Chitral Times

چترال میں منشیات کے خاتمہ اوراگہی کیلئے ایکشن کمیٹی تشکیل دیدی گئی۔عمر قریشی

چترال(نمائندہ چترال ٹائمز) چیئر مین ایکشن کمیٹی انسداد منشیات ضلع چترال الحاج محمد عمر قریشی نے بدھ کے روز چترال پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ منشیات کے استعمال کا نا سور نوجوانوں میں تیزی سے پھیل رہا ہے اور منشیات کے استعمال کے منفی اثرات نے معاشرہ کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے جس کا نتیجہ خودکشیوں کی صورت میں نکلتا ہے۔

وقت کا تقاضا ہے کہ ہم سب کواس کی روک تھام کے لئے آگے آنا چاہئے۔ہم نے ایکشن کمیٹی انسداد منشیات کے نام سے ملک گھیر تنظیم بنا کر محرم الحرام کے مبارک مہینے میں معاشرے کو منشیات سے پاک کرنے کے لئے عملی طور پرمیدان میں آ گئے ہیں۔ہمارا کام حکومتی اداروں کے ساتھ مل کر لوگوں خصوصاً نوجوانوں میں منشیات کے استعمال کے منفی اثرات کے حوالے سے آگہی پیدا کرنے اور منشیات فروشوں کی نشاندہی کرنا ہے۔ہم بہت جلد چترال میں سمینار منعقد کرکے ضلعی دفتر کا افتتاح کریں گے۔

انہوں نے لوگوں سے اس توقع کا اظہار کیا کہ لوگ اپنی آنے والی نسلوں کی مستقبل کی بقاء کی خاطر ہمارا ساتھ دیں گے۔کیونکہ ہمارا مشن سیاست اور دیگر اختلافات سے بالا تر ہوکر انسانیت کو بچانے کے لئے مل کر کام کرنا ہے۔

chitraltimes muhammad umar qureshi pc1
Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , , ,
51325

سیاحوں کی گاڑی عشریت کے مقام پر حادثے کا شکار۔ایک ہی خاندان کے 16افراد زخمی

سیاحوں کی گاڑی عشریت کے مقام پر حادثے کا شکار

چترال( چترال ٹائمز رپورٹ) لواری کے نواحی علاقہ عشریت میں بکسہ گاڑی حادثے کا شکار ہوگئ، اطلاع ملنے پر ریسکیو 1122 کی میڈیکل ٹیمیں موقعے پر پہنچیں اور زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد فراہم کرکے THQ ہسپتال دروش منتقل کیا، حادثہ گاڑی کے بریک فیل ہونے کی وجہ سے پیش آیا،

ریسکیو کے مطابق حادثے کا شکار ہونے والی گاڑی میں ڈرائیور سمیت ایک ہی خاندان کے 18 افراد سوار تھے جن میں 4 مرد ، 3 خواتین اور 9 بچے زخمی ہو گئے، زخمیوں میں دو بچوں کی حالت تشویشناک ناک ہے جن کو پشاور ریفر کیا گیا ہے اور ریسکیو 1122 کی ٹیم ایمبولینس میں پشاور منتقل کر رہی ہے، حادثے کا شکار ہونے والے خاندان کا تعلق گجرات سے ہے اور سیاحت کی غرض سے چترال آرہے تھے.

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , , ,
51261

مختصرسی جھلک – ارکاری ویلی اورلڑکیوں کے تعیلمی مسائل- فریدہ سلطانہ فَریّ

مختصرسی جھلک – ارکاری ویلی اورلڑکیوں کے تعیلمی مسائل- فریدہ سلطانہ فَریّ

قسط نمبر ۲

یہ توہم سب جانتے ہیں کہ تعلیم انسان کےلیےعقل وشعور کے دروازے کھول دیتی ہےمگراِن دونوں تک رسائی کے لیے زمینی وسائل اورسہولیات تک دسترس بھی بے حد ضروری ہے۔جن کی بنیاد پرکم ازکم بنیادی تعلیم یعنی پرائمری تک سب کی رساِئی اسانی سے ممکن ہوسکے۔۔۔۔۔۔

arkari road p

ارکاری ویلی کا دورہ کرنے کے بعد  مجھے اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ یہاں کسی بھی سطح کی تعلیم خصوصا بنیادی تعلیم تک بھی سب کی رسائی نہایت مشکل سے ہوتی ہےخصوصا بچیوں کی …کیونکہ یہاں کا سب سےبڑآ مسئلہ ٹرانسپورٹ کا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔جس طرح ان کے اباواجداد تعلیم کی خاطرمیلوں پیدل چل کران سکولوں تک پہنچتے تھے.

بد قسمتی سےاج بھی بلکل اسی طرح اس دور میں ان کے بچے بھی انہی کی طرح میلوں پیدل سفر کرکے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ پراِئمری سکولوں کے کم عمر چھوٹے چھوٹےبچے اور بچیاں بھی سکول پہنچنے کے لئے ادھآ دن کا سفر طےکرتے ہیں ۔۔۔۔۔ ایک بچی کا کہنا تھآ کہ صبح سویرے سکول کونکلنا توہمارا روزمرہ کا روٹین ہےمگر ہم  لوگ پیپر کےدنوں میں تو۳ بجےاٹھ کرسکول کے لیے روانہ ہوتے ہیں۔ اب یہ تمام مشقت اپنی جگہ اگرہم اس کوایک اورخطرناک پہلو سے دیکھےتودل ہل جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

اس سفر کے دوران مختلف موسمی خطرات کا بھی خدشہ ہے کیونکہ پہاڑی علاقے اور تنگ و باریک کچے راستے۔۔۔۔۔ اب اگر خدا نخواستہ ان حالات میں اس بچے یا بچی کے ساتھ کوئی بھی حادثہ پیش اجاتا ہے تو اس کی زندگی کا زمہ دار کون ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ سال پہلےکریم اباد میں ایسے ہی سکولوں کوجاتے طالب علم بچے بچیاں  جو انکھوں میں روشن مستقبیل کے سہانے خواب سجا کر گھروں سے نکلے تھےایک دم برفانی تودوں کی نظر ہوگیےتھے۔

ان حالات میں تو کسی نے آن کی زمہ داری نہیں لی تواب اِن بچیوں کے ساتھ خدا نخواستہ کسی حادثے کی صورت میں کیا کوئی زمہ داری لے سکتا ہے ہرگز نہیں،،،،۔۔۔یہ بچارے لوگ تعلیم کی خاطرجانیں ہتھلیوں پہ رکھ کرایک اچھے مستقبیل کی امید میں مہوسفرہیں ۔۔۔۔

ایک اوراہم بات یہ کہ بچیوں کے لیے موسمی خطرات کے علاوہ اوربھی کئی معاشرتی مسائل جنم لینے کا خطرہ بھی ہےاس کے ساتھ ساتھ میلوں پیدل چل کر ان کی صحت بھی تباہ ہوجاتی ہے کیونکہ غربت کی وجہ سےخوراک بھی ان کو ٹھیک سے نہیں مل پاتِی اس طرح مشقت بھری زندگی کی وجہ سے یہ بچےاوربچیاں بےحد کمزوراوربیمار سےنظر اتے ہیں۔ 

 اب ایسےحالات میں مختلف خطرات سے نکل کربھوکے پیاسےاور تھکے ہارے جب یہ طالب علم سکولوں میں پہنچتے ہیں تووہاں بھی کوئی سہولیات سے بھرپور سکول ان کا منتظر نہیں ۔۔۔۔

جب یہ بچے بچیاں سکول پہنچتی ہیں تو وہاں یا تواستاد نہیں ہوگا یا پھراستاد کی تعداد طالب علم کی تعداد کے مطابق نہیں ہوگی یا پھراساتذہ غیرحاصر یا پھرسب سے بڑا مسئلہ اسا تذہ کی اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ طالب علموں کو ان کی ضرورت کے مطابق پڑھآ سکے۔۔میں اپ کو بتاتی چلوں میں نے یہاں بہت سے اور بڑے مسائل جیسے غربت ، لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک ،کم عمری کی شادِی وغیرہ کوتوبلکل بھی نہیں چھیڑا ہے اج کے لیے اتنا ہی باقی کہاںی پھر صیح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے                          

arkari valley chitral
arkari valley chitral
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged , , , , , ,
50428

انتقال پرملال، حاجی محمد ظفرکی والدہ ماجدہ انتقال کرگئیں

انتقال پرملال، حاجی محمد ظفرکی والدہ ماجدہ انتقال کرگئیں

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز) دوبئی میں مقیم چترال کی معروف سماجی شخصیت اور اورسیز چترال ویلفئر ایسوسی ایشن کے صدر حاجی محمد ظفر کی والدہ ماجدہ پشاور ہسپتال میں انتقال کرگئیں وہ گزشتہ کچھ دنوں سے بیمارتھیں۔انھیں چترال پہنچاکر جغور میں سپرد خاک کیا گیا۔نماز جنازہ میں مختلف مکاتب فکرکے افراد کثیر تعداد میں شرکت کی۔ وہ چترال کے معروف شاعر و ادیب جعفر حیات ذوقی کی بھی والدہ ماجدہ تھیں۔


دریں اثنا اورسیز چترال ویلفر ایسوی ایشن دوبئی کے صدر معروف سماجی شخصیت حاجی محمد ظفر کی والدہ کے انتقال پر پاکستان پیپلز ابوظبی یو اے ای کے نائب صدر نظارولی شاہ نے انتہائی دکھ کا اظہار کرتے ہوئے دعا کی ہے کہ الله پاک مرحومہ کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں اور لوحقین کو صبر جمیل عطا فرمائیں ۔


اس موقع پر پریس کلب کے سابق صدر شاہ مراد بیگ، جہانگیر جگر ،نذیراحمد شاہ ،سابق یو سی ناظم شمشیر علی خان اور زوالفقار علی شاہ نے بھی والدہ کی انتقال پر حاجی محمد ظفر سے دلی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے مرحومہ کی معفرت کے لیے دعا کی۔


اسی طرح چترال انفارمیشن اینڈ ہیلپنگ گروپ کے زیر اہتمام مرحومہ کی ایصال ثواب کیلئے شاہی مسجد چترال میں قرآن خوانی کا اہتمام کیا گیا، اور شاہی خطیب مولانا خلیق الزمان نے اجتماعی دعا کی۔

chitraltimes m o haji zafar passes away namaz janaza jughor
Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , ,
50413

ایگریکلچر آفس اپر چترال میں میرٹ کی دھجیاں اُڑادی گئیں، ڈرائیورکی اسامی پر کرک سے امیدواربھرتی

ایگریکلچر آفس اپر چترال میں میرٹ کی دھجیاں اُڑادی گئیں، ڈرائیورکی اسامی پر کرک سے امیدواربھرتی

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز ) ڈسٹرکٹ ڈائرکٹر ایگریکلچر اپر چترال نے اقرباء پروری کی مثال قائم کرتے ہوئے محکمہ زراعت میں ڈرائیور کی اسامی پر ضلع اپر چترال سے تعلق رکھنے والے پچاس سے ذیادہ امیدواروں کو چھوڑ کراپنے آبائی ضلع کرک سے ایک امیدوار کو بھرتی کرادی جبکہ ذرائع کے مطابق اس عمل میں انہوں نے انٹرویو پینل کے ممبران سے دستخط لینے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی جوکہ لازمی ہے۔اپر چترال کے عوام اس بات پر حیران ہیں کہ انصاف اور میرٹ کی بات کرنے والوں کے دور سے پہلے کسی بھی محکمے میں کسی دوسرے ڈسٹرکٹ سے کسی شخص کی ڈرائیور کی پوسٹ پر براہ راست بھرتی کی مثال نہیں ملتی ہے جبکہ اس دفعہ ملاکنڈ ڈویژن کو چھوڑ کر کوہاٹ ڈویژن سے امیدوار لاکر یہاں بھرتی کیا گیا جس کا مطلب ہے کہ اپر چترال کے ڈھائی لاکھ آبادی میں ایک شخص بھی اس اہل نہیں تھا۔

اسی طرح ذرائع نے بتایاہے کہ کسی دوسرے ڈویژن سے ایک شخص کو سکیل نمبر 7میں بڈر بھرتی کیا گیا ہے جس کے لئے میٹرک کی سرٹیفیکیٹ کا ہونا شرط ہے۔ جب مقامی میڈیا نے ڈسٹرکٹ ڈائرکٹر ایگریکلچر اصغر خٹک سے اس بارے میں پوچھا توانہوں نے صاف الفاظ میں کہاکہ ڈرائیور کو وہ انٹرویو سے پہلے ہی اپنے ساتھ گاؤں سے لاکر ڈیوٹی پر لگادیا تھا جبکہ انٹرویو صرف فارمیلیٹی پوری کرنے کے لئے کیا۔ ڈرائیور پوسٹ کے لئے انٹرویو میں شامل ہونے والے امیدواروں نے وزیر اعلیٰ اور چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا سے مطالبہ کیا ہے کہ ان تقرریوں کو فوری طور پر منسوخ کرکے ڈسٹرکٹ ڈائرکٹر اپر چترال سمیت اقرباء پروری میں ساتھ دینے والے محکمے کے دیگر اعلیٰ افسران کے خلاف انکوائری کرائی جائے۔ اس سے قبل محکمہ سوشل ویلفئیر ڈیپارٹمنٹ میں بھی متعلقہ وزیر نے لکی مروت سے ایک شخص کو یہاں ڈرائیور بھرتی کرایا تھا۔

