Chitral Times

دادبیداد ……… کا بینہ کی اہمیت ………..ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Posted on

خبروں کے مطا بق وزیر اعظم عمران خان نے اہم مسا ئل کے فیصلے کا بینہ یا کا بینہ کی ذیلی کمیٹی کے ذریعے کرنے کا طریقہ اپنا یا ہے اور جمہوری حکومت کا حسن بھی یہی ہے کہ اہم فیصلے کا بینہ کے ذریعے کئے جا تے ہیں فر د وا حد کو اہم فیصلوں کاا ختیار نہیں دیا جا تا قطع نظر اس بات کے کہ کا بینہ کے فیصلے سے کسی کو فائدہ اور کس کو نقصان ہو تا ہے یہ بات عا م لو گوں کے لئے بھی اور قانون کے ما ہرین کے لئے خوش آئند ہے کہ جمہوری حکومت میں فر د واحد کی جگہ اہم فیصلوں کے لئے کا بینہ اور کا بینہ کی ذیلی کمیٹی کا نام لیا جا تا ہے شکسپیئر کے مشہور ڈرامے کی ایک کر دار کہانی کے سیاق و سباق میں کہتا ہے ”اگرچہ یہ جنو نیت ہے تا ہم اس میں سلیقہ ہے طریقہ ہے“ بات سابق وزیر اعظم نواز شریف کو علا ج کے لئے ملک سے با ہر جا نے کی اجا زت دینے کی تھی وزیر اعظم نے خود فیصلہ کر نے کے بجائے معا ملہ کا بینہ کو بھیجدیا کا بینہ کی ذیلی کمیٹی نے منا سب غور و خوض کے بعد مو صوف کو مشروط اجا زت دینے کی سفارش کی، شرط یہ تھی کہ سابق وزیر اعظم 7ارب روپے کے بانڈ داخل کرے اس کے بعد ان کا نا م ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکا لا جائے گا یہ شرط اگر وزیر اعظم خود رکھتا تو اس پر انگلی اُٹھا ئی جا سکتی تھی چونکہ یہ کا بینہ کا فیصلہ تھا اس لئے کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا سابق وزیر اعظم نے لا ہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا لا ہور ہائی کورٹ نے مو صوف کو غیر مشروط اجا زت دینے کا حکمنا مہ جا ری کیا حکمنا مہ آنے کے بعد وزیر اعظم نے ایک بار پھر معا ملہ کا بینہ کی ذیلی کمیٹی کے حوالے کیا گویا کابینہ ہی سب کچھ ہے کسی عدا لتی حکم کے خلاف اپیل کرنے یا نہ کرنے کا اختیار بھی کا بینہ کے پا س ہے جمہوری حکومت کی یہ روا یت ایک صحت مند اور خوش آئیند روایت ہے اس روایت کو آگے بڑھا یا گیا تو سیا سی فضا خوشگوار ہو سکتی ہے سیا سی تلخیاں کم ہو سکتی ہیں اور سیا سی حکمرا نوں پر آمرانہ فیصلوں کا داغ بھی دُھل سکتا ہے ان سطور کی اشاعت تک اونٹ کسی ایک کروٹ بیٹھا ہو گا اور نئی بحث شروع ہو چکی ہو گی ہمارے سیا سی بلوغت اور جمہوری روایات پر ہونے والی ہر بحث میں یہ بات آتی ہے کہ حکمران کا بینہ کو اہمیت نہیں دیتے پارلیمنٹ کو خا طر میں نہیں لاتے سول حکومتوں میں فو جی حکومتوں کی طرح فرد واحد فیصلے کرتا ہے باقی سب لو گ واہ واہ کرتے ہیں اور تا لیاں بجا تے ہیں مگر اب معروف معنوں میں ”تبدیلی“ آگئی ہے وزیر اعظم اہم فیصلوں کے لئے کا بینہ سے رجوع کرتے ہیں بات اگر زیا دہ غور طلب ہو تو کا بینہ کی ذیلی کمیٹی اس پر غور کرتی ہے اسی طرح فیصلہ آنے کے بعد