Chitral Times

داد بیداد ………سابقہ حکومت…………ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

ایک واہمہ سا ہے جو سینہ بہ سینہ ہم تک پہنچا ہے کہتے ہیں کہ کسی کی غیبت کی جارہی ہو تو اُس کے کان گرم ہوجاتے ہیں اگر یہ واہمہ سچ مُچ درست ہے تو پھر ’’ سابقہ حکومت ‘‘ کے کانوں کو ایک لمحے کے لئے بھی ٹھنڈک نصیب نہیں ہوگی گذشتہ 40سالوں سے ہر وزیر ، ہر لیڈر، ہر وزیر اعظم ، ہروزیر اعلیٰ اور ہر گورنر یہی کہتا ہے کہ سابقہ حکومتوں نے ملک کا بیڑہ غرق کردیا قوم کا ستیا ناس کردیا دانیال عزیز اور شیخ رشید کے بیانات پڑھ لیں شاہ محمود قریشی ، پرویز خٹک ، امیر مقام اور مولانا فضل الرحمن کی تقریریں سن لیجئے سراج الحق ، شہباز شریف اور محمود خان اچکزئی کے بیانات پر غور فرمائیے میرے پاس ملک کے 113لیڈروں کے دو ہزار تازہ بیانات ہیں جن میں سابقہ حکومتوں کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے اور سابقہ حکومتیں وہی ہیں جن میں یہ سارے لیڈر وزارتوں پر براجماں تھے اور ’’ موجودہ حکومت‘‘ کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے میرے ریکارڈ میں 88لیڈروں کے دو بیانات ہیں ایک بیان میں وہ پیپلز پارٹی کی تعریف کرتے ہیں دوسرے بیان میں مسلم لیگ کی خوبیاں بیان کرتے ہیں ایک بیان میں انہوں نے جنرل ضیاء الحق یا پرویز مشرف کو قوم کا نجات دہندہ ثابت کیا ہے دوسرے بیان میں ان کو ڈکٹیٹر اور تمام مسائل کا ذمہ دار قرار دیا ہے ’’ جنابِ شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی‘‘ 5جولائی 1977ء کو ہماری ٹیم کارکن صحافیوں پر مشتمل تھی رات 12بجے تک اخبار کے دفتر میں گذر جاتی تھی اس رات 12بجے تک شہ سرخی نہیں ملی جب شہ سرخی ملی تو پتہ چلا کہ ادارتی صفحے پر بھٹو کو تیسری دنیا کا عظیم لیڈر اور فخر ایشیاء ثابت کرنے پر زور قلم صرف کیا گیا ہے حالانکہ صبح کا سورج مرد مومن مرد حق ضیاء الحق کا نام لیکر طلوع ہونے والا تھا چنانچہ 5جولائی کے بعض اخبارات میں اداریہ والا صفحہ سفید کاغذ کی صورت میں شائع ہوا بعض اخبارات نے راتوں رات اپنا قبلہ درست کرلیا اور نیا اداریہ شائع کیا ایک ہی قومی اخبار ایسا تھا جس کا ادارتی صفحہ کسی تبدیلی کے بغیر ہو بہو چھپ کر آیاچیف ایڈیٹر نے اگلے روز ڈیسک والوں کو چائے پلائی اور داد بھی دی، اس اخبار میں بھٹو اور پیپلز پارٹی کے لئے ’’موجودہ حکومت‘‘ کے الفاظ استعمال کئے گئے تھے جو 5جولائی کے دن بھٹو کو مری میں نظر بندی کرنے کے بعد آنے والی حکومت پر حرف بحرف درست لگتے تھے جو تعریف 4جولائی والی موجودہ حکومت کی ہورہی تھی وہی تعریف 5جولائی والی ’’ موجودہ حکومت ‘‘ کے لئے بھی قابل قبول تھی تحقیق سے ثابت ہوا کہ چیف ایڈیٹر نے 4دن پہلے کارکن صحافیوں کو زبانی بتا دیا تھا کہ فخر ایشاء کا نام لینا بند کرو پیپلز پارٹی کا نام لینا بند کردو زمین آسمان کے قلابے ملاکر تعریف کرنی ہو تو ’’ موجودہ حکومت‘‘ لکھو یہ سدا بہار ترکیب ہے موجودہ حکومت نہ رہی تب بھی کام آئے گی اور شرمندگی سے بچائے گی اس کا نام ہے ’’ نسخہ ہائے وفا بنام چمچہ گان قدیم‘‘ گذشتہ سال سلطنت شریفیہ کی جگہ خلافت عباسیہ نے لے لی تو بعض اخبارات کو باقاعدہ اپنا قبلہ تبدیل کرنا پڑا تاہم دو چار اخبارات ایسے بھی ہیں جنہیں کوئی خاص فرق نہیں پڑا یہ وہی ترکیب استعمال کرتے ہیں سیاسی لیڈروں میں مجھے شیخ رشید اور امیر مقام پسند ہیں دونوں کی یہ عادت اچھی ہے کہ سابقہ حکومت کی برائیاں بیان کرتے وقت ان کو پسینہ آجاتا ہے اور بقیہ بیان پسینہ پونچھنے کے بعد جاری رکھتے ہیں یہ ضمیر کے زندہ ہونے کی نشانی ہے ورنہ ایسے لیڈروں کی کمی نہیں جو ہر سابقہ حکومت کے حواریوں میں شامل ہوکر فوائدسمیٹتے رہے اور ’’موجودہ حکومت‘‘ میں شامل ہوتے ہی اپنی عینک ایسی تبدیل کی کہ سارے کیڑے سابقہ حکومت میں نظر آنے لگے ہمارے دوست سید شمس النظر شاہ فاطمی نے ایسے لیڈروں کے لئے ’’موجودہ حکومت‘‘ کی طرح ایک سدا بہار سوال تیا ر کرلیا ہے سوال یہ ہے کہ ’’ وہ کونسی سابقہ حکومت تھی جس میں تم حصہ دار نہیں تھے؟‘‘ یہ سکہ بند سوال ہر ایسے لیڈر سے با آسانی پوچھا جاسکتا ہے جو سارے مسائل کا الزام سابقہ حکومت پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دیتا ہے ایسے لیڈروں کے لئے مرزا غالب کی غزل کا یہ شعر بھی برمحل لگتا ہے
کہاں میخانے کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , ,
4403

