور تقویٰ اور ایمان و عمل کے لحاظ سے آگے کی صفوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ جو احکام الٰہی سے (جن کا تعلق انفرادی زندگی سے ہو) وہ غفلت نہیں برتتے ،نماز اور روزوں کی پابندی کرتے ہیں، صدقات اور زکواۃ بھی ادا کرتے ہیں، وظائف کی کثرت کرتے کرواتے ہیں، اپنی زبان کو جھوٹ، غیبت، بہتان اور بدگوئی سے پاک رکھتے ہیں، کبر و غرور، نمود و ریا، خیانت، ظلم و غضب ،رشوت و حرام اور فتنہ و فساد کے دھبوں سے اپنا دامن بچائے رکھتے ہیں۔ لیکن جب بات اجتماعی احکام و مسائل کی آتی ہے تو اس سے غفلت و بے اعتنائی کا حال بھی وہی ہے جو غیر متقی لوگوں کا ہے۔ (اب کی بار تو اس ٹولے نے اس انفرادی پرہیز گاری کو بھی جوتے کی نوک پر رکھا) کیا اس طبقے نے قرآن کی اس بات کو بالکل فراموش کر دیا تھا کہ قرآن نماز، روزہ ، زکواۃ، حج، دیانت ،امانت ، راست گوئی، اخلاص، وفائے عہد، حسن سلوک اور رزق حلال کی ہدایتوں کے ساتھ ساتھ عبادت کے لائق صرف الله اور آقائی و فرمانروائی کا مستحق صرف الله کو نہیں ٹھہراتا ؟

وہ یہ نہیں کہتا کہ آقا اور سلطان لا الہ الااللہ ہے؟
صرف خدا کی بندگی کرو تمام باطل معبودوں کو چھوڑ دو ۔
خدائی اور فرمانروائی کے ان تمام جھوٹے دعوے داروں کے دعوے تسلیم کرنے سے انکار کر دو۔
ان لوگوں کا کہنا نہ مانو جو الله کے حقوق سے غافل اور اس کی حدود کو توڑنے والے ہیں۔
جب فیصلہ کرو تو احکام الٰہی کے مطابق کرو۔
قوانین الٰہی کو چھوڑ کر ان قوانین کے مطابق فیصلہ کرنے والا فاسق اور کافر ہے۔
کسی برائی اور ظلم کو پروان چڑھانے میں کسی طرح کا تعاون نہ کرو۔
کفر کے علم برداروں سے لڑو یہاں تک کہ کفر کا علم سرنگوں ہو جائے۔
جو کوئی الله اور اس کے رسول سے لڑے اس سے خدا کی زمین پر رہنے کا حق چھین لو۔
جو چوری کرے اس کا ہاتھ کاٹ دو۔
جو بدکاری کرے اسے سو کوڑوں کی سزا دو۔
جو کسی پاک دامن پر زنا کا تہمت لگائے اس کو اسی (80) درے لگاؤ ۔
جو کوئی کسی کو عمدا قتل کر دے اس کی بھی گردن اڑا دو۔
حوالہ قرآن مجید۔۔(سورہ یوسف :40)(سورہ اعراف:54) (سورہ نحل:36) (سورہ نسا :60) (سورہ مائدہ :44 تا47) (سورہ مائدہ :2) (سورہ بقرہ:193) (سورہ مائدہ:33) (سورہ مائدہ:38) (سورہ نور:2)(سورہ نور:4) (سورہ بقرہ:178).
یہ سب احکامات بھی اسی اکلوتے قرآن میں درج ہیں جس میں نماز ،روزوں اور دیگر انفرادی عبادات کے احکامات ہیں۔ کیا کوئی بھی متقی بتا سکتا ہے کہ کیا درج بالا

احکامات پر ہمارے اس مدینہ کی ریاست میں عمل ہو رہا ہے؟
کیا وہی سزائیں ہماری عدالتوں میں دی جاتی ہیں جن کا حکم قرآن دیتا ہے؟
یا میں یہ کہوں کہ بے شک ہمارا معبود اور بادشاہ الله ضرور ہے مگر ہمارے مساجد کی چاردیواریاں اس کی معبودیت اور بادشاہت کی آخری حدیں ہیں۔۔ اور مسجد سے باہر ہمارے آقا ہماری ہی طرح کے مخلوق ہیں؟نعوذ بالله

المیہ یہ ہے کہ ہم نے قرآن کے بڑے حصے کو کتابت اور تلاوت کے لیے محدود کر دیا ہے۔ہمارے اندر قرآنی تعلیمات کا سچا فہم اور اسلام کی بصیرت موجود ہے لیکن ہماری نفس کی چالبازیوں نے ہماری روح ایمانی کو تھپکیاں دے کر سلا دی ہے۔ ہم قرآن کے ساتھ وہی سلوک کر رہے ہیں جو اہل کتاب نے تورات اور انجیل کے ساتھ کیا تھا ۔اس کے لفظوں کی ضمانت اگر خدا نے خود نہ لی ہوتی تو اس کے لفظوں کا ردوبدل اور عبارتوں کی کانٹ چھانٹ بھی ہم متقیوں کے لیے کوئی مشکل نہ تھا ۔اس کے علاوہ اور کوئی ظلم اور خیانت ایسی نہیں جو ہم نےاس کے ساتھ روا نہیں رکھا ۔

موجودہ رائے دہی سے ہم   نے یہ ثابت کر دیا کہ قرآن کو ہم عملاً اپنانے سے گریز کرتے ہیں۔ عملی طور پر ہم نے اسے پیٹھ پیچھے چھوڑا ہے۔ اور کچھ “اقرار” اور کچھ “انکار”کی روش پر پورے اطمینان کے ساتھ چلے جا رہے ہیں کہ 100مرتبہ سبحان الله کا ورد کرکے جنت میں اپنے لیے محل تعمیر کر چکے ہیں۔ اور “خِزْیٌ فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا” کا مستحق ہم نہیں ٹھہر سکتے۔#

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامین
85349

سوچ بدلیں زوج نہیں – از: کلثوم رضا

Posted on

سوچ بدلیں زوج نہیں – از: کلثوم رضا

الله سبحان وتعالی نے دنیا میں سب سے پہلے جو رشتہ بنایا وہ میاں بیوی کا رشتہ تھا اور باقی سارے رشتے بعد میں بنے۔ اس رشتے کی خوبصورتی اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے کہ الله تعالیٰ نے اسے اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی کہا ہے اور کسی رشتے کو یہ نہیں کہا۔ دنیا میں اسی رشتے کی آپس کی محبت ایسی محبت ہے جسے دیکھ کر الله تعالیٰ خوش ہوتا ہے اور شیطان ناخوش۔ یہ اتنا پیارا رشتہ ہے کہ کتنی بھی دھوپ چھاؤں آئے اس رشتے میں ایک دوسرے کے بغیر گزارا بھی نہیں ہوتا۔ کیونکہ یہی وہ رشتہ ہے جس سے ان کی نسل آگے بڑھتی ہے۔ نسب معلوم ہوتا ہے۔ خاندان، رشتے، تعلقات بنتے ہیں۔ ایک سماج اور معاشرے کی تعمیر و تشکیل ہوتی ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ میاں بیوی میں سے ہر ایک اپنے فرائض سے با خبر ہو اور ایک دوسرے کے حقوق سمجھیں۔ اسلام دین فطرت اور ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس میں جس طرح دوسرے معاملات کے بارے میں ہدایات و راہنمائی ہے اسی طرح اس تعلق کے لیے بھی مکمل ہدایات ہیں۔ جن پر عمل پیرا ہو کر میاں بیوی اپنی زنگی خوشگوار گزار سکتے ہیں۔ اکثر لوگ ازدواجی راحت و سکون کے حریص تو ہوتے ہیں لیکن قوانین شرعیہ سے غفلت اور خود ساختہ غلط طرز عمل سے طرح طرح کی مشکلات ومصائب کا شکار ہو کر اپنی زندگی برباد کرتے ہیں۔جس سے نا صرف وہ خود بلکہ اہل و عیال اور خاندان کے خاندان برباد ہوتے ہیں۔

آج کل اکثر سننے میں آتا ہے کہ فلاں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، اور فلاں نے اپنے شوہر سے خلع لے لیا۔ ایسے میں سب سے پہلی سوچ ان کے بچوں کی طرف جاتی ہے کہ اب ان کا کیا ہو گا۔۔۔ ان کا کیا قصور تھا؟ جو باپ کی شفقت اور ماں کی محبت سے محروم کر دیے گئے حالانکہ اسلام میں اس بات کی اجازت ہے کہ اگر رشتہ نہیں نبھ سکتا ہے تو احسن طریقے سے جس طرح قرآن و سنت میں بتایا گیا ہے میاں بیوی ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کر سکتے ہیں۔ لیکن یہاں معاملہ الٹ ہے۔ اول تو وجہ طلاق یا خلع کی وہ نہیں ہوتی جس کی وجہ سے طلاق یا خلع جائز ہے۔ دوم یہ کہ احسن طریقے سے علیحدگی تو دور کی بات فریقین ایک دوسرے کے عیوب لوگوں کے سامنے اتنے اچھالتے ہیں کہ الامان ۔حالانکہ وہ زیادہ تر تو صرف تہمتیں ہوتی ہیں اور تہمت کے بارے میں جو وعید قرآن و سنّت سے بیان ہوئی ہیں انہیں دیکھ کر رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور انسان اپنے زوج کی حقیقی خامیوں کا ذکر کرنے سے بھی گریز کرتا ہے۔

بڑوں کا کہنا ہے۔ کہ پہلے زمانے میں یہ واقعات بہت کم تھے اس کی وجہ یا تو صبر اور سادگی تھی یا پھر عورت کی لاعلمی بھی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ اس وقت بیٹی کو رخصت کرتے وقت گھر کے بزرگ نصیحت فرماتے کہ بیٹی!اب تمہارا جنازہ ہی اس گھر میں آئے گا۔ تو بیٹی سمجھتی تھی کہ اب جو کچھ میرا ہے وہ سسرال ہی ہے چاہے اسے زندگی بھر پیٹ بھر کی روٹی یا نیا جوڑا ملے نہ ملے اسے وفاداری نبھانی ہے ورنہ لاڈلی سے لاڈلی بیٹی کے لیے بھی واپس جانے کا کوئی راستہ نہیں۔ وہ ساری کشتیاں جلا کر اپنی خوشی، غمی، احساسات و جذبات سب قربان کر کے اپنے شریک حیات، اس کے خاندان اور بچوں میں گم ہو جاتی تھی۔

لیکن اب چونکہ زمانہ بہت آگے نکل گیا ہے۔بعض لوگ جو دین اسلام کو سمجھتے ہیں عورت کے حقوق ان پر آشکار ہیں۔ اور بعض نے باہر کی دنیا سے مرغوب ہو کر اپنے خاندان کی عورتوں کو جدت کے نام سے آزادی دکھائی۔

آج کے سوشل میڈیائی دور میں یہ خبریں اور بھی جلدی پھیلتی ہیں کہ فلاں فلاں میں جدائی ہوئی تو کومے میں جانے کو دل کرتا ہے۔ یا الٰہی یہ کیا ہوا؟۔۔ جو بہت اچھی بھلی زندگی گزر رہی تھی دونوں کی وہ کیا دکھاوا تھا یا اب بے صبری آگئی ان میں؟دونوں طرف سے سٹیٹس لگتے ہیں ۔۔پوسٹیں شئیر ہوتی ہیں۔۔۔ کہ ہرجائی صرف دوسرا فریق ہے۔۔۔ اتنی انا، اتنی خود پسندی اور غرور پتہ نہیں انسان خود میں کیسے جمع کرسکتا ہے؟ بھئی تھوڑا سا جھک کے اپنے گریباں میں بھی جھانکا جا سکتا ہے کہ یہ چنگاری کہیں یہاں سے میرے آشیانے کو جلانے تو نہیں نکلی؟

بہرحال مرد ہو یا عورت دونوں کو اس معاملے میں اپنا ہی محاسبہ کرنا بہتر ہے۔اگر مرد میں وہ ساری خوبیاں نہیں ہیں جو عورت چاہتی تھی یا اس عورت میں وہ صلاحیتیں نہیں ہیں جو مرد کو درکار تھیں تو دونوں اسے انا کا مسئلہ بنانے کے بجائے خود میں تھوڑی سی تبدیلی لاکر اپنے گھر اور بچوں کو بکھرنے سے بچا سکتے ہیں۔

اس کی مثال ہم یوں دے سکتے ہیں کہ ایک انسان جس کے ایک ٹانگ میں کسی بیماری کی وجہ سے یا پیدائشی کسی نقص کی وجہ سے معذوری ہے تو کیا وہ ایک ٹانگ کے سہارے نہیں چلے گا ،بیٹھا رہے گا؟۔۔۔۔ نہیں ہر گز نہیں وہ اس معذوری کو اپنی کمزوری نہیں بنائے گا بلکہ کچھ ذیادہ طاقت استعمال کر کےچلے گا۔ اسی طرح میاں بیوی کے رشتے میں کوئی خرابی (معذوری ) ا جائے تو “لنگڑا کے بل کھا کے” بھی سفر جاری رکھا جاسکتا ہے ۔یہ رشتہ ہی ایسا ہے کہ ساتھ چلنا پڑتا ہے،مجبوری سے چلو یا محبت سے چلو۔لیکن کتنی اچھی بات ہو گی کسی انا کی دیوار کو درمیان میں حائل کیے بنا محبت کے ساتھ چلا جائے۔اچھے زوج کی سب سے بڑی خوبی حالات کے مطابق خود کو ڈھالنا ہے۔اللہ تعالیٰ نے انھیں ایک دوسرے کا لباس کہا ہے وہ ایک دوسرے کے نصف ایمان کو مکمل کرتے ہیں تو انھیں ایک دوسرے کی قدر دل سے کرنی چاہیے ۔۔۔

اس کے برعکس ہمارے معاشرے میں سب چاہتے ہیں کہ میاں بیوی کے اس رشتے میں کوئی بھی خامی نہ ہو، ہر چیز پرفیکٹ ہو، خوبصورتی، دولت، خاندان، صلاحیتیں سب ایک ہی انسان میں جمع ہو کر بندے کو مل جائیں ۔۔۔تو بھئی یہ جنت تھوڑی ہے ۔۔یہ دنیا ہے یہاں سب کچھ نہیں ملتا۔ یہاں سمجھوتہ کرنا سیکھیں ،حکمت و صبر سے کام لیں۔ اپنے زوج کی خوبیوں کی طرف دیکھیں ان میں سب نہیں تو تین ،چار یا ایک دو ہی سہی ایسی خوبیاں ہونگی جو آپ کو پسند ہوں گی۔ انہی کو قبول کر لیں ۔اسں طرح دو دو مل کر چار یا تین تین مل کر چھ خوبیاں بن جائیں گی۔ اس طرح ایک دوسرے کی خوبیاں اپناتے جائیں اور خامیاں بھلاتے جائیں تو زندگی کا سفر سہانہ ہو جائے گا۔

ایک تحریر پڑھی تھی جس میں اس رشتے کی مثال جوتوں سے دی گئی تھی۔ کہ اگر میاں بیوی خود کو دایاں جوتا ہی سمجھیں گے تو اندازہ لگائیں انہیں پہن کر چلنا کتنا مشکل ہو جائے گا۔ تو ہم نے اپنی سہیلی سے پوچھا کہ آپ کے اور دلہا بھائی کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق ہے آپ لوگوں نے زندگی کے 35,36 سال کیسے ساتھ گزارے تو اس نے ہنستے ہوئے جواب دیا وہ خود کو دایاں (صحیح) اور مجھے بایاں(غلط)سمجھتے ہیں اور یہی حال میرا ہے میں اسے بایاں خود کو دایاں سمجھتی ہوں۔ اس طرح کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔بھئی جوڑی جوڑی ہوتی ہے دایاں ہو یا بایان اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟
اسی طرح یہ سوال سامنے رکھتے ہوئے میں نے ایک بیٹی سے پوچھا (کیونکہ اسے بھی اسی کے مزاج کا زوج اگر ملتا ہے تو ہاں کرے گی ورنہ خود کو کسی مشکل میں ڈالنا نہیں چاہتی) کہ بیٹا تم ہر چیز کو اپنے مزاج کے جیسا چاہتی ہو یہ نہیں ہو سکتا ۔ایک تو تم خود کو دایاں ہی سمجھتی ہو تو تمہارے لیے کسی’ بایاں ‘ ہی کو ڈھونڈھنا پڑے گا اس نے کہا “میرے جیون ساتھی کو خود کو دایاں ہی رکھنا ہو گا ویسے بھی مجھے ایک دوسرے سے ذیادہ مطابقت رکھنے کی وجہ سے کھسوں کی جوڑی پسند ہے ۔۔۔جنھیں پہن کر میں آسانی سے چل سکتی ہوں بس مزاج میری طرح دایاں ہی ہونا چاہیے۔

یہی سوال کسی نے مجھ سے بھی کیا کہ آپ دونوں میاں بیوی کے مزاج میں بھی تضاد ہے تو آپ نے زندگی کی گاڑی کو کیسے آگے چلایا؟ تو میرا جواب یہی تھا کہ میرا معاملہ الگ نکلا۔۔ مجھے میرے سرکار نے ہمیشہ دایاں سمجھا اور دایاں رکھا۔ پہلے میں بھی چاہتی تھی کہ وہ دایاں بن جائے اور مجھے بایاں رکھے۔ لیکن وہ پہلے ہی دستبردار ہوگئے اور کہا کہ میں جذباتی ہوں ،غصہ بھی جلد آجاتا ہے لہٰذا سب کچھ آپ ہی نے سنبھالنا ہے ،میری خامیوں کو صبر سے اور خوبیوں کو شکر سے اپنا لیں ۔تو ان کی یہ نصیحت میں نے پلو سے باندھ لی۔ کیونکہ ہمیں بتایا اور سمجھایا گیا تھا کہ میاں بیوی کو ایک دوسرے کو خامیوں ،خوبیوں سمیت قبول کر لینا چاہیئے۔ اس کے بعد مجھے یاد نہیں ہڑتا کہ انہوں نے مجھے کوئی نصیحت کی ہو اور الحمدلله آج تک ساتھ نبھا رہے ہیں ۔ایسا نہیں کہ ہماری زندگی میں کوئی پریشانیاں نہیں آئیں۔۔ بہت آئیں لیکن ہمیشہ درگزر سے کام لیا۔(اور اس میں پہل ہمیشہ انھی کی طرف سے ہوا) ۔کیونکہ اس رشتے کو الله تعالیٰ نے اتنا دلچسپ بنایا ہے کہ اس میں کئی بار ایک دوسرے سے نفرت تو بار بار محبت ہو جاتی ہے۔۔ اسی طرح یہ گاڑی چلتی ہوئی امن کی وادی تک پہنچی۔ الحمدلله

چھوٹی موٹی رنجشوں کو بھلا کر میاں بیوی کو ایک دوسرے سے بار بار محبت کرتے ہوے زندگی کے سفر میں گامزن رہنا چاہیے۔۔
میاں صاحبان کو چاہیے خود کو دایاں رکھنے کی کوشش کریں اگر بیوی دایاں ہے تو کھسے پہن کر آسانی سے چلا جا سکتا ہے۔اور تھوڑی سے فراخ دلی کا مظاہرہ کر کے بیوی کی تعریف کر لیا کریں کسی بھی کام کی،قسم لے لیں پھر اسے کوئی بھی مشکل وقت تھکا نہیں سکتی۔اور بیویاں خود کو دایاں ہوتے ہوئے بھی بایاں تسلیم کرلیں اور اپنے میاں کے امدن کے مطابق اپنی خواہشات رکھیں ،چھوٹی موٹی کوئی بھی چیز وہ لا کر دے اس کی قدر کریں۔اگر آگے چلنا ہے تو۔۔۔

بعض میاں حضرات کو شکایت ہوتی ہے کہ اسکی بیوی میں فلاں فلاں کی بیوی کی جیسی قابلیت یا صلاحیت نہیں ہے۔۔ اور بیویوں کو شکایات ہوتی ہیں کہ ان کے میاں فلاں فلاں کے میاں جیسے محبت اور قدر کرنے والے نہیں ہیں۔ تو اس کا آسان سا حل یہ ہے کہ آپ نے خود کو اس مثالی کردار (جس کی مثال آپ کے زوج دیتے ہیں) کی طرف بنائیں پھر دیکھیں شکایتیں کیسے دور ہوتی ہیں۔

یہ سب کہنے اور لکھنے کا مطلب ہے کہ اپنی سوچ بدلیں ،زوج نہیں ۔جب سوچ کا معیار بدل جائے گا تو زوج خود بخود آپ کے معیار پر پوری اترے گی ان شاءالله

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامین
85254

پہلا ووٹ – از: فرحین فضا

Posted on

پہلا ووٹ – از: فرحین فضا

چھ فروری 2024 کو جب اکیڈمی میں ضمنی انتخابات کی وجہ سے چار دن کے لیے چھٹی ہوئی۔ تو میں خالہ کے گھر گئی جو کہ نیو سٹی ہوم ( بدائی ویلیج )پشاور میں واقع ہے ۔ابھی پہنچی ہی تھی تو امی کا فون ایا اور ساتھ ہدایات مل گئیں “تمھارے ابو کہہ رہے ہیں کہ کل شام آپ کے چچا اور چچی چترال آ رہے ہیں۔ ان کے ساتھ آپ کی بھی سیٹ کنفرم ہے ان کے ساتھ اپ بھی ا جائیں”. کیونکہ آپ کا نام ووٹر لسٹ میں موجود ہے تو آپ ساڑھے سات بجے چترال کے اڈے میں پہنچ جائیں۔ میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔۔۔ کم چھٹی، خراب صحت کے باوجود لمبے سفر کے لیے ٹھان لی۔ فون رکھ کے جب بتایا کہ امی کا فون تھا اور مجھے چترال آنے کا کہہ رہی ہیں ووٹ دینے۔۔ تو میری کزن کو اعتراض ہوا کہ ایک ووٹ کے لیے اتنی خواری۔۔۔ آپ کے ایک ووٹ سے ملک کے حالات کونسے ٹھیک ہوں گے؟ اور آپ کی ایک ووٹ کی کیا قیمت ہو سکتی ہے؟ بات کچھ دل کو لگی مگر میں جو خود کو بہت عزیز رکھتی ہوں میری کوئی قیمت نہ ہو کب برداشت کر سکتی ہوں۔ بڑے جوش اور جذبے کے ساتھ اپنا پہلا ووٹ کاسٹ کرنے چترال آنے کے لیے تیار ہو گئی۔۔۔ مزے کی بات یہ تھی کہ یہ ووٹ کس کو دوں یہ فیصلہ ابھی نہیں کیا تھا۔۔ مگر پھر بھی خراماں خراماں کہ میں بھی اب “رائے دے سکتی ہوں” اگلی شام بس میں سوار ہو گئی۔ لمبا سفر، سرد رات ۔۔۔ جب سردی لگی تو سوچنے لگی “جا تو رہی ہوں لیکن اپنی پہلی رائے کس کے حق میں استعمال کروں ۔۔۔ اور کروں تو کس لیے کروں۔۔ اور کرنے کا کیا فائدہ ہو گا؟ اگر نہ کرتی تو کیا نقصان ہوتا؟ سارے سوالوں کے جواب تو میرے پاس نہیں تھے لیکن یہ سوچ کر ہنسی ضرور آئی کہ ہم بھی عجیب عوام ہیں کہ مخالف “فلانے” کے حمایتی “بستانے” کے اور ووٹر “دھمکانے” کے۔۔۔اور یہ ہے ہماری نصف عوام کی حالت۔ اور اسی عوام میں میرا بھی شمار ہونے جا رہا ہے ۔۔

کیونکہ میرے گھر میں بھی اس ملک کی جمہوریت کی طرح کی جمہوریت رائج ہے۔۔۔ رائے بے شک سب کی اپنی اپنی ہو اور مضبوط بھی ہو لیکن فیصلہ ہمیشہ اوپر ہی سے آتا ہے ۔۔ ملک کی جمہوریت کی طرح خیر پھر بھی نہیں کہہ سکتی کیوں کہ یہاں پر بولنے کی اجازت ہے اور خیر سے بندہ اپنی رائے دینے کے بعد اگلی صبح کا سورج دیکھ سکتا ہے۔۔۔ ورنہ ملک خداداد میں بندہ راتوں رات غائب ہو جاتا یے۔۔
تو بات ہو رہی تھی اپنی اپنی رائے دہی کے بارے میں ۔۔۔تو میرے گھر میں پارٹیاں تین لیکن ٹھپہ سب کا ایک ہی نشان پر ۔۔۔۔ چاہے مخالفت جتنی بھی زور دار ہو فیصلہ صرف ایک کا۔۔۔ اور اس مثالی اتحاد کی وجہ میری والدہ محترمہ ہیں ۔۔ وہ اپنی باتوں اور دلیلوں سے سب کو قائل کرنے کا گر جانتی ہیں کہ ووٹ کس کو دینا ہے؟
پھر میں تو پوچھنے سے ہی رہ جاتی ہوں کیونکہ اُدھر ایک دلیل ادھر میں قائل۔۔۔
مگر اس دفعہ مجھے خود سوچنا تھا کہ میں کس کو دوں؟

اور جب بس میں اور مسافروں نے اس متعلق باتیں کیں تو پتہ چلا کہ اس کشمکش کے سفر میں، میں اکیلی نہیں اور بھی راہی ہیں جنہیں صحیح سمت کا پتہ نہیں ہے سوائے چند کے۔۔۔ کوئی کسی کے خلاف ووٹ ڈالنے جا رہا ہے ۔۔کوئی کسی کے کہنے پر کسی کو جتوانے کے لیے جا رہا ہے تو کوئی اپنا ووٹ کیش کروانے کے لیے اور کوئی مفت کی سواری پر اپنے گھر جا رہا ہے۔ کوئی اپنا تیر صحیح نشانے پر پھینکنے کا ارادہ رکھتا ہے تو کسی کو اپنے نعیم (اپنے شوہر)سے دل لگی کی قیمت ووٹ کے ذریعے چکانا ہے۔۔ ان کی باتیں سن کر اپنا آپ بہت اچھا لگا ۔۔۔ اپنا قد تھوڑا اونچا محسوس ہونے لگا کیونکہ میری سوچ ان سب سے الگ تھی۔۔۔۔ میں اپنے وطن کے لیے ایک مخلص اور غیرتمند لیڈر چننے کا ارادہ رکھتی تھی۔۔۔

سارے اُمیدواروں کے متعلق میرے اندر بھی بے شمار سوالات تھے ۔۔۔کہ کیا فلاں ،فلاں میں وہ خصوصیات موجود ہیں جو اس ملک کو موجودہ حالات سے نکال سکتے ہیں۔۔؟ اور آگے جا کر مجھے کوئی پیشمانی نہ ہو کہ میرا ووٹ ضائع ہو گیا ۔۔اور جب بہتر مستقبل دیکھوں تو فخر سے کہہ سکوں کہ میرے ووٹ کا نتیجہ ہے۔۔۔ یہ سوچ کر بسم الله کر کے اپنی سوچ کی رخ اپنے ہی گھر کی طرف کر دی۔۔۔ اب گھر میں تھے تین پارٹیوں کے حمایتی ۔۔۔ دو بھائی مجھ سمیت خان صاحب کے فین، ابو پہلے تو شیر کے شیدائی تھے (شیر تو وہ اب بھی بنے پھرتے ہیں گھر میں امی کا سامنا ہونے تک) لیکن اب نہیں کیونکہ ان کی زوجہ محترمہ میزان والوں میں سے ہیں۔ اور ابو کی ساری کی ساری پھرتیاں امی کے سامنے ڈھیر ہو جاتی ہیں ۔۔ یہ ابو کی امی سے بے انتہا محبت ہے یا امی کی سینہ زوری ،کچھ بھی کہہ لیں مگر ان کی پارٹی ہی گھر میں سب سے مضبوط پارٹی ہے۔۔۔ اور ان کے پاس کئی ثبوت ہیں ۔۔مثلا ان پارٹی ایک سیاسی پارٹی ہی نہیں ایک احیائی تحریک ہے۔ہر مشکل وقت میں پہلا اور آخری ساتھ انہی کی طرف سے مستحقین و متاثرین کے لیے ہوتا ہے۔۔۔ اور ان کا کہنا ہے کہ “مانو نہ مانو حل صرف ۔۔۔۔۔۔امی کے اس دعوے نے خاص کر مجھ پر اتنا اثر چھوڑا ہے کہ اب تو مجھے بھی لگتا ہے کہ میرے ETEA کا حل بھی صرف انہی کے پاس ہے۔۔۔

یہ سوچتے سوچتے جب گھر پہنچی تو گھر میں بھی کچھ اسی قسم کے حالات تھے بھائی ،بہن سب موبائل میں پوڈ کاسٹ سن رہے تھے کوئی سراج الحق صاحب کا ،کوئی سینیٹر مشتاق کا اور کوئی خالد محمود صاحب کو سن رہے تھے۔۔۔اور باری باری تمام پارٹیوں کے۔لیڈرز کو سن رہے تھے ۔۔۔پوچھنے پر بتایا گیا کہ وہی ۔۔۔ حل صرف جماعت اسلامی والا قصہ۔۔۔۔ ٹھپہ صرف ترازو پہ لگانا ہے تو خود کو شعوری طور پر تیار کر رہے ہیں۔۔۔ تو میں بھی امی کے پاس ہی پلٹ گئی ڈھیر ساری شکوک وشبہات کو دور کرنے ۔۔۔ پتہ ہے وہ کچھ ذیادہ نہیں دو چار ہی بول دیتی ہیں تو بندی اپنی تمام دعووں اور اصولوں کو بھول جاتی ہے ۔۔خوشی کی بات ہو یا پریشانی کی، بتانے کی حقدار ہمیشہ سے والدہ ہی رہی ہے۔ ہمیشہ سوچتی تھی کہ اپنی پہلی کمائی بھی انہی کے ہاتھ میں دوں گی۔اب سوچا تو ووٹ کا اختیار کیوں نہیں ۔۔۔۔یوں اپنا پہلا ووٹ (قرآنی آیات پڑھ کے دم کرکے اور اس دعا کے ساتھ کہ الہی میری یہ گواہی، میری یہ سفارش قبول کر لے) بھی امی کے لیے ان کے نظریے کو دے کر اپنے دل کو مطمئن کر لیا۔۔۔ کافی خوشی محسوس ہو رہی ہے۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامین
85210

سکالر شپ اور عزت نفس ۔ گل عدن چترال

سکالر شپ اور عزت نفس ۔ گل عدن چترال

رائی کا پہاڑ بننا کس کو کہتے ہیں یا بات کا بتنگڑ کیسے بنایا جا سکتاہے یہ ہمیں انہی دنوں سمجھ میں آیا جب ایک فلاحی ادارے سے وصول کی گئ چیک طالب علم کی جانب سے واپس کرنے کا عمل یا واقعہ بلکہ سانحہ رونما ہوا۔مذکورہ ادارے کے معززین کا غم و غصہ تو سمجھ میں آتا ہے اور جائز بھی لگتا ہے لیکن غیر متعلقہ عوام کا سوشل میڈیا پر شدید ردعمل دیکھنے کے بعد میں قلم اٹھانے پر اور اس معاملے کو سانحہ لکھنے پر مجبور ہوں۔مجھے اندازہ نہیں ہے کہ کوڑا دان سے چیک کو سوشل میڈیا پر پہنچانے والا پہلا شخص کون ہے؟اسکے کیا مقاصد ہیں؟آپکی نظر میں چیک واپس کرنے والا ایک جذباتی جوان ادارے کا دشمن ہے جبکہ میری نظر میں اس واقعے کو سوشل میڈیا پر اچھالنے والا نہ صرف اس ادارے کا دشمن ہے ،پورے علاقے کا بلکہ انسانیت کا دشمن ہے۔پچھلے کچھ دنوں سے وہ بچہ جس نے چیک نجانے کن “وجوہات” کی بناء پر واپس کیا تھا’مسلسل تنقید برائے تنقید کی زد پر ہے.آخر کیوں؟؟

