Chitral Times

دھڑکنوں کی زبان – ”پاکستان زندہ باد“- محمد جاوید حیات

جب سے چودھری رحمت علی نے اپنے پمفلٹ میں لکھا کہ ہم اپنے لیے الگ ملک بنانا چاہتے ہیں جس کا نام”پاکستان“ ہو گا تو ہندو ہم پر طنز کرنے لگے۔۔یہ پاک ہیں لہذا پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔۔پاکستان پاک لوگوں کی سرزمین ہے یہ ہر لحاظ سے پاک ہونگے۔۔مخلص وفادار دیانتدار محنتی پاکباز ریاست کا وفادار ہونگے۔ان کی سرزمین دنیا والوں کے لیے مثال ہوگی۔وہ ترقی کریں گے ترقی کرتے جاینگے۔۔یہ بھپتیاں تھیں طنز تھے ان کا خیال تھا کہ ہم ویسے کھرے سچے تھوڑی ہیں ہم پاک سر زمین کے مکین ہونے کے قابل تھوڑی ہیں۔۔

ہم اس سے وفادار نہیں ہو سکتے۔لیکن جب لے کے رہینگے پاکستان۔۔۔بن کے رہے گا پاکستان کے نعرے بلند ہونے لگے تو اغیار سہم سے گئے اور آخر کو ہتھیار ڈال دیے پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا لیکن پتہ نہیں ہندوؤں اور سکھوں،انگریزوں اور ہندوستان کا بٹوارہ نہ چاہنے والوں کی بھپتیوں میں صداقت تھی یا یہ ہماری آزمائش تھی کہ پاکیزہ اور مخلص لوگوں کو آسمان کھا گیا کہ زمین نگل گئی وہ کہیں غائب ہوگئے


ایے عشاق گئے وعدہ فردا لے کر
اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر


پھر اقتدار کی کشمکش پھر جاگیر بنانے کی دھن پھر دھن دولت سمیٹنے کی دوڑ پھر بدعنوانی کا طوفان۔۔۔۔اس نام پہ شک ہونے لگا کہ واقع پاکیزہ لوگوں کی سرزمین ہے۔۔اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام والا نعرہ درست تھا اور واقع اسلامی نصب العین ان لوگوں کی منزل تھی۔کرپشن سے پاک معاشرہ ان کا ایڈیل تھا۔ بالکل شک ہونے لگا۔وہ معاشرہ خواب ہی رہا۔

لیکن اس پاکستان کے کونے کھدرے میں ایسے افراد موجود ہیں جو اس کی بقا کے لیے سر بسجود ہیں۔اس کی سرحدوں پر ایسے جوان مرد موجود ہیں جو بندوق تانے رات کو جاگتے ہیں یہ وہ افراد ہیں جو اس کے دارالحکومت کی کشادہ سڑکوں پر اپنی قیمتی کاریں نہیں دوڑاتیں جو اے سی لگے کمروں میں بیٹھ کر اس کی قسمت کا فیصلہ نہیں کرتے جو اس کی دولت دونوں ہاتھوں سے لوٹتے نہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو سارا دن کام کرکے اپنے بچوں کی روزی روٹی کا بندوبست کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کے بچے عید کے کپڑوں کی آرزو میں جوان ہوتے ہیں لیکن ان کی قسمت میں کبھی نئے جوڑے نہیں آتے۔

یہ وہ لوگ ہیں جن کی بیٹیوں کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ ان کی جوانی کب آئی کب ڈھلی۔۔یہ وہ لوگ ہیں جو دارالعدل کی سیڑھیوں میں عمریں گنواتے ہیں یہ وہ لوگ جو ہسپتالوں کے باہر قطاروں میں کھڑے کھڑے مرجاتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کی قسمت می مسکراہٹ نہیں ہوتی۔۔

لیکن یہ لوگ اس سرزمین کی مٹی پہ طواف کرتے ہیں اس کی پکڈنڈیوں پہ کھلے آسمان تلے رات گزارتے ہیں لیکن اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں یہ اپنے بچوں کی قربانیاں دیتے ہیں لیکن اس بات پہ فخر کرتے ہیں یہی وہ افراد ہیں جو جب بھی موقع ملے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں ان کے نعروں میں خلوص ہوتا ہے۔۔

ان کی زبان سے جب پاکستان زندہ باد کا نعرہ بلند ہوتا ہے تو وہ شبستان وجود کو ہلا دیتا ہے فلک میں شگاف کرتا ہے دشمن کو لرزہ براندام کر دیتا ہے۔لیکن یہ نعرہ سٹیج پہ آکے بلند بانگ دعوی کرنے والے کی زبان سے نکلے تو صدا بصحرا ہوتا ہے پاک سر زمین کی بقا کے لیے یہ نعرے بے کار ہیں۔۔ایک بندہ ہزار صعوبتیں جھیلنے کے باوجود اس سرزمین کے لیے زندہ باد کا نعرہ لگاتا ہے اسی نعرے کی بدولت پاک سر زمین زندہ و تابندہ ہے یہ اسکے اصل معمار ہیں۔-اللہ اس پاک دھرتی کو تا قیامت سلامت رکھے۔۔۔۔پاکستان زندہ باد

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51416

چترال میں منشیات کے خاتمہ اوراگہی کیلئے ایکشن کمیٹی تشکیل دیدی گئی۔عمر قریشی

چترال(نمائندہ چترال ٹائمز) چیئر مین ایکشن کمیٹی انسداد منشیات ضلع چترال الحاج محمد عمر قریشی نے بدھ کے روز چترال پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ منشیات کے استعمال کا نا سور نوجوانوں میں تیزی سے پھیل رہا ہے اور منشیات کے استعمال کے منفی اثرات نے معاشرہ کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے جس کا نتیجہ خودکشیوں کی صورت میں نکلتا ہے۔

وقت کا تقاضا ہے کہ ہم سب کواس کی روک تھام کے لئے آگے آنا چاہئے۔ہم نے ایکشن کمیٹی انسداد منشیات کے نام سے ملک گھیر تنظیم بنا کر محرم الحرام کے مبارک مہینے میں معاشرے کو منشیات سے پاک کرنے کے لئے عملی طور پرمیدان میں آ گئے ہیں۔ہمارا کام حکومتی اداروں کے ساتھ مل کر لوگوں خصوصاً نوجوانوں میں منشیات کے استعمال کے منفی اثرات کے حوالے سے آگہی پیدا کرنے اور منشیات فروشوں کی نشاندہی کرنا ہے۔ہم بہت جلد چترال میں سمینار منعقد کرکے ضلعی دفتر کا افتتاح کریں گے۔

انہوں نے لوگوں سے اس توقع کا اظہار کیا کہ لوگ اپنی آنے والی نسلوں کی مستقبل کی بقاء کی خاطر ہمارا ساتھ دیں گے۔کیونکہ ہمارا مشن سیاست اور دیگر اختلافات سے بالا تر ہوکر انسانیت کو بچانے کے لئے مل کر کام کرنا ہے۔

chitraltimes muhammad umar qureshi pc1
Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , , ,
51325

سیاحوں کی گاڑی عشریت کے مقام پر حادثے کا شکار۔ایک ہی خاندان کے 16افراد زخمی

سیاحوں کی گاڑی عشریت کے مقام پر حادثے کا شکار

چترال( چترال ٹائمز رپورٹ) لواری کے نواحی علاقہ عشریت میں بکسہ گاڑی حادثے کا شکار ہوگئ، اطلاع ملنے پر ریسکیو 1122 کی میڈیکل ٹیمیں موقعے پر پہنچیں اور زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد فراہم کرکے THQ ہسپتال دروش منتقل کیا، حادثہ گاڑی کے بریک فیل ہونے کی وجہ سے پیش آیا،

ریسکیو کے مطابق حادثے کا شکار ہونے والی گاڑی میں ڈرائیور سمیت ایک ہی خاندان کے 18 افراد سوار تھے جن میں 4 مرد ، 3 خواتین اور 9 بچے زخمی ہو گئے، زخمیوں میں دو بچوں کی حالت تشویشناک ناک ہے جن کو پشاور ریفر کیا گیا ہے اور ریسکیو 1122 کی ٹیم ایمبولینس میں پشاور منتقل کر رہی ہے، حادثے کا شکار ہونے والے خاندان کا تعلق گجرات سے ہے اور سیاحت کی غرض سے چترال آرہے تھے.

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , , ,
51261

ظاہراحمد کا اعزاز؛ پشاور یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی مکمل کرلی

ظاہراحمد کا اعزاز؛ پشاور یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی مکمل کرلی

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز) چترال کے ایک اور فرزند ظاہر احمد نے جامعہ پشاور سےاپنے مقالے کی کامیابی سے دفاع کرتے ہوئے پی
ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی ہے۔ ڈاکٹر ظاہر احمد کا تعلق چترال کے دورآفتادہ علاقہ کشم سے ہے۔ انھوں نے پاکستان کے ممتاز اور نامور پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحمن چیئرمین ڈیپارٹمنٹ آف آربن اینڈ ریجنل پلاننگ پشاور یونیورسٹی اور جرمن کے معروف پروفیسر Dr. Andreas Dittmann کے زیرنگرانی میں ماونٹین جیوگرافی میں سپیشلائزیشن کی۔

ڈاکٹر ظاہر احمد نے پی ایچ ڈی کی ریسرچ کے دوران ہائرایجوکیشن کمیشن کے ریسرچ فیلو شپ پروگرام میں جرمنی کے مشہور درسگارہ JLU Giessen سے بھی تعلیم وتربیت حاصل کی۔ اس کے ریسرچ آرٹیکلز قومی وبین الاقوامی بہترین جریدوں اور کتابوں میں شائع ہوچکے ہیں۔

chitraltimes Zahir ahmad chitrali phd schlor 1
Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , , , , ,
50445

انتقال پرملال، حاجی محمد ظفرکی والدہ ماجدہ انتقال کرگئیں

انتقال پرملال، حاجی محمد ظفرکی والدہ ماجدہ انتقال کرگئیں

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز) دوبئی میں مقیم چترال کی معروف سماجی شخصیت اور اورسیز چترال ویلفئر ایسوسی ایشن کے صدر حاجی محمد ظفر کی والدہ ماجدہ پشاور ہسپتال میں انتقال کرگئیں وہ گزشتہ کچھ دنوں سے بیمارتھیں۔انھیں چترال پہنچاکر جغور میں سپرد خاک کیا گیا۔نماز جنازہ میں مختلف مکاتب فکرکے افراد کثیر تعداد میں شرکت کی۔ وہ چترال کے معروف شاعر و ادیب جعفر حیات ذوقی کی بھی والدہ ماجدہ تھیں۔


دریں اثنا اورسیز چترال ویلفر ایسوی ایشن دوبئی کے صدر معروف سماجی شخصیت حاجی محمد ظفر کی والدہ کے انتقال پر پاکستان پیپلز ابوظبی یو اے ای کے نائب صدر نظارولی شاہ نے انتہائی دکھ کا اظہار کرتے ہوئے دعا کی ہے کہ الله پاک مرحومہ کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں اور لوحقین کو صبر جمیل عطا فرمائیں ۔


اس موقع پر پریس کلب کے سابق صدر شاہ مراد بیگ، جہانگیر جگر ،نذیراحمد شاہ ،سابق یو سی ناظم شمشیر علی خان اور زوالفقار علی شاہ نے بھی والدہ کی انتقال پر حاجی محمد ظفر سے دلی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے مرحومہ کی معفرت کے لیے دعا کی۔


اسی طرح چترال انفارمیشن اینڈ ہیلپنگ گروپ کے زیر اہتمام مرحومہ کی ایصال ثواب کیلئے شاہی مسجد چترال میں قرآن خوانی کا اہتمام کیا گیا، اور شاہی خطیب مولانا خلیق الزمان نے اجتماعی دعا کی۔

chitraltimes m o haji zafar passes away namaz janaza jughor
Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , ,
50413

خبرپر ایکشن؛ ڈی سی اپر چترال نے محکمہ زراعت میں ڈرائیورودیگر تقرریوں کے آرڈرپر عملدرآمد کو روک دیا

خبرپر ایکشن؛ ڈی سی اپر چترال نے محکمہ زراعت میں ڈرائیورودیگراسامیوں کی تقرریوں کے آرڈرپر عملدرآمد کو روک دیا

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز ) ڈپٹی کمشنر اپر چترال محمد علی نے خبرپر ایکشن لیتے ہوئے محکمہ زراعت کے ڈسٹرکٹ ڈائرکٹر کی طرف سے جاری شدہ ڈرائیوراور دوسرے کلاس فور اسامیوں کی تقرری کے آرڈرز پر عملدرامد روک دیا ہے۔

ڈی سی اپر چترال نے اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے کہاکہ ڈرائیور اور دوسرے اسامی پر غیر مقامی افراد کی تقرری سے مقامی لوگوں نے سخت رد عمل کا مظاہر ہ شروع کردیا تھا اور جمعرات کے روز ان کے دفتر میں مختلف سیاسی اور عوامی رہنماؤں نے زبانی اور تحریری شکل میں شکایات جمع کراتے ہوئے ان تقرریوں کی منسوخی اور ڈسٹرکٹ ڈائرکٹر ایگریکلچر کے خلاف سخت کاروائی کا مطالبہ کیا تھا۔عوامی شکایات اور مقامی لوگوں میں پائی جانے والی اس بے چینی اور اضطراب کے پیش نظر تقرریوں پر عملد درآمد کوروک دیا گیا ہے۔

دریں اثناء پی ٹی آئی اپر چترال کے صدر الحاج رحمت غازی نے ڈائرکٹر زراعت اپر چترال کی طرف سے کلاس ملازمتوں میں غیر مقامی افراد کی تقرری کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپر چترال کے غریب عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جائے گی۔

انہوں نے ایک اخباری بیان میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت میرٹ اور شفافیت پر یقین رکھتی ہے اور ایسے افسران کی اس دور میں کوئی جگہ نہیں ہے جوکہ اپنے کرتوت سے حکومت کو بدنام کرنے کا باعث بن رہے ہوں۔ انہوں نے کہاکہ ڈائرکٹر زراعت کی ان من مانیوں سے علاقے میں حالات کشیدہ ہوسکتے ہیں کیونکہ اس ضلعے میں بے روزگاری اپنی انتہاپر پہنچ چکی ہے لیکن ڈرائیور کی اسامی کو غیر مقامی افراد کو دئیے گئے۔

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , , ,
50405

ایگریکلچر آفس اپر چترال میں میرٹ کی دھجیاں اُڑادی گئیں، ڈرائیورکی اسامی پر کرک سے امیدواربھرتی

ایگریکلچر آفس اپر چترال میں میرٹ کی دھجیاں اُڑادی گئیں، ڈرائیورکی اسامی پر کرک سے امیدواربھرتی

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز ) ڈسٹرکٹ ڈائرکٹر ایگریکلچر اپر چترال نے اقرباء پروری کی مثال قائم کرتے ہوئے محکمہ زراعت میں ڈرائیور کی اسامی پر ضلع اپر چترال سے تعلق رکھنے والے پچاس سے ذیادہ امیدواروں کو چھوڑ کراپنے آبائی ضلع کرک سے ایک امیدوار کو بھرتی کرادی جبکہ ذرائع کے مطابق اس عمل میں انہوں نے انٹرویو پینل کے ممبران سے دستخط لینے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی جوکہ لازمی ہے۔اپر چترال کے عوام اس بات پر حیران ہیں کہ انصاف اور میرٹ کی بات کرنے والوں کے دور سے پہلے کسی بھی محکمے میں کسی دوسرے ڈسٹرکٹ سے کسی شخص کی ڈرائیور کی پوسٹ پر براہ راست بھرتی کی مثال نہیں ملتی ہے جبکہ اس دفعہ ملاکنڈ ڈویژن کو چھوڑ کر کوہاٹ ڈویژن سے امیدوار لاکر یہاں بھرتی کیا گیا جس کا مطلب ہے کہ اپر چترال کے ڈھائی لاکھ آبادی میں ایک شخص بھی اس اہل نہیں تھا۔

اسی طرح ذرائع نے بتایاہے کہ کسی دوسرے ڈویژن سے ایک شخص کو سکیل نمبر 7میں بڈر بھرتی کیا گیا ہے جس کے لئے میٹرک کی سرٹیفیکیٹ کا ہونا شرط ہے۔ جب مقامی میڈیا نے ڈسٹرکٹ ڈائرکٹر ایگریکلچر اصغر خٹک سے اس بارے میں پوچھا توانہوں نے صاف الفاظ میں کہاکہ ڈرائیور کو وہ انٹرویو سے پہلے ہی اپنے ساتھ گاؤں سے لاکر ڈیوٹی پر لگادیا تھا جبکہ انٹرویو صرف فارمیلیٹی پوری کرنے کے لئے کیا۔ ڈرائیور پوسٹ کے لئے انٹرویو میں شامل ہونے والے امیدواروں نے وزیر اعلیٰ اور چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا سے مطالبہ کیا ہے کہ ان تقرریوں کو فوری طور پر منسوخ کرکے ڈسٹرکٹ ڈائرکٹر اپر چترال سمیت اقرباء پروری میں ساتھ دینے والے محکمے کے دیگر اعلیٰ افسران کے خلاف انکوائری کرائی جائے۔ اس سے قبل محکمہ سوشل ویلفئیر ڈیپارٹمنٹ میں بھی متعلقہ وزیر نے لکی مروت سے ایک شخص کو یہاں ڈرائیور بھرتی کرایا تھا۔

درین اثناء پی پی پی اپر چترال کے صدر امیر اللہ خان نے محکمہ زراعت میں غیر مقامی افراد کی تقرری کی مذمت کرتے ہوئے ان کی منسوخی کا مطالبہ کردیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اپر چترال کے غریبوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا پی ٹی آئی حکومت کا بدترین کام ہے اور ایم پی اے مولانا ہدا یت الرحمن اور صوبائی کابینہ میں شامل وزیر زادہ کا اس صورت حال میں خاموشی معنی خیز ہے۔ انہوں نے کہاکہ ڈسٹرکٹ ڈائرکٹر کو وزیر زراعت محب اللہ کی اشیر باد حاصل ہوگی کیونکہ ان کے ڈویژن سے کلاس فور کی اسامیوں کو دوسرے ڈویژن میں بانٹنے میں ان کی مرضی شامل ہوگی۔

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , , ,
50377

پی ٹی آئی حکومت میں مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے غریبوں کا جینا مشکل ہوگیا ہے۔سلیم خان

پی ٹی آئی حکومت میں مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے غریبوں کا جینا مشکل ہوگیا ہے۔سلیم خان

چترال ( نمائندہ چترال ٹائمز ) سابق صوبائی وزیر اور پی پی پی کے صوبائی ڈپٹی سیکرٹری انفارمیشن سلیم خان نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت میں مہنگائی اور بے روزگاری میں خوفناک اضافہ ہوا ہے جس سے غریبوں کے لئے جینا بھی مشکل ہوگیا ہے جبکہ چترال کے دونوں اضلاع اس دور حکومت میں ترقی کے دور میں مزید پیچھے چلے گئے اور پی ٹی آئی کی آٹھ سالہ صوبائی حکومت نے ضلع میں میگاپراجیکٹ لانا تو دور کی بات،یہاں پر جاری ترقیاتی کام بھی رول بیک کردئیے جن میں گرم چشمہ اور بمبوریت روڈ شامل ہیں۔

پارٹی کے مقامی رہنماؤں انجینئر فضل ربی جان، عالم زیب ایڈوکیٹ، قاضی فیصل، محمد حکیم ایڈوکیٹ، شریف حسین, ابولائس رامداسی، عبدالرزاق براموش، بشیر احمد اور دوسروں کی معیت میں چترال پریس کلب میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے چترال کو درپیش مسائل بیان کرتے ہوئے سی پیک روٹ سے چترال کو خارج کرنے، اہم روڈ منصوبوں کو ختم کرنے اور لواری ٹنل کی چترال سائیڈ پر اپروچ روڈ پر کام کی بندش سمیت دوسرے مسائل کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہاکہ سابق صدر آصف زرداری نے چکدرہ چترال گلگت روڈ کو سی پیک منصوبے میں شامل کروایا تھاجس سے اس علاقے کی ترقی کا مستقبل وابستہ تھالیکن عمران حکومت نے اس عظیم منصوبے سے چترال کو محروم کرکے چترال شندور روڈ کا لولی پاپ دے دیا ہے جوکہ قابل مذمت ہے۔

انہوں نے کہاکہ گرم چشمہ اور بمبوریت روڈ کے ٹینڈر بھی گزشتہ دور حکومت میں ہوچکے تھے لیکن پی ٹی آئی حکومت نے ان منصوبوں کو سرد خانے کی نذر کرکے چترال دشمنی کی حد عبور کردی۔ سلیم خان نے کہاکہ ایک طرف حکومت سیاحت کو ترقی دینے کی بات کرتے ہوئے نہیں تھکتی تو دوسری طرف سیاحتی اہمیت کے حامل وادیوں میں سڑکوں اور چترال شہر میں واقع سڑکوں کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جس سے یہاں آنے والے سیاح مایوس ہوکر واپس جاتے ہیں۔ سلیم خان نے یونیورسٹی آف چترال کے لئے زمین کی خریداری میں حکومت کی ناکامی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہاکہ بلند بانگ دعوے کرنے والے آٹھ سالوں میں ایک انچ زمین بھی خریدنے میں ناکام ہوئے اور اس بار بھی حکومت نے اربوں روپے منظوری کی سبز باغ چترالی عوام کو دیکھا دی ہے جوکہ گزشتہ سالوں کی طرح یہ بھی محض اعلان ثابت ہوں گے۔

پی پی پی کے رہنمانے کہاکہ لینڈ سیٹلمنٹ پر ان کی پارٹی کا موقف واضح ہے کہ اس میں مختلف علاقوں کے چراگاہوں،بنجر زمینات، ریور بیڈ اورجنگلات کو ان علاقوں کے عوام کے نام پر درج کیا جائے اور موجودہ حالت میں لینڈ سیٹلمنٹ چترال کے عوام کو ہر گز منظور نہیں ہے۔ انہوں نے حکومت پر الزام عائد کرتے ہوئے کہاکہ حکومت نے چترال میں معدنیات کو ایک امریکن کمپنی کو غیر قانونی پر لیز پر دے دی ہے جبکہ اس پر پابندی عائد تھی اور اس کمپنی کا مالک پی ٹی آئی کو الیکشن مہم میں بھاری بھاری چندہ دہندہ ہے جوکہ اس وقت بھی آزاد کشمیر میں الیکشن کے لئے پی ٹی آئی کی فنانسنگ کررہا ہے۔

سلیم خان نے گولین گول ہائیڈروپاؤر پراجیکٹ سے چترال کے لئے رائیلٹی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ اس بجلی گھر سے صوبائی حکومت کو ملنے والی رائلٹی کا 5فیصد پر چترال کا حق ہے جس کا حساب چترالی عوام کو پیش کیا جائے۔ انہوں نے چترال کے ایم این اے مولانا عبدالاکبر چترالی اور ایم پی اے مولانا ہدا یت الرحمن کا نام لئے بغیر کہاکہ وہ ترقیاتی کاموں کے سلسلے میں اپنے علاقوں بروز اور نوگرام تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں جبکہ وہ پوری چترال کے منتخب نمائندے ہیں اور انہیں اس امتیازی سلوک کو ترک کرنا ہوگا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ پی پی پی لیڈر فریال تالپور نے چترال میں صرف ماربل کی 2500مربع کلومیٹر پر محیط رقبے کی لیز لے رکھی ہے جبکہ دوسرے معدنیات کی لیز میں وہ ہرگز ملوث نہیں ہے۔

chitraltimes ppp saleem khan addressing press confrence
chitraltimes ppp saleem khan addressing press confrence1
Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , , , , , ,
50340

مون سون شجرکاری میں تمام اداروں، کمیونٹی، تعلیمی اداروں کی شرکت کو یقینی بنایا جائے۔ چیف سیکرٹری

مون سون شجرکاری کے لئے مربوط حکمت عملی مرتب کی جائے۔ چیف سیکرٹری ڈاکٹر کاظم نیاز
شجرکاری میں تمام اداروں، کمیونٹی، رضا کاروں، تعلیمی اداروں کی شرکت کو یقینی بنایا جائے۔ چیف سیکرٹری
مون سون شجرکاری مہم کے تحت صوبے بھر میں 4 کروڑ سے زائد پودے لگانے کا ہدف رکھا گیا ہے۔ بریفنگ


پشاور (چترال ٹائمز رپورٹ) چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا ڈاکٹر کاظم نیاز نے صوبے میں جنگلات کے رقبے کو بڑھانے کے لئے مزید اقدامات اٹھانے پر ضرور دیتے ہوئے سیکرٹری جنگلات کو ہدایت کی کہ وہ مون سون شجرکاری کے لئے مربوط حکمت عملی مرتب کریں تاکہ اس مہم کو موثر بنایا جاسکے۔ یہ ہدایات چیف سیکرٹری نے پیر کے روز 10 بلین ٹری ایفاریسٹیشن کے تحت مون سون شجرکاری مہم کے حوالے سے سول سیکرٹریٹ میں منعقدہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے دیں۔

اجلاس میں انتظامی سیکرٹریز اور ویڈیو لنک کے ذریعے ڈویژنل کمشنرز نے شرکت کی۔اجلاس کو خیبر پختونخوا میں 10 بلین ٹری شجرکاری مہم کے تحت مون سون شجرکاری بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ مون سون شجرکاری کے تحت صوبے بھر میں 4 کروڑ سے زائد پودے لگانے کا ہدف رکھا گیا ہے۔

اسی طرح صوبے بھر کے تین ریجنز میں یوم پاکستان کے موقع پر 213 سرگرمیوں کا انعقاد کیا جائے گا جس کے دوران 13 لاکھ سے زائد پودے لگائے جائیں گے۔ ڈاکٹر کاظم نیاز نے سیکرٹری جنگلات و ماحولیات کو ہدایت کی کہ مون سون شجرکاری کے لئے مربوط حکمت عملی کیساتھ سامنے آئیں، اسی طرح بلدیات، ابتدائی وثانوی، اعلی تعلیم، آبپاشی اور دیگر متعلقہ محکموں کو بھی شجرکاری بارے میں اپنے اپنے پلان تیار کرنے کی بھی ہدایت کی گئی۔

چیف سیکرٹری نے کہا کہ مون سون شجرکاری میں تمام اداروں، کمیونٹی، رضا کاروں اور تعلیمی اداروں کی شرکت کو یقینی بنایا جائے۔ محکمہ جنگلات کے حکام متعلقہ ڈویژنل کمشنرز اور ضلعی انتظامیہ کے ساتھ بیٹھ کر مون سون شجرکاری کے لئے جگہوں کو منتخب کرکے اسکو کامیاب بنائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنگلات کو بڑھانے سمیت اربن پلانٹیشن، تعلیمی اداروں، سڑکوں اور نہروں کے کنارے پر شجرکاری کے لئے بھی اقدامات اٹھائے جائیں۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged , , , ,
50320

عید قربان اور فلسفہ قربانی – تحریر :زوبیہ اسلم

عید قربان اور فلسفہ قربانی – تحریر :زوبیہ اسلم

ہرسال اس آنے والی عید پر مومنوں کی تیاریاں عیدالفطر کی نسبت ذیادہ جوش و خروش سے بھرپور ہوتی ہیں کیوں کہ عیدالفطر تو مسلمانوں کو اللہ کی طرف سے بطور تحفہ ملتی ہے جب کہ عیدالاضحیٰ مسلمانوں کی طرف سے اللہ کو بطور خاص قربانی کی شکل میں تحفہ ہے. قربانی ہے کیا؟


“مخصوص جانور کو مخصوص دن میں بہ نیت تقرب ذبح کرنا قربانی ہے”
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
“فصل لربک وانحر”
ترجمہ :
“تو تم اپنے رب کے لیے نمازپڑھو اور قربانی کرو”


اس لیے صاحب استطاعت افراد (چندایک کیوں کہ اکثر مخیر ہونےکےباوجود جیبیں ڈھیلی نہیں کرتے) پر فرض ہے مگر کچھ مال و زر میں کمزور حیثیت کے باوجود شوق کے تحت اللہ کی رضاکی خاطر اس عظیم جذبے کی تکمیل کرتے ہیں. اکثر مسلمان ایسے بھی ہیں جو قربانی تو اللہ کی راہ میں کرتے ہیں مگر وہ گوشت غرباء کے پیٹ کی بجائے ریفریجریٹر کی زینت بنا رہتا ہے اور سٹوریج بھی ایسی کہ مہینوں تو استعمال ہو جاتا ہے مگر کسی ضرورت مند اور غرباء افراد کی ایک دن کے کھانے کی زینت نہیں بن پاتا، میں اس بات سے ہرگز بھی انکاری نہیں کہ قربانی کا گوشت پورے کا پورا گھر میں رکھا جا سکتا ہے مگر سنت رسول کو زندہ رکھنا پیٹ کو پالنے سے زیادہ اہم ہے.

میرے نبی کریم نے سونے سے لے کر جاگنےتک ہر چیز کا طریقہ کار عملاً پیش کیا تاکہ حقوقِ اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی بھی ادائیگی ہو جائے. سنت کے مطابق قربانی کے تین حصے ہیں:ایک رشتہ داروں کا، ایک غرباء و مساکین اور ایک گھر والوں کا…. اس لیے قربانی اللہ کے لیے کرے. پیغمبر ابراہیم نے بیٹے کو قربان کر دیا اللہ کے ایک حکم پر وہ بھی اپنی پیاری چیز اپنی اولاد نرینہ. عید قربان قربانی کے لیے ہیں اس لیے وہ لوگ جو قربانی کی استطاعت نہیں رکھتے وہ سب سے پیاری اپنی چیز کو قربان کرے اور وہ ہے “انا اور ضد” … سب سے پہلے تو ہم اس انا اور ضدمیں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر جانور کی خریدوفروخت کرتے ہیں حالاں کہ دین اسلام میں نمائش کی گنجائش نہیں ہے.

اس صورت حال میں قربانی قربانی نہیں رہتی اور نہ ہی نیکی کا ذریعہ. جب کہ جانور کے خون میں ڈوبا ایک ایک بال نیکی وثواب کا وسیلہ ہے.دوسری صورت اپنے ہی مسلمان بھائیوں سے عداوت ہے. یہ عداوت “میں” کے ٹیڑھے میڑھے پل سے پار دور تک پہنچ جاتی ہے کہ “میں” کی تسکین کے لیے ہر اچھا برا راستہ منتخب کر لیا جاتا ہے. انا اور ضد سے ہی ہر گناہ کی ابتدا ہوتی ہے کیوں کہ “انا” جھکنے نہیں دیتی اور “ضد” ہارنے نہیں دیتی. اسی ہار جیت کے سفر میں ہم دوسروں کے جذبات کو روندھتے چلے جاتے ہیں. اللہ کو سب سے زیادہ من پسند چیز کی قربانی پسند ہے..

اسی انا اور ضدکی بدولت ہم دوسروں کا برا سوچتے ہیں – آگے نکلنے کی چاہ میں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو اکارت کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے..قتل و غارت محض اپنے سٹیٹس، پوزیشن کے واسطے اپنی انا کی تسکین کی خاطر.ضدمیں، جھوٹی شان وشوکت کی خواہش میں گھر کی چار ریواری کو اس قدر اونچا کرتے ہیں کہ وہ ہمسائے جن کے حقوق کی ادائیگی کی خاطر نبی کریم کو وراثت میں حصہ داری کا شبہ ہونے لگا تھا.. جن کے حقوق کی پکڑ بہت سخت ہیں ان کی تازہ ہوا چھین لیتے ہیں..

اگر ان اونچی دیواروں کو گرانے کا حوصلہ ہم میں نہیں تو کم از کم دل سے نفرت کی دیوار کو گرا دینا ہی کافی ہےکیوں کہ بے شک اللہ پاک دل کی نیت کو کافی سمجھتے ہیں. اس مقدس مہینے میں حج کی ادائیگی کے لیے بھی قربانی کی شرط عائد ہے، طواف کعبہ کرنے والے دل کو صاف کرتے ہیں کیوں کہ اللہ دل کے کینہ کی صفائی کے بغیر نہیں ملتا اور دل کا کینہ اپنی “میں” مارے بغیر نہیں صاف ہوتا.

اس لیے آئے اللہ کو جانور کی قربانی کے ساتھ ساتھ، انسانوں کے ساتھ بھلائی سے بھی راضی کرے، نبی کی سنت کو زندہ کرے کیوں کہ حقوق اللہ کی ادائیگی میں تو معَافی کی گنجائش ہے مگر حقوق العباد کی قطعاً نہیں.اس لیے آئیے اس عید پر ایک دوسرے کے لیے، اپنی انا کوقربان کر کے نہ صرف اس سے معاشرے میں امن اور بھائی چارے کو فروغ ملے گا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اللہ بھی راضی ہو گا اور جب اللہ راضی تو دنیاو آخرت میں کامیابی ہی کامیابی ہے۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged , , , ,
50270

لاسپور میں ایک اور طالبہ کی مبینہ خودکشی

لاسپور میں ایک اور طالبہ کی مبینہ خودکشی

اپر چترال ( نمائندہ چترال ٹائمز ) اپر چترال کے علاقہ لاسپور میں ایک اور جوانسال لڑکی مبینہ طور پر خود پر بندوق سے فائرکرکے خودکشی کی ہے ۔ تاہم مقامی پولیس لڑکی کی لاش کو بعرض پوسٹمارٹم بونی ہسپتال روانہ کرکے انکوائری کررہی ہے آیا واقعہ خودکشی ہے یا کوئی اور وجہ ۔
لڑکی کی شناخت مسماۃ صنم بی بی دختر مایون سے ہوئی ہے جس کی عمر تقریبا 19 برس ہے ۔ جو سیکنڈ ائیرکی طالبہ تھی اور چترال میں زیر تعلیم تھی ۔بعض ذرائع کے مطابق لڑکی کی منگنی ہوچکی تھی ۔

ایک مہینے کے اندر چترال میں خودکشی کا یہ نواں افسوسناک واقعہ ہے ۔

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , , ,
50272

داد بیداد – کیفر کردار کہاں واقع ہے؟ – ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

اسلام اباد میں ایک بار پھر ایک خا تون کی ابرو ریزی ہو ئی حکومت نے ایک بار پھر کہہ دیا کہ مجرموں کو کیفر کر دار تک پہنچا یا جا ئے گا حکومتیں ہر گھنا ونی واردات کے بعد دعویٰ کر تی ہیں کہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچا یا جا ئے گا لیکن ہم نے نہیں دیکھا کہ کسی مجرم کو کیفر کر دار تک پہنچا یا گیا ہو ہمارے دوست شاہ جی عمر کے لحا ظ سے 70کے یبیٹے میں ہیں ایک دنیا دیکھی ہے گرم و سرد چشیدہ بھی ہیں گر گ باراں دیدہ بھی مگر بھو لے اتنے ہیں کہ ان کو کیفر کر دار کا محل وقو ع اور جعرا فیہ معلو م نہیں رات بھر ی محفل میں پو چھ رہے تھے

مجھے بتا ؤ یہ کیفر کردار نا می جگہ کہاں واقع ہے مجرم کو وہاں پہنچا نے کے لئے جہاز چا ہئیے، ریل کا ٹکٹ چا ہئیے یا عام بس اور فلا ئنگ کو چ کے ذریعے بھی مجرم کو کیفر کردار تک لے جا یا جا سکتا ہے؟ اگر حکو متوں کے پا س ٹکٹ کے پیسے نہیں ہیں وہاں تک جا نے کے لئے کوئی ٹرانسپورٹ نہیں ملتی یا فلمی گیت کی رو سے ”نہ گاڑی ہے نہ گھوڑا ہے وہاں پیدل ہی جا نا ہے“ تو پھر حکومتیں یہ اعلا ن کیوں کر تی ہیں کہ مجر م کو کیفر کردار تک پہنچا یا جا ئے گا؟ اس جگہ کا بار بار نا م لینے سے حکو متوں پر عوام کا اعتما د اُٹھ جا تا ہے عوام حکومتوں کی باتوں کا یقین ہی نہیں کر تے اور یہ کسی بھی حکومت کا بہت بڑا نقصان ہے تفنن بر طرف یہ طنزو مزاج نہیں بلکہ حقیقیت ہے کہ کیفر کردار کا نا م سن، سن کر ہمارے کا ن پک گئے ہیں

کسی مجر م کو کیفر کردار تک پہنچتے نہیں دیکھا بعض اوقات گماں ہو تا ہے کہ کیفر کردار بھی آب حیات یا ہمااور ققنس نا می پر ندوں کی طرح خیا لی جگہ ہو گی جسے کسی نے نہیں دیکھا حقیقیت یہ ہے کہ کیفر کردار کا لفظ دو فارسی الفاظ کا مر کب ہے کیفر کے معنی انجام اور کر دار کے معنی کر توت اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت مجرم کو اس کے کر توت کا انجام دکھا ئے گی یعنی قانون کے مطا بق سزا ئے موت دے کر عبرت کا نشان بنا ئیگی یہ تر کیب ایران، توران اور قدیم ہندوستان کے باد شا ہوں کی تر کیب ہے اُ س زما نے میں مجر م کو چند دنوں کی رسمی کاروائی کے بعد پھا نسی دی جا تی تھی اس عمل کو ”کیفر کردار تک پہنچا نا“ کہتے ہیں

یعنی مجرم اپنے کر توت کے انجا م کو پہنچ گیا اگر غور کیا جا ئے تو کیفر کردار دور نہیں وہاں تک کسی کو پہنچا نے کے لئے ہوائی جہاز یا ریل کی بھی ضرورت نہیں حکومت اور کیفر کردار کے درمیاں قانون کی مو شگا فیاں حا ئل ہو چکی ہیں مثلا ً مجرم نے اندھیری رات کو کسی کے گھر پر حملہ کیا 4افراد کو قتل کیا اور موقع واردات پر اسلحہ کے ساتھ پکڑا گیا پو لیس کے سامنے اپنے جرم کا اقرار کیا،

