Chitral Times

سائبر کرائمز کا خوفناک کھیل – محمد شریف شکیب

سائبر کرائمز کا خوفناک کھیل – محمد شریف شکیب

انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور فرانسیسی میڈیا گروپ فوربڈن سٹوریز نے اپنے تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ بھارت نے اسرائیلی کمپنی این ایس آر کے سافٹ وئرپیگاسس کے ذریعے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان، سمیت ملک کے اعلیٰ سول و فوجی افسران، سفارت کاروں، صنعت کاروں اور حریت پسند کشمیری رہنماؤں کے علاوہ کانگریس پارٹی کے مرکزی قائدین اور حکومت مخالف صحافیوں کے موبائل فون ہیک کرکے ان کی گفتگو، پیغامات،تصاویر اور وڈیوز کا ریکارڈ حاصل کرلیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 21ممالک کے 180صحافیوں سمیت 50ہزار سے زیادہ اہم شخصیات کی اس سافٹ وئر کے ذریعے جاسوسی کی گئی۔

تحقیقاتی ٹیم نے جاسوسی کا ہدف بننے والے جن موبائل فون نمبرز کی فہرست تیار کی ہے ان میں وزیر اعظم عمران خان کے زیر استعمال رہنے والا ایک پرانا موبائل نمبر بھی شامل ہے۔ اسرائیلی جاسوس سافٹ ویئر این ایس او کی مدد سے صارف کسی بھی فون نمبر کے ذریعہ اپنے ممکنہ ہدف کے فون تک رسائی حاصل کر سکتا ہے اور اس کی مدد سے فون کا تمام ڈیٹا حاصل کر سکتا ہے اور فون استعمال کرنے والے کی نقل و حرکت کی بھی مانیٹرنگ کر سکتا ہے۔ فون نمبرز کی اس فہرست میں حکومتی عہدے داروں، کاروباری شخصیات، ججز اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے نام بھی شامل ہیں۔

تحقیق کے مطابق این ایس او کا استعمال کرنے والے صارف ممالک میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بھارت، بحرین، ہنگری، آذربائیجان، میکسیکو اور دیگر ممالک شامل ہیں۔لیکن اس سافٹ وئر کا سب سے زیادہ منفی استعمال بھارت نے کیا ہے۔ تحقیقی رپورٹ تیار کرنے کے لئے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور فوربڈن سٹوریز نے 16 مختلف صحافتی اداروں کے ساتھ مل کر کام کیا جن میں واشنگٹن پوسٹ اور گارڈین بھی شامل ہیں۔نریندر مودی کی حکومت نے جن ایک ہزار سے زیادہ موبائل نمبر وں کو جاسوسی کے لیے بطور ہدف چنا ان میں کشمیری حریت پسند رہنماوں، پاکستانی سفارتکاروں، چینی صحافیوں، سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں،سماجی کارکنان اور کاروباری افرادکے نمبر شامل ہیں۔

کہتے ہیں کہ انسان کا دوست اور دشمن بھی باعزت اور باغیرت ہونا چاہئے۔ جو پیٹھ پر چھرا گھونپنے کے بجائے سامنے آکر وار کرے۔ بدقسمتی سے پاکستان کو ایسا دشمن ملا ہے جس نے ہمیشہ انسانیت اور اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے۔ نریندر مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی جب سے اقتدار میں آئی ہے۔ پاکستان سمیت اپنے تمام پڑوسیوں کے ساتھ اس نے محاذ آرائی کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ اپنے ہی ملک میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک اور مقبوضہ کشمیرکے عوام پر عرصہ حیات تنگ پر اسے عالمی برادری کی طرف سے بھی لعن طعن کا نشانہ بنایا جارہا ہے مگر اس کی ریشہ دوانیاں کم ہوتے دکھائی نہیں دیتیں۔

اپنے مخالفین کے موبائل ہیک کرنا، ان کی پرائیویسی میں مداخلت اورنجی زندگی کی معلومات چرانا بین الاقوامی قوانین اور اخلاقیات کے منافی ہے۔ جس پر بین الاقوامی عدالت انصاف کو سائبر کرائمز قوانین کے تحت ازخود نوٹس لے کر بھارتی حکومت کے خلاف کاروائی کرنی چاہئے۔ اور اقوام عالم کو بھی تجارتی مفادات پر اخلاقی اقدار کو ترجیح دیتے ہوئے بھارتی حکومت کے خلاف کاروائی کرنی چاہئے۔ اگر قوموں کی خفیہ جاسوسی کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ تو عالمی امن کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ یہود و ہنود کے نمائندوں بھارت اور اسرائیل نے امن عالم کے لئے سنگین خطرات پیدا کردیئے ہیں۔ انہیں لگام دینا اقوام متحدہ اور خود کو ترقی یافتہ اور مہذب کہلانے والے طاقتور ممالک کی ذمہ داری بنتی ہے۔سائبر کرائمز کو نہ روکا گیا تو دنیا میں کسی بھی شخص کی پرائیویسی محفوظ نہیں رہے گی۔ جو کہ بطور انسان ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔ حقوق انسانی کے نام نہاد علم برداروں کو بھی انسانیت کو درپیش اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر کوئی لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
50695

اشرف غنی اور طالبان میں فرق – محمد شریف شکیب

افغان طالبان نے افغانستان میں بیرونی سرمایہ کاری اور ترقی میں تعاون کا خیرمقدم کرنے کا عزم دہراتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارا کوئی بیرونی ایجنڈا نہیں ہے اور ہم اپنا انقلاب کسی دوسرے ملک کو برآمد نہیں کریں گے۔ طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ جو اضلاع ہمارے قبضے میں آئے ہیں وہ لڑائی کے ذریعے نہیں آئے بلکہ وہاں موجود افغان حکومت کی فورسز خود رضاکارانہ طور پرہمارے ساتھ مل گئی ہیں، ورنہ یہ ممکن نہیں ہے ہم ایک دو مہینوں میں سارے افغانستان کو قبضے میں لے لیں‘ایسا 20 سال میں بھی ممکن نہیں تھا کابل انتظامیہ کی فورسز ہم سے رابطہ کرتی ہیں،

وہ چاہتے ہیں کہ اپنے اسلحے کے ساتھ ہمارے ساتھ شامل ہوں۔ طالبان ترجمان نے دعویٰ کیا کہ ہم نے ننگر ہار، کنڑ، فریاب، زابل اور دوسرے علاقوں سے داعش کو ختم کیا ہے، اب افغانستان میں کسی بھی صوبے میں داعش نہیں ہے۔افغانستان میں داعش یا دوسرے گروپس کو جگہ نہیں دیں گے۔طالبان ترجمان نے کہا کہ ہم کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان سمیت کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کریں طالبان ترجمان نے انکشاف کیا کہ بھارت کابل انتظامیہ کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے اور اس کے ذریعے وہ اپنے لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔

کابل سے امریکہ اور نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد طالبان نے افغانستان کے دو تہائی علاقوں پر قبضہ کرلیا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ مستقبل قریب میں افغانستان کا جو بھی سیاسی سیٹ اپ ہوگا اس میں طالبان کا پلڑا بھاری ہوگا۔ طالبان کی طرف سے افغان سرزمین کو پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے کا اعلان بھارت کے لئے واضح پیغام ہے کہ افغانستان میں قونصل خانوں کی آڑ میں جاسوسی اڈے قائم کرنے اور ان کے ذریعے پاکستان میں تخریبی کاروائیاں جاری رکھنے کا انہیں موقع نہیں دیا جائے گا۔

بھارت کی طرف سے کابل انتظامیہ کو اسلحہ کی فراہمی کے حوالے سے طالبان کا بیان بھی پاکستان کے موقف کی تصدیق ہے کہ بھارت افغان سرزمین کو پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے استعمال کرتا رہا ہے۔ دوسری جانب کابل شہر تک محدود اشرف غنی کی حکومت بھارت کے اشاروں پر چلتے ہوئے اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے۔ اسلام آباد میں تعینات افغان سفیر کی بیٹی کے مبینہ اغوا اور تشدد کو بنیاد بناکر افغان حکومت نے پاکستان سے اپنا سفارتی عملہ واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ افغان صدر کا کہنا ہے کہ سفارت کار کی بیٹی پر تشدد کرکے ہماری روح کو زخمی کیا گیا اور جب تک اس واقعے کے مجرموں کو پکڑ کر کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاتا۔

افغان سفارت کار واپس نہیں جائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ افغان سفیر کی بیٹی کو کسی نے اغوا نہیں کیا۔ وہ خود ٹیکسی لے کر پنڈی اور اسلام آباد میں مٹرگشت کرتی رہی اور گھر آکر اغوا اور تشدد کئے جانے کا ڈرامہ رچایا۔ وزارت داخلہ نے بھی سفارت کار کی بیٹی کے اغوا اور تشدد کی تردید کی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کابل حکومت طالبان کی پے در پے کامیابیوں سے بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی ہے اور دانستہ طور پر پاکستان کے ساتھ تعلقات کو خراب کرنا چاہتا ہے۔

بعید نہیں کہ سفیر کی بیٹی کے مبینہ اغوا اور سفارتی عملے کی واپسی کے ڈرامے کا سکرپٹ دلی میں تیار کیاگیا ہو۔ افغان حکومت کو ہوش کے ناخن لینے ہوں گے۔ اوچھے ہتھکنڈوں سے وہ اپنی سیاسی ساکھ کو خود خراب کرنے کے درپے ہوگئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کابل حکومت کو یاد دلایا ہے کہ افغانستان کی سرحد بھارت سے نہیں بلکہ پاکستان سے ملتی ہے۔ ہم چالیس سالوں تک 35لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہے ہیں۔ پاکستان نے افغان امن عمل کے فروغ میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت دینا کابل حکومت کے لئے سیاسی خود کشی کے مترادف ہوگا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
50634

ثقافتی اکیڈیمی۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد شریف شکیب

ثقافتی اکیڈیمی

دنیا میں کوئی بھی قوم اپنے تہذیبی، ثقافتی، ادبی اور تاریخی ورثے سے ناطہ توڑ کر اپنی بقاء کی جدوجہد میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ برصغیر کے اس خطے کی ثقافت، ادب اور تاریخ کے مطالعے سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ ہمارے اسلاف کا شماراپنے دور کی ترقی یافتہ اقوام میں ہوتا تھا۔ گندھار تہذیب کے آثار جہاں سے بھی ملے ہیں ماہرین آثار قدیمہ کے لئے صدیوں پرانی ثقافتی ورثے کی یہ نشانیاں چشم کشا اور حیران کن ہیں۔ گندھارا ہندکو اکیڈمی نے اسی تاریخی ثقافتی اور ادبی ورثے کو اپنا اثاثہ بناکر موجودہ معاشرتی ڈھانچے کو ان بنیادوں پر استوار کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ تیس سال قبل زبان و ادب اور ثقافتی ورثے کو تحفظ دینے کے لئے جو پودا لگایاگیا ہے وہ آج تناور درخت بن چکا ہے۔ اور اس کی آبیاری اپنے دور کے نامور ادیبوں، شاعروں، اہل قلم اور اہل دانش نے کی جن میں رضا ہمدانی، فارغ بخاری، خاطر غزنوی، ڈاکٹر ظہور احمد اعوان اور ڈاکٹر صلاح الدین جیسی شخصیات شامل ہیں۔

کسی ادارے کے قیام اور استحکام کے لئے تین عشروں کی مدت بہت قلیل عرصہ ہے تاہم گندھار اکیڈمی نے اس مختصر عرصے میں اس صوبے میں ادب و ثقافت کی ترقی اور تاریخی ورثے کے تحفظ کے لئے گرانقدر کام ہے اس صوبے میں بولی جانے والی تمام زبانوں کی ترقی اور ترویج کا بیڑہ اکیڈمی نے اٹھایا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ اب تک مختلف زبانوں میں 500سے زائد کتابیں اکیڈمی کی نگرانی میں شائع ہوچکی ہیں ان میں سے کئی کتابوں کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر ایوارڈ بھی ملے ہیں۔ اکیڈمی کے کریڈٹ میں تین بین الاقوامی ادبی و ثقافتی کانفرنسوں کا انعقاد بھی شامل ہے۔ خواتین کے لئے سہ ماہی رسالہ ”فاطمہ“ کا اجراء بھی گندھارا اکیڈمی کا ایک منفرد اعزاز ہے یہ کسی بھی زبان میں چھپنے والا صوبے میں خواتین کا پہلا رسالہ ہے۔ اکیڈمی کے زیراہتمام قومی تہواروں پر ریلیوں، سمیناروں، کانفرنسوں کا انعقاد بھی تواتر سے ہورہا ہے۔

مشاعرے، خطاطی،مضمون نویسی اور تقریری مقابلے بھی کرائے جاتے ہیں۔ اکیڈمی نے ایک لائبریری بھی قائم کی ہے جس میں تین ہزار سے زائد نادر کتابیں موجود ہیں جنہیں انٹرنیٹ سے بھی منسلک کردیاگیا ہے۔ پچیس ہزار الفاظ پر مشتمل ڈکشنری، اڑھائی ہزار محاوروں پر مشتمل کتاب کے علاوہ پشتو اور ہندکو کے دس ہزار مشترک الفاظ کی ڈکشنری کی اشاعت اکیڈمی کا منفرد کارنامہ ہے۔ ان کے علاوہ دس ہزار تصاویر پر مشتمل کلچرل ٹریل بھی بنایاگیا ہے جس میں پشاور کی قدیم عمارات، گلیوں، ثقافتی مراکز، بازاروں، مساجد، امام بارگاہوں، دھرم شالوں،گرجاگھروں اور مندروں کے علاوہ دیگر تاریخی مقامات، اہم سیاسی و ادبی شخصیات اور ثقافتی میلوں کی عکاسی بھی شامل ہے۔ گندھار ہندکو اکیڈمی نے مادری زبانوں میں درسی کتابوں کی اشاعت کا اعزاز بھی حاصل ہے یہ کتابیں پرائمری، مڈل اور سیکنڈری کی سطح پر سکولوں کے نصاب میں شامل کی گئی ہیں۔

