Chitral Times

سپہ سالار کا واضح پیغام………….. محمد شریف شکیب

Posted on

پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے عالمی برادری پر واضح کیا ہے کہ دہشت گردی ختم کرنے کے لئے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ افغانستان میں امریکی فوج کی ناک کے نیچے داعش کا گڑھ لمحہ فکریہ ہے۔ پاکستان نے سوویت یونین کی افغانستان میں فوجی مداخلت کے خلاف جہاد میں شرکت کرکے جو بیچ بویا تھا۔ اس کی فصل آج کاٹنی پڑرہی ہے۔ جرمنی کے شہر میونخ میں بین الاقوامی سیکورٹی کانفرنس سے خطاب میں پاک فوج کے سربراہ نے امریکہ کو بتادیا کہ پاکستان میں 130میں سے 123دہشت گرد حملے افغانستان سے کئے گئے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ جہاد کا حکم دینے کا اختیار صرف ریاست کے پاس ہے۔تمام مکاتب فکر کے علماء نے دہشت گردی کو غیر اسلامی قرار دیا ہے اس کے باوجود دہشت گردی کواسلام یا مسلمانوں سے نتھی کرنا حقائق سے انحراف کے منافی ہے۔پاک فوج کے سپہ سالار نے ایک بڑے فورم پر پاکستان کا موقف موثر انداز میں پیش کیا ہے۔پاکستان روز اول سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ افغان سرزمین پر بڑی طاقتوں کی رسہ کشی سے پورے خطے کے لئے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔امریکی فوج 2001سے افغانستان میں موجود ہے۔ پیٹاگون کے مطابق افغانستان میں امریکی فوج کوہتھیاروں، خوراک اور ضروریات زندگی کی فراہمی اور ان کی سیکورٹی پر سالانہ تین ارب 65کروڑ ڈالر خرچ کئے جارہے ہیں۔ عسکری ماہرین کے اعدادوشمار کے مطابق امریکہ اکیس کروڑ بیس لاکھ ڈالر روزانہ افغانستان میں اپنے فوجیوں پر خرچ کر رہا ہے۔ اس کے باوجود افغانستان کے 60فیصد حصے پر آج بھی طالبان اور امریکہ مخالف قوتوں کا کنٹرول ہے۔ تمام شدت پسند تنظیموں نے اپنے مراکز افغانستان کے مختلف حصوں میں قائم کر رکھے ہیں ۔ جنہیں امریکہ اور بھارت کی اشیرباد حاصل ہے۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی نے کچھ عرصہ قبل امریکہ پر افغانستان میں دہشت گردوں کی سرپرستی کا الزام لگایا تھا۔ انہوں نے تصدیق کی تھی کہ افغان سرزمین پر داعش کے مراکز قائم کئے جارہے ہیں اور امریکی فوج ان کی مدد کر رہی ہے۔ آرمی چیف نے یہ کہہ کر نہ صرف امریکہ کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ انہوں نے سوویت یونین کے خلاف افغانستان کو میدان جنگ بناکر وہاں عدم استحکام کا بیچ بو دیا تھا۔ بلکہ انہوں نے بین السطور واشنگٹن کو یہ بھی باور کرایا ہے کہ افغان جہاد میں ہم نے اپنی مرضی و منشا کے تحت حصہ لیا تھا نہ ہی دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ ہماری اپنی جنگ تھی۔ ہم نے امریکہ کو خوش کرنے کے لئے اس جنگ میں شرکت کی۔ اور سب سے زیادہ نقصان بھی اٹھایا۔ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں فوج اور پولیس کے اعلیٰ افسروں سمیت پچاس ہزارسے زیادہ پاکستانیوں نے جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ 80ارب ڈالر کا مالی نقصان اٹھایا۔ ہماری معاشرتی قدریں تہہ و بالا ہوگئیں۔سماجی زندگی جمود کا شکار ہوگئی۔ سرمایہ کار یہاں سے بھاگ گئے۔ کھیلوں کے میدان ویران ہوگئے۔ ہم نے سانحہ اے پی ایس کی شکل میں اپنے معصوم بچوں کی بھی قربانی دی۔ ہماری بے مثال قربانیوں کا اعتراف کرنا تو درکنار۔ خود ہم پر دہشت گردہونے کی چھاپ لگ گئی۔ ہم سے ڈومورکا مطالبہ کم ہونے کے بجائے بڑھتا جارہا ہے۔ ہم نے اپنے قومی مفادات کو داو پر لگا کر غیروں کی جنگ میں حصہ دار بن کرناقابل تلافی نقصان اٹھایا ہے۔ اب اس لاحاصل جنگ میں ہم کسی کے اتحادی نہیں بنیں گے۔ اپنی جنگ خود لڑیں گے اور اپنے دشمنوں کے دانت کھٹے کریں گے۔ہم بھی دیکھیں گے کہ پاکستان کا اعتماد حاصل کئے بغیر امریکہ خطے میں اپنے مفادات کا کیسے تحفظ کرتا ہے۔وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی خارجہ پالیسی کا از سر نو تعین کریں۔ اور اپنے قومی مفادات کو سب پر مقدم رکھیں۔جس کے لئے قومی اتحاد، یک جہتی، اتفاق اور یگانگت کا جذبہ بیدار کرنا ہوگا۔ سیاسی جماعتوں کواپنے پارٹی مفادات بالائے طاق رکھ کر قومی اتحاد کے لئے کام کرنا ہوگا اور قوم میں وہی جذبہ پیدا کرنا ہوگا۔ جو 23مارچ1940کو لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے جلسے کے بعد پیدا ہوا تھا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
6542

