Chitral Times

داد بیداد – کیفر کردار کہاں واقع ہے؟ – ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

اسلام اباد میں ایک بار پھر ایک خا تون کی ابرو ریزی ہو ئی حکومت نے ایک بار پھر کہہ دیا کہ مجرموں کو کیفر کر دار تک پہنچا یا جا ئے گا حکومتیں ہر گھنا ونی واردات کے بعد دعویٰ کر تی ہیں کہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچا یا جا ئے گا لیکن ہم نے نہیں دیکھا کہ کسی مجرم کو کیفر کر دار تک پہنچا یا گیا ہو ہمارے دوست شاہ جی عمر کے لحا ظ سے 70کے یبیٹے میں ہیں ایک دنیا دیکھی ہے گرم و سرد چشیدہ بھی ہیں گر گ باراں دیدہ بھی مگر بھو لے اتنے ہیں کہ ان کو کیفر کر دار کا محل وقو ع اور جعرا فیہ معلو م نہیں رات بھر ی محفل میں پو چھ رہے تھے

مجھے بتا ؤ یہ کیفر کردار نا می جگہ کہاں واقع ہے مجرم کو وہاں پہنچا نے کے لئے جہاز چا ہئیے، ریل کا ٹکٹ چا ہئیے یا عام بس اور فلا ئنگ کو چ کے ذریعے بھی مجرم کو کیفر کردار تک لے جا یا جا سکتا ہے؟ اگر حکو متوں کے پا س ٹکٹ کے پیسے نہیں ہیں وہاں تک جا نے کے لئے کوئی ٹرانسپورٹ نہیں ملتی یا فلمی گیت کی رو سے ”نہ گاڑی ہے نہ گھوڑا ہے وہاں پیدل ہی جا نا ہے“ تو پھر حکومتیں یہ اعلا ن کیوں کر تی ہیں کہ مجر م کو کیفر کردار تک پہنچا یا جا ئے گا؟ اس جگہ کا بار بار نا م لینے سے حکو متوں پر عوام کا اعتما د اُٹھ جا تا ہے عوام حکومتوں کی باتوں کا یقین ہی نہیں کر تے اور یہ کسی بھی حکومت کا بہت بڑا نقصان ہے تفنن بر طرف یہ طنزو مزاج نہیں بلکہ حقیقیت ہے کہ کیفر کردار کا نا م سن، سن کر ہمارے کا ن پک گئے ہیں

کسی مجر م کو کیفر کردار تک پہنچتے نہیں دیکھا بعض اوقات گماں ہو تا ہے کہ کیفر کردار بھی آب حیات یا ہمااور ققنس نا می پر ندوں کی طرح خیا لی جگہ ہو گی جسے کسی نے نہیں دیکھا حقیقیت یہ ہے کہ کیفر کردار کا لفظ دو فارسی الفاظ کا مر کب ہے کیفر کے معنی انجام اور کر دار کے معنی کر توت اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت مجرم کو اس کے کر توت کا انجام دکھا ئے گی یعنی قانون کے مطا بق سزا ئے موت دے کر عبرت کا نشان بنا ئیگی یہ تر کیب ایران، توران اور قدیم ہندوستان کے باد شا ہوں کی تر کیب ہے اُ س زما نے میں مجر م کو چند دنوں کی رسمی کاروائی کے بعد پھا نسی دی جا تی تھی اس عمل کو ”کیفر کردار تک پہنچا نا“ کہتے ہیں

یعنی مجرم اپنے کر توت کے انجا م کو پہنچ گیا اگر غور کیا جا ئے تو کیفر کردار دور نہیں وہاں تک کسی کو پہنچا نے کے لئے ہوائی جہاز یا ریل کی بھی ضرورت نہیں حکومت اور کیفر کردار کے درمیاں قانون کی مو شگا فیاں حا ئل ہو چکی ہیں مثلا ً مجرم نے اندھیری رات کو کسی کے گھر پر حملہ کیا 4افراد کو قتل کیا اور موقع واردات پر اسلحہ کے ساتھ پکڑا گیا پو لیس کے سامنے اپنے جرم کا اقرار کیا،

مجسٹریٹ کے سامنے بھی اقرار کیا باد شاہوں کے زما نے میں اس کو 4بار پھا نسی دی جا تی تھی اس کی جا ئداد ضبط کر کے مقتو لوں کے ورثا کو دی جا تی تھی یہ کیفر کر دار تھا اب مجرموں کا دفاعی وکیل آجا تا ہے وہ پو لیس کی گوا ہی کو نہیں ما نتا، مقتو لین کے ور ثا کی گوا ہی اس کی نظر میں قا بل قبول نہیں ڈاکٹر کی رپورٹ کو معتبر نہیں ما نا جا تا دفا عی وکیل استعاثہ کے مقدمے کو مشکوک قرار دیتا ہے اور شک کا فائدہ انگریز کے قانون میں بھی ملزم کو دیا جا تا ہے شر عی قوانین میں بھی شک کا فائدہ ملزم کو دینا جا ئز ہے چنا نچہ شک کا فائدہ دے کر ملزم کو بر ی کیا جاتا ہے

کیفر کر دار نظروں سے اوجھل ہو تا ہے ملزم با ہر آکر دو چار ایسی وار دا تیں اور بھی کر لیتا ہے 16دسمبر 2014کے روز آر می پبلک سکول پشاور کا ہو لنا ک واقعہ پیش آیا تو حکومت اور حزب اختلا ف نے مل کر فو جی عدا لتوں کا قا نون منظور کر وا یا اس قانون کے تحت فو جی عدا لتیں قائم ہو ئیں 20سال پرا نے واقعات کی فائلیں بھی فو جی عدالتوں کو بھیجی گئیں 2015کے دوران سزا ئے موت پر عملدرآمد شروع ہوا تو لو گوں نے سکھ کا سانس لیا 1994اور 1996میں کسی گئی وارداتوں کے مجرموں کو بھی اس دوران کیفر کر دار تک پہنچا یا گیا یہ ایک اچھا تجربہ تھا اس قانون کا دائرہ اثر محدود تھا اس کی مدت ختم ہونے کے بعد کیفر کردار ایک بار پھر سینکڑو ں سالوں کی مسافت پر چلا گیا ہے مجرموں کو کیفر کر دار تک پہنچا نے کے لئے ایک بارپھر غیر معمو لی حا لات کے مطا بق خصو صی قوا نین لا نے پڑینگے ورنہ کیفر کر دار کسی کو نظر نہیں آئے گا سب پو چھتے پھرینگے کیفر کر دار کہاں واقع ہے؟

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , , ,
50225

داد بیداد۔۔۔۔۔۔استعفیٰ کی دھمکی۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

داد بیداد

سند ھ اسمبلی میں حزب اختلاف کے رکن فردوس شمیم نقوی نے اسمبلی رکنیت سے استعفیٰ دیتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے 3سالوں میں حلقے کے اندر کوئی کام نہیں کیا یہی حا لت رہی تو اگلے دو سا لوں میں بھی حلقے کے عوام کی کوئی خد مت نہیں کر سکوں گا اس لئے میرا یہ استعفیٰ منظور کیا جا ئے میں وہ اما نت حلقے کے عوام کو واپس کر تا ہوں جو حلقے کے عوام نے 2018ء میں مجھے سونپ دیا تھا آئینی ما ہرین کے مطا بق ایک ممبر کا استعفیٰ دینا اتنا سادہ معا ملہ نہیں.

سر دست اسمبلی کا سپیکر اس پیش کش کو دھمکی تصور کر کے ممبر کو اپنے چیمبر بلا ئے گا اُس کی معروضا ت کو سنے گا اور اس کو استعفیٰ واپس لینے پر اما دہ کرنے کی حتی المقدور کو شش کرے گا اس کے بعد اگر ممبر نہ ما نے تو اس کا استعفیٰ الیکشن کمیشن کو بھیج دیا جا ئے گا پھر اس کی نشست خا لی ہو جا ئیگی اس کے بعد ضمنی انتخا بات کے ذریعے نیا ممبر اس کی جگہ لے سکیگا فردوس شمیم نقوی نے ایک پتہ پھینک دیا ہے اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے وقت آنے پر پتہ لگے گا سر دست اس خبر سے دو باتیں کھل کر سامنے آتی ہیں پہلی بات یہ ہے کہ اسمبلیوں کے اندر اور سر کارسسٹم میں ممبران اسمبلی کو خو شگوار فضا میسر نہیں ہے.

اراکین اسمبلی کی معقول تعداد اپنی کار کر دگی سے مطمئن نہیں ہے دوسری بات یہ ہے کہ اراکین اسمبلی جن حلقوں سے منتخب ہو کر آئے تھے ان حلقوں کے ووٹر بھی اپنے نما ئیندوں کی کار کر دگی سے مطمئن نہیں ہیں گو یا آگ ہے دونوں طرف برابر لگی ہوئی فردوس شمیم نقوی کا تعلق حزب اختلاف سے ہے حزب اقتدار میں بھی ایسے ارا کین اسمبلی مو جو د ہیں جو بار بار اسمبلی کے فلور پر اپنی بے اطمینا نی کا اظہار کر تے نظر آتے ہیں پشاور سے رکن اسمبلی نو ر عا لم خا ن ایڈو کیٹ اور اٹک سے رکن اسمبلی میجر طاہر صادق کی مثا لیں سامنے ہیں پنجا ب اسمبلی اور بلو چستان اسمبلی میں بھی ایسے ارا کین مو جو د ہو نگے خیبر پختونخوا کی اسمبلی میں بھی ایسے ممبروں کی کمی نہیں ہو گی.

وجہ یہ ہے کہ ارا کین اسمبلی کا کر دار متعین نہیں ان کے حقوق اور فرائض متعین نہیں حلقے کے عوام کی تو قعات کچھ اور ہیں، حکومت کی تر جیحا ت کچھ اور ہیں رکن اسمبلی چکی کے دو پاٹوں میں انا ج کے دا نے کی طرح پھنس جا تا ہے اور اس کی اچھی خا صی پسائی ہو جا تی ہے مقننہ کی کتاب میں رکن اسمبلی کا جو کر دار اجا گر کیا گیا ہے وہ قا نون سازی کے حوالے سے ہے بجٹ کی منظوری بھی قا نون سازی میں شا مل ہے حلقے میں سڑ کوں کی مر مت، پلو ں کی تعمیر اور درجہ چہا رم کے ملا زمین کی بھر تی یا افسروں کی تبدیلی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہو نا چا ہئیے حلقے کے عوام کو الیکشن کے دنوں میں جو کچھ بتا یا گیا تھا وہ یہ ہے کہ اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کے بعد ان کا نما ئیند ہ سڑ کیں بنا ئے گا، نا لیاں بنا ئے گا، نلکے لگا ئے گا .

بجلی بھی لا ئے گا، گیس بھی لا کر دے گا اپنی مر ضی کے افیسر لگا ئے گا تھوک کے حساب سے لو گوں کو نئی ملا زمتیں فراہم کرے گا تین سال بعد وعدوں اور طفل تسلیوں کا یہ ہار اس کے گلے پڑ جا تا ہے وزیر اعظم عمران خا ن نے 22سال محنت کر کے عوام کو قائل کیا تھا کہ سڑ کیں بنا نا، نلکے لگا نا، بجلی اور گیس لے کر آنا، نا لیاں بنانا ویلچ کو نسل کا کام ہے مقا می حکومت کی ذمہ دار ی ہے رکن اسمبلی کا ان کا موں سے کوئی تعلق نہیں ہو گا.

اسمبلی کا ممبر قانون سازی کا ذمہ دار ہو گا پھر پبلک کے پر زور اصرار پر آدھے سے زیا دہ اراکین اسمبلی کو دس دس کروڑ روپے کے تر قیا تی فنڈ دے دیئے گئے، مقا می حکومتوں کو ختم کر دیا گیا چنا نچہ عوام کی تو قعات آسما نوں کو چھو نے لگیں اراکین اسمبلی کو شدید عوامی دباؤ کا سامنا کر نا پڑا فردوس شمیم نقوی کا استعفیٰ ایسے ہی حالات میں خبروں کی زینت بن گیا ہے شا ہ جی کہتے ہیں کہ استعفیٰ دینے کا خیال بُرا نہیں بقیہ دو سال کسی اور کو مو قع ملنا چا ہئیے ہمارا خیا ل یہ ہے کہ دال میں کچھ نہ کچھ کا لا ضرور ہے اگر رکن اسمبلی مطمئن نہیں اگر حلقے کے عوام مطمئن نہیں تو پورے سسٹم پر سوال اٹھتا ہے ہمیں اس سوال کا جواب چا ہئیے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , ,
49893

دادبیداد ……… کا بینہ کی اہمیت ………..ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Posted on

خبروں کے مطا بق وزیر اعظم عمران خان نے اہم مسا ئل کے فیصلے کا بینہ یا کا بینہ کی ذیلی کمیٹی کے ذریعے کرنے کا طریقہ اپنا یا ہے اور جمہوری حکومت کا حسن بھی یہی ہے کہ اہم فیصلے کا بینہ کے ذریعے کئے جا تے ہیں فر د وا حد کو اہم فیصلوں کاا ختیار نہیں دیا جا تا قطع نظر اس بات کے کہ کا بینہ کے فیصلے سے کسی کو فائدہ اور کس کو نقصان ہو تا ہے یہ بات عا م لو گوں کے لئے بھی اور قانون کے ما ہرین کے لئے خوش آئند ہے کہ جمہوری حکومت میں فر د واحد کی جگہ اہم فیصلوں کے لئے کا بینہ اور کا بینہ کی ذیلی کمیٹی کا نام لیا جا تا ہے شکسپیئر کے مشہور ڈرامے کی ایک کر دار کہانی کے سیاق و سباق میں کہتا ہے ”اگرچہ یہ جنو نیت ہے تا ہم اس میں سلیقہ ہے طریقہ ہے“ بات سابق وزیر اعظم نواز شریف کو علا ج کے لئے ملک سے با ہر جا نے کی اجا زت دینے کی تھی وزیر اعظم نے خود فیصلہ کر نے کے بجائے معا ملہ کا بینہ کو بھیجدیا کا بینہ کی ذیلی کمیٹی نے منا سب غور و خوض کے بعد مو صوف کو مشروط اجا زت دینے کی سفارش کی، شرط یہ تھی کہ سابق وزیر اعظم 7ارب روپے کے بانڈ داخل کرے اس کے بعد ان کا نا م ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکا لا جائے گا یہ شرط اگر وزیر اعظم خود رکھتا تو اس پر انگلی اُٹھا ئی جا سکتی تھی چونکہ یہ کا بینہ کا فیصلہ تھا اس لئے کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا سابق وزیر اعظم نے لا ہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا لا ہور ہائی کورٹ نے مو صوف کو غیر مشروط اجا زت دینے کا حکمنا مہ جا ری کیا حکمنا مہ آنے کے بعد وزیر اعظم نے ایک بار پھر معا ملہ کا بینہ کی ذیلی کمیٹی کے حوالے کیا گویا کابینہ ہی سب کچھ ہے کسی عدا لتی حکم کے خلاف اپیل کرنے یا نہ کرنے کا اختیار بھی کا بینہ کے پا س ہے جمہوری حکومت کی یہ روا یت ایک صحت مند اور خوش آئیند روایت ہے اس روایت کو آگے بڑھا یا گیا تو سیا سی فضا خوشگوار ہو سکتی ہے سیا سی تلخیاں کم ہو سکتی ہیں اور سیا سی حکمرا نوں پر آمرانہ فیصلوں کا داغ بھی دُھل سکتا ہے ان سطور کی اشاعت تک اونٹ کسی ایک کروٹ بیٹھا ہو گا اور نئی بحث شروع ہو چکی ہو گی ہمارے سیا سی بلوغت اور جمہوری روایات پر ہونے والی ہر بحث میں یہ بات آتی ہے کہ حکمران کا بینہ کو اہمیت نہیں دیتے پارلیمنٹ کو خا طر میں نہیں لاتے سول حکومتوں میں فو جی حکومتوں کی طرح فرد واحد فیصلے کرتا ہے باقی سب لو گ واہ واہ کرتے ہیں اور تا لیاں بجا تے ہیں مگر اب معروف معنوں میں ”تبدیلی“ آگئی ہے وزیر اعظم اہم فیصلوں کے لئے کا بینہ سے رجوع کرتے ہیں بات اگر زیا دہ غور طلب ہو تو کا بینہ کی ذیلی کمیٹی اس پر غور کرتی ہے اسی طرح فیصلہ آنے کے بعد اس کا ملبہ وزیر اعظم کی ذات پر نہیں گرتا اس کو اجتما عی فیصلہ کہہ کر قبول کیا جا تا ہے جمہوری تاریخ میں بر طانیہ کی پارلیمنٹ کو دنیا کی پہلی پار لیمنٹ کہا جا تا ہے بر طانوی نظام میں کوئی تحریری قانون یا آئین کی کتاب نہیں ہے سینہ بہ سینہ جو روا یات چلی آئی ہیں ان کی پیروی کی جا تی ہے وہاں چھوٹے فیصلے بھی وزیر اعظم خود نہیں کرتا کا بینہ میں پیش کر کے ان کی منظوری لیتا ہے وہاں کا بینہ کے وزیر وں کی تعداد 12یا 13سے زیا د نہیں ہو تی نر سوں کے لئے اوقات کار تعیّن ہو یا مزدور وں کے لئے سو شل سیکورٹی کا مسئلہ ہو اس پر کا بینہ میں بحث ہو تی ہے کبھی یہ بحث پار لیمنٹ تک پہنچتی ہے یہ جمہوریت کی سب سے بڑی خو بی ہے کہ ملکی مسا ئل، ملکی سیا ست، معیشت اور سما جی بہبود کے مسائل کا بینہ میں پیش کئے جا تے ہیں وطن عزیز پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان نے اچھی روایت قائم کی ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
28706

داد بیداد ………. پرا جیکٹ لیڈر ……… ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Posted on

صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے ضلع، تحصیل اور مقا می کونسلوں کو روان ما لی سال کا بجٹ منظور کرنے کی ہدا یت کی ہے مقا می حکو متوں کی مو جودہ مدت 25اگست 2019کو ختم ہو رہی ہے مدت ختم ہونے کے بعد ایڈ منسٹریٹر مقر ر کئے جائینگے نئے انتخا بات کے لئے تا ریخ دی جائے گی اور اس اثنا ء میں مو جو دہ کونسلوں کی طرف سے منظور کیا گیا بجٹ خر چ ہو گا 2015ء میں صو بائی حکومت نے مقا می حکومتوں کا جو نیا نظام متعا رف کرا یا اس میں نیبر ہُڈ کونسل اورویلج کونسل کا تصور بہت مثا لی تصور تھا 4ہزار سے لیکر 6ہزار تک کی آبادی کو تر قی کے عمل کا بنیاد ی یو نٹ تسلیم کرکے سر کاری وسائل اس یو نٹ کو دینے سے عوامی مسا ئل کے حل کی اُمید پیدا ہو گئی تھی ہماری تر قیا تی ایجنسیوں میں جو پرو گرام نا کامی سے دو چار ہو جائیں ان کو سیکھے ہوئے اسباق (Lessons learnt) کے خا نے میں درج کیا جا تا ہے نیبر ہُڈ کونسلوں اور ویلج کونسلوں کا انقلا بی نظام اس وجہ سے نا کام ہوا کہ تر قیا تی منصو بوں میں اخباری اشتہار، ٹینڈر اور ٹھیکہ داری سسٹم کو لا زمی قرار دیا گیا اس کی جگہ اعتماد، ٹرسٹ، اعتبار اور بھائی چارے کی بنیاد پر پرا جیکٹ لیڈر کے ذریعے تر قیا تی کام کر وانے کا سابقہ طریقہ آزما یا جا تا تو اس کے خا طر خواہ نتا ئج برآمد ہوتے ویلج اور نیبر ہُڈ کونسلوں کے نا ظمین نے باربار احتجاج اوراخباری بیا نات کے ذریعے حکومت کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کی ہے کہ ٹینڈر ما فیا اور ٹھیکہ داری سسٹم سے ان کی جاں چھڑا ئی جائے اس کی نسبت پرا جیکٹ لیڈر کے ذریعے سکیم پر عمل در آمد کا پرانا قا نون زیا دہ شفاف، قابل عمل، سود مند اور بہتر تھا 6ہزار کی آبا دی میں اگر ایک سہ ما ہی کی 12سکیمیں آتی ہیں تو ان کے لئے 60افراد کی 12کمیٹیاں بنیگی ہر کمیٹی کو پرا جیکٹ کمیٹی کا نام دیا جائے گا اُس کا ایک لیڈر ہو گا وہ پرا جیکٹ لیڈر کہلا ئے گا اُس کے نا م چیک جاری ہو گا عوام کے سامنے بھی وہی جوابدہ ہو گا اور آڈٹ کے لئے بھی وہی جواب دے گا اس میں رکا وٹ کیا ہے؟ اعتماد،اعتبار اور بھروسے کا فقدان ہے ایک چور دوسرے کوچور سمجھتا ہے مشہور حکا یت ہے باد شاہ کی اکلو تی بیٹی کے زیورات چوری ہو گئے تین مشکوک بندے پکڑے گئے تینوں کو قا ضی کے سامنے پیش کیاگیا قا ضی نے کہا ان سے میری بیٹی سوا لات پو چھے گی وہی تفتیش کرے گی قا ضی کی بیٹی نے تینوں کو ایک حکا یت سُنا ئی ایک حسین و جمیل لڑ کی چروا ہے کے بیٹے سے پیار کر تی تھی اُس کی شادی باد شاہ کے بیٹے سے ہو گئی اس نے چروا ہے کے بیٹے سے وعدہ کیا کہ سہاگ رات پلنگ پر جا نے سے پہلے دلہن کے لباس میں زیورات پہن کر تمہارے پا س آو نگی سہا گ رات اُس نے شہزادے کو یہ واقعہ سنا یا اور جا نے کی اجا زت مانگی،شہزادے نے اجا زت دیدی، راستے میں ڈا کو وں نے نا کہ ڈا لا، دلہن کے گرد گھیرا ڈا لا، زیو رات اچک لئے ڈا کو وں کے سردار نے پو چھا اکیلی کدھر جارہی ہو؟ دلہن نے سارا واقعہ سنا یا ڈا کووں کے سردار نے کہا اس کے شوہر نے شہزادہ ہونے کے باو جود اتنی قر بانی دی ہے تم بھی تھوڑی سی قر بانی دواور زیو رات واپس کرو دلہن چروا ہے کے گھر پہنچی چر وا ہے کے بیٹے سے کہا دیکھو میں اپنا وعدہ نبھا نے آئی ہو ں چرو اہے کے بیٹے نے کہا تم میری قیا مت تک کی بہن ہو، میں تمہیں بحفا ظت باد شاہ کے محل تک پہنچا و نگا قاضی کی بیٹی نے پو چھا بتاؤشہزا دے نے بڑی قر بانی دی، ڈاکووں نے بڑی قر بانی دی یا چر وا ہے کے بیٹے نے کمال دکھا یا؟ اُن میں سے جس نے شہزا دی کے زیورات چرائے تھے اُس نے کہا ڈا کووں نے بڑی قر بانی دی قا ضی کی بیٹی نے کہا اس کی تلا شی لو چنا نچہ چور پکڑا گیا اورزیورات بر آمد ہوئے آج بھی اوپر کا چور یہ سمجھتا ہے کہ گاوں کی سطح پر بھی چور ہی بیٹھے ہوئے ہیں حا لانکہ ایسا نہیں ہے پر اجیکٹ لیڈر سو فیصد درست کا م کر تا ہے اور فنڈ کا نہا یت منا سب استعمال کر تا ہے کیونکہ گاوں کی سڑک ہو، یا نہر ہو، محلے کا نلکا ہو یا محلے کی نا لی اور پگڈنڈی ہو، پرا جیکٹ لیڈر استفادہ کرنے وا لو ں میں شا مل ہے اورلو گوں کے سامنے بھی جواب دہ ہے مقا می حکو متوں کے اگلے مر حلے کے لئے جو قا نون سازی ہو ئی ہے اُس میں تر میم کرکے پرا جیکٹ لیڈر کی گنجا ئش ضرور ڈا لنی چا ہئیے وزیر بلدیات شہرام خان تر ہ کئی عملیت پسند (پریکٹیکل) انسان ہیں ان کو فنڈ کے جا ئز استعمال کا تجربہ بھی ہے ملک خد ابخش بچہ مر حوم ان کے وا لد صا حب کے دوست تھے اور بھٹو کے دورمیں کچھ عرصہ زراعت کے لئے وزیر اعظم کے معا ون خصو صی بھی رہے انہوں نے ایک وا قعہ سنا یا کہ جب میں پہلی دفعہ سول سرونٹ کی حیثیت سے اقوام متحدہ کی ایک کمیٹی کی میٹنگ میں گیا تو اپنے ساتھ ٹکٹ اور ہوٹل کی رسید وں کا پلندہ لے گیا آخری دن انہوں نے سفر خرچ تقسیم کرنے کے لئے بلا یا تو میں نے وہی پلندہ ان کے سامنے رکھا متعلقہ افیسر نے کہا یہ کا غذات ردی کی ٹو کری میں پھینکو مجھے رقم بتاؤ کتنا خر چہ آیا ہے میں نے کہا 22ہزار ڈا لر، اُس نے 22ہزار ڈا لر تھما دیے اور مجھ سے ایک کا غذ پہ دستخط کروا یا اُن کو بھر و سہ تھا کہ یہ افیسر جھوٹ نہیں بو لے گا کیونکہ و ہ خود جھوٹا نہیں تھا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ ویلج اور نیبر ہُڈ کونسل پر اعتماد کروگے اور گاوں وا لوں پر بھرو سہ کرو گے توتم خود بھی قا بل اعتماد اور قا بل بھر و سہ نظر آو گے اورتر قیا تی فنڈ ٹھیکہ دار کو دینے کے بجا ئے پرا جیکٹ لیڈر کو دے سکو گے اس طرح اگلے بلدیا تی نظام میں مقا می حکومتوں کا بنیا دی یو نٹ نیبر ہُڈ اور ویلج کو نسل عوام میں کامیا بی کے ریکارڈ قائم کرے گی .

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , ,
24249

داد بیداد ………….دہشت گرد کون ہے ؟…………..ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان کو غلط مقاصد کے لئے نقد کرنسی کی ترسیل اور دہشت گردوں کو فراہم کرنے والے ممالک کی واچ لسٹ ( مشکوک فہرست) میں ڈالنے کی بین الاقوامی مہم ناکام ہوگئی ہے یہ مہم فنانشل ایکٹ ٹاسک فورس( FATF)کے پلیٹ فارم سے امریکہ ، بھارت ، برطانیہ ، فرانس اور جرمنی کی طرف سے چلائی جارہی تھی چین، روس اور ترکی سمیت پاکستان کے دوست ممالک نے مہم کو ناکام بنا دیامگر ابھی پاکستان کو افغان خانہ جنگی میں امریکہ کی مدد کرنے سے پہلے والی یعنی1977ء کی پوزیشن پر آنے کے لئے بہت کچھ کرناباقی ہے پاکستان کو قوموں کی برادری میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے کے لئے اگلے10سالوں تک چو مکھی لڑائی لڑنی ہوگی یعنی بھارت اور افغانستان کے خلاف کامیابی ، امریکہ اور یورپی ممالک کے پروپیگنڈے کے خلاف کامیابی، ملک کے اندر دشمنوں کے لئے کام کرنے والے عناصر کے خلاف کامیابی اور ملکی اداروں کو مضبوط بنا کر ذاتیات اور شخصیات کے مضر اثرات کو ختم کرنے میں کامیابی کے لئے لڑنا ہوگاپاکستان پر دہشت گردوں کی مدد کے الزامات لگانے والے ممالک1978 ء میں افغان خانہ جنگی شروع ہوتے وقت امریکہ اور یورپی ممالک کے سفارت کاروں اور دفاعی یا انٹیلی جنس حکام کی پاکستان آمدورفت سے حاصل ہونے والی معلومات کا سہارا لیتے ہیں 1990ء کی دہائی میں پاکستا ن کے اندر افغان خانہ جنگی کے موضوع پر شائع ہونے والی کتابوں کا سہارا لیتے ہیں بریگیڈیئر محمد یوسف اور صحافی ہارون الرشید کی یاد داشتیں بھی اُسی دور میں شائع ہوئی تھیں اُس دور میں امریکی اور یورپی حکام اپنے عرب دوستوں کے ہمراہ پاکستان کے جن مقامات کے دورے کرتے تھے اُن مقامات کو آج وہی لوگ دہشت گردوں کی پناہ گاہ کا نام دیتے ہیں اس پر ’’ کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا‘‘ ہونے کا مقولہ صادق آتا ہے دہشت گردوں کے لئے نقد کرنسی کی ترسیل اور تقسیم کے حوالے سے منی لانڈرنگ پر ہونے والے قوانین کے تحت پاکستان کو مشکوک ممالک کی فہرست میں ڈالا گیاتو ایران کی طرح پاکستان پر بھی پابندیاں لگیں گی امریکہ اور اس کے اتحادی یہی چاہتے ہیں مگر پاکستان کی حکومت نے اس موقع پر لابنگ کر کے اپنا نام مشکوک فہرست میں جانے سے بچا لیااس حوالے سے سوشل میڈیا میں جو مواد آیا اس میں ایک جرمن سکالر کی تحقیق کا خلاصہ قابل ذکر ہے جرمن سکالر نے اپنا نام ظاہر کئے بغیر 8اہم تاریخی واقعات کی طرف اشارہ کرکے ثابت کیا ہے کہ مسلمان دہشت گرد نہیں ، کسی مسلمان قوم یا ملک پردہشت گرد ہونے کا الزام نہیں لگایا جاسکتا جرمن سکالر نے اپنی بات سوال کے پیرایے میں کہی ہے اوریہ 8سوالات ہیں جرمن دانشور نے سوال کیا ہے کیا 1914ء میں پہلی جنگ عظیم شروع کرنے والے مسلمان تھے ؟کیا ہولوکاسٹ کے نام پر 60لاکھ یہودیوں کا خون بہانے والے مسلمان تھے؟ کیا 1939ء میں دوسری جنگ عظیم شروع کرنے والے مسلمان تھے ؟ کیا آسٹریلیا میں 20لاکھ اصلی مکینوں کا قتل عام کرنے والے مسلمان تھے ؟کیا شمالی امریکہ میں ایک کروڑ کالے شہریوں کا خون بہانے والے مسلمان تھے؟کیا افریقہ میں 80لاکھ اصلی مکینوں کو ہلاک کرنے اور سمندر میں پھینکنے والے مسلمان تھے؟ کیا جنوبی امریکہ میں 50لاکھ اصلی مکینوں کو قتل کرنے والے مسلمان تھے؟کیا ہیروشیما اور ناگاسا کی میں دودنوں کے اندر 7لاکھ جاپانیوں کو موت کی نیند سلانے والے مسلما ن تھے؟ان میں سے کسی بھی دہشت گرد ی میں ملوث مسلمان نہیں تھے؟یورپی اور امریکی اقوام تھے پھر دہشت گرد کون ہوا؟ہمیں دور جانے کی ضرورت نہیں، جارج فریڈمین(G.Fridman) چوسوڈوسکی (Chussodvosky) اور دوسرے محققین نے 1978ء میں افغانستان کے اندر چھیڑی ہوئی جنگ کو تیسری عالمی جنگ کا نا م دیا ہے تیسری عالمی جنگ میں افغانستان ، بوسنیا ،عراق ، ایران، شام ، لیبیا، صومالیہ ، سوڈان ، فلسطین ، یمن اور شام کے اندر 20لاکھ انسانوں کا خون بہایا گیا جنگ کا فائدہ بھی انہوں نے اُٹھایامسلمانوں کو ’’ ریت کی بوری‘‘ ( Sand Bag)کے طور پراستعمال کیا گیا ستم ظریفی یہ ہے کہ دشمن کے پاس میڈیا ہے دنیا کے 98فیصد میڈیا پردشمن کا قبضہ ہے مسلمانوں کے ہاتھ میں ریڈیو ، ٹیلی وژن ، اخبارات اور سوشل میڈیا کو استعمال کرنے کی صلاحیت نہیں ہے اس لئے دشمن جھوٹ بولتا ہے بار بار بولتا ہے اورڈٹ کر بولتا ہے مسلمانوں کو بالعموم اورپاکستانیوں کو باالخصوص جارحانہ سفارت کاری اور میڈیا کے ذریعے اب ثابت کرنا ہے کہ دہشت گرد مسلمان نہیں دہشت گرد کوئی اور ہے جو امریکہ اور یورپ میں بھی ہے کشمیر ، فلسطین اور میانمر میں بھی ہے مسئلہ وہی ہے جس کی طرف پروین شاکر نے اشارہ کیا ہے .

