Chitral Times

مختصرسی جھلک – کیریرکونسلینگ – فریدہ سلطانہ فّریّ

دوسراحصہ

کیریرکونسیلنک انگریزی زبان کا لفظ ہے اوراس کے کئی معنی ہیں اِس کا سب سےمناسب ترجمہ طرزمعاش لیا جاسکتا ہےاورکونسلینک بھی انگریزی زبان کا لفظ ہےاوراس کے معنی راہنمائی کے ہیں توکیریرکونسلنک کے معنی طرزمعاش کےمتعلق راہنمائی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کوشعبہ زندگی بھی کہا جاتا ہے۔

    کیریرکےمتعلق راہ نمائی طالب علموں کوزہنی پریشانی اوردباو سے نکالنےاوران کو روشن مستقبیل کی طرف گامزان کرنے کے لئے ریڑھ کے ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ رانمائی اورمدد اب بحثیت والدین، استاد یا کونسلراس وقت دینےکے اہل ہوسکتے ہیں جب اپ کواس بات کا اندازہ ہوکہ اپ کے بچے یا طالب علم اصل میں کن قابلیتوں اورصلاحیتوں کا مالک ہیں اوروہ کونسےمضامین پڑھ کران صلاحیتوں کومزید نکھارکران سے استفادہ حاصل کرکے زندگی میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ اسکی بہترین جانچ پڑتال استاد اوروالدین کے سوا کوِئی نہیں کرسکتا۔

بعض اوقات کچھ بچےخود بھی اس درجے کے ہوشیاراورتیز ہوتے ہیں کہ وہ اس بات کا اسانی سے اندازہ لگا سکتےہیں کہ ان کے اندرقدرتی طورپرکیا کیا صلاحیتیں موجود ہیں اوروہ ان کوکونسے مضامین پڑھ کر فروغ دے سکتے ہیں۔ ایسےغیرمعمولی بچے بہت کم ہی پاَئےجاتے ہیں۔اکثراس طرح بھی دیکھنےمیں ایا ہےکہ ماں وباپ یا بڑے بہن بھآئی کیریرکےحوالے سے اپنی پسند بچوں پرمسلط کردیتے ہیں کہ اپ یہ نہیں کرسکتے اپ وہ نہیں کرسکتے۔۔۔۔ بس اپ کو ہرحال میں ڈاکڑ یا انجینیر ہی بننا ہے تب بچے اپنےاندر کی صلاحیتوں اوراہلیتوں کومجبوری میں دبا دیتے ہیں اور زہنی دباو اورتناو کا شکاربھی ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کا اندر انہیں کسی اور کام کی ترغیب دے رہا ہوتا ہے اوروالدین یا بڑے کچھ اور کرنے کو بول رہے ہوتے ہیں۔

عموما بچوں کے اندرقابلیت اورصلاحیت کو مزید پروان چڑھآنے کے لئےان کی صلاحتیوں سےمنسلک مختلف مضآمین کا سہارہ لیا جاتا ہے تاکہ بچے وہ مضامین پڑھ کراپنےاندرموجود ان صلاحیتوں کو مزید سامنے لا سکیں۔ اس طرح  بچے وہ مضا مِین زیادہ دلچسپی اور شوق سے بھی پڑھ لیتے ہیں کیونکہ وہ ان کی اندرونی شوق اورجزبے سے مطابقت جورکھتے ہیں ۔ جب ہم بات صلاحیتوں سےمتعلق مضآمین کے انتخآ ب کی کرتے ہیں تو ہمارے ہاں پہلا اپشن طالب علموں کے پاس میڑک سے پہلے ہوتا ہے کہ اس نے سائیس کے مضامین کا انتخاب کرنا ہےیا ارٹس۔۔۔۔۔۔ مگر ہمارے ہاں یہ روایات بہت ہی کم ہے کہ بچوں کی صلاحیت اوراہلیت کے مطابق اساتذہ اور والدین بچے کی راہنمائی کریں۔ اس کے بہت سارے وجوہات ہیں ایک تو اگاہی کی کمی اور دوسرے ان میں ایسی اہلیت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے بچوں کی صلاحیتیوں کی جانچ پڑتال کرسکیں۔