اس کا ملبہ وزیر اعظم کی ذات پر نہیں گرتا اس کو اجتما عی فیصلہ کہہ کر قبول کیا جا تا ہے جمہوری تاریخ میں بر طانیہ کی پارلیمنٹ کو دنیا کی پہلی پار لیمنٹ کہا جا تا ہے بر طانوی نظام میں کوئی تحریری قانون یا آئین کی کتاب نہیں ہے سینہ بہ سینہ جو روا یات چلی آئی ہیں ان کی پیروی کی جا تی ہے وہاں چھوٹے فیصلے بھی وزیر اعظم خود نہیں کرتا کا بینہ میں پیش کر کے ان کی منظوری لیتا ہے وہاں کا بینہ کے وزیر وں کی تعداد 12یا 13سے زیا د نہیں ہو تی نر سوں کے لئے اوقات کار تعیّن ہو یا مزدور وں کے لئے سو شل سیکورٹی کا مسئلہ ہو اس پر کا بینہ میں بحث ہو تی ہے کبھی یہ بحث پار لیمنٹ تک پہنچتی ہے یہ جمہوریت کی سب سے بڑی خو بی ہے کہ ملکی مسا ئل، ملکی سیا ست، معیشت اور سما جی بہبود کے مسائل کا بینہ میں پیش کئے جا تے ہیں وطن عزیز پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان نے اچھی روایت قائم کی ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
28706

داد بیداد ………….دہشت گرد کون ہے ؟…………..ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان کو غلط مقاصد کے لئے نقد کرنسی کی ترسیل اور دہشت گردوں کو فراہم کرنے والے ممالک کی واچ لسٹ ( مشکوک فہرست) میں ڈالنے کی بین الاقوامی مہم ناکام ہوگئی ہے یہ مہم فنانشل ایکٹ ٹاسک فورس( FATF)کے پلیٹ فارم سے امریکہ ، بھارت ، برطانیہ ، فرانس اور جرمنی کی طرف سے چلائی جارہی تھی چین، روس اور ترکی سمیت پاکستان کے دوست ممالک نے مہم کو ناکام بنا دیامگر ابھی پاکستان کو افغان خانہ جنگی میں امریکہ کی مدد کرنے سے پہلے والی یعنی1977ء کی پوزیشن پر آنے کے لئے بہت کچھ کرناباقی ہے پاکستان کو قوموں کی برادری میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے کے لئے اگلے10سالوں تک چو مکھی لڑائی لڑنی ہوگی یعنی بھارت اور افغانستان کے خلاف کامیابی ، امریکہ اور یورپی ممالک کے پروپیگنڈے کے خلاف کامیابی، ملک کے اندر دشمنوں کے لئے کام کرنے والے عناصر کے خلاف کامیابی اور ملکی اداروں کو مضبوط بنا کر ذاتیات اور شخصیات کے مضر اثرات کو ختم کرنے میں کامیابی کے لئے لڑنا ہوگاپاکستان پر دہشت گردوں کی مدد کے الزامات لگانے والے ممالک1978 ء میں افغان خانہ جنگی شروع ہوتے وقت امریکہ اور یورپی ممالک کے سفارت کاروں اور دفاعی یا انٹیلی جنس حکام کی پاکستان آمدورفت سے حاصل ہونے والی معلومات کا سہارا لیتے ہیں 1990ء کی دہائی میں پاکستا ن کے اندر افغان خانہ جنگی کے موضوع پر شائع ہونے والی کتابوں کا سہارا لیتے ہیں بریگیڈیئر محمد یوسف اور صحافی ہارون الرشید کی یاد داشتیں بھی اُسی دور میں شائع ہوئی تھیں اُس دور میں امریکی اور یورپی حکام اپنے عرب دوستوں کے ہمراہ پاکستان کے جن مقامات کے دورے کرتے تھے اُن مقامات کو آج وہی لوگ دہشت گردوں کی پناہ گاہ کا نام