خیبر پختونخوا ملک کا وہ واحد صوبہ ہے جہاں سب سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔یہ زبانیں بولنے والی اقوام کی اپنی ثقافت، تاریخ، تمدن، ادب اور تاریخی پس منظر ہے۔ یہ قومیتیں، زبانیں، ادبی و ثقافتی ورثے صوبے کے سماجی گلدان میں انواع و اقسام کے پھولوں کی مانند ہیں۔ انہیں معدوم ہونے سے بچانے اور ان کی آبیاری کی ضرورت ہے جس کا ذمہ داری گندھارا اکیڈمی نے اٹھائی ہے۔ دیگر زبانوں سے تعلق رکھنے والی ثقافتی اور ادبی انجمنوں کو بھی گندھارا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صوبے کے ثقافتی ورثے کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور متعلقہ سرکاری اداروں کو بھی نجی شعبے کی ان ثقافتی اور ادبی تنظیموں کی بھر پور سرپرستی کرنی چاہئے۔ ثقافتی یلغار کے موجودہ دور میں ہم اپنی زبان، اقدار، تہذیب، ثقافت اور روایات سے غیر محسوس طریقے سے دور ہوتے جارہے ہیں جس سے ہمارے تشخص کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔پشتو، ہندکو، کہواراور گوجری کے سوا دیگر زبانوں کے رسم الخط بھی موجود نہیں، ان زبانوں کو قلمی نسخوں کی شکل میں محفوظ بناکر انہیں معدوم ہونے سے بچایاجاسکتا ہے۔ جس کے لئے حکومت، محکمہ ثقافت،میڈیا،ثقافتی اور ادبی انجمنوں کو مل جل کر کام کرنا ہوگا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
49938

غیر اعلانیہ ٹیکسوں کا پہاڑ ……………محمد شریف شکیب

Posted on

حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ فی لیٹر ڈیزل پر عوام سے چالیس روپے 74پیسے جبکہ پٹرول پر 34روپے 24پیسے کا ٹیکس وصول کیا جارہا ہے۔ وزارت پٹرولیم کی طرف سے قومی اسمبلی میں پیش کئے گئے اعدادوشمار کے مطابق ڈیزل کی قیمت خرید 55روپے نو پیسے ہے تاہم عوام کو 95روپے 83پیسے میں فراہم کیا جارہا ہے اور ہر لیٹر پر عوام سے 74فیصد ٹیکس لیا جاتا ہے۔ جبکہ پٹرول فی لیٹر کی قیمت خرید 50روپے 27پیسے ہے لیکن 68فیصد ٹیکس لگا کر عوام کو 84روپے 51پیسے فی لیٹر پٹرول فراہم کیا جاتا ہے۔تیل کی عالمی منڈی میں قیمتوں میں استحکام پایا جاتا ہے۔اور کئی سالوں سے فی بیرل قیمت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ اس کے باوجود ہمارے ہاں ہر دوسرے تیسرے مہینے تیل کی قیمت بڑھائی جاتی ہے۔اوگرا کی طرف سے تیل اور نیپرا کی طرف سے بجلی اور گیس کی قیمت میں ہر سہ ماہی میں دس سے بیس فیصد اضافے کی سمری حکومت کو بھیجی جاتی ہے اور حکومت عوام پر احسان جتاتے ہوئے پانچ سے آٹھ فیصد اضافے کی منظوری دیتی ہے۔ اس پانچ سے آٹھ فیصد اضافے کی وجہ سے اکیس کروڑ پاکستانیوں کی جیبوں سے کتنے پیسے نکالے جاتے ہیں۔ یہ اعدادوشمار اگر سامنے آجائیں لوگوں کے ہوش اڑ جائیں گے۔پچپن روپے کا ڈیزل عوام کو پچانوے روپے فی لیٹر اورپچاس کا پٹرول 84روپے 51پیسے فی لیٹر بیچنا غریب عوام پر ظلم ہے۔ تیل کی قیمتوں میں اضافے سے ہر چیز مہنگی ہوجاتی ہے۔ ایک لیٹر پٹرول یا ڈیزل کی قیمت میں ایک روپے اضافہ بھی ہوجائے تو عوام پر مختلف اشیاء مہنگی ہونے کی صورت میں دس روپے کا اضافی بوجھ پڑتا ہے۔پاکستان میں روزانہ چارلاکھ پچاس ہزار بیرل تیل استعمال کیا جاتا ہے۔ایک بیرل میں 159لیٹر تیل ہوتا ہے۔ گویا ملک بھر میں روزانہ سات کروڑ پندرہ لاکھ پچاس ہزار لیٹر تیل خرچ کیا جاتا ہے۔ اکتالیس روپے فی لیٹر ٹیکس کا حساب لگایا جائے تو روزانہ دو ارب 93کروڑ35لاکھ پچاس ہزار روپے عوام کی جیبوں سے نکالے جاتے ہیں۔اگر اسے سال کے 365دنوں کے ساتھ ضرب دیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تیل مہنگا کرکے عوام کی جیبوں سے سالانہ دس کھرب، 70ارب، 64کروڑ57لاکھ پچاس ہزار روپے نکالے جارہے ہیں۔اب پتہ چلتا ہے کہ ایک غریب ملک جس کی فی کس آمدنی صرف ایک ہزارچار سو 68ڈالر سالانہ ہے۔ان سے دس کھرب روپے غیراعلانیہ ٹیکسوں کی صورت میں وصول کرکے حکمران طبقہ اوربیوروکریسی موجیں اڑارہی ہے۔یہ ہوشرباء اعدادوشمار عام لوگوں کو معلوم ہی نہیں۔ دس بارہ سال قبل کشمیر کی وادی نیلم میں بجلی گھر کے منصوبے کے لئے عوام سے چھ ارب روپے ٹیکس لینے کا فیصلہ کیاگیا۔ یہ طے پایا تھا کہ بجلی کے بلوں میں نیلم جہلم منصوبے کے ٹیکس کے زمرے میں ایک سال کے اندر عوام سے چھ ارب روپے وصول کئے جائیں گے۔ مطلوبہ فنڈز کے حصول کے بعد یہ ٹیکس ختم کیا جائے گا۔ لیکن کئی سالوں سے عوام نیلم جہلم پراجیکٹ کے لئے بجلی کے بلوں میں اضافی ٹیکس دے رہے ہیں۔ اب تک اربوں روپے عوام کی جیبوں سے نکالے جاچکے ہیں مگر اس ظالمانہ ٹیکس کو ختم کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔ نہ ہی نیلم جہلم بجلی گھر مکمل ہوسکا ہے۔ دوسری جانب ٹیکس اور محصولات جمع کرنے والے قومی ادارے کے اعدادوشمار کو سامنے رکھا جائے۔ تو پتہ چلتا ہے کہ ایف بی آر کے ریکارڈ میں اکیس کروڑ کی آبادی میں صرف چودہ لاکھ افراد ٹیکس گذار ہیں۔جن میں سے تقریبا چھ لاکھ افراد نے ٹیکس ریٹرن جمع ہی نہیں کرائے۔ اورصرف ایک فیصد لوگ ہی براہ راست ٹیکس دیتے ہیں۔ ملک کے بڑے صنعت کاروں، کارخانہ داروں، سرمایہ داروں، جاگیر داروں، برآمدکنندگان، بڑے تاجروں اور افسر شاہی سے ٹیکس وصول کرنے کی کسی میں جرات نہیں۔غریب عوام پر بجلی گرا کر کبھی گیس مہنگی کرکے اور کبھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھا کر اربوں کھربوں روپے وصول کئے جاتے ہیں۔ جو اس مفلوک الحال قوم کے ساتھ سنگین زیادتی ہے۔دوہرے ٹیکسوں کے فرسودہ نظام کے تحت صرف کم آمدنی والے اور متوسط طبقے کا ہی تیل نکالا جاتا ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ حکومت ٹیکس نیٹ کا دائرہ وسیع کرے۔عوام کی دوہری کمر پر بوجھ بننے والے غیر اعلانیہ اور خفیہ ٹیکسوں کو ختم کرے۔صنعتی اور زرعی پیداوار پر ٹیکس وصول کرکے ملکی معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش کرے تاکہ قومی وقار کو گروی رکھ کر غیر ملکی قرضوں کے لئے ہاتھ پھیلانے سے قوم کو نجات مل سکے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , ,
6448

روشنی کا سفر ………….محمد شریف شکیب

Posted on

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بالاخر گولین گول ہائیڈل پاور پراجیکٹ کا افتتاح کرلیا۔ 36میگاواٹ کی گنجائش والے پہلے یونٹ سے بجلی کی پیدوار شروع ہوگئی۔ مزید دو یونٹوں سے مجموعی طور پر 108میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی۔ وزیراعظم نے گولین گول بجلی گھر سے چترال کے ہر گاوں اور گھر کو بجلی فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے جس سے ان خدشات کا کافی حد تک ازالہ ہوگیا کہ گولین گول سے اپر چترال کو بجلی نہیں دی جارہی۔ 2015میں ریشن ہائیڈل پاور اسٹیشن سیلاب میں بہہ جانے کے بعد اپر چترال کا پورا علاقہ گذشتہ تین سالوں سے تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے۔ وزیراعظم کے دورے کے موقع پر بجلی کے حوالے سے اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے لئے اپرچترال سے تقریبا آٹھ ہزار افراد نے گذشتہ روز چرون سے لانگ مارچ شروع کیا تھا ۔برنس کے مقام پرایم این اے شہزادہ افتخار الدین، ڈپٹی کمشنر، ڈی پی او، ضلع ناظم اور دیگر حکام نے طویل مذاکرات کے بعد مظاہرین کو یقین دہانی کرائی کہ پیڈو کی ٹرانسمیشن لائن کی ضروری مرمت کے بعد گولین گول سے اپر چترال کو بجلی فراہم کی جائے گی۔ اس یقین دہانی کے بعد لانگ مارچ کے شرکاء اپنا احتجاج ختم کرکے گھروں کو واپس چلے گئے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے پہلے سابق وزیراعظم نواز شریف نے بھی وعدہ کیا تھا کہ گولین گول بجلی گھر سے چترال کو 30میگاواٹ بجلی دی جائے گی۔ جس سے ارندو سے لے کر بروغل تک پورا علاقہ روشن ہوگا۔ پیسکو اور پیڈو کے درمیان ہم آہنگی کے فقدان کے باعث معاملہ اٹک گیا تھا اور امن و امان کا مسئلہ پیدا ہونے کا خدشہ تھا۔پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی کاکہنا تھا کہ انہوں نے پیڈو حکام سے بارہا کہا ہے کہ اپرچترال کو بجلی کی فراہم کے لئے ضابطے کی کاروائی مکمل کرے۔ یا کم از کم مجوزہ فارم ہی بھر کر پیسکو کے حوالے کرے۔ ان کا موقف ہے کہ اپر چترال میں پیسکو کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ ریشن بجلی گھر کاانتظام و انصرام پیڈو کے پاس ہے۔اور تین سال کا عرصہ گذرنے کے باوجود ملبے میں دھنسے ہوئی کروڑوں روپے کی مشینری کو نکالنے پر بھی انہوں نے توجہ نہیں دی۔کروڑوں روپے کی لاگت سے شمسی توانائی کی کٹس اور ڈیزل جنریٹرز ریشن اور بونی میں لگاکر توانائی کا متبادل بندوبست کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ یہی پیسے تباہ شدہ بجلی گھر کی بحالی پر خرچ کئے جاتے تو چار میگاواٹ پیداواری صلاحیت کا حامل ریشن بجلی گھر دو سال پہلے ہی بحال ہوچکا ہوتا۔اور لاکھوں صارفین کو اتنے عرصے تک اندھیروں میں نہ بھٹکنا پڑتا۔اداروں کی زرا سی کوتاہی ان کی اپنی کارکردگی کو متاثر کرنے کے ساتھ معاشرے کے لئے بھی کس قدرنقصان دہ ہوتی ہے۔اس کا اندازہ پیڈو حکام کو گولین گول مسئلے سے یقیناًہوا ہوگا۔پختونخوا انرجی ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کو اپنے کام کی رفتارکے ساتھ پبلک ریلیشن شپ کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔چترال میں 30ہزار میگاواٹ سستی بجلی پیدا کرنے کی گنجائش ہے۔ اس اہم ترین کام کی ذمہ داری پیڈو کے سپرد کی گئی ہے۔ اگر آئندہ پانچ سے دس سالوں کے اندر ان بجلی کے منصوبوں پر عمل درآمد ہوتا ہے تو پورے ملک کی توانائی کی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں اور لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے قوم کو مستقل طور پر نجات مل سکتی ہے۔ گولین گول اور لاوی ہائیڈل پراجیکٹ کے علاوہ چترال میں بجلی کے جن منصوبوں کی نشاندہی ہوئی ہے ان میں 15میگاواٹ کا ایون گول، 25میگاواٹ کا بروم گول،48میگاواٹ کا مستوج ریور ایچ پی پی،99میگاواٹ کا ارکاری گول، 64میگاواٹ کا موژی گرام شوغور پراجیکٹ، 370میگاواٹ کا گہیرت پراجیکٹ، 72میگاواٹ کا استارو پاور پراجیکٹ، 350میگاواٹ کا تورین موری کاری منصوبہ، 260میگاواٹ کا جامی شیل موری لشٹ پراجیکٹ،409میگاواٹ کا گدوبار ایچ پی پی اور 446میگاواٹ کا کاری موشکور پراجیکٹ شامل ہیں۔ان منصوبوں کے لئے بیرونی سرمایہ کاروں کی مدد حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ جس کے لئے پیڈو کو بہترین ہوم ورک کرکے جامع رپورٹ تیار کرنی ہوگی۔ پانی سے سستی بجلی پیدا کرنے کے یہ منصوبے مکمل ہوگئے تو چترال ملک کو بجلی فراہم کرنے والا سب سے بڑا ضلع بن جائے گا۔اور ان منصوبوں کا سب سے زیادہ فائدہ چترال اور خیبر پختونخوا کو پہنچے گا۔سستی بجلی، قیمتی معدنیات اور سیاحت کے بہترین مواقع کے حوالے سے خیبر پختونخوا کا مستقبل انتہائی شاندار اور تابناک ہے۔ تاہم یہ روشن مستقبل حکومت اور منصوبہ سازوں کی نیت نیتی،مخلصانہ کوششوں اورجذبہ خدمت سے مشروط ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
6052

