Chitral Times

جوش نہیں، ہوش سے کام لیں……… محمد شریف شکیب

Posted on

سپریم کورٹ نے آف شور کمپنی کو اپنے اثاثوں میں ظاہر نہ کرنے پر تحریک انصاف کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین کو تاحیات عوامی عہدے کے لئے نااہل قرار دیا ہے۔ جبکہ پارٹی کے قائد عمران خان کو کرپشن کے الزامات ثابت نہ ہونے پر بری کردیا۔ عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے پر ملک میں نئی سیاسی بحث چھڑ گئی ہے۔پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کا اے ٹی ایم بند ہوگیا۔ کوئی کہتا ہے کہ جہانگیر ترین نے جہاز کی چابیاں واپس لے لیں اب عمران خان کو پیدل مارچ کرنا پڑے گا۔کسی دل جلے نے پوسٹ کیا ہے کہ پی ٹی آئی کو مرکزی سیکرٹری جنرل کے عہدے کے لئے موزوں امیدوار درکار ہیں۔ جہاز یا ہیلی کاپٹر مالکان کو ترجیح دی جائے گی۔مسلم لیگ ن نے عدالتی فیصلے کو محض دکھاوا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر منصفانہ فیصلہ آتا تو تحریک انصاف رہتی نہ ہی عمران خان سیاسی منظر نامے میں موجود ہوتے۔ لیگی قیادت نے الزام لگایا ہے کہ عدالتوں نے عمران خان کو بچانے کے لئے جہانگیر ترین کو قربانی کا بکرا بنادیا۔ جو پانامہ کیس کے معیار کی نفی ہے۔لیگی رہنماوں نے حنیف عباسی کیس میں عدالتی فیصلے پر عدلیہ اور ججوں کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکمران جماعت عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی کی مہم سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ عدلیہ سے محاذ آرائی پر ان کے پارٹی قیادت سے اختلافات ہیں جس کی وجہ سے انہیں پارٹی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کرنی پڑی۔چوہدری نثار کی طرح حکمران جماعت کے سینئر قائدین بھی محاذ آرائی کی سیاست سے نالاں نظر آتے ہیں لیکن میاں برادران اور پارٹی کے جونیئر رہنماوں کا موقف یہ ہے کہ مسلم لیگ کو بچانا ہے تو اینٹ کے بدلے پتھر والی حکمت عملی اپنانی ہوگی۔ اسی دوران سپیکر قومی اسمبلی ایازصادق کا بیان بھی سامنے آیا جس میں انہوں نے کسی ناگہانی خطرے کی بات کی ہے۔ تاہم وزیراعظم شاہد خاقان نے اسے سپیکر کا وہم قرار دیتے ہوئے ان کے تحفظات دور کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ موجودہ حکومت اور اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے میں چند ماہ باقی رہ گئے ہیں۔ ملک اور جمہوریت کے لئے بہتر یہی ہے کہ منتخب حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے۔ پرامن انتقال اقتدار کا عمل بلاتعطل جاری رہے۔ تاکہ سیاست دانوں اور عوام کی جمہوریت تربیت ہوتی رہے۔ اداروں سے محاذ آرائی کی پالیسی سے کسی جماعت کو وقتی طور پر فائدہ تو پہنچ سکتا ہے لیکن ملک و قوم اور جمہوریت کے لئے محاذ آرائی کا عمل زہرقاتل ہے۔ تیس چالیس سال پہلے کی سیاست اور آج کی سیاست میں بہت فرق ہے۔ عوام اب سیاسی طور پر باشعور ہوچکے ہیں۔ وہ حکومتوں کو کارکردگی کے ترازو میں تولنے لگے ہیں۔سیاسی طور پر شہید ہونے کی پالیسی سیاسی جماعتوں کے لئے مستقل موت کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کو سیاسی لحاظ سے بالغ ہونے کے لئے مزید وقت درکار ہے۔ انہیں اپنی صفوں میں جمہوریت لانے کی ضرورت ہے۔ جمہوریت رواداری، صبر، استقامت ، مفاہمت اورنظام میں تسلسل کی متقاضی ہے۔ کرسی کے حصول کو اپنا مقصد حیات بنانے کے بجائے سیاست کو خدمت کا ذریعہ بنانا ہوگا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ جمہوری قوتوں کے غیر جمہوری طرز عمل کی وجہ سے غیر جمہوری قوتوں کے لئے راستے ہموار ہوتے رہے۔سیاسی محاذ آرائی کی وجہ سے ملک کے حالات اس نہج پر پہنچ جاتے ہیں کہ ملک کی بقاء اور اداروں کو بچانے کے لئے فوج کو بار بار مداخلت کرنی پڑی۔جس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑا۔ سیاست جوش کا نہیں ۔ ہوشمندی کا کھیل ہے۔ تدبر کا عملی مظاہرہ کرنے والے سیاست دان ہی مدبر کہلاتے ہیں۔روپے کی قدر میں کمی، مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ، امن و امان کی بگڑتی صورتحال ، سیاسی طور پر بحرانی کیفیت اور سرحدوں پر مسلسل کشیدگی کا تقاضا ہے کہ محاذآرائی سے اجتناب کیا جائے اور قومی اتحاد و یک جہتی کو فروغ دیاجائے۔ ملک و قوم کی بقاء پر اپنی سیاسی دکان چمکانے کی قوم اب اجازت نہیں دے گی۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , ,
3210