درین اثناء پی پی پی اپر چترال کے صدر امیر اللہ خان نے محکمہ زراعت میں غیر مقامی افراد کی تقرری کی مذمت کرتے ہوئے ان کی منسوخی کا مطالبہ کردیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اپر چترال کے غریبوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا پی ٹی آئی حکومت کا بدترین کام ہے اور ایم پی اے مولانا ہدا یت الرحمن اور صوبائی کابینہ میں شامل وزیر زادہ کا اس صورت حال میں خاموشی معنی خیز ہے۔ انہوں نے کہاکہ ڈسٹرکٹ ڈائرکٹر کو وزیر زراعت محب اللہ کی اشیر باد حاصل ہوگی کیونکہ ان کے ڈویژن سے کلاس فور کی اسامیوں کو دوسرے ڈویژن میں بانٹنے میں ان کی مرضی شامل ہوگی۔

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , , ,
50377

سی ڈی ایم کے زیراہتمام 17جولائی کو منعقد ہونے والی سیمینار ملتوی کردیا گیا

سی ڈی ایم کے زیراہتمام 17جولائی کو منعقد ہونے والی سیمینار ملتوی کردیا گیا

چترال ( نمائندہ چترال ٹائمز ) چترال ڈویلپمنٹ مومنٹ ( سی ڈی ایم ) کی طرف سے یہ اعلان کیاگیا ہے کہ چترال کے سڑکوں کے حوالے سے 17جولائی 2021 کو منعقد ھونے والی ا یک روزہ سیمینار کی تاریخ عید الاضحی کے نہایت قریب ہونےکی وجہ سے ملتوی کردیا گیا ہے ۔ پریس ریلیز میں کہا گیاہے کہ تاریخ عید کے قریب ہونے کی وجہ سے سیاسی نمائندگان کے ساتھ سرکاری افسران کی حاضری ممکن نہ ہوسکی۔ لہذا سی ڈی ایم ایگزیکٹیو کمیٹی ممبران کی مشاورت کے بعد نئے تاریخ کا اعلان بعد میں کیا جائےگا۔

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , , , , ,
50171

کالاش ویلی میں بھی موبائل اور انٹرنیٹ کی ناقص سروس سے اسٹوڈنٹس کے ساتھ سیاح بھی بری طرح متاثر

کالاش ویلی رمبور میں بھی موبائل اور انٹرنیٹ کی ناقص سروس سے طلباو طالبات کے ساتھ سیاح بھی بری طرح متاثر


چترال ( نمایندہ چترال ٹائمز ) کالاش ویلی رمبور کے عوامی حلقوں نے موبائل اور انٹر نیٹ کی خراب اور ناقص کارکردگی کی بنا پر احتجاج کیا ہے ۔ اور جلد از جلد اس میں موجود نقائص دور کرنے اور کارکردگی بہتر بنانے کا مطالبہ کیا ہے ۔ تاکہ مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ آن لائن کلاسین لینے والے طلباء و طالبات ذہنی اذیت سے نجات حاصل کر سکیں ۔ علاقے کے لوگوں اور طلباء کی نمایندگی کرتے ہوئے مقامی سوشل ایکٹی وسٹ فتح اللہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ۔ کہ کالاش ویلی رمبور کے لوگ موبائل و انٹرنیٹ سروس شروع ہونے پر خوشی کا اظہار کیا تھا ۔ کہ جدید سہولیات کی وجہ سے انہیں اپنے عزیزوں ، رشتےداروں سے بات کرنے اور انٹر نیٹ کے ذریعے اپنی جملہ ضروریات گھر بیٹھے حاصل کرنے میں مدد ملے گی ۔ خصوصا طلباء و طالبات کویڈ 19 کے باعث آن لائن کلاسین لینے کے قابل ہوں گے ۔ جو کہ ابتدائی طور پر تو بہتر رہا ۔ لیکن گذشتہ کچھ عرصے سے لوگوں کی توقعات کو بری طرح زک پہچا ہے ۔

صبح سویرے اور سہ پہر کے بعد موبائل پر کسی سے بات ہوتی ہے اور نہ انٹر نیٹ کی سہولیات حاصل کرنا ممکن ہے ۔ اس لئے علاقے کے تمام لوگ شدید ذہنی اذیت سے دوچار ہیں ۔ جبکہ طلبہ کی تعلیم تو بری طرح متاثر ہوئی ہے ۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے ۔ کہ ٹاور میں سولر سسٹم کی کارکردگی کمزور ہو چکی ہے ۔ اور جنریٹر کے استعمال کےلئے جو (فیول ) تیل پہلے لایا جا رہا تھا ۔ اب نہیں لایا جا رہا ۔ جس کی وجہ سے ٹاور کیلئے پاور کا مسئلہ ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ فی الحال رمبور وادی میں انٹر نیٹ کی سہولت تین کلومیٹر سے بھی کم ایریے میں انتہائی ناقص حالت موجود ہے ۔ جس سے وادی کے لوگ ، سیاح اور طلبہ جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ حاصل کرنے سے یکثر محروم ہو چکے ہیں ۔ انہوں نے حکومت اور ضلعی انتظامیہ چترال سے پر زور مطالبہ کیا ۔ کہ متعلقہ کمپنی کو موبائل اور انٹر نیٹ سروس دینے کا پابند بنایا جائے ۔ اور فوری طور پر سروس میں موجود خامیاں دور کی جائیں ۔ بصورت دیگر رمبور وادی کے لوگ متعلقہ کمپنی کے خلاف احتجاج کرنے پر مجبور ہوں گے ۔

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , , , , ,
50168

خاموشی – تحریر: ڈاکٹر شاکرہ نندنی


خاموشی خیر کی علامت ہے جبکہ شور، شر کا مظہر ہے۔ شورپسند لوگ شورش پسند ہوتے ہیں۔ انہیں ہمیشہ فتنہ فساد کی سوجھتی ہے جبکہ خاموشی پسند کرنے والے فطرتاً امن پسند ہوتے ہیں۔ “ڈاکٹر شاکرہ نندنی”

انسان خاموشی کو توڑتی ہوئی ایک چیخ کے ساتھ اس دنیا میں آتا ہے۔ نتیجتاً ساری زندگی ہنگامہ بازی میں گزاردیتا ہے۔ ہر وقت بے اطمینانی، مسئلے، پریشانی، اضطراب لیکن موت کی خاموشی آتے ہی وہی پریشان حا ل انسان کتنا شانت اور کتنا پرسکون ہوجاتا ہے۔ ہنگامہ اور شور زندگی کے صحیح عکاس نہیں۔ اسی طرح سنّاٹا اور ویرانی بھی زندگی کے ترجمان نہیں ہیں۔ ان کے برعکس خاموشی زندگی کی حقیقی عکاسی کرتی ہے۔ جو لوگ سنّاٹے اور خاموشی میں فرق نہیں کرپاتے وہ خاموشی کی اہمیت نہیں جان سکتے۔ سنّاٹا بے روح اور بے آواز ہوتا ہے جبکہ خاموشی زندگی کی عکاس ہی نہیں، زندگی کو جنم بھی دیتی ہے۔

آپ حیران ہوں گے کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ دل کی دھڑکن کا ہر بار ایک وقفے کے ساتھ خاموشی اختیار کرنا اور پھر خاموشی کے اسی وقفے سے اگلی دھڑکن کا جنم لینا زندگی کو جنم دینا نہیں تو اور کیا ہے! پھر خاموشی سنّاٹے کی طرح بے آواز بھی نہیں بلکہ خاموشی کی اپنی ایک زبان ہوتی ہے۔ جب مکمل خاموشی ہو، ہونٹ بھی خاموش ہوں تب دو دھڑکتے دلوں کی جو گفتگو ہوتی ہے اسے اہلِ دل بخوبی جانتے ہیں۔ آواز کی دلکشی بھی خاموشی کے پس منظر کی محتاج ہے۔ ہوٹلوں اور بازاروں میں پوری آواز کے ساتھ نشر کئے جانے والے گیت سَر میں درد پیدا کردیتے ہیں جبکہ وہی گیت آپ رات کو مکمل خاموشی کے پس منظر میں مدھم آواز سے سُنیں تو آپ خود بھی ان گیتوں کے سُروں کے ساتھ جیسے بہتے چلے جائیں گے۔

سرگوشی اور دھیمی گفتگو آواز کے خاموشی کی طرف جھکاؤ کے مظہر ہیں۔ چنانچہ آپ دیکھیں کہ آوازوں میں جو لطف سرگوشی اور دھیمی گفتگو میں ہے وہ بلند لہجے کی آواز میں نہیں ہے۔ بعض لوگ خاموشی کو شکست کی آواز سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگ تاریخ اور مستقبل سے بے خبر”حال مست“ ہوتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ خاموشی تو فتح کی پیش خبری ہوتی ہے۔ جب سمندر خاموش ہو یا فضا میں ہوا خاموش ہو تب خاموشی طوفان اور آندھی کی صورت اپنا جلالی روپ دکھاتی ہے۔

سقراط نے زہر پی کر، حسینؑ نے شہید ہو کر اور ابن منصور نے سولی قبول کرکے خاموشی سے صبر کے جو عظیم نمونے دکھائے بظاہر وہ اُس عہد کے جھوٹوں اور جابرو ں کے سامنے شکست ہی تھی۔ لیکن درحقیقت ان مظلوموں اور سچوں کی خاموشی اُن کی فتح کی پیش خبری تھی جسے آنے والے وقت نے سچ ثابت کیا۔ مظلوموں کی خاموشی کی یہ سچائی ہمیشہ سے قائم ہے۔

chitraltimes silence khamoshi
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged , , ,
50154

چترال کے قیمتی معدنیات پر قبضہ کر نے کی امریکن سازش.(تحریر عبد اللہ)

چترال کے قیمتی معدنیات پر قبضہ کر نے کی امریکن سازش.(تحریر عبد اللہ)

حکو مت ایک طر ف 74 سا لو ں میں پہلی مر تبہ قیمتی پتھر و ں اور معدنیا ت کے شعبے کو بر آمد ی صنعت بنا نے کا دعو یٰ کر رہی ہے اور اس سلسلے میں جیمز اینڈ جیو لری ٹا سک فورس کا قیا م عمل میں لا کر منر ل سٹی کے قیا م کیلئے کو شاں ہے اور سا تھ سا تھ اپنے منظور نظر ”’ سر ما یہ کا ر وں ” (کا روبا ری پار ٹنر ز) کو نوا زنے اور مرا عا ت اور آسا نیا ں فرا ہم کر نے کیلئے جا مع منصو بہ بند ی بھی کر رہی ہے۔


جیم اینڈز جیو لر ی کو صنعت کا درجہ دینا اور جیمز اینڈ جیو لری ٹا سکفورس کا قیا م اور منر ل سٹی کیلئے کو شش خو ش آئند ہیں۔ پا کستا ن میں قیمتی پھترو ں کی بر آمد کے حوا لے سے 5 ارب ڈا لر سا لا نہ کے مو جو دہ صلا حیت سے ملکی معیشت پر مثبت اثرا ت بھی مر تب ہو سکتے ہیں۔اور لا کھو ں لو گو ں کے روزگار کے موا قع بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ پا کستان میں اس وقت 99 قسم کے قیمتی پھرو ں کے ذخا ئر مو جو د ہیں جنمیں سے اکثر یت گلگت، بلتستا ن کے علا وہ KP کے مختلف اضلا ع اور خصو صا ً چترال میں ہیں۔
محکمہ معد نیا ت نے گز شتہ کئی سا لو ں سے چترال کے معد نیا ت کو پند رہ 15 بلا کس میں تقسیم کر کے رینررو رکھا ہو ا تھا ان بلا کس کو ختم کر کے مقا می سر ما یہ کا رو ں کو لیز پہ یہ جگہیں فرا ہم کر نے کیلئے چترال کے عوا م گز شتہ کئی سا لو ں سے مختلف فورمز پہ کو ششیں کر تے آئے ہیں گز شتہ ما ہ جو ن کے آخری ہفتے میں چترال کے ان بلا کس کو ختم کر کے لیز پہ دینے کا فیصلہ کیا گیا اور یکم جو لا ئی کو آن لا ئن اپلا ئی کر نے کی سہو لت بحا ل کی گئی حکو متی اس اقدا م کو چترا ل کے عوا م نے بہت سرا ہا چترا ل کے عوا م اور مقا می سر ما یہ کا راس خو شی میں تھے کہ بلا کس کے خا تمے کے بعد وہ اپنے من پسند علا قو ں میں ان لا ئن لیز کیلئے اپلا ئی کر سکیں گے۔ لیکن ان کی امیدو ں پر یکم اور 2 جو لائی کو اس وقت پا نی پھر گیا کہ جب وہ امیر کین کمپنیو ں کو قیمتی پتھر وں کے 597 مر بع کلو میٹر یعنی 147,615 ایکڑ (550,604 چکو رم)کے چار بلا کس اسی طر ح الا ٹ کئے گئے جس طر ح سے وہ پہلے بلا ک بنے ہو ئے تھے اور یہ الا ٹ منٹ ما رچ 2021 میں شو کی گئی ہے حالا نکہ سر کا ری طور پر یکم جو لا ئی 2021 کو لیز open کئے گئے تھے۔2 جو لا ئی کو منظور نظر لو گو ں کے من پسند جگہو ں کے اپلا ئی کر نے کے فور ا ً بعد ہی زیا دہ تر Potential Areas کو ائیر یا زر یز رو فار آکشن کے نا م پر دوبار ہ ریز رو کر کے بند کر دیا گیا۔ تا کہ کو ئی مقا می سر ما یہ کار اپلا ئی نہ کر سکے۔ اب رہ جا نے وا لے غیر ضر وری جگہو ں میں چترال کے مقا می سر ما یہ کار کو ئی کا م کی جگہ تلا ش کر نے میں مگن ہیں۔ گو یا یہ کا م سو ئی سے پہا ڑ کھو د نے کے مترا دف ہے۔


