Chitral Times

داد بیداد ۔ بنیا دی نکات ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

داد بیداد ۔ بنیا دی نکات ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

اخبارات میں خبر لگی ہے کہ عدالتوں کی وزیر ستان منتقلی کا کا م مو خر کر دیا گیا ہے 2010میں جب سابقہ فاٹا کو صوبے میں ضم کر نے کی بات چل نکلی تو ایک ستم ظریف نے بھری محفل میں جو ن ایلیا کا شعر سنا یا تھا نہیں بنیا د کی کوئی بنیاد یہی بابا الف کا ہے ارشاد اب معلوم ہوا کہ فاٹا کو ضم اضلا ع کا نا م دینے کے لئے دس سالوں تک جو کا م ہوا وہ بنیا دی نکا ت سے خا لی تھا مثلاً بنیادی ڈھا نچہ کس طرح قائم ہو گا، پو لیس، عدالت اور ضلعی انتظا میہ کسطرح قائم ہو گی ان پر کسی نے غور نہیں کیا تھا بنیا دی نکا ت کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ وزیر ستان میں عدالتیں قائم کرنے کا کام چوتھی بار ملتوی کر دیا گیا ہے جب عدالتیں قائم ہو نگی تو عوام کو محسوس ہو گا کہ فاٹا کو اب واقعی ضم اضلا ع کہا جا تا ہے اس کی کوئی وجہ بھی تھی کوئی تبدیلی بھی نظر آنی چا ہئیے تھی

آج کے بنیادی نکا ت میں ایک نکتہ اخبارات میں قرآنی آیات چھاپنے اور چھپوانے کا ہے کوئی بھی روز نا مہ اخبار اگلے دن پرانا ہوجا تا ہے مہینہ بعد کباڑ یا اُسے اٹھا لے جا تا ہے عموماً اشتہارات ڈیزائن کرنے والے مرحوم یا مر حومہ کی رسم قل، چالیسویں یا برسی کے اشتہارات میں قرآنی آیات کو جلی حروف میں لکھ دیتے ہیں مختلف مصنو عات کے اشتہارات میں روزی، آمدن، خوشی اور صحت کے حوالے سے قرآنی آیات کو اشتہار کا حصہ بنا یا جا تا ہے یہ غیر صحت مند انہ رجحان ہے مر حوم یا مرحومہ کی کسی خو بی یا خد مت کو سامنے رکھ کر اشتہار ڈیزائن کیا جا سکتا ہے زمینات کی خریدو فروخت یا بازاری مصنو عات کی خریدو فروخت کے اشتہارات میں بھی قرآنی آیا ت کا تقدس اور احترام ملحوظ خا طر ہو نا چا ہئیے

 

اگر کوئی شخص اپنا ما ل فروخت کرنے کے لئے قسم کھا تا ہے تو فائدہ حرام ہوجا تا ہے اگر کوئی شخص اپنا مال بیچنے کے لئے قرآنی آیا ت کا سہا را لیتا ہے تو پڑھنے والے کو ایسا لگتا ہے اس مال میں کوئی خو بی نہیں جس کا ذکر اشتہار میں آنے کے قابل ہو اس لئے آیتوں کا سہا را لیا جا رہا ہے یہ اخبارکباڑ میں جا ئے گا تو آیت کریمہ کی بے حر متی کا جر م اشتہار دینے والے اور ڈیزائن کرنے والے کے ساتھ ساتھ اشتہار چھاپنے والے پر بھی لا زم ہو گا اس کا باقاعدہ قانون بھی مو جو د ہے اس لئے احتیاط کا دامن تھا منا چاہئیے ایک اور نکتہ دونوں کے برابر اہم ہے رمضا ن المبارک کا چاند دیکھنے کے لئے سعودی حکومت کی اعلیٰ عدالت دار القضا نے اعلا ن کیا ہے کہ چاند اگر کسی نے دیکھا تو اپنی شہا دت قاضی کے سامنے آکر ریکارڈ کرائے سعودی عرب کے اس نظا م کو دیکھ کر بنیا دی بات یاد آگئی کہ مقروض ملک پا کستان میں بھی رویت ہلا ل کا کام عدلیہ کے سپرد کر کے چاند دیکھنے والی کمیٹی کو گھر بھیجا جا سکتا ہے

 