میں سچ بولو نگی مگر ہار جاؤنگی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کردے گا

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
6880

صدا بصحرا ………….اور یہ اہل کلیسا کا نظامِ تعلیم……………ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

خبر آئی ہے کہ حکومت نے نظام تعلیم میں دور رس اصلاحات کے لئے ایک اور کمیٹی بٹھانے کا فیصلہ کیا ہے ۔یہ اس سلسلے کی دو سو پچاسویں کمیٹی ہوگی۔ پہلے سے بنی ہوئی دو سو اننچاس کمیٹیوں کی طرح اس کا نتیجہ بھی صفر ہوگا۔ خبر کی تفصیلات میں بتا یا گیا ہے کہ سکول اور مدرسہ میں قُربت لائی جائیگی۔ مدرسہ کی اصلاح کر کے اس کو ’’ مشرف بہ دنیا‘‘ کیا جائے گا۔ سکول میں اصلاحات متعارف کروا کر اس کو ’’ مشرف بہ دین ‘‘ کیا جائے گا۔ گویا وہی صورت حال ہوگی جس کی طرف شاعر نے اشارہ کیا ہے ’’ ہاتھ سے امت بیچاری کا دین بھی گیا دُنیا بھی گئی‘‘۔ یادش بخیر ! سابق صوبائی وزیر قادر نواز خان مرحوم باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔ انہوں نے نوشہرہ میں تعلیم حاصل کی، مردان اور کابل میں نوکری کی۔ تحریک آزادی اور تحریک پاکستان میں شیر بہادر خان اور پیر آف مانکی شریف کی قیادت میں بھرپور حصہ لیا۔ ریفرنڈم میں پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالا۔ مرحوم کہا کرتے تھے مدرسہ قیام پاکستان سے پہلے سکول کا نام تھا، مدرسے کا تعلق مسجد، مولوی اور دارالعلوم سے نہیں تھا۔ علاقے کے علماء سکول کو کفر قرار دیتے تھے۔ سکول جانے والوں کو دوزخی اور کافر سمجھتے تھے۔ اس زمانے میں ایک قطعہ مشہور ہو ا تھا
سبق دَ مدرسے وائی
دپارہ دَ پیسے وائی
جنت کی بہ زائے نہ وی
دوزخ کی بہ گسے وہی

جو مدرسے کا سبق پڑھتا ہے ، نوکری اور تنخواہ کے لئے پڑھتا ہے ۔ جنت میں اس کی کوئی جگہ نہیں ۔ دوزخ میں ٹھوکریں کھاتا پھرے گا۔75سال بعد زمانہ کتنا بدل گیا؟دارالعلوم کا نام مدرسہ ہوگیا۔ اور مدرسہ والوں کو جنّت کی بشارت مل گئی۔ سمندرخان سمندر یا عبد الستار عارف خٹک سے اس پر قطعہ کہنے کی فرمائش کی جاتی تو دوسرا قطعہ بھی عنایت ہوتا۔ مگر دونوں ہم میں نہیں رہے۔ مسئلہ بہت سنجیدہ ہے۔ ایک یونیورسٹی میں سیمینار تھا۔ موضوع تھا ’’ پاکستانی قومیت اور ثقافت کا مسئلہ‘‘ پہلا سوال یہ تھا کہ ہم اس کو مسئلہ کیوں سمجھتے ہیں؟ کیاحقیقت میں یہ مسئلہ ہے؟ جواب یہ آیا کہ حقیقت میں اس کو مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔ اور اس کو کسی اور نے مسئلہ نہیں بنایا۔ استاد ، سکول ، مدرسہ ، دارالعلوم ، کالج اور یونیورسٹی نے مسئلہ بنادیا۔ اس مسئلے کی طرف برطانیہ کی ولنٹیر سروسز اور اورسیز (VSO) کے لئے تیار کی گئی رپورٹ میں اشارہ کیا گیا ہے ۔ یہ رپورٹ مارچ 1986 ء کی ہے۔ اسے رچرڈ ایلی سن ( Richard Allison) نے مرتب کیا ہے۔ رپورٹ میں صراحت کے ساتھ لکھا گیا ہے کہ پاکستان کا تعلیمی نظام اس قوم کی پراگندگی اور پسماندگی میں اضافہ کر رہا ہے۔ لکھنے والے نے لکھا ہے کہ یہاں 8 قسم کے نظامِ ہائے تعلیم ایک دوسرے کے مقابلے میں کام کررہے ہیں ۔ سرکاری سکول ، کالج اور یونیورسٹی کے مقابلے میں دارالعلوم اور مدرسہ ہیں۔ دونوں کا رُخ الگ الگ ہے۔ او لیول کے مقابلے میں گاؤں کی سطح پر دو کمروں اور تین کمروں والے چھوٹے پبلک سکول ہیں ۔ دونوں الگ الگ سمتوں میں رواں دواں ہیں۔ایچی سن کے مقابلے میں درمیانہ سطح کے پبلک سکول ، کالج اور نجی ادارے ہیں۔دونوں الگ الگ سمتوں کے مسافر ہیں۔کیڈٹ کالجوں اور کانونٹ سکولوں کے مقابلے میں این جی اوز سکول ، کالج اور ان کی یونیورسٹیاں ہیں۔ یہاں بھی دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ایک کا رخ شمال کی طرف ہے دوسرے کی سمت جنوب میں ہے۔ برطانوی ادارے کی رپورٹ میں دینی مدارس کو ایک متحدہ یونٹ قرار دیا گیا ہے۔ حقیقت میں دینی مدارس بھی پانچ الگ الگ سمتوں میں رواں دواں ہیں۔ دیوبندی کا وفاق المدارس ہے۔ بریلوی کا تنظیم المدارس ہے۔ اہل حدیث اور اہل تشیع کے الگ ہیں۔ جماعت اسلامی کا رابطتہ المدارس ہے ۔ پانچ بورڈ ہیں۔ پانچوں کی آپس میں دشمنی ہے۔ ادیانِ باطلہ کے نصاب میں ہر مکتبہ فکر نے باقی چار کو باطل قرار دیا ہے۔ اس طرح 12سمتوں پر تعلیمی سفر ہورہا ہے۔ علامہ اقبال ؒ نے کہا
گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا لا الٰہ الا اللہ

کہا جارہا ہے کہ حکومت نے نظام تعلیم کی اصلاح کے لئے دو سو پچاسویں کمیٹی قائم کررہی ہے۔ اب یہ کمیٹی قائم ہوگی تو کیا کرے گی۔ایک درجن متصادم اور متحارب گروہوں کو ایک جگہ اکٹھا کر کے جاپان ، چین ، برطانیہ ، ترکی اور ایران کی طرح یکسان نظام تعلیم مرتب کرنا جتنا اہم اور ضروری ہے اتنا مشکل بھی ہے ۔ اس کے لئے فیلڈ مارشل ایوب خان اور جنرل مشرف کی طرح لیڈر شپ کی ضرورت ہے۔ اگر لیڈر شپ میسر آئے تو یکساں نظام تعلیم رائج کیا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد اُمید پیدا ہوگی کہ 20سال بعد ڈگری لیکر باہر آنے والے پاکستانی ایک قوم، ایک مذہب اور ایک ملک کے ساتھ محبت کرنے والے ہونگے ورنہ یہی انتشار ہمارا مقدر رہے گا۔ مفکر پاکستان نے تحقیق کے بعد سوچ سمجھ کر یہ بات کہی
اور یہ اہل کلیسا کا نظام تعلیم
فقط اک سازش ہے دین و مروت کے خلاف

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , ,
6488

صد ا بصحرا …………دیوانی مقدمات کا عذاب…………. ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on
دیوانی مقدمات کا عذاب ختم ہونے کے قریب ہے۔ خیبر پختونخوا کی حکومت نے دیوانی مقدمات کے فیصلے کے لئے زیادہ سے زیادہ ایک سال کی مدت مقرر کی ہے اور صوبائی کابینہ نے بل کی منظور ی دی ہے۔ کابینہ کی منظوری کے بعد اب سول پروسیجر کوڈ (cpc) میں ترمیم کا بل اسمبلی سے پاس ہوگا اور گور نر کے دستخط کے بعد 1908ء کے قانون کی جگہ نافذ ہوگا۔صوبائی حکومت نے سینئر قانون دانوں ، ججوں اور دیگر ماہرین سے تفصیلی مشاورت کے بعد بل کا مسودہ تیا ر کیا ہے اور 1908ء میں انگریزوں کے بنائے ہوئے قانون میں 110سال بعد ترمیم کا مسودہ تیا ر کیا ہے۔ اس میں قانونی ، فنی اور تکنیکی طور پر تمام آئینی تقاضوں کا خیال رکھا گیا ہے۔ 110سال بعد قانون میں ترمیم کی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ ایک زندہ مثا ل سے اس کی وضاحت ہوگی۔ سید خان کا مرغا محمد طیب کے گندم کی فصل کے اندر گُھسا اور فصل کو نقصان پہنچایا۔ مقدمہ عدالت میں گیا۔ 18سالوں تک کیس چلتا رہا۔ ایک نیک دل منصف آیا۔ اُس نے فائل پڑھ کر نقصان کا تخمینہ دیکھا تو 5سیر گندم کے نقصان ہونے کا دعویٰ تھا۔منصف نے پوچھا مقدمے پر کتنا خرچہ آیا ہے؟ ایک فریق نے کہا کہ دو لاکھ روپے دوسرے فریق نے کہا تین لاکھ روپے ۔ منصف نے 5سیر گندم کی قیمت اپنی جیب سے ادا کرکے مقدمہ نمٹا دیا۔ دوسری مثال بھی اس سے ملتی جلتی ہے۔ فارسی مسل کا اردو ترجمہ کرانے کے لئے ایک بڑھیا پریس کلب آئی اور اپنی کہانی یوں سنائی۔میرا شوہر مر گیا، میرے گھر پر غیروں نے قبضہ کیا، سال مجھے یاد نہیں اُس وقت ایک سیر چائے کی قیمت 50روپے تھی۔ گندم کی 100کے جی والی بوری 28روپے میں آتی تھی۔ وکیل کی فیس 10روپے ہوا کرتی تھی۔ جیب کا کرایہ 5روپے مقرر تھا۔ میں اپنی اکلوتی بیٹی کے ساتھ اُس وقت سے در بدر ہوں۔بیٹی کی اولاد اب شادی شدہ ہیں۔میرے شوہر کا گھر غیروں کے قبضے سے مجھے واپس نہیں ملا۔ صحافیوں نے اندازہ لگایا تو یہ 1974ء کا واقعہ معلوم ہوا۔کیونکہ 1974ء سے پہلے اُس کے گاؤ ں میں جیب ایبل سڑک کی سہولت نہیں تھی۔ یہ دیوانی مقدمات کی دو کہانیاں ہیں۔ایسی لاکھوں کہانیاں کچہریوں میں موجود ہیں۔ایک بزرگ سے ہم نے پوچھا 1908ء میں کس طرح فیصلے ہوتے تھے؟ بزرگ نے کہا 1908ء سے 1970ء تک فیصلے کرنے والوں پر دباؤ ہوتا تھا۔ وہ اوپر رپورٹ بھیجتے تھے کہ اس ماہ کتنے مقدمات کے فیصلے ہوئے؟ ان کی تنخواہ ، تبدیلی اور ترقی کا دارومدار اس بات پر ہوتا تھاکہ یہ منصف ایک ماہ میں کتنے مقدمات کے فیصلے دیتا ہے؟1970ء کے بعد اس کی جگہ سیاست نے لے لی، تبدیلی ، ترقی اور دیگر معاملات سیاستدانوں کے ہاتھوں میں گئے۔ ایک منصف مہینے میں 100مقدمات کے فیصلے سناتا ہے۔ دوسرا منصف سال کے12مہینوں میں 20مقدمات کے فیصلے نہیں سناتا۔ دونوں کے مراعات یکساں ہیں۔ خدا بخشے مرحوم فضل حق جب گورنر تھے انہوں نے ڈسٹرکٹ کونسل چترال کے اقلیتی ممبر بشارا خان سے کہا ’’ کوئی خدمت بتاؤ‘‘۔بشارا خان نے فوراََ کہا کہ مجھے مجسٹریٹ یا جج لگاؤ ‘‘۔ فضل حق نے پوچھا تعلیم کتنی ہے؟ بشارا خان نے کہا ’’ سوکھا ان پڑھ ہوں‘‘۔فضل حق نے پوچھا پھر کس طرح مقدمات سنو گے؟کس طرح فیصلے کروگے؟بشارا خان نے کہا ’’ہر پیشی پر تاریخ دے دوں گا‘‘۔110سال بعد صوبائی حکومت نے سول پروسیجر کوڈ میں ترمیم لانے کا فیصلہ کرکے عوام کو دیوانی مقدمات کے عذاب سے نجات دلانے کی طرف انقلابی قدم اُٹھایا ہے۔ اس کے بعد کریمنل پروسیجر کوڈ) crpc) میں ترمیم کے لئے بھی وفاقی حکومت سے رجوع کیا جائے گا۔ قانون میں ترمیم کے ساتھ ججوں اور مجسٹریٹوں کے لئے پراگرس رپورٹ کی شرط بھی ضروری ہے۔ایک آفیسر کے چارج لینے کے دن اسکی عدالت میں 2800مقدمات تھے۔ ایک سال بعد اگر مقدمات کی تعداد ایک ہزار سے کم رہ گئی تو یہ اچھی کارگردگی ہے۔ اگر اس تعداد میں 2000مقدمات کا اضافہ ہوا تو یہ اُس آفیسر کی ناکامی کے مترادف ہوگی۔ ایک اہم پہلو بنچ کے ساتھ بار کے تعاون کا بھی ہے۔ ترمیمی بل کے مسودے میں یہ بات لائی گئی ہے کہ وکیل اگر دو بارمسلسل غیر حاضر رہا تو اس کی غیر موجودگی میں فیصلہ سنایا جائے گا۔ تاہم یہ نہیں لکھا گیا کہ وکیل اگر سند، گواہ اور ثبوت لانے میں مسلسل حیلے اور بہانے تلاش کرے ، نئے نئے فریق مقدمے کے اندر شامل کرے یا دیوانی مقدمے کو فوجداری مقدمے میں بدلنے کے لئے تشدد کے حربے اختیار کرے تو جج یا مجسٹریٹ کیسا ردّ عمل دے گا؟کہتے ہیں انصاف کے ترازو کے دو پہیے بنچ اور بار ہیں ۔ انصاف کی فراہمی کیلئے دونوں پہیوں کا درست ہونا لازمی ہے۔یہ عوام کے تحفظات ہیں۔ ان تحفظات کے باوجود یہ امر باعث اطمینان ہے کہ صوبائی کابینہ نے دیوابی قوانین میں ترمیمی بل کے مسودے کی منظوری دی ہے۔
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , ,
4774

صدا بصحرا ……….خوش فہمی کی حد نہیں………..ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

اخبارات میں بیرسٹر اعتزاز احسن کا جاندار تبصرہ آیا ہے کہ نواز شریف نے خودکش جیکٹ پہن لیا ہے۔ اب اُس دیوار کی تلاش ہیں جس سے اپنی گاڑی ٹکرا کر وہ دھماکہ کرینگے۔ تبصرے کو میں نے جانداراس لئے کہا کہ 28جولائی 2017ء سے اب تک سابق وزیر اعظم جو کچھ کر رہے ہیں اس کو خود کش حملے کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا۔ 28جولائی 2017ء کو سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد ان کو باعزت خاموشی اختیا ر کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا مگر انہوں نے اپنے ہمدردوں کا مشورہ نہیں مانا، دشمنوں کے مشوروں پر عمل کرکے اپنے آ پ کو اور اپنی پارٹی کو نقصان پہنچایا۔ بلوچستان کے سرداروں نے ان کے داماد کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا۔ اور اہم صوبے سے پارٹی کا صفایا ہوگیا۔ پنجاب میں ن لیگی اراکین اسمبلی ان کے داماد کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ وقت آنے پر ایک قدم آگے رکھ کر ق لیگ کو پیارے ہوجائینگے۔ اس تناظر میں سینئر وکیل اور سینئر سیاستدان اعتزاز احسن نے سابق وزیر اعظم کی موجودہ سیاست کو ’’ خودکش حملہ ‘‘ قرار دیا ہے۔میری نظر میں یہ خوش فہمی کا شاخسانہ ہے اور خوش فہمی کسی کی جاگیر نہیں۔ یہ کسی کے حصے میں بھی آسکتی ہے۔مثلاََ عمران خان کو یہ خوش فہمی ہے کہ نواز شریف کے زوال کے بعد پنجاب میرا ہوگا۔ حالانکہ اس کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ۔ عمران خان اگر خیبر پختونخوا میں مخلوط حکومت بنانے کا تجربہ نہ کرتے تو نواز شریف کا متبادل ہوسکتے تھے۔مگر 4سال حکومت کرنے کے بعد ان کی شخصیت کا سحر ٹوٹ چکا ہے۔ ان کی پارٹی سے مختلف گروہوں کو جو امیدیں وابستہ تھیں وہ دم توڑ چکی ہیں۔متحدہ مجلس کی بحالی اس کا واضح ثبوت ہے کہ اب عمران خان کسی کے ’’ لاڈلے‘‘ نہیں رہے۔ پاکستان تحریک انصاف کو بھی آخرکار تحریک استقلال کے راستے پر ڈال دیا گیا ہے۔مگر خوش فہمی کی حد یہ ہے کہ عمران خان نے وزارت عظمٰی کا حلف اُٹھانے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا۔ انہوں نے کہا اگرچہ بحیثیت وزیر اعظم پاکستان ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات میرے لئے کڑوی گولی ہوگی مگر ملک کے مفاد میں یہ کڑوی گولی مجھے قبول ہوگی۔ایک ستم ظریف نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کپتان کی خوش فہمی کا راکٹ بہت جلد چاند پر اتر جائے گا کیونکہ آسمانوں کی سیر اب ہوچکی ۔چیف جسٹس آف پاکستان کو یہ خوش فہمی ہے کہ عدلیہ بہت طاقتور ہو چکی ہے ۔وزیر اعظم کو گھر بھیجنے کے بعد عدلیہ کچھ بھی کرسکتی ہے۔حالانکہ چیف جسٹس کو کسی دوسرے پاکستانی سے زیادہ علم ہے کہ عدلیہ کی طاقت کا راز کیا ہے۔ سوات اور کوہستان کی قدیم داستانوں میں ایک طاقتوردیو کا ذکر آتا ہے۔ طاقتور دیو نے شہزادی کو قید میں رکھا ہوا ہے۔ بادشاہ اور اس کے حواری حیران ہیں کہ شہزادی کو دیو کی قید سے کسی طرح چھڑایا جائے۔ایک بڑھیا دربار میں داخل ہوتی ہے بادشاہ کی پریشانی کو بھانپ لیتی ہے اور کہتی ہے کہ یہاں بیٹھ کر سر نہ کھپاؤ فلک سیر کی چوٹی پر جاؤ برف کے گھونسلے میں پرندہ بیٹھا ہے۔ وہ بتائے گا کہ دیو کی طاقت کا راز کیا ہے ۔ بادشاہ فلک سیر چوٹی پر جاتا ہے۔برف کے گھونسلے میں بیٹھے ہوئے پرندے سے پوچھتا ہے کہ دیو کی طاقت کا راز کیا ہے؟ پرندہ کہتا ہے کہ دیو کی جان چڑیا کے جسم میں قید ہے۔ چڑیا تمہارے پائیں باغ میں چنار کے درخت پر بیٹھی ہے۔ تم چڑیا کو مارو گے تو دیو مرجائے گا اور شہزادی اس کی قید سے رہا ہوجائیگی۔ عدلیہ کی موجودہ طاقت کا راز بھی ایسا ہی ہے۔ کسی دور پار جنگل کے کسی پرانے درخت پر کوئی پرندہ بیٹھا ہوگا۔ عدلیہ کی جان اس پرندے کے جسم میں قید ہوگی۔ وہ پرندہ نہ رہا تو عدلیہ بھی اپنی طاقت سے محروم ہوجائیگی۔لیکن خوش فہمی ایسی بیماری ہے جس کا کوئی علاج نہیں۔ بعض دوستوں کو یہ خوش فہمی ہے کہ طاہر القادری بھی اگلی حکومت میں ’’ حصہ بقدرجثّہ ‘‘ والی کسی کسی خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔ حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں۔ موجودہ سیاسی فضا میں طاہر القادری واحد شخصیت ہیں جو خوش فہمی نہیں پالتے بلکہ نقد سودا کرتے ہیں۔اس کا کنٹینر اس کو پشتو روزمرہ کی رو سے ’’ دائیں ہاتھ سے‘‘ (پہ خی لاس) 5ملین ڈالر دے دیتا ہے اور یہ بہت سستا سودا ہے۔ البتہ یہ سچ ہے کہ بقول اعتزاز احسن ہمارے سابق وزیر اعظم کو خوش فہمی لاحق ہے۔ وہ خودکش جیکٹ پہن کر جوتھی بار داماد کی وساطت سے اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا ہونے والا نہیں مگر خوش فہمی کی حد نہیں ہوتی۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , ,
4675

داد بیداد ………سابقہ حکومت…………ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

ایک واہمہ سا ہے جو سینہ بہ سینہ ہم تک پہنچا ہے کہتے ہیں کہ کسی کی غیبت کی جارہی ہو تو اُس کے کان گرم ہوجاتے ہیں اگر یہ واہمہ سچ مُچ درست ہے تو پھر ’’ سابقہ حکومت ‘‘ کے کانوں کو ایک لمحے کے لئے بھی ٹھنڈک نصیب نہیں ہوگی گذشتہ 40سالوں سے ہر وزیر ، ہر لیڈر، ہر وزیر اعظم ، ہروزیر اعلیٰ اور ہر گورنر یہی کہتا ہے کہ سابقہ حکومتوں نے ملک کا بیڑہ غرق کردیا قوم کا ستیا ناس کردیا دانیال عزیز اور شیخ رشید کے بیانات پڑھ لیں شاہ محمود قریشی ، پرویز خٹک ، امیر مقام اور مولانا فضل الرحمن کی تقریریں سن لیجئے سراج الحق ، شہباز شریف اور محمود خان اچکزئی کے بیانات پر غور فرمائیے میرے پاس ملک کے 113لیڈروں کے دو ہزار تازہ بیانات ہیں جن میں سابقہ حکومتوں کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے اور سابقہ حکومتیں وہی ہیں جن میں یہ سارے لیڈر وزارتوں پر براجماں تھے اور ’’ موجودہ حکومت‘‘ کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے میرے ریکارڈ میں 88لیڈروں کے دو بیانات ہیں ایک بیان میں وہ پیپلز پارٹی کی تعریف کرتے ہیں دوسرے بیان میں مسلم لیگ کی خوبیاں بیان کرتے ہیں ایک بیان میں انہوں نے جنرل ضیاء الحق یا پرویز مشرف کو قوم کا نجات دہندہ ثابت کیا ہے دوسرے بیان میں ان کو ڈکٹیٹر اور تمام مسائل کا ذمہ دار قرار دیا ہے ’’ جنابِ شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی‘‘ 5جولائی 1977ء کو ہماری ٹیم کارکن صحافیوں پر مشتمل تھی رات 12بجے تک اخبار کے دفتر میں گذر جاتی تھی اس رات 12بجے تک شہ سرخی نہیں ملی جب شہ سرخی ملی تو پتہ چلا کہ ادارتی صفحے پر بھٹو کو تیسری دنیا کا عظیم لیڈر اور فخر ایشیاء ثابت کرنے پر زور قلم صرف کیا گیا ہے حالانکہ صبح کا سورج مرد مومن مرد حق ضیاء الحق کا نام لیکر طلوع ہونے والا تھا چنانچہ 5جولائی کے بعض اخبارات میں اداریہ والا صفحہ سفید کاغذ کی صورت میں شائع ہوا بعض اخبارات نے راتوں رات اپنا قبلہ درست کرلیا اور نیا اداریہ شائع کیا ایک ہی قومی اخبار ایسا تھا جس کا ادارتی صفحہ کسی تبدیلی کے بغیر ہو بہو چھپ کر آیاچیف ایڈیٹر نے اگلے روز ڈیسک والوں کو چائے پلائی اور داد بھی دی، اس اخبار میں بھٹو اور پیپلز پارٹی کے لئے ’’موجودہ حکومت‘‘ کے الفاظ استعمال کئے گئے تھے جو 5جولائی کے دن بھٹو کو مری میں نظر بندی کرنے کے بعد آنے والی حکومت پر حرف بحرف درست لگتے تھے جو تعریف 4جولائی والی موجودہ حکومت کی ہورہی تھی وہی تعریف 5جولائی والی ’’ موجودہ حکومت ‘‘ کے لئے بھی قابل قبول تھی تحقیق سے ثابت ہوا کہ چیف ایڈیٹر نے 4دن پہلے کارکن صحافیوں کو زبانی بتا دیا تھا کہ فخر ایشاء کا نام لینا بند کرو پیپلز پارٹی کا نام لینا بند کردو زمین آسمان کے قلابے ملاکر تعریف کرنی ہو تو ’’ موجودہ حکومت‘‘ لکھو یہ سدا بہار ترکیب ہے موجودہ حکومت نہ رہی تب بھی کام آئے گی اور شرمندگی سے بچائے گی اس کا نام ہے ’’ نسخہ ہائے وفا بنام چمچہ گان قدیم‘‘ گذشتہ سال سلطنت شریفیہ کی جگہ خلافت عباسیہ نے لے لی تو بعض اخبارات کو باقاعدہ اپنا قبلہ تبدیل کرنا پڑا تاہم دو چار اخبارات ایسے بھی ہیں جنہیں کوئی خاص فرق نہیں پڑا یہ وہی ترکیب استعمال کرتے ہیں سیاسی لیڈروں میں مجھے شیخ رشید اور امیر مقام پسند ہیں دونوں کی یہ عادت اچھی ہے کہ سابقہ حکومت کی برائیاں بیان کرتے وقت ان کو پسینہ آجاتا ہے اور بقیہ بیان پسینہ پونچھنے کے بعد جاری رکھتے ہیں یہ ضمیر کے زندہ ہونے کی نشانی ہے ورنہ ایسے لیڈروں کی کمی نہیں جو ہر سابقہ حکومت کے حواریوں میں شامل ہوکر فوائدسمیٹتے رہے اور ’’موجودہ حکومت‘‘ میں شامل ہوتے ہی اپنی عینک ایسی تبدیل کی کہ سارے کیڑے سابقہ حکومت میں نظر آنے لگے ہمارے دوست سید شمس النظر شاہ فاطمی نے ایسے لیڈروں کے لئے ’’موجودہ حکومت‘‘ کی طرح ایک سدا بہار سوال تیا ر کرلیا ہے سوال یہ ہے کہ ’’ وہ کونسی سابقہ حکومت تھی جس میں تم حصہ دار نہیں تھے؟‘‘ یہ سکہ بند سوال ہر ایسے لیڈر سے با آسانی پوچھا جاسکتا ہے جو سارے مسائل کا الزام سابقہ حکومت پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دیتا ہے ایسے لیڈروں کے لئے مرزا غالب کی غزل کا یہ شعر بھی برمحل لگتا ہے
کہاں میخانے کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , ,
4403

داد بیداد ………..حکمتیار فارمولا………….ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

