Chitral Times

بزمِ درویش – عید کے بکرے – تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

بزمِ درویش – عید کے بکرے – تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

آج بہت دنوں بعد امریکہ سے چوہدری جمیل صاحب کا فون آیا۔وہی زندگی سے بھر پور جوش آواز ایسی آواز جس سے مخلوق خدا کا درد اور مدد کا جذبہ ٹھاٹھیں مار رہا تھا حال احوال کے بعد کرونا کی تباہ کاریوں پر بات چیت کہ کس طرح سر زمین چین سے پھوٹنے والی پراسرار وبا کرونا نے دنیا کے سب سے ترقی یافتہ اکلوتی سپر پاور کو اُدھیڑ کر رکھ دیا کرونا کے خوفناک اثرات جب امریکہ میں پھیلے تو اپنی ہی ذات میں گم رہنے والی امریکی جو احساس تفاخر کے کے ٹو پر ہمہ وقت سوار خود کو دنیا کا خدا سمجھتے تھے کرونا کے ہاتھوں جب بے بس ہو کر زمین پر رینگتے کیڑے مکوڑوں کی طرح بے بسی سے ہاتھ مارنے لگے امریکی زیادہ تر ملحد لادین ہوچکے جو چرچ کا رخ صرف شادی موت پر ہی کرتے ہیں کرونا کے خو ف سے خدائے لازوال سے معافیاں مانگتے نظر آئے۔

کرونا وبا نے سپر پاور کے طاقت اور غرور کے غبارے سے ہوا نکال کر رکھ دی وہ امریکہ جو ساری دنیا کا مالک بنا بیٹھا تھا بے بسی کا مجسمہ بنا نظر آیا جبکہ متاثرین کی تعداد لاکھوں اور مرنے والوں کی تعدا روزانہ ہزاروں میں پہنچی تو امریکیوں کو بھی ان کی اوقات یا دآگئی کہ اِس کائنات کا مالک امریکہ نہیں بلکہ سارے جہانوں کا مالک خدائے لازوال ہے زمینی خداؤں کے حکمرانی نہیں بلکہ بنانے والے خدا ئے ذوالجلال والاکرام کی ہے کرونا کی تباہ کاریوں اور امریکیوں کی بے بسی پر بات چیت کے بعد چوہدری صاحب اصل بات کی طرف آئے پروفیسر صاحب جس طرح اللہ تعالی کی توفیق سے پچھلے کئی سالوں سے میں غریبوں میں قربانی کا گوشت اور سالم بکرے تقسیم کرتا ہوں وہ نیک عمل اِس سال کرونا کی وجہ سے بند نہیں ہو گا بلکہ ماضی کی طرح اُسی طرح مستحق لوگوں تک قربانی کی خوشیاں پہنچیں گی.

میں تو کرونا اور قرنطینہ کی وجہ سے پاکستان نہیں آپاؤں گا لیکن میں نے بھانجے کی ڈیوٹی لگائی ہے وہ ماضی کی طرح اُسی طرح قربانی کا گوشت تقسیم کر ے گا میں چوہدری صاحب کے ایمانی جذبے سے سرشار سا ہوگیا چوہدری صاحب کی یہ انسان دوستی بہت بھاتی ہے ان کی خدمت خلق کے جذبے کہ وجہ سے میرے دل میں اُن کا بہت احترام ہے کہ موجودہ دور کے مادیت پرستی کے طلسم ہوشربا کے زمانے میں جب موجودہ مادی انسان مادیت پرستی کی کبھی نہ ختم ہونے والی شاہراہ پر اندھا دھند دوڑے چلے جا رہے ہیں اِس پر فتن دور میں بھی چوہدری صاحب جیسے درد دل رکھنے والے انسان مغرب کے دیس میں خدمت خلق کی شمع جلائے ہوئے ہیں جہاں پر انسان خدا اور مذہب سے ناطہ توڑ کر لادینی کے اندھیروں میں گم ہو چکا ہے چوہدری صاحب جیسے لوگوں کو دیکھ کر ہی تو سر ماؤں سے شفیق خدا یاد آتا ہے جو معاشرے کے توازن اور غریبوں تک اپنے انعامات پہنچانے کے لیے انسانوں کے دلوں میں سخاوت اور خدمت خلق کا جذبہ ڈالتا ہے خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کو حق تعالی ایسے نیک کاموں کے لیے چُن لیتا ہے

چوہدری صاحب سے میری پہلی ملاقات چند سال پہلے اُس وقت ہوئی جب امریکہ میں ان کی بہن نے اُن کو میرانام پتہ دیا رابعہ بہن اپنے خاندانی مسائل کے لیے چند سال پہلے میرے پاس آئی تھیں اللہ نے جب ان پر کرم خاص کر دیا تو عقیدت بھرا رشتہ قائم ہو گیا چوہدری صاحب اپنے بیٹے کے حوالے سے پریشان تھے پاکستان آئے تو مُجھ سے بھی ملے دو چار ملاقاتوں میں تعارف شناسائی میں ڈھل گیا پہلی باقاعد ہ تفصیلی ملاقات اُس وقت ہوئی جب چند سال پہلے بقرہ عید پر چوہدری صاحب میرے پاس آئے اور بولے میں صرف قربانی کر نے پاکستان آیا ہوں اللہ تعالی نے مجھے بہت ساری دولت سے نواز رکھا ہے بلکہ رب تعالی نے مجھے میری اوقات سے زیادہ نواز رکھا ہے اتنی میری اوقات نہیں تھی میں بچپن میں ہی یتیم ہو گیا تھا بچپن جوانی غریت کی کڑی دھوپ میں گزری پھر یورپ سے امریکہ چلا گیا تو اللہ تعالی نے میرے اوپر رزق کی بارش کر دی دولت مند ہونے کے بعد بھی میں اپنی غربت اوقات نہیں بھولا جہاں تک ممکن ہو تا ہے غریبوں تک پہنچنے کی کو شش کرتا ہوں میں ہر سال اپنے والدین اور شہنشاہ دو عالم محبوب خداﷺ کے نام کے بہت سار ے جانور ذبح کر کے گوشت غریبوں میں تقسیم کرتا ہوں وہ جانور میں نے لے لئے ہیں کل آپ میرے ساتھ چل کر اُن جانوروں کو دیکھیں گے

ساتھ میں چند حق دار غریب خاندانوں کا پتہ بھی دے دیں تاکہ ان تک قربانی کا گوشت پہنچا یا جا سکے چوہدری صاحب کا قابل تحسین جذبہ اور انسانوں سے پیار مجھے ان کے ساتھ دریا ئے راوی کے اُس پار لے گیا جہاں پر حیرتوں کا سمندر میرا منتظر تھا ایک فارم ہاؤس پر بہت سارے صاف ستھرے بکرے ادھر اُدھر گھوم رہے تھے یہاں پر قربانی کے تمام قسم کے جانور چارہ کھاتے نظر آرہے تھے چوہدری صاحب نے جانوروں کی دیکھ بھال کا خوب انتظام کیا ہوا تھا صحت مند تازہ چارے کے ساتھ مختلف قسم کے پھل جو جانور شوق سے کھاتے ہیں وہ بھی جانوروں کو کھلائے جا رہے تھے سفید بکروں کو صابن سے خوب نہلا کر اُن پر مہندی کے پھول بوٹے اور گلوں میں گانیاں ہار ڈالے ہوئے تھے جانوروں کے لیے تازہ چارے کے ساتھ ٹھنڈا پانی بھی خوب میسر تھا اس طرح جانوروں کی بھوک کے ساتھ ساتھ گرمی کا توڑ بھی کیا گیا تھا

اب میں اور چوہدری صاحب بہت سارے جانوروں کے ساتھ گھوم رہے تھے چوہدری صاحب جانوروں کی دیکھ بھال میں مصروف ہو گئے تو وہاں پر موجود کام کرنے والا بندہ میرے پاس آگیامیری متجسس فطرت اُس سے چوہدری صاحب کے بارے میں سوال کرنے لگی تو اُس بندے نے بتایا چوہدری صاحب انسان نہیں فرشتہ ہے جو انسانوں سے پیار کرنے کے لیے اللہ نے زمین پر بھیجا ہے چوہدری صاحب نے ایک لسٹ بنا رکھی ہے جس کے مطابق وہ عید کے تین دن گوشت تقسیم کر تے ہیں سب سے خوشگوار حیرت مجھے اُس وقت جب پتہ چلا کہ ایسے خاندان جن کے افراد زیادہ ہیں چوہدری صاحب ان کو عید سے پہلے سالم بکرہ دے دیتے ہیں یا چند خاندانوں کو بڑا جانور دے دیتے ہیں میں نے لوگوں کو عید کا گوشت تقسیم کرتے تو بہت سنا یہ پہلا شخص تھا جو عید سے پہلے مستحق لوگوں کے گھروں میں سالم جانور دیتا ہو .

جب چوہدری صاحب میرے قریب آئے تو میں نے ممنون ستائشی نظروں سے چوہدری صاحب کی طرف دیکھا اور پوچھا چوہدری صاحب سنا ہے آپ قربانی پر گوشت نہیں سالم بکرے لوگوں میں بانٹ دیتے ہیں تو وہ بولے ایسے گھر جہاں غربت نے ڈھیرے ڈالے ہوں اور چھوٹے بچے ہوں جب محلے والے اپنے جانوروں کی گلی میں نمائش کریں گے تو وہ چھوٹے بچے حسرت بھری نظروں سے ان جانوروں کو دیکھیں گے اُن کی خوشی کے لیے میں ایسے گھروں میں سالم جانور دے دیتا ہوں تاکہ وہ غریب یتیم بچے بھی خوشی سے اپنے جانور کو دیکھ اور محسوس کر سکے میں چوہدری صاحب کے جذبہ انسانیت سے متاثر اور سر شار ہو چکاتھا چوہدری صاحب بولے پروفیسر صاحب دعا کریں اللہ مجھے معاف اور جنت عطا کرے تو میں آسمان کی طرف اشارہ کر کے بولا چوہدری صاحب وہ اب آپ کو معاف بھی کرے گا اور روز محشر یقینا آپ کے لیے جنت کے سارے دروازے کھول دیے جائیں گے آپ جہاں سے مرضی داخل ہو جائیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
50734

عالم اسلام کی عید قربان کیسی ہوتی ہے – تحریر :حافظ عثمان علی معاویہ

Posted on

اللہ تعالیٰ نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ آپ کہہ دیجئے کہ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، مسلمان کی ہر عبادت محض رب العالمین کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہوتی ہے۔
دیگر عبادات کے ساتھ ساتھ عید الاضحی کی قربانی بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے امت مسلمہ پر لازم ہے
عالم اسلام کی عید قربان بڑے جوش و خروش سے منائی جاتی ہے۔


یہ عظیم عبادت ایک طرف اللہ کا حکم ہے تو دوسری طرف سنت ابرھیمی کے ساتھ سنت حبیب خدا بھی ہے
نبی اکرمؐ نے خود قربانی کی ہے اور امت کو قربانی کرنے کا حکم دیا ہے۔ حضرت عقبہ بن عامرؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ عید الاضحی کے موقع پر جناب نبی اکرمؐ نے بھیڑ بکریوں کا ایک ریوڑ میرے سپرد کیا اور فرمایا کہ اسے میرے صحابہ میں قربانی کے لیے تقسیم کر دو۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ دو جانور عید قربان پر ذبح کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ مجھے نبی اکرمؐ نے وصیت فرمائی تھی کہ ان کی طرف سے بھی قربانی دیا کروں اس لیے میں ایک جانور آپؐ کی طرف سے ذبح کیا کرتا ہوں۔


حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ جناب نبی اکرمؐ نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور ہر سال قربانی کرتے تھے۔ حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرمؐ ہر سال دو مینڈھے قربانی کیا کرتے تھے اور میں بھی دو مینڈھے قربانی دیتا ہوں۔ ایک روایت میں ہے کہ جناب نبی اکرمؐ قربانی میں دو مینڈھے ذبح کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ ایک جانور اپنی طرف سے قربان کر رہا ہوں اور دوسرا اپنی امت کے ان افراد کی طرف سے ذبح کر رہا ہوں جو قربانی نہیں کر سکیں گے۔


ان تعلیمات اور روایات کی روشنی میں دیکھا جائے تو آج بھی دنیا بھر کے تمام مسلمان سنت ابرھیمی پر طریق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق عمل پیرا ہیں
قربانی کی عید جس میں دنیا بھر کے مسلمان اللہ تعالی کی بارگاہ میں نذرانہ پیش کرنے کے لیے جانور ذبح کرتے ہیں اور اللہ تعالی کی رضا کے لیے اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔


دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر بہت سے ادارے اور تنظیمیں غریب عوام تک گوشت پہنچا کر انہیں اپنی خوشیوں میں شریک کرتے ہیں
’عوام الناس اجتماعی قربانی مختلف مدارس اور اداروں کے ذریعے کرتے ہیں، جبکہ زیادہ تر لوگ اپنے گھروں میں ہی اس سنت ابراہیمی کو ادا کرنا پسند کرتے ہیں، اس کو بہتر سمجھتے ہیں اور گھروں میں حفاظتی تدابیر کا اہتمام بہتر طریقے سے کیا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں انسانی صحت کے ناگزیر تقاضوں، مذہبی شعائر و عبادات کے تحفظ و احترام اور قومی یکجہتی کو برقرار رکھنے کے بنیادی اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے بین الااقوامی سطح پر اعلٰی مذہبی قیادت، ماہرین صحت اور متعلقہ ذمہ دار حکام باہمی مشاورت و اعتماد کے ساتھ جلد کسی اجتماعی لائحہ عمل کا اعلان کر دیں تاکہ قوم اس کے لیے ذہنی طور پر تیار رہے اور عید الاضحٰی اور قربانی بھی رمضان المبارک اور عید الفطر کی طرح مناسب ماحول میں کی جا سکے۔


کیونکہ اب پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمان اپنا مذہبی تہوار عیدالاضحیٰ منانے کی تیاریوں میں مشغول نظر آرہے ہیں اس سلسلہ میں قربانی کے لئے جانوروں کے لئے مویشی میڈیاں سج چکی ہیں
عید الاضحی سے قبل ہی میل جول کے حوالے سے احتیاطی تدابیر کے شعور کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنا چاہیے کیونکہ نماز عید کی ادائیگی کے لیے لوگ عید گاہ میں نماز پڑھتے ہیں نماز اور خطبات کے اختتام پر مسلمان ایک دوسرے کو گلے لگاتے ہیں اور ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں۔


بہت سارے مسلمان اس موقع پر اپنے غیر مسلم دوستوں، پڑوسیوں، ساتھی کارکنوں اور ہم جماعتوں کو اپنے عید کے تہواروں پر دعوت دیتے ہیں تاکہ وہ اسلام اور مسلم ثقافت سے بہتر طور پر واقف ہوں۔ ہر طرف خوشی اور مسرت کا ماحول رہتا ہے۔
نماز عید کھلے علاقوں جیسے شہروں میں عیدگاہ یا بڑی مسجدوں یا محلے کی مسجدوں میں ادا کی جاتی ہے اور گاؤں میں کھیتوں ، برادری کے مراکز وغیرہ میں ادا کی جاتی ہے۔ نماز عید کے بعد مسلمان اپنے آس پاس کے نمازیوں سے اور دوستوں سے بڑی ہی خوشی کے ساتھ ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں اور پھر دن بھر یہاں تک کہ پورے تین دن تک اپنے عزیز و اقارب اور رشتےداروں کے ساتھ عید کی خوشیاں بانٹتے رہتے ہیں۔
یہ عید ڈھیروں خوشیاں لاتی ہے اور بہت سی یادیں چھوڑ جاتی ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
50731

نوائے سُرود ۔ الفاظ کا جُھنجُھنا ۔ شہزادی کوثر

نوائے سُرود ۔ الفاظ کا جُھنجُھنا ۔ شہزادی کوثر

اپنی جنم بھومی سے محبت اور عقیدت کا بڑا اٹوٹ اور گہرا رشتہ ہوتا ہے جو انسان کے رگ وریشے میں ساری زندگی کے لیے سرایت کر جاتا ہے ۔جس میں آب و ہوا ،علاقے کی روایات، لوگوں کے آپس کے تعلقات شامل ہیں ،ان ہی چیزوں سے ہماری شخصیت سازی میں مدد ملتی ہے۔ بچپن سے جو کچھ ہم اپنے ارد گرد کی دنیا میں دیکھتے ،جو کھاتے پیتے ہیں ،زمین کی کوکھ سے ہر طرح کی لذت ،طاقت اور توانائی حاصل کرتے ہیں انہی کے سہارے ہماری زندگی کی بنیادیں مضبوط ہوتی ہیں جو آگے جا کر ہمارے وجود اور شخصیت کی عمارت کو خدوخال اور دلکشی عطا کرتے ہیں ۔

جس طرح والدین رشتہ داروں اور اولاد کے حقوق ہیں ،اسی طرح علاقے اور وطن کے بھی کچھ حقوق ہیں ۔جنھیں ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے عمدگی سے ادا کرنا ہونگے۔ صرف زبانی کلامی محبت کے اظہار سے یہ حق ادا نہیں ہوا کرتا ۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں عملی کام کی روایت نہ ہونے کے برابر ہے ۔اس کے بر عکس اگر صرف بولنے کا مقابلہ کروایا جائے تو کوئی بھی ہم سے نہیں جیت سکتا ۔ بڑے بڑے دعوے کر کے عوام کو بےوقوف بنانے سے لے کر اپنے بے روح وعدوں کے ذریعے انہیں سبز باغ دکھانے تک کا کام بڑی آسانی سے انجام دیا جاتا ہے۔ ساری گفتگو ” چاہییے ” کے گرد گھومتی ہے۔ کوئی کام عملی شکل میں کم ہی سامنے اتا ہے ۔ جن کے پاس طاقت اور اختیار ہے وہ اسے استعمال کرنے کے فن سے نا واقف ہیں۔ 

اس وقت بہت سے مسائل منہ کھولے ہمیں نگلنے کے لیے تیار ہیں جن میں مہنگائی، بے روزگاری، غربت،بنیادی سہولیات کا فقدان، سڑکوں کی خستہ حالت، صاف پانی کی عدم دستیابی، ہسپتالوں میں ناقص انتظام ،اشیا خورد ونوش میں ملاوٹ ،بڑھتی ہوئی آبادی،زمینی آبی اور فضائی آلودگی ان کے علاوہ بے شمار معاشی معاشرتی اور اخلاقی مسائل ہیں جن میں ہم بری طرح سے پھنسے ہوئے ہیں ۔ان تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی خضر ملے گا یا آسمان سے کسی فرشتے کے اترنے کا انتظار ہے؟  یہ ہمارے اپنے پیدا کردہ مسائل ہیں اور ان کو خود ہی حل کرنا ہوگا۔ اگر چھوٹے پیمانے پہ کوئی مسلہ پیدا ہو تو اسی وقت اس کا تدارک کرنے سے معاشی مشکلات میں کافی حد تک کمی آئی گی۔

ہم بھی عجیب قوم ہیں ایک طرف غربت ،تنگدستی اور معاشی ابتری کا رونا روتے ہیں تو دوسری طرف  فضولیات لاکھوں خرچ کرتے ہیں ۔اگر واقعی میں ملکی حالات ناگفتہ بہ ہیں تو اخراجات کی مد میں خرچ ہونے والی رقم کا جائزہ لیں کہ کہیں بے مصرف جگہ پہ خرچ تونہیں ہو رہا ؟ اگر کوئی فنڈ ملا ہے تو ایسے کاموں میں لگا دیا جائے جس سے عوام کو فائدہ پہنچے۔ ملک وقوم سے محبت کے دعوے دار صرف ” آئی لو چترال ” کے بورڈ لگا کر کیا اپنی ذمہ داریوں سے فارغ ہو گئے۔۔؟

محبت چار حروف کی ادائیگی کا نام نہیں یہ عملی طور پر کچھ کرنے کا نام سے جس سے سب کا بھلا ہو سکے۔ یہ جولاکھوں روپے لگا کر اظہار محبت کیا گیا ہے بے شک اچھا لگ رہا ہے لیکن  میری ناقص رائے ہے کہ کیا ہی اچھا ہوتا اگر ان پیسوں سے کہیں کنواں کھودا جاتا ،کسی یتیم خانے کی مالی معاونت کی جاتی ،کسی غریب طالب علم کے لیے ماہوار وظیفہ مقرر کیا جاتا تا کہ وہ بغیر مالی پریشانی کے اپنے تعلیمی اخراجات پوری کرتا، کسی خیراتی ادارے میں لگائے جاتے،سڑکوں پہ پڑا ہوا ملبہ ہٹایا جاتا ، کہیں پودے لگا کر ان کی دیکھ بھال کی جاتی ،شہر میں کچھ جگہوں پے کوڑے دان رکھوائے جاتے ، کچرا تلف کرنے کے لئے بڑے بڑے گڑھے کھودے جاتے یا  مختلف جگہوں پر انتظار گاہ بنوائے جاتے تاکہ سکول جانے والے بچے بارش اور سورج کی تمازت سے بچ جاتے ڈیوٹی پہ جانے والی خواتین کو سہولت مل جاتی ، سڑکوں میں جگہ جگہ گڑھے بنے ہیں ان کی پیوند کاری کروائی جاتی ۔۔۔،

ہزاروں ایسے کام  ہیں جو بہت کم پیسوں سے کیے جا سکتے ہیں ۔۔  صرف” آئی لو یو ” کہنے سے ملک اور علاقے کا حق  ادا نہیں  ہوتا۔ جن کے  ہاتھ میں اختیار ہے جو علاقے کی خدمت پر مامورہیں حکومت کی طرف سے لاکھوں روپے تنخواہ لیتے ہیں جن کے ہاتھ میں فنڈز آتے ہیں انہیں زیب نہیں دیتا کہ عوام کو ان چیزوں سے ٹرخائیں۔۔۔ 

بیوٹیفیکیشن کے نام پہ بڑی بڑی اسکرین لگانے یا گراونڈ کے چاروں طرف برقی قمقمے لگوانے سے پسی ہوئی عوام کو کیا فائدہ پہنچے گا۔۔؟ ہم غریب ملک کیےلٹے پٹےاور مقروض باشندے ہیں ہماری معیشت اجازت نہیں دیتی کہ ہم دوسروں کی دیکھا دیکھی ان کا معیار زندگی اپنانے کی کوشش کریں ۔

ہمارا بال بال قرض کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے ۔ہمارے ہاتھ سے گدائی کا کشکول ابھی نہیں گرا اس لیے ہم ان عیاشیوں کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔ہہمیں سائن بورڈ اور اسکرین کی ضرورت نہیں بلکہ ہمارے بنیادی مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے مسائل تبہی حل ہوں گے جب عوام کا پیسہ انہی کے کام ائے انہیں سہولیات دی جائیں اوران کا پیسہ صحیح جگہ پر استعمال ہو۔ جہاں عملی اقدام کی ضرورت ہے وہاں محبت کی افیون سے کام نہیں لیا جاتا۔ اگر ذاتی ۔

انفرادی اور اجتماعی طور پر صحیح کام کریں گے اپنے علاقے کے مسائل کو حل کرنے کا تہیہ کر کے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کریں گے تو وطن کا حق ادا ہو گا ورنہ صرف “آئی لو چترال ” کہنا بھوک سے بلکتے بچے کے ہاتھ میں جھنجھنا دینے کے مترادف ہے۔                                                                                        

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
50716

سیاسی غربت – تحریر. فیض العزیز فیض

سیاسی غربت – تحریر. فیض العزیز فیض

کشمیر الیکشن مہم کے دوران ایک سیاسی رہنما کی تقریر کا موضوع تقریباً یہ تھا کہ پاکستان میں سیاسی لوگوں کو ہی ہمیشہ کے لئے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے. اور ان کی عزت نہیں کی جاتی جیسے کہ مہذب معاشروں کے اندر ان کا وقار ہوتا ہے. کسی حد تک تو یہ بات درست لگتی ہے. لیکن میرے ناقص علم کے مطابق منظر کچھ الگ ہے. ہوسکتا ہے کہ میں غلط ہوں. لیکن سیاسی لوگوں کو بھی کچھ اپنے اپنے رخوں کی تصحیح کی ضرورت ہے. سیاستدان بہت سیانا ہوتا ہے.

خصوصاً پاکستان میں. لیکن اس کا سیانا پن بہت ہی سطحی قسم کا ہوتا ہے۔بطور کمیونٹی بھی انہیں اس بات کی قطعاً کوئی پروا نہیں کہ ان کی عزت کتنی ہے اور عموماً کتنی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں خصوصاً ان حلقوں میں جن کے اندر ان کی’’اہمیت‘‘ ہونی چاہئے کیونکہ عوام میں ان کی اہمیت تو نہ ہونے کے برابر ہے، خصوصاً ووٹ وصول کرنے کے بعد تو عوام اس گائے کے برابر رہ جاتے ہیں جس کا دودھ سوکھ گیا ہو اور ماس بوٹی بھی برائے نام رہ گئی ہو۔ہمارا سیاستدان کرتا کیا ہے؟اقتدار سے باہر ہو تو بہادری نہیں ڈھٹائی سے مار کھاتا ہے یا مل جل کر ڈنگ ٹپاتا ہے اور کچھ سیانے ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپوزیشن میں بیٹھ کر بھی اقتدار کے ساتھ بنائے نبھائے رکھتے ہیں اور ان کا دال دلیہ چلتا رہتا ہے.

جانوروں کی قسمیں ہوتی ہیں مثلاً کتے آپس میں لڑتے رہنے کے لئے مشہور ہیں جبکہ بھینسوں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بہنوں کی طرح ہوتی ہیں اور مل جل کر کھاتی ہیں۔ سیاستدان اقتدار میں ہو تو اس کا مرکزی خیال مال کے گرد گھومتا ہے یا حسب توفیق پروٹوکول۔کسی کو ریلیف کسی کو تکلیف، اور کسی سے انتقام، میرٹ سے ماوراء ان کی عوام دوستی بھی دراصل دشمنی ہوتی ہے۔ذرا اندازہ لگائیں وہ عوامی نمائندے کتنے عوام دوست ہوں گے جنہوں نے مختلف سرکاری کارپوریشنوں اور دیگر اداروں مثلاً ریلوے، پی آئی ا ے، اسٹیل مل وغیرہ میں’’فیس‘‘ یا اس کے بغیر لوگوں کو اندھا دھند بھرتی کراکے اس ملک دشمن کلچر کی بنیاد رکھی کہ’’کام کرو نہ کرو ماہ بماہ تنخواہ مل جایا کرے گی‘‘ اسکولوں سے لے کر سرکاری ڈسپینسریوں تک’’گھوسٹ ملازمین‘‘ متعارف کرانے والے یہ نمائندے، درندے تھے جنہوں نے معاشرہ کی جڑوں میں زہر انجیکٹ کردیا اور آج بھی اس پر نادم نہیں، فخر کرتے ہیں۔

گلیاں، پلیاں، نالیاں بنا کر ان میں بھی کمیشن کھانے والی کمیونٹی کی عزت کون کرے ؟ ان کا ٹوٹل ’’قصہ قصہ بقدر جثہ‘‘ ہے، جن کے جبڑے ہیں وہ جبڑوں سے بوٹیاں نہیں پڑچھےاتاررہے ہیں، جن کی چونچیں’’یوسی‘‘ سائز کی ہیں وہ اپنی اوقات کے مطابق ماس نوچ رہے ہیں تو اس کمیونٹی کو عزت کیسے ملے؟اس تمہید کے بعد چلتے ہیں اس سوال کی طرف کہ آئندہ کشمیر الیکشن کا نتیجہ کیا ہوگا؟ تو بھائی ! آئندہ کیا ہم تو اس سے اگلے تین چار الیکشن کے نتائج سے بھی بخوبی آگاہ ہیں. یعنی وہی ڈھاک کے تین پات ۔۔۔۔سیاستدانوں کی یہ برادری اگر اپنے اندر بنیادی تبدیلیاں نہیں لاتی تو قصر صدارت میں’’صدر‘‘ بھی ہوگا، وزیر اعظم ہائوس میں کوئی نہ کوئی چمپو بطور وزیر اعظم بھی جلوہ افروز ہوگا، وزیر اعلیٰ ہائوسز بھی آباد ہوں گے لیکن عملاً وہی حال کہ ہونے کے باوجود کچھ بھی نہیں ہوگا اوریہ چمن یونہی رہے گا اور ہزاروں جانور اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گے.

سیاسی کلچر میں تبدیلی کے لئے کوئی خاص اسکول تو کھولے نہیں جاسکتے سو ٹاپ لیڈر شپ کو سر جوڑ کر، دلوں پہ پتھر رکھ کر یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم نے لوٹ مار میں اسی فیصد کمی کرنی ہے اور اپنی کارکردگی کو اسی فیصد تک بڑھانا ہے اور کسی قیمت پر میرٹ سے انحراف نہیں کرنا، ہر شعبہ کو ڈی پولیٹسایز کرنا ہے۔نمائشی آرائشی پراجیکٹس کے بجائے یا ان کے ساتھ ساتھ پبلک ہیلتھ اور کوالٹی ایجوکیشن پر فوکس کرنا ہے ورنہ یہ’’برادری‘‘ لاکھ’’اسٹیبلشمنٹ اسٹیبلشمنٹ‘‘ چیختی رہے، یہ دن رات خلائی مخلوق جیسی لغو اصطلاحیں گھڑتے اور عوام کے سر مڈھتے رہیں ……..

رسوائی اور پسپائی ان کا مقدر تھی، ہے اور رہے گی۔یہ کیسے گھامڑ ہیں جنہیں اپنی نام نہاد’’ترقی‘‘ ا ور ’’اصلاحات‘‘ کے لئے اربوں روپے کے اشتہارات شائع کرنا پڑتے ہیں. ایک دوست ان دنوں فیملی کے ساتھ کشمیر یاترا پر ہیں. تو وہی بتا رہے تھے. کہ ہر طرف بینرز اور جعلی نعروں سے بھرے اشتہارات کا یہ عالم ہے. کہ شاید کوئی دیوار خالی ہو. تو جناب والا حالانکہ جب کوئی عطر جنیوئن ہو تو عطار کو اس کا ڈھنڈورا نہیں پیٹنا پڑتا۔ یہ کیسے وزیر ہیں جو پانچ پانچ سال اپنے قلمدان اگالدان کی طرح استعمال کرکے رخصت ہوجاتے ہیں اور وہ منحوس وزارت اسی فرسودہ حالت میں پڑی رہتی ہے جس بیہودہ حالت میں انہیں ملی ہوتی ہے۔ مجال ہے جو انہیں کبھی یہ خیال بھی آتا ہو کہ یہ اپنے پیچھے کوئی لگیسی چھوڑ جائیں، کوئی ایسا کام کر جائیں جو صدیوں انہیں زندہ رکھے۔

ایک مثال لیجیے کہ 15سال سے زیادہ ہوگئے ڈبل ون ڈبل ٹو (1122)کو متعارف ہوئے لیکن لوگ آج بھی اس کام کے لئے چودھری پرویز الٰہی صاحب کو یاد کرتے اور دعائیں دیتے ہیں۔عرض کرنے کا مقصد یہ کہ جسے عوام تا اسٹیبلشمنٹ عزت و اہمیت درکار ہے وہ کام کرے، ڈلیور کرے، عوام کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی پیدا کرے، اپنے اور ان کے درمیان فاصلے کم کرے ورنہ مالی اور انتظامی زور پر کئے گئے جلسوں میں مسخرانہ طور پر” I love  ”کہنے سے کچھ نہیں ہوگا۔الیکشن کی ٹیکنالوجی خود فریبی ہے جو مزید کام نہیں آئے گی۔ حکومت پی ٹی آئی کی ہو، ن لیگ کی یا پیپلز پارٹی کی۔۔۔۔

’’ٹھوکریں‘‘ تب تک ان کا مقدر رہیں گی اور رہنی چاہئیں جب تک ان کے بنیادی رویے اور ترجیحات تبدیل نہیں ہوتیں ورنہ اسی ’’تنخواہ‘‘ پر جینا مرنا ہوگا۔۔۔۔’’اثاثے‘‘بنتے رہیں گے’’عزت‘‘ بگڑتی رہے گی یہ ہونے کے باوجود نہ ہونے کا المیہ تمہاری داستان کا مستقل عنوان بنا رہے گا۔تقریباً ایک عشرہ ترقی یافتہ اقوام کے سیاسی رہنماؤں کی طرزِ حکمرانی کے یہ گناہگار آنکھیں شاہد ہیں. کہ ان کے سیاسی کیریئر کا آغاز سے لیکر اختتام تک مقصد سیاست اس عزم کے لئے قربان نظر آتی ہے کہ ہم کونسا ایسا کام کرگزریں. کہ تاریخ میں ہمیں یاد رکھا جائے. ان کے سیاسی دوستیوں اور دشمنیوں کی بنیاد اس فکر پہ منحصر ہوتے ہیں. نہ کہ زاتی مفادات و اغراض و مقاصد. 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
50703

سائبر کرائمز کا خوفناک کھیل – محمد شریف شکیب

سائبر کرائمز کا خوفناک کھیل – محمد شریف شکیب

انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور فرانسیسی میڈیا گروپ فوربڈن سٹوریز نے اپنے تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ بھارت نے اسرائیلی کمپنی این ایس آر کے سافٹ وئرپیگاسس کے ذریعے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان، سمیت ملک کے اعلیٰ سول و فوجی افسران، سفارت کاروں، صنعت کاروں اور حریت پسند کشمیری رہنماؤں کے علاوہ کانگریس پارٹی کے مرکزی قائدین اور حکومت مخالف صحافیوں کے موبائل فون ہیک کرکے ان کی گفتگو، پیغامات،تصاویر اور وڈیوز کا ریکارڈ حاصل کرلیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 21ممالک کے 180صحافیوں سمیت 50ہزار سے زیادہ اہم شخصیات کی اس سافٹ وئر کے ذریعے جاسوسی کی گئی۔

تحقیقاتی ٹیم نے جاسوسی کا ہدف بننے والے جن موبائل فون نمبرز کی فہرست تیار کی ہے ان میں وزیر اعظم عمران خان کے زیر استعمال رہنے والا ایک پرانا موبائل نمبر بھی شامل ہے۔ اسرائیلی جاسوس سافٹ ویئر این ایس او کی مدد سے صارف کسی بھی فون نمبر کے ذریعہ اپنے ممکنہ ہدف کے فون تک رسائی حاصل کر سکتا ہے اور اس کی مدد سے فون کا تمام ڈیٹا حاصل کر سکتا ہے اور فون استعمال کرنے والے کی نقل و حرکت کی بھی مانیٹرنگ کر سکتا ہے۔ فون نمبرز کی اس فہرست میں حکومتی عہدے داروں، کاروباری شخصیات، ججز اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے نام بھی شامل ہیں۔

تحقیق کے مطابق این ایس او کا استعمال کرنے والے صارف ممالک میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بھارت، بحرین، ہنگری، آذربائیجان، میکسیکو اور دیگر ممالک شامل ہیں۔لیکن اس سافٹ وئر کا سب سے زیادہ منفی استعمال بھارت نے کیا ہے۔ تحقیقی رپورٹ تیار کرنے کے لئے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور فوربڈن سٹوریز نے 16 مختلف صحافتی اداروں کے ساتھ مل کر کام کیا جن میں واشنگٹن پوسٹ اور گارڈین بھی شامل ہیں۔نریندر مودی کی حکومت نے جن ایک ہزار سے زیادہ موبائل نمبر وں کو جاسوسی کے لیے بطور ہدف چنا ان میں کشمیری حریت پسند رہنماوں، پاکستانی سفارتکاروں، چینی صحافیوں، سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں،سماجی کارکنان اور کاروباری افرادکے نمبر شامل ہیں۔

کہتے ہیں کہ انسان کا دوست اور دشمن بھی باعزت اور باغیرت ہونا چاہئے۔ جو پیٹھ پر چھرا گھونپنے کے بجائے سامنے آکر وار کرے۔ بدقسمتی سے پاکستان کو ایسا دشمن ملا ہے جس نے ہمیشہ انسانیت اور اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے۔ نریندر مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی جب سے اقتدار میں آئی ہے۔ پاکستان سمیت اپنے تمام پڑوسیوں کے ساتھ اس نے محاذ آرائی کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ اپنے ہی ملک میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک اور مقبوضہ کشمیرکے عوام پر عرصہ حیات تنگ پر اسے عالمی برادری کی طرف سے بھی لعن طعن کا نشانہ بنایا جارہا ہے مگر اس کی ریشہ دوانیاں کم ہوتے دکھائی نہیں دیتیں۔

اپنے مخالفین کے موبائل ہیک کرنا، ان کی پرائیویسی میں مداخلت اورنجی زندگی کی معلومات چرانا بین الاقوامی قوانین اور اخلاقیات کے منافی ہے۔ جس پر بین الاقوامی عدالت انصاف کو سائبر کرائمز قوانین کے تحت ازخود نوٹس لے کر بھارتی حکومت کے خلاف کاروائی کرنی چاہئے۔ اور اقوام عالم کو بھی تجارتی مفادات پر اخلاقی اقدار کو ترجیح دیتے ہوئے بھارتی حکومت کے خلاف کاروائی کرنی چاہئے۔ اگر قوموں کی خفیہ جاسوسی کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ تو عالمی امن کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ یہود و ہنود کے نمائندوں بھارت اور اسرائیل نے امن عالم کے لئے سنگین خطرات پیدا کردیئے ہیں۔ انہیں لگام دینا اقوام متحدہ اور خود کو ترقی یافتہ اور مہذب کہلانے والے طاقتور ممالک کی ذمہ داری بنتی ہے۔سائبر کرائمز کو نہ روکا گیا تو دنیا میں کسی بھی شخص کی پرائیویسی محفوظ نہیں رہے گی۔ جو کہ بطور انسان ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔ حقوق انسانی کے نام نہاد علم برداروں کو بھی انسانیت کو درپیش اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر کوئی لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
50695

انسانی زندگیوں سے کھلواڑ – محمد شریف شکیب

اس بار عید کی خوشیاں کورونا کی صورت حال اورمختلف حادثات کی وجہ سے پھیکی پڑ گئیں۔ عالمی وباء کورونا تو قدرتی آفت ہے جس میں ساری دنیا گذشتہ ڈیڑھ سالوں سے مبتلا ہے لیکن کچھ سانحات انسان کے اپنے پیدا کردہ ہوتے ہیں۔ جو قدرتی آفات کے نقصانات سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ عید سے دو روز قبل ایسا ہی ایک حادثہ اپرچترال کے علاقہ ریشن میں پیش آیا۔

پشاور سے عید اپنے پیاروں کے ساتھ منانے کے لئے مختلف شہروں سے آئے ہوئے اٹھارہ مسافر ایک کوچ کے ذریعے جب دومون گول کے مقام پر پہنچے تو گاڑی بریک فیل ہونے کی وجہ سے گہری کھائی میں جاگری۔ ڈرائیور، ایک خاتون اور بینک آفیسر سمیت تین افراد موقع پر ہی دم توڑ گئے جبکہ چھ خواتین سمیت گیارہ افراد شدید زخمی ہوگئے جنہیں گاڑی کی باڈی کاٹ کر نکالا گیا۔ گیارہ میں سے نو زخمیوں کو تشویش ناک حالت میں پشاور ریفر کردیا گیا۔ بونی سے ایک زخمی خاتون کو اس کا بھائی، بھابی اور ماموں زاد لے کر پشاور آرہے تھے کہ لواری کے قریب ان کی گاڑی پھرحادثے کا شکار ہوگئی، زخمی خاتون کا بھائی اس حادثے میں جاں بحق ہوگیا جو سات بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ زخمی خاتون مزید زخموں سے چور ہوگئی اور پشاور کے ایک ہسپتال میں بدستور تشویش ناک حالت میں ہے۔

مرنے والوں کے گھروں میں عید کے دن صف ماتم بچھی ہوئی تھی۔ زخمیوں کے رشتہ دار ان کے ہمراہ ہسپتالوں میں اپنے پیاروں کی زندگی بچنے کی دعائیں مانگ رہے ہیں۔ چترال روٹ پر ٹریفک حادثات کی سب سے بڑی وجہ سڑکوں کی مخدوش حالت ہے۔ عشریت سے لے کر بونی اور مستوج تک سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ان سڑکوں سے بخیریت گذرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ دوسری وجہ مسافر گاڑیوں کا رات کے وقت سفر کرنا ہے۔

تنگ پہاڑی راستوں پر سفر کے دوران تھکے ہارے ڈرائیور کو چند سیکنڈ کے لئے بھی اونگھ آگئی تو گاڑی میں سوار تمام افراد کی زندگی داؤ پر لگ جاتی ہیں چترال روٹ پر مسافر گاڑیوں کو پیش آنے والے 90فیصد حادثات کی وجہ ڈرائیوروں کی نیم خوابی ہوتی ہے۔عید کے موقع پر گاڑیاں کم اور مسافر زیادہ ہوتے ہیں ٹرانسپورٹرز زیادہ سے زیادہ مال کمانے کے لئے ڈرائیوروں کو دو دو، تین تین دنوں تک بغیر آرام کئے سفر کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ 72گھنٹوں تک آنکھ جھپکائے بغیر ڈرائیونگ کرنے والے پر غنودگی طاری ہونا فطری بات ہے۔گاڑیوں میں مسافروں کو بھیٹر بکریوں کی طرح ٹھونسنا اور سامان کی اوور لوڈنگ بھی حادثات کی بڑی وجہ ہے۔

لانگ روٹ پر چلنے والی گاڑیوں کی چیکنگ کا کوئی نظام موجود نہیں۔ پولیس اور ضلعی حکام کی ملی بھگت سے ناکارہ اور خراب گاڑیاں پبلک ٹرانسپورٹ کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں۔ ریشن حادثے کا شکار ہونے والی گاڑی کے بارے میں بتایا گیا کہ پشاور سے ریشن پہنچنے میں اس نے آٹھ گھنٹے کے بجائے چودہ گھنٹے لگائے اور چھ مقامات پر گاڑی خراب ہوئی تھی۔مسافروں کو محفوظ سفر کی سہولت فراہم کرنا ٹرانسپورٹرز، اڈہ مالکان، ڈرائیوروں اور ضلعی انتظامیہ کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ ان میں سے کسی ایک کی غفلت سے کئی گھروں میں صف ماتم بچھ جاتی ہے۔ ایسے جانکاہ حادثات کی انکوائری ہوتی ہے نہ ہی اب تک کسی کو سزا ملی ہے یہی وجہ ہے کہ اپنے مادی مفادات کے لئے قیمتی انسانی جانوں سے کھیلنے والوں کو شہ ملتی ہے۔

کسی کی غفلت اور لاپرواہی سے ایسا کوئی حادثہ پیش آئے تو جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کو معاوضے اور زخمیوں کے علاج معالجے کے اخراجات حادثے کے ذمہ داروں سے وصول کرنے کا قانون تو موجود ہے۔ مگر جب کسی واقعے کی انکوائری ہی نہ ہو۔ تو ذمہ داری کا تعین کون کرے گا اور متاثرین کو معاوضہ کون ادا کرے گا۔ صوبائی دارالحکومت کی پولیس اور انتظامیہ سمیت صوبے بھر کے ضلعی حکام کو ٹریفک حادثات کی روک تھام اور قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع روکنے کے لئے قوانین کا سختی سے نفاذ کرنا ہوگا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
50681

جیل اصلاحات – محمد شریف شکیب

خیبر پختونخوا کی جیلوں میں مجموعی طور پر 22ہزار 656افراد مختلف جرائم کے سلسلے میں قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ان میں 440خواتین قیدی بھی شامل ہیں سب سے زیادہ قیدی ہری پور جیل میں ہیں جن کی تعداد دس ہزار سے زیادہ ہے۔ سینٹرل جیل پشاور میں 1916، بنوں جیل میں 1194، مردان میں 1713، بٹگرام میں 2021 اور داسو کوہستان جیل میں قیدیوں کی تعداد 1585ہے۔تیمرگرہ جیل میں 631، صوابی میں 578اور کوہاٹ جیل میں 500قیدی موجود ہیں۔ ان قیدیوں میں دہشت گردی، تخریب کاری، قتل، اقدام قتل، اغوا برائے تاوان اور دیگر سنگین جرائم کے ساتھ معمولی نوعیت کے مقدمات میں ملوث افراد بھی شامل ہیں۔

بہت سے قیدی ایسے بھی ہیں جن کی ضمانتیں نہ ہونے کی وجہ سے وہ کئی سالوں سے سلاخوں کے پیچھے زندگی گذارنے پر مجبور ہیں اور درجنوں کی تعداد میں بچے بھی ان جیلوں میں موجود ہیں جنہوں نے خود تو کوئی جرم نہیں کیا۔ مگر اپنی ماؤں کے جرم کی سزا بھگت رہے ہیں۔کسی کو قانون توڑنے پر قید کرنے کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ قید تنہائی گذارنے کے بعد جب وہ جیل سے باہر آجائے تو اپنے گناہوں سے توبہ کرے اور معاشرے کا مفید شہری بن جائے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اکثر قیدی جب جیل سے باہر آتے ہیں تو معاشرے کے لئے پہلے سے زیادہ خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ خیبر پختونخوا حکومت نے قیدیوں کو معاشرے کا مفید شہری بنانے کے لئے متعدد اقدامات کئے ہیں۔ نوجوان قیدیوں کو جیلوں میں تعلیم کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔

گذشتہ چند سالوں میں سینکڑوں کی تعداد میں قیدیوں کو جیلوں میں مختلف ہنر سکھائے گئے جن میں ٹیلرنگ، پائپ فٹنگ، الیکٹریشن اور مختلف دستکاریاں شامل ہیں تاکہ جیل سے باہر نکلنے کے بعد وہ اپنے فن کو بروئے کار لاکر عزت کی روزی کما سکیں۔ صوبائی حکومت نے جیلوں میں اصلاحات کے لئے اربوں روپے کے فنڈز کی منظوری دی ہے۔قیدیوں کی سیکورٹی بہتر بنانے کے لئے 836افراد پر مشتمل خصوصی سیکورٹی فورس قائم کی گئی ہے۔ پشاور جیل کی توسیع اور سہولیات بہتر بنانے کے لئے ایک ارب چالیس کروڑ 80لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ مردان جیل کے لئے ایک ارب 78کروڑ، ڈیرہ جیل کے لئے 50کروڑ، ہنگو جیل کی تعمیر و توسیع کے لئے 26کروڑ چالیس لاکھ، ہری پور جیل میں زیرتربیت سٹاف کے ہاسٹل کے لئے 20کروڑ، صوبے کی چھ جیلوں میں ہائی سیکورٹی زونز کے لئے بارہ کروڑ بیس لاکھ، موجودہ 23جیلوں میں سہولیات بہتر بنانے کے لئے پندرہ کروڑ تیس لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں.

