Chitral Times

محکمہ معدنیات نے غیرقانونی کان کنی روکنے کی غرض سے صوبے میں پانچ ذیلی دفاترقائم کیے ہیں

Posted on

خیبر پختونخوا کے محکمہ معدنیات نے صوبے میں غیرقانونی کان کنی روکنے اور معدنی وسائل کے تحفظ کے لیے کڑی نگرانی اور جانچ کی غرض سے صوبے میں پانچ ذیلی دفاتر ایبٹ آباد، کرک،سوات، پشاور اور چترال قائم کیے گئے ہیں جن کی فعال اور بھرپور کارکردگی کی بدولت گزشتہ ایک سال کے دوران خزانے کو دو ارب روپے سے زائد کی آمدن ہوئی ہے۔
پشاور ( چترال ٹائمز رپورٹ ) صوبے میں غیر قانونی کان کنی کے زریعے متاثر یاضائع ہونے والے معدنی وسائل کو روکنے کے لیے محکمہ معدنیات نے مانیٹرنگ کا سخت اور آزادانہ نظام رائج کیا ہے جسے عملاً لاگو کرنے کے لیے پانچ ریجنل دفاترکام کررہے ہیں۔ہر ریجن میں ضلع کی سطح پر کیمپ دفاتر فعال کرکے مانیٹرنگ کو موثر اور مربوط بنایا گیا ہے تاکہ معدنیات کی غیر قانونی کان کنی کی صورت میں خزانے کو ہونے والے نقصانات کا راستہ روکا جائے۔ کیمپ آفس ایبٹ آباد، مانسہرہ، ہریپور، کوہستان،پشاور، نوشہرہ،بونیر ،شانگلہ،سوات، مالاکنڈ،کوہاٹ، ہنگو،بنوں،ڈی آئی خان اور چترال میں قائم کیے گئے ہیں۔اضلاع کی سطح پر یہ پر دفاتر مکمل جانچ پرکھ اور کڑی نگرانی کرکے ان لیز مالکان کی بھی نشاندہی کررہے ہیں جن کی کارکردگی ناقص ہے اور جو کام کے دوران قواعد وضوابط کو نظرانداز کررہے ہیں۔کان کنی کے لیے درکار چالان پیپرز کی مکمل پڑتال، معدنی کانوں سے نکلنے والے خام مال کی اصل مقدار کا جائزہ کہ کہیں دستاویزات میں ذکرکردہ مقدار سے متجاوز تو نہیں ان امور کی بھی مانیٹرنگ عملہ نگرانی کرے گا۔محکمہ معدنیات کے مطابق مانیٹرنگ کے نظام کی بدولت صوبے کے معدنی وسائل کو تحفظ حاصل ہوگا ساتھ ہی ساتھ رائلٹی کے طریقہ کار کو بھی پرکھا جائے گا ۔محکمہ معدنیا ت کے مانیٹرنگ یونٹس کے قیام کے باعث محکمے کو آمدن کے حصول کے اہداف کو حاصل کرنے میں بھی 100فیصد کامیابی ہوئی ہے۔ محکمے نے گزشتہ برس مختلف مد میں 2ارب دس کروڑ کے ہدف کا تعین کیا تھا تاہم مانیٹرنگ یونٹس کی فعال کارکردگی سے محکمے کو مقررہ ہدف سے بھی زائد آمدن کا حصول ممکن ہوا ہے ۔محکمہ معدنیا ت کے مطابق مانیٹرنگ نظام کی عدم موجودگی کے باعث ماضی میں صوبائی خزانے کو بھاری نقصانات اٹھانے پڑتے تھے جسکاراستہ روک دیا گیا ہے۔محکمے نے مانیٹرنگ عملے کو فعال اور مستعد رکھنے کے لیے گاڑیاں بھی مہیا کی ہیں تاکہ فیلڈ سٹاف باآسانی اپنے فرائض کی انجام دہی کرسکے،اسکے علاوہ نگرانی کو موثر بنانے کے لیے90مزید منرل گارڈز کی تعیناتی بھی کی گئی ہے۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged , , ,
6445