 

ہمارے عظیم چترالی عوام کی عدالت میں بحث برائے بحث سے ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ چیک کا واپس کرنے سے زیادہ متعلقہ شخص کا اپنی عزت نفس کی پاسداری کا مطالبہ اس عظیم عدالت کو زیادہ ناگوار گزرا ہے۔لہذا مجرم کو ذلت کا نشانہ بنا کر عدالت یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ عزت کا حقدار صرف پیسے والا اور پیسے بانٹنے والا ہے۔جبکہ پیسہ لینے والا چونکہ ضرورت مند ہے،محتاج ہے لہذا ایک غریب کی کوئی عزت وغیرہ نہیں ہوتی لہذا ایک عوام کی عدالت اس بات پر چراغ پا ہے کہ ضرورت مند کی جب عزت ہی نہیں ہوتی تو عزت نفس مجروح کیسے ہوئی؟؟؟؟کتنی مضحکہ خیز لڑائی ہے خود عوام کے ہاتھوں۔۔یہی رویہ ہے جو احسان کو کرنے والے کے لئے بھی اور لینے والے کے لئے بھی مشکل بناتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہمارے معاشرے میں احسان لینا وہ بھی باقاعدہ تشہیر کے ساتھ ابھی تک آسان نہیں ہوسکا۔اور نہ ہی کھبی ہوسکے گا۔میں ان فیس بک صارفین سے اتنا پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا واقعی مشکل وقت میں کسی سے مدد لینے کے بعد آپکی بے عزتی کا حق پوری دنیا کو مل جاتی ہے؟ آخر کیوں؟؟کیا یہی ہے انسانی ہمدردی؟؟

 

کیا اسلام نے ایسے احسان کی اجازت دی ہے؟؟جسکے جو منہ میں آرہا ہے بولے جارہا ہے۔ بغیر سوچے سمجھے کہ آیا ہمارے اس معاملے میں کوئی لینا دینا ہے کہ نہیں۔حقائق جانے بغیر ‘تصدیق کیے بنا ایک کمزور پر کیچڑ اچھالنا اتنا آسان کیوں ہوگیا ہے ہمارے لئے؟؟ستر فیصد لوگ نہ تو ہدایت اللہ صاحب کو ذاتی طور پر جانتے ہیں نہ ہی اس بچے کو جس نے چیک واپس کیا ہے لیکن ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی ایک کی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں ‘دوسرے کو مسلسل بے جا تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔افسوس کا مقام ہے کہ میرے چترالی بہن بھائی صرف مردوں کو رونے کے لئے اور زندوں کو رلانے کے لئے زندہ ہیں۔اس تنقید برائے تنقید میں آپ شاید بھول گئے کہ گزشتہ سال چترال میں خودکشی کا تناسب کیا رہا؟؟؟کیا آپ نہیں جانتے کہ چترال میں ہر عمر کے مرد اور خواتین ذہنی امراض خاص طور پر ڈپریشن کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔ کیا خودکشی اور منشیات کی بڑھتی ہوئی ریشو سے آپکو اندازہ نہیں ہوتا کہ ہمارے رویے زہریلے ہوچکے ہیں۔ایک دوسرے کی معاملات میں بے جا دخل اندازی سے ہماری زندگیاں حرام ہوچکی ہیں۔کیا ہم صرف انسانی ہمدردی کی خاطر اپنے کام سے کام نہیں رکھ سکتے؟؟؟

 

کیا ہم کسی کی زندگی کی خاطر اپنی بے لگام زبانوں کو لگام نہیں ڈال سکتے؟؟؟ کیا ہم صرف ایک دوسرے کو اذیت دینے کے لئے باقی ہیں؟مختصرا میں اپنے چترال کے بے حس عوام سے اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ اول بات تو یہ کہ پچھتر ہزار روپے کسی کی ذہنی صحت،کسی کی عزت اور زندگی سے زیادہ اہم نہیں ہیں۔دوسری بات یہ کہ یہ ادارہ آپکے پیسوں سے نہیں چل رہا لہذا بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانے کا کردار نبھانے سے جتنا ممکن ہو سکے ‘باز رہیں۔

اور جہاں تک بات ادارے کی ہے تو یقینا روز جیسے ادارے اور اسکے سربراہ ہدایت اللہ صاحب جیسے لوگ بلا شبہ ہمارا فخر اور ہماری خوش قسمتی ہیں۔ایسےلوگ نہ صرف قابل ستائش ہیں بلکہ قابل تقلید بھی ہیں۔ایسے ادارے کی تحفظ اور ترقی کے لئے ہر صاحب استطاعت فرد کو عملی طور پر تعاون کرنے کی ضرورت ہے سو ہے لیکن ادارے کو اپنی تحفظ کے لئے کچھ شرائط و ضوابط لاگو کرنے چاہئے۔پس پردہ حقائق کیا ہیں ہم نہیں جانتے شاید ادارے کے تحفظ کو وہ تمام خطرات درپیش ہیں جنکا ذکر بارہا کیا گیا۔گمان آرائیاں سچ بھی ہوسکتی ہیں غلط بھی ۔اگر دلائل کیساتھ اپنا دفاع کرتے تو معاملہ واضح ہوجاتا۔لیکن چونکہ ایسا کچھ دیکھنے میں نہیں آیا اس لیے ادارے کے طریقہ کار پر سوال اٹھتا ہے۔سکالر شپ وصول کرنے والے افراد کو کم از کم اتنی معلومات ہونی چاہیے کہ انکا شجرہ نسب انکا نام پتہ تصویر کہاں کہاں اور کیسے استعمال کی جائیگی۔ادارے کو اپنے شرائط و ضوابط پہلے سے ہی واضح کردنیے چاہیے۔تاکہ بعد میں اس طرح کی صورت حال پیدا نہ ہو۔اور ایسی صورت حال میں ادارے کو خود اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اپنے اصول طے کرکے انہی کے مطابق کاروائی ہونی چاہئے نہ کے عوام کی عدالت لگادی جائے۔

 

ہم ادارے کی تشہیری مہم پر انگلی نہیں اٹھائیں گےاور آپ سے اتفاق کرتے ہیں کہ موجودہ وقت ایسا چل رہا کہ فلاحی کاموں کی تشہیر کرنا لازمی ہوگیا ہے تاکہ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی زیادہ سے زیادہ لوگ ایسے کاموں میں حصہ لیں۔اور ایک فلاحی معاشرہ قائم ہوسکے لیکن اللہ کے احکامات میں کتنی مصلحتیں ہوتی ہیں یہ انسان نہیں سمجھ سکتا لیکن حالیہ واقعہ سے اتنا تو ثابت ہو گیا ہے کہ کیوں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نیکییوں کو چھپا چھپا کر کرنے کی تلقین کی ہے۔ضرورت صرف اس بات کو سمجھنے کی ہے کہ اگر معاشرے میں احسان کرنے والے کی عزت ہے تو احسان لینے والے کی بھی اتنی ہی عزت ہے۔لیکن اگر غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو ہمارا معاشرہ احسان کی استطاعت رکھنے والوں کو خدا سمجھنے لگتا ہے اور احسان لینے والوں کو کیڑے مکوڑے سمجھتا ہے۔اس کا ثبوت یہی واقعہ ہے۔مجھے افسوس اس بات پر ہے کہ ہمارا معاشرہ ایک چور’ ڈاکو،موٹر وے کیس جیسے مجرموں،منشیات فروشوں،سمگلروں جعلی پیروں کو باعزت بری کرتی ہے اور میڈیا پر انکے چہروں پر نقاب ڈال کر پیش کرتی ہے تو چندہ واپس کرنے والے “مجرم ” کی تذلیل کی اجازت کیونکر دیتی ہے؟؟

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
84589

فریضہ اقامتِ دین – از قلم :کلثوم رضا

فریضہ اقامتِ دین – از قلم :کلثوم رضا

پہلا حصہ:دستک

فرحین ۔۔۔۔ فرحین بیٹا ذرا دیکھنا دروازے پر کون ہے۔۔۔ دستک پہ دستک دئے جا رہی ہے۔ امی نے فرحین کو آواز دی ۔”جی امی” کہہ کر فرحین دروازے کی طرف گئی۔تھوڑی دیر بعد وہ اور اس کی سہیلی فائزہ کسی بات پر بحث کرتے ہوئے اندر آئے ۔

اسلام علیکم و رحمۃ الله خالہ جان کیسی ہیں۔۔ فائزہ اندر آتے ہی فرحین کی امی کو مخاطب کرکے کہا۔
امی: وعلیکم السلام ورحمتہ الله وبرکاتہ فائزہ بیٹی! الحمدللہ ٹھیک ٹھاک۔۔۔ اپ سناؤ ۔۔ کیسی ہو۔۔ اور آپ کی امی، باقی گھر والے سب خریت ہے نا؟
فائزہ: جی خالہ! الحمدللہ سب خریت ہے۔امی بھی ٹھیک ہیں بس تھوڑا گھر کے کاموں میں زیادہ مصروف رہتی ہیں۔
کیوں تم ان کا ہاتھ نہیں بٹاتی؟ فرحین درمیان میں بول پڑی۔۔

فائزہ: کیوں نہیں جب گھر میں ہوتی ہوں تو بٹاتی ہوں۔ لیکن آجکل ساری گھر داری امی پر آن پڑی ہے۔ کیونکہ ہم تینوں بہنوں کو انہوں نے تحریک سے جوڑا ہے۔ اور روزانہ کی بنیاد پر اپنے حصے کا کام کرنے کی تلقین کر کے گھر سے نکالتی ہیں اور خود اکیلے گھر سنبھال لیتی ہیں۔
فرحین: تمہیں بھی تو گھر میں ٹکنا کب پسند ہے۔۔۔ تمہیں تو گھر سے نکلنے کے لیے بہانہ چاہیئے بس، اور آج مجھے بھی ورغلانے آئی ہو۔۔ فرحین نے چھیڑنے کے انداز میں اس کے آنے کا مقصد بیان کیا۔

فرحین کی امی: (مسکراتے ہوئے)اچھا۔۔ وہ کس طرح ؟
فرحین: خود پوچھ لیں امی اس محترمہ سے۔۔۔

فائزہ: دیکھیے خالہ میں ورغلا نہیں رہی اسے دعوت دے رہی ہوں کہ “میرے ساتھ آئے مجھے چند گھروں میں دستک دینے جانا ہے۔۔
فرحین: یہ کونسا مشکل کام ہے؟ یہ کام تم خود بھی کر سکتی ہو۔۔۔ جلدی جلدی چند دروازوں پر دستک دے انا۔
فائزہ: تم نہیں سمجھو گی۔۔
فرحین: تو سمجھا دو بھئی۔۔ فرحین جھٹ سے اس کے سامنے دوزانو ہو کر بیٹھ گئی۔۔
فائزہ: دستک کا مطلب صرف دروازے پر کھٹکھٹانا نہیں ہے۔

فرحین: پھر؟
فائزہ: اس کا مطلب یے لوگوں کے دروازوں پر کھٹکھٹانا، ان کے گھروں میں جانا، انکے دلوں میں دستک دے کر انہیں جھنجھوڑنا ،اس بات پر کہ وہ اپنے مقصد وجود کو پہچانیں، اپنے خلیفتہ الارض ہونے کا حق ادا کریں۔ اس دار فانی میں کھو کر نہ رہ جائیں۔ ان کے حصے کا رزق کوئی ان سے نہیں چھین سکتا۔ وہ وہی کھائیں گے جتنا ان کے مقدر میں لکھا ہے، وہی پہنیں گے جسے الله تعالیٰ نے ان کے لیے مختص کیا ہے ان کے دنیا میں آنے کا مقصد صرف یہاں رہنا، کھانا پینا اور اوڑھنا پہننا نہیں ہے ان کا کام خلیفتہ الارض ہونے کے ناطے الله کی زمین پر الله کا نظام قائم کرنا ہے۔ یا کم از کم اس کام کے کرنے والوں کا ساتھ دینا ہے۔ فائزہ یہ بتاتے ہوئے جذباتی ہو رہی تھی۔
فرحین: اور کتنا کریں یہ کام ۔۔کل ہی تو تم بتا رہی تھی کہ فلاں فلاں جگہوں پر خواتین کو آگہی دی، انہیں سمجھایا، انہیں بتایا کہ “مرد ہو یا خاتون اسے دنیا میں ویسے ہی نہیں بھیجا گیا ہے بلکہ ایک خاص مقصد کے لیے، خاص اہتمام کے ساتھ بھیجا گیا ہے۔ اور اب وہ ہمیشہ کے لیے اسی کی بجا آوری پر مامور ہے۔ کہیں خدانخواستہ وہ اس عہدے کی پاسداری نہیں کرے گا تو اس سے سخت پوچھ گچھ ہو گی۔”
تو کیا وہ سارے درس و بیان سب بے کار گئے ۔۔۔کسی کو یاد نہیں؟

فائزہ: میں کب کہہ رہی ہوں ۔۔بےکار گئے ۔۔یا لوگ بھول گئے۔ صرف انہیں پھر سے یاد دلانا ہے کہ انتخابات میں چند دن باقی رہ گئے ہیں اس لیے آپ اپنا حق رائے دہی کے ذریعے دیانتدار اور امانتدار لوگوں کا انتخاب کریں۔ ایسے لوگوں کا انتخاب کریں جن کا ماضی بے داغ ہو ۔۔ان پر کوئی بد عنوانی کا کیس نہ ہو۔۔جو الله کی زمین پر الله کا نظام نافذ کرنا چاہتے ہوں۔۔ جو قرآن و سنّت پر عمل پیرا ہوں۔۔۔۔۔ اسی یاد دہانی کے لیے ہمیں ان کے گھروں کے دروازوں پر، ان کے دلوں، دماغوں پر دستک دینا ہے۔ اور ایک بار نہیں، دو بار نہیں، تین بار نہیں بلکہ دس بار جانا ہے۔

فرحین: اچھا اچھا میں سمجھ گئی۔۔۔ ان کے دروازوں دلوں، دماغوں میں دس تک دستک دینا ہے ۔۔۔ فرحین مسکراتے ہوئے کہا۔
فائزہ: شاباش میری پیاری بہن اور ایمان کی ساتھی اب جلدی سے اٹھو اور عبایا پہن کر نکلو میرے ساتھ۔
فرحین: امی جاؤں ؟
امی: جی بیٹا!

 

كُنۡتُمۡ خَيۡرَ اُمَّةٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَتَنۡهَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡكَرِ وَتُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ‌ؕ

شاباش دونوں جاؤ اور اپنے حصے کا کام کرتے رہو۔ اور ہاں! آکر مجھے اپنی کارگزاری ضرور سنانا۔
فرحین عبایا پہنتےہوئے” ٹھیک ہے امی” کہہ کر فائزہ کے ساتھ ہولی۔۔۔#

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
84424

دو ریاستی حل کی اصلیت ۔ غزالی فاروق

Posted on

دو ریاستی حل کی اصلیت ۔ غزالی فاروق

 

آجکل پاکستان کی وزارت خارجہ اور وزیر اعظم انور کاکڑ صاحب اسرائیل و فلسطین کے حوالے سے “دو ریاستی حل ” کی بھرپور وکالت کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اسی طرح ہمارے سپہ سالارجنرل حافظ عاصم منیر صاحب بھی اپنے امریکہ کے دورے پر نیو یارک میں فلسطین کی مبارک سر زمین پر دو ریاستی حل کو اس کا پائیدار حل قرار دیتے ہیں۔

 

جہاں تک ہمارے وزیر اعظم صاحب کی بات ہے تو وہ یہ کہتے ہیں کہ قائد اعظم کے اسرائیل کو امریکہ کی ناجائز اولاد قرار دینے اور اسے تسلیم نہ کرنے کے سیاسی موقف سے ہٹ کر کوئی اور سیاسی موقف اختیار کرنا کوئی کفر کی بات نہیں ، بلکہ محض ایک سیاسی رائے میں اختلاف ہے۔ کاکڑ صاحب شاید یہ بات بھول گئے ہیں کہ اسلام کی سرزمینوں سے متعلق اسلام کا بھی ایک حکم ہے، جو کہ یہ ہے کہ جب کفار مسلمانوں کی سرزمین پر چڑھ دوڑیں تو مسلمانوں پر فرض ہے کہ ان سے لڑیں اور انہیں اپنی سرزمین سے باہر دھکیلیں۔ اور باقی مسلمانوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کفار کے ساتھ مل کر ا س سرزمین پر سودے بازی کرتے پھریں جبکہ اس سرزمین کے باسی خود شکست تسلیم کرنے سے انکار ی ہوں اور اپنی مزاحمت بدستور جاری رکھے ہوئے ہوں۔ ایسا کرنا یقیناً ان مسلمانوں کے ساتھ کھلی غداری ہے۔

 

جہاں تک اس سلسلے میں دو ریاستی حل کی حیثیت کا تعلق ہے جسے ہمارے سپہ سالار بھی ایک پائیدار حل قرار دیتے ہیں تو یہ جاننا چاہیئے کہ نہ تو یہ ایک اسلامی حل ہے ، نہ یہ حل کسی درست سیاسی فہم پر مبنی ہے اور نہ ہی یہ حل مسلمانوں کی جانب سے تجویز کیا گیا تھا بلکہ اصلاً یہ حل کفار کی جانب سے صیہونیوں کو اس سرزمین میں بسانے کے لیے تجویز کیا گیا تھا۔ برطانیہ نے آغاز میں یورپ کی یہودی برادری کے ساتھ گفت و شنید کر کے ان کے حق میں ایک حکم نامہ جاری کیا تھا کہ وہ فلسطین کی سرزمین پر یہودیوں کے لیے ایک قومی گھر (“national home”) قائم کر کے دے گا۔یہ بیلفور حکم نامہ (Balfour Declaration) تھا۔ خلافت کے انہدام اور فلسطین پر قبضہ کر لینے کے بعد برطانیہ نے فلسطین پر اپنا مینڈیٹ قائم کیا اور یہودی برادی کے ساتھ اپنے کیے گئے اس وعدے کو پورا کرنا شروع کیا۔ برطانیہ کا خیال تھا کہ جب وہ اس علاقے سے نکلے گا تو پیچھے اپنا سیکولر ریاستی ڈھانچہ چھوڑ کر جائے گا جس میں مسلمان اور یہودی مل کر اپنی ایک مخلوط سیکولر حکومت قائم کرلیں گے ۔ لیکن جلد ہی مسلمانوں اور یہودیوں کے مابین جھڑپوں کے سلسلے کا آغاز ہو گیا۔باہر سےآ کر بسنے والے یہودیوں کی تعداد میں اضافے نے مقامی فلسطینیوں کے لیے بہت سے مسائل کو جنم دیا جن میں سے ذراعت اور بے روزگاری کے مسائل سب سے اہم تھے۔حالات کو اپنے قابو میں اور مسلمانوں کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے برطانیہ نے وقتاً فوقتاً اپنی جانب سے پالیسیاں جاری کیں جن میں یہ اعادہ کیا گیا کہ بیرون ملک سے آ کر بسنے والے نئے یہودیوں کی تعداد میں کمی لائی جائے گی، لیکن حقیقت میں سلسلہ اس کے برعکس جاری رہا۔سب سے پہلے مئی 1921 ء کے ہنگاموں کے نتیجہ میں اس وقت کی برطانوی کالونیوں کے اسٹیٹ سیکریٹری ونسٹن چرچل کی جانب سے جون 1922ء میں ایک وائٹ پیپر جاری کیا گیا جسے “فلسطین میں برطانوی پالیسی” بھی کہا جاتا ہے۔اسی طرح اگست 1929ء کے ہنگاموں کے نتیجہ میں پہلے شوا کمیشن(Shaw Commission) تشکیل دیا گیا، پھر ہوپ سمپسن انکوائری (Hope Simpson Enquiry) کمیشن اور پھر انہی کمیشنز کی رپورٹس کی بنیاد پر اکتوبر 1930ء میں پاس فیلڈ وائٹ پیپر (Passfield Whitepaper) جاری کیا گیا جس میں ایک بار پھر نئے یہودیوں کی آمد میں کمی لانے کا اعادہ کیا گیا ۔ یہودی برادری نے 1922ء کے پالیسی پیپر کی طرح اس پالیسی پیپر کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کیا اور قانونی اور غیر قانونی طور پرنئے یہودیوں کی آمد کے سلسلے کو بدستور جاری رکھا۔

 

1930ء کی دہائی میں یورپ میں یہودی مخالف رجہانات پیدا ہونے کے بعد پولینڈ اور مشرقی یورپ میں یہودیوں پرہونے والے ظلم و ستم کے نتیجے میں یورپ چھوڑ کر فلسطین آ کر آباد ہونے والے یہودیوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ باہر سے آ کر بسنے والے یہودیوں کی تیز رفتاری سے بڑھتی ہوئی آبادی کے نتیجے میں فلسطین کے مسلمانوں کو درپیش مسائل میں بھی تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا، یہاں تک کہ فلسطین کے مسلمانوں کو اپریل 1936ء میں عام ہڑتال کا اعلان کرنا پڑا ۔ یہ ہڑتال چھ ماہ تک مسلسل جاری رہی اور پھر تین سالہ خانہ جنگی میں تبدیل گئی جو اگست 1939ء تک جاری رہی۔ اس دوران برطانیہ نے نومبر 1936ء میں پہلے کی طرح ایک اور کمیشن تشکیل دیا جسے یہ کام سونپا گیا کہ وہ یہودی مسلم جھڑپوں کی وجوہات پر غور کر کے کوئی مستقل حل تجویز کرے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ دو ریاستی حل کی جس نے بات رکھی وہ یہی کمیشن تھا جسے برطانیہ کے لارڈ پیل کے نام پر پیل کمیشن (Peel Commission) کہا گیا ۔اس کمیشن نے جولائی 1937ء میں اپنی رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا کہ لیگ آف نیشنز کی جانب سے منظور شدہ مینڈیٹ اب مزید کار آمد نہیں رہا اور فلسطین کی تقسیم اب ناگزیر ہے۔ اس نے ایک نقشہ تجویز کیا جس میں فلسطین کی سرزمین کا شمال مغربی علاقہ یہودیوں کے لیے مختص کیا اور باقی کا تمام علاقہ مسلمانوں کے لیے رکھا جبکہ القدس (یروشلم ) کا علاقہ برطانوی مینڈیٹ میں برقرار رکھا۔

israel plastine

 

فلسطین کے مسلمانوں نے اس کمیشن کی رپورٹ کی بھرپور مخالفت کی اوراپنی سرزمین پر کسی بھی صیہونی ریاست کے قیام کو مکمل طور پر رد کیا۔ لیکن برطانیہ نے دو ریاستی تقسیم کی اس تجویز کا مزید تفصیل سے جائزہ لینے کے لیے فروری 1938ء میں ووڈہیڈ کمیشن (Woodhead Commission) کے نام سے ایک ٹیکنیکل کمیشن تشکیل دیا ، جسے پارٹیشن کمیشن (Partition Commission) بھی کہا گیا تا کہ نا صرف مجوزہ ریاستوں کی سرحدوں کا تعین کیا جا سکے بلکہ اس منصوبے کے اقتصادی پہلوؤں پر بھی غور کیا جا سکے۔ اس کمیشن نے نومبر 1938ء میں اپنی رپورٹ پیش کی جس میں تین مختلف نقشے پیش کیے گئے ۔ دو ریاستی تقسیم پر مبنی ان تمام نقشوں میں بھی القدس (یروشلم ) کے علاقے کو برطانوی مینڈیٹ میں برقرار رکھا گیا۔ کیونکہ یہ وہ علاقہ تھا جس کو اگر کسی ایک فریق کو دے دیا جاتا تو دوسرا فریق اسے کبھی بھی قبول نہ کرتا اور ایسی کسی قسم کی تجویز پہلی فرصت میں ہی کارآمد نہ ہوتی۔ لیکن برطانیہ یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ طویل المدتی بنیادوں پر اسے فلسطین میں اپنی براہ راست موجودگی کو برقرار رکھنا پڑے۔یہ وہ وقت تھا جب برطانیہ، کالونیل ازم سے نیو کالونیل ازم (neo-colonialism) کی جانب بڑھ رہا تھا ۔ پوری دنیا میں اس وقت برطانوی پالیسی یہی تھی کہ وہ اپنی تمام کالونیوں میں اپنا قائم کردہ سیکولر ریاستی ڈھانچہ چھوڑ کر چلا جائے اور پھر اپنی تربیت یافتہ بیوروکریسی اور اپنے ایجنٹ حکمرانوں کے ذریعے ان علاقوں کو اپنے مفادات کے مطابق چلاتا رہے۔لہٰذا ، برطانیہ نے ان کمیشنز کے پیش کردہ دو ریاستی حل میں درپیش عملی نوعیت کی سیاسی، انتظامی اور اقتصادی مشکلات کی بنا پر اس حل کو غیر موزوں قرار دیا ۔

 

برطانیہ نے مئی 1939ء میں ایک وائٹ پیپر جاری کیا جس میں یہ اعلان کیا کہ وہ دس سال کے عرصے کے اندر اندر فلسطین سے نکل جائے گا اور اس دوران ایک ایسا ڈھانچہ قائم کر کے جائے گا جس کے مطابق فلسطین میں عربوں اور یہودیوں کی ایک مشترکہ ریاست قائم ہو سکے گی جس میں دونوں فریق مل کر ایک حکومت قائم کریں گے اور یوں اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کر سکیں گے۔ اس وائٹ پیپر میں یہ بھی کہا گیا کہ باہر سے آ کر بسنے والے یہودیوں کی ایک خاص تعداد پوری ہونے پر مزید یہودیوں کو اس صورت میں آنے دیا جائے گا اگر فلسطین کی عرب اکثریت اس کی اجازت دے گی ۔ پھر اس میں یہودیوں پر فلسطین میں ایک مخصوص فیصد سے زائد زمین خریدنے پر بھی پابندی عائد کی گئی۔ اس سب کے ذریعے برطانیہ فلسطین کے عربوں سمیت ہمسایہ عرب ممالک میں بھی اپنا ایک اچھا سیاسی تصور چھوڑ کر جانا چاہتا تھا تا کہ عرب ممالک کے حکمران برطانوی کیمپ میں ہی رہیں اور اسے چھوڑ کر سوویت یا امریکی کیمپ میں نہ چلے جائیں اور ان کی عوام برطانیہ کے بارے میں ایک اچھی رائے قائم کریں اور یوں اس خطے سے چلے جانے کے بعد بھی برطانیہ اس خطے سے جڑے اپنے مفادات بدستور حاصل کر تا رہے۔

 

لیکن صیہونی برادری کو 1939ء کا یہ وائٹ پیپر ایک آنکھ نہ بھایا۔ ڈیوڈ بن گریون (Davin Ben-Gurion) جو اس وقت فلسطین کی یہودی برادری کی قیادت کر رہا تھا، اس نے برطانیہ کے ساتھ ہونے والی اس وائٹ پیپر سے متعلقہ گفت و شنید میں برطانیہ کے فیصلے کو بھانپتے ہوئے یہ عندیہ دے دیا تھا کہ وہ اب اپنے مقاصد کے حصول کے لیے برطانیہ کی بجائے امریکہ کا رخ کرنے جا رہا ہے۔ ان مقاصد میں یہودیوں کی فلسطین میں بڑے پیمانے پر آمد کے ساتھ ساتھ وہاں پر ایک صیہونی ریاست کا قیام بھی تھا۔ امریکہ اس وقت دنیا کے مختلف ممالک میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کے مواقع ڈھونڈ رہا تھا اور اس کے لیے برطانیہ کے پہلے سے قائم شدہ اثر و رسوخ کو کمزور کرنا ضروری تھا۔ امریکہ نے یہ موقع غنیمت جانتے ہوئے صیہونی موقف کی بھرپور تائید کی اور یوں مشرق وسطیٰ میں بالعموم اور فلسطینی سرزمین میں بالخصوص امریکی اثر و رسوخ کا آغاز ہوا۔ امریکہ نے برطانوی موقف کے برخلاف یہودیوں کے لیے الگ ریاست کی پشت پناہی کی اور اقوام متحدہ پر دباؤ ڈالوا کر 1947ء میں دو ریاستی حل پر مبنی نقشہ جاری کروایا۔ یہی وہ نقشہ تھا جس کی شہہ پر 15 مئی 1948ء میں برطانوی انخلاء کے ساتھ ہی صیہونیوں نے اپنی ریاست کا اعلان کیا اور فلسطینیوں کو ناصرف ان تمام زمینوں سے باہر دھکیل دیا جنہیں اقوام متحدہ کے نقشے پر “یہودیوں کی ریاست” (Jewish State) کے طور پر دکھایا گیا تھا، بلکہ اس کے علاوہ بھی مزید علاقوں سے فلسطینیوں کو نکال کر ان کے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔

 

آج مسلمانوں کے حکمرانوں کی جانب سے جس” دو ریاستی حل ” کے حق میں بات کی جاتی ہے، اس سے مراد یہودی وجود کے لیے وہ علاقہ تسلیم کر لینا ہے جو 1948 ءسے لے کر 1967 ء تک اس کے زیر تسلط تھا۔ یعنی یہ اس سے بھی زائد علاقہ ہے جس کا نقشہ اقوام متحدہ نے 1947ء کے تقسیم کے منصوبے (UN Partition Plan) میں جاری کیا تھا۔دوسرے الفاظ میں یہ ناصرف اقوام متحدہ کے اس باطل تقسیم کے منصوبے کا اقرار ہے جس میں فلسطین کی سرزمین کا ایک بڑا علاقہ یہودیوں کے لیے مختص کر دیا گیا تھا حالانکہ یہودیوں کی تعداد عربوں سے کہیں کم تھی، بلکہ یہودی وجود کے اس 1948ء میں کیے گئے قبضے کا بھی اقرار ہے جو اس نے ناصرف اقوام متحدہ کے جاری شدہ منصوبے کے مطابق کیا بلکہ اس سے کہیں آگے بڑھ کر مزید علاقے پر بھی کیا اور عربوں کے لیے رہی سہی زمین کو بھی دو حصوں (یعنی مغربی کنارہ اور غزہ) میں ایسے تقسیم کیا کی ان کے درمیان کوئی زمینی رابطہ برقرار نہ رہے پائے اور ان کے درمیان بھی یہودی وجود ہی حائل ہو۔

 

بھلا ظلم پر مبنی ایسی کسی بھی تقسیم کو کیسے قبول کیا جا سکتا ہے جس میں فلسطینیوں کو ان کی زیر ملکیت سرزمینو ں سے نکال باہر کرنا اور ان پر ناجائز قبضے کو مستقل بنیادوں پر تسلیم کرلینا شامل ہو۔ ہمارے حکمرانوں کی جانب سے اس حل کے لیے راگ الاپنا ان کی امریکہ کے لیے چاکری اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ یہ امریکہ ہی ہے جو آغاز سے ہی اس دو ریاستی حل کا اصل سرغنہ ہے اور مسلم ریاستوں کی جانب سے ناجائز صیہونی ریاست کو منوا کر اس مسٔلہ کو دبا دینا چاہتا ہے۔ جبکہ اس مسٔلہ کا اصل حل فلسطین میں ایک اسلامی ریاست ہے جس میں یہودیوں کو ریاست کے شہری ہونے کی حیثیت تو حاصل ہو سکتی ہے لیکن حکمرانوں کی نہیں۔ یہی وہ صورتحال ہے جو کم و بیش تیرہ سو سال تک رہی جب یہ علاقہ اسلامی ریاست خلافت کا حصہ تھا اور اس میں مسلمان، یہودی اور عیسائی امن کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے اور انہیں اسلام تلے اپنا وہ تمام حقوق حاصل تھے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ قرآن و سنت میں اہل کتاب کے لیے مقرر کیے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
83732

عظیم نعمت- تحریر:کلثوم رضا

عظیم نعمت – تحریر:کلثوم رضا

 