وفاقی حکومت میں ایسے کئی ادارے بنا ئے گئے ہیں جن کا کام دوسرا دفتر بخو بی انجا م دے سکتا ہے مثلاً نیشنل ہجرہ کونسل، نیشنل سیرت کمیٹی، اسلا می نظریا تی کونسل اور رحمتہ العا لمین اتھارٹی یا مثال کے طور پر اکا دمی ادبیات اور ادارہ برائے فروع اردو، یا اس قبیل سے لو ک ورثہ اور پا کستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس دیگر شعبوں میں بھی ایسی مثا لیں مو جو د ہیں غیر ترقیا تی اخرا جا ت کو کم کرنے کے لئے اس نو عیت کا اپریشن بنیا دی نکا ت میں شا مل ہونا چا ہئیے آج کا آخری بنیادی نکتہ یہ ہے کہ منشیا ت کی روک تھا م کا نیا قانون بنا یا گیا ہے جس میں پو لیس کو پا بند کیا گیا ہے کہ وہ کسی مشتبہ شخص یا ملزم سے کوئی نشہ آور چیز مخصوص مقدار میں برآمد کر تے وقت اس واقعے کی ویڈیو بنا ئے اس ویڈیو کی مدد سے عدالت ملزم کو سزا سنا ئیگی اب تک عدالتیں پو لیس والوں سے کہتی تھیں کہ خود گواہ نہ بنو کسی شہری کو گواہ بناؤ، پو لیس کے لئے نشہ آور چیز برآمد کرتے وقت گواہی کے لئے شہری تلا ش کرنا بڑا مسئلہ تھا اور شہری کو رضا کا را نہ طور پر شہا دت کے لئے عدالت میں پیش کرنا بھی جا ں جو کھوں کا کا م تھا اب یہ کا م مزید مشکل ہو گیا اب پو لیس کو کیمرہ مین بھی ڈھونڈ نا پڑے گا ویڈیو کیمرہ لیکر گھومنا پڑے گا بنیا دی نکتہ یہ ہے کہ عدالت پو لیس کی شہا دت پر اعتبار کیوں نہیں کر تی اس طرح کے قو انین سے معا شرہ جرائم کا گڑھ بن جا تا ہے یہ بھی بنیا دی نکا ت میں اہم نکتہ ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
72817

دادبیداد ۔ افرادی قوت کا ضیا ع۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

اسلا م اباد کے ایک ہا ل میں بے روز گار نو جواں جمع تھے ان میں پر چیاں تقسیم کر کے کہا گیا کہ اپنی تعلیمی قابلیت کی آخری ڈگری کا نا م لکھو سب نے لکھا پر چیاں جمع کی گئیں جب حساب لگا یا گیا تو معلوم ہوا کہ ان میں 70فیصد ایم اے اور ایم ایس سی کر چکے تھے بقیہ میں سے 25فیصد بی اے، بی کام، ایم کام، ایم بی اے وغیرہ کی ڈگریوں والے تھے جبکہ 5فیصد ایم فل یا پی ایچ ڈی بھی تھے ہال کے پروگرام کا سہو لت کار جب روسٹرم پر آیا تو اُس نے اپنی بات ایک واقعے سے شروع کی واقعہ یون بیاں کیا کہ جا پان، چین اور جنو بی کوریا میں کوئی نو جوان بے روز گار نہیں ہوتا وجہ یہ ہے کہ وہاں پرائمیری سکول میں نو جوان کے روزگار کا فیصلہ ہوجا تا ہے وہاں گریجو ویشن اور ما سٹر کی ڈگری سے زیا دہ پرائمیری سر ٹیفیکیٹ کو اہمیت دی جا تی ہے

صرف تین جملوں میں اتنی بڑی بات کہنے کے بعد سہو لت کار نے بے روز گار نوجوانوں سے خطاب کر تے ہوئے کہا تم میں کسی کو یو نیورسٹی اور کا لج جا نے کی ضرورت نہیں تھی اگر تم 10سال سکول میں گزار نے کے بعد کسی ایک شعبے میں کام کرنے پر لگ جا تے تو آج تم میں سے کوئی بھی بے روز گار نہ ہو تا اپنے پر مغز اور بصیرت افروز خطاب کے آخر میں انہوں نے کہا کہ ملک کے تما م نوجوانوں کو یو نیورسٹی کا راستہ دکھا نا افرادی قوت کا ضیا ع ہے پرائمیری تعلیم لا زمی ہے سو فیصد کو ملنی چا ہئیے یو نیورسٹی کی تعلیم لا زمی نہیں اگر 20فیصد کو ملے توکا فی ہے با قی 80فیصد کے ساتھ ان کو بھی با عزت روز گار کے موا قع مل جائینگے ہال میں بیٹھے ہوئے سا معین میں سے صاحب ذوق حا ضرین کو ضمیر جعفری کا مشہور مصرعہ یا دآ یا ”ڈگری کو میرے لیجئے اچار ڈلئیے“ وطن عزیز پا کستان میں 73سالوں کے اندر 10تعلیمی پا لیسیاں بنا ئی گئیں.

