Chitral Times

پاک-افغان سرحد کے مسائل اور ان کا تسلی بخش حل – تحریر: غزالی فاروق

Posted on

پاک-افغان سرحد کے مسائل اور ان کا تسلی بخش حل – تحریر: غزالی فاروق

 

امریکہ نے بھارت کو ایک صنعتی مرکز بنانے کے لیے بھارت کے ساتھ مشترکہ شراکت داری کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ دوسری جانب امریکہ پاکستان کو اندرونی انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھنے کی ترغیب دے رہا ہے۔ بھارت کا ویژن بھارت کا اپنا نہیں بلکہ امریکہ کاویژن ہے۔ اسی طرح خطے کے لیے پاکستان کی اختیار کردہ پالیسی بھی امریکہ ہی کی دین ہے۔ مشرف کے “سب سے پہلیپاکستان” اور ترقی اور خوشحالی کے بدلے مغرب کی غلامی کے تصور نے پاکستان کے اسٹرٹیجک اثر و رسوخ اور معیشت کو تباہ کر دیا ہے۔افغانستان- پاکستان کے سرحدی علاقے کی جغرافیائی سیاست بڑی طاقتوں اور خطے کے لیے ان کی پالیسیوں کے درمیان ایک مقابلے کے نتیجہ میں تشکیل پائی ہے۔یہ پالیسی پہلے روس اور برطانیہ، اور پھر سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان کشا کش کے نتیجے میں تشکیل پائی۔ اس کے بعد جب امریکہ اکیلا عالمی طاقت رہ گیا ، تو اس نیاس خطے سمیت پوری مسلم دنیا کے لیے اپنی پالیسی دی۔یوں خطے کے لیے ہمارے اپنے اسٹریٹجک وژن کی عدم موجودگی میں ہمیشہ بیرونی طاقتیں خطے کی تقدیر کو تشکیل دیتی رہیں گی۔

 

افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد، امریکہ کی طرف سے پاکستانی ریاست کو حکم دیا گیا کہ وہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پشتون مسلمانوں کو افغانستان میں جہاد کرنے سے اور امریکہ کے خلاف افغان طالبان کی مزاحمت کی حمایت کرنے سے روکے۔ امریکہ نے جہادی نظریے کو خطے میں اپنے مفادات کے لیے خطرہ سمجھا اور پاکستان کو پچھلی پالیسی (یعنی افغانستان میں امریکی مدد سے سوویت یونین کے خلاف جہاد کی حمایت)کو واپس لینے کا حکم دیا۔ اسی طرح بھارت میں لڑنے والے جہادی گروہوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا بھی حکم دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں پشتون قبائل اور پاکستانی ریاست کے درمیان تصادم واقع ہوا۔ اس تصادم کے لیے پاکستانی فوج کو قبائلی علاقوں میں داخل ہونے اور وہاں چھاؤنیاں قائم کرنے کی ضرورت پڑی۔ ٹی ٹی پی 2007 میں عسکریت پسند کمانڈر بیت اللہ محسود کی طرف سے قبائلی علاقوں میں پاکستانی فوج کے داخل ہونے کے براہِ راست ردعمل کے طور پر منظر عام پر آئی۔

 

پاکستان کی فوج اور پشتون عسکریت پسندوں کے درمیان لڑائی نے قبائلی علاقے میں سماجی ڈھانچے کو تباہ کر دیا۔ قبائل اور ان کے رہنماؤں پر پاکستانی ریاست یا عسکریت پسندوں میں سے کسی ایک کا ساتھ دینے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔ اس تصادم نے خطے میں پرانے سیکورٹی کے نظام کو تباہ کر دیا۔تاریخی طور پر پاکستانی ریاست کا مغربی سرحد پر سیکورٹی کو یقینی بنانے کا طریقہ کاریہ تھا کہ سرحدی قبائل کو ڈیورنڈ لائن کے آر پار آنیجانے کی اجازت دی جائے، انہیں ہتھیار لے جانے کی اجازت تھی اور انہیں پاکستانی ریاست کی انٹیلی جنس اور لاجسٹک سپورٹ کے ساتھ بارڈر سیکورٹی فورسز کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ “دہشت گردی” کے خلاف جنگ نے خطے میں سیکورٹی کے اس پرانے ڈھانچے کو تباہ کر دیا۔

