Chitral Times

Apr 30, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

جہنم میں خواتین کی تعداد زیادہ مگر کیوں؟؟ – گل عدن چترال

Posted on
شیئر کریں:

جہنم میں خواتین کی تعداد زیادہ مگر کیوں؟؟ – گل عدن چترال

جہنم میں عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہو گی مگر کیوں؟اگر یہ سوال ہم آجکل کی مولوی حضرات سے پوچھیں تو انکا جواب عورت کے جسم کے پردے سے شروع ہو کر پردے پر ہی ختم ہوجائیگی جبکہ روایات میں آتا ہے کہ بہت سی عورتیں جو صوم و صلوات اور پردے کی پابند ہوں گی وہ بھی جہنم میں جائیں گی کیونکہ انکا “اخلاق ” اچھا نہیں ہوگا۔پردہ مسلمان عورت کے لئے ایک اہم ترین حکم ہے لیکن اخلاق میں جو چیزیں شامل ہیں انکے بغیر دین نامکمل ہے۔ اخلاق یعنی زبان کا نرم ہونا،الفاظ اور لہجے کا مہذب ہونا،با ادب ہونا،احترام شائستگی ،گالم گلوچ اور لغویات سے پاک زبان،ایک دوسرے کا مذاق نہ اڑانا،ایک دوسرے کو برےنام سے نہ پکارنا،طعنہ نہ دینا،احسان نہ جتانا،دل آزاری سے بچنا،جھوٹ نہ بولنا،تہمت نہ لگانا،چغل خوری ،غیبت سے بچنا اور زمین پر اکڑ کر نہ چلنا اور بہت سی چیزیں اخلاق میں شامل ہیں۔۔۔۔ جو دیندار مرد اور عورت کی دین کو مکمل کرتی ہیں۔

 

معراج کے واقعہ میں ہم خواتین کے لئے سب سے اہم واقعہ جو تھا حضرت عمر فاروق رضی اللہ سے روایت ہے کہ “رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی ایک جماعت سے خطاب فرمایا ‘کہ اے عورتوں کی جماعت!تم صدقہ دو اور استغفار کیا کرو کیونکہ میں نے دیکھا کہ جہنم میں زیادہ تعداد میں عورتیں ہیں۔”جب وجہ پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” کیونکہ وہ لعن طعن بہت کرتی ہیں اور خاوند کی ناشکری کرتی ہیں ۔”ایک اور روایت میں یہ وجہ بھی شامل ہے کہ عورتیں ایک دوسرے کی “ٹوہ” میں زیادہ لگی رہتی ہیں۔۔ خیر یہ تینوں وجوہات اور اسکے علاوہ بھی چند ایک باتیں ہم تمام خواتین میں بالکل عام اور سو فیصد موجود ہیں۔ہر دوسری نہیں بلکہ ہر ایک عورت شوہر کی ناشکری کھبی نہ کھبی کہیں نہ کہیں ضرور کرتی ہے اور خود کو حق بجانب سمجھ کر کرتی ہے شاید یہیں مات کھاتی ہے ۔”لعن طعن “ہر ایک عورت نہیں کرتی،مگر ہر دوسری عورت عادتا کرتی ہے۔اور تیسری چیز ایک دوسرے کی ‘ٹوہ’ میں رہنا۔بلکل ہم عورتوں کی اکثریت پوری زندگی دوسروں کی ٹوہ میں رہ کر گزر جاتی ہے اور ہمیں کھبی احساس نہیں ہوتا کہ ہم اپنا قیمتی ترین وقت دوسروں کی برائیاں اور کمزوریاں ڈھونڈنے میں صرف کرچکے ہیں۔بڑی مصروف ہستیاں ہیں ہم عورتیں ہر وقت ہر دم مصروف۔شادی میں گئے تو کھانے میں نقص نکالا،بری اور جہیز میں عیب ڈھونڈے،انتظامات میں کمی بیشی ڈھونڈنا ۔۔میت پر گئے تو جانے والے کے پینشن، بینک بیلنس،ذمین جائیداد کی معلومات اکٹھی کرلیں’ سوگواروں کے چہرے پر آنسوؤں کی کھوج،کچھ نہ ملے تو گھر کے کونے کھدروں میں گندگی کی تلاش،وہ بھی نہ ملے تو میت کی چہرے پر نور کی تلاش۔۔تلاش ہی تلاش ۔کھوج ہی کھوج۔۔۔ استغفراللہ۔۔۔۔!!

 