احتجاج کے وکھرے انداز ……………محمد شریف شکیب

Posted on

زمانہ بدلنے کے ساتھ بہت سی رسمیں ، روایتیں، اقدار،لوگوں کا مزاج ، ضرورتیں اور خواہشات بھی تبدیل ہوتی جارہی ہیں۔اب خواتین کی عادتیں مردوں نے اپنا لی ہیں اور انتقام کے طور پر خواتین نے مردوں کی عادتیں اپنانی شروع کردی ہیں۔ تفصیل میں جانے سے اس لئے احتراز برت رہے ہیں کہ بازاروں، پارکوں اور مختلف تقاریب میں ایسے مناظر بکثرت دیکھنے کو ملتے ہیں اور احتراز کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمارے گھرمیں بھی اخبار پڑھا جاتا ہے۔لمبی، گھنی اور چمکدار زلفین ماضی میں خواتین کے حسن کا جزو لا ینفک سمجھی جاتی ہیں۔ جب انہوں نے ہر میدان کی طرح زلف تراشی میں بھی مردوں کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی ۔ تو زلفوں کے شیدائی لڑکوں نے لمبے بال رکھنے، انہیں پونی سے باندھنے اور ہیر بینڈ لگانے کا فیشن اپنالیا۔پہلے زمانے میں لوگ علاج کے لئے تعویز گنڈوں ، حکیمی اور ہومیو ادویات کو ایلوپیتھی کی ادویات پر ترجیح دیتے تھے۔ مشتاق یوسفی کہتے ہیں کہ جب لوگ خونی پیچش کا علاج تعویز گنڈوں میں ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اورخون اس وقت کھولنے لگتا ہے کہ تعویز کی بدولت خونی پیچش کے مریض ٹھیک ہونے لگتے ہیں۔نقلی پیروں کی بہتات اور ہومیوپیتھی کے طویل اور صبر آزما علاج کی وجہ سے لوگوں کا رجحان دوبارہ ایلوپیتھی کی طرف ہونے لگا۔ کیونکہ تیز رفتار ترقی کے اس دور میں لوگ طویل عرصے تک بستر پر پڑے رہنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اور جلد سے جلد صحت یاب ہوکر کام دھندہ دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں۔ایک قابل اعتبار سروے رپورٹ کے مطابق پچاس سال سے زیادہ عمر کے لوگ ڈاکٹری علاج پر گھریلو ٹوٹکوں کو ترجیح دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ زبیدہ آپا مرحومہ، ڈاکٹر بلقیس اور ٹوٹکوں سے علاج کرانے والوں کی وجہ سے ٹیلی وژن کے مارننگ شوزکی ریٹنگ میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے۔جو دوست زندگی کی پچاس پچپن بہاریں دیکھنے کے باوجود جوان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان کے لئے بڑھاپے کی چند نشانیان بتانا ضروری سمجھتا ہوں۔مثال کے طور پر دیسی علاج پر یقین رکھنا، اقوال زرین ڈھونڈ کر دوستوں سے شیئرکرنا، سادگی کی تلقین کرتے پھیرنا، بغیر میچنگ والی ملبوسات پہننا، ہم عمر لوگوں کو بوڑھا کہہ کر تسکین پانا، بیٹھے بیٹھے اونگھنا،آدھی رات کو ہڑبڑا کر اٹھنا کہ پتہ نہیں۔ باہر والے گیٹ کو تالا لگایا تھا یا نہیں؟ اے ٹی ایم سے پیسے نکلوا کر بار بار انہیں گننااورٹچ موبائل پر بٹن والے موبائل کو ترجیح دینا شامل ہیں۔ اگر ان میں سے چند یا ساری نشانیاں موجود ہیں توبوڑھے لڑکوں کو یقین کرنا چاہئے کہ ان کا بڑھاپا شروع ہوچکا ہے۔ عادات و اطوار اورروایات کی اس تبدیلی کے آثار خیبر پختونخوا اسمبلی میں بھی دکھائی دینے لگے ہیں۔ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے سیٹی بجانا اتنی پرانی روایت ہے جتنی مہذب معاشرے کی تاریخ پرانی ہے۔ اس مجرب نسخے کو گذشتہ روز خیبر پختونخوا اسمبلی کے اجلاس کے دوران حکمران جماعت تحریک انصاف کے ایک ایم پی اے نے بھی ازمایا۔جنوبی اضلاع کو تیل اور گیس کی رائلٹی دلانے کے لئے ایم پی اے امجد خان آفریدی کافی عرصے سے سرگرم تھے مگر نقارہ خانے میں جب ان کی آواز کسی نے نہ سنی۔ تو انہوں نے احتجاج کرنے کا پرانا گر ازمانے کا فیصلہ کیا۔ وہ ٹریفک وارڈن والی سیٹی کوٹ کی جیب میں چھپا کر اسمبلی پہنچ گیا۔ جب اپنا مدعا رائیگاں جاتے دیکھا تو زور زور سے سیٹی بجانا شروع کردیا۔پورا ایوان سیٹی کی آواز سے گونجنے لگا تو حکومتی ارکان نے انہیں چپ کرانے کی کوشش کی۔ اور سیٹی کی آواز نے ممبران کی سٹی گم کردی تو ڈپٹی سپیکر کو اجلاس اگلے روز تک کے لئے ملتوی کرنا پڑا۔اپنی نئی حکمت عملی کی غیر متوقع کامیابی پر نازاں ایم پی اے نے جب اگلے روز بھی سیٹی بجانے سلسلہ نئے سرے سے شروع کردیا تو حکومت نے متعلقہ ایم پی او کو یقین دہانی کراکے ہی اپنی جان چھڑوادی۔احتجاج کے انوکھے طریقے عوام میں بھی کافی مقبول ہورہے ہیں۔ اس سے پہلے قومی اسمبلی میں ایک اقلیتی رکن اسمبلی اپنی عجیب و غریب حرکتوں کی وجہ سے خاصے مشہور ہوچکے تھے۔ کبھی چوک میں بیٹھ کر اپنے سرپر مٹی ڈال کر اقلیتوں کے حقوق کے لئے آواز بلند کرتے اور کبھی خود کو زنجیروں میں جکڑ کر حکومت اور عوام کو اپنی طرف متوجہ ہونے پر مجبور کرتے تھے۔ آج کل بجلی کے کھمبوں پر چڑھ کر احتجاج کرنا خاصا مقبول ہورہا ہے۔اسی منفرد احتجاج سے متاثر ہوکر سابق وزیراعظم نے ’’ مجھے کیوں نکالا‘‘ کی ملک گیر مہم شروع کی۔ جس کا ثمر انہیں لودھراں میں تحریک انصاف کی نشست چھن جانے کی صورت میں مل چکا ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
6428

سال2017۔۔کیا کھویا اور کیاپایا؟ ………..محمد شریف شکیب

Posted on

سال 2017کا سورج تلخ و شریں یادوں کے ساتھ غروب اور نئے سال کا آفتاب کچھ امیدوں اور کچھ خدشات اپنے دامن میں سمیٹے افق سے نمودار ہوا ہے۔ صوبائی دارالحکومت پشاور کے خصوصی حوالے سے اگر ہم خیبر پختونخوا کے حالات و واقعات کا جائزہ لیں۔ تو سال گذشتہ امن و امان اور تعمیر و ترقی کے لحاظ سے کافی بہترثابت ہوا۔ستاون ارب روپے کی لاگت سے پشاور ریپڈ بس ٹرانزٹ منصوبے پر کام شروع کیا گیا۔ جو رواں سال کے وسط تک مکمل ہونے کی توقع ہے۔جس سے پشاور کے باسیوں کو بہترین سفری سہولیات ملنے کی توقع ہے۔ ہزارہ ایکسپریس وے بھی پایہ تکمیل کو پہنچا۔ سوات ایکسپریس وے پر کام جاری ہے۔ لواری ٹنل کا اگرچہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے افتتاح کردیا اور وہاں سے مقررہ اوقات میں آمدورفت کا سلسلہ بھی جاری ہے تاہم اس میگامنصوبے کو مکمل ہونے میں مزید ایک سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا حکومت کی طرف سے اعلان تو کیا گیامگر خیبر پختونخوا میں بجلی کی آنکھ مچولی بدستور جاری ہے اور اپر چترال جیسے علاقے گذشتہ دو سالوں سے تاریکی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔صوبے میں ہڑتالوں، دھرنوں اور ریلیوں کا سلسلہ بھی سارا سال جاری رہا۔ کبھی ینگ ڈاکٹرز، کبھی لیڈی ہیلتھ ورکرز ، کبھی ورکرز ویلفیئر بورڈ کے ملازمین اور کبھی اساتذہ سڑکیں ناپتے رہے۔دہشت گردی کے حوالے سے اگرچہ آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد کی بدولت تخریبی کاروائیوں میں خاطر خواہ کمی ریکارڈ کی گئی تاہم پانچ خود کش حملوں ، 31بم دھماکوں میں ایڈیشنل انسپکٹر جنرل ہیڈ کوارٹر اشرف نور سمیت 29پولیس اہلکار اور 36عام شہری لقمہ اجل بن گئے۔زرعی انسٹی ٹیوٹ پر حملہ دہشت گردی کا سب سے بڑا واقعہ تھا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ چھوٹے جرائم کی شرح میں نمایاں کمی آئی تاہم یہ بات پولیس بھی تسلیم کرتی ہے کہ صرف پشاور میں زن، زر اور زمین کے تنازعات پر خواتین اور بچوں سمیت 436افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔کرپشن کے خاتمے، روزگار کی فراہمی، کنٹریکٹ ملازمین کی مستقلی، سرکاری شعبوں میں اصلاحات سمیت مختلف شعبوں کے لئے قانون سازی بھی ہوئی۔ صوبائی حکومت نے عوام کی سہولت کے لئے اپر چترال کو الگ ضلع قرار دینے اور تین سب تحصیلوں کے قیام کا اعلان بھی کیا ۔ جو عوام کی دیرینہ خواہش اور انتظامی ضرورت تھی۔ لیکن ملک میں انیس سال بعد ہونے والی مردم شماری میں چترال، ایبٹ آباد، دیر اور صوابی کی آبادی مقرر حد سے کم ظاہر کرکے ان اضلاع کی ایک ایک صوبائی نشستیں ختم کرنے کا عندیہ دیا گیا تو نئے ضلع کے قیام کی خوشیاں بھی کافور ہوگئیں۔ انتخابی میدان میں بھی کافی گہما گہمی رہی۔ ایم این اے گلزار خان کی وفات سے خالی ہونے والی نشست پر کانٹے کا مقابلہ ہوا۔تاہم اپنی یہ نشست پی ٹی آئی جیتنے میں کامیاب رہی۔اس سال ہونے والے انتخابات کے لئے ابھی سے تیاریاں شروع کردی گئی ہیں۔ متحدہ مجلس عمل کی بحالی سے خیبر پختونخوا کی سیاست میں کچھ مدوجذر نظر آرہا ہے۔ دینی جماعتوں سمیت تمام ہی پارٹیاں انتخابات میں اپنی کامیابی کے حوالے سے پرامید نظر آتی ہیں۔اے این پی، پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن ، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کو توقع ہے کہ 2013کے انتخابات سے انہیں زیادہ نشستیں ملیں گی۔ لیکن اب تک کسی بڑی سیاسی تبدیلی کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی یہ ظاہر کرتی ہے کہ بہت سی امیدیں بر نہ آنے کے باوجود عوام موجودہ حکومت سے مایوس نہیں ہوئے۔ تبدیلی کے کچھ آثار بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ بعض حکومتی ارکان کی بغاوت کے باوجود حکومت کو توڑنے کی اندرون خانہ کوششیں بیکار ثابت ہوئیں۔ کھیلوں کے میدان سے قوم کے لئے خوش آئند خبر یہ تھی کہ پاکستان نے چمپئن ٹرافی کے فائنل میں بھارت کوعبرتناک شکست دے کر دنیا کو یہ پیغام دیا کہ دہشت گردی کی آڑ میں پاکستان کو دیوار سے لگانے کی سازشوں کے باوجود ہمارے ٹیلنٹ کو شکست دینے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں منعقد ہونا اور ورلڈ الیون کا دورہ پاکستان بھی قوم کے لئے بڑی خبریں تھیں۔ پانامہ کیس میں سابق وزیراعظم کو سپریم کورٹ کی طرف سے نااہل قرار دینے کا فیصلہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے بڑے فیصلوں میں شمار ہوتا ہے جس کے مستقبل کی سیاست پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
3992