دوسرے اطلا عا ت کے مطا بق 597 مر بع کلو میٹر کا ائیر یا امر یکن کمپنیو ں کو الا ٹ کر نے کے بعد با قی مند ہ بلا ک ائیر یا ز کو اوپن کر کے انہی دو امر یکن کپمنیو ں کو اگلے ہفتے دلوا نے کیلئے ان کمپنیو ں کے (دلا ل صا حبا ن) ما ئننگ ڈا ئر یکٹو ریٹ میں ” مک مکا ” میں مصرو ف ہیں اور اگلے ہفتے با قی مند ہ سینکڑو ں مر بع کلو میٹر میں پھیلے ہو ئے معد نیا ت کے ائیر ئے انہی کمپنیو ں کو دینا متو قع ہے۔


لیز پہ جو نئے ائیر یا ز امیر یکن کمپنو ں کو الا ٹ کئے گئے ہیں وہ افعا نستا ن کے صو بہ بد خشا ن، وا خا ن، نو رستا ن اور کنڑ سے ملحقہ علا قے ہیں ان علا قو ں کے با رڈرز پر حفا ظتی با ڑ لگا نے کا عمل ابھی مکمل نہیں ہوا۔ تشویش نا ک با ت یہ ہے کہ امر یکن افوا ج کے افعا نستا سے انخلا ء اور پا کستان کی طر ف سے اڈے نہ دینے اور فضا ئی Space بھی استعما ل نہ کر نے دینے کے جر اٗ ت مند انہ فیصلے کے فور اً بعد ہی 597 مر بع کلو میٹر قیمتی معدنیا ت سے ما لا ما ل علا قہ لیز کے نا م پہ دینا اور مزید 800 مر بع کلو میٹر کے لگ بھک کا ائیر یا لیز پر دینے کی تیا ری کیا معنی رکھتی ہے نیز انہی کمپنیوں کے نمائند ہ گان کی طرف سے کوراغ کے مقام پر چار سو چکورم زمین کی خرید اور دیگر علاقوں میں زمین مہنگے داموں خریدنے کی کوششیں کہیں چترال کے اندر اسرائیل بنانے کی کوشش تو نہیں؟کیا یہ چترال کے پر امن ماحول کو خراب کرنے کی سازش تو نہیں؟امریکہ نے افغانستان میں فوجیں اتار کر افغانستان کے معدنیات کو لوٹا اب امریکن کمپنیز چترال میں بھی ایسے کریں گی؟ئی امریکن کمپنیاں ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح اپنے دلالوں کی کمپنی بھی بنا کر ان کے ذریعے چترال کے معدنیات اور چترال کے مستقبل کا سودا کرتے رہیں گے؟کیا ہمارے حساس ادارے اسی طرح خاموش تماشائی بنے دیکھتے رہیں گے؟ کیا چترال کے سادہ لوح عوام کو ان کے حقوق سے اسی طرح محروم رکھا جاتا رہے گا؟ کیا چترال کے عوام کی شرافت کا اسی طرح ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا رہے گا؟

خیبر پختونخواہ کے دیگر اضلاع میں پہاڑ اور معدنیات اس علاقے کے لوگوں کی ملکیت تصور کئے جاتے ہیں اور ان کی مرضی کے بغیر کوئی پتھر کا ایک تکڑا بھی نہیں اٹھا سکتا لیز پہ چگہ لے کر کام کرنا تو دور کی بات۔دیگر بڑی کمپنیز کو اتنے بڑے ایریاز لیز پہ دینے کا چترال اور چترال کی عوام کو کیا فائدہ؟پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں چترال میں فریال تالپور گروپ کو ایک بڑے ایریا لیز پہ دیا گیا سنٹرل ایکسچینج مائننگ لمٹیڈ کو 328مربع کلو میٹر کا ایریا گولین سے دامیل تک الاٹ کیا گیا ہے اسی طرح ٹنی پاک منرلز پرائیوٹ لمٹیڈ کو چترال کا سب سے بڑا لیز 823مربع کلو میٹر الاٹ کیا گیا۔ان دو کمپنیز نے گزشتہ کئی سالوں سے یہ جگے لیز پہ لی ہوئی ہیں لیکن کوئی کام نہیں ہو رہا۔ مقامی سرمایہ کار اگر ان کے لیز کردہ ایریے میں کوئی جگہ لینا چاہے تو وہ NOCکے نام پر ان سے 30سے 40لاکھ روپے طلب کئے جاتے ہیں۔مائینوں پہ کام کر نے کے لئے بیرونی کمپنیز لوکل لیبر کی بجائے جدید مشینری کے ذریعے کام کو ترجیح دیتی ہیں تاکہ قیمتی معدنیات سے مقامی آبادی کو دور رکھا جا سکے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جن کمپنیز کو لیز الاٹ ہوچکے ہیں ان میں لوگوں کے ذاتی جائیداد،مکانات،زمینات سمیت چترال گول نیشنل پارک کا ایریا بھی لیز ایریا میں شامل کیا گیاہے۔ حکومت لینڈ سٹیلمنٹ کے نام پہ چترال کی 97%اراضٰی ویسے بھی بحق سرکار ضبط کر چکی ہے اور اب رہی سہی کسر بھی لیز کے نام پر پوری کی جاری ہے۔


ضرورت اس امر کی ہے کہ چترال کے جعرافیا ئی اہمیت کے پیش نظر امریکن کمپنیز اور انڈین یادیش یادیو کے پارٹنر کی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھی جائے اور چترال کے حساس علاقوں میں ان کے لیزوں کو گرانٹ ہونے سے پہلے کینسل کروایا جائے بصورت دیگر بیرونی سرمایہ کاروں کے روپ میں ملک دشمن انٹیلی جنس اداروں کے ارکان اپنے ذاتی Chartered طیاروں میں چترال پہنچ کہ اپنے پنجے گاڑھ لیں گے اور معدنیات کی Exploration، Extractionاور Processingکے نام پر مشینریز چترال پہنچا کر افغانستان سے ملحقہ ان علاقوں میں نصب کردیں گے جہاں سے وہ باآسانی چترال میں بیٹھ کر افغانستان،چائنہ اور دیگر پڑوسی وسطی ایشیائی ریاستوں پر اپنی نظر رکھ سکیں گے اور بوقت ضرورت ڈرون کے ذریعے کاروائی بھی کر سکیں گے اور ایسا کرنے سے چترال میں امن و امان کے خرابی کی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔


حکمرانوں سے چترالی عوام کی دردمندانہ اپیل یہ ہے کہ بیشک ان امریکن اور انڈین کمپنیز کے مالکان نے الیکشن کے دوران آپ کو سپورٹ کیا ہو گا لیکن اس کا بدلہ پاکستان اور چترال کی سلامتی کو داو پر لگا کر نہیں چکا یا نہیں جا سکتا۔چترال کے عوام اپنے حقوق کے تحفظ اور اپنے علاقے کی سلامتی کے لئے اپنے بہادر افواج اور حساس اداروں کے شانہ بشانہ کھڑی رہے گی اور اس قسم کے سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرے گی اور یہ


لیز کینسل نہ ہونے کی صورت میں اس معاملے کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی۔

American mining lease chitral 1
American mining lease chitral 7
American mining lease chitral 6
American mining lease chitral 5
American mining lease chitral 4
American mining lease chitral 2
American mining lease chitral 3
Minieral registration kp
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , , , , ,
50141

کریم آباد لوٹکوہ میں تین سگی بہنیں دریا شغور میں ڈوب کر جان بحق

کریم آباد لوٹکوہ میں تین سگی بہنیں دریا شغور میں ڈوب کر جان بحق

کریم آباد ( نمائندہ چترال ٹائمز ) چترال لوئر کے علاقہ وادی کریم آباد کے نواحی گاؤں گالح میں تین سگی بہنیں کارپٹ دھوتے ہوئے دریائے شغور میں ڈوپ کر جان بحق ہو گئے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق فوزیہ میر،مسکان میراور اریشین میر دختران میررحمت سکنہ کالح کریم آباد جمعہ کے روز دریائے شغور کے کنارے کارپٹ دھو رہے تھے کہ ان میں ایک بہن پھسل کر دریا میں ڈوب گئی ہے جس کو بچانے کی کوشش میں دیگر دو بہنیں بھی دریا کے بے رحم موجوں کے نذر ہوگئے ہیں ۔تاہم مقامی پولیس واقعے کی انکوائری کررہی ہے۔آیا کہ واقعہ حادثہ ہے یا کوئی اور وجہ ۔۔؟

تینوں کی لاشیں دریا سے برآمد کر کے آبائی گاؤں درونیل کریم آباد پہنچایا گیا۔ ذرایع کے مطابق فوزیہ میر عمر 24 سال سوات میں نرسنگ کررہی تھی۔اوراخری امتحان دیکر چھٹی پر گھر آئی تھیں۔ مسکان میرعمر 14چھٹی اور اریشین 13 سال پانچویں کی طالبہ تھیں۔


ایک ہی گھر میں ایک ساتھ تین بچیوں کی اموات پر علاقے میں کہرام مچ گیا ہے اور ہر ایک انکھ اشکبار ہے ۔

درایں اثنا وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کے معاون خصوصی وزیر زادہ نے اس واقعے پر گہری دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ ایک اخباری بیان میں انہوں نے غمزدہ خاندان سے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ رنج کی ان لمحات میں صوبائی حکومت ان کے غم میں شامل ہے۔

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , , , ,
50126

چترال زرگراندہ بنیادی سہولیات سے محروم،نمائندگان کی صوابدی فنڈز سے بھی نظرانداز- منظوراحمد

چترال زرگراندہ بنیادی سہولیات سے محروم،نمائندگان کی صوابدی فنڈز سے بھی نظرانداز- منظوراحمد

چترال(نمائندہ چترال ٹائمز)سابق نائیبر ہوڈ ناظم منظور احمد ایڈوکیٹ،سماجی کارکنان سیف الدین اور شکیل احمد جناح نے ایک مشترکہ اخباری بیان میں کہا ہے کہ چترال ٹاون کو زمانہ قدیم سے مختلف دیہات کا مجموعہ کہا گیا ہے۔دیہات کے نام ہیں لیکن زرگراندہ کا نام خاص ”چھترار” ہے یہ بات تاریخ چترال سے ثابت ہے اس لییکہ ملحقہ دیہات کے مخصوص نام ہیں مثلا جغور،ہون،مستجپان دہہ،خورکشاندہ،مغلان دہ،آڑیان،موڑ دہ اور زرگراندہ کو صرف ”چھترار” کہا گیا ہے اس لیے چترال کی جو مشہور ندی زرگراندہ کے ساتھ گزرتی ہے اس کا نام ”چھترار گول ” ہے زرگراندہ نام بہت بعد میں یہا ں پر ہندو زرگروں کے بسیرے کی وجہ سے پڑا ہے۔

اس گاوں میں شاہی قلعہ موجود ہے جو اس کے اصل چترال ہونے کا ثبوت ہے۔یہ ”اصل چترال” چترال ٹاون کا دل ہے اس لیے کہ کالجز،بڑے بڑے ہوسٹلز،شناختی کارڈ کا دفتر، ڈی ایچ کیو ہسپتال،پولیس کے دفاتر کونسل تمام عدالتی دفاتر سکول، پریس کلب،رہایشی کرایے کے مکانات،بچیوں کی ہوسٹلیں شاہی قلعہ گودام، پرنٹنگ پریس گویا کہ سارے اہم دفاتر ادھر ہی ہیں۔لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں پر سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ٹاون میں یہ علاقہ سب سے زیادہ متاثر ہے۔ یہاں پر پینے کے پانی کا مسلہ ہے بجلی کی لوڈ شیڈنگ یہا ں سے شروع ہوتی ہے روڈ نام کی کوئی چیز نہیں، گلیاں تنگ اور گزرنے کے قابل نہیں۔سکوریٹی کا کوئی انتظام نہیں۔حکومت کی کوئی توجہ اس اصل چترال کی طرف نہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ ٹاون کے لیے حالیہ حکومتی فنڈ جو کہ خطیر رقم ہے اس میں اس گاوں کا کوئی حصہ نہیں۔ ملحقہ سارے گاوں میں پایپ لاین،بڑے گیٹ،سرچ لایٹ گاوں کے درمیان راستوں اور گلیوں کی پختگی اور کشادگی کے بڑے بڑے منصوبے رکھے گیے ہیں اور ایم این صاحب نے باقاعدہ ان کا افتتاح بھی کیا ہے۔اس علاقے کو بالکل محروم رکھنے کی منطق سمجھ میں نہیں آتی۔گاوں کے مکین اس محرومی پر بہت مایوس اور سیخ پا ہیں ممکن ہے اپنی اس محرومی کے خلاف میدان میں آجائے۔