*درد کی دو ہی دوائیں ہوتی ہیں
باپ ہوتے ہیں مائیں ہوتیں ہیں*

بلا شبہ والدین ہی دنیا میں ایسی عظیم ہستیاں ہیں کہ جن کے اولاد پر بے شمار احسانات ہیں۔ اگر کوئی شخص ساری زندگی اپنے والدین کی خدمت کرکے ان احسانات کا بدلہ دینا چاہے تب بھی والدین کا حق ادا نہیں کر سکتا۔
والدین الله تعالیٰ کی عظیم نعمت ہیں۔انہوں نے اپنی جوانی ،اپنی خوشیاں اپنی اولاد کی خاطر قربان کی ہوتیں ہیں۔ اپنی اولاد کے لیے ہر لمحہ فکر مند اور دعا گو رہنے والی ان ہستیوں کو دم مرگ تک انکی اولاد بچے نظر آتے ہیں۔

 

میری اس عمر ( یعنی دادی، نانی بننے کی عمر )میں بھی طبیعت اگر خراب ہو جائے تو میری امی اپنے گھر میں پریشان ہوتی ہیں اور تو اور کھانا اگر نہ کھاؤں تب بھی سب ماجرا خواب میں دیکھتی ہیں۔ ابھی چند دن پہلے میں اپنے مرحوم والد صاحب کی یاد میں کافی پریشان اور بے چین رہی تو صبح سویرے سات بجے امی کا فون ایا پوچھا”بیٹا طبیعت ٹھیک ہے، بچے سب خریت سے ہیں، ساری رات خواب میں اپ ہی کو دیکھا “اور وہ ساری باتیں سنا ڈالیں جو مجھ پہ گزری تھیں۔ میں حیران تو نہیں ہوئی کیوں کہ یہ معمول ہے کہ ہم بہن بھائیوں کو جب بھی کوئی مسئلہ ہوتا ہے ہم امی سے چھپا بھی لیں تو ان کی دلی کیفیت انہیں بتا دیتی ہے کہ یقیناً کچھ ہوا ہے میرے بچوں کے ساتھ۔ میں نے کہا نہیں امی بس ابو کی بہت یاد آ رہی تھی اور میں کچھ پریشان ہو گئی تھی تو اگلی صبح ملنے آکر میرے گھر کو رونق بخشی۔ میرے اور بچوں کی اصرار پر چند دنوں کے لیے رک گئیں۔ لمحہ لمحہ ان کو میرا اور بچوں کا خیال رہتا ہے۔ مجھے کہتی ہیں بیٹی سکول پڑھانے جاتی ہو ذرا یہ میرا شال اوڑھ لو یا میری بنیان پہن کر جاؤ میں ویسے بھی گھر میں ہوتی ہوں مجھے سردی نہیں لگتی۔۔۔ جب میں سکول سے واپس آجاؤں تو میری بیٹیوں سے کہتی ہیں اس کے لیے جلدی سے کھانا لگاؤ بیچاری صبح کی گئی ہے۔ اٹھتے بیٹھتے دعائیں دیتی ہیں۔ شاید اسی محبت و شفقت کے عوض الله تعالیٰ نے اپنی توحید کے بعد والدین سے حسن سلوک کی تاکید کی ہے۔ ماں کے قدموں کے نیچے جنت رکھ دی تو باپ کو جنت کا دروازہ قرار دیا۔

 

سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر 23,24 میں الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ
ترجمہ:اور تیرے رب نے حکم دیا ہے کہ بجز اسی کے کسی کی عبادت نہ کرو اور تم اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو۔ اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں کے دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو کبھی ہاں سے ہوں بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیے جیسا انھوں نے بچپن میں مجھ کو پالا پرورش کیا۔
اس آیت مبارکہ میں والدین کے ساتھ خصوصاً اس وقت حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے جب وہ بڑھاپے کو پہنچ جائیں کیونکہ اس عمر میں انسان عموماً چڑچڑا ہو جاتا یے۔ یاداشت صحیح نہیں رہتی۔ اس کی طبیعت میں بے چینی اور بے قراری پیدا ہوتی جاتی ہے۔ خوراک بھی بالکل چھ مہینے کے بچے جتنی لیتے ہیں لہٰذا والدین کو اس وقت اولاد کی طرف سے اچھے رویے کی ضرورت یوتی ہے۔

 

محسن انسانیت صلی الله علیہ وسلم نے والدین کی اہمیت و عظمت کو یوں بیان فرمایا ہے
“جو نیک اولاد اپنے والدین کو محبت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو الله تعالیٰ اس نظر محبت پر اس کے لیے مقبول حج کا ثواب لکھ دیتا ہے۔”
“والدین پر خرچ کرنے کی وجہ سے الله تبارک وتعالیٰ اس اولاد کے رزق میں وسعت فرما دیتا ہے۔”
“تمہیں اپنے ضعفاء کی وجہ سے رزق دیا جاتا ہےاور انہی کی وجہ سے تمہاری مدد کی جاتی ہے۔”
(ترمزی شریف)

احادیث مبارکہ کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ گناہوں میں جس گناہ کو الله تعالیٰ چاہے آخرت تک مؤخر کر دے گا لیکن والدین کے ساتھ بد سلوکی اور بد تمیزی کی سزا الله تعالیٰ دنیا میں ہی دے گا اور جب تک انسان اپنے اس سنگین گناہ کی سزا بھگت نہ لے اس کو موت نہیں آئے گی۔ ماں باپ کے لیے ایذا کا سبب بننے والا شخص چین سے زندگی نہیں گزار سکتا بلکہ کسی نہ کسی پریشانی میں مبتلا ریتا یے۔

 

ماں باپ کی عزت اور خدمت کرنے سے اولاد خدمت گار ہوتی یے۔
یہ سوچ کر ماں باپ کی خدمت میں لگا ہوں
اس پیڑ کا سایہ میرے بچوں کو ملے گا
(منور رانا)

سو میں نے بھی اس موقع کو غنیمت جان کر والدہ صاحبہ کے ساتھ خوب وقت گزارا۔ کچھ یادیں تھیں کچھ باتیں تھیں جنھیں ایک دوسرے کے ساتھ شئیر کیا۔ بہت ساری دعائیں اور نیک تمنائیں ان سے حاصل کیں اور بہت ساری دعائیں ان کے لیے کہ الله تعالیٰ انہیں صحت کاملہ عاجلہ دائمہ نصیب کرے ان کی باقی ماندہ عمر میں برکت ڈالے اور ہم کو ان کی خدمت کا شرف بخشے۔ ان کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر سلامت رکھے، ان کی دعائیں ہی ہمارے گناہوں اور عذاب الٰہی کے بیچ حائل ہوکر عذاب الٰہی سے ہمیں بچاتی ہیں۔ کل شام والدہ محترمہ اپنے بیٹے (میرے بھائی) کے ساتھ خراماں خراماں اپنے گھر چلی گئی اور آج پھر سے ان کی بہت یاد آرہی ہے۔#

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
83536

رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا  – از کلثوم رضا

بسمہ تعالیٰ
رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا  – از کلثوم رضا

 

وہ بچھڑے جس سمے، صبح ہونے کو تھی
ابھی تک اسی صبح کا انتظار ہے مجھے

 

اج میرے پیارے والد محترم کو ہم سے بچھڑے سات سال دس دن گذر گئے لیکن لگتا یے کہ اج بلکہ ابھی ابھی کا واقعہ ہے۔دل گداذ،انکھیں روتی ہیں۔کہنے والے سچ ہی کہتے ہیں کہ والد کی موت کمر توڑ دیتی یے، کیونکہ دنیا میں وہی سب سے بڑا حامی ہوتا ہے۔باپ وہ واحد ہستی ہے جو اپنی اولاد کو خود سے زیادہ کامیاب دیکھنا چاہتا ہے۔مقدس و مضبوط،محافظ و محسن ہے۔یہی وہ ہستی ہے جس کے پسینے کی ایک بوند کی قیمت بھی اولاد ادا نہیں کر سکتی۔غریب سے غریب تر باپ بھی اخری سانس تک اپنی اولاد کی خوشی کے لیے تگ و دو کرتا ہے۔اپنی اولاد کی فلاح وبہبود کے سوچ و فکر میں منہمک رہتا یے۔ہمارے والد صاحب بھی ایسے ہی عظیم باپ تھے۔خود سے بڑھ کر ہمارا خیال رکھتے۔ ہماری چھوٹی بڑی خواہشوں جو پورا کرنے کی کشش کرتے،ہماری رائے کو اہمیت دیتے دوران علالت بھی انھیں لگتا کہ کسی طرح سے میرے بچوں کو کوئی پریشانی نہ ہو۔ان کی نیند خراب نہ ہو،انکا کا کاروبار زندگی متاثر نہ ہو،ہم انکے ساتھ بیٹھ جاتے تو کہتے بیٹا سو جائیں رات ہو گئی۔ اپ کو ٹھنڈ لگ جائے گی، یا رات کو اگر نیند خراب ہو جائے تو دن کو رات جیسی نیند نہیں اتی طبیعت میں تھکن اتی ہے،میں بھی سو جاتا ہوں اپ سو جائیں۔۔۔۔حالانکہ رات دیر تک انھیں نیند نہیں اتی تھی صرف ہمارے لیے یہ سب کہتے۔پھر 18دسمبر 1916 کی ایک رات ہم انکی ان شفقت بھری باتوں سے محروم ہو گئے۔جب باپ اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو لگتا کہ دنیا کی ساری رعنائیاں اپنے ساتھ لے گئے۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ

 

ان کا اٹھنا نہیں ہے حشر سے کم
گھر کی دیوار باپ کا سایہ

 

گھر کی دیوار کی تو کوئی وقعت ہی نہیں ہے لیکن باپ کا سایہ ساتھ نہ رہنا حشر کا ساماں پیش کرتا یے۔لگتا ہیجیسے سر پر چمکتے سورج تھے جو ڈوب گئے اور ہر سو اندھیرا چھا گیا۔یا جیسے تپتی ریت پر قدم پڑ جائے ایک اٹھا لو دوسرا پاؤں جلے۔لیکن پھر بھی ذندگی پہلے کی طرح رواں دواں ہے۔وہی روزمرہ کے کام،کہیں انا جانا،ہنسنا مسکرانا لیکن پھر بھی اس دل کا خالی پن نہیں بھرتا۔

 

ہر چیز دستیاب ہے دنیا جہاں کی
لیکن تیری کمی کا ازالہ نہ ہو سکا
شاعر نامعلوم

جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے مجھے میرے قبلہ گاہ کی یادیں اور ذیادہ بے چین کرتی ہیں۔حالانکہ مجھے اس ایت مبارکہ پر مکمل یقین ہے کہ کل نفس ذائقہ الموت یر ذی روح کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔سب ہی کو اللہ کے حضور پیش ہونا ہے۔بس خاتمہ ایمان پر ہونا چاہیے۔پھر بھی یہ یادیں درد دل بنتے جا رہے ہیں۔

 

دل میں ہے اس کی یاد کی خوشبو بسی ہوئی
کیا پھول تھا کہ شاخ زماں سے اتر گیا
لگتا ہے یوں کہ چند مہینوں کی بات تھی
چالیس برس کا عہد رفاقت گذر گیا
دنیا رواں دواں ہے اگر چہ اسی طرح
دل میں مفارقت کا وہ لمحہ ٹھہر گیا
اس دل نے جس گھڑی بھی تیرے واسطے
دست دعا اٹھایا تو اشکوں سے بھر گیا

یہ بیاد جس نے بھی لکھا ہے کمال لکھا ہے۔۔

 

اسلام ہمیں ہر روز ماں باپ کی خدمت اور تعظیم کا درس دیتا ہے۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اعلیٰ نیکیوں میں سے ایک اعلیٰ نیکی یہ ہے کہ ادمی اپنے والد کے دوست احباب کے ساتھ احسان کا معاملہ کرے۔صحیح مسلم 6678.
جب بھی والد صاحب یاد اتے ہیں،ان کے پیاروں سے ملنے کو دل کرتا ہے۔انکا کمرہ،انکی الماری،انکا واسکٹ انکی تسبیح،انکے ساتھ چہل قدمی کرکے کھیتوں میں جانا، آباؤں کی باتیں سننا،انکی نصیحتیں،وصیتیں بہت بہت ذیادہ یاد اتی ہیں۔

 

وہ پیڑ جس کی چھاؤں میں
کٹی تھی عمر گاؤں میں
میں چوم چوم تھک گیا
مگر یہ دل بھرا نہیں

 

اس سے پہلے دسمبر میں شاید سال کا آخری مہینہ ہونے کے سبب،دیوار حیات سے ایک اور اینٹ گرنے کے غم سے دل مغموم رہتا تھا لیکن جب میرے عظیم القدر والد صاحب اس مہینے ہم سے جدا ہوئے تو اس مہینے میں دل کا بوجھل رہنا معمول بن گیا۔لیکن جب پچھلے سال اسی مہینے میری امی کو ہارٹ اٹیک ہوا اور فوراً بائی پاس کرنے کے بعد ثم الحمدللہ وہ بالکل صحت یاب ہو گئیں تو صد شکر ادا کیا کہ کہیں خدا ناخواستہ یہ سایہ بھی سر سے اٹھ جاتی تو ہم خود کو جانے کیسے سنبھالتے۔۔۔کیوں کہ انھی کی دعاؤں کے زیر سایہ یہ حیات چل رہی یے اور الحمدللہ خوب چل رہی یے۔اللہ تعالیٰ انھیں لمبی برکت والی ذندگی عطا فرمائے۔ ہم یونہی انکی دعاؤں سے مستفید ہوتے رہیں۔اور دعا یے کہ اللہ تعالیٰ میرے والد صاحب کو اور تمام مسلمان بہن بھائیوں جن کے والدین فوت ہوئے ہیں ان سب کی خطاؤں کو معاف فرمائے،ان کی نیکیوں کو بڑھا چڑھا کے اجر سے نوازے اور سب کو اپنی جنت کے اعلی درجوں میں رکھے اور اولادوں کو انکے لیے صدقہِ جاریہ بنائے۔۔امین ثم آمین

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
83491

آنے والے الیکشن کے تناظر میں چترالی سیاست – تحریر: حیات طیبہ

آنے والے الیکشن کے تناظر میں چترالی سیاست – تحریر: حیات طیبہ

 

کہنے کو میدان سج چکا ہے مگر ملکی حالات اب بھی اس یقین کو پنپنے نہیں دے رہے ہیں کہ الیکشن واقعی میں ہوں گے۔ اگر ہوں گے بھی تو کیسے ہوں گے، کیا واقعی میں الیکشن ہی ہوں گے یا پھر کچھ اور ہی ہوں گے مگر عوام الناس کو باور کرایا جائے گا کہ الیکشن ہی ہوئے ہیں۔ خیر سے یہ سب کچھ ہمارے ملک میں خوش قسمتی یا بدقسمتی جو بھی کہیں چلتا رہتا ہے۔ آج ہم چترال کی زمینی حقائق اور الیکشن پر اثر انداز ہونے والے چند شخصیات اور پارٹی پوزیشن پر اپنی بالکل ہی ذاتی تجزیہ پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔کوشش ہوگی کہ یہ سلسلہ الیکشن تک جاری رہے۔

چترال میں آنے والے الیکشن کے لئے جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام،پی پی پی، مسلم لیگ نو، پی ٹی آئی پارلیمنٹریرین اور کچھ حد تک پی ٹی آئی والے بھی آنے والے الیکشن کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ ان تیاریوں میں کارنر میٹنگز، شمولیتی تقریبات اور سیاسی جلسوں کا آغاز ہوچکا ہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ زور آزمائی شروع ہوچکا ہے۔ کس کا زور اور کتنا چلتا ہے وہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔فی الحال کی سیاسی صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ سیاسی پارٹیاں اور کچھ سیاسی لوگ میلہ لوٹنے میں مصروف ہیں۔

چترال کے دونوں صوبائی اور ایک قومی سیٹ کے لئے اب تک جو امیدوار ایک حد تک کنفرم ہوچکے ہیں ان میں سے مغفرت شاہ، جماعت اسلامی، سلیم خان، پی پی پی اور شہزادہ خالد پرویز، پی ٹی آئی پی، صوبائی اسمبلی پی کے 2 کے لئے اور پی کے ون کے لئے پی ٹی آئی پی کے غلام محمد شامل ہیں۔ یاد رہے کہ غلام محمد اور خالد پرویز کو کافی عجلت میں پی پی پی نے صوبائی اور قومی اسمبلی کے لئے امیدوار نامزد کرچکا تھا اس کے باوجود یہ دونوں شخصیات پی پی پی چھوڑ کر پی ٹی آئی پی میں شامل ہوگئے۔دیکھا جائے تو لوئرچترال سے اب تک ٹکٹ حاصل کرنے والے تمام شخصیات چترال میں قدآور اور منجھے ہوئے سیاست دان ہیں ان سب کی نہ صرف اپنی پارٹی میں پوزیشن بہت مظبوط ہے بلکہ پارٹی سے باہر بھی لوگ ان سب کو یکساں اہمیت دیتے ہیں۔

اس دفعہ ایم ایم اے بننے کے چانسز کافی کم ہیں مگر سیاسی منظر نامے کے پیش نظر الیکشن کے آخری ہفتوں میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ایم ایم اے نہ بننے کی صورت میں جماعت اسلامی کے امیدوار حاجی مغفرت شاہ باقی امیدواروں کو کافی ٹف ٹائم دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو کہ اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ حاجی مغفرت شاہ جماعت سے باہر بھی کافی مقبول ہیں۔ زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے بنا کر رکھنا ان کا کمال تصور کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر نوجوان طبقہ کسی بھی سیاسی نظریے سے ہٹ کر انہیں پسند کرتا ہے۔

سلیم خان دو دفعہ ایم پی اے بن چکے ہیں اور صوبائی وزرات تک پہنچنے والے چترالی شخصیت ہیں۔ پی پی پی ہمیشہ سے ایک مظبوط اور چترال میں کافی مقبول جماعت تصور کی جاتی ہے۔ ماضی میں اس پارٹی نے جس کو بھی ٹکٹ دیا چترال کے عوام نے تمام نظریات سے بالاتر ہو کر ہر شخص کو قبول کیا۔پی پی پی کو اتنی مقبولیت پاکستان کے کسی بھی حصے میں نہیں ملی جتنی چترال میں ملی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چترال کو منی لاڑکانہ بھی کہا جاتا رہا ہے۔

معروضی حالات اب ویسے نہیں رہے۔ پی پی پی کو تمام نظریات سے بالاتر ہو کر چاہنے والی نسل اب آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ نوجوان نسل سیاست میں سب کچھ ہی بدلنے کو تیار ہے۔وادی لوٹکوہ کے عوام نے ہمیشہ سے لوٹکوہ سے الیکشن لڑنے والوں کو فوقیت دی ہے۔ یہ ایک پلس پوائنٹ ہے سلیم خان کے پاس کہ اگر وادی لوٹکوہ سے کسی اور پارٹی کا امیدوار پارٹی ٹکٹ یا آزاد امیدوار کے طور پر آنے والے الیکشن میں حصہ نہیں لیتا تو لوٹکوہ کا ووٹ کم ازکم 50 فیصد سلیم کو پڑ سکتا ہے۔

 

خالد پرویز کنگ پارٹی کا حصہ ہے ساتھ میں ان کے والد کا ووٹ بنک اور قومیت کا ووٹ مل جائے تو آپ مذکورہ دونوں شخصیات کو مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔ خالد پرویز اپنے والد کی طرح سیاست کے اسرارو روموز سے خوب واقف ہیں اور کون سا پتہ کہاں کھیلنا ہے اس سے بھی بخوبی آگاہ۔ ان کی دور اندیشی اور سیاست سے آگاہی کے لئے یہی ثبوت کافی ہیں کہ پی پی پی جیسی پارٹی کا ٹکٹ ٹکرا کر ایک بالکل نئی پارٹی میں شمولیت انتخابات چند مہینے قبل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔

 

مذکورہ شخصیات اب تک پارٹی کے ٹکٹ حاصل کرچکے ہیں مگر کچھ بڑی پارٹیوں کے امیدواروں کا نام آنا ابھی باقی ہے۔ ان میں سے جے یو آئی اور پی ٹی آئی کے امیدوار بڑے سے بڑے اپ سیٹ کا سبب بن سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے نامزد امیدواروں کوشش کے باوجود پتہ کرنا اب ممکن نہیں رہا۔ مگر جس سب سے بڑے اپ سیٹ کا چترال کی سیاسی پارٹیوں اور نمائندوں کو انتظار کرنا چاہئے وہ منجھے ہوئے سیاست دان مولانا فضل الرحمن کے فیصلے سے متوقع ہے۔جے یو آئی نے جو نام چترال لوئر کے لئے ہائی کمان کو بھیجے ہیں ان میں سے ایک نام وادی لوٹکوہ سے تعلق رکھنے والے نصرت الہی کا بھی ہے۔ نصرت الہی عرصہ دراز سے جے یو آئی کا حصہ ہیں۔ سابقہ میئرشپ کے لئے ان کا نام آخری مراحل تک ہائی کمان کے نوٹس میں تھا۔ذرائع بتا رہے ہیں کہ صوبائی اسمبلی کے لئے نصرت الہی کا نام پھر سے شامل کیا گیا ہے۔ اگر ہائی کمان ان کا انتخاب کرتی ہے تو نصرت الہی لوٹکوہ میں ایک بہت بڑے اپ سیٹ کا سبب بن سکتے ہیں۔

 

لوئر چترال کی صوبائی اسمبلی تمام سیاسی پارٹیوں کے لئے ایک پرکشش سیٹ کا درجہ رکھتی ہے۔ اس لئے اگلے چند دنوں میں نون لیگ، اے این پی اور استحکام پاکستان پارٹی کے بھی امیدواروں کے ناموں کا اعلان متوقع ہے۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
81805

فلسطین جل رہا ہے – تحریر:گل عدن چترال

فلسطین جل رہا ہے – تحریر:گل عدن چترال

غزہ میں اسرائیلیوں کے ہاتھوں فلسطینوں کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے۔ہر رات دل دہلا دینے والی آوازیں،ہر صبح دل چیڑ دینے والے مناظر روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔ایک اندازے کے مطابق اب تک ان بیس دنوں میں سات ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جس میں تین ہزار سے زائد بچے اور قریبا دو ہزار خواتین جبکہ چار سو کے لگ بھگ بوڑھے افراد کی تعداد بھی شامل ہیں۔دو ہزار کے قریب زخمی ہیں جبکہ ان گنت لوگ لاپتہ ہیں۔روزانہ کی بنیاد پر نجانے کتنی مسخ شدہ لاشیں بغیر شناخت کے دفنائی جارہی ہیں اور نجانے اس تعداد میں اور کتنا اضافہ ہو گا۔کیونکہ اسرائیل کی بربریت اور جارحیت بڑھتی جارہی ہے فلسطین اسوقت جنگ کا میدان بن چکا ہے۔اور کوئی عالمی طاقت اسے نہیں روک پا رہا۔کوئی انسانی حقوق کا ادارہ اس قتل عام کو روکنے کے لیے آگے نہیں بڑھ رہا۔سپر پاور امریکہ جو خود کو دنیا کا مہذب ترین ملک منواتا رہا ہے۔اس وحشیانہ قتل عام میں اسرائیل کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔فلسطین مسلسل جل رہا ہے اور ہم دھواں اٹھتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔زندگی اتنی غیر متوقع ہوچکی ہے کہ مائیں اپنے بچوں کے بازوں پر ان کے نام لکھ رہی ہیں تاکہ حملے کی صورت میں اپنے بچوں کی شناخت کو ممکن بنا سکیں۔ پوری دنیا یہ تماشہ دیکھ رہی ہے کہ کسطرح ایک ناجائز اور خونی ریاست اسرائیل نے فلسطینوں پر زندگی اور زمین تنگ کردی ہے۔ظلم کی یہ تاریک رات طویل سے طویل ہوتی جارہی ہے کیونکہ اسرائیل جانتا ہے کہ اب امت مسلمہ میں کوئی طارق بن زیاد ہے نہ صلاح الدین ایوبی نہ محمود غزنوی نہ محمد بن قاسم جو تلوار کی زور پر اس ظلم کو روک سکے۔

اسرائیلی جانتے ہیں کہ یہ صرف مسلمان کا خون ہے جسے وہ ستر سالوں سے پانی کی طرح بہا رہے ہیں اور عالم اسلام خاموش تماشائی بنا اف تک نہیں کر پارہا۔پچاس سے زائد اسلامی ریاستیں اور ڈیڑھ ارب مسلمانوں میں ایک مسلمان قائد ایک مسلمان ملک ایک اسلامی تنظیم بھی ایسی نہیں جو ایک بار ایک عملی قدم اٹھائے اور بزور طاقت دنیا کو بتا سکے کہ مسلمان کا خون نا حق نہیں بہنے دیں گے۔ایک مسلمان ملک بھی ایسا نہیں جو ظالم کے خلاف ڈٹ جائے۔ایک طرف عالم اسلام کی خاموشی اسرائیل اور اسکے حمایتیوں کو تقویت بخش رہی ہے تو دوسری طرف فلسطینوں کا جذبہ ایمانی دشمنوں کو ناکوں چنے چبوا رہا ہے۔فلسطین کے مسلمان پچھلے ستر سالوں سے “مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی “اور “شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے ” کی زندہ مثال قائم کر رہے ہیں۔فلسطین کا بچہ بچہ کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے اس دنیا سے جا رہا ہے لیکن ان قیمتی جانوں کی ضائع ہونے پر سوائے افسوس کہ عالم اسلام کچھ نہیں کرسکتا ۔جسطرح ایٹمی طاقت رکھنے کے باوجود ہر بار ہر موقع پر پاکستان اپنی کمزور معیشت کو آر بنا کر فلسطین میں جنگ بندی کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا بلکل اسی طرح اقوام متحدہ کا وجود بھی اسلامی ریاستوں کے حق میں اتنی ہی ناکارہ ہے۔ اسرائیل اور امریکہ کے سامنے اقوام متحدہ بھی مجبور اور بے بس نظر آتی ہے۔

ایسے میں ذلت و رسوائی کا حق دار ڈیڑھ ارب مسلمان ہی ہیں جو ساری ذمہ داری اپنے قائدین پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دے رہے ہیں اور قائدین ایمان کے اس کمزور تر ین درجے میں ہیں جہاں برائی کو صرف دل میں برا جان کر صرف ایک مذمتی بیان دے کر اپنا حق ادا کر چکے ہیں۔پاکستانی میڈیا اسوقت یا تو چوبیس گھنٹے کرکٹ میچ کو اسطرح کوریج کر رہا ہے جیسے دنیا کا پہلا اور آخری میچ ہورہا ہو۔یا پھر یوتھیو اور پٹواریوں کی جنگ عظیم دکھانے میں مصروف عمل ہے۔اور ریاست مدینہ بنانے والے وہ مجاہدین بھی جو خان کی ایک کال پر ملک میں فساد پھیلانے کے لئے ہر دم تیار رہتے ہیں’ اسوقت منظر سے غائب ہیں۔وہ تمام بڑے نام،وہ بڑے بڑے چینلز وہ بڑی بڑی شخصیات جن کے آواز اٹھانے سے ‘فرق ‘پڑ سکتا ہے وہ سب اسوقت گونگے بہرے ڈنگروں کا کردار نبھا رہے ہیں انہیں خوف ہے کہ وہ بولیں گے اور انکا دانہ پانی بند ہوجائیگا۔دنیا کی محبت نے انکے زبانوں پر قفل لگا دیے ہیں۔لیکن جہاں اسلامی ریاستوں نے اس حد تک بے حسی اور بے گانگی کا مظاہرہ کیا ہے وہیں ان بیس دنوں میں اسرائیلی جارحیت اور بربریت کے خلاف جو ایک مثبت ردعمل سامنے آیا ہے وہ دنیا بھر کے لوگ ہیں جو فلسطینوں کی نسل کشی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔دنیا بھر کے لوگ جس میں یہودی اور عیسائی بھی شامل ہیں’

فلسطینوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ،آئے روز جگہ جگہ احتجاج ریکارڈ کروا رہے ہیں ۔اب تک بغداد،فرینکفرٹ، بیروت ،سری لنکا،استنبول،عمان بیرلین، ٹورنٹو،پیرس،نیویارک،واشنگٹن،دوہا،سڈنی،بارسلونا،ٹوکیو، ممبئی ،تہران،مانچسٹر غرض دنیا کے کونے کونے میں فلسطینوں کے حق کے لئے آواز بلند ہورہی ہے ۔

اسرائیلیوں کے خلاف دہشت گردی کے نعرے لگائے جارہے ہیں وہ امریکہ جو اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کی ہر ممکن کوشش کرتا رہا آج فلسطینوں کی قتل عام کی حمایت کرکے پوری دنیا میں خود بدترین دہشت گرد ثابت ہو چکا ہے۔ان جنگی جرائم کی مرتکب اسرائیلی دنیا بھر سے جو نفرت سمیٹ رہے ہیں امریکہ بھی اس میں برابر کی حصہ دار ہے۔فلسطینوں کی نسل کشی کے پیچھے اسرائیلیوں کا خوف چھپا ہے وہ جان چکے ہیں کہ ڈیڑھ ارب مسلمان ایک طرف اور فلسطین کے مسلمان ایک طرف۔اگر آج بھی صلاح الدین ایوبی اٹھے گا تو وہ فلسطین کی سرزمین سے ہی اٹھے گا اور اسرائیلیوں کو فرعون کی طرح نشان عبرت بنا دے گا۔

انشاءاللہ جو لوگ اسرائیلی پروڈکٹز کے بائیکاٹ مہم میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔اور جواز یہ پیش کر رہے ہیں کہ ہماری بائیکاٹ کرنے سے ان طاقتور ریاستوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا تو میں ان لوگوں سے صرف اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ ان ممالک کو کوئی فرق پڑتا ہے یا نہیں پڑتا مگر آپ کے ضمیر کو فرق پڑنا چاہیے۔بہت آسان ہے سب کچھ حکومت پر ڈال کر بری الذمہ ہونا ۔اور خود کی باری میں ایک برگر کی قربانی ہم نہیں دے سکتے جو ایک غریب ٹھیلے والا بھی بناتا ہے لیکن ہم صرف پیکنگ کی فرق اور بڑے نام کی وجہ سے میکڈونلڈ کو فوقیت دیتے آئے ہیں۔ایک خونی ریاست کو طاقتور بنانے میں جتنا ہاتھ بائیڈن کا ہے اتنا ہی ہمارا ہے۔لیکن وہ تمام دو نمبری مسلمان جنہوں نے ساری زندگی رشتوں میں عبادات میں کاروبار زندگی میں دو نمبریاں کیں آج وہ بھی کہ رہے ہیں کہ اسرائیلی پروڈکٹ کا بائیکاٹ کرکے اپنے ملک کی دو نمبر چیزیں کیسے استعمال کریں۔یہ تحریر ان دو نمبری مسلمانوں کے لئے ہرگز نہیں ہے۔اگر ایک فرد بھی مجھ سے اتفاق رکھتا ہے تو میں اس تحریر کی توسط سے التجا کرتی ہوں کہ ان تمام پروڈکٹز کا بائیکاٹ کریں جو اسرائیل کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔صرف چند دنوں میں آپکو اندازہ ہوگا کہ ان چیزوں کے بغیر بھی ہماری زندگی اچھی گزر سکتی ہے۔

