Chitral Times

داد بیداد ………..عرب دُنیا میں سیکولرزم …………… ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

بھارتی وزیر اعظم نے متحدہ عرب امارات میں تاریخ کے پہلے مندر کا سنگِ بنیاد رکھاسنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں عرب کے حکمران اور شیوخ کی بڑی تعداد موجود تھی تصاویر کے پسِ منظر میں بہت سے بُت بھی نظر آرہے تھے سنہرے رنگ کے یہ بُت پہلی کھیپ کے طور پر سنگ بنیاد کی تقریب کے لئے لائے گئے تھے مندر کی عمارت 2020ء میں مکمل ہوگی افتتاح کے موقع پر مندر میں 360بُت رکھے جائینگے یہ بُتوں کی وہ تعداد ہے جو فتح مکّہ کے وقت حرم شریف میں موجود تھے سیکولرزم کے حامیوں نے تحقیق کی ہے اور تحقیق کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ 1400سال بعد عرب میں سیکولرزم کا دور دورہ ہوگا تو وہی 360بُت عرب دنیا کے پہلے مندر میں رکھے جائینگے اس وقت عرب دنیا کو تین بڑے مسائل کا سامنا ہے عرب کے شیوخ اور حکمران ان مسائل کے حل کے لئے امریکہ اور بھارت کا تعاون حاصل کر رہے ہیں خود کو دنیا کے لئے قابل قبول بنانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے اوپر لگے ہوئے بنیاد پرست کے لیبل کو اُتار کر روشن خیال ، لبرل اور سیکولر کا لیبل لگانا چاہتے ہیں اس کوشش میں مندر کے لئے زمین بھی عربوں نے وقف کی ہے مندر کی تعمیر بھی عربوں کے خرچے پر ہورہی ہے عربوں کو درپیش گھمبیر مسائل کی فہرست بہت دلچسپ ہے پہلا مسئلہ ایران کا مقابلہ کر کے ایران کو شکست دینا ہے کیوں کہ ایران میں جمہوری اقدار، روایات اور ایرانیوں کے مذہب سے عرب دُنیا کو خطرہ ہے دوسرا بڑا مسئلہ شام کے ساتھ جنگ ہے شام کے خلاف جنگ میں کامیابی کے لئے عربوں نے امریکہ ، برطانیہ ، نیٹو ، یورپی یونین اور اسرائیل کا بھرپور تعاون حاصل کیا ہے مگر ایران اور روس کی طرف سے شام کی خودمختاری کو تحفظ دیا جاتا ہے عربوں کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوتا عرب دنیا کسی بھی حال میں شام کو شکست دینا چاہتی ہے تیسرابڑا مسئلہ یمن میں درپیش ہے جہاں عرب ریاستیں مل کر یمنی حکومت کے خلاف لڑ رہی ہیں اس لڑائی میں بھی عرب ریاستوں کو امریکہ ، اسرائیل اور دیگر بیرونی ملکوں کا تعاون حاصل ہے مگر پھر بھی یمن کو فتح کرنے میں کامیابی نہیں ہوتی کیونکہ یمن کی پُشت پر ایران ہے اور ایران کے عزائم ٹھیک نہیں ہیں متحدہ عرب امارات میں مندر کی بنیاد رکھنے کے بعد عرب ملکوں کو بھارت کا مکمل تعاون حاصل ہوگا یورپ ، امریکہ اور روس کے سامنے عربوں کا لبرل اور سیکولر چہرہ چمک اُٹھے گاعرب ریاستیں فخر سے دعویٰ کرینگی کہ ہم نے چین ، روس ، جرمنی ، فرانس ، برطانیہ اور امریکہ سے دو قدم آگے بڑھ کر سیکولرزم کو تحفظ دیا ہے کیوں کہ ہماری بقا سیکولرزم میں ہے یہاں پر ایک نئی بحث چھڑ سکتی ہے کہ سیکولرزم اور اسلام ایک دوسرے کی ضد ہیں یا نہیں ؟ پاکستان کے اندر گذشتہ نصف صدی سے زیادہ عرصے کے دوران جو پروپیگنڈا سامنے آیا ہے اس کی رو سے سیکولرزم کفر اور شرک ہے 1940ء کی دہائی میں امریکہ سے جو لٹریچر لایا گیا ہے اور امریکی حکومت کے خرچ پر وطن عزیز کے اندر جو لٹریچر شائع کیا گیا اس میں سیکولرزم کو کفر اور شرک کے طور پر پیش کیا گیا یہ لٹریچر عرب دنیا میں دستیاب نہیں ہے عرب دنیا میں سیکولرزم کو ایک سیاسی نظریہ تصّور کیا جاتا ہے اس کی رو سے ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ملک کے باشندے بھی اور بیرون ملک سے آکر روزگار تلاش کرنے والے تارکینِ وطن بھی حکومت اور ریاست کی نظروں میں مذہبی لحاظ سے برابر شہری کا درجہ رکھتے ہیں ان کو مذہبی معاملات میں پوری آزادی ہوتی ہے مندر، چرچ ، مسجد ، امام بارگاہ یا کوئی اور عبادت خانہ بنانے کی پوری اجازت اور آزادی ہوتی ہے اس وجہ سے عرب دنیا میں مندر کی تعمیر پر کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیئے ایران، شام ، یمن اور لبنان کے حزب اللہ ملیشیا کا مقابلہ کرنے کے لئے عرب ریاستوں کو امریکہ ، برطانیہ اور بھارت کے تعاون کی ضرورت ہے سیکولر زم اس تعاون کی ضرورت ہے سیکولر زم اس تعاون کی ضمانت ہے ہر مسئلے کا تاریک پہلو دیکھنے والے لوگ 360بتوں کو تاریخ کا جبر قرار دیتے ہیں یہ تاریخ کا جبر نہیں بلکہ تاریخ اپنے آ پ کو اسی طرح دہراتی ہے علامہ اقبال ؒ نے اسی حوالے سے سو باتوں کی ایک بات کہی ہے
ٍ بُتوں سے اُمیدیں خدا سے نو میدی
بتا ؤ مجھے او ر کافری کیا ہے

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , ,
6538

صدا بصحرا …….. نو مسلم سکالر کے 100سوال…………ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

چند سال پہلے امریکہ کاایک محقق اور سکالر مسلمان ہوا ۔ اُس نے قرآ ن پاک ، احادیثِ مبارکہ اور فقہ کی تعلیم حاصل کی اسلامی علوم پر عبور حاصل کرنے کے دوران وہ مسلمان ملکوں میں گھوم پھر کر مسلمانوں سے ملتا رہا۔ عرب ، تُرک ، افغانی ، ہندوستانی، پاکستانی ہر ملک اور خطے کے مسلمانوں کے ساتھ اُس کے تعلقات قائم ہوئے،دوستیاں بن گئیں۔ لین دین ہوا،اکھٹے سفر کا موقع ملا ۔ اُس نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مسلمانوں کی عملی زندگی کا جائزہ لیاتو اُس کو حیرت ہوئی اور تعجب ہوا کہ مسلمانوں کی عملی زندگی میں اسلامی تعلیمات کا کوئی عکس نظر نہیں آتا۔کیا مسلمان اپنے مذہب کو قابلِ عمل دین کی جگہ محض عبادات کا مجموعہ قرار دیتے ہیں؟ یہ سوال اُس نے اپنے آپ سے پوچھا ۔پھر اُس نے کہا ایسا نہیں ہوسکتا اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اللہ تعالٰی کے آخری نبی محمد ﷺ اور صحابہ کرامؓ نے اِس پر عمل کرکے دکھایا ہے۔
اسلام صرف عبادات اور رسوم کا مجموعہ نہیں صر ف Ritualsکا نام نہیں۔ اِس یقین کے ساتھ نو مسلم اسلامی سکالر نے قرآن و احادیث کا دوبارہ مطالعہ کرکے حقوق العباد، باہمی تعلقات اور سماجی زندگی کے سنہرے اصولوں کو اکٹھا کیا۔ جن کا حکم قرآن میں آیا ہے۔ جس کی مثالیں حدیث میں ملتی ہیں۔اِس طرح 100احکامات کا مجموعہ تیار ہوا۔اِن 100احکامات کو اُنھوں نے ایک پرچے کی صورت میں دنیا کے
