Chitral Times

غیر اعلانیہ ٹیکسوں کا پہاڑ ……………محمد شریف شکیب

Posted on

حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ فی لیٹر ڈیزل پر عوام سے چالیس روپے 74پیسے جبکہ پٹرول پر 34روپے 24پیسے کا ٹیکس وصول کیا جارہا ہے۔ وزارت پٹرولیم کی طرف سے قومی اسمبلی میں پیش کئے گئے اعدادوشمار کے مطابق ڈیزل کی قیمت خرید 55روپے نو پیسے ہے تاہم عوام کو 95روپے 83پیسے میں فراہم کیا جارہا ہے اور ہر لیٹر پر عوام سے 74فیصد ٹیکس لیا جاتا ہے۔ جبکہ پٹرول فی لیٹر کی قیمت خرید 50روپے 27پیسے ہے لیکن 68فیصد ٹیکس لگا کر عوام کو 84روپے 51پیسے فی لیٹر پٹرول فراہم کیا جاتا ہے۔تیل کی عالمی منڈی میں قیمتوں میں استحکام پایا جاتا ہے۔اور کئی سالوں سے فی بیرل قیمت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ اس کے باوجود ہمارے ہاں ہر دوسرے تیسرے مہینے تیل کی قیمت بڑھائی جاتی ہے۔اوگرا کی طرف سے تیل اور نیپرا کی طرف سے بجلی اور گیس کی قیمت میں ہر سہ ماہی میں دس سے بیس فیصد اضافے کی سمری حکومت کو بھیجی جاتی ہے اور حکومت عوام پر احسان جتاتے ہوئے پانچ سے آٹھ فیصد اضافے کی منظوری دیتی ہے۔ اس پانچ سے آٹھ فیصد اضافے کی وجہ سے اکیس کروڑ پاکستانیوں کی جیبوں سے کتنے پیسے نکالے جاتے ہیں۔ یہ اعدادوشمار اگر سامنے آجائیں لوگوں کے ہوش اڑ جائیں گے۔پچپن روپے کا ڈیزل عوام کو پچانوے روپے فی لیٹر اورپچاس کا پٹرول 84روپے 51پیسے فی لیٹر بیچنا غریب عوام پر ظلم ہے۔ تیل کی قیمتوں میں اضافے سے ہر چیز مہنگی ہوجاتی ہے۔ ایک لیٹر پٹرول یا ڈیزل کی قیمت میں ایک روپے اضافہ بھی ہوجائے تو عوام پر مختلف اشیاء مہنگی ہونے کی صورت میں دس روپے کا اضافی بوجھ پڑتا ہے۔پاکستان میں روزانہ چارلاکھ پچاس ہزار بیرل تیل استعمال کیا جاتا ہے۔ایک بیرل میں 159لیٹر تیل ہوتا ہے۔ گویا ملک بھر میں روزانہ سات کروڑ پندرہ لاکھ پچاس ہزار لیٹر تیل خرچ کیا جاتا ہے۔ اکتالیس روپے فی لیٹر ٹیکس کا حساب لگایا جائے تو روزانہ دو ارب 93کروڑ35لاکھ پچاس ہزار روپے عوام کی جیبوں سے نکالے جاتے ہیں۔اگر اسے سال کے 365دنوں کے ساتھ ضرب دیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تیل مہنگا کرکے عوام کی جیبوں سے سالانہ دس کھرب، 70ارب، 64کروڑ57لاکھ پچاس ہزار روپے نکالے جارہے ہیں۔اب پتہ چلتا ہے کہ ایک غریب ملک جس کی فی کس آمدنی صرف ایک ہزارچار سو 68ڈالر سالانہ ہے۔ان سے دس کھرب روپے غیراعلانیہ ٹیکسوں کی صورت میں وصول کرکے حکمران طبقہ اوربیوروکریسی موجیں اڑارہی ہے۔یہ ہوشرباء اعدادوشمار عام لوگوں کو معلوم ہی نہیں۔ دس بارہ سال قبل کشمیر کی وادی نیلم میں بجلی گھر کے منصوبے کے لئے عوام سے چھ ارب روپے ٹیکس لینے کا فیصلہ کیاگیا۔ یہ طے پایا تھا کہ بجلی کے بلوں میں نیلم جہلم منصوبے کے ٹیکس کے زمرے میں ایک سال کے اندر عوام سے چھ ارب روپے وصول کئے جائیں گے۔ مطلوبہ فنڈز کے حصول کے بعد یہ ٹیکس ختم کیا جائے گا۔ لیکن کئی سالوں سے عوام نیلم جہلم پراجیکٹ کے لئے بجلی کے بلوں میں اضافی ٹیکس دے رہے ہیں۔ اب تک اربوں روپے عوام کی جیبوں سے نکالے جاچکے ہیں مگر اس ظالمانہ ٹیکس کو ختم کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔ نہ ہی نیلم جہلم بجلی گھر مکمل ہوسکا ہے۔ دوسری جانب ٹیکس اور محصولات جمع کرنے والے قومی ادارے کے اعدادوشمار کو سامنے رکھا جائے۔ تو پتہ چلتا ہے کہ ایف بی آر کے ریکارڈ میں اکیس کروڑ کی آبادی میں صرف چودہ لاکھ افراد ٹیکس گذار ہیں۔جن میں سے تقریبا چھ لاکھ افراد نے ٹیکس ریٹرن جمع ہی نہیں کرائے۔ اورصرف ایک فیصد لوگ ہی براہ راست ٹیکس دیتے ہیں۔ ملک کے بڑے صنعت کاروں، کارخانہ داروں، سرمایہ داروں، جاگیر داروں، برآمدکنندگان، بڑے تاجروں اور افسر شاہی سے ٹیکس وصول کرنے کی کسی میں جرات نہیں۔غریب عوام پر بجلی گرا کر کبھی گیس مہنگی کرکے اور کبھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھا کر اربوں کھربوں روپے وصول کئے جاتے ہیں۔ جو اس مفلوک الحال قوم کے ساتھ سنگین زیادتی ہے۔دوہرے ٹیکسوں کے فرسودہ نظام کے تحت صرف کم آمدنی والے اور متوسط طبقے کا ہی تیل نکالا جاتا ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ حکومت ٹیکس نیٹ کا دائرہ وسیع کرے۔عوام کی دوہری کمر پر بوجھ بننے والے غیر اعلانیہ اور خفیہ ٹیکسوں کو ختم کرے۔صنعتی اور زرعی پیداوار پر ٹیکس وصول کرکے ملکی معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش کرے تاکہ قومی وقار کو گروی رکھ کر غیر ملکی قرضوں کے لئے ہاتھ پھیلانے سے قوم کو نجات مل سکے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , ,
6448

پبلک سروس کمیشن نے محکمہ ایکسائز و ٹیکسیشن میں انسپکٹر کی اسامیوں پر سلیکشن کو حتمی شکل دیدی

Posted on

پشاور ( چترال ٹائمز رپورٹ )خیبرپختونخوا پبلک سروس کمیشن نے محکمہ ایکسائز وٹیکسیشن اینڈنارکاٹکس کنٹرول میں ایکسائز وٹیکسیشن انسپکٹر (بی پی ایس۔15 ) کی 16 پوسٹوں پرسلیکشن کو حتمی شکل دیدی ہے اور اپنی سفارشات متعلقہ محکمے کو 15۔ فروری کو پہنچا دی ہیں۔ اس امر کا اعلان انچارج میڈیا سیل خیبرپختونخوا پبلک سروس کمیشن نے کیا۔
دریں اثنا مجاز حکام (وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا ) نے خیبرپختونخوا پبلک سروس کمیشن کی سفارشات پر ڈاکٹر شرافت علی خان ولد عبدالقہارسکنہ ضلع سوات (جو اس وقت سیدوگروپ تدریسی ہسپتال میں گریڈ18 میں بحیثیت ڈسٹرکٹ سپیشلسٹ ای این ٹی اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں) کو فوری طورپر مستقل بنیادوں پر مذکورہ ہسپتال میں بحیثیت سینئر رجسٹرار ای این ٹی( بی ایس ۔18 ) تقرری کردی گئی ہے۔ وہ عرصہ ایک سال کے لئے آزمائشی بنیادوں پر کام کریں گے اور ان کی خدمات کے قواعد وضوابط خیبرپختونخوا سول سرونٹس ایکٹ 1973 کے تحت ہوں گے جبکہ ان کو ایک ماہ کے اندر اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔اس امر کا اعلان محکمہ صحت حکومت خیبرپختونخوا کی جانب جاری کئے گئے ایک اعلامیے کیاگیا۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged ,
6439

ڈپٹی کمشنر چترال کی طرف سے جنگلات کے رائیلٹی کی تقسیم کے نئے طریقہ کار چترال میں فساد پیدا کرنے کی سازش ہے ۔ ممبران جے ایف ایم سی

Posted on

چترال ( نمایندہ چترال ٹائمز ) چترال کے جنگلاتی علاقوں کے جائنٹ فارسٹ منیجمنٹ کمیٹی ( جے ایف ایم سی ) کے ممبران اور نمایندگان نے ڈپٹی کمشنر چترال ارشاد سدھر کی طرف سے جنگلات کی رائیلٹی کی تقسیم کے نئے طریقہ کار کو مسترد کرتے ہوئے اسے چترال میں بڑے پیمانے پر فساد پیدا کرنے اور جنگلاتی علاقے کی باپردہ خواتین کو بے پردہ کرنے کی سازش قرار دیا ہے ۔ اور کہا ہے ۔ کہ یہ کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا ۔ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تمام تر خراب حالت کی ذمہ داری ڈپٹی کمشنر چترال اور انتظامیہ چترال پر ہوگی ۔ چترال پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ممبر ڈسٹرکٹ کونسل شیر محمد ، حاجی انظر گل ، ناظم شیر محمد ، سیف اللہ ، ملک شیر زمین وغیرہ نے کہا ۔ کہ چترال میں جنگلات کی رائیلٹی حکومتی نوٹیفیکیشن کے مطابق قائم شدہ جے ایف ایم سی کے ذریعے سے اب تک تقسیم ہو چکے ہیں ۔ اب جے ایف ایم سیز کو بائی پاس کرکے ڈپٹی کمشنر چترال اپنے سٹاف کے ذریعے ویریفیکیشن کرنے کا جو عمل شروع کیا ہے ۔ اس سے بہت بڑے مسائل پیدا ہوں گے ۔ اور اُن کا یہ طریقہ غیر قانونی اور جنگلاتی علاقے کے کلچر اور ماحول کے بالکل خلاف ہے ۔ جسے اگر نہ روکا گیا ۔ تو گھمبیر مسائل چترال میں پیدا ہوں گے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ جنگلاتی علاقوں میں بہت پہلے سے رائیلٹی کی تقسیم ہر خاندان کے نفوس کے حساب سے کی جاتی رہی ہے ۔ چونکہ جے ایف ایم سی کے ممبران اپنے علاقے کے تمام لوگوں کے حالات اور افراد سے زیادہ باخبر ہیں ۔ اس لئے مردو خواتین سب اس سے مستفید ہوتے رہے ۔ اور اب تک کوئی بھی خاتون رائیلٹی نہ ملنے کی شکایت لے کر انتظامیہ یا عدالت میں نہیں آئی ۔ اس لئے انتظامیہ کی طرف سے خواتین کو رائیلٹی سے محروم رکھنے کی بات میں کوئی صداقت نہیں ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ یہ بہت افسوسناک امر ہے ۔ کہ ڈپٹی کمشنر چترال رائیٹی کی رقومات طویل مراحل سے گزر کر جب تقسیم کیلئے آئے ہیں ۔ تو خواتین کو رائیلٹی سے محروم رکھنے کی بات کی آڑ میں جے ایف ایم سی کو بائی پاس کرنے اور جنگلاتی علاقوں کی باپردہ خواتین کو وریفیکیش کے نام پر بے پردہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ جو کہ جنگلاتی علاقوں کے لوگوں کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ جنگلاتی علاقوں کے پاس سوائے رائیلٹی اور شناختی کارڈ کے کوئی حکومتی سہولت دستیاب نہیں ۔ اب اسے بھی متنازعہ بناکر مجبور کیا جارہا ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ جے ایف ایم سی نے نہ صرف رائیلٹی تقسیم کی ہے ۔ بلکہ کئی علاقوں میں جنگلات کے سینکڑوں تنازعات بھی ان ہی جے ایف ایم سیز نے حل کئے ۔ اب اُس کو بائی پاس کرنا کُھلی سازش اور ضلع کے امن کو برباد کرنے کی کوشش ہے ۔ جسے کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا ۔ جے ایف ایم سیز نے کئی مقدمات اور علاقے کی ضروریات کیلئے مختلف لوگوں سے لے کررقم خرچ کئے ۔ اب جے ایف ایم سی کو بائی پاس کرکے براہ راست رقم کی تقسیم سے لوگوں کے قرضہ جات کون ادا کریں گے ۔انہوں نے کہا ۔ کہ ارندو میں خراب حالات کی وجہ سے لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں ۔ اور ڈپٹی کمشنر اسٹاف لوگوں کی عدم موجودگی میں نہ جانے کس کی ویرفیکیشن کر رہے ہیں ۔ جو کہ سمجھ سے بالاتر ہے ۔ انہوں نے دس دنوں کے اندر مسئلہ حل کرنے کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے کہا ۔ کہ اس کے بعد چترال کو سوختنی لکڑی اور عمارتی لکڑی کی ترسیل بند کی جائے گی ۔ جس کے ذمہ دار ڈپٹی کمشنر چترال ہوں گے ۔

