Chitral Times

داد بیداد ……..نصاب میں اخلاقیات……….ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو نصاب سازی کا اختیار ملا توماہرینِ تعلیم نے اِس پر خوشی کا اظہار کیا ہر صوبہ اپنی صوابدید اور اپنے ماحول کے مطابق تعلیمی نصاب بنانے کے قابل ہوا 2012ء میں خیبر پختونخوا کی حکومت نے 5 مادری زبانوں کو اوّل سے بارھویں جماعت تک نصاب میں شامل کرنے کا قانون منظور کیا2017ء میں خیبر پختونخوا حکومت نے نیا سنگِ میل عبور کرتے ہوئے نصاب میں اخلاقیات کو جگہ دینے کی منظوری دی ابتدائی طور پر جو منصوبہ سامنے آیا ہے اُس کی بسم اللہ ہی بسم اللہ سے ہوتی ہے نصاب میں بچوں کو تربیت دی جائیگی کہ کھانا کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھیں کھانے سے پہلے ہاتھ دھوئیں اور داہنے ہاتھ سے کھائیں اس حوالے سے اخلاقیات کے نصاب کی جو جھلکیاں اخبارات میں شائع ہوئی ہیں اُن سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت سکولوں کے نصاب کو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں مخلص ہے جو موضوعات تجویز کی گئی ہیں اُن میں سڑک پر چلنے اور زیبرا کراسنگ کو پار کرنے کے آداب، ٹریفک قوانین کی پابندی، پبلک مقامات پر گھومنے پھرنے کے آداب، کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کے طریقے،بینکوں ، ڈاکخانوں ، بس اسٹیشنوں اور دیگر عوامی جگہوں پر قطار بنانے کے طریقے بھی شامل کئے گئے ہیں۔ تجاویز میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ نصاب کے ذریعے بچوں کو یہ بھی بتایا جائے گاکہ تمباکو نوشی صحت کے لئے مضر اور اخلاقی برائی ہے دیگر موضوعات میں والدین کا ادب ،اساتذہ کا احترام ،بڑوں کا ادب، ہمسایوں کی خدمت ، معذوروں کی مدد، سلام کی عادت ،جانوروں اور پرندو پر رحم،بجلی اور گیس کو ضائع ہونے سے بچانے کی عادت،اجنبی لوگوں اور مسافروں کا احترام، مسکرانے کی عادت،برداشت اور تحمل کی عادت، کسی سے اختلاف کرنے کے آداب،روزانہ ورزش کی اہمیت ، موبائل فون استعمال کرنے کے آداب، ریڈیو ، ٹی وی اورلاؤڈ اسپیکراستعمال کرنے کے آداب وغیرہ سمیت 62موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے یہ نصاب اگر مرتب ہوا تو قوم کے بہتر مستقبل کی ضمانت ہوگی اور یہ حکومت کا تاریخی کارنامہ تصور کیا جائے گامگر وہ جو شاعر نے کہا ہے’’ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں‘‘ اب اِس تجویز کو ایک ایسی جگہ پر قید کیا جائے گا جس کا نام سرد خانہ ہے خدا کرے اِس تجویز کو سرد خانے میں طویل عرصہ تک قیدو بند میں نہ رہنا پڑے آگے ایسے مراحل ہیں جن میں سے ہر مرحلہ ایک کوہِ قاف ہے مثلاََ تجویز کو عملی اقدامات کے لئے شعبۂ نصاب سازی و تربیت اساتذہ ایبٹ آباد (DCTE)کو بھیجا جائے گا جہاں نصاب سازی کا مرحلہ طے ہوگا ہر موضوع کے اہداف مقرر ہوں گے اور اہداف کی روشنی میں نصاب کے خدوخال تجویز کئے جائیں گے اس کام میں کم از کم ایک سال لگے گا نصاب تیا ر ہونے کے بعد ٹیکسٹ بُک  بورڈ کا کام شروع ہوگا ٹیکسٹ بُک بورڈ کے پاس بھلے وقتوں میں ماہرینِ مضمون ہوتے تھے لکھاریوں کا پینل ہوتا تھا ماضی صوفی غلام مصطفی تبسم ؔ ،حفیظ جالندھریؔ ،احمد ندیم قاسمیؔ ، پروفیسر خاطر غزنویؔ ،پروفیسرطٰہٰ خان اور پروفیسر اشرف بخاری ؔ کی طرح نامور لوگ اس پینل میں ہوا کرتے تھے وقت گزرنے کے بعد ٹیکسٹ بُک بورڈ میں بھی چچا، ماموں قسم کے لوگ جمع ہوگئے اورلکھاریوں کے پینل میں بھی گائیڈ اور پاکٹ بُک لکھنے والوں میں سے بھانجے، بھتیجے آگئے 2005ء سے 2017ء تک 12سالوں کے دوران جو نصابی کتابیں پشاور ، صوابی اور مردان سے شائع کی گئیں ان کا معیا ر انتہائی پست رہا ان میں نہ متن کی کوئی خوبی ہے نہ درست کمپوزنگ اور پروف ریڈنگ ہو ئی ہے نہ طباعت کا معیا ر دیکھا گیا ہے نصابی کتابیں مفت تقسیم ہوتی ہیں اس لئے’’ الا بلا بہ گردنِ ملا‘‘ کے مصداق الم غلم کرکے کام مکا دیا گیا ان کتابوں کو دیکھ کر افسوس ہوتاہے کہ اٹھارویں ترمیم کیوں آیا اور نصابی کتابوں کی اشاعت کا کام صوبائی حکومت کو کیسے ملا؟ اس وقت ملک میں نصاب کے مطابق کتابوں کی چھپائی کے حوالے سے پنجاب ٹیکسٹ بورڈ ، سندھ ٹیکسٹ بورڈ اعلیٰ ترین معیار کے حامل ہیں نیشنل بُک فاؤنڈیشن اور بلوچستان ٹیکسٹ بُک بورڈ بھی معیاری کتابیں شائع کرتے ہیں خیبر پختونخوا کی حکومت کو ان کے تجربات سے استفادہ کرنا چاہیئے اور خیبر پختونخوا ٹیکسٹ بُک بورڈ کی تنظیم نو کر کے کم از کم اخلاقیات کی کتابیں اعلٰی اخلاقی معیا ر کے مطابق شائع کرنی چاہیئے اس وقت ملک میں کئی نجی ادارے نصابی کتابیں شائع کررہی ہیں ان کا معیا ر خیبر پختونخوا ٹیکسٹ بُک بورڈ سے بدرجہا بہتر ہے اگر نصابی کتاب کا کام بھانجے اور بھتیجے کو دیا گیاتو کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کے فضائل پر بے رنگ ،بے بو ،بے ذائقہ اور خشک مضمون لکھا جائے گا جو طلبہ اور طالبات کو متاثر کرنے کے بجائے بو ر کردے گا یہی کام اگر کسی تخلیق کار، ناول نگار،ڈرامہ نگار، افسانہ نگار اور دانشور کو دیا گیاتو وہ تخلیقی ماحول پیدا کرے گا مکالمہ کا انداز اپنائے گا تجسس پیدا کرے گااور کہانی کو مکالمے کا روپ دیکر 150یا 200الفاظ میں دلچسپ پیرائیے میں بسم اللہ سے کھانا شروع کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرے گا جو اساتذہ اور طلباء کے لئے یکساں مفید ہوگاہر موضوع کو اس پر قیاس کیا جاسکتا ہے خیبر پختونخوا کے سکولوں کے لئے نصاب میں اخلاقیات کا مضمون متعارف کرانا یا اخلاقیات کو مختلف مضامیں کے اند ر شامل کرانا بیحد اہم فیصلہ ہے اب اخلاقیات کا تقاضا یہ ہے کہ یہ کام بھانجے، بھتیجے ، چچا یا ماموں سے لینے کی جگہ تخلیقی صلاحیت والے ادیبوں اور دانشوروں کے پینل سے لیا جائے تاکہ وقت کے تقاضوں کے مطابق کتابیں شائع کی جاسکیں

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
3503

داد بیداد……….. ندامت کے دو آنسو……… ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