یکسان نصاب والی پا لیسی دسویں پا لیسی ہے ان پا لیسیوں نے قوم کو بے روزگار وں کی فوج ظرمو ج کا تحفہ دیا ہے ہم نے جا پا ن، چین اور جنو بی کوریا سے کچھ نہیں سیکھا اعلیٰ تعلیم اچھی چیز ہے اللہ تعا لیٰ کی نعمت ہے لیکن اس کو لا زم ٹھہر انا درست نہیں تعلیمی نفسیات میں بچوں اور بچیوں کے استعداد، ان کی دلچسپی اور ان کی مہا رتوں کو نا پنے کے بڑے اچھے اور واضح پیما نے مقرر ہیں آج کل ان پیما نوں کا جا ئزہ 3سال کے بچوں اور اس عمر کی بچیوں سے شروع کیا جا تا ہے ابتدائی بچپن کی ترقی (ای سی ڈی) اور مونٹی سوری کے نظام تعلیم میں 3سال سے لیکر 5سال تک کی بچیاں یا اس عمر کے بچے داخل ہو تے ہیں ان کے سامنے ایک طرف ریت، پتھر، مٹی کے ڈھیر رکھے جا تے ہیں دوسری طرف مختلف کا موں کے اوزار رکھے جا تے ہیں تیسری طرف کتاب، کا پی، پنسل، چارٹ اور ڈرائنگ والے رنگ رکھے جا تے ہیں

بچیوں اور بچوں کو آزادی سے اپنا پسندیدہ کھیل کھیلنے کی کھلی اجا زت دی جا تی ہے اساتذہ ہر طا لب علم یا طا لبہ کی دلچسپی اور ذہنی استعداد کا مشا ہدہ کرتے ہیں یہ مشا ہدات 2سال بعد بچے یا بچی کے مستقبل کا تعین کرنے میں مدد دیتے ہیں پرائمیری تعلیم 7سال کا ہوتا ہے 7سال کے بعد سکول کا سر براہ جو سر ٹیفیکیٹ دیتا ہے اس میں طا لبہ یا طالب علم کی دلچسپی اور اس کے ذہنی استعداد کا جا ئزہ سب سے اہم ہو تا ہے اسی جا ئزے کی رو سے وہ جمنا سٹک، یا دیگر کھیلوں کے لئے منتخب ہوتا ہے اس کو فیکٹری یا زر عی فارم میں کا م دیا جا تا ہے جس میں وہ سیکھتا بھی ہے کما تا بھی ہے 80فیصد نو جواں 15سال سے کم عمر میں کام کرنا شروع کر تے ہیں 20فیصد گریجو یشن اور ما سٹر ز کی طرف جا تے ہیں ان میں سے کوئی بے روز گار نہیں ہو تا ان کی افرادی قوت ضا ئع نہیں ہوتی جبکہ ہماری افرادی قوت ضا ئع ہو جا تی ہے۔

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged
56095

دادبیداد ۔ ہندوتوا کی سیا ست کا ہُنر۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیض

آج کل بھارت کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے سیا ستدانوں کو دیکھیں یا دیگر سیاستدانوں کے بیا نات اور ان کی تقریروں کے روز بروز بدلتے لہجوں اور باتوں کو پر کھنے کی کو شش کریں تو یہ بات عیاں ہو جا تی ہے کہ سیا ست علم بھی ہے ہنر بھی اور ہنر کا مادہ علم پر حاوی ہے ایک سیا ست دان ایک شہر میں جو بیان دیتا ہے دوسرے شہر میں اس کے بر عکس بیان دیتا ہے ایک سیا ست دان ایک ہی مسئلے پر چار چار موقف سامنے لا تا ہے اور اس پر اترآتا ہے یہ ایک ہنر ہے یہ سیا ست کا حُسن ہے جس زما نے میں سویت یو نین کے اندر سخت ترین پا بند یاں تھیں اُس دور میں ایک یہو دی پرو فیسر کو سویت یو نین سے اسرائیل منتقل ہو نے کی اجا زت ملی یہو دی پرو فیسر بال بچوں کو لیکر ما سکو کے ہو ائی اڈے پہنچا تلا شی کے دوران ان کے سا مان سے لینن کا مجسمہ بر آمد ہوا حکام نے پوچھا یہ کیا ہے؟ پر و فیسر نے کہا سوال غلط ہے یو ں پو چھو یہ کون ہے؟