 

پاکستانی فوج قبائلی علاقوں میں اپنی مستقل موجودگی برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ امریکہ نے پاکستان کو افغان طالبان اور کابل میں نئی حکومت کو سنبھالنے کا حکم دیا ہوا ہے۔ اس کام کو پورا کرنے کے لیے پاکستانی ریاست قبائلی علاقوں میں فوجی چھاؤنیوں اور قانون نافذ کرنے والے مضبوط ڈھانچوں کی زیادہ فعال موجودگی کو ناگزیر سمجھتی ہے۔پاکستانی حکمران قبائلی علاقوں اور وسیع تر افغان مسئلے کو عالمی برادری سے جڑے رہنے کا موقع سمجھتے ہیں۔ وہ عسکریت پسندی کے خلاف کارروائیوں اور مہمات کو امریکہ اور مغرب سے اُن کیجیو پولیٹیکل اہداف کو حاصل کرنے کے عوض ڈالر حاصل کرنے کے ایک موقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔

 

اسلامی سرزمینوں میں عسکریت پسندی بنیادی طور پر مغربی استعمار کی پالیسیوں اور مسلم دنیا میں اس کے اثر و رسوخ کا ردعمل تھا۔لیکن اس حقیقت سے قطع نظر، پاکستانی فوج نے پاکستانی ریاست کی زبردست طاقت کو استعمال کیا تاکہ فاٹا کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا جا سکے اور پاکستانی ریاست کی رٹ کو قبائلی علاقوں تک بڑھایا جا سکے۔ یہ تصور کیا گیا تھا کہ پاکستان کی حکومت کی جانب سے خصوصی اقتصادی مراعات ملنے اور اس کی سیاست میں باقاعدہ شمولیت سے خطے میں عسکریت پسندی کے مسئلہ کا خاتمہ ہو جائے گا۔پاکستانی ریاست نے فاٹا کے علاقے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ سے پہلے کے حفاظتی نظام پر واپس جانے کی کوشش کی۔ تاہم قبائل اور عسکریت پسند خطے میں پاکستانی فوج کی موجودگی سے سخت ناراض ہیں۔ پشتون عسکریت پسند فاٹا کی خیبرپختونخوا میں شمولیت کی واپسی چاہتے ہیں اور اپنے لیے اور قبائل کے لیے خود مختاری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔پشتون قبائل کا ایک بڑا اور اہم مطالبہ ڈیورنڈ لائن کو کھولنا اور سرحدی باڑ ہٹانا ہے۔ اس کا براہِ راست اثر خطے کی معیشت اور سرحدی علاقوں میں سماجی اور سیاسی انتظامات پر پڑتا ہے۔

 

پاکستانی ریاست کی نوعیت اور اس کی غیر قانونی حیثیت پاکستانی معاشرے میں ایک بہت وسیع بحث ہے۔ پاکستان کو سیکولر ریاست ہونا چاہیے یا اسلامی ریاست،یہ موضوع پاکستان میں فکری گفتگو کا محور رہا ہے۔ پاکستان کی امریکہ اور مغربی طاقتوں کے ساتھ اتحاد کی خارجہ پالیسی کی پشتون قبائل کی جانب سے مخالفت کے نتیجے میں پاکستانی ریاست اور قبائل کے درمیان تصادم ہوا۔ پشتون عسکریت پسندی عملاً پاکستان کی خارجہ پالیسی کے خلاف بغاوت تھی۔پاکستانی ریاست کا یہ دعوی کہ صرف وہ ہی ہتھیار رکھنے اور استعمال کرنے کا حق رکھتی ہے اور قبائل سے اُس کی اس اجارہ داری کوقبول کرنے کا مطالبہ کرنا، درحقیقت قبائل کو خود مختاری دینے، ہتھیار رکھنے اور اپنی زمینوں کو محفوظ رکھنے کی ریاست کی اپنی ہی پچاس سالہ پالیسی کے خلاف تھا۔ قبائل نے درست طور پر یہ بھانپ لیا کہ پاکستانی ریاست کے رویے میں اس اچانک تبدیلی کے پیچھے غیر ملکی طاقتوں کا ہاتھ ہے۔