ہوصداقت کے لئے جس دل میں مرنے کی تڑپ….. محمد شریف شکیب

Posted on

امریکہ کی طرف سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور امریکی سفارت خانہ تل ابیت سے یروشلم منتقل کرنے کے فیصلے پر پورے عالم اسلام میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق یروشلم کو اسرائیل کا دارالخلافہ بنانے کا فیصلہ بہت پہلے ہوچکا تھا مگر سابق امریکی صدور اس کا اعلان کرنے کی جرات نہیں کرسکتے تھے۔ امریکی صدر کے متنازعہ اعلان پر برطانیہ، روس، چین، ڈنمارک، جاپان، فرانس، جرمنی اور دیگر غیر مسلم ممالک نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ وٹیکن سٹی سے پوپ نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کو عالمی امن کا ماحول خراب کرنے کی دانستہ کوشش قرار دیا ہے۔ لندن، پیرس، بون، ٹوکیو، برسلز اور خود امریکہ کے متعدد شہروں میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کے لئے مقبوضہ بیت المقدس کو یہودیوں کا صدر مقام قرار دینے کا فیصلہ عقیدے اور ایمان کا مسئلہ ہے۔ بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول ہے۔ جس کی بے حرمتی کی اجازت دینے کا کوئی مسلمان تصور بھی نہیں کرسکتا۔ امریکی سفارت خانے کی یروشلم منتقلی کا حکم دے کر دونلڈ ٹرمپ نے اپنی اسلام دشمنی کا کھل کا اظہار کیا ہے۔ امریکی صدر کا یہ فیصلہ حیران کن نہیں۔ وہ اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی مسلمانوں کو امریکہ سے نکالنے اور ان کی عبادت گاہوں کو چرچوں میں بدلنے کے عزم کا اظہار بارہا کرچکے ہیں۔ یروشلم کرہ ارض پر قدیم الایام سے آباد علاقوں میں سے ایک ہے۔ مورخین کہتے ہیں کہ یروشلم پر پانچ سو مرتبہ باہر سے آنے والوں نے حملہ کیا۔ چار سو مرتبہ اسے فتح کرنے کے بعد وہاں حکومتیں قائم کی گئیں۔ یہ شہر دو مرتبہ مکمل طور پر تباہ ہونے کے بعد دوبارہ آباد ہوا ہے۔ مختلف اقوام نے یہاں حکومتیں قائم کیں۔یہ خطہ مذہبی لحاظ سے صدیوں سے تمام مکاتب فکر کے لئے قابل احترام رہا ہے۔ اسلامی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو خلیفہ دوئم حضرت عمر بن خطاب نے یروشلم کو فتح کرکے اسے اسلامی ریاست میں شامل کیا۔ یہاں فاطمی، اموی اور عباسی خاندان کی حکومتیں رہیں۔حضرت عمر فاروق نے وہاں سے نکالے گئے یہودیوں کو واپس لاکر انہیں اپنی مذہبی رسومات آزادی سے ادا کرنے کی اجازت دی تھی۔دوسری جنگ عظیم کے بعد جب ہٹلر نے یہودیوں کو چن چن کر گیس چیمبرز میں ڈال کر اور جلاکر مارنا شروع کیا۔ تو دنیا بھر سے یہودی فرار ہوکر تل ابیت پہنچے ۔ جہاں امریکہ نے انہیں پناہ دی۔ اور 1948میں وہاں ایک یہودی ریاست اسرائیل کا قیام امریکہ نے عمل میں لایا۔تب سے مقامی فلسطینی مسلمان آبادی اور قابض یہودیوں کے درمیان محاذ آرائی جاری ہے۔ امریکہ کی مجبوری یہ ہے کہ اس کی معیشت کا پہیہ یہودیوں کے کاروبار سے چلتا ہے۔ مشرق وسطیٰ، ایشیاء، مشرقی اور مغربی دنیا کی مخالفت کے باوجود امریکہ یہودیوں کی سرپرستی کر رہا ہے۔ تاہم یروشلم کو تل ابیت کی جگہ اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کا غیر دانشمندانہ امریکی فیصلہ دنیا کو ایک لامتناہی جنگ کی بھٹی میں جھونکنے کے مترادف ہے ۔یروشلم کے معاملے پر او آئی سی کا ہنگامی اجلاس بلانے اور امریکہ کو سخت پیغام دینے کی صدائے بازگشت بھی سننے میں آرہی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ عالم اسلام امریکہ کو اپنا فیصلہ بدلنے پر کس حد مجبور کرسکتے ہیں۔ 59اسلامی ممالک میں سے ترکی کے سوا کسی بھی اسلامی ملک نے ڈونلڈ ٹرمپ کو تنبیہ کرنے کی جرات نہیں کی۔ بیشتر اسلامی ممالک مالی مفادات کے لئے امریکہ کے سامنے پہلے ہی گھٹنے ٹیک چکے ہیں۔ اور جو امریکہ کے گڈ بک میں نہیں۔ انہیں براہ راست ٹکر لینے کی ہمت نہیں پڑ رہی۔ اسلامی ممالک کی تنظیم کا ہنگامی اجلاس اگر بلایا بھی گیا ۔ تو بات اعلان کی مذمت اور فلسطینیوں سے زبانی کلامی اظہار یک جہتی اور ہمدردی سے آگے بڑھتی نظر نہیں آتی۔ قوموں کی زندگی میں اپنی منزل کا تعین کرنے کا موقع کبھی کبھار ہی آتا ہے۔ آج عالم اسلام کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ اپنی اہمیت قوموں کی برادری سے تسلیم کرائے۔ اللہ تعالیٰ نے اسلامی دنیا کو جفاکش افرادی قوت، تیل، معدنی و آبی ذخائر سمیت ترقی کے تمام لوازمات سے نہایت فیاضی سے نوازا ہے۔ انہیں بروئے کار لاکر ایک متحد قوت بننے کے لئے جرات مند قیادت کی ضرورت ہے جو عالم اسلام میں فی الحال مفقود نظر آتاہے۔ شاعر مشرق نے شاید اسی منظر نامے کو سامنے رکھ کر کہا تھا کہ ’’ ہوصداقت کے لئے جس دل میں مرنے کی تڑپ۔۔ پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے۔‘‘