jfmcs members chitral press confrence 1

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged ,
6433

احتجاج کے وکھرے انداز ……………محمد شریف شکیب

Posted on

زمانہ بدلنے کے ساتھ بہت سی رسمیں ، روایتیں، اقدار،لوگوں کا مزاج ، ضرورتیں اور خواہشات بھی تبدیل ہوتی جارہی ہیں۔اب خواتین کی عادتیں مردوں نے اپنا لی ہیں اور انتقام کے طور پر خواتین نے مردوں کی عادتیں اپنانی شروع کردی ہیں۔ تفصیل میں جانے سے اس لئے احتراز برت رہے ہیں کہ بازاروں، پارکوں اور مختلف تقاریب میں ایسے مناظر بکثرت دیکھنے کو ملتے ہیں اور احتراز کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمارے گھرمیں بھی اخبار پڑھا جاتا ہے۔لمبی، گھنی اور چمکدار زلفین ماضی میں خواتین کے حسن کا جزو لا ینفک سمجھی جاتی ہیں۔ جب انہوں نے ہر میدان کی طرح زلف تراشی میں بھی مردوں کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی ۔ تو زلفوں کے شیدائی لڑکوں نے لمبے بال رکھنے، انہیں پونی سے باندھنے اور ہیر بینڈ لگانے کا فیشن اپنالیا۔پہلے زمانے میں لوگ علاج کے لئے تعویز گنڈوں ، حکیمی اور ہومیو ادویات کو ایلوپیتھی کی ادویات پر ترجیح دیتے تھے۔ مشتاق یوسفی کہتے ہیں کہ جب لوگ خونی پیچش کا علاج تعویز گنڈوں میں ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اورخون اس وقت کھولنے لگتا ہے کہ تعویز کی بدولت خونی پیچش کے مریض ٹھیک ہونے لگتے ہیں۔نقلی پیروں کی بہتات اور ہومیوپیتھی کے طویل اور صبر آزما علاج کی وجہ سے لوگوں کا رجحان دوبارہ ایلوپیتھی کی طرف ہونے لگا۔ کیونکہ تیز رفتار ترقی کے اس دور میں لوگ طویل عرصے تک بستر پر پڑے رہنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اور جلد سے جلد صحت یاب ہوکر کام دھندہ دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں۔ایک قابل اعتبار سروے رپورٹ کے مطابق پچاس سال سے زیادہ عمر کے لوگ ڈاکٹری علاج پر گھریلو ٹوٹکوں کو ترجیح دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ زبیدہ آپا مرحومہ، ڈاکٹر بلقیس اور ٹوٹکوں سے علاج کرانے والوں کی وجہ سے ٹیلی وژن کے مارننگ شوزکی ریٹنگ میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے۔جو دوست زندگی کی پچاس پچپن بہاریں دیکھنے کے باوجود جوان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان کے لئے بڑھاپے کی چند نشانیان بتانا ضروری سمجھتا ہوں۔مثال کے طور پر دیسی علاج پر یقین رکھنا، اقوال زرین ڈھونڈ کر دوستوں سے شیئرکرنا، سادگی کی تلقین کرتے پھیرنا، بغیر میچنگ والی ملبوسات پہننا، ہم عمر لوگوں کو بوڑھا کہہ کر تسکین پانا، بیٹھے بیٹھے اونگھنا،آدھی رات کو ہڑبڑا کر اٹھنا کہ پتہ نہیں۔ باہر والے گیٹ کو تالا لگایا تھا یا نہیں؟ اے ٹی ایم سے پیسے نکلوا کر بار بار انہیں گننااورٹچ موبائل پر بٹن والے موبائل کو ترجیح دینا شامل ہیں۔ اگر ان میں سے چند یا ساری نشانیاں موجود ہیں توبوڑھے لڑکوں کو یقین کرنا چاہئے کہ ان کا بڑھاپا شروع ہوچکا ہے۔ عادات و اطوار اورروایات کی اس تبدیلی کے آثار خیبر پختونخوا اسمبلی میں بھی دکھائی دینے لگے ہیں۔ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے سیٹی بجانا اتنی پرانی روایت ہے جتنی مہذب معاشرے کی تاریخ پرانی ہے۔ اس مجرب نسخے کو گذشتہ روز خیبر پختونخوا اسمبلی کے اجلاس کے دوران حکمران جماعت تحریک انصاف کے ایک ایم پی اے نے بھی ازمایا۔جنوبی اضلاع کو تیل اور گیس کی رائلٹی دلانے کے لئے ایم پی اے امجد خان آفریدی کافی عرصے سے سرگرم تھے مگر نقارہ خانے میں جب ان کی آواز کسی نے نہ سنی۔ تو انہوں نے احتجاج کرنے کا پرانا گر ازمانے کا فیصلہ کیا۔ وہ ٹریفک وارڈن والی سیٹی کوٹ کی جیب میں چھپا کر اسمبلی پہنچ گیا۔ جب اپنا مدعا رائیگاں جاتے دیکھا تو زور زور سے سیٹی بجانا شروع کردیا۔پورا ایوان سیٹی کی آواز سے گونجنے لگا تو حکومتی ارکان نے انہیں چپ کرانے کی کوشش کی۔ اور سیٹی کی آواز نے ممبران کی سٹی گم کردی تو ڈپٹی سپیکر کو اجلاس اگلے روز تک کے لئے ملتوی کرنا پڑا۔اپنی نئی حکمت عملی کی غیر متوقع کامیابی پر نازاں ایم پی اے نے جب اگلے روز بھی سیٹی بجانے سلسلہ نئے سرے سے شروع کردیا تو حکومت نے متعلقہ ایم پی او کو یقین دہانی کراکے ہی اپنی جان چھڑوادی۔احتجاج کے انوکھے طریقے عوام میں بھی کافی مقبول ہورہے ہیں۔ اس سے پہلے قومی اسمبلی میں ایک اقلیتی رکن اسمبلی اپنی عجیب و غریب حرکتوں کی وجہ سے خاصے مشہور ہوچکے تھے۔ کبھی چوک میں بیٹھ کر اپنے سرپر مٹی ڈال کر اقلیتوں کے حقوق کے لئے آواز بلند کرتے اور کبھی خود کو زنجیروں میں جکڑ کر حکومت اور عوام کو اپنی طرف متوجہ ہونے پر مجبور کرتے تھے۔ آج کل بجلی کے کھمبوں پر چڑھ کر احتجاج کرنا خاصا مقبول ہورہا ہے۔اسی منفرد احتجاج سے متاثر ہوکر سابق وزیراعظم نے ’’ مجھے کیوں نکالا‘‘ کی ملک گیر مہم شروع کی۔ جس کا ثمر انہیں لودھراں میں تحریک انصاف کی نشست چھن جانے کی صورت میں مل چکا ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
6428

ڈاکٹر عزیز اللہ نجیب اور ’’کتاب المعارف‘‘

آج ڈاکٹر عزیز اللہ نجیب صاحب کے ساتھ ایک دلچسپ نشست رہی۔ جس میں انہوں نے اپنی تازہ تصنیف ’’کتاب المعارف‘‘ (حصۂ اوّل) کی اعزازی کاپی عنایت فرمائی۔ یہ ڈاکٹر صاحب کی اپنے شاگردوں سے محبت اور خاص طور پر مجھ پر شفقت کی علامت ہے۔ ہم جب بھی ملتے ہیں استاد شاگرد کے روایتی خول سے آزاد ڈاکٹر صاحب ہمیشہ قدر افزائی فرماتے ہیں۔ جب کئی سال پہلے میری ادارت میں ’’فکرونظر‘‘ نکلتا تھا ڈاکٹر صاحب اس کے مستقل لکھاریوں میں شمار ہوتے تھے اور بڑی محبت سے نہ صرف اپنے تحقیقی مقالات سے نوازتے تھے بلکہ میری فرمائیش پر رسالے کے گوشۂ ادب کے لیے خصوصی کلام بھی تحریر فرماتے۔ رسالہ کسی وجہ سے جب بند ہوا تو ڈاکٹر صاحب کافی ناراض ہوئے اور اکثر مجھ سے کہتے تھے ’’ریٹارمنٹ کے بعد بحیثیت ایڈیٹر میں نے آپ کے ساتھ کام کرنا تھا لیکن آپ نے رسالے کی اشاعت ختم کرکے کم سے کم میرے ساتھ نا انصافی کی ہے۔‘‘ میں کہتا ’’سر! آپ شرمندہ کر رہے ہیں میں تو آپ کے شاگردوں کا شاگرد ہوں آپ میرے ساتھ کیسے کام کریں گے؟‘‘ پتہ ہے کیا کہتے تھے شفقت کا ہاتھ میرے کاندھے پہ رکھ کے فرماتے کہ ’’یہ میرے لیے اعزاز سے کم نہیں ہوگا کہ میرا شاگرد میرا بوس ہو۔‘‘ میرے اور میرے ایک چھوٹے سے رسالے کے بارے میں اتنے بڑے آدمی کا یہ کہنا میرے لیے باعثِ فخر اپنی جگہ لیکن اس سے آپ ان کی علمی بڑائی کا بھی اندازہ کرسکتے ہیں۔ آپ کی معلومات کے لیے ڈاکٹر صاحب کا مختصر تعارف ضروری سمجھتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب کے بارے میں اتنا کہنا کافی ہے کہ وہ دُنیائے اسماعیلیت کے مایۂ ناز اور سکہ بند اسکالرز میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ ایک ایسی شخصیت ہیں جن کی علمی و ادبی خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے۔ سرزمین ہنزہ بالا میں خیر آباد (رمنجی) سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عزیز اللہ نجیب بحیثیت سینئر ریسرچ اسکالر اسماعیلی طریقہ بورڈ برائے پاکستان سے منسلک رہے۔ کئی عشروں سے شہر قائد میں قیام پذیر ہیں۔ آپ نے کراچی یونیورسٹی سے ایم۔ اے، ایل۔ ایل۔ بی کی ڈگری حاصل کی۔ پھر فلسفہ میں کراچی یونیورسٹی سے ایم۔ فل کی ڈگری حاصل کی اور بعد اذاں حکیم ناصر خسروؒ کے تصورِ عقل پر ہمدرد یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ اس وقت وہ ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں اور اسماعیلی اسٹیڈیز لندن سے شائع ہونے والی انگریزی کتابوں کا اردو میں ترجمہ بھی کر رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ اپنی تصنیفات کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ جوکہ قابلِ ستائش ہے۔

Dr. Aizullah Najeeb Image 1
اب ذرا ان کی تازہ تصنیف ’’کتاب المعارف‘‘ پر بات ہوجائے۔ ایک سو ستر صفحات پر مشتمل یہ کتاب کتابی حجم کے اعتبار سے یقیناً چھوٹی ہے لیکن اپنے موضوع کے اعتبار سے انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔ جس میں اسماعیلی بنیادی تصورات کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ اسماعیلی تشریح و تعبیر کے مطابق توحید، نبوت، امامت، ایمان کی معرفت، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل پر صلوات بھیجنے کی معرفت، معاد، اسلام کا باطنی پہلو، اطاعت کی شناخت، عبادت کی اہمیت اور معرفتِ نفس وغیرہ پر گیرائی و گہرائی سے گفتگو کی گئی ہے۔
سب سے اہم بات کتاب کے آخری کچھ صفحات میں چند مخصوص سوالات کا تشفی بخش جواب دیا گیا ہے جو اکثر اسماعیلی مسلمانوں اور دیگر برادرانِ اسلام کی طرف سے پوچھے جاتے ہیں۔ میرے خیال میں ڈاکٹر صاحب کی اس خوبصورت علمی کاوش کے بعد کسی حد تک ایک دوسرے کو سمجھنے کے حوالے سے نہ صرف علمی پیاس بجھائی جاسکتی ہے بلکہ ایک دوسرے کے حوالے سے غلط فہمیاں بھی دور کی جاسکتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو ان کی تازہ تصنیف پر مبارکباد کے ساتھ آپ تمام سے گزارش ہے جو کتابوں سے محبت رکھتے ہیں وہ اس کتاب کا مطالعہ ضرور کجیئیے اور مثبت سوچوں کو تقویت دیجئیے۔
مولانا رومیؒ کی اس تمثیلی حکایت کے ساتھ آپ سے اجازت چاہوں گا۔
کسی شخص نے چار مسافروں کو ایک درم دیدیا۔ ان میں سے ایک ایرانی تھا دوسرا عرب تیسرا ترک اور چوتھا رومی۔ ایرانی نے کہا ’’اس درم پر انگور خریدیں گے۔‘‘ عرب نے کہا ’’بالکل نہیں عنب (یعنی انگور) خریدیں گے۔‘‘ ترک نے کہا ’’جی نہیں ازم (یعنی انگور) خریدیں گے۔‘‘ رومی نے کہا ’’ہرگز نہیں، اس پر استافیل (یعنی انگور ہی۔) خریدیں گے۔‘‘ چاروں انگور خریدنا چاہتے تھے مگر الفاظ کے معنی نہ سمجھنے کی وجہ سے باہم لڑ پڑے اور ایک دوسرے کو مارے پیٹے۔
یہی حال ادیان کا ہے۔ سب خدا کی خوشنودی چاہتے ہیں مگر کسی اور زبان اور دوسرے طریقے سے۔ جب دوسروں کی زبان اور طریقہ سمجھ میں آتا ہے تو ایک دوسرے سے دست و گریباں نہیں ہوتے بلکہ ایک دوسرے کی قدر کرتے ہیں اور ترقی یافتہ اور علمی عروج پانے والے لوگ اس کو ڈائیورسٹی اور پلوریلزم کہتے ہیں۔ جبکہ قرآن پاک نے اس نوشن کو اختلاف کہا ہے۔ ہمیں قرآن پاک کی اس تعلیم کو زادِ راہ بنانا ہوگا۔
اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین!

