Chitral Times

Apr 30, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

لیلۃ القدر- از کلثوم رضا

Posted on
شیئر کریں:

لیلۃ القدر- از کلثوم رضا

اعوذباللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الھم اجعلنا من الذین امنو و عملو الصالحات و تواصو بالحق وتواصو بالصبر

 

اللہ تعالیٰ کا لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمیں رمضان کا تحفہ دیا اور اب خیر سے رمضان شریف اپنے آخری عشرے میں داخل ہو چکا ہے۔ ویسے تو پورا رمضان بڑی فضیلت والا ہے لیکن اس کا آخری عشرہ مزید فضلیت والا ہے۔

ایک حدیث کے مطابق کسی شخص کو رمضان کے آخری دس دن ملے وہ پھر بھی خود کو جہنم سے رہائی نہ دلا سکا، تو سب سے بڑا بد بخت ہے۔ بڑی محرومی ہے کہ اسے آخری عشرہ مل جائے اور وہ اپنی بخشش نہ کروا سکا۔

اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کو دیکھتے ہیں تو وہ ان آخری دس دنوں میں اپنی تہبند کس کر باندھتے اور عبادات کا زیادہ اہتمام کرتے ۔اعتکاف کرتے اور اپنی ازواج مطہرات کو بھی عبادت کے لیے جگاتے تھے۔ اب سوچنے کی بات ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آخری دنوں کو اتنی اہمیت کیوں دی؟
کیونکہ ان دس دنوں میں ایک رات ایسی ہے جو بہت خاص ہے۔

یعنی “لیلۃ القدر”اس سے پہلے کہ ہم لیلۃ القدر کی قدر قرآن کی روشنی میں دیکھیں اس کے بارے میں ایک ،دو باتوں پر بھی غور کرتے ہیں۔
ایک یہ کہ ہم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ لیلۃ القدر کونسی رات ہے؟ اس میں امت کے لیے بہت سے فائدے پوشیدہ ہیں ۔اس کو ایک چھوٹے سے واقعے سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ” سامنے ایک شخص جو سو رہا ہے اسے نماز کے لیے جگاؤ “.

تو علی رض نے اسے جگایا پھر آپ ص سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ص ہم نے عام طور پر آپ کو نیکی کا کام خود کرتے ہوئے ہی پایا ہے لیکن آج آپ نے اس شخص کو جگانے کے لیے مجھے کہا کیوں ؟ آپ ص نے فرمایا کہ اگر وہ تمہیں نماز کے لیے اٹھاتے ہوئے منع کرتا یا سستی دکھاتا تو وہ گنہگار نہ ہوتا لیکن اگر مجھے منع کرتا تو گنہگار ہوتا کیونکہ میں رسول ہوں”۔
یہ بھی اسی طرح ہے کہ اگر لیلۃ القدر کی صحیح رات کے بارے میں بتا دیا جاتا اور امت اس رات عبادات میں سستی دکھاتی تو گنہگار ہوتی۔

دوسری بڑی حکمت اس کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو یہ بتا رہے ہیں کہ تم پانچ کے پانچ رات (اگر طاق حساب سے لے لیں تو ) ورنہ دس کے دس دن (آخری عشرے کے حساب سے)
عبادت کرو اور اسے پاؤ ۔۔۔۔تو نہ بتانا کہ کونسی رات ہے؟ ہمارے لیے فائدہ ہی فائدہ ہے.. اللہ ایک کی جگہ سب راتوں میں ہمیں جگا رہا ہے ۔۔

اب لیلۃ القدر کی اہمیت و فضیلت قرآن کی روشنی میں لیتے ہیں ۔۔ اس کی اہمیت کے لیے یہ بھی کافی ہے کہ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ایک مکمل سورت “سورۃ القدر” نازل کی ہے۔۔۔ اور سورۃ “الدخان” میں بھی اس رات کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اور رسول اللہ ص نے بھی فرمایا ہے کہ جو شخص ایمان و احتساب کے ساتھ اس رات میں قیام کیا اللہ تعالیٰ اس کے سارے پچھلے گناہ معاف فرما دے گا۔ تو یہ بڑی سعادت ہے کہ آدمی اس رات قیام کرے ،نوافل پڑھے اور دعا مانگے۔ یہ سب بڑی فضیلت والی عبادات ییں۔

 

اب قدر کے معانی سمجھتے ہیں۔۔
🔻قدر کی ایک معنی ایسی چیز جس کی بہت زیادہ اہمیت ہو۔
🔻 قدر کا دوسرا معنی تقدیر ۔
🔻 قدر کا تیسرا معنی یہ بھی کہ بہت سی چیزیں ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہوں یعنی گنجائش سے بھی زیادہ ۔۔۔
🔻 قدر کا چوتھا معنی طاقتور بھی ہے۔۔۔

ان چاروں معانیوں کو سامنے رکھ کر سورۃ القدر کو ہم دیکھیں تو چاروں کے معانی صحیح سمجھ میں آ جائیں گے۔ ان شا اللہ

 