داد بیداد ………رُکن اسمبلی کا اصل کام ……… ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ؔ

Posted on

سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجاز افضل نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران اپنے تاثرات میں کہا ہے کہ ارکان اسمبلی کا اصل کام قانون سازی اور پالیسی ہے گلی محلوں میں نالیوں کی پختگی ،سڑک اور پل بنا نا ارکان اسمبلی کا کام نہیں اگر چہ جج کا تبصرہ کسی حکم کا درجہ نہیں رکھتا تاہم اخبار نویس کے تجز ئیے اور سیاسی لیڈر کے بیان سے کئی گنا زیادہ اہمیت رکھتا ہے جسٹس اعجاز افضل کا کردار مشرف دور میں عدلیہ کی بحالی کی تحریک میں نمایاں رہا ہے انہوں نے حکومت کاساتھ دینے کے بجائے ججوں کا ساتھ دیا وکلا ء کا ساتھ دیا جن لوگوں کی عمریں 1970 ؁ء کے انتخابات کے سال 15 برس سے زیادہ تھیں وہ لوگ جانتے ہیں کہ اس زمانے میں اراکین اسمبلی میو نسپل کمیٹی کے دفتر میں بیٹھ کر 5 لاکھ روپے اور 6 لاکھ روپے کی چھوٹی چھوٹی سکیموں کے ٹینڈر نہیں کرواتے تھے سی اینڈ ڈبلیو کے دفتر میں جا کر کو ٹیشن نہیں کرتے تھے ڈپٹی کمشنر اور ایس پی کے کے دفتروں کوطواف نہیں کرتے تھے جن لوگوں نے پشاور کے ارباب نور محمد خان ، سیف الرحمن کیانی ، حیات محمد خان شیر پاؤ کا دور دیکھا تھا ان کو یا د ہوگا کہ اُس دور میں سرکاری حکام ارکان پارلیمنٹ کی کتنی عزت کرتے تھے ؟ وجہ یہ تھی کہ ارکان پارلیمنٹ کا ذاتی مفاد یا کاروبار رکارسرکاری افیسروں کے رحم و کرم پر نہیں ہوتا تھا اُن کی کمزوری سرکاری حکام کے قدموں میں نہیں ہوتی تھی چارسدہ کے حاجی شیر دل خان اسمبلی کے ممبر تھے کھدر کا کپڑا پہنتے تھے مگر رعب داب میں بڑے بڑے افیسروں کومات دیتے تھے اس زمانے میں چارسد ہ تحصیل ہوا کرتی تھی عبدا اللہ صاحب چار سدہ کے اسسٹنٹ کمشنر تھے اور شیخ بمبار کہلاتے تھے خالد منصور پشاور کے ڈپٹی کمشنر تھے ایسے ایسے افسران حاجی شیر دل خان کے گھر پر حاضری دیکر اُن سے رہنما ئی حاصل کرتے تھے کیو نکہ نالیوں کی پختگی میں ارکان اسمبلی کا کوئی حصہ نہیں تھا ارکان اسمبلی مالی بدعنوانیوں میں ملوث نہیں ہوتے تھے اتالیق جعفر علی شاہ چترال سے قومی اسمبلی کے ممبر تھے وہ ڈپٹی کمشنر سے ملنے نہیں جاتے تھے بلکہ ڈپٹی کمشنر اُن سے ملنے آتا تھا وجہ یہ تھی کہ وہ پالیسی دینے والے تھے قانون سازی میں حصہ لینے والے تھے ٹینڈر اور کوٹیشن کھولنے والے نہیں تھے جولائی 1977 ؁ء میں عزت والے ارکان اسمبلی کی آخر ی اسمبلی ٹوٹ گئی اور آئین معطل ہوا 8 سال بعد 1985 ؁ء میں غیر جماعتی انتخابات ہوئے اسمبلی کے اندر مسلم لیگ بنائی گئی مسلم لیگ میںآنے والوں کو 50 لاکھ روپے کے فنڈ دید یے گئے پھر ہر حکومت نے اس میں اضافہ کیا اب رکن اسمبلی کو 10 کروڑ روپے کا فنڈ ملتا ہے وہ ٹینڈر کھو لتا ہے کو ٹیشن کھولتا ہے سکیمیں تقسیم کرتا ہے اس کا درجہ قانون سازی کے درجے سے کم تر ہو کر سکیل 14 کے سب انجینئر اور سکیل 17 کے اسسٹنٹ ڈائر یکٹر یا سکیل 16 کے تحصیل میو نسپل افیسر کے مساوی رہ گیا ہے اب رکن اسمبلی کے مجبوری ہے کہ وہ ڈپٹی کمشنر کو سلام کر ے ایس پی کی منت سماجت کرے ایگز یکٹیو انجینئر کے دفتر کا بار بار طواف کرے گاؤ ں ، گلی اور محلہ کی سطح پر چھوٹے چھوٹے مسائل میں اُلجھنا بھی اس کی مجبوری ہے اس لئے رکن اسمبلی کی وہ عزت نہیں رہی جو 1970 ؁ء کے عشرے میں تھی سینئر صحافی اور وکلاء اس بات پر اکثر بحث کرتے ہیں ارباب فکر و دانش کا ایک طبقہ کہتا ہے کہ جنرل ضیا ء لحق نے ارکان اسمبلی کو ترقیاتی سکیموں میں حصہ دے کر ان کی عزت میں اضافہ کیا لوگ ان کی محتا ج ہوگئے اب وہ سکیمیں تقسیم کرتے ہیں اس لئے ان کی عزت بڑھ گئی ہے احباب کا ایک حلقہ ایسا بھی ہے جو اس کے برعکس رائے رکھتا ہے اس طبقے کا خیال یہ ہے کہ جنرل ضیا ء الحق نے سیا ستدانوں کو بد نام کر نے کے لئے ان کو پیسے دےئے فنڈ دئیے ترقیاتی سکیموں میں حصہ دیا اس کا فائد ہ سیاستدانوں کو نہیں ہوا بلکہ اسٹبلشمنٹ کو فائد ہ ہوا پہلے کرپشن کا الزام صرف بیوروکریسی پر لگتا تھا اب کرپشن کا الزام پہلے سیاستدانوں پر لگتا ہے سیاستدانوں کوپکڑنے کے بعد بیوروکریسی کی باری آتی ہے جنرل ضیا نے جس طرح ، علما ء ، مساجد اور مدارس کو بدنام کیا اس طرح انہوں نے سیاستدانوں اور ارکان پارلیمنٹ کو بھی داعذار کر دیا اب یہ داغ کبھی نہیں دُھلے گا مر زا غالب کا لاجواب شعر ہے
بھا گے تھے بہت سو اس کی سزا ہے یہ
ہو کر اسیر دا بتے ہیں راہز ن کے پاؤں