مجسٹریٹ کے سامنے بھی اقرار کیا باد شاہوں کے زما نے میں اس کو 4بار پھا نسی دی جا تی تھی اس کی جا ئداد ضبط کر کے مقتو لوں کے ورثا کو دی جا تی تھی یہ کیفر کر دار تھا اب مجرموں کا دفاعی وکیل آجا تا ہے وہ پو لیس کی گوا ہی کو نہیں ما نتا، مقتو لین کے ور ثا کی گوا ہی اس کی نظر میں قا بل قبول نہیں ڈاکٹر کی رپورٹ کو معتبر نہیں ما نا جا تا دفا عی وکیل استعاثہ کے مقدمے کو مشکوک قرار دیتا ہے اور شک کا فائدہ انگریز کے قانون میں بھی ملزم کو دیا جا تا ہے شر عی قوانین میں بھی شک کا فائدہ ملزم کو دینا جا ئز ہے چنا نچہ شک کا فائدہ دے کر ملزم کو بر ی کیا جاتا ہے

کیفر کر دار نظروں سے اوجھل ہو تا ہے ملزم با ہر آکر دو چار ایسی وار دا تیں اور بھی کر لیتا ہے 16دسمبر 2014کے روز آر می پبلک سکول پشاور کا ہو لنا ک واقعہ پیش آیا تو حکومت اور حزب اختلا ف نے مل کر فو جی عدا لتوں کا قا نون منظور کر وا یا اس قانون کے تحت فو جی عدا لتیں قائم ہو ئیں 20سال پرا نے واقعات کی فائلیں بھی فو جی عدالتوں کو بھیجی گئیں 2015کے دوران سزا ئے موت پر عملدرآمد شروع ہوا تو لو گوں نے سکھ کا سانس لیا 1994اور 1996میں کسی گئی وارداتوں کے مجرموں کو بھی اس دوران کیفر کر دار تک پہنچا یا گیا یہ ایک اچھا تجربہ تھا اس قانون کا دائرہ اثر محدود تھا اس کی مدت ختم ہونے کے بعد کیفر کردار ایک بار پھر سینکڑو ں سالوں کی مسافت پر چلا گیا ہے مجرموں کو کیفر کر دار تک پہنچا نے کے لئے ایک بارپھر غیر معمو لی حا لات کے مطا بق خصو صی قوا نین لا نے پڑینگے ورنہ کیفر کر دار کسی کو نظر نہیں آئے گا سب پو چھتے پھرینگے کیفر کر دار کہاں واقع ہے؟

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , , ,
50225

ہر خودکشی کرنیوالے کا ایک قاتل ہوتا ہے! – گل عدن

ہمیشہ کہا جاتا ہے کہ ہر خودکشی کرنے والے کا کوئی قاتل بھی ہوتا ہے ۔مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے اور میں نے اپنی محدود سمجھ کے مطابق اس قتل کے ذمہ داروں کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔لیکن یاد رہے کہ یہ میری رائے ہے ایک فرد واحد کی حثیت سے۔قارئین کا مجھ سے اتفاق رائے رکھنا ضروری نہیں ۔


اب ہم اپنے موضوع کیطرف آتے ہیں ۔اس جرم کے حصہ داروں میں پہلا نام والدین کا آتا ہے ۔میں والدین کو قاتل تو نہیں کہتی مگر جو والدین اپنی اولاد میں تفرقہ کرکے انہیں ذہنی امراض میں دھکیل دیتے ہیں’جو اپنی اولاد کو حلال اور حرام میں ‘سہی اور غلط میں تمیز نہیں سکھا پاتے’ جو اولاد کے معصوم ذہنوں میں رشتے داروں کے خلاف زہر بھرتے ہیں ‘جو اولاد کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے ہیں’جو اپنے بچوں کی صحبت پر نظر نہیں رکتھے اور اونچ نیچ ہونے کی صورت میں اپنی اولاد کی غلطیوں کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھرا کر اپنی اولاد کو ہمیشہ ہر جرم سے بری الزمہ کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ایسے والدین کو میں خودکشیوں کا ذمہ دار سمجھتی ہوں۔ یاد رہے اولاد کی حق میں والدین کا بہترین عطیہ انکی اچھی تعلیم و تربیت ہے۔

یہاں آپ شاید مجھ سے اتفاق کریں گے کہ خودکشی کرنے والے کہ ذہن میں بہت سی وجوہات کے علاوہ ایک مقصد کسی مخصوص فرد یا کچھ مخصوص رشتوں کو دنیا کے سامنے اپنی موت کا ذمہ دار دکھانا ہوتا ہے یا کسی کو اسکے برے سلوک کا احساس دلانا یا اپنی ہر بایعنی ضد کو ثابت کرنا ہوتا ہے ۔اب آپ مجھے بتایئں کیا ایسی سوچ ایکدم سے دماغ میں آتی ہے ؟؟نہیں !!یہ سوچ ہمارے اندر بچپن سے پروان چرھتی آرہی ہے ۔جب گھر میں بیٹے کی سگریٹ پینے کی شکایت موصول ہوتی ہے یا سکول سے بچوں کی نالائقی کی شکایت آتی ہے تو کیسے ہماری مائیں ہر چیز کا ذمہ ہمارے دوستوں پر ڈال دیتی ہیں۔ہمارے ذہن میں یہ بات ڈالی جاتی ہے کہ ہم جب جب کچھ غلط کریں گے تو اسکا قصوروار ہم سے زیادہ ہمارے دوست ہونگے۔ ۔

بس ایسا دیکھتے دیکتھے ہم اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں کے جاتے جاتے اپنی موت کی ذمہ داری بھی کسی کے سر پر ڈالنا چاہتے ہیں۔کیونکہ اپنا کیا دھرا دوسروں کے سر پر ڈالنے کی ہماری گندی عادت پختہ ہو چکی ہوتی ہے ۔ 2:خودکشی کرنے والے کا دوسرا قاتل “گھر کا ماحول ” ہے ۔ایک کہاوت ہے کہ ایک گندی مچلی پورے تالاب کو گندہ کر دیتی ہے ۔گھر میں اگر ایک شخص بخیل ہے تو علاقے میں کنجوس گھرانہ آپکا تعارف بن جاتا ہے ۔ گھر میں ایک فرد اگر پیشانی پر بل ڈال کر مہمانوں سے ملتا ہے تو باقی تمام اہل خانہ کی مہمان نوازی خاک میں مل جاتی ہے ۔

گھر کا ماحول بنانے میں تو سبھی گھر والوں کا ہاتھ ہوتا ہے مگر بنے بنائے ماحول کو بگاڑنے کے لئے ایک فرد کافی ہوتا ہے ۔اس اک فرد کو جسے آپ کسی بھی طرح خوش یا مطمئن نہیں کر پارہے ہیں ۔ جو آپکی نہ خوشی دیکھتا ہے نا غم۔جو چاہتا ہے کہ پورا گھر بس اسکے مسائل میں الجھا رہے ۔اور جسکی پریشانیاں مسائل بیماریاں کسی صورت ختم نہیں ہورہیں اس شخص کو ذہنی امراض کے ماہرین سے ملوانے کی ضروت ہے ۔مسئلہ یہ ہے کہ ایسے لوگ خود کو ذہنی مریض کھبی تسلیم نہیں کرتے۔اور کسی صورت اپنی علاج پر راضی نہیں ہوتے۔لیکن ایک ذہنی مریض کو جانتے بوجھتے اسکے حال پر چھوڑ دینا اسے قتل کرنے کے برابر ہے۔بلکہ ایک فرد کا دماغی علاج نہ کرنا پورے گھر کو اپنے ہاتھوں سے پاگل خانہ بنا دینے کے مترادف ہے ۔

یاد رہے ذہنی اذیت جسمانی اذیت سے کہیں زیادہ تکلیف دہ اور قابل رحم ہوتے ہیں ۔یہ بھی حقیقت ہے کے ہر کوئی ماہر نفسیات تک رسائی نہیں رکھتا ہے لیکن اگر آپکے گھر کا کوئی فرد ڈپریشن کا شکار ہے تو آپ اسکے ساتھ ہمدردی کا رویہ رکھیں۔اپنے ذہنی طور پر صحت مند ہونے کا ثبوت دیں اور اسے ” پاگل” کے خطاب سے نہ نوازیں۔ 3خودکشی کرنے والے کا تیسرا اور سب سے بنیادی ذمہ دار (قاتل ) خودکشی کرنے والا خود ہوتا ہے۔ ۔باوجود اسکے کہ ہمیں اچھے والدین نہیں ملے۔ ۔باوجود اسکے کے ہمیں بدترین خاندان ملا ۔بہت برے رشتہ دار ملے۔باوجوداسکے کے کسی کو ہم سے ہمدردی نہیں ‘محبت نہیں ۔ ہمیں کچھ بھی حسب منشا نہیں ملا ۔ ۔

باوجود اسکے کے ہمیں ہر قدم پر ناکامی کا سامنا کرنا پرتا ہے ۔کوئی ہمارا ساتھ نہیں دیتا۔باوجود اسکے کے کہ ہم بہت بدصورت ہیں ۔غریب ہیں ۔مصائب کا سامنا ہے ۔ہار گئے ہیں ۔ازیت میں ہیں ۔کوئی چھوڑ کر جا چکا ہے کسی کو چھوڑنا پڑ رہا ہے ۔اس سب کے باوجود کوئی وجہ اس قابل نہیں ہے جو “خودکشی” کے لئے “کافی”ہو جائے۔ بڑی سے بڑی وجہ اور بڑی سے بڑی مصیبت بھی “زندگی “جیسے قیمتی تحفے کو جو اللہ رب العزت کی ذات نے ہمیں عطاء کی ہے’ کو ٹھکرانے کے آگے چھوٹی پر جاتی ہے ۔ جب خالق کی ذات اتنی مہربان ہوسکتی ہے کہ ہماری گناہوں سے تر زندگی کو ایک اشک ندامت پر معاف فرمادے تو ہم کون ہوتے ہیں خود کو یا دوسروں کو سزا دینے والے۔اور یہ کہاں لکھا ہے کہ زندہ رہنے کے لئے ہر میدان میں کامیاب ہونا شرط ہے ؟

کس نے کہا کے دنیا صرف خوبصورت لوگوں کے لئے ہے ؟یا اہم ہونا زندگی کی شرط ہے ؟ کس نے آپ سے کہا ہے کہ اچھی زندگی کہ لئے خاص ہونا’امیر ہونا’پسند کی زندگی گزارنا شرط ہے ؟ یہاں تو پھول بھی کانٹوں کے بغیر نہیں اگتے پھر آپکو کیوں نہیں دکھتا کہ ہر شخص باوجود خوبصورت ہونے کے’ کامیاب ہونے کے ‘ بے تحاشہ دولت مند ہونے کے پریشانیوں اور مشکلات کا شکار ہے ۔آپکو محبوب نہ ملنے کا غم ہے اور کچھ لوگ محبوب کو پاکر غمگین ہیں ۔کوئی ہار کر غمزدہ ہے کسی کو جیت مزہ نہیں دے رہی ہے۔امیر غریب پہ رشک کھا رہا ہے ۔غریب امیر کو دیکھ کے آہیں بھرتا ہے۔ آپ کسی کے بارے میں بھی یقین سے نہیں کہ سکتے کہ وہ اپنی زندگی سے سو فیصد خوش یا مطمئن ہے زرا سوچیں آپکی آنکھوں پ بندھی پٹی محبت کی ہے یا کم عقلی کی۔خودترسی سے جتنی جلدی ہوسکے باہر آجائیں۔ضرورت یہ جاننے کی ہے کہ اگر دنیا کے سارے لوگ مصائب کا تو شکار ہیں مگر سارے لوگ تو خودکشی نہیں کر رہے ہیں ۔

کیوں؟ کیونکہ سارے لوگ بزدل اور بے وقوف نہیں ہیں۔ کیونکہ پسند کی شادی نہ ہونا’افسر نہ بننا ہر دلعزیز نہ ہونا اتنا بڑا نقصان نہیں ہے کہ آپ اپنی موت کو ہی گلے لگالیں۔مجھے ان لوگوں پر بھی حیرت ہوتی ہے جو خواہش رکھتے ہیں کہ کاش وقت انہیں کچھ سال پیچھے لے جائے تاکے ان سے جو غلطیاں ہوئیں ہیں وہ ان سے بچ نکلیں۔آپ دس سال پیچھے جا کر غلطی سدھار آئیں لیکن اس بات کی کیا گاڑنٹی ہے آپ دس سال بعد یا موجودہ وقت میں کوئی غلطی نہیں کررہے ہیں ؟؟ جبکہ انسان تو خطاء کا پتلا ہے ۔غلطیوں کو سدھارنا یہ ہے کہ آپ اپنی غلطی کو غلطی تسلیم کرلیں۔اس سے سبق حاصل کریں۔اور انہیں بار بار دہرا کر اپنی عادت نہ بنائیں۔


اور پسند کی شادی نہ ہونا محبوب کا آپکو چھوڑ دینا یا اپنی والدین کی خوشی کی خاطر اپنی خوشی سے دستبردار ہونا کوئی اتنی بڑی قیامت نہیں ہے کہ جسکے بعد آپکی زندہ رہنے کی وجہ ختم ہوجائے۔مثال کے طور پر جب کوئی مرجاتا ہے تو اسکے اپنے کس دل سے اسے منوں مٹی تلے دفنا کر اپنے گھر اور دنیا کیطرف لوٹ آتے ہیں۔اس میں یہی ایک سبق ہے ہماری زندگی کی تمام معاملات کو لیکر ۔جسطرح مرنے والے کے ساتھ مرا نہیں جاتا۔اگر آپ اپنے ہی جان چھرکنے والے ماں باپ کو بہن بیٹی بھائی یا کسی بھی عزیز کو مٹی کے حوالے کرکے واپس دنیا کی طرف لوٹ سکتے ہیں کھا پی سکتے ہیں ہنس بول سکتے ہیں تو اسکا مطلب ہے کہ ایسے ہی آپ کسی بھی خواہش خوشی اور فرد کے بغیر زندہ اور خوش باش رہ سکتے ہیں۔

دنیا کی کوئی بھی چیز رشتے اور تعلق آپکی زندگی کی ضمانت نہیں ہیں بلکہ صرف آپکی آزمائش ہیں۔اور ہاں ایک بات اور آپکو کیوں لگتا ہے کہ خوش رہنا ہی زندگی ہے سچ تو یہ ہے کہ اپنے غموں محرومیوں اور ناکامیوں کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کا نام ہی زندگی ہے اور یہ سب ایسے ممکن ہو سکتا ہے کہ کہ ہر معاملے کو رب کی رضا جان کر اس میں راضی رہ کرصرف صبر اورشکر سے ہماری زندگیاں آسان ہوسکتی ہیں ۔ اللہ ہمارا مدد گار ہو۔آمین
پرھنے اور سمجھنے والوں کا بے حد شکریہ

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged , , , , ,
50204

سی ڈی ایم کے زیراہتمام 17جولائی کو منعقد ہونے والی سیمینار ملتوی کردیا گیا

سی ڈی ایم کے زیراہتمام 17جولائی کو منعقد ہونے والی سیمینار ملتوی کردیا گیا

چترال ( نمائندہ چترال ٹائمز ) چترال ڈویلپمنٹ مومنٹ ( سی ڈی ایم ) کی طرف سے یہ اعلان کیاگیا ہے کہ چترال کے سڑکوں کے حوالے سے 17جولائی 2021 کو منعقد ھونے والی ا یک روزہ سیمینار کی تاریخ عید الاضحی کے نہایت قریب ہونےکی وجہ سے ملتوی کردیا گیا ہے ۔ پریس ریلیز میں کہا گیاہے کہ تاریخ عید کے قریب ہونے کی وجہ سے سیاسی نمائندگان کے ساتھ سرکاری افسران کی حاضری ممکن نہ ہوسکی۔ لہذا سی ڈی ایم ایگزیکٹیو کمیٹی ممبران کی مشاورت کے بعد نئے تاریخ کا اعلان بعد میں کیا جائےگا۔

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , , , , ,
50171

کالاش ویلی میں بھی موبائل اور انٹرنیٹ کی ناقص سروس سے اسٹوڈنٹس کے ساتھ سیاح بھی بری طرح متاثر

کالاش ویلی رمبور میں بھی موبائل اور انٹرنیٹ کی ناقص سروس سے طلباو طالبات کے ساتھ سیاح بھی بری طرح متاثر


چترال ( نمایندہ چترال ٹائمز ) کالاش ویلی رمبور کے عوامی حلقوں نے موبائل اور انٹر نیٹ کی خراب اور ناقص کارکردگی کی بنا پر احتجاج کیا ہے ۔ اور جلد از جلد اس میں موجود نقائص دور کرنے اور کارکردگی بہتر بنانے کا مطالبہ کیا ہے ۔ تاکہ مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ آن لائن کلاسین لینے والے طلباء و طالبات ذہنی اذیت سے نجات حاصل کر سکیں ۔ علاقے کے لوگوں اور طلباء کی نمایندگی کرتے ہوئے مقامی سوشل ایکٹی وسٹ فتح اللہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ۔ کہ کالاش ویلی رمبور کے لوگ موبائل و انٹرنیٹ سروس شروع ہونے پر خوشی کا اظہار کیا تھا ۔ کہ جدید سہولیات کی وجہ سے انہیں اپنے عزیزوں ، رشتےداروں سے بات کرنے اور انٹر نیٹ کے ذریعے اپنی جملہ ضروریات گھر بیٹھے حاصل کرنے میں مدد ملے گی ۔ خصوصا طلباء و طالبات کویڈ 19 کے باعث آن لائن کلاسین لینے کے قابل ہوں گے ۔ جو کہ ابتدائی طور پر تو بہتر رہا ۔ لیکن گذشتہ کچھ عرصے سے لوگوں کی توقعات کو بری طرح زک پہچا ہے ۔

صبح سویرے اور سہ پہر کے بعد موبائل پر کسی سے بات ہوتی ہے اور نہ انٹر نیٹ کی سہولیات حاصل کرنا ممکن ہے ۔ اس لئے علاقے کے تمام لوگ شدید ذہنی اذیت سے دوچار ہیں ۔ جبکہ طلبہ کی تعلیم تو بری طرح متاثر ہوئی ہے ۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے ۔ کہ ٹاور میں سولر سسٹم کی کارکردگی کمزور ہو چکی ہے ۔ اور جنریٹر کے استعمال کےلئے جو (فیول ) تیل پہلے لایا جا رہا تھا ۔ اب نہیں لایا جا رہا ۔ جس کی وجہ سے ٹاور کیلئے پاور کا مسئلہ ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ فی الحال رمبور وادی میں انٹر نیٹ کی سہولت تین کلومیٹر سے بھی کم ایریے میں انتہائی ناقص حالت موجود ہے ۔ جس سے وادی کے لوگ ، سیاح اور طلبہ جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ حاصل کرنے سے یکثر محروم ہو چکے ہیں ۔ انہوں نے حکومت اور ضلعی انتظامیہ چترال سے پر زور مطالبہ کیا ۔ کہ متعلقہ کمپنی کو موبائل اور انٹر نیٹ سروس دینے کا پابند بنایا جائے ۔ اور فوری طور پر سروس میں موجود خامیاں دور کی جائیں ۔ بصورت دیگر رمبور وادی کے لوگ متعلقہ کمپنی کے خلاف احتجاج کرنے پر مجبور ہوں گے ۔

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , , , , ,
50168

چترال کے قیمتی معدنیات پر قبضہ کر نے کی امریکن سازش.(تحریر عبد اللہ)

چترال کے قیمتی معدنیات پر قبضہ کر نے کی امریکن سازش.(تحریر عبد اللہ)

حکو مت ایک طر ف 74 سا لو ں میں پہلی مر تبہ قیمتی پتھر و ں اور معدنیا ت کے شعبے کو بر آمد ی صنعت بنا نے کا دعو یٰ کر رہی ہے اور اس سلسلے میں جیمز اینڈ جیو لری ٹا سک فورس کا قیا م عمل میں لا کر منر ل سٹی کے قیا م کیلئے کو شاں ہے اور سا تھ سا تھ اپنے منظور نظر ”’ سر ما یہ کا ر وں ” (کا روبا ری پار ٹنر ز) کو نوا زنے اور مرا عا ت اور آسا نیا ں فرا ہم کر نے کیلئے جا مع منصو بہ بند ی بھی کر رہی ہے۔


جیم اینڈز جیو لر ی کو صنعت کا درجہ دینا اور جیمز اینڈ جیو لری ٹا سکفورس کا قیا م اور منر ل سٹی کیلئے کو شش خو ش آئند ہیں۔ پا کستا ن میں قیمتی پھترو ں کی بر آمد کے حوا لے سے 5 ارب ڈا لر سا لا نہ کے مو جو دہ صلا حیت سے ملکی معیشت پر مثبت اثرا ت بھی مر تب ہو سکتے ہیں۔اور لا کھو ں لو گو ں کے روزگار کے موا قع بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ پا کستان میں اس وقت 99 قسم کے قیمتی پھرو ں کے ذخا ئر مو جو د ہیں جنمیں سے اکثر یت گلگت، بلتستا ن کے علا وہ KP کے مختلف اضلا ع اور خصو صا ً چترال میں ہیں۔
محکمہ معد نیا ت نے گز شتہ کئی سا لو ں سے چترال کے معد نیا ت کو پند رہ 15 بلا کس میں تقسیم کر کے رینررو رکھا ہو ا تھا ان بلا کس کو ختم کر کے مقا می سر ما یہ کا رو ں کو لیز پہ یہ جگہیں فرا ہم کر نے کیلئے چترال کے عوا م گز شتہ کئی سا لو ں سے مختلف فورمز پہ کو ششیں کر تے آئے ہیں گز شتہ ما ہ جو ن کے آخری ہفتے میں چترال کے ان بلا کس کو ختم کر کے لیز پہ دینے کا فیصلہ کیا گیا اور یکم جو لا ئی کو آن لا ئن اپلا ئی کر نے کی سہو لت بحا ل کی گئی حکو متی اس اقدا م کو چترا ل کے عوا م نے بہت سرا ہا چترا ل کے عوا م اور مقا می سر ما یہ کا راس خو شی میں تھے کہ بلا کس کے خا تمے کے بعد وہ اپنے من پسند علا قو ں میں ان لا ئن لیز کیلئے اپلا ئی کر سکیں گے۔ لیکن ان کی امیدو ں پر یکم اور 2 جو لائی کو اس وقت پا نی پھر گیا کہ جب وہ امیر کین کمپنیو ں کو قیمتی پتھر وں کے 597 مر بع کلو میٹر یعنی 147,615 ایکڑ (550,604 چکو رم)کے چار بلا کس اسی طر ح الا ٹ کئے گئے جس طر ح سے وہ پہلے بلا ک بنے ہو ئے تھے اور یہ الا ٹ منٹ ما رچ 2021 میں شو کی گئی ہے حالا نکہ سر کا ری طور پر یکم جو لا ئی 2021 کو لیز open کئے گئے تھے۔2 جو لا ئی کو منظور نظر لو گو ں کے من پسند جگہو ں کے اپلا ئی کر نے کے فور ا ً بعد ہی زیا دہ تر Potential Areas کو ائیر یا زر یز رو فار آکشن کے نا م پر دوبار ہ ریز رو کر کے بند کر دیا گیا۔ تا کہ کو ئی مقا می سر ما یہ کار اپلا ئی نہ کر سکے۔ اب رہ جا نے وا لے غیر ضر وری جگہو ں میں چترال کے مقا می سر ما یہ کار کو ئی کا م کی جگہ تلا ش کر نے میں مگن ہیں۔ گو یا یہ کا م سو ئی سے پہا ڑ کھو د نے کے مترا دف ہے۔


دوسرے اطلا عا ت کے مطا بق 597 مر بع کلو میٹر کا ائیر یا امر یکن کمپنیو ں کو الا ٹ کر نے کے بعد با قی مند ہ بلا ک ائیر یا ز کو اوپن کر کے انہی دو امر یکن کپمنیو ں کو اگلے ہفتے دلوا نے کیلئے ان کمپنیو ں کے (دلا ل صا حبا ن) ما ئننگ ڈا ئر یکٹو ریٹ میں ” مک مکا ” میں مصرو ف ہیں اور اگلے ہفتے با قی مند ہ سینکڑو ں مر بع کلو میٹر میں پھیلے ہو ئے معد نیا ت کے ائیر ئے انہی کمپنیو ں کو دینا متو قع ہے۔


لیز پہ جو نئے ائیر یا ز امیر یکن کمپنو ں کو الا ٹ کئے گئے ہیں وہ افعا نستا ن کے صو بہ بد خشا ن، وا خا ن، نو رستا ن اور کنڑ سے ملحقہ علا قے ہیں ان علا قو ں کے با رڈرز پر حفا ظتی با ڑ لگا نے کا عمل ابھی مکمل نہیں ہوا۔ تشویش نا ک با ت یہ ہے کہ امر یکن افوا ج کے افعا نستا سے انخلا ء اور پا کستان کی طر ف سے اڈے نہ دینے اور فضا ئی Space بھی استعما ل نہ کر نے دینے کے جر اٗ ت مند انہ فیصلے کے فور اً بعد ہی 597 مر بع کلو میٹر قیمتی معدنیا ت سے ما لا ما ل علا قہ لیز کے نا م پہ دینا اور مزید 800 مر بع کلو میٹر کے لگ بھک کا ائیر یا لیز پر دینے کی تیا ری کیا معنی رکھتی ہے نیز انہی کمپنیوں کے نمائند ہ گان کی طرف سے کوراغ کے مقام پر چار سو چکورم زمین کی خرید اور دیگر علاقوں میں زمین مہنگے داموں خریدنے کی کوششیں کہیں چترال کے اندر اسرائیل بنانے کی کوشش تو نہیں؟کیا یہ چترال کے پر امن ماحول کو خراب کرنے کی سازش تو نہیں؟امریکہ نے افغانستان میں فوجیں اتار کر افغانستان کے معدنیات کو لوٹا اب امریکن کمپنیز چترال میں بھی ایسے کریں گی؟ئی امریکن کمپنیاں ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح اپنے دلالوں کی کمپنی بھی بنا کر ان کے ذریعے چترال کے معدنیات اور چترال کے مستقبل کا سودا کرتے رہیں گے؟کیا ہمارے حساس ادارے اسی طرح خاموش تماشائی بنے دیکھتے رہیں گے؟ کیا چترال کے سادہ لوح عوام کو ان کے حقوق سے اسی طرح محروم رکھا جاتا رہے گا؟ کیا چترال کے عوام کی شرافت کا اسی طرح ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا رہے گا؟

خیبر پختونخواہ کے دیگر اضلاع میں پہاڑ اور معدنیات اس علاقے کے لوگوں کی ملکیت تصور کئے جاتے ہیں اور ان کی مرضی کے بغیر کوئی پتھر کا ایک تکڑا بھی نہیں اٹھا سکتا لیز پہ چگہ لے کر کام کرنا تو دور کی بات۔دیگر بڑی کمپنیز کو اتنے بڑے ایریاز لیز پہ دینے کا چترال اور چترال کی عوام کو کیا فائدہ؟پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں چترال میں فریال تالپور گروپ کو ایک بڑے ایریا لیز پہ دیا گیا سنٹرل ایکسچینج مائننگ لمٹیڈ کو 328مربع کلو میٹر کا ایریا گولین سے دامیل تک الاٹ کیا گیا ہے اسی طرح ٹنی پاک منرلز پرائیوٹ لمٹیڈ کو چترال کا سب سے بڑا لیز 823مربع کلو میٹر الاٹ کیا گیا۔ان دو کمپنیز نے گزشتہ کئی سالوں سے یہ جگے لیز پہ لی ہوئی ہیں لیکن کوئی کام نہیں ہو رہا۔ مقامی سرمایہ کار اگر ان کے لیز کردہ ایریے میں کوئی جگہ لینا چاہے تو وہ NOCکے نام پر ان سے 30سے 40لاکھ روپے طلب کئے جاتے ہیں۔مائینوں پہ کام کر نے کے لئے بیرونی کمپنیز لوکل لیبر کی بجائے جدید مشینری کے ذریعے کام کو ترجیح دیتی ہیں تاکہ قیمتی معدنیات سے مقامی آبادی کو دور رکھا جا سکے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جن کمپنیز کو لیز الاٹ ہوچکے ہیں ان میں لوگوں کے ذاتی جائیداد،مکانات،زمینات سمیت چترال گول نیشنل پارک کا ایریا بھی لیز ایریا میں شامل کیا گیاہے۔ حکومت لینڈ سٹیلمنٹ کے نام پہ چترال کی 97%اراضٰی ویسے بھی بحق سرکار ضبط کر چکی ہے اور اب رہی سہی کسر بھی لیز کے نام پر پوری کی جاری ہے۔


ضرورت اس امر کی ہے کہ چترال کے جعرافیا ئی اہمیت کے پیش نظر امریکن کمپنیز اور انڈین یادیش یادیو کے پارٹنر کی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھی جائے اور چترال کے حساس علاقوں میں ان کے لیزوں کو گرانٹ ہونے سے پہلے کینسل کروایا جائے بصورت دیگر بیرونی سرمایہ کاروں کے روپ میں ملک دشمن انٹیلی جنس اداروں کے ارکان اپنے ذاتی Chartered طیاروں میں چترال پہنچ کہ اپنے پنجے گاڑھ لیں گے اور معدنیات کی Exploration، Extractionاور Processingکے نام پر مشینریز چترال پہنچا کر افغانستان سے ملحقہ ان علاقوں میں نصب کردیں گے جہاں سے وہ باآسانی چترال میں بیٹھ کر افغانستان،چائنہ اور دیگر پڑوسی وسطی ایشیائی ریاستوں پر اپنی نظر رکھ سکیں گے اور بوقت ضرورت ڈرون کے ذریعے کاروائی بھی کر سکیں گے اور ایسا کرنے سے چترال میں امن و امان کے خرابی کی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔


حکمرانوں سے چترالی عوام کی دردمندانہ اپیل یہ ہے کہ بیشک ان امریکن اور انڈین کمپنیز کے مالکان نے الیکشن کے دوران آپ کو سپورٹ کیا ہو گا لیکن اس کا بدلہ پاکستان اور چترال کی سلامتی کو داو پر لگا کر نہیں چکا یا نہیں جا سکتا۔چترال کے عوام اپنے حقوق کے تحفظ اور اپنے علاقے کی سلامتی کے لئے اپنے بہادر افواج اور حساس اداروں کے شانہ بشانہ کھڑی رہے گی اور اس قسم کے سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرے گی اور یہ


لیز کینسل نہ ہونے کی صورت میں اس معاملے کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی۔

American mining lease chitral 1
American mining lease chitral 7
American mining lease chitral 6
American mining lease chitral 5
American mining lease chitral 4
American mining lease chitral 2
American mining lease chitral 3
Minieral registration kp
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , , , , ,
50141

کریم آباد لوٹکوہ میں تین سگی بہنیں دریا شغور میں ڈوب کر جان بحق

کریم آباد لوٹکوہ میں تین سگی بہنیں دریا شغور میں ڈوب کر جان بحق

کریم آباد ( نمائندہ چترال ٹائمز ) چترال لوئر کے علاقہ وادی کریم آباد کے نواحی گاؤں گالح میں تین سگی بہنیں کارپٹ دھوتے ہوئے دریائے شغور میں ڈوپ کر جان بحق ہو گئے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق فوزیہ میر،مسکان میراور اریشین میر دختران میررحمت سکنہ کالح کریم آباد جمعہ کے روز دریائے شغور کے کنارے کارپٹ دھو رہے تھے کہ ان میں ایک بہن پھسل کر دریا میں ڈوب گئی ہے جس کو بچانے کی کوشش میں دیگر دو بہنیں بھی دریا کے بے رحم موجوں کے نذر ہوگئے ہیں ۔تاہم مقامی پولیس واقعے کی انکوائری کررہی ہے۔آیا کہ واقعہ حادثہ ہے یا کوئی اور وجہ ۔۔؟

تینوں کی لاشیں دریا سے برآمد کر کے آبائی گاؤں درونیل کریم آباد پہنچایا گیا۔ ذرایع کے مطابق فوزیہ میر عمر 24 سال سوات میں نرسنگ کررہی تھی۔اوراخری امتحان دیکر چھٹی پر گھر آئی تھیں۔ مسکان میرعمر 14چھٹی اور اریشین 13 سال پانچویں کی طالبہ تھیں۔


ایک ہی گھر میں ایک ساتھ تین بچیوں کی اموات پر علاقے میں کہرام مچ گیا ہے اور ہر ایک انکھ اشکبار ہے ۔

درایں اثنا وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کے معاون خصوصی وزیر زادہ نے اس واقعے پر گہری دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ ایک اخباری بیان میں انہوں نے غمزدہ خاندان سے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ رنج کی ان لمحات میں صوبائی حکومت ان کے غم میں شامل ہے۔

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , , , ,
50126

ایم این اے مولانا چترالی نے چترال کے مختلف مقامات پر 5کروڑ 22لاکھ روپے کے منصوبوں کا افتتاح کردیا

ایم این اے مولانا چترالی نے چترال کے مختلف مقامات پر 5کروڑ 22لاکھ روپے کے منصوبوں کا افتتاح کردیا

چترال(نمائدہ چترال ٹائمز ) چترال سے قومی اسمبلی کے رکن مولانا عبدالاکبر چترالی نے اپنی صوابدیدی ترقیاتی فنڈ سے چترال اور دروش کے چھ مختلف مقامات پر 5کروڑ 22لاکھ روپے کی لاگت سے سڑکوں کی پختگی کے کاموں کا افتتاح کیا جنہیں پاک پی ڈبلیو ڈی کے نگرانی تعمیر کئے جارہے ہیں۔ جماعت اسلامی ضلع لویر چترال کے جنرل سیکرٹری وجیہہ الدین نے ایک اخباری بیان میں روڈ کمیونیکیشن سیکٹر میں ترقیاتی کاموں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہاکہ 69,92000روپے دنین روڈ، 83لاکھ 95ہزار خورکشاندہ، 99لاکھ سنگور روڈ، 68لاکھ 33ہزار روپے جنجریت روڈ، ایک کروڑ69لاکھ روپے سے تین کلومیٹر ایون اٹانی روڈاور بروز گولدور کو ایک کروڑ 31لاکھ روپے سے پختہ کئے جائیں گے۔

انہوں نے کہاہے کہ ان سڑکوں کی حالت انتہائی مخدوش ہوگئی تھی جن کی تکمیل کے بعد ان کی پختگی یا تو سرے سے نہیں ہوئی تھی یا پختہ سڑک اکھڑ کر کھنڈر کا منظر پیش کررہے تھے جبکہ مولانا چترالی کے ان منصوبوں سے یہ مسئلہ حل ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ بروز یونین کونسل میں بجلی کی ترسیل کا مسئلہ بھی ایک گھمبیر صورت اختیار کرگئی تھی اور اپنی صوابدیدی فنڈ سے یہ مسئلہ بھی حل کردی ہے۔انہوں نے کہاکہ مولانا چترالی نے اسمبلی کے فلور پر بھی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرکے عوام کی صحیح ترجمانی کا حق ادا کررہے ہیں اور ترقیاتی فنڈ سے علاقے کے دیرینہ حل طلب مسائل کی تعداد میں کمی لانے میں مصروف ہیں۔

chitraltimes mna abdul akbar chitrali projects inaguration4
chitraltimes mna abdul akbar chitrali projects inaguration3
chitraltimes mna abdul akbar chitrali projects inaguration

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , , ,
50114

داد بیداد۔۔۔۔۔۔استعفیٰ کی دھمکی۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

داد بیداد

سند ھ اسمبلی میں حزب اختلاف کے رکن فردوس شمیم نقوی نے اسمبلی رکنیت سے استعفیٰ دیتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے 3سالوں میں حلقے کے اندر کوئی کام نہیں کیا یہی حا لت رہی تو اگلے دو سا لوں میں بھی حلقے کے عوام کی کوئی خد مت نہیں کر سکوں گا اس لئے میرا یہ استعفیٰ منظور کیا جا ئے میں وہ اما نت حلقے کے عوام کو واپس کر تا ہوں جو حلقے کے عوام نے 2018ء میں مجھے سونپ دیا تھا آئینی ما ہرین کے مطا بق ایک ممبر کا استعفیٰ دینا اتنا سادہ معا ملہ نہیں.

سر دست اسمبلی کا سپیکر اس پیش کش کو دھمکی تصور کر کے ممبر کو اپنے چیمبر بلا ئے گا اُس کی معروضا ت کو سنے گا اور اس کو استعفیٰ واپس لینے پر اما دہ کرنے کی حتی المقدور کو شش کرے گا اس کے بعد اگر ممبر نہ ما نے تو اس کا استعفیٰ الیکشن کمیشن کو بھیج دیا جا ئے گا پھر اس کی نشست خا لی ہو جا ئیگی اس کے بعد ضمنی انتخا بات کے ذریعے نیا ممبر اس کی جگہ لے سکیگا فردوس شمیم نقوی نے ایک پتہ پھینک دیا ہے اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے وقت آنے پر پتہ لگے گا سر دست اس خبر سے دو باتیں کھل کر سامنے آتی ہیں پہلی بات یہ ہے کہ اسمبلیوں کے اندر اور سر کارسسٹم میں ممبران اسمبلی کو خو شگوار فضا میسر نہیں ہے.

اراکین اسمبلی کی معقول تعداد اپنی کار کر دگی سے مطمئن نہیں ہے دوسری بات یہ ہے کہ اراکین اسمبلی جن حلقوں سے منتخب ہو کر آئے تھے ان حلقوں کے ووٹر بھی اپنے نما ئیندوں کی کار کر دگی سے مطمئن نہیں ہیں گو یا آگ ہے دونوں طرف برابر لگی ہوئی فردوس شمیم نقوی کا تعلق حزب اختلاف سے ہے حزب اقتدار میں بھی ایسے ارا کین اسمبلی مو جو د ہیں جو بار بار اسمبلی کے فلور پر اپنی بے اطمینا نی کا اظہار کر تے نظر آتے ہیں پشاور سے رکن اسمبلی نو ر عا لم خا ن ایڈو کیٹ اور اٹک سے رکن اسمبلی میجر طاہر صادق کی مثا لیں سامنے ہیں پنجا ب اسمبلی اور بلو چستان اسمبلی میں بھی ایسے ارا کین مو جو د ہو نگے خیبر پختونخوا کی اسمبلی میں بھی ایسے ممبروں کی کمی نہیں ہو گی.