افغان خانہ جنگی کے دوران ابھرنے والے لیڈر انجینئر گلبدین حکمتیار نے فارمولا پیش کیا ہے کہ آئندہ صدارتی انتخابات سے پہلے تمام افغان جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر آکر اتفاق رائے سے افغانستان کی آزادی کے ایجنڈے پر کام کرنا چاہیئے طالبان کی قیادت کو بھی مذاکرات کی میز پر لاکر متفقہ لائحہ عمل مرتب کرنا چاہیئے اور ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنے کے لئے ایک دوسرے کو معاف کرکے نئی شروعات کے لئے فضا ہموار کرنی چاہیئے خیالی طور پر یہ بہت خوبصورت باتیں ہیں فارمولا بھی خوبصورت ہے عالمی تاریخ میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں نبی کریم ﷺ نے میثاق مدینہ ، صلح حدیبیہ اور فتح مکّہ کے تین بڑے مواقع پر متفقہ لائحہ عمل دے کر دشمنوں کو معاف کرکے تاریخ میں مثال قائم کی تھی انگریزی میں اس کو ’’ شاخ زیتون‘‘ olive branchکہا جاتا ہے پشتو روایات میں یہ کام’’تیگہ‘‘ کہلاتا ہے
1990ء ،میں جنوبی افریقہ کے لیڈر نیلسن منڈیلا نے 27سالوں کی جدوجہد اور قید و بند کی صعوبتوں کے بعد الیکشن جیت کر تمام دشمنوں کو معاف کیا اور تاریخ میں اپنا نام رقم کیا اگر انجینئر گلبدین حکمتیار نے دشمنوں کو معاف کرکے متفقہ لائحہ عمل اپنانے میں افغان قوم کی مدد کی تو یہ ان کا زرین کارنامہ ہوگا اور افغان تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا جائے گا مگر یہ کام اتنا آسان نہیں ہے جب امریکہ اور سویت یونین کی جنگ افغانستان میں جاری تھی تو انجینئرگلبدین حکمتیار امریکی کیمپ کی طرف سے لڑ رہے تھے پشاور کے قریب ورسک روڈ پر حکمتیار کا بہت بڑا مرکز تھا پاکستانی سیاست میں باڈی گارڈ اور 10گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ سفر کرنے کا طریقہ سب سے پہلے انجنیئر گلبدین حکمتیار نے پشاور میں متعارف کرایا اس کے بعد پاکستان کی مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے ان کی تقلید میں یہ طریقہ اختیار کیاافغانستان کی سیاست میں انجینئر گلبدین حکمتیا ر نے ماضی میں کسی بھی دوسری جماعت کے ساتھ تعاون نہ کرنے کا وطیرہ اپنایا تھا برہان الدین ربانی ، صبغت اللہ مجدّدی اور ملا محمد عمر کے ادوار میں حکمتیار نے باغی کا کردار ادا کیا ایک دور میں انہیں وزیر اعظم نامزد کیا گیا مگر برہان الدین ربانی کے ساتھ مخالفت کی وجہ سے انہوں نے یہ منصب بھی قبول نہیں کیا اس تناظر میں انجینئر گلبدین حکمتیار کی طرف سے مصالحت کا فارمولا بہت خوش آئند پیش رفت ہے ایک نئی سوچ اور ایک نئی فکر کی نشان دہی کرتا ہے اگر دوسرے لیڈر بھی افغانستان کے بہتر مستقبل کے لئے نئی سوچ اور نئی فکر اپنانے پر توجہ دیں تو روشنی کی کرن نظر آسکتی ہے مگر اس راہ میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں یہ فارمولا جتنا آسان نظر آتا ہے عملی اعتبار سے اتنا ہی مشکل اور گران ہے اگر افغانستان کی موجودہ سیاست میں حکمتیار کی طرح نئے زاویے سے سوچنے والے دوسرے لیڈر پیدا ہوجائیں ہم خیال لیڈروں کا ایک گروپ وجود میں آئے تو ان کو چار اہم محاذوں پر کامیابی حاصل کرنی ہوگی پہلا محاذ 40سالہ افغان خانہ جنگی کے تمام فریقوں کا اعتماد حاصل کرنا ہے کیونکہ ہر فریق کو باہر سے امداد ملتی ہے اور کوئی بھی فریق اس امداد سے محروم نہیں ہونا چاہتا ان کو خانہ جنگی جاری رکھنے کے لئے بے پناہ دولت ملتی ہے اس کو ٹھکراناکسی بھی افغان فریق کیلئے مشکل ہے40سالوں میں امریکہ ، روس، برطانیہ، چین ، فرانس اور جرمنی سمیت تمام اقوام نے یہ تجربہ حاصل کیا ہے کہ افغانوں کی سب سے بڑی کمزوری ’’ ڈالر ‘‘ ہے جب تک ڈالر ہے تب تک افغانوں کا اتحاد بہت مشکل ہے دوسرا محاذ نسلی تعصب ، فرقہ ورانہ دشمنی اور قبائلی عصبیت کا ہے اس عصبیت کی وجہ سے ماضی میں بھی افغان تاریخ داغدار رہی ہے 1747ء میں ایران کی غلامی سے آزادی کے بعد افغانستان میں تاجک اور پختون دشمنی نے سر اُٹھایا ڈھائی سو سال یہ دشمنی رہی یہاں تک کہ سگے بھائیوں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں گرم سلائی پھیر کر آنکھیں پھوڑ نے کا گھناؤنا جرم بھی کیا 1980ء میں امریکیوں نے شیعہ سنی رقابت کی بنیاد رکھی اس بنیاد پر ہزاروں لوگ قتل ہوئے حکمتیار اور ان کے ساتھیوں کے لئے باہمی رقابت اور تعصب کا یہ محاذ بھی بہت مشکل محاذ ہے تیسرا محاذ افغانستان میں اپنی اپنی پراکسی (Proxi) لڑائی لڑنے والے ممالک کے ساتھ نمٹنے کا محاذ ہے مثلََا سعودی عرب اور ایران کی لڑائی ہے بھارت اور پاکستان کی لڑائی ہے چین اور امریکہ کی لڑائی ہے روس اور امریکہ کی جنگ ہے ان جنگوں کے تمام فریق افغان امن کی راہ میں رکاوٹ ہیں ان کو بتانا ہوگااپنی جنگ اپنی سرحدوں پر جاکر لڑو افغان قوم کو ’’ریت کی بوری‘‘ کے طور پر استعمال نہ کرو آخر میں سب سے اہم محاذ آتا ہے یہ محاذ امریکی مفادات کی راہ میں دیوار بن کر کھڑے ہونے کا محاذ ہے اپریل 1978ء سے اب تک 40سالوں میں امریکہ نے افغانستان پر قبضے کے لئے 800ارب ڈالر خرچ کئے اس کا مفاد خانہ جنگی کو جاری رکھنے میں ہے خانہ جنگی جتنی تیز ہوگی امریکہ کو اتنا ہی فائدہ ہوگا اس لئے امریکہ نے جن گروپوں کو خانہ جنگی کے لئے مسلح کیا ہے ان کو کبھی غیر مسلح ہونے نہیں دیگا افغان مصالحتی عمل کی کامیابی کا مطلب امریکہ کی ناکامی ہے اور امریکہ آسانی سے اپنی ناکامی کا راستہ ہموار نہیں کرے گا بہرحال حکمتیار کا مشن اہم ہے اس مشن کی کامیابی میں افغان قوم کی آزادی اور افغانستان کی خودمختاری کا راز پوشیدہ ہے ہماری دعائیں حکمتیار کے ساتھ ہیں بقول خواجہ حیدر علی آتش
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتر ے
ہزار ہا شجرِ سایہ دار را ہ میں ہے

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
4355

داد بیداد …….. گمشدہ فائل………..ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

400سو اہم احکامات کی فائلیں دفتری ضابطہ کار کے گورکھہ دھندے کے اندر گم ہوچکی ہیں ایک خدشہ یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کے مخالفین نے ان فائلوں کو غائب کرادیا ہے تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری دوسری رائے یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے ہمدردوں نے ان فائلوں کو پردہ راز میں رکھا ہوا ہے الیکشن کے قریب تمام فائلیں برآمد کی جائیں گی اور ان احکامات کے ذریعے ووٹ سمیٹ لئے جائیں گے دفتری ضابطہ کار سے معمولی واقفیت رکھنے والے لوگ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ پرویز خٹک کی حکومت میں سسٹم کو ٹھیک کرنے کیلئے کتنا کا م ہوا اس کا پتہ نہیں ہے عملی طور پر سسٹم بربا دہوچکا ہے اس کی ذمہ داری تین طبقوں پر عائدہوتی ہے پہلاطبقہ وہ ہے جو ایکس کیڈر سے آکر دفتر ی نظام کے اہم عہدوں پر فائز ہوا ہے دوسرا طبقہ وہ ہے جو اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے ایڈیشنل چارج کے نام پر دو دو محکموں پر قابض ہے تیسرا طبقہ وہ ہے جو پاکستان تحریک انصاف کے بڑوں کی نظروں میں معتوب ہو کراو ایس ڈی کے نام سے گھر پر بیٹھ کر تنخواہ لے رہا ہے سول بیورو کریسی کے 600اہم افیسروں میں اکثریت عوامی نیشنل پارٹی ،مسلم لیگ (ن)اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ ہمدردی رکھتی ہے اس وجہ سے تبدیلی اور سسٹم میں اصلاح کاایجنڈا درمیاں میں ادھورا رہ جانے کا خطرہ پیدا ہوتا ہو ا نظر آتا ہے دفتری نظام کے عدم تعاون کی دو موٹی موٹی مثالیں ہیں وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے 2014میں چار ضلعوں کیلئے ریسکیو 1122کا اعلان کیا 2015میں اس پر کام ہونا چاہیے تھا پرویز الہیٰ ، شہباز شریف اور امیر حیدر خان ہوتی کو اس کام میں دو مہینے بھی نہیں لگے تھے دو مہینوں میں عارضی بلڈنگ میں کام شروع ہوتا تھا مستقل بلڈنگ کی تعمیر کا ٹینڈر ہوجاتا تھا اور سال کے اندر مستقل عمارت تیار ہوجاتی تھی یہ ہنگامی حالات میں کام کرنے والا ادارہ ہے اس کاقیام بھی ہنگامی بنیادوں پر ہوتا ہے مگر گذشتہ تین سالوں سے یہ کام چار محکموں کے درمیاں رسہ کشی کا شکار ہوکررہ گیا ہے ایک محکمے کا سربراہ مانتاہے تو دوسرے محکمے کا سربراہ اس میں رخنے ڈالتا ہے چاروں محکموں کے درمیاں ایک غیر تحریری معاہدہ ہوا ہے کہ موجودہ دورحکومت میں یہ کام نہیں ہوگااس کی دوسری مثال نئے اضلاع کا قیام ہے وزیر اعلیٰ نے کوہستان ، سوات اورچترال میں نئے اضلاع کے قیام کا اعلان کیا ہے دفتری ضابطہ کار نے ان اعلانات کو دفتری بھول بھلیوں میں الجھایا ہے2010ء میں اس وقت کی حکومت نے کالا ڈھاکہ کے وفاقی علاقے کو وفاق سے لے کر صوبے کا پچیسواں ضلع بنانے کا اعلان کیاتو 26دنوں میں قومی اسمبلی اورسینیٹ سے بل پاس کرکے صدارتی دستخطوں کے بعد وفاقی علاقہ صوبے کو دے دیا گیااگلے ایک ہفتے کے اندر اس کو تورغر کے نام سے نیا ضلع بناکر ڈپٹی کمشنر مانسہرہ کو اس ضلعے کا اضافی چارج دے دیا گیا جودبہ کو ہیڈ کوارٹر بنایا گیا3مہینوں کے اندر بجٹ منظور ہوا نئے ضلع کا ڈپٹی کمشنر آیادفتر قائم ہوئے اور ضلعی ہیڈکوارٹر کے تمام دفاتر کھل گئے کیونکہ حکومت کو بیوروکریسی کا پوراتعاون حاصل تھا اپر کوہستان، اپر سوات اور اپر چترال کے اضلاع کا نوٹیفیکیشن عام دفتری ضابطہ کار کے مطابق دو گھنٹوں میں دستخط ہونا تھا قریبی ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو اضافی چارج دے دیا جاتا تونیا ضلع بن جاتا دوسرے دفاتر، بجٹ اور دیگر کام ڈپٹی کمشنر کی نگرانی میں ایک ماہ کے اندر مکمل ہوسکتے تھے مگر افسر شاہی نے سوچا اس کو چکر میں ڈالنا چاہیے ہرضلعے کے لئے چارارب روپے کا بجٹ بناؤ ہر ضلعے کے لئے چار سو آسامیاں پیدا کرو ڈیڑھ سو نئی گاڑیوں کاانتظام کرو اس میں ایک سو ایک ifs اور ایک سو ایک buts ڈال دو کام کو اتنا پیچیدہ اور مشکل بناؤ کہ ضلع بنانے کا اعلان کرنے والے سر جوڑ کربیٹھ جائیں اور اپنے اعلان پر پچھتانے کے سوا کچھ نہ کرسکیں گمشدہ فائل کی کہانی ہر دفتر کی کہانی ہے ہر فائل کسی نہ کسی میز پر گذشتہ دو سالوں سے رُکی ہوئی ہے یہ فائل ہسپتالوں میں ہونے والی سہولیات کے بارے میں بھی ہوسکتی ہے تعلیمی اداروں میں بہتری کیلئے بھی ہوسکتی ہے کسی غریب کی داد رسی کے کیلئے بھی ہوسکتی ہے اس فائل پر وزیر اعظم کا ٹور نوٹ ہے وزیر اعلیٰ کے احکامات بھی ہیں جن کو دفتری زبان میں ڈائریکٹیوز کہا جاتا ہے عمومََا وزیر اعلٰی کے احکامات پر دو گھنٹوں میں عمل درآمد ہوسکتا ہے مگر بیوروکریسی اگر صوبے کے چیف ایگزیکٹیو کے احکامات پر عمل کرنے میں سنجیدہ نہ ہو تو معمولی کام دوسالوں تک فائلوں میں بندرہتا ہے اور فائل دفتری نظام میں گم ہوجاتی ہے اس وقت سول سیکرٹریٹ پشاور اور ملحقہ محکموں کی صورتحال یہ ہے کہ 11اہم محکموں کا ایڈیشنل چارج کسی دوسرے محکمے کے
سیکرٹری کے پاس ہے18محکموں میں اہم عہدوں پر یا تو ایکس کیڈر کوبٹھایا گیا ہے یا جونئیر افیسر کو سینئر پوسٹ پر رکھا گیا ہے39تربیت یافتہ سینئر افیسروں کو او ایس ڈی کرکے گھر بٹھایا گیا ہے افیسروں کی آپس میں گروپ بندی ہے اس گروپ بندی کی وجہ سے دفتری نظام بری طرح متاثر ہورہا ہے سچ پوچھئے تو یہ سب کچھ تبدیلی کے ایجنڈے کو روکنے کیلئے ہورہاہے سسٹم کی اصلاح کو روکنے کیلئے ہورہا ہے اور عمران کے وژن کو ناکام ثابت کرنے کے لئے ہورہا ہے پاکستان تحریک انصاف کی صفوں میں پاک آرمی ،سول سروس اور پولیس سروس کے ریٹائرڈ افسروں کی کمی نہیں جنرل (ر)افتخار حسین شاہ یا رستم شاہ مہمند کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں تاکہ حکومت کے پاس کام کے جو 6 مہینے رہتے ہیں یہ چھ مہینے ضائع نہ ہوں اور وزیر اعلیٰ کے احکامات کی جھلک زمین کے اوپر عوام کو نظر آئے گمشدہ فائلوں کاسراخ مل جائے اور غریبوں کی دادرسی ہو ورنہ فیض نے ہمارے دفتری نظام کا خاکہ یوں کھینچا ہے
بے داد گروں کی بستی ہے یاں دا د کہاں خیرات کہاں
سر پھوڑتی پھرتی ہے نادان فریاد جو در در جاتی ہے

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
4142

صدا بصحرا ……… یقین اور بے یقینی کے بادل………..ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

ہر دو سال یا تین سال بعدوطن عزیز کے آسمان پر یقین کی جگہ بے یقینی کے بادل منڈلانے لگتے ہیں وطن عزیز ان ملکوں میں سے ہے جہاں آبادی کا 65فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کی عمریں 12کے درمیاں بتائی جاتی ہیں بے یقینی اور افراتفری کا سب سے زیادہ شکار یہی طبقہ ہوتا ہے ملک کا مستقبل بھی یہی طبقہ ہے قوم کی امیدوں کا محور بھی یہی طبقہ ہے پولیٹکل سائنس، جرنلزم اور انگریزی ادب میں ماسٹر یا ایم فل کرنے والے طالب علم بچے اور بچیاں جب اخبار کھولتی ہیں یا ٹیلی وژن چینل پر ٹاک شوز دیکھتی ہیں تو ان کو اپنے ملک سے اپنی قوم سے ، اپنے مستقبل سے مایوسی ہوتی ہے کیوں؟ اس کا جواب آسان بھی ہے اور مشکل بھی آسان اسلئے کہ سب کو پتہ ہے ملک کے 12ٹی وی چینل، 26ریڈیو چینل ، سوشل میڈیا کیساتھ ملکر مایوسی پھیلانے کا گھناؤنا کاروبار کرتے ہیں پروگراموں کے اینکر پرسن گلا پھاڑ پھاڑ کر پاکستان کو ناکام ریاست ثابت کرنے پر اپنا زور بیان صرف کرتے ہیں ملکی اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور یہ تاثر دیتے ہیں کہ پاکستان دو دن کا مہمان ہے یہ وہی تاثر ہے تو مہاتما گاندھی ، جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل نے اگست 1947ء میں دیا تھا 16اگست 1947ء کو کانگریس کے لیڈروں نے یہی کہا تھا کہ پاکستان چند دنوں کا مہمان ہے یہ ملک زیا دہ دیر زندہ نہیں رہے گا چنددنوں میں اکھنڈ بھارت کے ساتھ آملے گا سوشل میڈیا پر بھارت کے مسلمان شعراء کا ایسا کلام پھیلایا جارہا ہے جو گاندھی اور نہرو کے نقطہ نظر کی ترجمانی کرتا ہے ہماری نئی نسل کو یہ پیغام دیتا ہے کہ اکھنڈ بھارت کا خواب ہی ہماراخواب ہے اس پر کوئی قدغن نہیں کوئی پابند ی نہیں یہ پروپیگنڈا کسی قانون کی گرفت میں نہیں آتا کیونکہ قانون کا کوئی محافظ نہیں کوئی پوچھنے والا نہیں سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں سے جو نئی نسل تیا ر ہوکر آرہی ہے اس نسل کے سامنے کوئی منزل نہیں ان کے اساتذہ کے سامنے کوئی منزل نہیں مایوس استاد آگے جاکر مایوس نسل کی آبیاری کرتا ہوا نظر آرہا ہے ہر ایک نا انصافی اور ظلم کی دُہائی دیتا پھر رہا ہے اس طرح مایوسی اور بے یقینی پھیلتی ہے جس کا علاج کسی کے پاس نہیں منبر پر علماء کا وعظ بے یقینی اور مایوسی میں مزید اضافہ کرتا ہے جلسوں ، جلوسوں اور کارنر میٹنگوں یا پریس کانفرنسوں میں سیا سی لیڈروں کے بیانات بے یقینی اور مایوسی پھیلاتے ہیں کوئی ایسی تقریر سننے کو نہیں ملتی جو امید اور روشن مستقبل کی نوید سنائے ایسی تقریر کوئی نہیں کرتا ایک مثال سے اس بات کی وضاحت ہوسکتی ہے امریکہ میں صدارتی انتخابات 2016ء ،میں اختتام پذیر ہوئے ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار ہیلری کلنٹن شکست کھا گئے ری پبلکن پارٹی کے ڈونلڈ ٹرمپ جیت گئے ایک سال سے زیادہ عرصہ ہوا ڈیموکریٹک پارٹی یا ہیلری کلنٹن نے ڈونلڈ ٹرمپ یا امریکی فوج یا امریکی عدلیہ کے خلاف بیان نہیں دیاایک لفظ بھی نہیں کہا اخلاقیات اس کی اجازت نہیں دیتا امریکہ سب کا ہے امریکی صدر سب کا نمائندہ ہے امریکی فوج سب کی عزت اورشان ہے امریکی عدلیہ کو سب اپنا مان سمجھتے ہیں اور برابر عزت دیتے ہیں ہمارے لیڈروں کا رویہ ان کے رویے کے مقابلے میں یکسر مختلف اور بالکل اس کے الٹ یا برعکس ہے انتخابات کو کسی مسئلے کا حل بنانے کی جگہ نیا مسئلہ بنایا جاتا ہے انتخابات سے دو سال پہلے شور شرابا شروع ہوتا ہے اور انتخابات کے تین سال گزرنے تک شورشرابا ختم نہیں ہوتا اپنے ملک سے بے زاری ، اپنی قوم سے بے زاری ، اپنے ملکی اداروں سے بیزاری، اپنے ملک کے سسٹم سے بے زاری ختم نہیں ہوتی یہ بیزاری جاری رہتی ہے اور بے یقینی کے یہ بادل مایوسی کی بارش برسا برسا کر پوری قوم کو اپنی مستقبل سے مایوس کردیتے ہیں چین ، روس ، ایران اور سعودی عرب نے اس کا یہ حل نکالا ہے کہ سوشل میڈیا پر پابندی لگائی ہے ٹیلی وژن ، ریڈیو، اخبارات اورمحراب و منبر پر حکومت کا کنٹرول ہے اس لئے قوم کو ایک سمت مل جاتی ہے قوم کے سفر کا ایک رخ متعین ہوتا ہے پاکستان کو اس قانون کی ضرورت ہے اور اشد ضرورت ہے کیونکہ قوم اور ملک کا وقار سب سے مقدم ہے علامہ اقبال ؒ نے فرمایا
شاعر کی نوا ہو یا معنّی کا نَفَس ہو
جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
4052

داد بیداد ……….محکمہ تعلیم کے مانیٹرنگ یونٹ کا مستقبل…..ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

خبر آئی ہے کہ محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم خیبر پختونخوا کا مانیٹرنگ یونٹ مستقبل نہیں ہوگا اب یہ آنے والی حکومت کی مرضی ہوگی اس کو جاری رکھے یا بند کرے خبر میں بتایا گیا ہے کہ حکومت کے پاس جو رپورٹیں ہیں ان کے مطابق مانیٹرنگ یونٹ کا پراجیکٹ دوسرے پراجیکٹوں سے مختلف تھا محکمہ صحت نے مانیٹرنگ یونٹ کو ریگولرائز کردیاتو اس کو کرنا چاہیے تھا محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم کا اپنا دائرہ کار ہے اس کا پراجیکٹ الگ نوعیت کا ہے جہاں سکیل 17سے نیچے کے ملازمین کو پراجیکٹ کی تنخواہ دینے کی اجازت نہیں اس یونٹ کو شروع کرتے وقت کہا گیا تھا کہ یہ مستقل نہیں ہوگا محکمہ تعلیم اس کی مستقلی قبول نہیں کرے گا چنانچہ جون 2018ء میں موجودہ حکومت کی مدت کے ساتھ انڈی پنڈنٹ مانیٹرنگ یونٹ کا بوریا بستر گول ہوگااخبارات میں ایسی خبریں بھی آگئی ہیں کہ مانیٹرنگ یونٹ کے ملازمین نے دیر، چترال، بٹگرام ، کوہستان، ڈی آئی خان اور کرک جیسے دور دراز اضلاع اور پشاور ، نوشہرہ یا مردان جیسے مرکزی شہروں سے جلو س کی شکل میں بنی گالہ جاکر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے گھر پر ’’دھرنا‘‘ دیا دھرنے کے نام سے خان صاحب کو اچھل پڑنا چاہیے تھا مگر اطلاع یہ ہے کہ خان صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ صوبائی حکومت کا کام ہے صوبائی حکومت کی کسی شخصیت نے کہا ’’ ہماری بلّی اور ہمیں ہی میاؤں میاؤں‘‘ پی ٹی آئی کے زرین دور کا یہ واحد دھرنا تھا جو کامیاب نہیں ہو ا ، ورنہ اس دور میں ’’دھرنے‘‘ کو ہر مرض کی دوا کا درجہ حاصل ہے تفنن برطرف پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی حکومت کے کھاتے میں صرف تین نیک نامیاں آگئی تھیں پہلی نیک نامی NTS کے ذریعے اساتذہ کی بھرتی ہوتی تھی اس پر نیب نے مقدمہ دائر کرکے NTS والوں کو پکڑا ہے معاملہ گڑ بڑ ہے دوسری نیک نامی خود مختار احتساب کمیشن کی تھی اسے صوبائی حکومت نے کُتر کُتر کر بال و پر نوچنے کے بعد گھر بٹھا دیا اب اس کا مزار ہی رہ گیا ہے تیسری بڑی نیک نامی انڈ ی پنڈنٹ مانیٹرنگ سسٹم کے ذریعے اساتذہ کی حاضری کو یقینی بناکر سکولوں کے اندر تعلیمی نظام کو بہتر کرنے کی تھی اور اس کے ایسے نتائج برآمد ہوئے تھے جنہیں ’’پٹواری ‘‘ بھی بلا چون و چرا تسلیم کرتے تھے اپنی 5سالہ حکومت کے آخری 6مہینوں میں مانیٹرنگ یونٹ کے ملازمین کی مستقلی سے انکار کرکے صوبائی حکومت نے اپنے پاؤ ں پر کلہاڑی کا وار کیا ہے سول سکرٹریٹ پشاور اور خیبر پختونخوا ہاؤس اسلام آباد کے با خبرذرائع اس حوالے سے دو باتوں پر زور دیتے ہیں اور ان دو باتوں کو حکومت کی ناکامیوں کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں پہلی بات یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے اندر پارٹی کیڈربہت کمزور ہے ضلعی کابینہ کا ڈویژنل کابینہ کے ساتھ کوئی ربط ،کوئی خط و کتابت کوئی ذریعہ ابلاغ نہیں ہے پارٹی کی ہائی کمان نچلی سطح کے ورکروں اور عہدیداروں سے رائے نہیں لیتی، فیڈ بیک (Feed Back) کا سسٹم کمزور ہے حکومت کو اور پارٹی کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کونسا کام نیک نامی والا ہے کونسا کام بدنامی کا پاعث ہے؟ پارٹی قیادت کو اندھیرے میں رکھا گیا ہے دوسری اہم بات یہ ہے کہ صوبے کے اندر اسٹبلشمنٹ کسی اور کی ہے پی ٹی آئی کی نہیں اکثر محکموں میں پی ٹی آئی سے زیادہ اس کے مخالفین کی دال گلتی ہے محکمہ تعلیم کے ضلعی حکام بھی مانیٹرنگ یونٹ سے تنگ آگئے تھے صوبائی سطح پر مانیٹرنگ یونٹ کو باقاعدہ طور پر
’’ ناپسندیدہ یونٹ‘‘ قرار دیا گیا تھا کیوں کہ ان کے لاڈلے کھیلنے کو چاند مانگتے ہیں مانیٹرنگ یونٹ کباب میں ہڈی کی طرح ہے محکمہ تعلیم میں بیٹھے ہوئے 20 افسروں کے 400 لاڈلے سعودی عرب، دوبئی ، شارجہ ، ملائشیا اور مالدیپ میں بیٹھے تھے خیبر پختونخوا کے سکولوں سے ہر ماہ ا ن کو تنخواہ ملتی تھی مانیٹرنگ یونٹ نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا نظامت تعلیمات کی راہداریوں میں ایم ایم اے کی بحالی کا جشن منایا گیا تو اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ دینی جماعتوں کا اتحاد پی ٹی آئی کی جگہ حکومت بنائے گا اور مانیٹرنگ کے عذاب سے ہم کو ، ہماری اولاد کو، دوست احباب کو نجات دلائے گا بھوت سکولوں اور بھوت اساتذہ کا سلسلہ پھر سے چل پڑے گااس لئے وزیر تعلیم اور صوبائی چیف ایگزیکیٹو کے لئے ایسی رپوٹیں تیا ر کی گئیں جو ان کے مذموم عزائم کی تکمیل میں مددگار ہوسکتی تھیں چنانچہ صوبائی حکومت نے پورس کے ہاتھیوں کی طرح خود اپنی صفوں کو تہہ و بالا کرنے کا پھر یرا لہرایا ہے اساتذہ کی تنظیمیں اندرون خانہ خوشی اور مسرت کا اظہار کررہی ہیں کہ مانیٹرنگ سے جان چھوٹنے والی ہے اخبارات میں جو خبریں آرہی ہیں وہ حوصلہ افزا نہیں ہیں محکمہ تعلیم کے انڈی پنڈنٹ مانیٹرنگ یونٹ نے حکومت کی نیک نامی میں نمایاں کردار ادا کیا تھا کچھ مخصوص حلقے اپنے ذاتی مقاصد کے لئے اس یونٹ کے ملازمین کی مستقلی کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں اب یہ پی ٹی آئی کی قیادت کا امتحان ہے وہ ہمدردوں کی بات مانتی ہے یا دشمنوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیتی ہے

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
3997

داد بیداد ……..کابل میں دھماکوں کے بعد……..ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

جمعرات 28دسمبر کو افغانستان کے دار الحکومت کابل میں بم دھماکوں کے نتیجے میں 40بے گناہ شہریوں کی شہادت ہوئی ایک ہفتے کے اندر یہ تیسرا واقعہ تھا اس سے پہلے دو الگ الگ واقعات میں 11بے گناہ شہریوں کی شہادت ہوئی تھی ان سطور کی اشاعت تک اگر مزید واقعات پیش نہ آئے تب بھی کابل کے اندر بدامنی کی نئی لہر کو پاکستان کے لئے خطرے کی گھنٹی کی حیثیت حاصل ہے بد امنی کے تازہ ترین واقعات کے بعد افغان میڈیا میں بھی اور بیرونی نشریاتی اداروں میں بھی پاکستان کا نام لیا گیا اور یہ پروپیگنڈا محض اتفاقی نہیں یہ سکرپٹ کا حصہ ہے سکرپٹ لکھنے والوں کے لئے سو یا ڈیڑھ سو بے گناہ شہریوں کو مار کر کسی اور کی طرف انگلی اٹھانا معمول کا واقعہ ہے وہ لوگ اس کو چائے کا گھونٹ سمجھ لیتے ہیں ماضی میں ایسے واقعات ہوئے ہیں جن میں ایک ہی شخص نے افغان حکومت کے کسی دفتر کو نشانہ بنانے کے بعد پاکستان پر الزام لگا یا اور چند دنوں کے بعد پاکستانی سفارت خانے پر ہلہ بول دیا گویا یہ دکھایا جارہا ہے کہ افغان عوام کو اشتعال آگیا حالانکہ واقعہ اس کے برعکس تھا پاکستان کے خلاف حقانی نیٹ ورک کا گھسا پٹا الزام بار بار دہرایا جاتا رہا ہے اب یہ الزام اتنا پرانا ہوچکا ہے کہ اس پر کسی کو اعتبار بھی نہیں آتا کچھ عرصہ پہلے بھارتی دانشور ڈاکٹرڈاکٹر را م پونیانی سے پوچھا گیا کہ داعش، القاعدہ اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی حقیقت کیا ہے؟ انہوں نے معروضی حالات کے مطابق تین بنیادی باتوں کی طرف سامعین کی توجہ مبذول کرائی ان کا پہلا نکتہ یہ ہے کہ اگر داعش ، القاعدہ وغیرہ مسلمانوں کی تنظیمیں ہوتیں تو مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی انڈونیشیا میں ہے وہاں کیوں نہیں ہیں؟ دوسرا نکتہ یہ ہے اگر داعش ، القاعدہ اور دیگر دہشت گر د تنظیمیں مسلمانوں کی بنائی ہوتیں تو ان کے ٹارگٹ غیر مسلم ہوتے یہ تنظیمیں مسلمانوں کے خلاف کیوں لڑتی ہیں؟ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر دہشت گردی کے لئے قائم ان تنظیموں کا مقصد اسلام کی سربلندی کا کام ہوتا تو یہ بنگلہ دیش ، ملائشیا ، بھارت اور دیگر ممالک میں کام کرتے یہ تنظیمیں تیل، گیس اور جواہرات زمرد وغیرہ پیدا کرنے والے ملکوں اور علاقوں میں کیوں نظر آتی ہیں؟ ڈاکٹر رام پونیانی اعداد و شمار کی مدد سے تاریخی حقائق کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان تنظیموں کا تعلق ڈرامہ یا فلم کے سکرپٹ سے ہے سکرپٹ لکھنے والے نے لکھا ہے کہ سوڈان سے فلان تنظیم نکلے گی عراق سے فلان تنظیم کو اُٹھایا جائے گا شام سے فلاں تنظیم آئے گی سعودی عرب ، الجزائر ، صومالیہ اور افغانستان سے فلاں فلاں تنظیمیں آئینگی ضرورت پڑنے پر الگ الگ کام کرینگی حالات نے اجازت دی تو ان کو یکجا کیا جائے گا یہ تنظیمیں صلیب کا نشان لیکر مسلمان ملکوں کو اسلام کے نام پر تا راج کرینگی ہمارا کام تیل نکالنا ، گیس لے جانا اور جواہرات کو اُٹھاناہے مسلمان ملکوں کی دولت کو کھنگال کرنا ہے یہ تنظیمیں ہمارے لیے مددگار ثابت ہونگی ڈاکٹر رام پونیانی کے نزدیک نائن الیون بھی ڈرامہ تھا 3ہزاربے گناہ لوگوں کو صرف ڈرامہ رچانے کیلئے مارا گیا اُسامہ بن لادن کو خوشی سے جھومتے ہوئے اقرار کرتے ہوئے دکھایا گیا امریکیوں کو باور کرایاگیا کہ یہی شخص مجرم ہے مگر اُسامہ کو مار کر اس کی لاش کسی کو نہیں دکھائی گئی دعویٰ کیا گیا کہ لاش کو سمندر میں ڈالا گیا ہے یہ بھی ڈرامہ تھا اس طرح فرانس، جرمنی اور اٹلی کے ذرائع ابلاغ میں بھی ان واقعات پر درست سوالات اُٹھائے گئے ہیں ان سوالات کا کوئی جواب نہیں دیا گیا کابل میں بدامنی کی نئی لہر پاکستان کے لئے ایک انتباہ یا اشارہ ہے امریکی عہدیداروں نے خبردار کیا ہے کہ طالبان کا رخ پاکستان کی طرف ہوسکتا ہے گویا ان کو پاکستان کی میں دہشت گردی کیلئے دوبارہ استعمال کرنے والے ہیں مگر ’’ہم‘‘ کی ضمیر غائب ہے موجودہ حالات میں پاکستان کے اندر سیاسی عدم استحکام کا فائدہ بھی دشمن کو پہنچ سکتا ہے دشمن ہمیشہ اس طرح کے حالات کا انتظار کرتا ہے اس وقت پاکستان کو دسمبر 2014ء میں اے پی ایس پر حملے کے بعد پیدا ہونے والی یکجہتی کی ضرورت ہے اسی طرز کی آل پارٹیز کانفرنس اور اُسی طرح قومی لائحہ عمل کی ضرورت ہے دشمن پڑوس میں تیار بیٹھا ہے ہم نے اگر دشمن کے عزائم کو سمجھنے میں غلطی کی تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کرینگی