دو دنوں سے16 دسمبر کا اخبار میرے سامنے ہے چار اخبارات میں 120لیڈروں کے بیانات اور 81 تجزیہ نگاروں کی تحریریں آگئی ہیں ان میں صرف ایک بیان ہے جو سچائی اور حقیقت پر مبنی ہے د و تحریریں ہیں جن میں کچھ حقائق ہیں باقی لفاظی ہے جگالی ہے نقل ماری ہے اور جعل سازی ہے اندازہ یہ ہوتا ہے کہ دو بڑے سانحات پر بھی ہمارا اجتماعی رویہ سنجیدہ نہیں ہم سچ بولنے کی ہمت نہیں رکھتے
محاسبۂ نفس سے گھبراتے ہیں اور’’ ندامت کے دو آنسو ‘‘ بہانے سے گریز کرتے ہیں بابر آیاز نے سچ لکھا ‘ سوریsorry) (کہنے کیلئے بھی
دل گردہ چاہیئے کریکٹر چاہیئے آدمی صاحبِ کردار ہو تو وہ ’’سوری‘‘ کہہ سکتا ہے آرمی پبلک سکول پشاور پر دہشت گردوں کے حملے میں 19افراد کے ہمراہ اپنے 132معصوم ساتھیوں سمیت شہید ہونے والے طالب علم صاحبزادہ عمر کے غمزدہ والد فضل خان ایڈوکیٹ نے تنگ آکر حالات سے مجبور ہوکر سچی بات کہی ہے کہ 3سال گزرنے کے باوجود سانحہ اے۔پی ۔ایس کی تحقیقات نہیں ہوئی کسی مجرم کو سزا نہیں ملی جو دہشت گرد سکول کے اندر مارے گئے وہ آسمان سے نہیں اُترے تھے اِن کو لانے والا بھی کوئی ہے ان کو ھدایات دینے اور تحفظ دینے والا بھی کوئی ہے! فضل خان ایڈوکیٹ ایک غمزدہ باپ ہے اُس نے معصوم بچوں کے 132خاندانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے سب کی طرف سے ایک سوال پوچھا کہ نیشنل ایکشن پلان کدھر گیا؟ فوجی عدالتیں کدھر گئیں؟ انہوں نے بڑے دکھ کے ساتھ یہ بات کہی ہے کہ اگر پشاورہائی کورٹ مداخلت نہ کرتی تو حکومت 16دسمبر2017ء سے دو دن پہلے اے بی ایس حملے کے ماسٹر مائنڈ اور ذمہ داری قبول کرنے والے دہشت گرد کو پورے پروٹوکول کے ساتھ رہاکرنے والی تھی 16دسمبر کے اخبارات میں بڑی خبر مجھے نہیں ملی شاید اُسے بلیک آؤٹ کیا گیا2009ء میں سوات سے بھاگ کر کُنٹر افغانستان میں پناہ لینے والے دہشت گردوں کی طرف سے پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کے کام میں مزاحمت ہوئی ہے کنٹر ولایت کی سڑک بھی بھارت نے بنائی ہے اور اس ولایت میں سواتی طالبان کے ہمراہ بھارتی فوج کے کمانڈوز کی بڑی تعداد کو رکھا گیا ہے پاک افغان سرحد پر فینسنگFencing)) میں یہ گروہ زبردست مزاحمت کررہا ہے پاک فوج اور پیرا ملٹری فورس نے مزاحمت کے باوجود فینسنگ کا کام جاری رکھا ہوا ہے اے پی ایس حملے کی طرح کے دہشت گردانہ حملوں کو روکنے کا ایک راستہ یہ بھی ہے کہ سرحد پرباڑ لگا کر دشمن کے راستے بند کئے جائیں کُنٹر کی سرحد کو بند کرنے کیلئے 600کلومیٹر فینسنگ کا کام ہونا ہے اگر یہ خبر آجاتی تو فضل خان کی طرح غمزدہ والدین کے زخموں کو مند مل کرنے میں آسانی ہوتی اے پی ایس حملے کے نتیجے میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین سچ کہتے ہیں کہ اُن کے زخموں کو مندمل کرنے کیلئے صرف دہشت گردوں کو عبرتناک سزا دینا ہے اور کچھ نہیں چاہیئے چند سال پہلے ایران کے شہر مشہد کی مسجد پر دہشت گردوں کا حملہ ہوا تو ایرانی حکام نے تین دہشت گردوں کو پکڑا ایک دن مقدمہ چلایا دوسرے دن اپیل کی سماعت کی ، تیسرے دن رحم کی اپیل مسترد کرکے مشہد کی اُسی مسجد کے بڑے دروازے پر پھانسی گھاٹ لگایا اور تینوں دہشت گردوں کو تختہ دار پر لٹکایا یہ احمدی نژاد کے پہلے دورِصدارت کا واقعہ تھا
اس کے بعد ایران میں ایسا واقعہ نہیں ہواپاکستان میں دہشت گردی کے لئے کرنل کلبھوشن یادیو کے ہمراہ پورا پلٹن بھیجنے والے بھارت نے ممبئی حملوں کے دوران ایک دہشت گرد کو زندہ پکڑ لیا پاکستان کے خلاف لمبا چوڑا بیان دلوایا جتنا کام لینا تھا اتنا کام اس لڑکے سے لے لیا اجمل قصاب نام رکھ کر اس پر مقدمہ چلایا اور دو سال بھی پورے نہیں ہوئے تھے مقدمہ کی کاروائی پور ی ہوئی اُس کو سزائے موت دیدی گئی ہمار ی حکومت نے کرنل رینک کے بھارتی دہشت گرد کلبھوشن یادیو کو گرفتار کیا اُس نے تمام جرائم کا اقرار کیا مگر ہمارے سسٹم میں جان نہیں تھی 3دنوں میں اُس کو سزا نہیں ہوئی، 3 مہینوں میں سزا نہیں ہوئی، سال گزر گیا، دوسرا سال ہونے کو ہے کلبھوشن کی جان سلامت ہے اُس کی ماں اور بیوی ملاقات کے لئے آرہی ہیں عالمی عدالت انصاف میں اُس کا مقدمہ چل رہا ہے ہیگ کی عدالت میں بھارتی جج بھی بیٹھا ہوا ہے دشمن اُس کو چھڑا کر لیجانے والا ہے ہم دیکھتے رہ جائیں گے 16دسمبر کا دن 2014 ء کی طرح 1971ء میں بھی آیاتھا ہم نے بھُلادیا۔ مگر دشمن کی کتابوں میںیہ تاریخ محفوظ ہے1971ء میں دشمن کیلئے ایک’’ مکتی باہنی ‘‘ کام کر رہی تھی 2017ء میں دشمن کی 12 مکتی باہنیاں پاکستان کے اندر سرگرمِ عمل ہیں ایک کی جگہ 12دہشت گرد تنظیمیں آگئی ہیں اُن کے پاس دولت ہے اسلحہ ہے تربیت ہے اور سیاسی جماعتوں کی ہمدردیاں ہیں ملکی اداروں کی ہمدردیاں ہیں ہم اتنے بے بس ہیں کہ ندامت کے دو آنسو بھی نہیں بہا سکتے صاحبزادہ عُمر شہید کا باپ سچ کہتا ہے اُن کا زخم مندمل نہیں ہوگا

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
3303

داد بید اد ………… سند ھ میں تعلیم و صحت ……….ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ؔ

