Chitral Times

صدا بصحرا ……….یہ علاقہ غیر نہیں ہے…………..ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

فا ٹا کے حوالے سے دو اہم اقدامات کی خبریں اخبارات کی زینت بنی ہیں ۔قومی اسمبلی نے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کا دائرہ کار فاٹا تک وسعت دینے کا بل منظور کیا ہے۔اب سینیٹ سے بل پاس ہوگا اور صدر مملکت کے دستخط کے بعد اسے قانون کا درجہ حاصل ہوگا۔دوسرا اہم کام یہ ہے کہ پاک فوج کی اعلیٰ قیادت نے ٖفاٹا میں باقاعدہ کنٹونمنٹ بنا کر فوج کا گریزن مستقل طور پر فاٹا میں متعین کرنے کا اعلان کیا ہے۔دونوں اہم اقدامات ہیں۔اس وقت وطن عزیز کو اندرونی اور بیرونی محاذ پر کئی چیلنجوں کا سامنا ہے۔اور یہ چیلنج ملکی سلامتی کے حوالے سے ہیں۔فاٹا کے عوام نے گذشتہ 70سالوں میں وطن عزیز پاکستان کا آئین نہیں دیکھا۔ملکی قانون کی عملداری نہیں دیکھی۔200بااثر شخصیات کے ذاتی مفادات کو تحفظ دینے کیلئے انگریزوں کے بنائے ہوئے 1870کے کالے قانون فرنٹیرکرائمز ریگولیشن کے تحت مخصوص طبقے نے فاٹا کے ایک کروڑ عوام پر حکومت کی اور ملکی آبادی کے سب سے زیادہ غیور اورسب سے زیادہ بہادر عوام کو غلاموں کی طرح ایف۔سی۔آر کی زنجیروں میں بند کئے رکھا ۔جنوبی پنجاب ،سندھ یا بلوچستان کا کوئی سمگلر اگر قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو الزام فاٹا پر آتا ہے۔پشاور ،ڈی آئی خان یا راولپنڈی کا کوئی شہری گاڑیوں کی چوری،اغوا برائے تاوان یا منشیات کا دھندا کرتا ہے تو الزام فاٹا کے سرپرتھوپ دیا جاتا ہے۔اس کو ’’علاقہ غیر‘‘کا غلط نام دیا جاتا ہے۔علاقہ غیر اس علاقے کو کہتے ہیں جو تمہارا نہ ہو جو اپنا نہ ہو،جس کو آپ
اپنائیت(Ownership)دینے سے انکاری ہوں۔یہ کتنی ستم ظریفی ہے کہ آپ باڑہ،جمرود،کلایہ،لنڈی کوتل،خار،یکہ غنڈ،پاڑہ چنار،وانا اور میران شاہ کو علاقہ غیر کا نام دیتے ہیں۔ملکی قانون ،ملکی عدالت،سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کا دائرہ کار فاٹا تک وسیع ہوجائے تو ان کے لئے علاقہ غیر کی ترکیب استعمال نہیں ہوگی۔اب ان مقامات کو بھی پشاور،مردان،نوشہرہ،بنوں،ڈی آئی خان اور چارسدہ کی طرح اپنا شہر سمجھا جائے گا۔اب کوئی پولیس اہلکار یا اخبار نویس رپورٹ دیتے ہوئے کبھی نہیں لکھے گا کہ ملزمان نے علاقہ غیر میں پناہ لے رکھی ہے یا علاقہ غیر کی طرف فرار ہوگئے ہیں۔بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے اپریل 1948میں خیبر ایجنسی کا تاریخی دورہ کیا اپنے خطاب میں انہوں نے قبائل کو پاکستان کا ’’بازوئے شمشیر زن‘‘کا خطاب دیا۔1948کے جہاد کشمیر میں قبائل نے بابائے قوم کی پیشگوئی کو درست ثابت کیا۔

مہمند،وزیر،محسود،بنگش،آفریدی اور شنواری سمیت دیگر قبائل نے کشمیر کے بڑے حصے کو آزاد کرکے اکھنور کے پل پر قبضہ کیا تھا۔سیز فائر کے بعد قبائل کو واپس بلایا گیا۔آج قبائل کے مستقبل کی بات آتی ہے تو ملک کے اندر سے اس کے خلاف آوازیں اٹھتی ہیں۔قومی اسمبلی میں بھی مٹھی بھر عناصر نے قبائل کے خلاف ایف سی آر کے حق میں آواز اٹھائی مگر ناکام ہوئے۔پڑوس میں بھی اور سمندرپار بھی ایسی طاقتیں موجود ہیں جو قبائل کی محرومیوں سے مزید فوائد حاصل کرنا چاہتی ہیں۔امریکہ،افغانستان اور بھارت کے خفیہ ادارے فاٹا کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔اگر فاٹا میں عدالتیں آگئیں،پولیس کا نظام آیا،فوجی چھاؤنیاں قائم ہوئیں،ملکی قوانین کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھا دیا گیا تو پاکستان کے دشمنوں کی روزی روٹی بند ہوجائیگی ایف سی آر کے بل بوتے پر فاٹا کے عوام کو غلام رکھنے والے سب بے روزگار ہوجائینگے۔اگر 1978میں فاٹا کے علاقے بندوبستی علاقوں میں شامل ہوتے تو غیر ملکیوں کو فاٹا میں آکر دہشت گردوں کے لئے سرنگیں تعمیر کرنے،دہشت گردی کے اڈے قائم کرنے، عرب،چیچن،ازبک،افغان اور تاجک دہشت گردوں کو فاٹا میں ٹھکانے مہیا کرنے کی کبھی جرأ ت نہ ہوتی۔فرحت اللہ بابر،رستم شاہ مہمند اور شکیل درانی اس بات کے گواہ ہیں کہ 1978میںیورپ اور امریکہ کے سفارتی نمائندوں کیلئے اس وقت کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری یواے جی عیسانی اور سیکٹر کمانڈر بریگیڈئرمناظرنے جو بریفنگ تیار کی تھی اس میں پاک افغان سرحد کو سربمہر کرنے کی تجویز دی گئی تھی جسے عالمی طاقتوں نے مسترد کردیا۔اب حالات آہستہ آہستہ درست سمت کی طرف آرہے ہیں۔پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا کام آخری مراحل میں ہے۔قبائل علاقوں میں مستقل فوجی چھاؤنیوں کے قیام اور سول عدالتوں کی عملداری کے بعد ہم فخر سے کہ سکیں گے کہ یہ ’’علاقہ غیر‘‘نہیں ہے بلکہ اپنا وطن ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , ,
4614

صدا بصحرا ……… یقین اور بے یقینی کے بادل………..ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

ہر دو سال یا تین سال بعدوطن عزیز کے آسمان پر یقین کی جگہ بے یقینی کے بادل منڈلانے لگتے ہیں وطن عزیز ان ملکوں میں سے ہے جہاں آبادی کا 65فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کی عمریں 12کے درمیاں بتائی جاتی ہیں بے یقینی اور افراتفری کا سب سے زیادہ شکار یہی طبقہ ہوتا ہے ملک کا مستقبل بھی یہی طبقہ ہے قوم کی امیدوں کا محور بھی یہی طبقہ ہے پولیٹکل سائنس، جرنلزم اور انگریزی ادب میں ماسٹر یا ایم فل کرنے والے طالب علم بچے اور بچیاں جب اخبار کھولتی ہیں یا ٹیلی وژن چینل پر ٹاک شوز دیکھتی ہیں تو ان کو اپنے ملک سے اپنی قوم سے ، اپنے مستقبل سے مایوسی ہوتی ہے کیوں؟ اس کا جواب آسان بھی ہے اور مشکل بھی آسان اسلئے کہ سب کو پتہ ہے ملک کے 12ٹی وی چینل، 26ریڈیو چینل ، سوشل میڈیا کیساتھ ملکر مایوسی پھیلانے کا گھناؤنا کاروبار کرتے ہیں پروگراموں کے اینکر پرسن گلا پھاڑ پھاڑ کر پاکستان کو ناکام ریاست ثابت کرنے پر اپنا زور بیان صرف کرتے ہیں ملکی اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور یہ تاثر دیتے ہیں کہ پاکستان دو دن کا مہمان ہے یہ وہی تاثر ہے تو مہاتما گاندھی ، جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل نے اگست 1947ء میں دیا تھا 16اگست 1947ء کو کانگریس کے لیڈروں نے یہی کہا تھا کہ پاکستان چند دنوں کا مہمان ہے یہ ملک زیا دہ دیر زندہ نہیں رہے گا چنددنوں میں اکھنڈ بھارت کے ساتھ آملے گا سوشل میڈیا پر بھارت کے مسلمان شعراء کا ایسا کلام پھیلایا جارہا ہے جو گاندھی اور نہرو کے نقطہ نظر کی ترجمانی کرتا ہے ہماری نئی نسل کو یہ پیغام دیتا ہے کہ اکھنڈ بھارت کا خواب ہی ہماراخواب ہے اس پر کوئی قدغن نہیں کوئی پابند ی نہیں یہ پروپیگنڈا کسی قانون کی گرفت میں نہیں آتا کیونکہ قانون کا کوئی محافظ نہیں کوئی پوچھنے والا نہیں سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں سے جو نئی نسل تیا ر ہوکر آرہی ہے اس نسل کے سامنے کوئی منزل نہیں ان کے اساتذہ کے سامنے کوئی منزل نہیں مایوس استاد آگے جاکر مایوس نسل کی آبیاری کرتا ہوا نظر آرہا ہے ہر ایک نا انصافی اور ظلم کی دُہائی دیتا پھر رہا ہے اس طرح مایوسی اور بے یقینی پھیلتی ہے جس کا علاج کسی کے پاس نہیں منبر پر علماء کا وعظ بے یقینی اور مایوسی میں مزید اضافہ کرتا ہے جلسوں ، جلوسوں اور کارنر میٹنگوں یا پریس کانفرنسوں میں سیا سی لیڈروں کے بیانات بے یقینی اور مایوسی پھیلاتے ہیں کوئی ایسی تقریر سننے کو نہیں ملتی جو امید اور روشن مستقبل کی نوید سنائے ایسی تقریر کوئی نہیں کرتا ایک مثال سے اس بات کی وضاحت ہوسکتی ہے امریکہ میں صدارتی انتخابات 2016ء ،میں اختتام پذیر ہوئے ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار ہیلری کلنٹن شکست کھا گئے ری پبلکن پارٹی کے ڈونلڈ ٹرمپ جیت گئے ایک سال سے زیادہ عرصہ ہوا ڈیموکریٹک پارٹی یا ہیلری کلنٹن نے ڈونلڈ ٹرمپ یا امریکی فوج یا امریکی عدلیہ کے خلاف بیان نہیں دیاایک لفظ بھی نہیں کہا اخلاقیات اس کی اجازت نہیں دیتا امریکہ سب کا ہے امریکی صدر سب کا نمائندہ ہے امریکی فوج سب کی عزت اورشان ہے امریکی عدلیہ کو سب اپنا مان سمجھتے ہیں اور برابر عزت دیتے ہیں ہمارے لیڈروں کا رویہ ان کے رویے کے مقابلے میں یکسر مختلف اور بالکل اس کے الٹ یا برعکس ہے انتخابات کو کسی مسئلے کا حل بنانے کی جگہ نیا مسئلہ بنایا جاتا ہے انتخابات سے دو سال پہلے شور شرابا شروع ہوتا ہے اور انتخابات کے تین سال گزرنے تک شورشرابا ختم نہیں ہوتا اپنے ملک سے بے زاری ، اپنی قوم سے بے زاری ، اپنے ملکی اداروں سے بیزاری، اپنے ملک کے سسٹم سے بے زاری ختم نہیں ہوتی یہ بیزاری جاری رہتی ہے اور بے یقینی کے یہ بادل مایوسی کی بارش برسا برسا کر پوری قوم کو اپنی مستقبل سے مایوس کردیتے ہیں چین ، روس ، ایران اور سعودی عرب نے اس کا یہ حل نکالا ہے کہ سوشل میڈیا پر پابندی لگائی ہے ٹیلی وژن ، ریڈیو، اخبارات اورمحراب و منبر پر حکومت کا کنٹرول ہے اس لئے قوم کو ایک سمت مل جاتی ہے قوم کے سفر کا ایک رخ متعین ہوتا ہے پاکستان کو اس قانون کی ضرورت ہے اور اشد ضرورت ہے کیونکہ قوم اور ملک کا وقار سب سے مقدم ہے علامہ اقبال ؒ نے فرمایا
شاعر کی نوا ہو یا معنّی کا نَفَس ہو
جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
4052

صد ا بصحرا …….. چند اخباری سرخیاں………..ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