اُنہوں نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر لویرچترال چترال پولیس ہسپتال عملہ اس سلسلے میں خاموش کیوں ہیں میں حکام بالا سیاسی نمایندوں خاص کر مشیر خاص وزیر زادہ اور ایم این اے کی توجہ اس مسلے کی طرف دلانا چاہتے ہیں اور انتظامیہ کی نوٹس میں لانا چاہتے ہیں کہ زرگراندہ کی اس محرومی کا نوٹس لے کر مزکورہ فنڈ سے اس کا حصہ دیا جایے اور اس کے درینہ مسائل کو ترجیحی بنیاد پر حل کیا جایے۔

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , ,
50103

ڈیموکریٹک مارشل لا ء………..پیامبر………… قادر خان یوسف زئی

پاکستان نازک دور سے گذر رہا ہے ۔ شاید یہ جملہ ہم کئی مرتبہ سیاست دانوں ، حکمرانوں اور دانشوروں سے سن اور پڑھ چکے ہیں ۔ ہمیشہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ نازک دور ختم کب ہوگا ۔ دراصل یہی وہ سوال ہے جس کا جواب ہمیں آج تک نہیں مل پا رہا ۔ یہ نازک دور آتا کب ہے، کیا اس پر کبھی ہم نے غور کیا ۔ تو اس کا جوا ب بھی بہت کم ملے گا۔چند ہفتے بعد موجودہ حکومت کا جمہوری دور ختم ہوجائے گا اور نگران سیٹ اپ کے لئے مشاورت کے بعد کیا ممکنہ صورتحال بنتی ہے اس کے خدوخال بھی واضح ہوتے چلے جائیں گے ۔ ماضی میں آمریت کے درخت تلے کئی پھل ’’پھیلائی ہوئی جھولی‘‘ میں گر جاتے تھے ۔ ڈیموکریٹک مارشل لا ء میں سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی میں تیزی آتی جا رہی ہے۔ وطنِ عزیز اس وقت سیاسی خلفشار میں الجھا ہوا ہے ۔ سیاسی قائدین کی جانب سے اپنے مخالف سیاسی جماعتوں پر الزامات کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے۔ جھوٹے سچے الزامات کے اس بگولے نے اخلاقیات کی تمام حدود کو اُڑا دیاہے۔ عوام ، سیاست دان سمیت تمام ریاستی ستون دشنامی بگولے کی زد میں ہیں ۔ ہر جماعت اپنے سیاسی مخالف کے گڑھ میں اپنی کامیابی کے دعوے انتہائی پُر اعتماد انداز سے کررہی ہے ۔ ایسا ظاہر کیا جارہا ہے کہ جیسے عوام کے مسائل کا حل ان کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ تقریباََ سب بڑی قومی و علاقائی جماعتیں اقتدار میں رہ چکی ہیں ۔ ان کی پالیسیوں سے عوام کماحقہ واقف ہیں۔ ان کے الزامات سے بھی عوام بخوبی آگاہ ہے ۔ پھر اس کے باوجود سیاسی بے چینی کیوں ہے ۔ سیاسی افراتفری و بے یقینی کی فضا کیوں قائم ہے ۔ اس سوال کا جواب ہمیں ہر جماعت سے مختلف ملے گا ۔
متحدہ قومی موومنٹ کے حصے بخرے ہوچکے ہیں ۔ سیاسی طور پر جس جماعت کو سب سے بڑا نقصان پہنچا ہے ۔ وہ کنگ میکر جماعت ایم کیو ایم ہے۔ایم کیوا یم مائنس کا فارمولا تقریباََ مکمل ہوچکا ہے اور سندھ کے شہری علاقوں کی نمائندہ جماعت کہلانے والی ایم کیو ایم ٹوٹے ہوئے پتوں کی طرح بکھر چکی ہے۔ پاک سر زمین پارٹی میں ایم کیو ایم کے تینوں گروپوں کے منحرف اراکین کی شمولیت کی رفتار بڑھ رہی ہے اور ایم کیو ایم کے تینوں دھڑے’ آپسی اختلافات ‘کی وجہ سے اُڑتے پرندوں کو منانے کی سکت بھی نہیں رکھتے کیونکہ ان کے درمیان خود انتشار اس قدر زیادہ ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ، اس کا انہیں بھی خود اندازہ نہیں ہے۔ ایک وقت تھا جب کہا جاتا تھا کہ ایم کیو ایم کو لیاقت آباد تک محدود کردیا جائے گا ۔ بادی النظر یہی نظر آرہا ہے کہ ایم کیو ایم چھوٹے چھوٹے گروپوں میں بظاہر کچھ اس طرح تقسیم ہو گئی ہے کہ اب فاروق ستار و مقبول صدیقی بھی چاہیں عوام کا دوبارہ اعتماد مشکل نظر آتا ہے۔ ایم کیو ایم کے بعد سیاسی طور پر نقصان اٹھانے والی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن ہے ۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کا پاکستان مسلم لیگ نظریاتی بننے کا عمل اپنی روایتی سست روی کے سبب نقصان کا سبب بن چکا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن سے دوسری جماعتوں میں جانے والے روایتی سیاست دانوں کی بڑی تعداد مستقبل کی معلق حکومت کا نقشہ طشت از بام کررہے ہیں۔ شہر اقتدار کے عادی سیاست دان ، باد مخالف کا رخ جان چکے ہیں ۔ اس لئے ان کی پروازیں تیزی سے ٹیک آف کررہی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی اب قومی سیاست میں کیا کردار ادا کرسکتی ہے اس کی ہلکی جھلک ہمیں جنوبی پنجاب میں نظر آنے کی توقع ہے۔ جنوبی پنجاب کے روایتی و مورثی سیاست دانوں کے یک نکاتی ایجنڈے کو قبول کرکے پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ ن کی عددی اکثریت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔تاہم پاکستان مسلم لیگ ق کے ساتھ ساتھ جنوبی پنجاب کا پُرانا منشور لیکر انتخابی اکھاڑے میں اترنے والوں کے لئے نئی’’ کنگ پارٹی ‘‘زر خیز جماعت ہوسکتی ہے جو وفاق میں اقتدار کے معلق پارلیمنٹ میں شراکت دار بن سکتی ہے ۔چاہے اُس وقت حکومت سازی کے لئے پی ٹی آئی یا پی ایم ایل ن کو پی پی پی کی ضرورت ہو یا پیپلز پارٹی کو پاکستان مسلم لیگ ن سمیت کسی بھی سیاسی جماعت کی ۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ سیاست میں کوئی حرف آخر نہیں ہوتا کہ مصداق کسی بھی جماعت کا کسی بھی سیاسی جماعت سے اتحاد خارج از امکان نہیں ۔ شہباز شریف کی کراچی آمد کے باوجود سندھ میں اپنی تر خامیوں کے باجود پی پی پی کی گرفت مضبوط ہے۔ سندھی قوم پرستوں کا گرینڈ الائنس بھی پی پی پی کی صفوں میں دراڑ ڈالنے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتا ۔ شہری علاقوں میں پی ایس پی اور پی ٹی آئی کا سیاسی اتحاد ممکن نظر آتا ہے ۔ کیونکہ مائنس ایم کیو ایم فارمولے میں تحریک انصاف نے پاک سرزمین پارٹی کی حمایت کی تھی ۔ قوی امکان یہی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ فنکشنل، تحریک انصاف، پاک سر زمین پارٹی کا شہری علاقوں میں مشترکہ سیاسی اتحاد ایم کیو ایم اور پی پی پی کے لئے کسی خوش خبری کی نوید نہیں لائے گا ۔عوامی نیشنل پارٹی سندھ کے شہری علاقوں میں اپنی انتخابی قوت کے مظاہرہ کرنے کی اہلیت کھو چکی ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں پشتون تحفظ تحریک کا بگولہ بھی قو م پرست جماعت کو نقصان سے دوچار کرسکتا ہے۔ بلوچستان کی سیاست ہمیشہ سرداروں اور قوم پرستی تک محدود رہی ہے جہاں کے بدلتے رنگوں کے مظاہرے ہمیں وقتاََ فوقتاََ دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں۔ اس لئے وہاں ڈیموکرٹیک مارشل لا کئی ادوار سے چل رہا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف اس وقت پاکستان کی ایک ایسی سیاسی جماعت ہے جو ہر حالت میں وفاق میں حکومت بنانے کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے اور لینے کے لئے تیار بیٹھی ہوئی ہے۔ قبل از وقت انتخابات کے مطالبے سے دستبردار ہونے کے بعد پی ٹی آئی شہر اقتدار میں ’ تبدیلی آگئی ہے ‘ کا نعرہ بلند کرنے کیلئے ریہرسل بھی کرچکی ہوگی۔ اس وقت پی ٹی آئی میں تمام سیاسی جماعتوں کی تتلیاں اپنی جگہ بنا چکی ہیں ۔ دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ تحریک انصاف اس وقت تمام سیاسی جماعتو ں کے باغی ومورثی رہنماؤں کا مشترکہ پلیٹ فارم بن چکا ہے۔لاہور میں 29اپریل کا جلسہ اہمیت کا حامل ہوگا۔ راویتی سیاسی فضا تحریک انصاف کے لئے موافق بننے کی توقع ہے۔دریں اثنا ء جن جن منصوبوں پر پاکستان مسلم لیگ ن کو اپنی انتخابی مہم میں کامیابی کا زعم ہے اس وقت بد عنوانیوں و کرپشن کے الزامات کی زد میں آچکی ہیں۔’’ مجھے کیوں نکالا‘‘ کا نعرہ تبدیل ہوکر ’’تحریک بحالی عدل‘‘ اور ’’ ووٹ کے تقدس‘‘ میں تبدیل تو ہوگیا لیکن منصف اعلیٰ کے سماجی دوروں نے حکمران جماعتوں کے ترقیاتی منصوبوں کے سقم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ پی ایم ایل ن ، سینیٹ انتخابات اور چیئرمین سینیٹ کی کامیابی پر سپریم کورٹ سے نوٹس لینے کا مطالبہ کررہی ہے۔ اگر سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کے الزامات کی پوچھ گچھ کی ہوا چل نکلتی ہے تو جوڈیشنل مارشل لا کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اس صورت میں انتخابات میں تاخیر کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا ۔ گمان غالب یہی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن اپنے انتخابی منظر نامے کی صورتحال کو محسوس کرچکی ہے اور کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح آخری چال بھی کھیلنا چاہتی کہ شاید قسمت کی دیوی ایک مرتبہ ان پر پھر مہربان ہوجائے۔ لیکن سیاسی شہید ہونے کی خواہش سے لیکر خودکش بننے تک ، پاکستان مسلم لیگ ن اپنی جماعت کے اندر اٹھنے والے بگولے کی زد میں آچکی ہے۔ مذہبی جماعتوں کی جانب سے متحدہ مجلس عمل، ملی مسلم لیگ، تحریک لیبک رہی سہی کسر برابر کرنے کے لئے کافی ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں قوم پرستوں کی سیاست ، مذہبی جماعتوں پر غالب نہیں آسکتی ۔ جس طرح ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت قبائلی علاقوں سے اٹھنے والی ایک متنازعہ تحریک قوم پرست جماعتوں کو سیاسی قبر میں اتار رہی ہے۔ اس کے اثرات ملکی سیاست پر بھرپور رونما ہونگے ۔ سیاسی پنڈتوں کا اندازہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن انتخابات کو موخر کرانے کے لئے اپنے بیانیہ میں تبدیلی کرچکی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن نئی صف بندی کے لئے حسب روایت وقت کا انتظار کررہی ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف اور دیگر علاقائی سیاسی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ ن کو لاہور تک محدود رکھنے کی منصوبہ بندی کرچکی ہیں۔ پاکستان کے تمام صوبوں میں علاقائی سیاست قومی سیاست پر حاوی نظر آرہی ہے اس لئے ممکنات ہے کہ علاقائی سیاست کا پلڑا قومی سیاست پر بھاری ثابت ہو اور ایک ایسی پارلیمنٹ کا وجود قائم ہو جو خود مختار نہ ہو۔ڈیمو کرٹیک مارشل لا ء اس وقت سیاسی جماعتوں میں رائج ہے ۔مورثی اور روایتی سیاست سے آزادی کا خواب تاحال ممکن نظر نہیں آتا ، نہ چہرے بدل رہے ہیں اور نہ ہی نظام ۔۔۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
8848

