Chitral Times

مہنگے ٹماٹر کا متبادل ……….. محمد شریف شکیب

Posted on

پنجاب کے صوبائی وزیرصنعت شیخ علاء الدین نے قوم کو مشورہ دیا ہے کہ ٹماٹر اگر مہنگے ہیں۔ گرانی کی وجہ سے لوگ اشیائے ضروریہ خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے ۔ تو انہیں کتے، بلیاں، چوہے اور جوتے کھاکر اپنا گذارہ کرنا چاہئے۔ دیگر قوموں نے بھی مشکل وقت میں یہی چیزیں کھاکر اپنی مشکلات پر قابو پایا ہے اور انہوں نے دنیا میں نام پیدا کیا ہے۔ موصوف یہ بھی فرماتے ہیں کہ بھارت سے درآمد ہونے والا ٹماٹر اڑھائی سو روپے کلو فروخت ہورہا ہے۔ ضروری تو نہیں کہ بندہ ٹماٹر ہی کھانے پر بضد رہے۔ حضرت شیخ کا یہ مشورہ اس لحاظ سے غیر منطقی اور بے تکا لگتا ہے کہ اگر ٹماٹر مہنگے ہیں تو کتنے بلیاں اور چوہے ٹماٹر کا متبادل کیسے ہوسکتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو اس طرح کے مفت بے تکے مشورے دینے کی بیماری ہوتی ہے۔ وہ اس تاک میں رہتے ہیں کہ کسی پر مشکل وقت آجائے تاکہ وہ فوری طور پر اس کے پاس پہنچ کر اظہار ہمدردی کے ساتھ اپنے مفت مشورے بھی دے کر دل کا غبار ہلکا کرسکیں۔ پنجاب کے وزیرصنعت کے ان مشوروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم لیگ کی قیادت کو اسی قسم کے وزیروں اور مشیروں کی وجہ سے برے دن دیکھنے پڑے ہیں۔ ورنہ ملک کے سب سے بڑے صوبے اور وفاق میں اپنی حکومتیں ہونے کے باوجود شریف برادران کو آج کل جو پاپڑ بیلنے پڑ رہے ہیں ایسی صورت حال سے انہیں اپوزیشن میں رہنے کے باوجودکبھی سامنا نہیں کرنا پڑا ہوگا۔اگر شریف برادران اپنے وزیروں اور مشیروں کو کچھ عرصے کے لئے چھٹی دیدیں اور اپنی عقل اور تجربے کو بروئے کار لائیں تو انہیں بہت سی پریشانیوں سے نجات مل سکتی ہے۔ فرانس میں روٹی مہنگی ہونے کی وجہ سے عوام کے احتجاج پر وہاں کی شہزادی نے یہ معصومانہ مشورہ دیا تھا کہ اگر روٹی مہنگی ہے تو یہ لوگ کیک اور ڈبل روٹی کیوں نہیں کھاتے۔ ڈبل روٹی تو روٹی کی متبادل ہوسکتی ہے لیکن کتے بلیاں ٹماٹر کی متبادل ہونے کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہمارے ہاں ایک یہ روایت ہے کوئی اپنا مکان بنانے کا ارادہ کرے تو ہر شخص اپنی سوچ اور پسند کے مطابق اسے نقشہ بتاتا ہے۔اور اسی نقشے کے مطابق مکان بنانے کی تلقین بھی کرتا ہے۔ جب کوئی بیمار پڑ جائے تو لوگ صرف اپنے ماہرانہ مشوروں سے نوازنے کے لئے اس کی عیادت کو جاتے ہیں۔ اور مریض کو دیکھتے ہی کسی بڑے تجربہ کار حکیم کی طرح اس کے مرض کی نوعیت بتاتے اور علاج تجویز کرتے ہیں۔ اکثر لوگوں کو یہ مشورہ دیتے ہوئے بھی سنا گیا ہے کہ کسی ڈاکٹر کو دکھانے اور ٹیسٹ وغیرہ میں پیسے ضائع کرنے کی ضرورت نہیں۔ صاف صاف نظر آرہا ہے کہ یہ فلاں مرض ہے ۔ یہی مرض میرے دادا، خالو، ماسی ، داماد کی چچی، بہنوئی کی خالہ اور سالے کی ساس کو بھی ہوئی تھی۔ فلاں ٹوٹکے استعمال کرنے سے اسے ایسا افاقہ ہوا۔ جیسے کبھی وہ بستر پر پڑا ہی نہ ہو۔خواتین مفت مشورہ دینے کے فن میں مردوں سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ کئی بیماروں کو اپنے ٹوٹکوں کی وجہ سے اگلے جہاں پہنچانے کے باوجود ان کی تسلی نہیں ہوئی اور وہ مفت مشورہ دینے کو اپنا مقصد حیات سمجھتی ہیں۔شیخ علاء الدین نے مہنگائی کے مارے عوام کو کتے ، بلیاں اور چوہے جیسے حرام جانور کھانے کا مشورہ دینے کے ساتھ جوتے کھانے کی بھی صلاح دی ہے۔ جوتے کھانے کا مشورہ شاید وہ خصوصی طور پر مرد حضرات کو دینا چاہتے ہوں گے۔ کیونکہ ہمارے معاشرے میں کھانے کے لئے کما کر لانا مرد کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے اور خالی ہاتھ آنے پر ان کی جوتوں سے تواضع ویسے بھی ہوتی ہے۔ اس لئے جوتے کھانے کا مشورہ دینا بھی بے محل ہے۔ وزیرموصوف کو شاید یہ معلوم نہ ہو۔ کہ معاہدہ عمرانی کے تحت عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ،انہیں زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی ، صحت، تعلیم اور روزگار کی ضمانت دینا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اگر کوئی حکومت اپنی یہ بنیادی ذمہ داری پوری نہیں کرتی۔اور عوام کو ان کی قوت خرید کے مطابق انہیں ٹماٹر، پیاز، آلو اور دال ساگ مہیا نہیں کرسکتی۔ تو اسے مسند اقتدار سے چمٹے رہنے کا کوئی حق نہیں۔ اسمبلی کے فلور پر عوام کو حرام خوری کا مشورہ دینے والے صوبائی وزیر کے ریمارکس پر تبصرے شروع ہوچکے ہیں۔ لیکن چونکہ بات پنجاب اسمبلی اور مسلم لیگ کی چل رہی ہے اس لئے شاید کوئی سخت ردعمل نہ آئے۔ اگر یہی بات خدانخواستہ خیبر پختونخوا کا کوئی وزیریامشیر کرچکا ہوتا۔تو اب تک ملک میں ایک ہنگامہ برپا ہوتا۔ کیونکہ ہمارے حکمران گھروں کی رونق کو ہنگامے پر ہی موقوف سمجھتے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
2920