انا انزلنہ فی لیلتہ القدر وما ادراک ما لیۃ القدر ۔
ترجمہ:ہم نے اس قرآن کو نازل کیا لیۃ القدر میں۔۔ اور تم کیا جانو کہ لیلۃ القدر کیا ہے؟

اس کا مطلب ہے ۔”یہ رات اور اس کی فضیلتیں سارے قرآن کی وجہ سے ہیں۔ اور یہ رمضان اور اس کی ساری فضیلتیں صرف قرآن کی وجہ سے ہیں ۔ تو اپنا تعلق قرآن سے مضبوط کیجیے، قرآن کے ساتھ جڑ جائیے، ہر سال اس رات کا ملنا اس لیے ہے کہ اس رات میں ہمیں قرآن ملا ہے۔ سو قرآن کو اپنی زندگی میں اہمیت دیجئے ۔

اور یہ کہ “تم کیا جانو کہ یہ رات کیا ہے؟ مطلب یہ کہ ہم یعنی میں اور تم اس رات کی اہمیت کو جان ہی نہیں سکتے کہ یہ کیسی رات ہے ؟تو اللہ تعالیٰ آگے خود فرماتے ہیں کہ
“لیلتہ القدر خیر من الف شھر۔
یعنی لیلتہ القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔۔

اور اگر اس ہزار مہینوں کو ہم سالوں میں تبدیل کر دیں تو 83 سال بنتے ہیں۔ تو اس کا مطلب ہے یہ رات 83 سالوں سے بہتر ہے۔ اس بہتر کا آسان مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص نے 83 سال مسلسل عبادت کی، اور ایک شخص نے ایک رات میں عبادت کا حق ادا کیا تو یہ برابر ہو گئے۔ ذرا سوچیے امت مسلمہ کی عموماً عمر اسی 80 سال ہے تو کون ہے جو اسی 80 سال مسلسل عبادت کرتا ہے لیکن یہ رات اس کو اسی کی عبادات کا ثواب دلوا سکتی ہے۔

 

دوسرا مفہوم مفسرین نے اس کا یہ بتایا ہے کہ جیسے کچھ پودے ایک خاص موسم میں اگتے ہیں انہیں کسی دوسرے موسم میں اگانے کی کوشش کی جائے تو وہ کبھی نہیں اگیں گے۔ جیسے آم ہمیشہ گرمیوں میں ہی ہوتا ہے۔۔۔ اسی طرح اس رات کی عبادات کا کوئی اور متبادل نہیں ہے۔ اس رات میں کی جانے والی عبادت کے بارے میں ہم کہیں کہ پورے سال روزے رکھوں گی اور اگلے سارے سال تہجد پڑھوں گی تو بھی اس رات کے برابر نہیں ہوں گے۔

اس کی ایک تیسری تفسیر بھی مفسرین نے یوں بیان کی ہے اس کی معنی کو سمجھ لیجیے کہ لفظ بولا گیا ہے “خیر” یعنی بھلائی ہی بھلائی۔۔ اچھائی ہی اچھائی کے ہیں۔۔۔ “الف شھر” یہ الف شھر انسان کی کل زندگی ہے یعنی 83 سال ۔۔۔کسی شخص کو یہ رات مل گئی اور اس نے اس میں عبادت کی، دعائیں مانگی، اور اللہ کو راضی کیا ۔اس کی اگلی ساری زندگی چاہے وہ اسی سال، پچاس سال یا پچیس سال رہ گئی ہے وہ خیر سے بھر جائے گی ۔وہ اچھائی سے بھر جائے گی۔ وہ اللہ کی رحمتوں سے بھر جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اس رات کو طاقت ور کہا گیا ہے ۔چونکہ اس میں بدلنے کی طاقت ہے ۔ یہ ہمارے مستقبل کو، ہماری زندگی کو خیر سے بھر دے گی۔ اگر یہ ہمیں مل رہی ہے تو اللہ سے خیر مانگنی ہے اس رات میں۔۔۔

 

اگلا حصہ تنزل الملائکۃ و الروح فیھا باذن ربھم من کل امر ۔۔۔

یعنی اس رات فرشتے اترتے ہیں اپنے مہمان خصوصی جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ ۔۔۔ (قدر کی ایک معنی ہم نے لیا تھا کہ بہت سی چیزوں کا جمع ہونا) تو جو فرشتے اترتے ہیں وہ بھیڑ (congestion)کی صورت میں ہوتے ہیں ۔۔اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ ہر جانب بھر جاتے ہیں نور ہی نور ۔۔۔ آپ نماز میں کھڑے ہیں تو محسوس کیجیے کہ آپ کو فرشتے گھیرے ہوئے ہیں۔