قوم کو اپنے ہیروز پر فخر ہے………….. محمد شریف شکیب

Posted on

پشاور کے ایگریکلچر ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ پر عید میلاد کے روز دہشت گردوں نے اچانک یلغار کردی۔جدید ہتھیاروں، دستی بموں اور خود کش جیکٹوں سے مسلح حملہ آور جب نہتے طالب علموں پر ٹوٹ پڑے توخیبر پختونخوا پولیس نے چابکدستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردوں کو گھیر لیا۔ پولیس کی ریپڈ رسپانس فورس حملے کے چند منٹوں کے اندر انسٹی ٹیوٹ پہنچی۔ اورپوزیشن سنبھال لی۔ابھی فائرنگ کا تبادلہ شروع ہی ہوا تھا کہ پولیس کی کمک وہاں پہنچ گئی۔سی سی پی او خود آپریشن کی قیادت کر رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر سی سی پی او کی جو تصویر دکھائی گئی۔ اس سے ظاہر ہورہا تھا کہ انہیں سوتے میں واقعے کی خبرہوئی۔ بستر چھوڑ کر اٹھا۔ کپڑے بدلنے میں وقت ضائع کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔بنیان اور پاجامہ پہن کر جائے وقوعہ پہنچا ۔پولیس کی گاڑی سے بلڈبروف جیکٹ اٹھا کر بنیان کے اوپر پہن لیا اور بندوق اٹھاکر میدان جنگ میں کود گیا۔پولیس کے ایک ایس ایچ او کے بارے میں بتایا گیا کہ دہشت گردوں کی طرف سے گولیوں کی بوچھاڑ کی پروا نہ کرتے ہوئے وہ اپنی گن سنبھالے تربیتی مرکز میں داخل ہونے لگا۔ تھوڑے ہی فاصلے پر پولیس کی گاڑی کھڑی تھی۔ مگر فرض شناس افسر وہاں جاکر بلڈ پروف جیکٹس پہننے میں وقت ضائع کرنا نہیں چاہتا تھا۔ کیونکہ قوم کے نہتے نونہال دہشت گردوں کے نشانے پر تھے۔ ایک ٹی وی چینل کے صحافی نے اپنا بلڈ پروف جیکٹ اتا ر کر ایس ایچ او کو زبردستی پہنا دیا۔حملہ آور اپنے ساتھ اتنا اسلحہ اور گولہ بارود لے کر آئے تھے کہ وہ انسٹی ٹیوٹ میں قتل عام کے بعد گھنٹوں پولیس اور سیکورٹی فورسز کا مقابلہ کرسکتے تھے۔ لیکن شاید ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پولیس اتنی تیزی سے جوابی کاروائی کرے گی کہ انہیں سنبھلنے کا وقت ہی نہیں ملے گا۔دہشت گردوں نے ابھی ہاسٹل کے ایک حصے میں کاروائی شروع ہی کی تھی کہ پولیس نے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔ انہیں دستی بم پھینکنے اور اپنے خود کش جیکٹ بھی پھاڑنے کا موقع نہ مل سکا۔ اور تینوں دہشت گرد فورسز کے جوانوں کا نشانہ بن گئے۔ دہشت گردی کے اس واقعے میں زخمی ہونے والے پولیس اہلکاروں کو جب اسپتال پہنچایا تو زخمیوں کو خون کا عطیہ دینے والوں کا تانتا بندھ گیا۔پولیس کے اس بدلے ہوئے روپ کا کریڈٹ خیبر پختونخوا حکومت کو دیتے ہوئے ہمارے ایک سینئر ساتھی کا کہنا تھا کہ ہماری پولیس بااختیار ہونے کی وجہ سے اس کی کارکردگی میں حیران کن بہتری آئی ہے۔ پہلے یہ پریشانی ہوتی تھی کہ اگر کچھ ہوگیا تو کیا ہوگا۔ اب پولیس والے عوام کی جان و مال اور عزت وآبرو کی حفاظت اپنی جانوں پر کھیل کر کرنے لگے ہیں اب ہمیں یہ فکر نہیں کہ اگر کچھ ہوگیا تو کیا ہوگا۔پولیس کا یہ روپ دیکھ کر یقین ہوچلا ہے کہ صوبائی حکومت نے سیاست سمیت ہر قسم کی زنجیروں سے آزاد کردیا ہے۔ایگریکلچر ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کے واقعے میں جرات، شجاعت اور بہادری کی کئی داستانیں رقم ہوئیں۔ جن کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ ایک کردار انسٹی ٹیوٹ کی چھت پر بیٹھے ان دو سیکورٹی اہلکاروں کا ہے جنہوں نے انسٹی ٹیوٹ میں گھسنے والے دہشت گردوں کو مفلوج کرکے رکھ دیا۔ وہ اپنے ہدف تک پہنچنے کے لئے ایک قدم بھی نہیں بڑھا سکے۔ اور بالاخر دونوں دہشت گرد قوم کی ان جری سپاہیوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ اسی واقعے میں شجاعت کی لازوال داستان ایک نوعمر طالب علم نے رقم کی۔ فائرنگ کی آواز سن کر جب ارسلان اپنے کمرے سے باہر نکلا تو اس کی اچانک ایک دہشت گرد سے مڈبھیڑ ہوگئی۔ارسلان نے دہشت گرد کو دبوچ لیااور اس سے بندوق چھیننے کی کوشش کی۔ خود کو چھڑانے کی کوشش میں دہشت گرد نے ارسلان کا انگوٹھا بھی چبا لیا۔ لیکن بہادر نوجوان نے نہ صرف بندوق چھین لی بلکہ دھکادے کر دہشت گرد کو کمرے میں بندکردیا اور باہر سے دروازہ بند کردیا۔پولیس نے عمارت میں سرچ آپریشن کے دوران اس محصور دہشت گرد کا مار ڈالا۔قوم کے جری سپوتوں نے عزم و شجاعت اور فرض شناسی کا جو بے مثال مظاہرہ کیا۔ اس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر قوم کا اعتماد بحال ہوا ہے۔وفاقی و صوبائی حکومت، پاک فوج اور خیبر پختونخوا پولیس کو دہشت گردی کا ایک خوفناک منصوبہ ناکام بنانے پر قوم کے ان ہیروز کی خدمات کا اعتراف کرنا چاہئے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
2608