اخبارات میں خبروں کی سرخیاں اُن کی اہمیت کے اعتبار سے لگائی جاتی ہیں۔6کالمی سرخی کو شہ سرخی کہا جاتا ہے اس کے بعد درجہ بدرجہ دو کالمی اور ایک کالمی سرخی تک نوبت آتی ہے۔میرے سامنے تین اخبارات ہیں۔فرزند راولپنڈی شیخ رشید احمد کے بیان کو ایک اخبار نے دو کالمی سرخی کے ساتھ شائع کیا ہے۔ سرخی یوں لگائی ہے کہ ’’فوج اعتکاف اور عدلیہ حجاب میں ہے‘‘ آپ سے کیا پردہ شیخ صاحب کہنا چاہتے تھے کہ عدلیہ ’’عدت‘‘ گذار رہی ہے مگر ان کی زبان پھسل گئی اور عدت کی جگہ حجاب کا لفظ زبان پر آیا سیاستدانوں اور حکمرانوں کے لئے عدلیہ حجاب یا عدت میں ہوگی، عوام کے لئے پاکستانیوں کے لئے اور مقدمات کے مارے ہوئے غریبوں کے لئے عدلیہ عالم برزخ میں ہے۔ اس کے بعد قیامت کا آنا باقی ہے۔ البتہ فوج کے بارے میں شیخ صاحب نے جو کچھ فرمایا اس میں کلام نہیں آپ 1979ء سے فوج کے محرم راز ہیں۔ ایک اور تین کا لمی سرخی ہے یہ نواز شریف کا بیان ہے ’’ووٹ کے تقدس کو پامال نہیں ہونے دینگے‘‘۔پتہ نہیں موصوف خواب میں ہیں یا جاگے ہوئے ہیں یا بقولِ غالب ’’ ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے تھے خواب میں‘‘ ان کی معلومات میں اضافے کے لئے عرض ہے کہ ووٹ کا تقدس تو کب کا پامال ہوچکا ہے۔ 2013ء میں منتخب ہونے والا وزیر اعظم صرف 14بار پارلیمنٹ میں آیا خودکو اگلاوزیر اعظم ثابت کرنے والا دبنگ لیڈر صرف 5بار پارلمینٹ میں دیکھا گیا۔ ووٹ کے تقدس کا یہ عالم ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس اور وزیر اعظم سکرٹریٹ کے راز ہائے درون خانہ ڈان لیکس کے سمندر میں غرقاب ہوئے۔ سمندر کی موجوں سے پانامہ لیکس کا تحفہ نکل آیا۔ اس کو کھولا گیا تو اقامہ برآمد ہوا۔ وزیر اطلاعات کی قربانی دی گئی تو شیخ رشید نے سکہ بند تبصرہ کیا ’’ بکری کی قربانی درکار تھی انہوں بکرا ذبح کردیا‘‘ ووٹ کا تقدس بحال کرنا ہے تو ووٹ کے چکر سے باہر نکلو۔ ووٹ کا تقدس بحال ہوگا۔ تین کالمی سرخیوں میں ایک اور سرخی ہے اور یہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کا بیان ہے ’’ ملک امیر وں کے لئے نہیں بنا طبقاتی نظام نے مسائل پیدا کئے‘‘ ماشاء اللہ بہت اچھی بات ہے مگر بات ہی ہے اور صرف بات ہے۔ اگر ملک امیروں کے لئے نہیں بناتو یقیناََ اس ملک کی اسمبلی ، اس کے اقتدار اور اس کی حکومت میں غریبوں کا بھی حصہ ہوگا۔ صوبائی اسمبلی کا ممبر کھرپ پتی تاجر، قومی اسمبلی کا ممبر کھرپ پتی جاگیردار، ضلع ناظم کھرپ پتی صنعت کار، پارٹی لیڈر کھرپ پتی سرمایہ دار، دوسرے تمام عہدوں پر جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا قبضہ دیکھ کر ہم مجبوراََ کہتے ہیں ملک امیروں کے لئے بنا ہے۔ غریب سے تو پارٹی لیڈ ر ہاتھ ملانا بھی گوارا نہیں کرتا ۔ روس ،چین ، امریکہ ، برطانیہ اور فرانس کی طرح کسی مزدور کے بیٹے کو اسمبلی کا ٹکٹ دے کر دکھائیں تو ہم بھی مان لینگے کہ ملک صرف امیروں کے لئے نہیں بنا۔ غریبوں کا بھی اس پر حق ہے ایک اور 6کالمی سرخی ہے اور یہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا بیان ہے۔’’ قیام امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے‘‘۔ ایک زمانے میں اشتہارات آیا کرتے تھے ’’ یا اللہ ! یا رسول ! بے نظیر بے قصور‘‘ ہماری دانست میں شاہد خاقان عباسی ‘‘ بیست ودو‘‘ کے حساب سے پکڑے گئے ہیں ان کا کوئی قصور نہیں۔ یہ افغانستان میں بچہ سقہ کی حکومت کا واقعہ ہے ۔ کابل کے زندان سے قیدی بھاگ گیا۔ داروغہ نے پوچھا قیدی کا نمبر کیا تھا؟ سپاہیوں نے کہا ’’ بیست ودو‘‘ بچہ سقّہ نے کہا مسئلہ کوئی نہیں کسی کو بھی پکڑ کے لے آؤ 22 نمبر اس کو دیدو اور زندان میں ڈالو، تعداد پوری ہوجائیگی۔ہمارے معصوم وزیر اعظم کو نہیں پتہ کہ ہم نے چار بھارتی شہریوں کو پھانسی گھاٹ سے نکال کر دشمن کے حوالے کئے ہم نے بدترین مجرم ریمنڈ ڈیوس کو دشمن کے حوالے کیا۔ ہم نے کلبھوشن یادیو نامی بھارتی جاسوس کو سزائے موت دینے میں کوتاہی کی اب یہ شخص بھی گلے پڑ گیا ہے۔ ادھر ہالینڈ میں پیشیوں پہ پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ کبھی کلبھوشن کے رشتہ دار کو بلاتے ہیں۔ سمجھنے میں کچھ نہیں آتا کہ بھارت نے افضل گھورو کو کس طرح پھانسی دی، اجمل قصاب کو کس قانون کے تحت سزائے موت دی اب ہمارا ہر دشمن ہماری طرف سے امن کی خواہش کو ہماری کمزوری کیوں سمجھ رہا ہے؟ ایک اخبار نے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے بیان کو 5کالمی سرخی دی ہے ’’ لیڈری کا شوق نہیں ‘‘ بات بڑے پتے کی ہے مگر کہتے ہیں کہ پیران نمی پرند مریداں می پرانند‘‘ پیر خود ہوا کے دوش پر سوار نہیں ہوتے مرید اُن کو ہوا کے دوش پر سوار کرتے ہیں ۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو بھی لیڈری کا شوق نہیں تھا مریدوں کو انہیں لیڈر بنایا تاہم شکر ہے جو ناکامی 10سال بعد مقدر میں آنی تھی وہ پہلے سال ہی استقبال کو آئی۔’’ ایمان بچ گیا میرے مولا نے خیر کی‘‘ ان کی پارٹی کا مزار قریب ہی واقع ہے ویسے ایک پیر کا واقعہ بھی مشہور ہے کہتے ہیں پیر نے مرید کو ایک لاغر اور بیمار گدھا سواری کے لئے دیا۔ پہلے ہی پڑاؤ پر گدھا مرگیا۔ مرید اس کی قبر بنا کر مجاور کے روپ میں دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹنے لگا پیر کا وہاں سے گذر ہوا تو پیر نے مرید کے کان میں راز کی ایک بات کہی پیر نے کہا گدھا نجیب الطرفین تھا اس کے باپ کی قبر پر میرا بڑا بھائی بیٹھا ہوا ہے اس کی ماں کی قبر کا گدی نشین بلکہ ’’ گدھی نشین‘‘ میں خود ہوں اور اس کا مزار تیری روزی کیلئے مرجع خلائق بن گیا ہے ’’ ایں سعادت بزور بازو نیست تانہ بخشد خدائے بخشندہ‘‘ چیف جسٹس خاطر جمع رکھیں پاکستانی سیاست ایسے مزارات سے بھری پڑی ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
3882

صد ا بصحرا ………مولانا کا موقف……..ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

فاٹا کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن کا مو قف پہلی بار سوشل میڈیا پر آیا ہے۔ اب تک یہ سمجھا جا تارہا ہے اور یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن بھی محمود خان اچکزئی کی طرح فاٹا میں انگریزوں کے 1870ء کے قانون ایف سی آ ر کا حامی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مولانا نے فاٹا کے مستقبل کے حوالے سے جو بھی اور جب بھی بیان دیااپنا موقف پیش نہیں کیا بلکہ فاٹا کی رائے پوچھنے پر اصرار کیا۔ فاٹا کے عوام کی رائے کا مسئلہ کشمیر کے استصوابِ رائے یا ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے ریفرنڈم کی طرح ایک معمہ ہے جو حل ہونے والا نہیں۔ 19دسمبر کو پارلمینٹ ہاؤس میں آرمی چیف اور وزیر اعظم کے ساتھ خصوصی ملاقات میں بھی مولانا نے وہی مو قف دہرایا کہ فاٹا کے گرینڈ جرگہ سے پوچھا جائے۔فاٹا کا جرگہ پولیٹکل ایجنٹ اور ایف سی آر کے حامیوں کا فورم ہے اس لئے میڈ یا میں مولانا کا موقف واضح نہیں ہوا۔ آرمی چیف سے ملاقات سوشل میڈ یا پر مولانا کا صاف اور واضح موقف 700الفاظ کی جامع اوربا معنی تحریر میں دیاگیا ہے۔ مولانا کا موقف یہ ہے کہ پاکستان کے آئین میں چار صوبوں کے ساتھ فاٹا کا الگ ذکر ہوا ہے ۔ یہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے۔ اس میں ترمیم کا حق ہماری قومی اسمبلی کو ہے مگر یہ حق فاٹا کے عوام کی مرضی کے خلاف استعمال نہ کیا جائے۔ پہلے فاٹا کے عوام کی رائے لی جائے۔ دوسری بات یہ ہے فاٹا کا موجودہ سسٹم خیبر پختو نخوا سے بدرجہا بہتر ہے۔ فاٹا میں لکی مروت ،کرک، ڈی آئی خان ،بنوں اور کوہاٹ سے بہتر ترقی ہورہی ہے۔ اگر موجودہ حیثیت کو چھیڑا جاتا ہے تو فاٹا کا الگ صوبہ بننا موجودہ حالت سے بہتر ہوگا۔ دوسرے صوبے میں ضم ہونے سے فاٹا کے عوام کی زندگی میں کوئی بہتری نہیں آئیگی۔ ان دو اصولی باتوں کی تشریح کرتے ہوئے مزید چار نکات سامنے لائے گئے ہیں۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ الگ صوبہ بننے سے فاٹا کو سینیٹ میں 23سیٹیں ملیں گی۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی پختون سیٹوں کو ملاکر سینیٹ میں پختونوں کی اچھی تعداد آئیگی اور آئین سازی میں پختونوں کا پلہ بھاری ہوگا۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ الگ صوبے کا اپنا گورنر ، اپنا وزیر اعلیٰ اور اپنا پبلک سروس کمیشن ہوگا۔ اپنی اسمبلی ہوگی، اپنی عدلیہ ہوگی، اپنی پولیس ہوگی، روزگار کے مواقع پر فاٹا کے عوام کا اختیار ہوگا۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ این ایف سی ایوارڈ میں فاٹا کو خیبر پختونخوا کے برابر حصہ ملے گاجو پنجاب دینا نہیں چاہتا۔ چوتھا نکتہ یہ ہے کہ فاٹا میں افغانستان کے ساتھ تجارت اور آمدورفت کے 5بڑے راستے ہیں۔ طورخم ، غلام خان، بن شاہی، نوا پاس اور خرلاچی کے راستے تجارے ہوگی تو محاصل کی آمدن فاٹا کو ملے گی۔ وزیرستان میں آئرن ، کاپر اور تیل کے بڑے بڑے ذخائر ہیں۔ ان کی آمدنی فاٹا کو ملے گی۔ اور فاٹا کا صوبہ ملک کا امیر ترین صوبہ ہوگا۔ یہ 6نکات ہیں جو شیخ مجیب کے 6نکات سے یکسر مختلف ہیں۔ یہ موقف محمود خان اچکزئی کے موقف سے بھی مختلف ہے۔ محمود خان اچکزئی ایف سی آر کی حمایت کرتا ہے۔ وہ فاٹا کو پاکستان کا حصہ نہیں سمجھتا اور پاکستان کا حق تسلیم نہیں کرتا ۔ مولانا فضل الرحمن پاکستان کے آئین کا حوالہ دیتا ہے۔ اور آئین کی روشنی میں 8قبائلی ایجنسیوں اور وفاق کے زیرِ انتظام علاقوں پر مشتمل پختون صوبے کے قیام کی بات کرتا ہے۔ مولانا ایف سی آر کی جگہ نئے قانون کاحامی ہے۔ ایف سی آر کو صحیفہ آسمانی سمجھنے والوں میں سے نہیں اس طرح مولانا کا موقف پہلی بار صاف اور واضح ہوکر سامنے آیا ہے۔ اس میں کوئی ابہام نہیں رہا۔ مولانا کا موقف سامنے آنے کے بعد مولانا اُن لوگوں سے الگ ہوگیا ہے جو 1870ء کی طرح فاٹا کے عوام کو غلام رکھنا چاہتے ہیں۔فاٹا کو ایف سی آر کی زنجیروں میں جکڑ کر اپنے لئے مالی فوائد سمیٹنا چاہتے ہیں۔ فاٹا کے نام پر پشاور اور اسلام آباد میں دکان کھول کر اپنا اُلّو سیدھا کرنا چاہتے ہیں۔ یا جو لوگ فاٹا کے حوالے سے بیرونی طاقتوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھارہے ہیں۔ مولانا اُن سے الگ ہے۔ مولانا کا اپنا موقف ہے۔ اگر 2015ء میں فاٹا اصلاحات کے لئے کمیشن بناتے وقت مولانا کو اُس کمیشن میں نمائندگی دی جاتی یا ان کا موقف کمیشن کے سامنے رکھا جاتا یا 6 نکات کو میڈیا کے سامنے لایا جاتا تو فاٹا کے حوالے سے بہت سارے ابہام دور ہوجاتے۔ معاملات کو سدھارنے میں آسانی ہوجاتی۔ آرمی چیف سے مولانا کی ملاقات کے بعد برف پگھل چکی ہے۔ اللہ کرے مولانا کا تازہ ترین موقف معاملات کو سدھارنے میں مدد گار ثابت ہو۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
3591

صدا بصحرا …….. خیبر پختونخوا کا منظر نامہ ……….ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