اور اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ” من کل امر “ہر معاملہ میں۔ قدر کا ایک معنی ہم نے لیا تھا “تقدیر” وہ یہاں آپ کو سمجھ آ جائے گا کہ آپ کو کوئی بھی مسئلہ ،صحت، رزق یا کوئی بھی، کسی بھی قسم کا مسئلہ ہے تو یہ فرشتے آپ کی مدد کرنے آئے ہیں۔۔ آپ کی دعاؤں پر آمین کہنے آئے ہیں۔۔۔۔ اس سال جتنے بھی اہم کام ،اہم فیصلے ہونے ہیں ،کس نے مرنا ہے ،کس نے جینا ہے، کس کو کتنا رزق ملنا ہے، کس کے ساتھ کیا ہونا ہے؟ وہ تمام کام اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سپرد کر دیتے ہیں اور فرشتے انہیں کرنے میں لگ جاتے ہیں ۔سو فرشتوں کو اپنے ساتھ محسوس کیجئے ،جبریل ع کو اپنے ساتھ محسوس کیجئے کہ وہ آپ کی دعاؤں پر آمین کہنے آئے ہیں، آپ کے مسئلوں کو حل کرنے آئے ہیں۔ اپنے اللہ سے جو بھی مانگنا ہے مانگیے ۔۔۔

 

اور سب سے آخری حصہ ۔۔۔
“سلام ھی حتیٰ مطلع الفجر”۔۔۔
یعنی کہ یہ “سلامتی ہے صبح مطلع الفجر تک۔۔”

اس چھوٹے حصے کو بھی سمجھئے کہ یہ سلامتی ہی سلامتی ہے، امن ہی امن ہے، ایمان ہی ایمان ہے، سکون ہی سکون ہے۔۔ اور یہ سحری پہ ختم نہیں ہوتی بلکہ مطلع الفجر تک ،یعنی سورج جب نکلنا شروع کرتا ہے تب تک قائم رہتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے ہم پر۔۔۔ یہ رات شروع ہوتی ہے مغرب سے اور اس کی سلامتی رہتی ہے تب تک جب صبح کی روشنی پھیلنے لگتی ہے۔ یہ اللہ کا بہت بڑا احسان ہے ہم پر۔۔۔ لیکن اس میں اللہ تعالیٰ نے لفظ “سلام” استعمال کیا ہے ۔۔۔اسے آپ یوں سمجھیے جس طرح کلاس میں شور ہو رہا ہو اور ٹیچر کہے “سائلنٹ” اور سب چپ ہو جائیں ۔۔یا پھر کورٹ میں جج کہے آرڈر آرڈر اور سب چپ ہو جائیں ۔۔۔اسی طرح اللہ تعالیٰ کہتے ہیں” سلام” سلامتی میں آجاؤ ۔۔پر امن ہو جاؤ ۔۔اپنی لڑائی چھوڑ دو ۔۔اپنے دلوں سے نفرتوں کو ختم کرو۔۔۔غصہ ،کینہ چھوڑ دو۔۔ آپس میں بھی تم لوگ سلامتی میں آجاؤ ۔۔اور دین کے معاملے میں بھی سلامتی میں آجاؤ ۔۔

یہ اللہ کی طرف سے میرے اور اپ کے لیے آرڈر ہے۔۔ آپ کے دل میں کسی کے لیے کینہ یا بغض ہے تو نکال دیجیے۔۔۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ اس رات سب کی مغفرت فرما دیتا ہے سوائے اس شخص کے جس کے دل میں کسی کے لیے نفرت، بغض اور کینہ چھپا ہوا ہے۔۔۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو صاف کرے ۔۔ایسا نہ ہو کہ ہم ساری رات عبادت کریں اور صبح حقوق العباد میں ایسی کوتاہی کریں کہ ساری عبادات ضائع ہو جائیں۔یہی حقوق العباد میں کوتاہی ساری عبادات کو ضائع کر دیتی ہے۔

اور کہیں ایسا بھی نہ ہو کہ مغرب سے سحری تک ہم بازاروں میں گھومیں اور تھکاوٹ کی وجہ سے آخری عشرے کی عبادات سے محروم رہیں ۔۔۔ہمیں ان راتوں کی حفاظت کرنی ہے۔۔۔۔ ہمارے لیے یہ اہم نہیں کہ ہم اس رات کی نشانیاں ڈھونڈیں بلکہ اہم یہ ہے کہ راتوں کو اٹھیں اور عبادات کریں ۔۔دعا مانگیں۔۔۔ اپنی گناہوں کو بخشوائیں۔۔۔
تو وعدہ کریں ان راتوں کو کھڑے ہونا ہے ایمان و احتساب کے ساتھ ۔۔۔۔ اس ایمان و یقین کے ساتھ کہ یہ رات میرے لیے سلامتی کی رات ہے۔۔۔ اور اپنے کیے ہر چھوٹے بڑے گناہوں کو یاد کر کر کے معافی مانگنا ہے۔۔۔ اور معاف بھی کروانا ہے۔۔۔

تو دعا کیجیئے اپنے لیے، اپنے سے جڑے ہر رشتے کے لیے اور ساتھ میرے لیے بھی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس رات کی حفاظت کرنے اور اس کو پانے کی توفیق دے ۔۔۔الھم عفو فاعف عنا۔۔۔ آمین۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
87038