حکا م نے پوچھا یہ کون ہے پرو فیسر نے کہا یہ لینن ہے ہمار ا نجا ت دہندہ، سویت انقلا ب کا با نی، روسی عوام کا محسن میرا لیڈر، میرا آئیڈیل میں اس کو یاد گار کے طور پر ساتھ لے جا رہا ہوں حکام نے اجا زت دیدی جب تل ابیب کے ہوائی اڈے پر اترا پھر تلا شی کا مر حلہ آیا پھر سوال ہوا یہ کیا ہے؟ پرو فیسر نے پھر کہا سوال غلط ہے یہ کیوں نہیں پوچھتے کہ یہ کون ہے حکام نے پوچھا یہ کون ہے؟ پروفیسر نے کہا یہ وہ ملعون ہے جس کی وجہ سے روس میں یہو دیوں کی زند گی اجیرن ہوئی یہ روسی انقلاب کا با نی لینن ہے میں ہر روز ہزار بار اس پر لعنت بھیجتا ہوں اس لئے اس کو ساتھ لا یا ہوں جب تک زندہ ہوں اس پر لعنت بھیجتا رہوں گا حکام نے اجا زت دے دی پر و فیسر کو تل ابیب میں شا یان شان گھر ملا ایک دن اس کے چا ہنے والے احباب جمع ہو ئے احباب نے دیکھا کہ ایک مجسمہ ڈرائنگ روم کی میز پر رکھا ہوا ہے احباب نے پوچھا یہ کون ہے؟ پرو فیسر نے کہا سوال غلط ہے یوں پوچھو یہ کیا ہے احباب نے پوچھا یہ کیا ہے؟

پرو فیسر نے کہا یہ دس کلو گرام سونا ہے! احباب حیراں ہوئے تم نے اس کو کیسے یہاں تک پہنچا یا پرو فیسر نے کہا ما سکو کے ہوائی اڈے پر یہ نجا ت دہندہ بن کر آیا، تل ابیب کے ہوائی اڈے پر یہ ملعون ٹھہرا یا گیا اب یہ میری دولت ہے احباب نے کہا آپ نے کما ل کر دیا پرو فیسر نے کہا اس کو سیا ست کہتے ہیں اور یہ ایسا ہنر ہے جو زند گی کے ہر موڑ پر کا م آتا ہے بھارت میں ہندو توا کی سیا ست اور چانکیہ پا لیسی اس ہنر کا منہ بولتا شہکا ر ہے بھا رتی سیا ست دان یو رپ اور امریکہ جا تے ہیں تو انسا نی حقوق کا علم بردار بنتے ہیں جمہوریت کا چمپین بن جا تے ہیں واپس نئی دہلی پہنچ جا تے ہیں تو مسلما نوں اور سکھوں کو بنیا دی حقوق دینے سے انکار کر تے ہیں کشمیر میں جمہوری طرز کے استضواب رائے سے منہ موڑ تے ہیں گویا انسا نی حقوق اور جمہوریت بھی یورپ اور امریکہ کو دکھا نے کے لئے کام میں لا ئے جا تے ہیں لینن کے مجسمے کی طرح وہاں نجا ت دہندہ اور یہاں ملعون ٹھہرا ئے جا تے ہیں اصل حقیقت دولت ہے جس طرح بھی ہاتھ آئے لگتا ہے سیاست میں یہودیوں کا جو نظر یہ ہے ہندووں کا بھی وہی نقطہ نظر ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54261

دادبیداد ۔ پینے کا نا پا ک پا نی ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

دادبیداد ۔ پینے کا نا پا ک پا نی ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

ایک خبر اخبارات میں لگ گئی اس پر اداریے بھی لکھے گئے شذرے بھی لکھے گئے الیکڑا نک اور سوشل میڈیا پر بھی یہ خبر پھیل گئی چاروں اطراف میں تقسیم ہوئی حکومت کی طرف سے اس کی تردید بھی نہیں آئی کسی اعلیٰ شخصیت نے اس کا نوٹس بھی نہیں لیا میں نے کراچی، لا ہور اور اسلام اباد کے ہو ٹلوں میں جگہ جگہ لکھا ہوا دیکھا تھا کہ نلکے کا پا نی پینے کے قا بل نہیں ہے اخبارات کی خبر بھی اس حوالے سے ہے.