شام کی اوپی ڈی یا کلینک؟……….. محمد شریف شکیب

Posted on

پشاور کی ضلعی انتظامیہ اور ہیلتھ کیئر کمیشن نے ڈبگری گارڈن میں مشترکہ کاروائی کے دوران آٹھ پرائیویٹ لیبارٹریوں کے منیجرز کو غیررجسٹرڈ اور ناقص کٹس استعمال کرنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ ضلعی انتظامیہ اور ہیلتھ کیئر کمیشن نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ کسی کو ذاتی مفاد کے لئے قیمتی انسانی جانوں سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔نجی اسپتالوں، لیبارٹریوں اور کلینکوں میں دکھی انسانیت کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک پر حکومت اور انتظامیہ کا ایکشن قابل اطمینان ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے کرپشن کے خاتمے، تعلیم اور صحت سمیت تمام شعبوں میں اصلاحات کواپنی اولین ترجیحات میں شامل کیا ہے۔ گذشتہ چار سالوں کے دوران حکومت کی کاوشوں سے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں کافی تبدیلیاں آئی ہیں لیکن اداروں کو شفاف بنانے کی منزل اب بھی کافی دور ہے۔دکھی انسانیت کے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے نجی مراکز صحت کے کام کی چھان بین اور نگرانی سے بلاشبہ لاکھوں افراد کو ریلیف ملے گا۔ لیکن صوبائی حکومت کو سرکاری اسپتالوں میں دکھی انسانیت کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا بھی نوٹس لینا چاہئے۔صوبائی حکومت نے بڑے سرکاری اسپتالوں میں شام کی او پی ڈی اور سینئر ڈاکٹروں کی پرائیویٹ پریکٹس شروع کروانے کے لئے بہت پاپڑ بیلے ہیں۔حکومت کے اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے سینئر ڈاکٹروں کے ایک مضبوط گروپ نے آخری لمحے تک مزاحمت کی ۔لیکن حکومت عوامی مفاد کے اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے اور پشاور کے تین بڑے اسپتالوں میں شام کی او پی ڈی شروع کرانے میں کامیاب ہوگئی۔ یہ طے پایا تھا کہ جو ڈاکٹر اپنے پرائیویٹ کلینک میں ایک ہزار روپے معائنہ فیس لیتے ہیں وہ سرکاری اسپتال میں چھ سوروپے فیس مریضوں سے لیں گے۔ سرکاری اسپتال کے کمرے ، طبی آلات ، ٹیسٹوں اورلیبارٹری کی سہولیات انہیں حاصل ہوں گی۔ عوام خوش تھے کہ انہیں صبح کی طرح شام کے اوقات میں بھی کم خرچے پر تشخیص اور علاج کی بہترین سہولیات ملیں گی۔ لیکن جب لیڈی ریڈنگ، حیات آباد میڈیکل کمپلیکس، ، خیبر ٹیچنگ اور ایوب ٹیچنگ اسپتال میں شام کے اوقات میں سینئر ڈاکٹروں کی پرائیویٹ پریکٹس شروع ہوگئی تو وہاں بھی ڈاکٹروں کی من مانی دیکھ کر مریض ہکا بکا رہ گئے۔ کیونکہ پروفیسروں اور اسسٹنٹ پروفیسروں کی فیس اسپتال میں بھی ہزار بارہ سو روپے مقرر تھی۔جبکہ سینئر رجسٹرار بھی ایک ہزار روپے فیس وصول کر رہے تھے۔ ڈاکٹرجب مریضوں کے ہاتھ میں ایکسرے، الٹراساونڈ، ایکو، ای سی جی اور لیبارٹری ٹیسٹوں کی پرچی دینے لگے ۔تو انہیں خوش فہمی تھی کہ چلو ڈاکٹر کی کلینک والی فیس ہی سہی۔ اسپتال کے اندر ٹیسٹوں کے خرچے تو کم ہوں گے۔ لیکن مریضوں کی حیرت اس وقت پریشانی میں تبدیل ہوگئی جب اسپتال کے اندر ان سے ٹیسٹوں اور لیبارٹری کی فیس پرائیویٹ لیبارٹریوں سے بھی زیادہ طلب کی جانے لگی ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ سینئر ڈاکٹروں نے سرکاری اسپتال کے اندر معائنے اور علاج کی مفت سہولیات حکومت سے حاصل کرکے یہاں اپنے کلینک ڈال دیئے ہیں اور سرکاری اسپتال میں کم خرچے پر علاج کی غرض سے آنے والے غریب لوگوں کی چمڑی ادھیڑی جارہی ہے۔ صوبے کے بڑے تدریسی اسپتالوں کو حکومت نے خود مختاری دیدی ہے۔ محکمہ صحت ان کے کاموں میں مداخلت نہیں کرسکتا۔ لیکن ضلعی انتظامیہ اور ہیلتھ کیئر کمیشن کے دائرہ اختیار میں ہے کہ وہ نجی اسپتالوں، کلینکوں اور لیبارٹریوں کی طرح سرکاری اسپتالوں میں بھی عوام کوفراہم کی جانے والی علاج معالجے کی سہولیات کا جائزہ لیں۔ پرائیویٹ پریکٹس کے حوالے سے طے پانے والے معاہدے کی فریقین سے پاسداری کو یقینی بنائیں اور دکھی انسانیت کو ریلیف فراہم کریں۔صوبائی حکومت نے عوامی مفادات کو پیش نظر رکھ کر طویل جدوجہد کے بعد ایک معرکہ سر کیا ہے۔ اس کے ثمرات غریب عوام تک ضرور پہنچنے چاہئیں۔اگر تدریسی اسپتالوں میں سینئر ڈاکٹروں سے علاج کروانے کی فیس ڈبگری گارڈن اور دیگر نجی طبی مراکز کے برابر یا اس سے بھی زیادہ ہے تو پھر شام کی او پی ڈی شروع کرنے اور سینئر ڈاکٹروں سے اسپتالوں میں پرائیویٹ پریکٹس شروع کرانے کا عوام کو کیا فائدہ ہوا؟؟