اسی طرح چھوٹے موٹے جھوٹ ہماری نظر میں کسی حساب میں نہیں آتے لہذا اٹھتے بیٹھتے بلا وجہ بنا ضرورت ہمیں جھوٹ بولنے کا مرض لاحق ہوگیا ہے۔کسی کا فون جان بوجھ کر نہیں اٹھایا اور بعد میں بہانے کے غرض سے کہیں بلا وجہ جھوٹ بول دیے۔کسی شادی میں نہیں جانا چاہتے لیکن’ بہانہ’ بنان لازم ہوگیا ہے۔”جھوٹ “ہم عورتوں کی روز و شب کی اہم ضرورت بن چکی ہے۔اور ہمیں اسکی اتنی لت پڑ چکی ہے کے ہم انگلیوں پر گن نہیں سکتے کہ ہم نے صرف آج کتنے جھوٹ بولے۔حالانکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تو واضح حکم ہے کہ “جس نے مذاق میں بھی جھوٹ بولا وہ ہم میں سے نہیں ۔” تیسری چیز غیبت اور چغلی۔اس لت میں ہر دوسری تو نہیں مگر عورتوں کی اکثریت مبتلا ہے۔خاص طور پر وہ خواتین جنہیں فضول گوئی کی عادت ہو وہ جان ہی نہیں پاتی کہ باتوں باتوں میں وہ کتنی چغلی کتنا غیبت کر چکی ہیں۔اور جب آپ کسی کو متنبہ کرنا چاہیں بھی تو اکثر خواتین یہی کہتی ہیں کہ ہم تو بس گپ شپ کر رہے ہیں بات کر رہے ہیں اب ان معصوم عورتوں کو کون سمجھائے کہ یہ باتیں آپکو آگ میں جھونک سکتی ہیں۔اس کے علاوہ عورتوں میں جو گندی عادتیں بہت ذیادہ ہیں وہ انکی ضد ،خود پسندی اور مقابلہ بازی ہے۔ساس بہو تو ایسے ہی بدنام ہیں حقیقت یہ ہے کہ ہم عورتیں ایک چھت کے نیچے چاہے سگے رشتوں کے ساتھ رہیں ‘سسرالیوں کے ساتھ یا سوتیلے بہن بھائیوں کے ساتھ رہیں ۔۔۔اپنے ساتھ رہنے والی ہر دوسری عورت سے خود کو بہتر سمجھنا اور ثابت کرنا ہم خواتین کے دماغ کا ایک لا علاج مرض ہے۔خود پسندی کی وجہ سے غرور اور تکبر میں مبتلا ہوجانا عورت کی بد قسمتی کی انتہا ہے۔رشتوں ناطوں پر اپنی ضد کو فوقیت دے کر خالی ہاتھ رہ جانا ہم عورتوں کی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت اور الم ناک کہانی ہے۔ضد انسان کو نہ دین کا رہنے دیتا ہے نہ دنیا کا۔کیونکہ ضد جہالت سے شروع ہو کر فرعونیت پر ختم ہو جاتی ہے۔ضد رشتوں میں دراڑیں ڈالتی ہے اور دلوں میں نفرت پیدا کرتی ہے مگر عورت ناقص العقل ہونے کی وجہ سے اپنی ضدی ہونے پر بھی غرور کرتی ہے۔ایسے ہی بعض خواتین اتنی زیادہ خوبیوں کی مالک ہوتی ہیں۔انتہائی پاک،شریف النفس،رحمدل،خدمت گزار،وفا شعار اور نیک سیرت کہ انہیں دیکھ کر آپکو ان کی زندگی پر رشک آتا ہے اور انکے جنتی ہونے پر یقین آجاتا ہے۔لیکن عورت کی زبان کے شر،اسکی دل آزاریاں اسکی ضد،اسکا غرور و تکبر،اسکی ساری خوبیوں پر پانی پھیر سکتی ہے۔کیونکہ

 

جسطرح قطرہ قطرہ سمندر بن جاتا ہے ایسے ہی چھوٹے چھوٹے گناہ ہمیں جہنمی بنا سکتے ہیں۔ہمارا معاشرہ عورت کو مظلوم ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے عورت مظلوم تو ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ عورت نے خود اپنے آپ پر ظلم ڈھایا ہے۔اپنی چھوٹی چھوٹی بد عادات کی صورت میں۔اس تحریر میں ہم یہ مطالبہ تو نہیں کرسکتے کہ ضد چھوڑ دیں مقابلہ بازی ترک کر دیں۔لعنت ملامت نہ کریں مگر جہنم سے آزادی کے اس عشرہ میں اپنے کردار پر ایک نظر ڈال کر دل میں ہی صحیح ان عادات کو تسلیم کرکے معافی اور جہنم سے پناہ ضرور مانگیں اور جیسا کہ “رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ استغفار کرو اور صدقہ دو” یہ ہمارے لئے بہت بڑی آسانی ہے کہ ہم اپنی پختہ عادات کو نہیں چھوڑ پارہے تو کم از کم استغفار اور صدقات کی مقدار بڑھاتےجا یئں لہذا دل اور ظرف بڑا کرکے صدقہ کیا کریں جتنا زیادہ ہوسکے ۔اس تحریر کی توسط سے ایک گزارش ہر پڑھنے والے سے ہےاور وہ یہ کہ بیٹیوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دیں خاص طور پہ بیٹی کی دینی تربیت پر لازمی توجہ دیں۔ نپولین نے کہا تھا تم مجھے اچھی مائیں دے دو’میں تمہیں بہترین قوم دوں گا۔۔۔اس نے بلکل ٹھیک کہا تھا۔کیونکہ ایک عمارت کی بنیاد صحیح ہوگی تو پوری عمارت شاندار ہو گی۔بنیاد میں غلطی ہوئی تو عمارت ڈھے جائے گی۔اللہ ہم سب خواتین کو ہمارے آباؤ اجداد کو جہنم کی آگ سے بچائے ۔اور ہمیں نیک اعمال کی توفیق عطا۔آمین


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامین
87147