لپٹن کے علاوہ بھی چائے مزہ دے سکتی ہے اور کالے بدبودار دار صابن اس مہنگے واشنگ پاوڈر سے کہیں گنا بہتر ہیں جو ایک خونی ریاست کی طاقت بن رہے ہیں۔معصوم نوزائیدہ بچوں کے خون سے لت پت وجود ،انکی آنکھوں کا خوف و ہراس اور وحشت انکے لرزتے وجود میرے ضمیر پر ایک بوجھ بن چکے ہیں کہ انجانے میں ہم بھی کہیں نہ کہیں انکے مجرم ہیں۔وہ آئس کریم ٹرک جو لاشوں سے بڑھ دیے گئے وہ باپ جو اپنے بچے کے جسم کے ٹکڑوں کو ایک شاپر میں ڈالتے ہوئے خوش ہوتا ہے کہ اسے کم از کم اسکے بچہ کے جسم کے کچھ ٹکڑے تو مل گئے ۔وہ مناظر جو ناقابل بیان اور ناقابل برداشت ہیں۔اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد اپنے کانوں سے وہ درد بھری آوازیں سننے کے بعد ہم اس قتل عام کا حصہ کیسے بن سکتے ہیں؟اگر ایک شخص بھی فلسطینوں کا درد محسوس کرتا ہے تو ہر طرف اتنی خاموشی کیوں ہے ۔تلوار نہیں اٹھا سکتے قلم تو اٹھاو ہاتھ نہیں روک سکتے کم از کم آواز تو بنو یا واقعی جسکا درد اسی کا درد باقی سب تماشائی ۔۔۔؟؟
گل عدن چترال

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
81073

نوائے سُرود – احسان فراموش اسرائیل کی بربریت – شہزادی کوثر

نوائے سُرود – احسان فراموش اسرائیل کی بربریت – شہزادی کوثر

ہٹلر کا یہ تاریخی جملہ سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے جب اس نے ساٹھ لاکھ یہودیوں کو قتل کرنے کے بعد کچھ کو زندہ چھوڑتے ہوئے کہا تھا کہ: ” میں انہیں اس لیے چھوڑ رہا ہوں تا کہ دنیا دیکھے کہ میں نے انہیں کیوں مارا تھا،”

پوری دنیا سے دھتکاری ہوئی قوم کو مسلمانوں نے اپنے ہاں پناہ دی،ان کے دکھوں کا مداوا کیا ،انہیں حقوق دئیے،ا ان کے ساتھ بھائی چارے کا برتاو کیا ۔ حالانکہ یورپ سے نکالے جانے والے یہودی در در کی ٹھوکریں کھا رہے تھے۔ جرمنی ہٹلر کی انہیں موت کی چکی میں پیس رہا تھا ،راندہ درگاہ یہودی جب چین کی زندگی سے محروم ہو گئے تھے تب مسلمانوں نے ہی انسانی ہمدردی کے تحت انہیں اپنے ملک میں رہنے دیا اور موت کے منہ میں جانے سے بچایا ۔لیکن احسان فراموش یہودی آستین کا سانپ نکلے کہ موقع پاتے ہی اپنے محسن کو ڈسنا شروع کیا۔بالفورڈڈیکلیریشن کے تحت اسرائیلی ریاست کا اعلان ہی دراصل مسلمانوں کی پیٹھ میں گھونپا ہو ا خنجر تھا ،ایک سوچی سمجھی چال کے تحت یہودیوں کو فلسطین میں آباد کر کے مسلمانوں کے لیے گویا ایٹم بم نصب کیا گیا ۔

 

یہودی کبھی اپنی شاطرانہ چالوں اور کبھی معاہدے کے تحت فلسطینی علاقوں پر قابض ہونے لگے۔ مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے،ترکی اور عرب قوم پرستی کا تصادم کرنے ،اور سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ کرنے والوں میں مغربی سیاست کے ساتھ یہودی فتنہ ساز ذہن بھی ہمیشہ سے کارفرما رہا ہے ۔ان کے کرتوتوں کی فہرست بہت طویل ہے ۔گزشتہ پچھتر سالوں سے فلسطینی مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔ وقتا فوقتا غزہ پر بمباری کرنے ،فائرنگ کر کے معصوم شہریوں کو شہید کرنے کی کاروائیوں میں شروع سے ملوث رہا ہے،اور اب تو کھلم کھلا جنگ مسلط کر کے غزہ شہر کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا۔ اسرائیل کی اس حرکت پر دنیا خاموش تماشائی کا کردار عمدگی سے نبھا رہی ہے ۔اقوام متحدہ کو چپ لگ گئی ہے ،عالمی ادارہ انسانی حقوق مسلمانوں کے سلسلے میں ہمیشہ سے چشم پوشی کا وطیرہ اپنائے ہوئے ہے۔بوسنیا ،روہنگیا ،کشمیر میں انسانیت سوز واقعات اور سر برینیکا کے مسلمانوں کی حالت زار تو پوری دنیا نےاپنی آنکھوں سے دیکھ رکھی ہے کہ کس طرح پچاس ہزار مسلمانوں کو ایک ہی دن میں گولیوں سے بھون دیا گیا ۔ خواتین اور بچوں کے سامنے ان کے گھر والوں کوبے دردی سے چھلنی کیا گیا ،

 

دنیا اس کو نہیں بھولی۔ اقوام متحدہ کی نام نہاد امن فوج کی پشت پناہی میں ابلیس کا وہ رقص شروع ہوا کہ انسانیت شرما گئی۔ ایسے میں ہم خود ساختہ مہذب دنیا یا ادارہ انسانی حقوق سے کیا امیدیں وابستہ رکھ سکتے ہیں۔ فلسطین سے مسلمانوں کا خاتمہ کر کے گریٹر اسرائیل کا قیام یہودیوں اور مغربی ممالک کا دیرینہ خواب ہے ،اس خواب کا شرمندہ تعبیر ہونا فلسطین کے خاتمے سے مشروط ہے ۔اپنے اس مقصد کے حصول کو ممکن بنانے کے لیے اسرائیل جس بربریت کا مظاہرہ کر رہا ہے اسے دیکھنے اور سمجھنے کے باوجود دنیا کچھ بول اور کر نہیں رہی۔۔ گزشتہ کئی دنوں سے غزہ پر بد ترین بم باری ہو رہی ہے،چار ہزار افراد شہید ہوچکے ہیں ہزاروں افراد زخمی اور لاکھوں بے گھر ہو گئے ہیں۔عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں ،ہزاروں بچے یتیم ہو گئے، خواتین کے سہاگ اجڑ گئے ،ماوں نے اپنے بچوں کو کھو دیا، ضعیف والدین کے پڑھاپے کا سہارا اور انہیں قبر میں اتارنے والے خود مٹٰی تلے جا سوئے یا ملبے تلے دفن ہو گئے۔ شہدا کی تعداد اتنی ہے کہ انہیں دفنانے والا کوئی نہیں۔ مردہ خانے بھر گئے ہیں ،شہید ہونے والوں کو اب آئس کریم ٹرکوں میں رکھا جا رہا ہے ۔ ظلم کی انتہا ہے کہ شیر خوار بچوں کو بھی نہ بخشا گیا ۔ ماوں کی گود ویران کر دی گئیں ،جس نے دنیا میں آکر ابھی ٹھیک طرح سے رونا بھی نہیں سیکھا تھا اسے بھی لہو میں نہلایا گیا ۔

 

کتنوں کے والدین انہیں بے رحم دنیا میں تنہا چھوڑ گئے۔ ایسے بچے بھی ہیں جنہوں نے پورے خاندان کو مرتے دیکھا اور ہوش و حواس کھو بیٹھے ہیں۔ یہود کی دھوکہ بازی اور سفاکی اور کیا ہو گی کہ فلسطینیوں کو زبردستی علاقہ چھوڑنے پر مجبور کیا ،انہیں محفوظ راستہ کا بتا کر ان پر بم برسایا اور قافلوں کو راستے میں ہی ختم کر دیا ۔فلسطین میں ہر طرف بربادی ، چیخ وپکار، کٹی ہوئے اعضا، بکھری ہوئی لاشیں،آگ اور لہو کا راج ہے ۔جنگی قوانین کی جتنی خلاف ورزی اسرائیل نے کی ہے وہ تاریخ کا سیاہ باب ہے۔فاسفورس بموں کی بارش کر کے انسانوں کوجلا کر مار دیا گیا ۔ یہود کی سفاکی اپنی جگہ لیکن دنیا اور خاص کر مسلم ممالک کی خاموشی پر دل خون کے آنسو رو رہا ہے ۔ اسلامی ممالک کے لئے متحد ہونے اور عالمی طاقتوں کا غرور خاک میں ملانے کا یہ سنہری موقع ہے ۔اپنی تمام تر طاقت اور وسائل کا استعمال کر کے اسرائیل کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے اس سے بہتر موقع نہیں ملے گا ۔۔۔ لیکن یہ محض دیوانے کا خواب ہے ۔۔۔۔۔

 

نہ اسلامی ممالک نے متحد ہونا ہے اور نہ ہی امریکہ کو ناراض کرنے کی غلطی مول لینی ہے ۔مصر اور اردن امریکہ کی جیب میں ہیں۔ عرب ممالک اسرائیل کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا چکے ہیں، پاکستان کے ہاتھ سے کشکول گدائی نہیں چھوٹتی ۔اسے پھینک کر ہتھیار اٹھانے کی طاقت اس کے ناتواں بازووں میں ابھی نہیں آئی۔ترکی اور ایران کی دھمکیوں سے کچھ ہو نہیں رہا۔ فلسطینی مسلمانوں پر قیامت کی گھڑی آئی ہوئی ہے۔کربلا کا میدان سجا ہے تیغ ستم تلے اس بار خاندان رسولﷺ کی جگہ امت رسولﷺ ہے ۔ان پر پانی بند کر دیا گیا ۔گھر مسمار ہوئے،بجلی نہیں ہے خوراک نہیں ہے دوائیوں کا ذخیرہ ختم ہو چکا ہے ۔قبلہ اول میں امت محمدﷺ کی بے کسی پر دل پھٹ رہا ہے ۔مسلمانوں کی بے غیرتی اور سیاست دانوں کی بے حسی دماغ کو ماوف کر رہی ہے ،انہیں اپنے معاملات سے فرصت نہیں مل رہی،اس قیامت کو دیکھ کر بھی اگر ان میں غیرت نہیں جاگی تو انہیں صور اسرافیل ہی جگائے گا۔

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
80698

کیا متبادل کرنسی  کا استعمال ڈالر کی بالادستی کا خاتمہ کر پائے گا؟-غزالی فاروق 

Posted on

کیا متبادل کرنسی  کا استعمال ڈالر کی بالادستی کا خاتمہ کر پائے گا؟ – غزالی فاروق 

اس بارے میں بحث بڑھ رہی ہے کہ آیا بعض  ممالک کی جانب سے چند تجارتی معاہدات میں ڈالر کو چھوڑ کر  دیگر کرنسیوں کا استعمال کیا  ڈالر کی بالادستی کو ختم کر پائے گا۔یہ پہلی بار نہیں ہے کہ لوگوں نے ڈالر کے زوال کے امکان کے بارے میں قیاس آرائیاں کی ہوں، اور معیشت میں  ہونے والے مسلسل اتار چڑھاؤ کو دیکھتے ہوئے، یہ آخری بار  بھی نہیں ہوگا۔ لیکن موجودہ بحث کو سمجھنے اور اسے تناظر میں رکھنے کے لیے، ہمیں نظام کی حقیقت  یعنی  اس کے سیاسی اور اقتصادی دونوں پہلوؤں کو دیکھنا ہو گا، اور یہ سمجھنا ہوگا کہ کس طرح امریکہ اس سرمایہ دارانہ  ورلڈ آرڈر کی جڑوں میں موجود  ہے جس  ورلڈ آڈر کے ساتھ  تمام ممالک اپنی وفاداریاں جوڑے ہوئے ہیں۔

 

حالیہ خبروں سے معلوم ہوتا  ہے کہ اس بحث کا آغاز کچھ اس طرح ہوا کہ  کچھ  ریاستوں نے امریکی ڈالر کے بجائے چینی کرنسی “یوآن” میں معاہدات کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں، جس کے نتیجے میں ڈالر پر ان کا انحصار کم ہوجائے گا۔ جہاں تک یوآن کی بات ہے تو  مثال کے طور پر عراق کا مرکزی بینک،جو تیل کا ایک بڑا سپلائر ہے،اس نے اعلان کیا کہ وہ چین کے ساتھ تجارت کو پہلی بار یوآن میں طے کرنے کی اجازت دے گا۔ اسی طرح بنگلہ دیش کے مرکزی بینک نےبھی  ستمبر میں اسی طرح کا اعلان کیا تھا۔چین کے زیرِ اثر شنگھائی تعاون تنظیم کے اراکین نے اپنی مقامی کرنسیوں میں تجارت بڑھانے پر اتفاق کیا۔ چین کے علاوہ یہ بلاک روس، بھارت، پاکستان، ازبکستان، قازقستان، تاجکستان اور کرغزستان پر مشتمل ہے۔ پچھلے سال دسمبر میں، چین اور سعودی عرب نے یوآن میں اپنا پہلا لین دین  کیا۔ پھر روس نے 2023 میں اپنی تمام تیل اور گیس کی اضافی آمدنی کو یوآن میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ وہ اپنے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کے لیے زیادہ سے زیادہ چینی کرنسی کا رخ کررہاہے۔ اسی  طرح برازیل اور چین نے امریکی ڈالر کے بجائے اپنی اپنی کرنسیوں کا استعمال کرتے ہوئے تجارت کرنے کا معاہدہ کیا۔ چین  فروری سے اپنا وعدہ پورا کر رہا ہے کہ وہ برازیل میں یوآن  پر مبنی تجارت کو آباد کرنے کے لیے ایک کلیئرنگ ہاؤس کھولے گا۔چین  اس سے قبل پاکستان، قازقستان اور لاؤس میں بھی اسی طرح کے کلیئرنگ ہاؤسز کا اعلان کر چکا ہے۔ مزید یہ کہ چین اپنے امریکی ٹریژری بانڈز سے چھٹکارا حاصل کر رہا ہے، جو مختلف  ممالک میں  ڈالر کے ذخائر کو برقرار رکھنے کے لیے استعمال کیے جانے والے طریقوں میں  سے ایک ہے۔ اس کے پاس اب 870 ارب ڈالر کا امریکی قرض ہے، جو 2010 کے بعد سے اب تک سب سے کم رقم ہے۔

 

جہاں تک یوآن کے علاوہ  دوسرے ممالک کی کرنسیوں  کی بات ہے تو مثال کے طور پر   چین اور روس دونوں تیل کا لین دین اپنی مقامی کرنسیوں میں کر رہے ہیں۔ پھر  یورپی یونین نے ایرانی تیل کی تجارت کو یورو میں طے کرنے کے انتظامات کیے ہیں۔ اسی طرح بھارت نے ایرانی تیل کی قیمت بھارتی روپے میں ادا کرنے کا ایک معاہدہ کیا ہے۔

 

یہ تمام  فیصلے مختلف سیاسی حقائق سے متاثر شدہ ہیں، مثلاً  امریکہ کے روس پر مالی پابندیاں عائد کرنے کے فیصلے سے لے کر ایران سے تیل خریدنے کی خواہش اور جوہری ڈیل کے گرد  موجود سیاسی تناؤ سے بچنے تک۔ اسٹریٹجک نقطۂ  نظر سے، ڈالر پر ان کا انحصار کم کرنے کی کوشش اس خوف کا نتیجہ ہے کہ امریکہ ڈالر کی طاقت کو دوسرے ممالک کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کر سکتا ہے، جیسا کہ اس نے روس پر پابندیاں عائد کرتے وقت کیا تھا۔ ڈالر پر اپنا انحصار کم کرکے، اور اپنی تجارت کو یوآن یا  دوسری کرنسیوں  میں منتقل کرکے، ریاستیں ممکنہ طور پر ڈالر کی طاقت کو کمزور کرسکتی ہیں۔اقتصادی نقطۂ نظر سے، ڈالر پر ان کے انحصار میں کمی انہیں اپنی معیشت کو برقرار رکھنے اور امریکی اقتصادی پالیسیوں کے ان پر پڑنے والے اثرات کو کم کرنے میں   مدد   دے سکتی ہے۔

 

یہ ان ممالک کے لیے  اہم  ہے کیونکہ جیسے جیسے ڈالر کی طاقت بڑھتی ہے، یہ دوسرے ممالک پر افراطِ زر کے  دباؤ کو بڑھاتا ہے۔ اس سے  ان ممالک کے  مرکزی بینکوں کے لیے بلند افراطِ زر پر قابو پانا مشکل ہو جاتا ہے۔یہ تکلیف تب  بڑھ جاتی ہے جب  ڈالر کی   طاقت  سے تجارتی حجم   سکڑ کر رہ جاتا ہے، اور قرضوں کے ساتھ ساتھ قرض پر سود کے اخراجات   میں شدید اضافہ ہو جاتا ہے ۔ پھر یہ حقیقت ہے کہ جیسے جیسے ڈالر کی طاقت بڑھتی ہے، یہ عالمی اقتصادی سرگرمیوں پر ایک بوجھ بن جاتا ہے، جو  دیگر کرنسیوں کو کمزور کرتا ہے اور اس سے ڈالر کی طاقت کو مزید ہوا ملتی ہے۔ اس سے ایک  خوفناک چکر جنم لیتا ہے    جو ڈالر کو مزید  مضبوط اور دیگر کرنسیوں کو مزید  کمزور کرتا ہے۔

 

لہٰذا،  کرنسیوں کے تنوع سے   انہیں ڈالر کے اثرات سے  کسی حد تک نمٹنے میں مدد مل سکتی ہے، البتہ اس کا انحصار متعدد دیگر عوامل پر ہوگا۔ لیکن کیا  اس تنوع کا مطلب یہ ہے کہ ڈالر مکمل طور پر اپنا غلبہ کھو دے گا؟ نہیں، ایسا نہیں ہوتا کیونکہ ڈالر اب بھی غالب ہے۔  دوسری کرنسیوں کے استعمال میں اضافے نے اس کے غلبے میں  کوئی خاص  کمی واقع  نہیں کی ۔ وال سٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ کے مطابق :”(مختلف ممالک کے)زرمبادلہ کے ذخائر کے تناسب میں کمی کے باوجود، ڈالر اب بھی دیگر تمام کرنسیوں کے مجموعے سے زیادہ ہے۔ یوآن عالمی غیر ملکی کرنسی کے ذخائر کا صرف 2.7 فیصد ہے”۔

 

بظاہر تو ایسا لگتا ہے جیسے چین اور دیگر ریاستیں جو اقدامات کر رہی ہیں،  اس سے وہ امریکہ اور ڈالر سے آزادی کا باعث بن جائیں گی۔ لیکن جب صورتحال کو نظریاتی نقطہ نظر سے سمجھا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ  کس طرح امریکہ نے ڈالر کو اس نظام میں شامل کیا ہوا ہے  جو سرمایہ دارانہ نظریے سے پھوٹا تھا۔ 1971 ء میں صدر نکسن نے ڈالر کو سونے سے الگ کر دیا۔ اس کے بعد سے اہم اشیاء کو ، جن میں سب سے زیادہ قابلِ ذکر تیل ہے، سونے یا چاندی کی پشت پناہی دینے کی بجائے فیاٹ ڈالر کے ساتھ جوڑ دیا گیا  ہے۔پھر  امریکہ نے ڈالر کی پوزیشن کو مزید مضبوط کر لیا جب اس نے سعودی عرب جیسے تیل پیدا کرنے والے ممالک سے معاہدہ کیا کہ وہ  تیل صرف ڈالر میں فروخت کریں گے، جس کو ‘پیٹرو ڈالر’ کہا جاتا ہے۔ چنانچہ باقی دنیا نے ڈالر کو قبول کر لیا، کیونکہ انہیں تیل خریدنے کے لیے ڈالر کی ضرورت تھی۔اس سے یقیناً تجارت متاثر ہوتی ہے، کیونکہ برآمدات کرنے والے ممالک عالمی منڈی میں مقابلہ کرتے ہیں تاکہ  وہ ڈالر حاصل کر کے  ایک طرف تو اپنے قرضوں کی ادائیگی  کر سکیں اور اس کے   ساتھ ساتھ  درآمدشدہ توانائی اور  خام مال  جیسی دوسری بہت سی  اشیاء کی  ادائیگیاں کر سکیں۔

 

پھر  دیگر کرنسیوں کو ڈالر کے ساتھ جوڑ کر، ڈالر ہر کرنسی کی تجارتی قدر کو اس کو جاری کرنے والی معیشت کی پیداواری صلاحیت سے براہ راست لاتعلق کردیتا ہے  اور اس کی بجائے  اسے امریکہ میں  ڈالر جاری کرنے والے مرکزی بینک کے پاس  موجود ڈالر کے ذخائر کے حجم سے براہ راست منسلک کردیتا ہے۔نتیجتاً، ڈالر کی بالادستی امریکہ کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ دنیا کی دولت کو ان  فیاٹ ڈالروں پر مبنی کر کے  بالواسطہ طور پر پوری عالمی معیشت کا مالک بن جائے ، جنہیں امریکہ اپنی مرضی سے تھوڑے سے  مالی جرمانے کے ساتھ چھاپ سکتا ہے۔

 

بیسویں صدی کے وسط میں جب سابقہ سامراجی دور (امپیریل ازم)کا خاتمہ ہو رہا تھا اور عالمی جنگیں  پوری دنیا میں تباہی مچا  چکی تھیں تو امریکہ ایک غالب  اور بالادست طاقت  کے طور پر ابھرا اور اپنے ساتھ ایک نیا ورلڈ آرڈر لے کر آیا جو  سرمایہ دارانہ نظریے پر مبنی تھا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ باقی تمام دنیا اپنی وفاداریاں اس کے ساتھ جوڑ دے۔امریکہ  نے متعدد اقدامات متعارف کروائے جن میں ڈالر کے غلبہ کی اجازت دے کر عالمی معیشت کو ٹھیک کرنے کی خواہش بھی شامل ہے، جیسا کہ دوسرے ممالک نے اپنی مقامی کرنسیوں کو ڈالر کے ساتھ منسلک کیا اور اپنی شرح مبادلہ کو برقرار رکھنے کے لیے ڈالر کو اپنے ذخائر میں رکھا۔ یوں  ڈالر اس  نظام  میں   گہرائی کے ساتھ  پیوست ہو گیا، اور امریکہ کی بڑی  اور لچکدار مالیاتی منڈی، نسبتاً شفاف کارپوریٹ گورننس کے اصولوں اور ڈالر کے استحکام نے اس بات کو یقینی بنایا کہ کرنسی کا غلبہ برقرار ہے۔ (الجزیرہ ڈاٹ کام)

 

لیکن یہ معاملہ ڈالر کے محض ایک کرنسی کے طور پراستعمال  ہونے سے بہت آگے جاتا  ہے اوریہاں  سیاسی اور معاشی منظرنامے آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔جب امریکہ عالمی جنگوں کے بعد  ایک  غالب طاقت کے طور پر ابھرا تو اس نے اپنی معاشی طاقت کو عالمی نظام کو ازسرنو  تشکیل دینے  لیے استعمال کیا۔ اس نے  بین الاقوامی تنظیموں کوقائم  کیا، نظام میں ڈالر کو شامل کیا، مختلف اتحاد قائم کیے، اور اس بات کو یقینی بنایا کہ یہ ریاستوں کے مفاد میں ہو کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کے امریکی  ورژن کے اندر رہتے ہوئے  کام کریں۔ جب امریکہ نے یہ ورلڈ آرڈر قائم کیا تو اس نے اسے  دیگر طاقتور ممالک کے تعاون کے ساتھ قائم  کیا ، جن میں سے سب نے اپنے  ملک کی خودمختاری کا کچھ حصہ بین الاقوامی نظام کے لیے کم کرنے پر اتفاق کیا، اس فائدے کے بدلے میں جو وہ امریکہ  کے مقرر کردہ اصولوں کے مطابق نظام کے اندر کام کرکے حاصل کریں گے۔

 

نتیجے کے طور پر،  یہ ممالک اس نظام میں سرایت کیے ہوئے  ہیں جس میں امریکہ  غالب ہے  اور امریکہ  کو ہٹانے کے لیے انہیں ایک ایسی ریاست کی ضرورت ہوگی جو اس موجودہ ورلڈ آرڈر میں اس کی جگہ لے سکے، جو کہ  جلد ہونے والا نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دیگر ریاستوں کے پاس وہ طاقت یا قانونی حیثیت نہیں ہے جو اس وقت امریکہ  کے پاس ہے،اور امریکہ  کی جگہ ایک نئےبالادست  کو مقبول ہونے کیلئے اسے  ان دونوں چیزوں  کی ضرورت ہوگی ۔ اور اس کا مطلب ہے کہ ڈالر غالب کرنسی کے طور پرموجود  رہے گا، چاہے ریاستیں اس پر اپنا انحصار کم کرنے کی کوشش کریں۔ یہ  اس لیے  بھی درست  ہے جب ہم  اس حقیقت پر غور کرتے ہیں کہ ہر کرنسی بشمول چینی یوآن کے ، ڈالر سے  ہی منسلک ہے!

 

ڈالر پر انحصار میں کمی کے معاملے کی اس  بحث سے ایک بات بالکل واضح ہو جاتی ہےکہ  ایک بہت اہم وجہ  موجود ہے کہ ایک ایسی اسلامی ریاست کا  دوبارہ قیام  کیا جائے  جو  موجودہ کرنسیوں پر اپنے انحصار کو ختم کرے۔موجودہ معاشی نظام کا حصہ ہونا  اور ان  فیاٹ کرنسیوں کو قبول کرنا ہمیں مکمل طور پر امریکہ جیسی دشمن ریاستوں پر منحصر  کردیتا ہے۔  اس کے برعکس اسلام میں ریاست کی   اپنی ایک  خود مختار کرنسی ہوتی ہے جسے  کسی غیر ملکی کرنسی سے منسلک کرنے کی اجازت نہیں ۔خلافت  کی  کرنسی  صرف اور صرف  سونے اور چاندی  پر ہی مبنی ہوتی ہے ، خواہ وہ سکوں کی شکل میں ہو یا کاغذی کرنسی کی شکل میں  ۔ ہمارے پاس سونا  بھی ہے اور ہمارے پاس چاندی  بھی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ فی الحال ہمارا اس پر کوئی کنٹرول نہیں اور ہم آپس میں تقسیم شدہ  ہیں، اس لیے مسلمانوں کی سرزمین کے ایک حصے کے وسائل باقی مسلم علاقوں کے مسلمانوں کی  رسائی میں  نہیں ہیں۔ یہ حقیقت  صرف اس وقت بدلے گی جب اسلامی ریاست خلافت کا دوبارہ سے قیام ہو گا،کیونکہ  اس سرمایہ دارانہ نظام میں، جو آج ہم پر حکومت کر رہا ہے، اسلامی قوانین کا اطلاق ممکن نہیں ۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
79575

اساتذہ کی تربیت – تحریر کلثوم رضا

اساتذہ کی تربیت – تحریر کلثوم رضا

کسی بھی قوم کی تعمیر وترقی میں اساتذہ کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے۔ طلباء کی ذہنیت سازی کر کے انکی صحیح سمت کا تعین اساتذہ ہی کرتے ہیں۔ دورِ جدید کے تقاضوں اور چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے زندگی کے ہر شعبے سے وابستہ افراد کو مسلسل تربیت کی ضرورت رہتی ہے۔ لیکن اساتذہ کی تربیت کئی اعتبار سے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔

تدریسی مہارتوں کی کمی کے سبب اساتذہ کو ساری عمر یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کس طرح طلباء کو صحیح تعلیمی رہنمائی فراہم کر سکتے ہیں۔ طلباء کی نفسیات سے ناواقفیت کی بناء پر ایک وہ استاد جو بہت اچھی طرح طلباء کی رہنمائی کر سکتا تھا ساری زندگی ان کو اس طرح پڑھاتا ہے کہ بچوں کو کچھ سمجھ میں نہیں آتا اور سال پورا ہو جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بچے سالہا سال سکول و کالج میں پڑھنے کے باوجود یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس سارے عرصے میں انہوں نے علم کے نام پر جو کچھ حاصل کیا ہے وہ ان کے مستقبل کو سنوارنے کے لئے ناکافی ہے۔ استاد اور طلباء کے درمیان اس ناواقفیت کو دور کرنے کے لئے اساتذہ کی تربیت کروانا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

اسی ضرورت و اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے چند دن پہلے ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن فاؤنڈیشن خیبرپختونخواہ نے سوات میں گرلز کمیونٹی سکولز کے اساتذہ کی تربیت کا انتظام کیا۔ “جی سی ایس اساتذہ” کی یہ دوسری تربیت تھی۔ اس کا پہلا سیشن فروری 2023ء میں پشاور میں منعقد ہوا تھا۔ اب کی بار مالاکنڈ ریجن “جی سی ایس اساتذہ” کی تربیت کے لئے مقامی ہوٹل مینگورہ سوات کو چنا گیا تھا۔اور یہ تربیت “آفاق” والے کروا رہے تھے۔ ٹھیک آٹھ بجے پروگرام کا اغاز تلاوتِ کلام پاک سے ہوا۔ فضل الٰہی اعوان صاحب جو ( پروگرام کے مینجنگ ڈائریکٹر بھی تھے) نے تعلیم وتعلم کے موضوع پر درس قرآن سے ہمیں مستفید کیا۔ بعد ازاں ای ایس ای ایف، آفاق اور سپانسر کمپنی کے ڈائریکٹرز کے ساتھ تعارف ہوا۔ کچھ ہدایات دی گئیں، ان پر کاربند رہنے کی تلقین کی گئی۔  ہماری تربیت کا آغاز ٹرینرز کے تعارف سے ہوا۔ ہال “بی”کے حساب سے ڈائریکٹر عامر زیب صاحب، فضل الٰہی اعوان صاحب، جناب عبد المنصف صاحب، ڈاکٹر طلحہ ابرار صاحب، میڈم پروین فنیاس صاحبہ، میڈم منیرہ شاہ، میڈم کلثوم ریاض اور میڈم انیسہ صاحبہ ہمارے ٹرینر تھے۔

اس پانچ روزہ تربیتی سیشن میں ہمیں کلاس روم مینجمنٹ میں” کمرہ جماعت کی تنظیم اور استاد کا کردار، اساتذہ اور طلباء کے درمیان موثر ابلاغ، طلباء کے رویے/طرز عمل، موثر تدریسی طریقے، تدریسی معاونات اور کثیر الجماعتی طریقہ تدریس” سمجھایا گیا۔ریاضی، سائنس، انگریزی، اردو، معاشرتی علوم ، معلومات عامہ، اسلامیات کی تدریس اور ای سی سی ای یعنی “ارلی چائلڈ ہڈ کئیر ایجوکیشن”کے “سبقی خاکے” سمجھائے گئے۔

“سکول انتظام و انصرام میں سالانہ تقسیم کار اور ٹائم ٹیبل کی تیاری، ریکارڈ سازی، سکولوں میں ہم نصابی سرگرمیاں، مقامی آبادی کو متحرک کرنا، سکولوں میں حفظان صحت اور ابتدائی طبی امداد” کے متعلق بتایا گیا ۔نیز “جائزہ کے اقسام، امتحانی سوالنامے اور نتائج کی تیاری اور بلوم ٹکسانومی” کے متعلق لیکچرز سے ہمیں مستفید کیا گیا اور ان سارے موضوع پر زیر تربیت اساتذہ سے پریزینٹیشن لیا گیا۔اس ناچیز نے “ای سی سی ای” کے موضوع پر پریزینٹیشن دی تو میڈم انیسہ نے بڑی حوصلہ افزائی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ “میں چاہ رہی تھی کہ کوئی اس موضوع پر پریزینٹیشن دے کیوں کہ یہ بہت اہم موضوع ہے آپ کا شکریہ آپ نے اس موضوع کو چن لیا”۔
ان تمام موضوعات پر شاید تمام اساتذہ کی تربیت ہوتی ہے، لیکن ہماری اس تربیت کا حصہ دو اور اہم موضوعات بھی تھے۔ ایک “ڈیجیٹل پن” کے ذریعے ناظرہ قرآن پڑھانا اور دوسرا “پوہا”۔

ڈیجیٹل پن کے ذریعے قرآن مجید کی تلاوت درست تلفظ کے ساتھ کی جاتی ہے سنا اور دیکھا بھالا تھا، لیکن کمیونٹی سکولوں میں اس قیمتی چیز کا
استعمال کرنا، کروانا اساتذہ اور طلباء دونوں کے لئے اعزاز سے کم نہیں۔ اس کے بہت سے فائدے ہو سکتے ہیں لیکن تین بنیادی فائدے (میری نظر میں)یہ ہیں مثلاً