بعضی ماں وباپ سکول کا فیس دیکرسمجھتے ہیں کہ ہماری زمہ داری پوری ہوگئی اب بچے نے پڑھنا ہے اورکچھ بننا ضرور ہے ان کواس بات کا اندازہ نہیں کہ بچے اس پودے کی مثآل ہیں جس کو ہردن پانی کی فراہمی کےسا تھ ساتھ تیزاندھی طوفان اورتیزدھوب بارش،کیڑے مکڑوں وغیرہ سے بچا کر ہی ہم سرسبز وشاداب رکھ سکتے ہیں  ۔۔۔۔۔

ہمارے ہاں اکثروالدین پرسائنس کا بھوت بھی سوارہو جاتا ہے حالانکہ بچے کے اندرسائنس کے مضآمین پڑھنے کا کوئی شوق اوراہلیت ہی نہیں ہوتا ہے اور۸ کلاس  کے بعد بچوں پر دباو ڈال کر اس سے غلط رانمائی کر کے ان سے ساینس کے مضآمین کا انتخاب کروایا جاتا ہے یا بچےخود دوسروں کی دیکھا دیکھی ساِئنس کے مضآمین کا انتخاب کرلیتے ہیں اوربعد میں جب بچوں کو اس حوالےسے مشکلا ت کا سامنا ہوتا ہے یا اس کے نمبر کم اجاتے ہیں یا ملا زمت میں دشواری اجاتی ہے تو ان کو اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے اندر تو سائنس پڑھنے والی کوئی صلاحیت ہی نہیں تھی ا سے اگر ٹاِئم پررانمائی ملتی تو اپنے پسند کے مضآمین کاانتخاب کرتے اوراچھے نمبر بھی اجاتے  اور اس حساب سے ملازمت میں کوئی مسئلہ بھی نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے       

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged , ,
51164

مختصرسی جھلک – ارکاری ویلی اورلڑکیوں کے تعیلمی مسائل- فریدہ سلطانہ فَریّ

مختصرسی جھلک – ارکاری ویلی اورلڑکیوں کے تعیلمی مسائل- فریدہ سلطانہ فَریّ

قسط نمبر ۲

یہ توہم سب جانتے ہیں کہ تعلیم انسان کےلیےعقل وشعور کے دروازے کھول دیتی ہےمگراِن دونوں تک رسائی کے لیے زمینی وسائل اورسہولیات تک دسترس بھی بے حد ضروری ہے۔جن کی بنیاد پرکم ازکم بنیادی تعلیم یعنی پرائمری تک سب کی رساِئی اسانی سے ممکن ہوسکے۔۔۔۔۔۔

arkari road p

ارکاری ویلی کا دورہ کرنے کے بعد  مجھے اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ یہاں کسی بھی سطح کی تعلیم خصوصا بنیادی تعلیم تک بھی سب کی رسائی نہایت مشکل سے ہوتی ہےخصوصا بچیوں کی …کیونکہ یہاں کا سب سےبڑآ مسئلہ ٹرانسپورٹ کا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔جس طرح ان کے اباواجداد تعلیم کی خاطرمیلوں پیدل چل کران سکولوں تک پہنچتے تھے.

بد قسمتی سےاج بھی بلکل اسی طرح اس دور میں ان کے بچے بھی انہی کی طرح میلوں پیدل سفر کرکے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ پراِئمری سکولوں کے کم عمر چھوٹے چھوٹےبچے اور بچیاں بھی سکول پہنچنے کے لئے ادھآ دن کا سفر طےکرتے ہیں ۔۔۔۔۔ ایک بچی کا کہنا تھآ کہ صبح سویرے سکول کونکلنا توہمارا روزمرہ کا روٹین ہےمگر ہم  لوگ پیپر کےدنوں میں تو۳ بجےاٹھ کرسکول کے لیے روانہ ہوتے ہیں۔ اب یہ تمام مشقت اپنی جگہ اگرہم اس کوایک اورخطرناک پہلو سے دیکھےتودل ہل جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

اس سفر کے دوران مختلف موسمی خطرات کا بھی خدشہ ہے کیونکہ پہاڑی علاقے اور تنگ و باریک کچے راستے۔۔۔۔۔ اب اگر خدا نخواستہ ان حالات میں اس بچے یا بچی کے ساتھ کوئی بھی حادثہ پیش اجاتا ہے تو اس کی زندگی کا زمہ دار کون ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ سال پہلےکریم اباد میں ایسے ہی سکولوں کوجاتے طالب علم بچے بچیاں  جو انکھوں میں روشن مستقبیل کے سہانے خواب سجا کر گھروں سے نکلے تھےایک دم برفانی تودوں کی نظر ہوگیےتھے۔