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
1241

داد بیداد ….. ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ ….. یونیسکو سے اخراج

Posted on

امریکہ نے اقوام متحدہ کے سکرٹری جنرل کو آگاہ کر دیا ہے کہ وہ یونیسکو کی رکنیت واپس کرنا چاہتا ہے امریکی محکمہ خارجہ نے اقوام متحدہ کو خط لکھا ہے خط میں بتایا گیا کہ امریکی حکومت اپنے ملک اور عوام کے مفاد میں عالمی تنظیم کے ذیلی ادارہ UNESCO کی رکنیت واپس کرنا چاہتا ہے وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ سال بہ سال اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ UNESCOمیں چندہ دینا، وسائل فراہم کرنا امریکہ کے لئے ممکن نہیں رہا اس لئے امریکہ UNESCOسے نکلنے کا خواہشمند ہے یہ خبر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں آگئی ہے تاہم پاکستانی اخبارات نے خبر کو زیادہ اہمیت نہیں دی ایرانی صدر احمدی نژاد اقتدار میں ہوتے یا لیبیا کے رہنما معمر قذافی زندہ ہوتے تو اس خبر کی خوب خبر لیتے اقوام متحدہ میں اس وقت کوئی جاندار آواز ایسی نہیں ہے جو امریکہ کو جواب دے سکے لے دے کے روسی صدر ولاد یمیرپیوٹن رہ گئے ہیں امید کی جانی چاہیے کہ صدر پیوٹن کی طرف سے مناسب ردّ عمل سامنے آئے گا 2002 ؁ ء میں عراق پر حملے کیلئے امریکہ نے سیکورٹی کونسل کو استعمال کیا تو روسی صدر نے یاد دلا یا تھا کہ امریکہ نے اقوامتحدہ کے واجبات ادا نہیں کئے یہ ملک ناد ھندہ ہے اس کی رکنیت ختم کر کے اس کو سکیورٹی کونسل کی سیٹ سے الگ کیا جائے ریکارڈ کی چھان بین ہوئی تو امریکہ نے 1986 ؁ ء کے بعد اقوام متحدہ کے واجبات ادا نہیں کئے تھے ناد ھندہ ہونے کا لیبل لگ گیا دوڑ دھوپ شروع ہوئی نصف واجبات اد ا کرکے امریکہ نے اپنی سیٹ بچالی مگر 2017 ؁ ء میں حالات بہت بد ل گئے ہیں اب اگر صدر پیوٹن نے سخت موقف اپنایا تو امریکہ کے لئے سکیورٹی کونسل کی سیٹ اور ویٹو پاور کو بچانا مشکل ہو جائے گا یونیسکو (UNESCO)اقوام متحدہ کا وہ معتبر ادارہ ہے جوممبر ملکوں میں تعلیمی اور سائنسی ترقی کے مختلف پروگراموں پر عملد رآمد کے لئے فنڈ اور سہولیات فراہم کرتا ہے خاص طور پر افریقہ اور ایشیا کے غریب ممالک میں اس طرح کے پروگراموں کی ضرورت ہے امریکہ کے موجودہ صدر نے ری پبلکن پارٹی کی انتخابی مہم میں دو باتوں پر زور دیا تھا ان کی پہلی بات یہ تھی کہ امریکہ نے غریب ملکوں کی مدد کا ٹھیکہ نہیں لیا ہم اپنے شہریوں کے ٹیکس کا پیسہ غریب ملکوں پر خرچ کرنے کا سلسلہ بند کرینگے انہوں نے دوسری اصولی بات یہ کہی تھی اور اس پر زور دیا تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ دوستی ،اتحاد اور تعاون جیسے الفاظ میری لغت میں نہیں ہیں ہم کسی بھی مسلمان ملک کو دوست اور اتحادی کا درجہ نہیں دینگے صدر منتخب ہونے کے بعد انہوں نے مسلمان ملکوں کے خلاف اپنے انتخابی وعدوں کو نبھانے کیلئے متعدد فیصلے کئے سعودی عرب ،پاکستان اور قطر کو کرارا جواب دیا اب امریکہ نے مسلمان ملکوں کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کی ہے اگلے 3 سالوں میں کسی مسلمان ملک کے ساتھ امریکہ کی دوستی نہیں رہیگی یونیسکو کے فنڈ سے استفادہ کرنے والے ممالک میں بھی کئی مسلمان ممالک شامل ہیں اس لئے یہ بات امریکی پالیسی کے مطابق بالکل درست ہے کہ کسی مسلمان ملک کی مدد کرنے والے ادارے کے ساتھ امریکہ کا کوئی تعلق نہیں ہوگا یہاں تک تو بات درست ہے اوریہ امریکہ کا حق ہے کہ وہ کس سے دوستی کر تا ہے کس کے ساتھ دشمنی کرتا ہے مگر بات اُس وقت گڑبڑ ہو جاتی ہے جب امریکہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کو مسلمان ملکوں کے خلاف استعمال کرتا ہے مسلمان ملکوں کے خلاف سلامتی کونسل میں اپنا ویٹو پاور استعمال کرتا ہے اب اصولی بات یہ ہے کہ اگر امریکہ اقوام متحدہ کے فلاحی ادارے یونیسکو سے استعفیٰ دینا چاہتا ہے اپنی رکنیت ختم کرنا چاہتا ہے تو اس کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے مستقل رکن اور ویٹو پاور کی حیثیت سے بھی خود کو خارج کرنا ہوگا کڑوا کڑوا تھو تھو ،میٹھا میٹھا ہپ ہپ والی پالیسی اب نہیں چلے گی کذشتہ 40 سالوں کے اندر امریکہ میں ری پبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹیوں کی 10 حکومتوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے کندھے پر بندوق رکھ کر 9 اسلامی ممالک پر حملے کئے ان میں سے 3 ممالک کو فتح کر کے غلام بنا لیا 6 ممالک ابھی تک امریکی حملوں کی زد میں ہیں ہمیں موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اس بات پر داد دینی چاہیے کہ انہوں نے امریکہ کی خفیہ پالیسی کو اعلانیہ پالیسی میں بد ل دیا ہے عراق،لیبیا اور افغانستا ن کو غلام بنا کر اپنی نو آبادی میں بدلنے کے بعد اب امریکہ کی نظر شام ،یمن ،سعودی عرب ،قطر ،ایران اور پاکستان پر ہے ان میں سے ہر ملک اپنے مخصوص حالات ،مخصوص جغرافیہ اور منفرد خصوصیات کی وجہ سے امریکہ کے نشانے پر ہے اگر UNESCOسے نکلنے کے بعد امریکہ پر سلامتی کونسل سے نکلنے کیلئے دباؤ نہیں ڈالا گیا تو امریکہ اقوام متحدہ کوایک بار پھر اسلامی ملکوں پر حملوں کیلئے کندھا دینے پر مجبور کرے گا اس لئے اب اسلامی ملکوں کو روس کے تعاون سے امریکہ کے خلاف جارحانہ سفارت کاری سے کام لینا چاہیے ورنہ یہ موقع بھی ہا تھ نکل جائے گا