 

نام نہاد “دہشت گردی کے خلاف جنگ” کے دوران، امریکہ کی حوصلہ افزائی سے، پاکستانی ریاست کے اداروں کو عسکریت پسندی سے لڑنے کے لیے باقاعدہ تشکیل دیا گیا۔ انسدادِ دہشت گردی کی عدالتیں، نیکٹا(NACTA)، پاک فوج کے فوجی نظریے میں تبدیلی، انسدادِ دہشت گردی کے پولیس یونٹس کا قیام، فوجی عدالتوں کا قیام، تعلیمی نصاب میں تبدیلی، مدارس میں اصلاحات اور نیشنل ایکشن پلان کی تشکیل نے ریاست کی صورت ایسی کردی جسے قبائلی علاقوں میں بہت سے لوگوں نے جابرانہ اور ناجائز سمجھا۔

 

پشتون تحفظ موومنٹ کے سر اٹھانے نے پشتون قبائل کے غصے کو غیر متشدد سیاسی سرگرمی کی طرف موڑ دیا اور علاقے میں فوج کی پالیسیوں کے خلاف اپنی ناراضگی کا اظہار کیا گیا۔ اس طرح اس علاقے میں ریاست کی رٹ کے قیام کے مطالبے کو ایک ناجائز ریاست کے مطالبے کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو قبائل پر اپنی طاقت اور اثر و رسوخ کو وسعت دے کر انہیں اپنے تابع کرنے کے لیے مجبور کرتی ہے۔پشتون قبائل اسلام اور جہاد سے محبت کرتے ہیں۔ پاکستانی ریاست کو ایک سیکولر اور غیر اسلامی ریاست، اور اسلام اور مسلمانوں کے دشمن امریکہ کے ساتھ کھڑا ہوا دیکھا جاتا ہے۔ اس طرح عسکریت پسندوں نے سیکولر ریاست کی قانونی حیثیت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ پاکستان میں علمائے کرام عسکریت پسندوں کو یہ باور کرانے میں ناکام رہے ہیں کہ پاکستانی ریاست ایک اسلامی ریاست ہے جس سے وفاداری کرنا لازم ہے۔تاہم علماء نے عسکریت پسندوں کی جانب سے معصوم مسلمانوں اور سیکورٹی عملے پر حملوں کی مذمت کی ہے۔ عسکریت پسندوں کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک اسلامی ریاست کے قیام کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اگرچہ یہ ایک غیر سنجیدہ دلیل نظر آتی ہے کیونکہ ان کے سیاسی مطالبات میں پاکستان میں اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ شامل نہیں ہے، لیکن انہوں نے اسے پروپیگنڈے کے مقاصد کے لیے اور پاکستانی ریاست کی قانونی حیثیت کو مسترد کرنے کے لیے استعمال کیا ہے جسے وہ غیر اسلامی سمجھتے ہیں۔قبائل پاکستانی ریاست کی بارڈر پر سختی سے عملدرآمد کی پالیسی کی شدید مخالفت کرتے رہے ہیں کیونکہ اس کا براہِ راست اثر ان کی معیشت اور معاش پر پڑا ہے۔ وہ ڈیورنڈ لائن کو ناجائز اور قبائل کی طاقت کو تقسیم کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں۔

 

افغان طالبان فعال طور پر ٹی ٹی پی کی حمایت نہیں کر رہے لیکن افغانستان میں اُن کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے سے انکار کرتیہیں۔ ان کے خیال میں اگر پاکستان اور امریکہ سرحدی علاقوں میں عسکریت پسندی کو کچلنے میں کامیاب نہیں ہوئے تو افغان طالبان بھی ایسی کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ افغان طالبان سرحدی علاقوں میں عسکریت پسندی کے خلاف بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔افغان طالبان کا خیال ہے کہ اگر وہ جہادی ساتھیوں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو طالبان کے جہادی ہونے کی قانونی حیثیت کو نقصان پہنچے گا۔ انہیں خدشہ ہے کہ اگر وہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرتے ہیں تو اپنی صفوں کے اندر اُن کی قانونی حیثیت ختم ہو جائے گی۔