دروش ٹی ایم اے آفس کا بدست فوزیہ افتتاح، جنرل نشست کیلئے فوزیہ کو ٹکٹ دیا جائے۔۔عوام دروش

دروش( جہانزیب سے) پاکستان تحریک انصاف کے ایم پی اے اور پارلیمانی سیکریٹری برائے سیاحت بی بی فوزیہ نے دروش میں ٹی ایم اے آفس کا گزشتہ دن باقاعدہ افتتاح کر دیا ۔ایم پی اے بی بی فوزیہ نے کہا ہے کہ پی ٹی ائی حکومت میں میرٹ پر ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے۔ جس کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں پی ٹی ائی کی مقبولیت روز بروز بڑھ رہی ہے۔چترال دروش میں میگا پراجیکٹ لاوی ہائیڈو پاؤر پرجیکٹ ،جنجریت کوہ روڈ دروش میں متعدد سکولوں کی اپگریڈیشن ، دروش کو تحصیل کا درجہ اور ٹی ایم اے آفس کا ترجیہی بنیاد پر قیام، ٹی ایچ کیو ہسپتال دروش کی اپگریڈیشن جیسے بڑے بڑے پراجیکٹ شامل ہیں۔

ٹی ایم آفس کا دروش میں قیام کے بعد تحصیل دروش میں صفائی نظام کے ساتھ ساتھ عوام کے دوسرے ضروری کاموں میں بھی آسانی ہوگی۔ مختلف لائن ڈیپاڑمنٹ کے دفاتر بھی دروش میں کھولے جائیں گے۔

پی ٹی ائی تحصیل دروش کے صدر سمیع اللہ سمی نے ابتدائی تقریر میں پاکستان تحریک انصاف کے ایم پی اے بی بی فوزیہ اور ضلعی رہنما پی ٹی ائی رضیت با اللہ کی کارکردگی پر روشنی ڈالتے ہوئے انھیں خراج تحسین پیش کیا۔ شیشی کوہ سے زو الفقار نے علاقے کے پسماندگی اور علاقے میں حل طلب کاموں کو ایم پی اے کی نوٹس میں لایا جس میں لاوی ہائیڈو پاؤر پراجیکٹ میں مقامی لوگوں کی بھرتی کیساتھ ساتھ دوسرے اہم ایشو پر ایم پی اے بی بی فوزیہ کو اگاہ کیا گیا۔

اس کے بعد مختلف سیاسی پارٹیز سے تعلق رکھنے والے مقرریں قار ی جمال عبد الناصر،ممبر تحصیل کونسل شیرنذیر،صلاح الدین طوفانؔ ، ممبر تحصیل کونسل قاضی قسور اللہ قریشی ،سابق ڈسٹرکٹ چیرمین الحاج خورشید علی خان، سابق ناظم حیدر عباس، و سی فورم دروش صدر عمران الملک،تجار یونین صدحاجی ر شاد محمد،ڈرائیور یونین کے جنرل سیکٹری فاروق علی شاہ وغیرہ نے بھی پاکستان تحریک انصاف ، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا ، ایم پی اے فوزیہ اوررضیت با اللہ کے کاوشوں کو خراج تحسین پیش کیے گئے۔اس موقع پر مقررین نے بی بی فوزیہ کے کارکردگی کو مد نظررکھتے والے پی ٹی ائی چیرمین عمران سے جنرل نشست کیلے بی بی فوزیہ کو ٹکٹ دینے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔

آخر میں ایم پی اے بی بی فوزنہ نے ائی ایس ایف دروش صدر انجینئر اظہار دستگیر اور جنرل سیکرٹری ڈاکٹر جواد کی موجودگی میں ائی ایس ایف ممبر شپ مہم کا بھی باقاعدہ افتتاح کیا۔ جبکہ اس موقع پر یونین کونسل شیشی کوہ کے عمائدین کے ایک بڑے وفد سے ملاقات میں ان کے مسائل حل کرنے کی یقین دہانی بھی کی اور ساتھ ساتھ تحصیل دروش ناظمین فورم عمران الملک کے قیادت میں بی بی فوزیہ سے ملاقات کی۔
bibi fouzia drosh tma office iftitah 1

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , , , , , ,
8474

وزیر اعلیٰ کی طرف سے اپر ضلع کا اعلان، چترالیوں‌کے پاوں‌پر کلہاڑی مار دی..مولانا چترالی

Posted on

پشاور (چترال ٹائمز رپورٹ)پی ٹی آئی کے صوبائی وزیر اعلیٰ نے چترال اور چترالیوں کے پاؤں پر کلہاڑی مار دی ہے پولو گراؤنڈ چترال میں وزیر اعلیٰ کا اعلان چترال کو دو اضلاع میں تقسیم کر دیا چند دنوں میں نوٹیفیکیشن جاری کر کے بھیج دوں گا نہ ماننے والوں کے منہ پر دے ماریں لیکن افسوس ہے کہ ڈیڑھ ماہ بعد الیکشن کمیشن کے اجلاس میں نئے اضلاع پر پابندی کے بعد وزیر اعلیٰ کو یا د آیا اور آخر کار 28 دسمبر 2017 ؁ ء کیبینیٹ کے اجلاس میں چترالیوں کو لالی پاپ دینے کی ناکام کو شش کی گئی یو ں چترال اور چترالی ایک صوبائی سیٹ سے محروم ہوگئے جو خالصتًا وزیر اعلیٰ کی نااہلی اور صوبائی حکومت کا ہوم ورک نہ کر کے چترال کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا ان خیا لا ت کا اظہار جماعت اسلامی اور متحدہ مجلس عمل کے نامزد امید وار برائے قومی اسمبلی اور سابق ایم این اے مولانا عبد الاکبر چترالی نے الیکشن کمیشن کے فیصلہ پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ چترال سے منتخب عوامی نمائندے بالخصوص رکن قومی اسمبلی مردم شماری کے دوران اور مردم شماری کے نتائج آنے کے بعد بھی کوئی کردار ادا نہ کر سکے انہوں نے کہا کہ 2018 ؁ء کے عام انتخابات میں چترالی عوام پی ٹی آئی کو سبق سکھائے گی اور وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کو یاد دلائے گی کہ جھوٹے وعدوں کے کیا نتائج نکلتے ہیں انہوں نے کہا کہ موجودہ پی ٹی آئی حکومت نے چترال اور چترالیوں کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک روا رکھا ہو ا ہے ۔

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , , , , , ,
8469

چترال میں ماہانہ پولیو مہم کا آغاز، چار دن تک جاری رہے گا ، ڈپٹی کمشنر نے قطرے پلاکر مہم کا افتتاح کیا

Posted on

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز) چترال میں ماہانہ پولیو مہم 9اپریل سے شروع ہوکر چار دن تک جاری رہے گا جس کے دوران ضلع کے طول وعرض میں رہائش پذیر 70ہزار سے پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو پولیو کے قطرے پلوائے جائیں گے جس کے لئے 505ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں جبکہ نگرانی کے لئے 117ایریا انچار ج اور 26یوسی مانیٹرنگ افیسروں کے ساتھ ساتھ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی طرف سے 70مانیٹرز بھی نگرانی کریں گے۔ مہم کا باقاعدہ آعاز باضابطہ آعاز اتوار کے روز ڈی سی چترال ارشاد سودھر نے اپنے دفتر میں متعدد بچوں کو پولیو کے خلاف قطرے پلاکر کیا جس میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ افیسر ڈاکٹر اسرار اللہ ، ایڈیشنل ڈی سی مہناس الدین، ڈی او فنانس محمد حیات شاہ، ڈبلیو ایچ او کے پولیوایریڈیکیش افیسر ڈاکٹر کمال بھی موجود تھے۔ اس موقع پر ای پی آئی کے ڈسٹرکٹ کوارڈینیٹر ڈاکٹر فیاض رومی نے کہا کہ چترال کا افغانستان کے صوبہ کنڑ سے مشترکہ سرحد ہونے کی وجہ سے یہاں وائرس کا خطرہ موجود ہے ۔ انہوں نے کہاکہ چترال کا ضلع 1995ء سے پولیو فری ہے اور اس جان لیوا وائرس سے نمٹنے کے لئے غیر معمولی محنت اور فل پروف انتظامات کی ضرورت ہوتی ہے اور اس علاقے کی وسعت کی وجہ سے مشکلات کے باوجود یہ کام بطریق احسن انجام دیا جارہا ہے۔
polio campaign chitral

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, مضامینTagged , , , , , ,
8465

چترال کے معروف ادیب و شاعر، گُل مراد خان حسرت کے افسانوں کا مجموعہ “چیلیکیو چھاغ “کی تقریب رونمائی

چترال ( محکم الدین ) چترال کے معروف ادیب و شاعر،ماہر تعلیم ،محقق اور کہنہ مشق قلمکار گُل مراد خان حسرت کے افسانوں کا مجموعہ “چیلیکیو چھاغ “کی تقریب رونمائی انجمن ترقی کھوار چترال کے زیر اہتمام ضلع کونسل ہال چترال میں اتوار کے روز منعقدہوئی ۔ اس پُر وقار تقریب کے مہمان خصوصی پروفیسر شفیق احمد جبکہ صدر محفل کے فرائض ممتاز ادیب و شاعر امین الرحمن چغتائی تھے ۔ چترال کے نا مور علمی وادبی شخصیت پروفیسر اسرارالدین ، مسلم لیگ ن کے رہنما اور شاعر زار عجم خان اعز ازی مہمان کی حیثیت سے تقریب میں شرکت کی ۔ تقریب کی نظامت پروفیسر ظہورالحق دانش نے کی ۔ جبکہ صدر انجمن ترقی کھوار شہزادہ تنویرالملک نے شرکاء کا شکریہ ادا کیا ۔ کتاب پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے فرید احمد رضا ، ظہورالحق دانش ، عنایت اللہ اسیر ، پروفیسر ممتاز حسین ، محمد یوسف شہزاد ،ایم آئی خان سرحدی ایڈوکیٹ نے کہا ۔ کہ گُل مراد خان حسرت کی یہ کتاب کھوار افسانوں کا پہلا مجموعہ ہے ۔ اور اس میں جو افسانے پیش کئے گئے ہیں ۔ وہ چترال کے معاشرے کی بھر پور عکاسی کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ کھوار شاعری چترال میں اپنے عروج کو پہنچ چکاہے ۔ اور شعراء کے کلام کسی بھی زبان کے اعلی مقام کے حامل شعراء کے کلام سے کم نہیں ۔ لیکن افسانہ نگاری کی طرف چترال کے اُدباء نے بہت کم توجہ دی ۔ اسلئے اس کتاب کو افسانوں کی پہلی کتاب ہونے کا اعزازحاصل ہے ۔ انہوں گل مراد حسرت کی اس شاندار کاؤش کی تعریف کرتے ہوئے اسے چترال میں افسانہ نویسی کی طرف ایک اہم قدم قرار دیا ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ افسانوں میں اصلاحی پہلو نمایاں ہیں ، اور نہایت سادہ اور اعلی الفاظ کا چناؤ کیا گیا ہے ۔ جو کہ قاری کو اپنی طرف مسلسل متوجہ رکھنے کا سبب بن رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ ادب برائے ادب کی بجائے ادب برائے زندگی ہونی چاہیے ۔ جس میں خامیوں کی نشاندہی برائے معاشرتی اصلاح کے ہو نہ کہ برائے تنقید ۔ پروفیسر اسرار الدین نے اپنے خطاب میں کہا ۔ کہ چترال کی مٹی میں ایک کشش پایا جاتا ہے ۔ جو یہاں آتا ہے ۔ اسی کا ہوکے رہ جاتا ہے ۔ حالانکہ چترال سے بہت خوبصورت علاقے موجود ہیں ۔ لیکن چترال اپنے اندر مختلف النوع مناظر رکھنے اور مختلف کلچر میں رنگین ہونے کی وجہ سے سیاحوں اور ملکی و بیرونی اہل علم دانش کو بہت پسند ہے ۔ انہوں نے انجمن ترقی کھوار کے کردار کی تعریف کی ۔ کہ وہ اپنے محدود وسائل کے باوجود مختلف کتابیں شائع کرنے میں مدد دے کر زبان و ادب کی ترویج میں اہم کردار ادا کر رہا ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ انجمن کو مالی طور پر مستحکم کرنے کیلئے ضروری ہے ۔ کہ جو کتابیں چھپ جائیں ۔ ممبران اُن کی خریداری کریں ۔ تقریب میں چترال کے پہلے ناول ‘انگریستانو”کے مصنف ظفر اللہ پرواز کی کوششوں کو سراہا گیا ۔ اور اس ناول کو چترال کی ادبی تاریخ کا قیمتی سرمایہ قرار دیا گیا ۔ انہوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا ۔ کہ غذر کے کھوار بولنے والے بھائیوں نے بھی چترال کے حروف تہجی کو ہی اپنانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ انہوں نے غذر کے ایک شاعر کا مجموعہ انجمن ترقی کھوار کے زیر ادارت شائع کرنے اور چترال کے ممتاز ادیب محمد عرفان عرفان کی کتاب “چترال کے لوک گیت “پر بھی خوشی کا اظہار کیا ۔ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی نے اپنے خطاب میں کہا ۔ کہ پاکستان کے تمام لکھاری اپنے افسانوں کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ اور انہوں نے اپنے قلم کے ذریعے معاشرتی ناہمواریوں کو اُجاگر کیا ۔ گُل مراد حسرت نے اپنے چند افسانوں کو اکھٹا کرکے قابل تعریف کام کیا ۔ تاہم مزید کام کی ضرورت ہے ۔ مہمان خصوصی پروفیسر شفیق احمد اور صدر محفل امین الرحمن چغتائی نے اپنے خطاب میں چیلیکیو چھاغ کو ایک کامیاب کاوش قرار دیا ۔ اور کہا ، کہ ادب کے بہت سے شخصیات اپنے افسانوں کی بنا پر زندہ ہیں ، جن میں پطرس بخاری ، قدرت اللہ شہاب جیسے نامور ادیب شامل ہیں ۔ انہوں نے انجمن ترقی کھوار کے دامن کو وسیع کرنے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو زبان و ادب کے حلقے میں شامل کرنے ضرورت پر زور دیا ۔ تاہم انجمن کے صدر شہزادہ تنویرالملک کی کوششوں کو سراہا گیا ۔ صدر انجمن نے تقریب میں شرکت پر تمام کا شکریہ ادا کیا ۔ اور انجمن کی کوششوں پر روشنی ڈالی ۔ تقریب کے دوران انصار الہی نے نعت شریف پیش کی ۔ جبکہ افضل اللہ افضل ، فدالرحمن فدا نے نظم اور محمد اسلم شیروانی نے اشور جان پیش کرکے داد وصول کی ۔
صاحب کتاب گل مراد حسرت نے چیلیکیو چھاغ کی رونمائی کیلئے شاندار تقریب منعقد کرنے پر صدر انجمن اور دیگر عہدہ داروں کی تعریف کی . اور تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا.