متحدہ مجلس عمل کی بحالی سے پنجاب اور سندھ یا بلوچستان کی سیاسی فضا میں کو ئی خاص تبدیلی نہیں آئیگی البتہ خیبر پختو نخوا کا سیاسی منظر نامہ یکسر بدل جائے گا ملاکنڈ ،بنوں ،ڈی آئی خان ،کو ہاٹ ،پشاور اور مردان ڈویژن کے ساتھ ہزارہ کے اضلاع بٹگرام ،تورعز اور کوہستان میں بھی متحدہ مجلس عمل کو برتری ملے گی صوابی اور نوشہرہ کے دو اضلاع کو چھوڑ کر باقی تمام جگہوں پر حکمران جماعت کو زبر دست مقابلے کا سامنا ہو گا اندازہ یہ ہے کہ صوبائی اسمبلی میں واحد اکثر یتی پارٹی بن کر متحدہ مجلس عمل سامنے آئے گی اے این پی ، مسلم لیگ (ن) یا پی پی پی کے ساتھ ملکر حکومت بنائے گی مگر یہ اتنا آسان بھی نہیں
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں
سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ قائدین کی طرف سے اتحاد کا اعلان ہو نے کے باوجود کارکنوں کے درمیان برادرانہ ہم آہنگی کا فقدان پایا جاتا ہے سوشل میڈیاپر تین باتیں گردش کر رہی ہیں مولانا انس نورانی اور اُن کی پارٹی کے لئے کارکنوں کے دلوں میں کدورت باقی ہے ملت جعفریہ کے لئے قبولیت کا کوئی امکان دور دور تک نظر نہیں آتا جماعت اسلامی اور جمعیتہ العلمائے اسلام (ف)کے کارکن ایک دوسرے سے بد ظن ہیں جماعت اسلامی والے پی ٹی آئی کو ترجیح دیتے ہیں جمیتہ کے کارکن مسلم لیگ (ن)کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں دونوں نے متحدہ مجلس عمل کی بحالی کو دل سے قبول نہیں کیا اس سے بھی مشکل مرحلہ یہ ہے کہ جمیعتہ العلمائے اسلام (ف) صوبائی اسمبلی کی زیادہ نشستیں حاصل کرنا چاہتی ہے جماعت اسلامی کی قیادت صوبے میں اپنا وزیر اعلیٰ لانے کے لئے زیادہ سیٹیں اپنے نام کرنا چاہتی ہے نیز دونوں جماعتوں نے قومی اور صوبائی اسمبلی کے متوقع اُمیدواروں کا پہلے سے اعلان کیا ہوا ہے اتحاد کی خاطر کسی نامزد اُمیدوار کو بٹھانا اور اُس کے حامیوں کو قابو میں رکھنا بہت مشکل ہو گا جس اُمیدوار کی قربانی دی گئی وہ آزاد حیثیت سے میدان میں آئے گا اور پھڈاڈالے گا مگر یہ سیاسی معاملہ اور اہل سیاست کا کام ہے شاعر نے کہا
اُ ن کا جو کام ہے اہل سیاست جانیں
میر ا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
خیبر پختو نخوا کو ہمیشہ سے سیاسی تجربہ گاہ کی حیثیت حاصل رہی ہے ہر انتخابات میں یہاں نت نئے تجربے دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں اس صوبے کی اپنی کو ئی جماعت بھی نہیں ابھرتی کسی قومی پارٹی کو بھی یہاں پنجاب اور سندھ کی طرح پذیرائی نہیں ملتی اس وجہ سے خیبر پختو نخوا کی اسمبلی کو لٹکی ہوئی اسمبلی (Hung Assembly) کہا جاتا ہے 2013ء میں پاکستان تحریک انصاف کو بھی معلق اسمبلی ملی تھی جماعت اسلامی کی مدد سے پر ویز خٹک نے حکومت بنائی اگر جماعت اسلامی کا تعاون نہ ہوتا تو جمعیتہ العلمائے اسلام (ف)کی حکومت آسکتی تھی دیگر جماعتیں مولانا فضل الرحمن کا ساتھ دینے پر آمادگی ظاہر کر چکہ تھیں اس نازک موڑ پر قومی وطن پارٹی نے بھی پرویز خٹک کا ساتھ دیا تھا بعد میں حالات نے پلٹا کھایا خیبر پختونخوا کے بدلتے ہوئے منظر نامے کو سامنے رکھ کر پاکستان تحریک انصاف اپنے دوستوں اور بہی خواہوں کو متحرک کر کے اسمبلیوں کو توڑ کر قومی حکومت بنانے پر زور دیگی قومی حکومت میں عمران خا ن کے وزیر اعظم بننے کا امکان پیدا ہو گا اور 2018ء کے انتخابات کو چند سالوں کے لئے ملتوی کرنے کا راستہ نکل آئے گا یہ محتا ط اور صاف راستہ ہو گا اگر امپائر کی انگلی حرکت میں آجائے تو دلی مراد پوری ہو گی دوسرا قوی امکان یہ ہے کہ شہباز شریف اور آصف زرداری مل کر واشنگٹن کے ساتھ ڈیل کر کے خود کو ایک بار پھر قابل قبول بنا لینگے اسمبلیوں کو توڑنے نہیں دینگے چائنا پاکستان اکنامک کو ریڈور کو چند سالوں کے لئے موخر کرنے پر سمجھوتہ ہو جائے گا اور چین کا راستہ روکنے کے لئے واشنگٹن کے تمام تحفظات کو دور کیا جائے گا اس صورت میں 2018 ؁ء کے انتخابات وقت پر ہو نگے خیبر پختونخوا میں ایم ایم اے کی حکومت کو تسلیم کیا جائے گا پنجاب اور سندھ میں ملی مسلم لیگ اور لبیک یا رسول اللہ کو چندسیٹو ں کے ساتھ دو چار وزارتیں دی جائینگی اس طرح نیا بندوبست بھی سب کے مفاد میں ہو گا ایسے حالات میں پاکستان تحریک انصاف کے لئے کوئی جگہ نہیں رہے گی اگلے انتخابات تک انتظار کا مشورہ دیا جائے گا خان صاحب یورپ میں چھٹیاں گذارینگے اور کرکٹ میچوں میں ماہرانہ رائے دینے کی ذمہ داریوں کے علاوہ شوکت خانم کینسر ہسپتال کے لئے عطیات جمع کرنے کی مہم بھی چلاسکینگے اس طرح خیبر پختو نخوا کا نیا سیاسی منظر نامہ پورے ملک کی سیاست کا رُخ بدل کر رکھ دیگا شاعر نے سچ کہا ’’ہم بدلتے ہیں رُخ ہواؤں کے‘‘

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , ,
3204

صدا بصحرا ….. مسجد کا امام اور خادم ……… ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے صوبے کی تمام مساجد کے ائمہ کیلئے 10 ہزار ماہانہ اعزازیہ مقر ر کرنے کا اعلان کیا ہے سرکاری کاغذات میں اس کا نام کیا ہوگا ؟سر دست معلوم نہیں اسکو تنخواہ (Salary) تو نہیں کہا جائے گا وظیفہ (Stipend) یا اعزاز یہ (Honouraria) کہا جائے گا اس کی ادائیگی کا طریقہ کار کیا ہوگا ؟اس کے بارے میں بھی علم نہیں مسجدوں اور اماموں کی فہرستیں کس طریقے سے مرتب ہونگی اس کا بھی علم نہیں ہے مناسب بات یہ ہے کہ اس کانام اعزازیہ (Honouraria) رکھا جائے اور یہ کام محکمہ اوقاف کو دینے کی جگہ محکمہ بلدیات کے سپرد کیا جائے ویلیج کونسل اور نائبر ہُڈ کونسل کے ذریعے آئمہ کرام کو اعزازیہ ادا کیا جائے تاکہ نظام میں شفافیت ہو اور علمائے کرام کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہو اس سلسلے میں محکمہ اوقاف کاریکارڈ بہت خراب ہے محکمہ اوقاف کے پاس مساجد کی تعداد بہت کم ہے صرف وہ مساجد اوقاف کے پاس ہیں جنکی ماہانہ آمدنی اُن کے ماہانہ اخراجات سے کافی زیادہ ہے بعض مساجد ایسے ہیں جنکی آمدنی اخراجات سے دگنی ہے اگر محکمہ اوقاف کو ان مساجد سے 2کروڑ روپے کی ماہانہ آمدنی آتی ہے تو مساجد پر ہرماہ بمشکل ایک کروڑ روپے کا خرچہ آتا ہے اس کے باوجود محکمہ اوقاف آئمہ اور خدام کو تین ماہ ،چار ماہ تک تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کرتا یہ لوگ دفتروں کا چکر لگا کر تھک جاتے ہیں تو تنخواہ اس طرح ادا کردی جاتی ہے جیسے کوئی بخیل شخص ہزار احسان جتاکر کسی کو بھیک دیتا ہو محکمہ اوقاف کا کلچر ایسا ہے کہ اس کا کوئی افیسر یا اہلکار امام اور خادم کو عزت وا حترام کے لائق نہیں سمجھتا مسجد کے خاد م کو گھریلو نوکر سے بھی کم تر درجہ دیا جاتاہے حالانکہ وہ مدرسے کا فارغ التحصیل عالم ،قاری ،حافظ اور مجودّہوتا ہے امام کی غیر موجودگی میں پنجگانہ نماز پڑھاتا ہے اذان اور تکبیر اس کی ذمہ داری میں شامل ہے مسجد کی دیکھ بھال آب گاہوں کے انتظام اور غسلخانوں کی صفائی تک اُس کے کاموں میں شامل ہیں خطیب کی غیر موجودگی میں نماز جمعہ بھی خادم ہی پڑھاتا ہے مگر محکمہ اوقاف کی کتابوں میں خادم کے علم کااُ س کی ذمہ داریوں سے تعلق نہیں جوڑا گیا محکمہ اوقاف کے پاس عید گاہ اور قبرستانوں کی صفائی کیلئے الگ فنڈ ہوتا ہے اس کا مستقل مد اور مصرف ہے لیکن اوقاف والے مسجدوں کے خدام کو عید گاہ اور قبرستانوں کی صفائی پر لگاتے ہیں علمائے دین کے ہاتھ میں جھاڑو دیکر صفائی کراتے ہیں مخصوص فنڈ سے ان کو چائے بھی نہیں پلاتے میں نے کل جس مولوی کے پیچھے 2 خفی اور 3 جہری نمازیں پڑھی تھیں آج اس کو دیکھتا ہوں تو جھاڑو،بیلچہ اور ریڑھی لیکر قبر ستان کی صفائی پر لگا ہوا ہے اوقاف کا اہلکار اُس سے کام بھی لیتا ہے بر ا بھلا بھی کہتا ہے قبرستان کی صفائی سے واپس آنے والے علماء سے بات ہوئی تو پتہ چلا کہ یہ سب مدرسوں کے فارغ التحصیل ہیں محکمہ اوقاف کی ملازمت بھی پکی ہے پنشن کے حقدار ہیں مگر ان کو سال میں ایک دن بھی چھٹی نہیں ملتی مہینہ گذر جائے تو تنخواہ نہیں ملتی یہ لوگ یکم تاریخ کی تنخواہوں سے بے خبر ہیں کبھی 3 ماہ بعد تنخواہ آتی ہے کبھی چار ماہ بعد تنخواہ آتی ہے اگر مسجد کے خادم کے گھر میں بیماری یا فوتیدگی ہو چھٹی کی ضرورت پڑے تو اُس کو کہا جاتا ہے کہ کسی مولوی کو یومیہ اجرت دے کر اپنی جگہ بیٹھاؤ یہ لوگ یومیہ اجرت پر دوسرا مولوی اپنی جگہ بٹھاکر چھٹی لے لیتے ہیں اور آدھی تنخواہ یا پوری تنخواہ اجرت میں دیدیتے ہیں گویا ان کو پکی نوکری کا کوئی استحقاق حاصل نہیں ائمہ مساجد کو ماہانہ 10 ہزار روپے اعزازیہ دیناپی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کا تاریخی اقدام ہے اسلام کے ساتھ محبت رکھنے اور علماء کے ساتھ عقیدت رکھنے والے عوام اس اقدام کا خیر مقدم کرینگے مگر اس کی ا دائیگی کا طریقہ کار بہتر ہونا چاہئے جب علماء دیکھتے ہیں کہ محکمہ اوقاف کے افیسروں اور اہلکار وں کی نظر میں علماء کی کوئی قدر نہیں خادم ،مو ذن ،مکبّر اور امام کی کوئی قدر نہیں تو وہ لا محالہ حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ صوبے کے اندر ائمہ کرام کو ماہانہ 10 ہزار روپے اعزازیہ دینے کا کام محکمہ اوقاف کے ہاتھوں میں نہ دیا جائے اگر یہ کام محکمہ اوقاف کو دیا گیا تو اس میں کرپشن ہوگی اور علمائے کرام کی عزت نفس بُری طرح مجروح ہوگی محکمہ بلدیات کا سسٹم بہتر ہے تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن علماء کی قدر کرتی ہے علماء اور ائمہ مساجد کو عزت کا مقام دیتی ہے افیسروں کی اچھی تر بیت ہوئی ہے منتخب لوگ علماء کی قدر کرنا اپنے لئے باعث عزت اور ثواب سمجھتے ہیں اس لئے نیا کام محکمہ بلدیات کے حوالے کیا جائے نیز یہ بھی ضروری ہے کہ محکمہ اوقاف کی مساجد میں خدام اور اےئمہ کی تنخواہوں کی ادائیگی میں غیر معمولی تاخیر اور خدام سے صفائی کے عملے کا کام لینے کی باقاعدہ انکوائری کرائی جائے اگر اس میگا کرپشن کی انکوائری نہیں کرائی گئی تو یہ ’’چراغ تلے اندھیرا ‘‘کے مترادف سمجھا جائے گا ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
3134

صدابصحرا ………..خدمت یا حکومت ……….ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ؔ