مسلمانوں کے سامنے رکھا ہے۔ اور لکھا ہے کہ اپنی زندگی کو سامنے رکھ کر خود کر نمبر دیدو۔کتنے سوالوں کا جواب اثبات میں آتا ہے۔ہر سوال کا ایک نمبر ہے۔33نمبر لینے والا پاس ہے۔چونکہ کالم کا دامن تنگ ہے۔میں نے 10سوالوں کا گلدستہ اپنے لئے بھی اور آپ کیلئے بھی تیا ر کیا ہے ۔ ہر سوال کے دس نمبر ہیں اور 33نمبر پاس ہونے کیلئے لازمی ہیں۔ اب پرچہ سامنے رکھیئے اک وعدہ امریکی نو مسلم کا مطالبہ ہے وعدہ کرو کہ جواب دیتے وقت اپنی عادت کے مطابق جھوٹ نہیں بولوگے۔ پہلا حکم ہے جھوٹ نہ بولو دوسرا حکم ہے کہ کسی کا مال نہ کھاؤ تیسرا حکم ہے کسی کی غیبت نہ کرو ،چوتھا حکم ہے کسی کے عیب نہ ڈھونڈو،پانچواں حکم ہے کسی پر بہتان نہ لگاؤ چھٹا حکم ہے کسی کو گالی نہ دو ساتواں حکم ہے اپنی آواز اونچی نہ کروآٹھواں حکم ہے اکڑ کر تکبّر سے نہ چلو،نواں حکم ہے امانت میں خیانت نہ کرو دسواں حکم ہے وعدہ کرو تو پورا کرو عہدو پیمان کو نہ توڑو یہ بالکل آسان پرچہ ہے۔ روزمرہ زندگی کے یہ معاملات ہیں۔میں نے اِس پرچے میں سے 30 نمبرلئے۔ضمنی امتحانات میں کوشش کروں گا کہ میرا سکور بہتر ہو۔آپ بھی اپنی گریبان میں جھانکیئے آپ کتنے پانی میں ہیں شرط یہ ہے کہ اپنے آپ سے جھوٹ نہ بولو گے۔امریکی نو مسلم کے 100سوالات میں سے بعض مشکل سوالات بھی ہیں جو احکامات کی صورت میں ہیں۔ ان میں سے مزید10سوالات کی جھلک کسی امتحان کے بغیر آپ کو دکھاتا ہوں۔ خود کو آزمائش میں ڈالنے کا شوق ہو تو اپنی زندگی کو اِن سوالات کے ترازو میں تولو۔ یہ بھی احکامات کی صورت میں ہیں ۔ پہلا حکم یہ ہے کہ رشوت نہ لو۔ دوسرا حکم یہ ہے کہ شراب نہ پیو، تیسرا حکم یہ ہے کہ جوا نہ کھیلو، چوتھاحکم یہ ہے کہ زنا سے بچو پانچواں حکم یہ ہے کہ سود نہ کھاؤ سودی لین دین نہ کرو، چھٹاحکم یہ ہے کہ والدین کی خدمت کرو ساتواں حکم یہ ہے کہ عورتوں کو میراث میں حصہ دے دوآٹھواں حکم یہ ہے کہ اکثریت کی پیروی نہ کرواکثریت سچائی کا معیا نہیں۔نواں حکم یہ ہے کہ مجرموں کو عبرتناک سزائیں دو۔دسواں حکم یہ ہے کہ کسی کی جان نہ لو۔ قتل سب سے بڑا گناہ ہے۔میرا خیال ہے اِن بیس احکامات پر باقی 80 احکامات کو قیاس کرو گے پھر اپنی زندگی اور اردگرد کے حالات ،بزرگوں کے طرزِعمل ، علماء ،مشائخ اور اکابر کی دوڑدھوپ کا جائزہ لے لو گے تو امریکی نومسلم کی طرح تم بھی تعجب کا اظہار کروگے مگر حیرت اور تعجب کی کوئی بات نہیں۔امریکی نو مسلم سوچ سمجھ کر مسلمان ہوا ۔ اُس نے اسلام کو دل سے قبول کیا۔ ہمیں ماں پاب نے عنایت اللہ ، عبداللہ ، محمد رسول اور محمد صدیق نام رکھا۔ہم نے قرآن کو زبانی یاد کیا۔نماز روزہ وغیرہ بھی ہمیں رسوم کی صورت میں گھر کے اندر مل گئیں۔ 65 سال کی عمر میں بھی ہم میں سے کسی کو پلٹ کر قرآن و حدیث کی روشنی میں اپنے اعمال ،آدابِ معاشرت ،معاملات اور حقوق العباد کے متعلق احکامات پر غور کرنے کی ضرورت کبھی پیش نہیں آئی ۔ ہمارے سامنے اسلام کی حالت ’’مالِ مفت دلِ بے رحم‘‘ جیسی ہے۔ امریکی نومسلم خدا نخواستہ پشاور، مردان، سوات یا چترال آکر سال دو سال رہا ہوتا تو وہ پاگل ہوجائیگا۔ ممتاز جغرافیہ دان پروفیسر اسرار الدین نے سوشل میڈیا پر امریکی نومسلم کا پیغام بھیج کر اِس پر ایک مختصر اور جامع تبصرہ بھی ارسال کیا ہے۔ تبصرہ نگار لکھتا ہے کہ اللہ تعالٰی عبادات کے اندر بھی انسانوں کے حقوق کو مقدم رکھتا ہے زکوٰۃ پر قرابت داروں کا پہلا حق ہے حج میں کسی کو تکلیف دینے سے منع کیا گیا ہے مسجد کے اندر دوسرے نمازیوں کی سہولت کا خیال رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔اور مسجد بناتے وقت راستوں پر قبضہ کرنے اور کسی کا پلاٹ چُرانے سے منع کیا گیا ہے۔اللہ تعالٰی قیامت کے دن اِن عبادتوں کو بھی عبادت گزاروں کے منہ پر دے مارے گا جو حقوق العباد کو روند کر باہمی معاملات میں دو نمبری کرکے ادا کی گئی ہوں۔ امریکی نو مسلم کو اِس بات کا دکھ ہے کہ قیامت کے دن ہمارا کیا حال ہوگا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
3487

صدا بصحرا ………. سیاحتی مقامات کی نجکاری…………ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ؔ

Posted on

خیبر پختونخوا کی حکومت نے سیاحتی مقامات اور ان مقامات پر دستیاب سرکاری سہولیات کی نجکاری کر کے بہت اچھا قدم اُٹھا یا ہے اگلے دوبرسوں میں ہی اس کے مثبت تنائج سامنے آنا شر وع ہو جائینگے ہمارے معاشرے میں ایک پرانی بیماری ہے ہم ہر اچھے کام میں کیڑے نکالنا شروع کردیتے ہیں سیاحتی مقامات اور سہولیات کی نجکاری پر بھی اس طرح کے تبصر ے اخبارات کی زینت بن رہے ہیں خصو صاً سرمایہ کاری کرنے والوں کو ہدف تنقید بنا یا جاتا ہے حالانکہ سیاحت کے فروغ میں دلچسپی رکھنے والوں کی نظر میں یہ بہت مستحسن کام ہے سیاحتی مقامات پر جن سہولیات سے حکومت نے 70 سالوں میں سیاحوح کو فائد ہ نہیں پہنچایا اگلے سال یا ڈیڑ ھ سال میں کیا خاک نتائج دکھا ئے گی سرمایہ کار ان پر سرمایہ لگائے گا تو نتائج بھی دے گا سیاحوں کو بہتر سہولیات ملینگی اور حکومت کو محاصل کی مد میں آمد نی آئے گی خیبر پختونخوا کوقد رت نے فیاضی کے ساتھ نوا زا ہے سوات ،دیر ،چترال ، گلیات اور کاغان کی وادی کو انگریزوں کے زمانے سے سیاحتی مقامات کادرجہ حاصل ہے کُنڈ پارک، بنون، ڈی آئی خان ، کوہاٹ ، تخت بھائی ، چارسد ہ ، اور بے شمار دیگر مقامات ایسے ہیں جنکی اہمیت کااند از ہ تو ہوا ہے مگر ان مقامات کو سیاحوں کے لئے دلکش بنا نے او رسیاحوں کو ان مقامات کی طرف راغب کرنے کی طرف تو جہ دینا حکومت کے لئے ممکن نہیں ہے یہ نجی شعبے کا کام ہے مثلاً اتمان زی میں غنی خان کا گھر دار لامان ایک سیاحتی مقام بن سکتا ہے دنیا بھر سے سیاح غنی خان کا باغ ، اُن کے ہاتھوں سے بنے مجسمے اور ان کا کتب خانہ دیکھنے کے لئے جوق درجوق چارسد ہ کا رُخ کر ینگے 48 کنا ل رقبے پر پھیلا ہوا یہ گھر چین میں کنفیو شس کے مکان انگلینڈ میں شکیسپےئر کے مکان اور جرمنی میں گو ئٹے