اصلاحات کا نامکمل ایجنڈا ……………محمد شریف شکیب

Posted on

محکمہ صحت خیبر پختونخوا نے اپنی دو سالہ کارکردگی رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ صحت کا بجٹ 30ارب 20کروڑ سے بڑھا کر 66ارب 50کروڑ کردیا گیا۔ دو سالوں کے اندر شعبہ صحت میں سات ہزار پچھتر ڈاکٹروں سمیت 22ہزارمختلف اسامیاں پیدا کی گئیں۔ تدریسی اسپتالوں کے علاوہ ضلعی اور تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتالوں، ریجنل ہیلتھ سینٹرز اور بنیادی صحت مراکز میں لیبارٹریوں کے قیام، ایکسرے، الڑاساونڈ، ای سی جی، ای ٹی ٹی، سی ٹی سکین اور ایم آر آئی کی مشینوں سمیت آلات جراحی کی خریداری پر تین ارب روپے خرچ کئے گئے۔ صحت مراکز کا معیار بہتر بنانے کی بدولت تربیت یافتہ عملے سے زچگیاں کرانے کی شرح 48فیصد سے بڑھ کر 72فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ شعبہ صحت کے حوالے سے چودہ قوانین وضع کئے گئے اور صوبے کی 69فیصد آبادی کو علاج معالجے کی مفت سہولیات فراہم کی گئیں۔سرکاری اسپتالوں میں علاج معالجے کی سہولیات بہتر بنانے ، صفائی کے انتظامات، ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے کی حاضری یقینی بنانے کے حوالے سے آج صورتحال ماضی کے مقابلے میں بہت بہتر ہوئی ہے۔ بڑے سرکاری اسپتالوں میں تبدیلی واضح طور پر نظر بھی آرہی ہے۔ سینئر ڈاکٹروں کی اسپتالوں میں پرائیویٹ پریکٹس کی بدولت عام لوگوں کو پرائیویٹ اسپتالوں اور کلینکوں کی نسبت کم خرچ پر علاج کی بہتر سہولت میسر آگئی ہے۔ ہفتوں ہفتوں اسپتال نہ آنے والے ڈاکٹروں کو اب روزانہ او پی ڈیز اور وارڈوں میں دیکھا جارہا ہے۔ کم عمر بچوں کو لگائے جانے والے ٹیکہ جات کی تعداد بھی چھ سے بڑھا کر دس کردی گئی ہے۔ ڈاکٹروں، نرسوں، ڈسپنسروں ، ٹیکنیشنز اور دیگر طبی عملے کی تنخواہوں اور مراعات میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا گیا ہے۔ تاہم شعبہ صحت میں ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ سرکاری ملازمین کی سوچ اور طرز عمل بدلنے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے انہیں احساس دلانا ہے کہ قوم نے اپنا پیٹ کاٹ کر انہیں پڑھایا ہے۔ انہیں تربیت دی ہے۔ اب انہیں کسی بھی دوسرے شعبے کے ملازمین کی نسبت بہتر تنخواہیں مل رہی ہیں لیکن روز کسی نہ کسی شعبے کے ملازمین سڑکوں پر احتجاج اور مظاہرے کرتے نظر آتے ہیں ۔ آئے روز اسپتالوں کی تالہ بندیاں ہوتی ہیں اورمریضوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔آج بھی دیہی علاقوں کے آر ایچ سیز اور بی ایچ یوز میں ڈاکٹر ڈیوٹی دینے کو تیار نہیں۔ کیونکہ دیہی علاقوں میں شہروں کی نسبت اوپر کی کمائی نہیں ہوتی۔آج بھی محکمہ صحت میں ایسی کالی بھیٹریں موجود ہیں جو نظام کی تبدیلی کے مخالف ہیں۔ وہ سٹیس کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تاکہ ان کی من مانیاں جاری رہیں۔آج بھی سرکاری اسپتالوں کے لئے آنے والی ادویات دکانوں پر بکتی ہیں۔ آج بھی ڈاکٹر کمیشن کی خاطر غیر معیاری فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی ادویات مریضوں کو تجویز کرتے ہیں۔ آج بھی پرائیویٹ لیبارٹریوں کے ٹاوٹس اسپتالوں میں مریضوں کو بہلا پھسلا کر غیر معیاری لیبارٹریوں سے ٹیسٹ کرواتے ہیں جہاں کوئی مستند پیتھالوجسٹ نہیں ہوتا۔ ایک ہی ٹیسٹ شہر کی پانچ مختلف لیبارٹریوں کرایا جائے تو سب کے نتائج ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔آج بھی سرکاری اسپتالوں کی ایکسرے، الڑاساونڈ، سی ٹی سکین اور ایم آر آئی کی اکثر مشینیں خراب ہونے کی شکایات عام ہیں۔تاکہ مریضوں کو اسپتالوں سے باہر یہ ٹیسٹ کروانے پر مجبور کیا جاسکے۔ غیر تربیت یافتہ دائیوں اور عطائیوں کا کاروبار آج بھی دھڑے سے جاری ہے۔ شعبہ صحت میں اصلاحات پر عوام مطمئن ہیں کیونکہ ان اصلاحات کا براہ راست فائدہ عوام کو پہنچتا ہے۔اصلاحات کے حوالے سے حکومت کو عوام کی مکمل تائید و حمایت حاصل ہے۔ اس عمل کو نہ صرف جاری رکھنے بلکہ اس میں مزید تیزی لانے کی ضرورت ہے تاکہ طب جیسے مقدس شعبے کو بدنام کرنے والے مٹھی بھر عناصر کا صفایا کیا جاسکے اور اصلاحات کے عمل کو منطقی انجام تک پہنچایا جاسکے۔ 68سالوں کا گند دو تین سالوں میں اگرچہ صاف نہیں ہوسکتا۔ تاہم قومی خدمت کے جذبے کے تحت بہتری کا عمل جاری رہے تو تبدیلی کا راستہ زیادہ عرصے تک نہیں روکا جاسکتا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
5767

آلودگی کے مہیب سائے ……….امحمد شریف شکیب

Posted on

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب بغیر ماسک پہنے کوئی چل پھیر نہیں سکے گا۔ماحول کو آلودگی سے بچانے کے لئے وفاقی اور صوبائی سطح پر وزارتیں اور محکمے بھی قائم کئے گئے ہیں اور غیر سرکاری تنظیمیں بھی ماحولیاتی آلودگی کم کرنے کا بینر سجاکر اپنی دکانیں کھول رکھی ہیں۔ آلودگی سے ماحول کو بچانے کے لئے قوانین بھی موجود ہیں اور حکومتوں کی طرف سے بھی احکامات جاری کئے جاتے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں آلودگی کا سبب بننے والے پلاسٹک شاپنگ بیگ ختم کرنے کے حوالے سے وزیر اعلیٰ کے احکامات کی صدائے بازگشت بھی ابھی سنائی دے رہی ہے لیکن ان احکامات کو عمل کا جامہ پہنانے پر کوئی توجہ اب تک نہیں دی گئی۔حکام شاید اس انتظار میں ہیں کہ احکامات پر عمل درآمد کے لئے کوئی ٹائم فریم یا ڈیڈ لائن آئے گی تو وہ متحرک ہوں گے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وزیراعلیٰ کے حکم پر کوئی عمل کرے تو اس کا بھلا ہو۔ اگر نظر انداز کیا جائے تو اس کا بھی بھلا ہو۔ہفتہ دو ہفتے یا مہینے دو مہینے کی ڈیڈ لائن بھی اگر احکامات کے ساتھ آجائے۔ تو متعلقہ حکام کے بھی کان کھڑے ہوتے ہیں اور وہ اپنی مٹی پلید ہونے کے ڈر سے کچھ نہ کچھ حرکت کرتے نظر آتے ہیں۔آلودگی کسے کہتے ہیں؟اس کی کیا وجوہات ہیں ؟ اس کا انسانی زندگی اور معاشرے پر کیا اثر پڑتا ہے۔ یہ وضاحت ضروری ہے۔ آلودگی قدرتی بھی ہوسکتی ہے۔ جس میں سیلاب آنا، تودے گرنا، زمین کا کٹاو، چٹانین گرنا، خشک سالی، بے وقت بارشیں ، زلزلے اور طوفان بھی شامل ہیں۔لیکن قدرتی وجوہات کا تناسب صرف پانچ فیصد ہوتا ہے۔جبکہ پچانوے فیصد آلودگی انسانی غفلت، لاپراہی ، آلودگی کے نقصانات سے لاعلمی اورمروجہ قوانین کے نفاذ میں کوتاہی کا نتیجہ ہیں۔جس میں حکومت، وزارتیں،محکمے، عدالتیں، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عام شہری سب ہی ملوث ہیں۔ہم اپنے گھر اور باورچی خانے کو تو صاف کرتے ہیں لیکن کوڑا کرکٹ پلاسٹک کے تھیلے میں ڈال کر دروازے سے باہرسڑک پر پھینک دیتے ہیں۔ گلی کے نکڑ یا کھلی جگہ لے جاکر ڈالتے ہیں۔کارخانوں کا مضر صحت کیمیاوی مواد نالیوں میں بہاتے ہیں۔ گھروں کا کچرا نہروں میں ڈالتے ہیں۔راہ چلتے پھل کھاکر چھلکے سڑک پر پھینکتے ہیں۔ جس سے آلودگی کے ساتھ لوگوں کے پھسلنے اور زخمی ہونے کا خطرہ ہوتا ہے جس کی ہمیں کوئی پروا نہیں۔پبلک ٹرانسپورٹ میں سیگریٹ پینا شروع کرتے ہیں ۔اپنے گھر کی تعمیر کے لئے ریت، مٹی، بجری وغیرہ سڑکوں پر ڈالتے ہیں اور وہاں سے دھول اٹھتی ہے ۔ بھٹہ خشت اور فیکٹریوں کی چمنیوں سے اٹھنے والا زہریلا دھواں آب و ہوا کو آلودہ بنا دیتا ہے ۔پلاسٹک کے تھیلوں کابے تحاشا استعمال بھی آلودگی کا سبب ہے۔ جسے سے نکاسی آب کا نظام بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ کوڑا کرکٹ کو مناسب طریقے سے ٹھکانے نہ لگانے کی وجہ سے جو آلودگی پیدا ہوتی ہے اس سے قرب و جوار کی آبادی کو سنگین خطرات لاحق ہوتے ہیں۔زیادہ شور اورتیز روشنی بھی آلودگی کے زمرے میں آتے ہیں۔ درختوں اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی سے بھی قدرتی ماحول پر تباہ کن اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ یہ آلودگی موسمی تغیرات کا بھی سبب بن رہی ہے ۔ بارشیں کم ہوگئی ہیں۔ درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے۔ برف کے خزانے تیزی سے پگھلنے لگے ہیں۔جس سے نہ صرف معاشرے بلکہ پورے ملک کو خطرہ ہے۔ قدرتی ماحول کو مکمل تباہی سے بچانے کے لئے حکومت، سرکاری اداروں، سول سوسائٹی، غیر سرکاری اور فلاحی تنظیموں اور عوام کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ تعلیمی ادارے اور مدارس بھی اس حوالے سے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔جہاں بچوں کو آلودگی کے خطرات سے آگاہی فراہم کرکے ذمہ دار شہری بنایاجاسکتا ہے۔ حکومت قدرتی ماحول کے تحفظ کے حوالے سے مروجہ قوانین پر عمل درآمد یقینی بنائے اور سرکاری حکام اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر کرتے ہوئے ماحول کو بچانے کی اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔ آلودگی کے نقصانات سے متعلق عوامی شعور اجاگر کرنے کے لئے عوامی سطح پرمہم چلائی جائے اور دوسری طرف ہر شہری صفائی کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہوئے ماحول کو آلودگی سے پاک کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرے تو معاشرے کو درپیش سنگین خطرات کو کچھ عرصے کے لئے ٹالا جاسکتا ہے۔ آلودگی کا مسئلہ غربت، بے روزگاری اور بدامنی سے بھی سنگین مسئلہ ہے۔ خداکرے کہ ہماری حکومتیں، منتخب نمائندے، عوام کے ٹیکسوں سے پلنے والے حکام آلودگی کے مسئلے کو قومی مسئلہ سمجھ کر اس کے حل کے لئے ایمانداری اور دیانت داری سے کوششیں شروع کریں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , ,
5581