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
2996

مہنگے ٹماٹر کا متبادل ……….. محمد شریف شکیب

Posted on

پنجاب کے صوبائی وزیرصنعت شیخ علاء الدین نے قوم کو مشورہ دیا ہے کہ ٹماٹر اگر مہنگے ہیں۔ گرانی کی وجہ سے لوگ اشیائے ضروریہ خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے ۔ تو انہیں کتے، بلیاں، چوہے اور جوتے کھاکر اپنا گذارہ کرنا چاہئے۔ دیگر قوموں نے بھی مشکل وقت میں یہی چیزیں کھاکر اپنی مشکلات پر قابو پایا ہے اور انہوں نے دنیا میں نام پیدا کیا ہے۔ موصوف یہ بھی فرماتے ہیں کہ بھارت سے درآمد ہونے والا ٹماٹر اڑھائی سو روپے کلو فروخت ہورہا ہے۔ ضروری تو نہیں کہ بندہ ٹماٹر ہی کھانے پر بضد رہے۔ حضرت شیخ کا یہ مشورہ اس لحاظ سے غیر منطقی اور بے تکا لگتا ہے کہ اگر ٹماٹر مہنگے ہیں تو کتنے بلیاں اور چوہے ٹماٹر کا متبادل کیسے ہوسکتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو اس طرح کے مفت بے تکے مشورے دینے کی بیماری ہوتی ہے۔ وہ اس تاک میں رہتے ہیں کہ کسی پر مشکل وقت آجائے تاکہ وہ فوری طور پر اس کے پاس پہنچ کر اظہار ہمدردی کے ساتھ اپنے مفت مشورے بھی دے کر دل کا غبار ہلکا کرسکیں۔ پنجاب کے وزیرصنعت کے ان مشوروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم لیگ کی قیادت کو اسی قسم کے وزیروں اور مشیروں کی وجہ سے برے دن دیکھنے پڑے ہیں۔ ورنہ ملک کے سب سے بڑے صوبے اور وفاق میں اپنی حکومتیں ہونے کے باوجود شریف برادران کو آج کل جو پاپڑ بیلنے پڑ رہے ہیں ایسی صورت حال سے انہیں اپوزیشن میں رہنے کے باوجودکبھی سامنا نہیں کرنا پڑا ہوگا۔اگر شریف برادران اپنے وزیروں اور مشیروں کو کچھ عرصے کے لئے چھٹی دیدیں اور اپنی عقل اور تجربے کو بروئے کار لائیں تو انہیں بہت سی پریشانیوں سے نجات مل سکتی ہے۔ فرانس میں روٹی مہنگی ہونے کی وجہ سے عوام کے احتجاج پر وہاں کی شہزادی نے یہ معصومانہ مشورہ دیا تھا کہ اگر روٹی مہنگی ہے تو یہ لوگ کیک اور ڈبل روٹی کیوں نہیں کھاتے۔ ڈبل روٹی تو روٹی کی متبادل ہوسکتی ہے لیکن کتے بلیاں ٹماٹر کی متبادل ہونے کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہمارے ہاں ایک یہ روایت ہے کوئی اپنا مکان بنانے کا ارادہ کرے تو ہر شخص اپنی سوچ اور پسند کے مطابق اسے نقشہ بتاتا ہے۔اور اسی نقشے کے مطابق مکان بنانے کی تلقین بھی کرتا ہے۔ جب کوئی بیمار پڑ جائے تو لوگ صرف اپنے ماہرانہ مشوروں سے نوازنے کے لئے اس کی عیادت کو جاتے ہیں۔ اور مریض کو دیکھتے ہی کسی بڑے تجربہ کار حکیم کی طرح اس کے مرض کی نوعیت بتاتے اور علاج تجویز کرتے ہیں۔ اکثر لوگوں کو یہ مشورہ دیتے ہوئے بھی سنا گیا ہے کہ کسی ڈاکٹر کو دکھانے اور ٹیسٹ وغیرہ میں پیسے ضائع کرنے کی ضرورت نہیں۔ صاف صاف نظر آرہا ہے کہ یہ فلاں مرض ہے ۔ یہی مرض میرے دادا، خالو، ماسی ، داماد کی چچی، بہنوئی کی خالہ اور سالے کی ساس کو بھی ہوئی تھی۔ فلاں ٹوٹکے استعمال کرنے سے اسے ایسا افاقہ ہوا۔ جیسے کبھی وہ بستر پر پڑا ہی نہ ہو۔خواتین مفت مشورہ دینے کے فن میں مردوں سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ کئی بیماروں کو اپنے ٹوٹکوں کی وجہ سے اگلے جہاں پہنچانے کے باوجود ان کی تسلی نہیں ہوئی اور وہ مفت مشورہ دینے کو اپنا مقصد حیات سمجھتی ہیں۔شیخ علاء الدین نے مہنگائی کے مارے عوام کو کتے ، بلیاں اور چوہے جیسے حرام جانور کھانے کا مشورہ دینے کے ساتھ جوتے کھانے کی بھی صلاح دی ہے۔ جوتے کھانے کا مشورہ شاید وہ خصوصی طور پر مرد حضرات کو دینا چاہتے ہوں گے۔ کیونکہ ہمارے معاشرے میں کھانے کے لئے کما کر لانا مرد کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے اور خالی ہاتھ آنے پر ان کی جوتوں سے تواضع ویسے بھی ہوتی ہے۔ اس لئے جوتے کھانے کا مشورہ دینا بھی بے محل ہے۔ وزیرموصوف کو شاید یہ معلوم نہ ہو۔ کہ معاہدہ عمرانی کے تحت عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ،انہیں زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی ، صحت، تعلیم اور روزگار کی ضمانت دینا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اگر کوئی حکومت اپنی یہ بنیادی ذمہ داری پوری نہیں کرتی۔اور عوام کو ان کی قوت خرید کے مطابق انہیں ٹماٹر، پیاز، آلو اور دال ساگ مہیا نہیں کرسکتی۔ تو اسے مسند اقتدار سے چمٹے رہنے کا کوئی حق نہیں۔ اسمبلی کے فلور پر عوام کو حرام خوری کا مشورہ دینے والے صوبائی وزیر کے ریمارکس پر تبصرے شروع ہوچکے ہیں۔ لیکن چونکہ بات پنجاب اسمبلی اور مسلم لیگ کی چل رہی ہے اس لئے شاید کوئی سخت ردعمل نہ آئے۔ اگر یہی بات خدانخواستہ خیبر پختونخوا کا کوئی وزیریامشیر کرچکا ہوتا۔تو اب تک ملک میں ایک ہنگامہ برپا ہوتا۔ کیونکہ ہمارے حکمران گھروں کی رونق کو ہنگامے پر ہی موقوف سمجھتے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
2920