اسی طرح بنوں جیل واقعے کے بعد جیلوں کی سیکورٹی فول پروف بنانے کے لئے 34کروڑ 80لاکھ، صوابی جیل کی تعمیر کے لئے 50کروڑ، سوات جیل کے لئے پندرہ کروڑ، جیلوں کو الگ فیڈر سے بجلی کی فراہمی کے لئے 20کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ یو این او ڈی سی اور یو ایس ایڈ کے تعاون سے جیل سٹاف کو تربیت دینے کا پروگرام بھی شروع کیاگیا ہے۔ صوبے کی گیارہ جیلوں میں واٹر فلٹریشن پلانٹس لگائے گئے ہیں۔ ہری پور جیل کو سولر سسٹم سے منسلک کردیا گیا۔ صوبے کی دیگر جیلوں کی سولرائزیشن کے لئے 25کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔

اپر دیر، نوشہرہ، بانڈہ داؤد شاہ، الائی بٹگرام اور نتھیا گلی سب جیل کے لئے مجموعی طور پر 90کروڑ کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔ صوبے کی جیلوں میں توسیع و مرمت، سہولیات بہتر بنانے اور سیکورٹی انتظامات مکمل ہونے میں ڈیڑھ دو سال کا عرصہ لگے گا۔ توقع ہے کہ جیل اصلاحات سے نہ صرف قیدیوں کا معیار زندگی بہتر ہوگا بلکہ جیل سے سزا پوری کرکے باہر آنے والے لوگ معاشرے کے لئے مفید ثابت ہوں گے۔جیل اصلاحات کے عمل میں تیزی لانے کے ساتھ بے گناہ قیدیوں کو جیلوں سے چھڑانے کے لئے قانونی امداد کا خصوصی پروگرام شروع کرنے کی ضرورت ہے۔صوبائی حکومت کا اس ضمن میں بھی ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
50675

پاکستان کی امریکہ کے لیے سہولت کاری . غزالی فاروق

پاکستان کی امریکہ کے لیے سہولت کاری . غزالی فاروق


 ایک حالیہ  شائع ہونے والی  رپورٹ کے مطابق   امریکی انٹیلی جنس برادری کا اندازہ ہے کہ افغان حکومت مکمل امریکی انخلاء کے بعد زیادہ سے زیادہ چھ ماہ سے ایک سال  کے دوران  طالبان کے ہاتھوں  ختم ہوجائے گی۔ وال اسٹریٹ جرنل کی جانب سے جاری  کردہ یہ  رپورٹ  امریکی انٹیلی جنس برادری  کےپچھلے زیادہ امید افزا اندازوں کے برخلاف ہے جن میں یہ کہا گیا تھا کہ افغان حکومت امریکی انخلاء کے بعد دو سال تک برقرار رہ سکے گی۔

افغانستان کی تیزی کے ساتھ بدلتی ہوئی  صورتحال میں  امریکہ کی انٹیلی جنس برادری  نے اپنے پچھلے اندازوں کو تبدیل کردیا ہے،   کیونکہ گزشتہ چند روز  میں  طالبان نے افغانستان میں  اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔   افغان حکومت کی فوج اس وقت طالبان کے خلاف   مختلف مقامات پر محاذ آرا ہیں لیکن  طالبان   ایران، تاجکستان، ترکمانستان، چین اور پاکستان  پر مشتمل   پانچ ممالک  کے ساتھ  قائم مرکزی بارڈر کراسنگ پر  کنٹرول حاصل  کر چکےہیں۔ خود طالبان کا یہ  دعویٰ ہے کہ وہ افغانستان  کے 85 فیصد علاقے  پر کنٹرول حاصل کر چکے ہیں۔ لیکن  بعض ذرائع کے مطابق افغانستان کے تقریباً  400 اضلاع میں سے ابھی تک  ایک تہائی کا کنٹرول طالبان کے ہاتھ میں آیا  ہے۔

آج امریکہ بگرام ائیربیس کو رات کی تاریکی میں اور مکمل خاموشی کے ساتھ  چھوڑ کر  بھاگ  چکا ہے۔ یہ وہ فضائی اڈہ تھا  جو  افغانستان میں امریکا کا بنیادی جنگی مرکز تھا اور دسیوں ہزار امریکی فوجیوں کا گڑھ  بھی تھا۔ لیکن امریکہ کو برسرپیکار جنگجوؤں  کا خوف اس قدرزیادہ  تھا  کہ امریکہ نے اس معاملہ میں افغان حکومت کو بھی اپنے  اعتماد میں لینا  مناسب  نہ  سمجھا کہ کہیں جنگجوؤں کو کان و کان خبر نہ ہو جائے اور وہ بھاگتی ہوئی  امریکی افواج کو نشانہ نہ بنا لیں۔ اور نہ ہی امریکہ یہ چاہتا ہے کہ اس کی فوج کی ویسی ہی تصویریں میڈیا کی زینت بنیں جو ویتنام سے بھاگتے ہوئے بنیں تھیں!

یہ بات بہت عرصے سے واضح ہو چکی تھی کہ امریکہ افغانستان میں اپنے قبضے کے خلاف جاری مزاحمت کو ختم کرنے میں ناکام ہو چکا ہے، جسے افغان قبائلی آبادی کی حمایت اور شمولیت حاصل تھی۔ امریکہ نے خود  بھی یہ  تسلیم کر لیا تھا  کہ اس کی کابل میں قائم کٹھ پتلی  حکومت بھی  ملک کے کئی علاقوں پر اپنا کنٹرول اور اختیار لاگو کرنے میں ناکام ہے۔ لہٰذا امریکہ نےطالبان کے ساتھ  اِس امید پر سفارتی حل کا رستہ اختیار کیا کہ جو مقصد وہ جنگ کے ذریعے حاصل نہیں کرسکا تھا  وہ اس طرح سے حاصل کرلے گا۔ لیکن امریکہ  مذاکرات کے ذریعے بھی مکمل سفارتی کامیابی اور اپنی مرضی کا سیٹ اپ حاصل نہیں کرسکا کیونکہ مذاکرات کرنے والے افغان مجاہدین کی مکمل نمائندگی نہیں کرتے بلکہ اس کے ایک  حصے کی نمائندگی کرتے ہیں۔

یہ بات امریکہ کو گوارا نہیں کہ وہ  افغانستان سے ایسے انخلاء کرے کہ خطے میں اس کا عمل دخل ہی ختم ہو جائے۔ امریکہ یہ خواہش رکھتا  ہے کہ طالبان  کابل حکومت کے اہم مراکز پر قبضہ نہ کرسکیں۔  امریکہ کو اس بات میں کوئی تامل نہیں اگر وہ افغانستان میں بھی عراق والی صورتحال کو دہراتا ہے، جہاں امریکہ نے عراق سے ایسی صورتحال میں انخلاء کیا تھا کہ ملک افراتفری کا شکار تھا،  اور کسی بھی گروہ کو ملک پر مکمل کنٹرول حاصل نہ تھا، مخلص لوگ اقتدار سے باہر تھے اور بغداد کی کٹھ پتلی  حکومت امریکی مفادات کا تحفظ کررہی تھی۔ عراق کی حکومت نے یہ کوشش نہیں کی تھی کہ اس کا اقتدار پورے ملک پر قائم ہوجائے، لیکن وہ اس قابل تھی کہ تیل کے کنوؤں کی حفاظت کرسکے جنہیں امریکی کمپنیاں لوٹ رہی تھیں۔ حکومت اس قابل بھی تھی کہ وہ عراق میں امریکہ مخالف لوگوں، چاہے وہ مسلمانوں میں سےہوں یا بعث پارٹی سے، مکمل اقتدارحاصل کرنے سے  روک سکے۔لہٰذا   اگر افغانستان  کی صورتحال  بھی عراق کی سی   شکل اختیار کر  لیتی ہے اور خونریزی جاری رہتی ہے تو   ایسا  امریکہ کے لیے قابل قبول ہو گا۔ اور امریکہ اس صورت حال کو چین اور روس کی راہ روکنے کے لیے بھی استعمال کر سکے گا جو افغانستان کے لیے اپنے منصوبے بنائے بیٹھے ہیں۔

لہٰذا  امریکہ کی یہ خواہش ہے  کہ طالبان افغانستان کے حساس علاقوں جیسا کہ کابل کا گرین زون، ائر پورٹ، سپلائی روٹس  اور دیگر اہم تنصیبات پر قبضہ نہ کرسکیں اور ایسا وہ  پاکستان اور ترکی جیسے ممالک  کے تعاون اور  ان کے  اثر و رسوخ  کو استعمال میں لا کر ممکن بنانا چاہتا ہے۔ چنانچہ  امریکہ پاکستان پر  Financial Action Task Force (FATF) کے ذریعے دباؤ کو  برقرار رکھے ہوئے ہے جس نے پاکستان کو مزید ایک اور سال کے لیے ‘گرے لسٹ’ سے نکالنے سے انکار کر دیا ہے۔ پاکستانی حکومت اس وقت  اعلانیہ طور پر تو امریکی دباؤ کے خلاف ردعمل ظاہر کر رہی ہے اور امریکی اڈوں کی اجازت دینے سے بھی  انکار کر رہی ہے مگر دوسری طرف  پاکستان  نے  امریکہ کے ساتھ 2001 ءمیں  طے پائے جانے   والے ” ایئر لائن آف کمیونیکشن (اے ایل او سی) اور گراؤنڈ لائن آف کمیونیکشن (جی ایل او سی)” کی تجدید کر دی ہے بلکہ ان کے بارے میں برملا اعلان کیا جا رہا ہے کہ وہ معاہدے  اب بھی اپنی جگہ   برقرار  ہیں!

حقیقت تو یہ ہے کہ اشد ضرورت کے وقت پاکستان کے فرمانبردار حکمرانوں نے امریکہ کو کبھی مایوس نہیں کیا۔ پاکستان ہی وہ بڑا سہولت کار  تھا جس کی مدد   سے امریکہ افغانستان پر اپنے قبضے کو  ممکن بنا پایا   تھا۔ اور یہ پاکستان ہی تھا جس نے مزاحمت کاروں کے ساتھ مذاکرات کی بساط بچھانے میں امریکہ کی بھرپور مدد کی۔  اور  اس وقت بھی  امریکی افواج کے  افغانستان  سے انخلاء کے موقع پر اور اس کے نتیجہ میں  افغانستان  میں پیدا ہونے والی  اندرونی صورتحال سے  متعلق   پاکستان کی جانب سے امریکہ کے لیے سہولت کاری  زور و شور سے      کے ساتھ  جاری ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا ازبکستان کا دورہ اسی سلسلے کی کڑی ہے، جبکہ اس سے کچھ ہی دن قبل ازبکستان کے وزیر خارجہ امریکہ کا دورہ کر واپس لوٹے ہیں۔ 

ہم نے ستر سال امریکی علاقائی منصوبوں کا ایندھن بن کر دیکھ لیا،  اور ان منصوبوں میں اپنی ریاستی طاقت کا مشاہدہ بھی کر لیا کہ ہماری طاقت کے بل بوتے پر ہی امریکہ سوویت یونین کو شکست دینے میں کامیاب ہوا،  پاکستان کے ذریعے ہی امریکہ نے دہائیوں تک بھارت کے ناک میں دم کیے رکھا اور پھر اسے اپنے کیمپ میں کھینچنے پر قادر ہوا۔ امریکہ وسطی ایشیا تک ہماری طاقت کو استعمال کرتا رہا۔ لیکن اس سب سے ہمیں کیا حاصل ہوا، سوائے یہ کہ ہمارا ملک دولخت ہوا، سیاچن اور تین دریا بھارت نے چھین لئے، اکسائی چن  چین نے لے لیا، ہمارے قبائلی علاقے اور پھر پورا ملک  انتشار کا شکار ہوا اور آج مقبوضہ کشمیر پر ہندو ریاست کے جبری قبضے پر ہم چپ سادھے بیٹھے  ہیں، اور اسے سرکاری طور پر سرنڈر کرنے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔  تو جب امریکہ ہماری طاقت کے بل بوتے پر پورے خطے میں اپنا کھیل کھیل کر اپنے  استعماری مفادات حاصل کر سکتا ہے، تو ہم اس طاقت کی بنیاد پر اللہ کی رضا حاصل کرتے ہوئے  اسے خطے کے مسلمانوں کے مفاد کے لیے کیوں استعمال نہیں کر سکتے؟ افغانستان میں ذلت آمیز شکست کے بعد یہ تصور کرنا محال ہے کہ امریکہ اب دوبارا اپنی فوجیں لے کے اس خطے پر حملہ آور ہو گا تو کیا اب وقت نہیں آ گیا کہ پاکستان جرات مندانہ قدم اٹھا کر خطے سے امریکی اثرورسوخ کا جڑ سے خاتمہ کردے؟

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
50653

کچھ تو ادھر بھی – محمد شریف شکیب

حکومت نے وسیلہ تعلیم پروگرام کے دائرہ کار کو پرائمری سے سکینڈری اور ہائیر سکینڈری تک بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزارت سماجی تحفظ و تحفیف غربت نے احساس وسیلہ تعلیم پروگرام میں رواں مالی سال کے دوران مزید 17 لاکھ 50 ہزار طلبا کو شامل کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔پرائمری کلاس کے 10 لاکھ، سیکنڈری کے 5 لاکھ جبکہ ہائیر سکینڈری کے 2 لاکھ 25 ہزار طلبا کو پروگرام میں شامل کیا جائے گا۔ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کی تکمیل پر سیکنڈری و ہائیر سیکنڈری کلاس کے طلباکو تعلیمی وظائف ملنا شروع ہوجائیں گے۔وسیلہ تعلیم پروگرام کے تحت پرائمری کلاس کے بچوں کو فی سہ ماہی 1500 جبکہ بچیوں کو 2000 روپے دیئے جائیں گے

سکینڈری کلاس کے بچوں کو فی سہ ماہی 2500 جبکہ بچیوں کو 3000 روپے ملیں گے۔ ہائیر سکینڈری کلاس کے بچوں کو فی سہ ماہی 3500 جبکہ بچیوں کو 4000 روپے دئے جائیں گے۔ پانچویں جماعت پاس کرنے پر بچیوں کو 3000 روپے اضافی رقم بھی دی جائے گی۔وزارت سماجی تحفظ و تخفیف غربت کے اعدادوشمار کے مطابق وسیلہ تعلیم پروگرام کے آغاز سے اب تک 44 لاکھ 50 ہزار طلبا کا وظائف کے لئے اندراج ہوا ہے اور انہیں اب تک مجموعی طور پر 19 ارب روپے تعلیمی وظائف کی مد میں فراہم کئے جاچکے ہیں۔وسیلہ تعلیم پروگرام کا بنیادی مقصد خواندگی کی شرح بڑھانا اور نادار طلبا کی مالی اعانت کے ذریعے انہیں تعلیم جاری رکھنے میں مدد دینا ہے۔

اس پروگرام کی بدولت تعلیمی اداروں میں داخلوں کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ تاہم یہ سہولت صرف سرکاری تعلیمی اداروں کے طلبا و طالبات کو حاصل ہے ملک بھر میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے کروڑوں بچے اس سہولت کے حق دار نہیں ہیں۔ سرکاری اداروں کے تعلیمی معیارکو بہتر بنانے کے لئے حکومت کی طرف سے کوئی قابل ذکر کوشش ابھی تک نہیں کی گئی۔ تمام والدین کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے اچھی تعلیم حاصل کریں جس کے لئے وہ اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرتے ہیں۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے تمام بچے متمول خاندانوں سے تعلق نہیں رکھتے۔ ان بچوں کی اکثریت متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے جن میں سرکاری اور پرائیویٹ اداروں کے ملازمین کے بچے شامل ہیں۔ مہنگائی کے اس دور میں والدین اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات اور پرائیویٹ سکولوں کی آئے روز کی فرمائشیں کس طرح پوری کرتی ہیں اس کا اندازہ پالیسی ساز نہیں لگا سکتے۔

انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ وسیلہ تعلیم پروگرام میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے نادار اور ہونہار بچوں کے لئے بھی کوٹہ مقرر کیا جائے۔قومی وسائل پراس ملک میں بسنے والے تمام لوگوں کا مساوی حق ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ قومی وسائل کو صرف سرکار سے وابستہ لوگوں کا استحقاق سمجھا جاتا ہے۔ ہر سال بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ لیکن پرائیویٹ اداروں میں کام کرنے والے کروڑوں افراد کو قومی وسائل سے پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملتی۔ حکومت مزدور کی کم سے کم اجرت کا بجٹ میں اعلان تو کرتی ہے مگر اپنے فیصلے کو نافذ کرنے کی کبھی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔

آج مزدور کی کم سے کم اجرت بیس سے پچیس ہزار کے درمیان مقرر کی گئی ہے لیکن پرائیویٹ سکولوں، کارخانوں، بھٹہ خشت کے مزدوروں گھروں اور دکانوں میں محنت مشقت کرنے والوں کو آج بھی آٹھ دس ہزار سے زیادہ اجرت نہیں ملتی۔ سرکاری ملازمین کوتنخواہوں اور مراعات میں اضافے کے لئے احتجاج، توڑپھوڑ اورقلم و اوزار چھوڑ ہڑتال کا حق حاصل ہے مگر پرائیویٹ اداروں کے کروڑوں ملازمین اس حق سے بھی محروم ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت اگر بلاامتیاز انصاف پر یقین رکھتی ہے تو معاشرے کے ان طبقات پر بھی نظر کرم کرنی چاہئے جو اب تک ہر قسم کی مراعات سے محروم ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
50651

حضرت ابراہیمؑ کی شاندار قربانی اور اس کی حقیقت – تحریر : سردار علی سردارؔ

حضرت ابراہیمؑ کی شاندار قربانی اور اس کی حقیقت – تحریر : سردار علی سردارؔ

“جاننا چاہئے کہ لفظ قربانی قُرب سے مشتق ہے  جس کے معنی کوئی ایسی نیکی کرنا یا فی سبیل اللہ کوئی ایسی چیز کو صرف کرنا جس کی وجہ سے مومنین کو خداوند تعالیٰ  کا مذید قرب حاصل ہوجائے”۔

 (الکواکب ) مجموعہ مقالات۔ کمال الدین علی محمد ۔ص 175

قربانی کے اس فلسفے پر اگر غور کیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیاکوئی بھی چیز چاہے وہ  اللہ تعالیٰ کا عزیز ہو یا نہ ہو خدا کی راہ میں قربان کرکے اس کا قرب حاصل کیا جاسکتا ہے؟ اس اہم نکتے کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ خدا کی مقدس کتاب قرآن پاک کی طرف رجوع کیا جائے تاکہ اس کا بہتر حل مل سکے۔ارشادِ خداوندی ہے  لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ. (3.92)

ترجمہ:  تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے  جب تک کہ اپنی وہ چیزیں (خدا کی راہ) میں خرچ نہ کرو  جنہیں تم عزیز رکھتے ہو۔

مزکورہ آیت سے یہ حقیقت واضح ہے کہ خداوند تعالیٰ نے  حضرت ابراہیم ؑ کو صوم و صلواۃ ، جہاد فی سبیل اللہ اور دیگر اعمالِ صالحہ سے نہ آزماتے ہوئے صرف اپنے بیٹے کی قربانی سے کیوں  آزمایا؟ کیا اللہ تعالیٰ کو حضرت اسماعیلؑ کے خون اور گوشت کی ضرورت تھی؟ ایسا ہر گز نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو خدائے بے نیاز نے حضرت اسماعیلؑ کو ذبح  ہونے سے نہیں روک دیتا  اور اس کا گوشت پوست  اور خون اپنے لئے طلب کرتا۔حقیقت ایسی نہیں ہے  کیونکہ خداوند تعالیٰ کو کسی چیز کی بھی  ضرورت نہیں ہے،وہ کسی کا محتاج نہیں ہے ساری کائنات اس کی محتاج ہے۔ در اصل قربانی کے اس فلسفے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ مومنین کے دل سے دنیوی اور مادی آشیاء کی چاہت  اور محبت کم کردی جائے تاکہ خداوند تعالیٰ کی پاکیزہ محبت اس میں اپنا گھر بناسکے اور اس کے دل میں تقویٰ اور پرہیزگاری کی روح پیدا ہوجائے جیسا کہ خداوند تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے ۔

لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ ۚ۔(22.37 )

ترجمہ: اللہ کے پاس نہ اس کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ اس کا خون  لیکن اُس کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔

جاننا چاہیئے کہ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کے اس شاندار قربانی میں بہت سی حقیقتیں پوشیدہ ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ دونوں مشاہدہء باطن اور نور، یقین کے اعلیٰ درجے پر فائز تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ اس قربانی کی حقیقت و اصلیت کیا ہے؟ جیسا کہ قرآن پاک میں ارشدِ خداوندی ہے کہ  وَكَذَٰلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ۔(6.75)

ترجمہ: اور اسی طرح ہم ابراہیم ؑکو آسمان اور زمین کی ملکوت کا مشاہدہ کراتے رہے تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہوجائیں۔

ڈاکٹر عزیزاللہ نجیبؔ کا کہنا ہے کہ ” اب آپ انصاف کی نظر سے غور کریں کہ آدم سے لیکر قیامت تک اولاد آدم میں کوئی ایسا نابالغ بچہّ ہوسکتا ہے جسے اس کا باپ ذبح  کرنے کے لئے کہے اور وہ  خوشی خوشی سے نہ صرف ذبح ہونے پر راضی  ہو جائے بلکہ ایسا کرنے میں والد کی حوصلہ افزائی بھی کرے۔ یہی وہ اسرار ہیں  جن کا تعلق صرف انبیاء و اولیاء سے ہے ۔ اس عمر میں بچّے تو خون اور چھری کے نام سے بھی ڈرتے ہیں مگر اسماعیلؑ خود کو ذبح ہونے کے لئے پیش کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ باپ اور بیٹا دونوں کو نور، یقین کی روشنی میں معلوم تھا  کہ ذبح   (میثاقِ انبیاء) کی حقیقت کیا ہے؟”۔

کتاب الہدایۃ۔ ڈاکٹر عزیز اللہ نجیبؔ۔ ص 76

مزکورہ بالا  آیت کی حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ حق الیقین کے بلند ترین درجے پر فائز تھے۔ انسان کی ظاہری آنکھ بہہ سکتی ہے مگر عین الیقین سے غلطی نہیں ہوتی۔ حضرت  مولا علی کرم اللہ وجہہ کا ارشاد گرامی ہے  ” ابَصَرَ طَریقَۃُ وَ سَلَکَ سَبِلَہُ وَ عَرَفَ مَناَرَہُ وَقَطَعَ غَماَرَہُ فَھُوَ مِنَ الیقینِ عَلیَ مِثلُ ضُوءِ الشمس”۔ ترجمہ: اُس نے اللہ کا راستہ دیکھا ، اُس کی راہ پر چلا، اس کی نشانیوں کو پہچانا، اس کی دشواریوں کو عبور کیا وہ یقین کے اس  درجے پر ہے گویا وہ سورج کی روشنی میں سب کچھ دیکھ رہا ہے۔

کتاب الھدایۃ، ڈاکٹر عزیزاللہ نجیبؔ۔ ص 77

مولا علی  کرم اللہ وجہہ کے اس فرمان میں بہت سی حقیقتیں پوشیدہ ہیں جنہیں حقیقت کے راستے سےواقفیت رکھنے والا انسان ہی سمجھ سکتا ہے جبکہ عام لوگ ان مخفی حقائق کے ادراک سے کوسوں دور ہیں۔ ان رمزو اشاروں کو وہی لوگ سمجھتے ہیں جو علم وعرفان کی منزلوں سے آشنا ہوں۔ گویا یہ عاشق و معشوق کے درمیان عشق و محبت کی باتیں ہیں جیسا کہ عارف رومی کا کہنا ہے کہ

میانِ عاشق و معشوق رمزیست۔

کرامان کاتبین را ہم خبر نیست

ترجمہ: عاشق و معشوق کے درمیان ایک ایسا رمز بھی ہے جس سے کراماََ کاتبین بھی واقف نہیں۔

حضرت ابراہیم ؑ کی اس شاندار قربانی کی دوسری  اہم حقیقت عہدہ امامت پر فائز ہونا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کو کئی آزمائیشات کے بعد امامت کے عظیم عہدہء جلیلہ پر فائز کیا ۔ اہلِ علم کو یہ حقیقت معلوم ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ عہدہ امامت سے پہلے تین اہم عہدوں پر فائز تھے۔ آپ ؑ اللہ تعالیٰ کے عبدیت خاص میں شامل تھے۔ آپ ؑ کے پاس رسالت کا ایک عظیم عہدہ تھا  اور آپ ؑ ایک صاحب شریعت پیغمبر تھے۔ تیسری بات یہ کہ آپ ؑ خلت یعنی خدا کے خلیل ہونے کا شرف رکھتے تھے اس لئے حضرت ابراہیم ؑ کو ابراہیم خلیل اللہ بھی کہا جاتا ہے۔ان تمام اوصاف اور خصوصیات کی وجہ سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ ؑ کو آزمائیش کے ایک دور سے بھی گزارا جس میں کامیاب ہونے کی صورت میں امامت کی مہربانی بھی آپ ؑ کو عنایت کی گئی۔ جیسا کہ ارشاد ِ خداوندی ہے۔وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ    (2.124)

ترجمہ: اور وہ وقت یاد کرو جب کہ ابراہیم ؑ کے رب نے اس کا امتحان لیا چند کلمات سے تو اس نے انہیں پورا کردیا تو خدا نے فرمایا تو مین تمہیں سب انسانوں کا امام بنانے والا ہوں۔ ابراہیم ؑ نے کہا اور میری اولاد میں سے بھی۔ تو خدا نے فرمایا میرا یہ عہدہ ظالموں کو نہیں پہنچے گا۔

حضرت ابراہیمؑ کی اس قربانی کے پیچھے یہ حقیقت بھی پنہان ہے کہ حضرت ابراہیمؑ اپنے بیٹے اسماعیل ؑ کوذبح کرتے وقت ہاتھ اور پاؤں باندھے تھےاور اسماعیلؑ بار بار یہ فرماتے تھےکہ قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ ٘ (37.102)   

ترجمہ: بیٹے نے کہا  اے آبا جان! آپ کو جو حکم ہوا ہے آپ کیجئیے انشا اللہ آپ مجھکو صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔

اس آیت پر اگر غور  کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہاں نہ صرف باب اور بیٹے کے درمیان ایک رشتہ ہے بلکہ ایک پیغمبر اور اس کے ایک امتی یا مرید کے درمیان ایک عہدو پیمان ہے ۔ اگر پیغمبر اپنے  ایک امتی سے اس کی جان کا نذرانہ  بھی طلب فرمائے تو  امتی کو  اپنے آقا کی خوشنودی کی خاطر جان بھی دینے کے لئے دریغ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ قرآن کا فیصلہ ہے ارشاد ہوتا ہے۔

  النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ۔ (33.6 )

 ترجمہ: نبی مومنوں پر خود ان کی اپنی جانوں سے زیادہ اختیار رکھتا ہے۔

اس حقیقت  کی ترجمانی نبی کریم ﷺ  کی اس حدیث  سے بھی  ہوتی ہے جیسا کہ آپﷺ فرماتے ہیں کہ لاَ یوُمِنُ اَحَدَ کُم حَتّیَ اَکُونَ اَحَبَّ اِلَیہِ مِن وَٗالِدِہِ وَوَلَدِہِ وَالنَّسِ اَجمَعیِن۔ ترجمہ: تم مین کوئی اس وقت تک مومن نہیں بن سکتا جب تک اپنے باپ، بیٹےاور تمام لوگوں سے زیادہ مجھے محبوب نہ رکھے۔    صحیح مسلم، کتاب الایمان، ص 121

حضرت ابراہیم ؑ کی اس قربانی سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ ہمیں ہر حال میں اپنے ماں باپ کی تابعداری کرنی چاہئے۔ باپ اور بیٹےکے درمیان ایک خونی اور روحانی رشتہ ہوتا ہے ۔ کوئی بھی باپ  یہ نہیں چاہتا کہ اس کے بیٹے کو  باپ کی طرف سے  کوئی تکلیف پہنچے۔  وہ ایک شفیق  اور مہربان ہوتا ہے کہ اس کے پاؤں میں کوئی کانٹا  بھی چبے تو وہ برداشت نہیں کرتا  چہ جائیکہ اسے قربان گاہ لے جاکر اس کے گلے میں چھری چلائے۔ آیت کی نوعیت یہ بتارہی ہے کہ ہمیں بحیثیت ماں باپ اپنے بیٹے کو آیّامِ جوانی ہی سے علمی،اخلاقی، سماجی ،عقلی اور مذہبی طور پر ایسی تربیت  کرنی چاہئے کہ وہ  ماں باپ کی تابعداری کے لئے خود کو قربانی کے لئے سرِ خم تسلیم کرے. بقول شاعر 

یہ فیضانِ نظر تھا کہ مکتب کی کرامت تھی

سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی

مختصر یہ کہ عیدالاضحی  ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ دنیوی چیزوں سے اپنی محبت کم کرکے اپنا تعلق  صرف اس زاتِ یکتا کے لئے مخصوص کردیا جائے۔ خدا کی اطاعت گزاری کا عملی اظہار    اس کے بندوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور محبت سے ہی  ہوتی ہے۔گوکہ خدا کو کسی چیز کی ضرورت  نہیں ہے  اگر ہے تو اس کے بندوں کے ساتھ رحم دلی، شفقت اور مہربانی  سے پیش آنی چاہئے۔ پس خدا کے بندوں کی اس ضرورت کو پوری کرنے کے لئے ہمیں ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔لہذا  یہ دن ہمیں دعوتِ فکر دیتا ہے کہ عید کی خوشیوں میں دوسروں کو بھی شامل کیا جائے ۔ اور خاص طور پر ان لوگوں کو فراموش نہ کیا جائے جو معاشرے کے اندر کس  مپرسی  کی حالت میں  زندگی گزار رہے ہیں اور ان کے پاس ایک وقت کا کھانا بھی میسر نہیں ہے۔آن کے بچّوں کے پاس عید کے موقع پر پہنے کو کپڑے نہیں ہیں۔درحقیقت اس قسم کے لوگوں کی خوشیوں میں حصّہ دار ہونا خدا کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہے۔ بقولِ شاعر

  یہی ہے مذہب یہی دین و ایمان

کہ کام آئے دنیا میں انسان کے انسان

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
50648

افغان طالبان کے قدموں کی آہٹ …. قادر خان یوسف زئی کےقلم سے

وطن عزیز سماجی امتحان، سیاسی آزمائش، اقتصادی چیلنجز سمیت خطے میں موجود کئی طوفانوں سے نبرد آزما ہے۔ افغان طالبان کے قدموں کی چاپ پاک۔افغان چمن بارڈر پر سنی ہی نہیں بلکہ پیش قدمی دیکھی بھی گئی کہ عید الاضحی سے قبل انہوں نے اسپین بولدک پر قبضہ کرلیا۔ یہ پاکستان کے لئے نہایت اہمیت کے حامل کا باعث بنا، باب دوستی پر افغان طالبا ن کے پرچم لہرائے جانیپر سرحد سیل کرکے اضافی فورسز تعینات کردی گئی۔ اسی دوران برطانیہ کی جانب سے دلچسپ بیان سامنے آیا کہ اگر افغان طالبان نے افغانستان کا کنڑول سنبھال لیا تو وہ ان کے ساتھ بھی کام کرنے کے لئے تیار ہیں۔

یہ حقیقی معنوں میں غنی اتحادیوں کے لئے غیر متوقع دھچکا ہوگا، گر ایسا کچھ بھی ہوا۔ اس تبدیلی کی بنیاد ی کئی وجوہ ہوسکتی ہیں لیکن اس کی اہم وجہ کابل انتظامیہ کی ساڑھے تین لاکھ فوج، ہزاروں جنگجو ؤں کی ملیشیا اور داعش کا افغان طالبان کی پیش قدمی کو روکنے میں ناکامی قرار دیا جارہا ہے کہ ٹریلین ڈالر کے اخراجات و فوجی تربیت لینے کے باوجود افغان سیکورٹی فورسز اپنے زیر کنٹرول علاقوں کا دفاع تک نہیں کرپائیں۔ افغان طالبان کی پیش قدمی کی رفتار میں تیزی کی ایک وجہ فضائی حملوں کی اُس لہر کا کم ہونا ہے جو امریکی و نیٹو فورسز کی جانب سے تواتر کئے جاتے تھے،

غیر ملکی افواج کو فضائی برتری حاصل تھی لیکن اصل جنگ زمین یا مذاکرات کی ٹیبل پر ہی لڑی جاتی ہے۔ افغانستان میں مغربی نظام کو قابل قبول بنانے کے لئے امریکہ اور اتحادیوں کی کوششیں تاحال جاری ہیں، جب کہ افغان طالبا ن نفاذ شریعت کو نافذ کرنا اپنا مقصد قرار دیتے ہیں، افغانستان کی سرزمین پر کون سا نظام ہونا چاہے اور اس کے خدوخال کیا ہوں، اس حوالے سے دنیا افغانیوں کو مشورہ تو دے سکتی ہے لیکن ان پر اپنے فیصلے مسلط نہیں کرسکتی۔ اس وقت دنیا میں جن جن ممالک میں جو بھی نظام حکومت رائج ہے وہ کسی دوسرے ملک کے نظریات و ثقافت کی وجہ سے اختلافات کا شکار ہے اور کسی بھی ملک کے نظام و انصرم کو اس وقت رول ماڈل قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک اس کے مثبت اثرات ظاہر نہ ہوں۔ یہ ضرور ہے کہ امیر ممالک میں دولت کی فروانی کی وجہ سے صورت حال ترقی پذیر ممالک سے مختلف ہے،

لیکن ایسے کئی مغربی ممالک ہیں جہاں آج بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں، جرائم کی شرح زیادہ ہے، خواتین کو حقوق سے محرومی اور تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے، جنسی بے راہ روی سمیت عدم برداشت با افراط ہے۔ پاکستان میں بھی نفاذ شریعت کے نام پر ریاست ے ساتھ معاہدہ ہوا تھا، اگربات صرف سرحدی علاقوں یا پختون قوم بشمول افغانی عوام کی جائے تو ان میں روایات و ثقافت کی جڑیں سیکڑوں برسوں سے اس قدر واثق ہیں کہ روایتی طور پرفوری و سستے انصاف کے ساتھ ساتھ ایسے سخت گیر قوانین اوررسومات بھی رائج ہیں جو قبل از اسلام سے چلی آرہی ہیں، تاہم دنیا کاکوئی بھی ملک اپنے انسانی نظام کو دین اسلام سے بہتر ثابت نہیں کرسکتا، لیکن یہ ضرور ہے کہ منفی پروپیگنڈا محاذ نے جہاں اسلام کے زریں قوانین اور اصولوں کو کو اوجھل رکھا ہوا ہے تو وہیں اس میں زیادہ قصور قدامت پسند طبقات کا بھی ہے،آپسی اختلافات میں عدم برداشت کے رجحان کی وجہ سے مخالفین کے پروپیگنڈوں کو تقویت ملتی رہی جس کا نقصان مسلم امہ کو یکساں اٹھانا پڑتا ہے۔

افغان طالبان افغانستان میں جو نظام چاہتے ہیں اگر عوام کو قبول نہیں تو وہ کبھی بھی نافذ نہیں کرسکتے، جنگجو خو بو افغانیوں کی روح میں رچی بسی ہے، افغان تاریخ کے مطالعے میں یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ غیر ملکی حملہ آور آتے رہے، قبضہ کرنے کی کوشش میں کئی کئی دہائیاں لگا دیں لیکن ان سب کا نتیجہ ایک ہی رہا کہ وہ اپنی مرضی کا نظام زیادہ عرصے تک افغانیوں پر مسلط نہیں کرسکے۔ چمن بارڈر سے قبل پشاور میں افغان طالبان کے حامیوں کی موجودگی اور حمایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغان مہاجرین میں انہیں اندازوں سے زیادہمقبولیت حاصل ہے، چونکہ پاکستان میں گذشتہ چار دہائیوں سے افغان مہاجرین رہ رہے ہیں اور افغانستان کے حالات پر عام پاکستانی سے زیادہ ان کی نظر ہے، اس لئے سمجھنا ہوگا کہ انہیں علم ہے کہ چار دہائیوں میں سوویت یونین،امریکہ سمیت پچاس ممالک کی افواج افغان سرزمین میں وہ امن قائم کرنے میں ناکام رہیں جو افغان طالبان نے صرف پانچ برس میں قائم کردیا تھا۔

اس زمینی حقیقت کو ناقدین جو بھی نام دیں لیکن اس سچائی کو جھٹلا نہیں سکتے کہ چار دہائیوں میں سب سے زیادہ بہترامن کا دور افغان طالبان کا ہی رہا ہے، یہ ضرور ہے کہ ان کی سخت گیری سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، لیکن آج کا افغان طالب، ماضی کے مقابلے میں دور جدید کے تقاضوں، سیاست و سفارت کاری کے تقاضوں کو سمجھتا ہے، افغان طالبان کی قیادت بخوبی جان چکی کہ جنگ و امن میں ان کا رویہ کیا ہونا چاہے، دنیا سے بہتر تعلقات استوار کرنے کے لئے انہیں عبوری دور کے تقاضوں کے تحت کچھ معاملات میں مصلحت سے بھی کام لینا ہوگا، جس کے لئے افغان طالبان کی سیاسی و عسکری قیادت ذہنی طور پر تیار بھی نظر آتے ہیں۔ افغان طالبان، پاک۔ افغان سرحدی علاقے اسپین بولدک سے قبل دیگر پڑوسی ممالک کے سرحدی گذر گاہوں کا کنٹرول بھی سنبھال چکے اور یقین دہانی بھی کراتے نظر آئے کہ پڑوسی ممالک کو تشویش میں مبتلا نہیں ہونا چاہے،

لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے مخالفین کی بڑی تعداد نہیں چاہتی کہ ان پر افغان طالبان حکومت کریں، اسے نسلی تناظر میں دیکھا جانا چاہے کیونکہ یہ افغان سرزمین کی روایت رہی ہے کہ نسلی و گروہی بنیادوں پر قبائل ایک دوسرے سے پنجہ آزمائی کرتے رہتے ہیں، فرقہ وارنہ یا مسلکی تناظر میں اختلافات کا حصہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اس لئے مسلکی بنیادوں پر افغانیوں کے درمیان جھڑپیں، نسلی بنیادوں پر خانہ جنگی سے کم ہی متوقع ہیں۔افغان جنگ میں تذیرواتی تبدیلی پر مختلف قیاس آرائیاں اور پیشگوئیوں کا نہ رکنے والا ایک سلسلہ جاری ہے، یہ ایک فطری عمل ہے کیونکہ خطے کا پورا نقشہ بدلنے جارہا ہے اور دنیا کی نظریں افغانستان سمیت اس کے تمام پڑوسی ممالک پر ہیں، بالخصوص پاکستان پر تو دوست دشمن سب ہی ٹکٹکی باندھے بیٹھے ہیں، لیکن یہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان ماضی کی غلطیوں یا حکمت عملی دہرانا نہیں چاہتا، کیونکہ ریاست اچھی طرح جانتی ہے کہ کسی بھی غلط قدم اٹھنے کے مضمرات کس قدر خطرناک ہوسکتے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
50638

داد بیداد ۔ ڈیپ فریزر ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

اخبارات میں خبر لگی ہے کہ بڑی عید اور قر با نی کے دن نزدیک آتے ہی ڈیپ فریزر کے نر خوں میں دگنا اضا فہ ہوا قر با نی کا گوشت اور ڈیپ فریزر لا زم و ملزوم گر دا نے جا تے ہیں سید نا ابرا ہیم ؑ کے زما نے میں قر با نی کا گوشت پہلے ہی دن ختم ہوتا ہو گا آج سے 1442سال پہلے بنی کریم ﷺ اور صحا بہ کر ام ؓ بھی قر با نی کا گوشت سر دیوں میں دوسرے دن اور گر میوں میں پہلے ہی دن تقسیم کر کے ختم کر تے تھے اس وجہ سے نہیں کہ ان کے پا س ڈیپ فریزر نہیں تھے بلکہ اس وجہ سے کہ یہ شریعت مطہرہ کا تقا ضا ہے یہ قر با نی کا فلسفہ ہے.

یہ اللہ تعالیٰ کا منشا ہے اور یہ اسلا می تعلیمات کی روح کے مطا بق احسن عمل ہے آج ہمارے پہا ڑی علا قوں کے دیہا ت میں لو گ بھیڑ بکریاں پا لتے ہیں سب لو گ دولت مند اور صاحب نصاب نہیں ہو تے جس گھر چھ سات بھیڑ یں ہو تی ہیں اس گھر کے لو گ ہر سال بھیڑ کا ایک بچہ قر با نی کی نیت سے رکھتے ہیں تیسرے سال قر با نی کے تین دنبے ہو جا تے ہیں ایک دنبہ قر با ن ہو تا ہے اس کی جگہ نیا بچہ لے لیتا ہے اور زنجیر کا یہ سلسلہ کبھی نہیں ٹوٹتا قدیم لا یام سے علما ء نے ان کو یہ بات سکھا ئی ہے کہ قر با نی کا گو شت تین حصوں میں تقسیم کرو ایک حصہ گھر والوں کا دوسرا حصہ قریبی رشتہ داروں کا اور تیسرا حصہ غر با ء، مسا کین اور نا دار لو گوں کا ہو نا چا ہئیے علما ء نے اجا زت دی ہے کہ اپنی سہو لت کے مطا بق کچا گوشت تقسیم کرو یا اسے پکا کر تقسیم کرو گاوں والے گوشت کو چا ول یا گندم کے دا نوں کے ساتھ پکا کر سارا دن لو گوں کو کھلا تے ہیں گھروں میں بھیجتے ہیں.

شا م تک گوشت کی ایک ایک بوٹی حقداروں کو پہنچتی ہے اگر 50گھرا نوں والے گاوں میں 10گھرا نوں نے قر با نی کا ذبیحہ کیا تو 50گھرا نوں کو اس کا گوشت ملا مر د، عورت، بوڑھا، بچہ، بیمار اور معذور کو ئی بھی گوشت سے محروم نہیں ٹھہرا اگر کچا گوشت تقسیم کرنا ہو تو اسی تر تیب سے ہر گھرا نے میں دو وقت کے سا لن کا گوشت پہنچا دیا جا تا ہے، اب بجلی آگئی ہے فریج اور فریزر گھروں میں رکھے ہوئے ہیں مگر لو گ علما ء کی تر بیت کے اثر سے قر با نی کے گوشت کو دوسروں کی اما نت سمجھ کر تقسیم کر تے ہیں تقسیم کر کے کھنگال نہیں ہو تے اگر دنبے کا دو تہا ئی دوسرے کو دیتے ہیں تو دوسرے گھروں سے اتنا ہی گوشت اُس گھر میں بھی آجا تا ہے وہ اس میں بھی غر با اور مسا کین کا حصہ نکا لتے ہیں لیکن یہ پہا ڑوں کے دامن میں رہنے والے چرواہوں اور گلہ با نوں کی قر با نی کا طریقہ ہے.

تر قیا فتہ قصبوں اور شہروں میں ایسی قر با نی اب نہیں ہو تی محلے میں دیکھا جا تا ہے کہ کس کے گھر سے بکرے کی را ن بھیجی گئی اس کو جواب میں دُنبے کی ران بھیجی جائیگی رشتہ داروں کے ساتھ بھی یہی سلوک ہو گا غریب اور مسکین کے لئے سو باتوں کی ایک بات رکھی گئی ہے ”با با معاف کرو“ گھر کی قر با نی کا ایک تہا ئی گوشت اگر محلے میں نا م پیدا کرنے اور بدلہ چکا نے کے لئے بھیج دیا گیا تو اتنا ہی گوشت ہمسا یے کے متمول گھروں سے بھی آیا تھا یہ گوشت سارے کا سارا ڈیپ فریزر کی روزی ہے منجمد کرنے والی اس مشین کے رزق میں جتنا گوشت لکھا تھا سب اس کو مل گیا اب آنے والے مہینوں میں اس گوشت کو افیسروں اور متمول دوستوں کے ساتھ دعوتوں میں اڑا یا جا ئے گا ماں باپ کا یہ طرز عمل بچوں کے لئے مثا ل بن جا تا ہے روایت قائم ہو جا تی ہے.