 

طالبان کی زیر قیادت افغان حکومت خود ہی ” اسلامی ریاست- خراسان “(IS-K) کی جانب سے قبول کردہ مسلسل بمباری کی ایک لہر کی زد میں آچکی ہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی بھی فوجی کارروائی درحقیقت ٹی ٹی پی کے عناصر کو ” اسلامی ریاست- خراسان “کی صفوں میں شامل ہونے کی ترغیب دے سکتی ہے یا وہ خود کابل کی حکومت پر اپنی بندوقیں تان سکتے ہیں۔لہٰذا افغان طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ اگر سمجھداری سے نہیں نمٹا گیا تو، مشرقی افغانستان میں عسکریت پسندی کا خطرہ،افغان طالبان مخالف محاذ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ افغان طالبان پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد کو نرم کرنا چاہتے ہیں۔ سرحدی علاقوں میں ٹی ٹی پی کا خطرہ اور ٹی ٹی پی کے خلاف پاکستانی فوج کی فوجی کارروائیاں ڈیورنڈ لائن کو نرم سرحد بنانے کے ان کے ہدف کو مزید مشکل بنا دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے خطرے کو حل کرنے میں پاکستان کی مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن بغیر کوئی قیمت ادا کیے۔ ان کی نظر میں ایسا کرنے کا بہترین طریقہ پاکستانی حکام اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات میں سہولت فراہم کرنا ہے، جس کی انہوں نے کوشش بھی کی لیکن اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔

 

مسلمانوں کے درمیان جنگ ایک بہت بڑا گناہ ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے:” اور جو شخص مسلمان کو قصداً مار ڈالے گا تو اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ (جلتا) رہے گا اور اللہ اس پر غضبناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور ایسے شخص کے لئے اس نے بڑا (سخت) عذاب تیار کر رکھا ہے”(النساء،4:93)۔ اسی طرح رسول اللہﷺ نے فرمایا، “مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے”(بخاری و مسلم)۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا، “جب دو مسلمان لڑائی میں آمنے سامنے ہوں اور ایک دوسرے کو قتل کر دے تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں ہیں”۔ صحابہؓ نے پوچھا، “اے اللہ کے رسولﷺ، یہ قاتل ہے- لیکن اُس غریب کا کیا ہوگا جو مارا گیا ہے؟” آپﷺ نے فرمایا، “وہ بھی اپنے ساتھی کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا”(بخاری)۔

 

پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت واضح طور پر افغانستان کے ساتھ اپنی مغربی سرحد کی صورتحال پر پریشانی کا شکار ہے۔ سلامتی کا یہ بحران امریکہ کے اسٹریٹجک وژن کے آگے گھٹنے ٹیکنے کا نتیجہ ہے۔ یہ صرف اسلام کا نظام خلافت ہی ہو گا جو پاکستان کی مغربی سرحدوں پر سلامتی اور خوشحالی کی ضمانت دے گا۔ یہ نظام ڈیورنڈ لائن کو ہمیشہ کیلئے مٹا دے گاکیونکہ ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف کے مسلمان بھائی بھائی ہیں اور امتِ مسلمہ کا حصہ ہیں۔ ان کے معاملات کو مصنوعی سرحدوں کے ذریعے تقسیم نہیں کیا جانا چاہیے۔ خلافت ایک ایسا حفاظتی انتظام قائم کرے گی جس میں قبائل بھی شامل ہوں گے۔ قبائل کی فوجی طاقت، اسلام کے غلبہ کو مزید آگے بڑھائے گی۔ یہ پشتون قبائل ہی تھے جنہوں نے آزاد کشمیر کو آزاد کرانے، سوویت روس کو پسپا کرنے اور استعماری امریکہ کو نکالنے میں مدد کی۔لہٰذا یہ خلافت ہی ہو گی جو مؤثر طریقے سے قبائلی جنگجوؤں اور مسلح افواج کو کفار کے خلاف ایک قوت وطاقت کے طور پر متحرک کرے گی۔