دیتے ہیں اس پر ’’ کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا‘‘ ہونے کا مقولہ صادق آتا ہے دہشت گردوں کے لئے نقد کرنسی کی ترسیل اور تقسیم کے حوالے سے منی لانڈرنگ پر ہونے والے قوانین کے تحت پاکستان کو مشکوک ممالک کی فہرست میں ڈالا گیاتو ایران کی طرح پاکستان پر بھی پابندیاں لگیں گی امریکہ اور اس کے اتحادی یہی چاہتے ہیں مگر پاکستان کی حکومت نے اس موقع پر لابنگ کر کے اپنا نام مشکوک فہرست میں جانے سے بچا لیااس حوالے سے سوشل میڈیا میں جو مواد آیا اس میں ایک جرمن سکالر کی تحقیق کا خلاصہ قابل ذکر ہے جرمن سکالر نے اپنا نام ظاہر کئے بغیر 8اہم تاریخی واقعات کی طرف اشارہ کرکے ثابت کیا ہے کہ مسلمان دہشت گرد نہیں ، کسی مسلمان قوم یا ملک پردہشت گرد ہونے کا الزام نہیں لگایا جاسکتا جرمن سکالر نے اپنی بات سوال کے پیرایے میں کہی ہے اوریہ 8سوالات ہیں جرمن دانشور نے سوال کیا ہے کیا 1914ء میں پہلی جنگ عظیم شروع کرنے والے مسلمان تھے ؟کیا ہولوکاسٹ کے نام پر 60لاکھ یہودیوں کا خون بہانے والے مسلمان تھے؟ کیا 1939ء میں دوسری جنگ عظیم شروع کرنے والے مسلمان تھے ؟ کیا آسٹریلیا میں 20لاکھ اصلی مکینوں کا قتل عام کرنے والے مسلمان تھے ؟کیا شمالی امریکہ میں ایک کروڑ کالے شہریوں کا خون بہانے والے مسلمان تھے؟کیا افریقہ میں 80لاکھ اصلی مکینوں کو ہلاک کرنے اور سمندر میں پھینکنے والے مسلمان تھے؟ کیا جنوبی امریکہ میں 50لاکھ اصلی مکینوں کو قتل کرنے والے مسلمان تھے؟کیا ہیروشیما اور ناگاسا کی میں دودنوں کے اندر 7لاکھ جاپانیوں کو موت کی نیند سلانے والے مسلما ن تھے؟ان میں سے کسی بھی دہشت گرد ی میں ملوث مسلمان نہیں تھے؟یورپی اور امریکی اقوام تھے پھر دہشت گرد کون ہوا؟ہمیں دور جانے کی ضرورت نہیں، جارج فریڈمین(G.Fridman) چوسوڈوسکی (Chussodvosky) اور دوسرے محققین نے 1978ء میں افغانستان کے اندر چھیڑی ہوئی جنگ کو تیسری عالمی جنگ کا نا م دیا ہے تیسری عالمی جنگ میں افغانستان ، بوسنیا ،عراق ، ایران، شام ، لیبیا، صومالیہ ، سوڈان ، فلسطین ، یمن اور شام کے اندر 20لاکھ انسانوں کا خون بہایا گیا جنگ کا فائدہ بھی انہوں نے اُٹھایامسلمانوں کو ’’ ریت کی بوری‘‘ ( Sand Bag)کے طور پراستعمال کیا گیا ستم ظریفی یہ ہے کہ دشمن کے پاس میڈیا ہے دنیا کے 98فیصد میڈیا پردشمن کا قبضہ ہے مسلمانوں کے ہاتھ میں ریڈیو ، ٹیلی وژن ، اخبارات اور سوشل میڈیا کو استعمال کرنے کی صلاحیت نہیں ہے اس لئے دشمن جھوٹ بولتا ہے بار بار بولتا ہے اورڈٹ کر بولتا ہے مسلمانوں کو بالعموم اورپاکستانیوں کو باالخصوص جارحانہ سفارت کاری اور میڈیا کے ذریعے اب ثابت کرنا ہے کہ دہشت گرد مسلمان نہیں دہشت گرد کوئی اور ہے جو امریکہ اور یورپ میں بھی ہے کشمیر ، فلسطین اور میانمر میں بھی ہے مسئلہ وہی ہے جس کی طرف پروین شاکر نے اشارہ کیا ہے .

