Chitral Times

آلودگی کے مہیب سائے ……….امحمد شریف شکیب

Posted on

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب بغیر ماسک پہنے کوئی چل پھیر نہیں سکے گا۔ماحول کو آلودگی سے بچانے کے لئے وفاقی اور صوبائی سطح پر وزارتیں اور محکمے بھی قائم کئے گئے ہیں اور غیر سرکاری تنظیمیں بھی ماحولیاتی آلودگی کم کرنے کا بینر سجاکر اپنی دکانیں کھول رکھی ہیں۔ آلودگی سے ماحول کو بچانے کے لئے قوانین بھی موجود ہیں اور حکومتوں کی طرف سے بھی احکامات جاری کئے جاتے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں آلودگی کا سبب بننے والے پلاسٹک شاپنگ بیگ ختم کرنے کے حوالے سے وزیر اعلیٰ کے احکامات کی صدائے بازگشت بھی ابھی سنائی دے رہی ہے لیکن ان احکامات کو عمل کا جامہ پہنانے پر کوئی توجہ اب تک نہیں دی گئی۔حکام شاید اس انتظار میں ہیں کہ احکامات پر عمل درآمد کے لئے کوئی ٹائم فریم یا ڈیڈ لائن آئے گی تو وہ متحرک ہوں گے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وزیراعلیٰ کے حکم پر کوئی عمل کرے تو اس کا بھلا ہو۔ اگر نظر انداز کیا جائے تو اس کا بھی بھلا ہو۔ہفتہ دو ہفتے یا مہینے دو مہینے کی ڈیڈ لائن بھی اگر احکامات کے ساتھ آجائے۔ تو متعلقہ حکام کے بھی کان کھڑے ہوتے ہیں اور وہ اپنی مٹی پلید ہونے کے ڈر سے کچھ نہ کچھ حرکت کرتے نظر آتے ہیں۔آلودگی کسے کہتے ہیں؟اس کی کیا وجوہات ہیں ؟ اس کا انسانی زندگی اور معاشرے پر کیا اثر پڑتا ہے۔ یہ وضاحت ضروری ہے۔ آلودگی قدرتی بھی ہوسکتی ہے۔ جس میں سیلاب آنا، تودے گرنا، زمین کا کٹاو، چٹانین گرنا، خشک سالی، بے وقت بارشیں ، زلزلے اور طوفان بھی شامل ہیں۔لیکن قدرتی وجوہات کا تناسب صرف پانچ فیصد ہوتا ہے۔جبکہ پچانوے فیصد آلودگی انسانی غفلت، لاپراہی ، آلودگی کے نقصانات سے لاعلمی اورمروجہ قوانین کے نفاذ میں کوتاہی کا نتیجہ ہیں۔جس میں حکومت، وزارتیں،محکمے، عدالتیں، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عام شہری سب ہی ملوث ہیں۔ہم اپنے گھر اور باورچی خانے کو تو صاف کرتے ہیں لیکن کوڑا کرکٹ پلاسٹک کے تھیلے میں ڈال کر دروازے سے باہرسڑک پر پھینک دیتے ہیں۔ گلی کے نکڑ یا کھلی جگہ لے جاکر ڈالتے ہیں۔کارخانوں کا مضر صحت کیمیاوی مواد نالیوں میں بہاتے ہیں۔ گھروں کا کچرا نہروں میں ڈالتے ہیں۔راہ چلتے پھل کھاکر چھلکے سڑک پر پھینکتے ہیں۔ جس سے آلودگی کے ساتھ لوگوں کے پھسلنے اور زخمی ہونے کا خطرہ ہوتا ہے جس کی ہمیں کوئی پروا نہیں۔