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
510

داد بیداد ……….. بنی گالہ کا طواف ………… ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

اخبارات میں دو طرح کی خبریں آرہی ہیں ایک خبر یہ ہے کہ خیبر پختونخوا سے کالجوں کے 7ہزار اساتذہ کرام نے بنی گالہ جاکر مطالبات کے حق میں دھرنا دیا دوسری خبر یہ ہے کہ نوشہرہ ،چارسدہ ،مردان وغیرہ میں کالجوں کے ہزاروں طلبہ نے اساتذہ کے دھرنے کے خلاف جلوس نکالا اور مطالبہ کیا کہ دھرنا دینے والوں کو گھر بھیجا جائے انہوں نے طلبہ کا قیمتی وقت ضائع کیا ہے اس ماہ کے شروع میں ٹیچنگ اسٹنٹ کیڈر کے 700ملازمین نے بنی گالہ جاکر دھرنا دیا تو عمران خان نے ان کو گریڈ سترہ میں مستقل کرنے کا حکم دے دیا اسمبلی میں ان کی مستقلی کا بل پیش ہوا تو حزب اختلاف کے سردار حسین بابک نے بل کا خیر مقدم کرتے ہوئے جملہ معترضہ میں شکوہ کیا کہ 2014 ؁ء میں ہم نے ٹیچنگ اسٹنٹ کیڈر کو مستقل کرنے کی تحریک پیش کی تو حکومتی پنچوں نے مخالفت کی تھی 2015 ؁ء میں اسمبلی کی سٹینڈ نگ کمیٹی میں یہ مسئلہ آیا تو حکومت نے پھر مخالفت کی اب بھی پشاور،مردان ،بنوں ،ڈی آی خان اور ایبٹ اباد میں مطالبات دہرائے گئے تو حکومت نے شدید الفاظ میں مطالبات کو رد کر دیا ہمیں بتا یا جائے کہ بنی گالہ طواف میں کونسا معجزانہ کام ہوا کہ حکومت فوراََ مان گئی؟ انہوں نے سوال اٹھا یا کیا یہ ریموٹ کنٹرول حکومت نہیں ہے ؟ اور حقیقت یہ ہے کہ اس سے پہلے بھی مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بنی گالہ میں عمران خان کے گھر پر دھرنا دے کر اپنے مطالبات منوائے اس میں ایک سہو لت ہے پنجاب پولیس آپ کے ساتھ دوستانہ ،مشفقانہ اور برادرانہ رویہ رکھتی ہے اسلام اباد کیپیٹل سٹی پولیس آپ کو سیلوٹ کرتی ہے درودیورار آپ کو راستہ دیتے ہیں ’’دھرنا‘‘جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد کی اختراع تھی اس کو عمران خا ن نے ڈی چوک میں چار چاند لگا کر دوبارہ متعارف کرایا اب مشکل یہ ہے کہ کنواں کھودنے والے کے سامنے کنواں آگیا ہے’’لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا ‘‘ مرزا غالب نے کہا
تھی جن سے توقع داد خستگی کی پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستہ تیع ستم نکلے
سردار حسین بابک کی پوری تقریر سیاسی تھی تاہم انہوں نے اسمبلی کے ایوان میں سیاسی تقریر کے اندر ایک اصولی بات بھی کہی ان کی اصولی بات یہ تھی کہ اگر مطالبات جائز تھے تو بنی گالہ طواف سے پہلے کیوں نہیں مانے گئے؟اگر مطالبات ناجائز تھے تو بنی گالہ طواف کے بعد کس طرح جائز ہوئے کیا طواف کوئے ملامت فرض اور واجب کا درجہ رکھتا ہے ؟ یا بقول غالب