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
6426

انسانیت کا لباس: شرم و حیا ………..از:ڈاکٹر ساجد خاکوانی

Posted on

(14فروری،یوم شرم و حیا کے موقع پر خصوصی تحریر)

[email protected]
محسن انسانیت ﷺنے فرمایا کہ ’’ایمان کی ساٹھ سے زیادہ شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے‘‘۔ حضرت عبداﷲبن عمرؓ فرماتے ہیں ایک موقع پر محسن انسانیت ﷺ ایک انصاری مسلمان کے پاس سے گزرے جواپنے بھائی کو بہت زیادہ شرم و حیا کے بارے میں نصیحت کررہاتھاتب آپ ﷺ نے فرمایا کہ’’ اسے اس کے حال پر چھوڑ دو کیونکہ حیادراصل ایمان کاایک حصہ ہے‘‘۔ایک اور صحابی عمران بن حصینؓ نے بتایاکہ ایک موقع پر محسن انسانیت ﷺ نے فرمایا کہ ’’شرم و حیا صرف بھلائی کاباعث بنتی ہے‘‘۔محسن انسانیت ﷺنے دوسرے ادیان کاذکرتے ہوئے فرمایا کہ ہر دین کی ایک پہچان ہوتی ہے اور ہمارے دین کی جداگانہ پہچان ’’شرم وحیا‘‘ہے ۔ایک بار محسن انسانیت ﷺ نے حیا کی غیرموجودگی کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ’’جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کرتارہ‘‘۔اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ کسی بھی برے کام سے روکنے کا جوواحد سبب ہے وہ شرم و حیاہے اور جب کسی میں شرم کافقدان ہو جائے اور حیاباقی نہ رہے تو اب اس کا جو جی چاہے گا وہی کرے گااورجب انسان اپنی مرضی کا غلام بن جاتاہے تو تباہی اس کا یقینی انجام بن جاتی ہے ،اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے محسن انسانیت ﷺنے فرمایا کہ’’ جب اﷲتعالی کسی بندے کو ہلاک کرنا چاہے تواس سے شرم و حیا چھین لیتاہے‘‘۔

ایک طویل حدیث مبارکہ میں حضرت عبداﷲ بن مسعودؓروایت کرتے ہیں کہ ایک موقع پر محسن انسانیت ﷺنے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ’’ اﷲ تعالی سے ایسی حیا کرو جیسی کہ اس سے کرنی چاہیے،لوگوں نے عرض کیاکہ الحمدﷲہم اﷲتعالی سے حیاکرتے ہیں،محسن انسانیت ﷺنے فرمایا نہیں،حیاکامفہوم اتنا محدود نہیں جتنا تم سمجھ رہے ہو بلکہ اﷲتعالی سے حیاکرنے کا حق یہ ہے کہ سراورسر میں جو افکاروخیالات ہیں ان سب کی نگرانی کرو اور پیٹ کی اور جو کچھ پیٹ میں بھراہے اس سب کی نگرانی کرو،اور موت کواورموت کے بعد جوکچھ ہونے والا ہے اس کو یاد کرو،پس جس نے ایسا کیا سمجھو اس نے اﷲتعالی سے حیاکرنے کاحق ادا کر دیا‘‘۔اس حدیث مبارکہ میں فکرو عمل سے موت و حیات تک کے تمام امور میں حیاکادرس دیا گیا ہے۔حقیقت یہی ہے کہ حیاکی سب سے زیادہ حق دار اﷲ تعالی کی ذات ہے ،اور چونکہ اﷲ تعالی سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں ہے اس لیے کھلے چھپے ہرحال میں اﷲ تعالی سے حیاکی جائے اور اﷲتعالی سے حیاکا مطلب اﷲ تعالی کاتقوی اختیارکیاجائے اور جلوت ہو یا خلوت برائیوں سے بچنا اور نیکیوں میں سبقت اختیار کرنا ہی تقوی ہے۔حضرت ابن حیدہ سے روایت ہے کہ محسن انسانیت ﷺنے فرمایا’’اپنی شرم گاہ محفوظ رکھو(کسی کے سامنے نہ کھولو)سوائے اپنی بیوی اور باندی کے ،میں نے عرض کیا یا رسول اﷲﷺکیا تنہائی میں بھی؟؟(شرم گاہ نہ کھولی جائے)محسن انسانیت ﷺنے جواباََارشاد فرمایا اﷲ تعالی اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے شرم کی جائے‘‘۔

حضرت ابو سعید خذریؓ بیان کرتے ہیں کہ محسن انسانیت ﷺکنواری پردہ نشین عورت سے بھی کہیں زیادہ حیادار تھے۔اسی لیے ہر قبیح قول وفعل اور اخلاق سے گری ہوئی ہر طرح کی حرکات و سکنات سے آپ کا دامن عفت و عصمت تاحیات پاک رہا۔ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ محسن انسانیت ﷺنہ فحش کلام تھے،نہ بیہودہ گوئی کرتے تھے اور نہ ہی بازاروں میں شور کیاکرتے تھے،برائی کابدلہ کبھی برائی سے نہ دیتے تھے بلکہ معاف فرما دیتے تھے یہاں تک کہ زوجہ محترمہ ہوتے ہوئے بھی بی بی پاک نے کبھی آپ ﷺکوبرہنہ نہ دیکھاتھا۔محسن انسانیت ﷺکے بچپن کے اوائل عمری میں جب آپ بہت چھوٹی عمر میں تھے اور اپنے چچاؤں کی گود میں کھیلا کرتے تھے تو ایک بار پاجامہ مبارک تھوڑاسا نیچے کو سرک گیا تو مارے حیا کے بے ہوش گئے تب پانی کے چھینٹوں سے ہوش دلایا گیا۔چنانچہ بعدازبعثت حضرت جرہد ابن خویلدسے روایت ہے کہ محسن انسانیت ﷺنے فرمایا ’’کیاتمہیں یہ معلوم نہیں کہ ران(بھی)ستر میں شامل ہے‘‘۔حضرت علی کرم اﷲوجہ سے روایت ہے کہ محسن انسانیت ﷺنے فرمایا ’’اے علی اپنی ران نہ کھولو اور کسی زندہ یامردہ آدمی کی ران کی طرف نظر بھی نہ کرو‘‘۔حضرت ابوسعید خزری فرماتے ہیں کہ محسن انسانیت ﷺکاارشاد مبارک ہے کہ ’’مرد دوسرے مرد کے ستر کی طرف اور عورت دوسری عورت کے ستر کی طرف نگاہ نہ کرے‘‘۔ عبداﷲبن عمر سے تو یہاں تک روایت ہے کہ محسن انسانیت ﷺنے فرمایا’’لوگو (تنہائی کی حالت میں بھی)برہنگی سے پرہیز کرو(یعنی ستر نہ کھولو)کیونکہ تمہارے ساتھ فرشتے ہروقت موجود ہوتے ہیں اور کسی بھی وقت جدا نہیں ہوتے لہذاان کی شرم کرو اور ان کا احترام کرو‘‘۔چنانچہ فقہا لکھتے ہیں کہ سوائے قضائے حاجت اور وظیفہ زوجیت کے اپنا ستر کھولنا جائز نہیں اور بالکل الف ننگاہو کر غسل کرنا بھی خلاف سنت ہے پس دوران غسل بھی کسی کپڑے سے ستر یا ننگ کا ڈھکاہونا ضروری ہے۔

حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ محسن انسانیت ﷺنے فرمایا ’’عورت گویا ستر (چھپی ہوئی)ہے ،جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیاطین اس کو تاکتے ہیں اور اپنی نظروں کا نشانہ بناتے ہیں‘‘۔حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ مجھ تک یہ قول رسول ﷺ پہنچاہے کہ ’’اﷲ تعالی کی لعنت ہو دیکھنے والے پر اور جس کو دیکھاجائے‘‘۔چنانچہ جب اچانک نظر پڑ جانے کے بارے میں دریافت کیاگیاتومحسن انسانیت ﷺنے فرمایا’’ادھرسے اپنی نگاہ پھیر لو‘‘۔حضرت بریدہؓفرماتے ہیں کہ محسن انسانیت ﷺنے حضرت علی کرم اﷲ وجہ کونصیحت کرتے ہوئے فرما یا’’اے علیؓ؛(اگرکسی نامحرم پر تمہاری نظر پڑ جائے تو)دوبارہ نظر نہ کرو،تمہارے لیے(بلاارادہ) پہلی نظر توجائز ہے مگردوسری نظر جائز نہیں‘‘ ۔مولانا ابوالاعلی مودودی ؒ اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اچانک نظر کی گنجائش ہے لیکن’’ نظارہ ‘‘کی کوئی گنجائش نہیں۔حضرت ابو امامہؓ نے رویات کیاہے کہ محسن انسانیت ﷺنے فرمایا’’جس مرد مومن کی کسی عورت کے حسن و جمال پر نظر پڑ جائے پھر وہ اپنی نگاہ نیچی کر لے تو اﷲ تعالی اس کو ایسی عبادت نصیب فرمائے گا جس کی لذت و حلاوت اس مرد مومن کو محسوس ہو گی‘‘۔امیرالمومنین حضرت عمر بن خطابؓ سے روایت ہے کہ محسن انسانیت ﷺنے فرمایا ’’ایسا ہرگزنہیں ہو سکتاکہ کوئی (نامحرم )آدمی کسی عورت سے تنہائی میں ملے اور وہاں تیسرا شیطان موجود نہ ہو‘‘۔ایک موقع پر حضرت عقبہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں محسن انسانیت ﷺنے فرمایا ’’تم (نامحرم)عورتوں کے پاس جانے سے بچو(اور اس معاملے میں بہت احتیاط کرو)‘‘۔حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ محسن انسانیت ﷺنے نصیحت کرتے ہوئے ارشادفرمایا کہ ’’تم ان عورتوں کے گھروں میں مت جایا کروجن کے شوہر باہر گئے ہوئے ہوں کیونکہ شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتاہے‘‘۔

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ محسن انسانیت ﷺنے فریا’’آنکھوں کا زنا (نامحرم عورت کی طرف)دیکھنا ہے،کانوں کا زنا (حرام آوازکا)سنناہے،زبان کا زنا(ناجائز)کلام کرنا ہے ،ہاتھ کا زنا (ناجائز)پکڑنا ہے اور پیرکا زنا(حرام کی طرف)چل کرجانا ہے اور دل خواہش کرتاہے اور آرزوکرتاہے اور شرم گاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کر دیتی ہے‘‘۔حضرت ام سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ میں اور حضرت میمونہؓ محسن انسانیت ﷺکے پاس بیٹھی تھیں کہ ایک نابینا صحابی ابن ام مکتومؓ حاضر خدمت اقدس ہوئے تو ہمیں حکم ہوا کہ ’’تم (دونوں)ان سے پردہ کرو‘‘،ہم نے عرض کی یارسول اﷲﷺکیا وہ تو نابینا نہیں ہیں؟؟پس محسن انسانیت ﷺنے فرمایا ’’کیا تم (دونوں)بھی نابینا ہو؟؟کیا تم (دونوں)انہیں نہیں دیکھتیں؟؟‘‘۔حضرت عبداﷲ بن عباسؓ نے فریایاکہ محسن انسانیت ﷺنے عورتوں والا حلیہ اختیار کرنے والے مردوں پر اور مردانہ انداز اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے،اسی مضمون کو حضرت ابوہریرہؓ نے بھی یوں بیان کیا کہ ’’محسن انسانیت ﷺنے اس آدمی پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں کاسا لباس پہنتاہے اور اس عورت پر بھی لعنت فرمائی ہے جو مردوں کاسا لباس پہنتی ہے۔