صدا بصحرا …………. ہم مفروضوں پر زندہ ہیں………….. ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on
دو دن کے اخبارات اور 24گھنٹے کے ٹیلی وژن پروگراموں کو سامنے رکھ کر کوئی بھی محب وطن پاکستانی سوچے تو اس نتیجے پر پہنچے گا کہ ہم مفروضوں پر زندہ ہیں اور مفروضوں پر ہی ہمارا گذر بسر ہورہا ہے مفروضہ عربی زبان کا لفظ ہے ۔ یہ لفظ اردو میں مستعمل ہے اور انگریزی کے Assumptionکا ہم معنی و مترادف ہے اپنی طرف سے کوئی بات طے کرکے اس پر یقین کرلینا مفروضہ کہلاتا ہے۔ مثلََا مسلمان دنیا کی بڑی طاقت ہیں پوری دنیا مسلمانوں سے ڈرتی ہے یہ ایک مفروضہ ہے۔ مثلََا امریکہ افغانستان میں شکست کھاگیایہ بھی مفروضہ ہے۔ مثلََا چین ہمارا دوست ہے یہ بھی مفروضہ ہے۔ مثلََا پاکستان کی بقا کا راز جمہوریت میں مضمر ہے۔ یہ بھی مفروضہ ہے۔ ایسے ہزاروں مفروضے ہیں جن کی کوئی بنیا د نہیں۔ ہم نے اپنی طرف سے ایک بات طے کی ہے اور اس پر تکیہ کرکے بیٹھے ہوئے ہیں ۔ ان مفروضوں سے جتنی جلدی جان چھڑائی جائے ہمارے حق میں اُتنا ہی بہتر ہوگا۔ پہلا مفروضہ لے لیں مسلمان دنیا کی طاقت کب سے ہوئے؟ مسلمانوں کی حالت گذشتہ ایک ہزار سالوں سے عرب کے زمانہ جاہلیت جیسی ہے ۔ سیرت کی کتابوں میں خاتم النبین محمد مصطفیﷺ کی بعشت سے پہلے عرب دنیا کا جو حال لکھا ہے وہ ایک ہزار سالوں سے مسلمانوں کا حال ہے۔ باہمی جنگ و جدل ، باہمی نفاق، باہمی دشمنی ، شراب خوری ، سود خوری ، جوا بازی، فحاشی اور زمانہ جاہلیت کی دیگر برائیاں مسلمانوں میں اس دور سے بھی زیادہ ہیں اگر امراء شراب و سود خوری میں مبتلا ہیں تو علماء دشمنی ، رقا بت اور انتشار میں مبتلا ہیں ۔ ایسی قوم دنیا میں کسی کو کیا چیلنج دے سکتی ہے؟ دوسرا مفروضہ لے لیں امریکہ افغانستان میں شکست کھا گیا۔ کس طرح شکست کھا گیا؟امریکہ کے اہداف حاصل ہوچکے ہیں اور افغانستان کے ساتھ پاکستان بھی امریکہ کے چنگل میں پھنس چکا ہے۔ امریکہ نے 1978ء میں افغانستان میں قدم رکھا تو اس کے تین بڑے مقاصد تھے ۔ پہلا مقصد یہ تھا کہ جمہوری انقلاب کو ناکام کیا جائے، دوسرا مقصد یہ تھا کہ دہشت گردی کے لئے تربیتی مراکز قائم کئے جائیں اور افغانستان کے ساتھ پاکستان میں بھی دہشت گردی پھیلائی جائے ، تیسرا مقصد یہ تھا کہ افغانستان کو مرکز بناکر روس اور چین کا تعاقب کیا جائے ۔ یہ تینوں اہداف امریکہ نے حاصل کرلئے افغانستان میں اس کے قدم مضبوط ہوچکے ہیں۔ اگلے سو سالوں کے لئے اس نے فوجی اڈہ حاصل کرلیا ہے۔ جن لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ افغانستان کے بعض صوبوں میں صدر اشرف غنی کے مخالفین قابض ہیں اور یہ امریکہ کی شکست ہے تو ایسے احباب کو جان لینا چاہیے کہ القاعدہ، داعش اور امریکی فوج ایک دوسرے سے جدا یا الگ نہیں ۔ تینوں ایک ہیں۔ امریکہ کی ایک باوردی فوج ہے۔ باقی بغیر وردی کے امریکی فوج ہیں اور امریکی مقاصد کے لئے کام کرتی ہیں۔ داعش اور القاعدہ امریکیوں کی جگہ مسلمانوں پر حملے کرتی ہے اور امریکیوں کے لئے راہ ہموار کرتی ہے۔ فوجی اڈے حاصل کرنے کا جواز فراہم کرتی ہے۔ خانہ جنگی کے تصور کو زندہ رکھتی ہے۔ اس لئے افغانستان میں
ا مریکہ ناکام نہیں۔بلکہ کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ تیسرا مفروضہ لے لیں ، چین ہمارا دوست ہے۔ہماری دوستی ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے گہری ہے۔ اس مفروضے کی حقیقت یہ ہے کہ چین کے اپنے مفادات ہیں ۔ ہماری دوستی چین کے مفادات کے گِرد گھومتی ہے۔ بغیر چینی مفاد کے ہماری دوستی کی کوئی حیثیت نہیں۔ اسی طرح اگلا مفروضہ بھی بے بنیاد ہے۔ بِلا وجہ مفروضہ گھڑ لیا گیا ہے کہ پاکستان کی بقا کا راز جمہوریت میں مضمر ہے ۔ ہماری 70سالہ تاریخ میں بہترین دور ایوب خان کا دور تھا۔اس کے بعد جنرل ضیاء الحق کا دور معاشی ترقی کے لئے شہرت رکھتا ہے۔ ملک کے اندر پریس کی آزادی، میڈیا میں وسعت اور جمہوری و انسانی حقوق کے حوالے سے جنرل مشرف کے دور کو سنہرا دور کہا جاتا ہے۔ ان کے دور میں سوشل میڈیا آیا ۔ الیکٹرانک میڈیا آیااور پریس آزاد ہوا۔ کسی جمہوری حکومت نے پریس کو آزادی نہیں ۔ ملک میں معاشی ترقی کے وسائل فراہم نہیں کئے۔جمہوریت کا دور انارکی ، انتشار اور ہڑتالوں ، دھرنوں ، جلوسوں کی نذر ہوکر گذر جاتا ہے یہ مفروضہ بھی حقیقت سے بہت دور ہے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم مفروضوں کو چھوڑ کر حقائق کی دنیا میں قدم رکھیں اور چیزوں کو ان کی حقیقت کے مطابق پرکھ کر رائے قائم کریں۔ ہم اپنے طرز عمل کی اصلاح جتنی جلدی کریں گے اُتنا ہی بہتر ہوگا۔
لیتا ہوں مکتب غم دل میں سبق ہنوز
مگر یہ کہ رفت گیا اور بود تھا
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , , ,
6208