پھر طواف کو ئے ملامت کو جائے ہے دل
پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے
حقیقت یہ ہے کہ ہماری حکومتوں کا رویہ عوام کے ساتھ ہمیشہ سے ایسا ہی رہا ہے ایک معقول مطالبے کو تین چار سالوں تک سردخانے میں ڈال دیا جاتا ہے یہاں تک کہ ہڑتال ،ریلی ،جلوس،لاٹھی چارج ،بھوک ہڑتال وغیرہ کی نوبت آتی ہے تب جاکر مطالبے کو تسلیم کیا جاتا ہے اور حکومت اس کا باقا عدہ کریڈیٹ لیتی ہے کہ ہم نے کارنامہ انجام دیا عمران خان نے جب دھرنا دیا تو اس کو تاریخ کا سب سے بڑا دھرنا کہا گیا پی ٹی آئی کے کارکنوں نے دھرنا دینے پر اتنا فخر کیا کہ گلی گلی اور محلہ محلہ اس کی شہرت پھیل گئی ،ایس ایچ او کے خلاف دھرنا ،مجسٹریٹ کے خلاف دھرنا،ہیڈ کلرک کے خلاف دھرنا یہاں تک کہ نوبت عمران خان کے خلاف دھرنے تک جا پہنچی ۔
سوشل میڈیا پر کالج اساتذہ نے اپنے دھرنے کی تصاویر بالکل اُسی طرح دی ہے جس طرح پی ٹی آئی کے کارکن 2014ء میں عمران خان کے دھرنے کی تصاویر دیا کرتے تھے نعرے بھی وہی انداز بھی وہی ہے اور طرز تخاطب بھی تقریباََ وہی ہے ان دھرنوں کا ایک ہی علاج ہے عمران خان کو اس پر ضرور غور کرنا چاہیے اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ خیبر پختونخوا کے اصل چیف ایگزیکٹیو جہانگیر ترین ہیں ان کو پشاور میں مستقل سکونت دی جائے وزیر بے قلمدان کا قلمدان دے کر پشاور میں حکومت کے کام ان کو سپرد کئے جائیں بنی گالہ جانے والے قافلے پشاور میں رہینگے اور صوبے کے مسائل صوبے کے اندر حل ہونگے پنجاب پولیس ہمارا مذاق نہیں اڑائیگی اسلام اباد کیپیٹل سٹی پولیس اور موٹروے پولیس کے سامنے ہمارے صوبے کا بھر م رہ جائے گا جو لوگ ہماری حکومت کو ریموٹ کنٹرول کا طعنہ دیتے نہیں تھکتے ان کی زبان بند ہوجائیگی سول بیورو کریسی میں جولوگ بنی گالہ کو اپنا قبلہ سمجھتے ہیں وہ اپنا قبلہ پشاور ہی میں ڈھونڈ نکا لینگے ورنہ بنی گالہ کے دروازے پر دھرنوں کا سلسلہ مزید تیز ہو جائے گا یونیورسٹی اساتذہ کا دھرنا ابھی باقی ہے این ٹی ایس اساتذہ بھی دھرنے کے موڈ میں بھرے بیٹھے ہیں ینگ ڈاکٹرز،کلرک برادری ،مزدور، بے روز گار نوجواں اور چھوٹے تاجر بھی بنی گالہ طواف کا سوچ رہے ہیں اگر سب نے سچ مچ بنی گالہ کا رخ کیا تو یہ کپتان کو مہنگا پڑے گا ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
416