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
3896

داد بیداد …….. شیطانی چکر………ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

کیا سعودی عرب اور ایران کے درمیاں جنگ ہونے والی ہے؟ دو بڑے واقعات کے بعد بین الاقوامی میڈیا میں سعودی عرب اور ایران کے درمیاں ممکنہ جنگ کا نقشہ دکھایا جارہا ہے پہلا بڑا واقعہ یہ تھا کہ امریکہ نے بیت المقدس کو اسرائیل کی دارالحکومت تسلیم کرکے مسلمانوں کو مشتعل کیا دوسرا بڑا واقعہ یہ تھا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھاری اکثریت سے امریکی فیصلے کو مسترد کردیا امریکہ اور اسرائیل کے حق میں صرف 9ووٹ آئے ان میں سے دو ووٹ اُن کے اپنے تھے دو ووٹ برطانیہ اور فرانس کے تھے 5ووٹ ایشیائی ممالک کے تھے ان میں بھارت ، سعودی عرب ،مصر ، بحرین اور کویت شامل تھے ان دو اہم واقعات کے پسِ منظر میں ایک شیطانی چکر شروع ہو ا ہے یہ وہی شیطانی چکر ہے جو مارچ 1990ء میں شروع ہوا تھا چکر یہ ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کے ذرائع ابلاغ نے سعودی عرب اور ایران کے درمیاں جنگ کا ماحول بنانا شروع کیا ہے بلکہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں دونوں ممالک کے دفاعی حکام کی توجہ کیلئے باقاعدہ Tip اور اشارے دیے جارہے ہیں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت لکھا جارہا ہے کہ ایران کے پاس بہترین ڈرون جہاز ہیں روس کی ٹیکنالوجی کے جنگجو طیارے بہترین حالت میں ہیں ایران کا میزائل سسٹم بہت طاقتور ہے ایران جنگ کے پہلے دو دنوں میں سعودی عرب کے بجلی اور پانی کی سپلائی کا پورا نظام تبا ہ کرسکتا ہے خلیج فارس اور ابنائے ہرمز کی طرف سفر کرنے والے بحری جہازوں کو بارودی سرنگوں سے اڑا سکتا ہے ساتھ ساتھ سعودی عرب کو Tip اور اشارہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ تمہارے پا س امریکہ کا دیا ہوا ایف 15،ایف 16 اور ایف 22جنگی
طیاروں کا طاقتور بیڑا ہے تم ایران کے ایٹمی تنصیبات ، گیس اور تیل کی ریفائنری، دفاعی تنصیبات اور انفراسٹر کچر کو آسانی سے نشانہ بنا سکتے ہو یہ ایسا منظر ہے جیسے بٹیروں ، مرغوں ، بیلوں اور کتّوں کو لڑانے میں ماہر کھلاڑی داؤ پیچ آزماتے ہیں امریکی یا برطانوی حکام اور دانشور مسلمانوں کو ’’جانور‘‘ ہی سمجھتے ہیں مارچ 1990ء سے جولائی 1990ء تک کے اخبارات اُٹھائیں اور چند گھنٹے ماضی کی آغوش میں گزاریںآپ کو ایک کہانی ان اخبارات میں ملے گی واشنگٹن پوسٹ، گلف نیوز، خلیج ٹائمز، کیہان انٹرنیشنل یا برطانیہ اور پاکستان کا کوئی اخبار اُٹھائیں عراق اور کویت کی لڑائی کا پس منظر مطالعہ کریں مارچ 1990ء میں کویت نے عراق سے مطالبہ کیا کہ عراق، ایران جنگ کے دوران سرحدی علاقوں میں تیل کی دو تنصیبات امریکہ کی ضمانت پر تمہیں دئیے گئے تھے وہ مجھے واپس کرو 8 سالہ جنگ 1988ء میں ختم ہوگئی یہ کنوئیں ایران کے خلاف جنگ کے لئے تمہیں دئیے گئے تھے عراق نے امریکہ سے مدد طلب کی ، امریکہ نے کہا تیل کے کنوئیں واپس نہ کرویہ تمھاری ملکیت ہیں اگر کویت نے’’گڑ بڑ ‘‘ کیا تو حملہ کرکے کویت پر قبضہ کرو ’’ قدم بڑھاؤ صدام حسین ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ 30اگست 1990ء کی رات صدام حسین نے حملہ کیا اور دو گھنٹوں کے اندر کویت پر قبضہ کر لیاکویت کے امیر کو امریکہ نے سعودی عرب میں پناہ دیدی اور کویت پر عراق کا قبضہ ختم کرنے کیلئے ’’ آپریشن ڈیزرٹ اسٹارم‘‘ کے نام سے جنگ چھیڑنے کا اعلان کیا ، صدام حسین نے اس کو اُمّ الحرب یعنی ’’ مادر آف آل وارز‘‘ کا نام دیااس جنگ کے بعد امریکہ نے کویت ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں مستقل فوجی اڈے قائم کئے2017ء میں امریکہ کا بحری بیڑہ دوحہ میں ہے35ہزار فوجی جدید سامان جنگ اور ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہوکر سعودی عرب سے لیکر ایران کی سرحد تک اپنے فوجی اڈوں میں جنگ کے لئے تیار بیٹھے ہیں اور وائٹ ہاؤس کو امریکی تھینک ٹینکوں نے مشورہ دیا ہے کہ اپنی فوجی طاقت کو خلیج میں مزید مضبوط کرو، سعودی عرب اور ایران کے درمیاں جنگ چھیڑنے کے بعد اپنا کردار ادا کرو جنگ کا جو نقشہ بن رہا ہے وہ یہ ہے کہ ابتدائی دنوں میں سعودی عرب اور ایران ایک دوسرے کا ڈھانچہ تباہ کردینگے اس کے بعد امریکی فوج حرکت میں آئیگی سعودی عرب میں مقامات مقدسہ کا کنٹرول سنبھالے گی اور ایران میں ایٹمی تنصیبات اپنے ہاتھ میں لے کر ایران کو بھی عرا ق اور لیبیا کی طرح برباد کرکے رکھ دے گی اس طرح خطے میں اسرائیل کا آخری دشمن ختم ہوجائے گااو ر اسرائیل کی سرحد کو ایران تک توسیع دی جائے گی ڈاکٹر چوسو ڈوسکی امریکی یونیورسٹی میں عمرانیات کے پروفیسر ہیں اور سموئیل ہنٹنگٹن کی طرح عالمی شہرت یافتہ دانشور ہیں انہوں نے 1998ء میں گریٹر اسرائیل کا ایسا ہی نقشہ شائع کیا ہے جس میں بھارت اور اسرائیل کی سرحدیں ملی ہوئی ہیں درمیاں میں پاکستان بھی نہیں ہے اب نیاشیطانی چکر شروع ہوا ہے مسلمانوں کی دو بڑی کمزوریاں ہیں پہلی کمزوری یہ ہے کہ یہ ان پڑھ قو م سے تعلق رکھتے ہیں علم کے دشمن ہیں دوسری کمزوری یہ ہے کہ ایک کلمہ گو دوسرے کلمہ گو کا دشمن ہے ان کمزوریوں سے امریکہ اور اسرائیل بجا طور پر فائدہ اُٹھار ہے ہیں شیطانی چکر میں پہلے میڈیا آتا ہے پھر اسلحہ کے تاجرآتے ہیں پھر قرض دینے والے بینک آتے ہیں پھر تباہی آجاتی ہے
لیتا ہوں مکتبِ غمِ دل میں سبق ہنوز
مگر یہ کہ ’’رفت‘‘ گیا اور ’’بود‘‘ تھا

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
3664

صد ا بصحرا ………مولانا کا موقف……..ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

فاٹا کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن کا مو قف پہلی بار سوشل میڈیا پر آیا ہے۔ اب تک یہ سمجھا جا تارہا ہے اور یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن بھی محمود خان اچکزئی کی طرح فاٹا میں انگریزوں کے 1870ء کے قانون ایف سی آ ر کا حامی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مولانا نے فاٹا کے مستقبل کے حوالے سے جو بھی اور جب بھی بیان دیااپنا موقف پیش نہیں کیا بلکہ فاٹا کی رائے پوچھنے پر اصرار کیا۔ فاٹا کے عوام کی رائے کا مسئلہ کشمیر کے استصوابِ رائے یا ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے ریفرنڈم کی طرح ایک معمہ ہے جو حل ہونے والا نہیں۔ 19دسمبر کو پارلمینٹ ہاؤس میں آرمی چیف اور وزیر اعظم کے ساتھ خصوصی ملاقات میں بھی مولانا نے وہی مو قف دہرایا کہ فاٹا کے گرینڈ جرگہ سے پوچھا جائے۔فاٹا کا جرگہ پولیٹکل ایجنٹ اور ایف سی آر کے حامیوں کا فورم ہے اس لئے میڈ یا میں مولانا کا موقف واضح نہیں ہوا۔ آرمی چیف سے ملاقات سوشل میڈ یا پر مولانا کا صاف اور واضح موقف 700الفاظ کی جامع اوربا معنی تحریر میں دیاگیا ہے۔ مولانا کا موقف یہ ہے کہ پاکستان کے آئین میں چار صوبوں کے ساتھ فاٹا کا الگ ذکر ہوا ہے ۔ یہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے۔ اس میں ترمیم کا حق ہماری قومی اسمبلی کو ہے مگر یہ حق فاٹا کے عوام کی مرضی کے خلاف استعمال نہ کیا جائے۔ پہلے فاٹا کے عوام کی رائے لی جائے۔ دوسری بات یہ ہے فاٹا کا موجودہ سسٹم خیبر پختو نخوا سے بدرجہا بہتر ہے۔ فاٹا میں لکی مروت ،کرک، ڈی آئی خان ،بنوں اور کوہاٹ سے بہتر ترقی ہورہی ہے۔ اگر موجودہ حیثیت کو چھیڑا جاتا ہے تو فاٹا کا الگ صوبہ بننا موجودہ حالت سے بہتر ہوگا۔ دوسرے صوبے میں ضم ہونے سے فاٹا کے عوام کی زندگی میں کوئی بہتری نہیں آئیگی۔ ان دو اصولی باتوں کی تشریح کرتے ہوئے مزید چار نکات سامنے لائے گئے ہیں۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ الگ صوبہ بننے سے فاٹا کو سینیٹ میں 23سیٹیں ملیں گی۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی پختون سیٹوں کو ملاکر سینیٹ میں پختونوں کی اچھی تعداد آئیگی اور آئین سازی میں پختونوں کا پلہ بھاری ہوگا۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ الگ صوبے کا اپنا گورنر ، اپنا وزیر اعلیٰ اور اپنا پبلک سروس کمیشن ہوگا۔ اپنی اسمبلی ہوگی، اپنی عدلیہ ہوگی، اپنی پولیس ہوگی، روزگار کے مواقع پر فاٹا کے عوام کا اختیار ہوگا۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ این ایف سی ایوارڈ میں فاٹا کو خیبر پختونخوا کے برابر حصہ ملے گاجو پنجاب دینا نہیں چاہتا۔ چوتھا نکتہ یہ ہے کہ فاٹا میں افغانستان کے ساتھ تجارت اور آمدورفت کے 5بڑے راستے ہیں۔ طورخم ، غلام خان، بن شاہی، نوا پاس اور خرلاچی کے راستے تجارے ہوگی تو محاصل کی آمدن فاٹا کو ملے گی۔ وزیرستان میں آئرن ، کاپر اور تیل کے بڑے بڑے ذخائر ہیں۔ ان کی آمدنی فاٹا کو ملے گی۔ اور فاٹا کا صوبہ ملک کا امیر ترین صوبہ ہوگا۔ یہ 6نکات ہیں جو شیخ مجیب کے 6نکات سے یکسر مختلف ہیں۔ یہ موقف محمود خان اچکزئی کے موقف سے بھی مختلف ہے۔ محمود خان اچکزئی ایف سی آر کی حمایت کرتا ہے۔ وہ فاٹا کو پاکستان کا حصہ نہیں سمجھتا اور پاکستان کا حق تسلیم نہیں کرتا ۔ مولانا فضل الرحمن پاکستان کے آئین کا حوالہ دیتا ہے۔ اور آئین کی روشنی میں 8قبائلی ایجنسیوں اور وفاق کے زیرِ انتظام علاقوں پر مشتمل پختون صوبے کے قیام کی بات کرتا ہے۔ مولانا ایف سی آر کی جگہ نئے قانون کاحامی ہے۔ ایف سی آر کو صحیفہ آسمانی سمجھنے والوں میں سے نہیں اس طرح مولانا کا موقف پہلی بار صاف اور واضح ہوکر سامنے آیا ہے۔ اس میں کوئی ابہام نہیں رہا۔ مولانا کا موقف سامنے آنے کے بعد مولانا اُن لوگوں سے الگ ہوگیا ہے جو 1870ء کی طرح فاٹا کے عوام کو غلام رکھنا چاہتے ہیں۔فاٹا کو ایف سی آر کی زنجیروں میں جکڑ کر اپنے لئے مالی فوائد سمیٹنا چاہتے ہیں۔ فاٹا کے نام پر پشاور اور اسلام آباد میں دکان کھول کر اپنا اُلّو سیدھا کرنا چاہتے ہیں۔ یا جو لوگ فاٹا کے حوالے سے بیرونی طاقتوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھارہے ہیں۔ مولانا اُن سے الگ ہے۔ مولانا کا اپنا موقف ہے۔ اگر 2015ء میں فاٹا اصلاحات کے لئے کمیشن بناتے وقت مولانا کو اُس کمیشن میں نمائندگی دی جاتی یا ان کا موقف کمیشن کے سامنے رکھا جاتا یا 6 نکات کو میڈیا کے سامنے لایا جاتا تو فاٹا کے حوالے سے بہت سارے ابہام دور ہوجاتے۔ معاملات کو سدھارنے میں آسانی ہوجاتی۔ آرمی چیف سے مولانا کی ملاقات کے بعد برف پگھل چکی ہے۔ اللہ کرے مولانا کا تازہ ترین موقف معاملات کو سدھارنے میں مدد گار ثابت ہو۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
3591

دادبیداد ……….ہرزہ سرائی یا حقیقت؟……..ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

پاکستانی اخبارات میں امریکی وزیرِخارجہ ریکسن ٹیلرسن کے بیان کو ہرزہ سرائی اور یا وہ گوئی کا نام دیا جارہا ہے حالانکہ اُنھوں نے سچائی بیان کی اور حقیقت کا کھل کر اظہار کیا یہ بات سابق امریکی وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن نے دوسرے الفاظ میں کہی تھی واشنگٹن میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیرِخارجہ نے کہا ہے کہ’’ طالبان کا رُخ پاکستان کی طرف بھی ہوسکتا ہے وہ اسلام آباد پر بھی قبضہ کرسکتے ہیں‘‘

فروری 2009ء میں وزراتِ خارجہ کا قلمدان سمبھالنے کے بعد سینیٹ کی خارجہ کمیٹی میں بیان دیتے ہوئے سابق امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا تھا کہ ’’طالبان اور دوسرے نان اِسٹیٹ ایکٹرز کو یکدم ختم کرنا ممکن نہیں ہوگاہماری سابقہ حکومتوں نے اِن پر سرمایہ لگایا ہے اِن کو تربیت دی ہے اور ان کی ہر طرح سے دلجوئی کی ہے‘‘2001ء میں جنوبی وزیرستان آپریشن کی بات ہورہی تھی ایک خبر رساں ادارے کے اہلکا ر نے وانا میں اُس وقت کے دبنگ (آج بھی دبنگ )پولیٹکل ایجنٹ سے سوال کیا ’’تم طالبان کو ختم کیوں نہیں کرتے؟‘‘نوجوان اور خوبرو پولیٹیکل ایجنٹ نے شائستہ انگریزی میں جواب دیا’’بیس سال پہلے سرکاری پالیسی اِن کو اندر لانے کی تھی یہ لوگ ہماری دعوت پر آئے تھے اب انہوں نے شادیاں کی ہیں گھر بسائے ہوئے ہیں ان کے پوتے پوتیاں کھیل کود کی عمر میں ہیں ہم ایک سہانی صبح یا سہانی شام کو کیسے کہہ دیں کہ سرکارکی پالیسی بدل گئی تم واپس جاؤ‘‘دو گھنٹے نہیں گزرے تھے کہ پولیٹیکل ایجنٹ کا تبادلہ ہوا مگر آپریشن مؤخر کردیا گیایہ حقائق ہیں اِن کو ہرزہ سرائی کا نام نہیں دیا جاسکتا اگر ہم سچ بولنے اور سچ بات سننے کی تاب نہیں رکھتے تو یہ ہمارا نفسیاتی مسئلہ ہے ہماری اپنی کمزوری ہے اِس میں امریکیوں کا کوئی قصور نہیںیہ بھی ہماری نفسیاتی کمزوری ہے کہ ہم نے طالبان کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ایک حصے کو اچھے لوگ اوردوسرے حصے کوبُرے لوگ کا نام دیا ہے حالانکہ حقیقت میں نہ کوئی اچھا ہے اور نہ کوئی بُراسب اپنی اپنی ڈیوٹیوں پر ہیں افغانستان پر امریکی تسلط اور امریکی قبضے کو مستحکم کرنے کے کیلئے دونوں گروہ کام کررہے ہیں ہم جن کو اچھا کہتے ہیں وہ بھی امریکہ کے سہولت کا ر ہیں ہم نے جن کو ’’ بُرے لوگ‘‘ کا نام دیا ہے وہ بھی امریکی فوج کا ہراول دستہ ہیں اگر امریکی فوج کی صف بند ی کو دیکھا جائے تو پہلی صف اُن لوگوں کی ہے جو داڑھی اور بال بڑھاکر جہاد کے نغمے اور جنگی ترانے گاتے ہوئے آجاتے ہیں دوسری صف اُن کی ہے جو ڈین کور،زی ورلڈ وائڈوغیرہ کے ناموں سے پہچانے جاتے ہیں تیسری صف میں امریکی فوج لڑتی ہے جنگی سپہ سالار نے افغانستان، پاکستان، بھارت ، ازبکستان، تاجکستان،سعودی عرب، چچنیا اور دوسرے ملکوں سے بھرتی ہوکر آنے والوں کو پہلی صف میں رکھا ہے اُن کے بعد پیشہ ور ٹھیکہ دار اور دوسرے لوگ آتے ہیں اُس کے بعد مصالحت کار ،امن کا علمبردار اور لوگوں کا غمخوار بن کر امریکی فوج آتی ہے پہلی اور دوسری صف کے جنگجوؤں کے ذریعے راستہ ہموار کرنے کے بعد امریکی فوج آتی ہے عراق ، لیبیا اور افغانستان میں ایسا ہی ہوااِس تناظر میں دیکھا جائے تو امریکی وزیرِ خارجہ ریکسن ٹیلرسن نے پالیسی بیان دیا ہے اِس بیان کی روشنی میں کانگریس اور سینیٹ سے اخراجات کے بِل پاس کرنے میں آسانی ہوگی دراصل اُنھوں نے پاکستانیوں کی جگہ امریکی ٹیکس دہندہگان سے خطاب کیا ہے پالیسی سازوں کی توجہ مستقبل کے منصوبوں کی طرف مبذول کی ہے اور امریکی عوام سے کہا ہے کہ پاکستان پر حملے کا وقت آگیا ہے یہ اُس کی ہرزہ سرائی نہیں بلکہ پالیسی ہے جس کو سچائی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ چائنہ پاکستان اقتصادی راہداریCPEC)) کے خلاف امریکہ چٹان بن کر کھڑا ہے وہ اپنی راہ میں چین کو رکاوٹ بننے نہیں دیتا یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے ساتھ بھارت کا پکّا اتحاد ہوچکا ہے اور افغانستان میں امریکہ کے ساتھ سرمایہ کاری میں بھارت پیش پیش ہے قبائلی علاقوں کو خیبر پختون خواہ میں ضم کرنے اور ایف سی آر کا قانون ختم کرنے کی مخالفت بھی امریکہ اور بھارت کی طرف سے ہورہی ہے ریکسن ٹیلرسن کی بات کو ہرزہ سرائی قرار دینا درست رویہ نہیں بلکہ شترمرغ والا رویہ ہے اُس کے بیان کو سنجیدہ لینا چاہیئے فاٹا کو صوبے میں ضم کرنے کا بِل فوری پاس ہونا چاہیئے اور CPEC پر جو کام 28جولائی کی بعد رُک گیا تھا اِس کو دوبار ہ شروع ہونا چاہیئے ریکسن ٹیلرسن کی بات کا یہی جواب ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
3430

صدا بصحرا …….. خیبر پختونخوا کا منظر نامہ ……….ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

متحدہ مجلس عمل کی بحالی سے پنجاب اور سندھ یا بلوچستان کی سیاسی فضا میں کو ئی خاص تبدیلی نہیں آئیگی البتہ خیبر پختو نخوا کا سیاسی منظر نامہ یکسر بدل جائے گا ملاکنڈ ،بنوں ،ڈی آئی خان ،کو ہاٹ ،پشاور اور مردان ڈویژن کے ساتھ ہزارہ کے اضلاع بٹگرام ،تورعز اور کوہستان میں بھی متحدہ مجلس عمل کو برتری ملے گی صوابی اور نوشہرہ کے دو اضلاع کو چھوڑ کر باقی تمام جگہوں پر حکمران جماعت کو زبر دست مقابلے کا سامنا ہو گا اندازہ یہ ہے کہ صوبائی اسمبلی میں واحد اکثر یتی پارٹی بن کر متحدہ مجلس عمل سامنے آئے گی اے این پی ، مسلم لیگ (ن) یا پی پی پی کے ساتھ ملکر حکومت بنائے گی مگر یہ اتنا آسان بھی نہیں
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں
سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ قائدین کی طرف سے اتحاد کا اعلان ہو نے کے باوجود کارکنوں کے درمیان برادرانہ ہم آہنگی کا فقدان پایا جاتا ہے سوشل میڈیاپر تین باتیں گردش کر رہی ہیں مولانا انس نورانی اور اُن کی پارٹی کے لئے کارکنوں کے دلوں میں کدورت باقی ہے ملت جعفریہ کے لئے قبولیت کا کوئی امکان دور دور تک نظر نہیں آتا جماعت اسلامی اور جمعیتہ العلمائے اسلام (ف)کے کارکن ایک دوسرے سے بد ظن ہیں جماعت اسلامی والے پی ٹی آئی کو ترجیح دیتے ہیں جمیتہ کے کارکن مسلم لیگ (ن)کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں دونوں نے متحدہ مجلس عمل کی بحالی کو دل سے قبول نہیں کیا اس سے بھی مشکل مرحلہ یہ ہے کہ جمیعتہ العلمائے اسلام (ف) صوبائی اسمبلی کی زیادہ نشستیں حاصل کرنا چاہتی ہے جماعت اسلامی کی قیادت صوبے میں اپنا وزیر اعلیٰ لانے کے لئے زیادہ سیٹیں اپنے نام کرنا چاہتی ہے نیز دونوں جماعتوں نے قومی اور صوبائی اسمبلی کے متوقع اُمیدواروں کا پہلے سے اعلان کیا ہوا ہے اتحاد کی خاطر کسی نامزد اُمیدوار کو بٹھانا اور اُس کے حامیوں کو قابو میں رکھنا بہت مشکل ہو گا جس اُمیدوار کی قربانی دی گئی وہ آزاد حیثیت سے میدان میں آئے گا اور پھڈاڈالے گا مگر یہ سیاسی معاملہ اور اہل سیاست کا کام ہے شاعر نے کہا
اُ ن کا جو کام ہے اہل سیاست جانیں
میر ا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
خیبر پختو نخوا کو ہمیشہ سے سیاسی تجربہ گاہ کی حیثیت حاصل رہی ہے ہر انتخابات میں یہاں نت نئے تجربے دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں اس صوبے کی اپنی کو ئی جماعت بھی نہیں ابھرتی کسی قومی پارٹی کو بھی یہاں پنجاب اور سندھ کی طرح پذیرائی نہیں ملتی اس وجہ سے خیبر پختو نخوا کی اسمبلی کو لٹکی ہوئی اسمبلی (Hung Assembly) کہا جاتا ہے 2013ء میں پاکستان تحریک انصاف کو بھی معلق اسمبلی ملی تھی جماعت اسلامی کی مدد سے پر ویز خٹک نے حکومت بنائی اگر جماعت اسلامی کا تعاون نہ ہوتا تو جمعیتہ العلمائے اسلام (ف)کی حکومت آسکتی تھی دیگر جماعتیں مولانا فضل الرحمن کا ساتھ دینے پر آمادگی ظاہر کر چکہ تھیں اس نازک موڑ پر قومی وطن پارٹی نے بھی پرویز خٹک کا ساتھ دیا تھا بعد میں حالات نے پلٹا کھایا خیبر پختونخوا کے بدلتے ہوئے منظر نامے کو سامنے رکھ کر پاکستان تحریک انصاف اپنے دوستوں اور بہی خواہوں کو متحرک کر کے اسمبلیوں کو توڑ کر قومی حکومت بنانے پر زور دیگی قومی حکومت میں عمران خا ن کے وزیر اعظم بننے کا امکان پیدا ہو گا اور 2018ء کے انتخابات کو چند سالوں کے لئے ملتوی کرنے کا راستہ نکل آئے گا یہ محتا ط اور صاف راستہ ہو گا اگر امپائر کی انگلی حرکت میں آجائے تو دلی مراد پوری ہو گی دوسرا قوی امکان یہ ہے کہ شہباز شریف اور آصف زرداری مل کر واشنگٹن کے ساتھ ڈیل کر کے خود کو ایک بار پھر قابل قبول بنا لینگے اسمبلیوں کو توڑنے نہیں دینگے چائنا پاکستان اکنامک کو ریڈور کو چند سالوں کے لئے موخر کرنے پر سمجھوتہ ہو جائے گا اور چین کا راستہ روکنے کے لئے واشنگٹن کے تمام تحفظات کو دور کیا جائے گا اس صورت میں 2018 ؁ء کے انتخابات وقت پر ہو نگے خیبر پختونخوا میں ایم ایم اے کی حکومت کو تسلیم کیا جائے گا پنجاب اور سندھ میں ملی مسلم لیگ اور لبیک یا رسول اللہ کو چندسیٹو ں کے ساتھ دو چار وزارتیں دی جائینگی اس طرح نیا بندوبست بھی سب کے مفاد میں ہو گا ایسے حالات میں پاکستان تحریک انصاف کے لئے کوئی جگہ نہیں رہے گی اگلے انتخابات تک انتظار کا مشورہ دیا جائے گا خان صاحب یورپ میں چھٹیاں گذارینگے اور کرکٹ میچوں میں ماہرانہ رائے دینے کی ذمہ داریوں کے علاوہ شوکت خانم کینسر ہسپتال کے لئے عطیات جمع کرنے کی مہم بھی چلاسکینگے اس طرح خیبر پختو نخوا کا نیا سیاسی منظر نامہ پورے ملک کی سیاست کا رُخ بدل کر رکھ دیگا شاعر نے سچ کہا ’’ہم بدلتے ہیں رُخ ہواؤں کے‘‘

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , ,
3204

صدا بصحرا ….. مسجد کا امام اور خادم ……… ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے صوبے کی تمام مساجد کے ائمہ کیلئے 10 ہزار ماہانہ اعزازیہ مقر ر کرنے کا اعلان کیا ہے سرکاری کاغذات میں اس کا نام کیا ہوگا ؟سر دست معلوم نہیں اسکو تنخواہ (Salary) تو نہیں کہا جائے گا وظیفہ (Stipend) یا اعزاز یہ (Honouraria) کہا جائے گا اس کی ادائیگی کا طریقہ کار کیا ہوگا ؟اس کے بارے میں بھی علم نہیں مسجدوں اور اماموں کی فہرستیں کس طریقے سے مرتب ہونگی اس کا بھی علم نہیں ہے مناسب بات یہ ہے کہ اس کانام اعزازیہ (Honouraria) رکھا جائے اور یہ کام محکمہ اوقاف کو دینے کی جگہ محکمہ بلدیات کے سپرد کیا جائے ویلیج کونسل اور نائبر ہُڈ کونسل کے ذریعے آئمہ کرام کو اعزازیہ ادا کیا جائے تاکہ نظام میں شفافیت ہو اور علمائے کرام کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہو اس سلسلے میں محکمہ اوقاف کاریکارڈ بہت خراب ہے محکمہ اوقاف کے پاس مساجد کی تعداد بہت کم ہے صرف وہ مساجد اوقاف کے پاس ہیں جنکی ماہانہ آمدنی اُن کے ماہانہ اخراجات سے کافی زیادہ ہے بعض مساجد ایسے ہیں جنکی آمدنی اخراجات سے دگنی ہے اگر محکمہ اوقاف کو ان مساجد سے 2کروڑ روپے کی ماہانہ آمدنی آتی ہے تو مساجد پر ہرماہ بمشکل ایک کروڑ روپے کا خرچہ آتا ہے اس کے باوجود محکمہ اوقاف آئمہ اور خدام کو تین ماہ ،چار ماہ تک تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کرتا یہ لوگ دفتروں کا چکر لگا کر تھک جاتے ہیں تو تنخواہ اس طرح ادا کردی جاتی ہے جیسے کوئی بخیل شخص ہزار احسان جتاکر کسی کو بھیک دیتا ہو محکمہ اوقاف کا کلچر ایسا ہے کہ اس کا کوئی افیسر یا اہلکار امام اور خادم کو عزت وا حترام کے لائق نہیں سمجھتا مسجد کے خاد م کو گھریلو نوکر سے بھی کم تر درجہ دیا جاتاہے حالانکہ وہ مدرسے کا فارغ التحصیل عالم ،قاری ،حافظ اور مجودّہوتا ہے امام کی غیر موجودگی میں پنجگانہ نماز پڑھاتا ہے اذان اور تکبیر اس کی ذمہ داری میں شامل ہے مسجد کی دیکھ بھال آب گاہوں کے انتظام اور غسلخانوں کی صفائی تک اُس کے کاموں میں شامل ہیں خطیب کی غیر موجودگی میں نماز جمعہ بھی خادم ہی پڑھاتا ہے مگر محکمہ اوقاف کی کتابوں میں خادم کے علم کااُ س کی ذمہ داریوں سے تعلق نہیں جوڑا گیا محکمہ اوقاف کے پاس عید گاہ اور قبرستانوں کی صفائی کیلئے الگ فنڈ ہوتا ہے اس کا مستقل مد اور مصرف ہے لیکن اوقاف والے مسجدوں کے خدام کو عید گاہ اور قبرستانوں کی صفائی پر لگاتے ہیں علمائے دین کے ہاتھ میں جھاڑو دیکر صفائی کراتے ہیں مخصوص فنڈ سے ان کو چائے بھی نہیں پلاتے میں نے کل جس مولوی کے پیچھے 2 خفی اور 3 جہری نمازیں پڑھی تھیں آج اس کو دیکھتا ہوں تو جھاڑو،بیلچہ اور ریڑھی لیکر قبر ستان کی صفائی پر لگا ہوا ہے اوقاف کا اہلکار اُس سے کام بھی لیتا ہے بر ا بھلا بھی کہتا ہے قبرستان کی صفائی سے واپس آنے والے علماء سے بات ہوئی تو پتہ چلا کہ یہ سب مدرسوں کے فارغ التحصیل ہیں محکمہ اوقاف کی ملازمت بھی پکی ہے پنشن کے حقدار ہیں مگر ان کو سال میں ایک دن بھی چھٹی نہیں ملتی مہینہ گذر جائے تو تنخواہ نہیں ملتی یہ لوگ یکم تاریخ کی تنخواہوں سے بے خبر ہیں کبھی 3 ماہ بعد تنخواہ آتی ہے کبھی چار ماہ بعد تنخواہ آتی ہے اگر مسجد کے خادم کے گھر میں بیماری یا فوتیدگی ہو چھٹی کی ضرورت پڑے تو اُس کو کہا جاتا ہے کہ کسی مولوی کو یومیہ اجرت دے کر اپنی جگہ بیٹھاؤ یہ لوگ یومیہ اجرت پر دوسرا مولوی اپنی جگہ بٹھاکر چھٹی لے لیتے ہیں اور آدھی تنخواہ یا پوری تنخواہ اجرت میں دیدیتے ہیں گویا ان کو پکی نوکری کا کوئی استحقاق حاصل نہیں ائمہ مساجد کو ماہانہ 10 ہزار روپے اعزازیہ دیناپی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کا تاریخی اقدام ہے اسلام کے ساتھ محبت رکھنے اور علماء کے ساتھ عقیدت رکھنے والے عوام اس اقدام کا خیر مقدم کرینگے مگر اس کی ا دائیگی کا طریقہ کار بہتر ہونا چاہئے جب علماء دیکھتے ہیں کہ محکمہ اوقاف کے افیسروں اور اہلکار وں کی نظر میں علماء کی کوئی قدر نہیں خادم ،مو ذن ،مکبّر اور امام کی کوئی قدر نہیں تو وہ لا محالہ حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ صوبے کے اندر ائمہ کرام کو ماہانہ 10 ہزار روپے اعزازیہ دینے کا کام محکمہ اوقاف کے ہاتھوں میں نہ دیا جائے اگر یہ کام محکمہ اوقاف کو دیا گیا تو اس میں کرپشن ہوگی اور علمائے کرام کی عزت نفس بُری طرح مجروح ہوگی محکمہ بلدیات کا سسٹم بہتر ہے تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن علماء کی قدر کرتی ہے علماء اور ائمہ مساجد کو عزت کا مقام دیتی ہے افیسروں کی اچھی تر بیت ہوئی ہے منتخب لوگ علماء کی قدر کرنا اپنے لئے باعث عزت اور ثواب سمجھتے ہیں اس لئے نیا کام محکمہ بلدیات کے حوالے کیا جائے نیز یہ بھی ضروری ہے کہ محکمہ اوقاف کی مساجد میں خدام اور اےئمہ کی تنخواہوں کی ادائیگی میں غیر معمولی تاخیر اور خدام سے صفائی کے عملے کا کام لینے کی باقاعدہ انکوائری کرائی جائے اگر اس میگا کرپشن کی انکوائری نہیں کرائی گئی تو یہ ’’چراغ تلے اندھیرا ‘‘کے مترادف سمجھا جائے گا ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
3134