گزشتہ اقوام کی تبای ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ گناہ کے کام مل کر اجتماعی طورپرکیاکرتے تھے۔اﷲتعالی کا ہر عذاب اگرچہ بڑا عذاب ہے لیکن سب سے سخت ترین عذاب قوم لوط پر آیا جو اجتماعی عذاب بھی تھا اور انفرادی عذاب بھی۔اس قوم کے جرائم میں ایک جرم یہ بھی تھا کہ وہ شرم و حیا سے عاری ہو چکی تھی اور بے حیائی کے کام بھری محفلوں میں سرعام کیا کرتے تھے۔قوم لوط کے لوگوں کی گفتگو ئیں،ان کی حرکات و سکنات ،اشارات و کنایات اور ان کے محلے اور بازارسب کے سب عریانی و فحاشی اور برائی و بے حیائی کا مرقع تھے ،تب وہ غضب خداوندی کے مستحق ٹہرے۔آج کی سیکولر تہذیب نے بھی انسانیت کوحیاکے لبادے سے ناآشنا کر دیا ہے اور انسان کوثقافت کی آڑ میں اپنے خالق و مالک سے دور کر کے توتباہی و بربادی کے دہانے پر لاکھڑاکیاہے۔پس جو بھی اس بے ہودگی و ہوس نفس کی ماری پر کشش اورفریب زدہ سیکولرتہذیب میں داخل ہو گاوہ ان الانسان لفی خسر کی عملی تصویر بنتے ہوئے ممکن ہے کہ قوم لوط میں شمار ہوکہ یہ سیکولر فکر خالصتاََابلیس اور اس کے پیروکاروں کا راستہ ہے جس کا انجام بھڑکتی ہوئی آگ کی وادیاں ہیں،اور جو اس نقصان سے بچنا چاہے اس کے لیے کل انبیاء علیھم السلام کا طریقہ حیات موجود ہے جسے بسہولت حیات حیاداری کا نام دیا جاسکتاہے،کہ اس دنیامیں انسانوں سے حیا اور روز محشراﷲ تعالی بزرگ و برترکے سامنے پیش ہونے کا خوف و حیا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
6388

وکلاء کیلئے بار کونسل کے بقایا جات جمع کرنے کی تاریخ میں8 2 فروری تک توسیع کا اعلان

Posted on
پشاور ( چترال ٹائمز رپورٹ )خیبر پختونخوا بار کونسل کے بقایا جات جمع کرنے کی آخری تاریخ میں8 2 فروری تک توسیع کردی گئی ہے۔ یہ فیصلہ بار کونسل کے وائس چیرمین فدا محمد خان اور چیرمین انتطامی کمیٹی ملک خالق داد اعوان نے بار کونسل ممبران ، بار صدو ر اور وکلاء کے مطالبے کے پیش نظر کیا ہے۔ وکلاء اپنے ذمے واجب الادا بقایاجات متعلقہ برانچ میں جمع کرا سکتے ہیں تاکہ مارچ میں ہونے والے بار ایسوسی ایشنز کے انتخابات کیلئے ووٹرز لسٹوں میں اْنکے نام شا مل ہوسکیں ۔ مقررہ تاریخ کے بعد بار کونسل کی جانب سے مزید کوئی توسیع نہیں ہوگی۔صوبے کی تمام بار ایسوسی ایشنز کے صدور کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ اپنی متعلقہ بار ایسوسی ایشن کی ماہانہ فیس کی وصولی میں بھی اس نئے فیصلے کے مطابق توسیع دے کرفوری طورپر پریکٹسنگ وکلاء کی لسٹ بار کونسل بیھج دیں۔
Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged ,
6268

بچے تو سب کے سانجھے ہیں ………….محمد شریف شکیب

Posted on
خیبر پختونخوا حکومت نے تعلیم کا بجٹ 118ارب روپے سے بڑھا کر 138ارب روپے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ این ٹی ایس کے ذریعے 40ہزار اساتذہ بھرتی کئے گئے ہیں مزید پندرہ ہزار اساتذہ بھرتی کئے جائیں گے۔ جس سے سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی کمی پوری ہوگی۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق صوبے بھر میں 28ہزار 178سرکاری تعلیمی ادارے موجود ہیں ۔جن میں 406ہائر سیکنڈری، 2108ہائی،2642مڈل اور 23022پرائمری سکول شامل ہیں۔ سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی مجموعی تعداد ایک لاکھ 23ہزار325ہے۔ جن میں پرائمری اساتذہ کی تعداد 72ہزار 110ہے۔ مڈل سکولوں میں 15ہزار 183اساتذہ پڑھاتے ہیں ۔ہائی سکولوں کے اساتذہ کی تعداد 26ہزار471جبکہ ہائر سیکنڈری سکولوں کے تدریسی عملے کی تعداد 9ہزار 561ہے۔صوبائی حکومت نے تعلیم کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا ہے۔ اس شعبے میں گذشتہ چار سالوں کے دوران نمایاں اصلاحات کی گئی ہیں۔ سٹاف اور سکولوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی پر بھی کام ہورہا ہے۔جن میں چاردیواری کی تعمیر، فرنیچر، سٹیشنری ، بجلی، پانی اور بیت الخلاء کی سہولیات کے ساتھ سائنس، کمپیوٹر لیب اور لائبریریوں کے قیام کے منصوبے شامل ہیں۔اساتذہ کی حاضری یقینی بنانے کے لئے بائیو میٹرک سسٹم متعارف کرایا گیا ہے۔ غیر حاضر اور دیر سے آنے والوں کو جرمانے بھی کئے جارہے ہیں۔ تعلیم کے لئے مختص118ارب روپے کے بجٹ کا نصف سے زیادہ حصہ اساتذہ کی تنخواہوں ، پنشن، مراعات اور تربیت پر خرچ کیا جاتا ہے۔چونکہ سرکاری سکولوں پر خرچ ہونے والی رقم قومی خزانے سے آتی ہے۔ اس لئے قوم کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کی پائی پائی کا حساب رکھنا ضروری ہے۔ تعلیم کے شعبے میں اصلاحات کا یہ عمل مکمل نہیں ہوا۔ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ جن میں بھوت سکولوں کا کھوج لگانا، ان میں تعینات بھوت اساتذہ اور دیگر سٹاف کی تنخواہیں روکنا، محکمہ تعلیم کے اہلکاروں اور بھوت اساتذہ سے تنخواہوں اور مراعات کی مد میں لوٹی گئی رقم واپس لے کر قومی خزانے میں جمع کرنا بھی شامل ہے۔ حکومت کے لئے سرکاری سکولوں کا معیار پرائیویٹ سکولوں کے مساوی لانا بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ صوبے کے آٹھ تعلیمی بورڈز کے تحت ہونیو الے میٹرک اور انٹر میڈیٹ کے امتحانات میں کوئی سرکاری سکول ٹاپ ٹین میں جگہ نہیں بناسکا۔ جو اس حقیقت کا مظہر ہے کہ سرکاری سکولوں کے نصاب اور طریقہ تدریس میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ساتھ ہی سرکاری تعلیمی اداروں سے نااہل اور سفارشی عملے کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔ جس کے بغیر معیار بہتر بنانے کی کوششیں بارآور ثابت نہیں ہوسکتیں۔سرکاری سکولوں پر عوام کا اعتماد بحال کرنے اور معیار بہتر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ حکومتی ارکان، منتخب نمائندوں، محکمہ تعلیم کے ادنیٰ و اعلیٰ افسروں کو اپنے بچے سرکاری سکولوں میں داخل کرنے کا پابند بنایا جائے۔صوبائی حکومت اور محکمہ تعلیم کو سرکاری تعلیمی اداروں کے ساتھ پرائیویٹ اداروں اور مدارس میں دینی تعلیم حاصل کرنے والے لاکھوں بچوں کی بھی خبرلینی چاہئے۔ کیونکہ یہ بھی اسی قوم کے بچے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق صوبے میں دینی مدارس کی تعداد بارہ ہزار سے زیادہ ہے جن میں 80ہزار بچے دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ دینی مدارس میں پڑھنے والے 90فیصد طلباوطالبات کے والدین اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دلانے کی استطاعت نہ رکھنے کی وجہ سے مدارس میں بھیجتے ہیں۔ جہاں انہیں مفت تعلیم کے ساتھ رہائش کی سہولت بھی ملتی ہے۔ خیبر پختونخوا میں 9لاکھ سے زیادہ بچے پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں صوبہ بھر میں سات ہزار پرائیویٹ تعلیمی ادارے ہیں جن میں 70ہزار اساتذہ کو روزگار ملا ہوا ہے۔ ضلع پشاور میں 13ہزار تعلیم یافتہ نوجوان پرائیویٹ سکولوں میں تدریس سے وابستہ ہیں صوبائی دارالحکومت میں دو لاکھ چالیس ہزار بچے پرائیویٹ سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ تعلیم کے لئے مختص 138ارب سالانہ بجٹ سے پرائیویٹ سکولوں اور مدارس کے بچوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔پرائیویٹ سکول اور مدارس صوبے میں تعلیم کا معیار بہتر بنانے کے ساتھ شرح خواندگی بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس لئے قومی وسائل میں ان کا بھی حق بنتا ہے۔صوبائی حکومت، ماہرین تعلیم اور منصوبہ سازوں کو فروغ تعلیم کے لئے پالیسی وضع کرتے ہوئے پرائیویٹ اداروں اور مدارس میں زیرتعلیم طلبا و طالبات کے مفادات کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔ کیونکہ بچے تو سب کے سانجھے ہیں چاہے وہ سرکاری سکولوں میں پڑھتے ہوں، پرائیویٹ سکولوں ، کالجوں، یونیورسٹیوں اور مدارس میں حصول تعلیم کے لئے کوشاں ہوں۔
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
6266