شہدائے حویلیاں کی پہلی برسی……….. محمد شریف شکیب

Posted on

سانحہ حویلیاں کے شہداء کے لواحقین آج اپنے پیاروں کی پہلی برسی منارہے ہیں۔ 7دسمبر2016کو پی آئی اے کا بدقسمت اے ٹی آر طیارہ چترال کے ہوائی اڈے سے اسلام آباد کے لئے اڑان بھری تھی۔ مگر اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکی۔حویلیاں کے قریب المناک فضائی حادثے میں تین غیر ملکیوں ،بین الاقوامی شہرت یافتہ فنکار اور نعت خوان جنید جمشید، ڈپٹی کمشنر چترال اسامہ احمد وڑائچ سمیت 47افراد لقمہ اجل بن گئے۔شہدائے حویلیاں عمرا خان، عابد قیصر، احسن، عائشہ، اکبر علی، اختر محمود، عامر شوکت، آمنہ احمد، ماہ رخ، عاصم وقاص، عتیق محمد، فرح ناز، فرحت عزیز، گوہر علی، گل حوران، حاجی نواز، حسن علی ، جنید نانیا، جنید جمشید، محمود عاطف، میرزاگل، فرحان علی،محمد علی، خالد محسود، محمد خان، محمد خاور، نعمان شفیق، تکبیر خان، نگارالدین، اسامہ احمد وڑائچ،رانی مہرین، سلمان زین العابدین، سمیع، ثمینہ گل، شمشاد بیگم، طیبہ عزیز، تیمور ارشد اور زاہدہ پروین کے لواحقین امر الہٰی کو صبر اور شکر کے ساتھ قبول کرچکے ہیں کہ ان کے پیاروں کو شہادت جیسا بلند مرتبہ ملا۔ لیکن انہیں حکومت کی طرف سے اب تک یہ نہیں بتایاگیا۔ کہ اس المناک سانحے کی وجہ کیا تھی، اس کے ذمہ دار کون ہیں۔ تحقیقاتی رپورٹ کا کیا بنا۔ اس میں کس کو مورد الزام ٹھہرایا گیا اور ملزموں کو کیا سزا ملی۔یہ وہ سوالات ہیں جنہوں نے شہدائے حویلیاں کے لواحقین کے دن کا چین اور رات کی نیندیں اڑادی ہیں۔خوفناک آواز کے ساتھ فضاء میں ہچکولے کھانے والا اے ٹی آر مسافر طیارہ جب حویلیاں کے قریب چٹان سے ٹکرا گیا تو قریبی دیہات مجاب اور پلیاں کے مردوں، خواتین اور بچوں نے سب سے پہلے حادثے کی جگہ پہنچ کر امدادی کاروائیاں کیں ۔ تحقیقاتی ٹیموں نے امدادی رضاکاروں کے بیانات بھی ریکارڈ کئے۔پی آئی اے ، سول ایوی ایشن اور دیگر متعلقہ اداروں کے لوگوں کا موقف بھی معلوم کیا گیا۔ بلیک بکس اور کاک پٹ وائس ریکارڈر میں موجود پائلٹوں کی آخری گفتگو ڈی کوڈ کرکے سننے کے بعداس حادثے کی وجوہات اور ذمہ داروں کا تعین ہوچکا ہے۔ لیکن یہ رپورٹ ایک سال گذرنے کے باوجود منظر عام پر نہیں آسکی۔ موت برحق ہے اور ہر ذی روح کو آخر کار موت کا مزہ چکھنا ہے۔ پی کے 661کے 42مسافروں اور عملے کے پانچ افراد کوسات ربیع الاول کو فضائی حادثے میں اجتماعی شہادت کی موت نصیب ہوئی۔لیکن صف ماتم پورے پاکستان میں بچھ گئی ۔اور ایسی موت صرف نصیب والوں کو ہی نصیب ہوسکتی ہے۔سانحہ حویلیاں سے جڑے چند سوالات کانہ صرف پسماندگان اور لواحقین بلکہ پاکستان کے بیس کروڑ عوام جواب چاہتے ہیں ۔حادثے میں انسانی غلطی کو پی آئی اے حکام اور ماہرین نے پہلے ہی روز خارج از امکان قرار دیا تھا۔پی آئی اے حکام کے مطابق طیارے میں کوئی فنی خرابی نہیں تھی ۔یہی طیارہ جب اسلام آباد سے چترال پہنچا تو مسافروں کے مطابق اس کی پوری باڈی گرم ہوچکی تھی۔ جب چترال سے اس نے اسلام آباد کے لئے اڑان بھری تو اس سے خوفناک قسم کی آوازیں نکل رہی تھیں۔طیارہ جس گاوں کے اوپر سے گذرا۔ وہاں کے لوگ گھروں سے باہر نکل کر اسے دیکھتے رہے۔ حویلیاں کے قریب طیارے کا ایک انجن بند ہوگیا۔ تو طیارہ ڈولتا ہوا دیہی آبادی پر گرنے والا تھا ۔ پائلٹ احمد جنجوعہ نے آبادی کو بچاتے ہوئے اسے قریبی نالے تک لے جانے کی کوشش کی۔ پھر طیارے کو پہاڑی سے ٹکرا دیا۔طیارے کا توازن خراب ہونے سے حادثہ پیش آنے تک کے لمحات میں موت کو منہ کھولے سامنے کھڑے دیکھ کر مسافروں پر کیا گذری ہوگی۔ یہ سوچ کر بھی رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔شہداء کے لواحقین حیران اور پریشان ہیں کہ خراب طیارے کو گلگت سے بمشکل اسلام آباد پہنچنے کے بعد چترال جیسے دشوار روٹ پر بھیجنے کا فیصلہ کس نے اور کیوں کیا۔سول ایوی ایشن اور عدلیہ کی طرف سے آر ٹی اے طیاروں کو پہاڑی علاقوں میں آپریٹ نہ کرنے کی واضح ہدایات کے باوجود غفلت کیوں برتی گئی۔ طیارہ بنانے والی فرانسیسی کمپنی کی طرف سے ان جہازوں کو بارہ ہزار فٹ کی بلندی سے اونچائی پر نہ لے جانے کی ہدایت کے باوجود انہیں بیس بائیس ہزار فٹ کی بلندی پر پہاڑوں اور گلیشئرز پر سے اڑان کی اجازت کس نے اور کیوں دی ۔ ان سوالوں کا جواب نہ صرف سانحہ حویلیاں کے متاثرین بلکہ پوری قوم جاننا چاہتی ہے۔اگر تحقیقاتی رپورٹ میں حادثے کی وجوہات کی نشاندہی اور ذمہ داروں کا تعین کیا گیا ہے تو انہیں اب تک سزاکیوں نہیں دی گئی اور شہداء کے لواحقین کو اعتماد میں کیوں نہیں لیاگیا۔ کیا ایسے حادثات کو امر الہٰی قرار دے کر بااثر ذمہ داروں کو بچایا جاتا رہے گا۔ آخر یہ پسماندگان اور غمزدہ لواحقین کس کے ہاتھ میں اپنا لہو تلاش کریں؟؟