ان حالات میں تو کسی نے آن کی زمہ داری نہیں لی تواب اِن بچیوں کے ساتھ خدا نخواستہ کسی حادثے کی صورت میں کیا کوئی زمہ داری لے سکتا ہے ہرگز نہیں،،،،۔۔۔یہ بچارے لوگ تعلیم کی خاطرجانیں ہتھلیوں پہ رکھ کرایک اچھے مستقبیل کی امید میں مہوسفرہیں ۔۔۔۔

ایک اوراہم بات یہ کہ بچیوں کے لیے موسمی خطرات کے علاوہ اوربھی کئی معاشرتی مسائل جنم لینے کا خطرہ بھی ہےاس کے ساتھ ساتھ میلوں پیدل چل کر ان کی صحت بھی تباہ ہوجاتی ہے کیونکہ غربت کی وجہ سےخوراک بھی ان کو ٹھیک سے نہیں مل پاتِی اس طرح مشقت بھری زندگی کی وجہ سے یہ بچےاوربچیاں بےحد کمزوراوربیمار سےنظر اتے ہیں۔ 

 اب ایسےحالات میں مختلف خطرات سے نکل کربھوکے پیاسےاور تھکے ہارے جب یہ طالب علم سکولوں میں پہنچتے ہیں تووہاں بھی کوئی سہولیات سے بھرپور سکول ان کا منتظر نہیں ۔۔۔۔

جب یہ بچے بچیاں سکول پہنچتی ہیں تو وہاں یا تواستاد نہیں ہوگا یا پھراستاد کی تعداد طالب علم کی تعداد کے مطابق نہیں ہوگی یا پھراساتذہ غیرحاصر یا پھرسب سے بڑا مسئلہ اسا تذہ کی اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ طالب علموں کو ان کی ضرورت کے مطابق پڑھآ سکے۔۔میں اپ کو بتاتی چلوں میں نے یہاں بہت سے اور بڑے مسائل جیسے غربت ، لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک ،کم عمری کی شادِی وغیرہ کوتوبلکل بھی نہیں چھیڑا ہے اج کے لیے اتنا ہی باقی کہاںی پھر صیح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے                          

arkari valley chitral
arkari valley chitral
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged , , , , , ,
50428

مختصرسی جھلک….ارکاری ویلی اورلڑکیوں کے تعیلمی مسائل….فریدہ سلطانہ فَریّ

ارکاری ویلی اورلڑکیوں کے تعیلمی مسائل

قسط نمبر ۱

انسانی بنیادی حقوق کے نظریے کے تحت تمام انسان یکسان طورپرتمام سہولیات اورحقوق کے حقدار ہیں اوراسی لیے ازل سے اب تک انسان اپنی ضروریات، سہولیا ت اوربنیادی حقوق کے حصول کی خاطرایک نہ ختم ہونےوالی جدوجہد میں مصروف عمل ہے جب ہم بات بنیادی سہولیات کی کرتے ہیں توان میں سب سےاہم سہولت تعلیم تک سب کی بلا امتیاز رسائی ہےخصوصا لڑکیوں کی۔

دو دن پہلےچترال کے دورافتادہ گاوں ارکاری کے مختلف علاقوں کے سکولوں میں جانے کا موقعہ ملا۔ یقین جانیے مجھے دوباتوں پرشدید رونا اگیا اول تواس بات پرکہ میں تقریبا دس پندرہ سالوں سے خواتین کے مختلف مسائل پرمختلف اخبارات کولکھ رہی ہوں اس کےساتھ ساتھ میں تقریبا ہرپلیٹ فارم اورمیڈیا میں ان کے لیَے اوازبھی اٹھاتی ائی ہوں

مگر افسوس جن جن مساِئل خصوصآ تعلیمی مساِئل کو میں نے ضروری سمجھ کران کے لئے اواز اٹھآِئی ہےان میں سےایک کا بھی تعلق ارکاری کی بچیوں کی تعلیمی مسایل سےنہیں تھآ۔ کیونکہ چترال ٹاون کے اندرجوتعلیمی روکاوٹیں ہیں ان میں اور ارکاری کے تعلیمی مسائل میں زمیں و اسماں کا فرق ہے۔