تعلیمی بورڈز کی خودمختاری پر وار ………محمد شریف شکیب

Posted on

خیبر پختونخوا حکومت نے تعلیم ، صحت اور پولیس کے شعبوں میں اصلاحات کے لئے کچھ ایسے اقدامات کئے ہیں جن کی ضرورت کئی عشروں سے محسوس کی جارہی تھی۔ ان اصلاحات کی بدولت مذکورہ اداروں کی کارکردگی میں قدرے بہتری آئی ہے۔لیکن سو فیصد نتائج کی چار سالوں میں توقع رکھنا خود فریبی ہے۔ صوبائی حکومت کے زیر انتظام متعدد محکمے ایسے ہیں جہاں اصلاحات کی ضرورت ہے لیکن صوبائی حکومت نے اب تک ان پر توجہ نہیں دی۔ اور چند شعبے ایسے ہیں جہاں اصلاحات لانے کی فوری ضرورت نہیں تھی۔ لیکن افسر شاہی نے ان شعبوں میں اصلاحات کے سیاسی فوائد گنوا کر حکومت کو شیشے میں اتار کر بوتل میں بند کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ جن میں تعلیمی بورڈ کا شعبہ بھی شامل ہے۔ خیبر پختونخوا کو انتظامی سہولت کے لئے آٹھ تعلیمی بورڈز میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں پشاور بورڈ،سوات، کوہاٹ، ملاکنڈ، ایبٹ آباد، مردان، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان بورڈ شامل ہیں۔ پہلے صوبے کا گورنر تعلیمی بورڈز کا سربراہ ہوا کرتا تھا۔جس کی بدولت تعلیمی بورڈز کے معاملات میں سیاسی مداخلت صفر تھی۔ 2005متحدہ مجلس عمل کی حکومت نے قانون سازی کے ذریعے تعلیمی بورڈز کی سربراہی گورنر سے لے کر وزیراعلیٰ کے ہاتھ میں دیدی۔ جس کے بعد تعلیمی بورڈز میں سیاسی مداخلت کے راستے کھل گئے۔ اس وقت کے وزیراعلیٰ نے بعد ازاں اعتراف کیا کہ تعلیمی بورڈز کے معاملات کو چھیڑ کر انہوں نے سنگین غلطی کی ہے۔ اس قانون کے تحت سکولوں کے پرنسپلز اور کالجوں کے اساتذہ کو ڈپوٹیشن پر تعلیمی بورڈز میں اعلیٰ انتظامی عہدوں پر تعینات کیا جانے لگا۔ سکول اور کالج سے بورڈ میں تبادلے کے لئے وزیراعلیٰ اور صوبائی وزراء کے پاس سفارشوں کے انبار لگنے لگے۔ اس وقت تمام تعلیمی بورڈز میں بیشتر انتظامی عہدوں پر یہی ڈپوٹیشن پر آنے والے افسران براجمان ہیں۔ جس کا ایک نقصان ان تعلیمی اداروں اور طلبا کو پہنچا۔ جن کے اساتذہ ڈپوٹیشن پر جانے کی وجہ سے عہدے خالی ہوگئے اور سب سے زیادہ نقصان خود تعلیمی بورڈز کو پہنچا۔ جو آزادی سے کام نہیں کرسکتے اور ڈپوٹیشن افسروں کے ذریعے ان کے معاملات میں براہ راست سیاسی مداخلت ہورہی ہے۔ شنید ہے کہ امتحانی نظام میں اصلاحات کی آڑ میں تعلیمی بورڈز کی خود مختاری ختم کرکے انہیں ثانوی و اعلیٰ تعلیم کے ماتحت کرنے کے لئے قانون بنایا جارہا ہے۔ مجوزہ بل کا عنوان تو تعلیمی بورڈز میں اصلاحات ہی رکھا گیا ہے لیکن جن شقوں کو تبدیل کیا گیا ہے ان میں کہیں بھی نقل کے خاتمے اور بورڈ کے انتظامی امور میں اصلاح کا کوئی نکتہ نہیں ہے۔ باور یہی کیا جاتا ہے کہ میٹرک اور ایف اے ، ایف ایس سی کے امتحانات میں سرکاری سکولوں کی مایوس کن کارکردگی کی خفت مٹانے کے لئے محکمہ تعلیم کے ارباب اختیار تعلیمی بورڈز کو اپنی تحویل میں لانا چاہتے ہیں تاکہ امتحانات میں من پسند نتائج حاصل کئے جاسکیں۔اور کرپشن کے لئے نئی نئی راہیں کھل سکیں۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں کہ ایک طرف حکومت خراب کارکردگی کے حامل سرکاری اداروں کی نجکاری کررہی ہے دوسری جانب اچھی کارکردگی دکھانے والے خود مختار اداروں کو اپنے ہاتھ میں لینے کا پروگرام بنا رہی ہے۔ سرکاری محکموں میں اصلاحات کے حوالے سے صوبائی حکومت کی نیت شک و شبے سے بالاتر ہے لیکن تعلیمی بورڈز کی خود مختاری ختم کرکے انہیں محکمہ تعلیم کے ماتحت لانے کے حوالے سے زمینی حقائق شاید وزیر اعلیٰ پرویز خٹک، وزیرتعلیم عاطف خان اور مشتاق غنی کے علم میں بھی نہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ محکمے کے نچلے درجے کے چند افسروں نے ایک غیر سرکاری تنظیم کے کنسلٹنٹ کے ذریعے بورڈز میں اصلاحات کا مسودہ قانون تیار کیا ہے۔ اور حکومت کو اندھیرے میں رکھ کر اسمبلی سے اس قانون کی منظوری لینے کی تیاریاں ہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی کارکردگی اور معیار بہتر بنانے کے دیگر کئی طریقے ہیں۔ حکومت سرکاری سکولوں اور کالجوں پر سالانہ قوم کے ٹیکسوں کے اربوں روپے خرچ کرتی ہے۔ اگر بورڈ کے امتحان میں وہ نجی تعلیمی اداروں کا مقابلہ نہیں کرپاتے ۔تو تدریسی نظام میں نقائص ہوں گے جنہیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ شارٹ کٹ لے کر بورڈ سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے سے تعلیم کا معیار بہتر نہیں ہوسکتا۔ وزیراعلیٰ اور وزیرتعلیم کو مجوزہ بل منگوا کر پڑھ لینا چاہئے کہ اس قانون سے نقل کی روک تھام اور بورڈز کی کارکردگی کا معیار بہتر ہوگا یا سیاسی مداخلت کی نئی راہیں کھلنے سے معماران قوم کا استعداد جانچنے والے ادارے کا حلیہ بگڑ جائے گا۔چند لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے قوم کے مستقبل سے کھیلنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
4144

جوش نہیں، ہوش سے کام لیں……… محمد شریف شکیب

Posted on

سپریم کورٹ نے آف شور کمپنی کو اپنے اثاثوں میں ظاہر نہ کرنے پر تحریک انصاف کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین کو تاحیات عوامی عہدے کے لئے نااہل قرار دیا ہے۔ جبکہ پارٹی کے قائد عمران خان کو کرپشن کے الزامات ثابت نہ ہونے پر بری کردیا۔ عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے پر ملک میں نئی سیاسی بحث چھڑ گئی ہے۔پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کا اے ٹی ایم بند ہوگیا۔ کوئی کہتا ہے کہ جہانگیر ترین نے جہاز کی چابیاں واپس لے لیں اب عمران خان کو پیدل مارچ کرنا پڑے گا۔کسی دل جلے نے پوسٹ کیا ہے کہ پی ٹی آئی کو مرکزی سیکرٹری جنرل کے عہدے کے لئے موزوں امیدوار درکار ہیں۔ جہاز یا ہیلی کاپٹر مالکان کو ترجیح دی جائے گی۔مسلم لیگ ن نے عدالتی فیصلے کو محض دکھاوا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر منصفانہ فیصلہ آتا تو تحریک انصاف رہتی نہ ہی عمران خان سیاسی منظر نامے میں موجود ہوتے۔ لیگی قیادت نے الزام لگایا ہے کہ عدالتوں نے عمران خان کو بچانے کے لئے جہانگیر ترین کو قربانی کا بکرا بنادیا۔ جو پانامہ کیس کے معیار کی نفی ہے۔لیگی رہنماوں نے حنیف عباسی کیس میں عدالتی فیصلے پر عدلیہ اور ججوں کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکمران جماعت عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی کی مہم سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ عدلیہ سے محاذ آرائی پر ان کے پارٹی قیادت سے اختلافات ہیں جس کی وجہ سے انہیں پارٹی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کرنی پڑی۔چوہدری نثار کی طرح حکمران جماعت کے سینئر قائدین بھی محاذ آرائی کی سیاست سے نالاں نظر آتے ہیں لیکن میاں برادران اور پارٹی کے جونیئر رہنماوں کا موقف یہ ہے کہ مسلم لیگ کو بچانا ہے تو اینٹ کے بدلے پتھر والی حکمت عملی اپنانی ہوگی۔ اسی دوران سپیکر قومی اسمبلی ایازصادق کا بیان بھی سامنے آیا جس میں انہوں نے کسی ناگہانی خطرے کی بات کی ہے۔ تاہم وزیراعظم شاہد خاقان نے اسے سپیکر کا وہم قرار دیتے ہوئے ان کے تحفظات دور کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ موجودہ حکومت اور اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے میں چند ماہ باقی رہ گئے ہیں۔ ملک اور جمہوریت کے لئے بہتر یہی ہے کہ منتخب حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے۔ پرامن انتقال اقتدار کا عمل بلاتعطل جاری رہے۔ تاکہ سیاست دانوں اور عوام کی جمہوریت تربیت ہوتی رہے۔ اداروں سے محاذ آرائی کی پالیسی سے کسی جماعت کو وقتی طور پر فائدہ تو پہنچ سکتا ہے لیکن ملک و قوم اور جمہوریت کے لئے محاذ آرائی کا عمل زہرقاتل ہے۔ تیس چالیس سال پہلے کی سیاست اور آج کی سیاست میں بہت فرق ہے۔ عوام اب سیاسی طور پر باشعور ہوچکے ہیں۔ وہ حکومتوں کو کارکردگی کے ترازو میں تولنے لگے ہیں۔سیاسی طور پر شہید ہونے کی پالیسی سیاسی جماعتوں کے لئے مستقل موت کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کو سیاسی لحاظ سے بالغ ہونے کے لئے مزید وقت درکار ہے۔ انہیں اپنی صفوں میں جمہوریت لانے کی ضرورت ہے۔ جمہوریت رواداری، صبر، استقامت ، مفاہمت اورنظام میں تسلسل کی متقاضی ہے۔ کرسی کے حصول کو اپنا مقصد حیات بنانے کے بجائے سیاست کو خدمت کا ذریعہ بنانا ہوگا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ جمہوری قوتوں کے غیر جمہوری طرز عمل کی وجہ سے غیر جمہوری قوتوں کے لئے راستے ہموار ہوتے رہے۔سیاسی محاذ آرائی کی وجہ سے ملک کے حالات اس نہج پر پہنچ جاتے ہیں کہ ملک کی بقاء اور اداروں کو بچانے کے لئے فوج کو بار بار مداخلت کرنی پڑی۔جس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑا۔ سیاست جوش کا نہیں ۔ ہوشمندی کا کھیل ہے۔ تدبر کا عملی مظاہرہ کرنے والے سیاست دان ہی مدبر کہلاتے ہیں۔روپے کی قدر میں کمی، مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ، امن و امان کی بگڑتی صورتحال ، سیاسی طور پر بحرانی کیفیت اور سرحدوں پر مسلسل کشیدگی کا تقاضا ہے کہ محاذآرائی سے اجتناب کیا جائے اور قومی اتحاد و یک جہتی کو فروغ دیاجائے۔ ملک و قوم کی بقاء پر اپنی سیاسی دکان چمکانے کی قوم اب اجازت نہیں دے گی۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , ,
3210