کے گھر سے زیادہ پر کشش ہے افغانستان ، مڈل ایسٹ اور جنوبی ایشیا ء کے علاوہ یورپ او ر امریکہ سے آنے والے سیاحوں کے لئے بھی یہ پر کشش جگہ ہے چارسدہ کا قدیم نام پشکلاوتی تھا یہ گند ھار ا سلطنت کا پایہ تخت رہا ہے ایسے مقامات کو سیاحوں کے لئے کس طرح پرکشش بنا یا جاسکتا ہے اس کا ماڈل عوامی جمہو ریہ چین کی قیادت نے پیش کیا ہے اس ماڈل کو یہاں لایا جاسکتا ہے چین کے شہر شیان (Xian) کے نواح میں تھان سلطنت (Thang dynasty) کے دور کا حمام تھا یہ دسویں صدی عیسوی کی یا د گا ر ہے جو دو کنال زمین پر قائم ہے حمام کے ساتھ حوض بھی ہے تھان سلطنت کے دور میں اس جگہ چینی حروف کو پتھروں پرلکھنے والے کا ریگر رہتے تھے بادشاہ بھی گرمیوں میں سیر کے لئے یہاں آتے تھے چو این لائی نے اس مقام کے ارد گرد 400 کنال زمین کو حمام میں شامل کر کے ’’ سنگی کتبے ‘‘ سٹون ٹیبلٹس( Stone Tablets) کے نام سے اس کو سیاحتی مقام بنا یا جیانگ زی من کے دور میں مارکیٹ اکا نوی آئی تو اسے ایک سر مایہ کار کمپنی کے حوالے کیا گیا اپرایل 1998 ؁ء میں اس کا ٹکٹ 500 ڈالر تھا یہاں سیاحوں کے لئے دن بھر کی مصروفیات کا اہتمام ہے ثقافتی میلہ لگا ہے رنگ بر نگ مصنوعات کے سٹا ل ہیں مقامی کھانوں کے سٹال ہیں بو ٹا نیکل گارڈن ہے مچھلیوں کے تالاب ہیں پرندوں کے لئے الگ گو شہ ہے جہاں پرند ے آزادی سے اڑ تے پھر تے ، جہچہا تے ہیں درختوں کی شاخوں پر بیٹھے طوطے مہمانوں کو نی ہا ؤ (Nihao) یعنی خوش آمدید کہتے ہیں ہم نے باغ میں داخل ہوتے وقت اس کی حقیت معلوم نہیں کی واپسی پر اصغر ندیم سید نے معلوم کر کے ہم سب کو دکھا یا طوطے کے ساتھ ایک لڑکی ڈیوٹی دے رہی تھی جس درخت پر طو طا ہے اُس کے پاس پھول کے پیچھے لڑکی بیٹھ کر چادر کا ڑھ رہی ہے مہمان کو دیکھ کر پہلے لڑکی ’’ نی ہاؤ ‘‘ بولتی ہے اُس کی نقل میں طو طا نی ہاؤ کہتا ہے نئے مہمان کو پر ند ہ نہیں پہچا نتا، لڑکی پہچا نتی ہے یہاں بادشاہ کی جان بچا نے کے لئے کنیز نے اپنی جان دی تھی اُس کنیز کا مجسمہ حمام کے سامنے حوض پر نصب ہے مجسمہ جتنا خوبصورت ہے حوض کے پانی میں اس کا حسن دو بالا ہوجاتا ہے حوض کے دائین طرف چینی زبان کے 6000 حروف پتھر کے کتبوں میں لکھے ہوئے ہیں کا ریگر بیٹھے ہیں اور کام کر رہے ہیں یہ حروف کیر یکٹر (Character) کہلاتے ہیں خیبر پختونخوا کا ضلع بونیر سیاحت میں سوات اور چترال پر سبقت لے جاسکتا ہے ٹانک، ڈی آئی خان ، دیر لوئیر اور صوابی میں دلکش مقامات ہیں چترال کے چار قدیمی قلعے سیاحوں کے لئے پرکشش ہیں نو شہر ہ میں مانکی شریف اور زیارت کا کا صاحب کے اردگرد ایسے دلچسپ مقامات ہیں جنکو سیاحتی سہولیات سے آراستہ کیا جاسکتا ہے مگر اس کے لئے حکومت کو ریگو لیٹری ذمہ داری لیکر سارا کام نجی شعبے کے حوالے کرنا چاہیے نجی شعبہ آگے آئے گا تو خیبر پختونخوا کو اگلے چند سالوں میں چین ، سو ئٹر زلینڈ،اٹلی اور سپین کے برابر لا کر دکھا ئے گا ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , ,
2798