اس مثال کی پیروی کی جا تی ہے اس روا یت کی پاسداری کی جا تی ہے شاعر کے کلا م میں تصر ف کی اجا زت ہو تو یوں کہا جا سکتا ہے شریعت خرا فات میں کھو گئی یہ امت روایا ت میں کھو گئی نئی حکا یت یہ ہے کہ دو جگری دوستوں نے قر با نی کی ایک نے تقسیم کیا دوسرے نے فریزر میں ڈال دیا رات اُس نے خواب دیکھا کہ تقسیم کرنے والے کا بکرا اس کو مل گیا ہے اس نے کہا میرا بکر ا مجھے کیوں نہیں ملا؟ غیب سے آواز آئی تمہارا بکرا فریزر میں پڑا ہوا ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
50636

اشرف غنی اور طالبان میں فرق – محمد شریف شکیب

افغان طالبان نے افغانستان میں بیرونی سرمایہ کاری اور ترقی میں تعاون کا خیرمقدم کرنے کا عزم دہراتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارا کوئی بیرونی ایجنڈا نہیں ہے اور ہم اپنا انقلاب کسی دوسرے ملک کو برآمد نہیں کریں گے۔ طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ جو اضلاع ہمارے قبضے میں آئے ہیں وہ لڑائی کے ذریعے نہیں آئے بلکہ وہاں موجود افغان حکومت کی فورسز خود رضاکارانہ طور پرہمارے ساتھ مل گئی ہیں، ورنہ یہ ممکن نہیں ہے ہم ایک دو مہینوں میں سارے افغانستان کو قبضے میں لے لیں‘ایسا 20 سال میں بھی ممکن نہیں تھا کابل انتظامیہ کی فورسز ہم سے رابطہ کرتی ہیں،

وہ چاہتے ہیں کہ اپنے اسلحے کے ساتھ ہمارے ساتھ شامل ہوں۔ طالبان ترجمان نے دعویٰ کیا کہ ہم نے ننگر ہار، کنڑ، فریاب، زابل اور دوسرے علاقوں سے داعش کو ختم کیا ہے، اب افغانستان میں کسی بھی صوبے میں داعش نہیں ہے۔افغانستان میں داعش یا دوسرے گروپس کو جگہ نہیں دیں گے۔طالبان ترجمان نے کہا کہ ہم کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان سمیت کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کریں طالبان ترجمان نے انکشاف کیا کہ بھارت کابل انتظامیہ کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے اور اس کے ذریعے وہ اپنے لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔

کابل سے امریکہ اور نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد طالبان نے افغانستان کے دو تہائی علاقوں پر قبضہ کرلیا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ مستقبل قریب میں افغانستان کا جو بھی سیاسی سیٹ اپ ہوگا اس میں طالبان کا پلڑا بھاری ہوگا۔ طالبان کی طرف سے افغان سرزمین کو پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے کا اعلان بھارت کے لئے واضح پیغام ہے کہ افغانستان میں قونصل خانوں کی آڑ میں جاسوسی اڈے قائم کرنے اور ان کے ذریعے پاکستان میں تخریبی کاروائیاں جاری رکھنے کا انہیں موقع نہیں دیا جائے گا۔

بھارت کی طرف سے کابل انتظامیہ کو اسلحہ کی فراہمی کے حوالے سے طالبان کا بیان بھی پاکستان کے موقف کی تصدیق ہے کہ بھارت افغان سرزمین کو پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے استعمال کرتا رہا ہے۔ دوسری جانب کابل شہر تک محدود اشرف غنی کی حکومت بھارت کے اشاروں پر چلتے ہوئے اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے۔ اسلام آباد میں تعینات افغان سفیر کی بیٹی کے مبینہ اغوا اور تشدد کو بنیاد بناکر افغان حکومت نے پاکستان سے اپنا سفارتی عملہ واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ افغان صدر کا کہنا ہے کہ سفارت کار کی بیٹی پر تشدد کرکے ہماری روح کو زخمی کیا گیا اور جب تک اس واقعے کے مجرموں کو پکڑ کر کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاتا۔

افغان سفارت کار واپس نہیں جائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ افغان سفیر کی بیٹی کو کسی نے اغوا نہیں کیا۔ وہ خود ٹیکسی لے کر پنڈی اور اسلام آباد میں مٹرگشت کرتی رہی اور گھر آکر اغوا اور تشدد کئے جانے کا ڈرامہ رچایا۔ وزارت داخلہ نے بھی سفارت کار کی بیٹی کے اغوا اور تشدد کی تردید کی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کابل حکومت طالبان کی پے در پے کامیابیوں سے بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی ہے اور دانستہ طور پر پاکستان کے ساتھ تعلقات کو خراب کرنا چاہتا ہے۔

بعید نہیں کہ سفیر کی بیٹی کے مبینہ اغوا اور سفارتی عملے کی واپسی کے ڈرامے کا سکرپٹ دلی میں تیار کیاگیا ہو۔ افغان حکومت کو ہوش کے ناخن لینے ہوں گے۔ اوچھے ہتھکنڈوں سے وہ اپنی سیاسی ساکھ کو خود خراب کرنے کے درپے ہوگئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کابل حکومت کو یاد دلایا ہے کہ افغانستان کی سرحد بھارت سے نہیں بلکہ پاکستان سے ملتی ہے۔ ہم چالیس سالوں تک 35لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہے ہیں۔ پاکستان نے افغان امن عمل کے فروغ میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت دینا کابل حکومت کے لئے سیاسی خود کشی کے مترادف ہوگا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
50634

خوش قسمتی اور بد قسمتی کا فیصلہ ۔ گل عدن

خوش قسمتی اور بد قسمتی کا فیصلہ

  بعض اوقات سالوں سے سمجھ نہ آنیوالے سوالوں کے جواب اچانک کسی ایک لمحے میں آپکو سمجھ آجاتے ہیں ۔میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ۔دراصل بچپن  سے میں ہمیشہ سے سوچتی آئی ہوں کہ آخر یہ خوشقسمت یا بد قسمت لوگ کون ہیں ۔ کھبی کوئی کہتا ہے دولت کا ہونا خوش قسمتی ہے تو کوئی غربت کو بد قسمتی قرار دیتا ہے مگر میں کھبی کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی۔جتنا سوچتی اتنا الجھتی۔مجھے قسمت کو ماپنے کے لئے دولت حسن نام پیسہ جیسے معیار بہت سطحی لگتے رہے ۔

آخر ان میں کونسی ایسی چیز ہے جو ہمیشہ کے لئے آپکے پاس رہ جاتی ہے۔صحت دولت حسن اور حتی کہ غربت بھی کوئی بھی شے ہمیشہ رہ جانے والی نہیں ہے ۔وقت کسی کے لئے بھی ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتاپھر آپ کیسے کسی کو خوش قسمت اور بد قسمت کا خطاب دے سکتے۔؟شاید معاشرے میں پھیلی بے ہنگم انتشار کو دیکھتے ہوئے میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ دنیا کے خوش قسمت ترین لوگ وہ ہیں جنہیں “قناعت” کی “دولت ” حاصل ہے ۔ جی ہاں قناعت ہی وہ دولت ہے جو انسان کی ذہنی سکون کا باعث بنتا ہے ۔اور ذہنی سکون سے بڑھ کر انسان کو اور کیا چاہئے ؟۔

یہ قناعت ہی ہے جو آپکی نظر کو آپکے اپنے ہی نوالے پر رکھتا ہے ۔آپکی نظر کی حفاظت کرتا ہے ۔  تبھی آپکو اللہ کی عطا کی ہوئی نعمتوں کی قدر ہوتی ہے ۔اور آپ شکر گزار بندوں کے لسٹ میں شامل ہوجاتے ہیں۔ دوسری طرف قناعت سے محروم وہ بدبخت لوگ ہیں جنکی نظر ہمیشہ دوسروں کے نوالے پر رہتی ہے ۔جسکی وجہ سے اسکا اپنا نوالہ کھبی اسے مزہ نہیں دیتا بلکہ اسکے گلے کا پھانس بن جاتا ہے ۔ایسے شخص کا سکون برباد ہوجاتا ہے ۔جلنا کڑھنا اسکا مقدر بن جاتا ھے۔نہ کسی کی خوشی اس سے برداشت ہوتی ہے نہ کسی کا سکون۔ہم میں ایسے بہت لوگ ہیں جو خاندان یا پڑوس میں کسی کی سفید پوشی کو خوب جانتے ہیں ۔انکی مصائب اور ضرورتوں سے باخبر ہوتے ہوئے بھی نظریں چرائے انجان بنے رہتے ہیں مگر جونہی انکے گھر تھوڑی خوشحالی آنے لگتی ہے ہماری توجہ فورا انکے جانب ہوجاتی ہیں پھر وہ ہر وقت ہماری حریص نظروں کے حصار میں رہتی ہیں کہ جب تک ہم انہیں اپنی بد نظری کا شکار نہ کرلیں۔نجانے کیوں ہمیں دوسروں کی سالوں کی محتاجی مشقت تنگدستی نظر نہیں آتی اور آسائشیں چار دن میں نظر آجاتی ہیں۔

ہم دراصل بڑے حریص لوگ ہیں ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ہاتھ ہمیشہ دینے والا ہو اور دوسروں کا ہمیشہ بس لینے والا ہاتھ رہے۔ہم اتنے تنگ دل کیوں ہیں کہ کسی کہ چار پیسے کسی کا بڑانڈد سوٹ کسی کا آرام و آسأش ہمیں بے چین کردیتا ہے ؟ہم اتنے گرے ہوئے اتنے کم ظرف کیوں ہوگئے ہیں ؟ کیا وجہ ہے کہ ہم کسی کو خود سے ایک قدم آگے کھبی برداشت نیہں کرسکتے؟۔ شاید اسی لئے کہتے ہیں کہ قناعت امیر کے لئے بھی اور غریب کے لئے بھی دو جہاں میں عزت کا باعث بنتا ہے ۔جتنی جلدی ہوسکے اس حقیقت کو سمجھ لیں کہ  ہر انسان اس دنیا میں اپنا رزق لیکر آتا ہے ۔

اپنے حصہ کی خوشیاں سمیٹتا ہے  اور اپنے حصہ کے غم اٹھاتا ہے اور چلا جاتا ہے ۔کوئی بھی ہم سے ہمارے حصہ کی خوشیاں نہیں چھین سکتا۔نہ ہم چاہ کر بھی کسی سے اسکا نصیب چھین سکتے ہیں۔اگر آپکو لگتا ہے کوئی مفت میں بیٹھ کر کھا رہا ہے تو اگر وہ مفت میں بھی کھا رہا ہے تو یقین کرے وہ اپنا ہی رزق کھا رہا ہے اسے اللہ تعالی کھلا رہا ہے آپ اللہ کے انتظام پر کس جرأت سے انگلی اٹھا رہے ہیں؟؟۔ ۔اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ اور ہم سب اللہ کی تقسیم کو تسلیم کرلیں۔اسکی رضا میں راضی ہوجائیں۔ جتنا آپکو ملا ہے اس پر صبر اور شکر کرلیں۔

ممکن ہے کہ اللہ کو آپکا قناعت پسند آجائے اور اللہ آپکو اس سے زیادہ عطاء فرمائے۔شاید ایسے ہی حالات کے پیش نظر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کے تم اس شخص کی طرف دیکھو جو (دنیاوی اعتبار سے ) تم سے کم تر ہو ۔اور اس شخص کیطرف مت دیکھو جو (دنیاوی اعتبار سے ) تم سے بڑا ہو ۔کیونکہ اسطرح تم اللہ کی نعمتوں کو حقیر نہیں سمجھو گے ۔” بات بہت سادہ ہے کاش ہمیں سمجھ آجائے۔چاہے آپ امیر ہیں یا غریب جب دعا کے لئے ہاتھ اٹھا ئیں تو اپنے لئے عزت دولت شہرت صحت اور خوشیوں کے ساتھ ساتھ “قناعت” کی دولت مانگنا مت بھولیے گا کیونکہ قناعت سے محرومی امیروں کو حریص بنا دیتا ہے اور غریب کو رسوا کر دیتا ہے ۔اسی لئے قناعت کا حاصل ہونا ہر ایک کے لئے دونوں جہاں میں عزت کا باعث ہے ۔

نوٹ :یہ تحریر خاص طور پہ خواتین کے لئے ہے بغیر معذرت کے۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged ,
50629

ریشمی دھاگے – ڈاکٹر شاکرہ نندنی

ریشمی دھاگے – ڈاکٹر شاکرہ نندنی


صاحب اب میرا کام ہو جائے گا ناں؟ اُس نے دیوار کی طرف رخ موڑا اور تیزی سے کپڑے پہننے لگی۔ ہاں ہاں بھئی ہو جائے گا۔ میری سانسیں اب بھی بے ترتیب تھیں۔ پھر میں پیسے لینے کب آؤں؟ دوپٹے سے اس نے منہ پونچھا اورپھر جھٹک کر لپیٹ لیا۔پیسے ملنے تک تو تمہیں ایک دو چکر اور لگانے پڑیں گے۔ کل ہی میں مالکان سے تمہارے شوہر کا ذکر کرتا ہوں۔ میں نے شرٹ کے بٹن لگائے۔

ہاتھوں سے بال سنوارے اور دفتر کے پیچھے ریٹائرنگ روم سے باہراحتیاط کے طور پر ایک طائرانہ نظر دوڑانے لگا۔ ویسے تو دفتر کا چوکیدار مجھ سے چائے پانی کے پیسے لے کر میرا خیرخواہ ہی تھا لیکن میں کسی مشکل میں نہیں پڑنا چاہتا تھا۔


پھر میں کل ہی آ جاؤں؟ وہ میرے پختہ جواب کی منتظر تھی۔ نہیں کل نہیں!!! میں اس روز یہاں آ نے کا رسک نہیں لے سکتا تھا اس لئے بس آہ بھر کر رہ گیا۔ ہائے غریبوں کو بھی کیسے کیسے لعل مل جاتے ہیں ۔ میں نظروں سے اس کے جسم کے پیچ و خم کو تولنے لگا۔ ارے سنو!! تم نے شلوار الٹی پہنی ہے۔ وہ چونک کر اپنی ٹانگوں کی طرف جھکی اور پریشان ہو گئی۔ اسے اتار کر سیدھی پہن لو۔ میں چلتا ہوں میرے پانچ منٹ بعد تم بھی پچھلے دروازے سے نکل جانا۔ اور ہاں! احتیاط سے جانا کوئی دیکھ نہ لے تمہیں۔

مُنوخان چار سال سے ہماری فیکٹری میں رات کا چوکیدار تھا۔ دو مہینے پہلے ڈاکوؤں کے ساتھ مزاحمت کے دوران اسے ٹانگ پر گولی لگی اور اب بستر پر لاچار پڑا تھا۔ فیکٹری کے مالکان اس کی امداد کے لئے پچاس ہزار روپے دینے کا اعلان کر کے بھول چکے تھے۔ اس کی بیوی اسی سلسلے میں بار بار چکر لگا رہی تھی۔ میں نے اس کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا اور چھٹی کے بعد شام کو اسے فیکٹری آنے کا اشارہ دیا۔

نجیب! اپارٹمنٹ کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے عقب سے مجھے اپنی بیوی کی آواز سنائی دی۔ اس کے اور میرے گھر آنے کا وقت ایک ہی تھا۔ وہ ایک چھوٹے سے بینک میں کلرک تھی۔ ایک خوشخبری ہے نجیب، وہ تیزی سے اوپر آ رہی تھی۔ خوشی سے اسکی باچھیں کھل رہی تھیں۔

مینیجر صاحب میرے کام سے بہت خوش ہیں اور آج ہی انہوں نے میرے پروموشن کی بات کی ہے۔ دروازے کے سامنے اس نے ہینڈ بیگ ٹٹولا اور چابی نکال کر کہنے لگی، انہوں نے کہا تھوڑا وقت لگے گا مگر کام ہو جائے گا۔

ارے واہ مبارک ہو۔ میں نے خوشدلی سے اسے مبارکباد دی۔

تمہیں معلوم ہے مجھ سمیت پانچ امیدوار ہیں مگر ڈائریکٹر صاحب میرے کام سے بہت خوش ہیں۔ کیوں نہ ہوں میں محنت جو اتنی کرتی ہوں۔ وہ اندر داخل ہوتے ہوئے بھی مسلسل بولے جا رہی تھی۔

میں اسکی پیروی کرتے ہوئے اس کی فتح کی داستان سے محظوظ ہو رہا تھا کہ۔۔
اچا نک میری نظر اسکی الٹی شلوار کے ریشمی دھاگوں سے الجھ گئی۔

shakiranandini rashmi dhaga
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
50626

فلسفہ عیدالاضحی – تحریر: امیرجان حقانی

فلسفہ عیدالاضحی


عیدالاضحی کا سب سے بڑا فلسفہ یہی ہے کہ اس دن اللہ رب العزت کی طرف سے اس کے بندوں کو قربانی و ایثار کا عملی طریقہ سکھلایا گیا ہے اور اس کا آغاز سیدنا ابرہیم و اسماعیل علیہماالسلام سے کیا گیا ہے اور ہمیں ملت ابراہیمی کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔اور اللہ کو اپنے بندے سے ظاہری و باطنی ایثار و قربانی مطلوب ہے۔


قربانی کا لفظ قربان سے ماخوذ ہے۔قربان کا مفہوم یہی ہے کہ اس کے ذریعے بندہ اللہ کا قرب تلاش کرتا ہے۔قربانی کے ذریعے ہی بندہ قُرب الہی کا طالب ہوتا ہے۔قربانی دراصل ایثارو نذر کا ایک ایسا جذبہ ہے جو عملا نظر آتا ہے۔یہ جذبہ جاہل اور عالم غرض ہر انسان دیکھ سکتا ہے۔ اللہ رب العزت کسی کے گوشت اور خون کا بھوکا یا طالب قطعا نہیں۔شان الہی تو یہ ہے کہ و ہ ھویطعم یعنی اللہ کھلاتے ہیں، ولا یُطعم یعنی کھلائے نہیں جاتے۔


قربانی کے ذریعے اللہ حضرت انسان کو یہ سکھلانا چاہتے ہیں کہ تم اللہ کے حضور اس طرح قربان ہوجاو، یہ بھی دراصل تمہارا ہی قربان ہونا ہے جو آپ اپنا قیمتی جانور قربان کردیتے ہیں۔قربانی کا ظاہر ی فلسفہ یہ ہے کہ اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کو امتحان میں پورا اترتے دیکھ کر، اسماعیل ؑ کی جگہ دنبہ کو ذبح کروا دیا اور پھر امت محمدیہ ﷺ کو بھی سنت ابراہیمی کو زندہ رکھنے کا امر کرکے، جانور قربان کرنے کا حکم دیا۔یہ قربانی کی ظاہری صورت ہے۔ جبکہ قربانی کا باطنی فلسفہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے نفس کو ذبح کیا جاتا ہے۔قربانی سے مطلوب ہی فناء نفس ہے۔ اور فناء نفس ہی قربانی کی اصل روح ہے۔اور جس قربانی میں فناء نفس نہ ہو وہ بے روح قربانی کہلائے گی یعنی قربانی ہوئی ہی نہیں۔


سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اللہ نے بڑھاپے میں نرینہ اولاد سے نوازا۔پھر اللہ نے امتحان لیا جس میں باپ بیٹا کامیاب ہوئے۔عین وقت ذبح اللہ رب العزت نے سیدنا اسماعیل ؑ کی جگہ جانور لاکھڑا کردیا۔ اور اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے فرمایا ”قد صدقت الرویا“ یعنی تم نے اپنے خواب کو سچا کردکھایا۔یہی قربانی کا اصل فلسفہ ہے کہ ایک مسلمان اپنے نفس کو، اپنی آل اولاد کو اور اپنی مال و متاع کو اللہ کے نام پر قربان کررہا ہوں اور ہر وقت قربانی اور ایثار کے جذبے سے مملو ہو۔


قربانی ایک مستقل عبادت ہے۔ایک محبوب سنت ہے۔یہ محض ایک سنت نہیں سیدنا ابراہیم و اسماعیل اور محمدعربی ﷺ سے محبت و مودت اور عقیدت کا اعلی ترین اظہار بھی ہے۔ ہر اس مرد و عورت پر واجب ہے جو صاحب نصاب ہے۔اگر کوئی مسلمان صاحب نصاب نہ ہو اور وہ قربانی کرنا چاہیے تو اس کے لیے مستحب ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد کیا:
قربانی تمہارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی سنت ہے۔(مسنداحمد)
قربانی کے دن اس سے زیادہ کوئی عمل محبوب نہیں (ابن ماجہ)


ہجرت کے بعد آپ ﷺ نے ہر سال قربانی فرمائی ہے۔ کسی سال ترک نہیں کیا۔اور صاحب استطاعت ہونے کے باوجود ترک کرنے والوں کو سخت وعیدیں سنائی ہیں۔


خود آپ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر سو(۰۰۱) اونٹوں کی قربانی کی۔روایات میں آتا ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ذریعے یہ اونٹ یمن سے درآمد کروائے تھے۔ان اونٹوں میں ۳۶ اونٹ کو آپ ﷺ نے خود نہر فرمائے۔سیدہ فاطمہ ؓ سے فرمایا تھا کہ اپنی قربانی کے ذبح کے وقت خود کھڑی ہوجائیں تاکہ کثرت ثواب ہو۔قربانی کے جانور کے ہر بال کے عوض ثواب ملے گا، یہی میرے آقاﷺ کا فرمان ہے۔


ٓآپ ﷺ نے اپنی اور اپنی امت کی طرف سے قربانی کی ہے تو امت کو بھی چاہیے کہ اپنے پیار حبیب ﷺ کی طرف سے قربانی کرے۔
سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ ایک بکرا اپنی طرف سے اللہ کے نام قربانی کرتے تھے اور ایک بکرا سردار دو عالم حضرت محمد ﷺ کی طرف سے قربانی فرمایا کرتے تھے۔ کسی نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے دریافت کیا تو آپ نے ارشاد کیا کہ مجھے آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ میں آپ ﷺ کی طرف سے قربانی کیا کروں۔ اس لیے میں ہمیشہ آ پ ﷺ کی جانب سے بکرے کی قربانی کرتا۔


خلیفہ دوئم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنے چھوٹے بچوں کی طرف سے خود قربانی فرمایا کرتے تھے۔آپ ﷺ سے لے آج تک مسلمان مسلسل عیدالاضحی کے تینوں ایام میں جانوروں کی قربانی کرتے آرہے ہیں۔قربانی کے حوالے سے متجددین اور معترضین کے اشکالات پر آج تک مسلم امہ نے کان نہیں دھرے۔محبوب کی سنت کے احیاء میں معترضین کے اشکالات امت کے سامنے مچھر کے پر جیسی حیثیت نہیں رکھتے۔


قربانی کے سینکڑوں معاشی فوائد بھی ہیں۔ صرف ہمارے ملک میں قربانی کے ایام میں لاکھوں لوگ حلال طریقے سے اپنی کمائی کرتے ہیں۔ کروڈوں غریبوں کو انہی قربانی کے دنوں میں جی بھر کر کھانے کو گوشت ملتا ہے۔ٹنوں کے حساب سے غرباء و فقراء میں قربانی کا گوشت تقسیم کیا جاتا ہے۔اللہ کی برکت دیکھ لیا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ لاکھوں جانور ذبح کیے جاتے ہیں لیکن کبھی بھی حلال جانور کی مارکیٹ میں قلت پیدا نہیں ہوتی ہے۔المختصر قربانی کے فضائل بے شمار ہونے کیساتھ قربانی ایک ایسا عمل بھی ہے جس سے لاکھوں لوگوں کا معاش وابستہ ہے۔اللہ رب العزت ہمیں قربانی کی ظاہری و باطنی برکتیں نصیب کرے۔


یہ تحریر ریڈیوپاکستان کی ٹرانسمیشن کے لیے خصوصی لکھی گئی ہے اور ریکارڈ کروائی گئی ہے ۔

امیرجان حقانی

اسسٹنٹ پروفیسر: پوسٹ گریجویٹ کالج گلگت
ریسرچ اسکالر: علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
50615

قربانی : فکروفلسفہ – ڈاکٹر ساجد خاکوانی(اسلام آباد،پاکستان)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

قربانی:فکروفلسفہ – ڈاکٹر ساجد خاکوانی (اسلام آباد،پاکستان)

                دنیائے مذاہب میں دین اسلام کی پہچان عقیدہ توحیدہے۔توحید ”ایک ہونا“کو کہتے ہیں،حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ ذات باری تعاکی اپنی ذات میں ”ایک“ہی ہے لیکن اسکا بھیجاہوادین بھی اپنی تمام تر خصوصیات میں دنیا بھر میں اور کل انسانی تاریخ میں ایک اور اکیلاہی ہے۔دنیاکے کسی کونے میں دن میں پانچ دفعہ عبادت نہیں کی جاتی،پورامہینہ مشرق سے مغرب تک امت کاروزوں میں پرویاجاناکی مثال ڈھونڈے سے نہیں ملے گی،محض ثواب کے لیے لاکھوں خرچ کردینااور پرصعوبت سفر اختیارکرنادنیامیں ناپید ہے،زکوۃ،عشر،خمس اور صدقات کا تصور سن کر تو دوسری دنیاؤں کے لوگ حیران ہی ہو جاتے ہیں اور صرف یہی نہیں کہ یہ امور کتابوں میں ہی درج ہیں بلکہ حالات کے عروج و زوال کا شکار اس امت نے کبھی بحیثیت مجموعی ان اعمال کو قضا نہیں کیا۔

                انسان کی حیات کل دراصل قربانی سے ہی مستعار ہے۔ماں باپ اولاد کے لیے قربانی دیتے ہیں۔ماں ایک طویل مدت تک ناروابوجھ کو قربانی دے کر برداشت کرتی ہے۔اسے اپنے آرام کی قربانی دینی پڑتی ہے،اپنی صحت کی قربانی دینی پڑتی ہے،اپنے خوردونوشت کی قربانی دینی پڑتی ہے،اسے اپنی جملہ معاملات و معمولات کی قربانی دینی پڑتی ہے یہاں تک کہ بوقت پیدائش ماں گویا موت کے منہ سے ہو کر واپس آتی ہے اور اتنی بڑی قربانی کے بعد ایک انسان اس دنیامیں جنم لیتاہے۔یہ تمام قربانیاں اگرچہ بہت سخت اور بعض اوقات ناقابل برداشت ہوتی ہیں لیکن بہرحال ایک ہی فرد”ماں“ سے متعلق ہوتی ہیں۔پیدائش کے بعد تو پہلے ماں باپ مل کر قربانی دیتے ہیں پھر پوراخاندان ایک بچے کے لیے قربانی دیتاہے اوراپنی محبت،توجہ اور وارفتگی اس کے لیے نچھاورکرتاہے اس کے بعد اگلے مرحلے میں پورامعاشرہ اس بچے کی تعلیم و تربیت کے لیے قربانی کے جاں گسل مراحل سے گزرتاہے۔گویا کل انسانیت اپنی تمام تراکائیوں کی حیثیت سے اور بالاجماع اس ایک فرد کے لیے قربانیوں کے مراحل سے گزرتے ہیں اور تب وہ فرد کارگر و ثمرآورو کارآمد ثابہت ہوتاہے۔جیسے ہی وہ فرد تیارہوتاہے تو اگلی نسل کے لیے قربانیوں کاایک اور سلسلہ چل نکلتاہے۔قربانیوں کی یہ مشق مسلسل ایک زمانے سے اس کرہ ارض پر تاشرق و غرب جاری ہے اور تاقیامت جاری رہے گی۔انسانوں کی طرح جانور پرندے اور آبی مخلوقات ببھی قربانی کے اس دائرہ حیات سے باالتزام گزرتے ہیں۔

                جو فرد جتنی قربانی دیتاہے وہ اتنا ہی قیمتی ہوتاہے اور قیمتی تر ہوتاچلاجاتاہے۔قربانی کے اعتبار سے قبیلہ بنی نوع انسان میں دو طرح کے مردو خواتین پائے جاتے ہیں۔ایک طرح کے وہ لوگ ہیں جن کی کل حیات قربانیوں سے مزین ہوتی ہے،وہ اپنی اور آنے والی نسلوں کے لیے اپنی زندگیاں تج دیتے ہیں۔یہ محسنین ہیں جن کے باعث انسانی نسل اس کرہ ارض پر افزائش پزیر ہے۔خاص طورپر وہ خواتین جن کی ساری زندگی اور کل صلاحیتیں انسانیت کی امانتوں کی نذر ہوجاتی ہیں،وہ اپنی آزادیاں،اپنے شوق اور جوانیاں بھی قربان کردیتی ہیں اور ذہنی و جسمانی و جذباتی و نفسیاتی طورپر صحت مند تر نسل کی بالیدگی کاباعث بنتی ہیں۔اپنی نسلوں اور پھران سے اگلی نسلوں کو دودھوں پالتی ہیں اور اپنے قیمتی تجربات منتقل کرنے کے بعد امر ہوجاتی ہیں۔عالم انسانیت کادوسراطبقہ دنیاسے اپنی جوانی کی قیمت وصول کرتاہے اور اپنی مسکراہٹ تک کے دام لگاتاہے۔یہ طبقہ قربانی نہیں دیتابلکہ اپنی خاطر انسانیت کو قربان کرتاہے۔یہ استحصالی طبقہ ہے جس نے کل انسانیت کو ناک تک سود میں جکڑ رکھاہے۔اس طبقے کے زن و مرد اپنی ہر صلاحیت،اپناوقت اور اپنی تمام مہارتیں بازارمیں لاکر زرتجارت کے طورپررکھ دیتے ہیں،اور جو بھی ان کی اچھی بولی دیتاہے اس کے ہاتھوں فروخت ہو جاتے ہیں۔ان کے اس کردار کے باعث دنیا دوزخ کا گڑھابن جاتی ہے اور زمین ظلم سے بڑھ جاتی ہے۔

                انبیاء علیھم السلام وہ طبقہ ہیں جنہوں نے انسانیت کی خاطر راہ للہ بے پناہ قربانیاں دیں اوران کاکچھ بھی صلہ انسانوں سے نہ مانگا۔قرآن مجید نے جگہ جگہ انبیاء علیھم السلام کایہ قول نقل کیاہے کہ ”میں تم سے کوئی بدلہ نہیں مانگتا،میرابدلہ توصرف اللہ تعالی کے ہاں ہی ہے“۔انبیاء علیھم السلام کے توسط و توصل سے جو طرز زندگی انسانوں کو میسر آیاہے وہ بھی سراسرقربانی سے عبارت ہے۔دن میں پانچ اوقات کی قربانی ہے،جس وقت،جہاں بھی اور جس بھی مصروفیت میں ہو ہر حال میں قربانی دے کر اللہ تعالی کے حضورپیش ہوناہے۔سال بھرمیں زکوۃ کے نام پر مال کی قربانی دینی ہے۔عمر بھرمیں ایک بار حج کرنے کے لیے جانا جس میں جان کی قربانی،مال کی قربانی،وقت کی قربانی،اپنے گھربارکے آرام کی قربانی اوروطن سے ہجرت کی قربانی اور ظالم نظام کے خاتمے کے لیے طاغوتی قوتوں سے ٹکرانا اور قتال و شہادت کے عنوان سے اپنی جان کو قربانی کے لیے پیش کرنا۔اس کے علاوہ قرآن کا ہر صفحہ ”صبر“کے حکم سے بھراہے اور تمام انبیاء علیھم السلام کی زندگیوں کواگرایک لفظ میں جمع کرنا چاہیں تو وہ بھی ”صبر“ہے۔جب کہ بادی النظر میں دیکھاجائے تو صبر بھی دراصل قربانی بلکہ سب سے بڑی قربانی کا نام ہے کہ انسانی رویوں کے نتیجے میں بدلہ،انتقام یاصدائے احتجاج کی بجائے اپنی ”انا“کی قربانی دیتے ہوئے انہیں برداشت کرنا اور اپنے ایمانی موقف پر ڈٹے رہنا۔انہیں قربانیوں میں سے ایک قسم سالانہ ذبیحے کی قربانی بھی ہے۔شریعت محمدیﷺمیں سال بھرمیں ایک قربانی کرنا ہر صاحب نصاب مسلمان مردوعورت پر واجب ہے۔سال کے کسی بھی حصے میں یہ قربانی کر لینے سے وجوب اداہو سکتاہے۔لیکن سنت رسول اللہ ﷺکے مطابق یہ قربانی سال کے آخری مہینے ”ذوالحجہ“میں کی جاتی ہے۔اس طریقے سے قربانی کرنے پر واجب اور سنت دونوں کاثواب ملے گا۔اگرکوئی صاحب نصاب ہوتے ہوئے بھی قربانی نہیں کرے گاتو عنداللہ گناہ گارہوگا۔جولوگ فوت ہوچکے ہوں ان کے ایصال ثواب کے لیے بھی قربانی کی جاسکتی ہے اس طرح اس قربانی کاثواب اللہ تعالی ان مرحومین کو عطاکرتاہے اور قربانی کرنے والا بھی اجرپاتاہے۔آپ ﷺ کی ایک حدیث کے مطابق امت مسلمہ کو قربانی کاگوشت کھانے کی اجازت اللہ تعالی کے خصوصی انعامات میں سے ہے جب کہ گزشتہ امتوں کواس کی اجازت نہیں تھی۔

                قربانی کا عمل جس باقائدگی کے ساتھ اور جن جن شرائط کے ساتھ اور جن جن اثرات و نتائج کے ساتھ امت کے اندر جاری و ساری ہے اسکی مثال بھلا کہاں ملے گی؟۔سال خیریت سے گزر جانے پر کل دنیاکے صاحب نصاب مسلمان جن پر زکوۃ فرض ہوتی ہے شکرانے کے طور پر قربانی کرتے ہیں۔سب مسلمان اس عمل بابرکت میں یوں شریک ہوتے ہیں کہ صاحب نصاب قربانی کرتے ہیں اور جوصاحب نصاب نہیں ہوتے وہ قربانی میں سے اپنا حصہ وصول کرتے ہیں اور وہ لوگ جو غربت کی وجہ سے ساراساراسال گوشت جیسی نعمت سے محروم رہتے ہیں اب کی دفعہ وہ بھی پیٹ بھرکے اور دل سیر کر کے گوشت کھا لیتے ہیں اور رب تعالی کا شکر بجالاتے ہیں۔قربانی کا تصور گزشتہ امتوں سے جاری ہے۔حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے ہابیل اور قابیل جب باہم اختلاف کا شکار ہوئے توانہیں حکم دیا گیا کہ اپنی اپنی قربانی پیش کریں،ہابیل بھیڑیں لے آیا اور قابیل جو کاشتکاری کرتا تھا،اپنے اگائے ہوئے غلے میں سے ایک حصہ لے آیا۔دونوں نے اپنی اپنی قربانی ایک میدان میں پیش کر دی۔گزشتہ امتوں میں قربانی کی قبولیت کا پتہ اس وقت چلتا تھا جب آسمان سے ایک آگ آکرتو اسکو جلا دیتی تھی۔دونوں کی قربانیوں میں سے ہابیل کی قربانی کو آسمانی آگ نے جلادیااور قابیل کی قربانی قبول نہ ہوئی اور یوں انکے اختلاف کا فیصلہ اللہ رب العزت کی طرف سے چکا دیا گیا۔

                گزشتہ امتوں سے بنی اسرائیل تک میں قربانی کا سلسلہ یوں ہی چلتا رہا۔بنی اسرائیل کو انکی ناشکریوں کی جو سزا ملی ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ انکی شریعت مشکل بنا دی گئی تھی۔چنانچہ ان کے ہاں قربان گاہ ایک مخصوص جگہ ہوتی تھی اور کہیں بھی قربانی نہیں کی جا سکتی تھی،وہ لوگ قربانی کاگوشت بھی کھا نہیں سکتے تھے،جس کی قربانی قبول ہو جاتی تو وہ جل کر راکھ کا ڈھیر بن جاتی اور جس کی قربانی قبولیت کے مقام پر نہ پہنچ پاتی تو ویسے ہی نادم اورخائب و خاسرہوجاتا کہ اللہ تعالی نے اسکی قربانی کو قبولیت کاشرف نہیں بخشا جبکہ ہماری شریعت میں قربانی کا وہی طریقہ رائج کیا گیاجو ملت ابراہیمی یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے جاری تھا۔محسن انسانیت ﷺنے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے طریقے کے مطابق قربانی کا طریقہ دوبارہ رائج کیااور درمیان کی مدت میں جو خرافات  و بدعات اس عمل میں داخل ہو چکے تھے انہیں ختم فرمادیا۔

                ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ وہ اپنی پیاری چیز اللہ تعالی کے راستے میں قربان کر رہے ہیں۔نبی کا خواب چونکہ وحی کا حصہ ہوتا ہے اس لیے وہ محض سچی پیشین گوئی نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالی کا حکم ہوتا ہے جسے پورا کرنا نبی کے لیے ضروری ہوتاہے۔چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی پیاری چیز اپنا بیٹا اللہ تعالی کے راستے میں قربان کردیا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی زوجہ محترمہ حضرت حاجرہ سے فرمایا کہ بیٹے کو تیار کردیں کہیں جانا ہے،باپ بیٹا مکہ کی وادی سے نکلے اور منی کے میدان کی طرف چل دیے۔راستے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسمئیل علیہ السلام سے تذکرہ کیا کہ مجھے بیٹے کی قربانی کا حکم ہوا ہے،سعادت مند بیٹا قربان ہونے کے لیے تیارہوگیااور حضرت اسمئیل علیہ السلام نے فرمایاکہ باباجان آپ کو حکم ہوا ہے اسے پوراکر ڈالیے۔آسمان نے دیکھاکہ باپ نے اپنی اور اپنے بیٹے کی آنکھوں پر پٹی باندھی تا کہ حکم الہی کے پوراکرنے میں فرط محبت آڑے نہ آجائے اوربیٹے کی گردن پر چھری چلادی۔ اللہ تعالی نے اس قربانی کو”ذبح عظیم“کہ کریادکیاہے۔بیٹے کی جگہ جنت سے ایک مینڈھالاکررکھ دیاگیاجس کے ذبح کی یاد میں ہر سال قربانی کی جاتی ہے۔

                اس ذبح عظیم کی یاد میں اسلام نے مسلمانوں کو عید الاضحی کا تہوار دیاہے،یہ خوشی کے تین ایام جن میں روزہ رکھناحرام ہے اور کھانا پینامستحب ہے،پوری دنیاکے مسلمان اللہ کے نام پر قربانیاں کرتے ہیں اور گوشت کھاتے ہیں۔ان دنوں میں اللہ تعالی کو جانور ذبح کرنے سے زیادہ کوئی عمل پسند نہیں ہے کیونکہ یہی اس کے پیارے نبیوں کی سنت ہے۔روایات میں لکھاہے کہ یہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں،کھروں اور بالوں سمیت آئیں گے اور ان کے ایک ایک بال کے بدلے نیکی ملے گی۔قربانی کرنے والے کو چاہیے کہ اپنی حیثیت کے مطابق اچھااور صحت مند جانور خریدے کیونکہ پل صراط سے انہیں جانوروں پر سواری کرتے ہوئے گزاراجائے گا چنانچہ صحت مندجانور اپنے سوار کو بحفاظت اور سرعت کے ساتھ اس پار جا اتارے گا۔قربانی کے لیے ضروری ہے کہ بالغ اور بے عیب جانور خریداجائے،لنگڑا،لولااور نابالغ جانورکی قربانی سے منع کیاگیاہے۔قربانی کے جانور کی رقم کسی اورمقصد کے لیے استعمال کرنے سے قربانی کااجرحاصل نہیں ہوگااور قربانی کاوجوب بھی ادانہیں ہوگا۔تاہم اپنے سے دور قربانی کی رقم اس لیے بھیج دینا کہ وہیں قربانی کر دی جائے،جائزہے۔رشتہ داراس حسن سلوک کے زیادہ حق دار ہیں کہ جو لوگ امریکہ یا یورپ سمیت دنیاکے دوسرے ملکوں میں رہتے ہیں اور انہیں وہاں قربانی کرنے میں دقت پیش آتی ہے یا نہیں آتی تو بھی وہ اپنے مادر وطن میں قربانی کی رقم ارسال کردیں اور یہاں انکے عزیزواقرباانکے نام کی قربانی کر دیں تو قربانی کاوجوب اداہوجائے گا۔

                ایک بکرے یا مینڈھے میں ایک فرد قربانی کرسکتاہے جبکہ گائے،بیل یااونٹ میں سات حصے دار اپنی قربانی کر سکتے ہیں۔بہتر ہے کہ قربانی کاجانور خود ذبح کیاجائے لیکن قصاب کی خدمات لے لینا بھی جائز ہے لیکن اس صورت میں کوشش کی جائے کہ گردن پر چھری چلانے کا عمل خود کیاجائے،یا پھر کم از کم اتناتو ضرور ہی کیاجائے کہ قصاب جب گردن پر چھری چلائے تو اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ دھر دیاجائے۔ذبح کرنے سے پہلے جانور کو پانی پلانا،بوقت ذبح جانور کا منہ قبلہ رخ کرنا،مسنون دعاپڑھنااور چھری کی دھارکو خوب تیزکرکے چھری چلانا پسندیدہ امور ہیں جن کی پابندی باعث ثواب ہے۔قصاب کو مزدوری کے طور پر کھال دینایاگوشت کا کچھ حصہ دیناجائز نہیں ہے،تاہم مزدوری اداکرچکنے کے بعد ہدیہ کے طورپریاصدقے کی نیت سے غریب ومزدورقصاب کو کچھ بھی دے دیناجائز ہے۔قربانی کی کھال ان اداروں کو دینی چاہیے جو شرعی پابندیوں کے ساتھ معاشرے میں غرباومساکین کی بھلائی میں کوشاں ہیں۔اگر کسی مجبوری کے باعث قربانی کے جانور کی کھال بیچ دی گئی ہوتوپھراس رقم کو ذاتی استعمال میں لانا ممنوع ہے تب لازم ہے کہ وہ رقم کسی مستحق کو تھمادی جائے۔آپ ﷺ کا طریقہ مبارکہ تھاکہ قربانی کے جانور کا گوشت پکنے تک کچھ نہیں کھاتے تھے اور دن کے کھانے کا آغاز قربانی کے گوشت سے ہی کرتے تھے۔یہ اس جانور کا احترام ہے کہ جو ہماری خاطراپنی جان سے گزر گیااور ہم کم از کم اسکے گوشت کے پکنے تک کاتوانتظار کریں۔عیدالاضحی کو بڑی عید کہتے ہیں کیونکہ اس کی عمر کم و بیش چار ہزار سالوں پر محیط ہے۔

                قربانی ان دس سنتوں میں سے ہے جن کا آغاز حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوا، انہوں نے سب سے پہلے بت خانے کی مورتیوں کو اپنی ٹھوکروں سے پاش پاش کیا اور جھوٹے خداؤں کی قربانی دی۔ہمارے لیے یہ سبق ہے کیا ہم نے اپنے سینے میں جمائے ہوئے  ناجائزخواہشات کے بت توڑ ڈالے ہیں؟؟اولاد کا بت بہت بڑا بت ہوتا ہے جس کی گردن پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے چھری چلا دی تو کیا آج ہم اپنی اولادکی ناجائز خواہشات کوقربان کرتے ہیں؟؟کیاہم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت سے یہ سبق سیکھاکہ اولاد کی خاطر ہر جائزوناجائز،حلال و حرام اور صحیح وغلط کی پابندیوں کو توڑ دینا درست نہیں؟؟حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہر نبی کی طرح اپنے وطن کی قربانی دی اور دین کی خاطر اللہ تعالی کے حکم سے ہجرت کی کیاہم نے اپنے وطن کا بت توڑا؟؟”سب سے پاکستان“کا نعرہ لگا کر امت کو پس پشت ڈال کر اور اپنے وطن کا بت پوج کر ہمیں کیاملا؟؟۔قرآن نے واضع طور پر فرمایا کہ جس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے طریقے سے منہ موڑا اس نے گویا اپنے آپ کو دھوکا دیا۔سوقربانی کا سبق ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جس طرح ایک نبی علیہ السلام نے اپنی محبتوں کا مجموعہ اللہ تعالی کے راستے میں پیش کردیاہم بھی اپنی خواہشات کو نبی ﷺ کی لائی

ہوئی تعلیمات کے تابع کر دیں،جانورکی گردن پر چھری چلانا دراصل اپنی ناجائز خواہشات پر چھری چلانا ہے جس کو تقوی کانام دیا گیاہے۔اور یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالی تک قربانی کا گوشت نہیں پہنچتا بلکہ تقوی پہنچتا ہے۔قربانی تو تمام تر شرعی قوائدوضوابط کے ساتھ کر ڈالی لیکن خواہشات نفسانی کے جانور کو بے لگام چھوڑ دیاتو پھر گویا قربانی چہ معنی دارد؟؟عملی زندگی ہر ہر قدم پر قربانی مانگتی ہے اور نبیوں کے طریقے کے مطابق ہر ہر قربانی کواللہ تعالی

 کے حضور پیش کیے جانا یہ سبق ہے جو ہر سال کے آغاز سے پہلے سنت ابراہیمی ہمیں یاد کراتی ہے۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
50613

دادبیداد – نقل یا چوری – ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

دادبیداد ۔۔۔۔۔نقل یا چوری۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی


وزیراعلیٰ محمود خان نے چکدرہ لوئر دیر کے امتحانی سنٹر میں ایک بااثر افیسر کے بیٹے کو الگ کمرے میں بٹھا کر نقل کی سہولت دینے کا نوٹس لیا اور ذمہ دار افیسروں کے خلاف رپورٹ درج کرکے ان کو جیل بھیجدیا گیا گویا اعلیٰ سطح پر اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ امتحان میں نقل قابل دست اندازی پولیس جرم ہے اس جرم پر گرفتاری ہوسکتی ہے قید وبند کی سزابھی ہوسکتی ہے اس واقعے کی محکمانہ انکوائری کا حکم دے دیا گیا ہے محکمانہ انکوائری کے بعد پتہ لگیگا کہ محکمہ کیاکرتا ہے؟اگر کسی افیسر کو تبدیل کیا گیا تو اس کو سزا کی جگہ انعام تصور کیاجائے گاانکوائری کی رپورٹ آنے سے پہلے دوباتیں سامنے آگئی ہیں پہلی بات یہ ہے کہ پہلی بار اخباری نمائیندوں نے امتحانی ہال میں ہونے والی بے ضابطگی کوکیمروں کی مدد سے ویڈیو بناکر بے نقاب کیا ہے اخباری نمائیندوں کو اس جرء ت اوربہادری پر داد ملنی چاہیئے بلکہ انعام اور ایوارڈ ملنا چاہیئے دوسری بات یہ ہے کہ نقل کو چوری قرار دے کر چوروں کو گرفتار کیا گیا ہے اور یہ ملاکنڈ کی تاریخ میں دوسری بار ہوا ہے۔


61سال پہلے کا واقعہ محکمہ تعلیم سے وابستہ بزرگوں کو آج بھی یاد ہے1960ء میں پروفیسر پریشان خٹک نوجوان لیکچرر تھے جہانزیب کالج سوات میں امتحان پران کی ڈیوٹی لگائی گئی اس وقت سوات میں شرعی قوانین نافذ تھے۔قاضی القضاۃ میزان شریعت میں بیٹھ کر فیصلے سناتا تھا قتل کے مجرم کوقصاص کی سزا دی جاتی تھی۔چوری کے مجرم کو ہاتھ کاٹنے کی سزا سنائی جاتی تھی اُس زمانے میں آج کی طرح باجماعت نقل مارنے کا رواج نہیں تھا ایک آدھ بندہ نقل میں پکڑا جاتا تو اس کا پرچہ منسوخ ہوتا جرم کی نوعیت کے لحاظ سے ایک سال،دوسال یا تین سال تک امتحان دینے پر پابندی بھی ہوتی تھی۔اس سے زیادہ سزا نہیں تھی امتحان کے دوسرے روز پریشان خٹک نے ایک طالب علم کو نقل کرتے ہوئے پکڑلیا۔نقل کے ساتھ رنگے ہاتھوں گرفتار کرکے پولیس کے حوالے کیا اور اپنی طرف سے وقوعہ کی رپورٹ لکھ کر قاضی القضاۃ(چیف جسٹس) کو بھیجدیا۔

