Chitral Times

داد بیداد ………..عرب دُنیا میں سیکولرزم …………… ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

بھارتی وزیر اعظم نے متحدہ عرب امارات میں تاریخ کے پہلے مندر کا سنگِ بنیاد رکھاسنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں عرب کے حکمران اور شیوخ کی بڑی تعداد موجود تھی تصاویر کے پسِ منظر میں بہت سے بُت بھی نظر آرہے تھے سنہرے رنگ کے یہ بُت پہلی کھیپ کے طور پر سنگ بنیاد کی تقریب کے لئے لائے گئے تھے مندر کی عمارت 2020ء میں مکمل ہوگی افتتاح کے موقع پر مندر میں 360بُت رکھے جائینگے یہ بُتوں کی وہ تعداد ہے جو فتح مکّہ کے وقت حرم شریف میں موجود تھے سیکولرزم کے حامیوں نے تحقیق کی ہے اور تحقیق کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ 1400سال بعد عرب میں سیکولرزم کا دور دورہ ہوگا تو وہی 360بُت عرب دنیا کے پہلے مندر میں رکھے جائینگے اس وقت عرب دنیا کو تین بڑے مسائل کا سامنا ہے عرب کے شیوخ اور حکمران ان مسائل کے حل کے لئے امریکہ اور بھارت کا تعاون حاصل کر رہے ہیں خود کو دنیا کے لئے قابل قبول بنانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے اوپر لگے ہوئے بنیاد پرست کے لیبل کو اُتار کر روشن خیال ، لبرل اور سیکولر کا لیبل لگانا چاہتے ہیں اس کوشش میں مندر کے لئے زمین بھی عربوں نے وقف کی ہے مندر کی تعمیر بھی عربوں کے خرچے پر ہورہی ہے عربوں کو درپیش گھمبیر مسائل کی فہرست بہت دلچسپ ہے پہلا مسئلہ ایران کا مقابلہ کر کے ایران کو شکست دینا ہے کیوں کہ ایران میں جمہوری اقدار، روایات اور ایرانیوں کے مذہب سے عرب دُنیا کو خطرہ ہے دوسرا بڑا مسئلہ شام کے ساتھ جنگ ہے شام کے خلاف جنگ میں کامیابی کے لئے عربوں نے امریکہ ، برطانیہ ، نیٹو ، یورپی یونین اور اسرائیل کا بھرپور تعاون حاصل کیا ہے مگر ایران اور روس کی طرف سے شام کی خودمختاری کو تحفظ دیا جاتا ہے عربوں کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوتا عرب دنیا کسی بھی حال میں شام کو شکست دینا چاہتی ہے تیسرابڑا مسئلہ یمن میں درپیش ہے جہاں عرب ریاستیں مل کر یمنی حکومت کے خلاف لڑ رہی ہیں اس لڑائی میں بھی عرب ریاستوں کو امریکہ ، اسرائیل اور دیگر بیرونی ملکوں کا تعاون حاصل ہے مگر پھر بھی یمن کو فتح کرنے میں کامیابی نہیں ہوتی کیونکہ یمن کی پُشت پر ایران ہے اور ایران کے عزائم ٹھیک نہیں ہیں متحدہ عرب امارات میں مندر کی بنیاد رکھنے کے بعد عرب ملکوں کو بھارت کا مکمل تعاون حاصل ہوگا یورپ ، امریکہ اور روس کے سامنے عربوں کا لبرل اور سیکولر چہرہ چمک اُٹھے گاعرب ریاستیں فخر سے دعویٰ کرینگی کہ ہم نے چین ، روس ، جرمنی ، فرانس ، برطانیہ اور امریکہ سے دو قدم آگے بڑھ کر سیکولرزم کو تحفظ دیا ہے کیوں کہ ہماری بقا سیکولرزم میں ہے یہاں پر ایک نئی بحث چھڑ سکتی ہے کہ سیکولرزم اور اسلام ایک دوسرے کی ضد ہیں یا نہیں ؟ پاکستان کے اندر گذشتہ نصف صدی سے زیادہ عرصے کے دوران جو پروپیگنڈا سامنے آیا ہے اس کی رو سے سیکولرزم کفر اور شرک ہے 1940ء کی دہائی میں امریکہ سے جو لٹریچر لایا گیا ہے اور امریکی حکومت کے خرچ پر وطن عزیز کے اندر جو لٹریچر شائع کیا گیا اس میں سیکولرزم کو کفر اور شرک کے طور پر پیش کیا گیا یہ لٹریچر عرب دنیا میں دستیاب نہیں ہے عرب دنیا میں سیکولرزم کو ایک سیاسی نظریہ تصّور کیا جاتا ہے اس کی رو سے ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ملک کے باشندے بھی اور بیرون ملک سے آکر روزگار تلاش کرنے والے تارکینِ وطن بھی حکومت اور ریاست کی نظروں میں مذہبی لحاظ سے برابر شہری کا درجہ رکھتے ہیں ان کو مذہبی معاملات میں پوری آزادی ہوتی ہے مندر، چرچ ، مسجد ، امام بارگاہ یا کوئی اور عبادت خانہ بنانے کی پوری اجازت اور آزادی ہوتی ہے اس وجہ سے عرب دنیا میں مندر کی تعمیر پر کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیئے ایران، شام ، یمن اور لبنان کے حزب اللہ ملیشیا کا مقابلہ کرنے کے لئے عرب ریاستوں کو امریکہ ، برطانیہ اور بھارت کے تعاون کی ضرورت ہے سیکولر زم اس تعاون کی ضرورت ہے سیکولر زم اس تعاون کی ضمانت ہے ہر مسئلے کا تاریک پہلو دیکھنے والے لوگ 360بتوں کو تاریخ کا جبر قرار دیتے ہیں یہ تاریخ کا جبر نہیں بلکہ تاریخ اپنے آ پ کو اسی طرح دہراتی ہے علامہ اقبال ؒ نے اسی حوالے سے سو باتوں کی ایک بات کہی ہے
ٍ بُتوں سے اُمیدیں خدا سے نو میدی
بتا ؤ مجھے او ر کافری کیا ہے

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , ,
6538

صدا بصحرا…………سیکیورٹی والا غیر محفوظ کیوں؟…………… ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

سیکیورٹی کا لفظی مفہوم حفاظت اور تحفظ لیا جاتا ہے۔ چترال اور دیر کو ملانے والے 10500 فٹ درّے پر مٹی خوڑ کے قریب برفانی تودے کی زد میں آکر ہلاک ہونے والے دو سیکیورٹی گارڈز کی لاشیں ایک ہفتہ کی تلاش کے بعد نکالی گئیں۔ سیکیورٹی گارڈ نور محمد کے ہمراہ اس کا بیٹا عبید اللہ بھی ہلاک ہوا جب کہ اس کا داماد رفیق زخمی حالت میں برف سے نکالا گیا تھا۔ ڈیوٹی کے دوران مرنے والے نور محمد کے بارے میں دوسری افسوس ناک خبر یہ آئی کہ وہ ٹیلیفون کے ٹاور کی حفاظت پر مامور تھا۔ بیٹا بھی سیکیورٹی گارڈ تھا۔ داماد اس کے ہمراہ تھا۔ اور تیسری افسوسناک خبر یہ اخبارات میں شائع ہوئی کہ محکمہ ٹیلی فون نے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے۔پاکستان ٹیلی کمیو نی کیشن لمیٹڈ اور اتّصالات نے دو ٹوک الفاظ میں خبر شائع کرائی ہے کہ مرنے والے اس کے ملازم نہیں تھے۔ ایک نجی سیکیورٹی ایجنسی کی طرف سے پی ٹی سی ایل ٹاور پر ڈیوٹی دے رہے تھے۔ مرنے والوں کے کاغذات کی جانچ پڑتال سے معلوم ہوا کہ سیکیورٹی ایجنسی ماہانہ 8ہزارروپے تنخواہ دیتی تھی۔ پنشن ، انشورنس اور دیگر مراعات کے وہ حقدار نہیں تھے۔ مزید تحقیق سے معلوم ہوا کہ وطنِ عزیز میں دہشت گردی آنے بعد سیکیورٹی کو غیر محفوظ کرنے کا کاروبار بنایا گیا ہے۔ ایک با اثر شخص ایک آنہ پیسہ خرچ کئے بغیر سیکیورٹی کا پرائیوٹ کاروبار کھولتا ہے۔ سیکیورٹی مانگنے والے دفتروں سے ایک سیکیورٹی گارڈ کے لئے 16ہزار روپے سے لیکر 30ہزار روپے تک کی تنخواہ طے کرتا ہے مگر سیکیورٹی گارڈ کو 6ہزار روپے سے لیکر9ہزار روپے تک تنخواہ دیتا ہے۔ ڈاکوؤں اور دہشت گردوں کے حملے میں مارا جائے تو اس کے پسماندہ گان کو ایک پائی بھی نہیں ملتی۔ بلکہ 13تاریخ کو سیکیورٹی گارڈ مر جائے تو 12دنوں کی تنخواہ دی جاتی ہے۔