وجہ یہ ہے کہ ارا کین اسمبلی کا کر دار متعین نہیں ان کے حقوق اور فرائض متعین نہیں حلقے کے عوام کی تو قعات کچھ اور ہیں، حکومت کی تر جیحا ت کچھ اور ہیں رکن اسمبلی چکی کے دو پاٹوں میں انا ج کے دا نے کی طرح پھنس جا تا ہے اور اس کی اچھی خا صی پسائی ہو جا تی ہے مقننہ کی کتاب میں رکن اسمبلی کا جو کر دار اجا گر کیا گیا ہے وہ قا نون سازی کے حوالے سے ہے بجٹ کی منظوری بھی قا نون سازی میں شا مل ہے حلقے میں سڑ کوں کی مر مت، پلو ں کی تعمیر اور درجہ چہا رم کے ملا زمین کی بھر تی یا افسروں کی تبدیلی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہو نا چا ہئیے حلقے کے عوام کو الیکشن کے دنوں میں جو کچھ بتا یا گیا تھا وہ یہ ہے کہ اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کے بعد ان کا نما ئیند ہ سڑ کیں بنا ئے گا، نا لیاں بنا ئے گا، نلکے لگا ئے گا .

بجلی بھی لا ئے گا، گیس بھی لا کر دے گا اپنی مر ضی کے افیسر لگا ئے گا تھوک کے حساب سے لو گوں کو نئی ملا زمتیں فراہم کرے گا تین سال بعد وعدوں اور طفل تسلیوں کا یہ ہار اس کے گلے پڑ جا تا ہے وزیر اعظم عمران خا ن نے 22سال محنت کر کے عوام کو قائل کیا تھا کہ سڑ کیں بنا نا، نلکے لگا نا، بجلی اور گیس لے کر آنا، نا لیاں بنانا ویلچ کو نسل کا کام ہے مقا می حکومت کی ذمہ دار ی ہے رکن اسمبلی کا ان کا موں سے کوئی تعلق نہیں ہو گا.

اسمبلی کا ممبر قانون سازی کا ذمہ دار ہو گا پھر پبلک کے پر زور اصرار پر آدھے سے زیا دہ اراکین اسمبلی کو دس دس کروڑ روپے کے تر قیا تی فنڈ دے دیئے گئے، مقا می حکومتوں کو ختم کر دیا گیا چنا نچہ عوام کی تو قعات آسما نوں کو چھو نے لگیں اراکین اسمبلی کو شدید عوامی دباؤ کا سامنا کر نا پڑا فردوس شمیم نقوی کا استعفیٰ ایسے ہی حالات میں خبروں کی زینت بن گیا ہے شا ہ جی کہتے ہیں کہ استعفیٰ دینے کا خیال بُرا نہیں بقیہ دو سال کسی اور کو مو قع ملنا چا ہئیے ہمارا خیا ل یہ ہے کہ دال میں کچھ نہ کچھ کا لا ضرور ہے اگر رکن اسمبلی مطمئن نہیں اگر حلقے کے عوام مطمئن نہیں تو پورے سسٹم پر سوال اٹھتا ہے ہمیں اس سوال کا جواب چا ہئیے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , ,
49893

وادی اویر…..جانے کس جرم کی پائی ہے سزا…….تحریر: ظہیر الدین

Posted on

فوٹوز:عزیز
چترال کی ضلعی ہیڈ کوارٹرز سے ڈیڑھ گھنٹے بونی روڈ پر ڈرائیوکے بعد ایک خستہ حال پل سے گزر کر اویر گاؤں میں داخل ہونے کے بعد ساغر صدیقی یہ شعر گنگناتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اہالیان اویر سے آخر کون سا جرم سرزد ہوا ہے جس کی بناپر سزائے مسلسل کاٹ رہے ہیں اور اکیسویں صدی عیسوی میں بھی وہ بنیادی سہولیات سے یکسر محروم ہیں۔ سڑک کے نام پر سرکس کا کھیل ‘موت کاکنواں’موجود ہیں اور تریچمیر کی چوٹی سے بلند عزم رکھنے والے اس کے باسی ابھی تک شکوے کے الفاظ اپنی لبوں میں نہیں لائے اور ہر لمحہ جان بکف ان پگڈنڈیوں پر سفر کرتے ہیں، علاج معالجے کے لئے ہسپتال کی عمارت کھنڈر میں بدل گئی ہے، خصوصا خواتین کی بڑی تعداد بچوں کی پیدائش کے دوران طبی امداد نہ ملنے اور دشوار گزار راستوں سے چترال کے ہسپتالوں تک پہنچانے سے پہلے ہی سے ہلاک ہو جاتی ہیں مگر صبر وشکر کے یہ خوگر کبھی بھی نازیبا الفاظ لبوں پر نہیں لائے،بارہ ہزار کی آبادی میں بچیوں کے لئے ایک بھی سکول نہیں،زندگی کی وہ کونسی سہولت ہے جو اس الگ تھلگ وادی میں رہنے والوں کو میسر ہیں۔ روز محشر میں اکیسویں صدی کی اویر کے لئے میں اپنے رب کے ہاں گواہی دوں گا کہ تو نے جس کو حکومت دے دی تھی ، انہوں نے ترے ان کم امیز اور دل اویز بندوں کے لئے کچھ نہیں کیاتھاجبکہ اپنے لئے کھربوں روپے مالیت کے اورینج لائن سے لے کر میٹرو بس تک بنائے تھے۔
چترال پریس کلب نے اس علاقے کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لئے جب پریس فورم منعقد کرنے یہاں پہنچ گئے تو مسائل کا تریچمیر سامنے موجود پایا تو یہاں کے رہنے والوں پر ٹوٹ ٹوٹ کر ترس آیا ۔ سابق یونین ناظم اور اس وقت لوکل سپورٹ آرگنائزیشن کے چیرمین اسلام اکبر الدین کو گاؤں کے شروع میں اپنا منتظر پایا جس کے حکم پر ہم ریری پائین میں اپنے بھائیوں سے ملے جن کی نمائندگی کرتے ہوئے محی الدین نے کہاکہ چھنی روڈ کی تعمیر کی وجہ سے ملبہ مسلسل نالے میں گرجانے وجہ سے یہ علاقہ سیلاب کے خطرے میں ہے ۔ انہوں نے چھنی کے لئے ایریگیشن چینل کی تعمیر، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے ابنوشی کے منصوبے کی درستگی کا بھی مطالبہ کیا جس میں غیر ضروری دیہات کو شامل کئے جارہے ہیں جوکہ اس میں شامل ہی نہ تھے۔ ریری بالا میں بھی عوام کا ایک اجتماع ہمار امنتظر تھا ۔ چترال سکاوٹس کے ریٹائرڈ صوبیدار مطیع الرحمن نے کہا کہ ریری ایک زر خیز گاؤں ہے ۔ لیکن زیر زمین پانی کی وجہ سے گاؤں مسلسل سلائڈنگ کا شکار ہو رہا ہے ۔ اور علاقے کی تما م آبادی غیر محفوظ ہو چکی ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ اس سلسلے میں ایک این جی او نے سروے بھی کیا ہے ۔ جس کے تحت اگر اس پانی کیلئے مناسب انتظام کیا جائے ۔ تو علاقے کو بچایا جا سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ زیر زمیں پانی کے منبع کو دریافت کر لیا گیا ہے ۔ لیکن حکومتی سطح پر اس پر کام کئے بغیر مقامی لوگوں کے بس کی بات نہیں ، انہوں نے مطالبہ کیا ۔ کہ پانی کو زیر زمین جانے سے روک کر اگر زمین کے اوپر لایا جائے ۔ تو گاؤں میں پانی کی کمی بھی پوری ہو گی ۔ اور سلائڈنگ سے بھی گاؤں کو مستقل نجات مل جائے گی ۔ انہوں نے دون ائریگیشن چینل پر دوبارہ کام شروع کرنے کا مطالبہ کیا ۔ جس پر 75لاکھ روپے خرچ روپے پہلے خرچ ہو چکے ہیں ۔
بروم کے مقام پرپریس فورم میں اسلام اکبر الدین کے علاوہ سبحان الدین، ناصر علی شاہ، امیر خان، نذیر خان ، یحیٰ علی خان، حیات الرحمن،پختون غازی ایڈوکیٹ، حیدر علی خان، شمس الرحمن، عبدالمجید المعروف جان اور دوسروں نے مسائل بیان کیا ۔ انہوں نے ڈی سی کی طرف سے اویر کے مقام پر کھلی کچہری منعقد نہ کرنے پر افسوس کا اظہار کیاجبکہ دوسرے کئی علاقوں میں اس کا انعقاد ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ اویر اپنی قدرتی حسن اور جعرافیائی محل وقوع کی وجہ سے سیاحت کا گڑ ھ بن سکتا ہے جس کے لئے سڑک کا ہونا اولین شرط ہے ۔ شاہ برونز میں ڈسپنسری کی قابل رحم حالت زار کی طرف بھی توجہ دلائی گئی جبکہ70 لاکھ روپے کی لاگت سے پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کی واٹر سپلائی اسکیم کے بارے میں بھی شکایات سامنے آئے ۔ اسی طرح شاہ برونز کے سیل پوائنٹ میں گندم کی عدم دستیابی کا بھی ذکر ہوا۔ بروم میں ہائر سیکنڈری سکول کا گراونڈ 2015ء میں سیلاب برد ہونے کے بعد آدھے حصے سے محروم ہے اور نالے کے پانی کو پرانی جگہ divertکرکے اسے بحال کیا جاسکتا ہے۔ بروم سے آگے دیہات کی طرف جاتے ہوئے بیغ گاؤں کے مقام پر جیپ ایپل کی انتہائی خستہ حالی کا بھی نظارہ ہوئے جس کے شہتیر ٹوٹ چکے ہیں اور لوڈ بردار گاڑی کے نیچے کسی بھی وقت گرنے کا خدشہ موجود ہے۔ شاہ برونز میں قائم ڈسپنسری دکان کے ایک چھوٹے کمرے میں قائم ہے جبکہ دوسرے کمرے کا چھت گرگئی ہے۔
سطح سمندر سے 9500فٹ بلند شونگوش کے مقام پر پریس فورم کا چوتھا سیشن منعقد ہوا جس میں قاری لطیف اللہ ، حضرت عمر، ماسٹر نظام الدین، مولانا صاحب الدین، سردار الرحمن، حبیب الدین، حجیب الدین ، حبیب الاسلام اور دوسروں نے مسائل کا ذکر کیا۔ اس مقام پر اسلام اکبر الدین نے وادی کی زبون حالی کا ذکر مختصر الفاظ میں کرتے ہوئے کہاکہ دنیا میں وہ مصیبت، تکلیف اور مسئلہ جوکہ اویر میں نہیں ہے اور وہ سہولت ابھی تک پیدا نہیں ہوا جوکہ اویر میں بھی دستیاب ہے۔ اس موقع پر بی ایچ یو کے عمارت کی طرف توجہ دلائی گئی جوکہ 2015ء کے زلزلے میں زمین بوس ہوگئی ہے اور اب کھنڈر میں بدل گئی ہے اور ڈاکٹر نام سے اس وادی کے لوگ آشنا نہیں ہوئے اور اس ہسپتال کو صرف ایک میڈیکل ٹیکنیشن چلارہے ہیں۔ انہوں نے ہسپتال کے لئے ایمبولنس کی فراہمی کا مطالبہ کیا تاکہ شدید مریض یا زخمی کو چترال ہسپتال پہنچایا جاسکے۔ گورنمنٹ ہائی سکول شونگوش کا مڈل پورشن بلڈنگ زلزلے سے منہدم ہے جن کی بحالی کے لئے کوئی قدم اب تک محکمہ ایجوکیشن نے نہیں اٹھائی۔ انہوں نے موژین گاؤں میں بھی پبلک ہیلتھ انجینئنرنگ کے واٹر سپلائی اسکیم کے ناقص ہونے کی شکایت کی۔ پختوری گاؤں کے لئے 22ہزار فٹ طویل سائفن ایریگیشن اسکیم کا بھی مطالبہ سامنے آیا۔ اسی طرح علاقے میں ایل ایچ ڈبلیو کی کمی کو بھی پوراکرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ پاپولیشن ویلفیر سنٹر قائم ہونے کے باوجود یہاں اسٹاف کی مسلسل غیر حاضری کی شکایت بھی سامنے آئی۔ اسی طرح شونگوش اور پختوری گاؤں میں دو پلوں کی تعمیر اور ایک نئے مقام پر پل کی تعمیر کا مطالبہ کیا گیا۔
اویر کے چاروں مقامات پر جن مسائل پر سب سے ذیادہ زور دئیے گئے ، ان میں زنانہ ہائی سکول کا قیام، سڑک کی تعمیر، وادی کی مرکزی مقام پر ایک بیسک ہیلتھ یونٹ کا قیام، محکمہ خوراک کے گودام میں گندم کااسٹاک موجود نہ ہونا ، اویر وادی میں وٹرنری ڈسپنسری کاقیام ، محکمہ زراعت کے فیلڈ اسسٹنٹ کے دفترکا قیام، ٹیلی نار موبل فون سروس کو بہتر بنانا کے لئے اس کے ایک ٹاؤر کو چالو کرنا شامل تھے۔ چاروں مقامات پر علاقے کی مجموعی صورت حال کا خاکہ پیش کرتے ہوئے کہاگیاکہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک علاقہ اویر حکومت کی نظروں سے اوجھل رہا ہے ۔ اور کوئی بھی سرکاری ذمہ دار آفیسر علاقے کے مسائل کا جائزہ لینے تاحال اویر نہیں آیا ۔ جس کی وجہ سے اویر وادی پوری دُنیا میں پسماندگی اور دور افتادگی کی مثال پیش کر رہا ہے ۔ اور اس تمام پسماندگی کی بنیادی وجہ خستہ حال اور پُر خطر سڑکیں ہیں ۔ جنہیں بار بار مطالبات کے باوجود بہتر بنانے پر توجہ نہیں دی جاتی ۔ انہوں نے کہا کہ عوامی نمایندگان اس علاقے سے ووٹ حاصل کرتے ہیں ۔ اور پھر مُڑ کر بھی اس کی طرف نہیں دیکھتے ۔ اور حکومتی آفیسران کی سرد مہری اس پر مزید کام کرتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سڑکوں کی خراب حالت سے عیاں ہے ، کہ چترال شہر سے اویر کے بالائی دیہات تک 70کلومیٹر کے فاصلے پر 300سے 500روپے فی کس کرایہ وصول کیا جاتا ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ علاقے میں خشک سالی کی وجہ سے فصلیں مکمل طور پر خراب ہوئی ہیں ۔ اس کے باوجود محکمہ فوڈ کی طرف سے گندم کی مختلف سیل پوائنٹ پر فراہمی تاحال نہیں ہوئی ۔ جبکہ سردیاں سر پر ہیں ۔ اور بارش و برفباری کے بعد گندم کی ترسیل ممکن نہیں ہو گی ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ یہ افسوس کا مقام ہے کہ پوری اویر وادی میں ایک بھی گرلز ہائی سکول نہیں ہے ۔ جبکہ مرادنہ ہائی سکول اور ہائر سکینڈری سکول میں طالبات کی تعداد طلباء سے زیادہ ہے ۔ اور لڑکیاں مخلوط تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں ۔ جبکہ مذہبی پہلوسے بھی مخلوط تعلیم مناسب نہیں ہے ۔ انہوں نے اویر میں بچیوں کیلئے ہائی سکول کی تعمیر کا مطالبہ کیا ۔ انہوں نے تریچ اویر روڈ اور چار پُلوں کی تعمیر کو سی پیک سے نکالنے اور این ایچ اے کی عدم دلچسپی پر انتہائی تشویش کا اظہار کیا ۔
Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 1

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 2

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 3

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 4

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 6

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 7

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 8

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 9

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 10

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 11
Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 12

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 13

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 14

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 15

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 16

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 17

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 18

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 19

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 20

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 21

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 22

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 23

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 24

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 25

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 26

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 27

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 28

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 29

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 30

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 31

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 32

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 33

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 34

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 35

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 36

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 37

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 38

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 39

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 40

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 41

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 42

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 43

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 44

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 45

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 46

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 47

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 48

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 49

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 50

Barum owir lot owir shongosh chitral press forum 51

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستان, مضامینTagged , , , , , , , , , , , ,
15192

ایس آر ایس پی کے زیر اہتمام ڈسٹرکٹ ایجوکیشن فورم کا اجلاس

Posted on

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز ) سرحد رورل سپورٹ پروگرام کے پراجیکٹ ٹیک اے چائلڈ ٹو سکول (TACS ) کے زیر اہتمام منعقدہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن فورم میں اس بات پر زور دیا گیا کہ سکول میں داخلے سے رہنے والے بچوں کو سکولوں میں داخل کرنے اور اس کے نتیجے میں علاقے سے ناخواندگی کا مکمل خاتمہ کرنے کا کام صرف محکمہ تعلیم کا نہیں بلکہ اس میں سول سوسائٹی کا کردار بھی اہم ہے اور اس پراجیکٹ نے اس سلسلے میں نہایت ہی منفرد ، سائنسی اور نتیجہ خیز انداز میں کا م شروع کیا ہے جس کے ثمرات بہت جلد ہی سامنے آئیں گے۔ جمعرات کے روز مقامی ہوٹل میں منعقد ہ اس تقریب میں ایس آر ایس پی کے ڈی پی ایم طارق احمد ، TACS کے پراجیکٹ کوارڈینیٹر رحمت ولی شاہ ، ڈپٹی ڈی ای او (مردانہ ) حافظ نور اللہ، ڈی ای او فیمل حلیمہ بی بی اور پراجیکٹ کے تحت کام کرنے والے مختلف دیہات سے آئے ہوئے محلہ کمیٹیوں کے عہدیداران اور ایلمبیسڈر کے نام سے رضا کاروں نے کثیر تعدا د میں شرکت کی۔ اس موقع پر طار ق احمد نے اپنے خطاب میں کہاکہ ایس آر ایس پی نے 2002ء میں چترال میں قیام کے بعد سے ایجوکیشن کے سیکٹر میں مختلف انداز میں کام کرتا رہا ہے جن میں انفراسٹرکچروں کی تعمیر، بحالی اور بہتری کے علاوہ معیار تعلیم میں اضافے کے لئے مختلف اقدامات اور موجودہ پراجیکٹ میں ان بچوں کو سکول میں داخل کرنے میں ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی معاونت ہے جوکہ کسی وجہ سے داخلے سے محروم رہ گئے ہیں جن کو مالی امداد بھی فراہم کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ارندو اور دمیل میں بھی ایس آر ایس پی اس وقت اپنے پاترپ نامی پراجیکٹ کے ذریعے سکولوں کی عمارتوں کی بہتری میں مصروف ہے جبکہ ضلعے کے مختلف تین ہائر سیکنڈری سکولوں میں بھی معیار کی بہتری کا کام جاری ہے۔ اس سے قبل پراجیکٹ کوارڈینیٹر رحمت ولی شاہ نے کہا کہ پہلے مرحلے میں سات یونین کونسلوں چرون، لوٹ کوہ، ایون، چترال ون ، چترال ٹو، دروش ون اور دروش ٹو کو اس پراجیکٹ میں لئے گئے ہیں اور بتدریج دوسرے یونین کونسلوں تک اسے بڑہادیا جائے گا ۔ا نہوں نے کہاکہ اس پراجیکٹ میں محلہ کمیٹی تشکیل دئیے جاتے ہیں اور ایلمبسیڈر کے نام سے رضا کار وں کی ٹیم تیار کی جاتی ہے جوکہ سکول سے آؤٹ بچوں اور بچیوں کا ڈیٹا تیار کرتے ہیں اور محلہ کمیٹی اپنے اپنے علاقے میں سکولوں میں بچوں کو داخل کرنے کے ساتھ ساتھ سکول کی کارکردگی کی بہتری میں بھی مدد دیتے ہیں۔ اس موقع پر محلہ کمیٹی بریر کے چیرمین شمس الربی ، بروزمحلہ کمیٹی کے رحمت ولی اور اورغوچ کے گوہر خان نے شرکاء کے ساتھ اپنی اپنی کارکردگی اور ان کے نتائج شئر کئے اور ساتھ ساتھ سکولوں کے مسائل بھی بیان کئے۔ حافظ نوراللہ نے اپنے خطاب میں کہاکہ ماہرین تعلیم نے تعلیم کی بہتری میں انفراسٹرکچر کو بہت ہی اہمیت دی ہے اور یہ بات خوش آئند ہے کہ ایس آر ایس پی نے ضلعے میں مختلف پراجیکٹوں کے ذریعے اس فیلڈ میں قابل قدر کام کیا ہے جوکہ اب بھی جاری ہے اور یہ بات بھی مسلم ہے کہ اکیلے حکومت کے لئے یہ کام بہت ہی مشکل ہے۔ انہوں نے اس پراجیکٹ کو انرولمنٹ کی بہتری کے سلسلے میں انتہائی اہمیت کے حامل قرار دیتے ہوئے ایلمبسیڈروں پر زور دیا کہ وہ اسے ایک چیلنج سمجھ کر انجام دیں اور اپنے علاقے سے جہالت کو مٹادیں۔ ڈی ای او فیمل حلیمہ بی بی نے کہاکہ ویلج کمیٹیوں کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ ان کی وجہ سے سرکاری سکولوں کے بارے میں مستند معلومات کاحصول ممکن ہوگیا ہے جن کی بنیاد پر بہتری کے لئے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔ انہوں نے اورغوچ میں زنانہ سکول میں ابنوشی کے منصوبے کے واسطے ایڈیشنل گرانٹ کا بھی اعلان کیا۔

srsp tacs project education forum chitral 2

srsp tacs project education forum chitral 3

srsp tacs project education forum chitral 4

srsp tacs project education forum chitral 6

srsp tacs project education forum chitral 7

srsp tacs project education forum chitral 1

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , , , , , , , , , ,
14950

معروف عالم دین قاری فیض اللہ چترالی کی طرف سے پوزیشن ہولڈراسٹوڈنٹس میں وظائف اورایوارڈ تقسیم

Posted on

چترال (نمائندہچترال ٹائمز ) چترال کے معروف علمی شخصیت اور مدرسہ امام محمد کے مہتمم قاری فیض اللہ کی طرف سے میٹرک کے امتحان میں ضلع کی سطح پر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء وطالبات میں دو لاکھ روپے کے وظائف اور اقراء ایوارڈ تقسیم کئے گئے جوکہ 2003ء سے باقاعدگی سے دئیے جارہے ہیں۔گورنمنٹ ہائی سکول چترال میں منعقدہ تقریب میں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افیسر احسان الحق مہمان خصوصی تھے جبکہ سابق ایم پی اے مولانا عبدالرحمن نے صدارت کی۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں احسان الحق نے کہاکہ آج کی اس تقریب نے ثابت کردی ہے کہ علمائے کرام جدید تعلیم کے مخالف نہیں بلکہ اس کی سرپرستی میں سب سے آگے ہیں اور سائنس اور جدید علوم کی دشمنی کا اپنے اوپر لگے ہوئے لیبل کو انہوں نے ہٹادیا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ انحضور ﷺپر سب سے پہلی وحی میں بھی اقراء سے شروع ہوئی جس سے دین اسلام میں علم اور تعلیم کی اہمیت اور مرتبہ واضح ہوجاتی ہے۔ احسان الحق نے کہاکہ قاری فیض اللہ نے فراخدلی سے وظائف کا سلسلہ جاری کرکے طلباء وطالبات میں مسابقت کا جذبہ پیدا کردیا ہے ۔انہوں نے طلباء وطالبا ت پر زور دیتے ہوئے کہاکہ وہ اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں کیونکہ تبدیلی کا حکم خود قرآن پاک میں آیا ہے کہ جو اپنی حالت آپ نہ بدلے تو کوئی اس کی حالت بدلنے والا نہیں ہوگا۔ انہوں نے طلباء وطالبات پر زور دیا کہ وہ موبائل فون سمیت دوسرے جدید آلات کو مفید ، مثبت اور تعلیمی مقاصد کے لئے ہی استعمال کریں۔ اپنی صدارتی خطبے میں مولانا عبدالرحمن نے کہاکہ چترال میں کروڑ پتی بلکہ ارب پتی شخصیات بھی موجود ہیں لیکن اس نیک کام کا حصہ قاری فیض اللہ کے حصے میں آیا جس کے دل میں انسانیت کی فلاح کا درد موجود ہے اور وہ ضلعے کے کونے کونے میں جہاں بھی کسی کو آفات سماوی سے تکلیف لاحق ہوجائے تو وہاں امداد لے کر پہنچ جاتے ہیں اور اس کام میں شاہی مسجد کے خطیب مولانا خلیق الزمان بھی ان کے شانہ بشانہ ہیں اور داد کے مستحق ہیں۔ اس سے قبل گورنمنٹ کالج آف کامرس کے پرنسپل صاحب الدین ، گورنمنٹ ہائی سکول چترال کے پرنسپل کمال الدین ، معروف سماجی کارکن عنایت اللہ اسیر، بروز پبلک سکول کے پرنسپل سید ی خان اور معروف مذہبی و سماجی شخصیت قاری جمال عبد الناصر نے بھی خطاب کیا اور طلباء وطالبات کی حوصلہ افزائی کے لئے قاری فیض اللہ کی کوششوں کو سراہا۔ انہوں نے طلباء وطالبات پر زور دیاکہ کامیابی کے لئے راستہ صرف محنت کے کٹھن مرحلے سے ہوکر جاتا ہے اور آنے والا دور سخت مسابقت کا ہوگا۔ اس موقع پر وظائف حاصل کرنے والوں میں بروز پبلک سکول کے طالب علم فرجاد اویس (1028) اور گورنمنٹ ہائی سکول کشم کے شبیر الحسن 990)کو ) بالترتیب پرائیویٹ اور سرکاری سکولو ں میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے پر چالیس چالیس ہزار روپے ، فرنٹئر کور پبلک سکول کے ہمابتول دختر اسمارالدین منیجر(1019)اور گورنمنٹ ہائی سکول مڑپ کے عثمان الدین (973)کو تیس تیس ہزار روپے اور فرنٹیر کو ر پبلک سکول کے عندلیب یونس (1018)اور گورنمنٹ ہائی سکول تار شیشی کوہ کے سیف اللہ (966)کو بیس بیس ہزار روپے دئیے گئے۔ اس موقع پر کالاش کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لینا شراگلی کواپنی کمیونٹی کے طلباء و طالبات میں پہلی پوزیشن لینے پر دس ہزارر وپے کا انعام دیا گیا۔
qari faizullah award program
qari faizullah award program2

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged , , , , , , , , , , ,
14769

چترال کے قدیم درس گاہ گورنمنٹ سینٹینل ماڈل سکول چترال میں یوم والدین کی تقریب

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز) چترال کی قدیم ترین تعلیمی ادارہ گورنمنٹ سینٹینل ماڈل سکول چترال میں یوم والدین کی تقریب میں والدین پر زور دیا گیا کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیمی ترقی اور نگہداشت میں سکول انتظامیہ کے ساتھ مکمل تعاون کریں اور یہ بات ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ معیار تعلیم کو بڑہانے کا خواب والدین کے بغیر نا ممکن ہے ۔ پیر کے روزمنعقدہ تقریب کے مہمان خصوصی ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر چترال منہاس الدین تھے جبکہ ڈپٹی ڈی ای او (مردانہ) چترال حافظ نوراللہ نے صدارت کی ۔ تقریب سے سکول کے پرنسپل کمال الدین نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر مقرریں نے کہاکہ روزمرہ کی زندگی میں بچوں کا ذیادہ وقت والدین کے ساتھ گھرمیں گزرتا ہے اور سال کے 365میں سے صرف 185دن بچے سکول میں‌ ہوتے ہیں اس لئے والدین اور گھر کے دیگر افراد کا بچے کی شخصیت کی تعمیرپر گہرے نقش مرتب ہوتے ہیں اور غلط ماحول سے بچانے کی بنیادی ذمہ داری ان ہی پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ جہاں تعلیمی ادارہ، نصاب، استاذ معیاری تعلیم کے لئے لازمی جزو ہیں ، وہا ں والدین اور معاشرے کا کردار بھی شامل ہے۔ مقررین نے کہاکہ اس سکول نے نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں میں اعلیٰ تریں کارکردگی کے ذریعے ایک مقام پیدا کیا ہے جبکہ چترال کی وادی میں علم کی شعاعیں بھی اس ادارے کے ذریعے پہنچ گئے اور چترال کے ابتدائی دور کے سینکڑوں ڈاکٹر ،انجینئر، فوجی افسران اور سول سروس کے اعلیٰ افسران کے ساتھ ساتھ معروف بزنس مین بھی اس سکول سے فارع التحصیل ہیں۔ انھوں نے طلباء پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ بہتر تعلیم کے ساتھ اخلاقی اقدار کو بھی اپنا شعاربنائیں۔ اس موقع پر بہتری کارکردگی کا مظاہر ہ کرنے والے اساتذہ اور طلباء میں تعریفی اسناد اور شیلڈ بھی تقسیم کئے گئے۔ سکول کے طلباء نے اردو ، انگریزی تقاریر، ملی نعمے اور مختلف خاکے پیش کئے جسے زبردست سراہا گیا۔ تقریب سے پی ٹی آئی رہنما رحمت غازی ، محی الدین، مظفر الدین و دیگر اساتذہ نے بھی خطاب کیا۔ مقرریں نے چترال میں تعلیم کے سلسلے میں سابق مہتر چترال سر ناصر الملک کی کاوشوں کا شاندار الفاظ میں سراہا اور انھیں خراج تحسین پیش کیا۔
GCMS Chitral parents day 91

GCMS Chitral parents day 9124 1
GCMS Chitral parents day 91225
GCMS Chitral parents day 23

GCMS Chitral parents day 22

GCMS Chitral parents day 912
GCMS Chitral parents day 1

GCMS Chitral parents day 2

GCMS Chitral parents day 3

GCMS Chitral parents day 4

GCMS Chitral parents day 5

GCMS Chitral parents day 6

GCMS Chitral parents day 7

GCMS Chitral parents day 8

GCMS Chitral parents day 9

GCMS Chitral parents day 10

GCMS Chitral parents day 11

GCMS Chitral parents day 12

GCMS Chitral parents day 13

GCMS Chitral parents day 14

GCMS Chitral parents day 15

GCMS Chitral parents day 16

GCMS Chitral parents day 17

GCMS Chitral parents day 18

GCMS Chitral parents day 19

GCMS Chitral parents day 20

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , , , , , , , , , , ,
14563

چترال یونیورسٹی میں ڈیزاسٹر رسک ریڈکشن کے حوالے سے سیمینار

چترال ( نمایندہ چترال ٹائمز ) ڈپٹی کمشنر چترال خورشید عالم محسود نے کہا ہے ۔ کہ قدرتی آفات کے نقصانات میں کمی لانے اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے چترال پر پڑنے والے منفی اثرات سے متعلق معلومات کی فراہمی انتہائی اہمیت کی حامل ہیں ۔ اور اس حوالے سے ضلعی انتظامیہ اور متعلقہ اداروں کو باہم مل جل کر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ اور کلا ئمیٹ چینج ایسا موضوع ہے ۔ جس کے بارے میں جتنی بھی آگہی پھیلائی جائے کم ہے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کے روز چترال یونیورسٹی میں ڈیزاسٹر رسک ریڈکشن کے حوالے سے منعقدہ سمینار سے بطور مہمان خصوصی کرتے ہوئے کیا ۔ جس میں پراجیکٹ ڈائریکٹر چترال یو نیورسٹی پروفیسر بادشاہ منیر بخاری صدر محفل اور پریذیڈنٹ آغا خان لوکل کونسل محمد افضل اعزازی مہمان تھے ۔ ڈپٹی کمشنر نے کہا ۔ کہ قدرتی آفات کی وجوہات اور اس کے تدارک کے حوالے سے ماہرین کی تجاویز اور سفارشات پر عملدر آمد ضروری ہے ۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ وسائل کی کمی ہے ۔ اور کچھ لوگوں میں بھی آگہی کا فقدان ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ آفات سے متاثر ہونے کے باوجود دوبارہ اُسی جگہ عمارات تعمیر کرنے پر بضد ہوتے ہیں ۔ اور ہماری طرف سے اُنہیں منع کرنے پر وہ احتجاج پر اُتر آتے ہیں ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ مجھے تھر پارکر ، نواب شاہ صوابی اور چترال میں ملازمت کرنے کا موقع ملا ۔ اور میرے مشاہدے میں آیا کہ ہر جگہے میں آفات کی نوعیت مختلف ہے ۔ کہیں خشک سالی ، کہیں سیلاب ، کہیں ڈینگی اور کہیں زلزلے ، سیلاب اور برف کے تودے گرنے کے حادثات سے لوگ دوچار ہیں ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں ۔ کہ تعمیرات کے حوالے سے حکومت نے جو پالیسی بنائی ہے ۔ اُس پر عملدر آمد ہونی چاہیے ۔ پراجیکٹ ڈائریکٹر چترال یونیورسٹی پروفیسر بادشاہ منیر بُخاری نے کہا ۔ کہ چترال میں بعض ادارے ڈیزاسٹر کے حوالے سے بہت اچھا کام کر رہے ہیں ۔ جس میں فوکس ہیومنٹیرین اسسٹنس کو خصوصی اہمیت حاصل ہے ۔ فوکس نے ضلع بھر میں 372دیہات کی ہیزرٹ اینڈ رسک میپنگ کی ہے ۔ اگر فوکس اس کی اجازت دے تو چترال یونیورسٹی اس کو Validate کرکے فوکس کے ساتھ مل کر پبلش کرے گا ۔ انہوں نے اس کارکردگی پر فوکس کی تعریف کی ۔ پروفیسر بُخاری نے کہا ۔ کہ ڈیٹا جمع ہونے کے بعد ہمیں اُس سے آگے سوچنے کی ضرورت ہے ۔ اور عملی کام پر توجہ دینا چاہیے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ یہ افسوس کا مقام ہے ۔ کہ سرکاری املاک بھی ایسی جگہوں میں تعمیر کئے جاتے ہیں ۔ جو آفات کی زد میں ہوتے ہیں ۔ جن کی مثالیں ریشن ہائیڈل پاور پراجیکٹ اور گولین میں ایس آر ایس پی کی ہائیڈل پراجیکٹ کی صورت میں موجود ہیں ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ چترال میں ماحولیاتی آلودگی میں تشویشاناک اضافہ ہوا ہے ۔ خصوصا چترال شہر کے اندر نہری نظام بُری طرح متاثر ہوا ہے ۔ جن نہروں سے منہ لگا کر پانی پیتے تھے ۔ آج اُس پانی کو ہاتھ لگانے کیلئے بھی کوئی تیار نہیں ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ جنگلات کی کٹائی پر مکمل پابندی ہونی چاہیے ۔ تاکہ دوبارہ سے ماحول میں بہتری آ سکے ۔ قبل ازین آر پی ایم آغا خان ایجنسی فار ہیبٹاٹ محمد کرم نے خطاب کرتے ہوئے کہا ۔ کہ سمینار کا مقصد لوگوں میں قدرتی آفات کے نقصانات کے حوالے سے احساس پیدا کرنا ہے ۔ تاکہ ان کی روک تھام کے لئے اقدامات اُٹھائے جاسکیں ۔ چترال قدرتی آفات کی زد میں ہے ۔ اور گذشتہ دو دھائیوں سے یہاں آفات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ جبکہ مزید اضافے کے خدشات ہیں ۔ ہیڈ آف ایمرجنسی منیجمنٹ امیر محمد نے چترال میں فوکس کے قیام پر روشنی ڈالی اور کہا ۔ کہ چترال کے 136دیہات برف کے تودوں کی زد میں ہیں ۔ جن میں سے 33انتہائی طور پر خطرناک صورت حال سے دوچار ہیں ۔ جہاں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ چترال میں فوکس کی 51سرٹ ٹیموں کے 2200ٹرینڈ رضاکار آفات سے نمٹنے کیلئے تیار ہیں ، جن میں 50فیصد خواتین شامل ہیں ۔ 372دیہات میں سٹاک پائل موجود ہیں ۔ 2015کے سیلاب میں فوکس نے چترال میں 700شیلٹر تعمیر کئے ۔ممتاز سکالر اسلام الدین نے کلائمیٹ چینج کے حوالے سے چترال کو درپیش مشکلات پر روشنی ڈالی ۔ اور حالات کو انتہائی طور پر ناساز گار بتایا ۔ اور کہا ۔ کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے چترال میں پیدا ہونے والی فصلوں ، پھلوں اور اس کے نتیجے میں جانوروں و انسانوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں ۔ پانی کی قلت بڑھتی جارہی ہے ۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا ۔ تو پچاس سال بعد چترال کے لوگ بے آبی کی وجہ سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوں گے ۔ جنگلات ختم ہو رہے ہیں اور لوگ پلاسٹک بیگ اور دیگر کچرے جلانے کیلئے استعمال کر رہے ہیں ۔ جو کہ انسانی زندگی کیلئے انتہائی نقصان دہ ہیں ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ چترال میں اینوائرنمنٹ پروٹیکشن ایکٹ لاگو ہونا چاہیے ۔ تاکہ دریا ء کی گزرگاہوں میں جو لوگ عمارات تعمیر کر رہے ہیں اُنہیں روکا جا سکے ۔ انہوں نے چیک ڈیموں کی تعمیر ، تجاوزات کے خاتمے اور جنگلات کی کٹائی سائنسی بنیادوں پر کرنے پر زور دیا ۔ سمینار کی نظامت کے فرائض فوکس منیجر ولی محمد نے کی ۔ اور کہا ۔ کہ یہ سمینار 8اکتوبر 2005 کے زلزلے کی یاد تازہ کرنے ، اور آفات سے متعلق آگہی کیلئے منعقد کی گئی ہے ۔ سیمینار کے دوران شرکاء کی طرف سے مختلف سوالات کئے گئے ۔ جن کا مقررین نے جوابات دیے ۔ قبل ازین یونیورسٹی کے لان میں ڈسپلے شدہ قدرتی آفات کے موقع پر کام آنے سامان کی ڈپٹی کمشنر چترال نے وزٹ کی ۔ اور آگہی حاصل کی ۔

risk reduction seminar at chitral university 1

risk reduction seminar at chitral university 2

DC Khursheed Alam mahsood Chitral 1

PD Chitral Univeristy badsha munir2 

risk reduction seminar at chitral university 9risk reduction seminar at chitral university 8