رپورٹ میں اُنہوں نے موقف اختیار کیا کہ ریاست سوات میں شریعت نافذ ہے شرعی سزائیں مقرر ہیں اور شریعت کے احکامات پرعمل بھی ہوتا ہے میں نے سوات کے امتحانی ہال میں طالب علم کو نقل کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑلیا ہے گواہ بھی موجود ہیں چونکہ محکمہ تعلیم کے قواعد وضوابط اور امتحانی ہال کے لئے وضع کردہ قوانین میں نقل کو چوری تصور کیا گیا ہے نقل کرنے والے کی وہی سزا ہوتی ہے جو سزا چور کی ہے اس لئے طالب علم ایکس وائی زی پر چوری کا مقدمہ چلاکر گواہوں کو طلب کیا جائے اور جرم ثابت ہونے پر مجرم کا ہاتھ کاٹ دینے کے لئے حکم جاری کیا جائے۔امتحانی ہال میں پرچہ ختم ہونے سے پہلے اس واقعے کی رپورٹ والی سوات میاں عبدالحق جہانزیب کو دی گئی۔ان کے سامنے اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ تھا

والی صاحب کو تعجب بھی ہوا حیرت بھی ہوئی اُنہوں نے ہال کے سپرنٹنڈنٹ کو بلانے کا حکم دیا۔ہرکارہ آیاتو پریشان خٹک نے والی صاحب کو خط لکھ کرامتحان کے ہال کوچھوڑ کرشاہی دربار میں حاضر ہونے سے معذرت کا اظہار کیا۔اس خط نے والی صاحب کے دل میں پروفیسر صاحب سے ملنے کا اشتیاق پیدا کیا والی صاحب نے خط کے جواب میں پروفیسر صاحب سے درخواست کی کہ آج شام کے لئے میری دعوت قبول کریں اور ”نان شیراز‘ میں شریک ہوکر میری عزت افزائی کریں پریشان صاحب نے لکھا کہ میں اکیلا نہیں ہوں میرے ہمراہ امتحانی ہال کا پورا عملہ ہے۔والی صاحب مزیدمتاثر ہوئے اور لکھا کہ میری دعوت آپ کے عملے کے لئے بھی ہے رات کھانے پرجو گفتگو ہوئی اس میں پریشان خٹک نے والی صاحب کو قائل کیا کہ نقل بدترین چوری ہے جو ایک نسل کو تباہ کرنے کا سبب بنتی ہے والی صاحب کے مشیر سیف الملوک صدیقی خودبھی دانشور تھے شاعر تھے”زہ انتظار کوم ستادسترگو،ولے پنہ شوے تہ زمادسترگو“ انہی کی غزل ہے۔مشیر صاحب نے1973ء میں چنداخورہ کبل میں اساتذہ کے ایک گروپ کو یہ واقعہ سناکرآخیر میں کہا کہ والی صاحب پریشان خٹک کی صداقت،دیانت،جرء ت اور کردار کی بلندی کے گرویدہ ہوگئے۔


2021کا چکدرہ سوات سے زیادہ دور نہیں بلکہ سوات کے دروازے پر واقع ہے1960ء میں پریشان خٹک نے والی صاحب کو قائل کیا تھا کہ نقل بھی چوری ہے61سال بعد اخباری نمائیندے فیصل نے خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ محمودخان کو قائل کیا ہے کہ نقل چوری ہے قابل دست اندازی پولیس ہے اور اس جرم پر بھی ڈکیتی والی ایف آئی آر ہونی چاہیئے بقول اقبال۔۔۔
وہی نامحکمی وہی دیرینہ بیماری دل کی
علاج اس کاوہی آب نشاط انگیز ہے ساقی

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
50548

ملازم شہری بھی ہوتا ہے ۔ خاطرات: امیرجان حقانی

گلگت بلتستان حکومت نے سرکاری ملازمین کے متعلق پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر آنے کے حوالے سے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا۔ اور  میڈیا میں اپنے خیالات و افکار  کے اظہار پر پابندی عائد کر دی۔مختلف اہل علم نے اس پر اپنے خیالات و خدشات کا اظہار کیا۔
برادرم عباس وفا نے بھی ایک قیمتی جملہ لکھا ہے۔مجھے اتنا اچھا لگا کہ احباب سے شیئر کرنے پر مجبور ہوا۔یوں سمجھیے کہ انہوں نے کوزے سےدریا بہایا ہے یا دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے۔میں نے اس جملے کی تفصیل لکھ دی اس تفصیل پر ایک سنجیدہ مکالمہ شروع ہوا۔


عباس وفا لکھتے ہیں:
“ملازم صرف ملازم نہیں ایک شہری بھی ہوتا ہے.”
اس جملے کی تفصیل یہ ہے کہ ایک شہری سے اس کے آئینی و قانونی اور بنیادی حقوق نہیں چھینے جاسکتے ہیں۔ایک سرکاری ملازم(شہری) کو بھی اپنے فکر و نظر،علم، خیال، نظریہ، سوچ ،نالج اور دانش و حکمت کو قدیم و جدید ابلاغی ٹولز کو استعمال کرتے ہوئے دوسروں تک پہنچانے کا مکمل حق حاصل ہے۔اور یہ حق اس کو اس کی ریاست نے ایک سوشل کنٹریکٹ(آئین و دستور) کے ذریعے نہ صرف عطاء کیا ہے بلکہ اس کی پروٹیکشن کا اظہار بھی کیا ہے۔حکومت ریاست کا ایک  لازمی عنصر اور جز ہے۔ کوئی عنصر یا جز اپنے کل کی مخالفت کرہی نہیں سکتا ہے۔حکومت کا ریاست کے تسلیم کردہ حقوق  اور اسکی حفاظت کو نہ ماننا اور وائلیشن کرنا ہی غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔


آئین اور قانون کی خلاف ورزی نہ حکومت کرسکتی ہے نہ کوئی ادارہ  یا فرد کرسکتا ہے۔ہر ایک کو آئینی و قانونی حدود میں رہ کر چلنا ہوتا ہے۔ جن معاشروں میں قانون اور آئین کی وائلیشن ہوتی ہے وہاں تنزلی لازم ہے اور ہمیں کسی صورت اپنے سماج اور ملک کو تنزلی کی طرف لے جانے سے گریز کرنا ہوگا۔اور بالخصوص عوامی اور جمہوری حکومتیں اپنے تمام شہریوں کے بنیادی حقوق نہ صرف تسلیم کرتی ہیں بلکہ ہر حال میں ان کا حفاظت بھی کرتی ہیں۔ سو ہمیں جمہوری اقدار کو فروغ دینا ہوگا، شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا ہوگا۔آئین کی بالادستی اور قانون و انصاف کی علمبرداری کو لازم پکڑنا ہوگا۔آئین اور قانون سے کوئی ادارہ، فرد یا ریاستی عنصر بالادست نہیں ہوتا۔سب اسی کے دائرے میں رہ کر امور چلانے کے پابند ہیں۔پلیز کوئی خود کو اکیسویں صدی میں ریاستی آئین سے بالادست نہ سمجھیے گا۔ان مختصر گذارشات پر استاد یونس سروش نے شاندار انداز میں تصویر کا دوسرا رخ بھی پیش کیا۔بہت سے اہم نکات کی طرف توجہ مبذول کروائی ۔


وہ لکھتے ہیں:”اہم پہلو کی نشاندہی کی ہے آپ نے مگر ملازم اور عام شہری کے دائرہُ اظہار میں کچھ فرق ضرور ہے جو کسی سرکاری عہدے پر تقرری کے ساتھ ہی  ملازم کے گرد کھنچ جاتا ہے۔ اس دائرے کا انحصار عہدے کی نوعیت پر ہے۔ ملازم ریاستی مشینری کا کل پرزہ ہے۔ ریاستی مشینری اس نظریے پر ڈیزائن کی گئی ہوتی ہے جس کی بنیاد پر  ملک یا ریاست  وجود میں آتی ہے ۔ یہ ڈیزائن متعدد پرتوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہر پرت کے ساتھ ایک ادارہ منسلک ہوتا ہے جو ریاست کی بقا، سلامتی اور خوشحالی کے لئے اپنے حصے کی ذمہ داری نبھاتا ہے۔ بعض ادارے ریاست کے اثاثوں کی حفاظت پر مامور ہوتے ہیں۔  الغرض ریاستی مشینری کے جملہ پرذے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے فرائض بجا لاتے ہیں۔ جس سوشل کنٹریکٹ کے تحت کسی ملازم کی کسی عہدے پر تقرری عمل میں آتی ہے

اس کنٹریکٹ میں اس کے حقوق و فرائض کی تفصیل موجود ہوتی ہے ۔ جانبین یعنی ریاستی ادارے اور ملازم جب کنٹریکٹ پر دستخط کرتے ہیں تو پھر اظہار رائے کے حوالے سے کافی سارے حقوق سے ملازم دستبردار ہوجاتا ہے یہ حقوق بعض صورتوں میں ملازمت سے سبکدوش ہونے کے دو سال بعد بحال ہوجاتے ہیں۔ اس کا انحصار عہدے کی نوعیت اور حساسیت پر ہے۔ مثلاً آپ دورانِ ملازمت کسی عوامی عہدے پر الیکشن نہیں لڑ سکتے ۔ اس کے لئے آپ کو رٹائرمنٹ کے بعد دو سال تک انتظار کرنا پڑے گا۔ اسی طرح بحیثیت ملازم آپ ریاستی پالیسیوں پر تنقید نہیں کر سکتے۔ کسی سیاسی عہدے پر کام نہیں کر سکتے۔ کسی کی کھل کر الیکشن کمپین نہیں چلا سکتے وغیرہ وغیرہ۔ المختصر جس سوشل کنٹریکٹ کے تحت ایک بندہ ملازمت قبول کرتا ہے اسی کے تحت وہ کافی سارے ضابطوں اور بندھنوں میں بندھ جاتا ہے۔گویا ملازم آپے سے باہر نہیں ہو سکتا۔”


ڈاکٹر طاہر ممتاز نے اس کو انتہاہی اہم موضوع قرار دے کر اس پر علمی مکالمہ اور سیمنارز منعقد کرنے کی تجویز دی۔
وہ لکھتے ہیں:”سرکاری ملازمین کا سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے محترم جناب امیر جان حقانی صاحب نے بحث چھیڑی ہے اور  محترم عباس وفا صاحب کا ایک اہم جملہ / نقطے کو آغاز بحث بنایا ہے کہ سرکاری ملازم بھی ایک شہری ہونے کی حیثیت سے آئینی طور پر اپنی رائے کے اظہار کا حق رکھتا ہے۔  میری بھی یہی رائے ہے اور میرا خیال ہے کہ سرکاری طور پر ایک  اینالیسسز / ریسرچ کیا جائے اور اس پر سیمنار منعقد کر کے شہریوں کو بتا دیا جائے کہ عوامی رائے اور اظہار آزادی سے کس کس ادرے کو ” کیا تکلیف ” ہے اور موجودہ ریاست کس حد تک سچ برداشت کر سکتی ہے۔ حقانی صاحب  اور عباس بھائی کی سوچ فرد اور ریاست کے مابین تعلق کے نہج کی بہترین وضاحت کر تی ہے۔ آئینی طور پر فرد اگر ریاست کے لئے کام کرتا ہو تو کسی طور اپنے اظہار رائے کے حقوق سے دستبردار نہیں ہوتا۔  بہت اچھی بحث چھیڑی ہے بھائی ۔ اس پر باقاعدہ سیمنار ہونی چاہیئے۔جانے کس نے کہا ہے کہ جدید ریاست جبر کے تحت قائم ہے۔ فرد کو قانون کے تحت جتنا بھی حقوق کا تحفظ اور اظہار رائے کی آزادی حاصل ہو ریاست / حکومت نظریہ ضرورت یا نقص امن کو جواز بنا کر قدغنیں لگاتی آئی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ تیسری دنیا کا شہری آئینی حقوق کا رونا روتا آیا ہے مگر ریاست اس معاملے میں اور نظریہ رکھتی ہے جو انفرادی طور پر دی گئی آئینی حقوق کے ضد بھی ہو سکتے ہیں.بہت سارے دیگر احباب نے اپنا نقطہ نظر بیان کیا ہے۔”


یہ ایک اہم عوامی ایشو ہے اس پر اہل علم و فکر کو آگاہی اور شعور دینا ہوگا ۔ عوام کا حق ہے کہ وہ اپنے بیسک رائٹس اچھی طرح سمجھ لیں اور اہل علم پر لازم ہے کہ وہ مکمل تفصیلات کیساتھ سمجھا دیں۔اساتذ کرام اور اہل علم و قلم سرکاری ملازمین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے علمی و فکری خیالات کا اظہار اور اصلاح معاشرہ کے لئے حکومت سے تقریر و تحریر کی  اجازت نامہ  لے لیں۔میں جی بی کا پہلا سرکاری ملازم ہوں جس کے پاس اصلاحی تحریر و تقریر کے لئے NOC موجود ہے۔اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

chitraltimes gb circular against social media user employes
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged , , , ,
50542

تمام آنکھیں میری آنکھیں ہیں – ڈاکٹر شاکرہ نندنی

تمام آنکھیں میری آنکھیں ہیں آنکھیں بھی کیا خوب ہیں، ایک بار کھلتی ہیں تو موت پر ہی بند ہوتی ہیں۔ کھلنے اور بند ہونے کے درمیانی عرصے میں سوتی جاگتی آنکھیں کیا کچھ اپنے اندر سمو لیتی ہیں۔ یہ نہ صرف دل و ذہن کو چہرے پر لے آتی ہیں بلکہ پورا وجود ہی آنکھ کی پتلی میں سمٹ آتا ہے۔ 

اگر ان سے رنگ و نور کے چشمے پھوٹتے ہیں تو باہر کے رنگوں کو بھی ہر لمحہ یہ اپنے اندر سموتی رہتی ہیں۔ کبھی آسمان کی بلندی، کبھی خورشید کی تمازت، کبھی چاند کی اداسی تو کبھی سمندروں کے مد و جزر ان کے دامن میں پناہ لیتے ہیں۔ ایک منظر کے بعد دوسرا منظر، پھر منظر کے بعد کا منظر، پھر پس منظر، گویا جسم کا یہ دروازہ ہر منظر کے لئے کھلا ہی رہتا ہے۔ میری آنکھوں نے کیا دیکھا، کیا سمجھا، کیا کھویا، کیا پایا، کسے اپنایا، کسے ٹھکرایا، کہاں بھٹکیں، کہاں ان کی سرزنش ہوئی، کس منظر کو یاد رکھا، کسے بھلا دیا، کس سے بات کی، کس سے منہ موڑا، کہاں اٹھیں، کہاں جھک گئیں، کہاں دل بن گئیں، کہاں ذہن میں ڈھل گئیں، کہاں ان پر پیار آیا، کہاں انھیں نوچ کر پھینکنے کو جی چاہا، ایک نہ ختم ہونے والا منظر نامہ ہے جو قلم کے راستے کاغذ کی روح میں اتر گیا ہے۔ 

آنکھیں بند کرتی ہوں تو اندر کی آنکھ پلکیں جھپکنے لگتی ہے۔ آنکھیں کھولتی ہوں تو خود آنکھ بن جاتی ہوں۔ لگتا ہے کائنات کی سب آنکھیں میرے وجود پر آ گئی ہوں۔ ہر زاویہ نگاہوں کی زد میں آ کر انکشاف کی نئی قیامتیں توڑ تا رہتا ہے۔ 

باطن کی آنکھ کھل جائے تو ظاہری آنکھیں مضطرب ہو جاتیں ہیں۔ چشمِ حیراں کو دلاسا دینا چاہا مگر تلاش و جستجو میں کوئی سرا ہاتھ نہ لگا۔ دل سے پوچھا تو وہ خود آنکھ بن گیا۔ ذہن سے سوال کیا تو کئی آنکھیں اس کے اندر روشن ہو گئیں۔ روح سے پوچھا تو اس کی تابناکیوں نے نئے عالم آشکار کر دیئے۔

 کچھ سمجھ میں نہیں آتا کیا دیکھ رہی ہوں، کیا آنکھ سے اوجھل ہے اور کیا اوجھل نہیں ہے۔ جو نظر آتا ہے وہ ہے نہیں ہے، سب دھوکا ہے، باطل ہے، فریبِ نظرہے، جو ظاہر کی آنکھ نہیں دیکھ سکتی وہی سچ ہے، وہی حق ہے، وہی جستجو، وہی راستہ، وہی منزل ہے، وہی خواب ہے، وہی تعبیر ہے، اندھیرا فریب دیتا ہے، آنکھ اس فریب کوسمجھتی ہے۔ اندھیروں میں بھی متلاشی آنکھیں ظلمت کا پردہ چاک کر کے وہ دیکھ لیتی ہیں جو دیکھنا چاہتی ہیں۔ اندھیرا چشمِ بینا کی راہ میں دیوار نہیں بن سکتا۔

 آنکھیں راستے کی ہر دیوار گرانا جانتی ہیں۔ بشرطیکہ ہنر مند ہوں، لگن رکھتی ہوں، کیف و مستی سے سرشار ہوں، جذب کا ایسا عالم ہو کہ ہر چیز وجد میں آ جائے۔ کائنات پاؤں میں گھنگرو پہن کر محوِ رقص ہو جائے، ڈھولک کہیں اور بجے، رقص کہیں اور ہو۔ یہ آنکھ کے عرفان کی انتہا ہے۔

 پیدائش اگر ایک انتہا ہے تو موت دوسری انتہا۔ ہم خاکی صورت لوگ ان انتہاؤں کے درمیان قید ہیں ، جتنے مجبور ہیں اتنے بااختیا ر بھی ہیں ،جتنی لگن ہے ، جتنی تڑپ ہے، اتنا ہی اختیار بھی ہمارے حصے میں آئے گا۔پھر سب عیاں ہو جاتا ہے ، آگہی کے در وا ہو جاتے ہیں ، پردے اٹھتے ہیں ، اصل تماشا نظر آتا ہے۔ بس جادۂ عرفاں پر چلنے کی ضرورت ہے ۔ باطن کی آنکھ ایک کے بعد ایک منظر دیکھتی ہے تو ظاہر کی آنکھ حیرتوں میں ڈوب جاتی ہے۔

 یہ کائنات حیرت کدہ ہے ۔ صرف دیکھنے والی آنکھ چاہئیے۔ حیرت زدہ آنکھوں نے جب اردگرد دیکھا تو سب اپنا ہی لگا۔ ہر آنکھ اپنی آنکھ اور ہر روشنی اپنی روشنی تھی۔ میری آنکھیں، میری نہ رہیں۔ کائنات میں بکھر کر ہر منظر کے چہرے پر ثبت ہو گئیں۔ اس ادل بدل میں سب آنکھیں میری آنکھیں بن گئیں۔ سب نقش میرے تھے، سب رنگ، سب جذب، سب کیف و مستی میرے اندر ہی موجود تھی۔ رگوں میں دوڑتا ہوا لہو ثناء خوانی کر رہا تھا۔ دل کسی کی یاد میں گریہ زاری کر رہا تھا۔ ایک شور تھا جو کبھی سکوت میں ڈھل گیا تو کبھی شعروں میں اتر کر کاغذ کے وجود سے لپٹ گیا۔ 

chitraltimes Eyes
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged ,
50519

خانہ کعبہ اورفریضہ حج کا معاشی پہلو – ڈاکٹرساجد خاکوانی(اسلام آباد،پاکستان)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

خانہ کعبہ اورفریضہ حج کا معاشی پہلو – ڈاکٹرساجد خاکوانی(اسلام آباد،پاکستان)

            حضرت آدم علیہ السلام جب زمین پر اتارے گئے توانہوں نے اللہ تعالی سے پوچھا کہ کدھر منہ کر کے تو عبادت کروں؟اللہ تعالی نے فرمایا کہ ایک کمرہ تعمیرکرلیں اور ادھرمنہ کر کے عبادت کے مناسک اداکرتے رہیں۔طوفان نوح علیہ السلام میں وہ کمرہ زمیں بوس ہوگیا۔حضرت ابراہم علیہ السلام جو حضرت علیہ السلام کی قریبی پشت سے تھے،بائبل میں ان کاشجرہ نسب بھی نقل کیاہے۔ انہوں نے اپنے فرزندارجمند کے ساتھ اس کمرے کی تاسیس نوکی۔فرشتوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ریت کاایک ٹیلہ دکھایا۔جب اسے کھوداگیاتو نیچے سے حضرت آدم علیہ السلام کی چنی گئی بنیادیں برآمد ہو گئیں۔باپ بیٹا حضرات ابراہیم و اسمائیل علیھماالسلام نے خانہ خداکی تعمیرجدید کاآغازکیا۔اللہ تعالی نے ایک پتھرآسمان سے اتاراجسے ”مقام ابراہیم“کانام، دیا۔دیواریں اونچی کرنے کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام اس پتھرپر کھڑے ہوجاتے اوریہ اللہ تعالی کے حکم سے بلند ہوجاتااور حضرت اسمائیل علیہ السلام نیچے سے پتھرپکڑاتے رہتے۔جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نیچے اترناہوتاتویہ پتھراللہ تعالی کے حکم سے نیچے ہوجاتااور آپ فرش پرقدم رنجافرمالیتے۔آج یہ پتھر خانہ کعبہ کے جوار میں نصب ہے اور اس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاؤں کے نشان بھی نقش ہیں جو بآسانی دیکھے جاسکتے ہیں۔اللہ تعالی نے طواف کرنے والوں کو حکم دیاہے کہ پس طواف مقام ابراہیم پر دو نفل اداکریں۔تعمیر کعبہ کے وقت اسکی تین دیواریں سیدھی اور ایک دیوار گول تھی۔اللہ تعالی نے ایک اور پتھر آسمان سے اتاراجو انڈے کے جتنااور سفیددودھیارنگ کا تھا۔یہ ”حجرابیض“تھایعنی سفید پتھر۔اس پتھرکی خاصیت ہے کہ یہ گناہ چوستاہے،اب گناہ چوس چوس کر یہ سیاہ ہو چکاہے اس لیے اسے ”حجراسود“یعنی کالا پتھرکہتے ہیں۔فی الوقت اس پتھرکے ٹکڑے پگھلی ہوئی چاندی میں رکھ کر جمادیے گئے ہیں کیونکہ تاریخی ادوارمیں یہ پتھر ٹوٹ گیاتھا۔

            تکمیل تعمیر کعبہ کے بعدپہلی بارحضرت ابراہیم علیہ السلام نے  اس کمرے کا طواف کیا۔یہ کل کائنات کا طریقہ ہے کہ ہر چھوٹا اپنے سے بڑے کاطواف کرتاہے۔جیسے چاند چھوٹاہے تو وہ اپنے سے بڑی زمین کاطواف کرتاہے۔زمین چھوٹی ہے تو وہ اپنے سے بڑے سورج کا طواف کرتی ہے، علی ھذاالقیاس۔کائنات کے یہ طواف گھڑی کی سوئیوں کے الٹی سمت کے مطابق ہوتے ہیں۔چنانچہ انسان بھی اپنے سے بہت بڑے خدا کی بڑائی و عظمت کو دل و جاں سے تسلیم کرتے ہوئے گھڑیوں کی سوئیوں کے الٹی سمت اللہ تعالی کے گھر کاطواف کرتاہے۔اس طرح طواف کرنے سے انسان کے سینے میں موجود دل کا رخ کعبۃاللہ کی طرف ہی رہتاہے۔اس طرح استعاراََ یہ بھی معلوم ہوگیاکہ دل ہمیشہ اللہ تعالی کی طرف ہی لگارہناچاہیے۔اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہاکہ لوگوں کو حج کے لیے آواز دیں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیاکہ اے بار الہ یہاں تو میرے اہل خانہ کے سوا کوئی نہیں اور چاروں طرف اونچے اونچے فلک بوس پہاڑ ہیں،تو میری آواز کون سنے گا؟؟؟اللہ تعالی نے فرمایا اے پیارے نبی علیہ السلام آپ آواز تو لگائیں،پھردیکھیں میں آپ کی آواز کو کہاں کہاں تک پہنچاتاہوں۔چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے لوگوں کو پکاراجس کے نتیجے میں گزشتہ چارہزارسالوں سے یہ خانہ خداانسانوں اور جنوں اور فرشتوں سے کھچاکھچ بھرارہتاہے اورتاقیامت بھرارہے گا۔ اور اللہ تعالی نے انہیں مناسک حج سکھائے جودین ابراہیمی کا حصہ ہیں۔

            حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد حضرت اسمائیل علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی نگرانی سنبھال لی۔وہ حطیم والی جگہ پر بیٹھتے تھے اور دیگرلوگ ان کے اردگرد جمع رہتے۔اس کے بعد ایک مدت تک یہ منصب آل اسمئیل میں رہا۔ازاں بعدایک خانہ بدوش قبیلہ ”بنوجرہم“خانہ کعبہ اور زم زم پر قابض ہو گیا۔انہوں نے حجاج کرام کے ساتھ ظلم وزیادتی کاسلوک روارکھااوران سے بھاری ٹیکس اور زم زم کی قیمت وصول کرنا شروع کردی۔اس پر آل اسمائیل علیہ السلام جواگرچہ کمزوراور قلت تعدادکاشکار تھے انہوں نے بنوجرہم کے خلاف اعلان جنگ کردیا۔بدمعاش کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو لیکن بزدل ہوتاہے۔آل اسمئیل جو اس وقت تک ”قریش مکہ“کہلانے لگے تھے،انہوں نے مکہ مکرمہ کامحاصرہ کرکے بنوجرہم کو شکست دی اور حرم مکہ واگزارکرالیا۔جاتے جاتے بنوجرہم نے چاہ زم زم میں مٹی ڈال کر زمین کے برابر کرگئے۔سقایۃ الحاج یعنی حاجیوں کوپانی پلانے کی ذمہ داری حضرت عبدالمطلب پر تھی۔انہیں بہت دوردورسے اپنے کاندھوں پر اور گدھوں اور اونٹوں پر پانی لادلاد کر لانا پڑتاتھا۔ایک بارانہوں نے تین راتیں مسلسل خواب دیکھاکہ کوئی شخص انہیں جگہ دکھارہاہے کہ یہاں کھدائی کروتوزم زم نکل آئے گا۔انہوں نے اس وقت اپنے واحد بیٹے ”حارث“کے ساتھ مل کرتین روز ہ مسلسل محنت شاقہ کے بعد زم زم کاکواں دریافت کرلیاکیونکہ سرداران قریش میں سے بھی کوئی آپ کی مددکو نہ پہنچا۔

                جب محسن انسانیت ﷺ کی عمر مبارک پنتیس برس کی تھی تو قریش نے خانہ خداکونئی اور مضبوط دیواروں پراستوار کیا۔روم سے ایک ماہر تعمیرات کوبلایاگیا۔ایک قریشی سردارجو ساحل سمندر سے گزررہاتھا وہاں سے تباہ شدہ بحری جہازکے پھٹے ساتھ لے آیا اور یوں خانہ کعبہ کی تعمیرنوکاآغاز ہوا۔اس کمرے کی تین دیواریں سیدھی اور چوتھی دیوار گول تھی۔آمنے سامنے دودروازے تھے جو زمین کے برابر تھے۔تعمیراتی سامان کی کمی کے باعث چوتھی دیوار بھی سیدھی کر دی گئی اور دودروازوں کی بجائے ایک دروازہ رکھاگیااوروہ زمین سے بہت بلند۔چوتھی دیوارکے سیدھا ہونے سے عمارت کاجو گول حصہ باہر رہ گیا اسے”حطیم“قرار دے دیا۔یہ دراصل خانہ کعبہ کااندرونی حصہ ہے جو تعمیر قریش میں باہر رہ گیاتھا۔جب حجراسود کے لگانے کاموقع آیاتو پہلے آوازیں بلند ہوئیں اور پھر تلواریں بے نیام ہونے لگیں۔اگلے دن رحمت عالم ﷺنے اپنی کالی کملی میں حجراسودرکھااور سب سرداروں کو چادرکاایک ایک پلو تھمادیا،چادربلندہوئی اور جب مقام مخصوص تک حجراسود پہنچ گیاتو آپﷺنے اپنے دست مبارک سے حجراسودکو آگے دھکیل دیااور مستری نے مصالحے کے ساتھ اسے جمادیا۔یہ حسن معاملگی آپ ﷺ کو ہی زیب دیتی تھی۔حضرت عبداللہ بن زبیرنے اپنے دوراقتدارمیں خانہ کعبہ کو نقشہ ابراہیمی کے مطابق بنایا تھالیکن بعد کے بادشاہوں نے پھراسی طرح کردیا جیسے آپ ﷺنے چھوڑاتھا۔اس کمرے،کعبۃ اللہ کی زیارت کے لیے سفر کرنا حج یا عمرہ کہلاتا ہے،تاہم مکمل حج یا عمرے میں کچھ دیگر مراسم عبودیت بھی شامل ہیں۔    

                 حج کی عبادات کم و بیش چارہزارسالوں سے جاری ہیں۔تواترکے ساتھ ادا ہونے والی یہ دنیا کی قدیم ترین عبادت ہے۔ قریش مکہ نے ان عبادات ومناسک میں بدعات اور شرک کی آمیزش بھی کر دی تھی لیکن خاتم النبیین ﷺ نے اسے ایک بار پھر سنت ابراہیم علیہ السلام کے مطابق ترتیب دے کر ہر طرح کی آلائشوں سے پاک صاف کر دیا۔اب عمربھر میں ایک بار اس شخص پر سفرحج فرض کردیاگیاہے جو اسکی استطاعت رکھتاہو۔تب سے آج تک امت مسلمہ نے ایک حج بھی قضا نہیں کیاحالانکہ ایک زمانے میں حج کرنا جان جوکھوں کاکام ہوتا تھا۔ادائیگی حج کے اگرچہ بہت سے پہلو ہیں جن میں ایک سیاسی پہلو ہے کہ تمام مسلمانوں کا نمائندہ اجتماع امت کی سیاسی قوت کا آئینہ دارہو،ایک معاشرتی پہلو ہے کہ مشرق و مغرب کے مسلمان باہم معاشرتی اختلاط سے ایک اسلامی معاشرت کے امین بنیں،ایک مذہبی پہلو ہے کہ لمبے سفر کے بعدقرب الہی کاوسیلہ زیادہ خلوص اور محبت کے ساتھ میسر آئے،ایک سیاحتی پہلو ہے کہ قریہ قریہ شہر شہر سے گزرنے کے باعث ایک حاجی اللہ تعالی کی زمین اور انسانی تہذیب و ثقافت کا مشاہدہ کرتا چلے،ایک دفاعی پہلو ہے امت کا اتنا بڑااجتماع اورمسلمانوں کے اتحادسے دشمنوں پر دھاک بیٹھ جائے،ایک مساوات کا پہلو ہے کہ امیرغریب،عالم جاہل،گورے کالے،عربی عجمی اورشرقی غربی کل حجاج ایک ہی قسم کے کپڑوں میں ایک ہی رخ میں ایک ہی کلمہ زبان سے نکالتے ہوئے چلے جا رہے ہیں اورایک بین الاقوامی پہلوہے کہ ہرنسل،ہررنگ،ہرزبان اور ہر علاقے کی نمائندگی موجود ہے۔

                ہم وقت کے اس دھارے سے گزر رہے ہیں کہ صدہائے افسوس کہ حج جیسی عظیم الشان عبادت کے یہ تمام پہلومعطل ہیں اور امت اپنی تاریخ کے بہت ہی سیاہ دور سے گزر رہی ہے۔ممکن ہے ماضی میں بھی کبھی ایسا ہوا ہویا شایدمسقبل میں بھی ایسا پھر ہوجائے لیکن حج کامعاشی پہلو کبھی بھی معطل نہ ہوگا۔جب تک حج کا عمل جاری رہے گالاکھوں نہیں کروڑ ہالوگوں کا روزگاراس عبادت سے وابسطہ رہے گا۔ان لوگوں میں امیروغریب تو ہونگے ہی لیکن کتنی حیرانی کی بات ہے کہ انبیاء علیھم السلام کی جاری کی ہوئی اس عبادت کے معاشی پہلو میں غیرمسلم بھی برابر کے بلکہ بعض اوقات مسلمانوں سے زیادہ کے شریک رہیں گے۔ایک حاجی جب حج کا ارادہ کرلیتا ہے تو لوگ اسے مبارک باد دینے آتے ہیں،ہر آنے والا پھول ساتھ لاتا ہے اور اس طرح پھولوں والوں کا روزگار کھل جاتا ہے۔حج کی پیشگی مبارگ دینے والی اکثریت مٹھائی یاکوئی تحفہ یا ہدیہ بھی ساتھ لاتی ہے اس طرح ان لوگوں کا روزگار کھلتا ہے جہاں سے یہ مٹھائی یا تحفہ و ہدیہ خریدا جاتاہے۔دیہاتوں میں بعض اوقات تین تین دن پہلے چوہدری صاحب،خان صاحب،میاں صاحب،ملک صاحب،سردارصاحب یاوڈیراسائیں کے ہاں دیگیں پکنے لگتی ہیں کیونکہ وہ حج پر جا رہے ہوتے ہیں اس طرح دیگوں اور راشن سے وابسطہ لوگوں کا روزگار کھل جاتا ہے اوربرادری اور غریب غربے تین دنوں تک چوہدری صاحب کے ہاں سے اچھا کھانا بھی کھالیتے ہیں۔حج کے لیے حاجی صاحب اکیلے نہیں جاتے بلکہ پوراگاؤں انہیں بسوں پر بٹھاکر شہر تک چھوڑ کر آتا ہے اس دوران ڈھول والے،نعتیں پڑھنے والے،بسوں کے ڈرائیوراور پٹاخے بجانے والوں کی بھی چاندی ہوتی ہے قطع نظر اس بات کے کہ یہ امور جائز ہیں کہ ناجائز۔

                شہر پہنچ کریا پہلے سے ہی حاجی صاحب نے کسی ہوائی کمپنی کاٹکٹ خریدناہے۔ہوائی کمپنیوں کی اکثریت غیر مسلموں کی ملکیت ہوتی ہے لیکن کتنی حیرانی کی بات ہے کہ حج اور عمرے کے ایام پوری دنیا کی ہوائی کمپنیوں کے لیے خوب کمائی کے دن ہوتے ہیں۔بعض ہوائی سفرکے ادارے تو صرف حج اور عمرے کا ہی کام کرتے ہیں اور پھر بھی لوگوں کو ان سے شکایت رہتی ہے نشست نہیں مل سکی۔ان ہوائی کمپنیوں سے بلامبالغہ کروڑہا لوگوں کی ہنڈیا وابسطہ ہوتی ہے اورانکے کاروبار کا بہت بڑا اور بڑا واضع حصہ سفرسعادت سے ہی منسلک ہوتا ہے۔ان ہوائی کمپنیوں کے ایجنٹ اور پھر انکے ثانوی ایجنٹ دوردرازکی بستیوں میں اپنے دفاتر کھول کر بیٹھتے ہیں اور ایک حاجی جو اپنی رقم سے ٹکٹ خریدتا ہے نہ معلوم اس ایک ٹکٹ کی رقم کتنی کتنی جگہوں پر تقسیم در تقسیم ہو کرتوپہنچتی ہے اورلوگوں کے کاروبارکاباعث بنتی ہے۔حاجی اپنی منزل پر پہنچ گیا۔حج و عمرے کے انتظامات پر کتنی رقم خرچ ہوتی ہے؟اسکا اندازہ لگانا ہمارے لیے ممکن نہیں لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ ساراسال ہزاروں نہیں لاکھوں لوگوں کی ان گنت ٹیمیں حج و عمرے اور حرمین شریفین کے انتظامات میں مصروف عمل رہتی ہیں۔کم و بیش دنیا کے ہر خطے کا مسلمان ان مقامات پر کام کرتا ہوا نظر آتا ہے۔حاجیوں کے لیے صفائی اور قیام و طعام کے انتظامات سے لے کر حرمین شریفین کی توسیع تک بے شمار لوگوں کا روزگار وابسطہ ہورہتاہے۔ساراساراسال اخباروں میں اشتہار چھپتے ہیں اور ساری دنیا سے ماہر لیبراور خام لیبر ہوائی جہازوں اور بحری جہازوں میں بھر بھرکر حجازمقدس لے جائی جاتی ہے جہاں سے وہ اپنے ظرف کے مطابق سعادت اور اپنے فن کے مطابق دنیا کما کر لاتے ہیں۔

                خاص حج کے موقع پر بھیڑ،بکریوں اور اونٹوں کے ریوڑ کے ریوڑمنی کے مقام پر لائے جاتے ہیں اور انہیں ذبح کیا جاتا ہے۔ان جانوروں کے گلے بان اپنے سال بھرکی محنت کابہت معقول معاوضہ وصول لیتے ہیں اور اس طرح صحراکے باسی جہاں مہینوں تک زمین کی مٹی بارش کی بوند کوترس جاتی ہے،حج کی عبادت انکے وسعت رزق کاباعث بن جاتی ہے۔پھر جوجانور حکومتی انتظام کے تحت ذبح کیے جاتے ہیں انکا گوشت دنیا کے مختلف علاقوں میں غرباء کو پہنچادیاجاتاہے اور یوں حج کی عبادت لوگوں کاپیٹ بھرنے کاباعث بن جاتی ہے۔جاپان چین اور فرانس غیرمسلم ممالک ہیں،ان سمیت دنیاکے بیشتر سیکولرممالک سے بحری جہازبھربھرکے حجازمقدس کی بندرگاہوں پر اترتے ہیں جن میں ٹوپیاں،تسبیحیں،جائے نمازیں،کھلونے،مشینری اورکپڑے سمیت نہ جانے قسم قسم کی مصنوعات لدی ہوتی ہیں۔اللہ تعالی نے ایک شاندار انتظام کے تحت دنیابھر کے لاکھوں امیر لوگوں کو ایک جگہ جمع کردیاہے وہ دل کھول کر خریداری کرتے ہیں،کوئی بھی حاجی خالی ہاتھ واپس نہیں جاتاپس دنیا بھر کے بے شمارکارخانے صرف حج کی بنیاد پر قائم و دائم ہیں اور ان میں کام کرنے والوں اور انکی چیزیں خرید کر آگے بیچنے والے اور ان سے خرید کر مزید آگے بیچنے والے اور پھر حاجیوں کے ہاتھ فروخت کرنے والے سب کے سب کا معاشی مسئلہ اللہ تعالی نے حج و عمرے کی عبادات و مناسک سے جوڑ رکھاہے۔حاجی حج سے واپس آتا ہے تو ایک بار پھر لوگ بسیں بھر بھر کے اسکے استقبال کے لیے ہوائی اڈوں یا ریلوے اسٹیشنوں پرپہنچتے ہیں،عام دنوں میں جولوگ منتیں کرکر کے دس دس روپے کے پھولوں کے ہار فروخت کرتے ہیں اب پچاس پچاس میں نخرے سے فروخت کرتے ہیں،کارپاکنگ والوں کی دہاڑیاں دس دس گنا بڑھ جاتی ہیں،بسوں اور ویگنوں والے حاجی کی خیریت سے واپسی کی مٹھائی بھی وصول کرتے ہیں،گھر کے بچوں کے لیے کھلونے،خواتین کے لیے کپڑے اور نوجوانوں کے لیے انکے مزاج کی اشیااور پوری برادری،پڑوسیوں اور گاؤں والوں کے لیے تسبیح،ٹوپی،زم زم اور کھجور کے تحفے ارسال کیے جاتے ہیں۔

                معاش انسان کی اولین ضرورت ہے وہ پیدا ہوتے ہی سب سے پہلے اپنی معاش کا تقاضا کرتا ہے،اللہ تعالی کتنابڑا رزاق ہے کہ اس نے اپنی

نازل کی ہوئی شریعت میں تمام کفاروں کو بھوکے کے پیٹ سے جوڑ دیاہے،روزہ توڑا ہے تو بھوکے کاپیٹ بھرو،قسم توڑی ہے توبھوکے کاپیٹ بھرو،حج میں کوئی غلطی ہو گئی ہے تو بھوکے کاپیٹ بھرو،پھرغمی اور خوشی کے مواقع کو بھی اللہ تعالی نے پیٹ سے جوڑ دیاہے،عقیقہ،ولیمہ یا کسی کی وفات پر کھانے کاانتظام اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں،آپﷺکی تمام تر پیشین گوئیاں بھی معاشی خوشحالی سے تعلق رکھتی ہیں اور صدقات و زکوۃ اور عشر کا اتنا بڑا نظام تو معاشیات سے ہی مستعارہے۔اسی طرح حج جیسی محض ایک عبادت سے اللہ تعالی پوری دنیا میں گردش دولت کا سلسلہ شروع کردیتا ہے،تجوریوں سے زرنکل کر مختلف ہاتھوں سے ہوتا ہوابھوکے کے پیٹ تک جاپہنچتاہے،قطع نظر اس کے کہ وہ بھوکاامیرہے کہ غریب ہے،ان پڑھ ہے کہ جاہل ہے اور حتی کہ مسلمان ہے کہ غیرمسلم۔اور پھر اس حج پر خرچ کی ہوئی رقم حاجی کے اپنے رزق میں کتنی برکت کا باعث بنتی ہے؟دنیاکاکوئی پیمانہ اسکی پیمائش کرنے سے قاصر ہے۔سچ ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ایساہے جیسے ”ایک دانہ بویاجائے جو سات بالیوں کی زراعت کا باعث ہو ہرہربالی میں سوسودانے ہوں“۔یہ تو دنیا کا حال ہے،آخرت میں اسکا کتنا اجر ملے گا؟اللہ تعالی ہی بہتر جانتاہے۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , ,
50516

حج وعمرہ اور احرام – ڈاکٹر ساجد خاکوانی (اسلام آباد،پاکستان)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حج وعمرہ اور احرام – ڈاکٹر ساجد خاکوانی (اسلام آباد،پاکستان)

                حج اور عمرہ ایک بہت بڑی سعادت ہے جس کے لیے لاکھو ں فرزندان توحیدحجازمقدس کا سفرکرتے ہیں اور خانہ خدا کی زیارت سے قرب خداوندی حاصل کرتے ہیں۔تاریخی روایات کے مطابق خانہ کعبہ کی عمارت سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے تیار کی تھی،کیونکہ جب وہ زمین پر اترے تو انہوں نے اللہ تعالی سے پوچھا کہ کس طرف منہ کرکے تیری عبادت کروں؟؟اللہ تعالی نے حکم دیاکہ ایک کمرہ بنالیں اور ادھر منہ کر کے میری عبادت کریں۔طوفان نوح میں وہ کمرہ زمیں بوس ہوگیاجس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کمرے کی تعمیر نو کی۔فرشتوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو وہ مقام دکھایا جو ٹیلے کی شکل اختیارکرچکاتھا،غالب گمان ہے کہ یہ وہی بنیادیں تھیں جنہیں حضرت آدم نے اپنے دست مبارک سے چناتھا۔حضرات ابراہیم اور اسمائیل علیہما السلام نے اس کمرہ کی تین دیواریں سیدھی رکھیں اور ایک دیوار گول بنائی جیسے ہمارے ہاں نماز کے لیے بنایا گیا تخت پوش ہوتاہے جس کا قبلے والا رخ گول اور تین رخ سیدھے ہوتے ہیں۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام اس گھر کا حج کرنے والے پہلے انسان تھے جنہوں نے کائنات کی اس سنت کو زمین پر تازہ کیاکہ ہر چھوٹا جسم اپنے سے بڑے جسم کا طواف کرتاہے چنانچہ انسان اپنے رب کی کبرائی کو مانتے ہوئے اس کے گھر کا طواف کرتا ہے۔زمین سورج کے گرد طواف کرتی ہے اور چاند زمین کے گرد طواف کرتاہے اور یہ طواف گھڑی کی سوئیوں کے الٹے رخ ہوتاہے اسی طرح خانہ کعبہ کا طواف بھی گھڑی کی سوئیوں کے الٹے رخ ہی ہوتاہے۔اس طرح طواف کرنے والے کا دل جانب کعبہ رہتاہے۔تعمیرکعبہ کے بعد اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کوحکم دیاکہ دنیابھرکے لوگوں کواس گھرکے حج کی طرف اعلان کر کے بلاؤ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہاکہ چاروں طرف اونچے اونچے بلندوبالا پہاڑہیں تومیری آواز کہاں جائے گی؟؟،اللہ تعالی نے فرمایا اے پیارے نبی آپ آوازتودیں آگے میراکام ہے،چنانچہ خداکی قدرت کہ اس ایک اعلان کی برکت کے باعث تب سے قیامت تک اس گھرکاحج و عمرہ و طواف جاری رہے گا۔

                خانہ کعبہ پر ایک خانہ بدوش قبیلے ”بنوجرہم“نے قبضہ کر لیااور زم زم فروخت کرنے لگے،آل اسمئیل نے اس پر غصہ کیااوروہ محسن انسانیتﷺ سے قبل کے قریبی دور میں ایک طویل جنگ کے بعد قریش نے خانہ کعبہ کی عمارت اورحرم شریف واگزارکرالیے اور اسکی تولیت وخدمت کو اپنے خاندانوں میں تقسیم کر لیا۔وقت کے ساتھ ساتھ بہت سی بدعات اور شرکیہ رسوم اس عبادت حج میں دخیل ہو گئیں یہاں تک کہ خاتم الانبیاء ﷺکا زمانہ آن پہنچا۔خانہ کعبہ کاکمرہ انتہائی نشیب میں واقع تھااور دونوں طرف کی بلند و بالا چوٹیوں سے بارش کا پانی اس کی دیواروں کو زخمی کر دیتاتھا۔عمر مبارک جب پنتیس برس کی تھی تو قریش نے خانہ کعبہ کی تعمیرجدیدکافیصلہ کیا،پرانی دیواریں ڈھادی گئیں اور بنیادوں سے پتھر بھی اٹھالیے گئے یہاں تک کہ پتھروں کی ایک ایسی تہہ آئی کہ جس پر کدال مارنے سے پورے مکہ میں زلزلہ آجاتا،انہیں پتھروں پر نئی دیواریں چنی گئیں ابھی تعمیرجاری تھی کہ سامان کم پڑ گیااور چوتھی گول دیوار بھی سیدھی کر دی گئی اور بقیہ حصہ ”حطیم“جو خانہ کعبہ کااندونی حصہ تھا اسے چندفٹ دیوار کے بعدکھلا چھوڑ دیاگیا۔