Posted on

کوئٹہ میں نوجوانوں کے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دو ٹوک الفاظ میں اپنا موقف دہرایا ہے کہ فوج کو حکومت کرنے کا کوئی شوق نہیں فوج آپ کی خدمت کے لئے ہے حکومت کرنا سیاستدانوں اور منتخب نمائیندوں کا کام ہے مگر منتخب ہونے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ منتخب ہونے والا قانوں کو پاوءں تلے روندے اور اپنی من مانی کرے (خدا ناخواستہ ایسا ہوا توحکومت واجب ہو جائیگی ) بعض اوقات اصل بات قو سین میں لکھی جاتی ہے وطن عزیز پاکستان میں دو باتیں ہمیشہ متنازعہ رہی ہیں حالانکہ دونوں میں تنازعہ والی کوئی بات نہیں ایک بحث یہ ہے کہ قائد اعظم مذہبی ریاست چاہتے تھے یا سیکولر ریاست کے علمبردار تھے اس کا سیدھا سادہ جواب یہ ہے اگر قائداعظم مذہبی ریاست کے علمبردار ہو تے تو متحدہ ہندوستان کے علمائے کرام ضرور مسلم لیگ کا ساتھ دیتے مسلم لیگ کے مقابلے میں کانگریس کا ساتھ کبھی نہ دیتے پس بات واضح ہے قوسین میں لکھا جانا چاہیے کہ قائدا عظم سیکولر پاکستان چاہتے تھے جہاں تمام مذاہب اور فرقوں ،مسلکوں کے لوگ امن اور محبت سے زندگی گذار سکیں دوسری بحث یہ ہے کہ جمہوریت اچھی ہے یا آمریت ؟اس کا سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ 70 سالوں میں پاکستانی قوم نے جمہوریت کا کوئی تجربہ نہیں کیا ،دو قسم کی آمریتیں ہی دیکھی ہیں ’’ سول آمریت اور فوجی آمریت ‘‘ایک زمانہ تھا جب ہماری فوجی چھانیوں میں وردی کو خاکی اور سول کو مفتی کہا جاتا تھا اب زمانہ بدل گیا کسی بڑے سکول، ہسپتال ،مسجد یا مارکیٹ میں خودکش دھماکہ ہو جائے ،دہشت گردی کی واردات ہوجائے تو سہولت کاروں میں مفتی کا نام آتا ہے اسلئے مفتی کا لفظ معتبر نہیں رہا اب سول اور ملٹری کے الفاظ چل رہے ہیں جمہوریت پسندی کے حوالے سے بے شمار لطیفے اور حکایتیں مشہور ہیں پولینڈ کی ایک حکایت کا بڑا چر چا ہے یہ اس وقت کی بات ہے جب پولینڈ میں کمیونسٹ حکومت تھی اور سٹالن کے دور جیسا سخت گیر نظام تھا ایک بچے نے سکول میں آکر اپنے استانی کو بتایا کہ ہماری بلی نے چار بچے دیئے ہیں چاروں کٹر کمیونسٹ ہیں استانی بہت خوش ہوئی ایک ہفتہ بعد انسپکٹر آیا تو استانی نے اس بچے کو بلایا اور کہا کہ بلی کے بچو ں والا قصہ سناؤ بچے نے کہا سر !ہماری بلی نے چار بچے دئیے ہیں اور چاروں کے چاروں جمہوریت پسند ہیں ٹیچر نے کہا ،ایک ہفتہ پہلے تم نے کہا تھا وہ کمیونسٹ ہیں بچے نے معصومیت سے جواب دیا پہلے آنکھیں بند تھیں اب چاروں کی آنکھیں کھل گئیں ہیں یہ حال ہمارے جمہوریت پسندوں کا ہے مگر ان کا مسئلہ یہ ہے کہ جمہوریت کا کوئی نمونہ انکے سامنے نہیں ظاہر ہے پڑوسی ملک سے نریندر مودی کی جمہوریت ہم درآمد نہیں کر سکتے اور یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ ہم امریکہ سے جمہوریت کا چر بہ لاکر اپنے ہاں چلائیں برطانیہ کا سسٹم بھی ہمیں راس نہیں آئے گا بھارت میں اگر چائے فروش کا بیٹا وزیر اعظم بنتا ہے تو برطانیہ میں بس ڈرائیور کا بیٹا سٹی میئر منتخب ہوتا ہے اس قسم کے انتخابات ہمیں راس نہیں آتے ہمارے انتخابات کا تجربہ ہی نرالا ہے ایک وزیر نے حلف اُٹھانے کے بعد دفتر میں قائد اعظم کی تصویردیکھ کر سیکرٹری کو حکم دیا اس کی جگہ میری تصویر لگا دو ایک اور منتخب وزیر کا قصہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں موصوف نے ایک ٹھیکہ دار کے ساتھ 10 کروڑ کے پراجیکٹ میں 20 لاکھ روپے کمیشن طے کیا اور فائل پر لکھا ’’منظور ‘‘تین دن انتظار کے باؤ جود ٹھیکہ دار نے 20لاکھ نہیں بھیجے ’’وزیر بے تدبیر ‘‘پریشان ہوا چپڑاسی نے پریشانی کی وجہ پوچھی وزیر نے وجہ بتائی تو چپڑاسی نے کہا فائل منگواکر منظور سے پہلے نا لگا کر نا منظور لکھو وزیر موصوف نے ایسا ہی کیا ٹھیکہ دار کو معلوم ہوا تو پیسے لیکر دوڑا دوڑاآیا وزیرنے ’’حق حلال کی کمائی‘‘وصول کر کے فائل واپس منگوائی اور چپڑاسی سے پوچھا اب کیا حکم ہے ؟چپڑاسی نے کہا ’’شرط بنا منظو ر ‘‘لکھو نا منظور سے پہلے ’’شرط ب ‘‘لگا دو چنانچے بغیر شرط کے فائل منظور ہوگئی آرمی چیف کا بیان ایسے وقت پر آیا ہے جب پاکستان میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں نے ملکر پاک فوج کے لئے حکومت کا راستہ ہموار کیا ہے مگر فوج حکومت کی جگہ خدمت پر یقین رکھتی ہے کیا حکومت کے ذریعے خدمت نہیں ہو سکتی ؟ ہمارا 70سالہ تجربہ یہی ہے کہ حکومت کے ذریعے خدمت نہیں ہو سکتی ہمارے ہاں حکومت کو ہر دور میں خدمت کی ضد کے طور پر دکھا یا گیا ہے مرزا غالب نے کہا
چلتا ہو ں تھوڑی دور ہر ایک راہروکے ساتھ
پہچانتا نہیں ابھی رہبر کو میں

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
3076

صدا بصحرا ……… ہند آریائی زبانوں کا مقدمہ ……….ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

نفسی نفسی کے عالم میں ہند آریائی زبانوں کا مقدمہ کون لڑے گا ؟ اس پر نیویارک سے پشاور تک کانفرنسیں ہو رہی ہیں سیمینار ہو رہے ہیں مگر بحث کا سرا کسی کو اب تک نہیں ملا گندھارا ہند کو بورڈ اور گندھارا ہند کو اکیڈیمی کے پلیٹ فارم سے پشاور میں منعقد ہونے والی چھٹی عالمی ہند کو کانفرنس اس بحث کی ایک اہم کڑی ہے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 71 زبانیں ماں بولی کے طور پر بولی جاتی ہیں جنہیں مادری زبان کہا جاتا ہے ان میں سے 27 زبا نیں خیبر پختونخوا ،گلگت بلتستان اور ملحقہ علاقوں میں بولی جاتی ہیں جن میں سرحد پار کے علاقے بھی شامل ہیں چند زبانیں مثلاََ بلوچی ،براہوی ، دری ،گوجالی ،پشتو وغیرہ کو انڈو یوروپین زبانوں کی ہند ایرانی شاخ میں رکھا گیا ہے ہنزہ اور یاسین کی زبان بروشسکی انڈویوروپین سے باہر ہے ماہرین نے اس کی درجہ بندی الگ طرح سے کی ہے پاکستان کی 60یا اس سے بھی زیادہ زبانوں کا تعلق ہندآریائی شاخ سے ہے ان میں سندھی ،کشمیری،پنجابی، سرائیکی ،گوجری،شینا ،کھوار ،بلتی ہندکو سمیت سب زبانیں آتی ہیں موجودہ دورمیں گاوری،توروالی ،کلاشہ،پہاڑی، پا لولہ ،گواربتی ،ڈمیلی وغیرہ پر جو تحقیقی کا م ہو رہا ہے ہند آریائی زبانوں کی نسبت سے ہو رہا ہے ماہرین لسانیات کے نزدیک یہ ایک معمہ ہے کہ ہند آریائی زبانوں کا ادبی اور ثقافتی ور ثہ اپنوں کی جگہ غیروں نے کیوں محفوظ کیا ؟ ایک سیمینار میں ڈاکٹر احسن واگھا نے اس پر نئے زاویے سے روشنی ڈالی انہوں نے کہا کہ نوآبادیاتی دور سے پہلے مقامی حکمرانوں کی زبان بھی وہی تھی جو عوام کی زبان تھی اس وجہ سے لو ک ادب اور ثقافتی ورثہ خودبخود محفوظ ہو تا تھا لو ک گیت ،تھیڑ اور تماشے بھی ہوا کرتے تھے ادب اور ثقافت کو خطرہ نہیں تھا نو آبادیاتی دور میں حکمرانو ں کی زبانیں با ہر سے درآمد ہوئیں اس لئے مادری زبانوں کو خطرہ پیدا ہوا بیرونی حکمرانوں نے اپنے مفاد میں مقامی زبانو ں میں دلچسپی لی حکمرانی کو مضبوط اور مستحکم کرنے کے لئے اس قسم کے اقدامات کی ضرورت تھی انگریزوں نے مقامی زبان میں امتحان پاس کرنے والے افیسروں کے لئے خصوصی الاونس مقر ر کیا اس کام کے لئے حروف تہجی اور رسم الحظ کو رواج دیا انہوں نے مقامی زبانوں پر تحقیق کے لئے فنڈ مقرر دیا تحقیقی سر گرمیوں کی حوصلہ افزائی کا انتظام کیا اور مقامی زبانوں میں لکھنے پڑھنے کو رواج دیا یہی وجہ ہے کہ بر صغیر پاک ہند کی زبانوں میں تحقیق کا بانی کوئی مقامی دانشور نہیں سب کے سب غیر ملکی دانشور ہیں جہاں تک پاکستان میں ہند آریائی زبانوں کو ملنے والے مواقع اور ان زبانوں کی ترقی وتریج کا تعلق ہے ان میں سب سے اولیت سندھی زبا ن کو حاصل ہوئی سندھی زبان میں نصاب سازی اور تعلیم وتدریس کا عمل 1903 ء میں شروع ہوا گویا سندھی میں نصاب سازی کو سوا سو سال ہونے کے قریب ہے جبکہ ہند کو میں نصاب سازی کا کام ابھی ابتدائی مرحلے سے آگے نہیں بڑھی تعلیم وتدریس کا عمل ابھی شروع نہیں ہوا اس مرحلے پر زیر بحث یہ بات ہے پاکستان میں ہند آریائی زبانوں کا مقام کیا ہے؟ اور ان زبانوں کا مسقبل کیا ہے ؟ اس پر سب سے زیادہ بحث جنوبی پنجاب میں ہوتی ہے جہاں سرائیکی دانشوروں کی ایک موثر لابی (Lobby) مادری زبانوں کو آئینی حقوق دلوانے کے لئے کام کررہی ہے اس لابی کو عموماََ قوم پرست لابی کہا جاتا ہے اور اقتدار کے ایوانوں پر زیادہ تر سر مایہ دارو ں کی مضبوط گرفت ہونے کی وجہ سے یہ تحریک غریب عوام،مزدور،کسان اور پسے ہوئے طبقے کی تحریک سمجھی جاتی ہے گزشتہ چند سالوں سے یعنی دو عشروں پر محیط عرصے سے خیبر پختونخوا ،گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے اندر بھی ہند آریائی زبانوں کے بولنے والوں کی موثر آواز سنائی دینے لگی ہے اور اس آواز کو اقتدار کے ایوانوں تک لے جانے کے ساتھ میڈیا میں لانے اور پالیسی سازوں کی توجہ حاصل کرنے میں گندھارا ہند کو بورڈ ،فورم فارلینگویج انی شے ٹیوز (FLI) اور گندھارا ہند کو اکیڈیمی نے نمایاں کردار ادا کیا خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی کی مخلو ط حکومت نے2012ء میں پشتو کے ساتھ ساتھ4 ہند آریائی زبانوں کو بھی جماعت اول سے بارھویں جماعت تک نصاب میں شامل کرنے کابل اسمبلی سے پاس کیا اس کے لئے نصاب سازی کا کام مکمل کر وایا اور خیبر پختونخوا کی مادری زبانوں کے لئے لینگویج اتھارتی کے قیام کا بل بھی پاس کیا مسلم لیگ کی حکومت نے مارچ2015 ء میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے سامنے مادری زبانوں کیلئے قانون کا مسودہ تیار کیا جس میں بروشسکی اور 21 ہندآریائی زبانوں کو قومی زبا ن کا درجہ دینے کی سفارش کی گئی اب تک یہ بل اسمبلی کے ایوان میں پیش نہیں ہوا ماریہ میمن نے اس بل کی تیاری میں کلیدں کردار ادا کیاتھا عرفان صدیقی نے اس بل کو سردخانے میں ڈالنے کے لئے اہم کردار ادا کیاہے اسی طرح نومبر 2017ء میں گلگت بلتستان کی حکومت نے بھی مادری زبانوں کی ترقی کے لئے ایک الگ ادارے کے قیام کی منظوری دی ہے ان تمام اقدامات کو منطقی انجام تک پہنچانے اور ان کے ثمرات کو عام کرنے لے لئے موثر تحریک کی ضرورت ہے گندھارا ہند کو بور ڈ اور گندھارا ہند کو اکیڈیمی نے ہند آریائی زبانوں کو ان کا جائز مقام دینے کے لئے جو کام کیا ہے وہ لائق ستائش ہے

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
2928

صدا بصحرا ………. سیاحتی مقامات کی نجکاری…………ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ؔ