صدا بصحرا …………. ہم مفروضوں پر زندہ ہیں………….. ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on
دو دن کے اخبارات اور 24گھنٹے کے ٹیلی وژن پروگراموں کو سامنے رکھ کر کوئی بھی محب وطن پاکستانی سوچے تو اس نتیجے پر پہنچے گا کہ ہم مفروضوں پر زندہ ہیں اور مفروضوں پر ہی ہمارا گذر بسر ہورہا ہے مفروضہ عربی زبان کا لفظ ہے ۔ یہ لفظ اردو میں مستعمل ہے اور انگریزی کے Assumptionکا ہم معنی و مترادف ہے اپنی طرف سے کوئی بات طے کرکے اس پر یقین کرلینا مفروضہ کہلاتا ہے۔ مثلََا مسلمان دنیا کی بڑی طاقت ہیں پوری دنیا مسلمانوں سے ڈرتی ہے یہ ایک مفروضہ ہے۔ مثلََا امریکہ افغانستان میں شکست کھاگیایہ بھی مفروضہ ہے۔ مثلََا چین ہمارا دوست ہے یہ بھی مفروضہ ہے۔ مثلََا پاکستان کی بقا کا راز جمہوریت میں مضمر ہے۔ یہ بھی مفروضہ ہے۔ ایسے ہزاروں مفروضے ہیں جن کی کوئی بنیا د نہیں۔ ہم نے اپنی طرف سے ایک بات طے کی ہے اور اس پر تکیہ کرکے بیٹھے ہوئے ہیں ۔ ان مفروضوں سے جتنی جلدی جان چھڑائی جائے ہمارے حق میں اُتنا ہی بہتر ہوگا۔ پہلا مفروضہ لے لیں مسلمان دنیا کی طاقت کب سے ہوئے؟ مسلمانوں کی حالت گذشتہ ایک ہزار سالوں سے عرب کے زمانہ جاہلیت جیسی ہے ۔ سیرت کی کتابوں میں خاتم النبین محمد مصطفیﷺ کی بعشت سے پہلے عرب دنیا کا جو حال لکھا ہے وہ ایک ہزار سالوں سے مسلمانوں کا حال ہے۔ باہمی جنگ و جدل ، باہمی نفاق، باہمی دشمنی ، شراب خوری ، سود خوری ، جوا بازی، فحاشی اور زمانہ جاہلیت کی دیگر برائیاں مسلمانوں میں اس دور سے بھی زیادہ ہیں اگر امراء شراب و سود خوری میں مبتلا ہیں تو علماء دشمنی ، رقا بت اور انتشار میں مبتلا ہیں ۔ ایسی قوم دنیا میں کسی کو کیا چیلنج دے سکتی ہے؟ دوسرا مفروضہ لے لیں امریکہ افغانستان میں شکست کھا گیا۔ کس طرح شکست کھا گیا؟امریکہ کے اہداف حاصل ہوچکے ہیں اور افغانستان کے ساتھ پاکستان بھی امریکہ کے چنگل میں پھنس چکا ہے۔ امریکہ نے 1978ء میں افغانستان میں قدم رکھا تو اس کے تین بڑے مقاصد تھے ۔ پہلا مقصد یہ تھا کہ جمہوری انقلاب کو ناکام کیا جائے، دوسرا مقصد یہ تھا کہ دہشت گردی کے لئے تربیتی مراکز قائم کئے جائیں اور افغانستان کے ساتھ پاکستان میں بھی دہشت گردی پھیلائی جائے ، تیسرا مقصد یہ تھا کہ افغانستان کو مرکز بناکر روس اور چین کا تعاقب کیا جائے ۔ یہ تینوں اہداف امریکہ نے حاصل کرلئے افغانستان میں اس کے قدم مضبوط ہوچکے ہیں۔ اگلے سو سالوں کے لئے اس نے فوجی اڈہ حاصل کرلیا ہے۔ جن لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ افغانستان کے بعض صوبوں میں صدر اشرف غنی کے مخالفین قابض ہیں اور یہ امریکہ کی شکست ہے تو ایسے احباب کو جان لینا چاہیے کہ القاعدہ، داعش اور امریکی فوج ایک دوسرے سے جدا یا الگ نہیں ۔ تینوں ایک ہیں۔ امریکہ کی ایک باوردی فوج ہے۔ باقی بغیر وردی کے امریکی فوج ہیں اور امریکی مقاصد کے لئے کام کرتی ہیں۔ داعش اور القاعدہ امریکیوں کی جگہ مسلمانوں پر حملے کرتی ہے اور امریکیوں کے لئے راہ ہموار کرتی ہے۔ فوجی اڈے حاصل کرنے کا جواز فراہم کرتی ہے۔ خانہ جنگی کے تصور کو زندہ رکھتی ہے۔ اس لئے افغانستان میں
ا مریکہ ناکام نہیں۔بلکہ کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ تیسرا مفروضہ لے لیں ، چین ہمارا دوست ہے۔ہماری دوستی ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے گہری ہے۔ اس مفروضے کی حقیقت یہ ہے کہ چین کے اپنے مفادات ہیں ۔ ہماری دوستی چین کے مفادات کے گِرد گھومتی ہے۔ بغیر چینی مفاد کے ہماری دوستی کی کوئی حیثیت نہیں۔ اسی طرح اگلا مفروضہ بھی بے بنیاد ہے۔ بِلا وجہ مفروضہ گھڑ لیا گیا ہے کہ پاکستان کی بقا کا راز جمہوریت میں مضمر ہے ۔ ہماری 70سالہ تاریخ میں بہترین دور ایوب خان کا دور تھا۔اس کے بعد جنرل ضیاء الحق کا دور معاشی ترقی کے لئے شہرت رکھتا ہے۔ ملک کے اندر پریس کی آزادی، میڈیا میں وسعت اور جمہوری و انسانی حقوق کے حوالے سے جنرل مشرف کے دور کو سنہرا دور کہا جاتا ہے۔ ان کے دور میں سوشل میڈیا آیا ۔ الیکٹرانک میڈیا آیااور پریس آزاد ہوا۔ کسی جمہوری حکومت نے پریس کو آزادی نہیں ۔ ملک میں معاشی ترقی کے وسائل فراہم نہیں کئے۔جمہوریت کا دور انارکی ، انتشار اور ہڑتالوں ، دھرنوں ، جلوسوں کی نذر ہوکر گذر جاتا ہے یہ مفروضہ بھی حقیقت سے بہت دور ہے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم مفروضوں کو چھوڑ کر حقائق کی دنیا میں قدم رکھیں اور چیزوں کو ان کی حقیقت کے مطابق پرکھ کر رائے قائم کریں۔ ہم اپنے طرز عمل کی اصلاح جتنی جلدی کریں گے اُتنا ہی بہتر ہوگا۔
لیتا ہوں مکتب غم دل میں سبق ہنوز
مگر یہ کہ رفت گیا اور بود تھا
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , , ,
6208

افسری کا سنہرا دور ………….محمد شریف شکیب

Posted on

خیبر پختونخوا حکومت نے سرکاری دفاتر میں افسروں اور ماتحت اہلکاروں کے دیر سے آنے اور میٹنگ کا بہانہ کرکے غائب ہونے پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ انتظامی سیکرٹریوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے محکموں میں سرکاری اہلکاروں کا قبلہ درست کریں۔لگتا ہے کہ اب سرکاری ملازمت کی عیاشیوں کے دن بھی گنے چنے رہ گئے ہیں۔ قومی وسائل پر پلنے والے اداروں کے اہلکاروں کو بھی اب صبح نو بجے دفتر پہنچنا اور ٹھیک چار بجے کرسی سے اٹھنا ہوگا۔اپنے مسائل کے پلندے اٹھائے سرکاری دفاتر آنے والے سائلوں سے ملاقات بھی کرنی ہوگی اور ان کے مسائل بھی حل کرنے ہوں گے۔ لیکن فی الحال یہ سب کچھ شیخ چلی کا خواب ہے جس کی تعبیر آنے والا وقت ہی بتائے گا۔افسروں نے ان احکامات کا بلاشبہ بہت برا منایا ہوگا۔ کیونکہ جب اٹھارہ بیس گریڈ کے افسر کو بھی صبح نو بجے دفتر پہنچنا پڑے تو چپڑاسی ، کلرک اور افسر میں فرق ہی کیا رہ جائے گا۔ نامور مزاح نگار مشتاق یوسفی کہتے ہیں کہ بینک میں ملازمت ملنے کے بعد جب وہ پہلے دن گیارہ بجے دفتر پہنچے تو انگریز منیجر کو دفتر میں اپنا منتظر پایا۔گڈ مارننگ کے جواب میں انگریز افسر نے گڈ آفٹر نون کہا تو ان کے غصے کا اندازہ ہوگیا۔ جس کا صاف مطلب یہ تھا کہ آٹھ بجے جب بینک کھلا تھا تو وہ صبح کے سلام کا وقت تھا ۔تین گھنٹے بعد سورج سر پر آگیا اور دوپہر ہوگئی۔ اور تم صبح کے سلام کی آڑ میں اپنی کام چوری چھپانے کی کوشش کر رہے ہو۔انگریز افسر کا کہنا تھا کہ لندن میں منفی آٹھ سینی گریڈ سردی میں بھی لوگ ٹھیک آٹھ بجے دفتر پہنچتے ہیں۔ ہندوستان میں تیس سینٹی گریڈ درجہ حرارت کے باوجود دفتر پہنچنے میں تین گھنٹے کی تاخیر سراسر کام چوری ہے۔ مشتاق یوسفی کہتے ہیں کہ پہلے ہی دن کی بے عزتی نے میرا قبلہ درست کردیااورریاضی میں ہمیشہ تھرڈ ڈویژن میں پاس ہونے کے باوجود بینک کے حساب کتاب میں ماہر ہوگیا۔فرائض منصبی کی ادائیگی میں باقاعدگی کا یہ فائدہ تو ہوتا ہے کہ بندہ اپنے کام میں مہارت حاصل کرتا ہے۔لیکن ہمارے سرکاری ملازمین کا موقف ہے کہ اگر میڈیا ہاوسز، فیکٹریوں، کاروباری اداروں اور غیر سرکاری محکموں کے ملازمین کی طرح کام کرنا ہے تو اپنے سینے پر سرکاری ملازم ہونے کا بیچ لگانے کا کیا فائدہ ہے۔ ہمارے ہاں جو افسر اپنے ماتحت عملے اور ملاقاتیوں کو جتنا زیادہ انتظار کرواتا ہے اور فائلوں کو جتنی زیادہ دیر تک اپنے میز پر روکے رکھتا ہے۔ وہ اتنا ہی بڑا افسر کہلاتا ہے۔ ہمارے افسران رات کے آخری پہر تک کھانے کھلانے اورپینے پلانے میں مصروف رہتے ہیں۔ تھک ہار کر صبح کاذب کے وقت بستر پر پڑتے ہیں دن چڑھے ہی آنکھ کھلتی ہے۔ قریبی دوست احباب ناشتے کی میز پر ملاقات کے لئے آتے ہیں۔ ان سے فراغت کے بعد کپڑے بدل کر دفتر پہنچنے میں بارہ ایک تو بج ہی جاتے ہیں۔ دفتر میں بھی بے پناہ مصروفیات کے بکھیڑے ہوتے ہیں۔ وزیروں سے ملنا ہوتا ہے ۔اپنے سے بڑے افسروں کو سلام کرنے جانا ہوتا ہے۔ کچھ دوست اور رشتہ دار یونہی ملنے دفتر بھی پہنچ جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ سرکار کا کام تو چلتا رہتا ہے۔ بندہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے کٹ کر تو نہیں رہ سکتا۔ اس دوران کوئی سائل بن کر آجائے تو اسے ’’ صاحب میٹنگ میں ہے‘‘ کا بہانہ کرکے ٹرخایاجاتا ہے۔ کوئی ڈھیٹ قسم کا سائل اگر صاحب کے فارع ہونے کے انتظار میں بیٹھا رہے تو صاحب کے نورتن لوگوں کی نظروں سے بچا کر پتلی گلی یا پچھلے دروازے سے انہیں نکال دیتے ہیں۔ جب افسر ہی دفتر میں موجود نہ ہو۔ تو ماتحت عملے کا دفتر میں بیٹھنے کا کیا فائدہ۔ اس لئے وہ بھی چادر کرسی پر ڈال کر وضو کرنے، نماز پڑھنے اور کھانا کھانے کے بہانے سرک جاتے ہیں۔ خدانخواستہ افسر بھولے سے دفتر واپس آجائے تو کرسی پر پڑی چادر اس بات کی گواہی ہوتی ہے کہ بندہ دفتر میں موجود ہے۔ سرکاری دفاتر میں حاضریوں کے لئے بائیو میٹرک نظام آنے کی وجہ سے ملازمین پریشان تھے۔ کہ ساتھیوں سے حاضری لگوا کر غائب ہونے کی عیاشی ختم ہوگئی۔ اب صبح نوبجے دفتر پہنچنے کے فرمان شاہی نے ملازمین کی رات کی نیندیں بھی اڑادی ہیں۔ تاہم انہیں یک گونہ اطمینان یہ ہے کہ حکومت انہیں مقررہ وقت پر دفتر پہنچنے کا پابند تو بناسکتی ہے لیکن دفتر میں بیٹھ کر کام کرنے ، فائلیں نمٹانے اور عوامی مسائل حل کرنے پر مجبور نہیں کرسکتی۔کیونکہ ان کے پاس اس ظلم و زیادتی کے خلاف احتجاج اور ہڑتال کرنے کا قانونی حق موجود ہے۔ جسے آئے روز ڈاکٹرز، نرسز، پیرا میڈیکس، اساتذہ ، لیکچررز، پروفیسرز، کلرکس اور دیگر سرکاری ملازمین کامیابی سے بروئے کار لاتے رہے ہیں۔اس لئے عوام کا زیادہ خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں کہ سرکار نے سرکاری ملازمین کو ایمانداری سے فرائض منصبی کی ادائیگی کا پابند بنا ہی لیا ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
6026

محنت میں عظمت ہے………..تحریر : اقبال حیات آف برغذی

Posted on

تجارتی سامان کا ایک بھاری بوجھ پیٹھ پر اٹھائے ایک ضعیف العمر شخص میرے گاؤں کی طرف چڑھائی چڑھتے ہو ئے سامنے آیا ۔ سلام دعا کے بعد انکی سکونت کے بارے میں پوچھنے پر انھوں نے کہا کہ (زا باجوڑ ئم) میں باجوڑ کا ہوں ۔ عمر کے بارے پوچھنے پر پھولے ہوئے سانس کو آہ بھرنے کی صورت میں با ہر نکالتے ہو ئے کہا کہ تقریباََ 75سال ہے ۔ فوری طور پر سر کار دو عالم ﷺ کے ایک صحا بی کے محنتی کھردرے ہاتھوں کو اپنے مبارک ہونٹوں سے بو سہ دینے کا واقعہ میری ذہن میں آکر میں نے اس عمر رسیدہ شخص کے عظمت کا احترام کر تے ہو ئے ان کی داڑھی کو بو سہ دیتے ہوئے معذرت خواہی کے ساتھ اپنی راہ لی ۔