صدابصحرا …….احتساب سب کا ……… ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

چیرمین نیب جسٹس جاوید اقبال نے پالیسی بیان دیتے ہو ئے کہا ہے کہ احتساب سب کا ہو گا یہ بہت خوبصورت اور با معنی جملہ ہے اور اتنی بار استعمال ہو اہے کہ اب اس کے معنی کھو گئے ہیں اور اس کی افادیت ختم ہو چکی ہے یادش بخیر !جنرل مشرف کے دور میں قومی احتساب بیور و بنا تو اس کا پہلا نعرہ یہی تھا ’’سب کا حتساب ہو گا میرے سوا‘‘ قومی احتساب کمیشن سے پہلے سیف الرحمن کی سربراہی میں احتساب کا ادارہ کام کر رہا تھا اس دور میں محمد نواز شریف وزیر اعظم تھے ان کا نعرہ بھی یہی تھا میرے سوا سب کا احتساب ہونا چاہیے مسلم لیگ (ن) کے پہلے دور حکومت میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے ججوں کی سنیارٹی اور ججوں کے لئے عمر کی حد تک مسئلہ اُٹھایا وزیر اعظم کو پیشی کے لئے بلایا شاہ صاحب کا مطالبہ یہ تھا کہ میرے سوا تمام ججوں کے لئے سنیارٹی کا اصول اور عمر کی حد مقرر ہونی چاہیے جنرل مشرف کے دور میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کا مسئلہ بھی یہی کہ قانون کا اطلاق میرے سوا سب پر ہو گا اور سچ پو چھے تو جنرل مشر ف کا مسئلہ بھی یہی تھا ’’میرے سوا‘‘ جس کا بھی احتساب ہو گا ٹھیک ہی ہو گا عمران خان کو پاکستان کی سیاست میں ’’مسٹر کلین ‘‘کانام دیاگیا قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد سب سے ذیادہ بے داغ شخصیت کہا گیا نہوں نے خیبر پختونخوا میں اپنی پارٹی کو حکومت بنائی حکومت نے احتسا ب کمیشن قائم کیا احتساب کمیشن نے کام شروع کیا تو کمیشن کو بتا یا گیا کہ آزادی کامشہور مقولہ یاد رکھو تمہاری آزادی میری ناک ک حد تک ہے تم ہاتھ پھیلا سکتے ہو مگر جب تمہار ہاتھ میری ناک کی حد ود میں داخل ہو گا تو تمہاری آزادی ختم ہو جائے گی اس وجہ سے چراغ تلے اندھیر ا کا مقولہ اردو میں اور’’انڈر دی نوز‘‘کا مقولہ انگریزی میں بولا جاتا ہے چنانچہ خیبر پختونخوا کا احتساب کمیشن دم توڑگیا اب اُس کے مزار پر لوگ منتین ماننے کے لئے جاتے ہیں پھول نچھاور کرتے ہیں اور چادر چڑ ھاتے ہیں فیض احمد فیضی نے بڑی پیاری بات کہی
تیری دہلیز پر سجا آئے
پھر تیری یاد پر چڑھا آئے
باندھ کر آرزوکے پلے میں
بنجر کی راکھ اور وصال کے پھول