میں سچ بولو نگی مگر ہار جاؤنگی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کردے گا

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
6880

دادبیداد ……….ہرزہ سرائی یا حقیقت؟……..ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

پاکستانی اخبارات میں امریکی وزیرِخارجہ ریکسن ٹیلرسن کے بیان کو ہرزہ سرائی اور یا وہ گوئی کا نام دیا جارہا ہے حالانکہ اُنھوں نے سچائی بیان کی اور حقیقت کا کھل کر اظہار کیا یہ بات سابق امریکی وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن نے دوسرے الفاظ میں کہی تھی واشنگٹن میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیرِخارجہ نے کہا ہے کہ’’ طالبان کا رُخ پاکستان کی طرف بھی ہوسکتا ہے وہ اسلام آباد پر بھی قبضہ کرسکتے ہیں‘‘

فروری 2009ء میں وزراتِ خارجہ کا قلمدان سمبھالنے کے بعد سینیٹ کی خارجہ کمیٹی میں بیان دیتے ہوئے سابق امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا تھا کہ ’’طالبان اور دوسرے نان اِسٹیٹ ایکٹرز کو یکدم ختم کرنا ممکن نہیں ہوگاہماری سابقہ حکومتوں نے اِن پر سرمایہ لگایا ہے اِن کو تربیت دی ہے اور ان کی ہر طرح سے دلجوئی کی ہے‘‘2001ء میں جنوبی وزیرستان آپریشن کی بات ہورہی تھی ایک خبر رساں ادارے کے اہلکا ر نے وانا میں اُس وقت کے دبنگ (آج بھی دبنگ )پولیٹکل ایجنٹ سے سوال کیا ’’تم طالبان کو ختم کیوں نہیں کرتے؟‘‘نوجوان اور خوبرو پولیٹیکل ایجنٹ نے شائستہ انگریزی میں جواب دیا’’بیس سال پہلے سرکاری پالیسی اِن کو اندر لانے کی تھی یہ لوگ ہماری دعوت پر آئے تھے اب انہوں نے شادیاں کی ہیں گھر بسائے ہوئے ہیں ان کے پوتے پوتیاں کھیل کود کی عمر میں ہیں ہم ایک سہانی صبح یا سہانی شام کو کیسے کہہ دیں کہ سرکارکی پالیسی بدل گئی تم واپس جاؤ‘‘دو گھنٹے نہیں گزرے تھے کہ پولیٹیکل ایجنٹ کا تبادلہ ہوا مگر آپریشن مؤخر کردیا گیایہ حقائق ہیں اِن کو ہرزہ سرائی کا نام نہیں دیا جاسکتا اگر ہم سچ بولنے اور سچ بات سننے کی تاب نہیں رکھتے تو یہ ہمارا نفسیاتی مسئلہ ہے ہماری اپنی کمزوری ہے اِس میں امریکیوں کا کوئی قصور نہیںیہ بھی ہماری نفسیاتی کمزوری ہے کہ ہم نے طالبان کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ایک حصے کو اچھے لوگ اوردوسرے حصے کوبُرے لوگ کا نام دیا ہے حالانکہ حقیقت میں نہ کوئی اچھا ہے اور نہ کوئی بُراسب اپنی اپنی ڈیوٹیوں پر ہیں افغانستان پر امریکی تسلط اور امریکی قبضے کو مستحکم کرنے کے کیلئے دونوں گروہ کام کررہے ہیں ہم جن کو اچھا کہتے ہیں وہ بھی امریکہ کے سہولت کا ر ہیں ہم نے جن کو ’’ بُرے لوگ‘‘ کا نام دیا ہے وہ بھی امریکی فوج کا ہراول دستہ ہیں اگر امریکی فوج کی صف بند ی کو دیکھا جائے تو پہلی صف اُن لوگوں کی ہے جو داڑھی اور بال بڑھاکر جہاد کے نغمے اور جنگی ترانے گاتے ہوئے آجاتے ہیں دوسری صف اُن کی ہے جو ڈین کور،زی ورلڈ وائڈوغیرہ کے ناموں سے پہچانے جاتے ہیں تیسری صف میں امریکی فوج لڑتی ہے جنگی سپہ سالار نے افغانستان، پاکستان، بھارت ، ازبکستان، تاجکستان،سعودی