دادبیداد ……… اپنی مدد آپ سے آگے ……… ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

9 دسمبر 2017 ء کو اسماعیلی برادری کے روحانی پیشوا پرنس کریم آغا خان خیبر پختونخوا کے ضلع چترال کا دورہ کر رہے ہیں اس دورے میں بونی اور گرم چشمہ کے مقامات پر اپنے مریدوں سے ملاقات کرینگے اس ملاقات ،کو ’’دیدار‘‘اور مو قع پر کئے گئے وعظ کو ’’فرمان ‘‘کہا جاتا ہے یہ دونوں اصطلاحات صدیوں سے رائج ہیں پرنس کریم آغاخان 6 مارچ 1975 ء کو پہلی بار سابق وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کی دعوت پر چترال تشریف لائے وزیر اعظم خود بھی اس دورے میں ان کے ہم رکاب تھے اس کے بعد کئی بار ان کی تشریف آوری ہوئی 1984 ء میں چترال میں آغاخان رورل سپورٹ پروگرم کے نام سے دہی ترقی کا شر اکتی پروگرام شروع کیا گیا آغاخان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک کے تحت زچہ بچہ کے مراکز 1964 ء سے قائم تھے ان کو ترقی دیدی گئی آغاخان ایجوکیشن سروس ،آغان خان سوشل ویلفیر بورڈ ،آغاخان ٹرسٹ فار کلچر کے ادارے قائم ہوئے ،فوکس ہیومینیٹرین ،واسپ اور باسیپ کے ادارے آئے آغاخان پلاننگ بورڈ کے نام سے ادارہ آیا چترال میں پن بجلی کے چھوٹے منصوبوں کی کامیابی کیلئے آغاخان رورل سپورٹ پروگرام کو انگلینڈ کا سب سے بڑا انعام ایشڈن ایوارڈ ملا آغا خان ایجوکیشن سروس نے چترال میں طالبات کیلئے سکولوں کے قیام کی مہم چلا کر دور دراز دیہات میں بچیوں کیلئے سکول قائم کئے اس طرح معیاری تعلیم کیلئے آغا خان ہائر سکنڈری سکول اور آغاخان یونیورسٹی ایجوکیشن بورڈ قائم کیا اعلیٰ تعلیم کیلئے وظائف جاری کئے ان وظائف سے استفادہ کرنے والے طلبہ آج بھی یورپ ،امریکہ، کنیڈا ،افریقی ممالک اور اقوام متحدہ میں اعلیٰ عہدوں پر فائزہیں دنیا میں پرنس کریم آغا خان کو کئی حوالوں سے شہرت اور عزت حاصل ہے ان کے دادا سرسلطان محمد شاہ آغاخان سوم نے پہلی جنگ عظیم کے بعد بننے والی تنظیم لیگ آف نیشنر کے صدر کی حیثیت سے عالمی شہریت پائی ان کو سرکا خطاب ملا،ہزہائی نس کا موروثی ٹائٹل دیا گیا زرو جواہر کی تجارت کے حوالے سے آغاخان فیملی کا پوری دنیا میں کاروباری نام تھا اس کاروبار کو فروغ دیکر ٹورزم انڈسٹری ،رئیل اسٹیٹ اور اعلیٰ نسل کے گھوڑوں کی تجارت تک وسیع کر دیا گیا آج دنیا کے بڑے بڑے ہوٹل ،بڑی بڑی جائدادیں ،ریس کے گھوڑوں کے بڑے فارم اس خاندان کی ملکیت ہیں اس دولت کی زکوۃ کو انہوں نے فلاح انسانیت کے لئے خرچ کرنے کیلئے آغاخان فاونڈیشن قائم کیا ہے ان کا دوسرا ادارہ امامت فنڈ ہے جس میں مریدوں کی طرف سے ملنے والے مال نذارت ،تحائف اور مہمانی وغیرہ جمع ہوتے ہیں اس فنڈ کا الگ انتظام ہے یہ فنڈ صر ف مریدوں کی فلاح و بہبود کیلئے خرچ ہوتا ہے مریدوں میں سے مستحق مریضوں کا مفت علاج ،قابل طلبہ کی مفت تعلیم کیلئے وظائف وغیرہ اس فنڈ سے ادا کئے جاتے ہیں نیز عبادت گاہوں کا انتظام و انصرام ،مذہبی تعلیم اور کمیونیٹی کے اندر تنازعات کے حل کیلئے ثالثی کے ادارے اس فنڈ سے چلتے ہیں یہ بھی ایک بڑا فنڈ ہے جو مریدوں کی طرف سے ملنے والے تحائف و نذرات کے بہترین استعمال کی ایک زندہ مثال ہے اگر دوسرے پیر اور مشائخ بھی اس طرح کے ادارے قائم کرتے تو مریدوں کا کتنا بھلا ہوتا !چترال میں اسماعیلی رضاکاروں نے دیدار گاہوں کو جانے والوں ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں کی سہولت کیلئے 380 کلومیٹر عام شاہراہوں کے ساتھ 600 کلومیٹر رابطے کی دیہی سڑکوں کی مرمت کا کام 6 ہفتوں میں مکمل کیا ہے یہ سڑکین اب موٹر وے کامنظر پیش کر تی ہیں گذشتہ 22 سالوں سے انکی مرمت نہیں ہوئی تھی اس کام کے جذبے کو دیکھ کر مقامی صحافی نے مہمان کو بتایا کہ یہ کام اپنی مدد کے تحت ہو رہا ہے مہما ن دانشور تھا اُس نے جواب دیا ’’یہ اپنی مدد آپ سے آگے کی بات ہے ‘‘یہ دوسروں کی بھی مدد ہے اور یہ وہ سبق ہے جو اسلام نے انسانیت کی فلاح کیلئے مسلمانوں کو سکھایاہے یہ وہ عمل ہے جس کے ذریعے دنیا میں اسلام پھیلا ہے‘‘ اپریل 1987 ء میں اپنے دورہ پاکستان کے دوران چنار باغ گلگت میں آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کے مرکزی دفتر میں مہمانوں کی کتاب میں ایک ورق پرا پنے تا ثرات لکھتے ہوئے پرنس کریم آغا خان نے اپنی مدد آپ کو دوسروں کی مدد تک بڑھانے کا پیغام دیتے ہوئے لکھا ہے ’’الفاظ میر ا ساتھ نہیں دیتے کہ میں نے یہاں آکر دیہی ترقی کے شراکتی پروگرام میں عوام کا جو جذبہ اور اس جذبے کی جو کامیابی دیکھی ہے اس کو بیان کروں ،ہاں الفاط میرا ساتھ نہیں دیتے ‘‘مریدوں کے نام اپنے وعظ، فرامین اور پیغامات میں پرنس کریم آغاخان نے ہمیشہ سادگی ،کفایت شعاری ،امن اور انسانیت کی بھلائی کے ساتھ منشیات سے پر ہیز اور بدامنی سے گریز کا درس دیا ہے توقع ہے کہ اپنے دورہ پاکستان کے دوران اعلیٰ حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں علاقے کی ترقی کیلئے جامع منصوبوں پر تبادلہ خیال کرینگے ۔

social work by ismaili community of Mastuj

23905321 1494727467285024 4551086648874783474 n ismaili volunteers on social work chitral ismaili volunteers buzy on road repairing

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
2863

صدا بصحرا ……….. الزامات کی سفارت کاری……….. ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

پاکستان اور افغانستان کے درمیان گذشتہ 38سالوں سے الزامات اور جوابی الزامات کی سفارت کاری ہورہی ہے 12ربیع لاول یکم دسمبر کے روز جمرود روڈ پر زرعی ٹرنینگ انسٹیٹوٹ پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد پرانی باتوں کو پھر دہرایا گیا کابل ، جلال آباد یا ہرات میں حملہ ہوتا ہے تو الزام پاکستان پر لگایا جاتا ہے پشاور ، اسلام آباد یا لاہور میں دہشت گردی ہوتی ہے تو الزام افغانستان پر لگایا جاتاہے دسمبر 2014میں آرمی پبلک سکول پر حملہ ہوا تو اس کے تمام ذمہ دار افغانی نکلے دیگر حملوں کے ذمہ دار اور ماسٹر مائنڈ بھی افغانستان ہی سے آئے تھے پاکستان کا قوی ترین موقف یہ ہے کہ بھارت نے افغانستان میں دہشت گرد کیمپ قائم کئے ہوئے ہیں پاکستان کی سرحد کے قریب 12قونصل خانے قائم ہیں جو دہشت گردی کی نرسریوں کا کام دیتے ہیں اگر آپ کابل میں ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ گزاریں تو چار بنیادی حقائق سامنے آتے ہیں افغانستان میں بھارتی سرمایہ کاری ، کابل اور جلال آباد میں اردو اور ہندی کا رواج ، عوامی سطح پر پاکستانیوں کے خلاف نفرت اور ذرائع ابلاغ میں پاکستان کے خلاف عمومی پروپبگینڈا ۔یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے’’نیا افغانستان‘‘ کابل میں دارلامان ، شہرنو، پل چرخی اور دیگر علاقوں میں گھومیں دوستوں کے گھر جائیں، ہوٹلوں میں کھانا کھائیں، کسی ریستوران میں بیٹھیں ، ٹیلی وژن کا کوئی چینل لگائیں ، کوئی اخبار اٹھائیں آپ کو پتہ لگتا ہے کہ بھارت نے ذرائع ابلاغ میں سرمایہ لگایا ہے ذرائع ابلاغ پر بھارت کا مکمل کنٹرول ہے یہ سرمایہ افراد پر بھی لگایا گیا اداروں کو قائم کرنے اور فروغ دینے پر بھی لگایا گیا اس کا پھل بھارت کو مل رہا ہے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بھارت کی سرمایہ کاری امریکہ سے زیادہ ہے ہر سال ہزاروں طلباء اور طالبات کو سکالر شپ دیکر بھارت بھیجا جاتا ہے افغانستان کے اندر تعلیمی ادارے قائم کئے گئے ہیں اس طرح افغانستان کے شہروں میں بھارت نے بڑے بڑے ہسپتال قائم کئے مریضوں کو بھارت کے ہسپتالوں میں مفت علاج کے لئے لے جایا جاتا ہے ویزے کا طریقہ آسان بنایا گیا ہے جہازوں کے کرایوں میں سبسڈی دی گئی ہے سڑکیں بھارت کی بنائی ہوئی ہیں۔ سڑکوں پر بھارت کی 3ہزار بسیں چلتی ہیں جن پر بھارتی دوستی کے سٹیکر لگے ہوئے ہیں کابل اور جلال آباد میں گھریلو خواتین اور بچے بچیاں پشتو سے زیادہ اردو اور ہندی بولنا پسند کرتی ہیں ٹیلی وژن ڈراموں اور دیگر پروگراموں سے عوام نے اردو اور ہندی سیکھ لیا ہے پشتو میں بھی اردو اور ہندی کے الفاظ استعمال کرتے ہیں یہ ثقافتی اثرو ونفوذ ہے جو نرم زہر (Slow Poison)کی طرح افغان ملت کے خون میں داخل کیاگیا ہے افغانستان کی پشتو اور فارسی بولنے والی آبادی میں صرف شاگرد اپنے پاکستانی استاد کو پہچانتا ہے خونی رشتہ دار پاکستانی عزیز کو پہچانتا ہے عام افغانی ہرجگہ پاکستانی سے نفرت کرتا ہے بھارتی شہری کو دوست قرار دیتا ہے عموماً پاکستانیوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ پاسپورٹ مت دکھاؤ ، خود کو بھارتی ظاہر کرو، تو مصیبت سے بچ جاؤگے، ذرائع ابلاغ میں پاکستان کے خلاف مسلسل پروپبگینڈا چل رہا ہے۔ ہر برائی کی جڑ پاکستان کو قرار دیا جاتا ہے دشمن نمبر ایک پاکستان کو قرار دیا جاتا ہے ۔ ریڈیو ، ٹیلی وژن اور اخبار ات کے علاوہ سوشل میڈیا کے ذریعے بھی پاکستان کو دہشت گردوں کی نرسری اور برائی کی جڑ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے تحقیق اور تجزیہ کرنے والے کہتے ہیں کہ یہ سارا کام ایک دن میں نہیں ہوا۔1980ء میں اس کی ابتدا ہوئی پاکستان کے مقابلے میں بھارت نے 1980ء کی دہائی میں بہتر حکمت عملی اپنائی ۔ امریکہ کو اعتماد میں لیکر سویت یونین کی مدد سے افغانستان میں داخل ہوا نور محمد ترکئی، حفیظ اللہ امین ، ببرک کارمل اور ڈاکٹر نجیب اللہ کے ادوار میں اپنے پاؤں جمالئے ۔برہان الدین ربانی، صبغت اللہ مجددی اور ملا عمر کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کئے۔حامد کرزی،اشرف عنی اور عبداللہ عبد اللہ کے ساتھ دوستی نبھائی ۔پاکستانی قیادت نے 1980ء کی دہائی میں بھی غلط فیصلے کئے، جینوا معاہدے کے وقت بھی پاکستانی قیادت دوگرہوں میں بٹ گئی جینوا معاہدے کے بعد بھی پاکستانی قیاد ت نے افغانستان کے بارے میں غلط اندازے لگائے تحقیق اور تجزیے کا فقدان رہا، غلط سمت میں سفر کی بے شمار وجوہات تھیں نالائقی ، نااہلی اور بدعنوانی بھی ان وجوہات میں شامل تھیں ہم نے ذاتی مفاد کو سامنے رکھابھارت کی قیادت نے قومی مفاد کو سامنے رکھا اب ہمارے پاس ایک ہی آپشن ہے اور اس آپشن کا کوئی شارٹ کٹ (Short Cut)نہیں ہے اگلے 20سالوں کے لئے طویل المیعاد منصوبہ بندی کے تحت افغانستان کے اندر، انفراسٹرکچر، تعلیم ، صحت اور ذرائع ابلاغ کے شعبوں میں ایسی سرمایہ کاری کی جائے جیسی بھارت نے کی ہے الزامات اور جوابی الزامات کی سفارت کاری سے صورت حال میں کبھی بہتری نہیں آئے گی۔ بقول حسرت موہانی
ہے جہان مدفنِ شہید وفا
واں کبھی آپ کا گذر نہ ہوا

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
2672

صدا بصحرا ……….. خوف کے سایے ……….. ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ؔ

Posted on

ربیع الاول میلادشریف کا مہینہ ہے ا س ماہ نبی کریم خاتم النبےئن حضرت مصطفےٰ ﷺ کی ولادت ہوئی اور اسی مہینے آپ کا وصال ہوا 12 ربیع الاول یوم ولادت بھی ہے یوم وصال بھی اس لئے اسلامی کیلنڈر میں اس تاریخ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے قرآن پاک میں بنی کریم ﷺ کے لئے بے شمار القا بات آئے ہیں ان میں رحمتہُ للعالمین بھی ہے رووف بھی ہے رحیم بھی ہے سورہ آل عمران آیت 159 میں حصور ﷺ کی نرم دلی کو مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ خصوصی مہربانی قرار دیا گیا ہے بنی کریم ﷺ کی بعثت مبارک کے بے شمار معجز ے تھے اس کا ایک اعجاز یہ تھا کہ زمانہ جاہلیت کی دشمنیوں کا سلسلہ ختم ہو ا خون ریزی بند ہوئی گھوڑے اور اونٹ کو پانی پلانے کے جھگڑے پر کئی نسلوں تک دشمنی چلتی تھی سینکڑوں بے گناہ لوگ اس دشمنی کی بھینٹ چڑھ جاتے تھے بنی کریم ﷺ کی تعلیمات میں امن اورر سلامتی سب سے بڑی تعلیم ہے صحاح ستہ کی 6 ہزار احادیث میں سے دو تہائی کا تعلق حقوق العباد ، باہمی معاملات ، معاشرتی انصاف ، رواداری ،برداشت اور بھائی چارے کی خوبیوں سے ہے ایک تہائی کا عنوان دیگر عبادتیں ہیں قرآن پاک سورہ بقرہ آیت 126 اور سورہ ابراہیم آیت 35 میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا ذکر ہے دعا کی قبولیت کا ذکر ہے اور ارشاد فرمایا گیا ہے کہ خانہ کعبہ کو لوگوں کے لئے امن کی جگہ بنا یا گیا سورہ قریس آیت 5 میں قریش اور مسلمانوں پر اللہ تعالےٰ کے احسانات کا ذکر کر کے فرمایا گیا کہ اللہ تعالے نے ان کو خوف کی حالت سے نکال امن کی حالت دیدی 1439 ہجری کا 12 ربیع لاول پاکستان ، اسلام اباد ، لاہور ، کراچی ، کوئیٹہ اور پشاور میں ایسی حالت میں آیا ہے کہ یہاں بنی کریم ﷺ کے نام لیوا خوف کے سایے میں زندگی گذار رہے ہیں یہودی ، عیسائی ، ہندو،سکھ ،بدھ مت یا دہر ی ، ملحد سے خوف نہیں کلمہ گو مسلمان سے خوف ہے یہ بہت بھاری جملہ ہے مسلمان دُنیا میں امن اور سلامتی کی ضمانت بن کر آیا آج وہ خوف اور دہشت کی علامت بن چکا ہے اگر علامہ اقبال آج زند ہ ہوتے تو یقیناًمذہب اور سیاست کے بارے میں اپنا نقطہ نظر بدل دیتے آج ان کا مشہور شعر وہ نہ ہوتا جو مشہور ہوا ہے بلکہ یوں ہوتا جو کسی کو معلوم نہیں
نظام پادشاہی ہو یا جمہو ری تماشا
’’ ملاِ ‘‘ ہو دینِ سیاست میں جو ’’ بن ‘‘ جاتی ہے چنگیزی
آج سے 100 سال پہلے 1917 ؁ء میں دین کی ترویج و اشاعت کا کام جید علمائے دین کے ہاتھو ں میں تھا دارلعلوم سے فارغ ہونے والے ہر عالم کی سند کے ساتھ شجر ہ ہوتا تھا کہ اس کا استاد کس کا شاگرد ہے یہ شجر ہ کم از کم 10 علما ء حق تک پہنچتا تھا اسی طرح کسی خانقا ہ کے پیر و مرشد کا با قاعد ہ شجر ہ ہوتا تھا کہ اُس کے پیرکس کے ہاتھوں پربیعت تھے یہ شجر ہ کم از کم 30 مشائخ تک جاتا تھا اس پس منظر کا عالم اور شیخ لوگوں کی رہنمائی کر تا تھا آج صورت حال اس کے برعکس ہے آج کی صور ت حال یہ ہے کہ علامہ تقی عثمانی ، مفتی منیب الرحمن ، مولانا ذولفقار احمد نقشبند ی ، مولانا محمد اکرام اعوان اور ہزاروں دیگر علماء و مشائخ کاذکر کہیں نہیں ہوتا جن لوگوں کا نام لیا جاتا ہے اُن کے پاس نہ علم کی سند ہے نہ استاد کا شجرہ ہے نہ شیخ کی بیعت کا پتہ ہے نہ شیخ کا شجر ہ ہے 2017 ؁ء میں فنانسر یعنی چندہ دینے والے کا حکم چلتا ہے 8 ربیع الاول ، 27 نومبر کو سوشل میڈیا پر خادم حسین رضوی اور افضل نور کے حوالے سے جو آڈیو گفتگو سوشل میڈیا پر چھا گئی اس میں جھگڑا یہ ہے کہ دین کا پر چار کر نے والا 50 کروڑ کا مطالبہ کر رہا ہے اور فنا نسر سوا پانچ کروڑ سے زیادہ ادا کر نے پر آمادہ نہیں 5 کروڑ 30 لاکھ وہ رقم ہے جو پہلے ہی ادا کی گئی ہے مفتی کفایت اللہ رحمتہ اللہ بر صغیر کے نامور عالم اور دارالعلوم امینیہ دہلی کے مہتمم گذرے ہیں ان کے پاس کوئی اجنبی آتا کہ دارالعلوم کے لئے 5 ہزار روپے چند ہ لے آیا ہوں تو مفتی صاحب چند ہ قبول کر نے کے لئے کم از کم 3 مہینے کی مہلت مانگتے تھے 3 مہینوں میں دئیے گئے پتے پر سفرا بھیج کر اس کا حسب نسب اور ذریعہ آمدن معلوم کر تے تصدیق ہوجاتی تو خط لکھ کر قبولیت کا اظہار کر کے چند ہ لے لیتے مشکوک شخص ہوتا تو خط لکھ کر معذرت کا اظہار کر تے اور درخواست کر تے کہ اپنا چندہ کسی دوسر ے مصر ف میں خرچ کرو 1917 ؁ء کا 5 ہزار روپیہ آج کل کے 5 کروڑ کے برابر ہے مگر آج عالم دین کی بات کو ماننے کا دستور نہیں ہے جو شخص چندہ دیتا ہے وہ فنا نسر ہے وہ اپنی بات منواتا ہے چاہیے اس میں دین کے بُنیادی عقائد کی نفی کیوں نہ ہو شعائر اسلام کی توہین کیوں نہ ہو یہی وجہ ہے کہ سینئر وکلا ء اور سینئر صحافیوں نے علما ئے حق سے اپیل کی ہے کہ ایک با ر پر اجتہاد کے ذریعے اس طرح کی سیاست میں دین ، مذہب ، قرآن اور رسول ﷺ کے مبارک نام کا تڑکہ لگانے کا سلسلہ ختم کرائیں ورنہ کوئی بھی فنانسر 5 کروڑ روپے کا چندہ دیکر خواندہ یا نیم خواندہ لوگوں کے ذریعے دین کے نام پر فساد بر پا کر اسکتا ہے اسی لئے شاعر نے علامہ اقبال کے کلام کی نئی پیر وڈی متعارف کرائی ہے ’’مِلاہو دین سیاست میں تو بن جاتی ہے چنگیزی ‘‘

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
2468

صدا بصحرا …………. حزب اللہ کے خلاف مہم ……….. ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

خبر آئی ہے کہ عرب لیگ کا اہم اجلاس ہنگامی طور پر مصر کے دار لحکومت قاہرہ میں بلایا گیا مصر کے فوجی صدر عبدالفتاح السیسی نے اپنی وزارت خارجہ کو میزبانی کا حکم دیا سعودی عرب کے وزیر خارجہ سے اجلاس کی صدارت فرمائی گئی اجلاس میں عراق اور لبنا ن کے نمائیندے شریک نہیں ہوئے شام اور یمن کو دعوت نہیں دی گئی 20 ملکوں کے وزرائے خارجہ نے اتفاق رائے سے فلسطینی مسلمانوں کی حریت پسند تنظیم حزب اللہ کو دہشت گرد قرار دینے کی قرارداد منظور کر کے اپنا فرض ادا کیا حسن نصر اللہ کی تنظیم حزب اللہ دنیائے اسلام کی سب سے بڑی فلاحی تنظیم ہے لبنان کے عیسائی بھی اس تنظیم پر اپنی جان قربان کرتے ہیں جو لائی اگست 2006 ؁ ء میں 50 دنوں کی لڑائی کے بعد حزب اللہ نے اسرائیل کے توپوں ،راکٹوں اور میزائلوں کو خاموش کر دیا تھا اب بھی اسرائیل کو حزب اللہ کی طاقت سے شدید خطرہ ہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی حزب اللہ کو دھمکی دی تھی امریکی وزیر دفاع نے سینٹ کی خارجہ کمیٹی میں کہا تھا کہ ہم اسرائیل کی راہ میں کوئی ناگوا ر رکاوٹ باقی نہیں رہنے نہیں دینگے لیکن ایسی بے شمار وجوہات ہیں جن کی بنا پر امریکہ یہ کام خود نہیں کرتا سعودی عرب اور مصر سے کام لیتا ہے کویت ،بحرین ،اردن اور متحدہ عرب امارات سے کام لیتا ہے اومان ،مسقط اور دیگر عرب ملکوں سے کام لیتا ہے معمر قذافی کو شہید کرنے کے بعد لیبیا پر امریکہ نے قبضہ کیا تھا اب لیبیا سے کام لے رہا ہے ۔
تیر کھاکے دیکھا جو کمین گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی

اب کیا ہوگا ؟اسرائیل اور امریکہ کے وزرائے خارجہ عر ب لیگ کی قرار داد کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں لے جائینگے جب قرار داد پیش ہوگی تو روس اس کو ویٹو کر رے گا دوسری بار قرار داد آئیگی تو چین ویٹو کر رے گا ’’پاسبان مل گئے کعبے کو صنم خانے سے ‘‘یہ 100 سال پہلے کا قصہ ہے 1917 میں برطانوی وزیر خارجہ بالفور نے شریف مکہ اور آل سعود کے جدّا مجد شیخ سعود کیساتھ معاہدہ کیا یہ پہلی جنگ عظیم کا زمانہ تھا معاہدہ میں تین باتیں تھیں پہلی بات یہ تھی کہ جنگ میں ہٹلر کو شکست دینے کے بعد سلطنت عثمانیہ کو ختم کر کے ترکی کو چار ٹکڑوں میں تقسیم کیا جائے گا چاروں ٹکڑے برطانیہ کے غلام ہونگے عربوں کو اس پر اعتراض نہیں ہوگا دوسری بات یہ تھی کہ شریف مکہ کو اردن میں بادشاہت دی جائیگی اور شیخ سعود کی اولاد کو حجاز مقدس کا بادشاہ تسلیم کیا جائے گا تیسری بات یہ تھی کہ فلسطین سے عربوں کو بے دخل کر کے یہاں یہودی ابادکاروں کی بستیاں تعمیر کی جائینگی اور 32 سالوں کے اندر یہاں ایک یہودی ریاست قائم کی جائے گی شریف مکہ اور شیخ سعود نے معاہدے پر دستخط کئے بالفور (Balfour) نے اس کا اعلامیہ جاری کیا تاریخ میں 100سال پرانی اس دستاویز کو بالفور ڈیکلریشن کہا جاتا ہے 1919 ؁ ء میں پہلی جنگ عظیم ختم ہوئی تو بالفور ڈیکلریشن پر عملد رآمد شروع ہوا شریف مکہ اور شیخ سعود کو باد شاہت ملی سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا علامہ اقبال نے کہا؂
اگر عثمانیوں پہ کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

سلطنت عثمانیہ کے حق میں پاک و ہند کے مسلمانوں نے تحریک چلائی اُسے تحریک خلافت کہا جاتا ہے مولانا محمد علی جوہر ؒ ،مولانا شوکت علی ،مولانا عبیداللہ سندھی ؒ اور ترکستانی مسلمانوں کے لیڈر امام موسیٰ جار اللہ کے نام آج بھی عزت اور احترام سے لئے جاتے ہیں ریشمی رومال تحریک کا ذکر آج بھی ہوتا ہے ترکی کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا مرحلہ آیا تو مصطفی کمال اتاترک دشمن کے سامنے پہاڑ بن کر کھڑا ہوا مگر اردن اور سعودی عرب کے بادشاہوں کی مدد سے فلسطنیوں کو فلسطین سے بے دخل کیا گیا یہودیوں کو وہاں بسایاگیا لبنان کے صابرہ اور شتیلہ کیمپوں میں فلسطینی مہاجرین پر امریکہ نے کئی بار بمباری کی حزب اللہ انہی فلسطینی مسلمانوں کی تنظیم ہے حسن نصراللہ ان کا لیڈر ہے 1917 ؁ ء میں ایک ریڈ انڈین واشنگٹن گیا تو ٹکٹ چیکر نے ان سے پوچھا ’’میرا شہر تمہیں کیسا لگا ؟ریڈ انڈین نے سوال کیا ،پہلے یہ بتاؤ میر ا ملک تمہیں کیسا لگا ؟2017 ء میں ایک فلسطینی سیاح یروشلم گیا تو اسرائیلی سپاہی نے یہی سوال پوچھا ،فلسطینی سیاح نے یہی جواب دیا آج بھی فلسطینی اپنے وطن کی آس لگائے بیٹھے ہیں حزب اللہ ان مہاجرین کی اولاد نے قائم کی ہے کتنے دکھ کی بات ہے کہ ان کو اسرائیل اور امریکہ سے اتنا خطرہ نہیں جتنا خطرہ سعودی عرب ،مصر اور عرب لیگ سے ہے یہ بھی دکھ کی بات ہے کہ مظلوم فلسطینی مہاجرین آج مدد کیلئے روس اور چین سے اُمید لگائے بیٹھے ہیں حزب اللہ کے خلاف مہم 100 سالہ تاریخ کا تسلسل ہے

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , ,
2349

دادبیداد ……….. عدلیہ کا تقّدُس ………..ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