قومی اسمبلی میں ایک سوال کے جواب میں وفا قی حکومت کی طرف سے پینے کے پا نی کی صورت حا ل کے جو اعداد و شمار دیئے گئے ہیں ان کی رو سے وطن پا ک کے 29بڑے شہروں میں نلکوں کا پا نی نا پا ک ہے اور پینے کے قا بل نہیں ہے اب تک حکومت نے صر ف 29شہروں کا سروے کیا ہے اگر مزید شہروں اور قصبوں کا سروے ہوا تو خد شہ ہے کہ کسی بھی شہر اور قصبے میں نلکوں کا پا نی پینے کے قا بل ثا بت نہیں ہو گا لیبار ٹری میں ٹیسٹ کے بعد ہر شہر اور قصبے میں نلکوں کا پا نی ان کو نا پا ک اور زہرآلود ہی ملے گا

یہی وجہ ہے کہ بڑے شہروں میں لو گ بڑے مکا نوں میں رہتے ہیں مگر نلکوں کا پا نی کھا نے پینے میں استعمال نہیں کر تے پینے کا پا نی بڑے بو تلوں میں آتا ہے اس کا الگ ٹھیکہ دار ہے روزانہ بھرے پا نی کے بو تل مہیا کر کے خا لی بو تل اٹھا لیتا ہے اور مہینے کے آخر میں نلکے کا بل الگ آتا ہے بو تل کا بل الگ آتا ہے مگر یہ سہو لت صرف چار شہروں میں دستیاب ہے پشاور، مردان، نو شہرہ، ایبٹ اباد اور ڈی آئی خا ن سمیت خیبر پختونخوا کے کسی شہر میں دستیاب نہیں.

1987ء میں ایک غیر سر کا ری تنظیم نے گلگت،چترال، حیدر اباد اور کراچی میں پینے کے پا نی کا سروے کیا پا نی کے نمو نوں کا لیبارٹری ٹیسٹ کروایا اس کے نتا ئج کا ہسپتا لوں میں بیمار یوں کے سروے کے ساتھ موا زنہ کیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ان علا قوں میں 83فیصد بیما ریاں پینے کے نا پا ک پا نی کی وجہ سے پھیلتی ہیں ان بیماریوں میں معدہ، جگر، دل،پھیپھڑوں اور گردوں کی بیماریاں نما یاں طور پر شا مل تھیں نیز یہ بھی رپورٹ ہوئی تھی کہ سانس کی بیما ریاں اور کینسر پھیلنے کا سبب بھی پینے کا نا پا ک پا نی ہے سر وے کے بعد دیہا تی علا قوں میں پینے کا صاف پا نی مہیا کرنے کے بڑے بڑے منصو بے دئیے گئے شہروں میں پرا نے واٹر ٹینک اور بو سیدہ پا ئپ تبدیل کروائے گئے

اقوام متحدہ کی تنظیم یو نیسیف (UNICEF) 190ملکوں میں کام کر تی ہے اس کے مقرر کر دہ معیار کے مطا بق سیمنٹ کی ٹینکی اور جستی پا ئب اپنی عمر پوری کر نے کے بعد زہر آلو د ہو جا تے ہیں نلکے کا پا نی ٹینکی میں بھی آلودہ ہو تا ہے جستی پا ئپوں میں بھی آلودہ ہو جا تا ہے چنا نچہ زنگ آ لود پائپوں میں جو پا نی آتا ہے وہ زہر یلا ما دہ لیکر آتا ہے اور بیما ری پھیلا تا ہے بڑے شہروں کی نوا حی بستیوں میں نکا سی آب کا انتظام نہیں آلودہ پا نی زمین کے اندر جا تا ہے چھوٹے شہروں میں بھی سیوریج اور ڈر ینیج کا کوئی سسٹم نہیں اس لئے گھروں کا آلودہ پا نی زمین کے اندر جا تا ہے اور زیر زمین پا نی کو آلو دہ کر دیتا ہے ٹیوب ویلوں کو بھی زہر آلود کر تا ہے شہری آبا دی کی منصو بہ بندی با لکل نہیں ہو ئی.

خبر آنے کے بعد سول سو سائیٹی اور بیو روکریسی کو ملکر اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے اگر غور کیا جا ئے تو معلوم ہو گا کہ ہمارے ہاں بجٹ سازی اور تر قیاتی منصو بہ بندی کا کام انجینروں اور تر بیت یا فتہ افیسروں سے لیکر سیا سی کا ر کنوں اور عوامی نما ئیندوں کو دیا گیا ہے وسائل کی تقسیم میں ضرورت کو مد نظر رکھنے کے بجا ئے مصلحت کو سامنے رکھا جا تا ہے کہ کسی شخصیت کو خوش کیا جائے اور کسی شخصیت کی خو شنو دی حا صل کی جا ئے

اس وجہ سے عوام کی بنیا دی ضروریات کو ترقیاتی منصو بہ بندی میں جگہ نہیں ملتی مو جو دہ حا لات میں پرانے پائپ لا ئن جتنے بھی ہیں ان کو تبدیل کرنے کے لئے بڑا منصو بہ آنا چا ہئیے شہروں میں سیوریج اور ڈرینیج کا مر بوط نظام لا نا چا ہئیے اگر 2021ء میں افیسروں کو مکمل اختیارات دے کر اس پر کام کا آغاز ہو اتو اگلے 20سالوں میں ملک کی 50فیصد آبا دی کو پینے کا پا ک پا نی ملے گا اگلے 20سالوں میں پوری آبا دی کو آ لو دہ پا نی سے نجات مل جا ئیگی۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51408