مہنگے ٹماٹر کا متبادل ……….. محمد شریف شکیب

Posted on

پنجاب کے صوبائی وزیرصنعت شیخ علاء الدین نے قوم کو مشورہ دیا ہے کہ ٹماٹر اگر مہنگے ہیں۔ گرانی کی وجہ سے لوگ اشیائے ضروریہ خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے ۔ تو انہیں کتے، بلیاں، چوہے اور جوتے کھاکر اپنا گذارہ کرنا چاہئے۔ دیگر قوموں نے بھی مشکل وقت میں یہی چیزیں کھاکر اپنی مشکلات پر قابو پایا ہے اور انہوں نے دنیا میں نام پیدا کیا ہے۔ موصوف یہ بھی فرماتے ہیں کہ بھارت سے درآمد ہونے والا ٹماٹر اڑھائی سو روپے کلو فروخت ہورہا ہے۔ ضروری تو نہیں کہ بندہ ٹماٹر ہی کھانے پر بضد رہے۔ حضرت شیخ کا یہ مشورہ اس لحاظ سے غیر منطقی اور بے تکا لگتا ہے کہ اگر ٹماٹر مہنگے ہیں تو کتنے بلیاں اور چوہے ٹماٹر کا متبادل کیسے ہوسکتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو اس طرح کے مفت بے تکے مشورے دینے کی بیماری ہوتی ہے۔ وہ اس تاک میں رہتے ہیں کہ کسی پر مشکل وقت آجائے تاکہ وہ فوری طور پر اس کے پاس پہنچ کر اظہار ہمدردی کے ساتھ اپنے مفت مشورے بھی دے کر دل کا غبار ہلکا کرسکیں۔ پنجاب کے وزیرصنعت کے ان مشوروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم لیگ کی قیادت کو اسی قسم کے وزیروں اور مشیروں کی وجہ سے برے دن دیکھنے پڑے ہیں۔ ورنہ ملک کے سب سے بڑے صوبے اور وفاق میں اپنی حکومتیں ہونے کے باوجود شریف برادران کو آج کل جو پاپڑ بیلنے پڑ رہے ہیں ایسی صورت حال سے انہیں اپوزیشن میں رہنے کے باوجودکبھی سامنا نہیں کرنا پڑا ہوگا۔اگر شریف برادران اپنے وزیروں اور مشیروں کو کچھ عرصے کے لئے چھٹی دیدیں اور اپنی عقل اور تجربے کو بروئے کار لائیں تو انہیں بہت سی پریشانیوں سے نجات مل سکتی ہے۔ فرانس میں روٹی مہنگی ہونے کی وجہ سے عوام کے احتجاج پر وہاں کی شہزادی نے یہ معصومانہ مشورہ دیا تھا کہ اگر روٹی مہنگی ہے تو یہ لوگ کیک اور ڈبل روٹی کیوں نہیں کھاتے۔ ڈبل روٹی تو روٹی کی متبادل ہوسکتی ہے لیکن کتے بلیاں ٹماٹر کی متبادل ہونے کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہمارے ہاں ایک یہ روایت ہے کوئی اپنا مکان بنانے کا ارادہ کرے تو ہر شخص اپنی سوچ اور پسند کے مطابق اسے نقشہ بتاتا ہے۔اور اسی نقشے کے مطابق مکان بنانے کی تلقین بھی کرتا ہے۔ جب کوئی بیمار پڑ جائے تو لوگ صرف اپنے ماہرانہ مشوروں سے نوازنے کے لئے اس کی عیادت کو جاتے ہیں۔ اور مریض کو دیکھتے ہی کسی بڑے تجربہ کار حکیم کی طرح اس کے مرض کی نوعیت بتاتے اور علاج تجویز کرتے ہیں۔ اکثر لوگوں کو یہ مشورہ دیتے ہوئے بھی سنا گیا ہے کہ کسی ڈاکٹر کو دکھانے اور ٹیسٹ وغیرہ میں پیسے ضائع کرنے کی ضرورت نہیں۔ صاف صاف نظر آرہا ہے کہ یہ فلاں مرض ہے ۔ یہی مرض میرے دادا، خالو، ماسی ، داماد کی چچی، بہنوئی کی خالہ اور سالے کی ساس کو بھی ہوئی تھی۔ فلاں ٹوٹکے استعمال کرنے سے اسے ایسا افاقہ ہوا۔ جیسے کبھی وہ بستر پر پڑا ہی نہ ہو۔خواتین مفت مشورہ دینے کے فن میں مردوں سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ کئی بیماروں کو اپنے ٹوٹکوں کی وجہ سے اگلے جہاں پہنچانے کے باوجود ان کی تسلی نہیں ہوئی اور وہ مفت مشورہ دینے کو اپنا مقصد حیات سمجھتی ہیں۔شیخ علاء الدین نے مہنگائی کے مارے عوام کو کتے ، بلیاں اور چوہے جیسے حرام جانور کھانے کا مشورہ دینے کے ساتھ جوتے کھانے کی بھی صلاح دی ہے۔ جوتے کھانے کا مشورہ شاید وہ خصوصی طور پر مرد حضرات کو دینا چاہتے ہوں گے۔ کیونکہ ہمارے معاشرے میں کھانے کے لئے کما کر لانا مرد کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے اور خالی ہاتھ آنے پر ان کی جوتوں سے تواضع ویسے بھی ہوتی ہے۔ اس لئے جوتے کھانے کا مشورہ دینا بھی بے محل ہے۔ وزیرموصوف کو شاید یہ معلوم نہ ہو۔ کہ معاہدہ عمرانی کے تحت عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ،انہیں زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی ، صحت، تعلیم اور روزگار کی ضمانت دینا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اگر کوئی حکومت اپنی یہ بنیادی ذمہ داری پوری نہیں کرتی۔اور عوام کو ان کی قوت خرید کے مطابق انہیں ٹماٹر، پیاز، آلو اور دال ساگ مہیا نہیں کرسکتی۔ تو اسے مسند اقتدار سے چمٹے رہنے کا کوئی حق نہیں۔ اسمبلی کے فلور پر عوام کو حرام خوری کا مشورہ دینے والے صوبائی وزیر کے ریمارکس پر تبصرے شروع ہوچکے ہیں۔ لیکن چونکہ بات پنجاب اسمبلی اور مسلم لیگ کی چل رہی ہے اس لئے شاید کوئی سخت ردعمل نہ آئے۔ اگر یہی بات خدانخواستہ خیبر پختونخوا کا کوئی وزیریامشیر کرچکا ہوتا۔تو اب تک ملک میں ایک ہنگامہ برپا ہوتا۔ کیونکہ ہمارے حکمران گھروں کی رونق کو ہنگامے پر ہی موقوف سمجھتے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
2920

فرنٹ لائن فورس …………. محمد شریف شکیب

Posted on

خیبر پختونخوا پولیس کا ایک اور اعلیٰ افسر اپنے فرض پر قربان ہوگیا۔ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس ہیڈ کوارٹر محمد اشرف نور باغ ناراں حیات آباد کے قریب خود کش حملے میں شہید ہوگئے۔ موٹر سائیکل سوار خود کش حملہ آور سڑک کے کنارے پر گھات میں موجود تھا۔ جونہی موڑ پر پہنچ کر اے آئی جی کی گاڑی کی رفتار کم ہوئی۔ حملہ آور نے گاڑی کے قریب آکر خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ اشرف نور شہادت پانے والے خیبر پختونخوا پولیس کے ڈی آئی جی رینک کے چوتھے افسر ہیں اس سے قبل ڈی آئی جی صفوت غیور کو 2010میں پشاور صدر کے مصروف ترین علاقے ڈینز چوک کے قریب دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ڈی آئی جی عابد علی اور ملک سعد بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ ان کے علاوہ چھ ایس پیز اور انیس ڈی ایس پیزبھی دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ دہشت گردی کی لہر میں اب تک خیبر پختونخوا پولیس کے ایک ہزار 268افسران اور اہلکار شہادت کا مرتبہ پاچکے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔ رواں سال کے ابتدائی گیارہ مہینوں میں اشرف نور سمیت36افسران اور اہلکارشہید ہوچکے ہیں۔ہر واقعے کے بعد حکومت اور انتظامیہ کے اعلیٰ حکام کا بیان آتا ہے کہ شہداء کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی۔ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں گذشتہ پندرہ سولہ سالوں کے دوران خیبر پختونخوا پولیس فرنٹ لائن فورس کا کردار ادا کرتی رہی ہے۔ سانحہ حیات آباد طویل وقفے کے بعد پشاور میں دہشت گردی کا بڑا واقع ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کی کمر توڑنے اور ان کا قلع قمع کرنے والی باتیں خود فریبی ہیں۔ دہشت گرد آج بھی ہمارے آس پاس موجود ہیں اوراپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لئے جہاں چاہتے ہیں کاروائی کرتے ہیں۔ اے آئی جی اشرف نورکو نشانہ بنانے سے پہلے خود کش حملہ آور نے علاقے میں ریکی بھی کی ہوگی جس کی پولیس والے بھی تصدیق کرتے ہیں۔ حیات آباد جیسے حساس علاقے میں گریڈ اکیس کے ایک افسر کو اتنی آسانی سے نشانہ بنائے جانا ارباب اختیار کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ اس واقعے کو ناقص سیکورٹی کا نتیجہ قرار دینا بھی مبالغہ نہ ہوگا۔ پولیس عوام کی جان و مال اور عز ت و آبرو کی حفاظت کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ اگر پولیس ہی کے اے آئی جی رینک کا افسر بھی شہر میں محفوظ نہ ہو۔ تو عام لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہونا فطری امر ہے۔ حکام کی رائے ہے کہ قبائلی علاقوں میں جاری آپریشن کی وجہ سے شدت پسند شہروں کی طرف رخ کرچکے ہیں کیونکہ دیہی قبائلی علاقوں کی نسبت شہروں میں چھپنا اور واردات کرنا آسان ہوتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر شدت پسندوں کا کوئی گروپ پشاور، مردان، ڈیرہ، کوہاٹ، نوشہرہ، صوابی یا دوسرے شہروں کا رخ کرتا ہے تو خفیہ ایجنسیوں کو اس کی خبر کیوں نہیں ہوتی۔عام طور پر شدت پسند کسی کو نشانہ بنانے سے پہلے وارننگ دیتے ہیں۔بہت کم واقعات میں بغیر وارننگ دیئے کاروائی کی جاتی ہے۔ اے آئی جی اشرف نور کو ہی آخر کیوں خود کش حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ کیا انہیں کوئی دھمکی آمیز خط، فون یا پیغام ملا تھا۔اس معاملے کی تفصیلی تحقیقات اور حقائق کا کھوج لگانے کی ضرورت ہے۔ پشاور میں آتش و آہن کی بارش کافی عرصے سے جاری تھی۔ حالیہ چند سالوں میں بم دھماکوں اور دہشت گردی کے واقعات میں کمی سے شہریوں نے سکھ کا سانس لیا تھا اور ترقی کا پہیہ حرکت کرنے لگا تھا کہ دہشت گرد کا یہ المناک واقعہ رونما ہوا۔جبکہ عام انتخابات بھی سر پر ہیں۔ ابھی صوبہ بھر میں انتخابی سرگرمیوں کا آغاز ہونا ہے۔ انتخابی، سیاسی، تعمیراتی، تعلیمی اور معاشرتی سرگرمیوں کا تعلق امن و آشتی سے ہے۔ اور امن برقرار رکھنا حکومت کی سب سے پہلی اور اہم ترین ذمہ داری ہے۔ جس پر سمجھوتہ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کا بھی بخوبی اندازہ ہے کہ صوبے میں اس وقت امن کی بحالی کس قدر ضروری ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
2318

الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا بل………… محمد شریف شکیب

Posted on

قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے الیکشن ایکٹ 2017کے آرٹیکل 203میں ترمیم کا بل مسترد کردیا۔ نااہل قرار دیئے گئے شخص کو سیاسی جماعت کی قیادت کے لئے بھی نااہل قرار دینے سے متعلق بل پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر نے قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا۔ سینٹ اس ترمیمی بل کی پہلے ہی منظوری دے چکی تھی۔ تاہم قومی اسمبلی میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعتوں نے بل کی مخالفت کی۔ یوں نااہل شخص کو پارٹی سربراہ بنانے کے حق میں 163اور مخالفت میں 98ووٹ پڑے۔آئین میں بھی واضح طور پر درج ہے کہ عدالت سے نااہل ہونے والا کوئی شخص قومی، صوبائی اسمبلی اور سینٹ کا ممبر بن سکتا ہے نہ ہی کسی عوامی عہدے پر فائز ہوسکتا ہے۔ نہ ہی سزایافتہ شخص کسی سیاسی جماعت کا سربراہ یا عہدیدار بن سکتا ہے۔بل قومی اسمبلی سے منظور ہونے کی صورت میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف مسلم لیگ ن کی قیادت سے فارع ہوسکتے تھے۔ جنہیں ان کی پارٹی نے حال ہی میں پارٹی کی قیادت کرنے کے لئے اعتماد کا ووٹ دیا تھا۔ بل کی محرک جماعت پیپلز پارٹی کو بھی معلوم تھا کہ قومی اسمبلی سے بل کی منظوری کی صورت میں سابق صدر آصف زرداری بھی پارٹی کی سربراہی کے اہل نہیں رہیں گے کیونکہ ان کے خلاف بھی کچھ مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور کچھ مقدمات ابھی تیاری کے مرحلے میں ہیں۔تاہم بل کی منظوری کا فائدہ آگے چل کر جمہوری نظام کو پہنچ سکتا تھا۔مگر ہمارے سیاست دانوں کا مطمح نظر فوری طور پر ذاتی فائدہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اس سے جمہوریت کو نقصان پہنچے۔ قوموں کی برادری میں ملک کی جگ ہنسائی ہو۔ اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا۔کسی نااہل شخص کو پارٹی کا سربراہ بنانے سے متعلق بل کی منظوری شاید جمہوریت کی تاریخ میں پہلا واقعہ ہے ۔جس کا مقصد فرد واحد کو فائدہ پہنچانا اور اسے کسی ممکنہ سزا سے بچانا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں جمہوریت، پارلیمنٹ، آئین اور قانونی کی بالادستی قائم کرنے کے دعوے داروں نے ہمیشہ اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کے لئے آئین کو مسخ کیا۔ پارلیمنٹ کو بدنام کیا اور قانون کی بالادستی کا ستیاناس کردیا۔جس کی وجہ سے بار بار ملک میں انارکی جیسی صورت حال پیدا ہوتی رہی۔ قوم بحرانوں کے دہانے پہنچتی رہی اور ملک کو بچانے کے لئے غیر سیاسی قوتوں کو مداخلت کرنی پڑی۔ ایک کہاوت ہے کہ کتا ہڈی کو نہ خود چبا سکتا ہے نہ دوسروں کو ہڈی ملنے کا روادار ہوسکتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔ اقتدار کی کرسی پر بیٹھے لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر قیمت پر کرسی سے چمٹے رہیں۔ ہڈی اگر انہیں نہیں ملتی تو ساتھیوں میں سے کسی کو بھی نہ ملے۔ بیشک بھیڑیئے آکر اٹھالے جائیں۔اس ملک کا مستقبل صرف اور صرف جمہوریت سے وابستہ ہے۔ لنگڑی لولی جمہوریت بھی بہترین آمریت سے بہتر ہے۔ آمریت کا راستہ روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ جمہوریت کو مضبوط کیا جائے۔ اور اس کے لئے قربانیاں بھی دینی پڑیں۔ تو اس سے دریغ نہ کیا جائے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے خاندان نے جمہوریت کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ آج ہمیں جو جمہوریت نما نظام نظر آتا ہے وہ بھٹو خاندان کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ لیکن صرف ایک پارٹی کو قربانی کا بکرا بنانے سے جمہوریت مستحکم نہیں ہوسکتی۔ تمام سیاسی قوتوں کو جمہوریت کے استحکام کے لئے اپنے حصے کی قربانی دینی ہوتی ہے۔ جس کے لئے سب سے پہلے سیاسی پارٹیوں میں جمہوریت لانی پڑتی ہے اس کے بعد سیاست دانوں کو اپنا رویہ جمہوری بنانا پڑتا ہے۔ صرف جمہوریت کی راگ الاپنے سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کروقتی طور پر سیاسی مفادات تو حاصل نہیں کئے جاسکتے ہیں۔جمہوری نظام کو مضبوط نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان کی 70سالہ سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو 35سال تک یہاں آمریت مسلط رہی ہے۔جس کی وجہ سے ملک اور قوم کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ہمارے سیاست دانوں خصوصا اہل اقتدارکواپنی کوتاہیوں کی وجہ سے جب اپنے مفادات خطرے میں نظر آتے ہیں تو اسے غیر جمہوری قوتوں کی سازش اور غیر ملکی ہاتھ کی کارستانی قراردے کر ریت میں منہ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جمہوری اور سیاسی نظام سے عوام کا اعتماد اٹھتا جارہا ہے۔ عام انتخابات میں تیس سے چالیس فیصد ٹرن آوٹ سیاست دانوں پر عوام کے عدم اعتماد کا واضح ثبوت ہے۔ سیاسی قوتوں کے لئے شاعر مشرق کا یہ قول کھلا پیغام ہے کہ ۔
ہو صداقت کے لئے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
2195

آلو ٹماٹر کے مختلف درجات ………..محمد شریف شکیب

Posted on

سنا ہے کہ بھارت کے بعد افغانستان اور ایران نے بھی ہم پر ٹماٹر بند کردیا ہے۔ پانی بند کرنے والی بات شہدائے کربلا کے حوالے سے مشہور ہے کہ یزیدی فوج نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے جانثاروں پر دریائے فرات کا پانی بند کردیا تھا۔ بھارت کی طرف سے ڈیم بناکر پاکستان کا پانی روکنے اور سیلاب کی صورت میں پانی پاکستان کی طرف چھوڑنے کی باتیں بھی میڈیا پر سننے کو ملتی رہی ہیں۔اب پہلی بار ٹماٹر اور پیاز کی برآمد روک کر بھارت نے ہمارے نوالوں کا ذائقہ چھیننے کی کوشش کی ہے۔ پابندی صرف بھارت کی طرف سے ہوتی تو ہم اسے اپنے ایمان کا امتحان قرار دے کر قبول بھی کرلیتے۔ لیکن ہمارے پڑوسی مسلمان ملکوں ایران اور افغانستان نے بھی ہم نے ٹماٹر اور پیاز بند کرکے ہمارے دشمن کے ہاتھ مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے۔ جو بلاشبہ ہمارے لئے بڑے دکھ کی بات ہے۔ یہ ساری باتیں سبزی منڈی کے اڑھتیوں اور سپلائی کنندگان نے پھیلائی ہیں۔ جس کی آڑ میں ٹماٹر کی قیمت دو سو روپے اور پیاز کی قیمت سو روپے فی کلو گرام کردی گئی ہے۔ اس خدشے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کہ اپنوں نے ہی زیادہ منافع کمانے کی خاطر سبزیاں ذخیرہ کی ہوں اور ہماری دلجوئی کے لئے اسے دشمن کی کارستانی قرار دے رہے ہوں۔ بات اگر ٹماٹر پیاز تک محدود رہتی تو لوگوں کو کسی حد تک قرار آجاتا۔ سبزی نام کی ہر چیز آج کل سونے کے دام بک رہی ہے۔ آلو اسی روپے تو بھنڈی سوروپے کلو، کدو پچاس روپے تو گاجر ستر روپے کلو، کریلہ اور مٹر تو سبزی ممنوعہ بن گئی ہیں کیونکہ مٹر ڈھائی سو اور کریلہ دو سو روپے کلو فروخت ہورہے ہیں جن کی قیمت سن کر ہی جھرجھری آتی ہے۔ دالیں پہلے ہی عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہوگئی تھیںیہ منہ اور مسور کی دال والی کہاوت تو سنی تھی۔ اب یہ کہاوت اپنے آپ پر صادق آنے کا گمان ہوتا ہے۔اور بندہ منہ ٹٹول کر دیکھتا ہے کہ کہیں منہ ٹیڑھا تو نہیں ہوا۔ اچھے دنوں میں سبزی فروش تازہ اور سالم ٹماٹر، پیاز، گاجر، آلو اور دیگر سبزیوں کو الگ کرکے خراب اور ناقص مال غریبوں میں تقسیم کرتے تھے۔ اب غریبوں والا مال بھی دو نمبر اور تین نمبر مال کے نام سے فروخت کیا جاتا ہے۔ اپنی جیب کے مطابق سبزی خریدنے دکان یا منڈی جانے والے لوگ پہلے تین اور دو نمبر کا ریٹ پوچھتے ہیں۔ نمبر ایک چیز کی قیمت خریدنے کی نیت سے نہیں بلکہ اپنی معلومات میں اضافے کے لئے پوچھی جاتی ہے۔بھارت کی طرف سے ہمارا دانہ پانی بند کرنے کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ وہ آج بھی سلطان محمود غزنوی، محمد غوری اور محمد بن قاسم کے علاوہ اورنگزیب عالم گیر وغیرہ کا غصہ ہم پر نکال رہے ہیں۔ لیکن ایران اور افغانستان کس خوشی میں ہمارا چولہا ٹھنڈا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی۔ ہم نے افغانیوں کو چالیس سال تک اپنے ہاں پناہ دی ہے۔ اب بھی لاکھوں افغانی یہاں ایسے دندناتے پھیر رہے ہیں جیسے یہ ان کی خالہ جی کا گھر ہو۔ آج بھی اناج، چاول، دالیں، مصالحہ جات اور تن ڈھانپنے کا سامان سمیت ہر چیز پاکستان سے ہوکر جاتی ہے۔ اگر چمن اور طورخم کی سرحد ایک مہینے کے لئے بند کردی جائے تو آدھے افغانستان میں قحط کی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔ افغان حکومت کو بھی معلوم ہے کہ سبزیوں کی ترسیل روکنے سے پاکستان کے عام شہری ہی متاثر ہوں گے۔ اشرافیہ تو سونے چاندی کے دام بھی ٹماٹر پیاز اور لہسن خرید سکتا ہے۔ جو لوگ اپنے گھوڑوں، کتوں اور بلیوں کو
مربے، پیزہ اور شوارمہ کھلاتے ہیں ان کے لئے سبزیوں، دالوں اور پھلوں کی قیمتوں میں اضافہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اب شاید بدقسمت عام آدمی بھی حکمرانوں کے لئے بے معنی ہوگیا ہے۔ اس صورتحال میں بھی اگر قوم کی قیادت کرنے والے یہ اپیل کریں کہ ملکی معیشت بحران سے دوچار ہے۔ عوام قربانی کے بکرے کی روایت برقرار رکھتے ہوئے ظلم و زیادتی مزید کچھ عرصہ برداشت کریں۔ تو یہ پاگل قوم ناقابل یقین برداشت کا مظاہرہ کرسکتی ہے۔ زخموں پر نمک اس وقت پڑتا ہے کہ حکمران منہ پھاڑ کر معیشت مستحکم ہونے ، قیمتوں میں استقلال، بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے دعوے کرتے ہیں۔حکمران بھی جانتے ہیں کہ ان باتوں سے غریب لوگوں کو چڑ ہے مگر قہر درویش برجان درویش کے مصداق وہ زیادہ سے زیادہ اپنا ٹی وی توڑ کر اپنا مزید نقصان کریں گے یا اپنا سرپیٹ کر کم ظرف لوگوں کو حکمران بنانے کا ماتم ہی کرسکتے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
1243

ضلع اپرچترال کے قیام کی منظوری…..محمد شریف شکیب

Posted on

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے بالائی چترال کی ضلعی حیثیت بحال کرنے کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے۔ وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی طرف سے 7نومبر کو بونی جلسے میں ضلع اپرچترال کے قیام کا اعلان متوقع ہے۔ نئے ضلع کے متعدد نام زیرغور ہیں اور ان پر سوشل میڈیا میں گرما گرم بحث بھی جاری ہے ۔ ان ناموں میں چترال بالا، ضلع مستوج، ضلع بونی اور ضلع بیار شامل ہیں۔ اس کا ضلعی ہیڈ کوارٹر بالائی چترال کا سب سے بڑا قصبہ بونی ہی ہوگا۔ تاہم ڈسٹرکٹ سیکرٹریٹ قاق لشٹ میں قائم کیا جاسکتا ہے۔یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ اگرچہ صوبائی حکومت کے ریکارڈ میں چترال بالا نیا ضلع ہوگا۔ لیکن درحقیقت یہ فیصلہ بالائی چترال کی ضلعی حیثیت بحال کرنے کا ہوگا۔بالائی چترال ریاست چترال کے دور میں بھی الگ انتظامی یونٹ رہا ہے۔ جسے ضلع ثانی جبکہ چترال سٹی کو ضلع اول پکارا جاتا تھا۔ریاست چترال کے ریکارڈ کے مطابق ضلع ثانی 1895سے 1914تک الگ ریاستی عمل داری میں رہا۔ 1898کو انگریزوں نے ضلع ثانی کا ایک علاقہ وخان الگ کرکے اسے بفر اسٹیٹ بنادیا۔ تاکہ برطانوی سلطنت کی سرحدیں براہ راست سوویت یونین سے نہ مل پائیں۔ واخان کے علاقے کو سو سال کے پٹے پر افغانستان کو دیدیا گیا۔ جنوبی ایشیاء کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ کسی ملک نے اپنا ہی علاقہ کاٹ کو اسے بفر زون بنادیا ہو۔1914میں ضلع ثانی کو دوبارہ ضلع اول کے ماتحت کردیا گیا۔قیام پاکستان کے وقت بھی ضلع ثانی یعنی چترال بالا الگ انتظامی یونٹ تھا۔ شہزادہ شہاب الدین قیام پاکستان کے بعد ضلع ثانی کے پہلے ڈپٹی کمشنر مقرر ہوئے۔ اس کے بعد معراج الدین، میر سبحان الدین، ظفر احمد اور شہزادہ محی الدین ضلع ثانی کے ڈپٹی کمشنر رہے۔ 1969میں جب ریاست چترال نے غیر مشروط طور پر پاکستان میں ضم ہونے کا اعلان کیا۔ تو ضلع ناظر کی طرف سے ضلع ثانی کو غلطی سے سب ڈویژن لکھنے کے بعد اس کی ضلعی حیثیت ختم کردی گئی۔ 14ہزار800مربع کلو میٹر رقبے پر پھیلے ہوئے ضلع چترال کو ایک انتظامی یونٹ کے ماتحت رکھنا انتہائی غیر منصفانہ اور ظالمانہ فیصلہ تھا۔ ارندو سے لے کر شیخ سلیم، بمبوریت سے لے کر شندور اور عشریت سے لے کر بروغل تک وسیع و عریض علاقے کو ایک انتظامی افسر کیسے سنبھال سکتا ہے۔ چھ سودیہات پر مشتمل اس پورے علاقے میں آج تک کوئی بھی امیدوار انتخابی مہم نہیں چلا سکا۔ نہ ہی وہاں بنیادی سہولیات فراہم کی جاسکیں۔آج بھی کئی دیہات ایسے ہیں جہاں کوئی سکول ،ہسپتال اور پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔سڑ ک کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کو چارپائی پر ڈال کر تنگ پہاڑی پگڈنڈیوں سے سڑک تک لایا جاتا ہے اور اکثر مریض سینکڑوں کلو میٹر دور ڈی ایچ کیو اسپتال پہنچنے سے پہلے دم توڑ جاتے ہیں۔برنس سے لے کر تریچ میر، ریچ، شندور اور بروغل تک سب ڈویژن مستوج کا رقبہ آٹھ ہزار مربع کلو میٹر اور آبادی تین لاکھ سے زیادہ ہے۔تین سب تحصیلوں موڑکہو، تورکہو اور مستوج پر مشتمل اس علاقے کی ضلعی حیثیت بحال ہونے سے علاقے کے تعلیم یافتہ لوگوں کو روزگار کے مواقع ملیں گے۔ کیونکہ یہاں تعلیم کی شرح 85فیصد سے زیادہ ہے۔ قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی ایک اضافی نشست کے علاوہ سب تحصیلوں کو بحال کرنے سے مناسب ترقیاتی فنڈز ملیں گے جس سے دور افتادہ علاقوں تک بنیادی سہولیات پہنچانے میں مدد ملے گی۔ بنجر زمینوں کو پانی کی فراہمی، معدنی وسائل سے استعفادہ کرنے اور سیاحت کو فروغ دینے سے یہ ضلع چند سالوں کے اندر خود کفیل ہوسکتا ہے۔ ضلع مستوج کی بحالی کے فیصلے پر بالائی چترال میں سو فیصد اتفاق رائے پایاجاتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت اپنے فیصلے پر کس حد تک عمل درآمد کراتی ہے۔کیونکہ صوبائی حکومت کے پاس ابھی چھ مہینے کا وقت ہے۔ اگر ضلعی سیکرٹریٹ کے قیام کے ساتھ ڈپٹی کمشنر اور دیگر اہلکاروں کی تعیناتی سمیت بنیادی کام موجودہ دور حکومت میں مکمل کئے جاتے ہیں تو اس سے علاقے میں ترقی کا نیا دور شروع ہوگا اور تحریک انصاف کو بھی اس کے سیاسی ثمرات مل سکتے ہیں۔ لواری ٹنل کے بعد ضلع مستوج کا قیام منتخب جمہوری حکومتوں کی طرف سے اہل چترال کے لئے ناقابل فراموش تحائف ہوں گے۔جو بلاشبہ اہل چترال کی امن پسندی اورحب الوطنی کا بہترین صلہ ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
580