 

risk reduction seminar at chitral university 10

 

 

 

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , , , , , , , , , , ,
14415

شکیل آفریدی سے عافیہ صدیقی تک…………! پیامبر…….قادر خان یوسف زئی

Posted on

ہمارے وزیر خارجہ اقوام متحدہ میں ایسا خطاب کر آئے جو اس سے پہلے کسی نے نہیں کیا۔ ایک اور کمال شاہ محمود قریشی نے کردیا اور یہ بھی عندیہ دیا کہ ’’شکیل آفریدی‘‘ کے معاملے پر بات کی جاسکتی ہے۔ وزیر خارجہ نے فرمایا، شکیل آفریدی کا فیصلہ سیاست نہیں عدالت کرے گی۔ یہ وہی نکتہ ہے، جس حوالے سے راقم اپنے کئی کالموں میں لکھتا رہا کہ خیبر پختونخوا میں سابق فاٹا کے ضم ہونے اور ایف سی آر قانون کالعدم ہونے کے بعد شکیل آفریدی کے لیے عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ میں اپیل کے دروازے کھل سکتے ہیں، ورنہ وزیر خارجہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ مملکت عدالتی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتی، عدلیہ ’’آزاد و خودمختار‘‘ ہے۔ لیکن ان کا یہ عندیہ دینا کہ شکیل آفریدی پر بات کی جاسکتی ہے تو اس کو زیادہ گھمانے کے بجائے دوٹوک انداز میں بھی کہا جاسکتا تھا کہ ’’دونوں ممالک کے درمیان مجرموں کے تبادلے کا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔‘‘ لیکن ایسا نہیں کہا گیا بلکہ معاملہ عدالت پر چھوڑ دیا گیا۔ بدقسمتی سے ڈاکٹر عافیہ کی امریکا میں سزا اور رہائی کے حوالے سے ماضی کی حکومتوں نے کوئی کوشش نہیں کی۔ یہاں تک کہ اوباما کی مدت صدارت پوری ہونے سے قبل امریکی قانون کے مطابق اگر حکومت پاکستان باقاعدہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی درخواست دے دیتی تو وہ آج پاکستان میں ہوتیں۔
جب ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پر امریکی صدر چراغ پا ہورہے تھے تو اُس وقت بھی ٹارگٹ کلر ڈیوس کا معاملہ ’’عدالت‘‘ میں تھا۔ پاکستان کے تمام حلقوں کی جانب سے کہا بھی گیا کہ ڈیوس کو پاکستان تو ہر صورت رہا کرے گا، اس لیے اس موقع سے فائدہ اٹھاکر عافیہ کو رہا کرایا جاسکتا ہے، لیکن یہاں ایسا کچھ نہ ہوا اور ڈیوس پاسپورٹ اور عدلیہ کی اجازت کے بغیر سرکاری ’’پروٹوکول‘‘ میں پاکستان سے رخصت کردیا گیا۔ ڈاکٹر عافیہ کو پڑوسی ملک کی قید میں رکھا گیا تھا۔ 2013 میں ایک اہم پیش رفت سامنے آئی۔ اُس وقت امریکا اُن کی رہائی کا معاہدہ افغان طالبان سے طے کررہا تھاکہ امریکا اپنے فوجی کے تبادلے میں عافیہ کو رہا کردے گا۔ معاہدے کے مطابق عافیہ کو افغانستان لایا جائے گا اور انہیں درہ? خیبر کے راستہ رہا کیا جائے گا، جہاں امریکی فوجی ’’برگ ڈال‘‘ کے تبادلے کے بارے میں وہ ایک پریس کانفرنس میں اعلان کریں گی اور ’’برگ ڈال‘‘ کو بھی اسی وقت رہا کردیا جائے گا۔ معروف صحافی ایوان رِڈلے کے مطابق امریکیوں نے آخر وقت ایک درخواست کی کہ ویڈیو کے ذریعے ثابت کیا جائے کہ ’’برگ ڈال‘‘ اب بھی زندہ ہے۔ افغان طالبان نے یہ درخواست منظور کرلی اور اس کی ویڈیو بھیج دی۔ لیکن عین وقت پر امریکی فوجی ’’برگ ڈال‘‘ کے تبادلے میں ڈاکٹر عافیہ کی رہائی میں ایسی قوتیں اثرانداز ہوگئیں جو ان کے پاکستان سے امریکا کے حوالے کیے جانے پر مسلسل تردید کرتی رہتی تھیں۔ 2013میں ڈاکٹر عافیہ اور امریکی فوجی کے تبادلے کی ڈیل کامیاب نہ ہوسکی، تاہم 2015 میں افغان طالبان نے امریکی فوجی برگ ڈال کو گوانتاناموبے میں قید اپنے پانچ ساتھیوں کے بدلے رہا کردیا۔
شکیل آفریدی کو جب اڈیالہ جیل منتقل کیا جارہا تھا تو افواہیں گردش کرنے لگی تھیں کہ عافیہ کی رہائی یا تبادلے کے لیے پاکستانی حکومت امریکی صدر کو خط لکھے گی، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ وزیراعظم عمران نے بھی اپنی انتخابی مہم و منشور میں ڈاکٹر عافیہ کو وطن واپس لانے کا اعلان کیا تھا۔ پی ٹی آئی نے دیگر پاکستانی قیدیوں کی وطن واپسی کا وعدہ بھی انتخابی منشور میں شامل کیا ہوا تھا۔ وزیراعظم کو بارہا اُن کے متعدد وعدے یاد کرائے جارہے ہیں، جس میں ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا معاملہ بھی شامل ہے۔ اب جب کہ وزیر خارجہ امریکا میں بیٹھ کر شکیل آفریدی پر ’’بات چیت‘‘ کا عندیہ دے چکے تو اس کے بعد کوئی جواز معنی نہیں رکھتا کہ پاکستان ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی بات نہ کرے۔ دنیا جانتی ہے کہ انہیں بے بنیاد الزامات میں امریکی عدالت نے86 برس کی سزا دی۔ جیل میں ناروا سلوک رکھا گیا۔ جو سلوک اُن کے ساتھ کیا جاتا ہے، اس کے لیے انسانی حقوق کی بدترین پامالی تو چھوٹا سا ’’لفظ‘‘ ہے۔ اگر ایسا سلوک امریکی جاسوس شکیل آفریدی، ریمنڈ ڈیوس اور جنرل جوزف کے ساتھ کیا جاتا تو امریکی غصہ سات آسمان کو چھورہا ہوتا۔
سابق فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام اور (کالعدم) ایف سی آر کے تحت دی جانے والی سزاؤں کے خلاف شکیل آفریدی اب ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ سے رجوع کرسکتا ہے۔ شکیل پر 1901 کے برطانوی قانون ایف سی آر کے تحت مقدمہ چلایا گیا اور 33 برس کی سزا کالعدم تنظیموں سے روابط رکھنے کے الزام میں سزا سنائی گئی۔ اُس نے 2014میں فاٹا ٹریبونل میں سزا کے خلاف درخواست دائر کی تھی، جس کا ہنوز فیصلہ نہیں سنایا جاسکا۔ جنوری 2018 تک 30 مرتبہ درخواست کی سماعت ملتوی ہوئی تھی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے شکیل آفریدی کے حوالے سے امریکا کو قانون کا احترام کرنے کا مشورہ پاکستانیوں کے لیے خودفریبی کے سوا کچھ نہیں، کیونکہ جس طرح سابق حکومتوں نے امریکا کے لیے ماورائے عدالت و قانون ڈالروں کے عوض پاکستانیوں کو امریکا کے حوالے کیا۔ اس کا اعتراف ہمارے سابق صدر مشرف اپنی کتاب میں کرچکے ہیں۔ پاکستان میں ایسا کوئی قانون نہیں جہاں عدالت کے فیصلے کے بغیر کسی بھی شخص کو رہا کیا جاسکے۔ لیکن چشم فلک یہ نظارہ بھی دیکھ چکی کہ امریکا و افغانستان کے لیے کئی افغان طالبان رہنماؤں کو حراستی مراکز سے عدالتی کارروائی کے بغیر رہا کیا جاچکا ہے۔ یہاں قانون سب کے لیے یکساں نہیں۔ اربوں کھربوں روپے کی کرپشن کرنے والے قانون کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاکر ضمانت پر رہائی پا جاتے ہیں اور بھوکے پیٹ کے لیے ایک روٹی چوری کرنے والا برسہا برس جیل میں سڑرہا ہوتا ہے۔
قصہ مختصر کہ دنیا بھر میں قانون کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر چلتا ہے۔ اس کا تجربہ موجودہ حکومت سے زیادہ اور کس کو ہوگا۔ اس وجہ سے شکیل آفریدی کو عدالتی معاملہ قرار دینے کے باوجود حکومت سمجھتی ہے کہ اس پر بات ہوسکتی ہے تو کیا وہ اس کی رہائی کے بدلے ’’کالا باغ‘‘ بنائیں گے۔ یقیناً ایسا نہیں ہوگا، بلکہ قانون کے نام پر وہ سب کچھ کیا جاسکتا ہے جو آئین میں لکھا بھی نہ ہو۔ عوام کے احتجاج کی کسی کو پروا نہیں ہے۔ ختم نبوتﷺ قانون میں ترمیم کے ذمے دار ابھی تک قانون کے شکنجے میں نہیں آئے۔ 12 مئی، بلدیہ ٹاؤن، سانحہ? سٹی کورٹ، ماڈل ٹاؤن، مہنگائی، لوڈشیڈنگ سمیت ان گنت سانحات و معاملات پر پاکستانی عوام احتجاج کرتے ہیں اور پھر اگلے دن اخبارات میں تصاویر دیکھ کر سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ شکیل آفریدی کا معاملہ جیسا بھی طے ہوتا ہے، اس پر بھی کوئی احتجاج کرے یا مظاہرے۔ کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پھر سب کچھ بھول جانا ہے۔ اس لیے حکومت وقت سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ شکیل آفریدی کے حوالے سے جو وعدے وعید کر آئے ہیں، اس میں وزیراعظم پاکستان کے اُس وعدے کو یاد رکھا جائے، جس میں انہوں نے عافیہ کو وطن واپس لانے کا اعلان کیا تھا۔ ڈاکٹر عافیہ کے لیے شکیل آفریدی کے تبادلے کا سودا گھاٹے کا نہیں ہوگا۔ اگر یقین نہیں تو اسد عمر سے پوچھ لیں، وہ بھی کہیں گے کہ ایسا فیصلہ ہم سب کے حق میں بہتر ہے۔

8 شکیل آفریدی سے عافیہ صدیقی تک۔۔۔!
ہمارے وزیر خارجہ اقوام متحدہ میں ایسا خطاب کر آئے جو اس سے پہلے کسی نے نہیں کیا۔ ایک اور کمال شاہ محمود قریشی نے کردیا اور یہ بھی عندیہ دیا کہ ’’شکیل آفریدی‘‘ کے معاملے پر بات کی جاسکتی ہے۔ وزیر خارجہ نے فرمایا، شکیل آفریدی کا فیصلہ سیاست نہیں عدالت کرے گی۔ یہ وہی نکتہ ہے، جس حوالے سے راقم اپنے کئی کالموں میں لکھتا رہا کہ خیبر پختونخوا میں سابق فاٹا کے ضم ہونے اور ایف سی آر قانون کالعدم ہونے کے بعد شکیل آفریدی کے لیے عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ میں اپیل کے دروازے کھل سکتے ہیں، ورنہ وزیر خارجہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ مملکت عدالتی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتی، عدلیہ ’’آزاد و خودمختار‘‘ ہے۔ لیکن ان کا یہ عندیہ دینا کہ شکیل آفریدی پر بات کی جاسکتی ہے تو اس کو زیادہ گھمانے کے بجائے دوٹوک انداز میں بھی کہا جاسکتا تھا کہ ’’دونوں ممالک کے درمیان مجرموں کے تبادلے کا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔‘‘ لیکن ایسا نہیں کہا گیا بلکہ معاملہ عدالت پر چھوڑ دیا گیا۔ بدقسمتی سے ڈاکٹر عافیہ کی امریکا میں سزا اور رہائی کے حوالے سے ماضی کی حکومتوں نے کوئی کوشش نہیں کی۔ یہاں تک کہ اوباما کی مدت صدارت پوری ہونے سے قبل امریکی قانون کے مطابق اگر حکومت پاکستان باقاعدہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی درخواست دے دیتی تو وہ آج پاکستان میں ہوتیں۔
جب ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پر امریکی صدر چراغ پا ہورہے تھے تو اُس وقت بھی ٹارگٹ کلر ڈیوس کا معاملہ ’’عدالت‘‘ میں تھا۔ پاکستان کے تمام حلقوں کی جانب سے کہا بھی گیا کہ ڈیوس کو پاکستان تو ہر صورت رہا کرے گا، اس لیے اس موقع سے فائدہ اٹھاکر عافیہ کو رہا کرایا جاسکتا ہے، لیکن یہاں ایسا کچھ نہ ہوا اور ڈیوس پاسپورٹ اور عدلیہ کی اجازت کے بغیر سرکاری ’’پروٹوکول‘‘ میں پاکستان سے رخصت کردیا گیا۔ ڈاکٹر عافیہ کو پڑوسی ملک کی قید میں رکھا گیا تھا۔ 2013 میں ایک اہم پیش رفت سامنے آئی۔ اُس وقت امریکا اُن کی رہائی کا معاہدہ افغان طالبان سے طے کررہا تھاکہ امریکا اپنے فوجی کے تبادلے میں عافیہ کو رہا کردے گا۔ معاہدے کے مطابق عافیہ کو افغانستان لایا جائے گا اور انہیں درہ? خیبر کے راستہ رہا کیا جائے گا، جہاں امریکی فوجی ’’برگ ڈال‘‘ کے تبادلے کے بارے میں وہ ایک پریس کانفرنس میں اعلان کریں گی اور ’’برگ ڈال‘‘ کو بھی اسی وقت رہا کردیا جائے گا۔ معروف صحافی ایوان رِڈلے کے مطابق امریکیوں نے آخر وقت ایک درخواست کی کہ ویڈیو کے ذریعے ثابت کیا جائے کہ ’’برگ ڈال‘‘ اب بھی زندہ ہے۔ افغان طالبان نے یہ درخواست منظور کرلی اور اس کی ویڈیو بھیج دی۔ لیکن عین وقت پر امریکی فوجی ’’برگ ڈال‘‘ کے تبادلے میں ڈاکٹر عافیہ کی رہائی میں ایسی قوتیں اثرانداز ہوگئیں جو ان کے پاکستان سے امریکا کے حوالے کیے جانے پر مسلسل تردید کرتی رہتی تھیں۔ 2013میں ڈاکٹر عافیہ اور امریکی فوجی کے تبادلے کی ڈیل کامیاب نہ ہوسکی، تاہم 2015 میں افغان طالبان نے امریکی فوجی برگ ڈال کو گوانتاناموبے میں قید اپنے پانچ ساتھیوں کے بدلے رہا کردیا۔
شکیل آفریدی کو جب اڈیالہ جیل منتقل کیا جارہا تھا تو افواہیں گردش کرنے لگی تھیں کہ عافیہ کی رہائی یا تبادلے کے لیے پاکستانی حکومت امریکی صدر کو خط لکھے گی، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ وزیراعظم عمران نے بھی اپنی انتخابی مہم و منشور میں ڈاکٹر عافیہ کو وطن واپس لانے کا اعلان کیا تھا۔ پی ٹی آئی نے دیگر پاکستانی قیدیوں کی وطن واپسی کا وعدہ بھی انتخابی منشور میں شامل کیا ہوا تھا۔ وزیراعظم کو بارہا اُن کے متعدد وعدے یاد کرائے جارہے ہیں، جس میں ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا معاملہ بھی شامل ہے۔ اب جب کہ وزیر خارجہ امریکا میں بیٹھ کر شکیل آفریدی پر ’’بات چیت‘‘ کا عندیہ دے چکے تو اس کے بعد کوئی جواز معنی نہیں رکھتا کہ پاکستان ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی بات نہ کرے۔ دنیا جانتی ہے کہ انہیں بے بنیاد الزامات میں امریکی عدالت نے86 برس کی سزا دی۔ جیل میں ناروا سلوک رکھا گیا۔ جو سلوک اُن کے ساتھ کیا جاتا ہے، اس کے لیے انسانی حقوق کی بدترین پامالی تو چھوٹا سا ’’لفظ‘‘ ہے۔ اگر ایسا سلوک امریکی جاسوس شکیل آفریدی، ریمنڈ ڈیوس اور جنرل جوزف کے ساتھ کیا جاتا تو امریکی غصہ سات آسمان کو چھورہا ہوتا۔
سابق فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام اور (کالعدم) ایف سی آر کے تحت دی جانے والی سزاؤں کے خلاف شکیل آفریدی اب ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ سے رجوع کرسکتا ہے۔ شکیل پر 1901 کے برطانوی قانون ایف سی آر کے تحت مقدمہ چلایا گیا اور 33 برس کی سزا کالعدم تنظیموں سے روابط رکھنے کے الزام میں سزا سنائی گئی۔ اُس نے 2014میں فاٹا ٹریبونل میں سزا کے خلاف درخواست دائر کی تھی، جس کا ہنوز فیصلہ نہیں سنایا جاسکا۔ جنوری 2018 تک 30 مرتبہ درخواست کی سماعت ملتوی ہوئی تھی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے شکیل آفریدی کے حوالے سے امریکا کو قانون کا احترام کرنے کا مشورہ پاکستانیوں کے لیے خودفریبی کے سوا کچھ نہیں، کیونکہ جس طرح سابق حکومتوں نے امریکا کے لیے ماورائے عدالت و قانون ڈالروں کے عوض پاکستانیوں کو امریکا کے حوالے کیا۔ اس کا اعتراف ہمارے سابق صدر مشرف اپنی کتاب میں کرچکے ہیں۔ پاکستان میں ایسا کوئی قانون نہیں جہاں عدالت کے فیصلے کے بغیر کسی بھی شخص کو رہا کیا جاسکے۔ لیکن چشم فلک یہ نظارہ بھی دیکھ چکی کہ امریکا و افغانستان کے لیے کئی افغان طالبان رہنماؤں کو حراستی مراکز سے عدالتی کارروائی کے بغیر رہا کیا جاچکا ہے۔ یہاں قانون سب کے لیے یکساں نہیں۔ اربوں کھربوں روپے کی کرپشن کرنے والے قانون کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاکر ضمانت پر رہائی پا جاتے ہیں اور بھوکے پیٹ کے لیے ایک روٹی چوری کرنے والا برسہا برس جیل میں سڑرہا ہوتا ہے۔
قصہ مختصر کہ دنیا بھر میں قانون کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر چلتا ہے۔ اس کا تجربہ موجودہ حکومت سے زیادہ اور کس کو ہوگا۔ اس وجہ سے شکیل آفریدی کو عدالتی معاملہ قرار دینے کے باوجود حکومت سمجھتی ہے کہ اس پر بات ہوسکتی ہے تو کیا وہ اس کی رہائی کے بدلے ’’کالا باغ‘‘ بنائیں گے۔ یقیناً ایسا نہیں ہوگا، بلکہ قانون کے نام پر وہ سب کچھ کیا جاسکتا ہے جو آئین میں لکھا بھی نہ ہو۔ عوام کے احتجاج کی کسی کو پروا نہیں ہے۔ ختم نبوتﷺ قانون میں ترمیم کے ذمے دار ابھی تک قانون کے شکنجے میں نہیں آئے۔ 12 مئی، بلدیہ ٹاؤن، سانحہ? سٹی کورٹ، ماڈل ٹاؤن، مہنگائی، لوڈشیڈنگ سمیت ان گنت سانحات و معاملات پر پاکستانی عوام احتجاج کرتے ہیں اور پھر اگلے دن اخبارات میں تصاویر دیکھ کر سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ شکیل آفریدی کا معاملہ جیسا بھی طے ہوتا ہے، اس پر بھی کوئی احتجاج کرے یا مظاہرے۔ کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پھر سب کچھ بھول جانا ہے۔ اس لیے حکومت وقت سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ شکیل آفریدی کے حوالے سے جو وعدے وعید کر آئے ہیں، اس میں وزیراعظم پاکستان کے اُس وعدے کو یاد رکھا جائے، جس میں انہوں نے عافیہ کو وطن واپس لانے کا اعلان کیا تھا۔ ڈاکٹر عافیہ کے لیے شکیل آفریدی کے تبادلے کا سودا گھاٹے کا نہیں ہوگا۔ اگر یقین نہیں تو اسد عمر سے پوچھ لیں، وہ بھی کہیں گے کہ ایسا فیصلہ ہم سب کے حق میں بہتر ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , , , , , , , ,
14270

اہل سنت والجماعت چترال کے زیر اہتمام فاروق و حسین کانفرنس اور ریلی

Posted on

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز ) خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروق کے یوم شہادت کی مناسبت سے اہل سنت والجماعت چترال نے یکم محرم الحرام کو نماز ظہر کے بعد شہادت فاروق و حسین کانفرنس منعقد کی جس سے خطاب کرتے ہوئے علمائے کرام اور سیاسی رہنماؤں نے ان ہستیوں کی عظمت اور شان کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہاکہ ان دونوں ہستیوں کی مبارک زندگی تاقیامت انسانیت کے لئے مشعل راہ اور رشدو ہدایت کا ذریعہ ہے جبکہ شان صحابہ کے لئے جان دینا ہرمسلمان کی ایمان کا حصہ ہے۔ کانفرنس سے اپنے خطاب میں اہل سنت والجماعت چترال کے صدر حافظ خوش ولی خان نے کہاکہ حضرت عمر فاروق کی زندگی اور عہد حکومت کی مثالیں ہر کہیں اور ہر وقت اور ہر شعبہ زندگی میں دی جارہی ہیں جوکہ ان کی عظمت کا ثبوت ہے ۔ا نہوں نے کہاکہ اسلام کے نام پر حاصل کردہ ملک پاکستان میں بھی اگر حضرت عمر فاروق کے نقش قدم پر چلنے والا کوئی حکمران ہوتا تو آج برما ، فلسطین اور کشمیر میں مسلمانوں کی حالت زار یہ نہ ہوتی۔ انہوں نے کہاکہ رسول کریم کی مدنی زندگی کی مثال دینے پر جو حضرات سیخ پاہوتے ہیں ، وہ امریکہ اور اس کے حواریوں کے مقلد ہیں جس میں کفار سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر معاملات طے کئے جاتے تھے اور یہ قابل افسوس بات ہے کہ ان باتوں کا ادراک کرنے والے حکمران اس ملک کو کبھی نصیب نہیں ہوئے ۔ حافظ خوش ولی خان نے کہاکہ اگر خدانخواستہ ملک پر برا وقت آیا تو اہل سنت والجماعت کے جان نثار افواج پاکستان کے شانہ بشانہ لڑنے اور امریکہ وانڈیا کے ساتھ جنگ بدر کا اعادہ کرنے کو تیار ہیں۔ انہوں نے کہاکہ تنظیم کے ہزاروں کارکن اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے شان صحابہ اور شعائر اسلام کا دفاع کیااور ان کی موجودگی میں ہمیں امریکہ سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں جنہیں حق نواز جھنگوی نے حق وصداقت کے لئے جانوں کی قربانی دینے کا عملی درس دیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ بعض سرکاری افسر ان اہل سنت والجماعت کی سرگرمیوں سے خائف ہیں لیکن ہم انتہائی ذمہ دار ہیں اور شرپسندوں کو کبھی بھی موقع نہیں دیا اور اپنے پروگرامات کرتے رہے ہیں اور ہمیں تنگ کرنے کا سلسلہ نہ روکا گیا تو اس کے اچھے نتائج برامد نہیں ہوں گے اور ہم ہر حال میں اسلامی تہوار مناتے اور شان صحابہ بیان کرتے رہیں گے۔ اس سے قبل اہل سنت والجماعت کے سرپرست مولانا سراج احمد نے حضرت عمر فاروق کی شخصیت پر روشنی ڈالی اور کہاکہ ان صحابہ کرام کی کوششوں کی وجہ سے آج ہم چترال جیسے دورافتادہ علاقے میں اسلام کی روشنی سے منور ہیں۔ تحریک ختم نبوت کے امیر مولانا اسرار الدین الہلال المعروف بلبل چترال نے کہاکہ عمر فاروق وہ عظیم ہستی ہیں جن کی رائے کی تائید میں قرآنی ایات نازل ہوئے جن میں مقام ابراہیم میں دورکعات نماز پڑھنا حج کے ارکان میں شامل ہیں۔ اس موقع پر اہل سنت والجماعت کے جنرل سیکرٹری مولانا جاوید الرحمن نے ایک قرارداد کے ذریعے یکم محرم کو پورے ملک میں عام تعطیل کرنے ، ضلعی حکومت کے زیر اہتمام صحابہ کرام کے شہادتوں کے ایام کو منانے کا اہتمام کرنے، مختلف پبلک مقامات کو صحابہ کرام کے ناموں سے منسوب کرنے اور برما کے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کا مطالبہ کیا۔ اس موقع پرعبدالولی خان ایڈوکیٹ ، قاری خلیل الرحمن ، مولانا عبدالحق رحمانی، مولانا آصف اقبال اور دیگر نے حضرت عمر فاروق اور حضرت حسین کی زندگیوں پر روشنی ڈالی۔
ahle sunnat wal jamat chitral rally

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , , , , , , , , , ,
13499

ریچ میں ایک اور شادی شدہ خاتون کی مبینہ خودکشی ، خاتون گزشتہ رات سے لاپتہ

Posted on

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز) چترال سے 100کلومیٹر انتہائی شمال میں واقع گاؤں ریچ میں ایک شادی شدہ خاتون گزشتہ رات سے لاپتہ ہے ۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق خاتون نے مبینہ طور پر دریا میں چھلانگ لگاکر اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا۔ پولیس اسٹیشن تورکھو کے ایس ایچ او شیر نواز بیگ نے بتایاکہ سکینہ بی بی دختر شیر بیرش خان کی شادی تین سال قبل زار احمد خان سے ہوئی تھی جس کے ایک ماہ بعد وہ سعودی عرب جانے کے بعد گزشتہ مئی کو واپس آئے تھے۔ انہوں نے مزید بتایاکہ سکینہ کی عمر 17سال کی لگ بھگ تھی اوردونوں کانوں سے بہری تھی اور ان کا سسروالوں سے معمولی نوعیت کا لڑائی جھگڑا رہتا تھا کیونکہ کوئی بھی آپس میں بات کرتے تو ان کو شک پڑجاتی تھی ۔ گزشتہ رات وہ گھر سے غائب ہوئی تو ان کی تلاش شروع ہوئی اور ان کے موبائل ٹیلی فون سیٹ اور دوسرے سامان دریا کے کنارے پر پتھر کے اوپر رکھے ہوئے ملے اور صبح ہونے پر ان کی لاش کی تلاش جاری ہے مگر تاحال کامیابی نہیں ہوئی ہے ۔ ایس ایچ او کا کہنا تھاکہ تلاش کے کام میں پولیس کے جوان بھی گاؤں کے باشندوں کی مدد کررہے ہیں۔ پولیس نے ضابطہ فوجداری کے دفعہ 156کے تحت مقدمہ درج کرکے انکوائر ی کا آعاز کردیا ہے۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged , , , , , , , , , , , ,
13429

امریکی وفد کے مختصر دورے میں پاکستان سے’ ڈومور‘ کا بڑامطالبہ !. پیامبر ….قادرخان یوسف زئی