سپریم کورٹ آ ف پاکستان کے چیف جسٹس نے ا ز خود کاروائی کرتے ہوئے فیض اباد پل اور اطراف کی سڑکوں کو بند کر کے دھرنا دینے والے گروہ کے خلاف کا روائی کا حکم دیا توعدالت کا تقدس بحال ہوا جو ایک عرصہ سے بحالی کا منتظرتھا 1970 ؁ء میں پشاور کے اندر سرفراز خان گریڈ 17کا مجسٹریٹ درجہ اول تھا اُس کے حکم سے پور ا شہر لرز اُٹھتا تھا ایک سر فراز خا ن مجسٹریٹ کی جو دھاک بیٹھی ہوئی تھی وہ قابل قدر تھی مجسریسٹی کی عزت کا ثبوت یہ تھا کہ سر فراز خان کی موجودگی میں قانون کی خلاف ورزی کے بارے میں خان ،سرمایہ دار،وزیر اور گورنر بھی نہیں سوچ سکتا تھا آج وہ صورت حال کیوں نہیں ہے ؟95 سال کی عمر کے بزرگ شہری حاجی عبداللہ خان کہتے ہیں کہ یہ کوئی راز نہیں سر فراز خا ن مجسٹریٹ غیر سیاسی افسر تھا 100 روپے جرمانے کے خلاف سفارش آتی تو 10 گنا بڑھا کر ہزار روپے جرمانہ وصول کرواتا تھا ایک ماہ قید کے خلاف سفارش آتی تو دو سال قید کا حکم دیتا اس لئے اُس کا رعب داب تھا و ہ کہتا تھا قانون بے لحاظ ہو تا ہے لوگ بے چہرہ ہوتے ہیں نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے اگر فاطمہ بنت محمد کے خلاف بھی جرم ثابت ہو جائے تو میں حد جاری کر ونگا حضر ت عمر فاروقؓ نے اپنے بیٹے کے خلاف حد جاری کر دی ،حضر ت علی کرم اللہ وجہہ نے عدالت میں آکر پیش کش کی کہ مدعی کو مجھ سے انتقام لینے کا حکم دیا جائے اس پر مدعی روپڑا انتقام کی نوبت نہیں آئی عدلیہ کا تقدس کیسے پامال ہوا ؟اس کی دو وجوہات ہیں پہلی وجہ یہ ہے کہ امیر غریب میں فرق کیا جاتا ہے قاتل اگر دولت مند ہے تو وہ باعزت بری ہو جاتا ہے مقدمہ آتے ہی لوگ کہتے ہیں کہ ملزم امیر آدمی ہے ،عدالت اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی انجام بھی ایسا ہی ہوتا ہے امیر آدمی وکیل کو دو کروڑ روپے فیس دے دیتا ہے سرکاری وکیل کی تنخواہ مقر ر ہے جو ماہانہ ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے اس میں 10 مقدمات کی پیروی کر تا ہے مقتول کے ورثاء چارلاکھ روپے کا وکیل بھی نہیں کر سکتے اس لئے قاتل باعزت بری ہو جاتا ہے سسٹم اس کی مدد کرتا ہے امریکہ کے ایک مشہور صدر ابراہام لنکن گزرے ہیں غریب ماں باپ کے گھر پیدا ہوئے، مزدوری کر کے تعلیم حاصل کی وکالت کا پیشہ اختیار کیا ایک مقدمے کی وکالت کرنے سے اس نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ اس کے حق میں دلائل دیتے ہوئے میں اپنے آپ کو پستی میں گرا ہوا محسوس کر ونگا اُس نے مقدمہ لانے والے کے کندھے پر ہاتھ رکھ چند جملے کہے جو تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں اُس نے کہا ’’ یہ با ت نہیں کہ مجھے پیسے کی ضرورت نہیں ہے یہ بات بھی نہیں کہ میں حیلے بہانے تراش کر تمہا را مقدمہ نہیں جیت سکوں گا بات صرف یہ ہے کہ تمہارے حق میں بھاری دلائل دیتے ہوئے میں خود کو ہلکا محسوس کر ونگا اور ساری عمر شر مسار رہونگا ‘‘اس لئے کہتے ہیں کہ بینچ اور بار (Bench & Bar) عدالتی نظا م کے دو پہئے ہیں عدلیہ پر آنچ آنے کی دوسری وجہ سیاسی مقدمات کی بھر مار ہے اس بناء پر ستمبر 2007ء میں یہ تجویز آئی تھی کہ سیاسی مقدمات کو آئینی مقدمات کا نام دے کر ان کی سماعت کے لئے الگ عدالت قائم کی جائے جو صرف سیاسی مقدمات کی سماعت کرے اس تجویز کا ایک فائدہ یہ تھا کہ عام مقدمات کی سماعت کے لئے ججوں کے پاس وقت بچ جاتا جو فیصلے 30سالو ں میں ہوتے ہیں وہ کم از کم 10سالوں میں ہو جاتے کینیڈا کے شہری گل جی نے اس کو دہرا معیار قرار دیا ہے ایک شہری کا مقدمہ 18 سالوں سے التوا ء میں ہیں اس طرح دہرے معیار کے بے شمار نمونے سامنے آجاتے ہیں عدالتوں پر بھی تبصرے ہونے لگتے ہیں جو اُن کے تقدس کے منافی ہے جن شہریوں نے 1970 ؁ ء میں پشاور شہر کے سر فراز خان مجسٹریٹ کا انصاف دیکھا ہے وہ موجودہ حالات میں عدلیہ سے ایسے ہی انصاف کی توقع رکھتے ہیں بقول سر فراز خان مجسٹریٹ ’’قانون بے لحاظ ہوتا ہے لوگ بے چہرہ ہوتے ہیں ‘‘دہرے معیار کو ختم کرنے کا یہی ایک نسخہ اور فارمولا ہے ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
2337

دادبیدا د ……… حیات اباد کی مثالی بستی ………. ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ؔ

Posted on

اگست1974 ؁ء میں جہاں ایف سی کیمپ تھا وہاں اب حیات اباد کا فیز – 7 ہے قریب ہی فیز – 1 ہے درمیان میں 5فیز اور بھی ہیں یہ پشاور کی جدید بستی ہے مگر بد انتظامی کی وجہ سے اس بستی کا براحال ہو اہے 45سال پہلے اس کا خواب سابق سینئر وزیر حیات محمد خا ن شیر پاو نے دیکھا تھا اس لئے پشاور کی یہ جدید بستی ان کے نام سے منسوب کی گئی پشاور شہر اور صدر کے شرفاء نے حیات اباد کو مسکن بنایا صوبے کے دور دراز علاقوں اور مختلف اضلاع سے آنے والے تاجروں ،صنعتکاروں اور سرکاری ملازمتوں سے وابستہ شہریوں نے بھی عمر بھر کی جمع پونجی اس جدید بستی میں لگائی شہر پشاور کو جنرل مشرف کے دور میں 4ٹاونوں میں تقسیم کیا گیا تو یہ بستی ٹاوں – 4 کی حدود میں آگئی قبائلی علاقہ جمرود اور باڑہ کی حدود سے ملحق یہ مثالی بستی تھی صاحب طرز شاعر یوسف رجا چشتی نے بدھائی سے اپنا گھر یہاں منتقل کیا پشاور کلب کو بھی خیر باد کہہ کر حیات اباد میں گھر بسایا پروفیسر محسن احسان نے حیات اباد کو پشاور یونیورسٹی پر ترجیح دی پروفیسر پریشان خٹک ،ڈاکٹر محمد انور خان ،پروفیسر شمشیر ،ڈاکٹر محمد ساعد اور سینکڑوں دانشوروں نے حیات اباد کو بسانے میں اپنا خون پسینہ ایک کیا شاعر نے کہا ’’بستی بسانا کھیل نہیں بستے بستے بستی ہے‘‘ چنانچہ نصف صدی کے قریب یہ بستی آباد ہوئی18نومبر 2017 ؁ء کو حیات اباد کی مثالی بستی سے میرا گذر ہو اتو عجیب سا لگا مجھے اپنی آنکھوں پر باور نہیں آیا مارکیٹوں کے آس پاس ، مسجدوں کے قریب ،خالی پلاٹوں کے اندر گندگی کے ڈھیر دیکھ دیکھ ہم عادی ہو چکے ہیں اب گندگی دیکھ کر ہمیں کوئی تعجب نہیں ہوتا حیات اباد کی مثالی بستی کے اندر گلیوں کے سائن بورڈ چوری ہو گئے ہیں اس بات کا بے حد دکھ ہوا پہلے ایسا ہو تا تھا کہ فون پر پتہ پوچھ لیا جاتا ، فیز اور سیکٹر کے ساتھ گلی نمبر اورگھر نمبر دے دیا جاتا تھا اب فون کرنے پر بتا یا جاتا ہے کہ سائن بور ڈ کوئی نہیں رہا سیکٹر اورگلی کا کوئی نشان نہیں رہا تم فلان مارکیٹ میں آجاؤ، میں اُس جگہ تمہارا انتظارکرونگا آپ کو باور نہیں آتا کہ میں حیات ابا د کی مثالی بستی میں جارہا ہوں سیکٹر کا سائن بورڈ چوری ہو گیا ہے گلی کا سائن بورڈ چوری ہو گیا ہے فیز کا سائن بور ڈ چوری ہو گیا ہے گھروں کے نمبر بے معنی ہو گئے اس لئے مٹادیے گئے ’’اب ڈھونڈا نہیں چراغِ رُخِ زیبا لیکر ‘‘تین مسجدوں میں اس پر بحث ہوئی معز زین اور علماء نے حیات اباد کی گلیوں کے نام اور سائن بورڈ بحال کرنے سے معذوری ظاہر کی ٹاؤن انتظامیہ ، نیبر ہڈ کونسل ، نا ظمین، کونسلر پولیس ، مجسٹریٹ ، پی ڈی ا ے حکام سب اس معاملے میں بے بس ہیں وہ کہتے ہیں کہ نشے کے عادی اور ہیر وئنچی ہماری بستی کے سائن بورڈ اکھاڑ کر لے جاتے ہیں کباڑ میں فروخت کر کے نشہ خرید تے ہیں گویا یہ بھی نامعلوم افراد کی فہرست میں ڈالنے کے لائق ہیں ہم مانتے ہیں کہ خیبر پختونخوا کا بلدیاتی نظام مثالی ہے مگر اس مثالی نظام میں حیات اباد کی مثالی بستی کے سائن بورڈ چوری ہو گئے ہیں ان کی جگہ نئے سائن بورڈ نہیں لگائے گئے یہ بھی حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ گذشتہ ماہ این اے – 4 کے ضمنی انتخابات اسی حلقے میں ہوئے کسی نے پرویز خٹک ، امیر مقام یا خوشدل خان کی توجہ اس طرف نہیں دلائی گلی گلی ، محلہ محلہ ووٹ مانگنے والوں نے یہ نہیں دیکھا کہ گلیوں اور محلو ں کے سائن بورڈ اکھاڑ کر چورلے گئے کاش اس حلقے سے کا میاب ہونے والے ارباب عامرایوب ہی اس طرف توجہ دیتے شاید وہ بھی غالب کے معتقد و پیر وکار ہیں
اپنی گلی میں مجھ کو نہ کردفن بعد قتل
میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , ,
2283

صدا بصحرا ……….. ن لیگ کی ازمائش …………. ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنی اہلیہ کی تیمارداری کے لئے لندن جا نے کا پروگرام موخر کر کے رابطہ عوام مہم کو تیز کر نے او ر ایبٹ اباد جلسے کے بعد کوئیٹہ سمیت دیگر شہر وں میں جلسوں سے خطاب کر نے کا فیصلہ کیا ہے اگلے ہفتے سے اس مہم کی جھلکیاں اخبارات میں آئینگی ایسا لگتا ہے کہ سابق وزیراعظم 1970 ؁ء کے عشر ے میں گذرنے والے ایک اور سابق وزیراعظم ذولفقا ر علی بھٹو کے نقش قدم پر چل کر اُسی کے انجام سے دو چار ہو نا چاہتے ہیں مگر دونوں میں کوئی مماثلت نظر نہیں آتی سوائے اس کے کہ بھٹو نے بھی مقدمات کی پیر وی کو چھوڑ کر تقر یر یں کر نے کا سلسلہ شروع کیا یہاں تک کہ انہوں نے عدالت میں بھی ڈھائی گھنٹہ شستہ انگر یز ی میں زور دارسیاسی بیان دیا تاریخ سے بسمارک، چرچل اور دیگر عظیم رہنما ؤں کے حوالے دیے جمی کارٹر کے خط کا ذکر کیا تیسر ی دنیا کی محرومیوں کا قصہ دہر ایا ، فیدل کا سٹر و اور دیگر لیڈروں کی مثالیں دیں ان کی تقر یریں بہت اچھی تھیں مگر ان کی ضرورت ان تقر یر وں سے زیادہ قانونی معاملات کی طرف توجہ دینے کی تھی جو اُن سے نہ ہو سکی نواز شریف کی تقر یر میں وہ حسن ،وہ چا شنی اور معلومات کی فراوانی یا تقر یر کی روانی بھی نہیں ہے تقریر کے اندر جان بھی نہیں ہے بھٹو امریکہ کی طرف اشارہ کر رہے تھے اور دلیل دے رہے تھے نواز شریف کہہ رہے ہیں مجھے نکلو ا یا گیا ، سزا دلو ائی گئی مگر امر یکہ یا کسی اور طاقت کا ذکر گول کر جاتے ہیں اس لئے عوام کے ذہنوں میں کسی نکتے کی وضاحت نہیں ہو تی اگر کسی دوست کو لاہور کے اخباری حلقوں کے قریب دوچار دن گذارنے اورخبروں کا نچوڑ دیکھنے کا موقع ملے تو چار نکات سامنے آتی ہیں میرے دو دن لاہور میں گذرے نومبر کی 15 تاریخ سے 17 تاریخ تک میں نے لاہور کے اخبار نویسوں کے ساتھ گذارا مخالفین سے زیادہ شریف فیملی کے حامیوں سے ملنے کا اتفاق ہوا ن لیگ کی ازمائش کے جو نکات سامنے آئے وہ چشم کشا بھی ہیں حیرت افزا بھی پہلا نکتہ یہ ہے کہ جنرل مشرف اور نواز شریف کی معزولی کا سبب ایک ہی ہے چائنا پاکستان اکنا مک کوریڈور نہ ہوتا تو پرویز مشرف اب تک اقتدار میں ہوتے آصف علی زرداری نے پاک ایرا ن گیس پائپ لائن اور سی پیک کے معاملے پر کمال عیاری سے کام لیا اور اپنی مدت پوری کر لی پرویز مشرف اور نوازشریف ایسا نہ کر سکے امریکہ نے دونوں کو عبرت کا نشان بنا دیا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ نواز شریف نے گھر کو سنبھالنے میں کو تاہی دکھائی،ڈان لیکس کا چکر ان کے گھر کی دہلیز تک پہنچا بیٹی اور داماد کی وجہ سے گرفت میں آگئے اورجکڑ لئے گئے تیسرا نکتہ یہ ہے کہ تیسری بار حکومت میں آنے کے بعد انہوں نے قربانی دینے والے جاوید ہاشمی کی طرح کئی لیڈروں کو نظر انداز کر کے چُوری کھا نے اور دودھ پینے والے مجنونوں کو اہمیت دی چوہدری نثار نے اکتوبر 1999 ؁ء کی طرح جولائی 2017 ؁ء میں بھی بے وفائی کی خواجہ آصف ، سعد رفیق اور عابد شیر علی نے نواز شریف اور ن لیگ کے لئے مشکلات پید ا کئے ایوان صدر ، سپیکر یا سینیٹ کے چےئر مین کی نشست پر مسلم لیگ کا کوئی ورکر ہوتا تو مشکلات اور �آزما ئشوں کے دور میں سہولت ہوتی راجہ ظفر الحق ، شیخ روحیل اصغر ، جاوید ہاشمی اور ان کی طرح دیگر مسلم لیگی لیڈروں کو اہم عہد وں پر آگے لایا جاتا تو 5 سال ارام سے پورے ہوسکتے تھے چوتھی اہم بات یہ ہے کہ ڈان لیکس کی طرح شریف فیملی کے اندر اختلافات کو ہو ادی گئی شہباز شریف کے صبر کا بار بار امتحان لیا گیا شہباز شریف کو بھائی سے جدا کر نے کی ایسی کوششیں گھر کے اندر کی گئیں جس طرح مرتضیٰ بھٹو کو محترمہ بے نظیر بھٹو سے جدا کر نے کی مہم چلائی گئی تھی مگر شہباز شریف کی برد باری ، فراست اور قابلیت کی وجہ سے یہ بات اب تک پردے میں تھی اب یہ پردہ چاک ہوا ہے اور یہ ن لیگ کے زوال کا بڑا سبب ہے اب بھی وقت ہے مریم نواز ،کپٹن صفدر ، خواجہ آصف ، سعد رفیق اور عابد شیر علی کو خاموش کر دیا جائے نواز شریف اپنی رابطہ عوام کی ناکام مہم ختم کردیں تو معاملات سدھر سکتے ہیں پارٹی کی قیادت میاں شہباز شریف کے ہاتھو ں میں دیدی جائے تو ن لیگ آزما ئشوں سے سر خرو ہو کر نکلے گی اور پارٹی کی حیثیت بحال ہوگی ورنہ اس آزما ئش سے عہد ہ بر آ ہو نا مشکل ہے ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , ,
2266

صدابصحرا ……….روسی حکومت اور خیبر پختونخوا……… ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

بہت بڑی خبر ہے خیبر پختونخو کی ٹورزم کا رپوریشن نے روس کے ثقافتی اور سیاحتی میلے میں سٹال لگا کر صوبے کی ثقافت اور سیاحت کو پیش کیا روسی حکومت اور روس کی سابق ریاستوں نے خیبر پختونخوا کی ثقافت و سیاحت میں گہر ی دلچسپی لی اور خیبر پختونخوا حکومت کیساتھ مختلف منصوبوں میں شراکت کرنے کا عندیہ دیا اب شراکت کے نمونوں پر منصوبے تیا ر کئے جائینگے خبر میں بتایا گیا ہے کہ تحت بائی،سوات ،چکدرہ ،چترال ،ایوبیہ ،کاغان ،گلیات اور دیگر مقامات پر تصویری نمائش کی گئی بروشروں اور دستاویزی فلموں کے ذریعے تقافتی و سیاحتی مقامات کی عکاسی کی گئی خیبر پختونخوا میں دنیا کی منفرد ثقافت کالاش کلچر کو اجاگر کیا گیا دنیا کے بلند ترین پولو گراونڈ شندور پر فری سٹائل پولو میچ دکھائے گئے منگولیا ،کزاخستان ،ازبکستان ،ترکمنستان اور تاجکستان کے وفود نے خیبر پختونخوا کی ثقافت میں گہری دلچسپی لی اور اُمید ظاہر کی ہے کہ اگلے چند سالوں میں خیبر پختونخوا کے سیاحتی مقامات کے دیکھنے کیلئے روس اور روس کی سابق ریاستوں کے سیاحوں کی بڑی تعداد پاکستان کا رُخ کریگی تقافتی وفود کے تبادلہ سے دونوں ملکوں کے لوگوں کے درمیان صدیوں پرانے رشتے بحال ہو جائینگے خیبر پختونخوا میں روسی برتن ،پیالے ،قالین اور دیگر تجارتی مال صدیوں سے آتا رہا ہے اب وہ مال نادراشیاء میں شمار ہو تا ہے ماسکو اور سینٹ پیٹر ز برگ میں خیبر پختونخوا کے تاجر وں کی نسلیں اب بھی آباد ہیں اس طرح پشاور کے نواح میں قدیم روسی ریاستوں سے آکر آباد ہونے والے تاجروں کی نسلیں بستی ہیں یہ خاندان خوقندی کہلاتے ہیں جو روس کے قدیم شہر خوجند سے تجارت کی غرض سے آتے جاتے تھے کمیونسٹ انقلاب (1917) کے بعد روسی سرحد کو آہنی پردہ (Iron Curtain) کا نا م دیا گیا آمد ورفت بند ہوگئی 1947 ؁ء میں قیام پاکستان کے بعد ہمارے 30 سال پرانے رشتوں کو بحال کرنے کا وقت آیا تھا مگر درمیان میں امریکہ حائل ہوا ،فیلڈ مارشل ایوب خان کے دورمیں عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ آمدورفت کیلئے قراقرم ہائی وے تعمیر ہوئی روس کے ساتھ تعلقات کو استوار کرنے پر بھی توجہ دی گئی کمیونسٹ حکومت نے کراچی میں ایشیاء کا سب سے بڑا سٹیل ملز قائم کیا مگر افغانستان پر امریکی قبضے کی جنگ میں پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دے کر اپنے پاوں پر کلہاڑی ماری روس کے ساتھ مزید دوریاں پیدا ہوئیں امریکہ کو ہماری مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کے مزید مواقع مل گئے 2017 ؁ ء میں افغانستان پر امریکی قبضہ مستحکم ہو چکا ہے پاکستان کے خلاف امریکہ ،افغانستان اور بھارت کا سہ فریقی اتحاد بن گیا ہے اس لئے پاکستان کا مفاد اس بات میں ہے کہ ہم چین اور روس کے ساتھ اپنے تاریخی ،تقافتی اور معاشی و تجارتی تعلقات کو مستحکم کر کے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا مقابلہ کریں اس سلسلے میں چین کے ساتھ تعلقات میں کافی پیش رفت ہوئی ہے پاکستان اور خیبر پختونخوا کے ہزاروں طلبہ اور طالبات چین کی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC) کے ذریعے معاشی ترقی کے مواقع سے پاکستان فائدہ اُٹھارہا ہے اگلے چند سالوں میں سول اور فوجی افیسروں کے تما م تربیتی پروگراموں کیلئے امریکہ اور برطانیہ کی جگہ چین ،روس اور ترکی کے ساتھ معاہدے ہونگے تو ہمارے دشمنوں کو معلوم ہو جائے گا کہ پاکستان مغربی ممالک پر انحصار کرنے والا ملک نہیں رہا دوست ملکوں سے تربیت پاکر واپس آنے والے افیسروں کا رویہ بھی عوام کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی کا رویہ ہوگا عوام اور افیسروں کے درمیان دوریاں ختم ہونگی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان جس خطے میں واقع ہے اس خطے کا امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ کوئی رشتہ یا تعلق نہیں بنتا اس کے تاریخی ،لسانی ،تقافتی اور نسلی روابط چین،روس،وسطی ایشیاء اور مشرقی ممالک کے ساتھ ہیں یہ صدیوں پر محیط فطری اتحاد ہے تاجکستان سے لاہور یا پشاور آنے والا خود کو اجنبی نہیں سمجھتا راولپنڈی ،کراچی ،ملتان ،کوئٹہ اور پشاور سے بخارا ،سمر قند ،دوشنبہ، ماسکو یا بیجنگ جانے والا سیاح خود کو مانوس سمجھتا ہے دوری کا احساس نہیں ہوتا ٹورزم کا رپوریشن آف خیبر پختونخوا نے روس اور روس کی سابق ریاستوں کو پشاور ،سوات ،ہزارہ اور چترال کی طرف راغب کر کے تاریخ کا قرض ادا کیا ہے اگلے چند سالوں میں سی پیک کے وجہ سے خیبر پختونخوا کو سڑکوں کے ذریعے تاجکستان اور دیگر وسط ایشیائی ریاستوں سے ملایا جا رہا ہے بعض حلقوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ افغانستان کے سوا دوسرا راستہ نہیں حالانکہ شاہراہ قراقرم کو افغانستان کے بغیر وسط ایشیائی ریاستوں سے ملانے کے بے شمار راستے ہیں وخجیر کے درے سے گریٹ پامیر کو جانے والا راستہ زمانہ قدیم میں بھی استعمال ہو تا رہا ہے وخجیر سے جنوب میں سوما تاش کا راستہ چھوٹے پامیر اور واخان کو جاتا ہے شمال مغرب کا راستہ گریٹ پامیر ،مُرغاب اور خوروگ کے راستے دوشنبہ کو جاتا ہے اگر خیبر پختونخوا کی طرح حکومت پاکستان نے بھی روس اور سطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ ثقافتی اور تاریخی رشتوں کو مستحکم کرنے پر توجہ دی تو یہ ہمارے روشن مستقبل کی ضمانت ہوگی ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
1849

داد بید اد …………. اسمبلیوں کی موت ………. ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ؔ

Posted on

کچھ لوگ موجو دہ اسمبلیوں کو توڑ کر انتخابات کر وانے کا مطالبہ کر رہے ہیں کچھ لوگ نئی مردم شماری کے تحت حلقہ بند یوں کے بعد انتخابات کا مشورہ دیتے ہیں بعض سیاستدان اسمبلیوں کی مدت پوری کر کے پرانی حلقہ بند یوں کے مطابق انتخابات کی تجویز دیتے ہیں ایک حلقہ ایسا بھی ہے جو انتخابات کوکم از کم 20 سالوں کے لئے موخر کر نا چاہتا ہے یہ لوگ صفر کو حذف کر کے صرف 2 سالوں کے لئے قومی حکومت کے نا م پر سابقہ جرنیلوں ،ججوں اور ریٹا ئر ڈافسروں کی حکومت لانے کا مطالبہ کر رہے ہیں غر ض ہماری موجودہ سیاست پر شاعر کا وہ مصرعہ صادق آتا ہے کہ ’’ کچھ نہ سمجھے خدا کر ے کوئی ‘‘ شہاب نامہ ہماری سیاسی تاریخ کی چشم دید کہانی ہے اس میں 1956 ؁ء سے 1958 ؁ء تک اور 1958 ؁ء ے 1966 ؁ء تک ہماری قومی زندگی کے شب و روز کا تماشا بلا کم و کا ست دکھا یا گیا ہے جنرل آغا محمد یحیےٰ خان کی حکومت سے بھی چید ہ چید ہ جھلکیا ں دکھا ئی گئی ہیں حمو د الرحمن کمیشن کی رپورٹ بھی قومی دستاویز ہے اس کے چید ہ چید اوراق دستیاب ہیں اس کی دستیا ویز ی شہادتیں انٹر نیٹ پر موجو د ہیں 10 سال کے بچے بھی یوٹیوب پر سقو ط ڈھا کہ کی فلمیں دیکھ لیتے ہیں اور ماں باپ کو دکھا تے ہیںیہ سارے کا سارا مواد دو باتوں کی شہادت دیتا ہے پہلی بات یہ ہے کہ سیاستدانوں کی باہمی دُشمنی ، بُغض ،رقابت اور حسد سے افسر شاہی کو فائد ہ اُٹھا نے کا موقع ملتا ہے اسٹبلشمنٹ آگ کو بھڑ کا تی ہے اور فائد ہ اُٹھا تی ہے دوسری بات یہ ہے کہ سیاستدان اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات اور اپنی معمولی خواہشات کے لئے ملک کے اندر نسلی ،مذہبی ، لسانی اور گروہی اختلافات کو ہوا دیتے ہیں 1971 ؁ء کا مشرقی پاکستان اور 2017 ؁ء کا بلوچستان ، یا کراچی اس کی مثال ہیں مشرقی پاکستان کا سانحہ ایک دم رونما نہیں ہوا مولوی اے کے فضل الحق کے خلاف سازش سے اس کا آغاز ہوا ، حسین شہید سہر وردی جیسی نابغہ روزگار شخصیت کے خلاف محاذ بنا کر ان کی حکومت توڑ دی گئی مولوی تمیز الدین خان کو غیر قانونی طور پر نکال دیا گیا شیخ مجیب الرحمن کو 1971 ؁ء سے 4 سال پہلے غدار قرار دے کر دشمن کے کیمپ میں دھکیل دیا گیا یہ کام افسر شاہی نے ججوں اور جرنیلوں کی مد د سے نہیں کیا سیاستدانوں نے اپنی نالائقی اور نااہلی کی وجہ سے ایسی حماقتوں کا ارتکاب کیا آج خیبر پختونخوا اور ملاکنڈ ڈویژن سے فوج کو واپس بلانے کی احمقانہ باتیں ہورہی ہیں فوج واپس چلی گئی تو سیاستدان ملکر دشمن کو راستہ دینگے دہشت گر دی واپس آجائیگی ہر سیاستدان اپنے مخالف کے گھر ، دفتر ،جلسہ اور جلوس پر حملہ کر نے کے لئے دشمن کو دعوت دیتا ہے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے جمہوریت اور سیاستدان کو بد نام کر نے والا سیاستدان ہی ہے اسمبلیوں کو بدنام کر نے والا سیاستدان ہی ہے1958 ؁ء میں ملک کے بڑے سیاستدانون کو (EBDO) کے تحت منتخب نمائیند وں کی نااہلی کا قانون لاکر نا اہل قرار دینے والے سیاسی جماعتوں کے اکا برین تھے ان اکا برین کا خیا ل تھا کہ مخالف کو نا اہل قرار دئیے بغیر مجھے وزارت نہیں ملے گی 60 سال بعد تاریخ اپنے آپ کو دہر ا رہی ہے موجودہ اسمبلیاں 5 جون 2018 ؁ء کوا پنی مدت پوری کر رہی ہیں اگر ان اسمبلیوں کو مرگ مفاجات یا غیر طبعی موت سے دو چار کیا گیا تو اگلا منظر نامہ کیا ہوگا ؟ اس کی دھندلی سی تصویر نظر آرہی ہے پاکستان تحریک انصاف کے تمام ترقیاتی منصوبے نا مکمل رہ جائینگے اگر کسی مرحلے پر انتخابات ہوئے تو سب سے زیادہ نقصان پی ٹی آئی کو ہوگا موجودہ حالات میں مسلم لیگ (ن) کے سر پر مظلو میت کی پگڑی رکھ دی گئی ہے اس پگڑی کی وجہ سے سب ے زیادہ فا ئد ہ مسلم لیگ (ن) اُٹھا ئیگی اگر جون2018 ؁ء تک اسمبلیوں کو نہ توڑا گیا تو خیبر پختونخوا میں ریپڈٹرانزٹ بس منصو بہ سمیت دیگر ترقیاتی کام مکمل ہو جائینگے انتخابات کے لئے ہو م ورک تیار ہوگی پارٹی لیڈر اور ورکر عوام کے سامنے واضح ایجنڈا لیکر جائینگے اپنی کار گردی کا ذکر فخر سے کر ینگے اور جا ر حانہ انتخابی مہم چلا ئینگے اسمبلیاں ٹوٹ گئیں تو مدا فعانہ اور معذرت خو اہانہ رویہ پی ٹی آئی کا مقدر بنے گا پنجاب ہا تھ سے نکل جائے گا سندھ اور بلوچستان پر توجہ نہیں دی گئی ، خیبر پختونخواہ میں بھی پارٹی کی ساکھ متاثر ہوگی مذہبی جماعتوں کے اتحاد کی باتیں ناکام ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں بڑے لیڈروں کی ’’ بڑائی ‘‘ بڑی رکاؤٹ بنی ہوئی ہے نچلی سطح پر کارکنوں کو یہ اتحاد منظور نہیں کوئی بھی کارکن مذہبی جماعتوں کے اتحاد کو قبول کر نے پر آمادہ نہیں اس لئے میدان سیکولر طاقتوں کے لئے صاف ہے مگر سیکولر پارٹیوں میں بھی مسلم لیگ (ن) کے سوا کسی کی تیاری نظر نہیںآتی انتخابات میں جتنی جلد بازی کی گئی اس کا فائد ہ مسلم لیگ (ن) کو ہوگا یہ نو شتہ دیوار ہے اس لئے پی ٹی آئی قیادت کو اسمبلیاں توڑ نے کی ضد نہیں کرنی چاہیے’’ ہم نیک و بد حضور کو سمجھا ئے دیتے ہیں ‘‘

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
1832

صدا بصحرا ……….. چابہار او ر گوادر………..ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ؔ