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
77885

پاک افغان سرحد پر 2680 کلومیٹر باڑ مکمل ہو چکی ہے، وزیر داخلہ شیخ رشید احمد

پاک افغان سرحد پر 2680 کلومیٹر باڑ مکمل ہو چکی ہے، وزیر داخلہ شیخ رشید احمد

اسلام آباد( چترال ٹائمز رپورٹ)وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ پاک افغان سرحد پر 2680 کلومیٹر باڑ مکمل ہو چکی ہے، مولانا کو اسلام آباد آمد پر خوش آمدید کہیں گے۔جمعہ کو ایوان بالا کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ لاہور میں بم دھماکہ ہوا ہے، اسی طرح اسلام آباد میں 18 تاریخ کو ایک پولیس اہلکار شہید اور دو دہشت گرد مارے گئے، ٹی ٹی پی نے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کی ہے، اس سے پہلے بھی اسلام آباد میں پولیس اہلکاروں پر حملے کئے گئے، ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات چل رہے تھے، یہ حملے خاص مقاصد کے لئے کئے جا رہے ہیں۔وزیر داخلہ نے کہا کہ پاک افغان سرحد پر 2680 کلومیٹر باڑ مکمل ہو چکی ہے، بلوچستان ایران سرحد پر 200 کلومیٹر باڑ لگانا باقی ہے۔انہوں نے کہا کہ مولانا کو اسلام آباد آمد پر خوش آمدید کہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ لاہور دھماکے کے بعد ہسپتال آنے والے کارکنوں سے بدتمیزی میں کوئی پولیس اہلکار ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف کارروائی ہو گی۔

حکومت نے بچوں میں غذائی کمی پر قابو پانے کے لئے پسماندہ اضلاع میں 50 سینٹرز قائم کئے ہیں، سینیٹر ثانیہ نشتر کا ایوان بالا میں جواب


اسلام آباد(سی ایم لنکس)وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے سماجی تحفظ و تخفیف غربت سینیٹر ثانیہ نشتر نے کہا ہے کہ حکومت نے بچوں میں غذائی کمی پر قابو پانے کے لئے پسماندہ اضلاع میں 50 سینٹرز قائم کئے ہیں، جون 2022ء میں ہر ضلع میں یہ سینٹرز قائم کر دیئے جائیں گے۔جمعہ کو ایوان بالا کے اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران سینیٹر سیمی ایزدی کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ غذائیت میں کمی کے باعث بچوں کا قد چھوٹا رہ جاتا ہے، غربت، ناخواندگی، کم عمری کی شادی، بچوں میں بیماریاں بھی اس کا سبب بنتی ہیں، اس بارے میں آگاہی کی کمی بھی ایک بڑا ہے۔انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے احساس نشو و نما پروگرام شروع کیا ہے جس کے تحت پسماندہ اضلاع میں 50 ڈسٹرکٹ ہسپتالوں میں سینٹرز کھولے گئے ہیں جبکہ جون 2022ء میں ہر ضلع میں یہ مراکز قائم کئے جائیں گے۔وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ پانچ سال سے کم عمر بچوں میں 53.7 فیصد اینیما اور 40.2 خوراک کی کمی کا شکار ہیں، وزیراعظم کی ہدایت پر نیشنل ٹاسک فورس تشکیل دی گئی ہے جس کا ہدف 67 اضلاع کے خواتین و بچوں کی دیکھ بھال سے متعلق اقدامات کرنا ہے۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
57600

پاک افغان سرحد (ڈیورنڈ لائین)-ایک دستاویزی و تاریخی حقیقت-ڈاکٹرساجد خاکوانی اسلام آباد

بسم اللہ الرحمن الرحیم

پاک افغان سرحد(ڈیورنڈ لائین)-ایک دستاویزی و تاریخی حقیقت-ڈاکٹرساجد خاکوانی اسلام آباد