عرب، چچنیا اور دوسرے ملکوں سے بھرتی ہوکر آنے والوں کو پہلی صف میں رکھا ہے اُن کے بعد پیشہ ور ٹھیکہ دار اور دوسرے لوگ آتے ہیں اُس کے بعد مصالحت کار ،امن کا علمبردار اور لوگوں کا غمخوار بن کر امریکی فوج آتی ہے پہلی اور دوسری صف کے جنگجوؤں کے ذریعے راستہ ہموار کرنے کے بعد امریکی فوج آتی ہے عراق ، لیبیا اور افغانستان میں ایسا ہی ہوااِس تناظر میں دیکھا جائے تو امریکی وزیرِ خارجہ ریکسن ٹیلرسن نے پالیسی بیان دیا ہے اِس بیان کی روشنی میں کانگریس اور سینیٹ سے اخراجات کے بِل پاس کرنے میں آسانی ہوگی دراصل اُنھوں نے پاکستانیوں کی جگہ امریکی ٹیکس دہندہگان سے خطاب کیا ہے پالیسی سازوں کی توجہ مستقبل کے منصوبوں کی طرف مبذول کی ہے اور امریکی عوام سے کہا ہے کہ پاکستان پر حملے کا وقت آگیا ہے یہ اُس کی ہرزہ سرائی نہیں بلکہ پالیسی ہے جس کو سچائی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ چائنہ پاکستان اقتصادی راہداریCPEC)) کے خلاف امریکہ چٹان بن کر کھڑا ہے وہ اپنی راہ میں چین کو رکاوٹ بننے نہیں دیتا یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے ساتھ بھارت کا پکّا اتحاد ہوچکا ہے اور افغانستان میں امریکہ کے ساتھ سرمایہ کاری میں بھارت پیش پیش ہے قبائلی علاقوں کو خیبر پختون خواہ میں ضم کرنے اور ایف سی آر کا قانون ختم کرنے کی مخالفت بھی امریکہ اور بھارت کی طرف سے ہورہی ہے ریکسن ٹیلرسن کی بات کو ہرزہ سرائی قرار دینا درست رویہ نہیں بلکہ شترمرغ والا رویہ ہے اُس کے بیان کو سنجیدہ لینا چاہیئے فاٹا کو صوبے میں ضم کرنے کا بِل فوری پاس ہونا چاہیئے اور CPEC پر جو کام 28جولائی کی بعد رُک گیا تھا اِس کو دوبار ہ شروع ہونا چاہیئے ریکسن ٹیلرسن کی بات کا یہی جواب ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
3430

داد بیداد ……….سرکاری ریسٹ ہاؤں………. ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

خیبر پختونخوا کی حکومت نے کارگردگی کی جانچ کا طریقہ جاری کیا ہے جسے انگریزی میں پرفارمنس ایولے لوے شن سسٹم (PES)کا نام دیا گیا ہے اگلے 6مہینوں میں اس طریقے سے حکومت کے مختلف شعبوں کی کارگردگی کا جائزہ لیا جائے گا میں نے صوبے کے مشہور سرکاری ریسٹ ہاؤسز میں قیام کا تجربہ کیا ہے سندھ، پنجاب ،ازاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے کسی بھی سرکاری ریسٹ ہاؤس سے ان کا موازنہ کرتا ہوں تو شرمندگی ہوتی ہے سول انتظامیہ کی نگرانی میں دی گئی ان ریسٹ ہاؤسز کا موازنہ پاک آرمی کے کسی افیسر مِس سے کرتا ہوں تو مارے شرم کے میرا سر اتنا جھک جاتا ہے کہ سرنگوں ہوجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ سرکاری افیسر یہاں قیام کی جگہ کسی ہوٹل میں قیام کو ترجیح دیتے ہیں یہ ریسٹ ہاؤسز جس محکمے کے پاس ہیں اس محکمے کا کوئی افیسر یہاں ٹھہرنا پسند نہیں کرتا صوبائی حکومت کے پرفارمنس ایوے لوے شن سسٹم کی اچھی بات یہ ہے کہ اس کام کی نگرانی کے لئے صوبائی چیف سکرٹری اعظم خان کو چنا گیا ہے جن کی شہرت یہ ہے کہ وہ محنت کرتے ہیں، بے رحم احتساب پر یقین رکھتے ہیں اور صوبے کے چپے چپے سے واقف ہیں چند سال پہلے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے کنکرنٹ لسٹ کو ختم کردیا گیا 18دیگر محکموں کے ساتھ سیاحت کا محکمہ بھی صوبائی حکومت کو ملا سیاحتی شعبے کے ہوٹل بھی صوبائی حکومت کو ملنے تھے مگر نہ ملے اب تک جھگڑا چل رہا ہے اس جھگڑے کی بنیاد یہ ہے کہ پاکستان ٹورزم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کی انتظامیہ نے خیبرپختونخوا حکومت کو چیلنج کیا ہے تم اپنے ریسٹ ہاؤسز ٹھیک طریقے سے چلا کر دکھاؤ، ہم اپنے ہوٹل موٹل سب تمہاری تحویل میں دیندینگے حال یہ ہے کہ سی اینڈ ڈبلیو کا ایکسین یا سپرٹننڈنگ انجینئر ، پناکوٹ ، کالام ، گرم چشمہ چترال یا کالاش ویلی کا دورہ کرتا ہے تو وہ اپنے ریسٹ ہاؤس میں ٹھہرنے کی جگہ ہوٹل میں قیام کرتا ہے ہر بار اس کو بتایا جاتا ہے کہ ریسٹ ہاؤس میں مرمت کا کام چل رہا ہے مگر گذشتہ 20سالوں سے مرمت کا کوئی کام نہیں ہوا مجھے یاد ہے 1966ء میں گورنر مغربی پاکستان ملک امیر محمد خان نواب آف کالاباغ نے چترال کا دورہ کیا تو انہیں سرکاری ریسٹ ہاؤس میں ٹھہرایا گیا تھا سکول کے بچوں نے سرکاری ریسٹ ہاؤس میں ان سے ملاقات کی ۔ساتویں جماعت کے بچے سے انہوں نے سوال کیا تھا کہ چترال کی کونسی چیز مشہور ہے بچے کا جواب تھا تریچمیر کی چوٹی، واپس سکول آنے کے بعد استاد میر فیاض خان نے پوچھا اگر وہ کہتا کہ کیوں؟ تو تم کیا جواب دیتے؟ بچے نے برجستہ کہامیں کہتا آپ کی پگڑی کی طرح سفید بھی ہے اور بلند بھی۔ اس پر استاد نے بچے کو نواب کالا باغ کے انعام سے دگنا انعام دیدیا چاہیے تو یہ تھا کہ 2017ء میں سرکاری ریسٹ ہاؤس کا معیار اتنا بلند ہوتا کہ غیر ملکی سفیروں اور غیر ملکی سربراہان مملکت کو بھی سرکاری ریسٹ ہاؤس میں ٹھہرایا جاتا مگر زوال کی حد یہ ہے کہ آج سی اینڈ ڈبلیو کا ایکسین یا ضلع کا ڈپٹی کمشنر بھی اپنے ریسٹ ہاؤس میں ٹھہرنا پسند نہیں کرتا سرکاری حکام اپنے دور پار کے رشتہ داروں اور بِن بلائے مہمانوں کو سرکاری ریسٹ ہاؤس کا راستہ دکھاتے ہیں۔ اُن پر جو بیتی سو بیتی قیام پاکستان سے پہلے سوات، دیر اور چترال میں انگریزوں کے ڈاک بنگلے تھے جن میں افیسر ٹھہرتے تھے ان میں سے 13ڈاک بنگلے برباد ہوچکے ہیں’’آہو بچہ کرد و روباہ ارام گرفت‘‘ کا منظر پیش کرتے ہیں کوئی والی وارث نہیں بعض مقامات پر ڈاک بنگلے پولیس چوکیوں اور تھانوں میں تبدیل کئے گئے ہیں اس بہانے سے ان کو ویرانی اور کھنڈر ہونے سے بچایا گیا ہے صوبائی حکومت کے پرفارمنس ایو ے لوے شن سسٹم کی وجہ سے امید پیدا ہوگئی ہے کہ صوبے کے طول و عرض میں قائم ریسٹ ہاؤسوں کا ایک سروے کرکے صورت حال کا جائزہ لیا جائیگا ان میں سے بعض کی بربادی اور ویرانی کے ذمہ داروں کا تعین ہوگا جو ریسٹ ہاؤس اپنی دیواروں اور دروازوں کے ساتھ کسی نہ کسی حال میں سلامت ہیں ان کی دیکھ بھال کا مناسب انتظام کیا جائے گا اس سلسلے میں گلگت بلتستان کی حکومت کے تجربے سے بھی فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے نیز’’گر تو بُرا نہ مانے‘‘ تو پاک آرمی کی خدمات سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے چترال میں کالاش ویلی، بمبوریت ، بریر، رمبور، اور وادی انجگان کے گرم چشمہ ، تحصیل مستوج کے ریشن ، سنوغر، مستوج وغیرہ کے ریسٹ ہاؤس آرمی کو حوالہ کئے جائیں تو کوئی ہرج نہیں ہوگا۔ والی ، وارث کے بغیر کھنڈرات میں تبدیل ہونے والی عمارتیں دوبارہ کارآمد ہوسکیں گی۔ دیر میں پناکوٹ کا ریسٹ ہاؤس تاریخی اہمیت کا حامل تھا اس کی بحالی کے لئے بھی آرمی کی خدمات سے استفادہ کیا جاسکتا ہے اُمید ہے اگلے چھ مہینوں میں نئے سسٹم کے خوشگوار نتائج برآمد ہونگے۔
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم، تم کو خبر ہونے تک

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged ,
2690

دادبیداد ……. نیکٹا ۔دیر آید درست آید ………. ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

خبر آئی ہے کہ نیکٹا نے سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کے مقدمات میں سول عدالتوں کے ذریعے سزاوں کے عمل کو تیز کرنے کے لئے موجودہ عدالتی نظام اور فوجداری قوانین سے متعلق متعدد تجاویز پر مشتمل 52صفحات کا مسودہ صوبوں کے ساتھ مشاورت کے لئے پیش کردیا ہے اس مسودے میں تجویز دی گئی ہے کہ گھناونے جرائم میں ملوث ملزمان کے مقدمات میں ٹرائل کی مدت مختصر رکھی جائے سزاوں میں ترمیم واضافہ کر کے موجودہ قوانین کو فوجی عدالتو ں کے قوانین کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے نیز دیوانی اور فوجداری مقدمات کے لئے الگ الگ عدالتیں قائم کی جائیں قانون شہادت میں ترمیم اور شک کا فائدہ ملزم کو دینے پر نظرثانی بھی کی جائیگی اس طرح ٹرائل کورٹ اور اپیل میں خطرناک مجرموں کو چھڑانے کے حیلے بہانے ختم ہو جائینگے فوجی عدالتوں کی ضرورت نہیں رہے گی مقتولیں کے ورثا پستول اور بندوق لیکر عدالتوں کے باہرضمانت پر رہا ہونے اور جرم سے بری ہو کر آنے والے مجرموں کا انتظار نہیں کرینگے ملک کے عدالتی نظام پر مظلوم عوام کا اعتماد بحال ہو جائے گا لوگ ججوں کی فراست اور قانون کے لمبے ہاتھوں پر بھروسہ کرینگے عکسی مفتی کی کتاب’’کا غذ کا گھوڑا‘‘ چھوٹے چھوٹے واقعات اور تجربات پر مشتمل ہے ایک جگہ لکھا ہے کہ یورپ سے حصول تعلیم کے بعد واپس آیا تو جذبہ جوان تھا خون میں گرمی تھی ایک
ڈرائیور نے ٹریفک سگنل توڑ کر میری گاڑی کو ٹکر ماری ڈرائیور کا چالان ہوا میں نے ایف آئی آر کٹوائی گاڑی کے مالک نے 5ہزار روپے تاوان دے کر مک مکا کرنے کی پیشکش کی میں نے پیشکش ٹھکرادی سات سالوں تک مقدمہ چلا سات سالوں میں میر ے ڈھائی لاکھ روپے مقدمے پر خرچ ہوئے ڈرائیور اور گاڑی کے مالک کو بری کردیا گیا میں نے سوچا سات سال پہلے ملنے والے 5ہزار روپے غنیمت سے کم نہیں تھے پشاور کی کچہری میں گذشتہ 10سالوں کے اندر 4واقعات ایسے ہوئے جن میں مقتول کے کم سن بیٹے نے ضمانت پر رہا ہونے یا جرم سے بری ہونے والے قاتل کو عدالت کے احاطے میں گولی مارکر ہلاک کر دیا اور پولیس کو بیان دیا کہ اُس