1- اساتذہ میں کوئی قاری یا قاریہ نہیں تو اس سے بآسانی درست تلفظ کے ساتھ پڑھا سکتا/سکتی ہے۔
2- اگر کوئی اپنے لہجے کی وجہ سے “ف” کو “پ” اور” ق” کو “ک” پڑھتا/پڑھتی ہے تو ان کا یہ مسئلہ اس پن کے استعمال سے حل ہو جائے گا۔
3- کسی شرعی عذر کی وجہ سے اساتذہ قرآنی آیات کو ہاتھ سے چھو نہیں سکتے اور نہ پڑھ سکتے ہیں اور بچوں کے سبق متاثر ہوتے ہیں تو یہ پن اس مسئلے کا بھی بہترین حل ہے۔اس ڈیجیٹل پن کے استعمال کی ٹرننگ قاری نوید نے دی۔
اب دوسرا اہم موضوع جو سب سے نمایاں ہے وہ ہے “پوہا”
جو طلباء اور طالبات پرائمری کے بعد وسائل کی کمی یا کسی اور وجہ سے اپنی تعلیم خواہش کے باوجود جاری نہیں رکھ سکتے ان کے لیے “ای ایس ای ایف” “پوہا “پڑھائی کی سہولت دے رہا ہے۔

“پوہا” ایک آن لائن پلیٹ فارم ہے جس میں طلباء و طالبات گھر بیٹھ کر تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے یہ بچے پرائیویٹ شمار نہیں ہوں گے اور سائنس بھی پڑھیں گے۔ یہ سسٹم ان علاقوں کے لئے زیادہ موزوں ہے جہاں تعلیمی ادارے موجود نہیں اور بچے حصولِ تعلیم سے محروم ہیں۔ اس سسٹم میں آن لائن اور آف لائن دونوں سہولیات موجود ہیں۔ تو اس موضوع پر سیرحاصل تربیت ہوئی کہ کس طرح بچوں کا ایڈمیشن ہوگا، کس طرح انھیں پڑھایا جائے اور کس طرح وہ پڑھیں گے؟ یہ سب اس تربیت کا حصہ تھے۔اور اس کی ٹریننگ ڈپٹی ڈائریکٹر ای گورننس نور شیر افریدی صاحب دے رہے تھے۔

یوں یہ چاروں دن تربیتی لحاظ سے بہت اہم رہے۔ پانچویں دن اختتامی پروگرام ہوا جس میں منتظمین اور مہمانِ خصوصی کا خطاب اور اسناد کی تقسیم ہوئی۔ڈپٹی مینجنگ ڈائریکٹر ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن فاؤنڈیشن خیبرپختونخوا جاوید اقبال صاحب مہمان خصوصی تھے۔اور انھوں نے اپنے خطاب میں “جی سی ایس ٹیچرز” کے کام کو بہت سراہا ۔ان کا کہنا تھا کہ جو قلیل تنخواہ میں اپ لوگ کام کرتے ہیں یہ اپ کی محنت کا صلہ نہیں ہے اپ لوگ اپنی تنخواہوں سے کئی ذیادہ لگن سےکام کرتے ہیں اور ماشاءاللہ اپ کی محنتیں رنگ لائی ہیں ۔مجھے یقین ہے کہ آپ آئندہ بھی نسل نو کی تربیت اسی ہمت و جذبے سے کریں گے۔یوں یہ تربیتی سیشن اپنے اختتام کو پہنچا۔

تمام ٹرینرز اور ہیڈ آفس سے منسلک تمام افراد نے بہت لگن اور محنت سے اس پروگرام کو تکمیل تک پہنچایا۔ ڈپٹی ڈائریکٹر ای ایس ای ایف جو کہ شاید اس بھاری ذمہ داری کی وجہ سے ہمیشہ پریشان سے دکھائی دے رہے تھے، آخری روز وہ بھی مسکرا مسکرا کر ہر کسی سے بات کر رہے تھے۔ یقیناً ان کی خوشی کی وجہ پروگرام کا احسن طریقے سے انجام پانا تھا۔ خصوصاً عامر زیب صاحب (جنہیں دیکھ کر ہمیشہ ایک مشفق باپ کا چہرہ نظروں کے سامنے آجاتاہے) تمام اساتذہ کی بہت حوصلہ افزائی کرتے رہے اور جناب افتخار صاحب جنہیں دیکھ کر نجانے کیوں مجھے یہی لگا کہ اگر قائد اعظم رحمۃ الله علیہ کا کوئی بیٹا ہوتا تو وہ ہو بہو افتخار صاحب ہوتے۔

اور ان تمام تربیتی دنوں میں جب جب بھی ڈی پی او ملاکنڈ محمود علی صاحب اردو زبان میں ہم سے مخاطب ہوئے تو ان کے پشتو لہجے میں اردو سے ہم لوگ محفوظ ہوتے رہے۔اس دوران چترال کے سابق ڈی پی او سیف الدین صاحب سے بھی ملاقات ہو گئی۔جب انھوں نے خود ہی پہچان کر میرے نام سے مخاطب ہو کر خریت دریافت کی اور ہمارے سکول اور باقی اسٹاف کا بھی پوچھا تو بہت اچھا لگا۔اس دوران ایک خاتون ( جو کے بونیر کی ڈی پی او تھی) کو ٹرینرز اور ہیڈ افس والوں کو مسلسل سہولیات فراہم کرتے دیکھا گیا جس کا اعتراف ڈی ایم ڈی صاحب نے بھی کیا کہ طلعت شاہ صاحبہ کی سکولوں کے متعلق کوئی فرمائش ہیڈ افس اتی یے تو اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ ہم سمجھ جاتے ہیں کہ بس اب مذید کچھ کہا نہیں جا سکتا ،یقیناً یہ بہت ضروری کام ہے،وہ اتنی دلجمعی سے کام کرتی ہیں ۔چوتھے روز observation کے لیے چترال افس سے مانیٹرنگ افیسر عالمزیب شہزاد اور اپر چترال کے ڈی پی او عالمگیر صاحب بھی ائے ہوئے تھے۔واپسی ایک ساتھ ہوئی۔

جنہوں نے پہلی بار اس تربیت میں حصہ لیا تھا ان کے تاثرات بھی تمام ٹرینرز کے متعلق یہی تھے کہ کتنے عظیم لوگ ہیں جو ہمیں اتنی زیادہ عزت دیتے ہیں۔ اس طرح ہم بہت سی مہارتیں سیکھ کر، بہت ہی اچھی یادیں لئے چار بجے کے قریب سوات سے چترال کی جانب روانہ ہوئے اور بخیرو عافیت رات دو بجے چترال ٹاؤن والے اپنے گھروں میں پہنچ گئے۔ ہم اپر چترال والوں کو اپنے گھر ٹھہرانے کا وعدہ کر کے لائے تھے لیکن یہاں پہنچتے پہنچتے ان کے عزیزوں نے انہیں اپنے ہاں آنے کی دعوت دی اور ہمارے نصیب میں صرف تین ساتھیوں کی مہمان داری ٹھہری۔ چار پانچ گھنٹے سستانے کے بعد ان کی گاڑی اپر چترال جانے کے لئے تیار تھی وہ چلے گئے اور میں سینہ تان کر ایک بالکل نئے جذبے اور ولولے کے ساتھ اپنے سکول کی طرف چل دی کیونکہ میری فنی مہارتوں کے سلسلے میں یہ میرے وقت کا بہترین استعمال تھا۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
79572

وقت کی قدر و قیمت – تحریر: لبنی حقانی

Posted on

وقت کی قدر و قیمت – تحریر: لبنی حقانی

وقت کیا ہے؟ یہ ایک سنجیدہ سوال ہے۔ماہرعمرانیات کا کہنا ہے کہ وقت ہمارے تجربات اور عوامل کا ایک حصہ ہے۔وقت تین قسم کا ہوتا ہے۔ماضی ، حال و مستقبل۔ اللہ تعالیٰ نے موجود وقت ہمیں تحفہ دیا ہےاور ہمیں ایک موقع دیا ہے کہ ہم اپنی اصلاح کریں۔ ہم دنیا سے جانے سے پہلے کچھ کرکے جائیں تاکہ ہم آخرت کی تیاری کرسکیں۔ہم توبہ کریں اس لیے موجودہ وقت یعنی حال کو ”Present ” کہتے ہیں کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تحفہ ہوتا ہے۔ اور ماضی کو ”History ” کہتے ہیں۔کیونکہ ہم ہر روز جب صبح جاگتے ہیں تو ایک صفحہ، روز ہم اپنی صبح کا لکھتے ہیں۔ اور آنے والا کل یعنی مستقبل ایک ”Mystery ” ہے۔ کیونکہ کل کیا ہونا ہے کسی کو کچھ پتہ نہیں۔
وقت کی مثال ایسی ہے جیسے انسان کی زبان سے کوئی بات نکل گئی ہوتو ظاہر ہے دوبارہ ان الفاظ کو زبان میں نہ ڈال سکتے ہیں۔ وقت بھی اگر ایک بار گزر جائے کبھی لوٹ کر واپس نہیں آتا۔

وقت بہت قیمتی ہے۔ہم اپنی سستی اور کاہلی کی وجہ سے وقت برباد کرجاتے ہیں۔آج کا کام کل کریں گے کہہ کر چھوڑ جاتے ہیں لیکن ہماری عمر تو گزر جاتی ہے وہ کل کبھی نہیں آتا۔اس کی وجہ ہماری سستی ہے۔ حدیث کی مشہو ر کتاب ترمذی شریف میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: کہ ابن آدم کے دونوں قدم اس کے رب کے پاس سے تب تک نہیں ہٹیں گے جب تک اس سے پانچ چیزوں کے متعلق دریافت نہ کرلیا جائے۔اپنی عمر کہاں گزاری، جوانی کہاں صرف کی، مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا اور جتنا علم حاصل کیا تھا اس پر کتنا عمل کیا؟۔یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب دیے بغیر آگے جانا ممکن نہیں۔ ان سب کا تعلق وقت اور زندگی سے ہے۔

وقت کبھی سوچ سمجھ کر استعمال میں لانا چاہیے۔ وقت کبھی کسی کے لیے نہیں رکتا۔ امام فخرالدین رازی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ کھانے پینے میں جو وقت ضائع ہوتا ہے اس پر ہمیشہ افسوس کرتا ہوں۔ اور ہم کیا کرتے ہیں کہ ہمیں موقع چاہیے ہوتا ہے کہ ہم کسی دوست یا رشتہ دار کے ساتھ کہیں چائے پینے جائیں یا گھومنے پھرنے اور آوارہ گردی کرنے لگیں۔ اور ہم سوچتے ہیں کہ پڑھنا تو ہوگا کل یا پرسوں لیکن رستہ داروں اور دوست احباب کیساتھ گھومنے پھرنے کا دوبارہ موقع نہ ملے گا۔ ایسے ہی ہمیں آج ایک رشتہ دار ملا تو کل کوئی دوست ملا ، یوں ہم اپنا وقت ضائع کرتے رہتے ہیں۔اور وہ کل پھر کبھی نہیں آتا اور یوں ہم اپنا وقت ضائع کرتے رہتے ہیں۔ جب سب کچھ ہمارے ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔

یہ بات ذہن میں رہے کہ ہم نے جو کچھ بھی کرنا ہے بس ابھی ہی کرنا ہے۔ اسٹارٹ لینا بہت ضروری ہے۔ماضی پر کف افسوس ملنا وقت ضائع کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ہم نے آج آفس جوائن کیا ہے، کل ویسے بھی چھٹی ہے تو پرسوں سے اس کام کو شروع کریں گے۔ بلکہ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ابھی ہی کام شروع کریں، پرسوں کا انتظار بالکل نہ کریں تاکہ جلد پورا کرسکیں۔کام نمٹانے کے لیے وقت کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔جب بھی موقع ملے کام مکمل کرنا چاہیے۔ اگر ہم ایسے بہانے تلاش کرتے رہے جو ہمارے کام میں رکاوٹ بنے تو یہ ہماری عادت بن جائے گی اور روز ہمیں نئے بہانے مل جائیں گے اور اس طرح ترقی کے مواقع ہمارے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔

قاسم علی شاہ پاکستان کے بہت بڑے اور مشہور موٹیویشنل اسپیکر ہیں۔ان کی ایک بات مجھے بہت پسند آئی،آخر میں وہ بات اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرنا چاہونگی۔ وہ اپنے کتاب ”اپنی تلاش” میں لکھتے ہیں: ” انسا ن جب کسی کام کے سفر پر نکلتا ہے تو اس سفر میں اسے یہ سمجھ نہیں آتی ہے کہ میں موسی ٰ ہوں یا فرعون، اگر کنارے کے قریب پہنچ جائےتو پتہ لگتا ہے اصل میں ، میں کون ہوں۔پھر اب اسی کے ساتھ انجام کی طرف چل پڑتے ہیں اسی شناخت کے ساتھ دنیا سے چلے جاتے ہیں”۔
ہماری پیدائش سے موت تک جو وقت، جو زندگی ہم گزارتے ہیں وہ سفر ہی ہے۔اور یہ ہم پر ہے کہ اپنی شناخت کیسی بناتے ہیں۔ اگر ہم نے نیک کام کئےہیں تو ہمارا شمار نیک لوگوں میں ہوگااور نیک کام سے ہم یاد کیے جائیں گے۔ اور اگر ہم نے برے کام کیے ہیں تو ہمارا شمار بُرے لوگوں میں ہوگا اور ہمیں بُرے کام کے وقت یاد کیا جائے گا۔
مرنے کے بعد انسان اس کے کام سے یاد کیا جاتا ہے، تو زندگی کے اس سفر کو اور قیمتی وقت کو سوچ سمجھ کر گزاریں کیونکہ یہ وقت پھر کبھی لوٹ کر واپس نہیں آئے گا۔مشہور کہاوت ہے۔ وقت دو دھاری تلوار ہے جو ہرطرف سے کاٹ دیتی ہے۔ اگر انسان وقت کو درست استعمال کرکے اس کو کاٹ نہ ڈالے تو اس نے بہر حال انسان کو ہر طرف سے کاٹ ڈالنا ہے۔ لہذا ہم کوشش کرکے وقت کو کاٹ ڈالے اور اس کو دین و دنیا کی منفعت کے لیے بہتر استعمال کریں۔اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, گلگت بلتستان, مضامینTagged
79531

نوائے سُرود – مہنگائی اور مجبور عوام – شہزادی کوثر

Posted on

نوائے سُرود – مہنگائی اور مجبور عوام – شہزادی کوثر

ملک کے معاشی حالات روز بہ روز بگڑتے جا رہے ہیں مہنگائی نے طوفان مچایا ہوا ہے، ٹی وی کے ہر چینل پہ سیاسی پارٹیوں کے کارکنان ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھرانے اور خود کو دودھ کا دھلا ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ہر پارٹی اپنی نظر میں بے گناہ ہےجبکہ سارا قصور مخالف پارٹی کاہے، سیاست دانوں کی اس نورا کُشتی میں جو پس رہے ہیں وہ عام لوگ ہیں ۔جن کی آواز اتنی نہیں ہے کہ حکمرانوں کے ایوانوں کو لرزا سکے ،اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کو سہتے جا رہے ہیں ان کے بازووں میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ ظالموں کو گریبان سے پکڑ سکیں ۔اپنی نا گفتہ بہ حالت پر چپ رہنے والے اور غاصبوں کو اپنا حکمران بنانے والے “مجبور ،بے حیثیت “عوام ۔۔۔ جن کی حالت دگر گوں ہے۔ مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی ہے ،اشیا خوردونوش دسترس سے باہر ہیں۔ پیٹرول سونے سے بھی مہنگی ،ساتھ میں بجلی غائب، گیس میسر نہیں ،آٹا اور چاول دسترس سے باہر، چینی ناپید، پھلوں کا نام جان بوجھ کہ نہیں گنوا رہی کیوں کہ وہ اسباب تعیش میں شامل ہو گئے ہیں ۔گاڑیوں کا کرایا ، بجلی گیس اور پانی کا بل دیکھ کر سر چکرا جاتا ہے ۔ایسے میں غریب آدمی خود کشی نہ کرے،قتل میں ملوث نہ ہو ڈکیتی سے گریز کرے ،چوری کرنے اور چھینا جھپٹی سے خود کو روکے رکھے تو کیسے؟ ۔۔۔۔

 

جب بنیادی ضروریات سے ہی انسان کو محروم کر دیا جائے ، بچوں کو بھوک سے بلکتا ہوا دیکھنا پڑے،اپنے پیاروں کے علاج اور دوائیوں کے پیسے نا ہونے کی وجہ سے انہیں موت کے منہ میں جاتے ہوئے بے بسی سےدیکھنا پڑ ے،تو انسان شرافت کا جامہ اتار پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔حالیہ دنوں میں چوری کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے ۔پہلے قیمتی سامان چوری ہوتے تھے اب کھانے پینے کی اشیا اور عام ضرورت کی چیزیں چوری ہو رہی ہیں ۔دیہاڑی دار طبقہ اور کم آمدنی والے افراد سب سے زیادہ مشکل میں ہے ۔پیسے کی قدر میں کمی آنے کی وجہ سے دیہاڑی ایک وقت کا چولہا گرم نہیں کر پا رہی ،پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر لوگ چوری کرنے لگ گئے ہیں ۔ بہت سے والدین نے اپنے بچوں کو سکولوں سے اٹھا لیا ہے کیونکہ گھر کے اخراجات ہی پورے نہیں ہو رہے تو بچوں کی فیس اور آمد و رفت کا کرایہ کیسے برداشت کریں ۔۔دوائیں سوفیصد مہنگی ہونے کی وجہ سے ہزاروں افراد علاج سے محروم ہو گئے ہیں ۔

 

عوام پہ کبھی پیٹرول بم گرتا ہے اور کبھی انہیں بجلی کے جھٹکے سہنا پڑتے ہیں اور سیاسی گرو جھوٹی تسلیوں سے انہیں بہلانے کی کوشش کرتے ہیں ۔سب کو معلوم ہے کہ معیشت برباد ہو گئی ہے بیرونی قرضے بڑھتے جا رہے ہیں ملک کی پوری آبادی سوائے (سیاستدانوں ،جرنیلوں،اور بیوروکریٹس کے)رُل رہی ہے ،استطاعت سے زیادہ معاشی بوجھ پڑنے کی وجہ سے خود کشی کےواقعات میں اضافہ ہو گیا ہے”کسی” کو بھی احساس نہیں کہ قرضوں کی شرائط پوری کرنے میں کتنی زندگیاں قربان کرنا پڑیں گی۔حکمرانوں کی عیاشیوں کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ،ان کے محلات کی رنگریزیعوام کے خون سے کی جارہی ہے ۔معاشی حالات کی تنگی نے لوگوں کو بھیک مانگنے پر مجبور کر دیا ہے اب بھکاری پیسے نہیں مانگتے بلکہ چاول ِآٹا،گھی یا چینی کا تقاضا کرتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ روپے کی قیمت دو کوڑی کی بھی نہیں رہی۔ایسا نہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے زمین فصل اگانے سے انکاری ہے بلکہ یہ مہنگائی کی کارستانی ہے کہ سب کچھ ملک میں پیدا ہونے کے باوجود یہ نعمتیں عام آدمی کو میسر نہیں۔اس کی زندگی کی راحتیں کہیں کھو گئی ہیں، وہ ان ساری نعمتوں کو دیکھتا ہے انہیں کھانے کا متمنی ہے لیکن ان سے لطف اندوز ہونا اسے نصیب نہیں۔ بیماریوں سے لڑنے کے لیے غذا اور دوا کی ضرورت ہوتی ہے ہمارے ملک میں دونوں کا فقدان ہے ۔بھوک اور بیماری تکلیف دہ صورت اختیار کر جائے تو زندگی کے مقابلے میں موت باعث راحت نظر آتی ہے اس وجہ سے زندگی ارزان ہو گئی ہے،حالات کے ستائے ہوئے اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیتے ہیں ورنہ مہنگائی ہی انہیں زندہ درگور کرنے کے لیے کافی ہے۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
79502

تیرے نام کی شہرت – گل عدن چترال

تیرے نام کی شہرت – گل عدن چترال

ساحر لدھیانوی صاحب نے کیا خوب لکھا ہے کہ ‘تو بھی کچھ پریشان ہے،تو بھی سوچتی ہو گی، تیرے نام کی شہرت تیرے کام کیا آئی،

میں بھی کچھ پشیماں ہوں،میں بھی غور کرتا ہوں ‘میرے کام کی عظمت ‘میرے کام کیا آئی ۔۔!!

اس دنیا میں گنتی کے چند لوگ ہوں گے جو ستائش _شہرت کی تمنا سے بے نیاز گمنامی کی زندگی بسر کرتے ہیں اور اس پر مطمئن بھی رہتے ہیں لیکن اکثریت کی زندگی نام کمانے میں،تعریف سمیٹنے کی جدوجہد میں صرف ہورہی ہے ۔کچھ لوگوں کو شہرت کی خواہش نہیں بلکہ بھوک ہوتی ہے۔تعریف کی خواہش یا شہرت کی تمنا ہونا ایک نارمل بات ہے ہر انسان میں پائی جاتی ہےلیکن شہرت کا جنون انسان کو نارمل رہنے نہیں دیتا۔آج سے کچھ سال پہلے جب ٹیکنالوجی عام نہیں تھی تو شہرت کا جنون بھی کریز بھی اتنا زیادہ نہیں تھا لیکن اب سوشل میڈیا نے اس جنون کو کہیں گنا بڑھادیا ہے ۔اور اس مصنوعی زندگی کا بنیادی جزو” فوٹو گرافی “ہے۔الماری میں رکھے تصویروں کے البم جو ماضی میں کھبی خزانہ کی حثیت رکھتے تھے۔جو سال میں کھبی کھبار کسی خاص مواقع میں بڑی مشکل سے بنانا نصیب ہوتا تھا۔

 

ان تصویروں میں بھی حقیقت کی خوبصورتی جھلکتی تھی۔جو خوشگوار یادوں کو تازہ کرکے بیک وقت آپکو خوشی اور اداسی کی کیفیت میں مبتلا کردیتی تھیں۔مگر آج اپنے اسمارٹ فون سے دن میں سینکڑوں کی تعداد میں بنائی جانے والی تصاویر نہ تو خوشیوں کو قید کرنے کے لئے بنائی جاتی ہیں نہ ہی یادوں کو محفوظ کرنے کی خاطر بنائی جاتی ہیں بلکہ ان تصاویر کا صرف ایک مقصد ہے کہ انہیں سوشل میڈیا کی زینت بنادی جائے اور لوگوں کو دکھایا جائے کے ہم کتنے خوش ہیں۔کتنے مزے میں ہیں یا کتنے مصروف ہیں اور زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔خود کو زندگی سے بھرپور دکھانے کا ایک مقابلہ چل رہا ہے انٹرنیٹ پر اور ہم اس مقابلے میں دوڑ رہے ہیں۔چند لائکس چند تعریف جملے چند رشک بھری آہیں اور کہیں کچھ جلنے کی بدبو ہماری زندگیوں کا اہم مقصد بن چکی ہیں۔اعتراض اس دوڑ میں شامل ہونے پر نہیں ہے دکھ اس بات کا ہے کہ ہم حقیقی زندگی میں نہ تو خوش ہیں نہ خوش مزاج۔۔۔

 

اور یہی چیز ہمیں ڈپریشن کا مریض بنارہی ہے۔حالانکہ ہم جتنی محنت سوشل میڈیا یا دوسروں کو دکھانے کے لئے کر رہے ہیں اگر اس ایک فیصد کوشش بھی حقیقت میں خوش رہنے کی کریں تو زندگی واقعی خوبصورت ہوسکتی ہے لیکن ہم نے موبائل میں پناہ ڈھونڈ لیا ہے۔ ہم اسوقت دو کشتیوں میں سوار ہیں۔زندگی ایک ہی ہے مگر ہم دو طرح سے گزار رہے ہیں۔ہماری ایک کشتی سوشل میڈیا ہےاور دوسری کشتی ہماری حقیقی دنیا۔سوشل میڈیا پر ہماری زندگیاں یعنی ہمارے دکھاوے کی زندگی بڑی پرفیکٹ ہیں بلکل ویسے جیسے ہم چاہتے ہیں۔خوش باش،بے فکر۔سوشل میڈیا پر ہم ناصرف نیک ہیں بلکہ عظیم شخصیات ہیں ۔انسان دوست، ہمدرد ،ایک دوسرے کا دکھ بانٹنے والے، حساس اتنے کہ جانور کو بھی تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے اور سمجھدار اتنے کہ بڑے سے بڑے واقعات پر بھی مثبت رائے اور مثبت کردار نبھانے والے۔

 

حد تو یہ ہے کہ Facebook اور Instagram پر دو دن کی زندگی کو بھر پور طریقے سے خوشی خوشی جینے والے لوگ بھی ہم ہی ہیں ۔زندگی کے قدر دان۔ایک Fake زندگی کے قدر دان ۔لیکن جونہی ہم موبائل فون سائیڈ پر رکھ کر اپنی Real life میں قدم رکھتے ہیں تھوڑی دیر کے لئے ہی تو سب سے پہلی چیز جو ہمارے چہرے(بلکہ ہماری زندگی سے) سے غائب ہوتی ہے وہ ہے ہمارے چہرے کی مسکراہٹ ہے ۔۔۔جس زندگی کا حقیقتا حق ہے کہ اسے مسکرا کر گزارا جائے وہی زندگی ہماری مسکراہٹ کو ترس رہی ہے۔دوسری چیز شکرگزاری۔سوشل میڈیا پر ہروقت الحمداللہ کا ورد کرنے والے ہم شکرگزار لوگ جونہی موبائل چارجنگ پر لگاتے ہیں ہمیں ہر چیز میں خامی نظر آنا شروع ہوجاتی ہے۔ہر چیز میں کمی، نقص، خامی ۔۔کھانے پینے میں ۔کپڑوں میں، کمرے میں ،گھر میں،ماں باپ میں،بہن بھائیوں میں،رشتہ داروں میں اور رشتوں میں ہر چیز میں کمی ۔۔اور یہ محرومیاں ہمیں مسکرانے ہی نہیں دیتیں۔یہ محرومیاں ہمیں جینے بھی نہیں دیتیں۔ اس لئے ہم اپنا زیادہ تر وقت اپنی موبائل کی دنیا میں غرق ہوکر گزارتے ہیں۔ اس سے ہماری زندگی میں کوئی تبدیلی تو نہیں آتی مگر حقیقت سے فرار کا ایک راستہ مل جاتا ہے اور وقت گزر جاتا ہے۔اور ہمیں لگتاہے کہ سوشل میڈیا پر ہم نے جو نام بنالیا ہے بڑی محنت سے وہ کافی ہے۔

 

لیکن سوچنے کی بات ہے کہ جسطرح ہم وقت گزار رہے ہیں کیا اسوقت کو یونہی گزرنا تھا؟کیا وقت اپنی بے وقعتی کا ہم سے حساب نہیں مانگے گا؟کیا ہماری زندگی خود کو دھوکہ دینے میں گزر جائیگی؟؟ضروری نہیں کہ دکھاوے کی زندگی صرف سوشل میڈیا پر ہی ہو ۔جو لوگ facebook پر نہیں ہوتے وہ بھی گھر سے باہر چاہنے والوں،سراہنے والوں کا مجمع رکھتے ہیں لیکن افسوس گھر کے اندر ایک شخص بھی انکی اخلاق سے متاثر نہیں ملتا۔یہ منافقت کی زندگی ہم نے کب اور کہاں سے شروع کی میں نہیں جانتی لیکن نام کی خواہش جہاں سے شروع ہوتی ہے وہ ہماری والدین کی گود ہے اور ہمارے اساتذہ کرام کے رویے ہیں ۔(میرے قارئین کو مجھ سے اختلاف کا حق حاصل ہے۔)آپ نے کھبی غور کیا ہے کہ والدین کتنی آسانی سے اپنے بچوں کو ‘اچھےبچوں ‘ اور ‘برے بچوں ‘ میں بانٹ دیتے ہیں۔یہ سوچے بنا کہ اولاد کی تربیت انکی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔یہ سوچے بغیر کہ اولاد پر سب سے زیادہ اثر انکے والدین کا ہوتا ہے انکی محبت کا انکے غصہ کا۔سب سے منفی اثر جو اولاد پر والدین کا ہوتا ہے وہ ہے اولاد میں تفریق کرنا۔ بچپن سے اولاد میں فرق کرنے والے والدین بڑھاپے میں اپنی تمام اولادوں سے ایک جیسی عزت ،تابعداری اور محبت چاہتے ہیں۔یہ بھول جاتے ہیں کہ انکی کی ہوئی تقسیم ساری زندگی ان بد بخت اولادوں کا پیچھا کرتی ہے ۔

 

والدین کا بنایا ہوا اچھا بچہ معاشرے میں تاحیات “اچھا بچہ ” بنا رہتا ہے اور والدین کا بنایا ہوا “برا بچہ ” ساری زندگی کہیں اچھائیوں کے باوجود معاشرے میں “برے بچہ “کے طور پہ جانا اور مانا جاتا ہے۔اور اور ماں باپ کے بنائے ہوئے اچھے بچے ان برے بچوں کو کھبی بھی “اچھا ” بننے نہیں دیتے۔ یوں والدین کی یہ ظالم تقسیم قبر تک ان بچوں کا پیچھا کرتی ہے۔دوسری طرف سکول میں روحانی والدین بھی یہی ظلم کرتے ہیں۔معصوم بچوں کو “لائق اور نالائق” بچوں میں تقسیم کر دیتے ہیں۔اسی لئے کلاس میں پہلی جماعت میں جو لائق بچے ہوتے ہیں وہ تعلیم مکمل کرنے تک لائق رہتے ہیں۔اور ساری زندگی یہ لائق بچے ہر اونچے مقام کو ہر ایوارڈ کو ہر کامیابی کو صرف اپنا حق سمجھتے ہیں کلاس میں انکی تعداد 6 یا 8 یا 9،10 کے لگ بھگ ہوتے ہیں باقی 60 70 بچے خود کو گھسیٹ کر تعلیم یا مکمل کر پاتے ہیں یا نامکمل چھوڑ دیتے ہیں۔انکی تعلیم کی طرح انکی شخصیت،انکی خوشیاں انکے خواب خواہشیں سب کچھ ادھوری رہ جاتی ہیں۔میرا ایسے والدین سے صرف ایک سوال ہے کہ کیا اللہ تعالی اپنے بندوں کو آپکی اولاد کی حثیت میں اس لیے پیدا کرتاہے کہ آپ انہیں اچھے اور برے بچے میں تقسیم کردیں؟؟؟ میرا اساتذہ کرام سے بھی ایک ہی سوال ہے کے کیا یہ والدین اپنے بچوں کو اس مقصد کے لئے سکول بیچتے ہیں تاکہ آپ انہیں لائق اور نالائق بچوں میں تقسیم کر سکیں؟؟؟

 

یہ جو سوشل میڈیا پر یا گھر گھر میں،خاندان میں،محلے میں جنگیں چل رہی ہیں نام بنانے کی یہ انہی لائق اور نالائق بچوں کے درمیان کی جنگ ہے ۔یہ محبت ستائش تعریف نیک نامی اور چاہے جانے کی بھوک کی جنگ ہے۔یہ حسد نفرت دشمنیاں یونہی وجود میں نہیں آئیں ۔یہ روز روز خودکشیاں یہ قتل و غارت یہ جھگڑے فساد انہی “اچھے اور برے بچوں “کی جنگ ہیں ۔جو اس وقت تک چلیں گے جب تک والدین اس “تقسیم” سے باز نہیں آئیں گے۔جس دن جس لمحے والدین اور اساتذہ نے تسلیم کرلیا کہ بچے اچھے یا برے نہیں ہوتے بلکہ محض بچے ہوتے ہیں انہیں اچھے اور برے بنانے والے ہم ہوتے ہیں اس دن یہ جنگ یہ جنون یہ دھوکہ اور منافقت کی زندگیاں ختم ہوں گی۔اور لوگ سوشل میڈیا پر نہیں بلکہ حقیقت میں جینا شروع کریں گے۔