                قائداعظم محمدعلی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے شمال مغربی سرحدی صوبے کے دورے کے دوران جب پاک افغان سرحد پر گئے تووہاں موجود افغان فوجی سے ہاتھ ملایا اور ساتھ ہی کہا کہ ہم بحیثیت امت مسلمہ ایک قوم ہیں جب کہ یہ لکیریں شیطان کی لگائی ہوئی ہیں جو ہمیں تقسیم کرنا چاہتا ہے۔قائداعظم محمدعلی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے قیام پاکستان کے آغاز میں ہی اپنا خصوصی ذاتی نمائندہ افغانستان بھیجا،بعد میں اسی نمائندے کا دفترپاکستان کا سفارت خانہ بنادیاگیاتھا۔اس کے جواب میں افغانستان کے حکمران بادشاہ نے سردارنجیب اللہ خان کواپنا نمائندہ سفیربناکرپاکستان بھیجا۔افغان سفیر نے 3دسمبر1947ء کو اپنی سفارتی دستاویزات قائداعظم محمدعلی جناح رحمۃ اللہ علیہ کوپیش کیں تو اس موقع پر قائدنے تقریر کرتے ہوئے فرمایا:

”پاکستان کے عوام اورحکومت افغان عوام کے ساتھ بہت گہرے اور گرم جوش دوستانہ روابط محسوس کرتے ہیں جوکہ ہمارے قریب ترین ہمسائے بھی ہیں۔افغانستان کے ساتھ ہمارے صدیوں پرانے اور نسلوں سے قائم تہذیبی،ثقافتی اور مذہبی بندھن ہیں۔پاکستان کے عوام اپنے افغانیوں بھائیوں کے جذبہ آزادی اور مضبوط کردارکی قدر کرتے ہیں۔مجھے امید ہے دونوں حکومتیں بہت جلد ایک دوسرے کے ساتھ باہم شیروشکر ہو جائیں گی اور ہم تمام معاملات کو آپس کے تعاون کی بنیادپر خوش اسلوبی سے حل کرلیں گے“۔

اس سے قائداعظم محمدعلی جناح رحمۃ اللہ علیہ کے ان جذبات کا احساس ہوتا ہے جو وہ پڑوسی ممالک کے بارے میں رکھتے تھے اور خاص طورپر مسلمان پڑوسی ممالک کے بارے میں جنہیں وہ امت مسلمہ کے حوالے سے باہم ایک تصور کرتے تھے۔قائداعظم محمدعلی جناح رحمۃ اللہ علیہ کے ان فرمودات سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے اصول بھی مرتب ہوتے ہیں کہ جن کے مطابق وطن عزیز کی خارجہ پالیسی میں ہمسایہ مسلمان ملکوں کی اور دیگر امت مسلمہ کے ممالک کی اہمیت دیگرباقی ممالک سے زیادہ ہے۔

                پاکستان اور افغانستان کو ”ڈیورنڈ لائن‘کی تاریخی و دستاویزی سرحد ایک دوسرے سے جدا کرتی ہے۔یہ 2430کلومیٹر(1510میل)لمبی ہے۔تاج برطانیہ نے ہندوستان کی سونے کی چڑیاکو اپنے پنجرے میں بندکیاتواسے خطرات لاحق ہوئے  اور خاص طور پر شمال سے اسے روس کی بڑی طاقت سے بے حد خطرہ تھا کہ وہ افغانستان کے راستے ہندوستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے میں گڑبڑ کے حالات نہ پیدا کر دے۔چنانچہ انیسویں صدی کے آخر میں وائسرائے ہند نے افغانستان کے بادشاہ امیر عبدالرحمن سے خط و کتابت شروع کی اور ان کی دعوت پر اس وقت کے برطانوی ہندوستان کے امور خارجہ کے نگران سرہنری یٹیمر ڈیورند (Sir Henry Mortimer Durand)کو کابل بھیجا تاکہ پیش نظر مسئلہ کا کوئی سیرحاصل نتیجہ نکالا جا سکے۔نومبر1893ء میں دونوں حکومتوں کے درمیان باقائدہ ایک سوسالہ معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے نتیجے میں سرحدی پٹی کا تعین کردیاگیا۔یہ سرحدی پٹی ”ڈیورنڈ لائین“ کہلاتی ہے۔اس ایک سو سالہ،معاہدے کے تحت واخان،کافرستان کا کچھ حصہ،نورستان،اسمار،مہمندلعل پورہ اوروزیرستان کاکچھ علاقہ افغانستان کو سونپ دیاگیاجب کہ استانیہ،چمن،نوچغائی،بقیہ وزیرستان،بلندخیل،کرم،باجوڑ،سوات،بنیر،دیر،چلاس اور چترال برطانوی ہندوستان کے حصے میں آگئے۔