afsana gul murad hasrat chitral 11

afsana gul murad hasrat chitral 3

afsana gul murad hasrat chitral 2 afsana gul murad hasrat chitral 4 afsana gul murad hasrat chitral 5 afsana gul murad hasrat chitral 6

afsana gul murad hasrat chitral 1

afsana gul murad hasrat chitral 2
afsana gul murad hasrat chitral 7

afsana gul murad hasrat chitral 8

afsana gul murad hasrat chitral 9

afsana gul murad hasrat chitral 13

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , , , , , ,
8448

شہید اسامہ وڑائچ کیرئیر اکیڈمی کے خلاف خفیہ گروپ سرگرم،نوٹس لیا جائیے..فداالرحمن

Posted on

چترال (چترال ٹائمز رپورٹ ) شہید اسامہ وڑائچ کیرئیر اکیڈمی چترال کے خلاف ایک خفیہ گروپ سرگرم ہو چکا ہے – رات کو آکر اکیڈمی کے اشتہارات پھاڑ دیتے ہیں اور اکیڈمی کے بینرز اٹھا کر لے جاتے ہیں – شہید اسامہ وڑائچ کیرئیر اکیڈمی چترالی قوم کو معیاری تعلیم دینے اور مختلف کیرئیرز کے حوالے سے آگاہی پروگرامات کرا رہا ہے – دو سال کے قلیل عرصے میں اکیڈمی کے سٹوڈنٹس ملک کے مختلف بڑے تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے میں کامیاب ہو چکے ہیں – جن میں آغا خان میڈیکل کالج، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پشاور، کیڈٹ کالجز شامل ہیں –

یاد رہے کہ یہ اکیڈمی ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن کی زیر نگرانی کام کر رہا ہے – شہید اسامہ وڑائچ کیرئیر اکیڈمی کے کوآرڈینیٹر فدا الرحمن پشاور سے چترال ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اکیڈمی اپنا عظیم مشن جاری رکھے گا -ہمارا مقصد چترال میں معیاری تعلیم مہیا کرنا اور چترالی طالب علموں کو مختلف کیرئیرز کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنا اور انکی رہنمائی کرنا ہے -اسامہ وڑائچ کیرئیر اکیڈمی بہت ہی کم عرصے میں ترقی کے منازل طے کر رہا ہے – مخالفین کا اصل مقصد چترالی قوم کو آج کے جدید دور میں پیچھے ہی رکھنا ہے – اکیڈمی کی کامیابی ان کو ہضم نہیں ہو رہی ہے – کافی عرصہ سے یہ گروپ سرگرم ہے -کوآرڈینیٹر فدا الرحمن نے ڈپٹی کمشنر چترال اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر چترال سے اس گروپ کے خلاف کاروائی کرنے اور قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے –

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , , , , , ,
8445

صدا بصحرا ………….اور یہ اہل کلیسا کا نظامِ تعلیم……………ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

خبر آئی ہے کہ حکومت نے نظام تعلیم میں دور رس اصلاحات کے لئے ایک اور کمیٹی بٹھانے کا فیصلہ کیا ہے ۔یہ اس سلسلے کی دو سو پچاسویں کمیٹی ہوگی۔ پہلے سے بنی ہوئی دو سو اننچاس کمیٹیوں کی طرح اس کا نتیجہ بھی صفر ہوگا۔ خبر کی تفصیلات میں بتا یا گیا ہے کہ سکول اور مدرسہ میں قُربت لائی جائیگی۔ مدرسہ کی اصلاح کر کے اس کو ’’ مشرف بہ دنیا‘‘ کیا جائے گا۔ سکول میں اصلاحات متعارف کروا کر اس کو ’’ مشرف بہ دین ‘‘ کیا جائے گا۔ گویا وہی صورت حال ہوگی جس کی طرف شاعر نے اشارہ کیا ہے ’’ ہاتھ سے امت بیچاری کا دین بھی گیا دُنیا بھی گئی‘‘۔ یادش بخیر ! سابق صوبائی وزیر قادر نواز خان مرحوم باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔ انہوں نے نوشہرہ میں تعلیم حاصل کی، مردان اور کابل میں نوکری کی۔ تحریک آزادی اور تحریک پاکستان میں شیر بہادر خان اور پیر آف مانکی شریف کی قیادت میں بھرپور حصہ لیا۔ ریفرنڈم میں پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالا۔ مرحوم کہا کرتے تھے مدرسہ قیام پاکستان سے پہلے سکول کا نام تھا، مدرسے کا تعلق مسجد، مولوی اور دارالعلوم سے نہیں تھا۔ علاقے کے علماء سکول کو کفر قرار دیتے تھے۔ سکول جانے والوں کو دوزخی اور کافر سمجھتے تھے۔ اس زمانے میں ایک قطعہ مشہور ہو ا تھا
سبق دَ مدرسے وائی
دپارہ دَ پیسے وائی
جنت کی بہ زائے نہ وی
دوزخ کی بہ گسے وہی

جو مدرسے کا سبق پڑھتا ہے ، نوکری اور تنخواہ کے لئے پڑھتا ہے ۔ جنت میں اس کی کوئی جگہ نہیں ۔ دوزخ میں ٹھوکریں کھاتا پھرے گا۔75سال بعد زمانہ کتنا بدل گیا؟دارالعلوم کا نام مدرسہ ہوگیا۔ اور مدرسہ والوں کو جنّت کی بشارت مل گئی۔ سمندرخان سمندر یا عبد الستار عارف خٹک سے اس پر قطعہ کہنے کی فرمائش کی جاتی تو دوسرا قطعہ بھی عنایت ہوتا۔ مگر دونوں ہم میں نہیں رہے۔ مسئلہ بہت سنجیدہ ہے۔ ایک یونیورسٹی میں سیمینار تھا۔ موضوع تھا ’’ پاکستانی قومیت اور ثقافت کا مسئلہ‘‘ پہلا سوال یہ تھا کہ ہم اس کو مسئلہ کیوں سمجھتے ہیں؟ کیاحقیقت میں یہ مسئلہ ہے؟ جواب یہ آیا کہ حقیقت میں اس کو مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔ اور اس کو کسی اور نے مسئلہ نہیں بنایا۔ استاد ، سکول ، مدرسہ ، دارالعلوم ، کالج اور یونیورسٹی نے مسئلہ بنادیا۔ اس مسئلے کی طرف برطانیہ کی ولنٹیر سروسز اور اورسیز (VSO) کے لئے تیار کی گئی رپورٹ میں اشارہ کیا گیا ہے ۔ یہ رپورٹ مارچ 1986 ء کی ہے۔ اسے رچرڈ ایلی سن ( Richard Allison) نے مرتب کیا ہے۔ رپورٹ میں صراحت کے ساتھ لکھا گیا ہے کہ پاکستان کا تعلیمی نظام اس قوم کی پراگندگی اور پسماندگی میں اضافہ کر رہا ہے۔ لکھنے والے نے لکھا ہے کہ یہاں 8 قسم کے نظامِ ہائے تعلیم ایک دوسرے کے مقابلے میں کام کررہے ہیں ۔ سرکاری سکول ، کالج اور یونیورسٹی کے مقابلے میں دارالعلوم اور مدرسہ ہیں۔ دونوں کا رُخ الگ الگ ہے۔ او لیول کے مقابلے میں گاؤں کی سطح پر دو کمروں اور تین کمروں والے چھوٹے پبلک سکول ہیں ۔ دونوں الگ الگ سمتوں میں رواں دواں ہیں۔ایچی سن کے مقابلے میں درمیانہ سطح کے پبلک سکول ، کالج اور نجی ادارے ہیں۔دونوں الگ الگ سمتوں کے مسافر ہیں۔کیڈٹ کالجوں اور کانونٹ سکولوں کے مقابلے میں این جی اوز سکول ، کالج اور ان کی یونیورسٹیاں ہیں۔ یہاں بھی دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ایک کا رخ شمال کی طرف ہے دوسرے کی سمت جنوب میں ہے۔ برطانوی ادارے کی رپورٹ میں دینی مدارس کو ایک متحدہ یونٹ قرار دیا گیا ہے۔ حقیقت میں دینی مدارس بھی پانچ الگ الگ سمتوں میں رواں دواں ہیں۔ دیوبندی کا وفاق المدارس ہے۔ بریلوی کا تنظیم المدارس ہے۔ اہل حدیث اور اہل تشیع کے الگ ہیں۔ جماعت اسلامی کا رابطتہ المدارس ہے ۔ پانچ بورڈ ہیں۔ پانچوں کی آپس میں دشمنی ہے۔ ادیانِ باطلہ کے نصاب میں ہر مکتبہ فکر نے باقی چار کو باطل قرار دیا ہے۔ اس طرح 12سمتوں پر تعلیمی سفر ہورہا ہے۔ علامہ اقبال ؒ نے کہا
گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا لا الٰہ الا اللہ

کہا جارہا ہے کہ حکومت نے نظام تعلیم کی اصلاح کے لئے دو سو پچاسویں کمیٹی قائم کررہی ہے۔ اب یہ کمیٹی قائم ہوگی تو کیا کرے گی۔ایک درجن متصادم اور متحارب گروہوں کو ایک جگہ اکٹھا کر کے جاپان ، چین ، برطانیہ ، ترکی اور ایران کی طرح یکسان نظام تعلیم مرتب کرنا جتنا اہم اور ضروری ہے اتنا مشکل بھی ہے ۔ اس کے لئے فیلڈ مارشل ایوب خان اور جنرل مشرف کی طرح لیڈر شپ کی ضرورت ہے۔ اگر لیڈر شپ میسر آئے تو یکساں نظام تعلیم رائج کیا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد اُمید پیدا ہوگی کہ 20سال بعد ڈگری لیکر باہر آنے والے پاکستانی ایک قوم، ایک مذہب اور ایک ملک کے ساتھ محبت کرنے والے ہونگے ورنہ یہی انتشار ہمارا مقدر رہے گا۔ مفکر پاکستان نے تحقیق کے بعد سوچ سمجھ کر یہ بات کہی
اور یہ اہل کلیسا کا نظام تعلیم
فقط اک سازش ہے دین و مروت کے خلاف

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , ,
6488

محکمہ معدنیات نے غیرقانونی کان کنی روکنے کی غرض سے صوبے میں پانچ ذیلی دفاترقائم کیے ہیں