Posted on

ایک ہفتہ خیر پور ، سکھر ، جیک اباد ، لاڑ کانہ اور اندرون سندھ کے قریبی دیہات میں گذارنے کے بعد اندازہ ہوا کہ سندھ کی اچھی باتیں منظر عام پر نہیں آتیں تعلیم کے شعبے میں سندھ کے اندر ابتدائی و ثانوی تعلیم مفت ہے اعلی تعلیم کا خرچہ اتنا کم ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں کسی کو باور بھی نہیں آئے گا سندھ کے ہسپتالوں میں بڑے بڑے اپریشن مفت ہوتے ہیں یہاں تک کہ گردے کی تبدیلی ، جگر کی تبدیلی بھی مفت ہوتی ہے کینسر جیسے موذی مرض کا دائمی اور موثر علاج سندھ کے سرکاری ہسپتال میں مفت ہوتا ہے مریض یا مریضہ کی تصویر کے ساتھ کبھی وزیراعلیٰ کی تصویر اشتہار میں نہیں دی جاتی سندھ حکومت کہتی ہے عوام کے ٹیکس کا پیسہ ہے عوام پر خر چ ہوتا ہے اشتہار کی کیا ضرورت ہے تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ،شیخی بگھا ر نے کی کیا ضرورت ہے ؟گلگت بلتستان اور پنجاب سے طلبہ اور طالبات اعلیٰ تعلیم کے لئے سندھ یونیورسٹی جام شو رو ، شاہ لطیف یونیورسٹی خیر پور ،چانڈ کامیڈیکل کالج لاڑکانہ ، مہران یونیورسٹی اور دیگر اداروں میں جاتے ہیں حالانکہ سندھ حکومت کسی کو اشتہار دے کر نہیں بلاتی پرو پیگینڈا نہیں کرتی سندھ کی سرکاری یونیورسٹیوں کا سسٹم عوام دوست اور علم دوست ہے خیبر پختونخوا ، پنجاب اور وفاقی حکومت کی یونیورسٹیوں میں سمسٹر فیس اور ہا سٹل رینٹ ملا کر ایک سمسٹر کے لئے کم از کم 64 ہزار روپے جمع کرانے پڑتے ہیں بعض حالات میں یہ رقم 80 ہزر روپے تک پہنچ جاتی ہے سند ھ کی سرکاری یونیورسٹیوں اور پروفیشنل کالجوں میں ایسا نہیں ہے سندھ حکومت یونیورسٹیوں کو سبسڈی یعنی زرِ اعانت فراہم کر تی ہے بی ایس کے لئے سمسٹرفیس 8 ہزار ، ایم ایس سی کے لئے 10 ہزار ، ایم فل کے لئے 12 ہزار اور پی ایچ ڈی کے لئے 16 ہزار روپے ہے ہاسٹل رینٹ 3 ہزار روپے فی سمسٹر ہے یونیورسٹی کی 50 گاڑیاں 100 کلومیٹر کے فاصلے سے طلبہ و طالبات کو مفت ٹرانسپورٹ فراہم کر تی ہیں پشاور، مردان ، ایبٹ اباد اور ڈیر اسماعیل خان میں کوئی اس پر باور نہیں کریگا یہ ایک خواب لگے گا بلکہ سچ پو چھئے تو دیوانے کا خواب لگیگا سندھ کی قیادت میں آپ ہزاروں کیڑے نکالیں مگر یہ کریڈٹ آپ اُن سے نہیں چھین سکتے کسی سند ھی وڈیر ے نے حکومت میں آکر یہ نہیں کہا ’’بابا! یونیورسٹی پر اتنے پیسے کیوں ضائع کر تے ہو ‘‘ کسی سند ھی جاگیر دار نے حکومت سنبھال کر یہ نہیں کہا ’’ بابا ! یونیورسٹیوں کو خود مختار ی دو ،اپنا کما ئینگے ہم پر بوجھ نہیں بنیگے ‘‘ کسی سندھی سیاستدان نے یہ نہیں پوچھا کہ فلان یونیورسٹی حکومت کو کتنی آمد نی دیتی ہے ؟ اگر نہیں دیتی تو بند کر و ‘‘ کسی سندھی وزیر تعلیم نے یہ نہیں کہا ’’ بابا ! یونیورسٹی کا پروفیسر ایک لاکھ روپے تنخوا کیوں لیتا ہے کسی بے روزگار نوجوان کو 20 ہزار روپے دید و تو خوشی سے کام کریگا ‘‘ خیبر پختونخوا میں باربار یہ بات دہرا ئی جاتی ہے یونیورسٹیوں کے اساتذہ کو بوجھ سمجھا جاتا ہے اعلی ٰ تعلیم کو صرف سرمایہ دار اور جاگر دار کی وراثت سمجھا جاتا ہے سندھ کے کلچر میں ایسا نہیں ہے خیبر پختونخوا ، پنجاب اور وفاقی دارالحکومت میں کسی کو یقین نہیں آئے گا کہ سندھ کے سرکاری ہسپتال جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل کالج کراچی میں کینسر کے یٹو مر کا اپریشن سائبر نائف روبوٹ کی جدید ترین ٹیکنا لوجی کے ذریعے مفت کیا جاتا ہے اس اپریشن پر 50 لاکھ روپے کا خر چہ آتا تھا جد ید ٹیکنا لوجی نے اس کو آسان بنا دیا ہے اور پاکستان میںیہ ٹیکنا لوجی سندھ کے سرکاری ہسپتال کے سوا کسی کے پاس نہیں ہے سندھ حکومت سہولت دیتی ہے اس کا پروپیگینڈہ نہیں کرتی ہر سال سرکای ہسپتا لوں میں نئی ٹیکنالوجی لائی جارہی ہے سائبر نائف روبوٹ کی ٹیکنالوجی 2012 ؁ء میں لائی گئی تھی اس سال بیٹ سکین کی ٹیکنالوجی متعارف کرائی گئی ہے اس طر ح ثقافتی ورثے کے تحفظ کے شعبے میں سندھ حکومت بہت حساس اور فعال ہے تمام عمارتو ں میں سندھی ثقافت کو نمایاں کیا گیا ہے شا ہراہوں پر جو دروازے لگائے گئے ہیں ان کو سندھی اجر ک اور دیگر ثقافتی مصنوعات کے خوبصورت رنگوں سے مزین کیا گیا ہے اس پالیسی پر ہر دور میں عمل ہوتا ہے مگر اس کا پرو پیگینڈنہیں ہوتا شاید سندھ حکوت نے پر وین شاکر کا تجز یہ پلے باند ھ لیا ہے
میں سچ بولو نگی مگر ہار جاؤنگی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کردے گا

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
2408

دادبیداد ……….. عدلیہ کا تقّدُس ………..ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

سپریم کورٹ آ ف پاکستان کے چیف جسٹس نے ا ز خود کاروائی کرتے ہوئے فیض اباد پل اور اطراف کی سڑکوں کو بند کر کے دھرنا دینے والے گروہ کے خلاف کا روائی کا حکم دیا توعدالت کا تقدس بحال ہوا جو ایک عرصہ سے بحالی کا منتظرتھا 1970 ؁ء میں پشاور کے اندر سرفراز خان گریڈ 17کا مجسٹریٹ درجہ اول تھا اُس کے حکم سے پور ا شہر لرز اُٹھتا تھا ایک سر فراز خا ن مجسٹریٹ کی جو دھاک بیٹھی ہوئی تھی وہ قابل قدر تھی مجسریسٹی کی عزت کا ثبوت یہ تھا کہ سر فراز خان کی موجودگی میں قانون کی خلاف ورزی کے بارے میں خان ،سرمایہ دار،وزیر اور گورنر بھی نہیں سوچ سکتا تھا آج وہ صورت حال کیوں نہیں ہے ؟95 سال کی عمر کے بزرگ شہری حاجی عبداللہ خان کہتے ہیں کہ یہ کوئی راز نہیں سر فراز خا ن مجسٹریٹ غیر سیاسی افسر تھا 100 روپے جرمانے کے خلاف سفارش آتی تو 10 گنا بڑھا کر ہزار روپے جرمانہ وصول کرواتا تھا ایک ماہ قید کے خلاف سفارش آتی تو دو سال قید کا حکم دیتا اس لئے اُس کا رعب داب تھا و ہ کہتا تھا قانون بے لحاظ ہو تا ہے لوگ بے چہرہ ہوتے ہیں نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے اگر فاطمہ بنت محمد کے خلاف بھی جرم ثابت ہو جائے تو میں حد جاری کر ونگا حضر ت عمر فاروقؓ نے اپنے بیٹے کے خلاف حد جاری کر دی ،حضر ت علی کرم اللہ وجہہ نے عدالت میں آکر پیش کش کی کہ مدعی کو مجھ سے انتقام لینے کا حکم دیا جائے اس پر مدعی روپڑا انتقام کی نوبت نہیں آئی عدلیہ کا تقدس کیسے پامال ہوا ؟اس کی دو وجوہات ہیں پہلی وجہ یہ ہے کہ امیر غریب میں فرق کیا جاتا ہے قاتل اگر دولت مند ہے تو وہ باعزت بری ہو جاتا ہے مقدمہ آتے ہی لوگ کہتے ہیں کہ ملزم امیر آدمی ہے ،عدالت اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی انجام بھی ایسا ہی ہوتا ہے امیر آدمی وکیل کو دو کروڑ روپے فیس دے دیتا ہے سرکاری وکیل کی تنخواہ مقر ر ہے جو ماہانہ ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے اس میں 10 مقدمات کی پیروی کر تا ہے مقتول کے ورثاء چارلاکھ روپے کا وکیل بھی نہیں کر سکتے اس لئے قاتل باعزت بری ہو جاتا ہے سسٹم اس کی مدد کرتا ہے امریکہ کے ایک مشہور صدر ابراہام لنکن گزرے ہیں غریب ماں باپ کے گھر پیدا ہوئے، مزدوری کر کے تعلیم حاصل کی وکالت کا پیشہ اختیار کیا ایک مقدمے کی وکالت کرنے سے اس نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ اس کے حق میں دلائل دیتے ہوئے میں اپنے آپ کو پستی میں گرا ہوا محسوس کر ونگا اُس نے مقدمہ لانے والے کے کندھے پر ہاتھ رکھ چند جملے کہے جو تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں اُس نے کہا ’’ یہ با ت نہیں کہ مجھے پیسے کی ضرورت نہیں ہے یہ بات بھی نہیں کہ میں حیلے بہانے تراش کر تمہا را مقدمہ نہیں جیت سکوں گا بات صرف یہ ہے کہ تمہارے حق میں بھاری دلائل دیتے ہوئے میں خود کو ہلکا محسوس کر ونگا اور ساری عمر شر مسار رہونگا ‘‘اس لئے کہتے ہیں کہ بینچ اور بار (Bench & Bar) عدالتی نظا م کے دو پہئے ہیں عدلیہ پر آنچ آنے کی دوسری وجہ سیاسی مقدمات کی بھر مار ہے اس بناء پر ستمبر 2007ء میں یہ تجویز آئی تھی کہ سیاسی مقدمات کو آئینی مقدمات کا نام دے کر ان کی سماعت کے لئے الگ عدالت قائم کی جائے جو صرف سیاسی مقدمات کی سماعت کرے اس تجویز کا ایک فائدہ یہ تھا کہ عام مقدمات کی سماعت کے لئے ججوں کے پاس وقت بچ جاتا جو فیصلے 30سالو ں میں ہوتے ہیں وہ کم از کم 10سالوں میں ہو جاتے کینیڈا کے شہری گل جی نے اس کو دہرا معیار قرار دیا ہے ایک شہری کا مقدمہ 18 سالوں سے التوا ء میں ہیں اس طرح دہرے معیار کے بے شمار نمونے سامنے آجاتے ہیں عدالتوں پر بھی تبصرے ہونے لگتے ہیں جو اُن کے تقدس کے منافی ہے جن شہریوں نے 1970 ؁ ء میں پشاور شہر کے سر فراز خان مجسٹریٹ کا انصاف دیکھا ہے وہ موجودہ حالات میں عدلیہ سے ایسے ہی انصاف کی توقع رکھتے ہیں بقول سر فراز خان مجسٹریٹ ’’قانون بے لحاظ ہوتا ہے لوگ بے چہرہ ہوتے ہیں ‘‘دہرے معیار کو ختم کرنے کا یہی ایک نسخہ اور فارمولا ہے ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
2337