دوسری بات جس پرمجھے شدید رونا اگیا وہ یہ تھآ کہ ۴ یا ۵ گھنٹے کا فاصلہ طے کرنے کے باوجود ایک بچی پڑھنے اور کچھ بننے کا جزبہ اور شوق رکھےاس کو سلام پیش کرتی ہوں ۔ پیدل سکول کی طرف روان دو مڈل لیول کی بچیوں کے ساتھ راستے میں میری ملاقات ہوئی ۔ایک بچی کا کہنا تھآ۔ کہ میم میں بڑے ہوکر ڈاکڑ بنوں گی اوراپنےعلاقے کے لوگوں کے لیے ہسپتا ل بننواوں گی کیونکہ یہاں ہمیں اس سہولت تک پہنچنے کے لیے کِئی گھنٹے کی مسافت طے کرنی پڑتی ہے تب جاکے ہمیں یہ سہولت میسر اتی ہے۔

دوسر ی بچی کا مجھے حیران کن جواب یہ ملا کہ میں سیاستدان بنوں گی اپنےعلاقے کی سڑکوں کو پختہ کروں گی اور حکومت سے زیادہ سے زیادہ سکول کا مطالبہ کروں گی تاکہ میرےعلاقےکی بچیاں میری طرح ادھا دن سفر کرکے سکول نہ پہچے اور جو پیدل چلے ان کو چلنے کے لیے صیح راستہ ملے۔ ان کی باتوں سے مجھے شدید رونا اگیا کیونکہ بچپن میں مستقبل کی منصوبہ بندی ہمیشہ بچپن کے خوابوں کی طرح نہ پختہ ہوا کرتی ہے مگر یہاں تو اس بچی نے مجھے حیران کر دیا ۔ان بچیوں کی اس طرح کی سنجیدہ منصوبہ بندی اس بات کا ثبوت ہے کہ مشکلا ت اورغربت انسان کو وقت سے پہلے سنجیدہ کردیتی ہے۔۔                         

غربت نے میرے بچوں کو تہذیب سکھا دی

سہمے ہوے رہتے ہیں شرارت نہیں کرتے

میرے اس حالیہ دورے نے میری انکھیں کھول دی یقین جانیےمیرا ضمیرمجھے تب سے ملامت کررہاہےکہ میں نے ان کے بارے ایک دفعہ بھی کیوں نہیں لکھآ اخیروہ بچیاں بھی توچترال کا حصہ ہیں۔             

۱ جو صبح تین بجے اٹھ کرسکول بیگ میں چاپاتی رکھ کرادھآ دن کا سفرکرکےسکول پہنچ پاتی ہیں۔                                              

۲. اخیروہ بچیاں بھی تومیرے چترال کی بچیاں ہیں جو ایک ہاتھ میں گاَے کی رسی اوردوسرے ہاتھ میں کتا ب لیکر ایک وقت میں پڑھتی بھی ہیں اور گائے بھی چراتی ہیں۔                                                     

۳.اخیر وہ بچیاں بھی میرے چترال کا حصہ ہیں جومڈل یا پراِئمری کے بعد پڑھنے کا شوق تو رکھتی ہیں مگرغربت کی وجہ سے نہیں پڑھ پاتی۔

۴ اوروہ بچیاں جو سولہ سال میں بیاہی جاتی ہیں۔                                 

۵ اوروہ بچیاں جو گھروکھیتوں میں کام کاج زیا دہ ہونے کی وجہ سے پڑھ نہیں پاتی۔                                                             

۶.  اوروہ بچیاں جن کو صیح کھانا اس لیے میسر نہیں کہ ان کی عادت خراب ہوجاَے گی کیونکہ ان کو دوسرے گھر جانا ہوتا ہے۔                  

۷. وہ بچیاں ادھا دن سفر کرکے مشکل سے سکول پہنچ بھی جاے توسکول میں پھر ٹیچر کا مسئلہ یہ سب بھی میرے چترال کا حصہ ہیں میں باری باری ارکاری کےحوالےسےان سب مسائل کا تزکرہ کروں گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری                                                             

chitraltimes arkari valley
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged , ,
49819