Posted on

پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پریس بریفنگ میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں سرد مہری کے تاثر کو دور کرنے کی ناکام کوشش کی۔پاکستانی وزیر خارجہ کا یہ تاثر دیرپا ثابت نہیں ہوا کیونکہ امریکا کی جانب سے روایتی ’’ ڈومور‘‘ کے مطالبے کو دوہرایا گیا۔ امریکی وزارت خارجہ کے باضابطہ تحریری بیان میں ترجمان محکمہ خارجہ نے کہا کہ ’’پومپیو نے مذاکرات کے ذریعے افغانستان میں امن کے حصول کے لیے پاکستان کے اہم کردار کی نشاندہی کی اور پاکستان سے’’ تقاضا‘‘ کیا کہ دہشت گردوں اور شدت پسندوں کے خلاف متواتر اور فیصلہ کُن اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔ جبکہ پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان نے ٹوئٹر پر جاری ایک مختصر بیان میں کہا ہے کہ دونوں ملکوں کے وفود نے دو طرفہ، علاقائی اور بین الاقوامی معاملات پر بات چیت کی۔بیان کے مطابق امریکی ہم منصب سے بات چیت میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے باہمی تعلقات کو احترام اور اعتماد کے بنیاد پر نئی جہت دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی اولین ترجیح اس کا قومی مفاد ہوگا۔‘ اہم بات یہ تھی کہ جب تک پاکستان اور امریکا کی جانب سے مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں ہوتا ۔ دونوں ممالک کے بیانات کو لیکر ’’ غلط فہمی‘‘ کا تاثر دور نہیں کیا جاسکتا۔امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے پُرانے مطالبات کو دوہرانے ، پاکستان کی قربانیوں کا ذکر نہ کرنے سمیت دہشت گردی کے خلاف ریاست کی کامیابیوں کا ذکر تک نہیں کیا گیا۔ جس سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ امریکا کے سابق سی آئی اے چیف و موجودہ وزیر خارجہ کا پاکستان کے خلاف دئیے جانے والے بیانات سے رویوں میں کوئی فرق نہیں پڑا ۔ پاکستان کی جانب سے امریکی وفود کے استقبال کے حوالے سے بھارتی ہم منصب سے موازنہ بھی کیا گیا ۔ جس میں دو رائے قائم ہوئیں کہ امریکی وفد کے ساتھ سلوک سفارتی اصولوں کے مطابق نہیں تھا ۔ دوئم امریکا کی جانب سے پاکستان پر مسلسل پابندیوں و سخت گیر پالیسیوں کی وجہ سے اپنی ناراضگی کا تاثر دینا ضروری تھا۔
راقم انہی صفحات میں تحریر کرچکا تھا کہ نومنتخب وزیر اعظم عمران احمد خان نیازی کے لئے امتحان ہوگا کہ امریکی وزیر خارجہ کی آمد پر ماضی کے حکمرانوں کی طرح کیا وہ ائیر پورٹ استقبال کے لئے جائیں گے یا نہیں اور کیا سو ل و عسکری قیادت الگ الگ ملاقات کر پائیں گے ۔ تاکہ ریاست ستونوں کے ایک صفحے پر موجود ہونے کا مثبت تاثر عالمی برادری کو جائے۔ تاہم امریکی دفتر خارجہ کی ترجمان ہیدا نوئرٹ کے مطابق’’ وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے پاکستانی وزیراعظم عمران خان اور دیگر سویلین و عسکری قیادت سے ملاقات کی۔ اس موقع پر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل جوزف ڈنفرڈ جونیئر ان کے ساتھ تھے۔وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ بھی ملاقات کی۔ علاوہ ازیں امریکی دفتر خارجہ کی ترجمان کے مطابق وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے پاکستانی چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر باجوہ کے ساتھ ملاقات میں نئی سویلین حکومت کو اقتدار کی ہموار منتقلی کا خیرمقدم کیا اور مضبوط جمہوری اداروں کی اہمیت نمایاں کی۔ وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے دونوں ممالک کے مابین انسداد دہشت گردی کے سلسلے میں تعلقات مضبوط بنانے کی امید پر زور بھی دیا۔اپنی تمام ملاقاتوں میں وزیر خارجہ نے افغان امن مذاکرات کے سلسلے میں پاکستان کے کردار کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ پاکستان کو علاقائی امن و استحکام کے لیے خطرے کا باعث دہشت گردوں اور جنگجوؤں کے خلاف پائیدار اور فیصلہ کن اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے‘‘۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو ایک روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچے تھے، ان کے ہمراہ نائب معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیا ء ایلز ویلز، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ اور افغانستان میں امریکہ کے نمائندہ خاص زلمے خیل داد بھی تھے۔امریکی وزیر خارجہ کا استقبال یقینی طور پر پاکستانی انتظامیہ کی جانب سے گرم جوش قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ ایک جانب امریکا جب پاکستان کے ساتھ تعلقات میں اعتماد سازی کی فضا کو سبوتاژ کردیتا ہے تو پاکستانی عوام اپنے حکمرانوں سے اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ وہ بھی اپنے رویوں کو عوامی امنگ کے مطابق رکھیں۔ پاکستانی وزیر اعظم کی جانب سے امریکی وزیر خارجہ کے ساتھ مختصر ملاقات میں کسی بڑے تعطل دور ہونے کا کوئی امکان موجود نہیں تھا لہذا یہ تاثر دینا دراصل خوش فہمی ہی قرار دی جا سکتی ہے ۔ لازمی امر یہی تھا کہ امریکا ، افغانستان کے حوالے سے اپنے پرانی روش پر قائم رہتے ہوئے وزرات خارجہ میں پاکستانی وزیر خارجہ کے ساتھ بھی ایک نکاتی ایجنڈا لے کر آئے تھے ۔ جسے ہم ’’ ڈو مور‘‘ کا نام یتے ہیں۔امریکا کے خصوصی مشیر زملے خلیل زادہ کی تعیناتی اسی امر کی جانب توجہ دلاتی ہے کہ امریکا ، افغانستان کے حوالے سے پاکستان سے اپنی مرضی کے مطابق حل چاہتا ہے۔
امریکا اور پاکستان کی جانب سے جاری بیانات کے تضادات نے دوسری مرتبہ اس بات کو دوبارہ موضوع بحث بنایا کہ امریکا و پاکستان کے درمیان گفتگو کے اہم موضوع کو بیان کرنے میں کیا قباحت ہے۔ یہ سب جانتے ہیں کہ امریکی وزیر خارجہ کے پاکستان آمد سے قبل امریکی انتظامیہ نے نام نہاد کولیشن سپورٹ فنڈ کو روکتے ہوئے پینٹاگون کے ترجمان نے بتایا کہ ’جنوبی ایشیاء سے متعلق نئی حکمت عملی میں پاکستان اپنا فیصلہ کن کردار ادا نہیں کرسکا اس لیے 30 کروڑ ڈالر روک دیئے گئے ہیں‘۔انہوں نے بتایا کہ اگر کانگریس منظوری دے گی تو مذکورہ رقم’دیگر اہم منصوبوں‘ پر خرچ کریں گے۔‘‘امریکا اس سے قبل بھی پاکستان کی کولیشن سپورٹ فنڈ کے نام پر گزشتہ سال جولائی 2017میں پانچ کروڑ ڈالر روک دیئے گئے تھے ۔ ’’ پینٹاگون کے ترجمان ایڈَم اسٹمپ کا کہنا تھا کہ ’سیکریٹری دفاع جم میٹس نے کانگریس کی دفاعی کمیٹیوں کو بتایا کہ وہ اس بات کی تصدیق نہیں کر سکتے کہ پاکستان نے، مالی سال 2016 کے لیے کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں اس ادائیگی کے لیے حقانی نیٹ ورک کے خلاف خاطر خواہ اقدامات اٹھائے۔‘‘واضح طور پر امریکی وفد کے مختصر دورہ ایک نکاتی ایجنڈے پر مشتمل تھاکہ افغانستان میں ثالثی کے لیے پاکستان امریکا کی مدد کرے، ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان کا تعاون نہ ملا تو جو ہوگا وہ جنرل نکلسن اور جنرل ملر بتاچکے ہیں۔
وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل جوزف ڈنفرڈ نے پی اے ایف بیس نور خان میں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ابھی ہم نے بہت سا کام کرنا ہے، بہت سی بات چیت ہونا ہے، مگر کھل کر کہا جائے تو دونوں ممالک کی افواج کے باہمی تعلقات اس وقت بھی برقرار رہے جب بعض دیگر تعلقات کی صورت اچھی نہیں تھی۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا اس بات چیت کے دوران امریکہ کی جانب سے بڑی تعزیری کارروائی کا کوئی انتباہ بھی جاری کیا گیا جس کی رو سے مخصوص پاکستانی افراد کے خلاف مالیاتی پابندیاں لگ سکتی ہوں۔۔۔ کہ اگر وہ اپنا رویہ تبدیل نہیں کرتے تو مزید اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں؟ تو وزیر خارجہ پومپؤ نے جواب دیا کہ ہم نے ان پر واضح کر دیا کہ وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے مشترکہ وعدوں کی تکمیل کریں اور انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا۔ ہم نے بات چیت اور معاہدوں پر بہت سا وقت صرف کیا ہے مگر ابھی تک ہم ان پر عملدرآمد کے قابل نہیں ہو سکے۔ اسی لیے میرے اور وزیر خارجہ قریشی نیز وزیراعظم کے مابین وسیع تر اتفاق پایا گیا کہ ہمیں ایسے عملی اقدامات شروع کرنے کی ضرورت ہے جن سے ایسے نتائج سامنے آئیں جو دونوں ممالک کے مابین اعتماد کو جنم دیں۔ ملاقاتوں میں اسی بات پر زور دیا گیا۔
افغانستان میں ثالثی کے حوالے سے امریکا یہ سمجھتا ہے کہ جیسے پاکستان ، بٹن دبا دے تو افغانستان میں امن قائم ہوجائے گا۔حالاں کہ پاکستان نے جب جب افغان طالبان و دیگر گروپوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کی تو امریکا ، کابل حکومت اور بھارت گٹھ جوڑ نے غیر متوقع حالات پیدا کردیئے گئے۔ افغان طالبان جو کہ اس وقت افغانستان کے ایک بڑے رقبے پر عمل داری رکھتے ہیں اور سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر ہیں ، ان پر پاکستان کا اثر رسوخ ماضی کے مقابلے میں کم ہوچکا ہے۔ جب سے عالمی سازش کے تحت داعش ( خراسان شاخ) کو افغانستان میں پھلنے پھولنے کا موقع دیا گیا اور انہیں کمک فراہم کی گئی تاکہ امریکا جو کہ افغانستان میں 17برس کی طویل لاحاصل جنگ میں ہار چکا ہے ۔ داعش کی سپورٹ کے افغان طالبان کو کمزور کرے۔ اس صورتحال میں داعش کی افغانستان کی موجودگی اور امریکا پر سہولت کاری کے الزامات کے بعد روس اور ایران کی جانب افغان طالبان کا جھکاؤ بڑھ گیا ۔ ایران اور روس نے بھی خطے میں داعش کے بڑھتے اثر رسوخ کو روکنے کے لئے افغان طالبان کو مضبوط کرنا شروع کردیا ۔ جس کے بعد سے اب افغان طالبان کے لئے پاکستان محفوظ پناہ گاہ نہیں رہا۔
امریکا دراصل بھارت کی ایما پر مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں کے خلاف پاکستان کی اخلاقی حمایت کو بزور طاقت و سازش سے دبانے کے لئے امریکا کو استعمال کررہا ہے۔ امریکا ، بھارت تعلقات کی نوعیت ماضی کے مقابلے میں مزید قریب ہونا شروع ہوئی تاہم بھارت کے لئے امریکا کی جانب سے ’’ نرم گوشہ‘‘ اب ایک نئی صورتحال کا سامنا کررہا ہے۔امریکا نے ایران کے خلاف نئی پابندیوں کا اطلاق کرنا شروع کردیا ہے۔ امریکا ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو ختم کرچکا ہے ۔ اس وقت بھارت کے ساتھ ایران کے تعلقات بھی تاریخی نوعیت کے حامل ہیں۔ دونوں ممالک کے کئی مشترکہ مفادات ہیں۔ جس میں سب سے بڑا مفاد ، ایران سے عالمی ریٹ کے مقابلے میں سستے داموں تیل کا حصول ہے۔ بھارت اپنی تیل کی ضروریات کا بڑا حصہ ایران سے حاصل کرتا ہے۔ اگر امریکا ، بھارت کو ایران سے تیل کے حصول پر پابند کرنے کی کوشش کرتا ہے تو امریکا کو افغانستان میں بھارت کے بڑھتے کردار کی حمایت حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ اسی طرح بھارت ، امریکی مخالفت کے باوجود روس سے اہم فوجی ساز و سامان بھی حاصل کررہا ہے ۔ جو امریکا انتظامیہ کے لئے ناگواری کا سبب بن رہا ہے۔ لیکن چین و ایران کی ریاستوں کو دبانے کے لئے بھارت کو مہرہ بنانے کے لئے امریکا نے ’’ نرم گوشہ‘‘ کی پالیسی کو اختیار کی ہوئی ہے۔ لیکن امریکا اس بات کو بھی اچھی طر ح جانتا ہے کہ افغانستان میں مستقل امن کا حل بھارت کے پاس نہیں ہے اس لئے پاکستان کی کمزور خارجہ پالیسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ماضی کی غلطیوں پر ’’ ڈومور‘‘ کے مطالبے کو دوہرانے کے ساتھ ساتھ مالی و دفاعی طور پر کمزور کرنے کی روش اختیار کئے ہوئے ہے۔ امریکا ، پاکستان کا کبھی بھی قابل اعتماد دوست ملک نہیں رہا ہے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ امریکا کے مفادات کے تابع پاکستان کی ترجیحات بنتی چلی گئی اور ماضی کی غلط خارجہ پالیسوں کی وجہ سے پاکستان اس وقت معاشی بحران میں بُری طرح پھنس چکا ہے۔ وزیر اعظم عمران احمد خان نیازی اپوزیشن میں ہوتے ہوئے امریکا پالیسی پر جس طرح حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ۔ اب موجودہ صورتحال کو اتنا ضرور سمجھ چکے ہونگے امریکا چاہے بھی تو روکے گئے فنڈز کو جاری نہیں کرسکتا۔بلکہ یہ رقم کسی دوسرے ملک یا پروگراموں میں استعمال کی جائے گی۔
زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو حقیقی معنوں میں امریکا افغانستان سے جانا ہی نہیں چاہتا کیونکہ اس نے چین کے عظیم منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے تمام ماسٹر پلان افغانستان میں تیار کئے ہوئے ہیں۔ سی پیک منصوبہ پاکستان کے لئے بڑا منصوبہ ہے لیکن در حقیقت یہ چین کے لئے پاکستان کی سطح پر سی پیک چھوٹا اور عالمی سطح پر ون بیلٹ ون روڈ عظیم معاشی منصوبہ ہے۔ چین رواں صدی کے سب سے بڑے منصوبے کے تحت ایشیا، افریقہ،یورپ سمیت دنیا کے70ممالک کو زمینی و بحری راستے کے ذریعے جوڑدینا چاہتا ہے۔جس کا مطلب چینی مصنوعات نئی معاشی طاقت اور دیگر ممالک کا امریکا پر معاشی انحصار کم ہوجائے گا۔چین بھی افغانستان میں پائدار امن کا خواہاں ہے ۔ کیونکہ پاکستان سے شروع ہونے والا یہ عظیم منصوبہ افغانستان سے گذر کر ہی امریکا کو معاشی طور پر تباہ کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔چین 2049تک اس منصوبے کو مکمل کرنا چاہتا ہے۔ اس منصوبے میں روس ، نیوزی لینڈ ، فرانس، انگلینڈ سمیت کئی اہم ممالک شامل ہوچکے ہیں ۔ گزشتہ برس چائنہ ڈیولپمنٹ بنک نے اپنی تیسری سہ ماہی رپورٹ میں بتایا تھا کہ ون بیلٹ ون روڈ کے تحت 900منصوبوں کا افتتاح ہوچکا ہے جس کی لاگت 900ارب ڈالرز کے قریب ہے۔ون بیلٹ ون روڈ کے عالمی منصوبے کا جائزہ لیا جائے تو چین کے اس عظیم منصوبے کی وجہ سے ورلڈ اکنامک ٹائیگر بن کر ابھر رہا ہے ۔ جو امریکا کے مفادات کو بڑے نقصان سے دوچار کریں گی۔ نیٹوکے 50ممالک کی ایک لاکھ 30ہزارسے زاید فوجی ہونے کے باوجود امن قائم نہیں ہو سکا تھا تو صرف چند ہزار امریکی فوجی افغانستان میں کیونکر امن قائم کرسکتے ہیں۔ امریکا کا افغانستان میں اپنی کٹھ پتلی حکومتوں کے ذریعے خطے میں خانہ جنگی اور بد امنی کو فروغ دینا ہی اولین مقصد ہے۔
چین کو عالمی روٹ کے لئے راستہ فراہم نہ کرنے اور سی پیک منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے امریکا پاکستان کو دباؤ میں رکھنا چاہتا ہے اسی لئے امریکی انتظامیہ زمینی حقائق کو تسلیم کرنے کے بجائے عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے مختلف بہانے تراش کر گمراہ کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔ حالاں کہ پاکستان ، امریکا کو واضح طور پر کہہ چکا ہے کہ امریکا نشاندہی کرے ، پاکستان خود کاروائی کرے گا ۔ لیکن اس کے باوجود امریکا کے نت نئے مطالبے خطے کے امن کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔بھارت کو من پسند مراعات دے کر خطے میں طاقت کا توازن خراب کررہا ہے۔پاکستان کے مختصر دورے کے بعد امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو بھارت پہنچ چکے ہیں۔ ’’ ٹو پلس ٹو ‘‘ قرار دیئے جانے والے اس مذاکرات میں امریکی سینٹرل کمانڈ اور بھارتی فوج کے درمیان تعاون بڑھانے سمیت روسی میزائلوں کی خریداری اور ایرانی تیل کی درآمدات کے اہم معاملات پر ایک کلیدی سمجھوتہ طے پایا جانے کے امکانات پر مشترکہ اعلامیہ دونوں ممالک نے جاری کردیا ہے ۔ جس میں بھارت کو دفاعی نظاموں کی جدید ٹیکنالوجی تک رسائی اور بھارتی و امریکی فوجوں کو اطلاعات کی شراکت داری یقینی ہوجائے گی۔
پاکستان کی نئی حکومت ، امریکا کے ساتھ کس نہج پر تعلقات استوار کرسکی گی؟۔ اس حوالے سے امریکی رویئے میں تبدیلی کا رجحان صرف اسی صورت میں دیکھنے میں آسکتا ہے۔ جب پاکستان بھارتی مطالبات کو امریکی کے کہنے پر قبول کرلے۔بظاہر سیاسی طور پر وزیر اعظم عمران احمد خان نیازی کے بلند بانگ دعوے قابل عمل نظر نہیں آرہے کہ امریکا کے دباؤ کو کم کرسکیں ۔ اس لئے نئی حکومت عوام میں ماضی کی حکومتوں کی طرح خوش فہمی میں مبتلا کر کے پاک۔ امریکا تعلقات کی بہتری کا گمان کررہی ہے۔بلاشبہ اس وقت پاکستان کی نئی حکومت کو بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے لیکن عوام سے کئے جانے والے وعدوں میں امریکی غلامی سے نجات کے لئے کشکول توڑنے اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرض نہ لینے کے دعوی زمین بوس ہوچکے ہیں۔ابتدائی چنددنوں میں عوام کو بجلی ، گیس کے بلوں میں بھاری بھرکم اضافے کی منظوری سے مہنگائی کا نہ رکنے والا سونامی اٹھنے کا خدشہ ہے۔ اس وقت پاکستان بھاری قرضوں کے بوجھ میں دھنسا ہوا ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو ملنے والی رقم کو امریکا کی جانب سے روکنے کا عمل اور پاکستان پر کئی اطراف سے دباؤ بڑھانے کی روش سے حالات مزید بے یقینی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔امریکی عہدے دار پاکستان کے خلاف جارحانہ انداز اختیار کئے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم عمران احمد خان نیازی اگلے مہینے اقوام متحدہ کے سربراہ اجلاس میں شریک نہیں ہو رہے۔ گو کہ عسکری قیادت کی جانب سے نئی حکومتی انتظامیہ کو زمینی حقائق سے آگاہ کردیا گیا ہے اور جی ایچ کیو میں8گھنٹوں سے زائد طویل بریفنگ میں وزیر اعظم پر کئی اہم معاملات واضح ہوچکے ہونگے کہ سابق حکومت نے چار برس وزیر خارجہ کیوں نہیں رکھا تھا۔
نئی حکومت کو اس وقت عوام کو خوش فہمی میں مبتلا کرنے کے بجائے پارلیمنٹ میں بتانا چاہیے کہ امریکا کے مطالبات کو پورا کرنے کے لئے انہیں کیا فوائد اور ڈومور نہ مانے پر کن نقصانات کا سامنا ہوگا ۔امریکا کے ساتھ تعلقات کی نوعیت صرف اب یہی رہ گئی ہے کہ افغانستان میں لاحاصل جنگ میں مصروف امریکی فوجیوں کو لاجسٹک سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ باقی تجارتی طور پر امریکا اور پاکستان کی اصل تجارت سے بھی قوم کو آگاہ کرنا ضروری ہے کہ امریکا سے تجارتی طور پر کتنے ارب ڈالر ز کا کاروبار ہورہا ہے۔نئی حکومت کو درپیش مشکلات کا ادرک پاکستانی قوم کو بھی ہے کہ امریکا سے جنگ بھی نہیں کی جا سکتی اور امریکا کے تمام مطالبات تسلیم بھی نہیں کئے جاسکتے ۔ لیکن تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مربوط خارجہ پالیسی بنا کر مضبوط پاکستان بنانے کی راہ ضرور ہموار کی جا سکتی ہے۔بد قسمتی سے پاکستان کی خارجہ پالیسی موسم کی طرح رنگ بدلتی رہی ہے ۔ اس روش کو روک کر اب امریکی ڈکٹیشن سے دوری اختیار کرلی جائے تو یہ بہتر ہوگا ۔ہم جتنی قوت امریکا کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لئے لاحاصل خرچ کررہے ہیں اگر یہی قوت دیگر مغربی بلاک کے ممالک پر صرف کی جاتی تو اس وقت پاکستان کو امریکا کے ڈومور کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے تعطل دور ہوگیا ، کا تاثر دینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یقینی طور پاکستان ، امریکا سمیت کسی بھی پڑوسی ملک سے جنگ نہیں چاہتا لیکن ایک غیور و غیرت مندملک و قوم بننے کے لئے ضروری ہے کہ ہماری ترجیحات وطن عزیز کے لئے ہوں ۔ پھر واقعتاََ ہم’’ ڈو مور ‘‘کو’’ نو مور‘‘ کہہ سکتے ہیں ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , , , , , , , ,
13422

لہو کا خراج ……. شہدائے چترال کا مختصر تعارف( قسط دوم )…….اقرارالدین خسرو

گزشتہ مضمون میں چترال سے تعلق رکھنے والے چترال سکاؤٹس کے بعض شہداء کا مختصر تعارف شیر کیا تھا۔ بقایا کا مختصر تعارف آج ملاحظہ فرمائے ۔۔ (یاد رہے 1947 سے 2012 تک شہداء کی ڈیٹیل موجود ہے 2012 کے بعد کے شہداء کا تعارف چند ایک کے علاؤہ حاصل نہ کرسکا جس کیلیے پیشگی معزرت )
= سپاہی ولید احمد موڑکہو جائے شہادت سیاچن 09 دسمبر 2006
نائیک جان خان یارخون جائے شہادت سوات
چترال سکاؤٹس کے کچھ جوان 7 اور 8 جنوری 2008 کی رات برفانی تودہ کے نیچے دب کر شہید ہوگیے ۔ ان میں
حوالدار نیاب گل سکنہ کوشٹ
حوالدار ظفر شاہ ورکوپ (تورکہو )
نائیک مختار احمد کوغذی
سپاہی اشرف شاہ ریچ تورکہو
سپاہی محسن علی چرون
سپاہی محراب الدین سانیک لٹکوہ
جبکہ سپاہی حاجی رحمت سکنہ پرئیت اس واقعے میں بچ گیے تھے ۔ مگر 06 نومبر 2008 کو سوات کے کانجو پل میں خودکش حملے میں سپاہی امتیاز احمد سکنہ اویون کے ہمراہ شہید ہوگیے ۔۔۔
= لانس نائیک قدیر خان زائینی موڑکہو جائے شہادت سوات 37 اکتوبر 2008
= حوالدار بزرگ محمد موری بالا جائے شہادت سوات 08 مئی 2008
چترال سکاؤٹس کے کچھ جوان 26 اپریل 2009 میں دیر میدان آپریشن کے دوران شہید ہوے ان میں ۔۔۔
نائب صوبیدار نصیراللہ سکنہ برنس
سگنل لانس نائک بشیر احمد سکنہ ریشن
سپاہی عجایب خان مومی لٹکوہ
سپاہی بشیر احمد سکنہ ورکوپ تورکہو
سپاہی امان الرحمن سوئیر دروش
سپاہی شیر نواز شاگرام تورکہو
سپاہی شیر اعظم سین چترال
سپاہی بہادر شاہ ورکوپ تورکہو
نائیک رحمت جوان موغ لٹکوہ 26 مئی دیر میدان
سپاہی ژانویار کلدام دروش 26 مئی دیر میدان
لانس نائیک شاہ حسین تاریخ شہادت 7 مئی 2009 دیر میدان
سپاہی فرزند علی شاہ چرون 26 مئی 2009 دیر میدان
نائک میر حکیم سکنہ بونی تاریخ شہادت 04 جون 2009
سپاہی شہزاد رحیم سکنہ زئیت جائے شہادت سوات 19 جون 2009
سپاہی گل زاہد سکنہ عشریت جائے شہادت باجوڑ ایجنسی یکم دسمبر 2009
نائب صوبیدار ظفر مراد ژانگ لشٹ شاگرام جائے شہادت درہ آدم خیل 14 جنوری 2010
سپاہی فہیم الدین انداہتی شغور جائے شہادت باجوڑ ایجنسی 23 جنوری 2010
سپاہی نور احمد سکنہ موردیر جائے شہادت باجوڑ ایجنسی 24 فروری 2010
سپاہی شفیق الرحمن تیریچ جائے شہادت ارندو
24 جون 2010
سپاہی صابر احمد سکنہ برنس جائے شہادت باجوڑ ایجنسی 5 فروری 2011
سپاہی لطیف الرحمن سکنہ اڑیان دروش 16 مئی 2011
نائیک رحمت اکبر سکنہ راغ جائے شہادت نواپاس 18 اکتوبر 2011
27 اگست 2011 27 رمضان کو افغان بارڈر سے آئے ہوے دہشت گردوں نے ارندو سیکٹر کے گدیبار، کوتی ، دراشوت لنگور بٹ اور فامیل نسار پوسٹوں پہ حملہ کیا جس میں چترال سکاؤٹس کے درجنوں جوان شہید ہوے جنکی تفصیل کچھ یوں ہے ۔
صوبیدار یونس علی سکنہ برنس کاوتی پوسٹ
صوبیدار نیت غازی دراشوت پوسٹ
حوالدار جلال الدین تیریچ دراشوت پوسٹ
حوالدار بجگی خان بنگ یارخون گدیبار پوسٹ
نائیک نزیر احمد سکنہ تیریچ گدیبار پوسٹ
نائیک منظور الٰہی بکر آباد دراشوت پوسٹ
لانس نائیک رحمت نظار خان لنگوربٹ پوسٹ
سپاہی حضرت اللہ کوغذی گدیبار پوسٹ
سپاہی شیر اکبر سانیک لٹکوہ گدیبار پوسٹ
سپاہی علی حیدر سندراغ کوشٹ لنگور بٹ پوسٹ
سپاہی حضرت عمر عشریت دراشوت پوسٹ
سپاہی ہاشم پناہ جنالی کوچ دراشوت پوسٹ سپاہی رحمت صاحب خان مستوج دراشوت پوسٹ
سپاہی ضیاء الملک دروش دراشوت پوسٹ سپاہی امیر ظفر خان اویون لنگوربٹ پوسٹ
سپاہی طارق محمود مژگول گدیبار پوسٹ
لانس نائیک اظہر ولی خان جغور دراشوت پوسٹ
سپاہی عطاء الرحمن اوچ گرم چشمہ دراشوت پوسٹ
سپاہی محمد شعیب شیشی کوہ دراشوت پوسٹ
سپاہی شیر احمد لاوی دروش دراشوت پوسٹ
سپاہی فقیر بشقیر لٹکوہ جسے 27 اگست کو دہشت گرفتار کرکے لے گیے تھے ساڑھے تین ماہ دہشت گردوں کی قید میں رہے 5 دسمبر 2011 کو اسکی سربریدہ لاش دراشوت کے قریب برآمد ہوئی ۔
سپاہی جاوید اقبال عشریت جائے شہادت اورکزئی ایجنسی 22 جون 2010
سپاہی سجاد حسین سیر دور کلکٹک جائے شہادت اورکزئی ایجنسی 28 مئی 2011
نائک عبدالکریم سکنہ لاسپور جائے شہادت درہ آدم خیل 26 جون 2012
سپاہی عتیق لشٹ شیشی جائے شہادت کرم ایجنسی 10 مئی 2013
حوالدار زاکر حسین سکنہ کوشٹ اور لانس نائک انور علی سنوغر جائے شہادت شمالی وزیرستان 18 نومبر 2016
لانس نائک شیر اللہ سکنہ برنس جائے شہادت نواپاس باجوڑ ایجنسی 10 مئی 2017 ۔۔۔
اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ تمام شہداء کی شہادت قبول فرمائے اور انھیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطاء فرمائے ۔۔ آمین
shuhadaa e chitral scouts

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , , , , , , , ,
13402

وادی وادی گھوم ………… محکم الدین اویونی

Posted on

سیاحت Tour ایک ایسا دل خوش کُن اور دلکش لفظ ہے ۔ کہ سنتے ہی دل میں خوشی کی لہر پیدا ہوتی ہے ۔ ذہن سے غم و آلم کے سائے چھٹنے لگتے ہیں ، دماغ کا بوجھ ہلکا اور پابندیوں سے آزادہو جاتا ہے ، لمحہ بہ لمحہ مسرت کا احساس ہو تا ہے ، نظروں کے سامنے فلک بوس پہاڑوں ، جنگلات سے مزین کوہساروں ، طلسماتی جھیلوں کے نیلگون اور پُر کیف نظاروں اور نئے نئے مقامات کی ایک فلم سی نظروں کے سامنے چلنے لگتی ہے ۔ ان نظاروں کو دیکھنے کا شوق جنون کی حد تک دل کو بیقرار کرتی ہے ۔ اور سفر کے آغاز سے پہلے ہی سیاحتی کیفیات و احساسات شروع ہو جاتے ہیں ۔ ایسے میں ٹور اگر دوستوں کے ساتھ ہو ۔ تو بات ہی کچھ اور ہے ۔ یعنی سیاحت کا مزا دوبالا ہو جاتا ہے ۔کیونکہ ایک طرف قدرت کے حسین نظاروں کے ساتھ مختلف لوگوں کی تہذیب و ثقافت دیکھنے کو ملتی ہیں اور دوسری طرف بر محل تبصرے کیلئے دوست موجود ہوتے ہیں ۔
چترال پریس کلب کا حالیہ ٹور پروگرام اس مرتبہ عجلت میں بنا ۔ صدر پریس کلب ظہیر الدین نے عید الاضحی کے فورا بعد ٹور کی تاریخ مقرر کی ۔ کیو نکہ چترال پریس کلب نے خلاف معمول سردیوں میں شہروں کی طرف ٹور کرنے کی روایت تبدیل کرکے گذشتہ سال سے سرد اور معروف سیاحتی مقامات کی سیر کا آغاز کیا ہے ۔ اس لئے کوشش یہ تھی کہ آف سیزن سے پہلے ٹور کی جائے ۔ یوں چترال پریس کلب کی 9رکنی سیاحتی ٹیم صدر ظہیر الدین کی قیادت میں ایک ہفتے کے ٹور پر روانہ ہوئی ۔ جس میں نائب صدر سیف الرحمن عزیز ، جنرل سیکرٹری عبدالغفار لال ، فنانس سیکرٹری نور افضل خان ،سنیئر ممبران شاہ مراد بیگ ، شہریار بیگ کے علاوہ بشیر حسین آزاد ،سید نذیر حسین شاہ اور راقم بھی شامل تھا ۔ چترال پریس کلب کایہ ٹور گذشتہ سال کی سیاحتی تشنگی دور کرنے کی کوشش اور اُسی کا تسلسل بھی تھا ۔ جس میں خنجراب پاس سے واپسی پر بابو سر ٹاپ کے راستے رات کے وقت ناران کی حسین وادی میں داخل ہوئے ۔ لیکن وقت کی کمی اور انتہائی سخت ٹور شیڈول کے باعث یہاں کی سیر خصوصا جھیل سیف الملوک کی سیر سے محروم رہے تھے ۔ اور وہ تشنگی دل کو مسلسل محسوس ہو رہی تھی ۔ جس کاساتھیوں کو بہت قلق تھا ۔ پس گذشتہ سال کی سیاحتی کمی پوری کرنے اور چند نئے مقامات دیکھنے کا فیصلہ کیا گیا ، جس میں خصوصی طور پر وادی کُمراٹ ،جھیل سیف الملوک اور وادی کلام وغیرہ شامل تھے ۔
25اگست کی صبح جب چترال سے ٹور کا آغاز ہوا ۔ تو ہماری پہلی منزل وادی کمراٹ تھی ۔ دیر پہنچے تو معلوم ہوا ۔ کہ ایس آر ایس پی دیر کے آر پی ایم نور عجب خان نے پُر خلوص مہمان نوازی کا مظاہرہ کرکے گرین ہلز میں ٹیم کیلئے ناشتے کا انتظام کیا ہے ۔چترال سے منہ اندھیرے روانگی اور سفر کی تھکان میں ہم نے ناشتے کا بھر پور لطف اُٹھایا ۔ اُس کے بعد وادی کُمراٹ کی راہ لی ۔ کُمراٹ جانے کیلئے دیر شہر کے اختتام پر مین روڈ سے بائیں طرف موڑنا پڑتا ہے ۔ اس وادی کا نام اگر چہ ہمارے لئے نیا نہیں تھا ۔ اور ہم میں سے کچھ دوست اپنے کاموں کے سلسلے میں اسی راستے پر موجود شیرینگل یونیورسٹی تک سفر کر چکے تھے ۔ تاہم دل میں کُمراٹ کا نام لینے پر ایک خفیف سی گھبراہٹ محسوس ہورہی تھی ۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ وادی بھی گذشتہ کئی سالوں سے اس علاقے میں پھیلی ہوئی دہشت گردی کی لپیٹ میں تھی ۔ اگر چہ امن بحال ہوئی ہے ، پھر بھی ذہن میں وہم کا پیدا ہونافطری اامر تھا ۔ چونکہ ہر نئی چیز میں دلکشی ہوتی ہے ۔ اور دیر خصوصا کُمراٹ ویلی کو اللہ تعالی نے کمال حسن و دلکشی اور رعنائیوں سے نوازا ہے ۔ پس ہم اس خوبصورتی کے اندر گم ہو کر ایک دوسرے کو مختلف مناظر دیکھانے اور تبصرے کرنے میں مگن ہو گئے ۔ اور فلم کی سین کی طرح یہ مناظر لمہ بہ لمحہ بدلتے رہے اور ہم بھی قدرت کو داد دیتے رہے ۔ راستے میں شیرینگل یونیورسٹی پر نظر پڑی ۔ جو ایک بڑے ایریے پر محیط ہے ۔ اور انگریزوں کے دور میں فارسٹری ڈویلپمنٹ کی غرض سے اس بلڈنگ کی تعمیر کا خاکہ پیش کیا گیا تھا ۔ جسے قیام پاکستان کے بعد مکمل کیا گیا ۔ لیکن اس بلڈنگ سے فارسٹ کی کتنی ترقی ہوئی ۔ اُس بحث میں پڑے بغیریہ بات ہمارے لئے حیران کُن تھی۔ کہ دیر کے ایم این اے نجم الدین خان نے خالی پڑی ہوئی بلڈنگ کو یونیورسٹی کا کیمپس بنانے کیلئے اُس وقت کی حکومت کو قائل کرنے میں کس طرح کامیاب رہے۔ جو کہ دیر شہر سے دور ہونے کے ساتھ ساتھ رسائی کیلئے آج بھی مشکل ہے ۔ جبکہ چترال یو نیورسٹی کیلئے ہمارے ارباب اختیار چترال شہر کی آٹھ کلومیٹر مربع ایریے سے باہر نکلنے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔
دیر شہر سے کُمراٹ ویلی کے ٹورسٹ سپاٹ تک پہنچنے کیلئے تین سے ساڑھے تین گھنٹے سفر کرنا پڑتا ہے ۔ لیکن جوں جوں سفر آگے بڑھتی ہے ۔ وادی کے حسن اور سولہ سنگار کو مزید چار چند لگ جاتے ہیں ۔ وادی کے دونوں طرف دیودار کے دیو قامت اور گھنے جنگلات و سبزہ و خود رو جڑی بوٹیوں سے مُزین سبزی مائل چادرنے مٹی اور پتھر تک کو ڈھانپ لیا ہے ۔ اور بیچ اس وادی کے دود ھ کی مانند اُچھلتی کودتی پانی کا بہاؤ دل و دماغ کو قدرت کی صناعی پر سوچنے پر مجبور کرتا ہے ۔ ہم ویلی کے اندر پھیلی وسیع آبادی سے بھی محظوظ ہوتے رہے ۔ اور قدرت کی مہربانیوں اور اپنے ملک کے حکمرانوں کی نااہلی پر تبصرہ کرتے ہوئے بالاخر اُس مقام پر پہنچ گئے ۔ جہاں سیاح گُم صم ہو جاتے ہیں ۔ اور بُت بنے اپنی حالت میں نہیں رہتے ۔ قدرت کی خوبصورتی کو دل و دماغ اور کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنے میں مد ہوش ہو جاتے ہیں ۔ لیکن ان مناظر کو سمیٹنا جتنا آسان نظر آتا ہے ۔ اُتنا ہی مشکل ہے ۔ وسیع و عریض رقبے پر پھیلی ہوئی زمین جس میں قدرت نے اس ترتیب کے ساتھ دیودار کے درختوں کی نرسری لگائی ۔ کہ صدیوں سے تناور درخت بن کر اس وادی میں رونما ہونے والے واقعات و حرکات و سکنات پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں ۔ یہاں سیاحوں کیلئے درجنوں کی تعداد میں خوبصورت عارضی ریسٹوران اور ہو ٹل قائم ہیں ۔ جہاں سیاحوں کو کھانے پینے کی تمام اشیاء مناسب ریٹ پر ملتی ہیں ۔ جبکہ قیام کیلئے اوپن شیلٹر بنے ہوئے ہیں ۔ دیودار کے درختوں کے نیچے جگہ جگہ کیمپ ہوٹلوں کی سہولت بھی دستیاب ہیں ۔ اور سیاح اپنی مرضی سے بھی کیمپ لگا سکتے ہیں ۔ بہت سارے ٹورسٹ گروپ کی شکل میں اپنا پکاؤ اپنا کھاؤ کے اُصولوں پر عمل پیرا کھانا پکانے ، برتن مانجھنے اور صفائی کرنے میں مصروف دیکھائی دیتے ہیں تو بعض من چلے اس کُھلے ماحول کا فائدہ اُٹھا کر خود کو موسیقی کی دھنوں کی نذر کرکے رقص کرتے اور گاتے اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں ۔ گویا جنگل میں منگل ہے ۔ایک شہر آباد ہے۔ جہاں سے دہشت گردی کی خوف کو بھگا دیا گیا ہے ۔ دوستوں نے یہاں پہنچتے ہی بھوک مٹانے پر توجہ دی ۔ اور کُھلی فضا میں قائم ریسٹوراں جس کی کُرسیاں بہتی بل کھاتی پانی کی نہر کے ساتھ ایک خوبصورت دیودار کے درخت کے نیچے لگی ہوئی تھیں ، بیٹھ گئے ۔ اور ہلکی پُھوار میں کھانے کا وہ مزا لیا ۔ کہ ہنوز ذائقہ موجود ہے ۔ ہم یہ خیال کرتے تھے ۔ کہ اتنی دور پہاڑوں میں کھانے کی منہ مانگی قیمت وصول کی جائے گی ۔ لیکن ہمارا اندا زہ بالکل غلط نکلا ۔ وہ لوگ ہمارے چترال کے ریسٹورانوں کی طرح سیاحوں کو لوٹنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ بلکہ مناسب دام لے کر مزید سیاحوں کو اس وادی میں آنے کی دعوت د یتے ہیں ۔ کھانے سے فارغ ہو کر ہم نے ا س طلسماتی ، جنت نظیر سیاحتی مقام کی مختصر سیر کی ۔ اور جتنے فوٹو کیمروں اور موبائلوں میں سما سکتے تھے ۔ اُن کو محفوظ کرنے میں بُخل نہیں کیا ۔ ہمارے نائب صدرسیف الرحمن عزیز جو کچھ عرصے سے سیلفی کے اسیر ہو گئے ہیں ۔ ہمیں بھی کئی بار اپنے موبائل کے اندر قید کرلیا ۔ کُمراٹ وادی کے اس سیاحتی مقام پر ہر سال جشن کُمراٹ منایا جاتا ہے ۔ اور ہزاروں سیاح اس وادی کی ہواؤں نظاروں ، برف پوش پہاڑوں اور دودھ کی نہر کی طرح جلترنگ بجاتی ٹھنڈا یخ پانیوں کے آبشاروں اور ٹھنڈی ہواؤں سے مستفید ہوتے ہیں ۔ اور کئی کئی دنوں تک یہاں قیام کرتے ہیں ۔ اس سیاحتی مقام میں جو کمی دیکھنے میں آئی ۔ وہ صوبائی حکومت اور ٹورزم کارپوریشن خیبر پختونخوا کی بے حسی ہے ۔ جو اپنی روایتی ناقص کارکردگی کے ساتھ سیاحت کے فروغ کی بات کرتے نہیں تھکتے ۔
کُُمراٹ میں ہمارا پروگرام رات کے قیام کا نہیں تھا ۔ بلکہ ہم اس ویلی کی طرف جانے سے پہلے فیصلہ کر چکے تھے ۔ کہ رات کا قیام کالام میں ہو گا ۔ اب دوبارہ اس وادی سے دیر پہنچ کر سوات کالام پہنچنا کسی طور بھی ممکن نہیں تھا ۔ اس لئے ہم نے شارٹ راستہ ڈھونڈنے کی کو شش کی ۔ کہ آٹھ گھنٹوں کی طویل مسافت اور شہری علاقوں کی گرمی سے بچا جا سکے ۔ ہماری یہ کو شش کا میاب رہی ۔ ہمیں بتا یا گیا ۔ کہ کمراٹ ویلی سے کالام کیلئے جنگلوں سے ہو کر راستہ نکلتا ہے ۔ لیکن یہ سڑک کچی ہے اور بہت بلندی سے ہوکر گزرتی ہے ۔ ا سلئے فور بائی فور گاڑی کے بغیر سفر کرنا مشکل ہے ۔ جبکہ ہمارے پاس ہائی ایس تھی ۔ ہماری گاڑی کا ڈارئیور نعمت خان جس کا تعلق چارسدہ سے تھا ۔ دیکھنے میں ایک نحیف و کمزور لیکن بلا کا بہادر نوجوان تھا ۔ جب راستے کی موجودگی کی بات سُنی تو کہا ۔ آپ بے فکر رہیں میں آپ کو اسی راستے سے کالام پہنچا دونگا ۔ ہمیں بھی اُس کی ہمت دیکھ کر خوشی ہوئی ۔ کیونکہ ہم جس راستے سے آئے تھے ۔ واپس اُسی راستے سے جانا نہیں چاہتے تھے۔
( جاری ہے )
kumrat dir00

kumrat dir5800

kumrat dir8885

kumrat dir40
kumrat dir78

kumrat dir58

kumrat dir88

kumrat dir8888

kumrat dir98
kumrat dir65877

kumrat dir656

kumrat dir658770

kumrat dir1223

kumrat dir67

kumrat dir7

kumrat dir5
kumrat dir658

kumrat dir6587
kumrat dir12

kumrat dir3

kumrat dir1

kumrat dir34

kumrat dir13

kumrat dir4

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , , , , , , , , , ,
13371

یوم دفاع کے حوالے سے گرلز ڈگری کالج بونی میں پروقار تقریب

بونی (نمائندہ چترال ٹائمز ) یوم دفاع پاکستان کے حوالے سے ایک پروقار تقریب گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج بونی میں منعقد ہوئی ۔ جس میں سب ڈویژن انتظامیہ کے اعلیٰ حکام کے علاوہ مختلف مکاتب فکر اور طالبات نے شرکت کی ۔ پروگرام کے آغاز میں پرنسپل سیدہ نگہت پروین نے مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے ساتھ جنگ آزادی کے شہداء اور غازیوں کی خدمات پر روشنی ڈالی ۔ اس تقریب کے مہمان خصوصی اسسٹنٹ کمشنر مستوج عنایت اللہ تھے ۔ جبکہ ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر نورمحمد اور ماہنامہ شندور کے چیف ایڈیٹر محمد علی مجاہد ، قاری شمشیر ، چیپس کے چیئرمین رحمت علی اور شہداء کے لواحقین بھی کثیر تعداد میں شریک تھے۔ مہمان خصوصی عنایت اللہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمارے شہدا ء اور غازیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دیکر اس وطن کی بقا کو ممکن بنا یا ہے ۔ یہ ملک ان شہداء کے خون اور غازیوں کی عظیم قربانیوں کا نتیجہ ہے ۔اب اسکی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے ۔ انھوں نے کالج کے طالبات کی بہترین پرفارمنس کو شاندار الفاظ میں سراہا ۔ اور کالج کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی یقین دہانی کی ۔ تقریب سے محمد علی مجاہد اور جعفر دوست نے بھی خطاب کیا ۔ اور گرین پاکستان کے سلسلے میں اپنی خدمات پیش کیں۔ پروگرام کے اخر میں ماہنامہ شندور، اسسٹ کمشنر مستوج اور پرنسپل کی طرف سے مشترکہ طور پر سب ڈویژن مستوج کے شہداکے بچیوں میں یادگاری شیلڈ اور تعریفی اسناد تقسیم کئے گئے ۔
ggdc booni defence day celebrated chitral 5

ggdc booni defence day celebrated chitral 7

ggdc booni defence day celebrated chitral 9
ggdc booni defence day celebrated chitral 4