دادبیدا د ……… حیات اباد کی مثالی بستی ………. ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ؔ

Posted on

اگست1974 ؁ء میں جہاں ایف سی کیمپ تھا وہاں اب حیات اباد کا فیز – 7 ہے قریب ہی فیز – 1 ہے درمیان میں 5فیز اور بھی ہیں یہ پشاور کی جدید بستی ہے مگر بد انتظامی کی وجہ سے اس بستی کا براحال ہو اہے 45سال پہلے اس کا خواب سابق سینئر وزیر حیات محمد خا ن شیر پاو نے دیکھا تھا اس لئے پشاور کی یہ جدید بستی ان کے نام سے منسوب کی گئی پشاور شہر اور صدر کے شرفاء نے حیات اباد کو مسکن بنایا صوبے کے دور دراز علاقوں اور مختلف اضلاع سے آنے والے تاجروں ،صنعتکاروں اور سرکاری ملازمتوں سے وابستہ شہریوں نے بھی عمر بھر کی جمع پونجی اس جدید بستی میں لگائی شہر پشاور کو جنرل مشرف کے دور میں 4ٹاونوں میں تقسیم کیا گیا تو یہ بستی ٹاوں – 4 کی حدود میں آگئی قبائلی علاقہ جمرود اور باڑہ کی حدود سے ملحق یہ مثالی بستی تھی صاحب طرز شاعر یوسف رجا چشتی نے بدھائی سے اپنا گھر یہاں منتقل کیا پشاور کلب کو بھی خیر باد کہہ کر حیات اباد میں گھر بسایا پروفیسر محسن احسان نے حیات اباد کو پشاور یونیورسٹی پر ترجیح دی پروفیسر پریشان خٹک ،ڈاکٹر محمد انور خان ،پروفیسر شمشیر ،ڈاکٹر محمد ساعد اور سینکڑوں دانشوروں نے حیات اباد کو بسانے میں اپنا خون پسینہ ایک کیا شاعر نے کہا ’’بستی بسانا کھیل نہیں بستے بستے بستی ہے‘‘ چنانچہ نصف صدی کے قریب یہ بستی آباد ہوئی18نومبر 2017 ؁ء کو حیات اباد کی مثالی بستی سے میرا گذر ہو اتو عجیب سا لگا مجھے اپنی آنکھوں پر باور نہیں آیا مارکیٹوں کے آس پاس ، مسجدوں کے قریب ،خالی پلاٹوں کے اندر گندگی کے ڈھیر دیکھ دیکھ ہم عادی ہو چکے ہیں اب گندگی دیکھ کر ہمیں کوئی تعجب نہیں ہوتا حیات اباد کی مثالی بستی کے اندر گلیوں کے سائن بورڈ چوری ہو گئے ہیں اس بات کا بے حد دکھ ہوا پہلے ایسا ہو تا تھا کہ فون پر پتہ پوچھ لیا جاتا ، فیز اور سیکٹر کے ساتھ گلی نمبر اورگھر نمبر دے دیا جاتا تھا اب فون کرنے پر بتا یا جاتا ہے کہ سائن بور ڈ کوئی نہیں رہا سیکٹر اورگلی کا کوئی نشان نہیں رہا تم فلان مارکیٹ میں آجاؤ، میں اُس جگہ تمہارا انتظارکرونگا آپ کو باور نہیں آتا کہ میں حیات ابا د کی مثالی بستی میں جارہا ہوں سیکٹر کا سائن بورڈ چوری ہو گیا ہے گلی کا سائن بورڈ چوری ہو گیا ہے فیز کا سائن بور ڈ چوری ہو گیا ہے گھروں کے نمبر بے معنی ہو گئے اس لئے مٹادیے گئے ’’اب ڈھونڈا نہیں چراغِ رُخِ زیبا لیکر ‘‘تین مسجدوں میں اس پر بحث ہوئی معز زین اور علماء نے حیات اباد کی گلیوں کے نام اور سائن بورڈ بحال کرنے سے معذوری ظاہر کی ٹاؤن انتظامیہ ، نیبر ہڈ کونسل ، نا ظمین، کونسلر پولیس ، مجسٹریٹ ، پی ڈی ا ے حکام سب اس معاملے میں بے بس ہیں وہ کہتے ہیں کہ نشے کے عادی اور ہیر وئنچی ہماری بستی کے سائن بورڈ اکھاڑ کر لے جاتے ہیں کباڑ میں فروخت کر کے نشہ خرید تے ہیں گویا یہ بھی نامعلوم افراد کی فہرست میں ڈالنے کے لائق ہیں ہم مانتے ہیں کہ خیبر پختونخوا کا بلدیاتی نظام مثالی ہے مگر اس مثالی نظام میں حیات اباد کی مثالی بستی کے سائن بورڈ چوری ہو گئے ہیں ان کی جگہ نئے سائن بورڈ نہیں لگائے گئے یہ بھی حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ گذشتہ ماہ این اے – 4 کے ضمنی انتخابات اسی حلقے میں ہوئے کسی نے پرویز خٹک ، امیر مقام یا خوشدل خان کی توجہ اس طرف نہیں دلائی گلی گلی ، محلہ محلہ ووٹ مانگنے والوں نے یہ نہیں دیکھا کہ گلیوں اور محلو ں کے سائن بورڈ اکھاڑ کر چورلے گئے کاش اس حلقے سے کا میاب ہونے والے ارباب عامرایوب ہی اس طرف توجہ دیتے شاید وہ بھی غالب کے معتقد و پیر وکار ہیں
اپنی گلی میں مجھ کو نہ کردفن بعد قتل
میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , ,
2283

دادبیداد ….. دارالحکومت کا تحفظ ……….. ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