پبلک ٹرانسپورٹ میں سیگریٹ پینا شروع کرتے ہیں ۔اپنے گھر کی تعمیر کے لئے ریت، مٹی، بجری وغیرہ سڑکوں پر ڈالتے ہیں اور وہاں سے دھول اٹھتی ہے ۔ بھٹہ خشت اور فیکٹریوں کی چمنیوں سے اٹھنے والا زہریلا دھواں آب و ہوا کو آلودہ بنا دیتا ہے ۔پلاسٹک کے تھیلوں کابے تحاشا استعمال بھی آلودگی کا سبب ہے۔ جسے سے نکاسی آب کا نظام بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ کوڑا کرکٹ کو مناسب طریقے سے ٹھکانے نہ لگانے کی وجہ سے جو آلودگی پیدا ہوتی ہے اس سے قرب و جوار کی آبادی کو سنگین خطرات لاحق ہوتے ہیں۔زیادہ شور اورتیز روشنی بھی آلودگی کے زمرے میں آتے ہیں۔ درختوں اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی سے بھی قدرتی ماحول پر تباہ کن اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ یہ آلودگی موسمی تغیرات کا بھی سبب بن رہی ہے ۔ بارشیں کم ہوگئی ہیں۔ درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے۔ برف کے خزانے تیزی سے پگھلنے لگے ہیں۔جس سے نہ صرف معاشرے بلکہ پورے ملک کو خطرہ ہے۔ قدرتی ماحول کو مکمل تباہی سے بچانے کے لئے حکومت، سرکاری اداروں، سول سوسائٹی، غیر سرکاری اور فلاحی تنظیموں اور عوام کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ تعلیمی ادارے اور مدارس بھی اس حوالے سے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔جہاں بچوں کو آلودگی کے خطرات سے آگاہی فراہم کرکے ذمہ دار شہری بنایاجاسکتا ہے۔ حکومت قدرتی ماحول کے تحفظ کے حوالے سے مروجہ قوانین پر عمل درآمد یقینی بنائے اور سرکاری حکام اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر کرتے ہوئے ماحول کو بچانے کی اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔ آلودگی کے نقصانات سے متعلق عوامی شعور اجاگر کرنے کے لئے عوامی سطح پرمہم چلائی جائے اور دوسری طرف ہر شہری صفائی کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہوئے ماحول کو آلودگی سے پاک کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرے تو معاشرے کو درپیش سنگین خطرات کو کچھ عرصے کے لئے ٹالا جاسکتا ہے۔ آلودگی کا مسئلہ غربت، بے روزگاری اور بدامنی سے بھی سنگین مسئلہ ہے۔ خداکرے کہ ہماری حکومتیں، منتخب نمائندے، عوام کے ٹیکسوں سے پلنے والے حکام آلودگی کے مسئلے کو قومی مسئلہ سمجھ کر اس کے حل کے لئے ایمانداری اور دیانت داری سے کوششیں شروع کریں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , ,
5581