مرنے کے دن کی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے۔ ٹیلی فون کے ٹاور کی حفاظت بینک ، سکول اور دیگر دفاتر سے بھی زیادہ حساس معاملہ ہے۔ کوئی بھی واقعہ ہوجائے تو پہلے ٹیلی فون ٹاور اور مواصلات کے ذرائع پر نظر پڑتی ہے۔ جنرل مشرف اپنی خود نوشت سوانح عمری’’ ان دی لائن آف فائر‘‘ میں بہت ساری سبق آموز واقعات کے علاوہ ٹیلیفون ٹاور کا واقعہ بھی لکھا ہے۔ 12اکتوبر کی رات کو مسلح افواج نے پرائم منسٹر ہاؤ س ، ایئر پورٹ کے مواصلاتی نظام، ریڈیو پاکستان اور پی
ٹی وی کا کنٹرول سنبھالنے کے ساتھ ساتھ ٹیلی مواصلات کے تمام ٹاورز کا کنٹرول بھی سنبھال لیا۔ کراچی ایئر پورٹ کے کنٹرول ٹاور پر محاذ اتھارٹی کی طرف سے تھوڑی سی مزاحمت ہوئی۔ لاہور میں ایک نجی موبائل فون کمپنی کے ٹاور پر سیکیورٹی گارڈ نے آرمی کے کپتان کو کنٹرول دینے سے یہ کہہ کر انکار کیا کہ تم میرے آفیسر نہیں ہو۔ میں اپنے آفیسر کی اجازت کے بغیر کنٹرول تمہارے ہاتھ میں نہیں دے سکتا۔ مشرف لکھتا ہے کہ’’ آدمی غیرت مند تھا ہمارے جوانوں نے اس کو قابو کرلیا‘‘۔ اس واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ٹیلی مواصلات کا ٹاور بھی پرائم منسٹر ہاؤس اور پی ٹی وی کی طرح اہم مقام ہے۔ یہ ٹاور 10500فٹ کی بلندی پر ہو تو اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ یہ ٹاور افغانستان اور بھارت کی سرحد کے قریب ہو تو اس کی اہمیت میں 10گنا اضافہ ہوتا ہے۔ یہ کتنی ستم ظریفی ہے کہ ٹیلی مواصلات کے ٹاور کی سیکیورٹی کا سسٹم ایک غیر ذمہ دار تاجر کی غیر ذمہ دار کمپنی کو سونپ دیا جاتا ہے۔ اور یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن لمیٹڈ( PTCL) انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ اخباری بیان جاری کرتی ہے کہ ٹاور پر ڈیوٹی دینے والے سیکیورٹی گارڈز کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق اور رشتہ نہیں ہے ۔ یہ ایک دوسری کمپنی کے ساتھ تعلق رکھتے تھے۔ اسی طرح ڈکیتی کی واردات میں بینک کے دو ملازم جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ایک ملازم بینک سے تنخواہ لیتا تھا۔ اس کے پسماندہ گان 45لاکھ روپے کے ساتھ پنشن بھی ملتی ہے۔ دوسرا نجی سیکیورٹی کمپنی کا ملازم تھا اس کوایک دھیلا بھی نہیں ملتا۔ بینک حکام کہتے ہیں کہ یہ’’ سالا ‘‘ہمارا ملازم نہیں تھا۔ این جی اوز کے دفاتر کا بھی ایسا ہی حال ہے ۔ سیکیورٹی کے منافع بخش کاروبار میں ایک پائی کا خرچہ نہیں ہے۔ گھر بیٹھے ایک بڑے تاجر کو ہر ماہ لاکھوں روپے کی آمدن ہوتی ہے اور یہ آمد ن سیکیورٹی کے نام پر آتی ہے۔ مگر جو بندہ سیکیورٹی کی ڈیوٹی دیتا ہے اپنی جان پر کھیلتا ہے اس کی مثال ایک بندر جیسی ہے سیکیورٹی ایجنسی کا مالک بندر کو نچوانے والا مداری ہے وہ لاکھوں کماتا ہے بندر کو دو وقت کی روٹی دے کر کہتا ہے بچہ جمورا ! ناچو اور تماشا دکھاؤ۔ لواری ٹاپ پر برفانی تودے کی زد میں آکر مرنے والے نور محمد اور عبید اللہ کے قتل کی ایف آ ئی آر پی ٹی سی ایل اور نجی سیکیورٹی ایجنسی کے خلاف درج کرانے کی کوششیں جاری ہیں۔ اگر ایف آئی آر درج ہوئی تو پوسٹ مارٹم رپورٹوں کی روشنی میں اگلے 25سالوں تک مقدمہ چلے گا۔ مگر یہ مسئلے کا حل نہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے چیف جسٹس سے سوموٹو ایکشن لینے کا مطالبہ کیا ہے ۔ اس کا نتیجہ بھی صفر ہوگا۔ اس سلسلے میں جی او سی خوازہ خیلہ ، کورکمانڈر پشاور اور چیف آف آرمی سٹاف اگر انکوائری کا حکم دے دیں سیکیورٹی کے حساس ترین کام کو غیر محفوظ بنانے والی نجی سیکیورٹی ایجنسیوں کے کاروبار کی چھان بین کرائیں اور مزدور کی کم سے کم اجرت 16ہزار روپے ماہانہ تنخواہ کے ساتھ انشورنش ، پنشن اور دیگر مراعات دینے کا حکم دیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
6339

صدا بصحرا ……….خوش فہمی کی حد نہیں………..ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

اخبارات میں بیرسٹر اعتزاز احسن کا جاندار تبصرہ آیا ہے کہ نواز شریف نے خودکش جیکٹ پہن لیا ہے۔ اب اُس دیوار کی تلاش ہیں جس سے اپنی گاڑی ٹکرا کر وہ دھماکہ کرینگے۔ تبصرے کو میں نے جانداراس لئے کہا کہ 28جولائی 2017ء سے اب تک سابق وزیر اعظم جو کچھ کر رہے ہیں اس کو خود کش حملے کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا۔ 28جولائی 2017ء کو سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد ان کو باعزت خاموشی اختیا ر کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا مگر انہوں نے اپنے ہمدردوں کا مشورہ نہیں مانا، دشمنوں کے مشوروں پر عمل کرکے اپنے آ پ کو اور اپنی پارٹی کو نقصان پہنچایا۔ بلوچستان کے سرداروں نے ان کے داماد کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا۔ اور اہم صوبے سے پارٹی کا صفایا ہوگیا۔ پنجاب میں ن لیگی اراکین اسمبلی ان کے داماد کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ وقت آنے پر ایک قدم آگے رکھ کر ق لیگ کو پیارے ہوجائینگے۔ اس تناظر میں سینئر وکیل اور سینئر سیاستدان اعتزاز احسن نے سابق وزیر اعظم کی موجودہ سیاست کو ’’ خودکش حملہ ‘‘ قرار دیا ہے۔میری نظر میں یہ خوش فہمی کا شاخسانہ ہے اور خوش فہمی کسی کی جاگیر نہیں۔ یہ کسی کے حصے میں بھی آسکتی ہے۔مثلاََ عمران خان کو یہ خوش فہمی ہے کہ نواز شریف کے زوال کے بعد پنجاب میرا ہوگا۔ حالانکہ اس کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ۔ عمران خان اگر خیبر پختونخوا میں مخلوط حکومت بنانے کا تجربہ نہ کرتے تو نواز شریف کا متبادل ہوسکتے تھے۔مگر 4سال حکومت کرنے کے بعد ان کی شخصیت کا سحر ٹوٹ چکا ہے۔ ان کی پارٹی سے مختلف گروہوں کو جو امیدیں وابستہ تھیں وہ دم توڑ چکی ہیں۔متحدہ مجلس کی بحالی اس کا واضح ثبوت ہے کہ اب عمران خان کسی کے ’’ لاڈلے‘‘ نہیں رہے۔ پاکستان تحریک انصاف کو بھی آخرکار تحریک استقلال کے راستے پر ڈال دیا گیا ہے۔مگر خوش فہمی کی حد یہ ہے کہ عمران خان نے وزارت عظمٰی کا حلف اُٹھانے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا۔ انہوں نے کہا اگرچہ بحیثیت وزیر اعظم پاکستان ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات میرے لئے کڑوی گولی ہوگی مگر ملک کے مفاد میں یہ کڑوی گولی مجھے قبول ہوگی۔ایک ستم ظریف نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کپتان کی خوش فہمی کا راکٹ بہت جلد چاند پر اتر جائے گا کیونکہ آسمانوں کی سیر اب ہوچکی ۔