Posted on

خیبر پختونخوا کی حکومت نے سیاحتی مقامات اور ان مقامات پر دستیاب سرکاری سہولیات کی نجکاری کر کے بہت اچھا قدم اُٹھا یا ہے اگلے دوبرسوں میں ہی اس کے مثبت تنائج سامنے آنا شر وع ہو جائینگے ہمارے معاشرے میں ایک پرانی بیماری ہے ہم ہر اچھے کام میں کیڑے نکالنا شروع کردیتے ہیں سیاحتی مقامات اور سہولیات کی نجکاری پر بھی اس طرح کے تبصر ے اخبارات کی زینت بن رہے ہیں خصو صاً سرمایہ کاری کرنے والوں کو ہدف تنقید بنا یا جاتا ہے حالانکہ سیاحت کے فروغ میں دلچسپی رکھنے والوں کی نظر میں یہ بہت مستحسن کام ہے سیاحتی مقامات پر جن سہولیات سے حکومت نے 70 سالوں میں سیاحوح کو فائد ہ نہیں پہنچایا اگلے سال یا ڈیڑ ھ سال میں کیا خاک نتائج دکھا ئے گی سرمایہ کار ان پر سرمایہ لگائے گا تو نتائج بھی دے گا سیاحوں کو بہتر سہولیات ملینگی اور حکومت کو محاصل کی مد میں آمد نی آئے گی خیبر پختونخوا کوقد رت نے فیاضی کے ساتھ نوا زا ہے سوات ،دیر ،چترال ، گلیات اور کاغان کی وادی کو انگریزوں کے زمانے سے سیاحتی مقامات کادرجہ حاصل ہے کُنڈ پارک، بنون، ڈی آئی خان ، کوہاٹ ، تخت بھائی ، چارسد ہ ، اور بے شمار دیگر مقامات ایسے ہیں جنکی اہمیت کااند از ہ تو ہوا ہے مگر ان مقامات کو سیاحوں کے لئے دلکش بنا نے او رسیاحوں کو ان مقامات کی طرف راغب کرنے کی طرف تو جہ دینا حکومت کے لئے ممکن نہیں ہے یہ نجی شعبے کا کام ہے مثلاً اتمان زی میں غنی خان کا گھر دار لامان ایک سیاحتی مقام بن سکتا ہے دنیا بھر سے سیاح غنی خان کا باغ ، اُن کے ہاتھوں سے بنے مجسمے اور ان کا کتب خانہ دیکھنے کے لئے جوق درجوق چارسد ہ کا رُخ کر ینگے 48 کنا ل رقبے پر پھیلا ہوا یہ گھر چین میں کنفیو شس کے مکان انگلینڈ میں شکیسپےئر کے مکان اور جرمنی میں گو ئٹے کے گھر سے زیادہ پر کشش ہے افغانستان ، مڈل ایسٹ اور جنوبی ایشیا ء کے علاوہ یورپ او ر امریکہ سے آنے والے سیاحوں کے لئے بھی یہ پر کشش جگہ ہے چارسدہ کا قدیم نام پشکلاوتی تھا یہ گند ھار ا سلطنت کا پایہ تخت رہا ہے ایسے مقامات کو سیاحوں کے لئے کس طرح پرکشش بنا یا جاسکتا ہے اس کا ماڈل عوامی جمہو ریہ چین کی قیادت نے پیش کیا ہے اس ماڈل کو یہاں لایا جاسکتا ہے چین کے شہر شیان (Xian) کے نواح میں تھان سلطنت (Thang dynasty) کے دور کا حمام تھا یہ دسویں صدی عیسوی کی یا د گا ر ہے جو دو کنال زمین پر قائم ہے حمام کے ساتھ حوض بھی ہے تھان سلطنت کے دور میں اس جگہ چینی حروف کو پتھروں پرلکھنے والے کا ریگر رہتے تھے بادشاہ بھی گرمیوں میں سیر کے لئے یہاں آتے تھے چو این لائی نے اس مقام کے ارد گرد 400 کنال زمین کو حمام میں شامل کر کے ’’ سنگی کتبے ‘‘ سٹون ٹیبلٹس( Stone Tablets) کے نام سے اس کو سیاحتی مقام بنا یا جیانگ زی من کے دور میں مارکیٹ اکا نوی آئی تو اسے ایک سر مایہ کار کمپنی کے حوالے کیا گیا اپرایل 1998 ؁ء میں اس کا ٹکٹ 500 ڈالر تھا یہاں سیاحوں کے لئے دن بھر کی مصروفیات کا اہتمام ہے ثقافتی میلہ لگا ہے رنگ بر نگ مصنوعات کے سٹا ل ہیں مقامی کھانوں کے سٹال ہیں بو ٹا نیکل گارڈن ہے مچھلیوں کے تالاب ہیں پرندوں کے لئے الگ گو شہ ہے جہاں پرند ے آزادی سے اڑ تے پھر تے ، جہچہا تے ہیں درختوں کی شاخوں پر بیٹھے طوطے مہمانوں کو نی ہا ؤ (Nihao) یعنی خوش آمدید کہتے ہیں ہم نے باغ میں داخل ہوتے وقت اس کی حقیت معلوم نہیں کی واپسی پر اصغر ندیم سید نے معلوم کر کے ہم سب کو دکھا یا طوطے کے ساتھ ایک لڑکی ڈیوٹی دے رہی تھی جس درخت پر طو طا ہے اُس کے پاس پھول کے پیچھے لڑکی بیٹھ کر چادر کا ڑھ رہی ہے مہمان کو دیکھ کر پہلے لڑکی ’’ نی ہاؤ ‘‘ بولتی ہے اُس کی نقل میں طو طا نی ہاؤ کہتا ہے نئے مہمان کو پر ند ہ نہیں پہچا نتا، لڑکی پہچا نتی ہے یہاں بادشاہ کی جان بچا نے کے لئے کنیز نے اپنی جان دی تھی اُس کنیز کا مجسمہ حمام کے سامنے حوض پر نصب ہے مجسمہ جتنا خوبصورت ہے حوض کے پانی میں اس کا حسن دو بالا ہوجاتا ہے حوض کے دائین طرف چینی زبان کے 6000 حروف پتھر کے کتبوں میں لکھے ہوئے ہیں کا ریگر بیٹھے ہیں اور کام کر رہے ہیں یہ حروف کیر یکٹر (Character) کہلاتے ہیں خیبر پختونخوا کا ضلع بونیر سیاحت میں سوات اور چترال پر سبقت لے جاسکتا ہے ٹانک، ڈی آئی خان ، دیر لوئیر اور صوابی میں دلکش مقامات ہیں چترال کے چار قدیمی قلعے سیاحوں کے لئے پرکشش ہیں نو شہر ہ میں مانکی شریف اور زیارت کا کا صاحب کے اردگرد ایسے دلچسپ مقامات ہیں جنکو سیاحتی سہولیات سے آراستہ کیا جاسکتا ہے مگر اس کے لئے حکومت کو ریگو لیٹری ذمہ داری لیکر سارا کام نجی شعبے کے حوالے کرنا چاہیے نجی شعبہ آگے آئے گا تو خیبر پختونخوا کو اگلے چند سالوں میں چین ، سو ئٹر زلینڈ،اٹلی اور سپین کے برابر لا کر دکھا ئے گا ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , ,
2798

صدا بصحرا ……….. الزامات کی سفارت کاری……….. ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

پاکستان اور افغانستان کے درمیان گذشتہ 38سالوں سے الزامات اور جوابی الزامات کی سفارت کاری ہورہی ہے 12ربیع لاول یکم دسمبر کے روز جمرود روڈ پر زرعی ٹرنینگ انسٹیٹوٹ پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد پرانی باتوں کو پھر دہرایا گیا کابل ، جلال آباد یا ہرات میں حملہ ہوتا ہے تو الزام پاکستان پر لگایا جاتا ہے پشاور ، اسلام آباد یا لاہور میں دہشت گردی ہوتی ہے تو الزام افغانستان پر لگایا جاتاہے دسمبر 2014میں آرمی پبلک سکول پر حملہ ہوا تو اس کے تمام ذمہ دار افغانی نکلے دیگر حملوں کے ذمہ دار اور ماسٹر مائنڈ بھی افغانستان ہی سے آئے تھے پاکستان کا قوی ترین موقف یہ ہے کہ بھارت نے افغانستان میں دہشت گرد کیمپ قائم کئے ہوئے ہیں پاکستان کی سرحد کے قریب 12قونصل خانے قائم ہیں جو دہشت گردی کی نرسریوں کا کام دیتے ہیں اگر آپ کابل میں ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ گزاریں تو چار بنیادی حقائق سامنے آتے ہیں افغانستان میں بھارتی سرمایہ کاری ، کابل اور جلال آباد میں اردو اور ہندی کا رواج ، عوامی سطح پر پاکستانیوں کے خلاف نفرت اور ذرائع ابلاغ میں پاکستان کے خلاف عمومی پروپبگینڈا ۔یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے’’نیا افغانستان‘‘ کابل میں دارلامان ، شہرنو، پل چرخی اور دیگر علاقوں میں گھومیں دوستوں کے گھر جائیں، ہوٹلوں میں کھانا کھائیں، کسی ریستوران میں بیٹھیں ، ٹیلی وژن کا کوئی چینل لگائیں ، کوئی اخبار اٹھائیں آپ کو پتہ لگتا ہے کہ بھارت نے ذرائع ابلاغ میں سرمایہ لگایا ہے ذرائع ابلاغ پر بھارت کا مکمل کنٹرول ہے یہ سرمایہ افراد پر بھی لگایا گیا اداروں کو قائم کرنے اور فروغ دینے پر بھی لگایا گیا اس کا پھل بھارت کو مل رہا ہے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بھارت کی سرمایہ کاری امریکہ سے زیادہ ہے ہر سال ہزاروں طلباء اور طالبات کو سکالر شپ دیکر بھارت بھیجا جاتا ہے افغانستان کے اندر تعلیمی ادارے قائم کئے گئے ہیں اس طرح افغانستان کے شہروں میں بھارت نے بڑے بڑے ہسپتال قائم کئے مریضوں کو بھارت کے ہسپتالوں میں مفت علاج کے لئے لے جایا جاتا ہے ویزے کا طریقہ آسان بنایا گیا ہے جہازوں کے کرایوں میں سبسڈی دی گئی ہے سڑکیں بھارت کی بنائی ہوئی ہیں۔ سڑکوں پر بھارت کی 3ہزار بسیں چلتی ہیں جن پر بھارتی دوستی کے سٹیکر لگے ہوئے ہیں کابل اور جلال آباد میں گھریلو خواتین اور بچے بچیاں پشتو سے زیادہ اردو اور ہندی بولنا پسند کرتی ہیں ٹیلی وژن ڈراموں اور دیگر پروگراموں سے عوام نے اردو اور ہندی سیکھ لیا ہے پشتو میں بھی اردو اور ہندی کے الفاظ استعمال کرتے ہیں یہ ثقافتی اثرو ونفوذ ہے جو نرم زہر (Slow Poison)کی طرح افغان ملت کے خون میں داخل کیاگیا ہے افغانستان کی پشتو اور فارسی بولنے والی آبادی میں صرف شاگرد اپنے پاکستانی استاد کو پہچانتا ہے خونی رشتہ دار پاکستانی عزیز کو پہچانتا ہے عام افغانی ہرجگہ پاکستانی سے نفرت کرتا ہے بھارتی شہری کو دوست قرار دیتا ہے عموماً پاکستانیوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ پاسپورٹ مت دکھاؤ ، خود کو بھارتی ظاہر کرو، تو مصیبت سے بچ جاؤگے، ذرائع ابلاغ میں پاکستان کے خلاف مسلسل پروپبگینڈا چل رہا ہے۔ ہر برائی کی جڑ پاکستان کو قرار دیا جاتا ہے دشمن نمبر ایک پاکستان کو قرار دیا جاتا ہے ۔ ریڈیو ، ٹیلی وژن اور اخبار ات کے علاوہ سوشل میڈیا کے ذریعے بھی پاکستان کو دہشت گردوں کی نرسری اور برائی کی جڑ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے تحقیق اور تجزیہ کرنے والے کہتے ہیں کہ یہ سارا کام ایک دن میں نہیں ہوا۔1980ء میں اس کی ابتدا ہوئی پاکستان کے مقابلے میں بھارت نے 1980ء کی دہائی میں بہتر حکمت عملی اپنائی ۔ امریکہ کو اعتماد میں لیکر سویت یونین کی مدد سے افغانستان میں داخل ہوا نور محمد ترکئی، حفیظ اللہ امین ، ببرک کارمل اور ڈاکٹر نجیب اللہ کے ادوار میں اپنے پاؤں جمالئے ۔برہان الدین ربانی، صبغت اللہ مجددی اور ملا عمر کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کئے۔حامد کرزی،اشرف عنی اور عبداللہ عبد اللہ کے ساتھ دوستی نبھائی ۔پاکستانی قیادت نے 1980ء کی دہائی میں بھی غلط فیصلے کئے، جینوا معاہدے کے وقت بھی پاکستانی قیادت دوگرہوں میں بٹ گئی جینوا معاہدے کے بعد بھی پاکستانی قیاد ت نے افغانستان کے بارے میں غلط اندازے لگائے تحقیق اور تجزیے کا فقدان رہا، غلط سمت میں سفر کی بے شمار وجوہات تھیں نالائقی ، نااہلی اور بدعنوانی بھی ان وجوہات میں شامل تھیں ہم نے ذاتی مفاد کو سامنے رکھابھارت کی قیادت نے قومی مفاد کو سامنے رکھا اب ہمارے پاس ایک ہی آپشن ہے اور اس آپشن کا کوئی شارٹ کٹ (Short Cut)نہیں ہے اگلے 20سالوں کے لئے طویل المیعاد منصوبہ بندی کے تحت افغانستان کے اندر، انفراسٹرکچر، تعلیم ، صحت اور ذرائع ابلاغ کے شعبوں میں ایسی سرمایہ کاری کی جائے جیسی بھارت نے کی ہے الزامات اور جوابی الزامات کی سفارت کاری سے صورت حال میں کبھی بہتری نہیں آئے گی۔ بقول حسرت موہانی
ہے جہان مدفنِ شہید وفا
واں کبھی آپ کا گذر نہ ہوا

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
2672

صدا بصحرا ……….. خوف کے سایے ……….. ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ؔ