اس تناظر میں اگر سر زمین چترال کے با سیوں کا جائیزہ لیا جائے تو ہماری مٹی میں محنت کے عنصر کی بہت کمی پائی جا تی ہے گھر کے اندر ایک شخص کمانے والا ہو تا ہے تو باقی سب ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں اور حرکت کر نے سے احترار کر تے ہیں ۔ ساٹھ سال کی عمر کے بعد تو دنیاوی امور کا تصور ہی ذہن سے نکل جا تا ہے ۔ بد قسمتی سے ہم من حیث القوم ایسی ہر قسم کی محنت سے گریزاں رہتے ہیں جو ہماری نظر میں عزت نفس کے ذمرے میں آتے ہیں ۔ ساماں تجارت پیٹھ پر اٹھائے گاؤں گاؤں پھیرنے ، سڑکوں کے آرپار بیٹھے تجارت کے عمل سے روزی کمانے اور ریڑیوں پر اشیائے ضرورت فروخت کر نے کو
اے طائر لاھوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو، پرواز میں کوتاہی
کے مصداق سمجھتے ہیں ۔ حصول علم سے فراعت کے بعد سر کاری ملازمت کے لئے آس لگائے بیٹھے رہتے ہیں اوراس کے علاوہ کسی اور ذریعہ آمدن کو اپنانے سے عار محسوس کر تے ہیں اور خود ساختہ بیروزگاری کو قسمت کے کھاتے میں ڈالتے ہیں ۔ حالانکہ اللہ رب العزت نے انسان کی قسمت سے متعلق واضح نقشہ پیش کر تے ہیں کہ انسان کووہ ہی کچھ ملے گا جسکی وہ جستجو کر ے گا ۔ یہ الہامی کلمات انسان کو زندگی کے اسلوب سکھاتے ہیں اور اس میں انسان کی مکلف ہو نے کی طرف اشارہ ہے ۔ عقل و خرد اوربصیرت کے اوصاف سے نوازنے کے بعد ازندگی کے سفر میں اپنے لئے راہ متعین کر نے کا اختیار دیا گیا ہے اوراس اختیار کے تحت اسے منزل تک رسائی کے لئے خود کاوش کر نے کا پابند کیا گیا ہے ۔ عقل و خرد کی رہنمائی میں اعضاء کی حرکات سے ہی مقاصد کے حصول کا امکان پیدا ہو سکتا ہے ۔ چاھے ان مقاصد کا تعلق دنیا سے ہو یا آخرت سے کیونکہ
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت سے نہ نوری ہے نہ ناری
چونکہ ہم اسلام کے آغوش رحمت میں پناہ گزین ہیں اس لئے دینی اعتبار سے سے بھی ہمیں اپنے مقام کی تلاش کی تاکید ملتی ہے ۔

خدانے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال ا پنی حالت آپ بدلنے کا

یہی وہ حقائق ہیں جنکی بنیاد پر ہر انسان کی زندگی کو محنت سے مشروط کیا گیا ہے ۔ حضرت ادرس علیہ السلام بھیس بدل کر اپنے بارے میں لوگوں کی آرا معلوم کر نے کے لئے با ہر آتے ہیں ۔ ہر کسی کی زبان سے ان کے بارے میں توصیعی کلمات نکلتے ہیں ۔ جنرائیل امین ؑ انسانی لبادے میں سامنے آتے ہیں اور ادریس علیہ السلام کے سوال کے جواب میں بیت المال سے کھانے کے عمل کے بغیر مجموعی طور پر انکی تعریف کر تے ہیں ۔ ادریس ؑ فوری طور پر اپنے لئے ہاتھ کی کمائی کے ذرائع کیلئے اللہ رب العزت سے خواستگار ہو تے ہیں اور یوں انہیں روزی کمانے کے لئے زرہ بنانے کے فن سے نوازا جا تا ہے ۔

یہ ہی ہو حقائق ہیں جنکی بنیاد ہر یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ انسان اپنے لئے نہ صرف مقام کا تعین خود کر سکتا ہے۔ بلکہ اس مقام تک رسائی بھی اللہ رب العزت کی طرف سے ودیعت کر دہ ذرائع سے ممکن سے ممکن بنا سکتا ہے ۔ یہی ذرائع اگر کام میں لائے جائیں تو انسان کو اسکی تصور کی دنیا تک رسائی کے قابل بنا سکتے ہیں اور اگر ان ذرائع کو کام میں لا نے سے گریز کیا جائے اور مقدر کی لکیر پر سر رکھ کرسہارے کی امیدوں کے خواب دیکھے جائیں گے تو گمنامی اور نا کامی کی دنیا کے اندھیروں میں بھٹکنا پڑے گا ۔ کیونکہ
تقدریر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم صعیفی کی سزا مر گ مفاجات

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
5986

متعدد افسران کی تبادلوں اور تعیناتیوں کے احکامات جاری

Posted on

پشاور ( چترال ٹائمز رپورٹ ) حکومت خیبر پختونخوا نے مندرجہ ذیل افسران کے فوری طور پر عوامی مفاد میں تعیناتیوں و تبادلوں کے احکامات جاری کئے ہیں۔تفصیلات کے مطابق اسٹبلشمنٹ اینڈ ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کے افسر بکار خاص سید ظفر علی شاہ (پی ایم ایس۔بی ایس۔18) کی اپنی ہی تنخواہ اور سکیل میں بحیثیت مینجنگ ڈائریکٹرخیبر پختونخوا پرائیویٹ سکولز ریگولیٹری اتھارٹی پشاور ،ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ اورکزئی ایجنسی احمد زیب (پی ایم ایس۔بی ایس۔18) کی اپنی ہی تنخواہ اور سکیل میں بحیثیت ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل (پراجیکٹس)فاٹا،ڈپٹی سیکرٹری محکمہ صحت محمد طارق (پی ایم ایس۔بی ایس۔18) کی بحیثیت ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ اورکزئی ایجنسی ،ڈپٹی سیکرٹری محکمہ داخلہ فہیم خان آفریدی(پی اے ایس۔بی ایس۔18)کی خدمات ای اینڈ ایس ای کی صوابدید پررکھ دی گئی ہیں،ڈپٹی سیکرٹری محکمہ فنانس فہد وزیر( پی ایم ایس۔بی ایس۔18)کی بحیثیت ڈپٹی سیکرٹری محکمہ داخلہ ،سیکرٹری ٹو کمشنر بنوں ذیشان عبداللہ ٰ(پی ایم ایس۔بی ایس۔18) کی بحیثیت ڈپٹی سیکرٹری محکمہ قانون اورڈپٹی سیکرٹری لاء ڈیپارٹمنٹ رضوان اللہ خان (پی ایم ایس۔بی ایس۔18) کی بحیثیت سیکرٹری ٹو کمشنربنوں تبادلوں اور تعیناتیوں کے احکامات جاری کئے گئے ہیں ۔علاوہ ازیں ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل معدنیات و معدنی ترقی خیبر پختونخوا فضل واحد (بی ایس۔19)کو ڈائریکٹر جنرل معدنیات و معدنی ترقی خیبر پختونخوا (سیکرٹری محکمہ معدنی ترقی کو ان کی اضافی ذمہ داری سے فارغ کر کے)اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ہری پور سید سیف الاسلام شاہ(پی ایم ایس۔بی ایس۔18)کو ڈی او(ایف اینڈ پی)ہری پورکا اضافی چارج تاحکم ثانی تفویض کئے گئے ہیں۔ان امور کا اعلان اسٹبلشمنٹ ڈیپارٹمنٹ حکومت خیبر پختونخوا کی جانب سے جاری کردہ ایک اعلامیے میں کیا گیا۔

 

اسی طرح حکومت خیبر پختونخوا نے فوری طور پر عوامی مفاد میں 21افسران کی تقرریوں و تبادلوں کے احکامات جاری کئے ہیں۔تفصیلات کے مطابق سیکشن آفیسر سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ طارق اللہ (پی ایم ایس۔بی ایس۔17) کی بحیثیت اے پی اے اپر مہمند (غلنئی)مہمند ایجنسی،ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنرII(شرینگل)دیر اپرعصمت اللہ(پی ایم ایس۔بی ایس۔17) کی بحیثیت اے پی اے باڑہ خیبر ایجنسی ،ڈپٹی پراجیکٹ ڈائریکٹر ٹورازم ایریا انٹیگریٹڈ ڈیویلپمنٹ یونٹ توصیف خالد(پی ایم ایس۔بی ایس17) کی بحیثیت اے پی اے یکہ غنڈ(لوئر مہمند)مہمند ایجنسی،ایڈیشنل اے سی Iبونیرزاہد عثمان(پی ایم ایس۔بی ایس۔17)کی بحیثیت اے پی اے جمرود خیبر ایجنسی،سیکشن آفیسر (ایڈمن)ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کامران خٹک(پی ایم ایس۔بی ایس۔17) کی بحیثیت اے پی اے وانا ساؤتھ وزیرستان ایجنسی،سیکشن آفیسر وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ شیر عالم خان(پی ایم ایس۔بی ایس۔17) کی بحیثیت اے پی اے بائیزئی مہمند ایجنسی،ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر ٹوپی صوابی وسیم اختر(پی ایم ایس۔بی ایس۔17) کی بحیثیت اسسٹنٹ کمشنر گاگرا بونیر،ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر تخت بھائی مردان آفتاب احمد خان ٰ(پی ایم ایس۔بی ایس۔17) کی بحیثیت اسسٹنٹ کمشنر بحرین سوات،اسسٹنٹ پراجیکٹ مینجر پی ایم یو ہائیر ایجوکیشن آرکائیوز اینڈ لائبریریز ڈیپارٹمنٹ حبیب خان ٰ(پی ایم ایس۔بی ایس۔17) کی بحیثیت اسسٹنٹ کمشنر تنگی چارسدہ،سیکشن آفیسر محکمہ داخلہ و قبائلی امور حسیب الرحمن خان خلیل ٰ(پی ایم ایس۔بی ایس۔17) کی بحیثیت اسسٹنٹ کمشنر کلاچی ڈی آئی خان،اسسٹنٹ کمشنر گاگرا بونیر اعزاز اللہ ٰ(پی ایم ایس۔بی ایس۔17) کی بحیثیت اسسٹنٹ ٹو کمشنر (ریونیو) ہزارہ ڈویژن ایبٹ آباد،اے پی اے یکہ غنڈ (لوئر مہمند)مہمند ایجنسی نوید اکبر(پی ایم ایس۔بی ایس۔17) کی بحیثیت ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر Iبونیر،اے پی ا ے باڑہ خیبر ایجنسی ارشد خان(پی ایم ایس۔بی ایس۔17) کی بحیثیت ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر تخت بھائی مردان،اے پی اے جمرود خیبر ایجنسی محمد ریاض(پی ایم ایس۔بی ایس۔17) کی بحیثیت سیکشن آفیسر ایس ٹی اینڈ آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ ،اسسٹنٹ کمشنر تنگی چارسدہ محمد علی خان(پی ایم ایس۔بی ایس۔17) کی بحیثیت سیکشن آفیسر ہاؤسنگ ڈیپارٹمنٹ،سیکشن آفیسر ایریگیشن ڈیپارٹمنٹ فضل الٰہی(پی ایم ایس۔بی ایس۔17) کی بحیثیت سیکشن آفیسر محکمہ صنعت ،آئی ایم یو پراجیکٹ ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ مسماۃ تبسم(پی ایم ایس۔بی ایس۔17) کی بحیثیت سیکشن آفیسر سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ ،اسسٹنٹ کمشنر بحرین سوات مجیب الرحمن ٰ(پی ایم ایس۔بی ایس۔17) کی بحیثیت سیکشن آفیسر محکمہ صحت ،فنانس آفیسر نوشہرہ مسماۃ عاصمہ عارف (پی ایم ایس۔بی ایس۔17) کی بحیثیت سیکشن آفیسر ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ ،اسسٹنٹ کمشنر کلاچی ڈی آئی خان یوسف خان ٰ(پی ایم ایس۔بی ایس۔17) کی بحیثیت سیکشن آفیسر (ایڈمن)ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ اور سٹیبلشمنٹ ڈیپارٹمنٹ میں اپنی تعیناتی کے منتظر سید عادل افتخار ٰ(پی ایم ایس۔بی ایس۔17) کی بحیثیت سیکشن آفیسر محکمہ داخلہ و قبائلی امور تعیناتیاں کی گئی ہیں۔ان امور کا اعلان اسٹبلشمنٹ ڈیپارٹمنٹ حکومت خیبر پختونخوا کی جانب سے جاری کردہ ایک اعلامیے میں کیاگیا۔