 

ساحر لدھیانوی کے الفاظ کے ساتھ اس تحریر کا اختتام کرتی ہوں جو میرے دل کی آواز ہیں

تیرا قبر تیری فن

میرا قبر میرا فن

تیری میری غفلت کو

زندگی سزا دے گی

تو بھی کچھ پریشان ہے

تو بھی سوچتی ہو گی

تیرے نام کی شہرت

تیرے کام کیا آئی ۔۔۔

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
78853

مختصر سی جھلک ۔ نیت میں فتور۔ فریدہ سلطانہ فّٰری

مختصر سی جھلک ۔ نیت میں فتور۔ فریدہ سلطانہ فّٰری

بادشاہ قباد جنگل میں شکار کے پیچھے چلتے چلتے اپنے لشکرسے بچھڑجاتے ہیں اورجنگل میں اچانک اس کوایک جھونپڑی مل جاتی ہے جہاں ایک بوڑھی اماں اپنی بیٹی اورچند گاِیوں کے ساتھ رہتی تھی۔ بادشاہ مہمان بن کراس جھونپڑی میں پہنچ جاتے ہیں۔ بوڑھی اماں دودھ سے بادشاہ کی خاطرتواضع کرتی ہے۔ اتنے میں بوڑھی اماں کی لڑکی بھی گائے چرا کرگھرواپس اجاتی ہے اوروہ اپنی لڑکی کو دودھ دوہنے کا بولتی ہے ۔

 

بادشاہ یہ سب منظر دیکھ رہا ہوتاہے جب لڑکی دودھ دوہ کرلاتی ہے تودودھ کی مقدار بادشاہ کو بہت زیادہ لگتی ہےاوراچانک بادشاہ کی نیت میں فتوراجاتا ہےکہ ہماری وجہ سے یہ لوگ اس جنگل میں امن سے رہ رہے ہیں اورروزانہ اس قدر زیادہ دودھ حاصل کرتے ہیں اگر ہفتے میں ایک دن کا دودھ بادشاہ کی خد مت میں پہنچا دیا کریں تو ان کا کوئی نقصان نہیں ہوگا ۔اب واپس جا کے میں یہ حکم صادر کروں گا کہ ہفتے میں ایک دن کا دودھ بادشاہ کے حصے میں ہوگا اس کا فایدہ یہ ہوگا کہ شاہی خزانے میں اس دودھ کیوجہ سے کئی گنا اضافہ ہو جایے گا ۔ بادشاہ رات کو اس نیت کے ساتھ سو جاتا ہے ۔

صبح اٹھ کر بیٹی جب گاِئوں کا دودھ دوہنے چلی جاتی ہے تو چیلانے لگتی ہے کہ اماں۔۔۔۔ اما ں اٹھو۔۔۔بس ہمارے بادشاہ کی نیت میں فتور اگیا ہے اورساتھ ہی بڑھیا بھی گڑاگڑا کرخداکے حضور دعا کرنے لگی۔۔۔۔اور بادشاہ کو یہ سب دیکھ کر شدید حیرانگی ہوئی کہ میں نے تو اپنے دل میں یہ سوچا ضرورتھا مگر اس بچی کو اس کا علم کیسے ہوا۔۔۔ پھر بادشا ہ نے بوڑھیا سے پوچھا کہ تمھں کیسے معلوم ہوا کہ بادشاہ کی نیت میں فتور ایا ہے۔۔۔۔ تو بوڑھی اماں نے جواب دیا کہ ہماری یہ گائے روزانہ صبح کے وقت جتنا دودھ دیتی ہیں اج ا س سے بہت کم دیا ہے اس لیے ہم نے سمجھ لیا کہ اس کا سبب صرف یہ ہے کہ بادشاہ کی نیت میں خرابی اگئی ہے کیونکہ جب حکمران کی نیت میں خرابی اجاتی ہے تو اللہ تعالی زمین سے خیر و برکت اٹھا لیتا ہے خیروبرکت کے جانے کے یہی اثرات ہیں کہ ہرچیزمیں نقصا ن اور کمی اجاتی ہےاور جب حکمران کی نیت نیک ہوتی ہے تو خدا تعالی زمیں پراتنی ہی خیر و برکت نازل کرتا ہے کہ ہرچیزمیں انسانوں کو نفع ہونے لگتا ہے۔

 

اب یہ ساری صورت حال دیکھ کر قباد بادشاہ نے تو اپنی بری نیت اور ظالمانہ فعل سے توبہ کرلی اور حکایت میں ہے کہ بادشاہ کو اس کے اس توبہ کا صلہ بھی مل گیا ۔۔اب پتہ نہیں ہمارے ملک کے حکمران اپنے ظالمانہ افعال اوربری نیتوں سے کب توبہ کر لیں گیں۔۔۔۔۔کب سیاسی پارٹیوں کی فکرچھوڑ کرملک کی فکر کریں گیں ؟ کب ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر  ملک کی اجتماعی مفاد کا سوچیں گیں ؟؟؟  مگریہ سب تواب خواب ہی لگ رہاہےکیونکہ یہاں ہرصاحب اقتدار قباد بادشاہ کی طرح نیت میں فتور لیے پھیر رہا ہے اورعوام بچارے بوڑھی اماں کی طرح گڑگڑاَتے ہوئے۔ ۔۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
78594

چترال میں خودکشیوں کا رجحان ۔ میر سیما آ مان

Posted on

چترال میں خودکشیوں کا رجحان ۔ میر سیما آ مان

پچھلے چند دنوں میں جس تناسب سے خود کشیوں کے واقعات ہوئے ہیں عقل دنگ رہ گئی ہے کہ چترال جیسے حسین وادی جہاں باہر کے لوگ اپنی ڈپریشن دور کرنے آ تے ہیں وہاں زندگی اتنی سستی کیوں ہوگئی ہے ۔۔ ڈاؤن ڈسٹرکٹ میں ناکام شادیوں نے جب زور پکڑا تو سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ بڑی وائرل ہورہی تھی کہ بیٹا ہم نے انسان کا بچہ سمجھ کر رخصت کیا ہے جانور بنے تو واپس آ نا کیونکہ طلاق یافتہ بیٹی بحرحال بیٹی کی لاش اٹھانے سے بہتر ہے ۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ ہمارا یہ پوسٹ صرف سوشل میڈیا کہ ہی زینت ہے ذاتی ذندگیوں میں ان اقوال ذریں کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔۔ہم کبھی اپنے بچے سے نہیں کہہ سکتے کہ بیٹا فیل ہوجاو تو کوئی بات نہیں ۔۔کیونکہ فیل ہونا کم نمبر لینا یا کوئی بھی ناکامی مرجانے سے بہتر ہے ۔۔

 

chitraltimes suicide river koghuzi

ہمیں قبول ہی موت ہے ناکامی نہیں ۔۔وجہہ احساس کمتری ۔۔ چترال میں منفی سرگرمیوں سمیت بڑھتی ہوئی خود سوزیوں کی سب سے بڑی وجہہ یہی احساس کمتری ہے جسکے سبب لوگوں نے اپنی زندگیاں عذاب بنائی ہوئی ہیں ۔۔ ہمیں خود کو پرفیکٹ بنانے حتیٰ کہ سمجھنے کی اس قدر عادت پڑ گئی ہے کہ ذرا سی کمی بیشی ہم سے برداشت ہی نہیں ہوتی ۔۔ ہمیں لگتا ہے کہ شادی ہوگئی ہے تو ہر صورت کامیاب ہی ہونا ہے بچہ امتحان دے رہا ہے تو ہر صورت ٹاپ کرنا ہے بندہ کمانے نکلا ہے تو ہر صورت کمائی لاکھوں میں ہی ہونی چاہیے کیوں ۔۔۔۔کیونکہ ہمیں عادت پڑ گئی ہے ۔ کثرت کی ۔۔ہمارے باپ دادا جس دور میں پیدا ہوئے وہ اسائشات کی قلت کا دور تھا ۔۔ سکوں سے جئے سکوں سے مرے ہم نے اسائشات کا ذرا سا منہ تو کیا دیکھ لیا اب انکے بغیر جینے کا تصور نہیں کر پارہے ہیں ۔۔۔ہمیں اپنی نسلوں کو یہ بتانے کی اشد ضرورت ہے کہ دنیا میں جتنے بھی لوگ کامیاب دکھ رہے ہیں یہ کہیں ہزار نا کامیوں سے گزرے ہیں تب کہیں جا کر کامیاب ہوئے ہیں ۔۔شوبز میں جتنے لوگ ہیں جو تین تین چار چار شادیاں کرتے ہیں تب کہیں جا کر کوئی ایک شادی کامیاب ہوتی ہے ۔۔ ہم بڑے بننے کے خواب دیکھنے والے چھوٹے غموں کے گرداب سے نہیں نکل پاتے ۔۔

 

بچہ میڈیکل میں نہیں جاسکا ساری زندگی کے لیے طعنہ بن گیا ۔۔ بیٹی کا رشتہ نہیں ٹوٹا خاندان میں قیامت ٹوٹ گئی۔شادی کے بعد ایک کے بعد ایک بیٹیاں پیدا ہورہی ہیں۔ بیٹا کیوں نہیں ہو رہا ۔۔عورت کی سکون غارت ہو جاتی ہے ۔۔یہ جو اقوال ذریں ہم سوشل میڈیا پہ شیئر کرتے رہتے ہیں کہ سسرال برا ہے تو بیٹی واپس آ جاؤ ۔۔یہ کہنا تو بڑی ہی دور کی بات ہے ہم تو شادی شدہ بیٹی سے یہ بھی پوچھنا گوارا نہیں کرتے کہ بیٹا تمھارے ساتھ ان کا برتاو کیسا ہے ۔۔ہم تو حقیتا آ ج بھی بیٹی کو رخصت کرتے وقت سسرال سے اسکا جنازہ ہی اٹھنے کی دعا کرتے ہیں اور اسی کو شادی اور خاندان کی کامیابی سمجھتے ہیں ۔۔کتنی بوریاں لاشوں کی آگئی ہیں ۔۔کیوں۔کیونکہ میکہ میں رخصتی کے ساتھ انکے گنجائش ختم ہوگئی تھی ہمیں جنازے اٹھانا قبول ہے لیکن ہم ناکام شادیوں کا بوجھ اپنے اردگرد کے زمینی خداوں کے طنز و طعنوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے ۔۔بلکل اسی طرح ہم دریاؤں سے طلبا کے لاش اٹھانے کے لیے تیار ہیں لیکن امتحان میں نمبرز فلاں فلاں فلاں کے برابر آ نے چاہیے ۔۔۔۔۔افسوس ۔۔

 

لاہور کی ایک بچی ارفا کریم نو سال کی عمر میں پوری دنیا میں جسکی ذہانت کے ڈنگے بج گئے لیکن منوں مٹی تلے جا سوئی ۔۔ پورے ملک سمیت خود چترال کے کہیں نوجوان خوبصورتی ذہانت اعلیٰ ڈگریوں سے لبریز ہوئے لیکن عین جوانی میں سارے خواب تہہ خاک لیکر جا سوئے اور ہم نے عبرت نہیں لی ۔۔۔۔ ہمیں لگاکہ موت تو صرف انہی لوگوں کو آ نہ تھی ہمارے پاس تو بڑا وقت ہے ہم مریں گے تو ہمارے گھر کون سنبھالے گا ہمارے رشتے کون سنبھالے گا یہ سب تو ہماری دم سے ہے۔۔ یقین کریں قبرستان میں سویا ہوا ہر شخص اسی غلط فہمی کا شکار تھا کہ انکے بغیر گھر نہیں چلے گی دنیا تک جائے گی کرسی خالی رہے گی مگر دیکھ لو دنیا اسی شان وشوکت سے چل رہی ہے۔۔ تو اپنی اولاد کو اپنے ارگرد لوگوں کو جینے دو انکی کمیوں سمیت وہ عزت میں کمتر ہیں ۔۔نا لائق ہیں کم حیثیت ہیں بد صورت ہیں غریب ہیں بد کردار ہیں جو بھی ہیں ۔۔۔ اپنی زندگیاں جینا سیکھو خدارا جیو اور جینے دو ۔۔ آپکے لیے بہترین زندگی کا میعار جو بھی ہو اسکو دوسروں پر مسلط مت کرو ۔۔کیونکہ کوئی دوسرا انسان تمھاری خوابوں کے بھینٹ چڑھنے کے لیے اس دنیا میں نہیں آ یا ہے۔۔ لہذا اپنی احساس کمتری کو اپنی ذات تک محدود رکھیں دوسروں کو انکے انداز اور انکے میعار کے ساتھ جینے دیں ۔

chitraltimes drosh suicide two sisters chitral lower

chitraltimes drosh suicide two sisters3 scaled chitraltimes women suicide chitral river rescue 1122 operation 1

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
78590

پاک-افغان سرحد کے مسائل اور ان کا تسلی بخش حل – تحریر: غزالی فاروق

Posted on

پاک-افغان سرحد کے مسائل اور ان کا تسلی بخش حل – تحریر: غزالی فاروق

 

امریکہ نے بھارت کو ایک صنعتی مرکز بنانے کے لیے بھارت کے ساتھ مشترکہ شراکت داری کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ دوسری جانب امریکہ پاکستان کو اندرونی انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھنے کی ترغیب دے رہا ہے۔ بھارت کا ویژن بھارت کا اپنا نہیں بلکہ امریکہ کاویژن ہے۔ اسی طرح خطے کے لیے پاکستان کی اختیار کردہ پالیسی بھی امریکہ ہی کی دین ہے۔ مشرف کے “سب سے پہلیپاکستان” اور ترقی اور خوشحالی کے بدلے مغرب کی غلامی کے تصور نے پاکستان کے اسٹرٹیجک اثر و رسوخ اور معیشت کو تباہ کر دیا ہے۔افغانستان- پاکستان کے سرحدی علاقے کی جغرافیائی سیاست بڑی طاقتوں اور خطے کے لیے ان کی پالیسیوں کے درمیان ایک مقابلے کے نتیجہ میں تشکیل پائی ہے۔یہ پالیسی پہلے روس اور برطانیہ، اور پھر سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان کشا کش کے نتیجے میں تشکیل پائی۔ اس کے بعد جب امریکہ اکیلا عالمی طاقت رہ گیا ، تو اس نیاس خطے سمیت پوری مسلم دنیا کے لیے اپنی پالیسی دی۔یوں خطے کے لیے ہمارے اپنے اسٹریٹجک وژن کی عدم موجودگی میں ہمیشہ بیرونی طاقتیں خطے کی تقدیر کو تشکیل دیتی رہیں گی۔

 

افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد، امریکہ کی طرف سے پاکستانی ریاست کو حکم دیا گیا کہ وہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پشتون مسلمانوں کو افغانستان میں جہاد کرنے سے اور امریکہ کے خلاف افغان طالبان کی مزاحمت کی حمایت کرنے سے روکے۔ امریکہ نے جہادی نظریے کو خطے میں اپنے مفادات کے لیے خطرہ سمجھا اور پاکستان کو پچھلی پالیسی (یعنی افغانستان میں امریکی مدد سے سوویت یونین کے خلاف جہاد کی حمایت)کو واپس لینے کا حکم دیا۔ اسی طرح بھارت میں لڑنے والے جہادی گروہوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا بھی حکم دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں پشتون قبائل اور پاکستانی ریاست کے درمیان تصادم واقع ہوا۔ اس تصادم کے لیے پاکستانی فوج کو قبائلی علاقوں میں داخل ہونے اور وہاں چھاؤنیاں قائم کرنے کی ضرورت پڑی۔ ٹی ٹی پی 2007 میں عسکریت پسند کمانڈر بیت اللہ محسود کی طرف سے قبائلی علاقوں میں پاکستانی فوج کے داخل ہونے کے براہِ راست ردعمل کے طور پر منظر عام پر آئی۔

 

پاکستان کی فوج اور پشتون عسکریت پسندوں کے درمیان لڑائی نے قبائلی علاقے میں سماجی ڈھانچے کو تباہ کر دیا۔ قبائل اور ان کے رہنماؤں پر پاکستانی ریاست یا عسکریت پسندوں میں سے کسی ایک کا ساتھ دینے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔ اس تصادم نے خطے میں پرانے سیکورٹی کے نظام کو تباہ کر دیا۔تاریخی طور پر پاکستانی ریاست کا مغربی سرحد پر سیکورٹی کو یقینی بنانے کا طریقہ کاریہ تھا کہ سرحدی قبائل کو ڈیورنڈ لائن کے آر پار آنیجانے کی اجازت دی جائے، انہیں ہتھیار لے جانے کی اجازت تھی اور انہیں پاکستانی ریاست کی انٹیلی جنس اور لاجسٹک سپورٹ کے ساتھ بارڈر سیکورٹی فورسز کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ “دہشت گردی” کے خلاف جنگ نے خطے میں سیکورٹی کے اس پرانے ڈھانچے کو تباہ کر دیا۔

 

پاکستانی فوج قبائلی علاقوں میں اپنی مستقل موجودگی برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ امریکہ نے پاکستان کو افغان طالبان اور کابل میں نئی حکومت کو سنبھالنے کا حکم دیا ہوا ہے۔ اس کام کو پورا کرنے کے لیے پاکستانی ریاست قبائلی علاقوں میں فوجی چھاؤنیوں اور قانون نافذ کرنے والے مضبوط ڈھانچوں کی زیادہ فعال موجودگی کو ناگزیر سمجھتی ہے۔پاکستانی حکمران قبائلی علاقوں اور وسیع تر افغان مسئلے کو عالمی برادری سے جڑے رہنے کا موقع سمجھتے ہیں۔ وہ عسکریت پسندی کے خلاف کارروائیوں اور مہمات کو امریکہ اور مغرب سے اُن کیجیو پولیٹیکل اہداف کو حاصل کرنے کے عوض ڈالر حاصل کرنے کے ایک موقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔

 

اسلامی سرزمینوں میں عسکریت پسندی بنیادی طور پر مغربی استعمار کی پالیسیوں اور مسلم دنیا میں اس کے اثر و رسوخ کا ردعمل تھا۔لیکن اس حقیقت سے قطع نظر، پاکستانی فوج نے پاکستانی ریاست کی زبردست طاقت کو استعمال کیا تاکہ فاٹا کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا جا سکے اور پاکستانی ریاست کی رٹ کو قبائلی علاقوں تک بڑھایا جا سکے۔ یہ تصور کیا گیا تھا کہ پاکستان کی حکومت کی جانب سے خصوصی اقتصادی مراعات ملنے اور اس کی سیاست میں باقاعدہ شمولیت سے خطے میں عسکریت پسندی کے مسئلہ کا خاتمہ ہو جائے گا۔پاکستانی ریاست نے فاٹا کے علاقے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ سے پہلے کے حفاظتی نظام پر واپس جانے کی کوشش کی۔ تاہم قبائل اور عسکریت پسند خطے میں پاکستانی فوج کی موجودگی سے سخت ناراض ہیں۔ پشتون عسکریت پسند فاٹا کی خیبرپختونخوا میں شمولیت کی واپسی چاہتے ہیں اور اپنے لیے اور قبائل کے لیے خود مختاری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔پشتون قبائل کا ایک بڑا اور اہم مطالبہ ڈیورنڈ لائن کو کھولنا اور سرحدی باڑ ہٹانا ہے۔ اس کا براہِ راست اثر خطے کی معیشت اور سرحدی علاقوں میں سماجی اور سیاسی انتظامات پر پڑتا ہے۔

 

پاکستانی ریاست کی نوعیت اور اس کی غیر قانونی حیثیت پاکستانی معاشرے میں ایک بہت وسیع بحث ہے۔ پاکستان کو سیکولر ریاست ہونا چاہیے یا اسلامی ریاست،یہ موضوع پاکستان میں فکری گفتگو کا محور رہا ہے۔ پاکستان کی امریکہ اور مغربی طاقتوں کے ساتھ اتحاد کی خارجہ پالیسی کی پشتون قبائل کی جانب سے مخالفت کے نتیجے میں پاکستانی ریاست اور قبائل کے درمیان تصادم ہوا۔ پشتون عسکریت پسندی عملاً پاکستان کی خارجہ پالیسی کے خلاف بغاوت تھی۔پاکستانی ریاست کا یہ دعوی کہ صرف وہ ہی ہتھیار رکھنے اور استعمال کرنے کا حق رکھتی ہے اور قبائل سے اُس کی اس اجارہ داری کوقبول کرنے کا مطالبہ کرنا، درحقیقت قبائل کو خود مختاری دینے، ہتھیار رکھنے اور اپنی زمینوں کو محفوظ رکھنے کی ریاست کی اپنی ہی پچاس سالہ پالیسی کے خلاف تھا۔ قبائل نے درست طور پر یہ بھانپ لیا کہ پاکستانی ریاست کے رویے میں اس اچانک تبدیلی کے پیچھے غیر ملکی طاقتوں کا ہاتھ ہے۔

 

نام نہاد “دہشت گردی کے خلاف جنگ” کے دوران، امریکہ کی حوصلہ افزائی سے، پاکستانی ریاست کے اداروں کو عسکریت پسندی سے لڑنے کے لیے باقاعدہ تشکیل دیا گیا۔ انسدادِ دہشت گردی کی عدالتیں، نیکٹا(NACTA)، پاک فوج کے فوجی نظریے میں تبدیلی، انسدادِ دہشت گردی کے پولیس یونٹس کا قیام، فوجی عدالتوں کا قیام، تعلیمی نصاب میں تبدیلی، مدارس میں اصلاحات اور نیشنل ایکشن پلان کی تشکیل نے ریاست کی صورت ایسی کردی جسے قبائلی علاقوں میں بہت سے لوگوں نے جابرانہ اور ناجائز سمجھا۔

 

پشتون تحفظ موومنٹ کے سر اٹھانے نے پشتون قبائل کے غصے کو غیر متشدد سیاسی سرگرمی کی طرف موڑ دیا اور علاقے میں فوج کی پالیسیوں کے خلاف اپنی ناراضگی کا اظہار کیا گیا۔ اس طرح اس علاقے میں ریاست کی رٹ کے قیام کے مطالبے کو ایک ناجائز ریاست کے مطالبے کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو قبائل پر اپنی طاقت اور اثر و رسوخ کو وسعت دے کر انہیں اپنے تابع کرنے کے لیے مجبور کرتی ہے۔پشتون قبائل اسلام اور جہاد سے محبت کرتے ہیں۔ پاکستانی ریاست کو ایک سیکولر اور غیر اسلامی ریاست، اور اسلام اور مسلمانوں کے دشمن امریکہ کے ساتھ کھڑا ہوا دیکھا جاتا ہے۔ اس طرح عسکریت پسندوں نے سیکولر ریاست کی قانونی حیثیت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ پاکستان میں علمائے کرام عسکریت پسندوں کو یہ باور کرانے میں ناکام رہے ہیں کہ پاکستانی ریاست ایک اسلامی ریاست ہے جس سے وفاداری کرنا لازم ہے۔تاہم علماء نے عسکریت پسندوں کی جانب سے معصوم مسلمانوں اور سیکورٹی عملے پر حملوں کی مذمت کی ہے۔ عسکریت پسندوں کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک اسلامی ریاست کے قیام کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اگرچہ یہ ایک غیر سنجیدہ دلیل نظر آتی ہے کیونکہ ان کے سیاسی مطالبات میں پاکستان میں اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ شامل نہیں ہے، لیکن انہوں نے اسے پروپیگنڈے کے مقاصد کے لیے اور پاکستانی ریاست کی قانونی حیثیت کو مسترد کرنے کے لیے استعمال کیا ہے جسے وہ غیر اسلامی سمجھتے ہیں۔قبائل پاکستانی ریاست کی بارڈر پر سختی سے عملدرآمد کی پالیسی کی شدید مخالفت کرتے رہے ہیں کیونکہ اس کا براہِ راست اثر ان کی معیشت اور معاش پر پڑا ہے۔ وہ ڈیورنڈ لائن کو ناجائز اور قبائل کی طاقت کو تقسیم کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں۔

 

افغان طالبان فعال طور پر ٹی ٹی پی کی حمایت نہیں کر رہے لیکن افغانستان میں اُن کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے سے انکار کرتیہیں۔ ان کے خیال میں اگر پاکستان اور امریکہ سرحدی علاقوں میں عسکریت پسندی کو کچلنے میں کامیاب نہیں ہوئے تو افغان طالبان بھی ایسی کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ افغان طالبان سرحدی علاقوں میں عسکریت پسندی کے خلاف بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔افغان طالبان کا خیال ہے کہ اگر وہ جہادی ساتھیوں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو طالبان کے جہادی ہونے کی قانونی حیثیت کو نقصان پہنچے گا۔ انہیں خدشہ ہے کہ اگر وہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرتے ہیں تو اپنی صفوں کے اندر اُن کی قانونی حیثیت ختم ہو جائے گی۔

 

طالبان کی زیر قیادت افغان حکومت خود ہی ” اسلامی ریاست- خراسان “(IS-K) کی جانب سے قبول کردہ مسلسل بمباری کی ایک لہر کی زد میں آچکی ہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی بھی فوجی کارروائی درحقیقت ٹی ٹی پی کے عناصر کو ” اسلامی ریاست- خراسان “کی صفوں میں شامل ہونے کی ترغیب دے سکتی ہے یا وہ خود کابل کی حکومت پر اپنی بندوقیں تان سکتے ہیں۔لہٰذا افغان طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ اگر سمجھداری سے نہیں نمٹا گیا تو، مشرقی افغانستان میں عسکریت پسندی کا خطرہ،افغان طالبان مخالف محاذ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ افغان طالبان پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد کو نرم کرنا چاہتے ہیں۔ سرحدی علاقوں میں ٹی ٹی پی کا خطرہ اور ٹی ٹی پی کے خلاف پاکستانی فوج کی فوجی کارروائیاں ڈیورنڈ لائن کو نرم سرحد بنانے کے ان کے ہدف کو مزید مشکل بنا دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے خطرے کو حل کرنے میں پاکستان کی مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن بغیر کوئی قیمت ادا کیے۔ ان کی نظر میں ایسا کرنے کا بہترین طریقہ پاکستانی حکام اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات میں سہولت فراہم کرنا ہے، جس کی انہوں نے کوشش بھی کی لیکن اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔

 

مسلمانوں کے درمیان جنگ ایک بہت بڑا گناہ ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے:” اور جو شخص مسلمان کو قصداً مار ڈالے گا تو اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ (جلتا) رہے گا اور اللہ اس پر غضبناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور ایسے شخص کے لئے اس نے بڑا (سخت) عذاب تیار کر رکھا ہے”(النساء،4:93)۔ اسی طرح رسول اللہﷺ نے فرمایا، “مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے”(بخاری و مسلم)۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا، “جب دو مسلمان لڑائی میں آمنے سامنے ہوں اور ایک دوسرے کو قتل کر دے تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں ہیں”۔ صحابہؓ نے پوچھا، “اے اللہ کے رسولﷺ، یہ قاتل ہے- لیکن اُس غریب کا کیا ہوگا جو مارا گیا ہے؟” آپﷺ نے فرمایا، “وہ بھی اپنے ساتھی کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا”(بخاری)۔

 

پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت واضح طور پر افغانستان کے ساتھ اپنی مغربی سرحد کی صورتحال پر پریشانی کا شکار ہے۔ سلامتی کا یہ بحران امریکہ کے اسٹریٹجک وژن کے آگے گھٹنے ٹیکنے کا نتیجہ ہے۔ یہ صرف اسلام کا نظام خلافت ہی ہو گا جو پاکستان کی مغربی سرحدوں پر سلامتی اور خوشحالی کی ضمانت دے گا۔ یہ نظام ڈیورنڈ لائن کو ہمیشہ کیلئے مٹا دے گاکیونکہ ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف کے مسلمان بھائی بھائی ہیں اور امتِ مسلمہ کا حصہ ہیں۔ ان کے معاملات کو مصنوعی سرحدوں کے ذریعے تقسیم نہیں کیا جانا چاہیے۔ خلافت ایک ایسا حفاظتی انتظام قائم کرے گی جس میں قبائل بھی شامل ہوں گے۔ قبائل کی فوجی طاقت، اسلام کے غلبہ کو مزید آگے بڑھائے گی۔ یہ پشتون قبائل ہی تھے جنہوں نے آزاد کشمیر کو آزاد کرانے، سوویت روس کو پسپا کرنے اور استعماری امریکہ کو نکالنے میں مدد کی۔لہٰذا یہ خلافت ہی ہو گی جو مؤثر طریقے سے قبائلی جنگجوؤں اور مسلح افواج کو کفار کے خلاف ایک قوت وطاقت کے طور پر متحرک کرے گی۔

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
77885

اب بھی وقت ہے – از: کلثوم رضا

اب بھی وقت ہے – از: کلثوم رضا

موج بڑھے یا اندھی آئے دیا جلائے رکھنا یے
گھر کی خاطر سو دکھ جھیلے گھر تو اخر اپنا ہے۔۔۔

سوشل میڈیا ہر خبر کو جلد بلکہ بہت جلد اپنے صارفین تک پہنچاتی ہے۔ سچ ہو چاہے جھوٹ ۔۔۔جتنی خیر پھیلائی جاتی ہے اس سے کہیں زیادہ شر پھیلایا جا تا یے۔۔۔
کبھی کوئی کہتا ہے کہ “علامہ محمد اقبال پاکستان بنانے کے خلاف تھے” ،کوئی کہتا ہے کہ “قائد اعظم محمد علی جناح اس ملک کو ایک سیکولر ملک بنایا تھا،بعد میں مذہب کے ٹھیکیداروں نے اسے اسلامی بنانے کی کوششیں کیں”۔

کوئی کہتا یے کہ “پاکستان بنانے میں جتنی قربانیوں کا ذکر ہے اس سے کہیں ذیادہ ناروا سلوک پاکستان حاصل کرنے والوں نے ہندوؤں ،سیکھوں اور یہاں سے جانے والے انگریزوں کے ساتھ کیا”۔

اور کوئی کہتا ہے کہ “پاکستان بنانے والوں نے اسے اپنے چند مقاصد کے لیے بنائے تھے۔اس میں پاکستانی عوام کے لیے کچھ نہیں ہے۔یہ صرف سیاسی تجارت ہے”۔اور تو اور اب سکولوں میں بھی معاشرتی علوم کا پریڈ استاد بچوں اور بچیوں کو یہ پڑھانے میں گزارتا ہے کہ “جو اس کتاب میں لکھا گیا ہے اور پڑھایا جاتا رہا ہے سب جھوٹ ہے۔نہ ہی پاکستان کبھی اسلامی جمہوریہ پاکستان تھا نہ ہے ۔یہ ایک سیکولر ملک تھا اور ریے گا۔۔”
خدا ناخواستہ ۔۔
جانے یہ کون لوگ ہیں
” جو ہم ہی میں رہ کر ہمارے گھر کو جلا رہے ہیں۔۔”
جو ہماری نسلوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔انہیں اپنے وطن سے بیزار کر رہے ہیں ,اذاد ملک اور اذادی سے لا تعلق بنا رہے ہیں۔

پچھلے سال میں نے یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر سٹیٹس لگائی جس میں “کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ تھا تو فوراً ایک صاحب نے مسیج کیا “کیوں اسے مصیبت میں ڈال رہی ہو اس سے اچھا ہے کہ وہ ہندوستان کے ساتھ مل جائے دو وقت کی روٹی اسے اسانی سے مل جائے گی”۔

اب دو روز پہلے کسی نے سٹیٹس لگایا کہ “اب بھی وقت ہے ملک کو گوروں کے حوالے کرتے ہیں”۔میں نے کہا کہ “یہ کیا۔۔ پھر سے غلامی کی تدبیریں”؟۔تو کہا کہ “اب ہم کون سے آزاد ہیں ،اس سے تو بہتر ہو گی گوروں کی غلامی “۔
یہ سب نا امیدی کون پھیلا رہا ہے؟

کل ہی میرا بیٹا کہہ رہا تھا کہ فیس بک پر دیکھایا گیا ہے کہ واہگہ بارڈر فلیگ مارچ دیکھنے پاکستانی نہیں جاتے اور بھارت سے بہت سارے لوگ آتے ہیں ۔
اس یوم آزادی کے موقع پر ایسے دلخراش واقعات اور پیغامات ملتی ہیں کہ الامان ۔
زرا سوچیں یہ سب قوم کا حوصلہ پست کرنے اور عوام میں ناامیدی پھیلانے کی سازشیں ہو سکتی ہیں۔ایسے میں تصویر کا ایک رخ دیکھ کر اسی پر اکتفاء نہیں کرنی چاہیئے بلکہ دونوں رخ اپنے آنکھوں سے دیکھ لینی چاہیئے ۔

حالات چاہے جیسے بھی ہوں مگر ہم نے اپنی آزادی کے دن کو آزاد قوموں کی طرح اپنے اسلامی اقدار کے مطابق شکرانے کے نوافل پڑھ کر منانی چاہیئے ۔
ازادی بہت بڑی نعمت ہے۔ اس کی قدر کوئی جاکے کشمیریوں اور فلسطینیوں سے پوچھے،بنگال کے بے بس بہاریوں سے پوچھے ،جا کے شامیوں سے پوچھے،اور کوئی جا کے امریکہ میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے پوچھے کہ آزادی کیا شے ہے؟
یہ سب ہماری ذہنی غلامی کا نتیجہ ہے جو خوف اور ناامیدی کو اپنے اوپر مسلط کر رہے ہیں ۔مسلمان کبھی نا امید اور بزدل نہیں ہوتا۔۔ہر رات کے بعد سویرا ہے یہ میرے آللہ کا فرمان ہے۔

 

کبھی مایوس مت ہونا
اندھیرا کتنا گہرا ہو
سحر کی راہ میں حائل
کبھی بھی ہو نہیں سکتا
سویرا ہو کے رہتا ہے
کبھی مایوس مت ہونا،

 

میں تو کہتی ہوں
” اب بھی وقت ہے” مایوسی اور ناامیدی سے نکل جائیں۔
ابھی بھی وقت ہے ملک کو گوروں کے حوالے کرنے کے بجائے ان کے دئے ہوئے کلچر سے آزادی حاصل کر لیں ۔
“اب بھی وقت ہے”اللہ تعالیٰ پر کامل یقین رکھتے ہوئے مضبوط قوت ارادی سے قرآن پاک کو رہنما بنا لیں۔
“اب بھی وقت ہے”اس ملک کی سالمیت اور بقا کے لیے،اپنی پہچان اور روشن مستقبل کے لیے زمام کار صالحین کے ہاتھ میں دے کر صالحیت کی ترویج کے لیے کوشاں ہو جایئیے ۔پھر دیکھیں یہ سازشیں ،یہ مایوسیاں کیسے اپ سے دور بھاگیں گی۔۔
چلو

 

اِک نظم لکھیں
اے اَرضِ وطن آ تیرے لیے اِک نظم لکھیں
تِتلی کے پَروں سے رَنگ چنیں
اِن سازوں سے آہنگ چنیں
جو رُوح میں بجتے رہتے ہیں
اور خواب بُنیں ان پھولوں کے
جو تیری مہک سے وابستہ
ہر آنکھ میں سجتے رہتے ہیں
ہر عکس ہو جس میں لاثانی
ہم ایسا اِک اَرژنگ چُنیں
اور نظم لکھیں…!
وہ نظم کہ جس کے حرفوں جیسے،
حرف کسی ابجد میں نہیں
وہ رنگ اتاریں لفظوں میں،
جو قوسِ قزح کی زد میں نہیں
اور جس کی ہر اک سطر میں،
خوشبو ایسی لہریں لیتی ہو،
جو وہم و گماں کی حد میں نہیں
اور جب یہ سب انہونی باتیں،
ان دیکھی، ان چھوئی چیزیں
اک دوجے میں مل جائیں تو نظم بنے
اے ارض وطن وہ نظم بنے،
جو اپنی صِفَت میں کامل ہو
جو تیرے روپ کے شایاں ہو،
اور میرے ہنر کا حاصل ہو!
اے ارضِ وطن اے ارضِ اماں
تو شاد رہے، آباد رہے
میں تیرا تھا، میں تیرا ہوں
بس اتنا تجھ کو یاد رہے
‘اس کشت ہنر میں جو کچھ ہے’
کب میرا ہے!
سب تجھ سے ہے، سب تیرا ہے
یہ حرف و سخن، یہ لوح و قلم
سب اڑتی دھول مسافت کی
سب جوگی والا پھیرا ہے
سب تجھ سے ہے، سب تیرا ہے
سب تیرا ہے
…امجد اسلام امجد
پاکستان پائندہ باد

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
77832

سانحہ یونیورسٹی اور ہماری زمہ داریاں ۔ تحریر! شہاب ثنا برغوزی

سانحہ یونیورسٹی اور ہماری زمہ داریاں ۔ تحریر! شہاب ثنا برغوزی

پروفیسر برے ہیں کمینے ہیں تعلیمی نظام ٹھیک نہیں ، یہ ٹھیک نہیں وہ ٹھیک نہیں ،اسے مار دو اسے مر جانا چاہیے۔۔۔یہ وہ۔۔۔
میرا لوگوں سے سوال ہے کیا قصور پروفیسروں اور تعلیمی نظام کا ہے؟کیا آپ نے اپنی بچیوں کی تربیت ایسی کی ہے ؟کیا ہراسانی اور دباؤ کی شکایت آپ سے شئیر کر سکیں ۔۔کیا آپ نے بچیوں کو یونیورسٹی میں داخل کرانے سے پہلے ایک بار بھی سوچا کہ کسی گرلز یونیورسٹی میں کرایا جائے ؟کبھی بچیوں سے پوچھتے ہیں کہ یونیورسٹی میں اتنا میک اپ اور تیار ہو کہ کیوں جاتی ہیں ؟کبھی سوال کیا ہے کہ اتنے مہنگے تحفے دے کون اور کیوں رہا ہے؟؟؟؟؟

جی کچھ سوال آپ والدین سے ہیں جو اپنی زمہ داریاں پوری نہیں کرسکے۔۔اور کچھ سوال معاشرے سے ۔۔کیا لڑکیاں بن ٹھن کر یونیورسٹی نہیں جاتیں ؟کیا وہ خود کو پروفیسر اور امیر لڑکوں کے سامنے پیش نہیں کرتیں ؟ کیا جی بی بڑھانے کے لیے شرم و حیا کی حدیں پار نہیں کی جاتی ؟
تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی سب گناہ گار ہیں کوئی ایمان داری سے کام نہیں کر رہا۔۔نہ بچوں کی پرورش کرنے والے والدین ،نہ استاد نہ معاشرہ ۔۔۔تو صرف استاد ہی گالیوں کے حقدار کیوں؟؟؟

وہ لڑکیاں جو گھر سے پردے میں آتی ہیں لیکن ادارے میں جاتے ہی پردہ غائب،لڑکوں کی توجہ اور واہ واہ پانے کے لیے تنگ کپڑے اور گھٹیا فیشن کرتی ہیں پہلے سے سوئے ہوئے والدین کی آنکھوں میں دھول جھونک کر دوستیاں ہوتی ہیں ۔
دودھ خود بخود نہیں ابلتا
آگ جلتی ہے ابالنے کے لیے

جب تک ہم بذات خود اپنا محاسبہ نہیں کریں گے ایسے واقعات ہوتے رہیں گے اپنے بچوں کو تعلیم ضرور دیں لیکن ان پر مکمل نظر بھی رکھیں اجکل یونیورسٹیوں کی حالات اس قدر خراب ہو چکے ہیں وہاں جنسی معاملات اور نشہ عام سی بات ہوگئی ہے ثقافت کے نام پر بے حیائی اور فحاشی ہر ادارے کا معمول بن چکا ہے ۔۔اگر علم اس چیز کا نام ہے جو ایسے یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے جہاں کبھی بہن کے فگر کی پیمائش مانگی جاتی ہے اور کہیں اس مقدس رشتے کو پامال کیا جاتا ہے باقی نسل نو کی جو تربیت یہ تعلیمی ادارے کر رہے ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔۔جب تک ہم خود نہیں بدلیں گے یہ واقعات ہوتے رہیں گے ایام کربلا ہیں جس طرح اس وقت بی بی زینب نے پردہ و ایمان کی حفاظت کی ۔۔ہماری ماؤں اور بہنوں کے لیے تاریخ کی صورت میں موجود ہے۔اپنے افکار بدلیں اس سے پہلے کہ یہ آگ آپ کے گھر تک پہنچ جائے اللّٰہ پاک ہماری اور آپ سب کے عزتوں کو محفوظ رکھے۔۔فی امان اللہ ۔۔۔
خوش رہو ۔۔اختلاف کی اجازت ہے۔۔۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, گلگت بلتستانTagged
77176

روزانہ روڈ ایکسیڈنٹ ‘آخر کیوں؟؟ – گل عدن چترال

روزانہ روڈ ایکسیڈنٹ ‘آخر کیوں؟؟ – گل عدن چترال

ہم اکثر یہ کہتے اور سنتے رہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں اگر کوئی چیز بہت سستی ہے تو وہ انسانی جان ہےاور یہی سچ ہے۔اسکا ثبوت ملک میں لاقانونیت اور ناانصافی اور دیگر مثالیں جیسا کہ روز بڑھتی ہوئی مہنگائی ،تعلیمی اداروں میں نشے کا بڑھتا ہوا رجحان اور ٹارگٹ کلنگ وغیرہ سر فہرست ہیں ۔لیکن آج جس چیز نے قلم اٹھانے پر مجبور کیا ہے وہ ایک تواتر سے ہونے والے ٹریفک حادثات ہیں۔اس ایک ماہ میں صرف چترال کے اندر جتنے روڈ ایکسیڈینٹ ہوئے ہیں یہ ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔سالوں پہلے ایسے حادثات مہینوں میں کھبی کوئی ایک دو بار ہوتے تھے مگر اب روڈ ایکسیڈنٹ کے واقعات ہماری روز کا معمول بن چکی ہیں۔

 

 

ایک دن کا اخبار بھی اس سرخی کے بغیر نہیں آتا۔کیوں؟ کیا انسانی جان اتنی سستی ہے خود ہمارے ہاتھوں ۔کیا ہمیں ہر حادثے کی وجہ صرف تکنیکی خرابی پر ڈال کر روز اپنی جانوں کا نذرانہ دینا چاہئے؟؟ یا ہر چیز کی ذمہ داری حکومت پر ڈالنا چاہئے؟؟اگر حقیقت تسلیم کی جائے تو آجکل پورے پاکستان میں اور خاص طور پہ چترال میں جس نشے نے ہمارے ڈرائیوروں اور نوجوانوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے وہ ہے تیز رفتاری کا “جنون”۔۔اور جیسا کہ ہمارا ماننا ہےکہ جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے واقعی آئے دن کے یہ حادثات یہ بات ثابت کررہے ہیں ۔موجودہ دوڑ میں نفسا نفسی کا یہ عالم ہے کہ ہر شخص انتہائی جلدی میں ہے۔آپ بازار میں سودا سلف لینے جائیں،گاہک تو جلدی میں ہیں سو ہیں مگر دکاندار گاہکوں سے زیادہ جلدی مچا رہے ہوتے ہیں ۔ اس جلدی جلدی میں کوئی ناپ تول میں کمی بیشی کر رہا ہے کوئی کچھ کررہا ہے۔ہسپتال جائیں’ڈاکٹر کو مریض سے ذیادہ جلدی ہے۔۔

 

بینک میں کھڑے ہوں ‘مسجد میں نمازیوں کی بے صبری دیکھیں،مسافر اڈے پر پانچ منٹ کھڑے ہوکر ملاحظہ کریں عجب جھپٹا جھپٹی ہے سمجھ میں نہیں آتا کہ کس بات کی جلدی ہے سب کو۔کیا چھیننے کی کوشش ہورہی ہے خوف آتا ہے اس بھاگ دوڑ سے۔بلکل ایسے ہی خوف ناک جلدی ڈرائیور حضرات کو ہے۔کراچی سے خیبر تک ہر شخص کو اپنی اپنی منزل پر پہنچنے کی انتہائی جلدی ہے۔چاہے ایک رکشہ ڈرائیور ہو،ٹرک ڈرائیور ہو کوئی سرکار کا آدمی ہو یا ہمارے گھر کا ایک فرد اپنی ذاتی گاڑی چلا رہا ہو ۔گاڑی چلانے کے معاملے میں ان سب کی بے صبری، ذہنی کیفیت اور معیار ہو بہو ایک جیسی ہے۔چاہے پڑھا لکھا آدمی ہو یا ان پڑھ غریب سب کو لگتا ہے کہ تیز رفتاری انکی شخصیت کو چار چاند لگا دے گا مگر افسوس چار چاند کا تو نہیں پتہ لیکن چار سو ٹانکے ضرور لگ جاتے ہیں۔

 

ان حادثات سے بچنے کے لئے حکومت تدابیر کرے یا نہ کرے مگر ہمارے ڈرائیور حضرات عوام کی زندگیوں کے ساتھ کھیلنا بند کریں۔قیمتی جانوں کو اپنی تیز رفتاری کے جنون کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔ایک ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے شخص کو اپنی زندگی سے پیار ہے یا نہیں ہے مگر پیچھے بیٹھے افراد کی زندگی اہم ہے، قیمتی ہے ،پیاری ہے۔ایک مہذب شہری ہونے کا ثبوت دیں اور دوسروں کی زندگیوں کو جان بوجھ کر خطرے میں ڈالنے سے گریز کریں خدارا۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
76959

ایک لڑکی کی داستان!! ۔ تحریر: شہاب ثنا برغوزی

ایک لڑکی کی داستان!! ۔ تحریر: شہاب ثنا برغوزی

میں ایک لڑکی ہوں۔۔

میں زیادہ بولوں تو چالاک، چپ رہو تو دبو۔۔ میں پڑھوں تو تیز طرار، نہ پڑھوں تو جاہل۔۔ میں اپنے حق کے لیے لڑوں تو منہ پھٹ، اور اگر نہ بولوں تو اللّٰہ میاں کی گائے ۔۔۔میں ہمسفر کے لیے پسند بتاؤں تو بے شرم، اور اگر بڑوں کے فیصلوں پر سر جھکاؤں تو بھیڑ بکری۔۔۔ میری شادی نہیں ہو رہی تو میرا قصور، میں طلاق یافتہ ہوں تو بھی میرا قصور ۔۔ میں ماں بہن بیٹی بیوی ہوں تو عزتوں کی امین، میں دوسروں کی ماں بہن بیٹی بیوی ہوں تو مفت کا مال۔۔۔ میں پینٹ پہنوں تو ماڈرن، میں عبایا پہنوں تو بیک ورڈ۔۔۔ میں میک اپ کروں تو آرٹیفیشل، میں میک اپ نہ کروں تو پینڈو۔۔۔ میں گھر سے نکلوں تو اوور کانفیڈنٹ، میں گھر میں رہوں تو آئی ہیو نو کانفیڈینس ۔۔۔ میں کچن میں ہی رہوں تو سگھڑ،میں باہر سے منگواوں تو جدید عورت۔۔۔ میں سوشل میڈیا یوز کروں تو ہاتھ سے نکل گئی،میں مدرسے جاؤں تو ٹیپکل دینی۔۔۔

 

میں مردوں کے ساتھ کام کروں تو آزاد خیال، میں مردوں کے ساتھ کام سے انکار کروں تو بیک موڈد۔۔۔ میں خود ساختہ بنائی ہوئی روایات ،رسموں اور رواجوں میں جھکڑی ہوئی ہوں کیونکہ میں لڑکا نہیں “لڑکی” ہوں اس دین نے دیا ہے اعلی مقام مجھے، پھر کیوں لوگ میری پیدائش کی خوشی نہیں مناتے؟ غرض کہ جس کی جیسی سوچ ،اس نے ویسا جانچا مجھے۔۔۔ میں ان سب رویوں کے ساتھ جیتی ہوں، کیونکہ میں ایک آزاد ملک کی قیدی لڑکی ہوں۔۔ میں اڑنا چاہتی ہوں پر میرے پر آنے سے پہلے کاٹ دیے جاتے ہیں۔۔ میں اسلام کے دائرے میں رہ کر آزاد فضا میں سانس لینا چاہتی ہوں پر یہاں کی فضا حبس زدہ ہے ۔۔۔ میرے خوابوں کو آنکھوں سے نوچنے والے اور میری صلاحیتوں کو دبانے والی نہیں ۔۔۔ ۔بلکہ۔۔۔ میرے خوابوں کو آنکھوں میں سجانے والے اور صلاحیتوں کو ابھارنے والے بنو۔۔۔ کیونکہ۔۔۔ میں ایک لڑکی ہونے سے پہلے ایک جیتی جاگتی انسان ہوں۔۔۔ اس مردوں کے معاشرے میں مجھے سر اٹھا کے چلنا ہے مجھے اپنی کانچ سے زیادہ نازک عزت کی حفاظت کرنی ہے۔۔۔ اور مردوں کے اس معاشرے میں پردے میں رہ کر مجھے اپنے آپ کو منوانا ہے مجھے لوگوں کی بیمار سوچ کو بدلنا ہے مجھے بوڑھے والدین کا سہارا بننا ہے مجھے پردے میں رہ کر روٹی کے لئے باہر نکلنا ہے۔۔میں ایک لڑکی ہوں تو کیا؟؟؟

 

میرے اپنے بھی کچھ خواب ،ارمان اور خواہشات ہیں۔۔۔ میں اللّٰہ کی بنائی ہوئی ایک خوبصورت مخلوق ہوں۔۔ بحیثیت “ماں” اللّٰہ پاک نے میرے قدموں تلے جنت بنائی ہے تو پھر یہ معاشرہ میرا بھی اتنا ہے جتنا مردوں کا ۔ میں مردوں کی برابری نہیں چاہتی بس اپنے خوابوں کی تکمیل چاہتی ہوں۔۔ میں سڑک سے گزروں تو نظریں طواف کرنے کی بجائے نیچی ہونی چاہئے ۔۔ کیونکہ گھر سے نکلی ہوئی ہر لڑکی بری بدکردار نہیں ہوتی کچھ لڑکیاں مجبوری میں نکلتی ہیں ۔۔ میں ایک لڑکی ہوں اور میں کمزور نہیں ہوں کیونکہ میرے اللّٰہ نے مجھے کمزور نہیں بنایا الحمد اللّٰہ ۔۔۔
خوش رہو اختلاف کی اجازت ہے۔۔۔۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
76634

والد محترم – تحریر ۔ کلثوم رضا

Posted on

والد محترم – تحریر ۔ کلثوم رضا

خطائیں دیکھ کر بھی نظر انداز کرتے تھے
میرے والد تیری شفقت کے کیا کہنے۔۔۔

جب سوشل میڈیا سے متعارف ہوئی تو پتہ چلا کہ 19 جون “ورلڈ فادر ڈے” کے نام سے منایا جاتا ہے۔
والدین کے لیے صرف ایک دن۔۔۔یہ کیسے ہو سکتا ہے؟

ہمارے سارے دن ،ساری راتیں انھی کی مرہونِ منت ہیں۔۔۔ہمارا نام ،ہماری جان پہچان سب انھی کی بدولت ہے۔۔کیا کیا نہیں کیے ہماری چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے لیے ،نا ختم ہونے والی فرمائشیں پوری کرنے کے لیے ۔۔۔جب سے خود اس عہدے پر فائز ہو گئے ہیں تو پتہ چلا کتنا مشکل ہے بچوں کی خوشیوں کی خاطر نا چاہتے ہوئے بھی وہ کام کرنا جس کو کرنے کا اپ کا دل نہیں چاہ ریا ہو۔مگر پھر بھی آپ کر جاتے ہیں ۔بچے کوئی فرمائش کریں آپ کو پتہ بھی ہے آپ پوری نہیں کر سکتے تو پھر بھی آخری حد تک کوشش کرتے ہیں کہ کہیں سے ان کی یہ خواہش پوری کر دیں۔

ہم بھی کوئی فرمائش کرتے تو والد صاحب چب ہو جاتے تو ایک ،دو،تین دنوں میں وہ فرمائشی چیز لا کر دے دیتے تھے۔ورنہ اس فرمائش پر تو فوراً جواب دے دیتے جس سے پوری کرنا اس کے لئے آسان ہوتا “کیوں نہیں میں آج یا کل یا پرسوں جب بازار جاؤں گا تو ضرور اپنی بیٹی کے لئے خرید کر لاؤں گا “.
اب جا کے یہ احساس ہوتا ہے کہ جس چیز پر وہ چپ ہو جاتے تھے اسے پوری کرنےکے لیے اسے کتنی محنت کرنی پڑتی ہو گی۔

امی کچھ سمجھاتی کہ یہ “فضول خرچی ہے ۔آپ لوگ یوں فرمائشیں نہ کرو ،جس چیز کی آپ کو ضرورت ہوتی ہے وہ آپ کو ابو لا کر دیتے ہیں “یا کسی بات پر ڈانٹ دیتی تو والد صاحب فوراً امی کو منع کرتے ۔”یہ بچے ہیں انھیں نہ ڈانٹیں اور نہ ہی انھیں روکیں ،جو مانگتے ہیں اپنے والد سے مانگتے ہیں ،اب اگر ان کی یہ خواہش ہم پوری نہیں کریں گے تو کون کرے گا۔”

پہلی اولاد ہونے کے ناطے میرے تو بہت ناز ،نخرے اٹھائے ہیں میرے والد محترم نے۔
کھانا بھی اپنے ہاتھوں سے گرم ،سرد کو نرم کرکے کھلاتے ،چائے ،دودھ بھی اپنے ہاتھوں سے پلاتے،خوبصورت پھول،رنگین پرندے اور تتلیاں،اچھے میوے اور خوبصورت جگہیں میرے نام سے منسوب کرتے۔میں بھی جب خوب بڑی ہو گئی تو سمجھ گئی یہ سب میرے نہیں ہیں۔۔۔

میں کوئی اچھا کام کر جاتی تو خوب تعریف کرتے اور ہر رشتہ داروں اور دوستوں کو بتاتے،جب کوئی غلطی کر جاتی تو یکسر نظر انداز کرتے کہ کہیں بیٹی شرمندہ نہ ہو جائے،بعد میں اکیلے میں سمجھاتے اس بات کو لے کر نہیں کہیں سے مثال دے کر ،میں سمجھ جاتی کہ یہ فلاں وقت کی فلاں غلطی پر سمجھایا ہے۔

گاؤں میں لڑکیوں کے لیے کوئی اسکول نہیں تھا تو چہارم پاس کرنے کے بعد امی نے مجھے اپنے گھر بھیجا پڑھنے کے لیے۔۔۔تو والد محترم ہر دو دن میں ملنے آ جاتے ،میرے لیے گھر سے بھی میری پسند کی چیزیں دیسی مرغی پکا کے،دیسی انڈے ابال کے،مکھن،کھیرا اور انجیر وغیرہ لاتے اور بازار سے جلیبی ،تکہ،کباب اور شکر پارے لاتے۔پیسے الگ سے دیتے کہ دوستوں کو لے کر کچھ کھاؤ ،پیو۔میری سہیلیاں بھی جب اسکول کی خالہ کلاس میں آ جاتی تو سب سمجھ جاتیں کہ والد صاحب آئے ہیں اور مجھ سے پہلے پہلے ابو کے پاس پہنچ جاتیں ۔ابو ان سب کو پیار کرتے ان کا اور ان کے گھر والوں کا حال پوچھتے ۔میرے ابو کو میری تمام سہیلیوں کے نام انکے والد صاحباں کے نام یاد تھے۔

میری امی بتاتی ہیں کہ ہم دونوں بہنوں کے جب ہم ننھیال میں ہوتے تو میرے ابو ہمارے کپڑے خود استری کر کے الماری میں ٹانک دیتے اور ہمارے استعمال کے قابل تو کیا پرانے جوتے بھی صاف کر کے اوپر کپڑا لپیٹ کے رکھ دیتے تھے ۔

ہر جمعرات کو ہمیں لے کر گاؤں جاتے تو مہمانوں کی طرح ہماری خوب مدارات کرتے ۔کھیتوں میں لے جاتے ،رشتہ داروں سے ملواتے ،ان کے کسی مسلے کا حل ہم سے پوچھتے ،کوئی معلومات ان تک ہم سے پہنچاتے ۔اج سوچتی ہوں تو یہ ان کا کتنا بڑا پن تھا ۔۔شاید انھیں ایسا لگتا ہو گآ کہ ہم گاؤں سے دور رہ کر اپنے لوگوں کے دکھ سکھ سے غافل رہیں گے ۔اور وہ اسی ذریعے سے ہمیں ہمارے گاؤں کے لوگوں کے قریب لے جاتے اور ان کے دل میں ہمارے لیے محبت و احترام پیدا کرتے تھے۔

ہم دو بہنیں دو بھائی ،دونوں بھائی ہم بہنوں سے چھوٹے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہمارے والدین نے ہمیں بہت محبت اور محنت سے پالا پوسا ،پڑھایا لکھایا ۔اپنے گاؤں اور خاندان کی میں پہلی بیٹی ہوں جس نے ماسٹر کیا۔بیٹے ،بیٹیوں کی شادی بھی قریب قریب علاقوں میں رشتہ داروں اور جان پہچان والوں میں کیا ۔جلدی جلدی ملنے آتے اور ہمیں بھی جلدی جلدی اپنے ہاں بلاتے ۔

میرے بھائیوں سے کہتے کبھی خالی ہاتھ اپنی بہنوں کے گھر نہ جائیں ان کے لیے انکی پسند اور اپنی پسندیدہ چیزیں ہی لے کر جانا ۔الحمد للہ میرے دونوں بھائی ہماری اور ہماری امی کی خوشیوں اور ضرورتوں کا خیال رکھتے ہیں۔اللہ تعالیٰ انکے عمر،مال اولاد میں برکت ڈالے رکھے امین۔
میرے والد محترم کو ہم سے بچھڑے سات سال ہونے کو ہے لیکن ایک پل بھی نہیں لگتا کہ وہ ہم سے بچھڑ گئے ہیں۔انکی یادیں انکی باتیں ہر وقت ہر لمحہ ساتھ ریتی ہیں۔
میں اپنے والدین،بہن بھائیوں اور انکے بچوں کے خاص دن ڈائری میں نوٹ کرتی رہتی ہوں مگر آج تک مجھ سے میرے والد صاحب کے وفات کی تاریخ نہی لکھی جاسکی۔حالانکہ ان کے گزارے ہر ہر خاص دن ،ان پر دل کا دورہِ پڑنے ،انجیو گرافی،انجیو پلاسٹی ،بائی پاس ،انکھ کا آپریشن ،حج پر جانے،انے کی تاریخ سب لکھے ہیں صرف وہ دن (جو مجھ سے کبھی بھلایا نہیں جائے گا ) نہیں لکھا ہے۔

ان دنوں میرے ابو کا شوگر ذیادہ ہونے وجہ سے بھائی اسے لیکر پشاور گئے وہاں وہ بہت بہتر ہوگئے تو بھائی نے فیصلہ کیا کہ سردیاں پشاور ہی میں گزاریں گے۔اس روز بھی میں نے فون پر ابو سے تقریبا دو گھنٹے تک بات کی ۔ابو نے گھر کے اور باہر کے سارے کاموں کے متعلق پوچھا تو میں نے بتایا کہ سارے ہو گئے ہیں تو بہت خوش ہوئے ۔اور یہ بھی میں نے بتایا کہ میں اور عمرانہ (میری چھوٹی بہن)عمرہ کے لیے جارہی ہیں تو اور بھی خوش ہوئے اور بہت ذیادہ دعائیں دیں۔اور ساتھ ہم نے منصوبہ بھی بنایا کہ جاتے ہوئے بچوں کو ان کے ہاں چھوڑ جائیں گے اور عمرے سے واپسی پر سب ساتھ چترال آئیں گے تب تک بچوں کی چھٹیاں بھی ختم ہو جائیں گی اور سردی کا زور بھی نہیں رہے گا۔۔۔رات کو پھر بھائی سے فون کروایا کہ دن بھر کی مصروفیت اور خیریت کے بارے میں بتائیں تو میں نے بھائی کو بتایا کہ مجھے ہلکا سا بخار ہے ڈاکٹر کے پاس گئی تھی دوائی دے دی ہے۔۔۔تو ابو کی آواز آئی اپنی بہن سے کہیں کہ ٹھنڈ سے خود کو بھی بچائے اور بچوں کو بھی بچائے ،انکو ٹھنڈ لگ جاتی ہے تو دیر تک رہتی ہے ۔۔۔اور ذیادہ بات کرنے سے بھی منع کیا کہ گلہ مزید خراب نہ ہو جائے اور آرام کرنے کو کہا ۔۔۔مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ شفیق آواز میں پھر کبھی نہیں سن پاؤں گی ۔۔۔میں دوا لینے کے بعد آرام کی غرض سے کمرے میں گئی اور سونے کی کوشش کرتی رہی ۔۔۔نیند آنکھوں سے کوسوں دور جا چکی تھی شاید اسے میرے سر سے گھنے چھاؤں کے اٹھنے کا غم تھا کروٹیں بدلتے بدلتے رات کے تیسرے پہر میری نظر پڑی کہ موبائل سے روشنی ا رہی ہے میں سمجھی شاید الارم ہے اٹھا کے دیکھا تو بھائی کا مسیج تھا “میرے ابو کا انتقال ہو گیا”فورا کال ملایا تو وہ زاروقطار روئے جا رہے تھے کہ تھوڑی دیر پہلے مجھ سے باتیں کرتے کرتے(مہمان بھی تھے ان سے بھی باتیں کیں)پھر سو گئے تھے پھر اچانک آواز دی کہ” بیٹا ذرا مجھے اٹھا کے بیٹھاو میرا دل گھبرا رہا ہے” ۔۔۔بھائی کہتے ہیں میں نے فورا اٹھایا تو ابو پسینے میں شرابور تھے اور کہ رہے تھے” اتنی سردی میں یہ پسینہ کہاں سے آ گیا”اور میری طرف دیکھ کر کچھ بولے بغیر کاندھے میں سر رکھ کر کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے خاموش ہو گئے ۔میں نے دوستوں کی مدد سے اٹھا کے گاڑی میں بیٹھایا اور گاڑی خود چلائی تاکہ تیز قریب ہی لیڈی ریڈنگ ہسپتال پہنچ جاؤں۔ لیکن جب پہنچا تو ڈاکٹروں نے بتایا کہ والد صاحب وفات پا چکے ہیں ۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔پھر کیا ۔۔وہ دن اور اج کا دن اس سے بڑی خبر مجھے کوئی نہیں لگتی۔

مجھے وہ دن بھی اچھی طرح یاد ہے جب میں چھوٹی سی تھی تو میرے والد صاحب داڑھی بنواتے اور انکی داڑھی کے کچھ بال زمین پر گرتے تو میں انھیں چمکیلے کاغذ میں محفوظ کر کے الماری کے خانے کے کونے میں چھپا کے رکھتی۔ان کے پرانے پھٹے کپڑے اور جوتے زمیں پر گرتے تو گناہ سمجھتی تھی لیکن اب میرے والد زمیں کے نیچے سوئے ہوئے ہیں میں کچھ نہیں کر سکتی ۔اگر یہ حکم ربی نہ ہوتا تو شاید سوچ سوچ کر پاگل ہو جاتی۔