Posted on

شاہ لطیف یونیورسٹی خیر پور میں سیمینار کے لئے جاتے ہوئے چترال اور گلگت بلتستان کے ادیبوں ، شاعروں کا قافلہ درالحکومت اترا محمد حسن حسرت کو اپنے قریبی رشتہ داروں سے ملنا تھا۔ وہ نہ مل سکا ۔ ایک ہفتہ بعد واپسی پر وہی صورت حال تھی۔ آدھا گھنٹے کا راستہ 4گھنٹوں میں طے کر کے اپنوں کی خیریت دریافت کی۔ جو گھروں کے اندر 2ہفتوں سے محبوس تھے۔ اور وفاقی دارالحکومت میں یہ پہلی بار نہیں ہوا۔ سیاسی مخالف جلوس نکالے تو بات سمجھ میں آجاتی ہے۔ سیاست میں سب کچھ جائز ہے۔ جولائی2007میں جامعہ حفصہ اور لال مسجد والوں نے حکومت کو چیلنج کیا ۔ انتظامیہ بے بس ہوگئی۔ فوج طلب کر لی گئی۔ اسلام آباد کے شہریوں نے لال مسجد کے خلاف آپریشن کا مطالبہ کیا۔ آپریشن ہوا تو انہی لوگوں نے لال مسجد والوں کے خلاف آپریشن کی مذمت کی۔ اب تک مذمت کی جارہی ہے۔ شیخ الاسلام علامہ طاہر القادری نے کینڈا سے آکر دو بار اسلام آباد پر بڑے بڑے حملے کئے۔ اب کی بار علامہ خادم حسین رضوی نے وفاقی دارالحکومت پر حملہ کیا تھا ۔ دو ہفتوں تک اسلام آباد کے لوگ حالتِ جنگ میں رہے۔ محرم الحرام کے دوران مذہب کے نام پر سیکورٹی کے مسائل ہمارے روزمرہ کا حصہ بن چکے ہیں ۔ ربیع الاول کے مہینے میں خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ واٰلہِ وسلّم کے پاک نام پر سیکورٹی کا نازک مسئلہ ہر سال کھڑا کیا جاتا ہے ۔ عیسائیوں اور یہودیوں کی طرف سے نہیں، ہندوؤں اور سکھوں یا احمدیوں کی طرف سے نہیں بلکہ مسلمانوں کے راسخ العقیدہ فرقوں کی طرف سے یہ جنگیں ایک دوسرے کے خلاف لڑی جاتی ہیں۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ اس طرح کی جنگیں، بنگلہ دیش اور بھارت میں نہیں ہوتیں، سعودی عرب اور ایران میں نہیں ہوتیں ،شام ، عراق اور افغانستان میں نہیں ہوتیں، صرف پاکستان میں ہوتی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ یہ بدقسمت ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اور اس کا نام اسلامی جمہوریہ ہے۔ کوئی بھی شخص کسی بھی ملک سے دو چار ارب کا چندہ جمع کرلے تو وہ اسلام آباد پر حملہ کرتا ہے۔ 40یا 50کروڑ روپے خرچ کرتا ہے ۔ باقی اللہ پاک کا دیا ہوا مال سمجھ کر گھر لے جاتاہے ۔ ڈھاکہ، نئی دہلی اور کابل پر حملے کے لئے اس طرح کی فنڈنگ کوئی نہیں کرتا۔ دو دنوں سے اخبارات میں وہی خبریں آرہی ہیں۔ جو 7جولائی2007کو لال مسجد والے ہنگامے کے دن اخبارات کی زینت بن گئی تھیں۔ اسلام آباد سے ڈھائی سو کلو میٹر دور سوات میں جلسہ ہوا۔ جلسہ کے شرکاء نے اسلام آباد پر حملہ کرنے والوں کے حق میں نعرے لگائے۔ تقریریں کیں اور حکومت کو خطرناک نتائج کی دھمکیاں دیں۔ جولائی 2007میں ایسا ہی ہوا تھا۔ لال مسجد میں ہنگامہ آرائی جاری تھی سوات میں مولانافضل اللہ نے جلسہ کر کے حکومت کو خطرناک نتائج کی دھمکیاں دیں۔ چنانچہ 2009میں حکومت کو سوات اور دیر میں فوجی آپریشن کے ذریعے بغاوت پر قابو پانے کی ضرورت پیش آئی۔ پھر ایسا ہوا کہ عین آپریشن کے دوران اپنی 1200گاڑیوں اور8000 ساتھیوں کے ہمراہ مولانا فضل اللہ نے سوات سے دیر اور دیر سے باجوڑ کا راستہ عبور کر کے افغانستان میں پناہ لے لی۔ وہاں ان کا ہیڈ کورٹر اب تک قائم ہے۔ اس طرح کراچی اور لاہور میں بھی حملہ آوروں کے حق میں دھرنا دیا گیا ہے ۔ انگریزی میں ایسے کاموں کو”سیکورٹی لیپس”کہا جاتا ہے۔ ارد و میں اس کو “انتظامیہ کی ناکامی”کا نام دیا جانا چائیے۔ انتظامیہ قربانی کا بکرا ہے۔ بے نظیر بھٹو قتل کے مقدمے میں ملزموں اور مجرموں کو چھوڑ کر ڈپٹی کمشنر اور سپرنٹنڈنٹ پولیس کو سزا سنائی گئی۔ غالب نے کہا تھا “ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی”یہاں سارے شہر نے دستانے پہنے ہوئے ہیں۔ بہرے کو آواز دی جارہی ہے، لنگڑے کو دوڑایا جارہا ہے اور اندھے کے ہاتھ میں چراغ ہے۔ جب کہ گونگے کو گواہی کے لئے بلایا جارہا ہے ۔”کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی”یہ ایک دن کا یا ایک سال کا واقعہ نہیں ۔ اسلام آباد پر حملہ کرنے والوں نے اس سال تین خطرناک کام کئے۔ پہلا کام یہ ہوا کہ بڑا پیمانے پر توہین رسالت کا جرم ان سے سرزدہوا۔ عتیق شاہ فیض آباد کا بزرگ شہری ہے اس نے اکیلے ہزاروں اوراق سڑکوں، گلیوں اور نالیوں سے چن کر جمع کئے ۔ جن پر لبیک یا رسول اللہ کے مقدس اور مبارک کلمے درج ہیں ان میں کپڑوں پر تحریریں بھی ہیں۔ انکی بے حرمتی جان بوجھ کر کی جارہی ہے۔ دوسرا خطرناک کام یہ ہے کہ رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مبار ک نام پر ہجوم اکھٹا کر کے سٹیج سے طاقت ور لاؤڈ سپیکروں پر ننگی گالیاں نشر کی جارہی تھیں ۔ ایسی گالیاں جنہیں گنہگار سے گنہگار شہری بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ اپنی زبان پر نہیں لایا جاسکتا۔ تیسرا خطرناک کا م یہ ہوا کہ حملہ آور اسلحہ لے کر آئے۔ ایک بڑا خطرہ آگے آنے والا ہے۔ اگر وطن عزیز میں سعودی عرب ، چین اور بھارت کی طرح سخت قوانین نافذ نہیں کئے گئے تو کل کسی اور کو دشمن کی طرف سے چندہ مل جائے گا۔ کوئی اور بھی اٹھ کر وفاقی دارالحکومت پر حملہ کرے گا۔ وفاقی دارالحکومت کا تحفظ پاکستان کے تحفظ کا ٹیسٹ کیس ہے، اسلام آباد پر اس طرح حملوں کا پورا کھیل باہر سے کنٹرول ہورہا ہے۔ یہ کام ہمارا دشمن کر رہا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ دشمن کو پکڑا جائے اور وفاقی دارالحکومت پر حملہ کرنے والوں کا راستہ آئندہ کے لئے بند کیاجائے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
2129

داد بید اد …………. اسمبلیوں کی موت ………. ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ؔ