دریں اثنا حکومت خیبر پختونخوا نے اسٹبلشمنٹ ڈیپارٹمنٹ میں اپنی تعیناتی کے منتظر حضرت مسعود میاں(پی اے ایس۔بی ایس۔20) کی بحیثیت سیکرٹری صوبائی احتساب سیکرٹریٹ خیبر پختونخوا خالی اسامی پر عوامی مفاد میں تعیناتی کی ہے۔دریں اثناء صوبائی حکومت نے عوامی مفاد میں ڈپٹی سیکرٹری سائنس اینڈٹیکنالوجی اینڈانفارمیشن ٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ واجد علی خان(پی ایم ایس۔بی ایس۔18) کا تبادلہ کر کے انہیں بحیثیت ڈپٹی ڈائریکٹر سسٹین ایبل ترقی یونٹ(SDU)محکمہ منصوبہ سازی و ترقی تعینات کیا ہے۔ان احکامات کااعلان اسٹبلشمنٹ ڈیپارٹمنٹ حکومت خیبر پختونخواکے جاری کردہ دو الگ الگ اعلامیوں میں کیا گیا۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged , , ,
2956

صوبائی حکومت نے خیبر پختونخوا فوڈ سیفٹی اینڈ حلال فوڈ اتھارٹی قائم کر دی

Posted on

پشاور ( چترال ٹائمز رپورٹ ) خیبر پختونخوا میں عوام کو صاف معیاری اور حفظان صحت کے اصولوں کے عین مطابق خوراک اور غذا کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے صوبائی حکومت کی جانب سے خیبر پختونخوا فوڈ سیفٹی اینڈ حلال فوڈ اتھارٹی قائم کردی گئی ہے جو صوبے کے مختلف اضلاع میں کھانے پینے کی اشیاء کی تیاری میں معیار کی جانچ پرکھ کرے گی۔ کے پی فوڈ سیفٹی اینڈ حلال فوڈ اتھارٹی کا قیام کے پی فوڈ سیفٹی اوینڈ حلال فوڈ اتھارٹی ایکٹ2017کے تحت کیا گیا ہے۔قانون سازی کے مراحل کو مکمل کرنے کے بعدکے پی فوڈ سیفٹی اینڈ حلال فوڈ اتھار ٹی پہلے فیز میں صوبے کے تمام ڈویژن کی سطح پر فعال ہوگئی ہے جبکہ پشاور میں اتھارٹی کے ڈائریکٹوریٹ جنرل دفترنے ابھی اپنی زمہ داریوں کا آغاز کردیا ہے ۔ اس سلسلے میں متعلقہ محکمہ کے مطابق صوبے میں عوام کی جانوں اور صحت کے لیے نقصان کا سبب بننے والی ناقص اور غیر معیاری اشیائے خوراک کی روک تھام کے ساتھ ساتھ اتھارٹی حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق غذائی اشیاء کی تیاری پر کڑی نگاہ رکھے گی جبکہ معیار کی خلاف ورزی کرنیوالوں کو قانون کے دائرے میں بھی لایا جائے گا۔ کے پی فوڈ سیفٹی اینڈ حلال فوڈ اتھارٹی کے فرائض میں اشیائے خورک کی تیاری والے کارخانوں کی کڑی نگرانی بھی شامل ہے تاکہ منافع خور اپنے مقاصد کے لیے عوام کو غیر معیاری اشیاء فروخت نہ کرسکیں۔بازاروں میں بکنے والی اشیائے خوردونوش اور بڑے بڑے ہوٹلوں میں ملنے والی خوراک کا معیار بھی اتھارٹی وقتاً فوقتاً جانچے گی تاکہ عوام کو ہمیشہ صاف اور معیاری اشیائے خوردونوش میسر ہوں۔کے پی فوڈ سیفٹی اینڈ حلال فوڈ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل ریاض محسود کا کہنا ہے کہ اتھارٹی نے اشیائے خوراک کو تین کیٹیگریز میں تقسیم کیا ہے ۔کیٹگری اے میں خوردنی تیل ،بناسپتی گھی،مکھن مارجرین ،فش آئل،مسالحہ جات،اناج دالیں ،مشروبات،منرل واٹر،پھل ،سبزی،اشیائے خوردونوش میں شامل کیے جانے والے دیگر اجزا جبکہ مختلف غذائی اشیاء کو تازہ رکھنے کے لیے درکار کولڈ سٹوریج شامل ہیں۔کیٹیگری بی میں تمام ڈیری پراڈکٹس،ڈیری فارمز،بیکریاں ہوٹل،ڈھابے اور چھوٹے پیمانے پر قائم کھانے پینے کی اشیاء کی فروخت والے مراکز کو رکھا گیا ہے جبکہ کیٹیگری سی میں اشیائے خوردونوش کی تیاری والے تمام چھوٹے بڑے یونٹس کو شامل کیا گیا ہے۔فوڈ اتھارٹی ان تمام اشیاء کو انکے لیے ترتیب دیے گئے معیار کے مطابق جانچ پرکھ کے بعد انھیں لائسنس ایشو کرے گی۔خوراک سے متعلق کسی کاروبار کے اجراء کے لیے درخواست گزار اینڈرائیڈ فون اور ویب اپلیکیشن کے زریعے اتھارٹی سے رابطہ کرسکیں گے،جو اتھارٹی تمام تقاضوں کا جائزہ لینے کے بعد جاری کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرے گی۔کے پی فوڈ اتھارٹی نے جانچ پڑتال کے کام کی غرض سے تین لیبارٹریاں سائنٹفک،ایپیلٹ اور میڈیکل لیبارٹریاں بھی تشکیل دی ہیں ۔میڈیکل لیبارٹری موقع پر ہی اشیاء کا تجزیہ کرکے معیاری یا ناقص ہونے کاتعین کرے گی۔ معیار ی مصنوعات اور اشیائے خوردونوش کی تیاری کو یقینی بنانے کے لیے اتھارٹی متعلقہ افراد اور مالکان کو نوٹسز جاری کرکے انھیں اتھارٹی کے ساتھ اپنی رجسٹریشن اور لائسنس کے حصول کے لیے پابند بنانئے گی تا کہ فوڈ سیفٹی اینڈ حلال فوڈ اتھارٹی کے مرتب کردہ معیار کا نفاذ ممکن بنایا جائے۔معیار کو پس پشت ڈال کر عوام کی صحت کے ساتھ کھیلنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی جس میں بھاری جرمانے ،مصنوعات اور تمام اشیاء کی ضبطگی ،ہوٹل ،کارکانے یا دیگر مراکز کی بندش کے ساتھ ساتھ عدالتی کارروائی کا سامنا شامل ہے۔ کے پی فوڈ سیفٹی اینڈ حلال فوڈ اتھارٹی کی جانب سے غذا اور خوراک کے لیے مرتب معیار کے بارے میں آگاہی اجاگر کرنے کے لیے تربیتی پروگرام بھی چلائے جائنگے ۔خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے کے پی فوڈ اتھارٹی کے قیام کا بنیادی مقصد عوام کی بہتر صحت کو یقینی بنانا ہے کیونکہ غیر معیاری کھانا پینا سالانہ ہزاروں افراد کی بیماریوں کا سبب بنتا ہے ۔c

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریںTagged , , , ,
2758

وزیر اعظم کا متوقع دورۂ چترال ………….. تحریر: محکم الدین ایونی

Posted on

ماہ دسمبر میں وزیر اعظم کے دورۂ چترال کی توقع کی جارہی ہے ۔ گو کہ ابھی تک تاریخ کا تعین نہیں کیا گیا ہے ۔ تاہم یہ امید کی جا سکتی ہے ۔ کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی چترال کا ضرور دورہ کریں گے ۔ چترال کے عوام کیلئے یہ انتہائی خوشی کا مقام ہے کہ وزیر اعظم اپنے دورۂ چترال کے موقع پر گولین ہائیڈل پراجیکٹ ، گرم چشمہ روڈ ، کالاش ویلیز روڈ ز دروش چترال روڈ اور چترال میں گیس ڈپو کا افتتاح کریں گے ۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت نے اپنے قیام کے پہلے ہی روز سے چترال کی طرف بھر پور تو جہ دی ہے ۔ لواری ٹنل کا منصوبہ جو کہ مُردہ ہو چکا تھا ۔ اُسے دوبارہ زندہ کیا ۔ اور وافر مقدار میں فنڈ فراہم کرکے اسے تکمیل تک پہنچا یا ۔ بلکہ اب دیر اور چترال سائڈ پر اپروچ روڈ پر بھی کام انتہائی زور و شور سے جاری ہے ۔ اور لوگوں کو کام ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے ۔ اس سے یہ اُمید پیدا ہوتی ہے ۔ کہ جس طرح لواری ٹنل کی تکمیل خواب سے حقیقت کا روپ دھار گیا ۔ اسی طرح بہت کم عرصے میں چترال کے اندر سڑکوں کا جال بھی بچھایا جائے گا۔ اور چترال کے لوگ جو سفری مشکلات سے دوچار ہیں ۔ بہت جلد نجات پائیں گے ۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف میں ایک خوبی ہمیشہ سے موجود ہے ۔ کہ وہ سڑکوں کی تعمیر میں شیر شاہ سوری جیسا جذبہ رکھتے ہیں ۔ اور انہوں نے اپنے دور اقتدار میں لوگوں کو آمدورفت کی سہولت فراہم کرنے پر بھر پور توجہ دی ۔ مسائل کی ترجیح کے لحاظ سے دیکھا جائے ۔ تو چترال جیسے دور دراز ضلع میں محفوظ سڑکوں کی ضرورت پہلی نمبر پر ہے ۔ موجودہ چترال کی غربت کی ایک بہت بڑی وجہ ناقص سڑکیں ہیں ۔ جن کی وجہ سے تجارت سے لے کر تعلیم و صحت اور آمدورفت تک ایسا اضافی بوجھ عوام سہنے پر مجبور ہے ۔ جو اُن کی برداشت سے باہر ہے ۔ دوسرے شہروں کی نسبت چترال کے لوگوں کو دو سو سے پانچ سو گنا اضافی کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے جبکہ سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ ایسے حالات میں چترال کے اندر سڑکوں کی تعمیر سے معاشی حالات پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔ جو ٹرالر کراچی ، لاہور سے سامان لوڈ کرکے دیر میں اُنہیں اُتارنے پر مجبور ہیں ، وہ براہ راست چترال پہنچ جائیں گے ۔ اور سامان کے کرایوں میں غیر معمولی کمی واقع ہوگی ۔ جس کا براہ راست فائدہ چترال کے عوام کو ہو گا ۔ وزیر اعظم کے متوقع دورے سے یہ توقع بھی رکھی جا سکتی ہے ۔ کہ زیر تعمیر منصوبوں کے علاوہ بھی چترال کی تعمیر وترقی کیلئے اعلانات کریں گے ۔ گو کہ موجودہ وزیر اعظم کا اپنا منصب سنبھالنے کے بعد چترال کا یہ پہلا دورہ ہے ۔ لیکن اُنہیں چترال آنے سے پہلے ہی چترال کی مشکلات کے بارے میں خاصی معلومات حاصل ہیں ۔ شہزادہ مقصودالملک ایون کے ساتھ اُن کے خصوصی مراسم ہیں ،اور ایم این اے چترال شہزادہ افتخار الدین کے ساتھ بھی اُن کا تعلق انتہائی قریبی ہے ۔ اسی طرح چترال کیلئے اُن کا حالیہ متوقع دورہ بھی ایم این اے کی کو ششوں کا نتیجہ ہے ۔ گذشتہ دو سالوں سے بعض مخالف سیاسی پارٹیاں ایم این اے چترال کی طرف سے چترال کی ترقی کے لئے کئے جانے والی کوششوں کی خبروں کو ناقابل یقین قرار دیتے تھے ۔ لیکن دیر آید درست آید کے مصداق یہ بات واضح ہو گئی ہے ۔ کہ وہ عوام کو دھوکا نہیں دے رہے تھے بلکہ عملی طور پر جدو جہد کر رہے تھے ۔ جن کے نتائج لواری ٹنل ، گولین ہائیڈل پراجیکٹ ، گرم چشمہ روڈ ، ایون روڈ ، تورکہو روڈ اور گیس پائپ لائن سمیت کئی منصوبوں کی صورت میں رو بہ عمل ہیں ۔ اور بعض منصوبے اپنے تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں ۔ جو ایم این اے کی اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے انجام دینے کی کوششوں کی عکاسی کرتے ہیں ۔ اُن کا یہ فیصلہ بھی قابل تحسین ہے ۔ کہ انہوں نے باوجود دوسری پارٹی کے ٹکٹ پر کامیابی کے چترال کے مشکلات کو پیش نظر رکھ کر خود کو موجودہ حکومت کے ساتھ ایڈ جسٹ کیا ۔ اور مسائل حل کرنے میں کامیابی حاصل کی ۔ چترال کی تعمیر و ترقی اُن کا مطمع نظر رہا۔ اور چترال کے لوگوں نے اُن پر جو اعتماد کیا تھا، اُن مسائل کے حل کیلئے پارٹی کے خول میں بند رہنے کی بجائے باہر نکل کر وہ کام کئے۔ جو کسی پارٹی کے اپنے ایم این اے بھی نہیں کر سکے ۔ اس لئے ان کاموں کیلئے اُنہیں کریڈٹ نہ دینا زیادتی ہوگی۔ پاکستان مسلم لیگ کی حکومت نے جاری منصوبوں کے علاوہ بھی چترال کے دیگر مسائل پر بھر پور توجہ دی ۔ 2015کے خوفناک سیلاب اور تباہ کُن زلزلے میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے مصیبت کی گھڑی میں وقت ضائع کئے بغیر چترال کا ہنگامی دورہ کیا ۔ متاثرین سے ملے ۔ اور ہر متاثرہ سالم نقصان والے گھر کو دو لاکھ اور جزوی نقصان کے حامل مکانات کیلئے ایک لاکھ روپے کا اعلان کیا ۔ اور وفاق کی طرف سے 2ارب 19کروڑ روپے ضلع چترال کو فوری طور پر ریلیز کئے ۔ اس موقع پر چترال میں دو سو بستروں کے ہسپتال کا اعلان بھی کیا گیا تھا ۔ مگر بد قسمتی سے صوبائی حکومت کی طرف سے زمین کی فراہمی میں عدم تعاون کی وجہ سے یہ منصوبہ کٹائی میں پڑا ہوا ہے ۔ تاہم اس ہسپتال کی تعمیر جدید خطوط کے ساتھ انتہائی ضروری ہے ۔ وزیر اعظم کے متوقع دورے سے پہلے یہ ضروری ہے ۔ کہ چترال کے سیاسی قائدین اپنے سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے نہ صرف باہمی مشاورت سے مشترکہ سپاسنامہ تیار کریں ۔ جس میں سی پیک منصوبہ ، چترال تاجکستان روڈ ، آبی وسائل ، کلائمیٹ چینج ، ماربل سٹی سمیت دیگر مسائل کو شامل کیا جائے ۔ بلکہ شاندار استقبال کرکے مسائل حل کرنے کیلئے موجودہ وزیر اعظم کی خصوصی توجہ حاصل کی جائے ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , ,
2472