Posted on

خبر آئی ہے کہ بھارت سے چا بہار کی بند ر گاہ کے ذریعے گندم ، چاول اور دیگر اشیا ئے خوراک کی پہلی کھیپ افغانستان پہنچے گی تو جشن کا سماں نظر آئے گا اس جشن کی تیاریاں کی گئی ہیں چا بہار ایرانی بندر گاہ ہے بھارت نے چا بہار کی بند ر گاہ سے قند ہار، ہرات اور کابل تک تجارتی شاہر اہ کی تعمیر کا کام مکمل کر کے اشیا ئے خوراک کی پہلی کھیپ روانہ کی ہے اگر نقشے پر غور سے دیکھا جائے تو چا بہار کی بند ر گاہ ہماری گوادر والی بندر گاہ کے مقابلے میں افغانستان اور بھارت کی دوستی کا ثبوت ہے جس دور میں امریکہ نے پاکستان کو ایران کے ساتھ معاشی ، تجارتی اور ثقافتی تعلقات ختم کر نے پر مجبور کیا گیس پائپ لائن منصوبے سے پاکستان کو دست بردار کیا کوئیٹہ سے زاہد ان اور مشہد جانے والے قافلوں پر امریکیوں نے پے درپے حملے کرکے دونوں ہمسایہ ملکوں کو ایک دوسرے سے دور کیا ان سالوں میں بھارت نے چا بہار کی بندر گاہ سے افغانستان کے لئے شاہراہ کی تعمیر پر سر مایہ کاری کی اُسکا مقصد یہ تھا کہ امریکہ ،بھارت اور افغانستان زمینی راستے کے لئے پاکستانی حکومت کے محتاج نہ رہیں 2006 ؁ء سے لیکر 2016 ؁ء تک چابہار سے کا بل آنے والی شا ہر اہ کے نقشے اخبارات میںآتے رہے یہ وہ دور تھا جب گوادر کی بندر گاہ تعمیر ہوچکی تھی اس کو چلانے کا ٹھیکہ بھی سنگار پور کی کمپنی کو دیا گیا مگر امریکہ کے دباؤ پر سنگار پور کی کمپنی کا م نہ کرسکی چینی کمپنی نے ٹھیکہ لیا چینی کمپنی کو بھی کام کر نے نہیں دیا گیا گوادر میں گہرے سمندر کی بندر گاہ اب تک امریکہ کے رحم و کرم پر ہے یاد ش بخیر سابق صدر جنرل پرویز مشرف کہا کرتے تھے کہ ملکی بقا، سلامتی اور قومی ترقی واستحکام کے لئے پالیسیوں کا تسلسل بہت ضروری ہے چابہار سے افغانستان تک شاہراہ کی تعمیر میں پالیسیوں کا تسلسل نظر آتا ہے گوادر بندر گاہ کی ناکامی میں پالیسیوں کے ٹو ٹنے کا عمل دخل ہمیں نمایاں طور پر دکھا ئی دیتا ہے چاہ بہار سے کابل تک شا ہر اہ تعمیر کر نے کا منصوبہ کانگریس کی حکومت میں شروع ہوا منموہن سنگھ کے بعد بی جے پی کا وزیراعظم نر نید ر مودی آیا اُس نے کام کو جاری رکھا پالیسی میں فرق یا تعطل آنے نہیں دیا فوج اور عدلیہ نے مداخلت نہیں کی پارلیمنٹ نے رکاؤ ٹ نہیں ڈالی اپوزیشن نے شور نہیں مچا یا منصو بہ چلتا رہا اور تکمیل کو پہنچ گیا بھارت ، امریکہ اور افغانستان کو لاکھ بُرا کہیں لیکن یہ کریڈٹ انکو جاتا ہے کہ اُنہوں نے ایک منصو بے پر کام شروع کر کے اس کو مکمل کیا اس کے مقابلے میں گوادر کی کہانی پڑھیں تو دل خون کے آنسو رونے پر مجبور ہوجاتا ہے پاکستان کے نامور وزیراعظم حسین شہید سہر وردی نے 1954 ؁ء میں گوارد کا علاقہ سلطنت اومان سے خرید لیا وہ اس کو بندر گاہ کا درجہ دیکر پاکستاان کو ایشیا اور یورپ کے درمیان تجارت کا مرکز بنا نا چاہتے تھے اُن کی سکیم واضح تھی اگر حسین شہید سہروردی 5 سال تک وزیراعظم رہتے تو دوبئی سے پہلے گوادر کی بندرگارہ بن چکی ہوتی اور پاکستان کی ترقی میں سنگ میل کی حیثیت اختیار کر چکی ہوتی مگر اُن کی حکومت کا خاتمہ کر کے ان کو گھر بھیجد یا گیا اس کے دیگر برے نتائج کے علاوہ ایک ناگوار نتیجہ یہ نکلا کہ گوادر کی بندر گاہ 53 سالوں تک تجارتی مرکز نہ بن سکی جنرل مشرف نے بندر گاہ بنائی تو اس کی حکومت ختم کر دی گئی نواز شریف نے گوادر کو CPEC کے ذریعے دوبارہ زند ہ کر نے کا پروگرام بنا یا تو اس کا بوریا بستر گول کر دیا گیا پالیسیوں کاتسلسل کسی شخصیت کے گردنہیں گھومتا یہ قومی مفاد،ملکی تعمیر و ترقی کو اپنا محور بنا تا ہے افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات میں سرد مہر ی کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہر آنے والی حکومت پچھلی حکومت کے معاہدوں کو مستر د کرتی ہے باہمی اعتماد ختم ہوجاتا ہے اگر چاہ بہار کے راستے بھارتی مال کی پہلی کھیپ کا بل ’’ پہنچنے ‘‘ پر جشن کا سما ں ہوا تو ہمیں اس پر کوئی تعجب نہیں ہوگا ’’ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں ‘‘

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
1712

صدابصحرا ………. نیا امتحانی نظام …….ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

حکومت نے سکولوں کی سطح سے لے کر کالجوں کی سطح تک نیا امتحانی نظام متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے جو رٹہ سسٹم اور بوٹی مافیا کو ختم کر کے تصورات پر مبنی امتحان کا سسٹم ہو گا آج کل اولیول ،اے لیول کے لئے اس طرح کا نظام کا م کر تا ہے آغاخان یونیورسٹی ایجوکیشن بورڈ کا طریقہ کا ر بھی اس طرز پر قائم ہے اعلی تعلیم کے ٹیسٹ، گیٹ (GAT) سیٹ (SAT) ، ETEA اور جی آر ای کے ٹیسٹ اس طریقے پر لئے جاتے ہیں حالیہ برسوں میں این ٹی ایس کے جو امتحانات لئے گئے وہ بھی اس اصول پر مبنی تھے حکومت نے اب اس طریقہ امتحان کو پانچویں جماعت سے شروع کرنے کا پروگرام وضع کیا ہے اگر ایسا ہو اتو اس کا فوری نتیجہ کیا ہو گا ؟ آنکھیں بند کر کے سوچئے تو معلوم ہو گا کہ بازار میں ٹیسٹ پیپر ،حل ،گائیڈ اور پاکٹ سائز گا ئیڈ والا کروڑوں روپے کا بہت بڑا کاروبار ٹھپ ہو جائے گا اسطرح گائیڈ لکھنے اور چھاپنے والے بے روزگار ہو جائینگے انگریزی کے پرچے کے دن پشاور شہر کی 20مارکیٹوں میں 50ہزار پاکٹ سائز گائیڈ فروخت ہو ا کرتے تھے اب ایسا نہیں ہو گا اب کوئی طالب علم کتا ب لیکر امتحانی ہال میں جائے گا تو کتاب اُس کے کام نہیں آئے گی کیونکہ تصورات پر مبنی پرچہ کتاب سے نہیں آئے گا نصاب سے آئے گا ہمارے ہاں 98فیصد سکولوں اور کالجوں میں اساتذہ اور طلباء طالبات کو یہ بھی علم نہیں کہ نصاب کس چڑیا کا نام ہے تاریخ میں پہلی بار ایسا ہو ا ہے کہ کمرہ جماعت میں نصا ب اور نصاب کے اہداف کا ذکر شروع ہو اہے کیونکہ پر چہ نصاب کے اہداف کو سامنے رکھ کر مرتب کیا جارہا ہے کتاب کو سامنے رکھ کر نہیں دونوں میں نمایاں فرق ہے کتاب میں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ قائداعظم کب پیدا ہوا؟ کہاں پیدا ہوا، رٹہ ان باتوں کا ہوتا ہے گائیڈ میں یہ باتیں آتی ہیں پانی پت کی پہلی لڑائی کب لڑی گئی دوسری لڑائی کب لڑی گئی تیسری لڑائی کب لڑی گئی ؟ فیثا غورث کہاں پیدا ہوا ؟ آئن سٹائن کس عمر میں مرا؟ ڈاروِن کے باپ کا کیا نام تھا ؟ اور نیوٹن کا استاد کون تھا ؟تصورات پر مبنی پرچے میں ایسے سوالات نہیں ہو تے نصاب میں ہر مضمون اور ہر سبق میں اہداف دئیے گئے ہیں ان اہداف کو ایس ایل اوز (SLos) یعنی طالب علم کی تعلیم کے ممکنہ نتائج کہا جاتا ہے مثلاََمطالعہ پاکستان پڑھنے کے بعد طالب علم کو قائداعظم کے افکا ر اور پاکستان کے نظریاتی اساس کا علم ہونا چاہیے بیالوجی کے طالب علم کو جانوروں ،کیڑے مکوڑوں اور پودوں ،جڑی بوٹیوں کے خواص کا علم ہونا چاہیئے ان کی مختلف کیفیات کا علم ہونا ضروری ہے اس مقصد کے لئے ترقی یا فتہ ممالک میں نصاب کی کتابوں کو ختم کر دیا گیا ہے نصاب کے اہداف کو سامنے رکھ کر طلباء اور طالبات کو چیدہ چیدہ موضوعات پر تعلیم دی جاتی ہے مثلاََ کشش ثقل کا سبق کمرہ جماعت میں پڑھا یا جائے گا طلبا ء اور طالبات مختلف تجروبات کے ذریعے اس کا مظاہر ہ دیکھنیگے اس کے بعد وہ ڈیسک پر آکر ان تجربات کو لکھینگے اور چار یا پانچ نتائج اخذ کرینگے یہ نتائج نصاب کے اہداف ہیں امتحان میں کشش ثقل اور وزن کے باہمی تعلق پر جتنے بھی سوالات آئینگے طلباء اور طالبات اپنے تجربات کی روشنی میں نصاب میں دیئے اہداف کے مطابق جواب لکھینگے یہاں پر یا ر لو گوں کا ٹیسٹ پیپر کا م نہیں دے گا پاکٹ سائز گائیڈ لے کر ہا ل میں جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا چند سال پہلے ہمارے صوبوں کو انٹری ٹیسٹ کا نمونہ آغاخان یونیورسٹی نے دیا تھا ا ب بھی آغاخان یونیورسٹی میں نصاب کے اہداف پر مبنی امتحانات کے لئے اساتذہ کی تربیت ،کمرہ جماعت میں اسباق کی تیاری اور تکمیل کے بعد امتحانات کا مربوط سسٹم موجود ہے یہ سسٹم ہمارے تعلیمی اداروں میں لایا جا سکتا ہے صرف امتحانی نظام کو لانا کا فی نہیں اساتذہ کی تربیت سے لے کر کمرہ جماعت میں سیکھنے اور پڑھانے کے عمل کوبھی نئے نظام سے ہم آہنگ کرنا ہو گا آپ رٹہ کی تعلیم دیکر تصورات کا امتحان نہیں لے سکتے صوبائی حکومت کا فیصلہ قابل ستائش ہے تعلیمی بورڈوں کے پاس اس نظام کو چلانے کی اہلیت اور صلاحیت بھی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کو مربوط تعلیمی سسٹم کے تابع کیا جائے تاکہ مطلوبہ نتائج بر آمد ہو سکیں ۔
لوگوں کو ہے آفتاب جہانتاب کا دھوکا
ہرروزدکھاتا ہوں اک داغِ نہاں اور

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
1572

داد بیداد …….. این ٹی ایس والے اساتذہ ………… ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ؔ

Posted on

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائینگے ہم تم کو خبر ہونے تک
خیر سے ہمارے ہاں اساتذہ کی کئی قسمیں پید اہوگئی ہیں ایک دن خبر آگئی ہے کہ ایٹا (ETEA) والے اساتذہ نے بنی گالہ جا کر دھرنا دیا ،دوسرے دن خبر آئی کہ پبلک سروس کمیشن والے اساتذہ ے بنی گالہ جاکر دھرنا دیا پھر خبر آئی کہ این ٹی ایس والے اساتذہ نے بنی گالہ میں دھرنا دیا خان صاحب نے سب کی بات سُنی سب کو مطمئن کیا این ٹی ایس والے اساتذہ کا معاملہ سب سے الگ ہے اور بنوں ،ڈی آئی خان ،ہزارہ اور ملاکنڈ سے لیکر پشاور تک سب اس بات سے متفق ہیں کہ این ٹی ایس کے ذریعے جو اساتذہ بھرتی ہوئے ان کی قابلیت میں کوئی شک نہیں میرٹ کی شفافیت میں کلام نہیں 3 سال بعد مسئلہ پیدا ہوا ہے وہ یہ کہ استاد ایم ایڈ یا ایم فل کر نے کیلئے این اوسی کی درخواست دیتا ہے تو درخواست یہ کہہ کر مسترد کی جاتی ہے کہ این ٹی ایس والوں کو اجازت دینے کی ’’اجازت ‘‘نہیں ایک ٹیچر اتمان زی سے نا گمان آکر پڑھاتی ہے دوسری ٹیچر ناگمان سے اتما نزی جا کر پڑھاتی ہے دونوں باہم تبادلہ کرنا چاہتی ہیں مگر درخواست دینے کی اجازت نہیں کیونکہ ان کے اوپر این ٹی ایس کا لیبل لگا ہو اہے ایک ٹیچر ورسک سے روز سفر کر کے تارہ جبہ جاتا ہے ورسک میں ایک سال سے پوسٹ خالی ہے اُس گاوں کا استاد وہاں تبدیل نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ این ٹی ایس کے ذریعے آیا ہے 3 سال بعد این ٹی ایس اُس کے لئے بلا اور مصیبت بن گئی ہے این ٹی ایس اساتذہ کے ساتھ خان صاحب نے ہمدردی کا اظہار کیا اُن کو انصاف کی یقین دہانی کے ساتھ واپس کر دیا مگر محکمہ تعلیم خیبر پختونخوا پھربھی اپنی ضد پر قائم ہے کہ یہ لوگ این ٹی ایس والے ہیں ان کو اگر مستقل کیا گیا تو تقرری کی تاریخ سے نہیں ہوگا بلکہ 3 سالہ ملازمت اور 6 مہینوں کی ملازمت والوں کو ملا کر ایک تاریخ دی جائیگی سینارٹی کسی کو نہیں ملے گی 2014 ؁ء میں بھرتی ہونے والی ٹیچر 2017 ؁ء میں بھرتی ہونے والی ٹیچر کے ہمراہ ایک ہی تاریخ میں مستقل ہونے کا پروانہ حاصل کر ے گی’’ تقرری کی تاریخ ‘‘کے الفاظ کا ٹ کر دسمبر 2017 ؁ ء کی کوئی تاریخ ڈال دی جائیگی یہ اُن کی سزا ہے کہ انہوں نے این ٹی ایس کا امتحان کیوں پاس کیا تھا ؟ ان اساتذہ میں کچھ لوگ وہ بھی ہیں جو دوسری جگہوں میں دو سال ،تین سال یا 5 سال سروس کا تجربہ لیکر آئے تھے محکمہ تعلیم کے حکام تجربہ بھی نہیں مانتے سابقہ سروس کا ریکارڈ بھی نہیں مانتے ایک صاحب نے گولڈ مڈلسٹ استاد کی فائل اس کے منہ پر مارتے ہوئے کہا تمہیں کس نے کہا تھا کہ این ٹی ایس کا امتحان دو ؟ایک دوسرے صاحب نے این ٹی ایس اساتذہ کے وفد سے باتیں کرتے ہوئے دھمکی دی کہ عمران خان کی حکومت جاتے ہی تمہارا بوریا بستر گو ل کر دیا جائے گا تم لوگ ہمارے لئے مصیبت بنے ہوئے ہو اُن صاحب کے دو بیٹے ،دو بھانجیاں اور دو بھتیجے این ٹی ایس کے تین ٹیسٹوں میں باجماعت فیل ہوئے تھے اس لئے وہ اپنا غصہ پاس ہونے والوں پر نکال رہے ہیں این ٹی ایس اساتذہ کو خان صاحب کی یقین دہانی پر بھروسہ ہے اُن کے مسائل حل کئے جائینگے ان کو ایم ایڈ ،ایم فل اور دیگر امتحانات کی اجاز ت مل جائیگی ان کو سرکاری ملازم کا درجہ دے کر مستقل کیا جائے گا گھر کے قریب خالی پوسٹ پر تبدیلی کا حق بھی مل جائے گا تقرری کی تاریخ سے مستقلی کا حق بھی مل جائے گا خان صاحب نے جو جو وعدے کئے ان پر عمل ہوگا مگر راستے میں مگر مچھوں کے منہ کھلے ہوئے ہیں ان میں سیاسی لوگ بھی ہیں اور افسر شاہی کے کل پرزے بھی ہیں بقول مرزا غالب؂
دامِ ہرموج میں ہے حلقہ صد کام نہنگ
دیکھئے کیا گذرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
1544

صدابصحرا ……… 2019 کا چترال ………..ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

پولو گراونڈ چترال میں 50ہزار عوام کے مجمع سے خطاب کر تے ہوئے خیبر پختونخوا کے وزیر اعلی پر ویز خٹک نے سب ڈویژن مستوج کو ضلع کا درجہ دینے کا اعلان کیا اور وعدہ کیا کہ اس کا نوٹیفکشین چند روز میں ہو جائے گا اس سے قبل چترال کی سب تحصیل دروش کو تحصیل کا درجہ دینے کا نوٹیفکشین جاری ہو چکا ہے گرم چشمہ کو تحصیل کا درجہ دینے پر غور ہو رہا ہے اس طرح سب ڈویژن مستوج کو ضلع کا درجہ دینے کے بعد موڑکہو تحصیل اور تور کہو تحصیل کے نام سے دو نئی تحصیلیں بنینگی اور 2019 ؁ ء کے بلدیاتی انتخابات میں چترال کی نئی انتظامی یونٹوں میں دو ضلع ناظمین اور 6تحصیل ناظمین ہونگے اس حساب سے تحصیل کونسلروں کی تعداد میں اضافہ ہو گا ہر تحصیل میونسپل ایڈمنسٹر یشن کا عملہ الگ آئے گا اب اگر تحصیل میونسپل افیسر انفراسٹر کچر کے نام سے دو انجینئر پورے چترال کی 270کلو میٹر لمبی وادی کی 34الگ الگ گھاٹیوں کے اندر کاموں کو دیکھتے ہیں 2019ء میں یہ کام 6انجینئروں میں تقسیم ہو گا 6ناظمین اس کام کے لئے فنڈ مہیا کرینگے مگر یہ اتنا آسا ن نہیں جتنا لکھنے اور پڑھنے میں نظر آتا ہے علامہ اقبال نے کہا تھا
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں

موجودہ حالات میں صورت حال یہ ہے کہ چترال کے ایم این اے شہزادہ افتخارالدین ،ایم پی اے سلیم خان ،ایم پی اے سردار حسین اور ضلع ناظم حاجی مغفرت شاہ نے اپنے آپ کو نئے ضلع کے اعلان اور وزیر اعلی کے جلسہ عام ،دورہ چترال سے لا تعلق رکھا نو شو (No Show) کی تختی اویزاں رہی ،چترال کی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور کارکنوں نے اپنے آپ کو لا تعلق ظاہر کیا اب یہ پاکستان تحریک انصاف کی واحد ایم پی اے بی بی فوزیہ ،پاکستان تحریک انصاف کے ضلعی صدر عبدالطیف ،جنرل سکرٹری اسرارالدین ،سینئرلیڈر حاجی سلطان محمد ،عبدالولی خان ایڈوکیٹ ضلع کونسل کے ممبر رحمت غازی ،غلام مصطفےٰ ،محمد یعقوب خان ،زلفی ہنر شاہ اور دیگر قائدین کے لئے امتحان کا درجہ اختیار کر گیا ہے ڈپٹی کمشنر چترال ارشاد علی سو ڈھر اس سلسلے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں شہزادہ سراج الملک ،شہزادہ سکندر الملک اور شہزادہ امان الرحمان کے اثرورسوخ سے بھی کام لیا جاسکتا ہے سب ڈویژن مستوج کو ضلع کا درجہ دینے کے مخالفین نے پہلے ہی سے پروپگینڈاشروع کیا ہوا ہے کہ وزیر اعلی پرویز خٹک محض سیاسی اعلان کرینگے اس کو عملی جامہ نہیں پہنا سکینگے مخالفین کے ایک گروہ نے یہاں تک دعوی کیا ہے کہ چترال میں نیا ضلع نہیں بننے دینگے مخالفین نے یہ بھی کہا ہے کہ نیا ضلع بننے سے چترال کابٹوارا ہو گا وزیر اعلی پرویز خٹک سے ایک نشت میں اس موضوع پر بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ خان صاحب کا وژن اور مشن ہی ایسے گروہوں کے خلاف جہاد ہے ہمارا نعرہ تبدیلی ہے اور یہ مفاد پر ست ٹولہ ’’ سٹیٹس کو‘‘ چاہتا ہے ان کا مفاد اجارہ داری اور داداگیری میں ہے ہم اجارہ داریوں کو توڑنا چاہتے ہیں دادا گیری کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور ہم یہ کام کر کے رہینگے نوٹی فیکشین کے لئے جو تجویز اور پر بھیجی جائیگی اس میں پورا پیکیج دیا جائے گا اس پیکیج کے دو حصے ہونگے پہلے حصے میں سب ڈویژن مستوج کوضلع کا درجہ دیکر ضلعی محکموں کا قیام الگ ضلع کونسل کا قیام اور اس کے دیگر لوازمات کا بلیو پبرنٹ ہو گا اس پیکیج کے دوسرے حصے میں دروش ،گرم چشمہ ،موڑکھو اورتور کھو کی نئی مجوزہ تحصیلوں کے لئے الگ الگ انتظامی ڈھانچہ تجویز کیا جائے گا حدود پہلے سے متعین ہیں ہیڈ کوارٹر بھی متعین ہیں آبادی بھی متعین ہے 2019ء کے بلدیاتی انتخابات کی حلقہ بندیاں نئی انتظامی یونٹوں کے حساب سے ہونگی اور یہ مشکل کام نہیں ہے خیبر پختونخوا کے انتظامی حکام کے پاس ایسے کاموں کا تجربہ بھی ہے اور ایسے اقدامات کی صلاحیت بھی ہے نئے ضلع،نئی تحصیلوں اور نئے انتظامی دفاتر کے قیام کی مخالفت کرنے والوں کا دکھ ہم کوبھی معلوم ہے پی ٹی آئی کی قیادت کو بھی اس کا علم ہے اُن کا دکھ یہ ہے کہ اتنا بڑا کا م ہماری حکومتوں نے کیوں نہیں کیا؟ اس کام کا کریڈیٹ ہمیں کیوں نہیں ملا؟عمران خان اور پرویز خٹک نے جس طرح ریپڈٹرانزٹ بس کے منصوبے کو چھ ماہ میں مکمل کرنے کا بیڑا اُٹھایا ہے اسی طرح چترال کی نئی انتظامی یونٹوں میں تقسیم اور دو ضلعوں کے ساتھ6تحصیلوں کے لئے انتظامی ڈھانچہ کی فراہمی کا کام بھی اگلے 6مہینوں میں مکمل کر کے دکھا ئینگے بقول فیض
’’ جو فرق صبح پہ چمکے گا تاراہم بھی دیکھینگے ‘‘

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged , , ,
1466

داد بیداد ……………انصاف کے ساتھ ایک نشست………ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

یہ ایک غیر رسمی نشست تھی مگر بھر پور نشست تھی خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک دور سے جتنے سخت گیر نظر آتے ہیں قریب سے اتنے ہی نرم دل اور بردبار دکھا ئی دیے با ت سننے کی خواہش اور مسائل کے بارے میں اندرونی کہانیاں جاننے کی تڑپ رکھتے ہیں عوام اور حکمران کے درمیان پائے جانے والے فا صلوں سے نالاں ہیں اس بات پر حیران ہیں کہ عوام کے حقیقی مسائل حکمران کے سامنے کیوں نہیں رکھے جاتے ڈی سی ہاوس چترال میں ظہرا نہ تھا چیر مین پاکستان تحریک انصاف عمران خان ، جنرل سکرٹری جہانگیر ترین اور صوبائی وزیر محمود خان بھی ظہرانے میں شریک تھے سرکاری حکام اور معززین بھی تھے ایم پی اے بی بی فوزیہ اور پی ٹی آئی چترال کے قائدین بھی تھے شہزادہ سراج الملک نے ہمارا تعارف کرایا پھر سلسلہ کلام چل نکلا پاکستان تحریک انصاف کی ترجیحات میں سے تعلیم پہلی ترجیح ہے اس پر بات ہو ئی مانیٹرنگ سسٹم اور این ٹی ایس کا ذکر ہو ا سکولوں کے لئے رنگ کے انتخاب کی با ت ہوئی تحریک انصاف کی دوسری ترجیح صحت عامہ کی سہولیات کا ذکر آیا ،حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کی مثال دی گئی جب صوبائی وزیر اعلی کے سامنے یہ بات رکھی گئی کہ چترال سے ہر سال 40ہزار طلبہ اور طالبات میڑک اور انٹر کے امتحانات میں بیٹھتے ہیں اور ان کا پور ا سسٹم پشاور بورڈ سے ملحق ہے چترال کے 300 سکولوں اور 100 سے زیادہ کالجوں کے لئے چترال میں انٹر میڈیٹ اور سیکنڈری ایجوکیشن کا بورڈ نہیں تو انہوں نے حیرت سے مس کیری اور جہانگیر ترین کی طرف د یکھا اور کہا یہ بات آج تک میرے علم میں نہیں لائی گئی ، کسی بریفینگ میں اس کا ذکر نہیں ہوا کسی وفد نے یہ بات نہیں اُٹھا ئی پرویز خٹک نے جہانگیر ترین کو بتا یا کہ چترال شرح خواندگی کے لحاظ سے صوبے میں تیسرے نمبرپر ہے اس کا اپنا بورڈ نہ ہونا تعجب کی بات ہے اس طرح وزیر اعلیٰ کو بتا یا گیا کہ گرم چشمہ کا ہا ئیر سکینڈری سکول 1997 ؁ء میں نا ن ڈیو لپمنٹل سکیم کی صورت میں شروع ہوا اس میںآرٹس کی کلاسیں تھیں 20 سال گذرنے کے بعد اس کو ڈیو لپمنٹل کا درجہ نہیں ملا سائنس کے مضامین شروع نہیں ہوئے پی سی فور نہیں آیا پوسٹیں نہیں ملیں 20 سال تک ہائیر سکینڈری سکول کو بھول جانا وزیراعلیٰ کے لئے حیرت کی بات تھی شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی شرینگل اور یونیورسٹی آف چترال پربات ہوئی وزیراعلیٰ کو بتا یا گیا کہ چترال کو دو ضلعوں میں تقسیم کر نا ، چترال کے لئے یونیورسٹی کا قیام اور تعلیمی بورڈ کا قیام ایسے اقدامات ہیں جو تحریک انصاف کی حکومت کے گرا نقدر تحفوں کی صورت میں یاد رکھی جائینگی ظہر انہ کے بعد پولو گراؤنڈ میں عظیم الشان جلسہ تھا جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے سب ڈویژن مستوج کو ضلع کا درجہ دینے کا اعلان کیا جلسے میں عمران خان کی تقریر بھی یاد گار تھی انہوں نے ایک بار سکر دو میںیہ بات کہی تھی کہ چترال اور گلگت بلتستان کے لوگ تہذیب و شائستگی میں پوری دنیا کے لئے مثال کی حیثیت رکھتے ہیںیہ بات انہوں نے چترال کے جلسے میں ایک بار پھر دہرا ئی عمران خان نے اپنی تقریر میں کہا کہ اگلے انتخابات میں وفاق کے ساتھ چاروں صوبوں میں ہماری حکومت آئیگی تو چار شعبوں میں ایمر جنسی نافذ کر کے جنگی خطوط پر کام کیا جائے گا پہلا شعبہ تعلیم ہوگا انہوں نے صوبائی وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو داد دی کہ انہوں نے گذشتہ چار سالوں میں بجٹ کا سب سے بڑا حصہ تعلیم پر لگا یا یہ ایسی سرمایہ کا ری ہے جو ہم اپنی آنے والی نسلوں پر کر ہے ہیں نوجوانوں پر سرمایہ لگا یا جا رہا ہے یہ ہمارا مستقبل ہیں دوسری ایمر جینسی ماحولیات کے شعبے میں ہوگی ، تیسری ایمر جنسی صحت عامہ کے شعبے میں اور چوتھی ایمر جنسی بلدیات کے شعبے میں ہوگی انہوں نے مژدہ سنا یا کہ آئیندہ کے لئے ضلع ناظم براہ راست ووٹوں سے منتخب ہوگا تمام ترقیاتی فنڈ بلدیاتی نمائیندوں کو ملینگے اور ویلیج کونسل ، نیبر ہُڈ کونسل کو ترقی کا انجن بنا یا جائے گا جلسے کے بعد وزیراعلیٰ نے عمران خان کے ہمراہ چترال چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے دفتر ماو نیٹن اِن میں ایک تقریب میں شرکت کی چیمبر کو الاٹ کئے گئے پلاٹ کی تختی کی نقاب کشائی کی مہمانوں کی کتاب میں اپنے تاثرات لکھے اس موقع پر مہمانوں کو چترال کے روایتی تحا ئف پیش کئے گئے مختصر تقریب میں چیمبر کے صدر سرتاج احمد خان نے معز ز مہمانوں کا خیر مقدم کیا اور چترال کی ترقی میں خصوصی دلچسپی لینے پر ان کا شکر یہ ادا کیا اس موقع پر اپنے خطاب میں وزیراعلیٰ نے چیمبر کے اراکین کو صوبائی حکومت کے مکمل تعاؤن کا یقین دلا یا انصاف کے ساتھ یہ یاد گار نشست تھی

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
1455

صدا بصحرا ……… لند ن اور دوبئی کا ریموٹ کنٹرول ……… ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ؔ