                محسن انسانیت ﷺ نے حج و عمرہ کی بدعات اور شرک و جہالت سے بھری رسومات کوختم کیااوور سنت ابراہیمی کے مطابق مناسک حج کی تاسیس نوکی۔بعثت کے بعد آپ ﷺ نے ایک ہی حج کیاجسے آخری حج کہتے ہیں،اب قیامت تک اسی طرح ہی حج کرنا درست رہے گااور اس میں کسی کی تبدیلی و ترمیم کی گنجائش نہیں ہو گی۔شریعت محمدی ﷺ نے حج وعمرہ کے لیے میقات کی حدود کا تعین کیا ہے۔ پس جو شخص بھی حج یا عمرہ کی نیت سے حرم جانا چاہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ میقات کی حدود سے قبل ہی احرام باندھ لے۔احرام کے لباس میں میقات کی حدود میں داخل ہونے والے اللہ تعالی کے مہمان گردانے جاتے ہیں۔ زیادہ ترممالک سے جاتے ہوئے یہ حدود سمندر کے اندر ہی شروع ہو جاتی ہیں چنانچہ جب حجاج کرام حج و عمرہ کے لیے بحری جہاز سے جایا کرتے تھے تو کم و بیش ایک ہفتہ کے اس بحری سفر میں جہاز کا کپتان بارہ گھنٹے قبل ہی اعلان کرنا شروع کر دیتاتھا کہ اتنے بجے ہم میقات کی حدود میں داخل ہو جائیں گے۔اب جبکہ ہوائی سفر کے ذریعے چند گھنٹوں میں منزل پرپہنچناآسان ہو گیاہے توراستے میں احرام باندھنابہت مشکل بلکہ اتنے زیادہ مسافروں کے لیے ہوائی جہازکے غسل خانوں میں احرام کے مرحلے سے گزرناناممکن سا ہوجاتاہے چنانچہ حجاج کرام احرام باندھ کرہوائی جہاز میں بیٹھتے ہیں جبکہ راستے میں کپتان اعلان ضرور کر دیتاہے کہ ہم میقات کی حدود میں داخل ہو رہے ہیں۔

                احرام باندھنے کے لیے پہلے غسل کیاجاتا ہے اسکے بعدمرد حضرات ایک ان سلی سفیدچادر نیچے اور ایک ان سلی سفید چادر اوپر لے لیتے ہیں جبکہ خواتین اپنے لباس کے اوپر ہی ایک سفید رومال سر پر اوڑھ لیتی ہیں اورچہرہ سے بھی کپڑاہٹادیتی ہیں۔اس کے بعد دونفل اداکیے جاتے ہیں۔احرام کے لباس میں جوتی شامل نہیں ہے چنانچہ جوتی نہیں پہن سکتے یا کم از کم ایسی جوتی نہیں پہن سکتے جس میں پاؤں ڈھک جاتے ہوں تلووں کی حفاظت کے نقطہ نظر سے صرف ہوائی چپل پہننے کی اجازت ہے۔ اس طرح احرام بندھ جاتاہے اور شریعت کی اصطلاح میں کہاجاتا ہے اس فرد نے وقتی طور پر اپنے اوپر بہت سے جائز امور کو حرام کر لیاہے چنانچہ ان ممنوع امور میں سے کسی کا صدور ہو جائے تو حاجی کو جرمانے میں دم دینا پڑتا ہے جس کا مطلب ہے کہ ایک قربانی کرنی پڑتی ہے،حج یا عمرہ کے بعد احرام اتار دینے سے یہ پابندیاں بھی ختم ہو جاتی ہیں۔احرام باندھتے ہی زبان پر تلبیہ”لبیک اللھم لببک۔۔۔۔“ شروع کر دی جاتی ہے اور سارے سفر میں کثرت سے اسکا ذکر کیاجاتاہے،یہاں تک کہ خانہ کعبہ پر نظر پڑتے ہی تلبیہ کا ذکر بند کر دیاجاتاہے اور دعائیں مانگنا شروع کر دی جاتی ہیں۔

                حالت احرام میں جسم پر یا کپڑوں پر خوشبو لگانا،خوشبووالا صابن استعمال کرنا،زعفران کا استعمال اور تیزخوشبووالے کپڑے یا دوائیوں کااستعمال بھی منع ہے،شکار کرنا یا شکار میں مدد کرنا بھی ممنوع ہو جاتا ہے یہاں تک کی اپنے ہی جسم پر رینگنے والی جوئیں یا تنگ کرنے والے مکھی یا مچھروغیرہ کو مارنا بھی منع ہے،حالت احرام میں جنسی افعال اور جنسی گفتگو پر بھی سختی سے پابندی عائد کر گئی ہے اس کے علاوہ لڑائی جھگڑا اور نافرمانی کا کوئی بھی کام اس حالت میں سختی سے منع ہے۔احرام کی حالت میں منہ ڈھانپنایا سرڈھانپنا بھی منع ہے چنانچہ تیزدھوپ سے بچنے کے لیے چھتری تولی جا سکتی ہے لیکن سر کو ڈھانپنے کی اجازت نہیں ہے۔خواتین بھی اپنے چہرے کو نہیں ڈھانپ سکتیں تاہم بہت مجبوری کی حالت میں اسکی جزوی اجازت ہے۔احرام باندھاہواتوحدودحرم کے اندر کے درخت،پتے اور گھاس بھی توڑنے کی اجازت نہیں ہے نیزاپنے بال اور ناخن بھی نہیں کاٹ سکتے۔نقاب،دستانے اور جرابیں پہننے کی بھی اجازت نہیں اور احرام کی حالت میں اگر سو جائیں تو بھی چادر نہیں اوڑھ سکتے۔ان سب امور میں سے کچھ بھی ہو جائے تو جرمانے کے طور پر قربانی کرنی پڑتی ہے۔

                حالت احرام میں صابن سے غسل کیاجاسکتا ہے یاصرف سر بھی دھویاجاسکتاہے،تیل یا لوشن بھی استعمال کیاجاسکتاہے،خوشبو سونگھنے کی اجازت بھی ہے یعنی کوئی پھول یا کوئی اور خوشبودار چیز سونگھ لینے میں کوئی حرج نہیں۔احرام باندھ کر انگوٹھی،عینک،گھڑی اور بیلٹ وغیرہ بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔احرام کی چادروں سے پسینہ یا لمبے سفر کے باعث بوآنے لگے تو اسکو تبدیل کر لینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔سر اوربدن کھجایاجاسکتاہے اور اگر کوئی مچھر مکھی یاجوں تنگ کر رہی ہو تا انہیں پکڑ کر زمین پر ڈال دیاجائے۔احرام کی حالت میں دوائیاں کی استعمال کی جاسکتی ہیں اور آنکھوں اور کانوں میں دوائی ڈالی بھی جاسکتی ہے اورمرہم پٹی بھی کرانے میں کوئی حرج نہیں۔حالت احرام میں لڑنا اگرچہ منع ہے لیکن دوران تدریس بچوں کو سرزنش کے طور پر سزا دینے سے احرام میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔خواتین دواران احرام ہلکے پھلکے زیورات اور پھولدار کپڑے بھی پہن سکتی ہیں،خواتین کو بند جوتوں اور جرابوں کے پہننے کی بھی اجازت ہے اور احرام کا رومال دوران وضو سر مسح کے لیے کھول لیاجاتا ہے اور وضو کر کے پھر بطور احرام باندھ لیاجاتاہے۔

عمرہ اور حج،ایسی عبادات ہیں جن کے مقامات مخصوص ہیں۔یہ عبادات صرف حرمین شریفین میں ہی اداکی جاسکتی ہیں۔عمرہ ساراسال جاری رہتاہے۔عمرہ کے لیے جانے والے حجاج کرام میقات کی حدود سے پہلے ہی احرام کی پابندیاں میں داخل ہوجاتے ہیں۔عمرہ کرنے لیے حرم مکہ میں داخل ہوکرحجراسودکو بوسہ دیتے ہیں جسے اصطلاح میں ”استلام“کہتے ہیں،اگربوسہ دیناممکن نہ ہوحجراسودکی طرف اشارہ کرکے اپنے ہاتھوں کو یاچھڑی سے اشارہ کرکے چھڑی کو بوسہ دیتے ہیں۔اس طرح طواف کاعمل شروع ہوجاتاہے۔ہر دفعہ جب حجراسودکے سامنے گزریں تو”استلام“کرتے ہیں۔اس طرح خانہ کعبہ کے گرد سات چکر لگانا ایک طواف کہلاتاہے جس کے دوران آٹھ دفعہ استلام کیاجاتاہے۔تکمیل طواف کے بعدپیٹ بھرکرآب زم زم پیاجاتاہے اور مقام ابراہیم پر دونوافل اداکیے جاتے ہیں۔مقام ابراہیم وہ پتھرہے جس پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ تعمیر کیاتھا۔یہ پتھرخانہ کعبہ کے بہت قریب دھراہے۔اگر وہاں طواف کرنے والوں کارش ہوتو جتنا پیچھے ممکن ہو وہیں دو نفل اداکرلینے چاہیں اور کسی کو تکلیف نہیں دینی چاہیے۔طواف کے بعد سعی بین الصفاوالمروہ کی جاتی ہے۔صفاکی پہاڑی سے یہ چلت شروع کی جاتی ہے اور مروہ پر ساتواں چکر ختم ہوجاتاہے۔اس طرح عمرہ تکمیل پزیر ہوچکا۔اس دوران اگروضوٹوٹ جائے تودوبارہ وضو کرکے مناسک کو وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں سے وضوٹوٹاتھا۔احرام کی پابندیوں سے آزاد ہونے سے قبل حلق یا قصرکرانا ضروری ہے۔خواتین اپنے سر کے بالوں کی دم ایک انگلی کے گرد لپیٹ کرجتنے بال کاٹ لیتی ہیں۔مرد حضرات اگر سارے سر کے بال اتروالیں تویہ حلق کہلاتاہے جس کے لیے آپ ﷺ نے دو دفعہ دعا فرمائی ہے اور اگر کوئی چاہے تو سر کے تھوڑے سے بال کاٹ لے تو یہ قصرکہلاتاہے جس کے لیے آپ ﷺ نے ایک بار دعا فرمائی ہے۔حلق یاقصرکے بعداحرام کی پابندیاں ختم ہو جاتی ہیں جسے اصطلاح میں کہاجاتا ہے کہ حاجی اب ”حلال“ہو گیاہے۔

            حج کے لیے 8ذوالحجہ کو تمام حجاج کرام حالت احرام میں منی میں پہنچ جاتے ہیں۔یہ خیموں کی بستی ہے۔رات یہاں گزارکر9ذوالحجہ کو زوال آفتاب سے قبل میدان عرفات میں پہنچناضروری ہے۔زوال آفتاب سے غروب آفتاب تک میدان عرفات میں قیام کرنا حج کا”رکن اکبر“ہے۔اس دوران جو بھی حج کی نیت سے گزربھی جائے اس کا جزوی حج ہوجاتاہے۔جولوگ بیمارپڑجاتے ہیں توسعودی حکومتی اہلکار انہیں مریض گاڑی میں ڈال کر زوال آفتاب سے غروب آفتاب کے دوران میدان عرفات سے گزاردیتے ہیں اورانہیں بیدارکرکے کہتے ہیں حج کی نیت کرلو،اس طرح ان بیمارلوگوں کا بھی حج اداہوجاتاہے۔حجاج کرام میدان عرفات میں ظہراورعصر کی سفری نمازایک ساتھ اداکرلیتے ہیں،کیونکہ آپﷺنے اسی طرح کیاتھا۔”وقوف عرفات“سے مراد عرفات کے میدان میں نمازوں کی ادائگی کے بعدقبلہ کی طرف منہ کر کے کھڑے ہوجانااور دعائیں مانگناہے۔اس کے بعد غروب آفتاب کاانتظارکیاجاتاہے،لیکن مغرب کی نماز وہاں ادانہیں کی جاتی۔آپﷺ نے غروب آفتاب کے بعد مزدلفہ کے میدان میں مغرب اورعشاء اکٹھی اداکی تھیں۔سب حجاج غروب آفتاب کے فوری بعد، پیدل یاسوار،مزدلفہ پہنچ کر دونوں قصرنمازیں اداکرتے ہیں۔

آپ ﷺ کایہ دن بہت مصروف گزراتھااوربے پناہ تھکاوٹ بھی ہوچکی تھی،چنانچہ مزدلفہ قیام کی ساری رات آپﷺ نے آرام کیااورتہجدکی نماز بھی نہیں پڑھی۔چنانچہ اللہ تعالی کو پسندہے کہ سب حاجی سوجائیں اور کوئی بھی نیم شب اٹھ کرتہجد بھی نہ پڑھے۔اسی میدان سے تمام حجاج کرام شیطانوں کے مارنے کے لیے کنکریاں بھی چنتے ہیں۔اگلے دن 10ذوالحجہ ہے اور ساری دنیامیں عید قربان منائی جاتی ہے۔حاجی بھی قربانی کرتے ہیں اور حلق کرواکے احرام کھول دیتے ہیں اور بڑے شیطان کو کنکربھی مارتے ہیں۔اس کے بعد طواف زیارت کے حرم مکہ جاتے ہیں اور واپس منی میں آجاتے ہیں۔اگلے دن تینوں شیطانوں کو کنکرمارتے ہیں اورعصرسے قبل منی سے روانہ ہوجاتے ہیں۔اس طرح شریعت کاحج مکمل ہوگیا لیکن عشق کا حج مکمل ہونے کے لیے مدینہ منورہ جاتے ہیں،گنبدخضراکادیدارکرتے ہیں،خدمت اقدس میں سلام عرض کرتے ہیں اورچالیس نمازیں بھی مسجد نبوی میں اداکرتے ہیں تاکہ روزمحشر شفاعت رسولﷺکے مستحق ہوسکیں۔حج کی تین اقسام ہیں۔حج افراد،حج قیران اور حج تمتع؛اگر عمرہ کیے بغیر براہ راست 8ذوالحجہ کو منی پہنچ کر مناسک حج اداکیے جائیں تویہ حج افرادکہلاتاہے۔اگرعمرہ کرنے کے بعد احرام نہ اتاراجائے اوراسی احرام میں حج بھی اداکرلیاجائے تو یہ حج قیران کہلاتاہے۔اوراگرعمرہ کرکے احرام کی پابندیوں سے آزادہوجائیں اور حج کے لیے الگ سے احرام باندھیں تویہ حج تمتع کہلاتاہے۔آپﷺ نے حج قیران کیاتھااورفرمایاتھا کہ اگراگلی دفعہ حج کیاتوحج تمتع کریں گے۔تینوں اقسام میں آسانی والا حج تمتع ہے۔اسی لیے حجاج کرام کی بہت بڑی اکثریت حج تمتع ہی کرتی ہے۔

            قرآن مجید نے حاجیوں کے لیے تقوی کوبہترین زاد راہ بتلایا ہے،احرام کے دوران اگر جملہ امور کی پابندی کر بھی لی لیکن تقوی اختیار نہ کیاتو حج و عمرہ کا صحیح فائدہ نہیں ہوا۔اتنالمباسفر اور بے پناہ اخراجات کے بعد زندگی میں کوئی واضع تبدیلی آنی چاہیے،رزق کے ذرائع اگر حلال نہیں تھے یا مشکوک تھے اب اس سفر سعادت کی برکت سے ان سے توبہ تائب ہو جانا چاہیے،حج یا عمرہ سے پہلے زبان پر مکمل کنٹرول نہیں تھا اور وقتا فوقتااول فول اور اخلاق بافتہ گفتگو زبان سے نکلتی رہتی تھی تو اب اس سے احترازکرنا چاہیے،حج و عمرہ کے سفرسے قبل اگر رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے ساتھ ناچاکیاں چل رہی تھیں اور تعلقات میں وسیع خلیج اور شکوک و شبہات اور غلط فہمیاں در آئی تھیں تو اس مقدس عبادت سے واپسی پر سب سے تعلقات میں واضع اور خوشگوار تبدیلی آ جانی چاہیے،اگر حج و عمرہ پر جانے سے پہلے جھوٹے مقدمات دائر کیے ہوئے تھے اور محض دوسروں کو پریشان کر نے کے لیے پرچہ بازی رچائی جایاکرتی تھی تو اب اتنے اچھے اچھے مقامات کی زیارت کر کے اس عمل بد کو ہمیشہ کے لیے خیرآباد کہہ دینا چاہے اورحج و عمرہ سے قبل فرائض کی ادائگی میں سستی رہ جاتی تھی،زکوۃ وعشرکی ادائگی میں دل تنگ ہواجاتاتھاتو اب اس کی پابندی میں وہم کی حد تک احتیاط کی جانی چاہیے۔المختصر یہ کہ جہاں اللہ تعالی کے ہاں حاجی کا حج لکھا جائے وہاں اس دنیاکے معاملات میں بھی اس حاجی کے عمل و کردار اور گفتگوسے پتہ چلے کہ اس حاجی

کی زندگی میں ان مقدس مقامات کی زیارت اور اس سفر سعادت نے خوب خوب اپنی حسن رنگت گھول دی ہے اور یہ حاجی اب خالصتاََاللہ تعالی کے رنگ میں رنگا گیاہے اورآخری نبی ﷺکی سنتوں سے اسکی زندگی آراستہ و پیراستہ ہو چکی ہے۔ان تبدیلیوں کے ساتھ حج و عمرہ اپنی حقیقت میں بھی حج و عمرہ ہو ں گے اور اپنے اثرات کے اعتبار سے بھی حج و عمرہ ہوں گے۔اللہ تعالی حاجیوں کے حج و عمرہ کو قبول فرمائے اور انہیں اس عبادت کے عملی تقاضے پورے کرنے کی توفیق عطافرمائے،آمین۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
50443

معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت ۔ تحریر صوفی محمد اسلم

معاشرے کی عمارت اخلاقیات، برداشت، رواداری اور محبت کے ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے اور جب یہ خصوصیات سماج سے رخصت ہوجائیں تو وہ تباہی کی طرف تیزی سے گام زن ہوجاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کا رجحان تیزی سے فروغ ہو رہا ہے  اس کے باعث تشدد پسند سرگرمیاں بھی سامنے آرہی ہیں۔ لوگوں میں برداشت کم ہوتی جارہی ہے، محض چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی تشدد کرتے ہیں۔ گھروں میں تشدد،  سکولوں میں تشدد، کھیل کی میدان میں تشدد ،یہاں تک کہ پارلیمنٹ میں بھی ایسے متشدد واقعات اکثر دیکھنے میں آتے ہیں، سوشل میڈیا پر تو اس حوالے سے کئی وڈیوز خاصی تیزی سے وائرل ہورہی ہیں۔ 

انسان ایک سوشل انیمل ہے جو ہمیشہ سے مل جل کر رہتے ہیں اسی طرح ایک معاشرہ تشکیل پاتی ہے۔ معاشرتی ارکیں میں مرد ،خواتیں اور بچے شامل ہیں۔جو الگ الگ شخصیات کے مالک ہوتے ہیں۔بعض اراکیں فطرتاً انتہائی جذباتی واقع ہوتے ہیں اور کسی بھی صورت حال میں اپنے اندر اٹھنے والے غصے کو قابو کرنا ان کے لیے انتہائی دشوار گزار مرحلہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ایسے شخصیات بھی ہوتی ہیں جو مشکل صورتحال میں جذبات سے ذیادہ صبر ،تحمل اور عقل سے کام لیتی ہیں۔جب یہ دونوں رویے آمنے سامنے آ جائیں تو عین ممکن ہے کہ منفی جذبات رکھنے والا شخص مثبت سوچ رکھنے والے انسان کے رواداری اور درگزر کو بھی اپنے منفی رویے سے ختم کردے اور نتیجتاًعدم برداشت کی وائرس وباء کی طرح ایک سے دوسرے کو لگتے لگتے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔

معاشرے میں پیش آنی والی پرتشدد اور کردار کشی کے واقعات کی جانچ کی جائے تو بنیادی طور پر ان واقعات کے پیچھے چار طرح کے نظریات پائ جاتی ہیں۔

1 مذہب
2 قومیت
3غیرت
4سیاست
آئیں پہلے مذہب کی بات کرتے ہیں۔ اگر ہم مختلف مذاہب کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ مذہب اہم شخصیات کےکردار گرد گھومتی ہے۔ پیروکاروں کے پاس انہی شخصیات کے افعال و اقوال بطور حوالہ جات موجود ہیں جن سے وہ رہنمائی حاصل کرکے اپنی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ کوئ بھی اپنے نظریات میں مداخلت برداشت نہیں کرپاتے ہیں۔ اس مداخلت کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں عدم برداشت بڑھتی جا رہی ہے۔مداخلت اور عدم برداشت کے سبب مزاہب کے پیروکاروں کے مابین فاصلہ بڑھتی جاری ہیں ۔ یہ حساس پہلو ہے اس  معاملے میں انتہائ سنجیدگی اور تدبر سے کام لینا ہوگا۔ جزباتی رویے سے بلاتر ہوکر برداشت اور رواداری سے پیش انا معاشرے کی اہم ضرورت ہے۔جزباتی اور غیر سنجیدہ تقاریر کی وجہ سے ہم دن بدن فرقہ واریت کے دلدل میں پھنستے جارہے ہیں۔

نسل یا قومیت پرستی 
یہ انسانی فطرت ہے کہ انسان کو اپنے گھر ، اپنے خاندان ، اپنے قبیلے ، اپنی قوم سے زیادہ لگا ہوتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کا گھر ، اس کا خاندان، اس کا قبیلہ ، اس کی قوم کو لوگوں اچھے الفاظ میں یاد کرے۔یہ فطرت بچپن میں اپنے خاندان تک محدود رہتی ہے وقت کے ساتھ ساتھ ماحول اس کے فطرت پر اثرانداز ہوتا ہےاسے خاندان سے نکال کر قبیلہ اور قوم کی طرف لیجاتی ہے۔ جس سے وہ مختلف قسم کے قوم پرستی یا نسل پرستی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کے رویےمیں بھی تبدیلی اجاتی ہے۔اپنے خاندان اور قبیلے کو افضل اور دوسروں کو حقیر سمجھ کر بے تکے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ دوستی اور قرابت داری میں بھی کردار سے زیادہ قومیت کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اس وجہ سے معاشرے میں ایک دوسرے سے دوریاں بڑھتی جارہی ہے ۔ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرپاتے ہیں۔ معمولی غلطی سرزد ہونے پر دوسروں کے خلاف اپنی پوری قوت سے ساتھ ٹکراتے ہیں۔ 

تیسری نمبر پر اتی ہے غیرت۔ غیرت کو ہم نمائشی الہ سمجھتے ہیں۔ انا پرستی اور غیرت میں فرق نہیں کیا جاتا ہے۔ انا پرستی کو غیرت کا نام دیکر ایسی کام کرجاتے ہیں جو اسلامی و اخلاقی نظریے سے اکثر ٹکراتی رہتی ہے۔ انا کی تسکین کیلئے معمولی تکرار پر قتل ،عداوت،  جسمانی اور جنسی تشدد کرتے ہوئے نہیں کتراتے ہیں۔ دشمنی نسل در نسل جلتی رہتی ہے۔جو غیرت مندی کے اصولوں کے سراسر خلاف ورزی ہے۔ اخبارات اور سوشل میڈیا پر ایسے واقعات کے انبار لگی ہوئ ہیں۔ جو غیرت کے علامات نہیں بلکہ عدم برداشت اور انا پرستی  کی علامت ہے۔

سیاسی عدم برداشت۔
یہ بھی ایک ایسا پہلو ہے جس کی وجہ معاشرے میں عدم برداشت کو فروعت حاصل ہوتی ہے۔ سیاست سے منسلک لوگوں میں برداشت کی فقدان کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ بڑے بڑے تعلیم یافتہ لوگ بھی سیاسی عدم برداشت کے دلدل میں پھنس چکے ہیں۔ مختلف پارٹیوں میں منقسم ہوکر اور مخالفت میں ایک دوسرے کو گالیوں سے مخاطب کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کی کردار کشی کی جاتی ہے۔مخالفت میں چادر اور چاردواری کی تقدس کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا ہے ۔ نازیبا الفاظ سرعام استعمال کرتے ہیں۔ایک دوسرے پر تہمت لگا کر ایک دوسرے کو نیچے دکھانے کی کوشش کی جاتی۔ اس کی اثر سے عام لوگوں میں  بھی ایک دوسرے کیلئے عصہ پائ جاتی ہے۔ 

عدم برداشت پڑھے لکھے لوگوں کو بھی نہیں چھوڑا ہے۔ سوشل میڈیا میں برداشت پر لیکچر دینے والے بڑے بڑے لکھاریوں کے سوچ ایک کمنٹ سے کھل کر سامنے آجاتی ہیں۔ انکی معمولی طبیعت مخالف کوئی کمنٹ کرے یا کوئی ان کے رائے سے اختلاف رائے کرنے کی جسارت کر لے تو اک منٹ میں یہ برداشت کے سبق کو بھول جاتے ہیں قلم چھوڑ کر عدم برداشت کے میدان میں اتر اتے ہیں جوکہ ایک المیہ ہے۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کوریاست مدینہ بنانے کی بات تو ہورہی ہے جو ہمارے خواہش بھی ہے مگر کیا ریاست مدینہ جن ستوں پر کھڑا تھا ان اصولوں پر کاربند رہنے کی ہم میں وہ ہمت و صلاحیت موجود ہیں۔ ریاست مدینہ کی بنیادی اصولوں میں سے ایک برداشت بھی ہے۔ کیا برداشت ،رواداری اور درگزر کا مادہ ہمارے اندر موجود ہے۔  جس کی مثال چودہ سو سال قبل رسول اللہ نے اخلاق ،تہذیب،برداشت اور درگزر سے دی  ہے ۔ طائف کی گلیوں میں لہولہان ہونے ،عزیز چچا کا کلیجہ چبانے والی ہندہ ، مکہ کی عظیم الشان فتح پر عام معافی کے اعلانات فخر سے ہم بیان تو کرتے  کیا عملی ذندگی میں اس پر عمل کرنے کی بھی اہلیت ہے ۔

دوسری طرف سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم لوگوں میں سے برداشت کیوں ختم ہوتی جارہی ہے۔اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی جائے تو یہ حقائق سامنے آتے ہیں کہ ہمارے عوام کی اکثریت کو گوناگوں مسائل کا سامنا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ مصائب بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔ ان میں انصاف کی فقدان، بیروزگاری اور مہنگائ وغیرہ مسائل شامل ہیں۔ پریشانیوں کا سامنا کرتے کرتے ہمارے عوام اذیت میں مبتلا ہوچکی ہیں۔ لوگوں کے ذہنوں پر اس صورت حال نے انتہائی منفی اثرات مرتب کئے ہیں، مسائل کا سامنا کرنا مشکل ہوچکی ہے۔اگر قریب سے دیکھا جائے عدم برداشت مجموعی طور پر ہمارے ہر طبقے کی بنیاد کھوکھلا کرچکا ہے۔اس عدم برداشت کی وجہ سے ہم مختلف گروہوں میں منقسم ہوکر مزید مسائل اپنی طرف مدعو کیے جارہے ہیں۔ عدم برداشت کی طرف ایسے بھاگتے جارہے ہیں کہ اگے نہ گھاٹی نظر اتی ہے نہ سامنے اٹھتی ہوئی طوفان۔

یہ حقیقت ہے کہ ہم اگر اپنے اندر برداشت کا مادہ پیدا کرلیں تو صورت حال خاصی بہتر ہوسکتی ہے۔ صرف برداشت پیدا کرنے سے ہی معاشرے کا امن و چین لوٹ سکتا ہے۔ انسان ہونے کے ناتے کسی پر بھی تشدد کرنا کسی طور مناسب نہیں۔ یہ ہر لحاظ سے قابل مذمت امر ہے لہٰذا بہتری اسی میں ہے کہ تشدد اور عدم برداشت کے رویوں سے جان چھڑائی جائے۔ اعلیٰ اخلاقی اقدار کو فروغ دیاجائے ۔ مساجد،  سکول اور مدارس میں باقاعدہ برداشت پر درس دیا جائے۔ تبہی ہم اس پر قابو پاسکتے ہیں۔
وما علینا الاالبلاع۔


تحریر صوفی محمد اسلم

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
50430

مختصرسی جھلک – ارکاری ویلی اورلڑکیوں کے تعیلمی مسائل- فریدہ سلطانہ فَریّ

مختصرسی جھلک – ارکاری ویلی اورلڑکیوں کے تعیلمی مسائل- فریدہ سلطانہ فَریّ

قسط نمبر ۲

یہ توہم سب جانتے ہیں کہ تعلیم انسان کےلیےعقل وشعور کے دروازے کھول دیتی ہےمگراِن دونوں تک رسائی کے لیے زمینی وسائل اورسہولیات تک دسترس بھی بے حد ضروری ہے۔جن کی بنیاد پرکم ازکم بنیادی تعلیم یعنی پرائمری تک سب کی رساِئی اسانی سے ممکن ہوسکے۔۔۔۔۔۔

arkari road p

ارکاری ویلی کا دورہ کرنے کے بعد  مجھے اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ یہاں کسی بھی سطح کی تعلیم خصوصا بنیادی تعلیم تک بھی سب کی رسائی نہایت مشکل سے ہوتی ہےخصوصا بچیوں کی …کیونکہ یہاں کا سب سےبڑآ مسئلہ ٹرانسپورٹ کا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔جس طرح ان کے اباواجداد تعلیم کی خاطرمیلوں پیدل چل کران سکولوں تک پہنچتے تھے.

بد قسمتی سےاج بھی بلکل اسی طرح اس دور میں ان کے بچے بھی انہی کی طرح میلوں پیدل سفر کرکے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ پراِئمری سکولوں کے کم عمر چھوٹے چھوٹےبچے اور بچیاں بھی سکول پہنچنے کے لئے ادھآ دن کا سفر طےکرتے ہیں ۔۔۔۔۔ ایک بچی کا کہنا تھآ کہ صبح سویرے سکول کونکلنا توہمارا روزمرہ کا روٹین ہےمگر ہم  لوگ پیپر کےدنوں میں تو۳ بجےاٹھ کرسکول کے لیے روانہ ہوتے ہیں۔ اب یہ تمام مشقت اپنی جگہ اگرہم اس کوایک اورخطرناک پہلو سے دیکھےتودل ہل جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

اس سفر کے دوران مختلف موسمی خطرات کا بھی خدشہ ہے کیونکہ پہاڑی علاقے اور تنگ و باریک کچے راستے۔۔۔۔۔ اب اگر خدا نخواستہ ان حالات میں اس بچے یا بچی کے ساتھ کوئی بھی حادثہ پیش اجاتا ہے تو اس کی زندگی کا زمہ دار کون ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ سال پہلےکریم اباد میں ایسے ہی سکولوں کوجاتے طالب علم بچے بچیاں  جو انکھوں میں روشن مستقبیل کے سہانے خواب سجا کر گھروں سے نکلے تھےایک دم برفانی تودوں کی نظر ہوگیےتھے۔

ان حالات میں تو کسی نے آن کی زمہ داری نہیں لی تواب اِن بچیوں کے ساتھ خدا نخواستہ کسی حادثے کی صورت میں کیا کوئی زمہ داری لے سکتا ہے ہرگز نہیں،،،،۔۔۔یہ بچارے لوگ تعلیم کی خاطرجانیں ہتھلیوں پہ رکھ کرایک اچھے مستقبیل کی امید میں مہوسفرہیں ۔۔۔۔

ایک اوراہم بات یہ کہ بچیوں کے لیے موسمی خطرات کے علاوہ اوربھی کئی معاشرتی مسائل جنم لینے کا خطرہ بھی ہےاس کے ساتھ ساتھ میلوں پیدل چل کر ان کی صحت بھی تباہ ہوجاتی ہے کیونکہ غربت کی وجہ سےخوراک بھی ان کو ٹھیک سے نہیں مل پاتِی اس طرح مشقت بھری زندگی کی وجہ سے یہ بچےاوربچیاں بےحد کمزوراوربیمار سےنظر اتے ہیں۔ 

 اب ایسےحالات میں مختلف خطرات سے نکل کربھوکے پیاسےاور تھکے ہارے جب یہ طالب علم سکولوں میں پہنچتے ہیں تووہاں بھی کوئی سہولیات سے بھرپور سکول ان کا منتظر نہیں ۔۔۔۔

جب یہ بچے بچیاں سکول پہنچتی ہیں تو وہاں یا تواستاد نہیں ہوگا یا پھراستاد کی تعداد طالب علم کی تعداد کے مطابق نہیں ہوگی یا پھراساتذہ غیرحاصر یا پھرسب سے بڑا مسئلہ اسا تذہ کی اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ طالب علموں کو ان کی ضرورت کے مطابق پڑھآ سکے۔۔میں اپ کو بتاتی چلوں میں نے یہاں بہت سے اور بڑے مسائل جیسے غربت ، لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک ،کم عمری کی شادِی وغیرہ کوتوبلکل بھی نہیں چھیڑا ہے اج کے لیے اتنا ہی باقی کہاںی پھر صیح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے                          

arkari valley chitral
arkari valley chitral
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged , , , , , ,
50428

عیدالاضحی پر صفائی کے مسائل اور ہماری ذمہ داریاں – پروفیسرعبدالشکور شاہ


دروازے کی گھنٹی بجی تو بچہ دروازہ کھولنے کے لیے بھاگا۔ ماں نے پوچھاکون ہے؟ جواب آیاکوڑے والا ہے۔ ماں نے بیٹے کو بلایا اور پیار سے سمجھایا بیٹا کوڑے والے تو ہم ہیں وہ تو کوڑا صاف کرنے والا ہے۔ماں کے اس جملے نے بچے کے رویے میں کتنی تبدیلی لائی اس کا ندازہ لگانا مشکل ہے۔ ہمیں بھی اس عید اپنے رویوں کو بدلنا ہے تاکہ یہ عید ہمارے ملک کی سب سے شاندار، صاف ستھری اور خوشیوں سے بھر پور عید ہو۔ یہ تہورہمارے اندر دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔عید ہمیں غریبوں، محتاجوں اور ضرورت مندوں کا خیال رکھنے کا درس دیتی ہے۔ عید الاضحی ہمیں قربانی کے علاوہ بھی بہت سارے درس دیتی ہے۔ ہم عید کے موقعہ پر قربانی کے علاوہ باقی سارے اسباق بھول کر گوشت سے گوشت تک محدود ہو جاتے ہیں۔ہمار ا دین ایک کامل دین ہے اور قربانی کے ساتھ ساتھ صفائی کا درس بھی دیتا ہے۔

حتی کہ یہاں تک فرمایا گیا ہے صفائی نصف ایمان ہے۔ عید سے پہلے ہی ہمارے گلی محلوں میں جانوروں کے فضلے کی بدبو شہریوں کے ناک میں دم کر دیتی ہے۔ جہاں ہم قربانی کے جانور کا خیال رکھتے ہیں وہاں ہمیں اپنے ارد گرد بسنے والے انسانوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ ہم ہزاروں لاکھوں روپے صرف کر کے جانور خریدتے ہیں اگرتھوڑے سے پیسے مزید خرچ کر کے قربانی سے پہلے انکو گلیوں میں باندھ کر سارے علاقے کو گوبرزدہ کرنے کے بجائے نہیں کسی محفوظ جگہ پر باندھیں اور ان کی دیکھ بھا ل کا خیال رکھیں تو ہم زیادہ نیکیاں حاصل کرسکتے ہیں۔ اس ضمن میں حکومت کو کوئی ایسی جگہ مختص کرنی چاہیے جہاں پر لوگ قربانی سے پہلے کچھ پیسے ادا کر کے اپنے جانور رکھیں اور ان کی دیکھ بھال کا انتظام کریں۔

اس اقدام سے نہ صرف قربانی کرنے والوں کی مشکلات کم ہوں گی بلکہ ماحول کو بھی صاف ستھرا رکھنے میں مدد ملے گی۔ گلی محلے میں موجود گندگی انسانی صحت کے لیے مضر ہونے کے ساتھ ساتھ اس عظیم تہوار کی خوشیوں کا بھی ماند کر دیتی ہے۔ ہم خود سجتے سنورتے، گھروں کو صاف کر تے، خوشبولگاتے، صاف ستھرے کپڑے پہنتے ہیں مگر ہم اپنی گلیوں محلوں میں صفائی کا خیال بھول جاتے ہیں۔ ہم اس تہوار پر سادگی اور میانہ روی کے اسلامی اصولوں کو بھی پس پشت ڈال کر مزے مزے کے کھانے پکاتے اور کھاتے ہیں جبکہ ہمارے گردونواع میں موجود بہت سارے لوگ بڑی مشکل سے گزر بسر کر تے ہیں۔ اگر ہم گوشت کے علاوہ باقی چیزوں کی قربانی بھی دیں تو کیا ہی بہتر ہو۔ ہم اضافی گوشت کسی غریب کو دینے کے بجائے فریج میں رکھ لیتے۔ عید کے دوران تقریبا ہر گھر کا فریج گوشت سے بھر جا تا ہے مگر ہم نے کبھی ان لوگوں کے بارے نہیں سوچا جن کے پاس فریج بھی نہیں ہے۔

مجھے یاد ہے ایک حاجی صاحب نے ایک غریب کو بلا کر کہا جتنا گوشت چاہیے لے لو۔ پہلے تو وہ اسے مذاق سمجھا مگر جب اسے یقین دلایا گیا تو اس نے محض دو کلو کے قریب گوشت لیا۔ اس سے پوچھا گیا اتنا کم کیوں لیا تو بولا حاجی صاحب رکھوں گا کہاں فریج نہیں ہے خراب ہو جائے گا اس سے بہتر ہے کسی فریج والے کو دے دیں تا کہ ضائع نہ ہو۔ ہم اس کے برعکس چلتے اگر ہمارا فریزر بھر جائے تو پڑوسی کے فریزر میں جمع کر لیتے۔ہم سیخ کباب، کڑاہی، روسٹ وغیرہ سے لطف اندوز ہوتے اور ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ بھی رہتے جن کو دو وقت کا کھانا دستیاب نہیں ہوتا۔ قربانی صرف گوشت کا نام نہیں ہے۔ہمیں عیدسے قبل اس با ت پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم کس طرح اپنے ماحول کو صاف ستھرا رکھ سکتے ہیں۔قربانی کے جانوروں کے لیے خریدا جانے والا چارہ جو جانوروں کے کھانے کے بعد بچ جاتا ہے ہم اپنا قربانی کا جانور سنبھالتے مگر وہ چارہ اور جانور کا گوبر گلیوں میں ہی پڑا رہتا جو ماحولیاتی آلودگی کا باعث بنتا۔ جانوروں کا چارہ عموما پلاسٹک کے شاپروں میں لا یاجا تا ہے اور یہ پلاسٹک کسی بیماری سے کم نہیں ہے۔

اگر ممکن ہو تو پلاسٹک کے شاپر استعمال کرنے سے پرہیز کریں۔ عید کے موقعہ پر خاندان پارکوں یا صحت افزاء مقامات کارخ کرتے ہیں۔ اگر چہ کرونا کی وجہ سے اس بار یہ منظروسیع سطح پر تو دیکھنے کو نہیں ملے گا، پھر بھی ہمیں پارکوں اور صحت افزاء مقامات کی صفائی کا خاص خیال رکھنا ہے۔ اگر ہم صحت افزاء مقامات اور پارکوں کو گنداکر دیں گے تو پھر ہم گھر سے باہر کہاں جائیں گے۔ ہماری ان چھوٹی چھوٹی لاپرواہیوں کی وجہ سے اس وقت دنیا کو ماحولیاتی آلودگی کے مسلے کا سامنا ہے۔ ہمیں اس تہوار پر اپنے رویوں کو بدلنا ہے اور ماحول دوست روش اختیا ر کرنی ہے۔ عید کی خوشیوں میں مگن ہم اپنے ماحول اور صفائی کو بھول جا تے ہیں۔ خوشی اورتفریح ہماری آنکھوں کو بند کر دیتی ہے۔عید سے کچھ دن پہلے جانوروں کی منڈیاں سج جاتیں ہیں۔ منڈیوں میں نہ تو صفائی کو کوئی نظام ہو تا ہے اور نہ ہی ایس او پیز پرعمل درآمد ہو تا ہے۔

منڈیوں میں جانور لانے والے اکثر صفائی کے ناقص نظام، پانی کی عدم دستیابی اور ناکافی سہولیات کی شکایات کر تے ہیں۔ عید کے بعدیہ منڈیاں گندگی اور غلاظت کا ڈھیر نظر آتیں ہیں۔ ان منڈیوں کے علاوہ شہر میں چلتی پھرتی منڈیوں کی بھی بھر مار نظر آتی۔ ہر چوک، ہر نکڑ اور ہر چوراہے پر افراد ٹولیوں کی شکل میں قربانی کے جانور لیے گھوم رہے ہوتے۔ یہ جہاں جاتے وہاں ماحول کو آلودہ کرتے جاتے۔ ان کا کوئی ایک ٹھکانہ نہیں ہوتا اس لیے حکومت کو چاہیے کہ ان افراد پر پابندی لگائے اور منڈی کے علاوہ جانوروں کو فروخت کر نا غیر قانونی قرار دے۔ یہ گھومتی پھرتی منڈیاں ٹریفک کے نظام کو بھی درہم برہم کر کے رکھ دیتی ہیں۔ قربانی کے جانور چوری ہونے کے ڈرسے انہیں گھروں کے اندر یا باہر گلی میں باندھ دیے جاتا ہے مگر ہم اس حقیقت سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں کہ اگر کسی بھی جانور کو کانگو وائرس ہوا تو یہ اس جانور سے انسانوں تک منتقل ہو سکتا ہے۔

کانگو وائرس بہت خطرناک اور جان لیوا ہے۔ مگر اس سے بھی سنگین معاملہ قربانی کے جانوروں کو ذبح کرنے کا فریضہ انجام دینے کے بعد شرو ع ہو تا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں ذبح کیے جانے والے جانوروں کا خون ہم نالیوں میں بہادتے ہیں جو پانی کے زیر زمین زخیرے کے ساتھ شامل ہو کر ہماری صحت کے لیے مضر ثابت ہوتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم قربانی کے جانور یا تو ذبح خانے لے جا کر ذبح کر وائیں یا کم از کم خون پانی کے ساتھ دھو کر نالیوں میں بہانے سے اجتناب کریں۔ قربانی کا جانور ذبح کر نے کے بعد ہم جانوروں کی آلائیشیں اور دیگر بے کار اجزاء کھلے عام پھینک دیتے ہیں جو تعفن کے ساتھ ساتھ بے شمار بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کے ان اشیاء کو خود پھینکنے کے بجائے حکومت کی مقرر کر دہ ٹیم کے حوالے کریں تا کہ وہ انہیں تلف کر دیں۔ کھلی جگہوں پر پھینکنے سے چوہیے، گدھ، کتے اور دیگر جانور اور پرندے ان کو کھاتے ہیں اور پھر ہمیں بہت سی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔کچھ لوگ آلائیشوں کو اپنے قریبی کھلی جگہ یا کسی خالی پلاٹ میں پھینک دیتے ہیں اور یہ امید کرتے ہیں کہ حکومت کی مقرر کر دہ ٹیم وہاں سے اٹھا لے جائے گی۔ ہمیں ایسا کرنے سے اجتناب کر نا ہے تبھی ہم اپنے ماحول کو آلودہ ہونے سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

متحدہ عرب امارات اور دیگر غیر ملکی ممالک میں قربانی کا فریضہ انتہائی صاف ستھرے مقام پر بڑے منظم انداز میں ادا کیا جا تا ہے۔ مگر ہمارے ملک میں اس طرح کا تصور ابھی تک ناپید ہے۔ ہمارے ہاں نام نہاد موسمی قصائی بھی قربانی کے گوشت کا ستیاناس کر دیتے ہیں۔ بعض معاملات میں تو انہیں صحیح طریقے سے ذبح کر نا بھی نہیں آتا اور ان کی طہارت کے بارے بھی میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس لیے بہتر یہی ہے کے مالک جانور خود ذبح کرے۔

قصائی جانوروں کی کھال بھی خراب کر دیتے ہیں جس سے کھال لینے والوں کو کافی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عید کے بعد ہمارے ہاں وعید والا ماحول دیکھنے کو ملتا ہے۔ کچھ لوگ تو ان آلائیشوں کی بدھو سے اتنا متنفر ہو کر گوشت کھانے سے بھی انکار کر دیتے ہیں۔قربانی کے گوشت کو فریج میں کئی ہفتوں تک فریز رکھنے کے بعد کھانے سے بھی بہت سی بیماریاں لاحق ہو تی ہیں جن میں دل کے امراض، بلڈ پریشر، شوگر اور دیگر بیماریوں قابل ذکر ہیں۔صحت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں اپنی صحت کے ساتھ ماحول کو صاف رکھ کر دوسروں کی صحت کا بھی خیال رکھنا ہے۔ ملک کو صاف رکھنا صرف محکمہ صفائی کا کام نہیں ہے بلکہ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ یہ ہم سب کا ملک ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , ,
50426

بزمِ درویش – ڈاکٹر یا قصائی – تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

لا ہو ر کا مشہور و معروف پرائیوٹ ہسپتا ل مریضوں لواحقین ڈاکٹروں نرسوں اور عملے سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا انسان سیلا ب کی طرح یہاں امڈ آئے تھے یہاں پر انسانوں کا جیسے دریا بہہ رہا ہوں یوں لگ رہا تھا جیسے پورا لاہور یہاں ہی اکٹھا ہو گیا ہو لوگوں کی وضع قطع سے لگ رہا تھا کہ اہل لا ہور کے علاوہ پنجاب کے دور دراز کے علاقوں سے بھی لوگ یہاں مسیحائی کی تلاش میں آئے تھے ہسپتال کی انتظامیہ اور ڈاکٹر حضرات جلادوں کی طرح مریضوں کے جسموں کا قتل عام کر رہے تھے لواحقین بچارے ساری عمرکی پونجی اپنے پیا روں کی زندگی کے لئے لٹائے جا رہے تھے پنجاب کے دور دراز علا قوں سے آئے ہو ئے لوگ اپنی زمینیں مویشی اور زیوارت بیج کر بھیڑیا صفت ڈاکٹروں کے ہتھے چڑھے ہو ئے تھے اہل لا ہور تو پر اعتماد طریقے سے آجا رہے تھے جبکہ دیہات سے آئے ہو ئے لو گ اپنا آپ لٹا کر بھی تحسین آمیز نظروں سے ڈاکٹروں کو دیکھ رہے تھے.