مگر دوست اور احباب کا ایک وسیع حلقہ اس با ت پر مصر ہے کہ خیبر پختونخوا کا احتساب کمیشن مرا نہیں اس کو باقائدہ منصو بے سے شہید کیا گیا ہے یہ افغانستان میں ایک بڑے قصبے کے چھوٹے سے محلے کا قصہ ہے ایک شخص کا چچا شہید ہوا اُس نے مزار بنایا اور مجاور بن کے بیٹھ گیا جب آمدنی شروع ہوئی تو شہید کا بیٹا آیا اُس نے دعویٰ کیا شہید میرا باپ تھا تم مجاور بننے والے کون ہوتے ہو جھگڑا ہوا جرگہ نے شہید کے سگے بیٹے کو مجاور قرار دیا تو نکالے گئے مجاور کی غیر ت جاگی اُ س نے بھرے جرگے میں اعلان کیا کہ اگر میں نے اپنے باپ کو شہید کر کے اس سے بڑا مزار نہیں بنایا تو میرا نام پختون نہ رکھنا اگلے دن اس نے اپنے باپ کو قتل کرکے شہید کا مزار بنایا اور جرگہ کے اصول کے مطابق سگا بیٹا مجاور بن گیا ساغر صدیقی نے ایسے ہی شہید کا ذکر غزل کے شعر میں کیا ہے ؂
شہید نا ز کی تربت پہ حرتیں
بجھا سا اک دیا ہے دو سوگوار پھول
ہم نے کبھی کبھار جاتے ہیں خیبر پختونخوا کے احتساب کمیشن کے مزار پر دیا جلاتے ہیں پھول چڑھا تے ہیں مگر ہماری انتی ہمت نہیں ہوئی کہ ایک فریم مزار پر لگادیں فریم کے اندر جلی حروف میں لکھا ہو ’’احتساب سب کا ہوگا میرے سوا ‘‘احتساب کا عمل ہمارے ہاں نیا نہیں خاصا پرانا ہے فیلڈ مارشل ایوب خان نے بھی کسی خوب صورت نام سے احتساب کا عمل شروع کیا تھا انٹی کرپشن کے زبردست قوانین وضع کئے تھے 303 افسروں کو ملازمتوں سے فارغ کیا تھا اور بے شما رسیاستدانوں کو EBDO کے تحت سیاست میں آنے کے لئے نااہل قرار دیا تھا اُن کے احتساب کا مرکزی نکتہ یہی تھا کہ احتساب سب کا ہونا چاہیے صرف میرا اور میرے بچوں کا نہیں یعنی میرے سوا سب کا احتساب مجھے قبول ہے اس لئے کہتے ہیں شیر جنگل کا بادشاہ ہے چاہے انڈہ دے چاہے بچہ دے عدالت عظمی کا ایک مشہور فیصلہ آیا تھا یہ 2013 ء کی بات ہے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ریٹائرڈ لوگ دوبارہ سرکاری ملازمت یا نفع بخش عہدہ نہین لے سکتے اس حکم کے تحت 2013 ء میں یونیورسٹیوں سے سینکڑوں سینئر پروفیسروں کو نکال دیا گیا ایک پروفیسر نے عدالت سے رجو ع کیا کہ فلاں فلاں جرنیلوں اور ججوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد رجوع کیا کہ فلاں فلاں جگہوں پر نفع بخش سرکاری عہدے تنخواہ اور مراعات کے ساتھ حاصل کئے عدالت نے ابزرویشن دی کہ مذکورہ حکم کا اطلاق ججوں اور جرنیلوں پر نہیں ہوتا ہمارے ایک کارٹونسٹ دوست نے کارٹون بنایا ہے اس میں بہت بڑا بورڈ آویزاں ہے جس پر بڑے بڑے حروف میں لکھا ہے ’’احتساب سب کا ‘‘مگر نیچے چھوٹے حروف میں تحریر ہے ’’میرے سوا‘‘دور سے صرف بڑے حروف نظر آتے ہیں قریب آکر چشمہ لگا کر غور سے دیکھا جائے تو میرے سوا بمشکل نظر آتا ہے پروفیسر شمس النظر فاطمی فرماتے ہیں عقل کے اندھوں کو قریب جا کر بھی نظر نہیں آتا وہ بڑے حروف کے سحر میں گرفتا ر رہتے ہیں
رخت دل باندھ لو دل فگارو چلو
پھر ہمیں قتل ہو آئیں یارو چلو

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
277