Posted on

کچھ لوگ موجو دہ اسمبلیوں کو توڑ کر انتخابات کر وانے کا مطالبہ کر رہے ہیں کچھ لوگ نئی مردم شماری کے تحت حلقہ بند یوں کے بعد انتخابات کا مشورہ دیتے ہیں بعض سیاستدان اسمبلیوں کی مدت پوری کر کے پرانی حلقہ بند یوں کے مطابق انتخابات کی تجویز دیتے ہیں ایک حلقہ ایسا بھی ہے جو انتخابات کوکم از کم 20 سالوں کے لئے موخر کر نا چاہتا ہے یہ لوگ صفر کو حذف کر کے صرف 2 سالوں کے لئے قومی حکومت کے نا م پر سابقہ جرنیلوں ،ججوں اور ریٹا ئر ڈافسروں کی حکومت لانے کا مطالبہ کر رہے ہیں غر ض ہماری موجودہ سیاست پر شاعر کا وہ مصرعہ صادق آتا ہے کہ ’’ کچھ نہ سمجھے خدا کر ے کوئی ‘‘ شہاب نامہ ہماری سیاسی تاریخ کی چشم دید کہانی ہے اس میں 1956 ؁ء سے 1958 ؁ء تک اور 1958 ؁ء ے 1966 ؁ء تک ہماری قومی زندگی کے شب و روز کا تماشا بلا کم و کا ست دکھا یا گیا ہے جنرل آغا محمد یحیےٰ خان کی حکومت سے بھی چید ہ چید ہ جھلکیا ں دکھا ئی گئی ہیں حمو د الرحمن کمیشن کی رپورٹ بھی قومی دستاویز ہے اس کے چید ہ چید اوراق دستیاب ہیں اس کی دستیا ویز ی شہادتیں انٹر نیٹ پر موجو د ہیں 10 سال کے بچے بھی یوٹیوب پر سقو ط ڈھا کہ کی فلمیں دیکھ لیتے ہیں اور ماں باپ کو دکھا تے ہیںیہ سارے کا سارا مواد دو باتوں کی شہادت دیتا ہے پہلی بات یہ ہے کہ سیاستدانوں کی باہمی دُشمنی ، بُغض ،رقابت اور حسد سے افسر شاہی کو فائد ہ اُٹھا نے کا موقع ملتا ہے اسٹبلشمنٹ آگ کو بھڑ کا تی ہے اور فائد ہ اُٹھا تی ہے دوسری بات یہ ہے کہ سیاستدان اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات اور اپنی معمولی خواہشات کے لئے ملک کے اندر نسلی ،مذہبی ، لسانی اور گروہی اختلافات کو ہوا دیتے ہیں 1971 ؁ء کا مشرقی پاکستان اور 2017 ؁ء کا بلوچستان ، یا کراچی اس کی مثال ہیں مشرقی پاکستان کا سانحہ ایک دم رونما نہیں ہوا مولوی اے کے فضل الحق کے خلاف سازش سے اس کا آغاز ہوا ، حسین شہید سہر وردی جیسی نابغہ روزگار شخصیت کے خلاف محاذ بنا کر ان کی حکومت توڑ دی گئی مولوی تمیز الدین خان کو غیر قانونی طور پر نکال دیا گیا شیخ مجیب الرحمن کو 1971 ؁ء سے 4 سال پہلے غدار قرار دے کر دشمن کے کیمپ میں دھکیل دیا گیا یہ کام افسر شاہی نے ججوں اور جرنیلوں کی مد د سے نہیں کیا سیاستدانوں نے اپنی نالائقی اور نااہلی کی وجہ سے ایسی حماقتوں کا ارتکاب کیا آج خیبر پختونخوا اور ملاکنڈ ڈویژن سے فوج کو واپس بلانے کی احمقانہ باتیں ہورہی ہیں فوج واپس چلی گئی تو سیاستدان ملکر دشمن کو راستہ دینگے دہشت گر دی واپس آجائیگی ہر سیاستدان اپنے مخالف کے گھر ، دفتر ،جلسہ اور جلوس پر حملہ کر نے کے لئے دشمن کو دعوت دیتا ہے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے جمہوریت اور سیاستدان کو بد نام کر نے والا سیاستدان ہی ہے اسمبلیوں کو بدنام کر نے والا سیاستدان ہی ہے1958 ؁ء میں ملک کے بڑے سیاستدانون کو (EBDO) کے تحت منتخب نمائیند وں کی نااہلی کا قانون لاکر نا اہل قرار دینے والے سیاسی جماعتوں کے اکا برین تھے ان اکا برین کا خیا ل تھا کہ مخالف کو نا اہل قرار دئیے بغیر مجھے وزارت نہیں ملے گی 60 سال بعد تاریخ اپنے آپ کو دہر ا رہی ہے موجودہ اسمبلیاں 5 جون 2018 ؁ء کوا پنی مدت پوری کر رہی ہیں اگر ان اسمبلیوں کو مرگ مفاجات یا غیر طبعی موت سے دو چار کیا گیا تو اگلا منظر نامہ کیا ہوگا ؟ اس کی دھندلی سی تصویر نظر آرہی ہے پاکستان تحریک انصاف کے تمام ترقیاتی منصوبے نا مکمل رہ جائینگے اگر کسی مرحلے پر انتخابات ہوئے تو سب سے زیادہ نقصان پی ٹی آئی کو ہوگا موجودہ حالات میں مسلم لیگ (ن) کے سر پر مظلو میت کی پگڑی رکھ دی گئی ہے اس پگڑی کی وجہ سے سب ے زیادہ فا ئد ہ مسلم لیگ (ن) اُٹھا ئیگی اگر جون2018 ؁ء تک اسمبلیوں کو نہ توڑا گیا تو خیبر پختونخوا میں ریپڈٹرانزٹ بس منصو بہ سمیت دیگر ترقیاتی کام مکمل ہو جائینگے انتخابات کے لئے ہو م ورک تیار ہوگی پارٹی لیڈر اور ورکر عوام کے سامنے واضح ایجنڈا لیکر جائینگے اپنی کار گردی کا ذکر فخر سے کر ینگے اور جا ر حانہ انتخابی مہم چلا ئینگے اسمبلیاں ٹوٹ گئیں تو مدا فعانہ اور معذرت خو اہانہ رویہ پی ٹی آئی کا مقدر بنے گا پنجاب ہا تھ سے نکل جائے گا سندھ اور بلوچستان پر توجہ نہیں دی گئی ، خیبر پختونخواہ میں بھی پارٹی کی ساکھ متاثر ہوگی مذہبی جماعتوں کے اتحاد کی باتیں ناکام ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں بڑے لیڈروں کی ’’ بڑائی ‘‘ بڑی رکاؤٹ بنی ہوئی ہے نچلی سطح پر کارکنوں کو یہ اتحاد منظور نہیں کوئی بھی کارکن مذہبی جماعتوں کے اتحاد کو قبول کر نے پر آمادہ نہیں اس لئے میدان سیکولر طاقتوں کے لئے صاف ہے مگر سیکولر پارٹیوں میں بھی مسلم لیگ (ن) کے سوا کسی کی تیاری نظر نہیںآتی انتخابات میں جتنی جلد بازی کی گئی اس کا فائد ہ مسلم لیگ (ن) کو ہوگا یہ نو شتہ دیوار ہے اس لئے پی ٹی آئی قیادت کو اسمبلیاں توڑ نے کی ضد نہیں کرنی چاہیے’’ ہم نیک و بد حضور کو سمجھا ئے دیتے ہیں ‘‘

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
1832

داد بیداد …….. این ٹی ایس والے اساتذہ ………… ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ؔ