مہنگائی کا بم …………. محمد شریف شکیب

Posted on

وفاقی حکومت نے عوام پر مہنگائی کا ایک اور بم گرادیا ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے 731 درآمدی اشیاء پر 15سے 80فیصد تک ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ حکومتی فیصلے پر عمل درآمد بھی فوری طور پر شروع کردیا گیا۔ جن اشیاء کے نرخوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ ان میں دودھ کی مصنوعات، پھل، ٹماٹر پیسٹ، ڈائپرز، میک اپ کا سامان، شیمپو، پرفیوم، پالتو جانوروں کی خوراک،چاکلیٹ، تازہ اور منجمد مچھلی، خشک دودھ، مکھن، دہی، پنیر، ٹائلٹ اسپرے، کاسمیٹکس، مائیکرو ویو اوون، فروٹ گرینڈرز، مکسرز، جوسر مشین،گھروں اور دفتروں میں استعمال ہونے والے لکڑی اور لوہے سے بنے ہوئے فرنیچرز، کھیلوں کا سامان، گاڑیوں کی چمکدار نمبر پلیٹس،گھڑیاں، موبائل فونز ،اسلحہ، نئی اور پرانی گاڑیاں شامل ہیں۔وفاقی حکومت کا موقف ہے کہ ریگولیٹری ڈیوٹی بجٹ خسارہ کم کرنے اور غیر ضروری اشیاء درآمد کرنے کی وجہ سے پاکستانی کرنسی پر پڑنے والا دباو کم کرنے کے لئے لگائی گئی ہے۔چار ماہ قبل وفاقی بجٹ میں وفاقی حکومت نے روزمرہ ضرورت کی مختلف اشیاء پر اضافی ٹیکس اور ڈیوٹیاں لگا کر تین کھرب پچاس ارب روپے اکھٹا کرنے کا اعلان کیا تھا۔ سیلز ٹیکس کی شرح میں 6فیصد، کارپوریٹ ٹیکس میں 30فیصداضافے سمیت ایک ہزار سے زائد اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کیاگیا تھا۔ اب مزید ساڑھے سات سو اشیاء مہنگی کرنے کے اعلان نے غریب اور متوسط طبقے کی کمر توڑ دی ہے۔جن اشیاء پر نیا ٹیکس لگایاگیا ہے ان میں سے 90فیصد گھروں میں استعمال ہونے والی روزمرہ ضرورت کی اشیاء ہیں۔ اس لئے حکومت یہ دعویٰ بھی نہیں کرسکتی کہ ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافے سے عام آدمی متاثر نہیں ہوگا۔ اس ملک میں ’’ عام آدمی ‘‘ ہونا جرم بن گیا ہے۔ ہر حکومت اسی کا کچومر نکالنے کو اپنی ڈیوٹی سمجھتی ہے۔ بڑے سرمایہ داروں، صنعت کاروں، تاجروں، برآمدکنندگان ، زمینداروں اور جاگیرداروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کسی حکومت میں جرات نہیں ہوتی۔ اگر سرکار کی سرپرستی میں ہونے والی سمگلنگ پر ہی قابو پایا جائے اور سمگل ہونے والے سامان پر ٹیکس لگایا جائے تو مزید ایک پائی کا ٹیکس عوام پر لگانے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ غریب آدمی، سفید پوش اور ملازمت پیشہ افراد ایک مہینے بجلی کا بل نہ دیں تو اگلے مہینے واپڈا والے ان کا میٹر اکھاڑ لے جاتے ہیں جو لوگ کنڈے ڈال کر غیر قانونی بجلی سے کارخانے چلا رہے ہیں ان کی طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا۔ ایوب خان کے دور میں چینی کی قیمت میں چار آنے فی سیر اضافہ ہوا۔ تو پورے ملک میں ایک کہرام مچ گیا۔ احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے۔اور حکومت کو قیمت میں اضافہ واپس لینا پڑا۔ آج ہر مہینے بجلی، گیس اور تیل کی قیمت بڑھائی جاتی ہے۔ سالانہ بجٹ کے بعد تین چار منی بجٹ بھی لائے جاتے ہیں جن میں عوام پر ہی بوجھ ڈالا جاتا ہے۔ آج حالت یہ ہے کہ بازار میں پیاز کی قیمت 80روپے کلو، ٹماٹر 100روپے، ٹینڈا، بینگن، بھنڈی، شلغم،توری اور آلو بھی ستر اسی روپے فی کلو سے کم نہیں ملتے۔ کسی بھی چیز کی قیمت ایک بار چڑھ جائے تو نیچے آنے کا نام کبھی نہیں لیتا۔پیٹ کی آگ بجھانے کا سامان قوت خرید سے باہر ہوجائے۔ توغریب آدمی کہاں جائے۔ اور کس سے فریاد کرے۔صورتحال کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ کسی سیاسی جماعت نے قیمتوں میں حالیہ اضافے کی مذمت کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اپوزیشن سمیت سیاسی جماعتوں کو عوام کے مسائل اور مشکلات سے کوئی غرض نہیں۔انہیں صرف اپنے ووٹوں سے مطلب ہے جنہیں سیڑھی بناکر وہ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچتے ہیں اور پھر انہی ووٹرز کو نچوڑ کر اپنی جیبیں اور بیرون ملک اپنے اکاونٹ بھرتے ہیں۔خود کو ٹیکسوں سے بچانے کے لئے غیرملکی بینکوں میں اکاونٹ کھولنے اور کاروبار کرنے کا راز اب سمجھ میں آرہا ہے۔ اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لئے بات کا بتنگڑ بنانے اور رائی کا پہاڑ کھڑا کرنے والا میڈیا اور سوشل میڈیا بھی مہنگائی کا بم گرائے جانے پر خاموش ہیں۔ عوام کی کمر پہلے ہی دوہری ہوچکی ہے۔ان میں اپنے حقوق کے لئے صدائے احتجاج بلند کرنے کی سکت بھی نہیں رہی۔ جس کا ہماری اشرافیہ بھر پور فائدہ اٹھارہی ہے۔ یہی پاکستانی سیاست کا لب لباب ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
420

اثاثے چھپانے کا جرم …….. محمدشریف شکیب

Posted on

الیکشن کمیشن نے اثاثوں کے گوشوارے جمع نہ کرنے پر سات سینیٹروں، 71اراکین قومی اسمبلی سمیت 261منتخب اراکین کی رکنیت معطل کرنے کا اعلامیہ جاری کردیا ہے۔ گوشوارے چھپانے والوں میں پنجاب اسمبلی کے 84، سندھ اسمبلی کے 50اور خیبر پختونخوا اسمبلی کے 38ارکان شامل ہیں۔ الیکشن کمیشن کے اعلامیہ کے مطابق اثاثوں کا حساب کتاب داخل دفتر نہ کرنے اراکین میں وفاقی وزراء، وزرائے مملکت، پارلیمانی سیکرٹریز، صوبائی وزراء، مشیران، معاونین خصوصی اور خواتین ارکان بھی شامل ہیں۔خیبر پختونخوا اسمبلی کے جن ارکان کے نام اثاثے چھپانے والوں کی فہرست میں آئے ہیں ۔ان میں یاسین خلیل، شوکت، عارف یوسف، فضل الہٰی، ارباب وسیم، خلیق الزمان، محمد ادریس، قربان علی، فضل شکور، سلطان محمد، خالد خان، خان بہادر، محمد زاہد، افتخار مشوانی، عبدالکریم، محمد شیراز، امجد آفریدی، امتیاز شاہد، گل صاحب، سردار فرید، اورنگزیب نلوٹھہ، اکبر ایوب، فیصل زمان، ضیاء الرھمان، صالح محمد، ابرار حسین، ولی محمد، محمود احمد، فضل حکیم، محمد رشاد، ثناء اللہ، اعزاز الملک، علی اصغر اور چار خواتین شامل ہیں۔ گوشوارے جمع نہ کرانے کی ایک وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ اگر آمدنی کے مقابلے میں اثاثے زیادہ نکلے تو احتساب بیورو کے ہتھے چڑھنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ ملک کے سب سے طاقتور سیاسی خاندان کا جو حال زیادہ اثاثے ثابت ہونے پر آج کل ہورہا ہے۔ اس کی وجہ سے سب کی سٹی گم ہونا فطری امر ہے۔سابق وزیراعظم کو شاید علم نہیں تھا کہ اثاثے ظاہر نہ کرنا قابل دست اندازی نیب جرم ہے۔ اس لئے انہوں نے اپنے گوشواروں میں ملک سے باہر آف شور کمپنیوں، جائیدادوں اور بیرون ملک ملازمت کا ریکارڈ جمع کرانا ضروری نہیں سمجھا۔اسی وجہ سے آج ہر ایک سے پوچھتا پھیر رہا ہے کہ ’’ مجھے کیوں نکالاگیا؟‘‘ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اثاثے بنانا کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ بندہ اتنا مصروف ہوتا ہے کہ اسے کوئی اور کام یاد ہی نہیں رہتا۔ اور پھر اثاثوں کے گوشوارے بنانا بھی کوئی گپ نہیں۔ ایک ایک بینک اکاونٹ، ایک ایک جریب زمین، ایک ایک آف شور کمپنی، جائیدادوں، گاڑیوں، بنگلوں ، نوکروں اور رشتہ داروں کے نام پر رکھے گئے اثاثوں کا حساب بھی لگانا پڑتا ہے۔ بہت سی چیزیں چھپانی ہوتی ہیں بہت سے ارکین پارلیمنٹ ایسے ہیں جنہیں اپنی جائیدادوں اور اثاثوں کا حساب بھی نہیں معلوم، یعنی بے حساب اثاثے ہیں۔ ان سب کو سب پر ظاہر کرکے بندہ اپنی مٹی تو پلید نہیں کروا سکتا۔ الیکشن کمیشن نے بلاشبہ انہیں گوشوارے جمع کرنے کی پہلی، دوسری اور آخری مہلت دی ہوگی۔ پھر بھی عوام کے مسائل حل کرنے میں مصروف منتخب ارکان اگر اپنے اثاثوں کا حساب جمع کرانے سے رہ گئے ہیں تو انہیں کچھ مہلت مزید دینے میں کیا حرج ہے۔ نام ظاہر کرکے الیکشن کمیشن نے بیچارے ارکان کو مفت میں بدنام کردیا۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ ارکان کے اثاثے اتنے نہ ہوں کہ انہیں ظاہر کیا جاسکے۔ خواتین ارکان کو تو معاف رکھنا چاہئے تھا۔ ان بیچاریوں کو گھر داری، بچوں کی دیکھ بھال، غمی خوشی کی تقریبات ، پالرز کی حاضری، سسرالیوں کے نخرے اٹھانے اور عوام کے دکھ بانٹنے سے کہاں فرصت ملتی ہے کہ اثاثوں کا حساب کرکے گوشوارے جمع کرادیں۔الیکشن کمیشن نے گوشوارے جمع نہ کرانے والوں کو معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی وزیر، وزیرمملکت، مشیر، معاون، پارلیمانی سیکرٹری یا رکن اسمبلی جب تک اثاثوں کا حساب جمع نہیں کرائے گا۔ اس وقت تک وزارت کی کرسی سنبھال سکے گا، نہ مراعات استعمال کرسکے گا ۔ اسمبلی میں داخلے کی اسے اجازت ہوگی اورنہ ہی کسی تقریب میں مہمان خصوصی بن کرشرکت کرے گا۔ مگر عملی طور پر ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ معطلی کے احکامات کے باوجود ان کے معمولات پر کوئی فرق نہیں پڑا۔سیاسی دورے بھی ہورہے ہیں۔ اسمبلیوں میں بھی دھواں دار تقریریں بھی کر رہے ہیں۔ ترقیاتی منصوبوں کی تختیوں کی نقاب کشائی بھی ہو رہی ہے۔اور عوامی اجتماعات سے بھی خطاب کر رہے ہیں۔اگر یہ سب کچھ خلاف آئین و قانون ہے تو اس قانون شکنی کی بھی الگ سزا ہونی چاہئے۔ ویسے بھی سیاسی طبقے پر برا وقت آچکا ہے۔ کہتے ہیں کہ برا وقت جب آجائے تو اکیلے نہیں آتا۔ اپنے ساتھ بہت سے دیگر مصائب بھی ساتھ لاتا ہے۔اس لئے اثاثوں کے گوشوارے چھپانے والوں کو دل چھوٹا نہیں کرنا چاہئے۔ بیشک تنگی کے بعد راحت ضرور ہوگی۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
358