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
2384

خیبر پختونخوا حکومت کا انقلابی قدم ………..محمد شریف شکیب

Posted on

خیبر پختونخوا حکومت نے 1960کے موٹر وہیکل آرڈیننس پر عمل درآمد کا آغاز کرتے ہوئے اپنے منشور کے تحت تبدیلی کی جانب ایک اہم قدم اٹھایا ہے۔حکومت نے صوبے کے سات ڈویژنوں میں کلیم ٹریبونلز قائم کئے ہیں جو ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین اور زخمیوں کو معاوضے کی ادائیگی یقینی بنائیں گے۔ اگر ٹریفک حادثہ گاڑی کی خرابی یا ڈرائیور کی غفلت اور لاپرواہی سے رونما ہونا ثابت ہوجائے۔ تو گاڑی کے مالک سے معاوضہ وصول کرکے حادثے کے متاثرین کو دیا جائے گا۔یہ قانون47سالوں سے موجود تھا مگر کسی حکومت نے اس پر عمل درآمد کرانے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔ تین ماہ قبل ایک مسیحی شہری صدیق کی اہلیہ یاسمین بی بی پشاور سے لاہور جاتے ہوئے بس کے حادثے میں زخمی ہوگئی۔ متاثرہ خاتون نے سیکرٹری ریجنل ٹرانسپورٹر اتھارٹی کو درخواست دی کہ ٹریفک حادثے میں اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے۔ وہ اپنا علاج کرانے کی استطاعت نہیں رکھتی۔ اس کا علاج یا مالی مدد کی جائے۔ متاثرہ خاتون کو امداد کی فراہمی کے لئے مروجہ قوانین کی پڑتال کی گئی تو موٹر وہیکل آرڈیننس سامنے آگیا۔ جس میں درج تھا کہ ٹریفک حادثہ اگر ڈرائیور کی کوتاہی یا گاڑی کی خرابی کے باعث رونما ہوا ۔ تو گاڑی کا مالک حادثے میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کو سولہ ہزار اور زخمیوں کو چھ سے آٹھ ہزار روپے کا معاوضہ ادا کرنے کا پابند ہوگا۔یاسمین کی فریاد جب ارباب اختیار تک پہنچی تو صوبائی حکومت نے موٹر وہیکل آرڈیننس کو عوامی مفاد میں فوری نافذ کرنے اور اس کے لئے ٹریبونلز قائم کرنے کا اعلان کیا۔ ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو کلیم ٹریبونل کا سربراہ مقرر کردیا گیا۔ یہ طے پایا کہ ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہونے والوں اور زخمیوں کے لواحقین ٹریبونل کو معاوضے کے لئے درخواست دے سکیں گے۔ٹریبونل حادثے کی وجوہات معلوم کرنے کے بعد گاڑی کے مالک یا ڈرائیور کی غلطی ثابت ہونے پر مالک سے معاوضے کی رقم وصول کرکے متاثرین کو ادا کرے گا۔ یاسمین بی بی کو بھی کلیم ٹریبونل کے ذریعے ستر ہزار روپے ادا کردیئے گئے۔ ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی نے 1960میں وضع کی گئی معاوضے کی شرح کا از سرنو تعین کیا ہے اور سمری حکومت کو بھجوادی ہے۔ جس کی منظوری کے بعد حادثے میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کو معاوضے کے طور پر تین لاکھ روپے اور زخمیوں کو ایک لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ روپے دیئے جائیں گے۔ہمارے صوبے کے ننانوے فیصد لوگوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ ٹریفک حادثے کی صورت میں متاثرین کی مدد اور داد رسی کا کوئی قانون بھی موجود ہے ۔ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے مطابق حادثے کے نوے دنوں کے اندر متاثرین معاوضے کے لئے کلیم ٹریبونل سے رجوع کرسکتے ہیں۔تاہم کوئی زخمی زیادہ عرصہ تشویش ناک حالت میں رہا ہو۔ یا کسی ناگزیر وجہ کی بناء پر نوے دن کے اندر کلیم ٹریبونل سے رجوع نہ کرسکا ہو۔ تو وہ مقررہ مدت کے بعد بھی معاوضے کے لئے درخواست جمع کروا سکتا ہے۔عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ ٹریفک حادثات میں 30ہزار سے زیادہ انسانی جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ایک غیر سرکاری ادارے کی جائزہ رپورٹ کے مطابق 2010کے بعد اگرچہ پاکستان میں رسل و رسائل کا نظام کافی حد تک بہتر ہوچکا ہے۔ تاہم گاڑیوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سے ٹریفک حادثات کی شرح بھی بڑھتی جارہی ہے۔ ملک کی مجموعی آبادی کا 2اعشاریہ 69فیصد حصہ ہرسال ٹریفک حادثات کا شکار ہوتا ہے ۔جو دہشت گردی کے واقعات یا کسی بھی بیماری کے باعث ہلاکتوں سے زیادہ ہے۔ٹریفک حادثات کی وجوہات میں غیر معیار ی اور غیرہموار سڑکیں،ٹریفک کا خراب نظام، تیز رفتاری، گاڑی میں فنی خرابی ، ڈرائیور کی ٹریفک قوانین سے ناواقفیت، نشے کی حالت میں ڈرائیونگ یا غنودگی طاری ہونا بھی ہوسکتی ہے۔ تاہم ستر فیصد حادثات کا سبب گاڑی یا ڈرائیور ہوتا ہے۔ چند ٹکوں کی خاطر خراب گاڑی میں مسافروں کو ٹھونس کر سڑکوں پر فراٹے بھرنے کا نتیجہ کوئی المناک حادثہ ہی ہوسکتا ہے۔ ایسے حادثات کے مرتکب افراد سے معاوضے کی وصولی کے علاوہ ان کے لئے سخت سزائیں مقرر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ٹریفک حادثات اور اس میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کی شرح کم سے کم کی جاسکے۔ بھولے بسرے موٹر وہیکل آرڈیننس کو دوبارہ زندہ کرکے خیبر پختونخوا حکومت نے عوام کا ایک سنگین مسئلہ حل کیا ہے ۔ جس کی پذیرائی ضرور ہونی چاہئے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
2223