چیف جسٹس آف پاکستان کو یہ خوش فہمی ہے کہ عدلیہ بہت طاقتور ہو چکی ہے ۔وزیر اعظم کو گھر بھیجنے کے بعد عدلیہ کچھ بھی کرسکتی ہے۔حالانکہ چیف جسٹس کو کسی دوسرے پاکستانی سے زیادہ علم ہے کہ عدلیہ کی طاقت کا راز کیا ہے۔ سوات اور کوہستان کی قدیم داستانوں میں ایک طاقتوردیو کا ذکر آتا ہے۔ طاقتور دیو نے شہزادی کو قید میں رکھا ہوا ہے۔ بادشاہ اور اس کے حواری حیران ہیں کہ شہزادی کو دیو کی قید سے کسی طرح چھڑایا جائے۔ایک بڑھیا دربار میں داخل ہوتی ہے بادشاہ کی پریشانی کو بھانپ لیتی ہے اور کہتی ہے کہ یہاں بیٹھ کر سر نہ کھپاؤ فلک سیر کی چوٹی پر جاؤ برف کے گھونسلے میں پرندہ بیٹھا ہے۔ وہ بتائے گا کہ دیو کی طاقت کا راز کیا ہے ۔ بادشاہ فلک سیر چوٹی پر جاتا ہے۔برف کے گھونسلے میں بیٹھے ہوئے پرندے سے پوچھتا ہے کہ دیو کی طاقت کا راز کیا ہے؟ پرندہ کہتا ہے کہ دیو کی جان چڑیا کے جسم میں قید ہے۔ چڑیا تمہارے پائیں باغ میں چنار کے درخت پر بیٹھی ہے۔ تم چڑیا کو مارو گے تو دیو مرجائے گا اور شہزادی اس کی قید سے رہا ہوجائیگی۔ عدلیہ کی موجودہ طاقت کا راز بھی ایسا ہی ہے۔ کسی دور پار جنگل کے کسی پرانے درخت پر کوئی پرندہ بیٹھا ہوگا۔ عدلیہ کی جان اس پرندے کے جسم میں قید ہوگی۔ وہ پرندہ نہ رہا تو عدلیہ بھی اپنی طاقت سے محروم ہوجائیگی۔لیکن خوش فہمی ایسی بیماری ہے جس کا کوئی علاج نہیں۔ بعض دوستوں کو یہ خوش فہمی ہے کہ طاہر القادری بھی اگلی حکومت میں ’’ حصہ بقدرجثّہ ‘‘ والی کسی کسی خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔ حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں۔ موجودہ سیاسی فضا میں طاہر القادری واحد شخصیت ہیں جو خوش فہمی نہیں پالتے بلکہ نقد سودا کرتے ہیں۔اس کا کنٹینر اس کو پشتو روزمرہ کی رو سے ’’ دائیں ہاتھ سے‘‘ (پہ خی لاس) 5ملین ڈالر دے دیتا ہے اور یہ بہت سستا سودا ہے۔ البتہ یہ سچ ہے کہ بقول اعتزاز احسن ہمارے سابق وزیر اعظم کو خوش فہمی لاحق ہے۔ وہ خودکش جیکٹ پہن کر جوتھی بار داماد کی وساطت سے اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا ہونے والا نہیں مگر خوش فہمی کی حد نہیں ہوتی۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , ,
4675

داد بیداد ……..نصاب میں اخلاقیات……….ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو نصاب سازی کا اختیار ملا توماہرینِ تعلیم نے اِس پر خوشی کا اظہار کیا ہر صوبہ اپنی صوابدید اور اپنے ماحول کے مطابق تعلیمی نصاب بنانے کے قابل ہوا 2012ء میں خیبر پختونخوا کی حکومت نے 5 مادری زبانوں کو اوّل سے بارھویں جماعت تک نصاب میں شامل کرنے کا قانون منظور کیا2017ء میں خیبر پختونخوا حکومت نے نیا سنگِ میل عبور کرتے ہوئے نصاب میں اخلاقیات کو جگہ دینے کی منظوری دی ابتدائی طور پر جو منصوبہ سامنے آیا ہے اُس کی بسم اللہ ہی بسم اللہ سے ہوتی ہے نصاب میں بچوں کو تربیت دی جائیگی کہ کھانا کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھیں کھانے سے پہلے ہاتھ دھوئیں اور داہنے ہاتھ سے کھائیں اس حوالے سے اخلاقیات کے نصاب کی جو جھلکیاں اخبارات میں شائع ہوئی ہیں اُن سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت سکولوں کے نصاب کو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں مخلص ہے جو موضوعات تجویز کی گئی ہیں اُن میں سڑک پر چلنے اور زیبرا کراسنگ کو پار کرنے کے آداب، ٹریفک قوانین کی پابندی، پبلک مقامات پر گھومنے پھرنے کے آداب، کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کے طریقے،بینکوں ، ڈاکخانوں ، بس اسٹیشنوں اور دیگر عوامی جگہوں پر قطار بنانے کے طریقے بھی شامل کئے گئے ہیں۔ تجاویز میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ نصاب کے ذریعے بچوں کو یہ بھی بتایا جائے گاکہ تمباکو نوشی صحت کے لئے مضر اور اخلاقی برائی ہے دیگر موضوعات میں والدین کا ادب ،اساتذہ کا احترام ،بڑوں کا ادب، ہمسایوں کی خدمت ، معذوروں کی مدد، سلام کی عادت ،جانوروں اور پرندو پر رحم،بجلی اور گیس کو ضائع ہونے سے بچانے کی عادت،اجنبی لوگوں اور مسافروں کا احترام، مسکرانے کی عادت،برداشت اور تحمل کی عادت، کسی سے اختلاف کرنے کے آداب،روزانہ ورزش کی اہمیت ، موبائل فون استعمال کرنے کے آداب، ریڈیو ، ٹی وی اورلاؤڈ اسپیکراستعمال کرنے کے آداب وغیرہ سمیت 62موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے یہ نصاب اگر مرتب ہوا تو قوم کے بہتر مستقبل کی ضمانت ہوگی اور یہ حکومت کا تاریخی کارنامہ تصور کیا جائے گامگر وہ جو شاعر نے کہا ہے’’ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں‘‘ اب اِس تجویز کو ایک ایسی جگہ پر قید کیا جائے گا جس کا نام سرد خانہ ہے خدا کرے اِس تجویز کو سرد خانے میں طویل عرصہ تک قیدو بند میں نہ رہنا پڑے آگے ایسے مراحل ہیں جن میں سے ہر مرحلہ ایک کوہِ قاف ہے مثلاََ تجویز کو عملی اقدامات کے لئے شعبۂ نصاب سازی و تربیت اساتذہ ایبٹ آباد (DCTE)کو بھیجا جائے گا جہاں نصاب سازی کا مرحلہ طے ہوگا ہر موضوع کے اہداف مقرر ہوں گے اور اہداف کی روشنی میں نصاب کے خدوخال تجویز کئے جائیں گے اس کام میں کم از کم ایک سال لگے گا نصاب تیا ر ہونے کے بعد ٹیکسٹ بُک  بورڈ کا کام شروع ہوگا ٹیکسٹ بُک بورڈ کے پاس بھلے وقتوں میں ماہرینِ مضمون ہوتے تھے لکھاریوں کا پینل ہوتا تھا ماضی صوفی غلام مصطفی تبسم ؔ ،حفیظ جالندھریؔ ،احمد ندیم قاسمیؔ ، پروفیسر خاطر غزنویؔ ،پروفیسرطٰہٰ خان اور پروفیسر اشرف بخاری ؔ کی طرح نامور لوگ اس پینل میں ہوا کرتے تھے وقت گزرنے کے بعد ٹیکسٹ بُک بورڈ میں بھی چچا، ماموں قسم کے لوگ جمع ہوگئے اورلکھاریوں کے پینل میں بھی گائیڈ اور پاکٹ بُک لکھنے والوں میں سے بھانجے، بھتیجے آگئے 2005ء سے 2017ء تک 12سالوں کے دوران جو نصابی کتابیں پشاور ، صوابی اور مردان سے شائع کی گئیں ان کا معیا ر انتہائی پست رہا ان میں نہ متن کی کوئی خوبی ہے نہ درست کمپوزنگ اور پروف ریڈنگ ہو ئی ہے نہ طباعت کا معیا ر دیکھا گیا ہے نصابی کتابیں مفت تقسیم ہوتی ہیں اس لئے’’ الا بلا بہ گردنِ ملا‘‘ کے مصداق الم غلم کرکے کام مکا دیا گیا ان کتابوں کو دیکھ کر افسوس ہوتاہے کہ اٹھارویں ترمیم کیوں آیا اور نصابی کتابوں کی اشاعت کا کام صوبائی حکومت کو کیسے ملا؟ اس وقت ملک میں نصاب کے مطابق کتابوں کی چھپائی کے حوالے سے پنجاب ٹیکسٹ بورڈ ، سندھ ٹیکسٹ بورڈ اعلیٰ ترین معیار کے حامل ہیں نیشنل بُک فاؤنڈیشن اور بلوچستان ٹیکسٹ بُک بورڈ بھی معیاری کتابیں شائع کرتے ہیں خیبر پختونخوا کی حکومت کو ان کے تجربات سے استفادہ کرنا چاہیئے اور خیبر پختونخوا ٹیکسٹ بُک بورڈ کی تنظیم نو کر کے کم از کم اخلاقیات کی کتابیں اعلٰی اخلاقی معیا ر کے مطابق شائع کرنی چاہیئے اس وقت ملک میں کئی نجی ادارے نصابی کتابیں شائع کررہی ہیں ان کا معیا ر خیبر پختونخوا ٹیکسٹ بُک بورڈ سے بدرجہا بہتر ہے اگر نصابی کتاب کا کام بھانجے اور بھتیجے کو دیا گیاتو کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کے فضائل پر بے رنگ ،بے بو ،بے ذائقہ اور خشک مضمون لکھا جائے گا جو طلبہ اور طالبات کو متاثر کرنے کے بجائے بو ر کردے گا یہی کام اگر کسی تخلیق کار، ناول نگار،ڈرامہ نگار، افسانہ نگار اور دانشور کو دیا گیاتو وہ تخلیقی ماحول پیدا کرے گا مکالمہ کا انداز اپنائے گا تجسس پیدا کرے گااور کہانی کو مکالمے کا روپ دیکر 150یا 200الفاظ میں دلچسپ پیرائیے میں بسم اللہ سے کھانا شروع کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرے گا جو اساتذہ اور طلباء کے لئے یکساں مفید ہوگاہر موضوع کو اس پر قیاس کیا جاسکتا ہے خیبر پختونخوا کے سکولوں کے لئے نصاب میں اخلاقیات کا مضمون متعارف کرانا یا اخلاقیات کو مختلف مضامیں کے اند ر شامل کرانا بیحد اہم فیصلہ ہے اب اخلاقیات کا تقاضا یہ ہے کہ یہ کام بھانجے، بھتیجے ، چچا یا ماموں سے لینے کی جگہ تخلیقی صلاحیت والے ادیبوں اور دانشوروں کے پینل سے لیا جائے تاکہ وقت کے تقاضوں کے مطابق کتابیں شائع کی جاسکیں

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
3503

صدا بصحرا …….. خیبر پختونخوا کا منظر نامہ ……….ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

متحدہ مجلس عمل کی بحالی سے پنجاب اور سندھ یا بلوچستان کی سیاسی فضا میں کو ئی خاص تبدیلی نہیں آئیگی البتہ خیبر پختو نخوا کا سیاسی منظر نامہ یکسر بدل جائے گا ملاکنڈ ،بنوں ،ڈی آئی خان ،کو ہاٹ ،پشاور اور مردان ڈویژن کے ساتھ ہزارہ کے اضلاع بٹگرام ،تورعز اور کوہستان میں بھی متحدہ مجلس عمل کو برتری ملے گی صوابی اور نوشہرہ کے دو اضلاع کو چھوڑ کر باقی تمام جگہوں پر حکمران جماعت کو زبر دست مقابلے کا سامنا ہو گا اندازہ یہ ہے کہ صوبائی اسمبلی میں واحد اکثر یتی پارٹی بن کر متحدہ مجلس عمل سامنے آئے گی اے این پی ، مسلم لیگ (ن) یا پی پی پی کے ساتھ ملکر حکومت بنائے گی مگر یہ اتنا آسان بھی نہیں
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں
سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ قائدین کی طرف سے اتحاد کا اعلان ہو نے کے باوجود کارکنوں کے درمیان برادرانہ ہم آہنگی کا فقدان پایا جاتا ہے سوشل میڈیاپر تین باتیں گردش کر رہی ہیں مولانا انس نورانی اور اُن کی پارٹی کے لئے کارکنوں کے دلوں میں کدورت باقی ہے ملت جعفریہ کے لئے قبولیت کا کوئی امکان دور دور تک نظر نہیں آتا جماعت اسلامی اور جمعیتہ العلمائے اسلام (ف)کے کارکن ایک دوسرے سے بد ظن ہیں جماعت اسلامی والے پی ٹی آئی کو ترجیح دیتے ہیں جمیتہ کے کارکن مسلم لیگ (ن)کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں دونوں نے متحدہ مجلس عمل کی بحالی کو دل سے قبول نہیں کیا اس سے بھی مشکل مرحلہ یہ ہے کہ جمیعتہ العلمائے اسلام (ف) صوبائی اسمبلی کی زیادہ نشستیں حاصل کرنا چاہتی ہے جماعت اسلامی کی قیادت صوبے میں اپنا وزیر اعلیٰ لانے کے لئے زیادہ سیٹیں اپنے نام کرنا چاہتی ہے نیز دونوں جماعتوں نے قومی اور صوبائی اسمبلی کے متوقع اُمیدواروں کا پہلے سے اعلان کیا ہوا ہے اتحاد کی خاطر کسی نامزد اُمیدوار کو بٹھانا اور اُس کے حامیوں کو قابو میں رکھنا بہت مشکل ہو گا جس اُمیدوار کی قربانی دی گئی وہ آزاد حیثیت سے میدان میں آئے گا اور پھڈاڈالے گا مگر یہ سیاسی معاملہ اور اہل سیاست کا کام ہے شاعر نے کہا
اُ ن کا جو کام ہے اہل سیاست جانیں
میر ا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
خیبر پختو نخوا کو ہمیشہ سے سیاسی تجربہ گاہ کی حیثیت حاصل رہی ہے ہر انتخابات میں یہاں نت نئے تجربے دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں اس صوبے کی اپنی کو ئی جماعت بھی نہیں ابھرتی کسی قومی پارٹی کو بھی یہاں پنجاب اور سندھ کی طرح پذیرائی نہیں ملتی اس وجہ سے خیبر پختو نخوا کی اسمبلی کو لٹکی ہوئی اسمبلی (Hung Assembly) کہا جاتا ہے 2013ء میں پاکستان تحریک انصاف کو بھی معلق اسمبلی ملی تھی جماعت اسلامی کی مدد سے پر ویز خٹک نے حکومت بنائی اگر جماعت اسلامی کا تعاون نہ ہوتا تو جمعیتہ العلمائے اسلام (ف)کی حکومت آسکتی تھی دیگر جماعتیں مولانا فضل الرحمن کا ساتھ دینے پر آمادگی ظاہر کر چکہ تھیں اس نازک موڑ پر قومی وطن پارٹی نے بھی پرویز خٹک کا ساتھ دیا تھا بعد میں حالات نے پلٹا کھایا خیبر پختونخوا کے بدلتے ہوئے منظر نامے کو سامنے رکھ کر پاکستان تحریک انصاف اپنے دوستوں اور بہی خواہوں کو متحرک کر کے اسمبلیوں کو توڑ کر قومی حکومت بنانے پر زور دیگی قومی حکومت میں عمران خا ن کے وزیر اعظم بننے کا امکان پیدا ہو گا اور 2018ء کے انتخابات کو چند سالوں کے لئے ملتوی کرنے کا راستہ نکل آئے گا یہ محتا ط اور صاف راستہ ہو گا اگر امپائر کی انگلی حرکت میں آجائے تو دلی مراد پوری ہو گی دوسرا قوی امکان یہ ہے کہ شہباز شریف اور آصف زرداری مل کر واشنگٹن کے ساتھ ڈیل کر کے خود کو ایک بار پھر قابل قبول بنا لینگے اسمبلیوں کو توڑنے نہیں دینگے چائنا پاکستان اکنامک کو ریڈور کو چند سالوں کے لئے موخر کرنے پر سمجھوتہ ہو جائے گا اور چین کا راستہ روکنے کے لئے واشنگٹن کے تمام تحفظات کو دور کیا جائے گا اس صورت میں 2018 ؁ء کے انتخابات وقت پر ہو نگے خیبر پختونخوا میں ایم ایم اے کی حکومت کو تسلیم کیا جائے گا پنجاب اور سندھ میں ملی مسلم لیگ اور لبیک یا رسول اللہ کو چندسیٹو ں کے ساتھ دو چار وزارتیں دی جائینگی اس طرح نیا بندوبست بھی سب کے مفاد میں ہو گا ایسے حالات میں پاکستان تحریک انصاف کے لئے کوئی جگہ نہیں رہے گی اگلے انتخابات تک انتظار کا مشورہ دیا جائے گا خان صاحب یورپ میں چھٹیاں گذارینگے اور کرکٹ میچوں میں ماہرانہ رائے دینے کی ذمہ داریوں کے علاوہ شوکت خانم کینسر ہسپتال کے لئے عطیات جمع کرنے کی مہم بھی چلاسکینگے اس طرح خیبر پختو نخوا کا نیا سیاسی منظر نامہ پورے ملک کی سیاست کا رُخ بدل کر رکھ دیگا شاعر نے سچ کہا ’’ہم بدلتے ہیں رُخ ہواؤں کے‘‘

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , ,
3204