ggdc booni defence day celebrated chitral 3

ggdc booni defence day celebrated chitral 6

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , , , , , , , , , ,
13286

حجاب :حسن نسوانیت……………..ڈاکٹر ساجد خاکوانی

Posted on

(4ستمبر:عالمی یوم حجاب کے موقع پر خصوصی تحریر)
قرآن مجیدمیں اﷲ تعالی نے حکم دیا ہے کہ’’ یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ وَ بَنٰتِکَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ ذٰلِکَ اَدْنآی اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(۳۳:۵۹)‘‘ترجمہ:اے نبیﷺ اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دوکہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں،یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور ستائی نہ جائیں اوراﷲ تعالی غفورالرحیم ہے‘‘۔اس آیت میں لفظ ’’جلابیب‘‘استعمال ہوا ہے جو ’’جلباب‘‘کی جمع ہے،جلباب سے مراد ایسی بڑی چادر ہے جس سے پورا جسم ڈھک جائے ۔اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ عورتیں اپنی چادر اچھی طرح لپیٹ کر اس کا ایک پلو اپنے اوپر لٹکا لیں۔حضرت عمر فاروق کے زمانے میں قاضی شریح سے اس آیت کا مطلب پوچھاگیاتو وہ قولاََجواب دینے کی بجائے کھڑے ہو گئے اور اپنی چادر سے اس طرح اپنے کل جسم کو سر تا پاڈھانپ لیاکہ صرف ایک آنکھی باہر رہ گئی۔حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ہم نے اپنے کپڑوں میں سے موٹے کپڑے چھانٹ کر علیحدہ کیے اور ان سے اپنے دوپٹے بنالیے۔ایک مسلمان خاتون ام خلادرضی اﷲ تعالی عنھاکابیٹا ایک جنگ میں شہید ہوگیا،اتنی بڑی پریشانی کی حالت میں خدمت اقدس ﷺمیں پیش ہوئیں اور معاملے کے بارے میں اس حالت میں استفسارفرمایاکہ جسم مکمل طور پر چادر میں ڈھکاہواتھااور چہرے پر نقاب تھا۔اصحاب رسولﷺ نے حیرانی کااظہارکیاکہ صدمے کی اس حالت میں بھی اس قدر پردہ؟؟؟تو اس صحابیہ نے جواب فرمایا کہ بیٹا کھویاہے ،شرم و حیاتو نہیں کھوئی۔
اسی طرح ایک اور مقام پر اﷲ تعالی نے فرمایا کہ’’ِّ وَ اِذَا سَاَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَسْءَلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ ذٰلِکُمْ اَطْہَرُ لِقُلُوْبِکُمْ وَ قُلُوْبِہِنَّ وَ مَاکَانَ لَکُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ (۳۳:۵۳)‘‘ترجمہ:’’نبیﷺ کی بیویوں سے اگرتمہیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگاکرویہ تمہارے لیے اور اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے ،تمہارے لیے یہ ہرگزجائزنہیں کہ اﷲ کے رسولﷺ کو تکلیف دو‘‘۔اس آیت میں حکم حجاب کے ساتھ ساتھ مصلحت حجاب بھی بتادی گئی۔اس آیت کے نزول سے پہلے تمام مسلمان بلاروک ٹوک امہات المومنین کے پاس آتے جاتے تھے جبکہ کچھ مسلمانوں کو یہ بات سخت ناگوار محسوس ہوتی تھی اور ایک بار تو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اس کا اظہار کر بھی دیاکہ کاش آپﷺ امہات المومنین کو پردے کا حکم دیتے۔آخر کار یہ آیات نازل ہوئیں جس کے بعد صرف محرم مرد ہی امہات المومنین کے ہاں آتے جاتے اور باقیوں کے لیے پردے کی پابندی عائد کر دی گئی۔قرآن مجید کا اسلوب بیان ہے کہ کسی ایک فرد یا طبقے کو حکم دے کر کل امت مراد لیتاہے مثلاََنبی علیہ السلام کومخاطب کر کے حکم دیا جاتا ہے لیکن اس سے مرادکل امت کوحکم دینا ہوتاہے،اسی طرح یہاں بھی اگرچہ صرف امہات المومنین کو حکم دیا گیا لیکن اس حکم کی مطابعت کل صحابیات نے کی اور مدینہ کے کل گھروں میں پردے لٹکا دیے گئے اور عام لوگوں کاگھروں میں آناجانا بندہو گیاسوائے محرم مردوں کے۔اس طرح سے مخلوط مجالس اور مردوزن کے آزادانہ میل جول پر کلیتاََ پابندی لگ گئی۔
اسی سورۃ میں ایک اور جگہ ارشاد فرمایا کہ’’ وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرَّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْاُوْلٰی(۳۳:۳۳)‘‘:ترجمہ (اے خواتین اسلام)اور اپنے گھروں میں رہاکرواور دورجاہلیت کی سج دھج نہ دکھاتی پھراکرو‘‘۔اس آیت میں لفظ ’’تبرج‘‘وارد ہواہے جس کے تین معانی ہیں ۱۔اپنے چہرے اور جسم کی موزونیت اور حسن لوگوں کو دکھانا،۲۔اپنے چمکتے زیوروں اور زرق برق لباس اور سامان آرائش کی نمائش کرنااور۳۔اپنی چال ڈھال اور نازوانداز سے خود کو نمایاں کرنا۔پس عورت کا میدان کار اس کے گھر کی چار دیواری ہے ،محسن نسوانیتﷺنے فرمایا کہ ’’عورت تو سراپا پردہ ہے،جب وہ گھرسے نکلتی ہے تو شیطان اسے گھورتاہے اور وہ اﷲ تعالی کی رحمت کے قریب تر اسی وقت ہوتی ہے جب وہ اپنے گھر کے اندر ہو‘‘۔ان احکامات کے نتیجے میں کسی مجبوری یعنی تعلیم یا علاج یاصلہ رحمی کے لیے تو گھرسے نکلنا بجا لیکن محض کھیل تماشے اور سیر سپاٹے کے لیے اس طرح گھر سے نکلنا کہ عورت کے ساتھ اس کی تمام تر عیش سامیانیاں بھی موجود ہوں ،تو اس سے کلی طور پر منع کر دیا گیا۔جو لوگ کسی بھی طرح سے عورت کو بلا کسی شرعی عذرکے گھر سے باہر نکالنے کا جواز پیش کرتے ہیں وہ دراصل دانستہ یا نادانستہ اصحاب سبت کا کردار اداکرنے کی کوشش کرتے ہیں جنہوں نے اﷲ تعالی کے حرام کو حلال اورحلال کو حرام کرنے کی کوشش کی تھی اور اس کے لیے حیلے بہانے تراشے تھے پس وہ قوم ذلیل بندر بنادی گئی اور ان کی نسل ہی ختم ہو گئی۔حقیقت یہ ہے کہ اﷲ تعالی اپنے احکامات اوراپنے نیک بندوں کامذاق و استہزابالکل بھی پسند نہیں ہے ۔یہودیوں کے بارے میں قرآن نے نقل کیاہے کہ ’’سمعنا وعصینا‘‘کہ ہم نے سن لیالیکن مانا نہیں اور نافرمانی کی جبکہ مسلمانوں کے بارے میں قرآن نے بتایا کہ ’’سمعنا واطعنا‘‘کہ ہم نے سنا اور مان بھی لیااور اطاعت و فرمانبرداری بھی کی،سو جس جس تک یہ احکامات پہنچے اس کے ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ بلا چوں و چراان کو تسلیم کر لے۔
اسی طرح کاایک حکم اﷲ تعالی نے سورۃ نور میں بھی ارشاد فرمایا ہے کہ’’ وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ وَ لَایُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوْبِہِنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ اٰبَآءِہِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ اَبْنَآءِہِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ اِخْوَانِہِنَّ اَوْ بَنِیْٓ اَخْوَانِہِنَّ اَوْ بَنِیْٓ اَخَوٰتِہِنَّ اَوْ نِسَآءِہِنَّ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُنَّ اَوِ التّٰبِعِیْنَ غَیْرِ اُوْلِی الْاِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْہَرُوْا عَلٰی عَوْرٰتِ النِّسَآءِ وَ لَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِہِنَّ لِیَعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِہِنَّ وَ تُوْبُوْ ٓا اِلَی اللّٰہِ جَمِیْعًا اَیُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ(۲۴:۳۱)‘‘ترجمہ:اے نبیﷺمومن عورتوں سے کہہ دو اپنی نظریں بچاکہ رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا طبناؤ سنگھار نہ دکھائیں سوائے اس کے کہ جو خود ہی ظاہر ہو جائے اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رکھیں وہ(مومن عورتیں)اپنا بناؤ سنگھار(صرف) ان لوگوں کے سامنے ظاہر کر سکتی ہیں :شوہر،باپ،شوہروں کے باپ،،اپنے بیٹے،شوہروں کے بیٹے،بھائی،بھائیوں کے بیٹے ،بہنوں کے بیٹے ،اپنے میل جول کی عورتیں،اپنے لونڈی غلام،وہ زیردست مرد جوکسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں اور وہ بچے جوعورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں ۔وہ اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپارکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے،اے مومنوتم سب مل کر اﷲ تعالی کے حضور توبہ کرو توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے۔‘‘اس آیت میں اسﷲتعالی نے بڑی وضاحت سے بتادیاہے کہ صرف محرم مرد وں کے سامنے ہی اپنی زیب و زینت کااظہار کیاجا سکتا ہے اوربس۔
آواز کے بارے میں سورۃ احزاب میں اﷲتعالی کا حکم ہے کہ’’ یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ وَّ قُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا(۳۳:۳۲)‘‘ ترجمہ:نبیﷺ کی بیویو؛تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو،اگرتم اﷲتعالی سے ڈرنے والی ہو تو(مردوں سے)دبی دبی زبان میں بات نہ کیاکرو کہ دل کی خرابی کاکوئی شخص لالچ میں پڑ جائے بلکہ صاف سیدھی بات کرو‘‘۔یہاں ایک بار پھر قرآن مجید نے اپنے عمومی اسلوب کے مطابق امہات المومنین کو خطاب کر کے تو تمام خواتین اسلام کو مراد لیاہے۔اس آیت میں عورتوں کوآواز کے پردے کی تلقین کی گئی ہے۔اسلام کے قوانین عورتوں کو بلاضرورت مردوں سے گفت و شنید کی اجازت نہیں دیتاتاہم اگر بامرمجبوری بات کرنی بھی پڑے تو خواتین کے لیے اﷲ تعالی کاحکم ہے کہ اپنی آواز میں نرمی اختیار نہ کریں کہ مبادا کسی کے دل میں کوئی بری آس و امید جنم لے بلکہ سیدھی اورصاف بات کی جائے تاکہ معاشرے کا ماحول انتہائی پاکیزہ رہے اوراخلاقی آلودگیوں سے انسانوں کو بچایا جا سکے۔یہ تمام احکامات اگرچہ کسی قدر دقت طلب ضرور ہیں لیکن ان کے ثمرات کو دیکھاجائے تو دنیاوآخرت کی کامیابیوں کے نتیجے میں ان احکامات کی مشقت گویا کچھ بھی نہیں،نظروں کی پاکیزگی براہ راست کردار پر اثر انداز ہوتی ہے اور کردار کی پاکیزگی سے ہی نسلوں کا حسب نسب وابسطہ ہے۔
پس عورت کو چاہیے کہ اپنا ستر،جس میں منہ اور ہاتھ کے سواکل جسم داخل ہے،چھپائے رکھے،جہاں محرم مردہوں وہاں زیب و زینت کے ساتھ آ سکتی ہے جہاں بہت قریبی رشتہ دار ہیں وہاں بغیر زیب و زینت کے آسکتی ہے تاکہ قطع رحمی واقع نہ ہواور جو جگہ بالکل غیر مردوں کی ہو وہاں مکمل پردے ،نقاب اور حجاب کی پابندی کے ساتھ آئے حتی کہ اپنی آوازکو بھی شیرینی سے خالی کر کے گفتگوکرے۔یہ تعلیمات عورت کی فطرت کے عین مطابق ہیں جس سے عورت کی نسوانیت محفوظ رہتی ہے ،اس کی عفت و پاک دامنی کاجوہرمیلا نہیں ہوتااور عنداﷲوہ عورت بہت بڑے اجر کی حق دار ٹہرے گی۔جوعورتیں ان احکامات کا خیال نہیں رکھتیں تو مردوں کے ساتھ مسلسل میل جول کے نتیجے میں ان کے چہروں سے ملائمیت و نورانیت و معصومیت رخصت ہو جاتی ہے،ان کے رویوں میں عجیب سی غیرفطری کرختگی آجاتی ہے اورنتیجۃ وہ ایک ایسی شخصیت میں ڈھل جاتی ہیں جس میں مامتا،زوجہ اورخواہرہ جیسے اوصاف عنقا ہو جاتے ہیں اورپھرایسی عورتوں سے وابسطہ مردحضرات تلاش نسوانیت میں جب گھرسے باہر نظریں دوڑاتے ہیں تو معاشرے میں ایک نہ ختم ہونے والا برائی کادائرہ شروع ہو جاتاہے جسے قرآن نے کہاکہ ’’ عَلَیْہِمْ دَآءِرَۃُ السَّوْء‘‘کہ وہ برائی کے گھیرمیں آجاتے ہیں۔
[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , , , , , , , , , ,
13204

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی امریکی دباؤ برداشت کر پائیں گے ؟…. پیامبر…..قادر خان یوسف زئی

Posted on

پاکستان کے نئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے ہی پہلی پریس بریفنگ میں خارجہ پالیسی کا ازسر نو جائزہ لینے اور سفارتی مشنز کی بلاجواز اکھاڑ پچھاڑ نہ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی حکمراں جماعت میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں ۔ پاکستان مسلم لیگ سے پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں آنے والے شاہ محمود قریشی پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بھی وزیر خارجہ رہ چکے ہیں اور انہیں پاکستان کو درپیش خارجی معاملات پر مشکلات کا ادارک ہے۔ پاکستان کے لئے سب سے بڑا مسئلہ اس وقت امریکی انتظامیہ بنی ہوئی ہے او ر نئی حکومت کو بھی امریکی انتظامیہ نے اپنے پیغام میں سابقہ رویوں کو ہی دوہرایا ہے۔ امریکی اعلیٰ عہدے دار نے امریکی پالیسی کے عنوان سے صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے ایک مرتبہ پھر پاکستان پر الزام لگایا ہے کہ دہشت گرد گروپ پاکستان کی سر زمین میں موجود ہیں ۔ امریکا نے زور دیتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کرے یا افغانستان دھکیلے۔ اپنی گفتگو میں امریکی محکمہ خارجہ کی اعلیٰ عہدیدار کا کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا خواہاں ہے اور امریکی حکومت ”پاکستان کی سرحدوں کے دونوں جانب امن کی اہمیت سے متعلق وزیرِ اعظم عمران خان کے بیان کا خیرمقدم کرتی ہے۔”افغانستان اور خطے میں سکیورٹی کی صورتِ حال سے متعلق ایک سوال پر ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ افغانستان کی صورتِ حال میں بہتری کے لیے پاکستان کا کردار بہت بنیادی ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکہ پاکستان پر زور دیتا آیا ہے کہ وہ یا تو (افغان)طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے سخت اقدامات کرے یا پھر انہیں اپنی سرزمین سے بے دخل کرکے واپس افغانستان جانے پر مجبور کرے۔ امریکی عہدے دار نے ایک مرتبہ پر خطے میں بھارت کے کردار کو بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا ہے ۔ پاکستانی حکام ان الزامات کی تردید کرتے آئے ہیں اور ان کا موقف ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران سرحدی علاقوں میں پاکستانی فوج کی کارروائیوں کے بعد ایسے تمام مبینہ ٹھکانے ختم کیے جاچکے ہیں۔لیکن امریکا پاکستان کے موقف پر اپنی ضد اور ڈومور کو ترجیح دیتے ہوئے پاکستان پر دباؤ بڑھانے کی ہر سطح پر کوشش کررہا ہے۔ امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو ستمبر کے پہلے ہفتے میں پاکستان کا دورہ کرنے کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں گو کہ ابھی تک حتمی تاریخ کا سرکاری سطح پر اعلان نہیں کیا گیا تاہم مغربی ابلاغ کے مطابق امریکی وزیر خارجہ کا متوقع دورہ5ستمبر کو متوقع ہے۔ پاکستان کی سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کے مطابق دورے کی تفصیلات طے کی جا رہی ہیں۔
وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے لئے امریکا کی جانب سے جارحانہ بیانات اور اہم عہدے دار کی متوقع آمد نہایت اہمیت کی حامل تصور کی جا رہی ہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ نومنتخب وزیر اعظم ماضی کے حکمرانوں کی طرح امریکا کے ڈومور کا جواب کس انداز میں دیتے ہیں۔ تاہم اپنی دو تقاریر میں عمران خان نے امریکا کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کو برابری کی سطح پر قائم رکھنے کا عندیہ دیا تھا ۔ لیکن گذشتہ حکومتوں کے بھی اس قسم بیانات سامنے آتے رہے ہیں۔ نئی حکومت کے لئے امریکی انتظامیہ کا رویہ کس قدر معاوندانہ ہوتا ہے اس کا اندازہ تو امریکی عہدے داروں کے بیانات سے ہورہا ہے کہ امریکا پاکستان کو درپیش معاشی دشواریوں کی آڑ میں دباؤ بڑھا کر ماضی کی طرح مطالبات کو منوانے کی کوشش کرسکتا ہے۔ نئی حکومت سے اس بات کی توقع تو نہیں کی جاسکتی کہ وہ امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات کو خراب کرنے کے لئے سرد و سخت عمل کا مظاہرہ کرے گی کیونکہ پاکستانی معیشت بہرحال اس وقت امریکی مالیاتی اداروں کے چنگل میں ہیں اور کسی بھی معاشی کمزور حکومت کے لئے اس وقت سخت اقدامات لینا نہایت دشوار گذار فیصلہ ہوگا۔
وزیر اعظم پاکستان نے پُرخار وادی میں قدم رکھ دیا ہے اور اب ان کے وزیر خارجہ کا امتحان ہے کہ وہ امریکا کو کس طرح مطمئن کرپاتے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانے موجود نہیں ہیں۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور عسکری قیادت تو کئی بار امریکا کو باور کراچکے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کا قلع قمع کیا جاچکا ہے لیکن افغانستان میں پاکستان کی بقا و سلامتی کے دشمن بہرحال موجود ہیں۔ جن کے خلاف امریکا اور افغانستان کی دوہری حکومت قابل ذکر کوئی کردار ادا نہیں کررہی۔ عام انتخابات میں افغانستان کی سرزمین میں موجود دہشت گرد تنظیموں نے پاکستانیوں کا بڑا جانی نقصان کیا تھا ۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان کے خلاف امریکا اور افغانستان کی ہرزہ سرائی میں کمی واقع نہیں ہو رہی۔ کابل میں حالیہ دھماکوں کا الزام کابل حکومت نے ایک مرتبہ پھر پاکستان پر عائد کرتے ہوئے اعتماد کی فضا کو نقصان پہنچایا ہے۔ کابل حکومت افغان طالبان کی بڑھتی قوت سے سخت خوف زدہ ہوچکی ہے ۔ افغان طالبان جب چاہتے ہیں کسی بھی شہر میں بڑا حملہ کرکے افغان سیکورٹی فورسز کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔اور حملے کے بعد اپنی قوت کا مظاہرہ کرکے واپس اپنی محفوظ پناہ گاہوں میں بھی چلے جاتے ہیں۔ یہ عمل کابل حکومت اور امریکی انتظامیہ کے لئے دنیا بھر میں سبکی کا باعث بنا ہوا ہے ۔ افغانستان کا دارالحکومت کا صدراتی محل بھی اب مزاحمت کاروں کے حملوں سے محفوظ نہیں رہا ہے۔ افغانستان کی 99ویں یوم آزادی کی تقریبات اور صدارتی محل میں صدر اشرف غنی کی تقریر کے دوران مسلح راکٹ حملوں سے دنیا بھر یہ پیغام ایک مرتبہ پھر گیا کہ کابل دوہری حکومت کی عمل داری مکمل طور پر کمزور ہوچکی ہے۔ امریکی انتظامیہ بھی افغانستان کی موجودہ صورتحال سے سخت نالاں ہوچکی ہے اور مغربی ذرائع ابلاغ سے موصولہ خبروں کے مطابق ایک بار پھر یہ اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ افغانستان کی جنگ سے امریکی فوجیوں کی جگہ پرائیوٹ سیکورٹی ادارے کو ٹھیکہ دے دیا جائے۔ کرائے کے یہ فوج عراق میں بلیک واٹر کے نام سے استعمال ہوچکے ہیں لیکن انسانی حقوق کی سخت خلاف ورزیوں کی وجہ سے بلیک واٹر کو سفاک و بدترین قاتلوں کی دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا۔
مغربی ذرائع ابلاغ سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ایرک پرنس نے بلیک واٹر کمپنی بیچ کر ایک نئی سیکیورٹی کمپنی قائم کر لی۔اور اب وہ اس کے لیے افغانستان کا کنٹریکٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ارب پتی امریکی کاروباری شخصیت ایرک پرنس نے افغانستان میں امریکہ کی جنگ پرائیویٹ کمپنی کو دینے کی تجویز پیش کی ہے جس پر اطلاعات کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ دلچسپی لے رہی ہے جب کہ کئی عہدے دار اس تجویز کو گمراہ کن قرار دے رہے ہیں۔ ایرک پرنس افغانستان کی جنگ ٹھیکے پر حاصل کرنے کے لئے باقاعدہ میڈیا مہم چلا رہا ہے ۔ ایرک پرنس افغانستان کی جنگ میں 45ارب ڈالر سالانہ امریکی اخراجات کی جگہ 10ارب ڈالر اور 90 پرائیوٹ طیاروں کے ساتھ کام کرنے کی تجویز امریکا کو دے رہا ہے ۔ ایرک پرنس گزشتہ ایک برس سے اپنے منصوبے پر امریکی انتظامیہ کو قائل کرنے کی کوشش کررہا ہے اور مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ نے امریکی فوجیوں کی ناکامی اور بھاری اخراجات کی لاحاصل جنگ سے باہر نکلنے کے لئے ایرک پرنس کی تجویز پر غور کرنا شروع کردیا ہے۔ نئی افغان حکمت عملی کا ایک سال مکمل ہونے اور مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکامی کی وجہ سے ایرک پرنس کو امید ہے کہ اس بار ان کا منصوبہ توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے گا۔این بی سی نیوز نے پچھلے ہفتے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ صدر ٹرمپ پرنس کی نئی ویڈیو سے متاثر دکھائی دیتے ہیں اور نیوی سیل کے سابق عہدے دار کے منصوبے میں دلچسپی لے رہے ہیں کیونکہ انہیں افغانستان میں امریکی حکمت عملی ناکام ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اگر پرنس افغان جنگ کا ٹھیکہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہزاروں امریکی فوجی اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں گے اور ان کی جگہ نسبتاً کم تعداد میں پرائیویٹ سیکیورٹی اہل کار لے لیں گے جنہیں 90 طیاروں پر مشتمل ایک پرائیویٹ ایئر فورس کی مدد حاصل ہو گی۔پرنس کا کہنا ہے کہ ان کی پرائیویٹ سیکیورٹی کمپنی امریکہ کی افغانستان حکمت عملی کو آگے بڑھائے گی اور پرنس کے بقول ان کی کمپنی افغانستان میں امریکہ کے ایک وائسرائے کے طور پر کام کرے گی۔
پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی امریکا کے ساتھ تعلقات کی سرد مہری کو کس طرح کم کرسکتے ہیں اس کا باقاعدہ لائحہ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ نئی حکومت کی جانب سے مستقبل کی پالیسیوں کے حوالے بڑے دعوے تو سامنے آرہے ہیں لیکن زمینی حقائق کے مطابق لائحہ عمل کا ایسا کوئی منصوبہ بہرحال نہیں آسکا ہے جس کے بعد یہ رائے قائم کی جاسکے کہ پاک ۔ امریکا تعلقات میں تناؤ کم ہوسکتا ہے۔ نومنتخب وزیر اعظم کی جانب سے یہ اعلان بھی سامنے آچکا ہے کہ وہ تین مہینے دوران کسی بیرون ملک دورے پر بھی نہیں جائیں گے۔ گو کہ وزیر اعظم کا حلف اٹھانے سے قبل عمران خان کو بھارت ، افغانستان ، ایران او ر پھر چین سمیت دیگر ممالک سے دورے کی دعوت مل چکی ہے۔ اقوام متحدہ کے آئندہ ماہ اجلاس میں بھی پاکستانی وفد کی قیادت وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ہی کریں گے ۔ اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب ملیحہ لودھی نومنتخب وزیر اعظم سے بنی گالہ میں ملاقات کرچکی تھی جس میں انہوں نے اقوام متحدہ کے اجلاس کے حوالے سے بریفنگ بھی دی تھی۔ تاہم اس وقت پاکستان جن مسائل کا شکار ہے اس سے باہر نکلنے کے لئے پاکستان کی نئی حکومت کو ابتدا ہی میں بڑے سفارتی چیلنج کا سامنا کرنا پڑگیا ہے۔
افغانستان میں تیزی سے تبدیل ہوتی صورتحال اور کابل دوہری حکومت کی عسکری کمزوریوں اور پاکستان پر الزام تراشیوں کی روش پاکستان کی نئی حکومت کے لئے ایک بڑے چیلنج کا درجہ رکھتی ہے۔ شاہ محمود قریشی نو آموز وزیر خارجہ نہیں ہیں ۔ پاک ۔ امریکا تعلقات کے علاوہ پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کے مد و جزر کو اچھی طرح جانتے ہیں اور انہیں اُن مشکلات کا بھی ادارک ہے کہ اُن کے لئے ان مشکلات کو انفرادی حیثیت میں دور کرنا ممکن نہیں ہے۔ پاکستان کی عسکری قیادت اور ان پالیسیوں کو لیکر چلنا سول حکومت کے لئے بھی ایک امتحان ہے کہ خارجہ پالیسی کے معاملات میں ماضی میں جو مشکلات درپیش رہی ہیں ا ب سول ، ملٹری تعلقات احسن انداز میں آگے بڑھ سکیں ۔ عموماََ یہی ہوتا رہا ہے کہ امریکی عہدے دار سول حکومت سے علیحدہ اور عسکری قیادت سے جداگانہ ملاقاتیں کرکے یہ تاثر دیتی رہی ہے کہ پاکستان کی سول و ملٹری قیادت ایک صفحے پر نہیں ہیں۔ سابق حکومت میں ایک مرتبہ ایسا عمل ضرور ہوا جب سول و ملٹری قیادت نے ایک ساتھ بیٹھ کر امریکی اہم عہدے دار سے ملاقات کی اور پاکستانی موقف پر دونوں سول ملٹری قیادت نے یکجا ہوکر ایک مثبت پیغام دیا ۔ چونکہ عمران خان تبدیلی کا نعرہ لیکر آئے ہیں اور امریکا کے ساتھ ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں تو ان کے لئے یہ امتحان بھی ہے کہ کیا امریکی انتظامیہ کے کسی عہدے دار کا سرخ کارپیٹ پر استقبال ان کا ہم منصب ہی کرے گا ۔ اور کیا امریکا کے کسی عہدے دار کے ساتھ پاکستانی ہم منصب ہی ملاقات و مذاکرات کرے گا۔
وزیر اعظم پاکستان عمران خان اپنے سیاسی جلسوں میں کئی بار ایسی مناظر چلا چکے ہیں کہ امریکا ، ماضی میں پاکستانی صدر کا کس طرح استقبال کیا کرتے تھے بقول عمران خان اب پاکستان کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ منتخب وزیر اعظم کے ’’ کپڑے‘‘ تک اتار لئے جاتے ہیں۔ سفارتی معیار و اقدارکے مطابق ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ کسی بھی ملک کا ہم منصب اپنے ہم منصب سے ہی ملاقات و گفت و شنید کرے۔ اگر امریکی وزیر خارجہ مائیک پاکستان آتے ہیں تو کیا پاکستانی قوم اس بات کی توقع نومنتخب وزیر اعظم سے کرسکتی ہے کہ امریکی وزیر خارجہ اپنے منصب پاکستانی وزیر خارجہ سے ہی ملاقات و مذاکرات کریں ۔ سول و ملٹری قیادتوں سے جداگانہ ملاقاتوں کی روش کا خاتمہ ہو اور برابری کی سطح پر پاک۔ امریکا تعلقات کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی جائے۔ بظاہر یہ ایک مشکل عمل ہے لیکن یہ ناممکن نہیں ہے کیونکہ پاکستان اپنی جغرافیائی اہمیت اور اصولی موقف کی وجہ سے امریکی انتظامیہ کے اہم عہدے دار کے ساتھ برابری کی سطح پر گفت و شنید کرچکا ہے۔امریکا ، پاکستان پر جتنا دباؤ بڑھانا چاہتا تھا وہ بڑھا چکا ، امریکا کو پاکستان کی جتنی امداد کم کرنا تھی وہ اُس نے کم کردی ، بھارت کی چاپلوسی کے تمام ریکارڈ امریکا توڑ چکا ہے۔ افغانستان کے دشنام طرازیوں کی پشت پناہی میں کسی قسم کی کسر نہیں چھوڑتا ۔ تو پھر اس کے بعد امریکا کا پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لئے کیا کردار رہ جاتا ہے۔ مذہبی عدم برداشت کی واچ لسٹ میں پاکستان کو شامل کراچکا ہے ۔ پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لئے ایف ٹی ایف کی گرے لسٹ میں نام دوبارہ داخل کرچکا ہے ۔ بلیک لسٹ میں پاکستان کا نام ڈلوانے کی ہر سعی کرچکا ہے۔ سی پیک منصوبے پر امریکی عزائم ڈھکے چھپے نہیں ہیں ۔ دیا میر میں پانی کی قلت کو دور کرنے کے لئے ڈیم بنانے کی اشد ضرورت ہے ، لیکن مالیاتی اداروں کو امریکا ڈکیٹیشن دے چکا ہے کہ دیا میر اور بھاشا ڈیم پر پاکستان کی مالی امداد نہ کی جائے ، یہاں تک کہ ابھی پاکستان نے اپنے قرضوں کی ادائیگی کے لئے آئی ایم ایف میں بیل آؤٹ پروگرام کی کوئی درخواست بھی نہیں دی تھی کہ مالیاتی ادارے کو امریکا نے براہ راست ڈکٹیشن دے کر پاکستان کو بیل آؤٹ فنڈ دینے سے منع کردیا ۔ امریکا نے پاکستان کے فوجیوں کی تربیتی پروگرا م کو بھی ختم کردیا اور حالیہ بجٹ میں مختص فنڈز میں بھی انتہائی کمی کردی ۔
پاکستان کو اپنی مربوط اور دور رس خارجہ پالیسی بنانے کے لئے جہاں عسکری قیادت کی تجاویز کی ضرورت ہوگی وہاں پارلیمنٹ کو بھی اعتماد میں لیکر ایک ایسی پالیسی منظور کرانے ہوگی جس کے بعدکسی بھی عالمی قوت کے دباؤ کو برداشت کرنے اور اسے جواب دینے کے لئے وزارت خارجہ کو پریشانی کا سامنا نہیں ہوگا ۔پاکستان وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا یہ کہنا دلچسپ ہے کہ یہ تو وہی جگہ ہے گذرے تھے ہم جہاں سے ۔ لیکن اب حالات و واقعات و عالمی سیاسی منظر نامہ مکمل طور پر بدل چکا ہے۔ اس بات کا ادارک بھی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو ہوگا کہ لفاظی سے پاکستان کے مسائل کو ختم یا کم نہیں کیا جاسکتا ۔اس کے لئے پارلیمان کو اعتماد میں لے کر جرات اور خود اعتماد ی کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔ کیونکہ اس وقت پاکستان جس نازک دور سے گذر رہا ہے اس کی درستگی کے لئے کافی وقت ، قوت و وسائل درکار ہونگے۔
افغانستان میں کابل دوہری حکومت ایک مرتبہ پھر افغان طالبان کو مشروط مذاکرات کی پیش کش کرچکی ہے جس کا پاکستان نے بھی خیر مقدم کیا ہے ۔ کابل حکومت نے عید الفطر کی طرح افغان طالبان سے تین مہینے کی جنگ بندی کی بھی اپیل کی ہے جیسے افغان طالبان مسترد کرچکا ہے کیونکہ عید الفطر میں سیز فائر سے غلط فائدہ اٹھا کر افغان طالبا ن کے اجتماع کو جانی نقصان اور غلط پروپیگنڈا کیا گیا تھا ۔ اس وقت افغان طالبان کی مسلح مزاحمت پوری قوت کے ساتھ کابل حکومت اور امریکی اتحادیوں کے لئے درد سر بنی ہوئی ہے۔ پاکستان میں اس وقت نئی حکومت آئی ہے۔ اس لئے امریکا و کابل حکومت کے ساتھ افغان طالبان کو مذاکرات کے میز پر لانے کے لئے حقیقی معنوں میں وقت درکار ہوگا ۔ چین ، ایران اور روس کے ساتھ پاکستان کی سہ فریقی کانفرنسوں کے بعد افغان طالبان کا امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے اصولی موقف کو بھی دیکھنا پاکستان کے لئے اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان کے نو منتخب وزیر اعظم عمران خان بھی جنگ کے بجائے مذاکرات کے حامی ہیں ۔ لیکن اس کے لئے دشوار راستوں کو ہموار کرنے کے لئے امریکا اور نیٹو اتحادیوں کو اپنے موقف میں بھی لچک پیدا کرنا ہوگی ۔ خاص طور پر افغان طالبان اور سعودی حکومت کے درمیان تعلقات میں جو دوریاں پیدا ہوئی ہیں ۔ اس نے افغانستان کے مسئلے کو مزید گھمبیر بنادیا ہے۔متحدہ عرب امارات اور سعودی حکومت ماضی کے بجائے اس بار امریکی مفادات کو ترجیح دے رہے ہیں جس پر افغان طالبان کے امیرنے عید الاضحی میں دیئے گئے پیغام میں اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے سعودی عرب کو اپنا پرانا موقف اپنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے کہ جس طرح سعودی حکمرانوں نے روس کی جنگ میں افغان طالبان کی اس لئے مدد کی تھی کیونکہ سوویت یونین جارح تھا ، اسی طرح امریکا بھی ایک ایک جارح مملکت ہے جس نے افغانستان میں بزور طاقت قبضہ کرنے کی کوشش کی ہے جو 17برسوں میں بھی کامیاب نہیں ہوسکے ۔
زمینی حقائق پاکستان کے لئے بڑے دشوار گذار ہیں ۔ کیونکہ ایک جانب پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کو مملکت میں پناہ دی ہوئی ہے ۔ جیسے کابل حکومت واپس لینے میں لیل وحجت کررہی ہے تو دوسری جانب پاکستان سوویت یونین کی جنگ کے مضمرات سے باہر نہیں نکل سکا اور افغان، سوویت یونین جنگ کے مسلح گروپوں نے پاکستان میں محفوظ پناہ گائیں بنا لی تھی اگر پاکستان افغان طالبان کے خلاف امریکی و سعودی پالیسی پر مصر رہتا ہے اور اس جنگ کا حصہ بنتا ہے جس کا مطالبہ امریکا کررہا ہے تو ایسی جنگ کا متحمل پاکستان نہیں ہوسکتا ۔ پاکستان کے نومنتخب وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی مملکت خارجہ پالیسی کب بناتے ہیں ۔ اور اس خارجہ پالیسی پر عمل پیرا بھہ رہ پاتے ہیں یہ آنے والا وقت بتائے گا ۔ تاہم نئی حکومت سازی کے اس موقع پر امریکی منفی بیانات اور ڈومور کے مطالبے غیر مناسب ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , , , , , , , ,
12976