                قیام پاکستان کے بعد سے پاکستان اس معاہدے کی پابندی کرتارہا اورلیکن افغانستان نے اس ڈیورنڈ لائن کو ماننے سے انکار کر دیااور دریائے کابل تک کے علاقے کا دعوی بھی کردیا۔وہ اس دعوے کے حق میں انگریز کی آمد سے پہلے سکھوں کی حکومت کا حوالہ دیتے ہیں جب سکھوں کی فوج کشی کے نتیجے میں ان کے یہ علاقے چھین لیے گئے تھے۔کتنی حیرانی کی بات ہے کہ سکھوں نے علاقے چھین لیے اور افغانستان کی حکومت کچھ نہ کر پائی،انگریز نے میز پر بیٹھ کر دستخط کروالیے تو بھی والی افغانستان نے ہاتھ ملا کراپنے علاقے،اگریہ ان کے اپنے تھے،انگریز کے حوالے کر دیے اور اس شان سے کیے کہ جو انگریز افسریہ علاقے لینے آیا وہ کئی ہفتوں تک افغانستان کے بادشاہ کی میزبانی سے بھی لطف اندوز ہوتا رہااور اسے پورے تزک و احتشام کے ساتھ رخصت بھی کر دیا۔اور اس معاہدے کی مدت بھی پوری ایک صدی تک طے کر دی،جب کہ دستخط کرنے والوں کو یقین کامل تھا اگلے سوسالوں کے بعد تک ان میں سے کوئی بھی زندہ نہیں ہوگا۔لیکن 14اگست1947کے بعد اپنی طویل قومی،ملی و عوامی جدوجہد کے بعداور صدی کی سب سے بڑی ہجرت کے بعدیہ علاقے حاصل کیے توافغانستان کو ان علاقوں پر اپنا حق ملکیت یاد آگیا؟؟؟

                پاکستان نے ان علاقوں پر سکھوں کی طرح زبردستی یاانگریزوں کے طرح چالاکی سے قبضہ نہیں کیابلکہ بالکل ایک جمہوری انداز سے ان علاقوں کی عوام کی مرضی کے مطابق انہیں اپنے اندر شامل کیاہے۔ 1947ء کوبرطانوی پارلیمان نے ایک قانون منظور کیا جس کے مطابق 15اگست1947ء کو متحدہ ہندوستان کودو آزادریاستوں میں تقسیم ہو جاناتھا۔اس قانون میں یہ شق بھی موجود تھی شمال مغربی سرحدی صوبے میں ریفرنڈم کے ذریعے عام عوام کی رائے معلوم کی جائے۔چنانچہ 6جولائی کو اس تمام علاقے میں برطانوی حکومت کے تحت ریفرنڈم کاانعقادکیاگیا۔نتائج کے مطابق 99.2%رائے دہندگان نے پاکستان میں شمولیت کے حق میں رائے دی اور0.98%رائے دہندگان نے اس سے اختلاف کیا۔پس افغانستان کے حکمرانوں نے جس حکومت کا ڈیورنڈ لائن کا فیصلہ تسلیم کیااسی حکومت کے تحت منعقد ہونے والے ریفرنڈم کافیصلہ کیوں قبول نہیں ہے۔پھر پٹھان سرداران وعمائدین کے جرگے نے بھی اس ریفرنڈم کے فیصلے کی توثیق کر دی۔اور یہ فیصلہ حکومت نے میز پر بیٹھ کر مزاکرات کے نتیجے میں کچھ لواور کچھ دو کے طورپر نہیں کیابلکہ عوام کی فیصلہ کن اکثریت کے بل بوتے پر کیاہے۔اس کے بعد سے پاکستان کی ایک طویل تاریخ ہے جس میں اس علاقے کے لوگ پاکستان کے ساتھ دل و جان سے شریک ہیں،پاکستان کے تمام محکموں میں ان کی نمائندگی موجود ہے،عساکرپاکستان میں اس علاقے کے لوگوں کی قربابانیاں تاریخ نے سنہری حروف سے کنداں کی ہیں۔