صوبائی حقوق کے لئے دھرنا ……..محمد شریف شکیب

Posted on

خیبر پختونخوا کی حکومت اور اپوزیشن نے صوبائی حقوق کے لئے اسلام آباد میں دھرنا دینے پر اتفاق کرلیا ہے۔ حکومتی ترجمان کے مطابق وفاق کی طرف سے رواں ہفتے صوبے کے واجبات کی ادائیگی کے لئے عملی اقدامات کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ تاہم اس قسم کی یقین دہانیاں اس سے قبل سینکڑوں مرتبہ ہوچکی ہیں لیکن عملی اقدامات نظر نہیں آئے۔ صوبائی حکومت کے مطابق وفاق کے ذمے قومی مالیاتی کمیشن کے ذریعے صوبے کو ملنے والی رقم کے علاوہ بجلی کا خالص منافع، بجلی منافع کے بقایا جات اور جاری ترقیاتی منصوبوں میں وفاق کے حصے کی رقم شامل ہے ۔ چھوٹے صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ کی صورت میں ملنے والی رقم کی عدم ادائیگی کی وجہ سے وفاقی حکومت قومی مالیاتی کمیشن کا اجلاس بلانے سے بھی گریزاں ہے۔ صوبائی حکومت کے مطابق اپوزیشن جماعتوں سے رابطے مکمل کئے گئے ہیں رواں ہفتے کے اختتام تک مرکز سے مثبت جواب نہ ملنے کی صورت میں مشترکہ دھرنے کی تاریخ اور جگہ کا اعلان کیا جائے گا۔ اور یہ دھرنا صوبے کے حقوق کے حصول تک جاری رہے گا۔خیبر پختونخواکا سالانہ بجٹ وفاق سے ملنے والے وسائل کی بنیاد پر ہی بنایا جاتا ہے۔ بجٹ میں صوبے کے اپنے وسائل کا حصہ صرف بیس فیصد ہے جبکہ 80فیصد آمدن این ایف سی میں صوبے کے حصے، بجلی کی رائیلٹی ، بقایا جات کی اقساط اور وفاق کی طرف سے ملنے والی امداد سے آتی ہے۔ جب آمدنی کا تین چوتھائی سے زیادہ حصہ بلاک رہے ۔ تو معیشت کا پہیہ جام ہونا فطری امر ہے۔ وفاق کی طرف سے خیبر پختونخوا کو واجبات کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ یہ نہیں کہ وفاق کے پاس وسائل نہیں ہیں۔ بلکہ یہ سیاسی رقابت کا نتیجہ ہے۔ تاکہ وفاقی حکومت کو یہ طعنہ دینے کا موقع مل جائے کہ خیبر پختونخوا حکومت تبدیلی لانے اور عوام کو سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ سابق وزیر اعظم ، وفاقی وزراء اور وزیراعظم کے مشیر ہر جگہ یہ کہتے پھیر رہے ہیں کہ صوبے میں سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں۔ سکولوں اور اسپتالوں کی حالت دگرگوں ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری بڑھتی جارہی ہے۔ اور صوبائی حکومت ہر شعبے میں ناکام ہوچکی ہے۔ 603ارب روپے کے صوبائی بجٹ میں سے کم از کم 400ارب روپے وفاق نے دینے تھے۔جن کی ادائیگی میں وفاقی حکومت دانستہ تاخیر کر رہی ہے۔ جس کی وجہ سے صوبائی حکومت بجلی کے منصوبوں سمیت کوئی میگا پراجیکٹ شروع نہیں کرسکی۔ ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی اور روزمرہ اخراجات کے لئے بھی صوبائی حکومت کو بینکوں سے قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔ پشاور ریپڈ ٹرانزٹ بس سروس کے لئے بھی صوبائی حکومت کو ایشیائی ترقیاتی بینک سے 41ارب روپے کا قرضہ لینا پڑا ہے۔ گھر میں جب فاقوں کی نوبت آتی ہے تو سب ہی بلکتے ہیں۔ صوبے کو جو وسائل وفاق کی طرف سے ملنے ہیں وہ اس صوبے کے چار کروڑ لوگوں کا حق ہے۔ یہ وفاقی حکومت کا ہم پر کوئی احسان ہے نہ ہی صوبائی حکومت اسے بھیک کے طور پر مانگ رہی ہے۔کیونکہ یہ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف یا کسی دوسری سیاسی جماعت کی طرف سے ملنے والی گرانٹ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صوبے کی تمام سیاسی قوتیں اپنے حقوق کے لئے ایک پلیٹ فارم پر آگئی ہیں اور انہوں نے سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر عوام کے جائز حقوق کے لئے عملی جدوجہد کا فیصلہ کیا ہے۔ حقوق کے لئے اس احتجاج کے پیچھے پورے صوبہ خیبر پختونخوا کے عوام ہیں۔ اور عوام اب جاگ چکے ہیں وہ کسی پارٹی کو قومی وسائل اپنے سیاسی مفادات کے لئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔وفاقی طرز حکومت میں مرکز کی مثال ماں اور وفاقی ایکائیوں کی مثال بچوں کی ہوتی ہے۔ اور کوئی بھی ماں اپنے بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کرتی۔ ہر بچے کو اس کے حصے کی خوراک، توجہ اور پیار دیتی ہے۔ ماں اگر سوتیلی بھی ہو۔ تب بھی وہ سوتیلی اولاد کو بھوکا مرنے کے لئے نہیں چھوڑتی۔ پنجاب میں میٹرو بس، اورینج ٹرین اورموٹر وے کے منصوبے ضرور چلائیں۔ لیکن ہمارے بچوں کے منہ سے نوالہ چھین کر نہیں ۔بلکہ اپنے حصے کے وسائل سے یہ عیاشیاں کریں۔ پاکستانی ہونے کے ناطے خیبر پختونخوا کے عوام کا بھی قومی وسائل پر اتنا ہی حق ہے ۔ جتنا دوسرے صوبوں کا ہے۔ اور حق دینے میں دانستہ تاخیر جائز حقوق کی فراہمی سے انکار کے مترادف ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
976