Posted on

ربیع الاول میلادشریف کا مہینہ ہے ا س ماہ نبی کریم خاتم النبےئن حضرت مصطفےٰ ﷺ کی ولادت ہوئی اور اسی مہینے آپ کا وصال ہوا 12 ربیع الاول یوم ولادت بھی ہے یوم وصال بھی اس لئے اسلامی کیلنڈر میں اس تاریخ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے قرآن پاک میں بنی کریم ﷺ کے لئے بے شمار القا بات آئے ہیں ان میں رحمتہُ للعالمین بھی ہے رووف بھی ہے رحیم بھی ہے سورہ آل عمران آیت 159 میں حصور ﷺ کی نرم دلی کو مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ خصوصی مہربانی قرار دیا گیا ہے بنی کریم ﷺ کی بعثت مبارک کے بے شمار معجز ے تھے اس کا ایک اعجاز یہ تھا کہ زمانہ جاہلیت کی دشمنیوں کا سلسلہ ختم ہو ا خون ریزی بند ہوئی گھوڑے اور اونٹ کو پانی پلانے کے جھگڑے پر کئی نسلوں تک دشمنی چلتی تھی سینکڑوں بے گناہ لوگ اس دشمنی کی بھینٹ چڑھ جاتے تھے بنی کریم ﷺ کی تعلیمات میں امن اورر سلامتی سب سے بڑی تعلیم ہے صحاح ستہ کی 6 ہزار احادیث میں سے دو تہائی کا تعلق حقوق العباد ، باہمی معاملات ، معاشرتی انصاف ، رواداری ،برداشت اور بھائی چارے کی خوبیوں سے ہے ایک تہائی کا عنوان دیگر عبادتیں ہیں قرآن پاک سورہ بقرہ آیت 126 اور سورہ ابراہیم آیت 35 میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا ذکر ہے دعا کی قبولیت کا ذکر ہے اور ارشاد فرمایا گیا ہے کہ خانہ کعبہ کو لوگوں کے لئے امن کی جگہ بنا یا گیا سورہ قریس آیت 5 میں قریش اور مسلمانوں پر اللہ تعالےٰ کے احسانات کا ذکر کر کے فرمایا گیا کہ اللہ تعالے نے ان کو خوف کی حالت سے نکال امن کی حالت دیدی 1439 ہجری کا 12 ربیع لاول پاکستان ، اسلام اباد ، لاہور ، کراچی ، کوئیٹہ اور پشاور میں ایسی حالت میں آیا ہے کہ یہاں بنی کریم ﷺ کے نام لیوا خوف کے سایے میں زندگی گذار رہے ہیں یہودی ، عیسائی ، ہندو،سکھ ،بدھ مت یا دہر ی ، ملحد سے خوف نہیں کلمہ گو مسلمان سے خوف ہے یہ بہت بھاری جملہ ہے مسلمان دُنیا میں امن اور سلامتی کی ضمانت بن کر آیا آج وہ خوف اور دہشت کی علامت بن چکا ہے اگر علامہ اقبال آج زند ہ ہوتے تو یقیناًمذہب اور سیاست کے بارے میں اپنا نقطہ نظر بدل دیتے آج ان کا مشہور شعر وہ نہ ہوتا جو مشہور ہوا ہے بلکہ یوں ہوتا جو کسی کو معلوم نہیں
نظام پادشاہی ہو یا جمہو ری تماشا
’’ ملاِ ‘‘ ہو دینِ سیاست میں جو ’’ بن ‘‘ جاتی ہے چنگیزی
آج سے 100 سال پہلے 1917 ؁ء میں دین کی ترویج و اشاعت کا کام جید علمائے دین کے ہاتھو ں میں تھا دارلعلوم سے فارغ ہونے والے ہر عالم کی سند کے ساتھ شجر ہ ہوتا تھا کہ اس کا استاد کس کا شاگرد ہے یہ شجر ہ کم از کم 10 علما ء حق تک پہنچتا تھا اسی طرح کسی خانقا ہ کے پیر و مرشد کا با قاعد ہ شجر ہ ہوتا تھا کہ اُس کے پیرکس کے ہاتھوں پربیعت تھے یہ شجر ہ کم از کم 30 مشائخ تک جاتا تھا اس پس منظر کا عالم اور شیخ لوگوں کی رہنمائی کر تا تھا آج صورت حال اس کے برعکس ہے آج کی صور ت حال یہ ہے کہ علامہ تقی عثمانی ، مفتی منیب الرحمن ، مولانا ذولفقار احمد نقشبند ی ، مولانا محمد اکرام اعوان اور ہزاروں دیگر علماء و مشائخ کاذکر کہیں نہیں ہوتا جن لوگوں کا نام لیا جاتا ہے اُن کے پاس نہ علم کی سند ہے نہ استاد کا شجرہ ہے نہ شیخ کی بیعت کا پتہ ہے نہ شیخ کا شجر ہ ہے 2017 ؁ء میں فنانسر یعنی چندہ دینے والے کا حکم چلتا ہے 8 ربیع الاول ، 27 نومبر کو سوشل میڈیا پر خادم حسین رضوی اور افضل نور کے حوالے سے جو آڈیو گفتگو سوشل میڈیا پر چھا گئی اس میں جھگڑا یہ ہے کہ دین کا پر چار کر نے والا 50 کروڑ کا مطالبہ کر رہا ہے اور فنا نسر سوا پانچ کروڑ سے زیادہ ادا کر نے پر آمادہ نہیں 5 کروڑ 30 لاکھ وہ رقم ہے جو پہلے ہی ادا کی گئی ہے مفتی کفایت اللہ رحمتہ اللہ بر صغیر کے نامور عالم اور دارالعلوم امینیہ دہلی کے مہتمم گذرے ہیں ان کے پاس کوئی اجنبی آتا کہ دارالعلوم کے لئے 5 ہزار روپے چند ہ لے آیا ہوں تو مفتی صاحب چند ہ قبول کر نے کے لئے کم از کم 3 مہینے کی مہلت مانگتے تھے 3 مہینوں میں دئیے گئے پتے پر سفرا بھیج کر اس کا حسب نسب اور ذریعہ آمدن معلوم کر تے تصدیق ہوجاتی تو خط لکھ کر قبولیت کا اظہار کر کے چند ہ لے لیتے مشکوک شخص ہوتا تو خط لکھ کر معذرت کا اظہار کر تے اور درخواست کر تے کہ اپنا چندہ کسی دوسر ے مصر ف میں خرچ کرو 1917 ؁ء کا 5 ہزار روپیہ آج کل کے 5 کروڑ کے برابر ہے مگر آج عالم دین کی بات کو ماننے کا دستور نہیں ہے جو شخص چندہ دیتا ہے وہ فنا نسر ہے وہ اپنی بات منواتا ہے چاہیے اس میں دین کے بُنیادی عقائد کی نفی کیوں نہ ہو شعائر اسلام کی توہین کیوں نہ ہو یہی وجہ ہے کہ سینئر وکلا ء اور سینئر صحافیوں نے علما ئے حق سے اپیل کی ہے کہ ایک با ر پر اجتہاد کے ذریعے اس طرح کی سیاست میں دین ، مذہب ، قرآن اور رسول ﷺ کے مبارک نام کا تڑکہ لگانے کا سلسلہ ختم کرائیں ورنہ کوئی بھی فنانسر 5 کروڑ روپے کا چندہ دیکر خواندہ یا نیم خواندہ لوگوں کے ذریعے دین کے نام پر فساد بر پا کر اسکتا ہے اسی لئے شاعر نے علامہ اقبال کے کلام کی نئی پیر وڈی متعارف کرائی ہے ’’مِلاہو دین سیاست میں تو بن جاتی ہے چنگیزی ‘‘

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
2468

صدا بصحرا …………. حزب اللہ کے خلاف مہم ……….. ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

خبر آئی ہے کہ عرب لیگ کا اہم اجلاس ہنگامی طور پر مصر کے دار لحکومت قاہرہ میں بلایا گیا مصر کے فوجی صدر عبدالفتاح السیسی نے اپنی وزارت خارجہ کو میزبانی کا حکم دیا سعودی عرب کے وزیر خارجہ سے اجلاس کی صدارت فرمائی گئی اجلاس میں عراق اور لبنا ن کے نمائیندے شریک نہیں ہوئے شام اور یمن کو دعوت نہیں دی گئی 20 ملکوں کے وزرائے خارجہ نے اتفاق رائے سے فلسطینی مسلمانوں کی حریت پسند تنظیم حزب اللہ کو دہشت گرد قرار دینے کی قرارداد منظور کر کے اپنا فرض ادا کیا حسن نصر اللہ کی تنظیم حزب اللہ دنیائے اسلام کی سب سے بڑی فلاحی تنظیم ہے لبنان کے عیسائی بھی اس تنظیم پر اپنی جان قربان کرتے ہیں جو لائی اگست 2006 ؁ ء میں 50 دنوں کی لڑائی کے بعد حزب اللہ نے اسرائیل کے توپوں ،راکٹوں اور میزائلوں کو خاموش کر دیا تھا اب بھی اسرائیل کو حزب اللہ کی طاقت سے شدید خطرہ ہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی حزب اللہ کو دھمکی دی تھی امریکی وزیر دفاع نے سینٹ کی خارجہ کمیٹی میں کہا تھا کہ ہم اسرائیل کی راہ میں کوئی ناگوا ر رکاوٹ باقی نہیں رہنے نہیں دینگے لیکن ایسی بے شمار وجوہات ہیں جن کی بنا پر امریکہ یہ کام خود نہیں کرتا سعودی عرب اور مصر سے کام لیتا ہے کویت ،بحرین ،اردن اور متحدہ عرب امارات سے کام لیتا ہے اومان ،مسقط اور دیگر عرب ملکوں سے کام لیتا ہے معمر قذافی کو شہید کرنے کے بعد لیبیا پر امریکہ نے قبضہ کیا تھا اب لیبیا سے کام لے رہا ہے ۔
تیر کھاکے دیکھا جو کمین گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی

اب کیا ہوگا ؟اسرائیل اور امریکہ کے وزرائے خارجہ عر ب لیگ کی قرار داد کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں لے جائینگے جب قرار داد پیش ہوگی تو روس اس کو ویٹو کر رے گا دوسری بار قرار داد آئیگی تو چین ویٹو کر رے گا ’’پاسبان مل گئے کعبے کو صنم خانے سے ‘‘یہ 100 سال پہلے کا قصہ ہے 1917 میں برطانوی وزیر خارجہ بالفور نے شریف مکہ اور آل سعود کے جدّا مجد شیخ سعود کیساتھ معاہدہ کیا یہ پہلی جنگ عظیم کا زمانہ تھا معاہدہ میں تین باتیں تھیں پہلی بات یہ تھی کہ جنگ میں ہٹلر کو شکست دینے کے بعد سلطنت عثمانیہ کو ختم کر کے ترکی کو چار ٹکڑوں میں تقسیم کیا جائے گا چاروں ٹکڑے برطانیہ کے غلام ہونگے عربوں کو اس پر اعتراض نہیں ہوگا دوسری بات یہ تھی کہ شریف مکہ کو اردن میں بادشاہت دی جائیگی اور شیخ سعود کی اولاد کو حجاز مقدس کا بادشاہ تسلیم کیا جائے گا تیسری بات یہ تھی کہ فلسطین سے عربوں کو بے دخل کر کے یہاں یہودی ابادکاروں کی بستیاں تعمیر کی جائینگی اور 32 سالوں کے اندر یہاں ایک یہودی ریاست قائم کی جائے گی شریف مکہ اور شیخ سعود نے معاہدے پر دستخط کئے بالفور (Balfour) نے اس کا اعلامیہ جاری کیا تاریخ میں 100سال پرانی اس دستاویز کو بالفور ڈیکلریشن کہا جاتا ہے 1919 ؁ ء میں پہلی جنگ عظیم ختم ہوئی تو بالفور ڈیکلریشن پر عملد رآمد شروع ہوا شریف مکہ اور شیخ سعود کو باد شاہت ملی سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا علامہ اقبال نے کہا؂
اگر عثمانیوں پہ کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

سلطنت عثمانیہ کے حق میں پاک و ہند کے مسلمانوں نے تحریک چلائی اُسے تحریک خلافت کہا جاتا ہے مولانا محمد علی جوہر ؒ ،مولانا شوکت علی ،مولانا عبیداللہ سندھی ؒ اور ترکستانی مسلمانوں کے لیڈر امام موسیٰ جار اللہ کے نام آج بھی عزت اور احترام سے لئے جاتے ہیں ریشمی رومال تحریک کا ذکر آج بھی ہوتا ہے ترکی کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا مرحلہ آیا تو مصطفی کمال اتاترک دشمن کے سامنے پہاڑ بن کر کھڑا ہوا مگر اردن اور سعودی عرب کے بادشاہوں کی مدد سے فلسطنیوں کو فلسطین سے بے دخل کیا گیا یہودیوں کو وہاں بسایاگیا لبنان کے صابرہ اور شتیلہ کیمپوں میں فلسطینی مہاجرین پر امریکہ نے کئی بار بمباری کی حزب اللہ انہی فلسطینی مسلمانوں کی تنظیم ہے حسن نصراللہ ان کا لیڈر ہے 1917 ؁ ء میں ایک ریڈ انڈین واشنگٹن گیا تو ٹکٹ چیکر نے ان سے پوچھا ’’میرا شہر تمہیں کیسا لگا ؟ریڈ انڈین نے سوال کیا ،پہلے یہ بتاؤ میر ا ملک تمہیں کیسا لگا ؟2017 ء میں ایک فلسطینی سیاح یروشلم گیا تو اسرائیلی سپاہی نے یہی سوال پوچھا ،فلسطینی سیاح نے یہی جواب دیا آج بھی فلسطینی اپنے وطن کی آس لگائے بیٹھے ہیں حزب اللہ ان مہاجرین کی اولاد نے قائم کی ہے کتنے دکھ کی بات ہے کہ ان کو اسرائیل اور امریکہ سے اتنا خطرہ نہیں جتنا خطرہ سعودی عرب ،مصر اور عرب لیگ سے ہے یہ بھی دکھ کی بات ہے کہ مظلوم فلسطینی مہاجرین آج مدد کیلئے روس اور چین سے اُمید لگائے بیٹھے ہیں حزب اللہ کے خلاف مہم 100 سالہ تاریخ کا تسلسل ہے

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , ,
2349

صدا بصحرا ……….. ن لیگ کی ازمائش …………. ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنی اہلیہ کی تیمارداری کے لئے لندن جا نے کا پروگرام موخر کر کے رابطہ عوام مہم کو تیز کر نے او ر ایبٹ اباد جلسے کے بعد کوئیٹہ سمیت دیگر شہر وں میں جلسوں سے خطاب کر نے کا فیصلہ کیا ہے اگلے ہفتے سے اس مہم کی جھلکیاں اخبارات میں آئینگی ایسا لگتا ہے کہ سابق وزیراعظم 1970 ؁ء کے عشر ے میں گذرنے والے ایک اور سابق وزیراعظم ذولفقا ر علی بھٹو کے نقش قدم پر چل کر اُسی کے انجام سے دو چار ہو نا چاہتے ہیں مگر دونوں میں کوئی مماثلت نظر نہیں آتی سوائے اس کے کہ بھٹو نے بھی مقدمات کی پیر وی کو چھوڑ کر تقر یر یں کر نے کا سلسلہ شروع کیا یہاں تک کہ انہوں نے عدالت میں بھی ڈھائی گھنٹہ شستہ انگر یز ی میں زور دارسیاسی بیان دیا تاریخ سے بسمارک، چرچل اور دیگر عظیم رہنما ؤں کے حوالے دیے جمی کارٹر کے خط کا ذکر کیا تیسر ی دنیا کی محرومیوں کا قصہ دہر ایا ، فیدل کا سٹر و اور دیگر لیڈروں کی مثالیں دیں ان کی تقر یریں بہت اچھی تھیں مگر ان کی ضرورت ان تقر یر وں سے زیادہ قانونی معاملات کی طرف توجہ دینے کی تھی جو اُن سے نہ ہو سکی نواز شریف کی تقر یر میں وہ حسن ،وہ چا شنی اور معلومات کی فراوانی یا تقر یر کی روانی بھی نہیں ہے تقریر کے اندر جان بھی نہیں ہے بھٹو امریکہ کی طرف اشارہ کر رہے تھے اور دلیل دے رہے تھے نواز شریف کہہ رہے ہیں مجھے نکلو ا یا گیا ، سزا دلو ائی گئی مگر امر یکہ یا کسی اور طاقت کا ذکر گول کر جاتے ہیں اس لئے عوام کے ذہنوں میں کسی نکتے کی وضاحت نہیں ہو تی اگر کسی دوست کو لاہور کے اخباری حلقوں کے قریب دوچار دن گذارنے اورخبروں کا نچوڑ دیکھنے کا موقع ملے تو چار نکات سامنے آتی ہیں میرے دو دن لاہور میں گذرے نومبر کی 15 تاریخ سے 17 تاریخ تک میں نے لاہور کے اخبار نویسوں کے ساتھ گذارا مخالفین سے زیادہ شریف فیملی کے حامیوں سے ملنے کا اتفاق ہوا ن لیگ کی ازمائش کے جو نکات سامنے آئے وہ چشم کشا بھی ہیں حیرت افزا بھی پہلا نکتہ یہ ہے کہ جنرل مشرف اور نواز شریف کی معزولی کا سبب ایک ہی ہے چائنا پاکستان اکنا مک کوریڈور نہ ہوتا تو پرویز مشرف اب تک اقتدار میں ہوتے آصف علی زرداری نے پاک ایرا ن گیس پائپ لائن اور سی پیک کے معاملے پر کمال عیاری سے کام لیا اور اپنی مدت پوری کر لی پرویز مشرف اور نوازشریف ایسا نہ کر سکے امریکہ نے دونوں کو عبرت کا نشان بنا دیا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ نواز شریف نے گھر کو سنبھالنے میں کو تاہی دکھائی،ڈان لیکس کا چکر ان کے گھر کی دہلیز تک پہنچا بیٹی اور داماد کی وجہ سے گرفت میں آگئے اورجکڑ لئے گئے تیسرا نکتہ یہ ہے کہ تیسری بار حکومت میں آنے کے بعد انہوں نے قربانی دینے والے جاوید ہاشمی کی طرح کئی لیڈروں کو نظر انداز کر کے چُوری کھا نے اور دودھ پینے والے مجنونوں کو اہمیت دی چوہدری نثار نے اکتوبر 1999 ؁ء کی طرح جولائی 2017 ؁ء میں بھی بے وفائی کی خواجہ آصف ، سعد رفیق اور عابد شیر علی نے نواز شریف اور ن لیگ کے لئے مشکلات پید ا کئے ایوان صدر ، سپیکر یا سینیٹ کے چےئر مین کی نشست پر مسلم لیگ کا کوئی ورکر ہوتا تو مشکلات اور �آزما ئشوں کے دور میں سہولت ہوتی راجہ ظفر الحق ، شیخ روحیل اصغر ، جاوید ہاشمی اور ان کی طرح دیگر مسلم لیگی لیڈروں کو اہم عہد وں پر آگے لایا جاتا تو 5 سال ارام سے پورے ہوسکتے تھے چوتھی اہم بات یہ ہے کہ ڈان لیکس کی طرح شریف فیملی کے اندر اختلافات کو ہو ادی گئی شہباز شریف کے صبر کا بار بار امتحان لیا گیا شہباز شریف کو بھائی سے جدا کر نے کی ایسی کوششیں گھر کے اندر کی گئیں جس طرح مرتضیٰ بھٹو کو محترمہ بے نظیر بھٹو سے جدا کر نے کی مہم چلائی گئی تھی مگر شہباز شریف کی برد باری ، فراست اور قابلیت کی وجہ سے یہ بات اب تک پردے میں تھی اب یہ پردہ چاک ہوا ہے اور یہ ن لیگ کے زوال کا بڑا سبب ہے اب بھی وقت ہے مریم نواز ،کپٹن صفدر ، خواجہ آصف ، سعد رفیق اور عابد شیر علی کو خاموش کر دیا جائے نواز شریف اپنی رابطہ عوام کی ناکام مہم ختم کردیں تو معاملات سدھر سکتے ہیں پارٹی کی قیادت میاں شہباز شریف کے ہاتھو ں میں دیدی جائے تو ن لیگ آزما ئشوں سے سر خرو ہو کر نکلے گی اور پارٹی کی حیثیت بحال ہوگی ورنہ اس آزما ئش سے عہد ہ بر آ ہو نا مشکل ہے ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , ,
2266