پہلے بات کو تولو ………..محمد شریف شکیب

Posted on

بزرگوں کا کہنا ہے کہ پہلے بات کو تولو، پھر منہ سے بولو۔بات کو تولنے کے ساتھ یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ بولنے کے لئے کونسا وقت صحیح ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ غلط وقت پر صحیح اور صحیح وقت پر غلط بات کہنے سے لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں ۔ ہمارے وزیر داخلہ احسن اقبال کی مثال ہی لے لیں۔ وہ وزیرداخلہ بننے سے پہلے بہت کم بولتے تھے۔ اور جو تھوڑا بہت بولتے بھی تھے تو وزیر منصوبہ بندی ہونے کے ناطے لوگ اس پر زیادہ دھیان نہیں دیتے تھے۔ چوہدری نثار کی طرف سے شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں شامل ہونے سے معذرت کے بعد وزارت داخلہ کا قرعہ فال احسن اقبال کے نام نکل آیا۔شاید یہ اچانک فیصلہ تھا جس کی خود احسن اقبال کوبھی توقع نہیں تھی۔نئی ذمہ داری کندھوں پر پڑجائے تو انسان کی ٹانگوں کے ساتھ زبان بھی لڑکھڑانے لگتی ہے۔ کچھ ایسا ہی وزیرداخلہ کے ساتھ ہوا۔ حالانکہ اس کے پیش رو چوہدری نثار ہر بات ناپ تول کربولتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ اخباری رپورٹر ان کی دو گھنٹے کی پریس کانفرنس کے بعد بھی چار چھ لائنوں کی خبر نہیں نکال پاتے تھے۔ جب سے احسن اقبال وزیرداخلہ بنے ہیں ۔روز اخبارات کی شہ سرخی بننے لگے ہیں۔حال ہی میں ان کا بیان آیا تھا کہ عسکری قیادت جمہوری حکومت کے معاملات میں دخل اندازی نہ کرے۔ معیشت میں بہتری نہ آنے کی باتیں باوردی لوگوں کو زیب نہیں دیتیں۔ انہیں اپنی بندوق سے کام رکھنا چاہئے۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز پر شور مچ گیا۔ سوشل میڈیا پر تبصروں کا ایک سیلاب سا آگیا۔ عسکری ترجمان کا جواب آیا کہ جمہوری حکومت کو افواج پاکستان کی طرف سے کوئی خطرہ نہیں۔ البتہ حکومت کو اپنے غیر جمہوری طرز عمل سے خطرہ ہوسکتا ہے۔ حکمران جماعت کے سینئر لیڈروں نے بھی وزیرداخلہ کو منہ سنبھال کر بات کرنے کی تلقین کی ہوگی۔ اگلے روز ان کا بیان آیا۔ کہ آئی ایس پی آر کے بیان پر انہیں دکھ ہوا تھا۔ جب عسکری ترجمان نے وضاحت کردی۔ تو انہیں تسلی ہوگئی ( کہ جمہوریت کو فوج کی طرف سے سردست کوئی خطرہ نہیں) اس لئے بحث ختم ہوگئی وہ جواب الجواب دے کر معاملے کو مزید طول دینا نہیں چاہتے۔ تاہم انہوں نے حسب عادت یا صحافیوں کے اصرار پر یہ کہہ کر نیا شوشہ چھوڑ دیا کہ آپریشن ردالفساد کے لئے حکومت نے اپنا پیٹ کاٹ کر وسائل فراہم کئے ہیں۔ گویا حکومت مطلوبہ فنڈز فراہم نہ کرتی تو آپریشن ردالفساد کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں تھا۔وزیرداخلہ کو شاید یاد نہ ہو۔ پشاور میں سانحہ اے پی ایس کے بعد ملک کی تمام سیاسی و عسکری قیادت نے مل بیٹھ کر آئندہ ایسے سانحات کو روکنے کے لئے ایک مشترکہ اور متفقہ پلان مرتب کیا تھا۔ جسے نیشنل ایکشن پلان کا نام دیا گیا۔ بیس نکات پر مشتمل اس پلان کے پانچ نکات پر فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں جبکہ پندرہ نکات پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے عمل درآمد کرنا تھا۔ فوج نے آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد کی شکل میں اپنے حصے کا کام کردیا۔ جبکہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ذمے پندرہ نکات اب تک واجب الادا ہیں۔وزیرداخلہ کو صداقت اور جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کوتاہی کا بھی اعتراف کرنا چاہئے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ ملک کی سلامتی کے لئے لڑی جارہی ہے جس میں افواج ، پیراملٹری فورسز اور پولیس نے بیش بہاقربانیاں دی ہیں۔ جب ملک میں امن نہیں ہوگا تو ترقی بھی نہیں ہوگی۔ اس لئے یہ احسان جتانے کی کوئی ضرورت نہیں کہ حکومت نے اپنا پیٹ کاٹ کر فوج کو وسائل فراہم کئے ہیں۔ حکمرانوں نے اپنا نہیں بلکہ غریب عوام کو مہنگائی کی شکلمیں پیٹ اور جیب کاٹ کر وسائل جمع کئے ہیں جو اگر ملکی دفاع پر خرچ ہوئے تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔وزیرداخلہ کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ تمام ریاستی اداروں کو اپنی آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے ملک کی حفاظت، ترقی اور خوشحالی کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ ایک دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی سے گریز کرنا چاہئے۔ کہوار زبان کی مشہور کہاوت ہے کہ جب ہوا چلتی ہے تو پتے ہلتے ہیں۔ جب کوئی ادارہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی کرے تو اس پر انگلیاں ضرور اٹھیں گی۔ نکتہ چینوں کی انگلیاں کاٹنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ بلکہ کارگذاری بہتر بناکر تنقید اور الزامات کا جواب دیا جاتا ہے یہی آبرومندانہ جمہوری عمل ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
340

خواتین کونسلرز کا انوکھا احتجاج ,,,, محمد شریف شکیب

Posted on

اخبارات میں سنگل کالمی خبر شائع ہوئی ہے کہ موجودہ بلدیاتی نظام سے نالاں بالائی چترال کی خواتین کونسلرز نے آل ویمن ویلفیئر آرگنائزیشن کے نام سے اپنی یونین بنالی ہے۔تحصیل کونسلر بی بی سفینہ چیئرپرسن، ویلج کونسلر سارہ بی بی سیکرٹری، ویلج کونسلر گل وقت بیگم جوائنٹ سیکرٹری، ہاجرہ فنانس سیکرٹری، اور اشرف گل سیکرٹری نشرواشاعت مقرر کی گئیں۔منتخب خواتین کونسلرز کا کہنا تھا کہ موجودہ بلدیاتی نظام کی انہیں اب تک سمجھ نہیں آئی۔ وہ صرف نام کی کونسلر بن کر رہ گئی ہیں۔ دو سالوں سے کوئی فنڈ نہیں ملا۔ جس کی وجہ سے وہ خواتین کی کوئی خدمت کرسکی ہیں نہ ہی ان کی توقعات پر پوری اتری ہیں۔ لیکن وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے والی نہیں۔ اس لئے سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر تمام لیڈی کونسلرز کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا گیا۔ تاکہ خواتین کے مسائل کی نشاندہی کے ساتھ انہیں حل کرنے کی راہ نکال سکیں۔انہوں نے سرکاری و غیر سرکاری محکموں اورفلاحی اداروں سے اپیل کی ہے اگر خواتین کی فلاح و بہبود کے لئے ان کے دل میں کوئی نرم گوشہ ہے اور وہ ان کی خلوص دل سے مدد کرناچاہتے ہیں تو محکمہ بلدیات کے بجائے خواتین کی مشترکہ تنظیم سے رابطہ کیا جائے۔ خواتین کونسلرز نے دوراندیشی کا مظاہرہ کیا ہے۔ سیاسی اکھاڑے میں اترنے والوں کو اپنی بقاء کے لئے کچھ تو کرنا تھا۔ بلدیاتی نظام قابل فہم اور قابل عمل ہونے کا انتظار شاید بہت طویل ہوتا۔ خود تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے اعتراف کیا ہے کہ صوبے میں رائج بلدیاتی نظام کی انہیں اب تک سمجھ نہیں آئی۔ ان کا خیال ہے کہ بیوروکریسی نے جان بوجھ کر اس نظام کو ناقابل فہم بنایا ہے تاکہ اختیارات عوامی نمائندوں تک نہ پہنچ پائیں۔حیرت کی بات یہ ہے کہ حکومت نے پچھلے سال بلدیاتی اداروں کو 35ارب اور رواں سال 40ارب روپے کا فنڈ جاری کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ لیکن وہ رقم کسی فلاحی منصوبے کے تحت عوام تک نہیں پہنچی۔ بیچاری خواتین کونسلرز کو نہ کوئی اعزازیہ دیا جاتا ہے نہ ہی انہیں فنڈز فراہم کئے جاتے ہیں۔ مرد کونسلرز ٹھیکے وغیرہ لے کر بھی اپنا گذارہ کرسکتے ہیں۔ ان کے لئے اپنے نام کے ساتھ سابق کونسلر یا ناظم لکھوانا بھی اعزاز کی بات ہے لیکن خواتین کا معاملہ الگ ہے۔ وہ اگر ڈیلیور نہ کرسکیں تو ان کی سیاست کی بساط ہی نہیں لپٹتی، انہیں لوگوں کے طعنے بھی سننے پڑتے ہیں۔ ان پر آوازیں کسی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے بچوں کے رشتے بھی متاثر ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ نہ جانے حکومت نے کیسے سوچ لیا تھا کہ صوبے کے چالیس ہزار ضلع، تحصیل، ٹاون، نیبرہڈ اور ویلج کونسلوں کے ممبران رضاکارفورس کے طور پر کام کریں گے۔ کوئی تنخواہ، خرچہ اور ترقیاتی فنڈ نہیں مانگیں گے۔اگریہ خدائی خدمت سینٹ، قومی و صوبائی اسمبلی کے ممبران بھی کر رہے ہوتے۔ تو شاید ان کے نقش قدم پر چل کر کونسلرز بھی خود کو عوامی خدمت کے لئے وقف کردیتے۔ رضاکارانہ خدمت کی روایت قائم کرنے کے لئے صدر، وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ، وفاقی و صوبائی وزراء اور اراکین اسمبلی کو اپنے صوابدیدی فنڈز ، تنخواہوں اور مراعات سے وسیع تر قومی مفاد میں دستبردار ہونا پڑے گا۔ جوموجودہ نظام میں ناممکن العمل نظر آتا ہے۔ لوگ الیکشن پر چالیس پچاس لاکھ روپے اس لئے لگاتے ہیں کہ چالیس پچاس کروڑ کماسکیں۔ جب ترقیاتی فنڈز، تنخواہیں اور مراعات نہیں رہیں گی تو انہیں پاگل کتے نے کاٹا ہے کہ اسمبلیوں میں آئیں۔ لیکن غریب کونسلروں سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ اللہ اور رسول کی خوشنودی کے لئے فی سبیل اللہ کام کریں۔ اپرچترال کی خواتین
کونسلرز کا آل ویمن ویلفیئر آرگنائزیشن کے نام سے مشترکہ تنظیم کا قیام ایک طرف مروجہ بلدیاتی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار ہے وہیں خواتین نمائندوں کے اس عزم کا مظہر بھی ہے کہ وہ معاشرے میں تبدیلی لانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہتی ہیں۔ وفاقی حکومت کے نمائندوں کو حب علی میں نہ سہی، بعض معاویہ کے جذبے کے تحت ہی خواتین کونسلرز کی نئی تنظیم کی مدد کرنی چاہئے۔ خواتین کے حقوق کے نام پر کاروبار کرنے والوں کو بھی آل ویمن ویلفیئر ایسوسی ایشن کی خبرگیری کرنی چاہئے تاکہ معاشرے کے اس پسماندہ طبقے کی آواز فیصلہ کرنے والے ایوانوں تک پہنچ سکے۔صوبے کے دیگر اضلاع کی خواتین کو بھی اپرچترال کی خواتین کونسلرز کی تقلید نہ سہی۔ ان کی حوصلہ افزائی ضرور کرنی چاہئے۔کیونکہ یہ برادری کی عزت و ناموس کا سوال ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
218