صوبائی اسمبلی کی تحلیل۔ زرا سوچئے…………… محمد شریف شکیب

Posted on

پاکستان تحریک انصاف نے سینٹ اور قومی اسمبلی سے استعفے دینے کے ساتھ خیبر پختونخوا اسمبلی تحلیل کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے۔ اس حوالے سے حتمی فیصلہ رواں ہفتے پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں ہونا متوقع ہے۔اس سے قبل تحریک انصاف نے وفاقی اور پنجاب حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔پارٹی کا موقف ہے کہ قانون ساز ادارے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہے ہیں اس لئے ان کا پانچ سال کی مدت پوری ہونے تک اقتدار میں رہنے کا کوئی جواز نہیں۔ جب وفاق اور پنجاب کی طرف سے پی ٹی آئی کے مطالبے کا کوئی جواب نہیں آیا۔ تو انہوں نے خود کو ان ایوانوں سے الگ کرنے کی ٹھان لی ہے۔ موجودہ اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے میں ابھی ساڑھے چار مہینے باقی ہیں۔ اگراسمبلیاں تحلیل بھی ہوجاتی ہیں تو اگست سے پہلے عام انتخابات کے انعقاد کا کوئی امکان نہیں۔ کیونکہ الیکشن کمیشن کوحالیہ مردم شماری کے مطابق حلقہ بندیاں کرنے اور نئی انتخابی فہرستیں تیار کرنے کے لئے اگست تک کا وقت درکار ہے۔ اپنی سیاسی حکمت عملی پر عمل درآمد کے لئے خیبر پختونخوا اسمبلی تحلیل کرنا شاید پاکستان تحریک انصاف کی قیادت ناگزیر سمجھتی ہے تاہم صوبائی اسمبلی تحلیل ہونے کے سیاسی نقصانات کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔ صوبائی حکومت نے اپنے انتخابی منشور کے تحت مختلف شعبوں میں اصلاحات کا عمل اور ترقیاتی منصوبے شروع کئے ہیں۔ جن میں بلین ٹری سونامی، پشاوربس ریپڈ ٹرانزٹ کا منصوبہ، مختلف شہروں کی تزین و آرائش کی سکیمیں، پانی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے ، پولیس، تعلیم اور صحت سمیت مختلف سرکاری محکموں میں اصلاحات کا عمل شامل ہے۔ حکومت کی تحلیل کی صورت میں یہ نامکمل منصوبے بھی ادھورے رہ جائیں گے۔ جس کی صوبے کے عوام اور خود تحریک انصاف کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔ بہتر ہوگا کہ تحریک انصاف کی قیادت اسمبلیوں سے مستعفی ہونے اور خیبر پختونخوا اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز پر عمل درآمد چند ماہ کے لئے موخر کردے تاکہ عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچ سکیں۔ اور ان کے ثمرات سے عوام فیض یاب ہوں۔جس کا لامحالہ سیاسی فائدہ آئندہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی کوہی پہنچے گا۔ اس وقت ملک اندرونی اور بیرونی محاذوں پر بھی بحرانوں میں گھرا ہوا ہے۔ ملک کی مشرقی اور مغربی سرحدیں غیر محفوظ ہیں۔ دنیا کی واحد سپر پاور کے ساتھ ہمارے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔ پڑوسی اسلامی ملک افغانستان اور ایران کے ساتھ بھی ہمارے مراسم کچھ اچھے نہیں۔ ملک کے اندر بھی سراسیمگی کی سی کیفیت ہے۔ دہشت گردی، اوربدامنی کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں۔ جرائم کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ خصوصا ملک کے مختلف حصوں سے کم سن بچیوں کی آبروریزی اور انہیں قتل کرنے کے جو واقعات رونما ہورہے ہیں۔ یہ محض اتفاق نہیں۔ بلکہ سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔تاکہ ملک اور اسلام کو بدنام کیا جاسکے۔ مہنگائی اور بے روزگاری کی شرح بھی مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے سی پیک اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے حوالے سے خدشات سر اٹھانے لگے ہیں۔ ایسی صورت میں ملک مزیدسیاسی بحران کا متحمل نہیں ہوسکتا۔جب عوامی مینڈیٹ رکھنے والی حکومتیں صورتحال کو کنٹرول کرنے میں مشکلات سے دوچار ہیں تو غیر منتخب، عارضی اور نگران حکومت ان حالات سے کیسے نمٹے گی۔ اور جب معاملہ قومی سلامتی اور بقاء کا ہو۔ تو کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے سو بار سوچنا چاہئے۔ تحریک انصاف کی قیادت صورتحال کو جس زاویے سے دیکھتی ہے۔ممکن ہے کہ اس زاویے سے اسمبلیوں سے استعفیٰ اور صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے میں انہیں ملک اور پارٹی کا مفاد نظر آتا ہو۔ لیکن عوامی زاویہ نگاہ سے بھی صورتحال کو دیکھنا چاہئے۔اگر عوام اس فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں تو انتخابات میں وہ اپنے ووٹ کے ذریعے اس فیصلے کے خلاف اپنا فیصلہ دے سکتے ہیں۔پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہاں رائے عامہ تبدیل ہوتی رہی ہے۔ خصوصا خیبر پختونخوا کے عوام دیگر صوبوں کی نسبت سیاسی طور پر فیصلہ کرنے میں آزاد اور زیادہ باشعور ہیں۔ یہاں کسی پارٹی کو مسلسل دوسری مرتبہ اقتدار میں آنے کا ماضی میں موقع نہیں ملا۔ پی ٹی آئی اس روایت کو بدلنے کا دعویٰ کرتی ہے۔اور ایسا تب ہی ممکن ہے کہ سیاسی فیصلے رائے عامہ کی بنیاد پر کئے جائیں۔ جذباتی قسم کے فیصلوں سے حتی الامکان گریز کیا جائے ۔ اسی میں ملک اور قوم کی بھلا ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
4758