صدابصحرا……….. ادب اور ماحولیات…….. ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

Posted on

ادب اور ماحولیات کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ انشا پردازی ‘ناول نگاری، داستان گوئی اور شاعری میں محاکات کو ماحولیات ہی کہا جائے گا۔ اورکیا نام دیا جائے گا ! مگر لطف کی بات یہ ہے کہ شاہ لطیف یونیورسٹی خیرپور سندھ کے شعبہ اردو نے اس موضوع پر بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام اور فروری2017میں اعلامیہ جاری ہوا تو سب نے حیرت کا اظہار کیا”ادب اور ماحولیات”کیا موضوع ہے ! نومبر کے دوسرے ہفتے میں یہ کانفرنس پاکستان میں ہوئی جب کہ تیسرے ہفتے میں جرمنی کے شہربون نے اسی موضوع پر کانفرنس کی میزبانی کی۔ یوں عقدہ کھلا کہ یہ دماغ کا خلل نہیں۔ عالمی توجہ کا متقاضی عنوان ہے ۔ کانفرنس میں 23ممالک کے مندوبین آئے اور دنیا کی17زبانوں کے ادب میں ماحولیات کے موضوع کا جائزہ لیا گیا۔
روایت سے ہٹ کر کانفرنس کی افتتاحی نشست میں کسی بھی سرکاری عہدیدار کو بلانے کی جگہ سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کو بلایا گیا۔ شاہ لطیف یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر پروین شاہ، فیکلٹی آف لینگویجز اینڈ آرٹس کے ڈین ڈاکٹر یوسف خشک اور شعبہ اردو کی چیئرپرسن ڈاکٹر صوفیہ خشک نے کانفرنس کے پس منظر اور اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی۔ ڈکٹر یوسف خشک نے یاد دلایا کہ ماحوالیاتی تنقید ادب کا نیا شعبہ ہے۔ اس شعبے میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ معاصر ادب کے اندر ماحول کو کتنا وقت اور کتنی جگہ حاصل ہے۔ شاہ لطیف نے آج سے تین سو سال پہلے مگر مچھ سے خطاب کرکے ایک بات کہی تھی “اے مگرمچھ! تو جس طرح سب کو ختم کرنے پر تلا ہوا ہے یہ نہ بھولو ان سب کے خاتمے میں تیرا خاتمہ بھی مضمر ہے”آج انسان نے نباتات ، حیوانات، چرند، پرند اور مچھلیوں کی نسل کو ختم کیا۔ ہواؤں اور دریاؤں کو آلودہ کیا ، اس طرح مگرمچھ کی طرح اپنے خاتمے کا سامان اپنے ہاتھوں سے کرلیا ہے اور یہی ادب کا موضوع ہے اسی پر اس کانفرنس میں بحث ہورہی ہے کامرس اینڈ انڈ سٹری کے شعبے سے تعلق رکھنے والے دانشور عامر غوری نے کہا کہ ماحولیاتی آلودگی نے دنیا کو اس درجہ متاثر کیا ہے کہ آج انسان نے زمین اور آسمان کے اس مدار سے باہر نکل کر مریخ میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ” یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں “امریکہ کی تین ریاستوں میں اس منصوبے پر کام ہورہا ہے ۔ ٹیکساس میں ایلون مسک (Elon Musk)نے اس کام کا بیڑا اٹھایا ہے۔ ٹیسلا(Tesla) سپے سکس(Spasex)اور ہائپر لوپ(Hyper Loop)نامی کمپنیاں اس پر کام کر رہی ہیں ۔ 2020میں پہلا خلائی سٹیشن قائم ہوگا۔2026تک انسانوں کو تعمیراتی سامان کے ساتھ مریخ پر اتارنے والے جہاز باقاعدہ سروس شروع کریں گے ۔ علامہ اقبال نے کہا تھا “کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد”برطانیہ سے آنے والے مندوب یشیب تمنانے ورڈزورتھ، محمد ابراہیم کھوکھر نے شاہ لطیف، فرحت جبیں ورک نے منیر نیازی ،ایران سے آنے والی مندوب ڈاکٹر وفا یزداں منش نے فارسی ادب، مصر سے آنے والے دانشور ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم السید نے مصری ماحول اہرام اور نیل کے ادب پر اثرات، جرمنی کے ڈاکٹر تھامس سٹیمر نے جرمن ادب اور ماحول ، سویڈن کے ڈاکٹر ورنر ویسلر نے عالمی ادب میں ماحولیاتی خطرات کے تنقیدی جائزے اور ترکی سے آئی ہوئی ڈاکٹر آرزو سورن نے یشارکمال کے ناول”سمندر ناراض ہوگیا”کے حوالے سے مقالات پیش کئے۔ اردو ادب کی نامور شخصیت ستیہ پال آنند واشنگٹن سے اور مشہور براڈ کاسٹر، ادیب اور دانشور رضا علی عابدی لندن سے تشریف لائے تھے۔ رضا علی عابدی کو لفظوں کا جادوگر کہا جاتا ہے ۔ انہوں نے عالمی حدت، موسمیاتی تغیرات،اوزون میں سوراخ اور دیگر عوامل کے ساتھ کوئلہ، ڈیزل، پٹرول اور دھواں چھوڑنے والے آلودہ کار ایجادات کا ذکر چھیڑتے ہوئے کہا کہ” اب ایجاد کو ایک بار پھر ضرورت کی ماں ہونے کا ثبوت دینا چائیے” کوئی ایسی مشین آنی چائیے جو دھوئیں کے مرغولوں سے جہانِ آب وگِل کو نجات دے ۔ بیشک یہ ایک خواب تو ہے مگر” یاد رہے دیوانے کا نہیں”۔ سندھ یونیورسٹی جام شورو کے عتیق احمد جیلانی ، کراچی یونیورسٹی کے ڈاکٹر روف پاریکھ اور پنجاب یونیورسٹی کے ڈاکٹر وحید الرحمٰن نے خوب صورت مقالے پیش کئے۔ خیبر پختونخواہ سے ایبٹ آباد کے عامر سہیل صوابی یونیورسٹی کے نقیب احمد جان، یونیورسٹی آف چترال کے ڈاکٹر بادشاہ منیر بخاری، سرحد یونیورسٹی کے ڈاکٹر محمد امتیا ز ، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے عبداللہ جان عابد مندوبین میں شامل تھے ۔ سکردو بلتستان سے ڈاکٹر عظمی سلیم اور محمد حسن حسرت نے کانفرنس میں دلچسپ مقالے پیش کئے۔ چترال کے مندوب نے کھوار ادب کی قدیم صنف اشور جان کے ایک بند کا ترجمہ پیش کیا جو بے حد پسند کیا گیا۔ترجمہ یہ ہے” میری جاں! میرے ہمدم! کاش میں کسی راہ گزر پر ایک چشمہ ہوتا، میری محبوبہ چشمے پر آتی، اپنی انگلی سے چشمے کو چُھو کر دیکھتی کہ چشمہ ٹھنڈا ہے یا نہیں۔ پھر کہتی کہ چشمہ بہت ٹھنڈا ہے اور اپنے شیریں لب بھر بھر کر چشمے کا پانی پی لیتی، میری جا ں ! میرے ہمدم! اس وقت میرے سارے ارمان پورے ہوتے اور مجھے موت کا غم بھی نہ ہوتا”اس طرح اختر شیرانی کی نظم “او دیس سے آنے والے بتا”اور مجید امجد کی نظم “توسیعِ شہر”کا بھی خوب چرچا رہا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
2109

صدابصحرا ……….روسی حکومت اور خیبر پختونخوا……… ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

بہت بڑی خبر ہے خیبر پختونخو کی ٹورزم کا رپوریشن نے روس کے ثقافتی اور سیاحتی میلے میں سٹال لگا کر صوبے کی ثقافت اور سیاحت کو پیش کیا روسی حکومت اور روس کی سابق ریاستوں نے خیبر پختونخوا کی ثقافت و سیاحت میں گہر ی دلچسپی لی اور خیبر پختونخوا حکومت کیساتھ مختلف منصوبوں میں شراکت کرنے کا عندیہ دیا اب شراکت کے نمونوں پر منصوبے تیا ر کئے جائینگے خبر میں بتایا گیا ہے کہ تحت بائی،سوات ،چکدرہ ،چترال ،ایوبیہ ،کاغان ،گلیات اور دیگر مقامات پر تصویری نمائش کی گئی بروشروں اور دستاویزی فلموں کے ذریعے تقافتی و سیاحتی مقامات کی عکاسی کی گئی خیبر پختونخوا میں دنیا کی منفرد ثقافت کالاش کلچر کو اجاگر کیا گیا دنیا کے بلند ترین پولو گراونڈ شندور پر فری سٹائل پولو میچ دکھائے گئے منگولیا ،کزاخستان ،ازبکستان ،ترکمنستان اور تاجکستان کے وفود نے خیبر پختونخوا کی ثقافت میں گہری دلچسپی لی اور اُمید ظاہر کی ہے کہ اگلے چند سالوں میں خیبر پختونخوا کے سیاحتی مقامات کے دیکھنے کیلئے روس اور روس کی سابق ریاستوں کے سیاحوں کی بڑی تعداد پاکستان کا رُخ کریگی تقافتی وفود کے تبادلہ سے دونوں ملکوں کے لوگوں کے درمیان صدیوں پرانے رشتے بحال ہو جائینگے خیبر پختونخوا میں روسی برتن ،پیالے ،قالین اور دیگر تجارتی مال صدیوں سے آتا رہا ہے اب وہ مال نادراشیاء میں شمار ہو تا ہے ماسکو اور سینٹ پیٹر ز برگ میں خیبر پختونخوا کے تاجر وں کی نسلیں اب بھی آباد ہیں اس طرح پشاور کے نواح میں قدیم روسی ریاستوں سے آکر آباد ہونے والے تاجروں کی نسلیں بستی ہیں یہ خاندان خوقندی کہلاتے ہیں جو روس کے قدیم شہر خوجند سے تجارت کی غرض سے آتے جاتے تھے کمیونسٹ انقلاب (1917) کے بعد روسی سرحد کو آہنی پردہ (Iron Curtain) کا نا م دیا گیا آمد ورفت بند ہوگئی 1947 ؁ء میں قیام پاکستان کے بعد ہمارے 30 سال پرانے رشتوں کو بحال کرنے کا وقت آیا تھا مگر درمیان میں امریکہ حائل ہوا ،فیلڈ مارشل ایوب خان کے دورمیں عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ آمدورفت کیلئے قراقرم ہائی وے تعمیر ہوئی روس کے ساتھ تعلقات کو استوار کرنے پر بھی توجہ دی گئی کمیونسٹ حکومت نے کراچی میں ایشیاء کا سب سے بڑا سٹیل ملز قائم کیا مگر افغانستان پر امریکی قبضے کی جنگ میں پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دے کر اپنے پاوں پر کلہاڑی ماری روس کے ساتھ مزید دوریاں پیدا ہوئیں امریکہ کو ہماری مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کے مزید مواقع مل گئے 2017 ؁ ء میں افغانستان پر امریکی قبضہ مستحکم ہو چکا ہے پاکستان کے خلاف امریکہ ،افغانستان اور بھارت کا سہ فریقی اتحاد بن گیا ہے اس لئے پاکستان کا مفاد اس بات میں ہے کہ ہم چین اور روس کے ساتھ اپنے تاریخی ،تقافتی اور معاشی و تجارتی تعلقات کو مستحکم کر کے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا مقابلہ کریں اس سلسلے میں چین کے ساتھ تعلقات میں کافی پیش رفت ہوئی ہے پاکستان اور خیبر پختونخوا کے ہزاروں طلبہ اور طالبات چین کی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC) کے ذریعے معاشی ترقی کے مواقع سے پاکستان فائدہ اُٹھارہا ہے اگلے چند سالوں میں سول اور فوجی افیسروں کے تما م تربیتی پروگراموں کیلئے امریکہ اور برطانیہ کی جگہ چین ،روس اور ترکی کے ساتھ معاہدے ہونگے تو ہمارے دشمنوں کو معلوم ہو جائے گا کہ پاکستان مغربی ممالک پر انحصار کرنے والا ملک نہیں رہا دوست ملکوں سے تربیت پاکر واپس آنے والے افیسروں کا رویہ بھی عوام کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی کا رویہ ہوگا عوام اور افیسروں کے درمیان دوریاں ختم ہونگی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان جس خطے میں واقع ہے اس خطے کا امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ کوئی رشتہ یا تعلق نہیں بنتا اس کے تاریخی ،لسانی ،تقافتی اور نسلی روابط چین،روس،وسطی ایشیاء اور مشرقی ممالک کے ساتھ ہیں یہ صدیوں پر محیط فطری اتحاد ہے تاجکستان سے لاہور یا پشاور آنے والا خود کو اجنبی نہیں سمجھتا راولپنڈی ،کراچی ،ملتان ،کوئٹہ اور پشاور سے بخارا ،سمر قند ،دوشنبہ، ماسکو یا بیجنگ جانے والا سیاح خود کو مانوس سمجھتا ہے دوری کا احساس نہیں ہوتا ٹورزم کا رپوریشن آف خیبر پختونخوا نے روس اور روس کی سابق ریاستوں کو پشاور ،سوات ،ہزارہ اور چترال کی طرف راغب کر کے تاریخ کا قرض ادا کیا ہے اگلے چند سالوں میں سی پیک کے وجہ سے خیبر پختونخوا کو سڑکوں کے ذریعے تاجکستان اور دیگر وسط ایشیائی ریاستوں سے ملایا جا رہا ہے بعض حلقوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ افغانستان کے سوا دوسرا راستہ نہیں حالانکہ شاہراہ قراقرم کو افغانستان کے بغیر وسط ایشیائی ریاستوں سے ملانے کے بے شمار راستے ہیں وخجیر کے درے سے گریٹ پامیر کو جانے والا راستہ زمانہ قدیم میں بھی استعمال ہو تا رہا ہے وخجیر سے جنوب میں سوما تاش کا راستہ چھوٹے پامیر اور واخان کو جاتا ہے شمال مغرب کا راستہ گریٹ پامیر ،مُرغاب اور خوروگ کے راستے دوشنبہ کو جاتا ہے اگر خیبر پختونخوا کی طرح حکومت پاکستان نے بھی روس اور سطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ ثقافتی اور تاریخی رشتوں کو مستحکم کرنے پر توجہ دی تو یہ ہمارے روشن مستقبل کی ضمانت ہوگی ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
1849