Posted on

خیبر پختونخوا کے محکمہ معدنیات نے صوبے میں غیرقانونی کان کنی روکنے اور معدنی وسائل کے تحفظ کے لیے کڑی نگرانی اور جانچ کی غرض سے صوبے میں پانچ ذیلی دفاتر ایبٹ آباد، کرک،سوات، پشاور اور چترال قائم کیے گئے ہیں جن کی فعال اور بھرپور کارکردگی کی بدولت گزشتہ ایک سال کے دوران خزانے کو دو ارب روپے سے زائد کی آمدن ہوئی ہے۔
پشاور ( چترال ٹائمز رپورٹ ) صوبے میں غیر قانونی کان کنی کے زریعے متاثر یاضائع ہونے والے معدنی وسائل کو روکنے کے لیے محکمہ معدنیات نے مانیٹرنگ کا سخت اور آزادانہ نظام رائج کیا ہے جسے عملاً لاگو کرنے کے لیے پانچ ریجنل دفاترکام کررہے ہیں۔ہر ریجن میں ضلع کی سطح پر کیمپ دفاتر فعال کرکے مانیٹرنگ کو موثر اور مربوط بنایا گیا ہے تاکہ معدنیات کی غیر قانونی کان کنی کی صورت میں خزانے کو ہونے والے نقصانات کا راستہ روکا جائے۔ کیمپ آفس ایبٹ آباد، مانسہرہ، ہریپور، کوہستان،پشاور، نوشہرہ،بونیر ،شانگلہ،سوات، مالاکنڈ،کوہاٹ، ہنگو،بنوں،ڈی آئی خان اور چترال میں قائم کیے گئے ہیں۔اضلاع کی سطح پر یہ پر دفاتر مکمل جانچ پرکھ اور کڑی نگرانی کرکے ان لیز مالکان کی بھی نشاندہی کررہے ہیں جن کی کارکردگی ناقص ہے اور جو کام کے دوران قواعد وضوابط کو نظرانداز کررہے ہیں۔کان کنی کے لیے درکار چالان پیپرز کی مکمل پڑتال، معدنی کانوں سے نکلنے والے خام مال کی اصل مقدار کا جائزہ کہ کہیں دستاویزات میں ذکرکردہ مقدار سے متجاوز تو نہیں ان امور کی بھی مانیٹرنگ عملہ نگرانی کرے گا۔محکمہ معدنیات کے مطابق مانیٹرنگ کے نظام کی بدولت صوبے کے معدنی وسائل کو تحفظ حاصل ہوگا ساتھ ہی ساتھ رائلٹی کے طریقہ کار کو بھی پرکھا جائے گا ۔محکمہ معدنیا ت کے مانیٹرنگ یونٹس کے قیام کے باعث محکمے کو آمدن کے حصول کے اہداف کو حاصل کرنے میں بھی 100فیصد کامیابی ہوئی ہے۔ محکمے نے گزشتہ برس مختلف مد میں 2ارب دس کروڑ کے ہدف کا تعین کیا تھا تاہم مانیٹرنگ یونٹس کی فعال کارکردگی سے محکمے کو مقررہ ہدف سے بھی زائد آمدن کا حصول ممکن ہوا ہے ۔محکمہ معدنیا ت کے مطابق مانیٹرنگ نظام کی عدم موجودگی کے باعث ماضی میں صوبائی خزانے کو بھاری نقصانات اٹھانے پڑتے تھے جسکاراستہ روک دیا گیا ہے۔محکمے نے مانیٹرنگ عملے کو فعال اور مستعد رکھنے کے لیے گاڑیاں بھی مہیا کی ہیں تاکہ فیلڈ سٹاف باآسانی اپنے فرائض کی انجام دہی کرسکے،اسکے علاوہ نگرانی کو موثر بنانے کے لیے90مزید منرل گارڈز کی تعیناتی بھی کی گئی ہے۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged , , ,
6445

چترال کے اکثر نوجوان حصول تعلیم کے بعد ملازمتوں کے انتظار میں ٹائم ضائع کررہے ہیں۔ عبد الطیف

چترال ( محکم الدین ) چترال کے تین ماسٹر دگری ہولڈر نوجوانوں نے “کوروم غار “کے نام سے شہریوں کو گھر بیٹھے سودا سلف خریدنے اور گھر تک پہنچانے کی سہولت فراہم کرنے کا آغاز کیا ہے ۔ تینوں نوجوان خالد محمود الیکٹریکل انجینئر ، شفیق اعظم ایم ِ فل بایو ٹیکنالوجی یونیورسٹی آف پنجاب اور رئیس زادہ نور زمان ایم ایس سی پولٹیکل سائنس پر مشتمل تین رکنی ٹیم نے سروس کے افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ۔ کہ چترال کی سطح پر یہ نیا آئیڈیا ہے ۔ لیکن اُنہیں اُمید ہے یہ سروس کامیاب ہو گا ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ گانکورینی سے بکر آباد تک فی الحال یہ سہولت فراہم کی جائے گی ۔ اُس کے بعد اس کو مزید شہروں تک بڑھایا جائے گا ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ کسی بھی شہری کو بازار سے فوری سودا سلف اور بیس کلو گرام تک سامان گھر پہنچانے کی ضرورت پڑے ۔ تو وہ “کوروم غار KORUMGHAR “کی نمبر پر کال کرکے گھر بیٹھے سامان حاصل کر سکتا ہے ۔ جس کیلئے صرف ایک سو روپے ڈیلیوری سروس ادا کرنا پڑے گا ۔ جو کلائنٹ کے وقت اور پیسے کی بچت کے حساب سے کوئی بڑا معاوضہ نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ یہ کام ہم نے چترال کے اُن نوجوانوں کو بزنس لائن پر لانے اور مختلف آئیڈیا تخلیق کرکے روزگار کے مواقع مہیا کرنے کے جذبے کے تحت شروع کیا ہے ۔ اس موقع پر تحریک انصاف کے رہنما عبداللطیف نے کہا ۔ کہ ہمارے نوجوان حصول تعلیم کے بعد ملازمتوں کے انتظار میں کچھ نہیں کرتے ۔اور والدین پر بوجھ بنے ہوئے ہیں جبکہ خدا کی دُنیا وسیع ہے ، اور مختلف کام کرکے باعزت روزگار کمایا جا سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ آج چترال کی حالت یہ ہے ۔ کہ مقامی نوجوان کام نہ کرنے کے سبب غیر مقامی لوگ کاروبار اور تمام تعمیراتی کام پر قبضہ جما رکھا ہے ۔ اور روزگار کیلئے عرب ممالک جانے کی بجائے چترال کو ترجیح دیتے ہیں ، لیکن مقامی نوجوان ہاتھ پر ہاتھ دھرے وقت گزار رہے ہیں ۔ تقریب سے پروفیسر ظہورالحق دانش ، الطاف ایم طاہر اور دیگر نے خطاب کیا ۔ اور اس ا مر کا اظہار کیا ۔ کہ یہ چترال کے نوجوانوں کو ان کی تقلید کرتے ہوئے دوسرے مواقع تلاش کرنے چاہیءں ۔ اور دیے سے دیا جلتا رہے ۔ تاکہ چترال معاشی طور پر خوشحال ہو ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ ہم سی پیک کے فوائد کی تو بات کر رہے ہیں ۔ لیکن ہم نے ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی ۔ تو سی پیک چترال کی تباہی کا سبب بنے گا ۔ اور وسائل پر دوسرے لوگ قابض ہوں گے ۔ پروگرام کے آخر پر افتتاح کیخوشی میں کیک کاٹے گئے ۔ اور شرکاء نے بھر پور تعاون کی یقین دھانی کرائی ۔

Posted in تازہ ترینTagged , , , , ,
4602

قدرتی آفات کے نقصانات پر موجودہ صوبائی حکومت نے چترال کے عوام کو نظر انداز کئے رکھا۔۔خدیجہ سردار

پشاور (چترال ٹائمز رپورٹ ) عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی جائنٹ سیکرٹری خدیجہ سردار نے کہا ہے کہ اے این پی ہمیشہ سے خواتین اور مردوں کی برابری پر یقین رکھتی ہے اور خواتین کوعملی سیاست میں کردار ادا کرنے کیلئے تیار کرنے کا سہرا فخر افغان باچاخانؒ کے سر ہے جنہوں نے خدائی خدمتگار تحریک کے ذریعے خواتین کو میدان عمل میں نکلنے کی تعلیم دی ‘خدائی خدمتگاروں میں نہ صرف مرد بلکہ خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے ، اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ کسی بھی معاشرے کی ترقی میں خواتین کا کردار خصوصی اہمیت کا حامل ہے ‘ خواتین کو حقو ق دئیے بغیر کوئی بھی معاشرہ اور ملک ترقی نہیں کر سکتا ‘ انہوں نے کہا کہ اے این پی واحد سیاسی جماعت ہے جس نے چترال کی ترقی کیلئے قابل قدر خدمات انجام دیں اور وہاں کے عوام کے مسائل کے حل کیلئے ترجیحی بنیادوں پر کام کیا ،انہوں نے کہا کہ بارشوں ،سیلاب اور قدرتی آفات کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات پر موجودہ صوبائی حکومت نے چترال کے عوام کو نظر انداز کئے رکھا جبکہ اے این پی نے اقتدار میں نہ ہونے کے باوجود یہاں کے عوام کی داد رسی کی اور حتی الوسعی متاثرین کی خدمت جاری رکھی ، خدیجہ سردار نے کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی شروع دن سے ہی صنفی امتیاز کے خلاف جدوجہد کر رہی ہے ‘ اور آج بھی ہماری ماؤں بہنوں کو ہماری جدوجہد سے اتفاق ہے اوروہ اے این پی پر اعتماد کرتی ہیں ‘ انہوں نے کہاکہ اے این پی نے اپنے دور حکومت میں خواتین کی فلاح وبہبود کیلئے مختلف منصوبے شروع کئے جن کی تکمیل سے نہ صرف خواتین اپنے پیرو ں پر کھڑی ہوئیں بلکہ معاشرے کی ایک فعال اکائی کے طور پر ابھر کر سامنے آئیں ، انہوں نے خواتین سے اپیل کی کہ پختون قوم کے بہتر مستقبل کیلئے پارٹی قائد اسفندیار ولی خان اور اے این پی کے ہاتھ مضبوط کریں ۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریںTagged , , , ,
4591

ایون کے مقام آٹانی میں دو فریقوں کے مابین جنگل کے تنازعے میں چھ افراد زخمی

Posted on

چترال ( محکم الدین ) ایون کے مقام آٹانی میں دو فریقوں کے مابین جنگل کے تنازعے میں چھ افراد زخمی ہوگئے ۔ جبکہ دونوں فریقین میں مجموعی طور 33افراد کے خلاف مقدمات درج کر لئے گئے ہیں ۔ مقدمے میں ایک خاتون بھی شامل ہے ۔ تفصیلات کے مطابق ایون کے مقام آٹانی میں کئی عرصے سے مقامی لوگوں اور مال مویشی پالنے والے گجر برادری کے مابین ایک تنازعہ چلا آرہا ہے ۔ اور عدالت نے جنگل کو بچانے کیلئے شاہ بلوط کے درختوں کی مال مویشیوں کیلئے چارہ کے طور پر کٹائی پر پابندی لگا دی ہے ۔ مقامی ناظمین ،کونسلرز اور دیگر افراد گذشتہ ڈیڑھ مہینے سے کیمپ لگا کر جنگل کی نگرانی کر رہے تھے ۔ اور مال مویشیوں کیلئے جنگل سے شاہ بلوط کے درختوں کی کٹائی کرکے لانے پر نگاہ رکھتے تھے ۔ گذشتہ روز مخالف فریق کے مردو خواتین اچانک اُن پر حملہ آور ہوئے ، ڈنڈوں کا استعمال کیا اور شدید سنگ باری کی ۔ جس کے نتیجے میں موقع پر موجود کسان کونسلر مجاہد ، نائب ناظم فضل الرحمن ، عاشق حسین ، اعزاز ربانی اور سجاد الرحمن زخمی ہوئے ، جبکہ دوسرے فریق میں سے ایک نوجوان غفار الدین کو معمولی چوٹیں آئیں ، ایون پولیس کے مطابق دونوں فریقین کے خلاف کراس ایف آئی آر درج کر لئے گئے ہیں ۔ جن میں فریق اول کے طور پر ویلج ناظم مجیب الرحمن ،نائب ناظم فضل الرحمن ، کونسلر مجاہد سمیت دس افراد کے خلاف اور فریق دوئم کے طور پر محی الدین ، طاہر ، اشرف سمیت 23فراد کے خلاف ایف آئی آر چاک کئے گئے ہیں ۔ زخمیوں میں کونسلر مجاہد کو گُھٹنے پر شدید زخم کی وجہ سے پشاور ریفر کردیا گیا ہے ۔ تصادم میں ایک خاتون کے خلاف بھی مقدمہ درج کر لی گئی ہے ۔ کئی افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے ۔