دادبیداد – متناسب نما ئیندگی کا نظام – ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

دادبیداد – متناسب نما ئیندگی کا نظام – ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر کہا ہے کہ انتخا بی اصلا حا ت کے بغیر دھا ندلی، دھاندلی کا شور نہیں تھمے گا ہر ایک ہا ر نے والا دھا ندلی ہی کا بہا نہ بنا ئے گا حکومت نے انتخا بی اصلا حا ت کے حوالے سے قومی اسمبلی میں جو بل پیش کیا ہے اس میں با یو میٹرک نظا م پر زور دیا گیا ہے اگر حکومت کو دو تہا ئی اکثریت ملی اور بل منظور ہوا تو ٹھپہ لگا نے کی جگہ کمپیو ٹر کی مدد سے خود کار طریقہ سے ووٹ دیئے جا ئینگے ووٹوں کی گنتی بھی کمپیو ٹر سے ہو گی اور کسی کو اعتراض کا مو قع نہیں ملے گا.

اپو زیشن با یو میٹرک سسٹم کے لئے تعاون پر تیار نہیں اپو زیشن کا کہنا ہے کہ 25جو لا ئی 2018کو کمپیو ٹر کا نظام نا کا م ہوا ریموٹ کنٹرول سے آر ٹی ایس کو نا کا رہ بنا یا گیا اور نتا ئج کے اعلا ن میں جا ن بوجھ کر 18گھنٹوں کی تا خیر سے کیا گیا جس کی وجہ سے شکو ک اور شبہات پیدا ہوئے اس وقت مجوزہ بل پر تعطل بر قرار ہے اس اثنا میں آزاد کشمیر کے انتخا بات نے حکومت اور اپو زیشن کو با مقصد مذاکرات کے ذریعے بل میں تر میم کے بعد با یو میٹرک سسٹم کی طرف جا نے کا راستہ دکھا یا ہے.

پر نٹ اور الیکٹرا نک میڈیا میں خبریں آگئی ہیں کہ آزاد کشمیر کے انتخا بات میں تحریک انصاف کو 6لا کھ 74ہزار ووٹ ملے، پیپلز پارٹی کو 5لا کھ سے اوپر ووٹ مل گئے ن لیگ نے 3لا کھ ووٹ لئیے ممبروں کی تعداد اس تنا سب سے سا منے نہیں آئی یہ وہ نکتہ ہے جس پر حکومت اور اپو زیشن مذا کر ات کی میز پر آسکتے ہیں ووٹوں کے تنا سب سے نما ئندگی اور ممبروں کی تعداد حا صل کر نے کے لئے دنیا کے جمہوری مما لک میں جو طریقہ اختیار کیا جا تا ہے اس کو پرو پورشنل رپیریزنٹیشن یعنی متنا سب نما ئندگی کا نظام کہا جا تا ہے فری اینڈ فیر الیکشن نیٹ ورک (FAFEN) نے اپنی حا لیہ رپورٹ میں پا کستا ن کے لئے متنا سب نما ئندگی کے نظام کو سیا سی مسا ئل کا حل قرار ر دیا ہے اور اسے رائج کر نے کی سفارش کی ہے اس اوقت یو رپی یو نین کی پا رلیمنٹ کے انتخا بات متنا سب نما ئندگی کی بنیا د پر ہو تے ہیں یورپی مما لک میں سے بیشتر قوموں نے اپنے حا لا ت کے مطا بق اس طریقہ کو اپنا یا ہے اور اسے مفید پا یا ہے متنا سب نما ئندگی کے نظام میں کئی ما ڈل اور نمو نے از ما ئے گئے ہیں .

سب سے عام فہم اور آسا ن ما ڈل یہ ہے کہ انتخا بات میں اُمیدوار سامنے نہیں آتے سیا سی پا رٹیوں کے درمیاں مقا بلہ ہو تا ہے ہر پارٹی انتخا بات میں اپنے متو قع ممبران اسمبلی کی تر جیحی فہرست الیکشن کمیشن کے پا س جمع کر تی ہے جیسا کہ ہمارے ہاں مخصوص نشستوں کے لئے فہرستیں جمع کر ائی جا تی ہیں اس سسٹم میں برادری، دولت اور دھو نس دھا ند لی کے ذریعے ووٹ لینے کی گنجا ئش نہیں ہو تی پارٹی کو اپنے وفادار کا ر کنوں اور مختلف شعبہ جا ت کے ما ہرین کی جگہ جیتنے والے گھوڑوں یعنی عرف عام میں الیکٹیبلز کو تلا ش کر کے پیرا شوٹ کے ذریعے میدان میں ا تار نے کی ضرورت نہیں ہو تی نیز انتخا بات کے بعد خزانہ، قا نون،