Posted on

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائینگے ہم تم کو خبر ہونے تک
خیر سے ہمارے ہاں اساتذہ کی کئی قسمیں پید اہوگئی ہیں ایک دن خبر آگئی ہے کہ ایٹا (ETEA) والے اساتذہ نے بنی گالہ جا کر دھرنا دیا ،دوسرے دن خبر آئی کہ پبلک سروس کمیشن والے اساتذہ ے بنی گالہ جاکر دھرنا دیا پھر خبر آئی کہ این ٹی ایس والے اساتذہ نے بنی گالہ میں دھرنا دیا خان صاحب نے سب کی بات سُنی سب کو مطمئن کیا این ٹی ایس والے اساتذہ کا معاملہ سب سے الگ ہے اور بنوں ،ڈی آئی خان ،ہزارہ اور ملاکنڈ سے لیکر پشاور تک سب اس بات سے متفق ہیں کہ این ٹی ایس کے ذریعے جو اساتذہ بھرتی ہوئے ان کی قابلیت میں کوئی شک نہیں میرٹ کی شفافیت میں کلام نہیں 3 سال بعد مسئلہ پیدا ہوا ہے وہ یہ کہ استاد ایم ایڈ یا ایم فل کر نے کیلئے این اوسی کی درخواست دیتا ہے تو درخواست یہ کہہ کر مسترد کی جاتی ہے کہ این ٹی ایس والوں کو اجازت دینے کی ’’اجازت ‘‘نہیں ایک ٹیچر اتمان زی سے نا گمان آکر پڑھاتی ہے دوسری ٹیچر ناگمان سے اتما نزی جا کر پڑھاتی ہے دونوں باہم تبادلہ کرنا چاہتی ہیں مگر درخواست دینے کی اجازت نہیں کیونکہ ان کے اوپر این ٹی ایس کا لیبل لگا ہو اہے ایک ٹیچر ورسک سے روز سفر کر کے تارہ جبہ جاتا ہے ورسک میں ایک سال سے پوسٹ خالی ہے اُس گاوں کا استاد وہاں تبدیل نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ این ٹی ایس کے ذریعے آیا ہے 3 سال بعد این ٹی ایس اُس کے لئے بلا اور مصیبت بن گئی ہے این ٹی ایس اساتذہ کے ساتھ خان صاحب نے ہمدردی کا اظہار کیا اُن کو انصاف کی یقین دہانی کے ساتھ واپس کر دیا مگر محکمہ تعلیم خیبر پختونخوا پھربھی اپنی ضد پر قائم ہے کہ یہ لوگ این ٹی ایس والے ہیں ان کو اگر مستقل کیا گیا تو تقرری کی تاریخ سے نہیں ہوگا بلکہ 3 سالہ ملازمت اور 6 مہینوں کی ملازمت والوں کو ملا کر ایک تاریخ دی جائیگی سینارٹی کسی کو نہیں ملے گی 2014 ؁ء میں بھرتی ہونے والی ٹیچر 2017 ؁ء میں بھرتی ہونے والی ٹیچر کے ہمراہ ایک ہی تاریخ میں مستقل ہونے کا پروانہ حاصل کر ے گی’’ تقرری کی تاریخ ‘‘کے الفاظ کا ٹ کر دسمبر 2017 ؁ ء کی کوئی تاریخ ڈال دی جائیگی یہ اُن کی سزا ہے کہ انہوں نے این ٹی ایس کا امتحان کیوں پاس کیا تھا ؟ ان اساتذہ میں کچھ لوگ وہ بھی ہیں جو دوسری جگہوں میں دو سال ،تین سال یا 5 سال سروس کا تجربہ لیکر آئے تھے محکمہ تعلیم کے حکام تجربہ بھی نہیں مانتے سابقہ سروس کا ریکارڈ بھی نہیں مانتے ایک صاحب نے گولڈ مڈلسٹ استاد کی فائل اس کے منہ پر مارتے ہوئے کہا تمہیں کس نے کہا تھا کہ این ٹی ایس کا امتحان دو ؟ایک دوسرے صاحب نے این ٹی ایس اساتذہ کے وفد سے باتیں کرتے ہوئے دھمکی دی کہ عمران خان کی حکومت جاتے ہی تمہارا بوریا بستر گو ل کر دیا جائے گا تم لوگ ہمارے لئے مصیبت بنے ہوئے ہو اُن صاحب کے دو بیٹے ،دو بھانجیاں اور دو بھتیجے این ٹی ایس کے تین ٹیسٹوں میں باجماعت فیل ہوئے تھے اس لئے وہ اپنا غصہ پاس ہونے والوں پر نکال رہے ہیں این ٹی ایس اساتذہ کو خان صاحب کی یقین دہانی پر بھروسہ ہے اُن کے مسائل حل کئے جائینگے ان کو ایم ایڈ ،ایم فل اور دیگر امتحانات کی اجاز ت مل جائیگی ان کو سرکاری ملازم کا درجہ دے کر مستقل کیا جائے گا گھر کے قریب خالی پوسٹ پر تبدیلی کا حق بھی مل جائے گا تقرری کی تاریخ سے مستقلی کا حق بھی مل جائے گا خان صاحب نے جو جو وعدے کئے ان پر عمل ہوگا مگر راستے میں مگر مچھوں کے منہ کھلے ہوئے ہیں ان میں سیاسی لوگ بھی ہیں اور افسر شاہی کے کل پرزے بھی ہیں بقول مرزا غالب؂
دامِ ہرموج میں ہے حلقہ صد کام نہنگ
دیکھئے کیا گذرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
1544

داد بیداد ……………انصاف کے ساتھ ایک نشست………ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

یہ ایک غیر رسمی نشست تھی مگر بھر پور نشست تھی خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک دور سے جتنے سخت گیر نظر آتے ہیں قریب سے اتنے ہی نرم دل اور بردبار دکھا ئی دیے با ت سننے کی خواہش اور مسائل کے بارے میں اندرونی کہانیاں جاننے کی تڑپ رکھتے ہیں عوام اور حکمران کے درمیان پائے جانے والے فا صلوں سے نالاں ہیں اس بات پر حیران ہیں کہ عوام کے حقیقی مسائل حکمران کے سامنے کیوں نہیں رکھے جاتے ڈی سی ہاوس چترال میں ظہرا نہ تھا چیر مین پاکستان تحریک انصاف عمران خان ، جنرل سکرٹری جہانگیر ترین اور صوبائی وزیر محمود خان بھی ظہرانے میں شریک تھے سرکاری حکام اور معززین بھی تھے ایم پی اے بی بی فوزیہ اور پی ٹی آئی چترال کے قائدین بھی تھے شہزادہ سراج الملک نے ہمارا تعارف کرایا پھر سلسلہ کلام چل نکلا پاکستان تحریک انصاف کی ترجیحات میں سے تعلیم پہلی ترجیح ہے اس پر بات ہو ئی مانیٹرنگ سسٹم اور این ٹی ایس کا ذکر ہو ا سکولوں کے لئے رنگ کے انتخاب کی با ت ہوئی تحریک انصاف کی دوسری ترجیح صحت عامہ کی سہولیات کا ذکر آیا ،حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کی مثال دی گئی جب صوبائی وزیر اعلی کے سامنے یہ بات رکھی گئی کہ چترال سے ہر سال 40ہزار طلبہ اور طالبات میڑک اور انٹر کے امتحانات میں بیٹھتے ہیں اور ان کا پور ا سسٹم پشاور بورڈ سے ملحق ہے چترال کے 300 سکولوں اور 100 سے زیادہ کالجوں کے لئے چترال میں انٹر میڈیٹ اور سیکنڈری ایجوکیشن کا بورڈ نہیں تو انہوں نے حیرت سے مس کیری اور جہانگیر ترین کی طرف د یکھا اور کہا یہ بات آج تک میرے علم میں نہیں لائی گئی ، کسی بریفینگ میں اس کا ذکر نہیں ہوا کسی وفد نے یہ بات نہیں اُٹھا ئی پرویز خٹک نے جہانگیر ترین کو بتا یا کہ چترال شرح خواندگی کے لحاظ سے صوبے میں تیسرے نمبرپر ہے اس کا اپنا بورڈ نہ ہونا تعجب کی بات ہے اس طرح وزیر اعلیٰ کو بتا یا گیا کہ گرم چشمہ کا ہا ئیر سکینڈری سکول 1997 ؁ء میں نا ن ڈیو لپمنٹل سکیم کی صورت میں شروع ہوا اس میںآرٹس کی کلاسیں تھیں 20 سال گذرنے کے بعد اس کو ڈیو لپمنٹل کا درجہ نہیں ملا سائنس کے مضامین شروع نہیں ہوئے پی سی فور نہیں آیا پوسٹیں نہیں ملیں 20 سال تک ہائیر سکینڈری سکول کو بھول جانا وزیراعلیٰ کے لئے حیرت کی بات تھی شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی شرینگل اور یونیورسٹی آف چترال پربات ہوئی وزیراعلیٰ کو بتا یا گیا کہ چترال کو دو ضلعوں میں تقسیم کر نا ، چترال کے لئے یونیورسٹی کا قیام اور تعلیمی بورڈ کا قیام ایسے اقدامات ہیں جو تحریک انصاف کی حکومت کے گرا نقدر تحفوں کی صورت میں یاد رکھی جائینگی ظہر انہ کے بعد پولو گراؤنڈ میں عظیم الشان جلسہ تھا جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے سب ڈویژن مستوج کو ضلع کا درجہ دینے کا اعلان کیا جلسے میں عمران خان کی تقریر بھی یاد گار تھی انہوں نے ایک بار سکر دو میںیہ بات کہی تھی کہ چترال اور گلگت بلتستان کے لوگ تہذیب و شائستگی میں پوری دنیا کے لئے مثال کی حیثیت رکھتے ہیںیہ بات انہوں نے چترال کے جلسے میں ایک بار پھر دہرا ئی عمران خان نے اپنی تقریر میں کہا کہ اگلے انتخابات میں وفاق کے ساتھ چاروں صوبوں میں ہماری حکومت آئیگی تو چار شعبوں میں ایمر جنسی نافذ کر کے جنگی خطوط پر کام کیا جائے گا پہلا شعبہ تعلیم ہوگا انہوں نے صوبائی وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو داد دی کہ انہوں نے گذشتہ چار سالوں میں بجٹ کا سب سے بڑا حصہ تعلیم پر لگا یا یہ ایسی سرمایہ کا ری ہے جو ہم اپنی آنے والی نسلوں پر کر ہے ہیں نوجوانوں پر سرمایہ لگا یا جا رہا ہے یہ ہمارا مستقبل ہیں دوسری ایمر جینسی ماحولیات کے شعبے میں ہوگی ، تیسری ایمر جنسی صحت عامہ کے شعبے میں اور چوتھی ایمر جنسی بلدیات کے شعبے میں ہوگی انہوں نے مژدہ سنا یا کہ آئیندہ کے لئے ضلع ناظم براہ راست ووٹوں سے منتخب ہوگا تمام ترقیاتی فنڈ بلدیاتی نمائیندوں کو ملینگے اور ویلیج کونسل ، نیبر ہُڈ کونسل کو ترقی کا انجن بنا یا جائے گا جلسے کے بعد وزیراعلیٰ نے عمران خان کے ہمراہ چترال چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے دفتر ماو نیٹن اِن میں ایک تقریب میں شرکت کی چیمبر کو الاٹ کئے گئے پلاٹ کی تختی کی نقاب کشائی کی مہمانوں کی کتاب میں اپنے تاثرات لکھے اس موقع پر مہمانوں کو چترال کے روایتی تحا ئف پیش کئے گئے مختصر تقریب میں چیمبر کے صدر سرتاج احمد خان نے معز ز مہمانوں کا خیر مقدم کیا اور چترال کی ترقی میں خصوصی دلچسپی لینے پر ان کا شکر یہ ادا کیا اس موقع پر اپنے خطاب میں وزیراعلیٰ نے چیمبر کے اراکین کو صوبائی حکومت کے مکمل تعاؤن کا یقین دلا یا انصاف کے ساتھ یہ یاد گار نشست تھی