ayun zakhmi chitral2

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , , ,
2714

“جستجوئے خیال” …… دشت جنون کے روتے ارواح……. شفیق آحمد شفیق‎‎

Posted on
جنون پاگل پن کو کہتے ہے۔ اور یہ اس وقت وجود میں آتا ہے جب آپ کسی تصور یا شئے کو اپنی فطرت میں شامل کرتے ہے، اور اپنی زات کو اس کا ایسا عادی بناتے ہے کہ آپ کے حواس ، ہوش و خرد پہ حاوی ہوجائے ۔ اور جب وہ حاصل نہ ہو، یا آپ نے جو خیال کیا ہو وہ اس مطابق نہ نکلے۔ تو پھر ایک نفسیاتی بیماری لاحق ہوتی ہے ، جس کو پاگل پن کہتے ہیں۔ اور اگر خوبصورت الفاظ مٰیں بولوں تو جنون کہتے ہیں۔ ہمارے سماج میں بھی ایسے افراد بہ درجہ اتم موجود ہے ، بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ ہمارا معاشرہ ایسے لوگوں سے بڑی پڑی ہے۔ اور الہ دین کا چراغ بھی ان ہی کے ہاتھوں ہے۔ جو کہتے ہیں وہ کر جاتے ہیں۔ خواہ کوئی قانوں و اصول ہی کیوں نہ توڑیں۔ لیکن ان کا ایک ہی نعرہ ہے  ہونا وہی ہے جو میرا جنوں کہتا ہے۔
معاشرہ چونکہ مختلیف سوچ رکھنے والے اور مختلیف ثقافت و تہذیب ، مذہب ، رنگ و نسل ، روایات  کے حامل لوگوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ اور بحیثت ایک سماج کہ لوگوں کے ہم ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ کیونکہ اس کے بغیر زندگی کا پہیہ چلانا مشکل ہو تا ہے۔ لیکن جب بھی ہم دیکھتے ہے، جنون کی آڑ میں روحوں کے ساتھ یہ ظلم و ستم دیکھنے کو ملا جس طرح کفار نے رسول خدا صلم پر ظلم کیا  اور لین دین ، تجارت سب بند کردیا ۔اور رسول خدا صلم کو شعیب ابی طاالب میں پتے کھا کر وقت گزارنا پڑآ۔ اگر کسی نے خیر کی بات کی اور آزادی انسان کی قدر کرتے ہوئے کچھ کہا تو ان کو واصل مرگ کیا گیا ۔  غرض حق و باطل کے معرکے میں لفظوں کی جنگ سے جو راکا وٹیں پیدا ہوئی۔   ایک بے رنگ و دکھ بھری داستا ن رقم کی ۔ جس سے انسان جیسے اعظیم خلقت کی روح متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ اس روح پرور سوچ پر بھی دبہ لگا دیا جو اہل فکر کی میراث تھی۔
انسانی وجود اور روح کی ہستی میں دم نہاں کی صورت دو رخی ہے ایک رخ کا تعلق اس جہاں سے دوسرے رخ کا تعلق دوسرے جہاں سے ہے۔ لیکن دونوں جہانوں کا عکس جب ایک آئینے میں دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے  تو پھر وہ رونق کچھ اس طرح سے ختم ہوجاتا ہے۔ کہ پہلے کیلئے دوسرے کو چھوڑو اور دوسرے کیلئے پہلے کو چھوڑو، یا پھر تیسری صورت نکالو، آدمی کو ہی مار ڈالو۔ کیونکہ  آدمی سوچتا ہے۔ اور دشت جنون کے ارواح سوچنے والے کو نہیں چھوڑتے کیونکہ سوچنے سے دنیا کماتے ہو، دنیا پسند ہوجاتے ہو۔۔ وہاں کام کرنے کیلئے اور زریعہ نہیں، صرف جنون کی کمائی ہے۔ روح بغیر کھانے کے صرف کھانے کے خواب دیکھنے سے اپنی بھوک مٹاتے ہیں۔
ایک بہت بڑا ہجوم ہے جو دلوں پہ مہر اور دماغوں میں قلف لگائے ہوئے ہیں۔ اور چل رہے ہیں۔ اور اتنا لمبا سفر طے کیا ہے کہ تاریخ کے اوراق بھی دھنگ رہ جائے۔ لیکن جب حال کی صورت کو سمجھنے کی کوشش کریں تو کچھ ایسا ہے کہ دل خوں کے آنسو رویے، جان اپنا نوحہ پڑیں، خودی تڑپتے ہوئے مر جائے۔ ہر آنکھ سے آنسو نکلے اور اپنی بے بسی کا نغمہ گاتے ہوئے اپنی بے سبی کیئلے ڈھال بن جا ئے۔
المختصر جب کوئی کام فطرت کے خلاف ہو۔ تو وہ دیر تک نہیں ٹھرتا بلکہ  وقت اپنا رنگ دکھاتا ہے۔ جس فلسفے کے پیچھے من گھڑت داستا ن ہو۔ جو تصور کھوکھلی ہو، جو خواب بے چھین ہو۔ جو زندگی بے قیمت لگیں اور قربانی کا بکرا ہو۔  تو گرچہ یہ بات دل کو لگتی نہیں لیکن جذبوں کو ہلا دیتی ہے۔ کہ دشت جنوں کے روتے ارواح بے یارو مدددگار ہے۔ اور ان کو راستہ نہیں مل رہا ، اگر ملے گا بھی تو وہ دہشت ہے۔ یہ رو رہے ہیں، فریاد کرہے ہیں۔ لہذا  درمیانی راستہ اپنانا چایئے۔ پھر سے دوبارہ احیا کی ضرورت ہے۔ اور صراط مستقیم کی طرف لانے کی ضرورت ہے۔
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , ,
2474

وزیر اعظم کا متوقع دورۂ چترال ………….. تحریر: محکم الدین ایونی

Posted on

ماہ دسمبر میں وزیر اعظم کے دورۂ چترال کی توقع کی جارہی ہے ۔ گو کہ ابھی تک تاریخ کا تعین نہیں کیا گیا ہے ۔ تاہم یہ امید کی جا سکتی ہے ۔ کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی چترال کا ضرور دورہ کریں گے ۔ چترال کے عوام کیلئے یہ انتہائی خوشی کا مقام ہے کہ وزیر اعظم اپنے دورۂ چترال کے موقع پر گولین ہائیڈل پراجیکٹ ، گرم چشمہ روڈ ، کالاش ویلیز روڈ ز دروش چترال روڈ اور چترال میں گیس ڈپو کا افتتاح کریں گے ۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت نے اپنے قیام کے پہلے ہی روز سے چترال کی طرف بھر پور تو جہ دی ہے ۔ لواری ٹنل کا منصوبہ جو کہ مُردہ ہو چکا تھا ۔ اُسے دوبارہ زندہ کیا ۔ اور وافر مقدار میں فنڈ فراہم کرکے اسے تکمیل تک پہنچا یا ۔ بلکہ اب دیر اور چترال سائڈ پر اپروچ روڈ پر بھی کام انتہائی زور و شور سے جاری ہے ۔ اور لوگوں کو کام ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے ۔ اس سے یہ اُمید پیدا ہوتی ہے ۔ کہ جس طرح لواری ٹنل کی تکمیل خواب سے حقیقت کا روپ دھار گیا ۔ اسی طرح بہت کم عرصے میں چترال کے اندر سڑکوں کا جال بھی بچھایا جائے گا۔ اور چترال کے لوگ جو سفری مشکلات سے دوچار ہیں ۔ بہت جلد نجات پائیں گے ۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف میں ایک خوبی ہمیشہ سے موجود ہے ۔ کہ وہ سڑکوں کی تعمیر میں شیر شاہ سوری جیسا جذبہ رکھتے ہیں ۔ اور انہوں نے اپنے دور اقتدار میں لوگوں کو آمدورفت کی سہولت فراہم کرنے پر بھر پور توجہ دی ۔ مسائل کی ترجیح کے لحاظ سے دیکھا جائے ۔ تو چترال جیسے دور دراز ضلع میں محفوظ سڑکوں کی ضرورت پہلی نمبر پر ہے ۔ موجودہ چترال کی غربت کی ایک بہت بڑی وجہ ناقص سڑکیں ہیں ۔ جن کی وجہ سے تجارت سے لے کر تعلیم و صحت اور آمدورفت تک ایسا اضافی بوجھ عوام سہنے پر مجبور ہے ۔ جو اُن کی برداشت سے باہر ہے ۔ دوسرے شہروں کی نسبت چترال کے لوگوں کو دو سو سے پانچ سو گنا اضافی کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے جبکہ سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ ایسے حالات میں چترال کے اندر سڑکوں کی تعمیر سے معاشی حالات پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔ جو ٹرالر کراچی ، لاہور سے سامان لوڈ کرکے دیر میں اُنہیں اُتارنے پر مجبور ہیں ، وہ براہ راست چترال پہنچ جائیں گے ۔ اور سامان کے کرایوں میں غیر معمولی کمی واقع ہوگی ۔ جس کا براہ راست فائدہ چترال کے عوام کو ہو گا ۔ وزیر اعظم کے متوقع دورے سے یہ توقع بھی رکھی جا سکتی ہے ۔ کہ زیر تعمیر منصوبوں کے علاوہ بھی چترال کی تعمیر وترقی کیلئے اعلانات کریں گے ۔ گو کہ موجودہ وزیر اعظم کا اپنا منصب سنبھالنے کے بعد چترال کا یہ پہلا دورہ ہے ۔ لیکن اُنہیں چترال آنے سے پہلے ہی چترال کی مشکلات کے بارے میں خاصی معلومات حاصل ہیں ۔ شہزادہ مقصودالملک ایون کے ساتھ اُن کے خصوصی مراسم ہیں ،اور ایم این اے چترال شہزادہ افتخار الدین کے ساتھ بھی اُن کا تعلق انتہائی قریبی ہے ۔ اسی طرح چترال کیلئے اُن کا حالیہ متوقع دورہ بھی ایم این اے کی کو ششوں کا نتیجہ ہے ۔ گذشتہ دو سالوں سے بعض مخالف سیاسی پارٹیاں ایم این اے چترال کی طرف سے چترال کی ترقی کے لئے کئے جانے والی کوششوں کی خبروں کو ناقابل یقین قرار دیتے تھے ۔ لیکن دیر آید درست آید کے مصداق یہ بات واضح ہو گئی ہے ۔ کہ وہ عوام کو دھوکا نہیں دے رہے تھے بلکہ عملی طور پر جدو جہد کر رہے تھے ۔ جن کے نتائج لواری ٹنل ، گولین ہائیڈل پراجیکٹ ، گرم چشمہ روڈ ، ایون روڈ ، تورکہو روڈ اور گیس پائپ لائن سمیت کئی منصوبوں کی صورت میں رو بہ عمل ہیں ۔ اور بعض منصوبے اپنے تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں ۔ جو ایم این اے کی اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے انجام دینے کی کوششوں کی عکاسی کرتے ہیں ۔ اُن کا یہ فیصلہ بھی قابل تحسین ہے ۔ کہ انہوں نے باوجود دوسری پارٹی کے ٹکٹ پر کامیابی کے چترال کے مشکلات کو پیش نظر رکھ کر خود کو موجودہ حکومت کے ساتھ ایڈ جسٹ کیا ۔ اور مسائل حل کرنے میں کامیابی حاصل کی ۔ چترال کی تعمیر و ترقی اُن کا مطمع نظر رہا۔ اور چترال کے لوگوں نے اُن پر جو اعتماد کیا تھا، اُن مسائل کے حل کیلئے پارٹی کے خول میں بند رہنے کی بجائے باہر نکل کر وہ کام کئے۔ جو کسی پارٹی کے اپنے ایم این اے بھی نہیں کر سکے ۔ اس لئے ان کاموں کیلئے اُنہیں کریڈٹ نہ دینا زیادتی ہوگی۔ پاکستان مسلم لیگ کی حکومت نے جاری منصوبوں کے علاوہ بھی چترال کے دیگر مسائل پر بھر پور توجہ دی ۔ 2015کے خوفناک سیلاب اور تباہ کُن زلزلے میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے مصیبت کی گھڑی میں وقت ضائع کئے بغیر چترال کا ہنگامی دورہ کیا ۔ متاثرین سے ملے ۔ اور ہر متاثرہ سالم نقصان والے گھر کو دو لاکھ اور جزوی نقصان کے حامل مکانات کیلئے ایک لاکھ روپے کا اعلان کیا ۔ اور وفاق کی طرف سے 2ارب 19کروڑ روپے ضلع چترال کو فوری طور پر ریلیز کئے ۔ اس موقع پر چترال میں دو سو بستروں کے ہسپتال کا اعلان بھی کیا گیا تھا ۔ مگر بد قسمتی سے صوبائی حکومت کی طرف سے زمین کی فراہمی میں عدم تعاون کی وجہ سے یہ منصوبہ کٹائی میں پڑا ہوا ہے ۔ تاہم اس ہسپتال کی تعمیر جدید خطوط کے ساتھ انتہائی ضروری ہے ۔ وزیر اعظم کے متوقع دورے سے پہلے یہ ضروری ہے ۔ کہ چترال کے سیاسی قائدین اپنے سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے نہ صرف باہمی مشاورت سے مشترکہ سپاسنامہ تیار کریں ۔ جس میں سی پیک منصوبہ ، چترال تاجکستان روڈ ، آبی وسائل ، کلائمیٹ چینج ، ماربل سٹی سمیت دیگر مسائل کو شامل کیا جائے ۔ بلکہ شاندار استقبال کرکے مسائل حل کرنے کیلئے موجودہ وزیر اعظم کی خصوصی توجہ حاصل کی جائے ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , ,
2472