اطلا عات اور دیگر شعبوں کے لئے غیر منتخب لو گوں کو کا بینہ میں بٹھا نے کی ضرورت نہیں ہو تی کیونکہ ہر شعبہ کے ما ہرین ان کی فہرست میں میرٹ کے لحا ظ سے جگہ پا تے ہیں جن سیا سی جما عتوں کے پاس نظر یاتی کا ر کنوں کی تعداد لا کھوں کروڑوں میں ہو تی ہے ان پا رٹیوں کو متنا سب نما ئندگی کے نظام سے فائدہ ہو تا ہے مثلا ً تحریک انصاف، جما عت اسلا می، پیپلز پارٹی، جمعیتہ العلمائے اسلا م اور عوامی نیشنل پارٹی اس نظام کی مخا لفت نہیں کر ینگی کیونکہ ان کے پا س نظریاتی کا ر کنوں کا تیار کیڈر ہے مسلم لیگ کے مختلف دھڑوں کو اس پر غور کر کے اپنی پارٹیوں کے کیڈر کو شخصیات کی جگہ منشور کے حوالے سے منظم کرنا ہو گا اگر ایک پارٹی کو منشور کے لحا ظ سے 55فیصد ووٹ ملے تو وہ حکومت بنا ئے گی اور اس کے پاس حکومت چلا نے کے لئے مطلو بہ قابلیت، کردار اور صلا حیت کے حا مل اراکین مو جو د ہو نگے.

لوٹے خرید نے اور لوٹے پا لنے کی ضرورت نہیں ہو گی با یو میٹرک سسٹم کے ساتھ متنا سب نما ئندگی کو ملا کر مجوزہ بل پر حکومت اور اپو زیشن نے دو تہا ئی اکثریت سے قا نون بنا یا تو ہما رے انتخا بی نظام کے تما م نقا ئص کو دور کرنے میں مدد ملے گی نہ اسمبلی میں قا بل لو گوں کی کمی ہو گی اور نہ الیکشن کے بعد دھا ند لی، دھا ندلی کا شور ہو گا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
50998

دادبیداد – نقل یا چوری – ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

دادبیداد ۔۔۔۔۔نقل یا چوری۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی


وزیراعلیٰ محمود خان نے چکدرہ لوئر دیر کے امتحانی سنٹر میں ایک بااثر افیسر کے بیٹے کو الگ کمرے میں بٹھا کر نقل کی سہولت دینے کا نوٹس لیا اور ذمہ دار افیسروں کے خلاف رپورٹ درج کرکے ان کو جیل بھیجدیا گیا گویا اعلیٰ سطح پر اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ امتحان میں نقل قابل دست اندازی پولیس جرم ہے اس جرم پر گرفتاری ہوسکتی ہے قید وبند کی سزابھی ہوسکتی ہے اس واقعے کی محکمانہ انکوائری کا حکم دے دیا گیا ہے محکمانہ انکوائری کے بعد پتہ لگیگا کہ محکمہ کیاکرتا ہے؟اگر کسی افیسر کو تبدیل کیا گیا تو اس کو سزا کی جگہ انعام تصور کیاجائے گاانکوائری کی رپورٹ آنے سے پہلے دوباتیں سامنے آگئی ہیں پہلی بات یہ ہے کہ پہلی بار اخباری نمائیندوں نے امتحانی ہال میں ہونے والی بے ضابطگی کوکیمروں کی مدد سے ویڈیو بناکر بے نقاب کیا ہے اخباری نمائیندوں کو اس جرء ت اوربہادری پر داد ملنی چاہیئے بلکہ انعام اور ایوارڈ ملنا چاہیئے دوسری بات یہ ہے کہ نقل کو چوری قرار دے کر چوروں کو گرفتار کیا گیا ہے اور یہ ملاکنڈ کی تاریخ میں دوسری بار ہوا ہے۔


