Chitral Times

رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا  – از کلثوم رضا

بسمہ تعالیٰ
رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا  – از کلثوم رضا

 

وہ بچھڑے جس سمے، صبح ہونے کو تھی
ابھی تک اسی صبح کا انتظار ہے مجھے

 

اج میرے پیارے والد محترم کو ہم سے بچھڑے سات سال دس دن گذر گئے لیکن لگتا یے کہ اج بلکہ ابھی ابھی کا واقعہ ہے۔دل گداذ،انکھیں روتی ہیں۔کہنے والے سچ ہی کہتے ہیں کہ والد کی موت کمر توڑ دیتی یے، کیونکہ دنیا میں وہی سب سے بڑا حامی ہوتا ہے۔باپ وہ واحد ہستی ہے جو اپنی اولاد کو خود سے زیادہ کامیاب دیکھنا چاہتا ہے۔مقدس و مضبوط،محافظ و محسن ہے۔یہی وہ ہستی ہے جس کے پسینے کی ایک بوند کی قیمت بھی اولاد ادا نہیں کر سکتی۔غریب سے غریب تر باپ بھی اخری سانس تک اپنی اولاد کی خوشی کے لیے تگ و دو کرتا ہے۔اپنی اولاد کی فلاح وبہبود کے سوچ و فکر میں منہمک رہتا یے۔ہمارے والد صاحب بھی ایسے ہی عظیم باپ تھے۔خود سے بڑھ کر ہمارا خیال رکھتے۔ ہماری چھوٹی بڑی خواہشوں جو پورا کرنے کی کشش کرتے،ہماری رائے کو اہمیت دیتے دوران علالت بھی انھیں لگتا کہ کسی طرح سے میرے بچوں کو کوئی پریشانی نہ ہو۔ان کی نیند خراب نہ ہو،انکا کا کاروبار زندگی متاثر نہ ہو،ہم انکے ساتھ بیٹھ جاتے تو کہتے بیٹا سو جائیں رات ہو گئی۔ اپ کو ٹھنڈ لگ جائے گی، یا رات کو اگر نیند خراب ہو جائے تو دن کو رات جیسی نیند نہیں اتی طبیعت میں تھکن اتی ہے،میں بھی سو جاتا ہوں اپ سو جائیں۔۔۔۔حالانکہ رات دیر تک انھیں نیند نہیں اتی تھی صرف ہمارے لیے یہ سب کہتے۔پھر 18دسمبر 1916 کی ایک رات ہم انکی ان شفقت بھری باتوں سے محروم ہو گئے۔جب باپ اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو لگتا کہ دنیا کی ساری رعنائیاں اپنے ساتھ لے گئے۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ

 

ان کا اٹھنا نہیں ہے حشر سے کم
گھر کی دیوار باپ کا سایہ

 

گھر کی دیوار کی تو کوئی وقعت ہی نہیں ہے لیکن باپ کا سایہ ساتھ نہ رہنا حشر کا ساماں پیش کرتا یے۔لگتا ہیجیسے سر پر چمکتے سورج تھے جو ڈوب گئے اور ہر سو اندھیرا چھا گیا۔یا جیسے تپتی ریت پر قدم پڑ جائے ایک اٹھا لو دوسرا پاؤں جلے۔لیکن پھر بھی ذندگی پہلے کی طرح رواں دواں ہے۔وہی روزمرہ کے کام،کہیں انا جانا،ہنسنا مسکرانا لیکن پھر بھی اس دل کا خالی پن نہیں بھرتا۔

 

ہر چیز دستیاب ہے دنیا جہاں کی
لیکن تیری کمی کا ازالہ نہ ہو سکا
شاعر نامعلوم

جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے مجھے میرے قبلہ گاہ کی یادیں اور ذیادہ بے چین کرتی ہیں۔حالانکہ مجھے اس ایت مبارکہ پر مکمل یقین ہے کہ کل نفس ذائقہ الموت یر ذی روح کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔سب ہی کو اللہ کے حضور پیش ہونا ہے۔بس خاتمہ ایمان پر ہونا چاہیے۔پھر بھی یہ یادیں درد دل بنتے جا رہے ہیں۔

 

دل میں ہے اس کی یاد کی خوشبو بسی ہوئی
کیا پھول تھا کہ شاخ زماں سے اتر گیا
لگتا ہے یوں کہ چند مہینوں کی بات تھی
چالیس برس کا عہد رفاقت گذر گیا
دنیا رواں دواں ہے اگر چہ اسی طرح
دل میں مفارقت کا وہ لمحہ ٹھہر گیا
اس دل نے جس گھڑی بھی تیرے واسطے
دست دعا اٹھایا تو اشکوں سے بھر گیا

یہ بیاد جس نے بھی لکھا ہے کمال لکھا ہے۔۔

 

اسلام ہمیں ہر روز ماں باپ کی خدمت اور تعظیم کا درس دیتا ہے۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اعلیٰ نیکیوں میں سے ایک اعلیٰ نیکی یہ ہے کہ ادمی اپنے والد کے دوست احباب کے ساتھ احسان کا معاملہ کرے۔صحیح مسلم 6678.
جب بھی والد صاحب یاد اتے ہیں،ان کے پیاروں سے ملنے کو دل کرتا ہے۔انکا کمرہ،انکی الماری،انکا واسکٹ انکی تسبیح،انکے ساتھ چہل قدمی کرکے کھیتوں میں جانا، آباؤں کی باتیں سننا،انکی نصیحتیں،وصیتیں بہت بہت ذیادہ یاد اتی ہیں۔

 

وہ پیڑ جس کی چھاؤں میں
کٹی تھی عمر گاؤں میں
میں چوم چوم تھک گیا
مگر یہ دل بھرا نہیں

 

اس سے پہلے دسمبر میں شاید سال کا آخری مہینہ ہونے کے سبب،دیوار حیات سے ایک اور اینٹ گرنے کے غم سے دل مغموم رہتا تھا لیکن جب میرے عظیم القدر والد صاحب اس مہینے ہم سے جدا ہوئے تو اس مہینے میں دل کا بوجھل رہنا معمول بن گیا۔لیکن جب پچھلے سال اسی مہینے میری امی کو ہارٹ اٹیک ہوا اور فوراً بائی پاس کرنے کے بعد ثم الحمدللہ وہ بالکل صحت یاب ہو گئیں تو صد شکر ادا کیا کہ کہیں خدا ناخواستہ یہ سایہ بھی سر سے اٹھ جاتی تو ہم خود کو جانے کیسے سنبھالتے۔۔۔کیوں کہ انھی کی دعاؤں کے زیر سایہ یہ حیات چل رہی یے اور الحمدللہ خوب چل رہی یے۔اللہ تعالیٰ انھیں لمبی برکت والی ذندگی عطا فرمائے۔ ہم یونہی انکی دعاؤں سے مستفید ہوتے رہیں۔اور دعا یے کہ اللہ تعالیٰ میرے والد صاحب کو اور تمام مسلمان بہن بھائیوں جن کے والدین فوت ہوئے ہیں ان سب کی خطاؤں کو معاف فرمائے،ان کی نیکیوں کو بڑھا چڑھا کے اجر سے نوازے اور سب کو اپنی جنت کے اعلی درجوں میں رکھے اور اولادوں کو انکے لیے صدقہِ جاریہ بنائے۔۔امین ثم آمین

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
83491