پیچارے اپنے لئے یہاں ایک اعزاز سمجھ رہے تھے ڈرے ڈرے سہمے سہمے لو گ قطار در قطار بیٹھے کھڑے نظر آرہے تھے ڈاکٹر تو ڈاکٹر چھو ٹا عملہ بھی اپنی لو ٹ ما ر میں مصروف تھا سادہ لو ح دیہاتی اِن خا کروبوں سیکو رٹی گارڈ وں اور گیٹ کیپروں کے ہا تھوں لٹ رہے تھے ڈاکٹر اور دوسرا عملہ فاتحانہ شان سے لوٹ ما ر میں مصروف تھا انسان کے دوروپ یہاں نظر آرہے تھے ایک تو انتظامیہ اورڈاکٹر جو اپنی اپنی آخرت بر باد کر نے پر تلے ہو ئے تھے دوسری طرف لو گ اپنے پیا روں کی سانسیں طو یل کر نے کے لئے سر دھڑ کی با زی لگا ئے ہو ئے تھے اکاد کا کو ئی مریض روتے دھاڑتے نظر آتے یہاں زندگی اور مو ت انسان کے دونوں روپ نظر آرہے تھے۔ میں کسی بیما ر کی بیما ر پر سی کے لیے یہاں آیا ہوا تھا

مجھے ساتھ لا نے والے اِس انتظار میں تھے کہ کب اندر سے اجا زت ملے اور وہ مجھے لے کر اپنے مریض تک جا ئیں میں انتظار میں کھڑا مریضوں اور ان کے لوا حقین کو مشاہداتی نظروں سے دیکھ رہا تھا کہ اچانک میرے جاننے والا ایک شخص میرے پا س آیا اور بو لا سر آپ یہاں کیسے آئے ہو ئے ہیں میں نے بتا یا کسی کو ملنے تو وہ بولا سر میں بھی اپنے بھا ئی کو یہاں لے کر آیا ہوں جس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا پہلے تو وہ اِدھر ادھر ڈاکٹروں پھر سرکا ری ہسپتالوں کے چکر لگا تا آیا پھر ہمیں سر کا ری ہسپتا ل میں فرشتہ صفت ڈاکٹر مل گیا جو شام کو یہاں پریکٹس کر تا ہے اس کو ہما ری حالت پر ترس آگیا لہذا وہ ہمیں یہاں لے کر آگیا ہے اب ہما را مریض یہاں پر داخل ہے پیسے تو بہت لگ رہے ہیں

لیکن پیسے بندہ کما تا کس لئے ہے جان ہے تو جہاں ہے ہم پیسے پانی کی طرح بہا رہے ہیں ہم نے ڈاکٹروں کو کہہ دیا ہے کہ پیسہ جتنا مرضی لگ جا ئے ہما رے مریض کو بچنا چاہیے اور سر آپ یہاں آئے ہیں تو پلیز ہما رے مریض کو بھی دیکھتے جا ئیں میں جس مریض سے ملنے آیا تھا ادھر ابھی دیر تھی اِس لیے میں اِس بندے کے ساتھ چل پڑا اس کے کمرے کی طرف جا تے ہو ئے راستے میں مجھے ایک جاننے والا ڈاکٹر مل گیا جو یہاں پر ہی کام کر تا تھا مجھے دیکھ کر بہت حیران اور خو ش ہوا اور میرے ساتھ ہی چل پڑا ہم باتوں کے دوران ہی مریض کے پرائیوٹ کمرے میں پہنچ گیا مریض کی ٹانگ ٹو ٹی ہو ئی تھی وہ مہنگے ترین کمرے میں آرام دہ بیڈ پر لیٹا ہوا تھا اس کی ٹا نگ پر پلستر چڑھا ہوا تھا۔ میرے ساتھ آئے ڈاکٹر نے اس کی رپو رٹس دیکھنی شروع کر دیں ساری رپو رٹیں دیکھنے کے بعد مریض سے با ت چیت اورایکسرے دیکھنے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے میری طرف دیکھا اور مجھے اشارہ کیا کہ علیحدہ ہو کر میری بات سنیں ہم کمرے سے نکل کر با ہر راہداری میں آئے تو ڈاکٹر سر گو شی میں بو لا مریض کی ہڈی جڑ چکی ہے

اب چند دنوں کے اندر اندر خو د ہی درد ختم ہو جا ئے گا یہاں پر ڈاکٹر صاحب نے اپنی لوٹ ما ر کے لیے مریض کو رکھا ہوا ہے اِس کو اب کسی بھی قسم کے علاج کی اب کو ئی ضرورت نہیں ہے کیو نکہ میں یہاں پر جاب کر تا ہوں اِس لیے میں یہ با ت کھل کر نہیں کر سکتا۔ بہتر یہی ہے کہ آپ مریض کو یہاں سے واپس لے جا ئیں اب یہاں اِس کا کسی قسم کا بھی علاج نہیں ہو رہا۔ اب صرف لو ٹ مار ہو رہی ہے۔ میں نے آکر مریض اور اس کے بھائی کو بتا یا کہ اب آپ گھر چلے جا ئیں اب آپ کو علاج کی ضرورت نہیں اب جب انہوں نے انتظا میہ سے کہا کہ ہمیں ڈسچارج کر دیں تو انتظا میہ نے صاف انکار کر دیا کہ اِس بات کا فیصلہ ڈاکٹر صاحب کریں گے جب ڈاکٹر صاحب سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بھی انکا ر کر دیا کہ بلکل بھی نہیں۔

ابھی آپ چند دنوں اور یہاں ٹہریں اس لیے کہ میں آپ کا علاج کر سکوں۔ اب میں اپنے دوست ڈاکٹر صاحب کے ساتھ دوسرے مریض کو ملنے گیا جس کی وجہ سے میں یہاں آیا تھا۔ اب ہم اس مریض کے پا س گئے جس کو ICUمیں رکھا گیا تھا ڈاکٹر صاحب نے جا تے ہی مریض کو پہچان لیا وہ پہلے سے اِ س مریض کو جانتے تھے لیکن ہما ری تسلی کے لیے رپورٹس پڑھنی شروع کر دیں مریض کو دماغ کی چوٹ لگی جس کی وجہ سے یہ پچھلے 10دن سے بیہو ش تھا جب لا ہور کے تما م سرکا ری ہسپتالوں نے اِس کو تقریبا مر دہ قرار دیا کہ اب یہ قابل علا ج نہیں ہے تو لو ٹ مار کے سپیشلسٹ اِس ہسپتال نے اِس مریض کو اپنے پاس داخل کر کے وینٹی لیٹر پر چڑھا دیا گا ں سے سادہ لو ح لو گ اِ س با ت پر ہی ڈاکٹروں اور ہسپتال انتظامیہ کو دعائیں دے رہے تھے کہ ہمیں تمام ڈاکٹروں اور ہسپتالوں نے جواب دے دیا تھا

یہ ہسپتال والے کتنے اچھے ہیں ہمیں یہاں داخل کیا اوراب پچھلے کئی دن سے پو ری جان تو ڑ کو شش کر رہے ہیں مریض پر یہاں لو ٹ مار اپنے نقطہ عروج پر تھی لوا حقین تقریبا پندرہ لا کھ اِس مریض پر لگا چکے تھے اور لو ٹ مار کا یہ سلسلہ ابھی شرمندہ اور پریشان نظر آرہا تھا مجھے ایک طرف لے جا کر کہنے لگا سر میں اِس کیس کو پہلے سے جانتا ہوں یہ مریض ہما رے حسا ب سے مر چکا ہے دماغ اِس کا ڈیڈ ہو چکا ہے اب وینٹی لیٹر پر مصنو عی سانسوں پر اِس کو لٹکا یا ہوا جس دن لوا حقین کے پاس پیسے کم ختم ہو جا ئیں گے یا تھک جا ئیں گے تو یہ وینٹی لیٹر اتار کر لا ش ورثا کے حوا لے کر دیں گے کہ ہم نے تو پو ر ی کو شش کی ہے اب اللہ کو ہی منظور نہ تھا یہ ہسپتال بد نا م زمانہ جب لا ہور کے تمام ڈاکٹر اور ہسپتال مریض کو لینے سے انکا ر کر دیتے ہیں تو یہ مریض کو ویلکم کہتے ہیں مریض کے پیا رے اپنے آپ کو بیچ کر کہتے ہیں ہما رے مریض کو بچالیں

جتنا پیسہ چاہیے ہم دیں گے پھر مریض کے گھر والے اپنی جائیدادیں زیوارت اور جمع پو نجی یہاں لٹا کر ڈیڈ با ڈی یہاں سے لے کر چلے جا تے ہیں یہاں پر کام کرنے والے ڈاکٹر مختلف سرکا ری ہسپتالوں سے مریض مرغیاں بنا کر یہاں لا تے ہیں اور پھر انہیں یہاں ذبح کر تے ہیں مظلوم مریض بیچارے ڈاکٹروں کو مسیحا سمجھ کر ان کی ہر بات مانتے ہیں کہ ڈاکٹر تو زندگی بچانے والے ہیں یہ ڈاکو تو ہو ہی نہیں سکتے اور یہ ڈاکٹر مسیحا کے روپ میں ڈکیتی کر تے ہیں اور پھر فخریہ انداز میں بیٹھ کر اپنی لو ٹ ما ر کے قصے لہک لہک کر سناتے ہیں ڈاکٹروں کو اچھی طرح پتہ ہو تا ہے کہ مریض اب مر چکا ہے

لیکن یہ مر دہ انسان کے ساتھ لو ٹ ما ر کر تے ہیں مردہ انسان کے لواحقین کو جھوٹے خو اب دکھا کر ان کے روپے پیسے کو ہڑپ کر جاتے ہیں میں حیرت سے ڈاکٹر صاحب کی با توں کو سن رہا تھا اور آتے جا تے ڈاکٹروں کو دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ اِن کو بلکل بھی احساس نہیں کہ انہوں نے بھی مر نا ہے اِن کے گھر والوں کو مرنا ہے روز محشر بھی بر پا ہو ناہے ہر عمل کا جواب دہ ہو نا ہے اِن کو خدا رسول مذہب اخلا قیات کا بلکل بھی احساس نہیں فطرت کے اِس اصول کا احساس نہیں کہ جیسا کر گے ویسا بھرو گے مجھے اچانک لگا میں بہت بڑے ذبح خانے میں ہوں جلاد بے دردی سے زندہ انسانوں سے گا جر مو لی کی طرح کا ٹ رہے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
50394

داد بیداد – 1971کا پشاور – ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

ایک دوست کے ساتھ آ سا ما ئی دروازے کے اندر دا خل ہو کر دیکھا تو دروازہ نہیں تھا دوست نے کہا آسا ما ئی دروازہ کد ھر ہے؟ دوست کو بتا یا یہی جگہ ہے جہاں دروازہ تھا وقت کی نا قدری نے دروازہ غا ئب کر دیا اندر شہر کی سیر کرو دائیں ہاتھ مڑ کر دالگران کے راستے قصہ خوا نی میں دا خل ہو جا ؤ پھر میں تمہیں بتا و نگا کہ 1971میں پشاور کیسا تھا؟ ”نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں“ پچاس سال پہلے مسجدوں کے دروازوں پر ایک ہی تختی ہو تی تھی ”اپنے چپل کی خود حفا ظت کریں“ اب دو تختیاں ہو تی ہیں ایک پر چپل کی حفا ظت لکھی ہے دوسری تختی پر نئی عبارت در ج ہے ”مو بائل فو ن بند کریں“ آج قصہ خوا نی کا پورا نقشہ بدل گیا ہے

پورے بازار میں ”تا ج سوذا“ کے سوا نصف صدی پہلے کی کوئی دکا ن آپ کو نہیں ملے گی مسا فروں کے ٹھہر نے کی سب سے اچھی جگہ دو منزلہ سرائے ہوتی تھی سرائے میں چار پا ئی کا ملنا بہت بڑی بات تھی شہر میں کوئی نیا ہو ٹل بنتا تو ہو ٹل کے بورڈ پر جلی حروف میں فلش سسٹم کا اشتہار لکھ دیا جا تا گو یا پر تعیش زند گی کی یہ نعمت ہر جگہ دستیا ب نہیں تھی اُس زما نے میں نیٹ کیفے کا نا م کسی نے نہیں سنا تھا جدید چا ئے خا نوں کو کیفے کہا جا تا تھا سینما روڈ پر خور شید کیفے اور خیبر بازار میں کیسینو کیفے ہو ا کر تے تھے یہاں فر ما ئش پر گرا مو فو ن ریکارڈ سننے کی سہو لت ہو تی تھی

ایک مہما ن کا غذ کے ٹکڑ ے پر فلم بڑی بہن یا مغل اعظم کا کوئی گا نا لکھ کر دے دیتا دوسرا مہمان فلم اوارہ کا گا نا لکھ دیتا تیسرا مہمان فلم سر فروش کا گا نا لکھ دیتا باری باری ہر ایک کی فر ما ئش پوری کی جا تی سارا دن رونق لگی رہتی رات دیر تک کیفے کھلے رہتے کا بلی چوک میں تانگے کھڑے ہو تے دو روپے میں چھ سواری صدر تک جا تے، جی ٹی ایس کی ڈبل ڈیکر بس روڈ ویز ہا وس ہشتنگری سے اسلا میہ کا لج تک جا تی تھی دو سواریوں کا ایک روپیہ کرا یہ تھا طا لب علموں کے لئے نصف کرایے کی رعا یت تھی ایک روپے میں چا رسواری منزل مقصود پر پہنچتے تھے.

مو لا نا حا لی نے کیا بات کہی وقت پیری اور شباب کی باتیں ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں پشاور شہر اور صدر میں سات سینما گھر تھے پھر امان سینما گھر تعمیر ہوا تو تعداد آٹھ ہو گئی فلموں کے ٹکٹ کے لئے ٹکٹ گھر کی کھڑکیوں پر ہجوم لگتا تھا کوئی فلم زیا دہ مقبول ہو تی اور کئی ہفتے چلتی تو اشتہار میں لکھ دیا جا تا ”دسواں کھڑ کی توڑ ہفتہ“ ٹکٹ دینے والے با بو یا گیٹ کیپر سے واقفیت بہت بڑی بات ہو تی تھی سینما دیکھنا عمو ماً نو جوا نوں اور اوباش لو گوں کا شغل سمجھا جا تا تھا اگر کوئی داڑھی والا فلم دیکھنے جا تا تو چادر سے منہ اور داڑھی کو چھپا لیتا تھا پھر ٹی وی آیا پھر وی سی پی آگیا اس کے بعد کیبل اور ڈی ٹی ایچ آیا، یو ٹیوب کے کما لات دیکھنے میں آئے نہ سینما گھروں کی حا جت رہی نہ ٹکٹ گھروں کی ضرورت رہی نہ ٹکٹ گھر کے با بو اور گیٹ کیپر کی منت اور تر لے رہے.

اب مو نچھوں والا بھی گھر بیٹھے عیا شی کے مزے لوٹ رہا ہے اور داڑھی والا بھی گھر بیٹھے فلم دیکھ رہا ہے اگر چہ داڑھی اور منہ چھپا نے کو ما سک عام ہو گیا ہے تا ہم اس کی چنداں حا جت نہیں پلک جھپکنے میں 50بر س بیت گئے 1971کے پشاور کا ہارڈ وئیر بھی تبدیل ہوا، سافٹ وئیر بھی تبدیل ہوا چنا نچہ اب دیکھی بھا لی صورت پہچا نی نہیں جا تی آج ہم دیکھتے ہیں آئے روز جنا ح پارک کے قریب اسمبلی چوک پر احتجا جی جلسے اور جلو س ہو تے ہیں آنسو گیس کی شیلنگ ہو تی ہے.

انگریزوں نے پشاور میں کوئی اسمبلی ہا ل نہیں بنا یا تھا فیلڈ مار شل ایوب خا ن کی بنا ئی ہوئی رورل اکیڈ یمی کی عمارت میں اسمبلی کے اجلاس ہو تے تھے اور یہ عما رت شہر سے کوسوں دُور واقع تھی آج یہ جا ن کر حیرت ہو تی ہے کہ انگریز جمہوریت پر فخر کرتے تھے پختونوں کے لئے اسمبلی کی کوئی عما رت انہوں نے کیوں نہیں بنا ئی؟ کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ انہوں نے سوچ سمجھ کر نہیں بنا ئی میں اپنے دوست کے ہمراہ واپس آسا ما ئی دروازے کے قریب پہنچ گیا ہوں لیکن میرا دل نصف صدی پہلے کے پشاور میں بھٹک رہا ہے

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
50387

آغاخان مڈل سکول شیراندور سہت کی افتتاحی تقریب- تحریر: سردار علی سردارؔ

آغاخان مڈل سکول شیراندور سہت کی افتتاحی تقریب- تحریر: سردار علی سردارؔ

آغاخان پرائمری سکول سہت بالا موڑکہو  1987ء سے  قائم ہے جہاں بہت سے طلبہ و طالبات دور دور سے یہاں  اکر AKES کی طرف سے اچھے خاصے اور مستند اساتذہ کی زیرِ نگرانی میں اپنی پرائمری تعلیم حاصل کرتے آرہے ہیں ۔گوکہ یہ سکول علاقے میں بچّوں کی  بنیادی تعلیم میں ایک اہم کردار ادا کرتا آرہا ہے لیکن پرائمری تعلیم کے بعد مڈل سکول میں  داخلہ لینے کے لئے  انہیں لمبی مسافت طے کرتے ہوئے گورنمنٹ یا  پرائیویٹ سکولوں کا رُخ کرنا پڑتاہے  جس سے ان کی تعلیمی کیرئیر  میں خلل آنے  کے رجحانات زیادہ ہوتی ہیں کیونکہ انہیں AKES سکول جیسا ماحول اور  نظامِ تعلیم میسر نہیں ہوتا۔

اس مقصد کے حصول کے لئے سہت کے عوام نے شروع ہی سے سکول کی ( (Up gradationکے لئے ماضی میں بھی   ادارے سے  وقتاََفوقتاََ رابطہ کرکے اپنی درخواستیں اور قراداد  دے چکے تھےلیکن علاقائی مجبوریوں اور وسائل کی عدم دستیابی کی بنا  پر اُن کی شنوائی ابھی تک نہیں ہوسکی تھی  تاہم سہت کے علم دوست عوام نے  اپنی مسلسل محنت اور کوشش  کو جاری رکھنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جس کے نتیجے میں اُن کی یہ محنت اور کوشش آخر کار رنگ لائی  بقولِ  ڈاکٹر محمد اقبالؒ

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے  بدلنے کا

سہت کےغیور عوام نے وقت  کی ضرورت  اور مریٹوکریسی کی اہمیت کو  مدِ نظر رکھتے ہوئے  اپنے بچّوں کو  بہتر تعلیم دلانے  کی خاطر  سکول کی (Up gradation)  کے لئے  شب وروز محنت کی۔ عوام کی محنت کو  مذید حوصلہ دینے کے لئے لوکل اور ریجنل کونسلات کے صدور صاحبان نے بھی گاہے بگاہے انہیں اپنی قیمتی مشوروں اور  ہدایات سے نوازتے رہیں۔خاص طور پر ریجنل کونسل کے صدر محترم  امتیاز عالم نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے عوام کے دیرینہ مطالبے کو منطقی انجام تک پہنچانے میں اپنا مثبت کردار  ادا کیا جس کے نتیجے میں  آج شیراندور سہت پائیں میں آغاخان مڈل سکول کا قیام عمل میں آیا۔اس اہم کام کو عملی جامہ پہنانے پر سہت کے تمام عوام محترم امتیاز عالم  صدر نامدار ریجنل کونسل اپر چترال کا  تہ دل سے شکریہ  ادا کرتے ہیں کہ ان کی بھر پور تعاون اور کوشش سے ایک ناممکن کام ممکن میں بدل گیا ۔

بارہ جولائی 2021 ء  کی تاریخ  اُن کے لئے اور ان کی پوری اولاد کے لئے  ایک  ناقابلِ فراموش اور یادگار   دن رہے گا کہ اس دن  اپر چترال بونی RSDU (ریجنل سکول ڈیولپمنٹ یونٹ) کے ہیڈ محترم تاج الملک اپنے دیگر رفقاء کی معیت میں سہت پائین تشریف لائیں اور کمیونٹی کی طرف سے تعمیر شدہ تین کمروں پر مشتمل آغاخان مڈل سکول شیراندور کا باقائدہ  افتتاح کیا۔اس کے بعد ایک چھوٹی سی تقریب منعقد ہوئی جس میںAKES کے عملے کے علاوہ علاقہ سہت کے عمائدین ،اکابرین ،سکول کے بچے اور ان کے والدین بھی شریک تھے۔تقریب کی  ابتدا  قرآن پاک کی  تلاوت  سے کی گئی جس کو  قاری محمد ولی نے  ادا کی۔تلاوت کے بعد سکول انتظامیہ کی طرف سے ہیڈ ٹیچر  محترم جماعتی خان نے سکول کے نظم و ضبط کو بیان کرتے ہوئے معزز مہمان اور دیگر اکابرین  کا  تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔ اس  کے بعد  الواعظ سردار علی سردارؔ نے علم کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے  AKES انتظامیہ  کی مدد اور تعاون کو سراہتے ہوئے کہا کہ ان کی تائید شامل حال نہ ہوتی  تو مڈل سکول کا قیام عمل میں  انا محض ایک خواب تھا۔

انہوں نے علاقے کے  اُن بےلوث خدمت کرنے والے ممبرز کی انتھک کوششوں اور محنت کو بھی حراجِ تحسین پیش کیا جنہوں نے لیڈرشیپ سے بار بار ملاقات کرتے ہوئے آغاخان سکول کے قیام کو عملی جامہ پہنانے  میں بھر پور کوشش کی۔ تقریب میں ریٹائرڈ حوالدار شیر ولی خان بھی موجود تھے جن کی صاف گوئی اور سماجی خدمات کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے تعلیم کے لئے ہز ہائی نس  پرنس کریم آغاخان کے وژن کو سراہتے ہوئے آغاخان مڈل سکول شیراندور کو اپنے  لئے   اور پوری قوم کے لئے رحمت اور نیک شگون قرار دیا ۔ انہوں نے بچوّں کو محنت  کرنے اور دل لگاکر پڑھنے اور اپنا مقام حاصل کرنے پر  بھی بہت زور دیا ۔ اسطرح RSDU کے ہیڈ محترم تاج الملک نے  اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ درحقیقت  AKES   اپنے منشور کو عمل میں لانے کے لئے  صرف  رہنمائی فراہم کرتا ہے  اور راہ  دیکھاتا ہے  جس پر چل کر عوام  اور والدین   دونوں اپنے مطلوبہ  مقصد کے حصول کے لئے اپنا کردار  ادا کرتے ہیں۔ جس کے بغیر کوئی کام حل نہیں ہوسکتا ۔ اپنی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے آپ نے کہا کہ یہ شروعات ہے آئندہ اس سے بھی زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں آنے والی نسل کے لئے معیاری تعلیم کا نظام ٍ اسی علاقے میں  ہی دستیاب ہو۔

مختصر یہ کہ آغاخان مڈل سکول شیراندور  میں ہونے ولی یہ سادہ مگر پرُوقار  علمی تقریب چند دعائیہ کلمات کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچی۔تقریب کے آخیر میں مہمانوں اور دیگر اکابرین کے لئے لائیٹ ریفریشمنٹ کا بندوبست بھی کیا گیا تھا اس کے بعد والدین اپنے نونہال بچّوں کو اچھی تعلیم کے حصول کے لئے اساتذہ کے حوالےکرتے ہوئے  رخصت ہوگئے۔

7dcc5052 648f 4698 8f46 25de88e09b95
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
50383

امن وامان اورچند تلخ حقائق – محمد شریف شکیب

امن وامان اورچند تلخ حقائق – محمد شریف شکیب

وزیر اعلیٰ محمود خان نے صوبے کے مختلف اضلاع میں جائیداد اور خاندانی تنازعات کی بنیاد پر فائرنگ اور قتل کے بڑھتے ہوئے واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پولیس اور ضلعی انتظامیہ کوایسے واقعات کی مؤثر روک تھام کے لئے ٹھوس اقدامات کی ہدایت کی ہے۔ وزیراعلیٰ نے صوبے میں امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے ہر پندرہ دن بعد باقاعدگی سے اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ کیاہے۔ جس میں ریجنل پولیس افسران امن و امان کی صورتحال پرتفصیلی بریفنگ دیں گے۔

وزیراعلیٰ نے صوبے کو غیر قانونی اسلحے اور منشیات سے مکمل طور پر پاک کرنے کے عزم کااظہار کیااورپولیس کو اس حوالے سے نظر آنے والے اقدامات کرنے کی ہدایت کی اجلاس میں صوبے میں نئے اسلحہ لائنس کے اجراء پر پابندی کا بھی اصولی فیصلہ کیا گیا .

وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے سلسلے میں پولیس کوہر ممکن وسائل فراہم کرے گی تاہم پولیس کو عوامی توقعات پر پورا اترنا ہوگا۔اجلاس میں اسلحہ کی نمائش، ہوائی فائرنگ، منشیات کے کاروبار اور سماج دشمن عناصر کے خلاف سخت کاروائیوں کا فیصلہ کیاگیا۔اس میں شک نہیں کہ دیگر صوبوں کے مقابلے میں ہماری پولیس کی کارکردگی بہت اچھی ہے۔ یہاں چادر اور چاردیواری کے تقدس کو پولیس پامال نہیں کرتی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری پولیس نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ تین ڈی آئی جیز سمیت درجنوں افسران اور سینکڑوں اہلکار دہشت گردی کی آگ کا ایندھن بن گئے۔ لیکن حکومتی دعوؤں کے برعکس ہماری پولیس مثالی نہیں بن سکی۔ اس کی بنیادی وجہ وسائل کی کمی اور تربیت کا فقدان ہے۔اکثرتھانوں میں سپرداری کی گاڑیوں سے کام چلایاجاتا ہے۔

پٹرول کا خرچ نکالنے کے لئے پولیس کو چالان اور رشوت کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ وردیاں، جوتے خود خریدنے پڑتے ہیں ان کی دھلائی اور استری کا خرچہ بھی ان کے اپنے ذمے ہے۔ پولیس سے چوبیس گھنٹے ڈیوٹی لی جاتی ہے۔ اور تنخواہ مزدور کی کم سے کم اجرت کے برابر دی جاتی ہے۔ مہنگائی کے اس دور میں اپنے بچوں کا پیٹ پالنے، اس کی تعلیم اور علاج کا خرچہ اٹھانے کے ساتھ دوران ڈیوٹی اخراجات پورے کرنے کے لئے اسے پچاس روپے رشوت پر بھی اکتفا کرنا پڑتا ہے۔ حکومت پولیس اہلکاروں کو ہائی وے اور موٹر وے پولیس کے مساوی تنخواہیں اور مراعات دے۔اس کے بعد اگر وہ رشوت اور بھتہ لیتے ہوئے پکڑے جائیں تو انہیں نوکری سے برطرفی سمیت سخت سے سخت سزا دے سکتی ہے۔

زمینی حقیقت یہ ہے کہ آج بھی تھانے عوام کے لئے نوگو ایریا ہیں۔ وہاں انسانیت کی تذلیل ہوتی ہے۔ کارکردگی دکھانے کے لئے بے گناہ لوگوں کو پکڑ کر ان سے اعتراف جرم کرایاجاتا ہے اور عدالت پہنچ کر وہ صحت جرم سے انکار کرتے ہیں۔ تفتیشی نظام میں سقم کی وجہ سے اگر جرائم پیشہ لوگ پکڑے جانے کے باوجود عدالتوں سے عدم ثبوت یا ناقص تفتیش کے باعث بری ہوجاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ قتل مقاتلے، ڈکیتی، رہزنی، چوری، کسی کی جائیداد پر قبضہ، اغوا برائے تاوان جیسے جرائم بھی پولیس کی مدد اور تعاون کے بغیر نہیں ہوسکتے۔ اگر پولیس کا نظام ٹھیک کیاجائے تو 70فیصد جرائم خود بخود ختم ہوجائیں گے۔

پولیس کو مالی لحاظ سے مستحکم کرنے کے ساتھ دوران ملازمت ان کی تربیت بھی ناگزیر ہے اور تربیتی نصاب میں انسانی حقوق، احترام انسانیت کے موضوعات بھی شامل ہونے چاہیئں تاکہ انہیں عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو کا حقیقی محافظ بنایاجاسکے۔ ان تمام اقدامات کے باوجود پولیس کو جب تک سیاسی مداخلت سے پاک نہیں کیاجاتا۔ اصلاحات کے مثبت نتائج برآمد ہونا دیوانے کا خواب ہے۔ آج بھی تھانوں میں ایس ایچ اوز سیاسی لوگوں کی سفارش پر تعینات کئے جاتے ہیں۔

ہر ایم پی اے، ایم این اے، سینیٹر، وزیر، مشیر، معاون خصوصی کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے ساتھ وردیوں اور سادہ لباس میں پولیس کی سیکورٹی ہوتی ہے۔ جب سیاسی لوگ عازم سفر ہوتے ہیں تو ان کے لئے سڑکوں پر ٹریفک روک دی جاتی ہے۔ وی آئی پی اور وی وی آئی پی کلچر نے پولیس نظام کی تباہی میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ جب تک وی آئی پی کلچر کا خاتمہ نہیں ہوتا۔ پولیس عوامی فورس نہیں بن سکتی۔اور نہ ہی جرائم سے پاک معاشرے کی تشکیل کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
50372

عیدالاضحی کے سائنسی اور نفسیاتی پہلو .. پروفیسر عبدالشکورشاہ

اللہ تعالی نے انسان کو حواس خمسہ کی نعمت سے نوازہ ہے۔عید الاضحی کا تہور اپنی ساری سعادتوں اور مذہبی فوائد کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کی طرف سے ہمیں اپنے حواس خمسہ کو، متحرک، طاقتور اور تروتازہ کرنے کا ایک زریعہ بھی ہے۔ تحقیق یہ بات ثابت کر چکی ہے کہ ہمارے حواس خمسہ معلومات جمع کرنے اور کسی صورتحال میں مکمل طور پر شامل ہونے کے لیے بہترین زریعہ ہیں۔عیدکے موقعہ پر تمام مسلمان دلی، دماغی، روحانی، بصری، سمعی، چکھنے اور سونگھنے کی صلاحیتوں کو نہ صرف تروتازہ کر تے ہیں بلکہ ان سب کو پاک صاف رکھ کر اپنے حواس خمسہ کو جلا بخشتے ہیں۔ عید الاضحی ہماری سونگھنے کی صلاحیت کو دوبالا کر دیتی ہے۔خوشبو اور عید الاضحی لازم و ملزوم ہیں۔دین اسلام کے ہر حکم کے پیچھے ہماری بہتر ی ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی کوئی نہ کوئی سائنسی وجہ بھی ہوتی۔

خوشبو او ر یاداشت کا گہرا تعلق ہے۔کچھ سکولوں میں اساتذہ تعلم کو موثر بنانے کے لیے بھی خوشبو کا استعمال کر تے ہیں۔اگر تاریخ پر نظر دوڑائیں تو مختلف مذاہب میں خوشبوکا استعمال ملتا ہے۔یونانی چرچ میں حواس خمسہ کو جلا بخشنے کے لیے خوشبو کا استعما ل کیا جا تاتھا۔ سبت کے دن بھی خوشبو استعما ل کی جاتی تھی۔خوشبو کے زریعے ماضی کی یاداشتوں کو بھی اجاگر کیا جا تا ہے۔ادوار کے بدلنے کے ساتھ ساتھ خوشبو کے زرائع بھی تبدیل ہوتے رہے ہیں 1920سے 1940 کے عرصہ کے دوران پیدا ہونے والوں کو قدرتی خوشبو میسر رہی ہے جبکہ اس کے بعد کے عرصہ میں پیدا ہونے والوں نیم قدرتی یہ غیر قدرتی خوشبو سونگھنے کو ملی۔ عید کا تہورا ہماری سونگھنے کی حس کے لیے اللہ تعالی کا بیش بہا خزانہ ہے۔

قسم قسم کے پکوان، انواع و اقسام کی خوشبو، مختلف اقسام کی پرفیومز کے جھونکے، بھنے اور روسٹ کیے ہوئے گوشت کی خوشبو، روسٹ ہوتی کلیجی، مٹن، بیف، اونٹ کے گوشت کی کڑاہیوں کی بھوک لگانے والی خوشبوں، چھتوں اور صحن میں بنائی جانے والے تکے، ملائی بوٹی، پھر دوسرے اور تیسرے دن گوشت پلاو، نہاری اور دیگر پکوان ہماری سونگھنے اور چکھنے کے حواس کو تروتازہ اور توانا بنا دیتے ہیں۔ ہم اپنی سونگھنے کی حس کی مدد سے بہت سے واقعات کو یاد رکھتے ہیں۔سونگنے کی حس دیگر حسیات کی نسبت سب سے زیادہ موثر ہے۔ سونگھنے سے پیغام یا اثر فورا دماغ تک منتقل ہو تا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بیہوشی  کے لیے سونگھائی جانے والی اشیاء بیہوشی کے انجکشن سے زیادہ جلدی اثر کرتی ہیں۔ بصری پہلو، یعنی دیکھنے کی حس کا بھی عید الاضحی سے بہت گہر تعلق ہے۔ دیکھنے کی حس دوسری اہم حس ہے۔ انسان کے جسم کے اندر موجود تمام حواس کا70% تعلق انسان کی بصری حس سے ہے۔عید الاضحی کے موقعہ پر ہرکسی کو زرق برق لباس پہنے دیکھنا ہماری دیکھنے کی حس کے لیے انتہائی مفید ہے۔

نئے کپڑوں کی خریداری نہ صرف ہماری آنکھوں کی تروتازگی کو دوبالا کر تی ہے بلکہ ہماری خریداری سے ملکی معیشت کو بھی استحکام ملتا ہے۔عمومی طور پر والدین اپنے بچوں کے کپڑے بھی اپنے لباس سے ملتے جلتے یا یکساں رنگ کے بناتے ہیں۔ عید کے موقعہ پر مختلف رنگوں کی مختلف ٹولیاں ایک عجیب نظارہ پیش کر تی ہیں۔ سرمہ لگانا بھی عید کا ایک لازمی جز و سمجھا جا تا ہے۔ سرمہ آنکھوں کے لیے انتہائی مفید ہے۔ہر طرف چمکتے چہرے اور نئے کپڑوں کا نظارہ ہماری آنکھوں کو ٹھنڈک اور تازگی فراہم کر تا ہے جو ہماری دیکھنے کی حس کے لیے خوراک کی طرح ہے۔ معدے کی طرح باقی اجزاء کو بھی خوراک کی ضرورت ہو تی ہے۔ آنکھوں کی خوراک صفائی، طہارت، تروتازگی اور خوبصورتی ہے۔

عید الاضحی ہمیں یہ تمام لوزمات فراہم کر تی ہے۔ عید کا موقعہ ہمیں حسد،جلن، نفرت، حقارت، برتری، کم تری اور دیگر بری نظروں سے دیکھنے سے روکتا ہے۔ تمام مسلمان صرف محبت،پیار اور خلوص کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ عید الاضحی بصری اور سونگھنے کی حسیات کے ساتھ ساتھ چھونے کی حس کے لیے بھی اللہ تعالی کی طرف سے تفویض کر دہ گراں قدرنعمت ہے۔چھونے کی حس سونگھنے اور دیکھنے کی حس کے بعد تیسری اہم حس ہے۔ اگرچہ اس کا حاطہ کرنا قدرے مشکل ہے کیونکہ جلد دیگر حسیات کی نسبت زیادہ وسیع ہے۔انسانی جسم کی جلد کا وزن تقریبا6سے10پونڈ تک ہوتا ہے۔ تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ لمس یا چھونا بچوں کی نشونما میں اہم کر دار ادا کر تاہے۔چھونے کی حس شاید ہماری بقاء کی ضامن ہے۔ عید الاضحی کے موقعہ پر کپڑوں کی خریداری اور ان کو چھونے کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔

قربانی کے جانوروں کی خریداری اور ان کو پیار و محبت سے چھونا اور عید کے ایام میں ایک دوسرے سے گلے ملنے اور ہاتھ ملانے سے ہماری چھونے کی حس کو بیش بہا تونائی ملتی ہے۔ عید کے موقعہ پر ملنے والے تحائف، عیدی، مساجد میں صاف ستھری قالینوں، صفوں اور جائے نمازوں کو خوشبووں سے معطر کیا جا تا ہے۔ انہیں چھو کر ہم اپنی چھونے کی حس کو مزید تقویت دیتے ہیں۔ کھانے پینے اور سجاوٹی اشیا ء کو چھو کر بھی دیدنی خوشی حاصل ہوتی ہے۔عید کا تہورا باقی حسیات کے ساتھ ساتھ ہماری سمعی حس کو بھی متحرک کر تا ہے۔ عید کی تسبحات کا ورد، عید کے واعظ، خطبہ اور دعائیں ہماری سننے کی حس کو جلا بخشتی ہیں۔ متذکرہ حسیات کے علاوہ عید الاضحی کا تہوار ہمارے دلوں میں ایک عجیب خوشی پیدا کر نے کا باعث بنتا ہے۔

روحانی ماحول اور تزکیہ نفس کے لیے بھی عیدا لاضحی کا تہوار باقی تمام تہواروں کی نسبت زیادہ پرا اثر اور مفید ہے۔ عید کے تہوار کے موقعہ پر ہم ماضی کی عیدوں اور ماضی کی روایات سے بھی آراستہ ہوتے ہیں۔ عید کے موقعہ پرمختلف پروگرامات اور بزرگوں کی زبانی سنی جانے والی باتیں ہماری سمعی، بصری، روحانی اور تخیلیاتی صلاحیتوں کی نشوونما اور ہماری معلومات میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔

عید الاضحی انسانی نفسیات کے مطابق ہے جو انسان کی زندگی میں نہ صرف ایک تبدیلی لا تا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ انسان کی حسیات کے لیے انتہائی مفید ہے۔عید الاضحی کا تہوار سائنسی اور نفسیاتی فوائد سے بھر ا ہے جس کا ایک کالم میں احاطہ کر نا مشکل ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اسلامی تہواروں کو مذہبی تشریحات کے ساتھ ساتھ جدید سائنس اور نفسیاتی نقطہ نظر سے بیان کریں تا کہ روائیتی طرز تبلیغ کے بجائے ہم نئی نسل کو جدید سائنس اور نفسیات کی مدد سے اسلامی تہواروں اور احکامات خداوندی کی طرف راغب کرسکیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
50368

داد بیداد – واخان خبروں میں – ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

داد بیداد – واخان خبروں میں – ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

آج کل واخان خبروں میں ہے افغا نستان کے مشرق میں چین، تا جکستان اور پا کستان کی سر حد پر واقع واخان کی پٹی 1993سے خبروں کا مو ضوع بنتی آرہی ہے افغا نستان کے نقشے پر واخا ن کی سر حدی پٹی کسی جا نور کی زبان یا دم کی طرح باہر نکلی ہوئی ہے اس وجہ سے انگریزوں نے اس کو افغا نستان کی زبان کا نا م بھی دیا ہے افغا نستان کی دُم بھی لکھا ہے جو چا ہے تیرا حسن کرشمہ ساز کرے تازہ ترین خبروں کے مطا بق افغا ن جنگجووں کے مختصر قافلے نے ولا یت بد خشان کی ولسوالی واخا ن میں ڈیرہ ڈال دیا ہے افغا ن فو جیوں نے مزا حمت نہیں کی،

واخا ن کے عوام نے جنگجووں کا خیر مقدم کر تے ہوئے نعرہ تکبیر اور امارت اسلا می کے نعرے لگا ئے سفید جھنڈے لہرا ئے 1994ء میں واخا ن کے لو گوں نے احمد شاہ مسعود کے جنگجووں کے حملوں سے تنگ آکر چترال اور گلگت کی طرف ہجرت کی تھی یہ لو گ مہا جرین کے کسی بڑے گروپ کا حصہ نہیں بنے اور حا لات معمول پر آتے ہی وطن واپس چلے گئے افغا ن جنگجووں کی طرف سے واخا ن پٹی پر تازہ ترین قبضے کی باز گشت امریکی اور بر طا نوی میڈیا میں بھی سنا ئی دے رہی ہے پا کستان، بھا رت اور چین کے ذرائع ابلا غ نے بھی اس کو بے حد اہمیت دی ہے اس اہمیت کی متعدد وجو ہات ہیں

پہلی وجہ یہ ہے کہ 6000مر بع کلو میٹر کے وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے اس علا قے کی وخی آبادی صرف 15000ہے تاریخ میں اس آبادی نے کبھی کسی حملہ آور کی مزا حمت نہیں کی البتہ واخا ن کے شما ل اور شما ل مشرق کی طرف پا میر یعنی بام دنیا کی کر غیز آبا دی کو جنگجو ہو نے کی شہرت حا صل ہے 1979ء میں شور وی انقلا ب اور تا جکستان کی طرف سے خطرہ درپیش ہونے پر پا میر کے لو گوں نے گلگت اور چترال کے راستے ہجر ت کی پامیر کے خا ن رحمان قل کی سر براہی میں کر غیز مہا جرین اپنے ما ل مویشیوں کے ساتھ راولپنڈی پہنچے جہاں سے تر کی نے دیو ہیکل جہا زوں میں ان کو ما ل مویشیوں سمیت اُٹھا یا اور تر کی میں مستقل آبا د کیا کاراکر غیز قبیلے کا ایک سردار عبد الغنی حا مد کر زئی کے زما نے میں واپس آکر اپنی جا ئیداد وں اور چرا گاہوں کا قبضہ دوبارہ حا صل کیا کر زئی کی حکومت میں بد خشان سے شاہ منصور نا دری کو کا بینہ میں جگہ دی گئی تھی.