61سال پہلے کا واقعہ محکمہ تعلیم سے وابستہ بزرگوں کو آج بھی یاد ہے1960ء میں پروفیسر پریشان خٹک نوجوان لیکچرر تھے جہانزیب کالج سوات میں امتحان پران کی ڈیوٹی لگائی گئی اس وقت سوات میں شرعی قوانین نافذ تھے۔قاضی القضاۃ میزان شریعت میں بیٹھ کر فیصلے سناتا تھا قتل کے مجرم کوقصاص کی سزا دی جاتی تھی۔چوری کے مجرم کو ہاتھ کاٹنے کی سزا سنائی جاتی تھی اُس زمانے میں آج کی طرح باجماعت نقل مارنے کا رواج نہیں تھا ایک آدھ بندہ نقل میں پکڑا جاتا تو اس کا پرچہ منسوخ ہوتا جرم کی نوعیت کے لحاظ سے ایک سال،دوسال یا تین سال تک امتحان دینے پر پابندی بھی ہوتی تھی۔اس سے زیادہ سزا نہیں تھی امتحان کے دوسرے روز پریشان خٹک نے ایک طالب علم کو نقل کرتے ہوئے پکڑلیا۔نقل کے ساتھ رنگے ہاتھوں گرفتار کرکے پولیس کے حوالے کیا اور اپنی طرف سے وقوعہ کی رپورٹ لکھ کر قاضی القضاۃ(چیف جسٹس) کو بھیجدیا۔

رپورٹ میں اُنہوں نے موقف اختیار کیا کہ ریاست سوات میں شریعت نافذ ہے شرعی سزائیں مقرر ہیں اور شریعت کے احکامات پرعمل بھی ہوتا ہے میں نے سوات کے امتحانی ہال میں طالب علم کو نقل کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑلیا ہے گواہ بھی موجود ہیں چونکہ محکمہ تعلیم کے قواعد وضوابط اور امتحانی ہال کے لئے وضع کردہ قوانین میں نقل کو چوری تصور کیا گیا ہے نقل کرنے والے کی وہی سزا ہوتی ہے جو سزا چور کی ہے اس لئے طالب علم ایکس وائی زی پر چوری کا مقدمہ چلاکر گواہوں کو طلب کیا جائے اور جرم ثابت ہونے پر مجرم کا ہاتھ کاٹ دینے کے لئے حکم جاری کیا جائے۔امتحانی ہال میں پرچہ ختم ہونے سے پہلے اس واقعے کی رپورٹ والی سوات میاں عبدالحق جہانزیب کو دی گئی۔ان کے سامنے اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ تھا

والی صاحب کو تعجب بھی ہوا حیرت بھی ہوئی اُنہوں نے ہال کے سپرنٹنڈنٹ کو بلانے کا حکم دیا۔ہرکارہ آیاتو پریشان خٹک نے والی صاحب کو خط لکھ کرامتحان کے ہال کوچھوڑ کرشاہی دربار میں حاضر ہونے سے معذرت کا اظہار کیا۔اس خط نے والی صاحب کے دل میں پروفیسر صاحب سے ملنے کا اشتیاق پیدا کیا والی صاحب نے خط کے جواب میں پروفیسر صاحب سے درخواست کی کہ آج شام کے لئے میری دعوت قبول کریں اور ”نان شیراز‘ میں شریک ہوکر میری عزت افزائی کریں پریشان صاحب نے لکھا کہ میں اکیلا نہیں ہوں میرے ہمراہ امتحانی ہال کا پورا عملہ ہے۔والی صاحب مزیدمتاثر ہوئے اور لکھا کہ میری دعوت آپ کے عملے کے لئے بھی ہے رات کھانے پرجو گفتگو ہوئی اس میں پریشان خٹک نے والی صاحب کو قائل کیا کہ نقل بدترین چوری ہے جو ایک نسل کو تباہ کرنے کا سبب بنتی ہے والی صاحب کے مشیر سیف الملوک صدیقی خودبھی دانشور تھے شاعر تھے”زہ انتظار کوم ستادسترگو،ولے پنہ شوے تہ زمادسترگو“ انہی کی غزل ہے۔مشیر صاحب نے1973ء میں چنداخورہ کبل میں اساتذہ کے ایک گروپ کو یہ واقعہ سناکرآخیر میں کہا کہ والی صاحب پریشان خٹک کی صداقت،دیانت،جرء ت اور کردار کی بلندی کے گرویدہ ہوگئے۔


2021کا چکدرہ سوات سے زیادہ دور نہیں بلکہ سوات کے دروازے پر واقع ہے1960ء میں پریشان خٹک نے والی صاحب کو قائل کیا تھا کہ نقل بھی چوری ہے61سال بعد اخباری نمائیندے فیصل نے خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ محمودخان کو قائل کیا ہے کہ نقل چوری ہے قابل دست اندازی پولیس ہے اور اس جرم پر بھی ڈکیتی والی ایف آئی آر ہونی چاہیئے بقول اقبال۔۔۔
وہی نامحکمی وہی دیرینہ بیماری دل کی
علاج اس کاوہی آب نشاط انگیز ہے ساقی

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
50548