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
2859

حرام و حلال کی بحث ………… محمد شریف شکیب

Posted on

ملائشیا کے وزیر مذہبی امور اور نائب وزیراعظم اشرف واجد نے بڑے پتے کی بات کہہ دی۔ کوالالمپور میں اسلامی مالیاتی اور خیراتی اداروں کے حوالے سے سمینار سے خطاب میں اشرف واجد دوسوکی کا کہنا تھا کہ ہم مسلمان ہونے کے ناطے کھانے پینے کی چیزوں میں حلال اور حرام کی بہت فکر کرتے ہیں۔اشیائے خوردونوش کے ڈبوں کا بغور جائزہ لیتے ہیں کہ اس خوراک کے مرکبات کیا ہیں اور کس ملک کی کمپنی نے یہ تیار کی ہیں۔ لیکن ہم نے اس بات کی کبھی پروا نہیں کی کہ حلال چیزیں خریدتے وقت ہم جو قیمت ادا کرتے ہیں کیا وہ بھی حلال ذرائع سے حاصل کی گئی ہے؟ اگر ہمارے وسائل حلال اور اسلامی و قانونی طریقے سے حاصل نہیں کئے گئے۔ تو حرام کی کمائی سے حلال چیز خریدنے کا کیا فائدہ ہے۔؟ حلال کے پیسوں سے حرام چیز خرید کر کھانا اور حرام کے پیسوں سے حلال چیز خریدنا ایک ہی بات ہے۔اشرف واجد کی اس سادہ سی بات پر نہ صرف ہمارے علمائے کرام، مذہبی رہنماوں، واعظین، خطیبوں، ذاکرین اور مولوی حضرات کو غور کرنا چاہئے اور اس بات کو آگے بڑھانا چاہئے بلکہ مسلمان ہونے کے ناطے ہم میں سے ایک شخص کو سوچنا چاہئے کہ ہم جو کچھ کماکر گھر لاتے ہیں۔ اپنے بچوں کو تعلیم اور دیگر سہولیات دیتے ہیں۔ خود کھاتے اور پیتے ہیں۔ وہ کس حد تک حلال ہے۔ اگر ہماری کمائی حرام کی ہے تو روٹی، مچھلی، مرغی کھانا اور گدھے یا کتے کا گوشت کھانا برابر ہے۔اگر ہمارا بنگلہ، گاڑی، تجارت، کھانا پینا، اوڑھنا بچھونا اور بدن پر کپڑے حرام کی کمائی کے ہیں تو ہماری دعائیں، عبادتیں اور گریہ و زاریاں بھی لامحالہ بے اثر ہوتی ہیں۔کیونکہ ہم دنیا والوں کو تو دھوکہ دے سکتے ہیں لیکن اس رب کائنات کو دھوکہ نہیں دے سکتے جو ہر چیز پر قادر ہے۔آج پوری دنیا میں مسلمان مغلوب، مقہور، مظلوم اور ستم رسیدہ ہیں۔ گڑگڑا کر اللہ تعالیٰ سے مدد کی دعا بھی کرتے ہیں مگر کوئی دعا قبول نہیں ہوتی۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے حرام و حلال کی تمیز ختم کردی ہے۔صدر، وزیراعظم سے لے کر مزدور، کلرک اور چپڑاسی تک سب کو جائز اور ناجائز طریقے سے دولت جمع کرنے کی فکر ہے۔ دولت ہی معاشرے میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے کا ذریعہ بن گئی ہے۔ ہم نے دولت کے لالچ میں اپنے ضمیر کو تھپکی دے کر سلادیا ہے۔ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنے اور چند لمحوں کے لئے یہ سوچنے کی ہمیں فرصت نہیں ملتی کہ ہم نے آج کتنی ایمانداری، دیانت داری، فرض شناسی اور خداترسی سے کام کیا ہے۔ ہم نے کام چوری کو چالاکی اور ہوشیاری کا نام دے رکھا ہے۔ پھل اورسبزی بیچنے والے اپنا مال فروخت کرتے ہوئے گلی سڑی چیزیں بھی چھپاکر تول دیتے ہیں۔ خریدنے والے کو گھر جانے کے بعد علم ہوتا ہے کہ اس نے پوری قیمت دے کر آدھی گلی سڑی چیزیں خریدی ہیں۔ مصالحے میں لکڑی کا برادہ اور پسی ہوئی اینٹیں، چائے کی پتی میں خشک خون اور چنے کے چھلکے ملانے والوں کو معلوم ہے کہ وہ غیر اسلامی ، غیر قانونی اور حرام کام کررہے ہیں۔ لیکن وہ دولت کے انبار لگانے کے شوق میں اندھے ہوچکے ہیں۔ اصلی چیز خریدار کو دکھا کر نقلی چیز پوری قیمت وصول کرکے بیچنے والے بھی بخوبی جانتے ہیں کہ انہوں نے خدا اور اس کی مخلوق کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے وہ شرمندگی محسوس کرنے کے بجائے اپنی اس چالاکی پر فخر کرتا ہے۔ جو ضمیر مردہ ہونے کی نشانی ہے۔ دودھ میں پانی اور کیمیکل ملاکر بیچنے والے بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ اپنے فائدے کے لئے دوسرے لوگوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں ۔غیر معیاری فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی نقلی ادویات اپنے کمیشن کی خاطر مریضوں کے لئے تجویز کرنے والے ڈاکٹر وں کو بھی معلوم ہے کہ ان کا یہ عمل اللہ اور رسول کے حکم، ملکی قانون اور اخلاقیات کے منافی ہے۔ مگر ذاتی مفاد کی ہوس نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے۔عوام کی بے لوث خدمت، ان کے دکھوں کا مداوا کرنے اور مسائل کے دلدل سے انہیں نجات دلانے کے وعدے پر عوام سے ووٹ لینے والے جب اقتدار میں آکر مال و دولت جمع کرنے میں پاگل ہوجاتے ہیں تو انہیں احساس نہیں رہتا کہ انہوں نے عوامی مینڈیٹ کی توہین کی ہے ۔غریبوں کو بھی معلوم ہے کہ کل کا ٹٹ پونجی آج کروڑ پتی کیسے بن گیا۔ لیکن وہ اس لئے خاموش ہیں کہ سارے لوگ ایسے ہی کام کرتے ہیں۔اپنے ضمیر کو جگانے اور حرام و حلال میں تمیز کرنے کے لئے ہمیں بس ایک حدیث مبارک پر غور کرنے اور اسے اپنی زندگی کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے ۔ سرکار دوعالم نے فریایا تھا۔’’ تم میں سے کوئی بھی کامل ایمان دار اس وقت تک نہیں بن سکتا۔ جب تک وہ اپنے بھائی کے لئے بھی وہی چیز پسند کرے۔ جو وہ خود اپنے لئے پسند کرتا ہے۔‘‘