کاروان خدمت………… تحریر: ظہیرالدین

Posted on

رمضان المبارک کے دن تھے جس میں ہرکوئی گھر تک اپنے آپ کو محدود کرنے اور ذیادہ سے ذیادہ آرام کی کوشش کرتاہے اور ناگزیر صورت کے بغیر شہر سے باہر جانے کو اپنے لئے کوہ گران سمجھتا ہے تو ایسے میں ایک دن ڈپٹی کمشنر چترال ارشاد سودھر کی گاڑی چترال ٹاؤن سے نکل کر چترال بونی روڈ پراپر چترال کی طرف رواں دواں ہوگئی ، پیچھے تمام صوبائی محکمہ جات کے ضلعی افسران کی گاڑیوں نے اسے ایک کاروان کی شکل دے دی جوکہ آگے جاکر کاروان خدمت ثابت ہوئی جس میں پہلی مرتبہ کسی ڈپٹی کمشنر نے سرکار ی افسران اور عوام کو ایک دوسرے کے سامنے لاکر ان کے سامنے یہ ثابت کردی کہ افسران پبلک سرونٹ ہیں اور عوام کے سامنے جوابدہ ہیں ۔ محکمہ جات کے افسران میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ افیسر ڈاکٹر اسرار اللہ، ایگزیکٹیو انجینئر ایریگیشن انجینئر علی احمد، ڈپٹی ڈی ای او حافظ نور اللہ، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے انجینئر آصف احمد، اے ڈی او شہزاد ندیم، ایس ڈی او سی اینڈ ڈبلیو بونی طار ق احمد، تحصیلدار مستوج نور الدین، ٹی ایم او مستوج کریم اللہ اور دوسرے افسران اس کاروان کا حصہ بن گئے تھے جبکہ ڈی سی آفس سے رشید الغفور اور امجد فرید بھی کاروان کا حصہ بن گئے تھے۔

dc chitral sodher visit

موڑکھو میں ژیلی کے تبلیغی مرکز مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد ڈی۔ سی نے نمازیوں سے مختصر خطاب کیا اور کہاکہ کھلی کچہریوں کے انعقاد کا مقصد سرکاری افسران کو عوام کے کٹہرے میں پیش کرنا ہے تاکہ انفرادی اور اجتماعی دونوں مسئلے ان کے گھروں کی دہلیز پر حل ہوسکیں۔ بعدازاں ہسپتال کے احاطے میں منعقدہ کھلی کچہری میں مقامی افرادعبدالکبیر، حمیدالجلال ، ظہیرالدین لال، مبارک حسین، مکرم خان، اشتیاق احمد، نذیر احمد، محی الدین ، رفیع الدین، امین اللہ، شیر حسین، امت کریم، حبیب خان، عبدالحمید ، حیدر کرار اور دوسروں نے علاقے کے مسائل کی نشاندہی کردی۔ انہوں نے ہسپتال میں ڈاکٹر کی عدم موجودگی ، نوجوانوں کے لئے پلے گراونڈ، زنانہ ہائیر سیکنڈری سکول میں سبجیکٹ اسپیشلسٹوں کی کمی ، موڑکھو روڈ پر کام کی سست رفتاری، گولین گول بجلی گھر کی تکمیل کے باجود بجلی کی فراہمی میں بے قاعدگی، ابنوشی اسکیم کی خرابی اور اے کے آرایس پی کی پیڈ وپراجیکٹ کے تحت دراسن کے مقام پر بجلی گھر کی تعمیر میں کام کی بندش اور موڑکھو کا سب سے بڑا دیرینہ اور تشنہ تکمیل ابپاشی کا منصوبہ اتہک ایریگیشن پراجیکٹ کو سرد خانے کے نذر کرنے کی شکایات سامنے لے آئے۔انہوں نے نئی بننے والی موڑکھو ٹی ایم اے کے دفترات کو وریجون کے مقام پر قائم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ اس موقع پر تحصیل ناظم مستوج مولانا محمد یوسف اور ضلع کونسل کے رکن مولانا جاوید حسین بھی موجود تھے جبکہ اسسٹنٹ کمشنر مستوج عون حیدر گوندل اور ایس ڈی پی او موڑکھو عطاء اللہ نے بھی وریجون کے مقام پر کاروان خدمت میں شامل ہوگئے تھے۔ اس موقع پر ڈی۔ سی کے حکم پر ہر ایک افسر نے اپنے اپنے محکمے سے متعلق شکایت کی نوعیت اور اس کے حل کی ممکنہ صورتوں پر روشنی ڈالی ۔ اس موقع پر ڈی۔ سی نے اعلان کیا کہ کمیونٹی کی طرف سے مفت زمین ملنے پر سی ڈی ایل ڈی پروگرام کے تحت پلے گراونڈ کی تعمیر اور وزیر اعظم کے الیکٹریفیکیشن پروگرام کے تحت بجلی کا مسئلہ حل کرنے کا اعلان کیا۔ ٹی ایم اے آفس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ تورکھو اور تریچ کے عوام سے بھی اس بارے میں مشاور ت کے بعد حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔

dc chitral sodher visit2

دراسن موڑکھو میں عوامی شخصیت حمید الجلا ل کی میزبانی سے لطف اندوز ہونے کے بعد دوسرے روز کاروان کا رخ تورکھو کی طرف تھا جہاں ابھی تک کسی ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر نے قدم رنجائی نہیں کی تھی اور دیہات کے اکثر سادہ لوح لوگ شاید ڈپٹی کمشنر کو کوئی اور مخلوق سمجھتے تھے۔ موڑکھو سے روانگی کے بعد انہوں نے بونی بزند روڈ کا سب سے مشکل اور پہاڑی پورشن کا معائنہ کیا جس کا breakthroughبھی ہوچکا تھا جس کے لئے انہوں نے سی اینڈ ڈبلیو ڈیپارٹمنٹ کو ایک ڈیڈ لائن دے کر اپنے دورہ تورکھو اس بات سے مشروط کیا تھا۔ ایس ڈی او طار ق احمد سے بریفنگ لینے کے بعد ان کی گاڑی پہلی مرتبہ پہاڑی راستے سے گزر کر استارو گاؤں پہنچ گئی جس سے سفر کی مسافت 40منٹ سے ایک گھنٹہ کم ہوگئی تھی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بونی بزند روڈ وفاقی حکومت کا PSDPپراجیکٹ ہے جس کا آغاز پی پی پی کے گزشتہ دور حکومت میں ایم این اے شہزادہ محی الدین نے وزیر اعظم گیلانی سے35کروڑ روپے خصوصی طور پر منظور کرواکر کام کا افتتاح بھی خود کیا تھا لیکن سی اینڈ ڈبلیو ڈیپارٹمنٹ کی ڈیزائن میں تکنیکی غلطی کی وجہ سے ادھوری رہ گئی تھی۔اس ادھورے منصوبے کی تکمیل ان کے بیٹے ایم این اے شہزادہ افتخارالدین کے حصے میں آئی جس نے سابق وزیر اعظم نواز شریف سے ایک ارب 20کروڑ روپے منظور کروائے لیکن صوبائی حکومت کی سستی کی وجہ سے اب بھی تکمیل سے کافی دور ہے جس کے لئے شہزادہ افتخار نے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا اورموجودہ ڈی سی چترال کی پوسٹنگ کے وقت بالائی حکام کی طرف سے اس پراجیکٹ کی تکمیل کا خصوصی ٹارگٹ دے دیا گیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے سابق ایکسین سی اینڈ ڈبلیو مقبول اعظم سے اس بارے میں بریفنگ لینے کے بعد اس کی پراگریس کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دورکرنے کے بعد ایک تاریخ مقررکیا تھا کہ حالات جوبھی ہوں، وہ مقررہ تاریخ کو اس روڈ سے گزرکر تورکھو دورے پر جائیں گے اور روڈ کی یہ پہاڑی پورشن اس تاریخ کومکمل ہوگئی تھی۔ ایس ڈی او بونی طارق احمد ااور ان کی ٹیم کی دن رات محنت کی داد دیتے ہوئے وہ شاگرام پہنچ گئے ۔ اس موقع پرسفیر اللہ، مولانا حیات الرحمٰن ، مولانا امتیاز ، رحمت اللہ بیگ، صوبیدار محمد رفیع، قیوم بیگ، شاکر محمد، حسین زرین ور دوسروں نے ٹی ایم اے موڑکھو آفس کو وریجون میں قائم کرنے کی صورت میں اہالیان تورکھو کو درپیش مشکلات، رورل ہیتلتھ سنٹر شاگرام کو آغا خان ہیلتھ سروس کو دینے سے ہیلتھ کئر سروس کے متاثر ہونے اور علاج معالجے کی فیس کو عام آدمی کی پہنچ سے دور کرنے ، حکومت کے ساتھ ایم او یو سے انحراف کرنے اور سہولیات کی فقدان کے بارے میں شکایات کے انبار لگادئیے گئے ۔ اسی طرح 2015ء کے سیلاب میں تباہ شدہ انفراسٹرکچروں کی بحالی میں غیرمعمولی تاخیر، تورکھو روڈ کی تعمیر میں زمین مالکان کو معاوضے کی ادائیگی میں تاخیر، سی ڈی ایل ڈی کے ذریعے حفاظتی پشتے بناکر ورکوپ سے بزند تک علاقے کو دریا بردگی سے بچانے اورشاگرام میں نائب تحصیلدار کی عدم تعیناتی سے معمولی کاموں اور معمولی نوعیت کے مقدمات کے لئے بونی جانے کی ضرورت پر روشنی ڈالی ۔ ڈی سی نے اس موقع پر موجود اے سی مستوج کو ہدایت کرتے ہوئے کہاکہ ڈومیسائل سرٹیفیکٹ کی فراہمی کو شاگرام کے مقام پر یقینی بنانے اور معمولی مقدمات کی سماعت کے لئے ہرہفتے ایڈیشنل اے سی اور تحصیلدار کو شاگرام بھیجنے اور خود ہر ماہ شاگرام کے دورے کو یقینی بنائے۔انہوں نے کہاکہ تمام محکمہ جات کے ضلعی سربراہان کو بھی مہینے میں ایک دفعہ شاگرام کو دورہ کرنے کی ہدایات جاری کئے جائیں گے۔ انہوں نے دیگر مسائل کے حل کے لئے موقع پرموجود افسران کوہدایات جاری کردئیے جبکہ ٹی ایم اے آفس کے بارے میں کہاکہ ایسے مقام پر یہ قائم کیا جائے گا جہاں تمام چھ یونین کونسلوں کے عوام کی رسائی آسانی سے ہوسکے۔ انہوں نے کہاکہ آغا خان ہیلتھ سروس کے ساتھ طے شدہ ایم او یو کے تمام شقوں پر عملدارمد کو یقینی بنایا جائے گا اور انہیں کم فیسوں پر معیاری سروس دینے پر مجبور کیا جائے گا۔ اسی طرح انہوں نے کہاکہ تورکھو روڈ ان کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے اور وہ اس کی پراگریس تک چین سے نہیں بیٹھیں گے ۔ بعدازاں انہوں نے رورل ہیلتھ سنٹر شاگرام کا بھی دورہ کیا اور یہاں پردستیاب سہولیات میں بہتری لانے کی ہدایت کردی۔

dc chitral sodher visit3

کاروان نے شاگرام سے کھوت کا رخ کیاجوکہ روڈ سمیت بنیادی سہولیات سے محروم ایک خوب صورت وادی ہے جس کی آبادی دو ویلج کونسلوں میں منقسم ہے ۔ سابق ضلع کونسلر میرگلزار نے کاروان کی میزبانی کی اور اگلے دن اتوار کو کھوت کے جنالی میں اپنے گاؤں کے مسائل بیان کرنے کے لئے اہالیاں کھوت امڈ آئے تھے۔ممبر ضلع کونسل شیر عزیز بیگ کے علاوہ محمد اشرف، عبدالحمید ، محمد حسین، حاجی قیمت زادہ، صوبیدار گل جوان، غلام خان، عبدالستار، میر گلزار اور دوسروں نے علاقے کے مسائل بیان کرتے ہوئے کھوت میں بیسک ہیلتھ یونٹ کے بلڈنگ کی خستہ حالی، ڈاکٹر، پیرامیڈیکل اسٹاف اور وارڈ اردلی کی عدم موجودگی اور تشخیصی سہولیات کی عدم دستیابی کا ذکر کیا ۔ کھوت پولو گراونڈ میں تجاوزات ، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے واٹر سپلائی اسکیم کے ناقص ہونے ، مکتب سکول کی عمارت ، ہائی سکول کھوت میں امتحانی ہال کی ضرورت اور 40سال بعد بھی اس ہائی سکول کو ہائیر سیکنڈری کا درجہ نہ ملنے اور سب سے بڑھ کھوت روڈ کی تشویشناک صورت حال اور آئے روز حادثات جیسے مسائل سامنے آئے جبکہ اس علاقے کی خوب صورتی کے پیش نظر یہاں ٹورز م کی فروع کے لئے خصوصی اقدامات کرنے اور شا غ لشٹ نامی تفریحی مقام پر فیسٹول منعقد کرنے کی تجویز بھی سامنے آئے جس پر ڈی سی نے فیسٹول کے لئے تین لاکھ روپے کا اعلان کیا جبکہ پولوگراونڈ پر تجاوزات کو فوری طور پر بند کرنے اور لینڈ ریکارڈ کے مطابق مسئلے کو حل کرنے اور تجاوزات میں ملوث افراد کے خلاف کاروائی کا اعلا ن کیا۔انہوں نے شاگرام کی طرح یہاں بھی ڈومیسائل سرٹیفیکیٹ اور پولیس ویریفیکیشن سرٹیفیکیٹ کو ان کے گھر کی دہلیز پر فراہم کرنے کے لئے اے سی مستوج کوہدایات جاری کردی۔

dc chitral sodher visit36
کاروان کی اگلی منزل کھوت گاؤں تھا جہاں سڑک سمیت اجنو پل کی تعمیر نو کے لئے پرزور مطالبات سامنے آئے جنہیں علاقے کے باشندے سید محمد شاہ، عمران علی شاہ، محمد ظاہر شاہ، شاہ احمد، سعادت علی شاہ، سید جمال شاہ، محمد اسلم، مفتی عزیز، سید نظار شاہ اور دوسروں نے پیش کی۔ انہوں نے ڈی سی کی توجہ بیسک ہیلتھ یونٹ کی طرف دلاتے ہوئے کہاکہ 1983میں تعمیر شدہ اس ہسپتال کی عمارت مرمت اور دیکھ بال نہ ہونے کی وجہ سے کھنڈرات میں بدلنے کے قریب ہے اور ڈاکٹر سمیت دوسرے سہولیات سے یکسر محروم ہے۔ شاگرام اور کھوت کے عوام کی طرح انہوں نے بھی موڑکھو ٹی ایم اے کا دفتر کاغ لشٹ میں قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔ اسی طرح موبائل فون سروس ٹیلی نار کے سگنلز نہ ہونے کی شکایات بھی ان تینوں مقامات پر پیش کئے گئے تھے۔ ڈی سی نے ریچ روڈ پر اجنو کے مقام پر اے کے آر ایس پی کی طرف سے پل کی تعمیر کا اعلان کیا۔ کاروان نے واپسی پر جنت نظیر گاؤں اجنو کے مقام پر بھی وقاص احمد ایڈوکیٹ کے گھر کی وسیع وعریض لان میں مقامی لوگوں سے ان کے مسائل دریافت کئے اور افطاری کے بعد ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز چترال کی طرف روانگی کی۔
ان مقامات پر اپنے خطاب میں ڈپٹی کمشنر چترال ارشاد سودھر نے کہا کہ ان کچہریوں کا مقصد عوام کو عملی طور پر یہ دیکھانا ہے کہ تمام سرکاری افسران سول سرونٹ ہونے کے ناطے ان کی خدمت کے لئے ہیں اور ا ن کے مسائل کو ان کے دہلیز پر سننا اور حل کرنا ان کی ذمہ داریوں کا حصہ ہے۔ کیا۔ انہوں پر عوام کو یقین دہانی کرائی کہ ان کے نشاندہی کردہ مسائل ترجیحی بنیادو ں پر حل ہوں گے اور گلے ماہ وہ دوبارہ ان مقامات پر محکمہ جات کے سربراہان کو عوام کے سامنے لاکھڑا کریں گے۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , , , , , , , ,
11086

صدرتحریک حقوق مختاراحمد صوبائی اورامیراللہ کا این اے ون اور پی کی ون سے الیکشن لڑنے کافیصلہ

بونی ( چترال ٹائمز رپورٹ ) صدر تحریک حقوق عوام چترال مختار احمد سنگین لال نے آئندہ جنرل الیکشن میں صوبائی اسمبلی کی نشست پی کے ون سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیاہے ۔ اس موقع پر ایک اخباری بیان میں انھوں نے کہا کہ سب ڈویژن مستوج کے سابق دونوں ایم پی ایز نے مایوسی کے سوا عوام کو کچھ نہیں دیا ۔ انھوں نے بتایا کہ بونی دونوں ایم پی ایز کی آبائی گاؤں ہے مگر دس سالوں کے اندر اس کو ترقی دینے کے بجائے کھنڈر بنادئیے۔ انھوں نے مذید بتایا کہ چترال کے عوام اقراپروری و کرپشن کے خاتمے اور علاقے کی ترقی کیلئے تحریک حقوق عوام کے امیدواروں کو بھاری اکثریت سے کامیاب کرینگے ۔ مختار احمد نے بتایا کہ تحریک حقوق عوام چترال کے پلیٹ فارم سے قومی اسمبلی کیلئے لوئیر چترال سے امیدوار نامزد کیا جارہاہے ۔ جس کیلئے مشاورت جاری ہے ۔ ہم کرپشن فری چترال کے منشور کے ساتھ الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں اور چترال سے اس ناسور کو ختم کرکے ہی دم لیں گے ۔

 

 

……………………………………………………………………………………..
ریٹائرڈ صوبیدارامیر اللہ این اے ون اور پی کے ون چترال سے الکیشن لڑیں‌گے
چترال ( نمائندہ چترال ٹائمز ) ریٹائرڈ صوبیدار امیر اللہ نے این اے ون اور پی کے ون چترال سے الیکشن لڑنے کیلئے فارم لے لیا ہے ۔جبکہ وہ الیکشن کمپین پہلے سے شروع کررکھا ہے ۔ چترال ٹائمز سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں‌نے کہا کہ وہ بہی خواہوں سے صلح مشورے کے بعد دونوں یا ایک نشست سےالیکشن لڑنے کا فیصلہ کریں گے ۔ تاہم انھوں نے عوام سے آزمودہ لوگوں کو دوبارہ نہ آزمانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ انھیں بھی ایک دفعہ موقع دیکر آزمایا جائے۔
Amirullah candidate for NA 1

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , , , , , , , , , ,
10759

لاہور سے وادی کالاش ’’کافرستان‘‘تک کا یادگار سفر……. ممتازاعوان

خادم اعلیٰ کے شہر لاہور میں گرمی عروج پر ہو اور شدید گرمی میں ٹھنڈے علاقے میں جانے کا موقع ملے تو بھلا کون انکار کرے گا؟ پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ کے صدر ملک سلمان کی جانب سے پیغام ملا کہ کالاش فیسٹول میں لاہور،اسلام آباد اور کراچی سے کالم نگاروں کا ایک وفد لے کر جا رہے ہیں آپ بھی شریک ہوں تو فوری جانے والوں میں اپنا نام لکھوا دیا۔اگرچہ بیس افراد کے جانے کا طے تھا لیکن تعداد ساٹھ تک پہنچ گئی ملک سلمان کسی موقع پر گھبرائے نہیں بلکہ رب پر توکل کر کے بیس کی بجائے ساٹھ افراد کے قافلے کو لے کر چل پڑے۔

ہفتہ کی رات لاہور AFOHS کلب میں ڈنر تھا ۔کلب کے سی ای اوڈاکٹر قیصر رفیق نے اس حوالہ سے شاندار انتظامات کر رکھے تھے۔کراچی سے آنے والے معززمہمانوں کو کلب میں ہی رہائش دی گئی تھی۔ڈنر کا وقت دس بجے کا طے تھا اور دس بجے ہی میری کلب میں انٹری ہوئی تو کراچی سے آئے مہمان فیس بکی دوست بادشاہ خان اور محمد شفیق سے ملاقات ہوئی ،بعد ازاں کلب کے سی ای او ڈاکٹر قیصر رفیق نے آنے والے مہمانوں کو خوش آمدید کہا ۔سوئمنگ پول کے چاروں اطراف کھانے کے ٹیبل لگے تھے۔کھانے سے قبل کلب ،پنجاب حکومت اور فیڈریشن کی جانب سے وفد کے تمام شرکاء کو اعزازی شیلڈ دی گئیں۔اس تقریب میں لاہور پریس کلب کے صدر اعظم چوہدری ،سابق ایم ڈی پی ٹی ڈی سی و ممبر وزیر اعظم انسپیکشن کمیٹی چوہدری کبیر خان،مشیر وزیر اعلیٰ پنجاب اختر شاہ،کرنل ساجد بھی شریک ہوئے۔کلب کے سی ای او ڈاکٹر قیصر رفیقنے بتایاکہ ایرفورس کے تعاون کے ساتھ باقاعدہ پہلا کلب لاہور میں کھولا گیا جس میں وہ فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔انکا کہنا تھا کہ لکھنے والوں کے ساتھ ان کے دل میں خصوصی محبت ہے اسی لئے انہوں نے آج یہ محفل سجائی ،ملک سلمان و دیگر تمام کالم نگاروں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔کھانے سے فراغت کے بعد سفر کا آغاز ہوا۔

پنجاب حکومت نے پانچ گاڑیاں مہیا کر رکھی تھیں۔اعظم چوہدری صدر لاہور پریس کلب نے ملک سلمان کے جذبات وخدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ پنجا ب حکومت اپنے ایم پی ایز کو گاڑیاں نہیں دیتی ،ملک سلمان نے کالم نگاروں کے لئے گاڑیاں لے لیں اس پر انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں جس پر محفل تالیوں سے گونج اٹھی۔اس ٹور کے انتظامات کے حوالہ سے ملک سلمان کاکہنا تھا کہ خیبر پختونخواہ حکومت سے بھی گاڑیوں کے لئے رابطہ کیا گیا تھا لیکن انہوں نے انکار کر دیا حالانکہ اس وفد نے کے پی کے میں ہی جانا تھا ،بعد میں جب پنجا ب حکومت سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے گاڑیاں مہیا کر دیں۔پانچ گاڑیوں میں سے دو گاڑیاں خواتین کے حصہ میں آئیں کیونکہ خواتین کی بڑی تعداد بھی اس ٹور کا حصہ تھی۔تین گاڑیوں پر مرد حضرات سوار ہوئے اور یوں سفر کا باقاعدہ آغاز ہوا۔براستہ موٹروے راولپنڈی پہنچے جہاں مقامی ہوٹل میں کمروں کی بکنگ تھی وہاں مختصر آرام کیا اور نو بجے ناشتے کے لئے تیار ہو گئے۔ناشتہ کے بعد ہوٹل کے منیجرنے سفر کے حوالہ سے مختصر ہدایات دیں ،گروپ فوٹو کے بعد پنڈی سے چترال کے سفر کا آغاز ہوا جو ایک طویل ترین سفر تھا۔مردان اور مالاکنڈ کے اضلاع سے ہوتے ہوئے ہم لوئر دیر میں داخل ہوئے۔دیر لوئر اور دیر بالا دونوں کا شمار پاکستان کے حسین ترین قدرتی علاقوں میں ہوتا ہے۔ دیر لوئر میں ہم چکدرہ، تیمرگرہ، خال سے ہو کر دیر بالا کی حدود میں داخل ہوئے۔

جب واڑی پہنچے تو شام کے سات بج چکے تھے ،گاڑیاں رکیں تو ملک سلمان نے اعلان کیا کہ لواری ٹنل شام سات بجے بند ہو جاتی ہے اس لئے آج رات یہیں رکیں گے۔صبح سفر کا آغاز ہو گا۔دریا کنارے ایک پٹرول پمپ کی بیک سائیڈ پر ہوٹل تھا جس کو باہر سے دیکھ کر کسی بھی ہوٹل کا گمان نہیں ہوتا تھا۔خواتین کالم نگاروں کے لئے رکن قومی اسمبلی طارق اللہ نے اپنی رہائشگاہ پر ٹھہرنے کا انتظام کر رکھا تھا۔مرد کالم نگار ہوٹل میں رکے،جب ہم واڑی پہنچے تو سات بج چکے تھے ،ان علاقوں میں مغرب کے بعد بازار ،ہوٹلز سب کچھ بند ہو جاتا ہے۔کھانا کھانے کے بعد چائے پینے نکلے،دو کلومیٹرکا پیدل سفر کیا لیکن کہیں چائے والا ہوٹل نہ ملا سو واپس آئے اور آرام کے لئے لیٹ گئے۔صبح واڑی میں ہی ناشتہ کیا اور اگلی منزل کی جانب روانہ ہو ئے۔واڑی سے مقامی صحافی ڈاکٹر فاروق بھی ہمارے ہمسفر بنے ۔لاہور سے اپر دیر تک پروڈیوسرز کی گاڑی میں سفر کیا اس کے بعد پروڈیوسر جلدی روانہ ہو گئے تو اگلی صبح دوسری گاڑی میں بیٹھنا پڑا جس میں رائل نیوز کے اینکر نوید ستی،روز نیور کے اینکر اشتیاق گوندل،سردار حسنین عباسی ،شہباز سعید،آسی،سجاد پیر زادہ،انعام اعوان و دیگر موجود تھے۔حسنین عباسی کبھی عمران خان بن جاتے توکبھی طارق جمیل،کبھی نواز شریف کا خطاب مجھے کیوں نکالا اور کبھی مریم نواز کا جلسے سے خطاب انہی کی آواز میں سناتے ،یوں ان کے ساتھ سفر یادگار سفر رہا۔ڈاکٹر فاروق چونکہ مقامی تھے اس لئے سارے علاقے سے واقف تھے۔واڑی کے بعد اگلا پڑا ؤ دیر میں ہو ا جہاں ضلع ناظم صاحبزادہ فصیح اللہ نے وفد کا استقبال کیا۔

دیر کی ساری وادی میں ہمارا ساتھی دریائے پنجکوڑہ تھا یہ دریا اس وادی کی شہہ رگ ہے۔دریا کے ساتھ ساتھ دیر تک سڑک پختہ ہے لیکن اس سے آگے سڑک پر کام جاری تھا ،ہلکی ہلکی بارش بھی ہو رہی تھی اس لئے گاڑیوں کی رفتار کم رہی ۔لواری ٹنل پہنچے تو معلوم ہوا کہ ٹنل بند ہے تھوڑا انتظار کرنا پڑ ے گا کیونکہ ٹنل میں جب ایک طرف سے گاڑیوں کا قافلہ آ رہا ہوتو دوسری طرف سے گاڑیاں روک دی جاتی ہیں۔ٹنل کے پاس گاڑیوں سے اترے بارش میں پکوڑے کھائے چائے پی اور ٹنل کے کھلنے کا انتظار کیا۔لواری ٹنل دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک حصہ 9 اور دوسرا حصہ 3 کلومیٹر پر محیط ہے۔ اس انتہائی اہم منصوبے کا پہلی بار سنگ بنیاد 5 جولائی 1975 کو پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں اس وقت کے وزیر بین الصوبائی رابطہ عبدالحفیظ پیرزادہ نے رکھا تھاجس پر بعد ازاں کام روک دیا گیا تھا۔ 19 سال بعد سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے حکم پر 6 اکتوبر 2006 کو اس منصوبے پر دوبارہ کام شروع ہوا۔ پہلے یہ منصوبہ ریل ٹنل کے طور پر شروع کیا گیا تھا لیکن پھر اسکو روڈ ٹنل میں تبدیل کردیا گیا جس کے باعث بھی یہ منصوبہ مزید تاخیر کا شکار ہوا۔ پیپلزپارٹی کے سابق دور میں ایک مرتبہ پھر اس منصوبے پر فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث کام دوبارہ روک دیا گیا تھا۔ پہاڑی علاقے میں واقع لواری ٹنل چترالیوں کے لیے ہمشہ سے ایک سہانا خواب رہا ہے۔اس لیے یقینی طور پر 20 جولائی 2017 چترال کے لوگوں کے لیے ایک بہت ہی خوشی کا دن تھا کیونکہ چار دہایوں سے زیادہ انتظار کے بعد چترال کے عوام کا ایک دیرینہ مطالبہ پورا ہوا ۔اس ٹنل کو تقریباً 26 ارب روپے کی لاگت سے مکمل کیا گیا ہے جبکہ ٹنل کی تکمیل سے پشاور اور چترال کے درمیان مسافت 14 گھنٹے سے کم ہوکر 7 گھنٹے رہ گئی ہے۔سردیوں میں برفباری کی وجہ سے لواری ٹاپ بند ہونے سے آمدورفت رک جاتی تھی۔لواری ٹنل کی تعمیر کے بعد چترال کے مسافروں کو 10500 فٹ بلند لواری ٹاپ عبور کرنے سے نجات مل گئی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 68 سال کے دوران لواری ٹاپ کے راستے سفر کرتے ہوئے تقریباً 8 ہزار افراد برفانی ہواؤں اور تودوں کی زد میں آ کر جانیں گنوا چکے ہیں۔ اس منصوبے کی تکمیل سے تجارتی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور علاقے میں اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہو رہے ہیں

۔ٹنل کھلنے کے بعد گاڑیوں کو ایک لائن میں رہنے کو کہا گیا اور سختی سے ہدایت کی گئی کہ سپیڈ زیاد ہ سے زیادہ پچاس کلو میٹر فی گھنٹہ رکھنی اور اوور ٹیکنگ بھی نہیں کرنی۔ٹنل میں داخل ہوئے تو ڈرائیور نے گاڑی کی لائٹس جلا دیں۔نو کلومیٹر کا سفر تقریبا بیس منٹ میں طے ہوا۔ٹنل کراس کرنے کے بعد ملک سلمان کی طرف سے سب گاڑیوں میں پیغام دیا گیا کہ اب راستے میں کوئی قیام نہیں ہو گا ۔گاڑیاں سیدھی چترال جا کر رکیں گی وہاں ڈی سی چترال ارشاد سودھرکی جانب سے وفد کے اعزاز میں ظہرانے کا انتظا م کیا گیا ہے ،کھانے کا سن کر ڈرائیور زنے بھی گاڑیوں کی سپیڈ بڑھانے کی کوشش کی لیکن لاہور کی سڑکیں اور وہاں پہاڑی علاقے کی سڑکوں میں سپیڈ کا آسمان زمین کا فرق ہے۔سو سپیڈ بڑھانے کے باوجو دنہ بڑھے ۔راستے میں تلہ گنگ سے آئے ہوئے صحافی ڈاکٹر محبوب جراح جو واپس جا رہے تھے ان سے بھی مختصر ترین ملاقات ہوئی ،جس جگہ وہ رکے وہاں ان کی گاڑی پہاڑی سے اتر رہی تھی اور ہماری گاڑیاں پہاڑیاں چڑھ رہی تھیں اسی جگہ پر سڑک کا کام بھی جاری تھا سو ایک منٹ کی مختصر ملاقات کے بعد انہوں نے واپسی کی راہ لی اور ہم چترال کی جانب بڑھنے لگے۔دن دوبجے ہم چترال پہنچے تو وہاں پہلی منزل گورنر کاٹیج تھی جہاں ظہرانے کا انتظام تھا۔گورنر کاٹیج کا راستہ ڈاکٹر فاروق جانتے تھے انہوں نے دیر کے بعد چترال تک گائیڈ کا کام بھی کیا۔گورنر کاٹیج چترال کی ایک پہاڑی پر واقع ہے جہاں کھڑے ہو کر سارا چترال شہر دکھائی دیتا ہے۔رات کے اندھیرے میں شہر کی لائٹوں کا ایک عجیب نظارہ تھا۔

اسلام آباد سے چترال تک کا سفر کم از کم اٹھارہ گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ سردیوں کے موسم میں یہاں شدید ترین سردی پڑتی ہے اور سردی سے بچاؤ کے لئے یہاں کے غریب عوام لکڑی جلاتے ہیں۔سیاح یہاں سے کوہ ہندودش کے بلند و بالا پہاڑی سلسوں کا بھی نظارہ کرتے ہیں۔ چترال کی دل کش وادی میں بہتی ندیاں ، بلندیوں سے گرتے ہوئے خوبصورت آبشار، سرسبز باغات، پھلوں اور پھولوں سے لدے باغات، لہلہاتے کھیت ،خوبصورت پرندے بکثرت نظر آتے ہیں۔چترال کا یہ بے مثال حسن دیکھنے والوں پر سحر طاری کردیتا ہے اور وہ چند لمحوں کے لئے اپنی زندگی کے غموں اور پر یشانیوں کو فراموش کر دیتے ہیں۔

یہاں کے جنت نظیر نظارے سیاح کو ساری زندگی یاد رہتے ہیں ،یہ ایسی وادی ہے جہاں جا کر زندگی چند لمحے اور جی لینے کیو جی چاہتا ہے کہ گو یا یہ حسین نظارے اوجھل نہ ہو جائیں اور یہ رنگین لمحات آنکھوں اور دل میں محفوظ کر لئے جائیں۔ان سب خوش رنگینیوں کے ساتھ چترال کے سادہ لوح اور شرافت کی نعمت سے سرشاریہاں کے باشندوں کی مہمان نوازی اور برتاؤ سیاح کو ساری زندگی یاد رہتی ہیں۔یہاں کے لوگ سیاحوں کو بہت پسند کرتے ہیں۔ اور ان کو ضرورت کے وقت ہر قسم کی تعاون فراہم کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ سیاح دور دراز سے اس علاقے میں آتے ہیں، اور چترال دنیا کے چند اہم سیاحتی مقامات میں سے ایک مانا جاتا ہے۔گورنر کاٹیج پہنچنے پر وہاں لوکاٹ ،سیب ،اور اخروٹ کے درخت نظر آئے،سیب اور اخروٹ تو کچے تھے لیکن لوکاٹ پک چکے تھے۔وفد میں شامل خواتین نے گاڑیوں سے اترتے ہی لوکاٹ کے درختوں پر حملہ کیا ۔کچھ لوکاٹ میرے حصے میں بھی آئے۔

سب دوست فریش ہوئے توکھانے سے قبل ضلع ناظم چترال حاجی مغفرت شاہ پہنچ گئے جنہوں نے وفد کو باقاعدہ خوش آمدید کہا ۔گورنر کاٹیج کے ساتھ ہی ضلع گورنمنٹ کے ریسٹ ہاؤس کے لان میں ان کے ساتھ نشست ہوئی ۔حاجی مغفرت شاہ کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے ۔وہ دوسری بار ضلع ناظم منتخب ہوئے ۔چترال میں جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام (ف) کا مقامی سطح پر اتحاد ہے۔وفد کو بریفنگ دیتے ہوئے حاجی مغفرت شاہ کا کہنا تھا کہ جب مجھے اطلاع ملی کہ ساٹھ کالم نگاروں کا وفد آ رہا ہے تو میں نے سوچا کہ شاید ایک دو دن اخبار شائع نہیں ہوں گے۔حاجی مغفرت شاہ نے چترال کے حوالہ سے بتایا کہ لواری ٹنل کے بننے کے بعد یہاں کے باسیوں کے مسائل میں کمی ہوئی ہے۔اس سے قبل چترال کا پاکستان کے ساتھ چھ مہینے رابطہ منقطع رہتا تھا اگر کوئی پشاوریا اسلام آباد کے ہسپتال میں فوت ہو جاتا تو اس کی تدفین وہیں ہوتی اور اگر کوئی مریض ہوتا تو اسے پشاور لے جانے میں مشکلات ہوتی۔راستے بند ہونے سے زمینی رابطہ بالکل ختم ہو جاتا۔چترال کو سیاحوں کے لئے جنت کہتے ہوئے مغفرت شاہ کا کہنا تھا کہ چترال لوڈ شیڈنگ فری بن چکا ہے۔چترال میں گولن گول ہائیڈرو پاورپراجیکٹ سے بجلی کی پیداوار ہو رہی ہے جس سے چترال کو بجلی بلا تعطل فراہم کی جا رہی ہے۔ گولن گول ہائیڈروپاور پراجیکٹ کے 3پیداواری یونٹس ہیں اور ان کی مجموعی پیداواری صلاحیت 108 میگاواٹ ہے۔چترال شہر کی بجلی پوری ہونے کے بعد وافر بجلی ضائع ہو رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ چترال میں تیرہ ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے پاکستان کی ضرورت بارہ ہزار میگا واٹ ہے ۔لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس طرف کسی کی توجہ نہیں۔اگر یہ پنجاب ہوتا یا یہاں شہباز شریف ہوتا تو پاکستان کی مکمل بجلی یہاں سے پیدا ہوتی۔مغفرت شاہ نے بریفنگ کے بعد رات عشائیہ پر دعوت دی ۔ابھی دن کے کھانے کا انتظار ہورہا تھا سو مختصر نشست کے بعد احباب کھانے کی طرف آئے۔کھانے میں چکن ،چاول کی ڈشز تھیں ۔ساتھ فروٹ بھی رکھا گیا تھا کھانا کھانے کے بعد طے ہوا کہ چترال شہر ،بازار کا وزٹ کیا جائے
اس حوالہ سے انفرادی طور پر سب کو جانے کی اجازت دی گئی۔وفد میں شامل مردو خواتین نے بازار کا دورہ کیا ،شاپنگ کی اور رات پھرگورنر کاٹیج پہنچے،

نو بجے ڈی سی چترال ارشادسدھیرآ گئے ۔ان کے ساتھ بھی نشست ہوئی۔ڈی سی چترال ارشاد سودھرکا تعلق کراچی سے ہے۔انہوں نے وفد کو خوش آمدید کہا اور شکریہ ادا کیا۔ایک گھنٹے تک محفل جمی رہی۔وفد میں شامل خواتین نے چترال کی مقامی ہسپتال کا دورہ کیا تھا انہوں نے ہسپتال کے متعلقہ مسائل جب ڈی سی کے سامنے رکھے تو و ہ حیران ہوئے کہ یہ کون سی مخلوق ہے جو چترال پہنچتے ہی مسائل کی کھوج میں لگ گئی۔انہوں نے بات سنی اور یقین دہانی کروائی کہ مسائل حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ہر بات کا مسکرا کر جواب دینے والے ڈی سی چترال میرے ساتھ والی کرسی پر بیٹھے تھے۔وفد کے شرکاء نے ڈی سی چترال کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا کیونکہ میزبانی کے مکمل فرائض انہوں نے سرانجام دیئے اور انہی کی دعوت پر کالم نگاروں کا ایک بڑا وفد پہنچا تھا۔عشائیہ میں ڈی سی چترال ساتھ رہے انہوں نے وفد کے ساتھ کھانا کھایا ۔اس کے بعد سب نے ہوٹلز کا رخ کیا۔خواتین کے لئے الگ رہائش کا انتظام تھا ۔مرد حضرات کو دو الگ الک ہوٹل میں ٹھہرایا گیا۔صبح فجر میں اٹھے نماز کے بعد نیند نہیں آ رہی تھی۔دو دن سے چترال میں بارش کی وجہ سے موسم ٹھنڈا تھا تو دوسری جانب ہوٹل میں پانی بھی بڑا ٹھنڈا تھا سو ٹھنڈے پانی سے ہی نہانا پڑا۔چائے پینے کے لئے باہر نکلے ۔چائے کا ایک ہوٹل ملا جہاں کڑک چائے کا آرڈر دیا لیکن جب پہلا گھونٹ پیا تو ایسے لگا کہ چائے میں پتی کی بجائے مرچ مصالحہ ڈالا گیا ہے۔ہوٹل مالک سے پوچھا تو اس نے دو ٹوک لفظوں میں کہا کہ بھائی پتی صحیح نہیں آ رہی پینی ہے تو پیو نہیں تو جاؤ۔سو ایک چائے گھونٹ کے پیسے تھمائے اور واپس ہوٹل میں آگیا۔باقی دوست بھی اتنے میں تیار ہو چکے تھے سو ناشتہ کے لئے ایک بار پھر گورنر کاٹیج میں جمع ہوئے ۔ناشتہ میں سفید چنے،انڈے اور ساتھ نان ،اس کے بعد چائے،ناشتہ کرنے کے بعد کیلاش کا سفر شروع ہوا جو ہماری اصل منزل تھی۔

لاہور سے نکلے ہوئے تین روز گزر چکے تھے لیکن ابھی تک کیلاش نہیں پہنچے تھے۔گورنر کاٹیج سے ڈی سی چترال نے اپنا نمائندہ گائیڈ دیا جس کی قیادت میں کیلاش کی جانب قافلہ چل پڑا،ایون تک گاڑیاں برق رفتاری کے سات چلتی رہیں۔ہمارے پاس ہائی ایس گاڑیاں تھیں ان کا ایون سے آگے جانا مشکل تھا لیکن دوستوں نے فیصلہ کیا کہ انہی گاڑیوں پر جائیں گے سو چل پڑے۔دوباش چیک پوسٹ سے آگے راستہ انتہائی خطرناک تھا۔بارش کی وجہ سے فیسٹول میں جانے والے اکثر لوگوں نے واپسی کی راہ لی اس وجہ سے دونوں طرف سے گاڑیوں کی آمدورفت ہورہی تھی ۔بارش کی وجہ سے روڈ پر پھسلن تھی کیونکہ ساری سڑک کچی تھی ۔کیلاش جیسے سیاحتی علاقے کی طرف جانے والی سڑک کو ابھی تک پختہ تو کیا دو رویہ بھی نہیں کیا جا سکا اس سے خیبر پختونخواہ میں تبدیلی واضح نظر آرہی تھی۔ہر دو منٹ بعد گاڑی کو روکنا پڑتا کیونکہ سامنے سے آنے والی گاڑی کو کراسنگ دینی پڑتی تھی۔دوباش چیک پوسٹ سے بمبوریت تک 12میل کا فاصلہ جبکہ رمبور تک بھی دس کلومیٹر کا راستہ ہے۔ یہ بارہ کلومیٹر کا راستہ بارش کی وجہ سے کم از کم دو گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ایک گھنٹہ گاڑی میں سفر کیا تو تنگ سڑک کی وجہ سے ایک مقام پر گاڑیوں کی آمنے سامنے قطار لگ گئی۔اگرچہ ہر پانچ سو میٹر کے بعدٹریفک پولیس اہلکار تعینا ت تھا لیکن موسم کی خرابی اور پھر بارش کی وجہ سے لوگوں کی فوری و یکدام واپسی سے ٹریفک جام ہو گئی۔حالات کو دیکھ کر نوید ستی،اشتیاق گوندل،حسنین عباسی ،بادشاہ خان،محمد شفیق و دیگر دوستوں کے ہمراہ پیدل چل پڑے۔ایک گھنٹہ پیدل چلنے کے بعد مقامی گاڑی بک کروائی اور یوں ہم بمبوریت اس مقام پر جا پہنچے جہاں فیسٹول جاری تھا۔بمبوریت کیلاشیوں کا صدرمقام ہے۔

کافرستان کی تینوں وادیوں بِریر، رمبور اور بمبوریت کی کل آبادی تقریبا بارہ ہزار کے قریب ہے۔لیکن اس میں کالاش قبیلہ یعنی کافروں کی آبادی صرف چار سے ساڑھے چار ہزار کے لگ بھگ ہے۔آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی وادی بمبوریت ہے اور رمبورایک تنگ وادی ہے۔ لیکن لمبائی میں دیگر دونوں وادیوں سے زیادہ ہے۔ وہاں گھنے جنگلات ہیں اور ایک جھیل بھی ہے۔انٹرنیٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق یہ قبیلہ کیلاش زبان بولتا ہے جو کہ دری زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ زبان اس خطہ میں نہایت جداگانہ مشہور ہے۔ لسانیات کے ماہر رچرڈ سٹرانڈ کے مطابق ضلع چترال میں آباد قبائل نے یہ نام قدیم کافرستان سے مستعار لیا ہے۔

کالاشہ یا کالاش قبائل نے وقت کے ساتھ چترال میں اپنا اثرورسوخ بڑھایا۔ ایک حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کالاش نام دراصل ‘‘کاسوو‘‘ جو کہ بعد میں ‘‘کاسیو‘‘ استعمال ہوتا تھا۔ یہ نام نورستان کے قبائل نے یہاں آباد قبائل کے لیے مخصوص کر رکھا تھا۔ بعد کے ادوار میں یہ کاسیو نام کالاسایو بنا اور رفتہ رفتہ کالاسہ اور پھر کالاشہ اور اب کالاش بن گیا۔ کیلاش قبائل کی ثقافت یہاں آباد قبائل میں سب سے جداگانہ خصوصیات کی حامل ہے۔ یہ قبائل مذہبی طور پر کئی خداؤں کو مانتے ہیں اور ان کی زندگیوں پر قدرت اور روحانی تعلیمات کا اثر رسوخ ہے۔ یہاں کے قبائل کی مذہبی روایات کے مطابق قربانی دینے کا رواج عام ہے جو کہ ان کی تین وادیوں میں خوشحالی اور امن کی ضمانت سمجھی جاتی ہے۔ کالاش قبائل میں مشہور مختلف رواج اور کئی تاریخی حوالہ جات اور قصے عام طور پر روم قدیم روم کی ثقافت سے تشبیہ دیے جاتے ہیں۔ گو وقت کے ساتھ ساتھ قدیم روم کی ثقافت کے اثرات میں کمی آئی ہے اور اب کے دور میں زیادہ تر ہند اور فارس کی ثقافتوں کے زیادہ اثرات واضع ہیں۔ کالاش قبائل کے قبائلی رواج میں اختلاف پایا جاتا تھا۔

بیسویں صدی سے پہلے تک یہاں رواج نہایت وسیع تھے اور گذشتہ صدی میں ان غیر مسلم قبائل میں ان رواجوں کی پیروی اسلام قبول کرنے کے بعد سے کافی کمی آئی ہے۔ کیلاش قبائل کے سردار سیف جان جو کہ اقلیت کے مطابق، ‘‘اگر کوئی کیلاش فرد اسلام قبول کر لے، وہ ہمارے درمیان زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ ہم اپنی شناخت کے لیے انتہائی سخت مزاج رکھتے ہیں ‘‘تقریباً تین ہزار کیلاش اسلام قبول کر چکے ہیں یا پھر ان کی اولادیں مسلمان ہو چکی ہیں۔ یہ لوگ اب بھی وادی کیلاش کے علاقے میں رہائش پزیر ہیں اور اپنی زبان اور قدیم ثقافت کی پیروی کرتے ہیں۔ اب ان لوگوں کو ‘‘شیخ‘‘ کہا جاتا ہے اور کالاش قبائل کی تقریباً نصف آبادی پر مشتمل یہ لوگ اپنا جداگانہ اثررسوخ رکھتے ہیں۔ کالاش عورتیں لمبی اور کالی پوشاکیں پہنتی ہیں، جو کہ سیپیوں اور موتیوں سے سجائی گئی ہوتی ہیں۔ کالے لباس کی وجہ سے یہ چترال میں سیاہ پوش کہلائے جاتے ہیں۔ کیلاش مردوں نے پاکستان میں عام استعمال کا لباس شلوار قمیص اپنا لی ہے اور بچوں میں بھی پاکستانی لباس عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔پاکستانی معاشرے کے برعکس عورتوں اور مردوں کا سماجی میل ملاپ برا نہیں سمجھا جاتا۔ ‘‘باشیلانی‘‘ ایک جدا گاؤں ہے جو کہ عورتوں کے لیے مخصوص ہے۔ یہاں حاملہ عورتیں ہی لازمی رہائش پذیر ہوتی ہیں اور پیدا ہونے والے بچوں کو باشیلانی کہا جاتا ہے۔ بچے کی پیدائش کے بعد عورتوں کا پاک ہونا لازم ہے اور ایک رواج بھی عام ہے جس کو اپنانے کے بعد ہی کوئی عورت اپنے شوہر کی طرف واپس جا سکتی ہے۔ گھر سے فرار ہو کر شادی کا رواج عام ہے۔ نوعمر لڑکیاں اور شادی شدہ عورتیں بھی گھر سے فرار اختیار کرتی ہیں۔ زیادہ تر یہ قبائل اس رویہ کو عمومی خیال کرتی ہے اور اس صورت میں جشن کے موقع پر قبول کر لیا جاتا ہے۔ کئی مواقعوں پر زیلی قبیلوں میں اس موضوع پر فساد بھی برپا ہو جاتا ہے۔ امن کے قائم ہونے تک تلخی برقرار رہتی ہے اور صلح عام طور پر ثالث کی موجودگی کے بغیر طے نہیں ہوتی۔ صلح کے لیے جو رواج عام ہے اس کے مطابق مرد جس کے ساتھ عورت فرار اختیار کرے وہ اس عورت کے خاندان یا پہلے شوہر کو قیمت ادا کرتا ہے۔ یہ قیمت عام طور پر دگنے خرچے کے برابر ہوتا ہے جو اس عورت کا شوہر شادی اور عورت کے خاندان کو ادا کرتا ہے۔

موسم بہار کے آتے ہی تینوں وادیوں میں چلم جوش کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں لیکن تہوار کے خاص تین دن تمام مرد و خواتین وادی بمبوریت میں جمع ہوجاتے ہیں۔ مقامی لوگ اسے ’’ چلم جوشٹ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ چلم جوشی کے پہلے دن ’بیشاہ ‘ یعنی پھولوں سے گھروں کی سجاوٹ،دوسرے دن’چیرک پی پی ‘ یعنی د ودھ تقسیم کرنے کی رسم کی ادائیگی اور’گل پریک‘ یعنی نو مولود بچوں کے والدین پربعض مقامات پرجانے کی مذہبی پابندی اْٹھانے اور سوگ کے خاتمے کا اعلان کیا جاتا ہے۔یہاں کے سادہ لوح افرادآج بھی صدیوں پرانی روایات کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہیں۔ انہوں نے پرانی روایات کو مذہب کی طرح اپنایا ہواہے۔اسی سبب سیاحوں کے لئے ان کی شادیاں، اموات، مہمان نوازی، میل جول، محبت مذہبی رسومات اور سالانہ تقاریب وغیرہ انتہائی دلچسی کا باعث ہیں۔ اِنہی دلچسپیوں کے باعث یہ عِلاقہ سیاحوں کے لیئے ایک جنت ہے۔چلم جوش جشن بہار اں کی تقریب ہے۔ مقامی افراد اس تہوار کیلئے کافی پہلے سے اوربہت سی تیاریاں کرکے رکھتے ہیں۔ مئی کا مہینہ شروع ہوتے ہوتے یہاں ہر طرف سبزہ اگ آتا ہے اور چاروں طرف خْوشبو پھیل جاتی ہے۔فیسٹول والے مقام پر ڈی سی چترال ارشادسودھرہم سے پہلے پہنچ چکے تھے۔سیکورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے۔پاک فوج،ایف سی ،پولیس کے جوان موقع پر موجود تھے۔بارش کے باوجود فیسٹول جاری تھا۔رنگ برنگے لباس میں کیلاشی مردو خواتین ،بچے تین چار چار کی ٹولیوں میں رقص کر رہے تھے۔سیٹیوں کی آواز دور دور تک جا رہی تھی۔ڈی پی او چترال منصور امان بھی اس موقع پر موجود تھے۔ایکسپریس نیوز کے اینکر عمران خان بھی پروگرام کی ریکارڈنگ کے لئے موجود تھے۔نوید ستی،اشتیا ق گوندل نے بھی پروگرام کی ریکارڈنگ کی۔فیسٹول میں وفد کی چائے بسکٹ کے ساتھ تواضع کی گئی۔وفد میں شامل خواتین کیلاشی خواتین کے ساتھ گھل مل گئیں اور ان کے ساتھ رقص بھی کیا۔سیلفیوں اور تصاویر کا دور بھی چلا۔شام چھ بجے فیسٹول ختم ہوا تو ڈی سی چترال ارشاد سودھرکی جانب سے مقامی ہوٹل میں کھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔کھانے کے بعد رات دیر تک اسی ہوٹل میں ہی ڈی سی چترال ارشادسودھراور ڈی پی او چترا ل منصور امان کے ساتھ گپ شپ رہی۔ڈی پی او چترال نے خیبر پختونخواہ پولیس کے حوالہ سے کافی معلومات دیں ۔وہ ایک بہادر افسر ہیں جن پر کوہاٹ میں خود کش حملہ بھی ہو چکا ہیے لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں محفوظ رکھا۔رات قیام دوسرے ہوٹل میں تھا۔وہاں پہنچے ،آرام کیا اور پھر صبح فجر کے بعد واپسی کی سفر کی راہ لی۔

واپسی پر پانچ گاڑیوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا دو گاڑیاں آگے نکل آئیں جن میں ایکسپیر یس نیوز کے پروڈیوسر اور دوسری میں میرے سمیت کالم نگار دوست شامل تھے جنہوں نے رمضان شروع ہونے کی وجہ سے جلدی واپس پہنچنے کی خاطر ڈرائیور سے گزارش کی کہ بغیر کسی سٹا پ کے لاہور پہنچا جائے۔راستے میں نمازوں اور کھانے کے لئے قیام کیا۔سحری پنڈی پہنچ کر کی اور صبح دس بجے اگلے دن لاہور پہنچ چکے تھے۔یوں یہ سفر اختتام پذیر ہوا۔دوسری تین گاڑیاں شام چھ بجے لاہور پہنچی تھیں۔لاہور پہنچتے ہی پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ کے صدر ملک سلمان کی جانب سے میسج موصول ہوا کہ کیلاش جانے والے وفد کے اعزاز میں جلد لاہور میں افطار ڈنر کا انتظام کیا جائے گا،اب انتظار ہے افطار ڈنر کا تا کہ ہمسفر دوستوں سے پھر ملا جائے اور دورہ کیلاش کی یادیں تازہ کی جائیں جنہیں کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔

journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 32journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 1journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 31journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 2journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 30journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 27
journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 28journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 29journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 21journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 22journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 24journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 25journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 26journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 16journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 17journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 18journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 19journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 20journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 11journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 12journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 13journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 14journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 15journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 6journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 7journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 8journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 9journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 10journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 3journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 4journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 5

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , , , , , , , , ,
10461

سی پیک میں گلگت بلتستان کا حصہ( قسط اول)……..تحریر: دیدارعلی شاہ

چین پاکستان اقتصادی راہداری جو ماضی میں شاہرہ ریشم کے نام سے مشہور تھا ایک لمبی تاریخ ہے۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ گلگت بلتستان کی اہمیت تاریخ میں دفاع اور تجارت کے غرض سے اہمیت کے حامل رہی ہے۔ یہاں پر چھوٹی چھوٹی ریاستیں ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں۔ انگریزوں کی حکومت کے بعد ڈوگروں نے بھی یہاں حکومت کی ہے۔ اس کے بعد حکومت پاکستان کے ساتھ الحاق اور پھر کشمیر تنازع کے بعد اقوام متحدہ میں متنازع علاقہ ٹھرا۔ اسی طرح یہ علاقہ پہلے ہی سے اہمیت کے حامل رہی ہے اور موجودہ سی پیک کی وجہ سے اس کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوا ہے ۔ انگریزوں نے یہاں پر اپنی موجودگی اس لئے ضروری سمجھا کہ اُنھیں اس بات کا ڈر تھا کہ کہی روس یا چین ہنزہ اور چترال کے دروں سے یہاں پر حملہ آور نہ ہوں ۔ اسی خوف سے انگریزوں نے ۱۸۹۱ میں ریاست ہنزہ و نگر کے ساتھ نِلت کے مقام پر جنگ لڑی گئیں اور ہنزہ و نگر پر قابض ہو گئے کیونکہ چین اور روس کی سرحدیں ریاست ہنزہ سے ملتی ہے۔

موجودہ دور میں جنگیں لڑنا آسان نہیں بلکہ تمام ممالک اپنے معاشی مضبوطی چاہتے ہے ، معاشی برتری کے اس دوڑ میں چین نے ون بیلٹ ون روڑ کے نام سے ایک جامع منصوبہ بندی کر کے اس پر عملدرآمد نہایت ہی دانائی کے ساتھ شروع کی ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری اسی جامع منصوبہ بندی کا ایک حصہ ہے۔
CPEC Logo 1
اس منصوبے کا عالمی معیشت میں اہم کردار رہے گا، کیونکہ کچھ سالوں کے اندر عالمی سیاست میں بہت سی تبدیلیاں آئی ہے ۔ یعنی ایک نئی بلاک کی تشکیل ہورہا ہے۔ جیسا کہ کئی دہائیوں بعد روس اور سعودی عرب آپس کے تعلقات کو استوار کر رہے ہیں ۔ ساتھ ساتھ پاکستان اور روس، چین اور انڈیا، سنٹرل ایشیا کے ممالک ۔ یہ سب ممالک اپنے ملک کی معاشی مضبوطی کے لئے سر توڑ کوششوں میں مصروف عمل ہے۔ اسی وجہ سے موجودہ معاشی و دفاعی ضروریات کے تحت دنیا میں نئی معاشی بلاکس وجود میں آرہے ہیں۔
گلگت بلتستان دفاعی اور جغرافیائی لحاظ سے پاکستان میں اہمیت کے حامل اس کی سرحد چین، افغانستان، انڈیا اور واخان کوریڈور کے چند کلومیٹر پر روس واقع ہے۔ اس کے علاوہ سنٹرل ایشیا کے تمام ممالک کے ساتھ زمینی رابطے کے لئے بھی یہاں سے آسان اور چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
اب چونکہ سی پیک بڑے زور و شور سے جاری ہے ۔ بڑے بڑے منصوبوں کا اعلان ہوچکے ہے، فائبر آپٹکس گلگت بلتستان میں بچھایا گیا ہے اور شاہرہ ریشم کی دوبارہ تعمیرمکمل ہوچکے ہے ۔ مگر گلگت بلتستان سمیت پورے پاکستان میں سی پیک کے حوالے سے اعتراضات اور قیاس آرائیاں بھی اپنی اُروج پر ہے۔ جس میں مشرقی اور مغریبی روٹس پر تینوں صوبو ں کے اعتراضات کے ساتھ گلگت بلتستان کو کیا ملے گا شامل ہے۔
گلگت بلتستان میں اگر ہم ترقی کو سی پیک کی نظر سے دیکھیں، تو ہمیں سی پیک کی ہر پہلو کو سمجھنا ضروری ہے۔
چین کے صدر نے 2013 میں ون بیلٹ ون روڈ (OBOR)کا اعلان کیا، ون بیلٹ ون روڈ کے تین حصے ہے۔ پہلا ناردرن کاریڈور ہے جو بیجنگ سے لندن تک بذریعہ ٹرین ہے ، دوسرا سنٹرل کاریڈور ہے جو شنگھائی سے شروع ہو کر پیرس جاتاہے ، اور تیسرا سی پیک ہے جو کاشغر سے شروع ہو کر پاکستان میں بلوچستان کے شہر گوادر پہنچتا ہے۔ اُس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے جولائی 2013 میں چین کا دورہ کر کے چین کے ساتھ سی پیک معاہدے طے پایا۔ پھر چین کے صدر نے 2015 میں پاکستان کا دورہ کر کے سی پیک کے مختلف شعبوں کے 51 یا داشتوں پر دستخط کئے۔
سی پیک Long Term Plan کو چین ڈیولپمنٹ بنک اور نیشنل ڈیولپمنٹ ریفارمز کمشن نے تیار کیا ہے۔ اور کہا جا رہا ہے کہ پاکستان میں سی پیک کے پلان کو خفیہ رکھا گیا ہے، شاید اس کی کوئی خاص وجوہات ہو سکتے ہے۔
سی پیک میں پہلا اور بنیادی حصہ ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر کا ہے۔ جس میں ریلوے نیٹ ورکس، سڑکیں اور موٹرویز نیٹ ورک بنائے جائیں گے۔ دوسرا اہم حصہ انرجی انفراسٹرکچر پر مشتمل ہے جس کے مطابق سی پیک کے شاہراوں پر مختلف مقامات پر بجلی پیدا کرنے کے پروجیکٹس لگیں گے۔ اس کے ساتھ تیل اور گیس کی لائینز بچائی جائیں گی۔ اور پلان کے مطابق یہ لائنیز روس ، ایران، سنٹرل ایشیا اور قطر تک جائیں گی۔ تیسرا حصہ گوادر پورٹ کی ڈیولپمینٹ ، توسیع اور مکمل آپریشنل ہونا ہے۔ اور امید کر رہے ہیں کہ یہ دبئی سے زیادہ تجارتی مرکز بن جائے گا۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں اقتصادی، تجارتی اورصنعتی سرگرمیاں بڑھیں گے۔ اس کے ساتھ ہزاروں ایکڑ زرعی اراضی چینی کمپنیوں کو لیز پر دی جائے گی، جہاں پر بیجوں کی اقسام سے لے کر زرعی ٹیکنالوجی کے منصوبے تشکیل دئے جائیں گے۔ پشاور تا کراچی کے سڑکوں میں سکیورٹی کا نظام متعارف کرائیں گے۔ فائبر آپٹکس کا کام گلگت بلتستان میں جاری ہے۔
سی پیک میں گوادر کو خاص اہمیت حاصل ہے اور اس کو سمجھنا ضروری ہے۔ گوادر پاکستان کے جنوب مغربی ساحلی پٹی صوبہ بلوچستان میں واقع ہے۔ گوادر اکیسویں صدی کی جدید سہولیات سے آراستہ بندرگاہ بننے جارہا ہے اور کچھ سال پہلے اسے چین کے حوالے کردیا گیا ہے۔ یہ دنیا کے سب سے بڑے بحری، تجارتی راستے کے ساتھ اپنے شاندار محل وقوع کی وجہ سے عالمی دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
یہ بندر گاہ اپنے جغرافیائی اعتبار سے سٹریٹیجک اہمیت کے حامل ہونے کے ساتھ تین خطوں کی ضروریات پوری کریں گا ۔ جس میں مشرق وسطیٰ، وسطی ایشیا، جنوبی ایشیا اور افریقہ شامل ہے۔ اس لئے چین نے اس بندرگاہ اور بحر ہند تک رسائی کے لئے قراقرم ہائی وئے KKH کی دوبارہ تعمیر کی گئی ہے جو کہ خنجراب، ہنزہ، گلگت اور چلاس سے ہو کر ایبٹ آباد پہنچتی ہے۔ اسی راستے کو سی پیک کا نام دیا گیا ہے۔
چین اسی منصوبے کے تحت قراقرم ہائی وئے KKH (شاہرہ ریشم) اور گوادر بندرگا کے ذریعے تجارتی اور دفاعی لحاظ سے دنیا کے مختلف ممالک کے ساتھ کئی ہزار کلومیٹر قریب آئے گا۔
اس منصوبے کے حوالے سے بیجنگ اور اسلام آباد کے درمیان کئی دورے اور میٹنگز ہوچکے ہے اور خاص کر بیجنگ چائنہ میں پاک چین تعاون کمیٹی کا چھٹا مشترکہ اجلاس دسمبر 2016 میں منعقد ہوا تھا جس میں پاکستان کے وفاقی وزراء کے ساتھ ساتھ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے شرکت کی تھیں۔ جس میں پاکستان کے اندر مختلف پروجیکٹس اور صنعتی زونز کی تعمیر کی منظوری دی گئی تھیں۔
سی پیک منصوبہ جس کا مجموعی حجم 46 ارب ڈالر سے تجاوز کر کے 55 ارب ڈالر ہوگیا ہے اور مزید کہنا ہے کہ یہ بڑھ کر 60 ارب تک پہنچ جائے گا۔اس حوالے سے مشہور اقتصادی مگیزین دی اکانامسٹ کا کہنا ہے کہ سی پیک منصوبے پر چائنہ کی مجموعی سرمایہ کاری ایک کھرب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے، آبادی کے لحاظ سے ساڑھے چار ارب افراد اس منصوبے سے مستفید ہونگے اور تقریباََ65 ممالک کی شمولیت متوقع ہے۔
پاکستان میں سی پیک پلان کے مطابق مختصر منصوبے 2020 ، درمیانی مدت کے منصوبے 2025 اور طویل مدتی منصوبے 2030 تک مکمل کر لئے جائیں گے۔ اور اسی طرح وژن 2025 کے تحت پاکستان دنیا کی 25 بہترین معشیتوں میں شامل ہوگااور وژن 2047 کے تحت 10 بڑی معشیتوں میں شامل ہوگا۔
اب اگر ہم سی پیک کے حوالے سے گلگت بلتستان کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ سی پیک کے حوالے سے گلگت بلتستان میں معلومات نہ ہونے کے برابر ہے۔ جس کی وجہ سے مختلف طبقے کے لوگ اور ادارے اس حوالے سے قیاس آرائیاں کرتے رہتے ہیں، اور یہاں کے لوگ ان باتوں پر یقین بھی کرتے آرہے ہیں۔ یہاں کے ہر طبقہ اور شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اور خصوصاََ سیاسی نمائندوں کو اس حوالے سے کچھ نہیں پتہ۔ اگر ان سے سی پیک کے حوالے سے پوچھا جائے تو ان کو چند روایتی الفاظ کے علاوہ کچھ نہیں معلوم، اور یہ چند الفاظ بھی ٹیلی ویژن کے ذریعے ان تک پہنچتی ہے، باقی اصل حقائق سے یہاں کے لوگ نا آشنا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری کے حوالے سے معلومات اور خصوصاََ اس میں گلگت بلتستان کے حوالے سے بنیادی معلومات حاصل کیا جائیں۔ اور انہی کو بنیاد بنا کر اس علاقے کے مفاد کے لئے اقدامات کریں جس میں کاروباری ادارے اور جی بی ایل اے گلگت بلتستان اسمبلی کا کردار اہم ہوگا۔
سی پیک میں گلگت بلتستان کو کون کون سے پروجیکٹ یا حصہ ملیں گے یہ الگ بحث ہے، مگر اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ پہلے سے یہاں پر کون کون سے مواقعے موجود ہے۔ جس پر بہتر انداز میں کام کر کے یہاں کے لوگوں کو فائدہ پہنچایا جاسکتا ہے یا سی پیک کے پروجیکٹس میں شامل کرسکتے ہے۔
گلگت بلتستان میں بے شمار قدرتی وسائل موجود ہے اور ابھی تک اسے استعمال میں نہیں لایا گیا ہے۔ اگر اسے استعمال میں لایا جائے تو نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ کسی حد تک پاکستان کی معشیت میں بھی مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ ان تمام قدرتی وسائل کے لئے اگر سی پیک کے تحت کوئی طریقہ کار یا اسکیم ترتیب دیا جائے تو ان سے بے تحاشہ فائدہ حاصل کئے جا سکتے ہے۔ جس میں سب سے اہم یہاں کے پہاڑوں میں معدنیات ہے۔ اور اسے استعمال میں لا کر لوگوں کو خوشحال بنا سکتے ہے۔
دوسری چیزاس علاقے میں سیاحت کا فروغ ہے ۔ گلگت بلتستان اپنے قدرتی خوبصورتی میں پوری دنیا میں مشہور ہے ، مگر پچھلے چند سالوں سے یہاں پر لاکھوں کی تعداد میں سیاح آرہے ہیں اس کی وجہ ٹیلی ویژن پر سی پیک کے حوالے سے گلگت بلتستان کانام بار بار استعمال ہونا ہے۔ سیاحت کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو ایک سال میں جتنے سیاح یہاں پر آتے ہیں ان کے لئے انتظامات نہ ہونے کے برابر ہے، اس کی وجہ یہاں کے مقامی لوگوں کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ سارے انتظامات کر سکیں۔ اس لئے اگر حکومت (سی پیک کے تحت) بنکوں کے ذریعے آسان شرائط پر قرضہ دینا شروع کریں تو یہاں سیاحت کے شعبے میں مثبت تبدیلی آسکتی ہے۔
تیسری چیز یہاں پر خشک میوہ جات کو بہتر انداز میں مارکیٹ تک پہنچانا ہے۔ یہاں کے خشک میوہ جات کے اعلیٰ کوالٹی پروڈیکٹس یہاں پر تیار کئے جاتے ہے اور پہلے بتا چکا ہوں کہ وسائل کی کمی کی وجہ سے مارکیٹ تک نہیں پہنچ سکتیں۔ اب اس میں بہتری لانے کے لئے ضروری ہے کہ گلگت بلتستان کے بنجر ذمینوں میں پھل دار درخت زیادہ سے زیادہ لگایا جائے اس کے بعد اسے تیار کرنے کے لئے ٹرینگز اور پروسسنگ کے لئے فیکٹری ضروری ہے۔
چوتھی اور اہم چیز یہاں کے دریاوں سے کئی ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے اور پوری پاکستان اس سے خود کفیل ہوسکتا ہے۔ ان تمام کاموں کو سرانجام دینے کے لئے سی پیک ایک بہترین موقع ہے۔ ۔۔ (جاری ہے)

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , , , , , , , ,
10373

عمارتی لکڑی کی پشاور سمگلنگ ناکام ، ٹرک میں چھپائے گئے لکڑی برآمد ، ملزم گرفتار

Posted on

چترال(نمائندہ چترال ٹائمز )‌محکمہ فارسٹ کے اہلکاروں‌نے زیارت چیک پوسٹ پر چیکنگ کے دوران ٹرک میں‌چھپائے گئے عمارتی لکڑی کی سمگل ناکام بنادی.ذرائع کے مطابق زیارت فارسٹ چیک پوسٹ پر پشاور جانے والی ٹرک کی تلاشی لی گئ تو سوپ سٹون کے نیچے چھپائے گئے دیارکے سلیپربرآمد کیا گیا اورمحکمہ جنگلات دروش ساؤتھ سب ڈویژن نے غیر قانونی لکڑیاں بمع ٹرک تحویل میں لیکر ڈرائیور کو گرفتار کرکے تحقیقات شروع کی ہے. ابتدائی تفتیش کے دوران ملزم کے انکشاف پر مقام کلکٹک میں احاطے پر چھاپہ مار کر مذید 15 عدد سلیپران برآمد کر لیے گئے.
forest smogling

forest smogling22

forest smogling24

forest smoglingee

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , , , , , , , , , ,
10329

ناقابل یقین ایکشن پلان……….. محمد شریف شکیب

Posted on

تحریک انصاف کے حکومت سازی کے بعد پہلے سو دنوں کے ایکشن پلان پر خوب لے دے ہورہی ہے۔ ان کی حریف مسلم لیگ ن نے ایکشن پلان کو دیوانے کا خواب قرار دیا ہے۔قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کھلم کھلا چیلنج کردیا کہ اگر تحریک انصاف نے اپنے سو دنوں کے ایکشن پلان پر عمل کردکھایا۔ تو وہ اس کے اعتراف کے طور پر سیاست سے کنارہ کش ہوجائیں گے۔ ان کا موقف ہے کہ ایکشن پلان انتخاب جیتنے کے بعد دیا جاتا ہے۔ قبل از انتخاب ایکشن پلان دینا محض انتخابی شوشہ ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی نے بھی سوتیلی ماں کی طرح طنز کے تیر چلائے ہیں۔ پارٹی ترجمان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے خیبر پختونخوا میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد نوے دنوں کا ایکشن پلان دیا تھا۔ جو پانچ سال میں بھی پورا نہیں کرسکی۔ ایک نظر پی ٹی آئی کے ایکشن پلان پر بھی دوڑا کے دیکھتے ہیں کہ کیا ان پر عمل کرنا ممکنات میں سے ہے بھی یا نہیں۔ پی ٹی آئی نے مرکز میں اقتدار میں آنے کے بعد ابتدائی سو دنوں کے اندر فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے، ایف سی آر کے خاتمے، جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے، بیوروکریسی کو سیاست سے پاک کرنے، بجلی و گیس کی قیمتیں کم کرنے، عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ کم کرنے، دولت چھپانے والوں سے ٹیکس وصول کرنے، نئی لیبر پالیسی مرتب کرنے، حکومتی گیسٹ ہاوسز کو ہوٹلوں میں تبدیل کرنے، چار نئے سیاحتی مقامات کی دریافت اور ایف بی آر میں اصلاحات لانے کے علاوہ پانچ سالوں کے اندر ایک کروڑ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے اور پچاس لاکھ مکانات تعمیر کرکے غریبوں میں تقسیم کرنا شامل ہے۔ایکشن پلان میں جن جن نکات کا ذکر کیا گیا ہے۔ وہ عوام کی خواہشات اور امنگوں کے عین مطابق ہے لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ تین مہینے دس دنوں کے اندر بیوروکریسی کو سیاست سے پاک کرنا، کرپشن کا خاتمہ، قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا میں شامل کرکے صوبائی اسمبلی میں ان کے نمائندے لاکر بٹھانااور فیڈرل بیورو آف ریونیو میں اصلاحات کرنا کیسے ممکن ہے۔ پانچ سالوں کے اندر غریبوں کے لئے پچاس لاکھ مکانات کی تعمیر اور ایک کروڑ نوجوانوں کو روزگار مہیا کرنا بھی ناممکنات میں سے ہے۔پی ٹی آئی نے خیبر پختونخوا میں ایک ارب پودے لگانے، ساڑھے تین سو ڈیم بنانے، عوام کو بجلی مفت فراہم کرنے، گورنر ہاوس کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنے سمیت متعدد اعلانات کئے تھے۔ لیکن اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے کے بعد انہیں اندازہ ہوگیا کہ اعلان اور عمل کرنے میں کتنا فرق ہے۔ واقفان حال کا یہ کہنا ہے کہ بادشاہ گر طبقے نے سو دنوں کا یہ ایکشن پلان سالوں پہلے مرتب کیا تھا۔ ہر آنے والی حکومت سے اس طرح کے اعلانات کئے جاتے رہے۔ اور پھران ناممکن العمل اعلانات کو پورا نہ کرنے پر انہیں لعن طعن کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا۔ پی ٹی آئی کی قیادت بھی بادشا ہ گروں کے جھانسے میں آئی ہے۔عمران خان نے میڈیا کے سامنے ایکشن پلان کا مسودہ پڑھنے سے انکار کیا تھا تاہم شاہ محمود قریشی نے ترنگ میں آکر سارا پلان پڑھ ڈالا۔ اب اگر تحریک انصاف کو وفاق میں حکومت بنانے کا موقع ملتا ہے۔ تو ظاہر ہے کہ حکومت سازی کے لئے مطلوبہ عددی اکثریت حاصل ہونا مشکل ہے لامحالہ دیگر پارٹیوں کو ساتھ ملا کر حکومت تشکیل دینی ہوگی۔ تو کیا اتحادی جماعتیں بھی ایکشن پلان پر راضی ہوں گی۔ان میں سے بہت سے چیزیں ایسی ہیں جن کے لئے آئین میں ترمیم کرنی پڑے گی۔ قومی اسمبلی کے علاوہ سینٹ سے بھی ان کی منظوری لینی ہوگی۔ بیشک تحریک انصاف کو خیبر پختونخوا میں حکومت کرنے کا پانچ سال کا تجربہ حاصل ہوا ہے۔ اسی تجربے کی بنیاد پر پارٹی قیادت کو سوچنا چاہئے تھا کہ ترقیاتی منصوبوں کے لئے مختصر ٹائم فریم مقرر کرنے سے اسے سیاسی طور پر فائدے کے بجائے نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اسی غلطی کو مرکزی سطح پر دھرانا سمجھ سے بالا تر ہے۔جن منصوبوں کا سو دنوں کے ایکشن پلان کے طور پر اعلان کیا گیا ہے۔ انہیں انتخابی منشور کا حصہ بناکر پارٹی قیادت خود کو تمسخر کا نشانہ بنائے جانے سے بچاسکتی ہے۔ہوسکتا ہے کہ اسے منشور قرار دینے سے رائے دہندگان کی توجہ بھی حاصل کی جاسکے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , , , , , , , ,
10292

ڈپٹی کمشنر چترال کا ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹس کے ساتھ تورکہو اور موڑکہو میں‌کھلی کچہری

Posted on

تورکہو(شراف الدین) چیف سیکریٹری خیبر پختونخوا کی خصوصی ہدایت پر ڈپٹی کمشنر چترال ارشاد سدھیرنے گزشتہ دن چترال کے تمام ھیڈ اف ڈپارٹمنٹس کے ساتھ سب تحصیل تورکھو شاکرام میں کھلی کچہری کا انعقاد کیا. جس میں عمایدین علاقہ نے کثیر تعداد میں شرکت کی. اس موقع پر لوگوں نے مختلف محکموں کے خلاف شکایت کے انبار لگا دیے خاص کر بونی تورکھو روڈ میں سست روی،صحت، بجلی، تحصیل ھیڈ کوارٹر، ایجوکیشن اور دوسرے محکموں پر برس پڑے. ڈپٹی کمشنر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنی طرف سے ان مسائل کے حل کیلئے بھرپور کوشش کرونگا . اور میں لوگوں کے مسائل سننے اور ان کے حل کیلئے چترال کے مختلف علاقوں‌کا دورہ کررہاہوں‌، تورکہو کا دورہ بھی ان کی کڑی ہے. انھوں‌نے تمام ھیڈ اف ڈیپارٹمنٹ کو بھی ھدایت کی کہ وہ مہینے میں‌ ایک بارضرور ان علاقوں کا دورہ کر لیا کرے تاکہ عوام کے مسائل حل کرنے میں مدد ملے ۔
اخر میں ڈپٹی کمشنر نے اپنی پوری ٹیم کے ساتھ ار ایچ سی ہسپتال کا بھی دورہ کیا اور ھسپتال میں سہولیات کا جائزہ لیا اور عوام کو سستے اور اسان سہولت دینے پر زور دیا.علاقے کے عوام نے ڈپٹی کمشنر اور دوسرے افسران بالا کا شکریہ ادا کیا کہ جنہوں نے اپنے گوناگوں مصروفیات میں سے وقت نکال کر اس دوردراز علاقے کا دورہ کیا .
اس سے قبل اسی طرح کا ایک اور کھلی کچہری موڑکہو کے مقام وریجون میں‌بھی منعقد ہوا . جہاں ڈپٹی کمشنر نے لوگوں کے مسائل سنے اور ان کے حل کے لئے موقع پر متعلقہ محکمہ جات کے اہلکاروں‌کو ہدایت جاری کی . کھلی کچہری سی تحصیل ناظم مستوج مولانا یوسف نے بھی خطاب کیا. اور ڈپٹی کمشنر کی کاوشوں‌کو سراہا.
ان مواقع پر چترال کے معروف شخصیت کیپٹن شہزادہ سراج الملک اور صدر پریس کلب ظہیر الدین بھی موجود تھے.
DC Chitral Torkhow kholee kachehri 4

DC Chitral Torkhow kholee kachehri 2

DC Chitral Mulkhow kholee kacheri 2
DC Chitral Torkhow kholee kachehri 6

DC Chitral Torkhow kholee kachehri 3

DC Chitral Torkhow kholee kachehri 5
mulkhow khule kachere

DC chitral mulkhow khole kachehre

DC Chitral Mulkhow kholee kacheri 4

DC Chitral Mulkhow kholee kacheri 1

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , , , , , , , , , ,
10193