                افغانستان کی حکومت 14اگست1947سے پہلے اور اس کے بعد بھی متعدد مواقع پر اس ڈیورنڈ لائن کو ایک بین الاقوامی سرحد کے طورپر تسلیم کر چکی ہے،اور عملاََگزشتہ ایک صدی سے زیادہ کا تعامل اس پر گواہ بھی ہے۔1905ء کا معاہدہ،1919ء کا معاہدہ  اور1921ء کے معاہدوں پر افغان حکومتون کے دستخط اس ڈیورنڈ لائین کو مزید تقویت دینے کے لیے اور اسے ایک بین الاقوامی سرحدکی حیثیت دینے کے لیے کافی ہیں۔اور اگر اس سے انکار بھی کرنا ہے تو امیرعبدالرحمن کے زمانے سے انکار کیاجائے،اور اگر اس سے بھی پہلے کی تاریخ میں جھانکا جائے تو سکھوں سے بزوربازواس علاقے کو چھین لیاجاتا۔بھلا صدیوں کے بعد یہ کیسے ممکن ہے کہ اس سرحدی حقیقت کو جھٹلا دیا جائے جس میں خود افغانستان کے حکمرانوں کے دستخط موجود ہیں اور انگریزسرکار کی موجودگی تک ڈیورنڈ لائن کے اس پار سے ایک چوں تک کی آواز نہ سنی گئی۔اگرافغانستان کو اپنی آزادانہ تجارت کے لیے بحیرہ عرب تک رسائی درکارتھی تویہ پہلے سوچنے کی بات تھی،ایک سوسال بعد سوچ کے نتیجے میں تاریخ کے فیصلوں پروقت کی بہت زیادہ گرد بیٹھ چکی ہوتی ہے اور کسی جغرافیائی خطے میں صدیوں کے بعد فیصلے تبدیل نہیں کیے جاسکتے۔ڈیورنڈ لائین ایک حقیقت تھی اور ہے اورجب تک اللہ تعالی نے چاہا یہ ایک حقیقی سرحد رہے گی۔

                افغانستان کے لیے بہترین راستہ وہی ہے جس کی راہنمائی قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تقریرمیں کردی تھی۔افغانستان اپنے آپ کوایک اسلامی ملک سمجھتے ہوئے امت مسلمہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط ترکرے۔اپنے قومی مفادات پر امت اور ملت کے مفادات کو ترجیح دے۔ایک مسلمان پڑوسی مملکت کی حیثیت کو مانتے ہوئے پاکستان کی حقیقت کو تسلیم کرے۔بحیرہ عرب کے دروازے پاکستان کے راستے اگر سوشلسٹ چین کے لیے کھل سکتے ہیں تو مسلمان افغانستان کااس پر اولین حق ہے۔اس سے قبل بھی جب روس نے افغانستان پر فوج کشی کی تھی پاکستان کی سرحدیں افغان بھائیوں کے لیے کھول دی گئی تھیں۔پاکستان کا ظرف بہت وسیع ہے لیکن پاکستانی قوم اس بات کو برداشت نہیں کرسکتی کہ افغانستان کی سرزمین کوپاکستان کے دشمن استعمال کریں اور سرزمین پاکستان پر اپنی دہشت گردانہ کاروائیوں کی نگرانی افغانستان سے بیٹھ کرکیاکریں۔پاکستان اور افغانستان کو بہرحال یک میز پر بیٹھ کر آپس کے معاملات آپس میں ہی طے کرنا ہوں گے اورکسی بھی پیرونی عنصر کو آپس میں غلط فہمیاں پیداکرنے سے باز رکھنا ہوگا۔اوراب وقت آ چکا ہے اوراب آنے والی نسلیں اپنی قیادتوں کو مجبورکر دے گی کہ کہ دونوں اکٹھے ہوں گے،بیرونی عناصراوران کے بہی خواہوں اورغداران ملت کو باہر کاراستہ دکھائیں گے اور امت مسلمہ کویہاں سے نوید صبح نوضرور میسر آئے گی،انشاء اللہ تعالی۔

drsajidkhakwani@gmail.com

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
50914