صدا بصحرا ……….. چابہار او ر گوادر………..ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ؔ

Posted on

خبر آئی ہے کہ بھارت سے چا بہار کی بند ر گاہ کے ذریعے گندم ، چاول اور دیگر اشیا ئے خوراک کی پہلی کھیپ افغانستان پہنچے گی تو جشن کا سماں نظر آئے گا اس جشن کی تیاریاں کی گئی ہیں چا بہار ایرانی بندر گاہ ہے بھارت نے چا بہار کی بند ر گاہ سے قند ہار، ہرات اور کابل تک تجارتی شاہر اہ کی تعمیر کا کام مکمل کر کے اشیا ئے خوراک کی پہلی کھیپ روانہ کی ہے اگر نقشے پر غور سے دیکھا جائے تو چا بہار کی بند ر گاہ ہماری گوادر والی بندر گاہ کے مقابلے میں افغانستان اور بھارت کی دوستی کا ثبوت ہے جس دور میں امریکہ نے پاکستان کو ایران کے ساتھ معاشی ، تجارتی اور ثقافتی تعلقات ختم کر نے پر مجبور کیا گیس پائپ لائن منصوبے سے پاکستان کو دست بردار کیا کوئیٹہ سے زاہد ان اور مشہد جانے والے قافلوں پر امریکیوں نے پے درپے حملے کرکے دونوں ہمسایہ ملکوں کو ایک دوسرے سے دور کیا ان سالوں میں بھارت نے چا بہار کی بندر گاہ سے افغانستان کے لئے شاہراہ کی تعمیر پر سر مایہ کاری کی اُسکا مقصد یہ تھا کہ امریکہ ،بھارت اور افغانستان زمینی راستے کے لئے پاکستانی حکومت کے محتاج نہ رہیں 2006 ؁ء سے لیکر 2016 ؁ء تک چابہار سے کا بل آنے والی شا ہر اہ کے نقشے اخبارات میںآتے رہے یہ وہ دور تھا جب گوادر کی بندر گاہ تعمیر ہوچکی تھی اس کو چلانے کا ٹھیکہ بھی سنگار پور کی کمپنی کو دیا گیا مگر امریکہ کے دباؤ پر سنگار پور کی کمپنی کا م نہ کرسکی چینی کمپنی نے ٹھیکہ لیا چینی کمپنی کو بھی کام کر نے نہیں دیا گیا گوادر میں گہرے سمندر کی بندر گاہ اب تک امریکہ کے رحم و کرم پر ہے یاد ش بخیر سابق صدر جنرل پرویز مشرف کہا کرتے تھے کہ ملکی بقا، سلامتی اور قومی ترقی واستحکام کے لئے پالیسیوں کا تسلسل بہت ضروری ہے چابہار سے افغانستان تک شاہراہ کی تعمیر میں پالیسیوں کا تسلسل نظر آتا ہے گوادر بندر گاہ کی ناکامی میں پالیسیوں کے ٹو ٹنے کا عمل دخل ہمیں نمایاں طور پر دکھا ئی دیتا ہے چاہ بہار سے کابل تک شا ہر اہ تعمیر کر نے کا منصوبہ کانگریس کی حکومت میں شروع ہوا منموہن سنگھ کے بعد بی جے پی کا وزیراعظم نر نید ر مودی آیا اُس نے کام کو جاری رکھا پالیسی میں فرق یا تعطل آنے نہیں دیا فوج اور عدلیہ نے مداخلت نہیں کی پارلیمنٹ نے رکاؤ ٹ نہیں ڈالی اپوزیشن نے شور نہیں مچا یا منصو بہ چلتا رہا اور تکمیل کو پہنچ گیا بھارت ، امریکہ اور افغانستان کو لاکھ بُرا کہیں لیکن یہ کریڈٹ انکو جاتا ہے کہ اُنہوں نے ایک منصو بے پر کام شروع کر کے اس کو مکمل کیا اس کے مقابلے میں گوادر کی کہانی پڑھیں تو دل خون کے آنسو رونے پر مجبور ہوجاتا ہے پاکستان کے نامور وزیراعظم حسین شہید سہر وردی نے 1954 ؁ء میں گوارد کا علاقہ سلطنت اومان سے خرید لیا وہ اس کو بندر گاہ کا درجہ دیکر پاکستاان کو ایشیا اور یورپ کے درمیان تجارت کا مرکز بنا نا چاہتے تھے اُن کی سکیم واضح تھی اگر حسین شہید سہروردی 5 سال تک وزیراعظم رہتے تو دوبئی سے پہلے گوادر کی بندرگارہ بن چکی ہوتی اور پاکستان کی ترقی میں سنگ میل کی حیثیت اختیار کر چکی ہوتی مگر اُن کی حکومت کا خاتمہ کر کے ان کو گھر بھیجد یا گیا اس کے دیگر برے نتائج کے علاوہ ایک ناگوار نتیجہ یہ نکلا کہ گوادر کی بندر گاہ 53 سالوں تک تجارتی مرکز نہ بن سکی جنرل مشرف نے بندر گاہ بنائی تو اس کی حکومت ختم کر دی گئی نواز شریف نے گوادر کو CPEC کے ذریعے دوبارہ زند ہ کر نے کا پروگرام بنا یا تو اس کا بوریا بستر گول کر دیا گیا پالیسیوں کاتسلسل کسی شخصیت کے گردنہیں گھومتا یہ قومی مفاد،ملکی تعمیر و ترقی کو اپنا محور بنا تا ہے افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات میں سرد مہر ی کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہر آنے والی حکومت پچھلی حکومت کے معاہدوں کو مستر د کرتی ہے باہمی اعتماد ختم ہوجاتا ہے اگر چاہ بہار کے راستے بھارتی مال کی پہلی کھیپ کا بل ’’ پہنچنے ‘‘ پر جشن کا سما ں ہوا تو ہمیں اس پر کوئی تعجب نہیں ہوگا ’’ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں ‘‘

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
1712

صدابصحرا ……… 2019 کا چترال ………..ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

پولو گراونڈ چترال میں 50ہزار عوام کے مجمع سے خطاب کر تے ہوئے خیبر پختونخوا کے وزیر اعلی پر ویز خٹک نے سب ڈویژن مستوج کو ضلع کا درجہ دینے کا اعلان کیا اور وعدہ کیا کہ اس کا نوٹیفکشین چند روز میں ہو جائے گا اس سے قبل چترال کی سب تحصیل دروش کو تحصیل کا درجہ دینے کا نوٹیفکشین جاری ہو چکا ہے گرم چشمہ کو تحصیل کا درجہ دینے پر غور ہو رہا ہے اس طرح سب ڈویژن مستوج کو ضلع کا درجہ دینے کے بعد موڑکہو تحصیل اور تور کہو تحصیل کے نام سے دو نئی تحصیلیں بنینگی اور 2019 ؁ ء کے بلدیاتی انتخابات میں چترال کی نئی انتظامی یونٹوں میں دو ضلع ناظمین اور 6تحصیل ناظمین ہونگے اس حساب سے تحصیل کونسلروں کی تعداد میں اضافہ ہو گا ہر تحصیل میونسپل ایڈمنسٹر یشن کا عملہ الگ آئے گا اب اگر تحصیل میونسپل افیسر انفراسٹر کچر کے نام سے دو انجینئر پورے چترال کی 270کلو میٹر لمبی وادی کی 34الگ الگ گھاٹیوں کے اندر کاموں کو دیکھتے ہیں 2019ء میں یہ کام 6انجینئروں میں تقسیم ہو گا 6ناظمین اس کام کے لئے فنڈ مہیا کرینگے مگر یہ اتنا آسا ن نہیں جتنا لکھنے اور پڑھنے میں نظر آتا ہے علامہ اقبال نے کہا تھا
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں

موجودہ حالات میں صورت حال یہ ہے کہ چترال کے ایم این اے شہزادہ افتخارالدین ،ایم پی اے سلیم خان ،ایم پی اے سردار حسین اور ضلع ناظم حاجی مغفرت شاہ نے اپنے آپ کو نئے ضلع کے اعلان اور وزیر اعلی کے جلسہ عام ،دورہ چترال سے لا تعلق رکھا نو شو (No Show) کی تختی اویزاں رہی ،چترال کی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور کارکنوں نے اپنے آپ کو لا تعلق ظاہر کیا اب یہ پاکستان تحریک انصاف کی واحد ایم پی اے بی بی فوزیہ ،پاکستان تحریک انصاف کے ضلعی صدر عبدالطیف ،جنرل سکرٹری اسرارالدین ،سینئرلیڈر حاجی سلطان محمد ،عبدالولی خان ایڈوکیٹ ضلع کونسل کے ممبر رحمت غازی ،غلام مصطفےٰ ،محمد یعقوب خان ،زلفی ہنر شاہ اور دیگر قائدین کے لئے امتحان کا درجہ اختیار کر گیا ہے ڈپٹی کمشنر چترال ارشاد علی سو ڈھر اس سلسلے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں شہزادہ سراج الملک ،شہزادہ سکندر الملک اور شہزادہ امان الرحمان کے اثرورسوخ سے بھی کام لیا جاسکتا ہے سب ڈویژن مستوج کو ضلع کا درجہ دینے کے مخالفین نے پہلے ہی سے پروپگینڈاشروع کیا ہوا ہے کہ وزیر اعلی پرویز خٹک محض سیاسی اعلان کرینگے اس کو عملی جامہ نہیں پہنا سکینگے مخالفین کے ایک گروہ نے یہاں تک دعوی کیا ہے کہ چترال میں نیا ضلع نہیں بننے دینگے مخالفین نے یہ بھی کہا ہے کہ نیا ضلع بننے سے چترال کابٹوارا ہو گا وزیر اعلی پرویز خٹک سے ایک نشت میں اس موضوع پر بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ خان صاحب کا وژن اور مشن ہی ایسے گروہوں کے خلاف جہاد ہے ہمارا نعرہ تبدیلی ہے اور یہ مفاد پر ست ٹولہ ’’ سٹیٹس کو‘‘ چاہتا ہے ان کا مفاد اجارہ داری اور داداگیری میں ہے ہم اجارہ داریوں کو توڑنا چاہتے ہیں دادا گیری کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور ہم یہ کام کر کے رہینگے نوٹی فیکشین کے لئے جو تجویز اور پر بھیجی جائیگی اس میں پورا پیکیج دیا جائے گا اس پیکیج کے دو حصے ہونگے پہلے حصے میں سب ڈویژن مستوج کوضلع کا درجہ دیکر ضلعی محکموں کا قیام الگ ضلع کونسل کا قیام اور اس کے دیگر لوازمات کا بلیو پبرنٹ ہو گا اس پیکیج کے دوسرے حصے میں دروش ،گرم چشمہ ،موڑکھو اورتور کھو کی نئی مجوزہ تحصیلوں کے لئے الگ الگ انتظامی ڈھانچہ تجویز کیا جائے گا حدود پہلے سے متعین ہیں ہیڈ کوارٹر بھی متعین ہیں آبادی بھی متعین ہے 2019ء کے بلدیاتی انتخابات کی حلقہ بندیاں نئی انتظامی یونٹوں کے حساب سے ہونگی اور یہ مشکل کام نہیں ہے خیبر پختونخوا کے انتظامی حکام کے پاس ایسے کاموں کا تجربہ بھی ہے اور ایسے اقدامات کی صلاحیت بھی ہے نئے ضلع،نئی تحصیلوں اور نئے انتظامی دفاتر کے قیام کی مخالفت کرنے والوں کا دکھ ہم کوبھی معلوم ہے پی ٹی آئی کی قیادت کو بھی اس کا علم ہے اُن کا دکھ یہ ہے کہ اتنا بڑا کا م ہماری حکومتوں نے کیوں نہیں کیا؟ اس کام کا کریڈیٹ ہمیں کیوں نہیں ملا؟عمران خان اور پرویز خٹک نے جس طرح ریپڈٹرانزٹ بس کے منصوبے کو چھ ماہ میں مکمل کرنے کا بیڑا اُٹھایا ہے اسی طرح چترال کی نئی انتظامی یونٹوں میں تقسیم اور دو ضلعوں کے ساتھ6تحصیلوں کے لئے انتظامی ڈھانچہ کی فراہمی کا کام بھی اگلے 6مہینوں میں مکمل کر کے دکھا ئینگے بقول فیض
’’ جو فرق صبح پہ چمکے گا تاراہم بھی دیکھینگے ‘‘

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged , , ,
1466