Posted on

پاکستانی سیاست کے بارے میں ساری اچھی بری خبریں لند، کینڈا، امریکہ اور دوبئی سے آرہی ہیں اسلام اباد ، لاہور اورکراچی کا صرف نا م رہ گیا ہے سیاست اور جمہوریت کا دار مدار ریموٹ کنٹرول پر ہے بڑی خبر یہ نہیں کہ لندن میں مسلم لیگ (ن) کا اجلاس ہوا تین بڑوں نے مل کر بیٹھ کر تین بڑے فیصلے کئے بڑی خبر یہ بھی نہیں کہ سابق صدر زرداری اپنی مصروفیات منسوخ کر کے دوبئی پہنچ گئے جہاں غیر ملکی سفارت کاروں سے اُس کی ملاقات طے ہے بڑی خبر یہ بھی نہیں کہ ایک مشتر کہ دوست نے لندن میں نواز شریف اور زرداری بھائی بھائی کا نعرہ بلند کرنے کی تیاری مکمل کرلی ہے سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ کینیڈا میں کھچڑی پک رہی ہے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری نے ٹور نٹو میں ملاقات کی ہے تجز یہ نگاروں کو اُمید ہے کہ ملاقات کا مثبت نتیجہ بر آمد ہوگا ابھی یہ بات طے نہیں ہوئی کہ کس کے حق میں مثبت ہوگا اچکن اور شیر وانی سلوانے کا مرحلہ قریب ہے یادور ہے اس پرکچھ کہنا قبل از وقت ہوگا خدا کر ے دونوں میں ملاقاتوں کا یہ سلسلہ جاری رہے شاعر نے کہا تھا ’’ خوب گذرے گی جو مل بیٹھینگے دیوانے دو ‘‘ لاہور کے ایک اخبار نویس نے طاہر القادری اور شیخ رشید کو ’’ گیم چنیجر‘‘ کا خطاب دیا تو راولپنڈی میں دوسرے صحافی کی ’’ رگِ صحافت ‘‘ پھڑک اُٹھی انہوں نے گرہ لگائی یہ دونوں گیم چنیجر نہیں بلکہ ’’ گیم سپا ےئلر ‘‘ ہیں اس وقت سیاسی فضا میں جو دُھنیں سنائی دے رہی ہیں یہ راگ نہیں ہلکی پھلکی موسیقی ہے راگوں میں طاہر القادری اور شیخ رشید ، دونوں کودیپک راگ پسند ہے یہ وہ راگ ہے جس کی مدد سے تان سین کو آگ لگاتے ہوئے دکھا یا گیا ہے فلم مغل اعظم کا وہ منظر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے جب تان سین نے دیپک راگ چھیڑی اور دیکھتے ہی دیکھتے آگ لگ گئی تبھی تو شاعر نے اپنے محبو ب کے بارے میں کہا
اس غیرت نا ہید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سالپک جائے ہے آواز تو دیکھو
ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے ہاں دیپک راگ والے بہت ہیں الطاف حسین کی انفرا دیت بھی دیپک راگ ہے مولانا فضل الرحمن کے درجہ ، مرتبہ اور مقام کا خیال رکھتے ہوئے اگر کسی راگ کو ان سے منسوب کیا جاسکتا ہے تو یہ یہی دیپک راگ ہے برا درم سراج الحق اگر کبھی ’’ مطر ب و نغمہ ونے ‘‘ کی طرف آگئے تو دیپک راگ کے سوا کچھ بھی ان کے مزاج پر پورا نہیں اتر ے گا نواز شریف نے بھی ’’ مجھے کیون نکالا ؟‘‘ کا نعرہ مستانہ بلند کر کے خود کو دیپک راگ والے گروپ میں شامل کر لیا ہے اب لے دے کے آصف زرداری رہ گئے ہیں جنکا سیاسی اثاثہ اُن اجز ائے تلاثہ پر مشتمل ہے جنہیں 8 سال قید ،بی بی کی وصیت اور ’’ پاکستان کھپے ‘‘ کے نام سے خلق خدا جانتی ہے زرداری کی مسکراہٹ کے بارے میں ایک ہی رائے پائی جاتی ہے وہ یہ کہ اُن کی مسکرا ہٹ میں راگ ملہا ر کی سی خاصیت ہے جو چلچلاتی دھوپ میں بارش برساتی ہے آصف زرداری نے ماضی میں بھی آگ بجھا نے کا کام کیا ہے 2014 ؁ء والے دھرنے میں اگر آصف زرداری فائر فا ئٹنگ نہ کر تے تو شاید بڑے بڑوں کا دھڑن تختہ ہو چکا ہوتا وہ دشمن سے ہاتھ ملانے کو جمہوریت کا حسن قرار دیتے ہیں ان کا خیال ہے کہ دشمن کو اگر شہد سے مار سکتے ہو تو زہر دینے کی کیا ضرورت ہے ؟ ہاں ! جہاں شہد کا م نہ دے وہاں ’’ پولیس مقابلہ ‘‘ واحد آپشن ہے ورنہ تم خود ’’ نا معلوم افراد ‘‘ کے ہتھے چڑھ جا ؤ گے لند ن کے ریموٹ کنٹرول نے یہ خبر بھی پھیلا ئی ہے کہ 2018 ؁ء کے الیکشن اگر کبھی ہوئے تو مسلم لیگ (ن) کو مسلم لیگ (ش) کا نام دیا جائے گا اور شہباز شریف وزارت عظمیٰ کے اُمیدوار ہونگے اگر مسلم لیگ (ش) نے وزارت عظمیٰ پر نظریں لگا لیں تو لبیک یا رسول اللہ والے کہاں جائینگے اور مستقبل کی حکمران پارٹی مسلم لیگ (م) یعنی ملی مسلم لیگ کدھر جائیگی ؟
یہ سب تو ہمات ہیں ان توہمات کا ایک ہی حل ہے لندن اور دوبئی سے تاریں ہلا ئی گئیں ریموٹ کنٹرل کو حرکت دے دی گئی تو ساری کٹھ پتلیاں اپنا رقص ختم کر کے اصل کھلاڑیوں کو راستہ دید ینگی بقول افتخار عارف
تما شا کر نے والوں کو خبر دی جاچکی ہے
کہ پر دہ کب گرے گا کب تما شاختم ہوگا

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
1234

دادبیداد ……. قوسِ قزح سکولوں میں ……. ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ؔ

Posted on

برادر گرامی صبیح احمد کو ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کے رنگ میں روز مرہ کے تجربات پر کالم لکھنے کا ملکہ حاصل ہے آج ایسا ہی ایک تجربہ ہم بھی قارئین تک پہنچانا چاہتے ہیں ہو سکتا ہے کسی کا بھلا ہو ہمارے سکولوں کی نظامت ہر سال سکولوں کے بچوں اور بچیوں کے درمیان تقریر ی مقابلہ کراتی ہے یہ انگریزوں کے دور کی روایت ہے مگر اُس دور میں تقریر ی مقابلے کیلئے ایسے موضوعات دیئے جاتے تھے جن کو بچے خود لکھتے اور پڑھتے تھے یا لکھے بغیر فی البدیہہ تقریر کرکے اپنی خطابت کا سکہ بٹھاتے تھے موضوع چھٹی جماعت سے لیکر دسویں جماعت تک پڑھنے والے بچے کی عمر کے مطابق ہوتا تھا اُن کے مشاہدے کے ساتھ مطابقت رکھتا تھا ان کے مطالعے کی سطح کے ساتھ مطابقت رکھتا تھا علم بڑی دولت ہے ،قلم کی طاقت تلوار سے زیادہ ہے، تعلیم نسواں وقت کی ضرورت ہے، انسان خطا کا بتلا ہے اس طرح انگریزی میں معاشرتی اور سماجی روایات ،شعور اور عام لوگوں کے تجربے میں آ ئے ہوئے موضوعات تجویز کئے جاتے تھے مگر اب وہ زمانہ گذرگیا اب سکول کے استاد اور طلبا و طالبات کے تجربوں کو دیکھنے اور پرکھنے کا دستور نہیں ہے پشاور یا اسلام اباد کے بند دفتر میں بیٹھا ہو اایک شخص شیکسپےئر ،ورڈز ورتھ یا کسی اور شاعر ،دانشور کا مصرعہ یا مقولہ منتخب کر کے دیر بالا ،سواڑی ،مستوج اور چترال کے طلبا و طالبات کے لئے تقریر کا موضوع تجویز کر تا ہے 2015 ء اور 2016 ء میں بھی اوٹ پٹانگ موضوعات دیئے گئے تھے طلباء اور طالبات کے لکھنے کے قابل موضوعات نہیں تھے اساتذہ نے لکھنے سے معذرت کر لی تویہ موضوعات بازار میں آگئے نشتر عارضی نویس،اور اشتر کباڑیہ کی خدمات حاصل کی گئیں اشتر کباڑیہ کمال کا آدمی ہے استا د بشیر کی طرح ہر فن مولا ہے اُس کی دکان پر کباڑ کا سامان آتا ہے اور لاٹوں میں بکتا ہے وہ اپنے سامنے دس بارہ کتابیں رکھ کر بیٹھارہتا ہے پڑھتا ہے لکھتا ہے اور لوگوں کے کام آتا ہے پچھلے سال انٹر سکولزتقریری مقابلوں کے سیزن میں اُس نے 100 تقریر یں لکھ کر لوگوں کو دئیے اس سال انٹر سکولز تقریری مقابلوں کا سیزن چل رہا ہے عنوان دیا گیا ہے’’بچے آدمی کا باپ ہوا کرتے ہیں ‘‘یہ انیسویں صدی میں انگلینڈ کے رومانوی شاعر ولیئم ورڈز روتھ کی نظم قوسِ قزح کا ایک مصرعہ ہے ’’چلڈرن آر فادر آف مین ‘‘ورڈز ورتھ کے اس مصرعے پر ناول لگھے گئے ہیں فلمیں بنائی گئی ہیں سی ایس ایس اور پی ایم ایس کے امتحانات میں اس پر مضامین لکھوائے جاتے ہیں چھٹی جماعت کا طالب علم یہ عنوان لیکر کس کے پاس جائے گا؟کس کی منت سماجت کرکے تقریر لکھوائے گا ؟یہ بات سکولوں کی نظامت کے کسی بھی بزرجمہری کو معلوم نہیں سچ پوچھئے تو سکولوں کے ڈائریکٹر کے دفتر میں کسی کو یہ بھی معلوم نہیں کہ انٹر سکولز تقریری مقابلے کرانے کا مقصد کیا ہے؟اگر ساری تقریریں اساتذہ نے لکھنی ہیں اگر کچھ تقریریں بازار میں جاکر لوگوں سے لکھواکر لانی ہیں ریڈیو ،ٹی وی اور پروڈکشن ہاوسنر کے صحافیوں سے لکھوا کر لانی ہیں تو پھر اس کا نا م انٹر سکولز تقریری مقابلہ کیوں رکھا گیا ؟ہمارے زمانے میں سکول کے اندر تقریری مقابلوں اور مباحثوں میں طلبا اور طالبات اپنی لکھی ہوئی تقریر پڑھتے تھے یا فی البدیہہ بولتے تھے وہ اساتذہ سے زبان کی اصلاح لیتے تھے تلفظ درست کرواتے تھے تقریر اُن کی اپنی ہوتی تھی عنوان ایسا دیا جاتا تھا جس کو طالب علم خود سمجھتا تھا اب دسویں جماعت کے طالب علم نے ورڈ ز ورتھہ کا نام نہیں سُنا ،اُس کا مصرعہ کیا سمجھے گا ؟وہ اشتر کباڑیہ کے پاس جاتا ہے ایک ہال میں 10 سکولوں کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے سب کی تقریریں ایک ہی شخص کی لکھی ہوئی ہیں اشتر کباڑیہ اگرچہ سیزن میں دوچار پیسے کمالیتا ہے مگر وہ اس کام سے تنگ آگیا ہے وہ کہتا ہے محکمہ تعلیم کے حکام دن کی روشنی میں اپنے آپ کو ،اپنے طلباء اور طالبات کو کس لئے دھوکا دیتے ہیں ؟اگر انٹر سکولز تقریری مقابلوں کا مقصد طلباء اور طالبات میں لکھنے اور بولنے کی صلاحیت پید ا کرنا ہے تو ایسا عنوان دیدو جس کو خود بول سکیں اشتر کباڑیہ سے 10 تقریریں لکھواکر ایک ہا ل میں مقابلہ منعقد کرنے کی کیا تُک بنتی ہے ؟اس کی کیا ضرورت ہے اشتر کباڑیہ 1956 ؁ ء میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا اُس نے تعلیم ادھوری چھوڑی مگر مطالعے کی عادت نہیں چھوڑی اس لئے اس کو ہر عنوان پر تقریر لکھنا آتا ہے آج کل محکمہ تعلیم کے افیسروں کو سکول کے بارے میں اشتر کباڑیہ کے برابربھی علم نہیں طلباء اور طالبات کی عمروں کاپتہ نہیں اس لئے وہ مباحثوں اور تقریری مقابلوں کیلئے اوٹ پٹانگ موضوعات دیتے ہیں اشتر کباڑیہ اس قسم کی تقریر نویسی سے اکتا گیا ہے اور وہ حیران ہے کہ ورڈزورتھ کی نظم قوسِ قزح سکول میں کس طرح آگئی

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
974

صدابصحرا ………. پاکستانی شناخت کامسئلہ………. ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

Posted on

جو لوگ کھبی پاکستان سے باہر نہیں گئے ان کو پاکستانی شناخت کے مسئلے کا علم نہیں ہے۔جو لوگ یورپ ،امریکہ ،چین ،کوریا اور دیگر ممالک سے آئے ہوئے مہمانوں کے ساتھ رابطہ نہیں رکھتے ان کو بھی علم نہیں ہوگا کہ پاکستانی شناخت کی کیا اہمیت ہے اور شناخت کا مسئلہ کیا ہے دراصل گذشتہ 46 سالوں کے اندر پاکستانیوں کو شناخت کا مسئلہ درپیش ہے مشرقی پاکستان ٹوٹ کر الگ ہو نے کے بعد ہمارے دشمنوں نے پاکستان کے اندر نفرتوں کے بیچ بونے کا کام کیالسانی ،قبائلی اور نسلی بنیادوں پر قوم کو تقسیم کیا مسلکی ، فقہی اور مذہبی بنیادوں پر قو م کو تقسیم کیا نفرتوں کے بیج اس طرح بوئے گئے کہ اب یہ دیواروں اور چٹانوں کی طرح مضبوط درختوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں گھرگھر ،گلی گلی ،محلہ محلہ تقسیم در تقسیم کا عمل جاری ہے تعلیمی اداروں سے لیکر عبادت گاہوں تک یہ جراثیم پھیل چکے ہیں سیاستدانوں سے لیکر سرکاری ملازمیں تک معاشرے کے با اثر طبقوں کو زہر آلود کیا جا چکاہے بلوچستان اور سندھ کی صورت حال کو دیکھیں ،جنوبی پنجاب میں پائے جانے والے احساس محرومی کو دیکھیں خیبر پختنونخوا کے اندر ہزارہ وال تحریک پر ایک نظر دوڑایءں پشاور شہر کے اندر ہندکوان اور پختون کی تقسیم کا جائزہ لے لیں قبائل کو صوبے کے ساتھ ضم کرنے کی بحث میں آنے والے مسائل پر غور کریں کوہستان ،سوات اور دیگر علاقوں میں مختلف قبیلوں کے درمیاں چھوٹے چھوٹے مسائل پر اُٹھنے والے اختلافات کو دیکھیں اور سب سے بڑھ کریہ کہ ملک کی 425 سیاسی جماعتوں پر غور کریں آخر دو یا تیں سیاسی جماعتوں کی جگہ 425 سیاسی جماعتوں کی ضرورت کیوں پیش آئی جن پاکستانی شہریوں کی عمریں 60سالوں سے اوپر ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں 1956یا 1967کا سال جنکو یاد ہے وہ اس بات سے باخبر ہیں کہ 1950اور 1960کے عشروں میں پاکستان کی سوسایئٹی مضبوط اور توانا سوسایئٹی تھی مساجد اور امام بارگاہوں میں پولیس یا فوجی پہرے کے بغیر عبادت ہوا کرتی تھی مختلف مسالک کے لوگ ایک دوسرے کے علماء کو سُنتے تھے ان کا ادب اور احترام کرتے تھے مختلف سیاسی جماعتوں کے لوگ ایک دوسرے کا ادب اور احترام کرتے تھے اسمبیلوں میں ادبی چٹکلے ہوتے تھے اشعار کے پیرائے میں ایک دوسرے پر تنقید ہوتی تھی قوانین کے حوالے دیکر بات کی جاتی تھی اختلاف رائے کو برداشت کیا جاتا تھا 1971کے بعد صورت حال میں تبدیلی آگئی شاید دشمن نے مشرقی بازو کو توڑ کر الگ کرنے کے بعد مغربی بازو کار خ کر لیا دُشمن کا نام لیا جائے تو ایک موثر طبقہ اس کو نظریہ سازش قرار دیکر مسترد کرتاہے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہر بات میں سازش نہ ڈھونڈو اپنا عیب دوسروں پر ڈالنے کی کوشش نہ کرو یہ فیشن ایبل بات ہے مگر اپنا عیب ڈھونڈتے ہوئے اگر درمیاں میں دشمن کاہاتھ نظر آئے تو کیا ہم اُس ہاتھ کو توڑنہ دیں میرے گریباں میں دشمن کا ہاتھ کیسے پہنچا؟کیا اس پر غور نہ کریں؟دوباتیں خاص طور پر سوچنے اور غور کرنے کے لائق ہیں پہلی بات یہ ہے کہ 1947میں جس قوم نے پاکستان بنایا،1948اور1965کی جنگوں میں جس قوم نے دشمن کو شکست دی وہ قوم کدھر گئی؟قوم کی وحدت اوریک جہتی کو کیا ہوا ؟قومی غیرت اور ہمت کدھر گئی؟دوسری اہم بات یہ ہے کہ دشمن ملک کے اندر آزادی کی 23تحریکیں چل رہی ہیں مگر دشمن ملک کی اس کمزوری کودکھانے کے لئے ٹیلی وژن ،اخبارات ،ریڈیو اور دیگر ذرائع ابلاغ پر آزادی کی ان تحریکوں کا چرچا نہیں ہوتا پاکستان میں کسی قوم پر ست ،فرقہ پرسٹ لیڈر کو چھینک بھی آئے تو خبر بنتی ہے اور عالمی میڈیا پر اُس کو بے حد پذیرائی دی جاتی ہے شناخت کا مسئلہ پیداکیا جاتا ہے آپ کو پاکستان سے باہر جانے کا موقع ملے یا بیرون ملک سے کوئی مہمان آجائے تب آپ کو پتہ لگتا ہے کہ شناخت کابڑا مسئلہ ہے باہر کے لوگوں نے اخبارات اور الیکڑنک میڈیا سے ہماری کمزوریوں کو پکڑلیا ہے یہی وجہ ؂ہے کہ چین اور روس میں سوشل میڈیا پر پابندیاں لگائی گئی ہیں بیرونی نشریاتی اداروں کو کھلی چھوٹ نہیں دی گئی ایران اور سعودی عرب میں اس حوالے سے سخت قوانین نافذ ہیں یہ پاکستان کی شناخت اور ساکھ کا مسئلہ ہے اس لئے پاکستان میں بھی مساجد ،مدارس ،کالجوں اور سکولوں کی سطح پر آگاہی پھیلاکر قومی یک جہتی کیلئے سب کوایک قوم ہونے کا احساس دلانے کی ضرورت ہے اور یہ وقت کا تقاضا بھی ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
582

داد بیداد ….. ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ ….. یونیسکو سے اخراج

Posted on

امریکہ نے اقوام متحدہ کے سکرٹری جنرل کو آگاہ کر دیا ہے کہ وہ یونیسکو کی رکنیت واپس کرنا چاہتا ہے امریکی محکمہ خارجہ نے اقوام متحدہ کو خط لکھا ہے خط میں بتایا گیا کہ امریکی حکومت اپنے ملک اور عوام کے مفاد میں عالمی تنظیم کے ذیلی ادارہ UNESCO کی رکنیت واپس کرنا چاہتا ہے وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ سال بہ سال اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ UNESCOمیں چندہ دینا، وسائل فراہم کرنا امریکہ کے لئے ممکن نہیں رہا اس لئے امریکہ UNESCOسے نکلنے کا خواہشمند ہے یہ خبر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں آگئی ہے تاہم پاکستانی اخبارات نے خبر کو زیادہ اہمیت نہیں دی ایرانی صدر احمدی نژاد اقتدار میں ہوتے یا لیبیا کے رہنما معمر قذافی زندہ ہوتے تو اس خبر کی خوب خبر لیتے اقوام متحدہ میں اس وقت کوئی جاندار آواز ایسی نہیں ہے جو امریکہ کو جواب دے سکے لے دے کے روسی صدر ولاد یمیرپیوٹن رہ گئے ہیں امید کی جانی چاہیے کہ صدر پیوٹن کی طرف سے مناسب ردّ عمل سامنے آئے گا 2002 ؁ ء میں عراق پر حملے کیلئے امریکہ نے سیکورٹی کونسل کو استعمال کیا تو روسی صدر نے یاد دلا یا تھا کہ امریکہ نے اقوامتحدہ کے واجبات ادا نہیں کئے یہ ملک ناد ھندہ ہے اس کی رکنیت ختم کر کے اس کو سکیورٹی کونسل کی سیٹ سے الگ کیا جائے ریکارڈ کی چھان بین ہوئی تو امریکہ نے 1986 ؁ ء کے بعد اقوام متحدہ کے واجبات ادا نہیں کئے تھے ناد ھندہ ہونے کا لیبل لگ گیا دوڑ دھوپ شروع ہوئی نصف واجبات اد ا کرکے امریکہ نے اپنی سیٹ بچالی مگر 2017 ؁ ء میں حالات بہت بد ل گئے ہیں اب اگر صدر پیوٹن نے سخت موقف اپنایا تو امریکہ کے لئے سکیورٹی کونسل کی سیٹ اور ویٹو پاور کو بچانا مشکل ہو جائے گا یونیسکو (UNESCO)اقوام متحدہ کا وہ معتبر ادارہ ہے جوممبر ملکوں میں تعلیمی اور سائنسی ترقی کے مختلف پروگراموں پر عملد رآمد کے لئے فنڈ اور سہولیات فراہم کرتا ہے خاص طور پر افریقہ اور ایشیا کے غریب ممالک میں اس طرح کے پروگراموں کی ضرورت ہے امریکہ کے موجودہ صدر نے ری پبلکن پارٹی کی انتخابی مہم میں دو باتوں پر زور دیا تھا ان کی پہلی بات یہ تھی کہ امریکہ نے غریب ملکوں کی مدد کا ٹھیکہ نہیں لیا ہم اپنے شہریوں کے ٹیکس کا پیسہ غریب ملکوں پر خرچ کرنے کا سلسلہ بند کرینگے انہوں نے دوسری اصولی بات یہ کہی تھی اور اس پر زور دیا تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ دوستی ،اتحاد اور تعاون جیسے الفاظ میری لغت میں نہیں ہیں ہم کسی بھی مسلمان ملک کو دوست اور اتحادی کا درجہ نہیں دینگے صدر منتخب ہونے کے بعد انہوں نے مسلمان ملکوں کے خلاف اپنے انتخابی وعدوں کو نبھانے کیلئے متعدد فیصلے کئے سعودی عرب ،پاکستان اور قطر کو کرارا جواب دیا اب امریکہ نے مسلمان ملکوں کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کی ہے اگلے 3 سالوں میں کسی مسلمان ملک کے ساتھ امریکہ کی دوستی نہیں رہیگی یونیسکو کے فنڈ سے استفادہ کرنے والے ممالک میں بھی کئی مسلمان ممالک شامل ہیں اس لئے یہ بات امریکی پالیسی کے مطابق بالکل درست ہے کہ کسی مسلمان ملک کی مدد کرنے والے ادارے کے ساتھ امریکہ کا کوئی تعلق نہیں ہوگا یہاں تک تو بات درست ہے اوریہ امریکہ کا حق ہے کہ وہ کس سے دوستی کر تا ہے کس کے ساتھ دشمنی کرتا ہے مگر بات اُس وقت گڑبڑ ہو جاتی ہے جب امریکہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کو مسلمان ملکوں کے خلاف استعمال کرتا ہے مسلمان ملکوں کے خلاف سلامتی کونسل میں اپنا ویٹو پاور استعمال کرتا ہے اب اصولی بات یہ ہے کہ اگر امریکہ اقوام متحدہ کے فلاحی ادارے یونیسکو سے استعفیٰ دینا چاہتا ہے اپنی رکنیت ختم کرنا چاہتا ہے تو اس کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے مستقل رکن اور ویٹو پاور کی حیثیت سے بھی خود کو خارج کرنا ہوگا کڑوا کڑوا تھو تھو ،میٹھا میٹھا ہپ ہپ والی پالیسی اب نہیں چلے گی کذشتہ 40 سالوں کے اندر امریکہ میں ری پبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹیوں کی 10 حکومتوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے کندھے پر بندوق رکھ کر 9 اسلامی ممالک پر حملے کئے ان میں سے 3 ممالک کو فتح کر کے غلام بنا لیا 6 ممالک ابھی تک امریکی حملوں کی زد میں ہیں ہمیں موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اس بات پر داد دینی چاہیے کہ انہوں نے امریکہ کی خفیہ پالیسی کو اعلانیہ پالیسی میں بد ل دیا ہے عراق،لیبیا اور افغانستا ن کو غلام بنا کر اپنی نو آبادی میں بدلنے کے بعد اب امریکہ کی نظر شام ،یمن ،سعودی عرب ،قطر ،ایران اور پاکستان پر ہے ان میں سے ہر ملک اپنے مخصوص حالات ،مخصوص جغرافیہ اور منفرد خصوصیات کی وجہ سے امریکہ کے نشانے پر ہے اگر UNESCOسے نکلنے کے بعد امریکہ پر سلامتی کونسل سے نکلنے کیلئے دباؤ نہیں ڈالا گیا تو امریکہ اقوام متحدہ کوایک بار پھر اسلامی ملکوں پر حملوں کیلئے کندھا دینے پر مجبور کرے گا اس لئے اب اسلامی ملکوں کو روس کے تعاون سے امریکہ کے خلاف جارحانہ سفارت کاری سے کام لینا چاہیے ورنہ یہ موقع بھی ہا تھ نکل جائے گا

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
510

صدا بصحرا ……… ؔ لڑا ئی چین اور امریکہ کی ہے ……..ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Posted on

شاعر نے کہا ؂ سرآئینہ مراعکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے
میں خیال ہو ں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
پاکستان میں اقتدار ، دولت اورا ختیار کی جو لڑائی ہے یہ کسی زمانے میں سویت یونین اور امریکہ کی لڑائی تھی موجو دہ حالات میں یہ چین اور امریکہ کی لڑائی ہے ذہنی کوفت ، جسمانی تکلیف ہمارے حصے میںآتی ہے جان و مال کا خسارہ ہمارا ہے معیشت کا نقصان ہمارا ہے سیاسی افر اتفر ی ہمارے حصے میں آئی ہے اور بدامنی کا سیلا ب ہمارا مقدر بن چکا ہے یہ لڑائی ہماری اپنی نہیں اخبارات میں امریکی وزیر خارجہ کا بیان شہ سر خیوں میں شائع ہوا ہے کہ چائنا پاکستان اکنا مک کو ریڈور (CPEC) پر ہمیں اعتراض ہے یہ گلگت بلتستان سے گذرتا ہے جو بھارت اور پاکستان کے درمیان متنازعہ علاقہ ہے امریکی وزیر خارجہ نے یہ بیان سینیٹ کی خارجہ کمیٹی میں دیا جو امریکہ کا اعلیٰ پالیسی ساز ادارہ ہے 28 جولائی کو سا بق وزیر اعظم کی حکومت کے جانے کے ساتھ (CPEC) سی پیک پر ہونے والے سارے کام روک دیے گئے پلاننگ کمیشن میں سی پیک کا شعبہ ایک بھی میٹنگ نہ کر سکا دونوں طرف سے آمد ورفت بھی رک گئی وفود کا تبادلہ بھی رک گیا پنجاب حکومت کے ساتھ چائنا کی کمپنیوں کے دوچار منصوبے رہ گئے ہیں جہاں چینیوں کا آنا جانارہتا ہے اگر چہ سی پیک کی گرما گرمی اور گرم جوشی دم توڑ گئی ہے اندرون خانہ سی پیک کے حوالے سے امریکہ کی ناراضگی کو دور کرنے کے لئے متعددیقین دہانیاں کرائی گئی ہیں مگر امریکہ ہر حال میں چین کو پاکستان سے نکالنا چاہتا ہے فنی اور تکنیکی طورپر امریکہ نے مشرقی اور مغربی روٹ کا مسئلہ اُٹھا یا سی پیک کے خلاف سیاسی اور عوامی ردعمل اُٹھا یا خیبر پختونخوا سے سی پیک کی مخالفت میں آواز اُٹھا ئی گئی امریکہ نے چینی انجینئر وں پر حملوں کے لئے کئی تنظیموں کو فنڈنگ کی سابق افغان صدرحامد کرزی نے ثبوتوں کے ساتھ یہ بات کہی ہے کہ داعش کو امریکہ فنڈنگ کرتا ہے داعش کے جنگجو امریکی اڈے اور امریکی جہاز استعمال کرتے ہیں یہ گھر کے اندر سے آنے والی گواہی ہے پاکستان میں حکومت کی تبدیلی سے سی پیک کا پورا عمل رُک گیا ہے مگر امریکی حکام کو پھر بھی تسلی نہیں ہوئی اب امریکہ کی نظر دو امور پر ہے 2018 ؁ء کے انتخابات نہ ہوں تو امریکہ کی تسلی ہو جائیگی الیکشن کو ملتوی کر کے امریکہ اپنی مرضی کی حکومت لا ئے گا نا ئیجر یا ،مصر اور پاکستان میں پہلے بھی یہ عمل دہر ایا جا چکا ہے امریکی پالیسی میں اس کا نام ’’ انتقال اقتدار ‘‘ ہے اس عمل میں اقتدار منتقل نہیں ہوتا بلکہ اقتدار مرجاتا ہے آزادی دم توڑ دیتی ہے غلامی کے سایے لمبے ہوجاتے ہیں اور جہالت کی تاریکی چھا جاتی ہے پاکستان میں ایسی فضا امریکہ کور اس آتی ہے ایسی ہی تاریک رات تھی جب امریکہ نے افغانستان کی خانہ جنگی میں پاکستان سے کام لیا تھا اور جواب میں دہشت گردی درآمد کروائی تھی 1978 ؁ء میں آنے والی دہشت گر دی 2017 ؁ء میں بھی ختم نہیں ہوئی دوسری بات جس پر امر یکہ کی گہری نظر ہے وہ گوادر کی بند ر گاہ ہے اس بند ر گاہ پر چینی جہاز کا لنگر انداز ہو نا امریکہ کے لئے گو یا موت کا پیغام ہے چینی حکومت کی پالیسی ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ دشمن کو تھکا دیا جائے امریکہ اور بھارت کو تھکا دینے کے لئے چین خاموشی اختیار کرتا ہے تاہم سی پیک کے معاملے میں چین نے خاموشی اختیار نہیں کی چینی وزارت خارجہ نے امریکی دعوے کو مسترد کیا ہے اور جوابی بیان میں کہا ہے کہ سی پیک ون بیلٹ ون روڈ کا حصہ ہے جو مختصر اًOBOR کہلاتا ہے اس منصو بے کو اقوام متحد ہ سمیت 70 ممالک اور بین لاقوامی اداروں کا تعاؤں حاصل ہے اس پر بیجنگ نے اقوام متحدہ کے ساتھ بھی معا ہد ہ کیا ہے سلامتی کونسل کے ساتھ بھی سمجھو تہ کیا ہے کشمیر کے مسئلے پر چین کا موقف پہلے ہی سے بہت واضح ہے اس موقف کے ساتھ سی پیک کا کوئی ٹکراؤ نہیں اور سی پیک کسی تیسرے فریق کو نقصان پہنچا نے کے لئے ہر گز نہیں لا یا گیا پاکستان نے بھی سی پیک کے حوالے سے امریکی حکومت کے موقف کو مستر د کیا ہے ایک بیان میں پاکستان کے دفتر خارجہ نے امریکہ پر زور دیا ہے کہ سی پیک کے حوالے سے سوال اُٹھا نے کی جگہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالی کانوٹس لیا جائے CPEC معاشی ترقی کا جامع منصو بہ ہے اور یہ پاک چین دوستی کی دیر ینہ روایات کا تسلسل ہے اس میں کسی تیسرے فریق کا اعتراض قابل قبول نہیں ہوگا خدائی خدمت گار تحریک کے بانی خان عبد الغفار خان نے 1985 ؁ء میں کہا تھا کہ سویت یونین کے خلاف سازش کرنیوالے افغانستان میں امریکہ کو راستہ دے رہے ہیں یہ ڈالروں کی جنگ ہے اس جنگ میں سویت یونین کو شکست ہوئی تو نقصان مسلمانوں اور پختونو ں کا ہوگا آج یہ بات سوفیصد درست ثابت ہوئی ہے افغانستان میں قدم جما نے کے بعد امریکہ نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں اپنی مداخلت کا دائر ہ اتنا وسیع کر دیا ہے کہ خیبر ایجنسی کو ضلع بننے نہیں دیتا وزیر،محسود،مہمند،آفریدی،شنواری اور دیگر قبائل کوصوبائی اسمبلی میں نما ئندگی دینے پر اعتراض کرتا ہے چین کے ساتھ اشتراک اور تعاؤن کے ذریعے شاہر اہیں تعمیر کر نے کی مخالفت کرتا ہے یہاں تک کہ ہمیں وزیراعظم بدلنے کا حکم دیتا ہے یہ لڑائی چین امریکہ کی ہے جبکہ اس کا ایند ھن ہمارے ملک کے لوگ ہیں

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
186