یقینا یہ لحد میرے والد صاحب کے لیے جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔کیوں کہ میرے والد صاحب بچپن سے لے کر اخر وقت تک دنیا میں اپنے حصے کا کام احسن طریقے سے کر کے گئے ہیں۔زندگی کے نشیب و فراز اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری میں صبرو تحمل کے ساتھ گزارے ہیں۔فوج سے منسلک رہنے کی وجہ سے وطن عزیز سے محبت اور عزت ایسے کرتے تھے کہ ہمیں بھی رشک اتا کہ کاش ہم بھی فوج میں تعینات ہوتے اور وطن کی خدمت ایسے کرتے جس طرح میرے ابو نے 1965 اور 1971 کی جنگوں میں کیے۔سن 71 کا واقعہ سنا کر میرے والد صاحب کو بہت افسوس ہوتا کہ کس طرح حکومت پاکستان نے بے غیرتی سے پاک فوج سے ہتھیار ڈالوایا ۔

اپنے والد محترم کی کون کونسی خوبیوں کا ذکر کروں میرے پاس قلم ،سیاہی اور وقت بھی کم پڑ جائے اگر لکھنے بیٹھوں ۔اور نہ ہی میرے انسو تھمتے ہیں،دوپٹے کا پلو اور دامن تر ہو جاتے ہیں رو رو کر۔۔۔

اپنے والد محترم کے نام لکھے ہوئے نظموں میں سے ایک نظم کے ساتھ اپنی تحریر کا اختتام کرتی ہوں۔۔

کوئی چراغ آنکھوں میں اب، جلتے ہی نہیں
تیری یادوں کے دیئے کبھی بھجتے ہی نہیں

ایسی روانی لاتی ہیں ،تیری یادیں
میرے انسو ہیں ،کہ تھمتے ہی نہیں

ہر وقت رہتا ہے تیرا چہرہ روبرو میرے
ایسے بچھڑے ہیں، بچھڑتے ہی نہیں

دلاسہ دے دے کر سنبھالنا چاہوں خود کو
میرے حالات ایسے ہیں ،سنبھلتے ہی نہیں

تیرے جانے کے دن سے، یہ لگتا ہے مجھے
ٹھہر سے گئے ہیں یہ دن، بدلتے ہی نہیں

کیسے بتاؤں بابا! تیرے ہجر میں یہ دن
ایسے گزارے ہیں ، گزرتے ہی نہیں

جو دیا تم نے ہمیں پیار ،محبت دل سے
اب کوئی خلوص ، مہرو وفا جچتے ہی نہیں

ملیں گے تم سے ایک روز جنت میں
اب اسی شوق میں اوروں سے ملتے ہی نہیں

حوروں نے کی ہوں گی اپ کا
،خیر مقدم
چہرہ پر نور سے نظر ،ہوں گے ہٹتے ہی نہیں

رکھے گا مولا ! تجھے ،فردوس بریں میں
سنا ہے بیٹی کے دعا کبھی ٹلتے ہی نہیں۔۔۔

کلثوم رضا

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
75768

صاحب گفتار ۔ تحریر: میر سیما آ مان 

Posted on

صاحب گفتار ۔ تحریر: میر سیما آ مان

 

دنیا بھر کے دانشور کم گوئی کو سمجھ داری تصور کرتے ہیں لیکن عورتوں کی منطق ہر بات میں الگ ہے۔ہمارے ہاں خواتین کی محفل میں بغیر سوچے سمجھے بے تکا بولنے والی ہی سمجھدار بلکہ صاحب گفتار کہلاتی ہے ۔۔ اور خاموش رہنے والی کو کمزور یہاں تک کہ جاہل ناسمجھ اور بے وقوف  تصور کیا جاتا ہے ۔۔ سوال یہ ہے کہ خود کو صاحب گفتار سمجھنے والے واقعی صاحب گفتار ہیں بھی یا نہیں ۔۔۔

 

گفتگو کا  سلیقہ ذیادہ یا کم بولنے سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ یہ آپکے الفاظ  اور طر یقہ  گفتگو سے تعلق رکھتا ہے میرے نزدیک کسی بھی محفل کے تہذیب یافتہ ہونے کا اندازہ اپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اگر تین چار لوگ بیٹھے ہیں تو تیسرا شخص آپکی محفل میں خود کو بے کار تصور نہ کرے ۔۔ یہ آپکے صاحب گفتار ہونے کے ساتھ ساتھ تمیز دار ہونے کی بھی سب سے بڑی دلیل ہوگی۔ لیکن ہماری محفلوں میں ہوتا کیا ہے کہ اول تو کوئی سننے والا نہیں ہر کوئی صرف اپنی سنانے کا نہایت شوقین دوم اگر سنتے بھی ہیں تو صرف اپنے ہی جیسے کسی دوسرے کو ۔۔وہ تیسرا بندہ جو انکی سوچ سے میچ نہیں رکھتا وہ ان محفلوں میں صرف ایک لسنر کے حساب سے موجود ہوتا ہے ۔۔ اور یہ بات احادیث سے بھی ثابت ہے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ جب تین لوگ کسی جگہ اکھٹے بیٹھے ہوں تو دو لوگ آ پس میں کھسر پھسر نہ کریں اس سے تیسرے شخص کی دل شکنی ہوگی ۔۔اسی طرح رسول پاک سے پوچھا گیا کہ سب سے زیادہ جہنم میں لے جانے والی چیز کیا ہوگی تو آ پ نے فرما یا ذبان۔۔اسی طرح کہیں احادیث سے یہ حوالہ ملتا ہے کہ مومن کی زبان ذیادہ لعن طعن کرنے والی نہیں ہوسکتی۔۔یوں غیبت چغل خوری بہتان تراشی جیسے بد زبانی کی تمام قسموں کے بارے میں اسلام باقاعدہ تعلیم دیتا ہے

 

۔مگر ہم ان تمام باتوں سے آزاد ہو کر صرف بے تکا بولنے کو  ہی اپنا فن سمجھتے ہیں۔۔ چاہے ہمارا بولنا کسی کی دل آزاری کا باعث ہی کیوں نہ ہو ۔۔ لہذا بحثیت مسلمان جب کبھی صاحب گفتاری کا شوق چڑھے تو اتنا ضرور خیال کریں کہ کہیں آپکی زبان بد زبانی کے زمرے میں تو نہیں آ رہی۔دوسری اور آ خری بات وہ جو کسی نے کہا  ہے کہ آپکے الفاظ آپ کو کسی کے دل میں اتار بھی سکتے ہیں اور دل سے نکال بھی سکتے ہیں۔ لہذا  کوشش کریں کہ کم بولیں لیکن اچھا بولیں اور صرف بے تکا بولتے رہنے کو اپنا ہنر مت سمجھیں بلکہ کوشش رکھیں کہ آپکی زبان ہمیشہ حق کا ساتھ دینے والا ہو۔۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
75739

غریبی ختم – تحریر:کلثوم رضا

Posted on

غریبی ختم – تحریر:کلثوم رضا

“مبارک ہو غریبی ختم ،امیری ہی امیری ہو گی….نئی انقلابی حکومت ائی ہے”

یہ بات چھ سال پہلے جب ہم ایک رشتہ دار سے ملنے گئے تو کسی بات پر ان کے جواں سال بیٹے نے کہا ۔کچھ حیرانی سے ان کی طرف دیکھا تو مزید کہا ۔”کہ جس تیز رفتاری سے مہنگائی بڑھ رہی ہے اس سے یقیناً غریبی ختم ہو جائے گی۔کیوں کہ جب غریب کھانے کے لیے کھانا اور علاج کے لیے دوا لینے کے قابل نہیں رہے گا تو اس کی موت یقینی ہے۔اور جب سارے غریب ایک ایک ہو کر مر جائیں گے تو بچیں گے صرف امیر لوگ۔یوں غریبی ختم امیری ہی امیری رہ جائے گی”_
اس کی بات ذرا دل کو لگی مگر ہم نے ناامیدی اور مایوس کن خیالات سے خود کو اذاد کرکے جواب دے دیا “کہ ہو سکتا ہے نئی حکومت کچھ تبدیلی لائے۔”
لکین روزانہ تو کیا صبح و شام کے حساب سے مہنگائی بڑھتی ہی چلی گئی ۔

پہلے ہر کوئی سستی چیزوں میں دال، روٹی اور چائے چپاتی کی مثالیں دیتا تھا اب یہی دال ،روٹی ،چائے چپاتی بھی غریب کی پہنچ سے دور جا چکی ہے۔سنا ہے اکثر گھرانوں میں دودھ والی چائے پینا بھی بند ہو گیا ہے۔دال ،گھی،اٹا،چاول،چائے،چینی، ادویات حتیٰ کہ سبزی اور میوے کی قیمتیں بھی اسمان سے باتیں کرنے لگیں تو گوشت کا کوئی کیسے سوچ سکتا ہے۔ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ اشیاء خوردونوش کی قیمتیں مناسب ہوتیں تو غریب،مزدور کار اور متوسط کلاس کے لوگ اپنے بچوں کو کچھ کھلا پلا سکتے۔کچھ توانائی ان کے جسم میں آ جاتی ۔مناسب غذا اور بنیادی تعلیم ہر شہری کا حق ہے۔اب ہر کوئی پیٹ کی فکر میں ہلکاں ہوئے جا رہا ہے تو تعلیم کی طرف سوچے بھی کیسے۔۔۔بیچارے لوگوں نے تو اپنی معمولی خواہشات کی تکمیل کو بھی فراموش کر دیا ہے۔

بقول راحیل احمد
*اتنی مہنگی پڑی ہیں تعبیریں
خواب آنکھوں میں اب نہیں اتے*

گزشتہ تین ،چار برسوں میں ہم نے جس تیز رفتاری سے بنیادی ضروریات زندگی کے اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ اور عوام کی امیدوں کو بکھرتے دیکھا، بیان سے باہر ہے۔چونکہ بندی کے ذمہ الخدمت فاؤنڈیشن ویمن ونگ ضلع چترال کی نگرانی ہے تو اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ مزید پریشانی کا باعث بنا۔دو سال پہلے ایک چھوٹا راشن پیکج 24سو 20کلو اٹا 930 ملاکے 33سو، پچھلے سال وہی راشن پیکچ 44سو 20کلو اٹا 14سو پچاس ملا 5ہزار 8سوپچاس اور اس سال وہی راشن 6ہزار سے تجاوز اور اٹا 3ہزار میں 20کلو یعنی تقریباً 55 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔اور اسی سلسلے میں پچھلے دنوں چکدرہ جانا پڑا تو چترال میں گاڑی میں پیٹرول ڈال کر گئے شام کو واپسی پر دیر میں 6روپے فی لیٹر میں اضافے کے ساتھ ڈالا۔

مزے کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں مہنگائی تب بھی بڑھتی رہی جب دنیا میں کہیں اور نہیں بڑھی۔
گزشتہ رمضان میں جس طرح پریشانی اور بے غیرتی سے لوگ آٹوں کے پیچھے ذلیل ہوئے، اور عید پر اپنے بچوں کے لیے عید کی خریداری کرنے بازاروں میں نکل کر ہر دکان میں یہ سوچ کر گھسنا کہ شاید کہیں سے معصوم بچوں کے لیے کچھ خرید سکیں ،جیب ٹٹولتے رہ جانا اور مایوس گھر کو لوٹنا ان کے لیے قیامت سے کم نہ تھا۔میرے سکول کے اکثر بچے عید پر نئے کپڑے نہیں پہن سکے۔۔۔سکول اتے ہوئے بھی زنانہ ومردانہ،ناپ بے ناپ کا فرق نہ کرتے ہوئے پرانے جوتے پہن کر اتے ہیں (حالانکہ بازاروں میں پلاسٹک کے جوتے بھی دستیاب ہیں ) یقینا یہ لوگ وہ بھی نہیں خرید سکتے۔۔ٹوٹے چپل پہن کر دور سے اتی بچی کو دیکھ کر جب ان کی والدہ سے یہ کہا کہ ان بچیوں کے لیے بےنظیر انکم سپورٹ والوں کی طرف سے تو پیسے اتے ہیں کم از کم ان سے ان کی ضروریات کو ہورا کریں تو اس نے کہا کہ ہم کہاں سے پورا کریں کوئی مزدوری بھی نہیں ہے ادھار لا کر کھاتے ہیں جب یہ پیسے ملتے ہیں تو ادھار ہی پورا نہیں ہوتا جوتے کہاں سے لا کر دیں۔

سب سے بڑی مایوس کن بات تو یہ ہے کہ ہر پڑھا لکھا نوجوان موجودہ ملکی حالات کی بے ترتیبی سے اتنا مایوس ہو چکا یے کہ اسے اپنی مستقبل کی کوئی امید اس ملک میں بر انے کی نہیں رہی۔ہر نوجوان یہ کہتا نظر اتا ہے جتنی جلدی ممکن ہو سکے اس ملک سے فرار ہونا ضروری ہے۔یہ اسلام کے نام ہر حاصل کیا گیا پاکستان نہیں رہا۔یہ ہمارے لیے نہیں ہے۔یہاں کسی غریب کو تو کیا متوسط طبقے کا جینا بھی محال ہوتا جا رہا ہے۔یہ کچھ جاگیر داروں کا پاکستان ہے جو باری باری اپنی آقائی کو تسلیم کروانے کے لیے چھینا جھپٹی کر کے اقتدار میں آتے ہیں۔اور عوام کا خون چوس چوس کر اپنی من پسند مشروب سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں ۔اس ملک میں تبدیلی اور ترقی کے کوئی آثار نظر نہیں اتے ۔جس چیز نے روز بروز ترقی کر لی ہے وہ بدامنی،ناامیدی اور مہنگائی ہے۔اور متبادل راستہ بھی کوئی نہیں یے جس سے بندہ اپنی امدن بڑھا سکے ۔ اس ملک میں رہ کر بندہ اپنی کون کونسی ضروریات کے لیے تگ و دو کرتا ریے۔

*زندگی تو نے مجھے قبر سے کم دی ہے زمین
پاوں پھیلاؤں تو دیوار میں سر لگتا ہے*۔۔
(شاعر نامعلوم)

معشیت کے ماہرین کے مطابق چیزوں کی قیمتیں امدن سے دوگنی بڑھ رہی ییں جس کے سبب والدین اپنے بچوں کی ضروریات و معمولی خواہشات کو پورا نہ سکنے پر جوان اولاد خودکشی کرتے ہیں یا نشے کی لعنت کو گلے لگا کر دنیا سے بے رغبتی اختیار کر لیتے ہیں۔

اور یہ بھی انتہائی افسوس ناک بات ہے کہ حکومت اس مہنگائی اور پریشانی سے نپٹنے کے لیے کچھ بھی نہیں کرتی۔اب عوام کو خود ہی اس بارے میں سوچنا ہو گا کہ
????کیا ہم یوں ہی اپنی بنیادی ضروریات کی تکمیل کے لیے دن رات کوشش کے باوجود ایک وقت کھانے ہر اکتفا کرتے رہیں گے؟
????کیا ہم یوں ہی اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات کو بھی دفن کرتے رہیں گے؟
????کیا ہم شرمندہ تعبیر نہ ہونے کے ڈر سے خواب دیکھنا چھوڑ دیں؟
????کیا ہم یہ سب دیکھتے رہ جائیں کہ ہمارے زہین اور ہنر مند جوان اپنی مستقبل سنوارنے بیرون ملک روانہ ہوتے رہیں؟
????اور ہمارے ملک میں صرف غذائی قلت کے شکار لاغر جسم والے اور تعلیم و تربیت سے محروم جاہل پیٹ کے پجاری سیاسی نعرے باز ہی رہ جائیں؟
????یا ہم ان ازمودہ نسخوں کو پھینک کر نیا اور بہتر نسخہ آزمائیں گے؟
????️*کیوں چھینتے نہیں ہو موالی سے اقتدار
ڈھایا ہے ظلم جس نے ہر خاص و عام پر*
(رشید حسرت)

کیا ہی اچھا ہو اگر اس بار عوام اپنے لیے ایک ایسے حکمران کا چناؤ کریں جو صاحب علم ہو اپنے اقتدار کے اصول و ضوابط قرآن وسنت سے اخذ کر سکے۔دین کی نفاذ کی طاقت رکھتا ہو جس طرح حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنی حکومت کو اللہ تعالیٰ کی بندگی کے لیے وقف کر رکھا تھا۔دین کے خلاف کوئی بات اپنی دور حکومت میں نہیں ہونے دیا اور ساتھ ساتھ تبلیغ دین اور ا سکی نشرو اشاعت کا فریضہ بھی انجام دیتے رہے۔۔۔ملکہ سبا کا اپنے دین کو چھوڑ کر صرف ایک اللہ تعالیٰ کے اگے جھکنا اسی دیندار حکمران کی تبلیغ کا نتیجہ ہے۔

صاحب حکمت و دانا ہو جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام نے قحط پڑنے سے پہلے اس سے بچنے کی تدبیر کی۔۔۔اور ہمارے حکمران اس چکر میں پڑے رہتے ہیں کہ کب کوئی افت ائے اور ہم کشکول لیے دنیا بھر میں پھرتے رہیں” ایک روپئی بابا ایک روپئی”۔
ہمارے پاس بہتر تدبیریں نہ ہونے کی وجہ سے اب تو سیلاب سے ہماری زمینیں بھی گئیں دہقان بھی گئے۔

اب کی بار اگر عوام چنیں تو ایسے حکمران کو جو عدل وانصاف والا ہو،جس طرح ہمارے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم تھے کہ _قبیلہ بنو مخزوم کی ایک صاحب حیثیت عورت نے چوری کی تو اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔۔۔سفارش آنے پر خدا کی قسم کھا کر فرماتے ہیں کہ “اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی اگر چوری کرے تو اس کے لیے یہی حکم ہے”.اور اپنی پاک دور حکومت میں عوام کی فلاح بہبود کے لیے بہترین منصوبہ زکوٰۃ ،عشر اور صدقات کے نظام کو قائم کیا۔

کاش اس بار عوام ایسے حکمران کا انتخاب کر سکیں جو انہیں اندرونی اور بیرونی شر پسندوں سے محفوظ رکھ سکے اور ان کی طرف انے والی ہر مصیبت کے سامنے ایسا بند باندھے جس طرح حضرت ذوالقرنین نے یاجوج و ماجوج کے اگے باندھا ہے۔۔۔۔

لیکن یہ سب تب ممکن ہے جب عوام ایسے لوگوں کو اپنا قائد اور راہنما بنائیں جو درج بالا اوصاف کے مالک ہوں ورنہ یہی کرپٹ اور عدل و انصاف کے دوہرے معیار والے ہی ان پر باری باری حکومت کریں گے ۔۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
74685

ہمارا پاکستان – گل عدن چترال

ہمارا پاکستان – گل عدن چترال

دیہاتوں میں جب بچہ بہت رونے لگے تو اسکا نام بدل دیا جاتاہے پھر اگر وہ مسلسل بیماری میں مبتلا رہے تو دوبارہ نام تبدیل کیا جاتاہے۔پھر آگے جاکر سکول میں اگر بچہ پڑھائی میں دلچسپی نہ دکھائے تو ایک بار پھر نام کی تبدیلی عمل میں آتی ہے۔یہ ہمارے بزرگوں کا نہایت مضحکہ خیز اعتقاد ہے نام پر۔کہ صرف نام بدلنے سے بچے کی حالت اور قسمت بدل جائے گی۔کچھ ایسا ہی سلوک ہمارے وطن عزیز کے ساتھ ہمارے بڑوں نے کیا ہے۔وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کے بڑوں اور خاندان کے بڑوں میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ہم پرانے پاکستان کے باسیوں کو کھبی نئے پاکستان منتقل کردیاگیا کھبی ریاست مدینہ کا خواب دکھایا گیا اور اب ایک نئے نام “ہمارا پاکستان “ہم سے جسطرح متعارف کیا گیا پورا پاکستان مقبوضہ کشمیر’ فلسطین’شام اور برما کے حق میں بولنے کے قابل نہیں رہی۔گو کہ کچھ بھی نیا نہیں ہوا پچھلے ستر سال کی یہی مختصر کہانی ہے۔ہر بار اس گھر کو آگ ‘گھر کے چراغ سے ہی لگی.جب جب جس نے چاہا آئین کا مذاق بنایا ‘جمہوریت کی دھجیاں اڑادیں،قانون کی خلاف ورزیاں ستر سالوں میں ہزاروں بلکہ لاکھوں بار ہوا۔

 

سیاست میں حصہ لینے والی خواتین کے ساتھ بھی علاقائی’صوبائی سطح پر ڈرانے دھمکانے کی نیچ کوششیں ہر دور میں ہوتی رہی ہیں ہاں البتہ بین الاقوامی سطح پر خواتین کی اتنی بے حرمتی اور ایسا توہین آمیز سلوک تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔ایسے واقعات سے کسی ایک ادارے کا نقصان نہیں ہوا۔بلکہ بین الاقوامی سطح پر لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر حاصل کی گئی ایک پوری ریاست کی توہین ہوئی ہے۔مگر لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ملک کا کوئی ایک ادارہ بھی اس توہین کو محسوس نہیں کررہا کسی ایک سیاسی یا مذہبی جماعت نے کوئے مذمتی بیان نہیں دیا اور یہ ان جماعتوں کے لئے زیادہ بے عزتی کی بات ہے لیکن سچ کہا ہے کسی دانا نے کے توہین انکی ہوتی ہے جنکی عزت ہو ہماری سیاسی جماعتیں اقتدار کی حرص میں اپنی عزت کب کی گنوا چکے ہیں۔ان واقعات اور ایسے واقعات پر اس خاموشی کے پیچھے اس قوم کی سطحی ذہنیت چھپی ہوئی ہے۔اسی لئے میں قوم کا ایک خالصتا گھریلو تجزیہ پیش کررہی ہوں کیونکہ جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا کہ ہمارے ملک کے بڑوں اور خاندان کے بڑوں میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ہمارے گھروں میں بھی کنبہ چھوٹا ہو یا بڑا ایک باس بےبی ضرور ہوتا ہے جو نا صرف اپنے سے چھوٹے بہن بھائیوں پر حکومت کرتا ہے بلکہ اسکے بڑے بہن بھائیوں سمیت والدین بھی گھر کی امن و سلامتی کی خاطر ‘جھگڑے فساد سے بچنے کے لئے گھر کی سکون کے لئے اپنے ہی باس بےبی کے ماتحتی میں زندگی گزار لیتے ہیں۔

 

اپنی مرضی اور خوشی سے ایک بے بی کو “باس بے بی” بنانے والے والدین باقی بچوں کو قربانی صبر برداشت اور سمجھوتے کی گھٹی پلاتے نہیں تھکتے۔۔اہم چیز یہ نہیں ہے کہ فسطائیت کا آغاز گھروں سے ہوا ہے یا ملک کی فسطائیت کا اثر گھر گھر پر ہوا ہے اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنے بڑوں کی غلام ذہنیت کی وجہ سے گھر گھر میں فسطائیت جھیل رہے ہیں۔ہماری تربیت میں ہی غلط کو غلط نہ کہنے کا درس شامل ہے۔اختلاف رائے کی صورت میں آپکو بد اخلاقی اور نافرمانی کا سرٹیفکیٹ بھی ملتا ہے اور آپ کو غدار ثابت کرکے عاق بھی کیا جاسکتا ہے سو ناانصافی کا بد ترین دور شروع ہوتا ہے جسکا نتیجہ نا اتفاقی آپس میں دشمنی کی صورت میں نظر آتا ہے کیونکہ جس معاشرے میں انصاف نہ ہو اس معاشرے میں ظلم ہوتا ہے اور کا انجام انتشار، فساد، تباہی کے سوا کچھ نہیں۔اور جن بڑوں میں اختلاف رائے سننے کی طاقت نہیں ہوتی انہیں پھر بچوں کی بدتمیزی سہنی پڑ جاتی ہے۔میں موجودہ حالات کی اس گھریلو سطح پر تجزیہ کرنے پہ اس لئے بھی مجبور ہوں کیونکہ میں نے ہمیشہ دیکھا ہےکہ سیاسی اختلافات میں ہمارے کتنے پڑھے لکھے بظاہر مہذب اور خاندانی لوگ محض سیاسی اختلافات کی بنیاد پر اپنے مخالفین کے لئے کتنی نیچ اور گھٹیا زبان استعمال کرتے ہیں۔

 

عوام کو چھوڑیں ہمارے سیاسی قائدین کی مثال لیجئے جو آئے دن بڑے پیمانہ پر بلا وجہ جلسوں کا انعقاد کرتے ہیں جس زور و شور سے جلسوں کی تیاری ہوتی ہے گمان ہوتا ہے کہ شاید ملک کی مفاد کے لئے اہم ترین فیصلوں کا اعلان ہونے جارہا ہے۔انکی ایک آواز پر دور دور سے انکے حمائتی اپنی جان مال اور وقت کو داو پر لگا کر آتے ہیں مگر کیا سننے آتے ہیں؟خطاب کے نام پر ہمارے عظیم لیڈروں کا ایک دوسرے کی کردار کشی’ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا’برے برے القابات سے نوازنا۔اس سب سے سیاست کا یا کسی کے اعلی تعلیم یافتہ لیڈران ہونے کا تاثر نہیں ملتا بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سوتیلے بہن بھائیوں اور ساس بہو کے روایتی لڑائی جھگڑوں کی عدالت سجائی گئی ہو۔لیکن اس سب کے باوجود بھی افسوس کا مقام یہ ہے کہ نہ تو ان جلسوں میں کمی آتی ہے نہ ان کے شرکاء میں جس سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ایک تو یہ کہ ہم چاہے کتنے ہی پڑھ لکھ جائیں کتنی ہی ترقی کرلیں’خود کو کتنا ہی لبرل دکھائیں ‘رہیں گے ہم مجموعی طور پر سطحی سوچ والے گھریلو قوم ہی۔۔دوسرا یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس قوم کے سب سے بڑے دشمن اس ملک کی عوام ہیں۔ملک کے اداروں پر انگلی اٹھانا اور انہیں ملک دشمن ثابت کرنے کی کوششیں کرنے سے پہلے ایک لمحے کے لئے عوام سوچے کے ہم خود کتنے پانی میں ہیں؟آج احتجاج اور جلسوں کے نام پر ہم ہر سیاسی جماعتوں کے ذاتی مفادات کی جنگ میں شامل ہیں۔انکی آپس کی لڑائیاں نمٹانے انکی ایک آواز پر گھر میں بوڑھے ماں باپ کو چھوڑ کر پارٹی سے وفاداری نبھانے جارہے ہیں بنا سوچے کہ اس جنگ میں ہمارا فائدہ کیا ہے۔

 

کرسی کی لڑائی میں 23 کروڑ عوام کو کتنا فائدہ ہوگا۔جس دن عوام صرف اپنے ذاتی حقوق کے لئے باہر نکلے گی یقین کریں اس دن کوئی سیاسی جماعت آپ کا ساتھ نہیں دے گی۔مثال کے طور پر جب جب سرکاری ملازمین اپنی تنخواہوں کے لئے احتجاجا سڑکوں پر آکر بیٹھ جاتی ہیں تو آپکے علاقے کے کتنے سیاسی جماعتیں آپکے احتجاج میں شریک ہو کر آپ کا ساتھ دیتی ہیں؟؟عوام پر جب مشکل وقت آتا ہے تو یہ سیاسی جماعتیں گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوجاتے ہیں۔سمجھنے کی ضرورت صرف اتنی ہے کہ ان سیاست دانوں نے اپنے بچوں کو باہر ملک سے پڑھانا ہے’ان لوگوں نے اپنے سر درد کا بھی علاج دوسرے ملک جاکر کرنا ہے ان لوگوں نے ہمارے ووٹ سے کرسی پا کر اتنی دولت اکھٹی کرلی ہے کہ ان کی سات نسلیں بھی بیٹھ کر کھائیں تو ختم نہیں ہوں گی۔مگر اس خانہ جنگی سے ہمارے ہاتھ میں کیا آئیگا؟؟؟ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ‘سہولیات سے محروم ہسپتال،جعلی ڈاکٹر جعلی پیر جعلی ادویات ‘دو نمبر کے علماء،بے روزگاری مہنگائی بھوک افلاس غربت ترقی کے نام پر پھٹی جینز؟؟؟جلسوں اور سیاسی جماعتوں کے حمائتی ہمیں ضرور بتائیں۔یہاں میں اس قورمہ کا ذکر ضرور کرنا چاہتی ہوں جو خانہ جنگی کی صورتحال میں کورکمانڈر کے گھر سے چوری کی گئی۔رونے کا مقام ہے کہ حالت جنگ میں ایک شخص فریج سے قورمہ کا سالن چراتا ہے ایک کیچپ اور ایک پیپسی کی بوتل اٹھائی جاتی ہےاور ان واقعات کو لیکر عوام ایک مخصوص ملوث سیاسی پارٹی کو تضحیک کا نشانہ بنا رہے ہیں۔۔

 

تو مجھے اس واقعے سے 2008 کا زلزلہ یاد آگیا ہے جہاں ملبے تلے دبے مردہ لوگوں کے ہاتھوں سے زیورات چرائے گئے تھے۔کیا وہ زیورات چرانے والے کسی سیاسی پارٹی کے کارکن تھے؟ہرگز نہیں ۔یہ قورمہ چور بھی پاکستانی عوام ہیں اور وہ مردوں کے ہاتھوں سے زیورات چرانے والے بھی پاکستان کی عوام تھے۔کسی پارٹی کے نام کا لیبل لگانے سے پاکستانی عوام کی افلاس چھپ نہیں سکتی۔ان واقعات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اس ملک میں بھوک اور حرص بڑھتی جارہی ہے اشرافیہ کی حرص اور عوام کی بھوک۔۔جو اشرافیہ عوام کو اپنی رعایا سمجھ کر اور اقتدار کو اپنی میراث سمجھ کر ستر سالوں سے عوام کو انکم سپورٹ پروگرام ‘آٹے کی تھیلیوں’ٹکے ٹکے کی نوکریوں’لنگر خانوں ‘ سے بہلاتے آرہے ہیں تو ایسی بھولی عوام نے آج حالت جنگ میں قورمہ ہی چرانا تھا۔لیکن اب بہت سننے میں آرہا ہے کہ عوام میں شعور آگئی ہے اگر واقعی شعور آگیا تو آئندہ اشرافیہ کی لالی پاپ اسکیمز کامیاب نہیں ہوں گی انشاءاللہ۔بشرطیکہ شعور آئے۔شعور لانے کے لئے ضروری ہے کہ ملک میں ایسا تعلیمی معیار ہو جو صرف (اشرافیہ کو) دو جمع دو نہ سکھائے۔اور بحثیت ایک اسلامی ریاست کے ایسا نظام ہو تعلیم کا کہ دینی تعلیم یونیورسٹی لیول تک لازمی قرار دی جائے تاکہ ملک سب سے پہلے دین فروشوں سے پاک ہوجائے۔

 

دوسرا ہر ادارے کو پتہ ہو کہ اسکی اصل دینی اور دنیاوی ذمہ داری کیا اور کتنی ہیں ۔(اور یہ معیار تعلیم بدلنے سے ہی آئیگا )ہر ادارہ اپنی ذمہ داری نبھائے گا اپنے کام سے کام رکھے گا’تو یقینا ملک میں نا انصافی نہیں ہوں گی اور جب ناانصافی نہیں ہوگی تو فسادات بھی نہیں یوں گے۔مگر یہ نظام کون لائے گا جہاں عوام سیاست کا شکار ہوکر مختلف جماعتوں میں بٹ گئی ہو۔یاد رکھیں ملک کی سلامتی میں کردار ادا کرنے کے لئے کسی سیاسی جماعت کی حمائتی بننا کسی پر لازم نہیں ہے جب تمام جماعتیں صرف اقتدار کی جنگ لڑ رہے ہوں تو عوام کو چاہیے کہ وہ سیاسی جماعتوں سے اپنی راہیں الگ کرلیں لیکن اگر اتنا بھی نہ کرسکیں تو کم از کم اپنی رائے الگ کرلیں۔ساحر لدھیانوی صاحب نے شاید ہمارے پاکستان کے لئے ہی کہا تھا کہ، “لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے’ میرے احباب نے تہذیب نہ سیکھی ہوگی’ میں جہاں ہوں وہاں انسان نہ رہتے ہوں گے’ لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے ۔۔۔۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
74683