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
2093

کرپشن سے توبہ کا حلف ………….. محمد شریف شکیب

Posted on

پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی نے اپنے ملازمین سے حلف لیا ہے جس کے تحت ملازمین نے بجلی صارفین کے بلوں میں اضافی یونٹ ڈالنے، میٹر میں گڑ بڑ، غلط ریڈنگ اور رشوت لینے سے توبہ کرلی اور آئندہ کسی صارف کو شکایت کا موقع نہیں دیں گے۔ چیف ایگزیکٹو پیسکو شبیر احمد جیلانی نے خود ملازمین سے حلف لیا۔ حلف اٹھانے والوں میں پیسکو پشاور، خیبر اور مردان سرکل کے ایک ہزار سے زیادہ ملازمین شامل تھے۔ ایگزیکٹو انجینئر، ایس ڈی او، سپروائزر اور میٹر ریڈرزنے اب قسم اٹھائی ہے کہ وہ کوئی غیر قانونی، غیر اخلاقی اور غیر اسلامی کام نہیں کریں گے۔ اسی تقریب کے دوران میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے چیف ایگزیکٹو پیسکو نے شکوہ کیا کہ بجلی چوروں کو پکڑنے میں خیبر پختونخوا پولیس تعاون نہیں کر رہی۔ سات ہزار بجلی چوروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست دی تھی ان میں سے صرف بارہ سو چوروں کے خلاف ہی مقدمات درج ہوسکے۔ اب ان کا ارادہ ہے کہ بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈاون کے لئے رینجرز کی خدمات حاصل کی جائیں۔چیف ایگزیکٹو نے برملااعتراف کیا ہے کہ خیبر پختونخوا اور فاٹا میں بجلی چوری کی جاتی ہے۔ اور چوروں کی تعداد سینکڑوں میں نہیں بلکہ ہزاروں میں ہے۔ اور پیسکوقانون نافذ کرنے والے اداروں کے تعاون کے بغیر بجلی چوروں کے خلاف کاروائی کرنے سے قاصر ہے۔ چیف ایگزیکٹو کو یہ بھی معلوم ہے کہ بجلی چوری کے نوے فیصد واقعات میں خود ان کے محکمے کے لوگ ملوث ہیں۔ قبائلی علاقوں اور نواحی دیہات میں کنڈے لگانا کوئی تعجب کی بات نہیں۔ پشاور، مردان، نوشہرہ، چارسدہ اور کوہاٹ سمیت تمام شہروں میں لوگوں نے سرعام کنڈے لگا رکھے ہیں۔ اور بعض لوگ تو غیر قانونی کنکشن کے ذریعے کارخانے بھی چلاتے ہیں۔ مگر ان پر ہاتھ ڈالنے کی کسی میں جرات نہیں ہوتی۔ چیف ایگزیکٹوشبیر احمد اور پیسکو کے ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشن شوکت افضل سے زیادہ کس کو فکر ہوسکتی ہے کہ لوگ بجلی چوری کرنے کے علاوہ سینہ زوری بھی کرتے ہیں۔ اور سرکاری ادارے برسوں سے لاکھوں کروڑوں روپے کے بقایاجات ادا نہیں کر رہے جس کی وجہ سے ادارے کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نوٹس جاری کرنے اور بجلی کاٹنے کے باوجود یہ ادارے باز نہیں ٓآرہے ۔تطہیر کا کام گھر سے شروع کرنے کی خاطر پیسکو حکام نے سب سے پہلے اپنی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں سے حلف لے کر انہیں کرپشن سے باز رکھنے کی کوشش کی ہے۔ ادارے اور قوم کو نقصان پہنچانے والے عناصر اگر حلف اٹھانے کے باوجود بھی کرپشن سے باز نہ آئے تو ان کے خلاف سخت کاروائی کا جواز بنتا ہے۔ تاکہ باہر کے چوروں پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے آستین کے سانپوں کو کچلا جاسکے۔ پیسکو بھی ان اداروں کی فہرست میں شامل ہے جنہیں کرپشن کا گڑھ قرار دیا جاتا ہے لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ سارا ادارہ کرپشن کا اڈہ بن چکاہے۔ میں ذاتی طور پرپیسکو میں ایسے بہت سے لوگوں میں جانتا ہوں جن کی دیانت داری ، خدا ترسی، ایمانداری، فرض شناسی اور خلوص کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ لیکن ایک گندی مچھلی بھی سارے تالاب کو گندہ کردیتی ہیں اور یہاں گندی مچھلیوں کی کوئی کمی نہیں۔اداروں کو کرپشن سے پاک کرنے کے لئے حکومت اور اداروں کا اشتراک عمل ضروری ہے۔ آج اگر چیف ایگزیکٹو پیسکو بجلی چوروں کے خلاف کاروائی کے لئے قانون نافذ کرنے والوں کی مدد مانگ رہے ہیں تو وزیراعلیٰ پرویز خٹک اور انسپکٹر جنرل پولیس صلاح الدین محسود کو ان کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہیءں۔ تاکہ صوبے کے اندر کرپشن کے تدارک کے لئے اسے وفاقی حکومت سے مدد لینے کی ضرورت نہ پڑے۔کیونکہ کرپشن کا خاتمہ خیبر پختونخوا حکومت کا انتخابی منشور بھی ہے اور اداروں کو بدعنوانی سے پاک کرنا قومی ضرورت بھی ہے۔ خیبر پختونخوا میں بجلی کی پیداوار بڑھانے کے سینکڑوں منصوبوں پر کام ہورہا ہے۔اس وقت بھی ہمارے پاس صوبے کی ضرورت سے زیادہ بجلی موجود ہے لیکن چوری اور لائن لاسز کی وجہ سے اب بھی صوبے میں دس سے بارہ گھنٹے روزانہ لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے۔ بجلی چوری پر قابو پانے کی کوششوں کے ساتھ اگرچیف ایگزیکٹو اپنے ملازمین کو مفت بجلی فراہم کرنے کی روایت پر بھی نظر ثانی کریں تو قوم کا بہت بھلا ہوگا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
2060

تحریک انصاف حکومت کا ٹیسٹ کیس……… محمد شریف شکیب

Posted on

ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقہ گرہ مٹ میں سولہ سالہ لڑکی کی بے حرمتی کا واقعہ پختون قوم کے ماتھے پر بدنما داغ ہے۔ شریفان بی بی کا جرم یہ تھا کہ اس کے بھائی نے مبینہ طور پرعلاقے کی ایک لڑکی سے دوستی کی تھی۔ سندھ اور پنجاب میں خواتین کی بے حرمتی، اجتماعی آبروریزی ، رشتوں کے عوض سودا کرنے اور خریدوفروخت کے حوالے سے آئے روز خبریں ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہتی ہیں۔ وہاں نام نہاد پنجایت کے حکم پر بھی خواتین کی عصمت کا دامن تار تار کیا جاتا ہے۔ ونی، کاروکاری اور سورہ کی روایات بھی عام ہیں لیکن خیبر پختونخوا میں جوانسال خاتون کی سرعام بے حرمتی اس لحاظ سے افسوس ناک اور حیران کن ہے کہ پختون معاشرے میں خواتین کا بہت احترام کیا جاتا ہے۔ گھریلو تشدد کی قبیح روایت اگرچہ موجود ہے۔ زبردستی رشتے کروانے سے بھی انکار نہیں۔ غگ جیسی غیر اسلامی روایت بھی عام ہے لیکن حوا کی بیٹی کو یوں سرعام رسوا نہیں کیا جاتا۔ اس واقعے کے چندپہلو ایسے ہیں جو ہمارے سیاسی و مذہبی رہنماوں کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہیں۔ شریفان بی بی کو سہیلیوں کے ہمراہ مسلح افراد نے پانی لاتے ہوئے دھکادے کر گرادیا۔ قینچی سے اس کے کپڑے کاٹ دیئے اور برہنہ کرکے سارے گاوں میں پھیرا۔ وہ چیختی چلاتی، منت زاری کرتی اور خدا رسول کا واسطہ دے کر چھوڑنے کی فریاد کرتی رہی مگر شقی القلب ملزموں نے اس کی ایک نہ سنی۔ بااثر ملزموں کے خوف سے برہنہ نوعمر لڑکی کو کوئی اپنے گھر میں پناہ دینے کی جرات بھی نہیں کرتا تھا۔ جب مظلوم لڑکی کے والدین نے پولیس کے پاس جاکر ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست کی تو پولیس نے نہ صرف ان کی بات سننے سے انکار کردیا۔ بلکہ مخالف فریق کے کہنے پر الٹا تمام الزام مظلوم لڑکی کے بھائی پر ڈال دیا۔ جب ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا میں یہ خبروائرل ہوگئی تو وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے فوری نوٹس لیتے ہوئے ایف آئی آر ختم کرادی اور واقعے کی ازسرنو تفتیش کا حکم دیدیا۔ حوا کی بیٹی کو سربازار رسوا کرنے والے نو میں سے آٹھ ملزمان گرفتار بھی ہوچکے ہیں جبکہ گروہ کے سرغنہ کی تلاش جاری ہے۔ آئی جی صلاح الدین کا کہنا ہے کہ ڈی آئی جی کی نگرانی میں پولیس واقعے کی تفتیش کر رہی ہے اور پولیس پر کوئی سیاسی دباو نہیں ہے۔ جلد تمام ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔شریفان بی بی کے واقعے نے تمام بیٹی والوں کو غم سے نڈھال کردیا ہے۔ جاگیردارانہ سوچ کو ختم نہ کیا گیا تو کسی بھی باعزت شخص کی باعصمت بیٹی کے ساتھ ایسا شرمناک سلوک ہوسکتا ہے۔ سانحہ گرہ مٹ عمران خان اور وزیراعلیٰ پرویز خٹک ہی نہیں پوری تحریک انصاف کی حکومت کے لئے ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ ان کے پاس اقتدار کی طاقت ہے۔انہیں روکنے والا کوئی نہیں۔ انتظامیہ ان کے ماتحت ہے۔ انصاف ان کا نعرہ ہے۔ علاقے کے ایم این ایز، ایم پی ایز ، ناظمین اور کونسلرز بھی ان کی پارٹی کے ہیں۔ اگر واقعے میں کوئی بااثر سیاسی خاندان یا شخصیت بھی ملوث ہے تو اسے نشان عبرت بنانا صوبائی حکومت کا فرض ہے۔ لوگوں کے دلوں میں اپنے لئے جگہ بنانی ہے تو تحریک انصاف کو شریفان بی بی کے ساتھ انصاف کرنا ہوگا۔اور انصاف بھی ایسا ہونا چاہئے جو فوری بھی ہو اور نظر بھی آئے۔حکومت سے زیادہ طاقت کسی کی نہیں ہوتی۔ حکومت چاہے تو لوگوں کو فوری انصاف بھی دلاسکتی ہے کسی بھی بااثر شخص کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتی ہے۔ ملک میں عام انتخابات کا سال شروع ہوچکا ہے۔ خیبر پختونخوا میں عموما اور ملک بھر میں خصوصا تحریک انصاف نے اگر اپنی دھاگ بٹھانی ہے تو شریفاں بی بی کو انصاف دلانا اور ان کےمجرموں کو نشان عبرت بنانا ہوگا۔ شریفاں بی بی کے خاندان کو اگر انصاف ملتا ہے تو اس ملک کے پسے ہوئے اور غریب لوگوں کو بھی امیدکی کرن نظر آئے گی۔ وہ محسوس کریں گے کہ حکومت ان کی جان و مال اور عزت وآبرو کی حفاظت کرتی ہے۔ ان کا سیاسی نظام اور حکومت اور سیاسی جماعتوں پر بھی اعتماد بحال ہوگا۔اگر شریفاں کو انصاف نہ ملا۔ تو انسانوں کی حکومت اور عدالتوں سے بڑی عدالت میں انہیں ضرور انصاف ملے گا۔ لیکن موجودہ حکمرانوں اور عوامی نمائندوں کو اعانت جرم ، فرائض سے چشم پوشی، رعایا پر ظلم ، ناانصافی اورجابر کی مدد کرنے کی سزا بھی ضرور ملے گی۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
1625