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
1455

دادبیداد ……. قوسِ قزح سکولوں میں ……. ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ؔ

Posted on

برادر گرامی صبیح احمد کو ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کے رنگ میں روز مرہ کے تجربات پر کالم لکھنے کا ملکہ حاصل ہے آج ایسا ہی ایک تجربہ ہم بھی قارئین تک پہنچانا چاہتے ہیں ہو سکتا ہے کسی کا بھلا ہو ہمارے سکولوں کی نظامت ہر سال سکولوں کے بچوں اور بچیوں کے درمیان تقریر ی مقابلہ کراتی ہے یہ انگریزوں کے دور کی روایت ہے مگر اُس دور میں تقریر ی مقابلے کیلئے ایسے موضوعات دیئے جاتے تھے جن کو بچے خود لکھتے اور پڑھتے تھے یا لکھے بغیر فی البدیہہ تقریر کرکے اپنی خطابت کا سکہ بٹھاتے تھے موضوع چھٹی جماعت سے لیکر دسویں جماعت تک پڑھنے والے بچے کی عمر کے مطابق ہوتا تھا اُن کے مشاہدے کے ساتھ مطابقت رکھتا تھا ان کے مطالعے کی سطح کے ساتھ مطابقت رکھتا تھا علم بڑی دولت ہے ،قلم کی طاقت تلوار سے زیادہ ہے، تعلیم نسواں وقت کی ضرورت ہے، انسان خطا کا بتلا ہے اس طرح انگریزی میں معاشرتی اور سماجی روایات ،شعور اور عام لوگوں کے تجربے میں آ ئے ہوئے موضوعات تجویز کئے جاتے تھے مگر اب وہ زمانہ گذرگیا اب سکول کے استاد اور طلبا و طالبات کے تجربوں کو دیکھنے اور پرکھنے کا دستور نہیں ہے پشاور یا اسلام اباد کے بند دفتر میں بیٹھا ہو اایک شخص شیکسپےئر ،ورڈز ورتھ یا کسی اور شاعر ،دانشور کا مصرعہ یا مقولہ منتخب کر کے دیر بالا ،سواڑی ،مستوج اور چترال کے طلبا و طالبات کے لئے تقریر کا موضوع تجویز کر تا ہے 2015 ء اور 2016 ء میں بھی اوٹ پٹانگ موضوعات دیئے گئے تھے طلباء اور طالبات کے لکھنے کے قابل موضوعات نہیں تھے اساتذہ نے لکھنے سے معذرت کر لی تویہ موضوعات بازار میں آگئے نشتر عارضی نویس،اور اشتر کباڑیہ کی خدمات حاصل کی گئیں اشتر کباڑیہ کمال کا آدمی ہے استا د بشیر کی طرح ہر فن مولا ہے اُس کی دکان پر کباڑ کا سامان آتا ہے اور لاٹوں میں بکتا ہے وہ اپنے سامنے دس بارہ کتابیں رکھ کر بیٹھارہتا ہے پڑھتا ہے لکھتا ہے اور لوگوں کے کام آتا ہے پچھلے سال انٹر سکولزتقریری مقابلوں کے سیزن میں اُس نے 100 تقریر یں لکھ کر لوگوں کو دئیے اس سال انٹر سکولز تقریری مقابلوں کا سیزن چل رہا ہے عنوان دیا گیا ہے’’بچے آدمی کا باپ ہوا کرتے ہیں ‘‘یہ انیسویں صدی میں انگلینڈ کے رومانوی شاعر ولیئم ورڈز روتھ کی نظم قوسِ قزح کا ایک مصرعہ ہے ’’چلڈرن آر فادر آف مین ‘‘ورڈز ورتھ کے اس مصرعے پر ناول لگھے گئے ہیں فلمیں بنائی گئی ہیں سی ایس ایس اور پی ایم ایس کے امتحانات میں اس پر مضامین لکھوائے جاتے ہیں چھٹی جماعت کا طالب علم یہ عنوان لیکر کس کے پاس جائے گا؟کس کی منت سماجت کرکے تقریر لکھوائے گا ؟یہ بات سکولوں کی نظامت کے کسی بھی بزرجمہری کو معلوم نہیں سچ پوچھئے تو سکولوں کے ڈائریکٹر کے دفتر میں کسی کو یہ بھی معلوم نہیں کہ انٹر سکولز تقریری مقابلے کرانے کا مقصد کیا ہے؟اگر ساری تقریریں اساتذہ نے لکھنی ہیں اگر کچھ تقریریں بازار میں جاکر لوگوں سے لکھواکر لانی ہیں ریڈیو ،ٹی وی اور پروڈکشن ہاوسنر کے صحافیوں سے لکھوا کر لانی ہیں تو پھر اس کا نا م انٹر سکولز تقریری مقابلہ کیوں رکھا گیا ؟ہمارے زمانے میں سکول کے اندر تقریری مقابلوں اور مباحثوں میں طلبا اور طالبات اپنی لکھی ہوئی تقریر پڑھتے تھے یا فی البدیہہ بولتے تھے وہ اساتذہ سے زبان کی اصلاح لیتے تھے تلفظ درست کرواتے تھے تقریر اُن کی اپنی ہوتی تھی عنوان ایسا دیا جاتا تھا جس کو طالب علم خود سمجھتا تھا اب دسویں جماعت کے طالب علم نے ورڈ ز ورتھہ کا نام نہیں سُنا ،اُس کا مصرعہ کیا سمجھے گا ؟وہ اشتر کباڑیہ کے پاس جاتا ہے ایک ہال میں 10 سکولوں کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے سب کی تقریریں ایک ہی شخص کی لکھی ہوئی ہیں اشتر کباڑیہ اگرچہ سیزن میں دوچار پیسے کمالیتا ہے مگر وہ اس کام سے تنگ آگیا ہے وہ کہتا ہے محکمہ تعلیم کے حکام دن کی روشنی میں اپنے آپ کو ،اپنے طلباء اور طالبات کو کس لئے دھوکا دیتے ہیں ؟اگر انٹر سکولز تقریری مقابلوں کا مقصد طلباء اور طالبات میں لکھنے اور بولنے کی صلاحیت پید ا کرنا ہے تو ایسا عنوان دیدو جس کو خود بول سکیں اشتر کباڑیہ سے 10 تقریریں لکھواکر ایک ہا ل میں مقابلہ منعقد کرنے کی کیا تُک بنتی ہے ؟اس کی کیا ضرورت ہے اشتر کباڑیہ 1956 ؁ ء میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا اُس نے تعلیم ادھوری چھوڑی مگر مطالعے کی عادت نہیں چھوڑی اس لئے اس کو ہر عنوان پر تقریر لکھنا آتا ہے آج کل محکمہ تعلیم کے افیسروں کو سکول کے بارے میں اشتر کباڑیہ کے برابربھی علم نہیں طلباء اور طالبات کی عمروں کاپتہ نہیں اس لئے وہ مباحثوں اور تقریری مقابلوں کیلئے اوٹ پٹانگ موضوعات دیتے ہیں اشتر کباڑیہ اس قسم کی تقریر نویسی سے اکتا گیا ہے اور وہ حیران ہے کہ ورڈزورتھ کی نظم قوسِ قزح سکول میں کس طرح آگئی

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
974