یہ بات قا بل ذکر ہے کہ بد خشان اور واخا ن کی آبا دی اسما عیلیہ مسلک سے تعلق رکھتی ہے جبکہ پا میر کے کر غیز حنفی فقہ کے پیرو کار ہیں عرف عام میں بھی حنفی کہلا تے ہیں واخان کی لمبا ئی 360کلو میٹر جبکہ چوڑا ئی کم سے کم 15اور زیا دہ سے زیا دہ 60کلو میٹر ہے یہ علا قہ سطح سمندر سے 10ہزار فٹ بلندی پر واقع ہو نے کی وجہ سے زراعت کے لئے مو زوں نہیں محدود پیما نے پر صرف جو کی کا شت ہو تی ہے لو گوں کے گھروں میں خو ش گاو یعنی یا ک اور بھیڑ بکریوں کے ریوڑ پا لے جا تے ہیں وسیع وعریض ایلا ق (چرا گاہ) سے بھر پور استفادہ کیا جا تا ہے 1893ء میں واخا ن اس وقت خبروں میں آیا جب ہندوستان کی برطا نوی حکومت، زار روس اور افغا ن با د شاہ امیر عبد الرحمن خا ن کے درمیاں ایک معا ہدے کے تحت وا خا ن کی پٹی کو بفرزون یعنی غیر جا نبدار علا قہ قرار دیا گیا اس وجہ سے تما م فریق اس علا قے سے بحفاظت گذر سکتے تھے

اس سے پہلے واخان کو سلک روٹ یعنی شاہراہ ریشم کی وجہ سے تاریخی شہرت حا صل تھی چینی تا جروں کے کاروان تاش قرغن سے واخجیر اور سومہ تاش کے راستے واخا ن میں داخل ہوتے تھے اور گاز خان کے مقام پر آب پنجہ کو عبور کر کے دریائے آمو کے طاس سے ہوکر درواز اور روشان کے راستے مغرب کا رخ کر تے تھے مو جو دہ حا لا ت میں واخا ن کی پٹی اگرخا نہ جنگی سے محفوظ رہی یا کا بل کی کسی مستحکم حکومت کا حصہ بنی تو چین، پا کستان، تا جکستان کو براہ راست فائدہ ہو گا بین الاقوامی تجا رت کا ایسا ہی راستہ بنے گا جیسا ما ضی میں تھا اگر خدا ناخواستہ واخا ن کو خا نہ جنگی کی نذر کر دیا گیا تو تا جکستان اور پا کستان کے لئے اپنی سر حدات کو محفوظ بنانا مشکل ہو جا ئے گا واخا ن کے خطے میں ہندو کش کے پہا ڑی سلسلے میں اب سر حدی باڑ نہیں لگا ئی گئی ہنزہ اور چترال کے راستے در انداز ی ہوتی رہے گی واخان کی ایک اور اہمیت یہ ہے کہ خوروگ میں قائم یو نیورسٹی آف سنٹرل ایشا تک ہمارے طلبہ اور اساتذہ کی رسائی ممکن ہو جائیگی نیز تا جکستان اور تر کمنستان سے بجلی کی لا ئن اور گیس کے پا ئپ لائن لا نے میں سر حدی رکا وٹ ختم ہو گی اللہ کرے کہ واخا ن کی پٹی آنے والی خا نہ جنگی سے محفوظ رہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
50329

پس و پیش – پہاڑی لوگوں کا ایک منفرد میلہ – اے۔ایم۔خان

گزشتہ کئی سالوں سے ہر سال شندور کے مقام پر بارہ ہزار فٹ کی بلندی پر ایک روایتی کھیل کھیلا جاتا ہے جسمیں لاسپور اور غذر ، اور بعد میں  چترال اور گلگت سے پولو ٹیمز حصہ لیتے آرہے ہیں۔ اس سطح مرتفع میں ہونے والی کھیل  جسے بعد میں ‘بادشاہوں کا کھیل اور کھیلوں کا بادشاہ’  نام دی گئی۔  یہ روایت نہایت قدیم ہے جو بعد میں اس نام سے مشہور ہوگئی ہے۔ اس روایت کی تاریخ اس سے بڑھ کر ہے، یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ سب سے پہلے لاسپور اور غذر کے لوگ اپنے اپنے علاقے کے گرمائی سے ہوکر شندور گراونڈ میں  ایک خاص سیزن میں اپنے پالتو جانور چرانے کے ساتھ ایک  تماشہ یا کھیل کے طور پر پہاڑی پولو کی بنیاد  رکھ دی۔ 

گوکہ اب یہ وثوق سے کہا نہیں جاسکتا کہ شندور کے مقام پر یہ کھیل کب اور کسطرح شروع ہوا لیکن عین ممکن ہے کہ شندور میں روایتی پولو لاسپور اور غذر کے اُن باسیون نے  شروع کئے ہونگے  اور اسے ایک نام دی جوکہ اب فری اسٹائل پولو کے نام سے مشہور ہے۔  شندور سطح مرتفع میں گرمیوں کے مہینے میں [ پہلے جون اور اب جولائی ] یہ کھیل اب بھی ایک تہوار  کے طور پر منایا جاتا ہے۔ معلوم تاریخ کے مطابق چھ صدی قبل مسیح کو پولو کا کھیل  ایران میں جنم لی جوکہ اب مختلف شکل میں دُنیا میں موجود ہے۔ اس بات میں قوی امکان ہے کہ ایران سے ہوتے ہوئے یہ کھیل  وسطی ایشیاء اور افعانستان سے اس ریجن میں پہنچ چُکی ہے۔چترال کی تاریخ میں انیسویں صدی کے آخری پندرہ سال اہم رہے ہیں جسمیں برطانوی سامراج “گریٹ گیم” کے دوران  روس اور افعانستان سے خطرات  کے پیش نظر گلگت اور چترال میں دلچسپی لینا شروع کی۔

جس کا  ایک یہ نتیجہ یہ ہوا کہ برطانوی حکومت کے فوجی اہلکار بالاخر لوکھرٹ مشن میں چترال کے اسوقت کے حکمران سے ایک معاہدے میں شامل ہوگئے جس سے دفاعی اور خارجی امور اُن کے ہاتھ میں چلی گئی ۔ برطانوی اخبار ‘گارڈین’ اپنے ایک فیچرڈ رپورٹ میں  لکھی ہے کہ  جنرل کوب نے پولو  کو رسمی شکل دی ، اور ایک دوسری روایت کے مطابق  یہ برطانوی اہلکار  “مس جُنالی” میں رات کے وقت چاند کی روشنی میں پولو کھیلنے کی روایت رکھ دی؟  مس جُنالی  میں پولو سے شعف رکھنے والے یہ پہلے  انگریز ہو سکتا ہے جسے پہاڑی پولو کھیلنے کا موقع ملا ہوا ہوگا لیکن یہ انہی رپورٹس سے واضح ہوجاتی ہے کہ 1930 سے پہلے  اس گراونڈ میں مقامی لوگ چاند کی روشنی میں پولو کھیلا کرتے تھے اور اسی مناسبت سے یہ گراونڈ مس جُنالی نام سے پہلے ہی سے جانا جاتا تھا۔ چترالی چترال میں بولی جانے والی زبان کھوار میں ‘مس’ کے معنی چاند اور ‘جُنالی’ کے معنی کھیل کا میدان ہے۔ 

لاسپور اور غذر کے لوگوں سے ہوتا ہوا یہ تہوار ایک قومی میلہ کی شکل اُسوقت اختیار کی جب یہ ایک کیلینڈرڈ تہوار قرار دی گئی۔  ہر سال ضلعی انتظامیہ کی نگرانی میں اس کا انعقاد ہونے  لگا۔ شندور میں روایتی پولو  ایک باقاعدہ تہوار کی حیثیت لینے کے بعد  کھیل کا مرکز  چترال اور گلگت کے پولو ٹیمون  کے درمیان مقابلے سے مقبول ہونے لگا، جوکہ اب بھی ہے۔ گزشتہ دو سال پہلے اس تہوار کے انعقاد میں تعطل شندور گراونڈ اور اس سے متصل زمیں کے حوالے سے صوبائی حکومتوں میں تنازغہ  ،اور چترال میں مسائل ضلعی انتظامیہ اور چترال پولو اسوسیشن کے درمیان کھیل کا انتظام اور کھلاڑیوں کے سلیکشن کے حوالے سے سامنے آئے، اور بعد میں، باوجود اسکے گزشتہ سال کی طرح  اس سال بھی شندور کا میلہ نہ ہونے کا بنیادی وجہ کورونا کی وباء تھی۔دُنیا میں فری پولو کیلئے مشہور اور بلند ترین پولو گراونڈ ہونے کی شہرت کو مزید تقویت اُسوقت  ملی جب باہر ملکوں سے میڈیا  اور سیاح اس تہوار میں شرکت کرنے کیلئے آئے، اور  اس ایونٹ کو قومی اور بین الاقوامی میڈیا نے  کوریج دی۔ چترال کے مقامی زبان  کھوار  میں پولو کو  “استورغاڑ” کہا جاتا ہے، اسکا مطلب ‘گھوڑے کا کھیل’ ہے ۔

چترال کے تناظر میں پولو شروع سے اب تک “گھوڑے کا کھیل اور کھلاڑی کا کھیل” سے مستغر تھا اور یہ بعد میں، ایک دور میں، ‘بادشاہوں کا کھیل اور کھیلوں کا بادشاہ’  کہا جانے لگا ۔ لاسپور اور چترال کے پولو ٹیمون کے کھلاڑیوں کو دیکھا جائے اس میں چترال  کے مختلف وادیوں، اعتقاد اور قوم یا قبیلے  کے لوگ ہیں جسمیں ایک عام کھلاڑی کے علاوہ چترال سکاوٹس اور پولیس کے کھلاڑی بھی شامل ہوتے ہیں۔  اور یہ صورتحال گلگت میں بھی ہے۔ زبان زد عام کھیل جسے اب فری اسٹائل پولو کہا جاتا ہے اسمیں لوگ گھوڑے اور کھلاڑی دونوں کو دیکھنے ہر سال شندور چلے جاتے ہیں کہ وہ سطح سمندر سے بارہ ہزار فٹ کی بلندی میں ہواوں کے دوش اور اکسیجن کی کمی میں  کسطرح کھیل کھیلتے ہیں۔ چترال میں شندور کے علاوہ بالائی چترال میں مستوج، سنوغر، خاندان لشٹ [ جو اب موجود نہیں]، بونی، کوشٹ ، ریشن اور زیرین چترال میں چترال پولو گراونڈ کے علاوہ دروش اور ایون کے گراونڈ میں پولو مشہورہیں ۔ نہ صرف گلگت بلکہ چترال میں بہت سے کھلاڑی اپنے زمانے میں اپنے کھیل اور گھڑ سواری کی وجہ سے جاننے جاتے ہیں۔ 

چترال میں اب پولو کھیلنے والے کھلاڑی پروفیشنل ہوگئے ہیں یعنی اُن کے کھیل میں ذور اور طاقت کے علاوہ  پھرتی ، اور کھیل کی ٹیکنیکی نوعیت پر  زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ اب کھلاڑی اپنے گھوڑے کو اس طرح ٹرین کرتی ہے  جس سے وہ تیز دوڑ کے ساتھ پھرتی سے کھیلے۔ پولو میچ کے دوران کھلاڑی اور گھوڑے کے درمیان ایک دوسرے کو سمجھنے، کھیل کو بھانپنے ،  ربط اور ہم اہنگی کلیدی حیثیت کا حامل ہے، اور پھر ٹیم کے ساتھ کھیل کھیلنا  پولو میں ناگزیر ہے۔شندور پولو فیسٹول کو مقامی سے قومی ، اور قومی سے بین الاقوامی سطح پر اُجاگر کرنے اور اسے اسطرح جاری رکھنے کا تعلق بھی کھیل ، کھلاڑی، انتظامیہ ، تماشائی، میڈیا، حکومت،  چترال اور گلگت کے لوگوں میں اس تہوار سے شعف پر منحصر رہ چُکی ہے جس میں بعض لوگوں کو کھیل پر ، بعض کو کھلاڑی ہونے پر، کسی کو انتظامیہ ، کسی کو حکومت اور انتطامیہ کا سربراہ اور نمائندہ ہونے کی بنیاد پر اس کھیل کی سرپرستی اور پروموشن پر اپنے اپنے کام اور کردار کی بنیاد پر داد تحسین کے مستحق ہیں۔ 

شندور میں کاروبار اور سیاحت کی سیاست حالیہ سالوں کی پیداوار اور مظہر ہے۔ خوف صرف یہ ہے کہ جس سے اس  تاریخی کھیل اور مقام کو زد نہ پہنچے ۔دُنیا میں چترال کے پہاڑی لوگوں کا یہ منفرد کھیل ، پولو،  اب پوری دُنیا میں مشہور ہے اور  ملک میں سیاحت کے فروغ میں یہ میلہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔  یہاں کے لوگ اب بھی اُس شدت اور شوق کے ساتھ سے یہ کھیل کھیلتے ہیں ، دیکھتے اور پسند کرتے ہیں۔ صوبائی سطح پر شندور میلہ منعقد کروانے میں  وہ عوامل اور عناصر جو خلل ڈالنے کا سبب بنے اور بن سکتے ہیں، اور وہ مسائل جو اس میلے میں تعطل کا باعث بنے اور بن سکتے ہیں اُنہیں صوبائی سطح پر حل کرکے اس تہوار کو جاری رکھنے کیلئے اقدامات حکومت، سیاحت کے فروغ اور علاقائی ترقی کے وسیع تر مفاد میں ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
50326

چترال بچاو تحریک – ڈاکٹرخلیل ‎‎

امریکی اور نیٹو ممالک کے افواج افغانستان سے تقریبا نکل چکے ھیں اور افغان طالبان نے افغانستان کے تقریبا نصف حصے پر قبضہ کرلیا ھے ۔ طالبان کو نہ ماننے والوں کی تعداد افغانستان میں طالبان سے کہیں زیادہ ھے۔ اور اپ مغربی ابلاغ عام بتا رھی ھے کہ طالبان کو پسند نہ کرنے والے افغانیوں نے لاکھوں کی تعداد میں اپناملک چھوڑنا شروع کیا ھے ۔

ھم یک اواز ھوکر اپنے نمایندگان ایم این اے عبدالاکبر منسٹر وزیرزادہ   کی نوٹس میں یہ بات لانا چاھتے ھیں کہ ھم چترال کے عوام دوبارہ کسی افغانی کو چترال بطور پناہ گزین یا مہاجر دوبارہ داخل ھونے کیلے کسی بھی صورت اجازت نہیں دے سکتے ۔

ملک کی اقتصادی حالت کو سامنے رکھاجائے تو اج عوام ھر طرح کے مسائل سے دوچار ھے،  مہنگائی سر چڑھ چکی ھے اور ھمارے وسائل اتنے نہیں کہ ھم کسی اور کو یہاں برداشت کر سکیں ۔

چترال نے پہلے ہی افغانیوں کی وجہ سے بڑی مصیبتیں سہی ھے ۔ ھمارا کلچر ماحول جنگلات چراگاھیں افغانیوں کی وجہ سے جو تباہ ھوئیں وہ مسایل ھم اپ بھی سہہ رھے ھیں ۔

چترال بازار میں مقامی دوکانداروں کو جتنا نقصان افغانیوں کی وجہ پہنچا اس کا ازالہ اپ تک نہیں ھوسکا چترال جو کبھی امن کا اماجگاہ تھا جرایم پیشہ عناصر سے واقف ھوا کلشنکوہ کلچر دوکانوں میں ڈکیتیاں پانی کی گندگی جیسے مسایل جو افغانیوں کی وجہ سے شروغ ھوئیں۔ اج تک ھم انکو درست نہیں کر پائے ۔

ھم مزید کسی مھاجر کو برداشت کرنے کے متحمل نہیں ھیں ۔ اس عوامی رائے کا احترام کرتے ھوے ھمارے نمیندگان اس عوامی اواز کو صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں بطور ریکارڈ درج کروایں ۔

بصورت دیگر ھم ابھی سے سڑکوں پر اکر اپنا احتجاج ایوانوں تک ضرور پہنچایں گے ۔ اور کسی بھی افغانی کے چترال کے حدود میں داخل ھونے صورت میں بھر پور مزاحمت کیلیے بھی تیار ھیں ۔

افغانستان میں نہ کبھی امن قایم ھوی ھے اور نہ ھوتی نظر ارھی ھے ۔ اسکے زمہ دار خود افغانی ھیں ۔ ھم انکے کرتوتوں کا خمیازہ کیوں بھکتیں ۔ ھم یہ بھی درخوست کرتے ھیں کہ جو افغانی چترال میں موجود ھیں انکو بھی فلفور چترال سے نکال باھر کیا جاے ۔۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
50323

کامیابی کا تاج – ڈاکٹر شاکرہ نندنی

 میں اپنی منزل کی جانب چلا جا رہا تھا، آج سورج اپنی جگہ چھوڑ کر بہت نیچے آچکا تھا، جس کی وجہ سے ریت کے ٹیلے گرم سے گرم تر ہو کر سُرخ سُرخ دکھائی دے رہے تھے، گرم ہوا کی وجہ سے سانس لینا دشوار ہو رہا تھا، ایسا لگ رہا تھا کہ آکسیجن بالکل نہیں ہے، میرے ارد گرد کسی بھی جاندار شے  کا وجود نہیں تھا، شاید گرمی سے بچنے کیلئے ہر ایک اپنے آپ کو سورج سے چھپا رہا تھا۔ آخر میں نے سورج سے پوچھا کہ “آج تم اپنی جگہ سے ہٹ  کر اتنا نیچے کیوں آگئے ہو؟ دیکھو تمہا ری وجہ سے چلنا مشکل ہو گیا ہے، کوئی بھی جاندار شے دکھائی نہیں دے رہی، ہر چیز تمہاری وجہ سے پناہ لے چُکی ہے، زمین بھی تمہاری گرمی برداشت نہیں کر پا رہی۔” سورج  نے تپ کر جواب دیا کہ “یہ وقت پوچھنے کا نہیں بلکہ اپنے آپ کو سنبھالنے کا ہے، میں تو اپنی منشاء سے چلتا ہوں اور میری ایک ہی جگہ ہے میں کبھی اپنی جگہ کو تبدیل نہیں کرتا، یہ تو زمین ہی ہے جو گردش میں ہے اور وہ میرے ارد گرد چکر لگا رہی ہے، اور آج اس نے اپنی جگہ تبدیل کرکے مجھ سے قریب آنے کی کوشش کی ہے،

میں آگ کا گولا ہوں، میرے نزدیک آنے کی کوشش مت کرو بلکہ دور سے دوستی کرو کیونکہ۔۔۔ دُور کے ڈھول سُہانے ہوتے ہیں“ پھر میں نے زمین سے پوچھا کہ تم سورج سے قریب ہونے کیلئے دوسرا دن نہیں چن سکتی تھیں؟ زمین نے چکرا کر جواب دیا کہ “میں اپنے مدار میں ہی گھومتی ہوں، دراصل آج میں تھوڑی بُہت ٹھنڈ  محسوس کررہی تھی، مُجھے سورج  کی تپش کی ضرورت درپیش ہوئی، جس کی وجہ سے میں نے اپنا گول بدن سورج کی جانب کر دیا، تم اپنے لئے کسی سایہ دار درخت کو ڈھونڈ  کر اُس کے نیچے پناہ  لینے کی کوشش کرو۔” یہ کہہ کر زمین چُپ ہو گئی۔ 

میں نے لُو سے بچنے کیلئے چاروں جانب نظریں دوڑائیں مگر مُجھے کوئی سایہ دار درخت کہیں بھی نظر نہ آیا پھر میں نے ایک چھوٹے سے درخت کے نیچے پناہ لینے کی کوشش کی مگر درخت چھوٹا ہونے کے سبب اس کا سایہ بہت کم تھا اوراس سائے میں میرا صرف نصف جسم چُھپ سکتا تھا، ناچار میں نے اسے غنیمت جان کر اپنے سر والے حصے کو درخت کے سایہ میں کر لیا۔ مجھے پیاس بھی شدید لگ رہی تھی، مگر میرے ساتھ جو بچا ہوا پانی تھا وہ بھی اس چلچلاتی دھوپ میں گرم ہو چپکا تھا۔ میں نے پانی پینے کی کوشش کی پانی گرم ہونے کی وجہ سے میرے حلق سے نہیں اُتر رہا تھا۔ چاروں جانب موت کا مہیب سناٹا سا چھایا ہُوا تھا۔ اب میں نہ تو آگے جاسکتا تھا اور نہ ہی پیچھے۔ میرے ارد گرد کسی جاندار شے کا وجود نہیں تھا۔ میرا آدھا جسم سائے میں اور آدھا سورج کے رحم و کرم پر تھا۔ سورج  نے میرا ساتھ چھوڑ دیا اور ہوا بھی سورج کے سامنے بے بس تھی۔

زمین اپنے غم میں مبتلا تھی۔ ہر جاندار اپنے آپ کو بچانے کی تگ ودو میں تھا، اب میرے اور خُدا کے درمیان کوئی نہ تھا۔ تب میں نے اپنا چہرہ اوپر کی جانب کر کے خُدا سے عرض کی۔”اے خدایا!  قیامت مرنے سے پہلے آتی ہے یا مرنے کے بعد؟ اوپر سے کوئی جواب نہ آیا۔  میں نے اگلا سوال کیا کہ، کیا میرے مرنے کے بعد اس بیابان میں میری لاش کا دیدار کسی کو نصیب ہوگا یا نہیں؟اوپر سے اب بھی کوئی جواب نہ آیا۔ اب میں نے تیسرا سوال کیا کہ، جس مقصد کی خاطر میں گھر سے نکلا ہوں کیا وہ ادھورا رہ جائے گا؟حسبِ سابق پھر بھی کوئی جواب نہ آیا۔ پھر میں نے چوتھا اور آخری سوال کیا کہ،  کیا میں اس ویرانے میں گُھٹ  گُھٹ کر اس دُنیا سے چلا جائوں گا؟اس بار بھی کوئی جواب نہ آیا۔ شیطان میری اس حالت پر مجھے دیکھ  دیکھ کر قہقہے لگا رہا تھا۔ تب میں نے شیطان سے پوچھا کہ، تم کیوں اتنا ہنس رہے ہو؟ کیا میں نے کوئی گناہ کیا ہے سوال کر کے؟ یا میرے سوال غلط تھے؟ نہیں! نہیں! ۔۔۔ تم نے تو بہترین سوالات کئے ہیں مگر شاید تمہیں معلوم نہیں کہ خدا انسان کے ساتھ براہِ راست بات نہیں کرتا، بلکہ جب انسان پاگل ہو جاتا ہے تو یہی سمجھنے لگتا ہے کہ وہ خدا کے ساتھ  براہِ راست بات کر رہا ہے۔ اب تمہیں بچانے والا کوئی نہیں، تم یہاں گُھٹ گُھٹ کر مرو گے۔ تمہارا دیدار کسی کو نصیب نہ ہو گا۔

تمہارے جسم کا سارا گوشت صحرا کے جانور کھا جائیں گے۔ تمہاری ہڈیاں ہر طرف بکھر جائیں گی۔ تم اپنے مقصد میں اُس وقت تک  کامیاب نہ ہو پائو گے جب تک تم خدا کو بھول کر میرے پیروی نہیں کرو گے۔ جو تم نے سوچا تھا وہ سب بھول جاؤ۔ اب اپنی موت کا انتطار کرو تمہیں بچانے والا کوئی نہیں آئیگا۔ آئو میرے ساتھ شامل جائو۔ میری پیروی کرو۔ میری نصیحتوں پر عمل کرو۔ میں تمہیں دُنیا میں ہیرو بنادوں گا۔ ہر طرف تمہارا ڈنکا بجے گا، دولت کمانے میں، میں تمہاری مدد کروں گا اور جب تم دولت مند بن جائو گے تب لو گ خود بخود تمہاری عزت کریں گے۔  کیا تُم، میرے ساتھی بنو گے؟ میں غُصّے میں اُٹھ  کھڑا ہوا اور گَرج کر کہا،  نہیں!!!!!!  ایسا نہیں ہو سکتا مجھے پتہ ہے کہ ”جس کا کوئی نہیں تواُس کا خدا ہوتا ہے“۔مجھے خدا پر پورا بھروسہ ہے، میں جس مقصد کی خاطر گھر سے نکلا ہوں  وہ مقصد ضرور پورا ہو جائے گا۔

 تم، میرے اور میرے خدا کے درمیان بولنے والے ہوتے کون ہو؟ مجھے اپنے خدا پر پورا یقین ہے اور یقین ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔ یہ کہہ کر جب میں شیطان کی جانب دیکھا تو وہ غائب ہو چُکا تھا۔ درختوں کے سائے بڑھ چُکے تھے، سورج کی گرمی کَم ہو چُکی تھی۔ پانی بھی ٹھٹندا ہو چکا تھا۔ میں نے خُدا کا نام لے کر پانی پیا، اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں تو دیکھا سورج کی شدت ختم ہو چُکی تھی اور میں بھی اپنے آپ کو بہتر محسوس کر نے لگا ٹھا۔ تب مجھے ایک دانشور کا قَول یا د آیا۔”جب تقدیر کسی پر مہربان ہونا چاتی ہے تو پہلے اسے مشکلات میں ڈال کر اس کا امتحان لیتی ہے، کہ آیا یہ انسان اس قدر مضبوط ہے کہ کامیابی کا تاج اس کے سر پر رکھا جاسکے“اب میرے پاؤں میں بھی کھوئی ہوئی طاقت واپس آرہی تھی۔ میں نے خُدا کا شکر ادا کیا اور اپنی منزل کی جانب روانہ ہو گیا۔ 

kamyabi shakira
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged ,
50306

آزادکشمیرالیکشن، مریم نوازکی تقاریرکا تنقیدی جائزہ… پروفیسرعبدالشکورشاہ

آزادکشمیرالیکشن، مریم نوازکی تقاریرکا تنقیدی جائزہ… پروفیسرعبدالشکورشاہ

آزادکشمیر الیکشن کی گہما گہمی اپنے عروج پر ہے۔ بڑی پارٹیوں کے سربراہان گلگت بلتستان کی طرح آزادکشمیر میں بھی اپنی پارٹیوں کی سیاسی مہم چلانے میں مصروف ہیں۔ یہ المیہ ہے کہ کشمیری سیاستدان کارکردگی کے بجائے مریم نواز، بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو اور عمران خان اور دیگر وزراء کے بل بوتے پر الیکشن لڑنے اور جیتنے کی کوشش میں مگن ہیں۔مریم نواز اور بلاول بھٹو صاحب کی تقریروں کا اگر تنقیدی جائزہ لیا جائے تو دونوں ریاست کشمیر کے بجائے پاکستانی سیاست کے گرد گھومتے ہیں۔ان کے پاس متصادم سیاست کے علاوہ کچھ نہیں۔نظریاتی سیاست کی جگہ حادثاتی اور مفاداتی سیاست نے لے لی ہے۔ پی پی اور ن لیگ گلگت بلتستان میں صوبہ بنانے کا نعرہ اور آزادکشمیر میں کشمیریت کا نعرلگاتے ہیں۔

یہ دوغلہ پن کیوں؟ گلگت بلتستان بھی تو ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے اگر وہاں پر صوبہ بنانا درست ہے پھر آزادکشمیر میں کشمیریت کا نعرہ لگانا سمجھ سے باہر ہے۔ دونوں گلہ پھاڑ پھاڑ کرآزادی کشمیر پر تقریریں کرتے ہیں۔ دہائیوں سے دونوں جماعتیں برسراقتدار ہیں آج تک انہوں نے کشمیر کے لیے کیا کیا ہے؟مریم نواز نے مظفرآبا جلسے میں سیاہ رنگ کا لباس پہنا تھا جو موقعہ کی مناسبت سے کسی خاص طبقے، خوبصورتی، بہادری اور اعتماد کو ظاہر کرتا ہے۔ جبکہ نیلم ویلی شاردہ جلسے میں سرخ رنگ کا لباس پہنا تھاجومحبت، لگاؤ، قربت اور تعلق کے علاوہ ممتاز ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔لباس کا انتخاب شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ مریم نواز کے لباس اورالفاظ کے چناؤ میں گہری مماثلت ہے۔

لباس میں برتری کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ور الفاظ کے زریعے بھی ’آپ کے بجائے، تم، بتائیں کے بجائے بتاو، کریں کے بجائے کرو،لگائیں کے بجائے لگاو وغیرہ کے الفاظ اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ لباس کے ساتھ کشمیر ی روائیتی ہاربھی پہنا تھا جوآج کے بعدان کے گلے میں کبھی نظر نہیں آئے گا۔ سیاسی محبت بس اتنی ہی ہوتی ہے۔مریم نواز نے اپنی تقاریر میں ’ہیں‘ کے بجائے ’ہو‘ کا صیغہ استعمال کیا جس سے عیاں ہے ان کا ہدف کشمیری نہیں بلکہ اقتدار ہے۔ تقریری کے دوران سپیکر اسمبلی اور دیگر رہنما لوگوں کو نعرے لگانے، ہاتھ بلند کرنے کے اشارے کرتے رہے جو نظریہ ن لیگ کی عدم مقبولتی کو ظاہر کرتا ہے۔جب عوام لیڈر کو دل سے پسند کرتی ہے اسے نعرے لگانے اور ہاتھ بلند کرنے کونہیں کہا جاتا۔مریم نواز اپنے ایجنڈے کی بندوق کشمیریوں کے کندھوں پر رکھ کر چلا رہی ہیں۔انہیں روائیتی کشمیری شال پیش کی گئی مگر کشمیر سے اتنی محبت ہے کہ اسے اوڑھنا گوارہ نہیں کیا بس تصوریر کشی تک ہی محدود رکھا۔

مریم نواز نے گلگت بلتستان میں بھی کمپین چلائی تھی ن لیگ حکومت میں تھی پھر بھی ہار مقدر بنی۔ کشمیری شہدا کو سرجھکا کر سلام پیش کرنے کی بات پرمریم نواز کو یہ نہیں بھولنا چاہیے تھا نواز شریف نے گارگل آپریشن پر بھارت سے معافی مانگی تھی اور پاکستانی ایجنسیوں کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ عوام کو مخاطب کر تے ہوئے ’دیکھیں‘ کے بجائے ’دیکھو اور ’پوچھیں‘ کے بجائے پوچھو‘ کے الفاظ استعمال کرتی رہیں جو ان کی موروثی اقتدار اور اپنے آپ کو عوام سے بالاتر سمجھنے کی سوچ کی عکاسی کر تے ہیں۔بار بار’آپ‘ کے بجائے ’تم‘ کا استعمال ن لیگ کے نعرے ووٹ کو عزت دو کے منافی ہے۔

لیگی رہنماوں کی جانب سے دی جانی والی پرچیاں بھی اعداد و شمار کے اعتبار سے غلط تھیں۔مظفرآباد پی ڈی ایم کے جلسے میں پاکستان کی آبادی20کروڑ بتائی جبکہ چند ماہ بعد چھتر کلاس کے جلسے میں آبادی 22کروڑ بتائی۔ چند ماہ میں آبادی کروڑوں تک کیسے پہنچ گئی۔آزادکشمیر میں پاکستانی سیاست پر تقریریں کرنے والی مریم نوازکو درست آبادی ہی معلوم نہیں۔ کشمیر پر دو منٹ کی خاموشی کا طعنہ دیتے ہوئے یہ بھول گئی ن لیگ نے5فروری 2015میں کشمیریوں کے لیے سر کاری سطح پر صرف ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی تھی۔سپیکر اسمبلی کا کشمیر ی پرچم کے بجائے جماعتی پرچم گلے میں ڈالنا اور اسے بار بار درست کرنا یہ ظاہر کر تا ہے انہیں کشمیر سے زیادہ ن لیگ پیاری ہے۔ کوئی عالمی قرارداد پیش نہ کرنے کا طعنہ دیتے ہوئے یہ بھول گئی ان کی حکومت میں بھی ایسا ہی تھا۔ پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے لیگی وزراء کی تعداد کافی زیادہ ہے جبکہ مریم نواز صرف دو کا ذکر کر رہی تھی۔اس کا مطلب ہے انہیں اپنے وزراء کی درست تعداد کا علم بھی نہیں ہے۔

عمران خان کو چور کہنا اخلاقی گراوٹ کی نشانی ہے۔ اگر ہم نے اپنے سیاسی کارکنا ن کی اس ٖڈگر پر تربیت کی تو یہ بہت بیانک ثابت ہوگا۔ عمران خان پہلے ہی پاکستانی سیاست میں گالی اور بدزبانی متعارف کروا چکے ہیں اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہم اس کلچر کو اپنا لیں۔ مریم نوازدرخت گرنے پر گھبرا گئی نیلم والے بھارتی گولہ باری میں بھی اپنے کام کاج کرتے رہتے ہیں۔اگر درخت پر چڑھنے والے کشمیریوں کے لیے مریم نواز دعائیں کررہی تھی توان کی دعائیں قبول نہیں ہوئیں اور وہ دھڑام سے زمین پر آگرے۔اگر ن لیگ پی ٹی آئی کے خلاف اقتدار کے لیے پی ڈی ایم بنانے کے بجائے آزادی کشمیر کے لیے متحدہ محاذ بناتی تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔شاردہ کا پل بہت ناقص ہے تو محترمہ پانچھ سال حکومت آپ کی تھی پکا پل لگوا دیتے۔

جلسے میں صرف سامنے والے چند افراد نعرہ بازی کر رہے تھے باقی مجمعہ تقریر میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کر رہا تھا۔ نیلم میں جولائی میں بھی رات کو اتنی سردی ہوتی ہے کہ رات کو دریا کے کنارے بیٹھنے والے صبح ہسپتا ل یا قبرستان ہوتے،تقریر کرنے کے قابل نہیں رہتے۔پتہ نہیں مریم نوازکہاں کس دریا کے کنارے بیٹھ کر ساری رات کشمیریوں کے لیے دعائیں مانگتی رہی ہیں۔کشمیریوں کی بہادری کی تعریف کرتے ہوئے مریم نواز بھول گئی نواز شریف صاحب اتنے بہادر ہیں مشرف سے معاہد ہ کر کے جلاوطن ہو گئے اور ابھی بھی لندن میں قیام پذیر ہیں۔جو اپنے مقدمات کو سامنا نہیں کر سکتا وہ کشمیریوں کا مقدمہ کیا خاک لڑے گا۔ مریم نواز کی تقریر کا اکثر حصہ مظفرآباد پی ڈی ایم کے جلسے میں کی گئی تقریر پر مشتمل تھا اور ہٹیاں کے مقام پر کی جانے والی تقریر بھی معمولی ردوبدل کے بعد مظفرآباد اور شاردہ والی ہی تھی۔

عمران خان کو کون لایا کے سوال کے جواب میں عوام میں سے دوتین افراد نے ہی جواب دیا باقی کسی نے اس بات کو اہمیت نہیں دیا۔فوج پر تنقید کی مگر یہ بھول گئی ان کا سار ا خاندان عدالت سے سزاء یافتہ اور مفرور قرار دیا جا چکا ہے اور ن لیگ خود فوج کی پیداوار ہے۔ میڈیا پر مظالم کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ بھول گئی ن لیگ دور میں صحافیوں کو نیچے گرا کر نواز شریف کے پرسنل سیکورٹی گارڈ ان کے سر وں پر کود کر جاتے تھے۔سپیکر اسمبلی کا پی ٹی آئی شامل ہونا عجب نہیں شاہ صاحب نے جانے کی بڑی کوشش کی مگر انہیں قبول نہیں کیا گیا۔ عوام کو بیوقوف بناتے ہوئے ن لیگ کی مقبولیت کے بارے جھوٹے میڈیا سروے کا حوالہ دیا۔مریم نواز نے کہا عمران خان سپیکر اسمبلی سے پوچھتا تھا بتاو میں کیا بات کروں یہ کسی لطیفے سے کم نہیں ہے۔ عمران خان اور کچھ کرے نہ کرے تقریریں اچھی کر لیتا ہے۔آزادکشمیر کی سیاست پرامن ہے مریم نواز نے دھاندلی کا قبل از وقت نعرہ لگاتے ہوئے کارکنان کو رزلٹ خلاف آنے پر بدامنی پر اکسایا ہے جو کہ درست نہیں۔شاہ صاحب نے مریم نواز کو غلط معلومات دیں۔

انہوں نے شاردہ میں کوئی ڈگری اورکیل میں گرلز کالج نہیں بنایا ہے۔ن لیگ کی 5سالہ حکومت ایک سکول یا ہسپتال تو بنا نہیں سکی اب یونیورسٹی بنائے گی۔ کشمیر میں کوئی سیاسی لائحہ عمل دینے کے بجائے تقریر کا نشانہ عمران خان اور پی ٹی آئی رہی۔نریندر مودی کے نواز شریف فیملی کے ساتھ تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ کشمیرکا بیٹاکشمیریوں کے قاتل مودی کو اپنی شادیوں میں مدعو کر ے تو کیا کشمیری اتنے بیوقوف ہیں جو کشمیریوں کاخون بھول جائیں گے۔ نوازشریف کی ہمدردیاں کشمیریوں سے زیادہ مودی کے ساتھ ہیں۔ اسی لیے مریم نواز نے بھارتی وزیر اعظم کے لیے ’آتے ہیں‘ کا صیغہ استعما ل کیا ہے جبکہ کشمیریوں اور پاکستانیوں کے لیے ’ہو‘ کا صیغہ استعمال کیا گیا۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کیونکہ ہر جگہ،ہر تقریر میں وہ ایسے ہی فکس صیغے خاص مقاصد کے لیے اور مخصوص افراد کو پیغام پہنچانے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ لگا کر دہائیوں تک مسلم کانفرنس نے اپنے اقتدار کے لیے کشمیریوں کو بیوقوف بنائے رکھااب ان کا حال بھی سب کے سامنے ہے۔ یواین او کی قراردادوں اور آئین پاکستان میں کشمیر بنے گا پاکستان کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ یہ محض ایک سیاسی نعرہ ہے جو اپنے مفادات کے حصول کے لیے کشمیریوں پر تھونپ دیا گیا ہے۔ میاں نواز شریف نے 2016کے الیکشن کے دوران فرمایا تھا نیلم کو موٹروے دوں گا مگر وہ موٹروے تو نہیں مل سکی۔بیٹی کہتی شاردہ میں یونیورسٹی بنائیں گے۔ ہم یا تو بہت معصوم لوگ ہیں یا بہت ہی بے قوف ہیں جو ہر مرتبہ ان کی باتوں میں آجاتے ہیں۔2016میں نواز شریف نے ہسپتال بنانے کے وعدے کیے مگر کشمیریوں کے لیے تودرکنا اپنے علاج کے لیے بھی کوئی ہسپتال نہیں بنا پائے۔کشمیری بیٹی بھی عجب بیٹی ہے جسے الیکشن کے دوران ہی اپنا گھر یاد آتاہے۔مریم نواز نے گلگت بلتستان میں ن لیگ چھوڑنے والوں سے متعلق ہارجانے کاجھوٹ بولا۔ ایڈوانس انتخاب جیتنے کی بات انتہائی مزاحیہ ہے کیونکہ مریم نواز عوام کو ووٹر سمجھ رہی ہے جبکہ یہ جلسہ انجوائے کرنے آئے تھے ووٹر نہیں تھے۔  

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
50304

چترال میں ایک اور شندور کا وجود – قاضی نذیر بیگ

چترال میں ایک اور شندور کا وجود
سوتکوریک سے جشن شاقلشٹ کا انوکھا سفر
پیار اور محبت کے چند رسومات معدومیت کا شکار جسکا مداوا جشن شاقلشٹ

بونی سے تورکہو کی طرف اگر آپ کو سفر کرنا ہو تو بونی تھانے سے متصل روڈ سے گزرنے والی ہر چوتھی یا پانچویں گاڑی کھوت کی طرف گامزن آپ کو دکھائی دے گی ۔ اور جہاں وادی کھوت کا نام آتا ہے وہاں محبت امن اور بھائی چارے کی انگنت مثالیں اپنی جگہ موجود تو ہیں ہی مگر گزشتہ کئی دہائیوں سے کھوت اپنی گاڑیوں کی وجہ سے بھی خاصا شہرت کا حامل رہا ہے ۔ کیونکہ علاقہ تورکہو کی تقریبا ساٹھ فیصد گاڑیاں وادی کھوت کے باسیوں کے پاس ہیں ۔ یعنی کہ کھوت جانے کے لئے کسی کو بھی کبھی ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کا مسئلہ درپیش نہیں ہوسکتا ہاں یہ الگ بات ہے کہ سیاسی نمائندے اور ممبران کی عدم توجہ کی وجہ سے یہ راستے پر پیج اور کٹھن ضرور ہیں ۔ کھوت پہنج کر سب سے پہلے آپ کو تاریخی مسجد گیسو کی زیارت کا شرف حاصل ہوتا ہے جو اپنے آپ میں ایک مقام رکھتی ہے ۔ یہاں کچھ کہاوتیں ایسی ہیں کہ گیسو مسجد کے اندر پیعمبر علیہ سلام کے گیسو مبارک موجود ہیں جس کی وجہ سے یہ نام ان گیسو شریف سے منسوب ہے۔ مگر اس بات پہ ابھی تک صداقت کم ازکم مجھے نظر نہیں آئی اور نہ ہی کہیں اس کی مستند دلائل موجود ہیں ۔


گیسو مسجد کی زیارت کے بعد شاہی بنگلہ اور کھوت پولوگراونڈ کی سیر کے بعد تمام سیاح کھوت کی تاریخی نہر راجوئے کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں جو کئی صدیوں سے کھوت کی اسی فیصد ابادی کو نہ صرف سیراب کرتی ہے بلکہ سینکڑوں گھرانے اس نہر سے پینے کا پانی بھی حاصل کرتے ہیں اور اس پانی کو ویرمینوغ کہتے ہیں جسے زرعی زمینات کے لئے کمیا بھی تصور کیا جاتا ہے۔ بلکہ اس پانی سے آج سے چند سال پہلے تک اتنی عقیدت ہوا کرتی تھی کہ جب پہلی دفعہ اس نہر میں پانی چھوڑا جاتا تھا تو اس پانی سے محروم علاقے کے لوگ بالٹی بھر کر ایک ایک قطرہ اپنی زمینوں پہ اس نیت سے ڈالا کرتے تھے کہ ویرمینوغ کی تاثیر ان کی زمینوں پر بھی ہو اور ان زمینوں کی فصلوں میں برکت ہو ۔
راجوئے کی ایک الگ ہی تاریخ ہے ۔

راجوئےکی تاریخ

بزرگ کہتے ہیں کہ جب قدیم الایام میں جب کھوت کے لئے نہر کھودی جا رہی تھی اس وقت انجنئیر اور مشینری نہ ہونے کی وجہ سے لوگ بہت تکلیف سے دوچار ہوگئے تھے اور تقریبا شکست مان کر گھروں کو لوٹنے والے ہی تھے تو اچانک ایک پرندہ جس کو مقامی زبان میں اشقوڑہ کہا جاتا ہے ۔ آتاہے اور جہاں تک نہر نکالی گئی تھی وہاں سے کچھ دوری پہ آکر بیٹھ جاتا ہے ۔ ان محنت کشوں میں چند ایک سیانے بھی تھے جو اس وقت اپنے تجربات کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ اس پرندے کا پیچھا کرو اور جہاں جہاں بیٹھ جائے وہاں نشان لگایا کرو تاکہ ہم اس نہر کو کامیاب بناکر کھوت کی آدھی ابادی کو پانی سے خودکفیل کر سکیں گے اور آنے والی نسلوں کے لئے پانی کا انتظام ہوسکے ۔ اس مجمع میں کچھ لوگوں نے اس بات کا مذاق بھی اڑایا مگر اکثر نے حامی بھرلی تو چند لوگوں کو مخصوص اوزاروں کے ساتھ اس پرندے کے پیچھے روانہ کر دیا گیا یہ لوگ اس پرندے کے پیچھے پیچھے چلتے جہاں وہ بیٹھ جاتا وہاں پہ نشان لگاتے جاتے اور اسی طرح کھوت راجوئے کے سروے مکمل ہوگیا اور اس زمانے کے دلیر اور محنت کش لوگوں نے ایک ناممکن کو ممکن بناکر تاریخ رقم کردی ۔ اب تک کھوت میں جب بھی سیاح آتے ہیں تو اس نہر کی سیر کرتے ہیں جہاں سے نہر کا آغاز ہوتا ہے وہاں دو محصوص وال کے زریعے پانی کو چھوڑا اور بند کیا جاتا ہے وہاں تک سیر سپاٹے کی نیت سے سیاح چلے جاتے ہیں اور لطف اندوز ہوجاتے ہیں ۔ اس کو مقامی زبان میں مدوک کہتے ہیں جو شاریگرم جامع مسجد سے چند قدم کی دوری پہ واقع ہے ۔

chitraltimes jashan e shaqlasht torkhow6
بل صفائی مہم کھوت کی اس مشہور نہر کی صفائی مارچ کے آخری دنوں میں شروع ہوجاتا ہے اور تقریبا ایک ہفتے لگاتا کام کرنے کے بعد پائہ تکمیل کو پہنچتا ہے ۔ اس مہم کے لئے بھی باقاعدہ قواعد و ضوابط لاگو ہیں جن کی پیروی ہر ایک پہ لازم و ملزوم ہے ۔ بل صفائی مہم کا طریقہ کار کچھ یوں ہے کہ اس نہر سے فائیدہ ٹھانے والوں کی کوئی اٹھارہ سے بیس تک مختلف گروپ تشکیل دی گئی ہے جو روز ازل سے اس گروپ میں ہیں اور ہر گروپ میں میں اٹھارہ بیس گھرانے ہوتے ہیں اور اس ایک گروپ کو ایک (پھی) کہتے ہیں ۔ اور دوران صفائی ہر (پھی) یعنی گروپ کو پیمائش کے حساب سے زمہ داری دی جاتی ہے جیسا کے ایک مخصوص جگے کو دکھایا جاتا ہے کہ یہاں سے وہاں تک فلان (پھی) کی زمہ داری ہے اسی طرح ہر (پھی) اپنے اپنے مقررہ جگے کی صفائی کرکے شام کو گھروں کو لوٹتے ہیں ۔ اور اسی طرح سات یا آٹھ دنوں میں بل صفائی موسم مکمل ہوجاتا ہے اور ایک دن مقرر کرکے اس نہر میں پانی چھوڑا جاتا ہے ۔

کھوت_غاری

مدوک سے اگر گاڑی کا سفر ہو تو صرف چالیس منٹ کی مسافت کے بعد آپ کھوت کی مشہور چراگاہ پتیان پہنچ جاتے ہیں ۔ اور یہ کھوت میں بسنے والے تمام باسیوں کی ذاتی ملکیت ہے ۔ اور ہر برادری اور قبیلے کے نام الگ الگ علاقے اور چراگاہیں موجود ہیں جو آپس میں امن اور بھائی چارے کی وجہ سے تاحال منقسم نہیں بلکہ پورا کھوت کے عوام آپس میں مل بانٹ کر اس سے جہاں فائیدہ اٹھانا ہو وہاں فائیدہ اٹھاتے ہیں ۔ ورنہ گرمی کے دنوں میں گائے بیل اور دوسرے جانور وہاں پہ چرنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں جو تقریبا چار سے پانج مہینوں تک وہاں پہ چرتے ہیں اور سردیاں آتے ہی ان کو واپس نیچے بستیوں کی طرف لایا جاتا ہے۔

chitraltimes jashan e shaqlasht torkhow5

غاری_نیسک یا غاریوغ کھوت میں تین الگ الگ نالے ہیں جن کو غاری کہا جاتا ہے ۔ جن میں ووزگ ، اوجو اور پتیان شامل ہیں ۔ یہاں جس غاری کی بات ہورہی ہے یہ پتیان ہے ۔

یہ حدالنظر وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا ایک درہ ہے جس کے وسط میں مشہور گراؤنڈ شاقلشٹ واقع ہے ۔
جولائی کے اوائل میں کھوت کے چند خاندان جو مال مویشیوں کی دیکھ بال زمینوں کے لئے کھاد اور سردیوں کے لئیے ایندھن جمع کرنے کی غرض سے دو مہینے کے لئے غاری کا رخ کرتے تھے ۔ جس کے لیے ایک دن مقرر کیا جاتا تھا جس دن پورا کھوت کے مرد و خواتین اپنے مال مویشیوں کو لیکر غاری چھوڑنے جاتے ۔ خواتین اپنے مال مویشیوں کے ساتھ اور مرد ہر دور کے حساب سے گانے اور میوزک کا اہتمام کرتے ۔ مثلا آج سے اگر چالیس یا پچاس سال پیچھے جائیں تو ڈف بجا کر خود سے گانا گاتے ۔ اور شاقلشٹ پہنچ کر پولو اور بوڈی دیک جیسے کھیلوں کا انعقاد ہوتا اور شام ڈھلتے ہی واپس نیچے بستی کی طرف چلے آتے ۔ پھر زمانے کے ساتھ ساتھ سازو سامان بھی بدلتے گئے ڈف کی جگہ سونی اور پینوسونک اور نیشنل کے جاپانی ٹیپ ریکارڈر نے لے لیے اور ایک دور ایسا آیا کہ غاریوغ کے دن ہر کسی کے کندھے پہ مقامی دستکاری سے تیار کردہ رنگ رنگیلے کور میں ملبوس ٹیپ ریکارڈر جن میں اس زمانے کے مشہور گانے بج رہے ہوتے تھے ۔ غاری کی طرف چلے جاتے تھے۔ مذکورہ مقام شاقلشٹ میں جاکر فٹبال، ولی بال اور کرکٹ کھیل کر شام کو واپس آجاتے تھے۔
اور جو لوگ دو مہینے کے لئے وہاں سکونت اختیار کرتے تھے وہ بھی ان دو مہینوں میں چار الگ الگ تہوار منایا کرتے تھے جنکو #تیلاشٹاریک #چھیراشٹاریک #تیلیکی اور #سوتکوریک کہاجاتا تھا ۔

تیل_اشٹاریک:

جب گاؤں کے باسی دوسرے کھوت کے مال مویشیاں لیکر غاری میں دو مہینے گزارنے کے لئے چلے جاتے تھے تو ایک ہفتے تک وہ نہ ہی چائے میں دودھ استعمال کرتے تھے اور نہ ہی کھانے میں دیسی گھی اور مکھن استعمال کرسکتے تھے مقامی اصولوں کے مطابق ان چیزوں پر پابندی عاید ہوتی تھی تاہم ایک ہفتے یعنی گنتی کے ساتھ دن بعد تیل گھی اور مکھن وغیرہ پر سے پابندی ہٹ جاتی تھی اس دن گھی یا مکھن کا بناہوا ہوا طعام کا انتظام ہوجاتا تھا اور تمام اڑوس پڑوس والے مل بانٹ کر کھاتے تھے جس کو تیل اشٹاریک کہاجاتا تھا ۔

چھیر_اشٹاریک :

دو ہفتوں یعنی چودہ دن بعد دودھ پر سے بھی پابندی ہٹ جاتی تھی اور پہلی دفعہ دودھ والی چائے بناتے اور دودھ سے بنے ہوئے مختلف قسم کے لذیذ کھانے جیسا چھیر گرینج۔ چھیرا شاپک ، وعیرہ بنا کر کھاتے اور اس دن کو چھیر اشٹاریک کہاجاتا تھا۔

تیلیکی:

جو بھی نئی نویلی دلہن یا کسی کا نومولود بچہ اگر پہلی دفعہ غاری میں آئے تو ان پر لازم تھا کہ ایک محصوص دن وہ ایک دیکچی میں چاول اور ایک دیکچی میں مقامی مٹر جس کو شاکوچھون کہا جاتا ہے ۔ پکاکر ایک مخصوص جگئے پہ لاکر خواتین مل بیٹھ کر کھالیتی تھیں البتہ اس میں مردوں کا حصہ نہیں ہوا کرتا تھا ۔ جسکو تیلیکی کہاجاتا تھا ۔

سوتکوریک

غاری میں بسنے والے جتنے بھی لوگ ہیں وہ ایک خاص دن پورے کھوت کے لئے دعوت خاص کا انتظام کرتے تھے ۔ جس کا طریقہ کار کچھ یوں تھا ۔ کہ غاری میں بسنے والے ہر گھر کے ذمے ایک چھوٹے سے برتن میں دہی (مچھیر) جمانا ہوتا تھا ۔ اور جن جن کے پاس کھوت سے باہر کے مال مویشی ہوتے تھے ان کے ذمے ایک بڑی پلیٹ میں مقامی کھانا (سناباچی) پکاکر پیش کرنا ہوتا تھا ۔ غاریوغ کے بیس سے پچیس دن بعد سوتکوریک کا اعلان ہوا کرتا تھا جو گیسو مسجد سے ہی جمعہ کے روز اعلان ہوتا تھا اور پورے کھوت میں نمازیوں کے زریعے پیغام (پہنچیا جاتا تھا) اور پھر پانج دن کے اندر پورے کھوت سے مرد حضرات جن میں بچے نوجوان اور بزرگ بھی “جو چل کر پہنچ سکتے تھے” ایک بار پھر عاری کا رخ کرتے تھے۔ اور شاقلشٹ پہنچ کر ان چالیس پینتالیس گھرانوں سے مقامی دہی جسکو مچھیر کہا جاتا ہے ۔ شاقلشٹ پہ جمع کرتے اور پورے عوام مل کر اسے کھاتے اور حسب روایت پولو اور بعد ازاں جب گھوڑے پالنے کا رواج معدوم ہوگیا تو فٹ بال ولی بال اور کرکٹ کھیل کر شام کو واپس گھروں کو لوٹ آتے ۔


وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ بدل گیے۔ جہاں سوتکوریک کے نام پہ یہ تہوار منایا جاتا تھا ۔ وہ معدوم ہوتا چلا گیا وہ رونق نہیں رہی اور نہ ہی کھوت کے باسیوں میں وہ جذبہ اور سکت باقی رہی کہ گہما گہمی کے لمحات میں کچھ وقت نکال کر اس نایاب تہوار کو منانے آتے ۔

chitraltimes jashan e shaqlasht torkhow3


بہرحال اس رونق بھری تہوار کو یوں معدوم ہوتا ہوا دیکھ کر کھوت کے چند جوانوں نے ملکر کر یہ تہیہ کرلیا کہ اس تہوار کو تھوڑی سی وسعت دیکر کم ازکم تورکہو کی حد تک منایا جائے ۔ ان نوجوانوں میں ماسٹر امتیاز علی خان جو اسوقت سکول میں تھے ۔ کچھ بچوں کو لیکر جشن شاقلشٹ کے نام سے ایک ٹورنمنٹ کا انعقاد کیا ۔ اور دھیرے دھیرے اس کو شہرت ملتی گئی ۔ شروعات میں تقریبا کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ مگر سدا بہار نوجوان قاری نجم الدین ۔ شیر فراز ، میر کمال الدین ، نظام الدین ، مقبول حسین ، سجاد حسین اور ایسے ہی کافی ترقی پسند نوجوانوں نے ٹھان لی کہ شاقلشٹ کو ترقی کی منزل پہ پہنچا کر دم لینا ہے ۔ مگر کسی بھی کام کو بہتر طریقے سے کرنے کے لئے حکومت کی پشت پناہی نہ ہو تو وہ کام ممکن نہیں ہوسکتا، مگر ان نوجوانوں نے ہمت نہیں ہاری سالہا سال جشن شاقلشٹ کو بہتر کرتے گئے اور آخر کار شاقلشٹ ویلفئیر سوسائٹی معرض وجود میں آئی ۔ اور تا حال کھوت اور شاقلشٹ میں سپورٹس کے حوالے سے صف اول پہ کوشاں ہے ۔ اس تنظیم کے چیئرمین امتیاز علی خان ہیں ۔ صدر قاری نجم الدین ، نائب صدر شیر فراز, مہنور علیشاہ جنرل سیکریٹری اور قاری امام الدین فینانس سیکریٹری ہیں ۔ امسال بھی ان ہیروں کی محنت اور جستجو کی بدولت بڑے ہی پروقار انداز میں جشن شاقلشٹ اختتام پزیر ہوا ۔ اور اگلے سال کے لئے ہمارے نمائندوں اور ممبران پر چند سوالات چھوڑ گیا ۔ وہ یہ کہ انصاف کی حکومت جو ابھی تک ٹورزم کے حوالے سے بڑے بلند بالا دعوے کرتی آئی ہے ۔ مگر شاقلشٹ جیسے ایک انمول ٹورسٹ سپورٹ ابھی تک حکومت کی آنکھوں سے اوجھل کیوں ہے ؟ آج سے غالبا دو سال پہلے شاقلشٹ کے روڈوں کے حوالے سے سمری بھیجوادی گئی تھی وہ آج تک کیوں لاپتہ ہے ؟ اگر ماحول میں نشے اور دوسرے غلط کاموں کی روکھتام اور بچوں میں صحت مند زندگی کو عام بنانے کے لئے کوشاں اس تنظیم کو کوئی سپورٹ کیوں کرنہیں کرتا؟


یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب آج نہیں تو کل ہمارے نمائندوں کو دینا ہی پڑے گا اور جس انداز سے نوجوانوں میں سپورٹس کا جنون بڑھ رہا ہے کھوت کے نوجوانان شاقلشٹ میں اپنے سامنے ایک بہت بڑے سٹیڈیم کا خواب دیکھ رہے ہیں ۔ جو مستقبل قریب میں اپنے ووٹوں سے بھی مشروط کرسکتے ہیں ۔

chitraltimes jashan e shaqlasht torkhow2

شاقلشٹ کامحل وقوع اور_سیاحت

تین سے چارمربع کلومیٹر پہ پھیلا ہوا یہ سرسبز ہرا بھرا میدان جس کے ایک کونے پہ محکمہ موسمیات کا ٹاور نصب ہے جس کا لاہور کے ساتھ ہوائی رابطے ہیں کے شمال اور جنوب کی طرف خوبصورت پہاڑی سلسلہ جسکو اشپیرو زوم کہاجاتا ہے یہ سلسلہ براستہ کھوتان کھوت اور یارخون کو چند گھنٹوں کی مسافت کے بعد آپس میں ملاتا ہے ۔ اس زمانے کے تندرست اور توانا لوگ صبح کھوت میں گھر سے کسی رشتہ دار کی تعزیت یا مبارکباد کے لئے نکلتے تھے تو شام کو واپس آبھی جاتے تھے اور وہ سلسلہ ابھی تک تسلسل کے ساتھ جاری ہے البتہ اسی دن واپس آنے والے لوگ شاید دنیا میں نہیں رہے مصنوعی خوراک اور نازک مزاجی کے باعث موجودہ دور کے لوگ یہاں سے اکثر بائی روڈ گاڑیوں کے زریعے بونی سے ہوتے ہوئے یارخون چلے جاتے ہیں ۔ اگر کوئی کھوتان کے راستے سے پیدل چلا بھی جائے تو وہ دو دن سیر سپاٹے کے بعد ہی واپس اسی راستے سے لوٹتا ہے ۔


حلانکہ مستحکم حکومت ہو اور اگر اس پر خاطرخواہ رقم خرچ کئے جائیں تو وہ دن دور نہیں کہ لڑکے موٹر سائیکل میں کھوتان لشٹ بازار سے سودا سلف لیکر کچھ ہی دیر میں واپس آجائیں گے۔ یا کوئی ایسا اقدام ہو کہ تین سے چار کلومیٹر کی سرنگ کھوت اور یارخون کو بالکل ایسا ہی قریب لے آئے گی جیسے ٹاؤن چترال اور اویون ۔ یہ باتیں بس مشورے کی حد تک ہیں باقی شاقلشٹ کی بات کرتے ہیں ۔
شاقلشٹ سیاحت کی نیت سے جانے والے کھوت سے صرف ایک گھنٹے کی مسافت کے بعد شاقلشٹ پہنچ جاتے ہیں اور وہاں پہ اپنا کیمپ لگا کر اگر صبح آٹھ بجے آرام سے اٹھکر آہستہ آہستہ چل کر صرف دو گھنٹے کی مسافت کے بعد کھوتان پہنچ جاتے ہیں اور کھوتان میں جہاں بھی وہ بیٹھے
پورا یارخون ، کارگن ، دیوان گول ، بریپ، استچ، دیزگ ، خورزگ، مہتنگ ، بیرزوز، بنگ پائن ، بنگ بالا، یوکوم ، شیچ، دیوان گول، میراگرام نمبر 2, پاور ، پترنگاز ، اور اسی طرح شوڑ کوچ اور وسوم تک کا نظارہ بہت اچھی طرح کرنے کے بعد ایک گھنٹے میں واپس شاقلشٹ پہنچ جائیں گے ۔ اس سے سیاحت کی سیاحت اور ورزش کی ورزش بھی ہوجاتی ہے ۔ اسی طرح شاقلشٹ سے متصل کئی اور درے ہیں جن میں خوبصورت چوٹیاں ، ہرے بھرے گھاس ، دودھ جیسے بہتے ہوئے آبشار اور کئی کئی کلومیٹر میدان بس سیاحوں کی آمد کا منتظر ہیں ۔


اکثر پہاڑی علاقوں میں جنگلی جانوروں کا ڈر رہتا ہے مگر یہاں یہ علاقہ حد نظر وسیع اور کھلا ڈھلا ہونے کی وجہ سے جنگلی جانور بھی نایاب ہیں ۔ بہت کم بھیڑیے لومڑیوں کے علاؤہ ایک اور جانور پایا جاتا ہے جن کو مقامی زبان میں بیشندی کہاجاتا ہے ۔
شاقلشٹ کے تینوں طرف بہتی ندیاں ہیں جس کی ایک طرف بہت چھوٹی مقدار میں دریا بہتا ہے جو گرمیوں میں تیرنے کے لئے انتہائی موزوں ہے ۔

chitraltimes jashan e shaqlasht torkhow1


میں کبھی شندور گیا نہیں ہوں مگر جس طرح لوگوں سے سنا ہے کہ شاقلشٹ کا میدان شندور سے کافی حد تک بڑا ہے اور ۔ شاقلشٹ تک رسائی شندور سے کئی گنا آسان ہے ۔ بونی سے سے صرف پانج گھنٹے میں شاقلشٹ پہنچا جاسکتا ہے ۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے کے مصداق میں بھی اس خیال کے ساتھ یہ لکھ رہا ہوں کہ کیا پتہ کوئی تو ہو جو ایک دفعہ محبت کی نظر سے اس بہترین مقام کی طرف دیکھے، جس پر تھوڑے سے پیسے خرچ کرے تو حکومت پاکستان کے لئے بہترین ٹورسٹ سپوٹ بن کے سامنے آسکتا ہے اور اس کی بدولت کھوت کے باسیوں کے لئے روزگار کے مواقع فراہم ہوسکتے ہیں اور یہاں سیاحت کا نظام اصولی بنیادوں پہ ہو، یہاں پہ سٹیڈیم بنایا جائے تو آنے والی نسل اسپورٹس کے میدان میں اچھا خاصا نام کماسکتے ہیں اور علاقے کی نمائندگی نیشنل لیول پہ کرسکتے ہیں ۔ اور اگر تھوڑی سی محنت کی جائے تو انشاءاللہ صرف تیس سے پینتیس منٹ کی دوری پہ یارخون وادی کی سیر بھی ممکن ہوسکتی ہے ۔


فی الحال ۔ حکومت وقت کو چاہئیے کہ شاقلشٹ تک روڈوں کی بحالی کو ممکن بنانے کوشش کرے اور سب سے ضروری شاقلشٹ میں کم ازکم ایک چھوٹا سا گیسٹ ہاؤس تعمیر کیا جائے تاکہ مستقبل میں کسی مہمان کی آمد متوقع ہو ۔ اور یہاں کے ماحول کو ملحفوظ خاطر رکھ کر یہاں محصوص مقامات پر لیٹرین تعمیر کیے جائے تاکہ شاقلشٹ کی خوبصورتی ہمیشہ ایسی ہی برقرار رہے ۔
آخر میں بس اتنا سا گزارش ہے کہ جشن شاقلشٹ کو پروموٹ کرنے کے لئے ہر پاکستانی کو ایک دفعہ ضرور تشریف لانا چاہئیے تاکہ جلد سے جلد جشن شاقلشٹ عالمی سطح پہ سیاحوں کو اپنی طرف راغب کرے ۔
بہت بہت شکریہ ۔


طالب دعا قاضی نذیر بیگ

chitraltimes jashan e shaqlasht torkhow
chitraltimes jashan e shaqlasht torkhow4
chitraltimes jashan e shaqlasht torkhow8
chitraltimes shiaqolasht festival torkhow5
chitraltimes shiaqolasht festival torkhow4
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
50290

عید قربان اور فلسفہ قربانی – تحریر :زوبیہ اسلم

عید قربان اور فلسفہ قربانی – تحریر :زوبیہ اسلم

ہرسال اس آنے والی عید پر مومنوں کی تیاریاں عیدالفطر کی نسبت ذیادہ جوش و خروش سے بھرپور ہوتی ہیں کیوں کہ عیدالفطر تو مسلمانوں کو اللہ کی طرف سے بطور تحفہ ملتی ہے جب کہ عیدالاضحیٰ مسلمانوں کی طرف سے اللہ کو بطور خاص قربانی کی شکل میں تحفہ ہے. قربانی ہے کیا؟


“مخصوص جانور کو مخصوص دن میں بہ نیت تقرب ذبح کرنا قربانی ہے”
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
“فصل لربک وانحر”
ترجمہ :
“تو تم اپنے رب کے لیے نمازپڑھو اور قربانی کرو”


اس لیے صاحب استطاعت افراد (چندایک کیوں کہ اکثر مخیر ہونےکےباوجود جیبیں ڈھیلی نہیں کرتے) پر فرض ہے مگر کچھ مال و زر میں کمزور حیثیت کے باوجود شوق کے تحت اللہ کی رضاکی خاطر اس عظیم جذبے کی تکمیل کرتے ہیں. اکثر مسلمان ایسے بھی ہیں جو قربانی تو اللہ کی راہ میں کرتے ہیں مگر وہ گوشت غرباء کے پیٹ کی بجائے ریفریجریٹر کی زینت بنا رہتا ہے اور سٹوریج بھی ایسی کہ مہینوں تو استعمال ہو جاتا ہے مگر کسی ضرورت مند اور غرباء افراد کی ایک دن کے کھانے کی زینت نہیں بن پاتا، میں اس بات سے ہرگز بھی انکاری نہیں کہ قربانی کا گوشت پورے کا پورا گھر میں رکھا جا سکتا ہے مگر سنت رسول کو زندہ رکھنا پیٹ کو پالنے سے زیادہ اہم ہے.

میرے نبی کریم نے سونے سے لے کر جاگنےتک ہر چیز کا طریقہ کار عملاً پیش کیا تاکہ حقوقِ اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی بھی ادائیگی ہو جائے. سنت کے مطابق قربانی کے تین حصے ہیں:ایک رشتہ داروں کا، ایک غرباء و مساکین اور ایک گھر والوں کا…. اس لیے قربانی اللہ کے لیے کرے. پیغمبر ابراہیم نے بیٹے کو قربان کر دیا اللہ کے ایک حکم پر وہ بھی اپنی پیاری چیز اپنی اولاد نرینہ. عید قربان قربانی کے لیے ہیں اس لیے وہ لوگ جو قربانی کی استطاعت نہیں رکھتے وہ سب سے پیاری اپنی چیز کو قربان کرے اور وہ ہے “انا اور ضد” … سب سے پہلے تو ہم اس انا اور ضدمیں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر جانور کی خریدوفروخت کرتے ہیں حالاں کہ دین اسلام میں نمائش کی گنجائش نہیں ہے.

اس صورت حال میں قربانی قربانی نہیں رہتی اور نہ ہی نیکی کا ذریعہ. جب کہ جانور کے خون میں ڈوبا ایک ایک بال نیکی وثواب کا وسیلہ ہے.دوسری صورت اپنے ہی مسلمان بھائیوں سے عداوت ہے. یہ عداوت “میں” کے ٹیڑھے میڑھے پل سے پار دور تک پہنچ جاتی ہے کہ “میں” کی تسکین کے لیے ہر اچھا برا راستہ منتخب کر لیا جاتا ہے. انا اور ضد سے ہی ہر گناہ کی ابتدا ہوتی ہے کیوں کہ “انا” جھکنے نہیں دیتی اور “ضد” ہارنے نہیں دیتی. اسی ہار جیت کے سفر میں ہم دوسروں کے جذبات کو روندھتے چلے جاتے ہیں. اللہ کو سب سے زیادہ من پسند چیز کی قربانی پسند ہے..

اسی انا اور ضدکی بدولت ہم دوسروں کا برا سوچتے ہیں – آگے نکلنے کی چاہ میں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو اکارت کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے..قتل و غارت محض اپنے سٹیٹس، پوزیشن کے واسطے اپنی انا کی تسکین کی خاطر.ضدمیں، جھوٹی شان وشوکت کی خواہش میں گھر کی چار ریواری کو اس قدر اونچا کرتے ہیں کہ وہ ہمسائے جن کے حقوق کی ادائیگی کی خاطر نبی کریم کو وراثت میں حصہ داری کا شبہ ہونے لگا تھا.. جن کے حقوق کی پکڑ بہت سخت ہیں ان کی تازہ ہوا چھین لیتے ہیں..

اگر ان اونچی دیواروں کو گرانے کا حوصلہ ہم میں نہیں تو کم از کم دل سے نفرت کی دیوار کو گرا دینا ہی کافی ہےکیوں کہ بے شک اللہ پاک دل کی نیت کو کافی سمجھتے ہیں. اس مقدس مہینے میں حج کی ادائیگی کے لیے بھی قربانی کی شرط عائد ہے، طواف کعبہ کرنے والے دل کو صاف کرتے ہیں کیوں کہ اللہ دل کے کینہ کی صفائی کے بغیر نہیں ملتا اور دل کا کینہ اپنی “میں” مارے بغیر نہیں صاف ہوتا.

اس لیے آئے اللہ کو جانور کی قربانی کے ساتھ ساتھ، انسانوں کے ساتھ بھلائی سے بھی راضی کرے، نبی کی سنت کو زندہ کرے کیوں کہ حقوق اللہ کی ادائیگی میں تو معَافی کی گنجائش ہے مگر حقوق العباد کی قطعاً نہیں.اس لیے آئیے اس عید پر ایک دوسرے کے لیے، اپنی انا کوقربان کر کے نہ صرف اس سے معاشرے میں امن اور بھائی چارے کو فروغ ملے گا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اللہ بھی راضی ہو گا اور جب اللہ راضی تو دنیاو آخرت میں کامیابی ہی کامیابی ہے۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged , , , ,
50270

داد بیداد – کیفر کردار کہاں واقع ہے؟ – ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

اسلام اباد میں ایک بار پھر ایک خا تون کی ابرو ریزی ہو ئی حکومت نے ایک بار پھر کہہ دیا کہ مجرموں کو کیفر کر دار تک پہنچا یا جا ئے گا حکومتیں ہر گھنا ونی واردات کے بعد دعویٰ کر تی ہیں کہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچا یا جا ئے گا لیکن ہم نے نہیں دیکھا کہ کسی مجرم کو کیفر کر دار تک پہنچا یا گیا ہو ہمارے دوست شاہ جی عمر کے لحا ظ سے 70کے یبیٹے میں ہیں ایک دنیا دیکھی ہے گرم و سرد چشیدہ بھی ہیں گر گ باراں دیدہ بھی مگر بھو لے اتنے ہیں کہ ان کو کیفر کر دار کا محل وقو ع اور جعرا فیہ معلو م نہیں رات بھر ی محفل میں پو چھ رہے تھے

مجھے بتا ؤ یہ کیفر کردار نا می جگہ کہاں واقع ہے مجرم کو وہاں پہنچا نے کے لئے جہاز چا ہئیے، ریل کا ٹکٹ چا ہئیے یا عام بس اور فلا ئنگ کو چ کے ذریعے بھی مجرم کو کیفر کردار تک لے جا یا جا سکتا ہے؟ اگر حکو متوں کے پا س ٹکٹ کے پیسے نہیں ہیں وہاں تک جا نے کے لئے کوئی ٹرانسپورٹ نہیں ملتی یا فلمی گیت کی رو سے ”نہ گاڑی ہے نہ گھوڑا ہے وہاں پیدل ہی جا نا ہے“ تو پھر حکومتیں یہ اعلا ن کیوں کر تی ہیں کہ مجر م کو کیفر کردار تک پہنچا یا جا ئے گا؟ اس جگہ کا بار بار نا م لینے سے حکو متوں پر عوام کا اعتما د اُٹھ جا تا ہے عوام حکومتوں کی باتوں کا یقین ہی نہیں کر تے اور یہ کسی بھی حکومت کا بہت بڑا نقصان ہے تفنن بر طرف یہ طنزو مزاج نہیں بلکہ حقیقیت ہے کہ کیفر کردار کا نا م سن، سن کر ہمارے کا ن پک گئے ہیں

کسی مجر م کو کیفر کردار تک پہنچتے نہیں دیکھا بعض اوقات گماں ہو تا ہے کہ کیفر کردار بھی آب حیات یا ہمااور ققنس نا می پر ندوں کی طرح خیا لی جگہ ہو گی جسے کسی نے نہیں دیکھا حقیقیت یہ ہے کہ کیفر کردار کا لفظ دو فارسی الفاظ کا مر کب ہے کیفر کے معنی انجام اور کر دار کے معنی کر توت اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت مجرم کو اس کے کر توت کا انجام دکھا ئے گی یعنی قانون کے مطا بق سزا ئے موت دے کر عبرت کا نشان بنا ئیگی یہ تر کیب ایران، توران اور قدیم ہندوستان کے باد شا ہوں کی تر کیب ہے اُ س زما نے میں مجر م کو چند دنوں کی رسمی کاروائی کے بعد پھا نسی دی جا تی تھی اس عمل کو ”کیفر کردار تک پہنچا نا“ کہتے ہیں

یعنی مجرم اپنے کر توت کے انجا م کو پہنچ گیا اگر غور کیا جا ئے تو کیفر کردار دور نہیں وہاں تک کسی کو پہنچا نے کے لئے ہوائی جہاز یا ریل کی بھی ضرورت نہیں حکومت اور کیفر کردار کے درمیاں قانون کی مو شگا فیاں حا ئل ہو چکی ہیں مثلا ً مجرم نے اندھیری رات کو کسی کے گھر پر حملہ کیا 4افراد کو قتل کیا اور موقع واردات پر اسلحہ کے ساتھ پکڑا گیا پو لیس کے سامنے اپنے جرم کا اقرار کیا،

مجسٹریٹ کے سامنے بھی اقرار کیا باد شاہوں کے زما نے میں اس کو 4بار پھا نسی دی جا تی تھی اس کی جا ئداد ضبط کر کے مقتو لوں کے ورثا کو دی جا تی تھی یہ کیفر کر دار تھا اب مجرموں کا دفاعی وکیل آجا تا ہے وہ پو لیس کی گوا ہی کو نہیں ما نتا، مقتو لین کے ور ثا کی گوا ہی اس کی نظر میں قا بل قبول نہیں ڈاکٹر کی رپورٹ کو معتبر نہیں ما نا جا تا دفا عی وکیل استعاثہ کے مقدمے کو مشکوک قرار دیتا ہے اور شک کا فائدہ انگریز کے قانون میں بھی ملزم کو دیا جا تا ہے شر عی قوانین میں بھی شک کا فائدہ ملزم کو دینا جا ئز ہے چنا نچہ شک کا فائدہ دے کر ملزم کو بر ی کیا جاتا ہے

کیفر کر دار نظروں سے اوجھل ہو تا ہے ملزم با ہر آکر دو چار ایسی وار دا تیں اور بھی کر لیتا ہے 16دسمبر 2014کے روز آر می پبلک سکول پشاور کا ہو لنا ک واقعہ پیش آیا تو حکومت اور حزب اختلا ف نے مل کر فو جی عدا لتوں کا قا نون منظور کر وا یا اس قانون کے تحت فو جی عدا لتیں قائم ہو ئیں 20سال پرا نے واقعات کی فائلیں بھی فو جی عدالتوں کو بھیجی گئیں 2015کے دوران سزا ئے موت پر عملدرآمد شروع ہوا تو لو گوں نے سکھ کا سانس لیا 1994اور 1996میں کسی گئی وارداتوں کے مجرموں کو بھی اس دوران کیفر کر دار تک پہنچا یا گیا یہ ایک اچھا تجربہ تھا اس قانون کا دائرہ اثر محدود تھا اس کی مدت ختم ہونے کے بعد کیفر کردار ایک بار پھر سینکڑو ں سالوں کی مسافت پر چلا گیا ہے مجرموں کو کیفر کر دار تک پہنچا نے کے لئے ایک بارپھر غیر معمو لی حا لات کے مطا بق خصو صی قوا نین لا نے پڑینگے ورنہ کیفر کر دار کسی کو نظر نہیں آئے گا سب پو چھتے پھرینگے کیفر کر دار کہاں واقع ہے؟

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , , ,
50225

نرس پریکٹیشنرز وقت کی اہم ضرورت ہے. بلاوجہ متنازعہ بنانا عوام کے ساتھ نا انصافی ہے۔ناصرعلی شاہ

نرس پریکٹیشنرز وقت کی اہم ضرورت اور صحت کو عام کرنے کا بہترین موقع ہے. بلاوجہ متناغہ بنانا عوام کے ساتھ نا انصافی ہے
تحریر: ناصر علی شاہ

لفظ ڈاکٹر انتہائی اہمیت کا حامل اس لئے ہے کہ ڈاکٹر مسیحا ہوتا ہے اور انتہائی عقیدت و احترام کیساتھ ان الفاظ کی طرف دیکھا جاتا ہے کیونکہ درد و تکلیف میں کراہتے مریض کی اپنی زندگی میں آرام سکوں پانے کی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں اسی وجہ سے سامنے والا شخص چاہے وہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہو , نرسنگ یا پیرامیڈیکل سٹاف اپنی عقیدت اور امید لیکر ان تمام کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے ڈاکٹر (مسیحا) سے پکارتا ہے کیونکہ وہ یہ نہیں دیکھتا کہ سامنے والا شخص کتنا با اثر یا پیسے والا ہے کالا ہے یا گورا, ہندو ہے یا مسلمان, ایم بی بی ایس ہے یا بی ایس این بلکہ ہیلتھ میں ہونے کی وجہ سے لفظ ڈاکٹر کو عقیدت و احترام سے دیکھتا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عوام یا مریض امید لیکر لفظ ڈاکٹر کو قدر و عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے تمام پروفیشنلز کو ڈاکٹر سے مخاطب کرتے ہیں. لفظ ڈاکٹر بولنے سے نرسز کی محنت اور خدمت لفظ ڈاکٹر میں چھپ جاتا ہے اور مریض کے لئے کی گئی محنت اللہ کے علاوہ کسی کو نظر نہیں اتا اور نرسز کی انتھک کوشش و محنت کا صلہ شاباش یا شکریہ کی صورت میں ڈاکٹر کو ہی ملتا ہے یا یوں کہہ لیجئے جتنا اچھا پرفارمنس نرسز کی طرف سے ملی ہو وہ ڈاکٹر کے حصے میں جاتا ہے اور خدانخواستہ کوئی غلط یا کم ہو نرسز کے اوپر ڈال دیا جاتا ہے.


پہلے صحت سے منسلک لوگ چاہے ڈاکٹرز ہو, نرسز ہو یا پرامیڈیکز تمام دکھی انسانیت کی خدمت کو لیکر پیشے کیساتھ وابستہ ہوتے تھے مگر اب ہر چیز میں پیسہ ہی پیسہ نظر انے لگتا ہے کلینک لگانا نیت پیسے کمانے کی, دوائیاں لکھی تو کمپنی کی طرف سے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے, مریض کو پروٹوکول عہدے و تعلقات کو دیکھتے ہوئے دی جاتی ہے.

کچھ دن پہلے نرسنگ ٹاسک فورس کی طرف سے نرس پریکٹیشنر کی اجرا کے لئے بل قانوں سازی کے لئے تیار کی گئی تاہم ڈاکٹرز کی طرف سے سخت الفاظ کیساتھ مخالفت سامنے ایا ان میں سے کچھ ڈاکٹرز نے نرسنگ پیشے کیساتھ نرسز کو بھی گالیاں دیتے نظر ائے اور اوقات دلانے کی باتیں ہوتی رہی, جواب میں کچھ سخت باتیں نرسز کی طرف سے بھی ادا ہوئی.


یاد رکھیں کوئی پیشہ دوسرے کے اوپر فوقیت نہیں رکھتی بلکہ نمایان تعلیم و ٹرینگ کیساتھ کسی مخصوص فیلڈ میں سپشیلیٹی اور نظام کو اگے بڑھانے کے لئے ہیلتھ سسٹم کے اندر باہمی تعلق و مفاہمت سے عالمی ادارہ صحت کے قوانیں کے مطابق مریضوں کی تکلیف دور کرنے کی کوشش کیجاتی ہے اگر ہم اپس میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے بجائے لڑنے لگے پھر نہ ہمارے پروفیشن میں انے کا فائدہ اور نہ ہماری ڈگریوں کی کوئی اہمیت ہوگی اور پیشے کی اخلاقیات کے اندر رہتے ہوئے ہر اس کام کی ہمایت ہونی چاہئے جسمیں مریضوں کا فائدہ شامل ہو. ایم بی بی ایس ڈاکٹر کی اختیارات کسی نرس کو منتقل نہیں ہو رہے اور نہ ایسا ہونا چاہئے بلکہ بیماری سے پہلے صحت اور بیماری کے بعد ریکوری میں عوام کو ریلف دینے کی باتیں کی جارہی ہیں.

نرس پریکٹیشنر کی قانوں سازی عوام اور مریضوں کے لئے اچھا قدم ہے نرس پریکٹیشنر کا مطلب ایڈیشنل کورسز کیساتھ ٹرین نرس جو صحت مند کو بیماری سے بچانے اور مریض کی ریکوری میں بہترین کردار ادا کر سکے گا, یہ نرسز تشخیص اور لیبارٹری ٹیسٹ کے مطابق مریض ایم بی بی ایس ڈاکٹر کو ریفر کر سکتا ہے جس سے مریض کا وقت بچ جائیگا اور بیماری کے اوپر قابو پانے میں اہم کردار ہوگا. نرس پریکٹشنر بروقت ابتدائی علاج مہیا کرنے میں معاون اور ایمرجنسی حالات میں بھی تیز رسپونس کو یقینی بنا کر مریض کی جان بچانے میں اہم ترین کردار ادا کر سکتا ہے.


تمام بخوبی جانتے ہیں کہ زیادہ تر ڈاکٹرز کی کوشش ہوتی ہے کہ شہروں کے اندر ہسپتالوں میں کام کرے کیونکہ وہاں کیرئیر بنانے کے مواقع کیساتھ کمانے کی گنجائش زیادہ ہوتی ہے اس کے برعکس رورل ایریاز بھجنے کے لئے حکومت کو مراعات دینا پڑ رہا ہے مگر پھر بھی کوئی تیار نہیں, رورل ہیلتھ سنٹر اور بیسک ہیلتھ سنٹر میں ڈاکٹر کے نام کا بورڈ تک نظر نہیں ائیگا کیوں وہ عوام کے زمرے میں نہیں آتے؟؟

بیسویں صدی کے آخر میں امریکہ اپنے عوام کو صحت کی بہترین سہولیات مہیا کرنے کی عرض سے ریسرچ کروا کر نرسنگ پریکٹیشنر کا اجرا کیا جس کا تواقعات سے زیادہ مثبت اثرات مرتب ہونے لگے. اس پریکٹس کی وجہ سے ہسپتالوں میں رش کام ہوگیا اور حقدار مریض کو درست علاج کی فراہمی میں اسانی پیدا ہوگئی کیونکہ نرس پریکٹشنرز نے چھان بین کرکے ضرورت مند مریض کو ہی ہسپتال ریفرنرس پریکٹیشنرز وقت کی اہم ضرورت اور صحت کو عام کرنے کا بہترین موقع ہے. بلاوجہ متناغہ بنانا عوام کے ساتھ نا انصافی ہے کرنا شروع کی.


تمام ڈاکٹر صاحبان نے نوٹس کیا ہوگا ایمرجنسی وارڈ میں ایمرجنسی کم اور او پی ڈی کے مریض زیادہ اتے ہیں جس کی وجہ سے رش بڑھ جاتا ہے اور ضرورت مند مریض کو یا تو وقت کم ملتا ہے یا مناسب وقت ملتا ہی نہیں.

نرسنگ پریکٹشنرز کا بل منظور ہونا چاہئے اور قانوں سازی بھی ہونا چاہئے کیونکہ رورل ایریاز میں نرسنگ پریکٹشنرز کو بھجوا کر ہیلتھ ایجوکیشن کو عام کرنے کی اشد ضرورت ہے تمام علاقے کے لوگوں کی وقت سے پہلے تشخیص اور محدود علاج و معالج کی اجازت ملنا چاہئے تاکہ عالمی ادارہ صحت کا بیانیہ ہیلتھ فار آل یعنی صحت سب کے لئے کا خواب پورا ہوسکے اور دور دراز سے مریض کچے سڑکوں پر ہچکولے کھاتے مزید بیمار ہونے سے بچ سکے..

میری ڈاکٹر کمیونٹی سے بھی گزارش ہے عوام کی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے بل کو غیر ضروری متناعہ بنانے سے خود کو دور رکھیں اور کھلے دماغ سے مثبت اثرات کے اوپر سوچے تاکہ محدود نرسنگ پریکٹس سے دوردراز سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو فائدہ پہنچ سکے

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , ,
50218

ہر خودکشی کرنیوالے کا ایک قاتل ہوتا ہے! – گل عدن

ہمیشہ کہا جاتا ہے کہ ہر خودکشی کرنے والے کا کوئی قاتل بھی ہوتا ہے ۔مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے اور میں نے اپنی محدود سمجھ کے مطابق اس قتل کے ذمہ داروں کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔لیکن یاد رہے کہ یہ میری رائے ہے ایک فرد واحد کی حثیت سے۔قارئین کا مجھ سے اتفاق رائے رکھنا ضروری نہیں ۔


اب ہم اپنے موضوع کیطرف آتے ہیں ۔اس جرم کے حصہ داروں میں پہلا نام والدین کا آتا ہے ۔میں والدین کو قاتل تو نہیں کہتی مگر جو والدین اپنی اولاد میں تفرقہ کرکے انہیں ذہنی امراض میں دھکیل دیتے ہیں’جو اپنی اولاد کو حلال اور حرام میں ‘سہی اور غلط میں تمیز نہیں سکھا پاتے’ جو اولاد کے معصوم ذہنوں میں رشتے داروں کے خلاف زہر بھرتے ہیں ‘جو اولاد کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے ہیں’جو اپنے بچوں کی صحبت پر نظر نہیں رکتھے اور اونچ نیچ ہونے کی صورت میں اپنی اولاد کی غلطیوں کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھرا کر اپنی اولاد کو ہمیشہ ہر جرم سے بری الزمہ کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ایسے والدین کو میں خودکشیوں کا ذمہ دار سمجھتی ہوں۔ یاد رہے اولاد کی حق میں والدین کا بہترین عطیہ انکی اچھی تعلیم و تربیت ہے۔

یہاں آپ شاید مجھ سے اتفاق کریں گے کہ خودکشی کرنے والے کہ ذہن میں بہت سی وجوہات کے علاوہ ایک مقصد کسی مخصوص فرد یا کچھ مخصوص رشتوں کو دنیا کے سامنے اپنی موت کا ذمہ دار دکھانا ہوتا ہے یا کسی کو اسکے برے سلوک کا احساس دلانا یا اپنی ہر بایعنی ضد کو ثابت کرنا ہوتا ہے ۔اب آپ مجھے بتایئں کیا ایسی سوچ ایکدم سے دماغ میں آتی ہے ؟؟نہیں !!یہ سوچ ہمارے اندر بچپن سے پروان چرھتی آرہی ہے ۔جب گھر میں بیٹے کی سگریٹ پینے کی شکایت موصول ہوتی ہے یا سکول سے بچوں کی نالائقی کی شکایت آتی ہے تو کیسے ہماری مائیں ہر چیز کا ذمہ ہمارے دوستوں پر ڈال دیتی ہیں۔ہمارے ذہن میں یہ بات ڈالی جاتی ہے کہ ہم جب جب کچھ غلط کریں گے تو اسکا قصوروار ہم سے زیادہ ہمارے دوست ہونگے۔ ۔

بس ایسا دیکھتے دیکتھے ہم اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں کے جاتے جاتے اپنی موت کی ذمہ داری بھی کسی کے سر پر ڈالنا چاہتے ہیں۔کیونکہ اپنا کیا دھرا دوسروں کے سر پر ڈالنے کی ہماری گندی عادت پختہ ہو چکی ہوتی ہے ۔ 2:خودکشی کرنے والے کا دوسرا قاتل “گھر کا ماحول ” ہے ۔ایک کہاوت ہے کہ ایک گندی مچلی پورے تالاب کو گندہ کر دیتی ہے ۔گھر میں اگر ایک شخص بخیل ہے تو علاقے میں کنجوس گھرانہ آپکا تعارف بن جاتا ہے ۔ گھر میں ایک فرد اگر پیشانی پر بل ڈال کر مہمانوں سے ملتا ہے تو باقی تمام اہل خانہ کی مہمان نوازی خاک میں مل جاتی ہے ۔

گھر کا ماحول بنانے میں تو سبھی گھر والوں کا ہاتھ ہوتا ہے مگر بنے بنائے ماحول کو بگاڑنے کے لئے ایک فرد کافی ہوتا ہے ۔اس اک فرد کو جسے آپ کسی بھی طرح خوش یا مطمئن نہیں کر پارہے ہیں ۔ جو آپکی نہ خوشی دیکھتا ہے نا غم۔جو چاہتا ہے کہ پورا گھر بس اسکے مسائل میں الجھا رہے ۔اور جسکی پریشانیاں مسائل بیماریاں کسی صورت ختم نہیں ہورہیں اس شخص کو ذہنی امراض کے ماہرین سے ملوانے کی ضروت ہے ۔مسئلہ یہ ہے کہ ایسے لوگ خود کو ذہنی مریض کھبی تسلیم نہیں کرتے۔اور کسی صورت اپنی علاج پر راضی نہیں ہوتے۔لیکن ایک ذہنی مریض کو جانتے بوجھتے اسکے حال پر چھوڑ دینا اسے قتل کرنے کے برابر ہے۔بلکہ ایک فرد کا دماغی علاج نہ کرنا پورے گھر کو اپنے ہاتھوں سے پاگل خانہ بنا دینے کے مترادف ہے ۔

یاد رہے ذہنی اذیت جسمانی اذیت سے کہیں زیادہ تکلیف دہ اور قابل رحم ہوتے ہیں ۔یہ بھی حقیقت ہے کے ہر کوئی ماہر نفسیات تک رسائی نہیں رکھتا ہے لیکن اگر آپکے گھر کا کوئی فرد ڈپریشن کا شکار ہے تو آپ اسکے ساتھ ہمدردی کا رویہ رکھیں۔اپنے ذہنی طور پر صحت مند ہونے کا ثبوت دیں اور اسے ” پاگل” کے خطاب سے نہ نوازیں۔ 3خودکشی کرنے والے کا تیسرا اور سب سے بنیادی ذمہ دار (قاتل ) خودکشی کرنے والا خود ہوتا ہے۔ ۔باوجود اسکے کہ ہمیں اچھے والدین نہیں ملے۔ ۔باوجود اسکے کے ہمیں بدترین خاندان ملا ۔بہت برے رشتہ دار ملے۔باوجوداسکے کے کسی کو ہم سے ہمدردی نہیں ‘محبت نہیں ۔ ہمیں کچھ بھی حسب منشا نہیں ملا ۔ ۔

باوجود اسکے کے ہمیں ہر قدم پر ناکامی کا سامنا کرنا پرتا ہے ۔کوئی ہمارا ساتھ نہیں دیتا۔باوجود اسکے کے کہ ہم بہت بدصورت ہیں ۔غریب ہیں ۔مصائب کا سامنا ہے ۔ہار گئے ہیں ۔ازیت میں ہیں ۔کوئی چھوڑ کر جا چکا ہے کسی کو چھوڑنا پڑ رہا ہے ۔اس سب کے باوجود کوئی وجہ اس قابل نہیں ہے جو “خودکشی” کے لئے “کافی”ہو جائے۔ بڑی سے بڑی وجہ اور بڑی سے بڑی مصیبت بھی “زندگی “جیسے قیمتی تحفے کو جو اللہ رب العزت کی ذات نے ہمیں عطاء کی ہے’ کو ٹھکرانے کے آگے چھوٹی پر جاتی ہے ۔ جب خالق کی ذات اتنی مہربان ہوسکتی ہے کہ ہماری گناہوں سے تر زندگی کو ایک اشک ندامت پر معاف فرمادے تو ہم کون ہوتے ہیں خود کو یا دوسروں کو سزا دینے والے۔اور یہ کہاں لکھا ہے کہ زندہ رہنے کے لئے ہر میدان میں کامیاب ہونا شرط ہے ؟

کس نے کہا کے دنیا صرف خوبصورت لوگوں کے لئے ہے ؟یا اہم ہونا زندگی کی شرط ہے ؟ کس نے آپ سے کہا ہے کہ اچھی زندگی کہ لئے خاص ہونا’امیر ہونا’پسند کی زندگی گزارنا شرط ہے ؟ یہاں تو پھول بھی کانٹوں کے بغیر نہیں اگتے پھر آپکو کیوں نہیں دکھتا کہ ہر شخص باوجود خوبصورت ہونے کے’ کامیاب ہونے کے ‘ بے تحاشہ دولت مند ہونے کے پریشانیوں اور مشکلات کا شکار ہے ۔آپکو محبوب نہ ملنے کا غم ہے اور کچھ لوگ محبوب کو پاکر غمگین ہیں ۔کوئی ہار کر غمزدہ ہے کسی کو جیت مزہ نہیں دے رہی ہے۔امیر غریب پہ رشک کھا رہا ہے ۔غریب امیر کو دیکھ کے آہیں بھرتا ہے۔ آپ کسی کے بارے میں بھی یقین سے نہیں کہ سکتے کہ وہ اپنی زندگی سے سو فیصد خوش یا مطمئن ہے زرا سوچیں آپکی آنکھوں پ بندھی پٹی محبت کی ہے یا کم عقلی کی۔خودترسی سے جتنی جلدی ہوسکے باہر آجائیں۔ضرورت یہ جاننے کی ہے کہ اگر دنیا کے سارے لوگ مصائب کا تو شکار ہیں مگر سارے لوگ تو خودکشی نہیں کر رہے ہیں ۔

کیوں؟ کیونکہ سارے لوگ بزدل اور بے وقوف نہیں ہیں۔ کیونکہ پسند کی شادی نہ ہونا’افسر نہ بننا ہر دلعزیز نہ ہونا اتنا بڑا نقصان نہیں ہے کہ آپ اپنی موت کو ہی گلے لگالیں۔مجھے ان لوگوں پر بھی حیرت ہوتی ہے جو خواہش رکھتے ہیں کہ کاش وقت انہیں کچھ سال پیچھے لے جائے تاکے ان سے جو غلطیاں ہوئیں ہیں وہ ان سے بچ نکلیں۔آپ دس سال پیچھے جا کر غلطی سدھار آئیں لیکن اس بات کی کیا گاڑنٹی ہے آپ دس سال بعد یا موجودہ وقت میں کوئی غلطی نہیں کررہے ہیں ؟؟ جبکہ انسان تو خطاء کا پتلا ہے ۔غلطیوں کو سدھارنا یہ ہے کہ آپ اپنی غلطی کو غلطی تسلیم کرلیں۔اس سے سبق حاصل کریں۔اور انہیں بار بار دہرا کر اپنی عادت نہ بنائیں۔


اور پسند کی شادی نہ ہونا محبوب کا آپکو چھوڑ دینا یا اپنی والدین کی خوشی کی خاطر اپنی خوشی سے دستبردار ہونا کوئی اتنی بڑی قیامت نہیں ہے کہ جسکے بعد آپکی زندہ رہنے کی وجہ ختم ہوجائے۔مثال کے طور پر جب کوئی مرجاتا ہے تو اسکے اپنے کس دل سے اسے منوں مٹی تلے دفنا کر اپنے گھر اور دنیا کیطرف لوٹ آتے ہیں۔اس میں یہی ایک سبق ہے ہماری زندگی کی تمام معاملات کو لیکر ۔جسطرح مرنے والے کے ساتھ مرا نہیں جاتا۔اگر آپ اپنے ہی جان چھرکنے والے ماں باپ کو بہن بیٹی بھائی یا کسی بھی عزیز کو مٹی کے حوالے کرکے واپس دنیا کی طرف لوٹ سکتے ہیں کھا پی سکتے ہیں ہنس بول سکتے ہیں تو اسکا مطلب ہے کہ ایسے ہی آپ کسی بھی خواہش خوشی اور فرد کے بغیر زندہ اور خوش باش رہ سکتے ہیں۔

دنیا کی کوئی بھی چیز رشتے اور تعلق آپکی زندگی کی ضمانت نہیں ہیں بلکہ صرف آپکی آزمائش ہیں۔اور ہاں ایک بات اور آپکو کیوں لگتا ہے کہ خوش رہنا ہی زندگی ہے سچ تو یہ ہے کہ اپنے غموں محرومیوں اور ناکامیوں کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کا نام ہی زندگی ہے اور یہ سب ایسے ممکن ہو سکتا ہے کہ کہ ہر معاملے کو رب کی رضا جان کر اس میں راضی رہ کرصرف صبر اورشکر سے ہماری زندگیاں آسان ہوسکتی ہیں ۔ اللہ ہمارا مدد گار ہو۔آمین
پرھنے اور سمجھنے والوں کا بے حد شکریہ

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged , , , , ,
50204