مجھے کیوں نکالا۔خصوصی افراد کا شکوہ ……… محمد شریف شکیب

Posted on

خیبر پختونخوا حکومت کی طرف سے خواجہ سراوں کے لئے رہائشی کالونی کے قیام،ماہوار وظیفے کی فراہمی ، علاج معالجے کی سہولت اور تعلیم و تربیت کے لئے بیس کروڑ روپے مختص کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد سمیت جسمانی معذوری کا شکار افراد نے بھی صوبائی حکومت کے اعلان کا خیر مقدم کیا ہے۔ تاہم خصوصی افراد نے مراعاتی پیکج سے ’’ مجھے کیوں نکالا‘‘ کاشکوہ بھی کیا ہے۔فلاحی تنظیم فرینڈز آف پیراپلیجک کے اس دلچسپ ردعمل کو مقامی اخبارات نے بھی کافی کوریج دی ہے۔ خصوصی افراد کا موقف ہے کہ پاکستان میں جسمانی طور پر معذور افراد کی تعداد مجموعی آبادی کا پندرہ فیصد ہے۔ اس کے مقابلے میں اقلیتی برادری کی تعداد چار فیصد اور خواجہ سراوں کی تعداد چند ہزار سے زیادہ نہیں ہے۔ ان کے حقوق کو آئینی تحفظ فراہم کرنے کے باوجود مرکزی اور صوبائی حکومتیں معذور افراد کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کر رہی ہیں۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں معذور افراد کی مجموعی تعداد ایک لاکھ چار ہزار 498ہے۔ جن میں جسمانی طور پر معذورمردوں کی تعداد 31ہزار986,خواتین سولہ ہزار 859 اور بچوں کی تعداد بارہ ہزار 945 ہے۔بصارت سے محروم مردوں کی تعداد چھ ہزار پانچ سو اڑتیس، خواتین چار ہزار ایک سو انتالیس اور بچوں کی تعداد تین ہزار دو سو سولہ ہے۔ گونگے بہرے مردوں کی تعداد چھ ہزار آٹھ سو چھپن، خواتین تین ہزار نو سو تریالیس اور بچوں کی تعداد چار ہزار ایک سو پینسٹھ ہے۔ ذہنی بیماریوں میں مبتلا افراد میں مردوں کی تعداد پانچ ہزار سات سو سنتالیس، خواتین تین ہزار سات سو ستاسی اور بچوں کی تعداد تین ہزار چار سو سترہ ہے۔ صوبے کے پچیس اضلاع میں سب سے زیادہ معذور افرادسوات میں ہیں۔جن کی تعداد سولہ ہزار ایک سو بیانوے ہے لوئر دیر دس ہزار چار سو تیراسی معذوروں کے ساتھ دوسرے اوربٹگرام نو ہزار چھ سو بہتر معذور افراد کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔تورغر،کرک، ایبٹ آباداور اپر دیر میں سب سے کم معذور افراد بستے ہیں جن کی تعداد بالترتیب 255، 335، 350اور454ہے۔پالیسی سازوں کو ان اعدادوشمار کی بنیاد پر کھوج لگانا چاہئے کہ بعض علاقوں میں معذور افراد کی تعداد غیر معمولی طور پر زیادہ اور بعض علاقوں میں انتہائی کم ہونے کی کیا وجوہات ہیں۔ جسمانی طور پر معذور افراد کی تعلیم و تربیت اور انہیں روزگار کی فراہمی کے حوالے سے قوانین موجود ہیں۔ ویسٹ پاکستان انڈسٹریل اینڈ کمرشل ایمپلائمنٹ آرڈیننس مجریہ 1968میں تمام سرکاری اور صنعتی اداروں کو معذور افراد کے لئے دو فیصد کوٹہ مختص کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ اس کے بعد ڈس ایبل پرسنز ایمپلائمنٹ اینڈ ری ہیبلی ٹیشن آرڈیننس مجریہ 1981میں بھی اس کی توثیق کی گئی۔ لیکن عملی طور پر معذور افراد کو ہمیشہ نظر اندازکیاجاتا ہے۔ حکومت صنعتی یونٹوں اور غیرسرکاری تنظیموں کو بھی اس شرط پر کام کرنے کا این او سی جاری کرتی ہے کہ وہ معذور اور مقامی لوگوں کو کوٹے کے مطابق روزگار فراہم کریں ۔ مگر یہ شرائط کبھی پوری نہیں کی جاتیں اور نہ ہی حکومت کی طرف سے مروجہ قواعد و ضوابط پر عمل درآمد نہ کرنے پر کسی کو سزا دی گئی ہے ۔ خصوصی افراد صلاحیتوں کے اعتبار سے کسی سے کم نہیں ہوتے۔ بصارت، سماعت، ہاتھ، پاوں یا جسم کے کسی عضو سے محروم ہونے کے باوجود ان میں غیر معمولی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ انہیں مواقع فراہم کئے جائیں تو شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔اور وہ کئی کارہائے نمایاں سرانجام دے چکے ہیں۔اگر انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا
جائے تو وہ معاشرے پر بوجھ بن جاتے ہیں۔مجھے کیوں نکالا کا نعرہ سابق وزیراعظم کا تکیہ کلام تھا۔ اب ملک گیر شہرت اختیار کرگیا ہے۔ معذور افراد نے بھی اسی کو اپنے شکوے کا عنوان بنادیا۔ جس کا مقصد ارباب اختیار کی توجہ حاصل کرنا ہے۔ حالانکہ خواجہ سراوں کے لئے مختص فنڈ میں خصوصی افراد کا حصہ شامل نہیں۔ لیکن ان کا موقف یہ ہے کہ معاشرے کے پسماندہ طبقات کی خبرگیری کرنی ہے تو خصوصی افراد بھی راہوں میں پڑے ہیں۔ انہیں نظر التفات سے ’’ کیوں نکالا‘‘ جارہا ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
1313