اشکومن ، انتقال پر ملال، امیر جماعت اسلامی اشکومن سید عبد الجلال انتقال کرگئے

Posted on

اشکومن( کریم رانجھا) ؔ امیر جماعت اسلامی اشکومن سید عبدالجلال دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے،مرحوم کی جسد خاکی کو جمعہ کے سہ پہر سینکڑوں سوگواروں کی موجودگی میں سپرد خاک کردیا گیا،مرحوم کی تنظیمی و سماجی خدمات برسوں یاد رہیں گی،امیر جماعت اسلامی اشکومن ریٹائرڈ صوبیدار سید عبدالجلال کو دو روز قبل دل کی تکلیف کی وجہ سے گلگت لے جائے گئے تھے جہاں جمعہ کی صبح داعی اجل کو لبیک کہہ گئے،مرحوم کی جسد خاکی کو آبائی گاؤں کوچدہ پہنچا یا گیا جہاں سینکڑوں سوگواروں کی موجودگی میں سپرد خاک کیا گیا۔مرحوم کی عمر ستر برس کے قریب تھی ۔پاکستان آرمی میں بحثیت صوبیدار خدمات انجام دینے کے بعد ریٹائرڈ ہو گئے تھے اور بعد ازاں جماعت اسلامی تحصیل اشکومن کے امیر مقرر ہوئے۔علاقے کے لئے ان کی سماجی خدمات برسوں یادرکھی جائیں گی۔مرحوم کے پسماندگان میں بیوہ ایک بیٹا اور چار بیٹیاں شامل ہیں ۔اشکومن کے سماجی وسیاسی حلقوں نے ناگہانی موت پر دکھ کا اظہار کیا ہے۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged , ,
2272

موڑکہو تورکہو تحصیل کا ہیڈ کوارٹر کاغ لشٹ میں تعمیر کیا جائے۔۔ عمائدین تورکہو

Posted on

چترال ( نمائندہ چترال ٹائمز ) تور کہو کے عمائدین ممبر تحصیل کونسل محمد سید خان لال ، وقاص احمد ایڈوکیٹ ، محمد نواب ایڈوکیٹ ، جمشید احمد ، محمد ایوب ، میر کمال الدین اور عصمت اللہ نے وزیر اعلی خیبر پختونخوا پرویز خٹک ، چیف سیکرٹری سے پُر زور مطالبہ کیا ہے ۔ کہ موڑ کہو اور تور کہو کے سفری مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے تحصیل ہیڈ کوارٹر کاغلشٹ میں تعمیر کیا جائے ۔ چترال پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب رتے ہوئے انہوں نے کہا ۔ کہ قائد تحریک انصاف عمران خان ، وزیر اعلی پرویز خٹک کی طرف سے اپر چترال ضلع کا اعلان انتہائی خوش آیند ہے ۔ جس کیلئے تورکہو کے عوام اُن کا اور شہزادہ سکندرالملک کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔ لیکن تحصیل ہیڈ کوارٹر موڑکہومیں تعمیر ہونے سے تورکہو کے لوگوں کو مزید سفر کی مشکلات برداشت کرنے پڑیں گے ۔ اس لئے دونوں علاقوں کے عوام کے بہتر مفاد میں ہیڈ کوارٹر کیلئے کاغلشٹ سب سے مناسب جگہ ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ وافر مقدار میں سرکاری زمین موجود ہے ۔ جو کہ آیندہ کی تعمیری ضروریات کیلئے کام آئے گا ۔ اور زمین کے سلسلے میں آیندہ بھی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ۔ انہوں نے تورکہو کے وارڈوں کی نئی حلقہ بندیوں پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا ۔ اور کہا ۔ کہ افسوس کا مقام ہے ۔ کہ حلقہ بندیاں قائم کرنے کے دوران مقامی ذمہ دار افراد سے نہیں پوچھا گیا ۔ اب نئی حلقہ بندیاں غیرنامناسب محل وقوع کے ساتھ قائم کی گئی ہیں ۔ جو انتخابی امور کی انجام دہی کے دوران مسائل پیدا کریں گے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ ضرورت اس بات کی تھی ۔ کہ ضلع کے اعلان سے پہلے اس پر ہوم ورک کیا جاتا ۔ اور تورکہو کے لوگوں کے تحفظات دور کئے جاتے۔ جو کہ نہیں کئے گئے ۔ انہوں نے فوری طور پر حلقہ بندیوں کو درست کرنے اور تحصیل ہیڈ کوارٹر کاغلشٹ میں قائم کرنے کا مطالبہ کیا ۔ اور کہا ۔ کہ متعلقہ سٹیشن کی تعمیر تک ایس ڈی پی او آفس کو بونی میں ہی رکھا جائے ۔ تاکہ لوگوں کو آسانی ہو ۔

torkhow press confrence22

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged ,
2268

صدا بصحرا ……….. ن لیگ کی ازمائش …………. ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنی اہلیہ کی تیمارداری کے لئے لندن جا نے کا پروگرام موخر کر کے رابطہ عوام مہم کو تیز کر نے او ر ایبٹ اباد جلسے کے بعد کوئیٹہ سمیت دیگر شہر وں میں جلسوں سے خطاب کر نے کا فیصلہ کیا ہے اگلے ہفتے سے اس مہم کی جھلکیاں اخبارات میں آئینگی ایسا لگتا ہے کہ سابق وزیراعظم 1970 ؁ء کے عشر ے میں گذرنے والے ایک اور سابق وزیراعظم ذولفقا ر علی بھٹو کے نقش قدم پر چل کر اُسی کے انجام سے دو چار ہو نا چاہتے ہیں مگر دونوں میں کوئی مماثلت نظر نہیں آتی سوائے اس کے کہ بھٹو نے بھی مقدمات کی پیر وی کو چھوڑ کر تقر یر یں کر نے کا سلسلہ شروع کیا یہاں تک کہ انہوں نے عدالت میں بھی ڈھائی گھنٹہ شستہ انگر یز ی میں زور دارسیاسی بیان دیا تاریخ سے بسمارک، چرچل اور دیگر عظیم رہنما ؤں کے حوالے دیے جمی کارٹر کے خط کا ذکر کیا تیسر ی دنیا کی محرومیوں کا قصہ دہر ایا ، فیدل کا سٹر و اور دیگر لیڈروں کی مثالیں دیں ان کی تقر یریں بہت اچھی تھیں مگر ان کی ضرورت ان تقر یر وں سے زیادہ قانونی معاملات کی طرف توجہ دینے کی تھی جو اُن سے نہ ہو سکی نواز شریف کی تقر یر میں وہ حسن ،وہ چا شنی اور معلومات کی فراوانی یا تقر یر کی روانی بھی نہیں ہے تقریر کے اندر جان بھی نہیں ہے بھٹو امریکہ کی طرف اشارہ کر رہے تھے اور دلیل دے رہے تھے نواز شریف کہہ رہے ہیں مجھے نکلو ا یا گیا ، سزا دلو ائی گئی مگر امر یکہ یا کسی اور طاقت کا ذکر گول کر جاتے ہیں اس لئے عوام کے ذہنوں میں کسی نکتے کی وضاحت نہیں ہو تی اگر کسی دوست کو لاہور کے اخباری حلقوں کے قریب دوچار دن گذارنے اورخبروں کا نچوڑ دیکھنے کا موقع ملے تو چار نکات سامنے آتی ہیں میرے دو دن لاہور میں گذرے نومبر کی 15 تاریخ سے 17 تاریخ تک میں نے لاہور کے اخبار نویسوں کے ساتھ گذارا مخالفین سے زیادہ شریف فیملی کے حامیوں سے ملنے کا اتفاق ہوا ن لیگ کی ازمائش کے جو نکات سامنے آئے وہ چشم کشا بھی ہیں حیرت افزا بھی پہلا نکتہ یہ ہے کہ جنرل مشرف اور نواز شریف کی معزولی کا سبب ایک ہی ہے چائنا پاکستان اکنا مک کوریڈور نہ ہوتا تو پرویز مشرف اب تک اقتدار میں ہوتے آصف علی زرداری نے پاک ایرا ن گیس پائپ لائن اور سی پیک کے معاملے پر کمال عیاری سے کام لیا اور اپنی مدت پوری کر لی پرویز مشرف اور نوازشریف ایسا نہ کر سکے امریکہ نے دونوں کو عبرت کا نشان بنا دیا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ نواز شریف نے گھر کو سنبھالنے میں کو تاہی دکھائی،ڈان لیکس کا چکر ان کے گھر کی دہلیز تک پہنچا بیٹی اور داماد کی وجہ سے گرفت میں آگئے اورجکڑ لئے گئے تیسرا نکتہ یہ ہے کہ تیسری بار حکومت میں آنے کے بعد انہوں نے قربانی دینے والے جاوید ہاشمی کی طرح کئی لیڈروں کو نظر انداز کر کے چُوری کھا نے اور دودھ پینے والے مجنونوں کو اہمیت دی چوہدری نثار نے اکتوبر 1999 ؁ء کی طرح جولائی 2017 ؁ء میں بھی بے وفائی کی خواجہ آصف ، سعد رفیق اور عابد شیر علی نے نواز شریف اور ن لیگ کے لئے مشکلات پید ا کئے ایوان صدر ، سپیکر یا سینیٹ کے چےئر مین کی نشست پر مسلم لیگ کا کوئی ورکر ہوتا تو مشکلات اور �آزما ئشوں کے دور میں سہولت ہوتی راجہ ظفر الحق ، شیخ روحیل اصغر ، جاوید ہاشمی اور ان کی طرح دیگر مسلم لیگی لیڈروں کو اہم عہد وں پر آگے لایا جاتا تو 5 سال ارام سے پورے ہوسکتے تھے چوتھی اہم بات یہ ہے کہ ڈان لیکس کی طرح شریف فیملی کے اندر اختلافات کو ہو ادی گئی شہباز شریف کے صبر کا بار بار امتحان لیا گیا شہباز شریف کو بھائی سے جدا کر نے کی ایسی کوششیں گھر کے اندر کی گئیں جس طرح مرتضیٰ بھٹو کو محترمہ بے نظیر بھٹو سے جدا کر نے کی مہم چلائی گئی تھی مگر شہباز شریف کی برد باری ، فراست اور قابلیت کی وجہ سے یہ بات اب تک پردے میں تھی اب یہ پردہ چاک ہوا ہے اور یہ ن لیگ کے زوال کا بڑا سبب ہے اب بھی وقت ہے مریم نواز ،کپٹن صفدر ، خواجہ آصف ، سعد رفیق اور عابد شیر علی کو خاموش کر دیا جائے نواز شریف اپنی رابطہ عوام کی ناکام مہم ختم کردیں تو معاملات سدھر سکتے ہیں پارٹی کی قیادت میاں شہباز شریف کے ہاتھو ں میں دیدی جائے تو ن لیگ آزما ئشوں سے سر خرو ہو کر نکلے گی اور پارٹی کی حیثیت بحال ہوگی ورنہ اس آزما ئش سے عہد ہ بر آ ہو نا مشکل ہے ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , ,
2266