نے باہر آکر میرے گھر پر ایک اور حملے کی دھمکی دی تھی دسمبر 2014ء میںآرمی پبلک سکول پشاور پر دہشت گرد حملے کے بعد نیکٹا کو فعال کر کے گھناونے جرائم میں ملوث ملزمان کو سزا دینے کا فیصلہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ ہمارے موجودہ قانونی اور عدالتی نظام میں اس کی گنجائش نہیں 10سال یا 12سال سے کم مدت میں کسی مقدمے کا فیصلہ ہونا ممکن نہیں ہے اور کسی گھناونے جرم میں ملوث مجرم کو سزا دینا بہت مشکل ہے کیونکہ خودکش جیکٹ کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑے گئے مجرمان بھی عدالتوں سے بری ہو چکے ہیں اس لئے دہشت گردی کے مقدمات فوجی عدالتوں کے حوالے کئے گئے اور دو سالوں کے اندر 700مجرموں کو پھانسی کی سزا دی گئی ان میں ایسے مجرم بھی تھے جو 16یا18سالوں سے مقدمات بھگت رہے تھے اور عنقریب بری ہونے والے تھے ایسے مجرمان بھی تھے جنکی رحم کی اپیلیں زیر غور تھیں اور ایسے مجرمان بھی تھے جن کو معاف کر نے کے لئے مقتولین کے ورثا کو اغوا کی دھمکیاں دی جارہی تھیں آرمی چیف نے سزاوں کی توثیق کر دی اور قانون پر عملدر آمد ہو ا دو سال بعد پھر وہی پرانا سلسلہ شروع ہوا اگرچہ فوجی عدالتوں کے قانون کی مدت میں توسیع کر دی گئی مگر مقدمات کو سول عدالتوں میں چلانے کا فیصلہ ہوا نئے مقدمات فوجی عدالتوں کو نہیں بھیجے گئے سول عدالتوں میں چوہے اور بلی کا کھیل چلتا ہے سیشن جج پورے ثبوتوں کی روشنی میں دہشت گرد ،قاتل اغوا کار اور سمگلر کو سزا دیتاہے تو ہائی کورٹ سے و ہ بری ہو کر باہر آجاتا ہے کیونکہ قانون میں سقم موجود ہے قاتل،دہشت گرد،اغواکار یا سمگلر اکیلا آدمی نہیں ہوتا اُس کے پیچھے ملکی اور غیر ملکی ادارو ں کا پورا گینگ ہوتا ہے اس گینگ کے پاس بے پناہ دولت ہوتی ہے یہ لوگ نوٹوں کی گنتی نہیں کرتے نوٹ والے بوروں کی گنتی کرتے ہیں کسی مجرم کو چھڑانا ،ضمانت کرانا یا عدالت سے بری کرانا اُن کے بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی کا کام ہوتا ہے ہمارے موجودہ قوانین میں گھناونے جرائم کی سزا اور جرمانے کی جو حدمقر ر ہے وہ مضحکہ خیز ہے چرس،ہیروئین،اسلحہ یا گولہ بارودکا ٹرک پکڑا جائے تو ملزم کو معمولی قید اورمعمولی جرمانے سے زیادہ سزا نہیں ہو سکتی اگر شہادتو ں میں معمولی شک بھی نظر آئے تو اس کا فائدہ ملزم کو دیا جاتا ہے اس لئے لوگ قانون کو مذاق کا درجہ یتے ہیں نیشنل کاونٹر ٹریرزم اتھارٹی NACTA) )نے اگرچہ بہت دیر کردی مگر اچھا قدم اُٹھایا ہے اب صوبوں کے ساتھ مشاورت کے عمل میں زیادہ دیر نہیں لگانی چاہیے تجویز مرتب کرنے میں نیکٹا نے 10 سال لگائے اگر مشاورت کے عمل میں 10 سال اور قانون سازی کے عمل میں مزید 10سال لگ گئے تو قوم کی مایوسی مزید بڑھے گی قدیم زمانے کا فارسی مقولہ ہے ’’تاتر یاق از عراق آوردہ شود مارگزیدہ مر دہ شود‘‘عراق سے تر یاق لاتے لاتے اتنا عرصہ بیت جائے گا کہ سانپ کا ڈساہوا مریض مر چکاہوگا نیکٹا کی تجاویز خوش آئیند ہیں 52 صفحات کا مسودہ بھی اپنی جگہ درست ہے اب ان تجاویزکو ایک ماہ کے اندر قانون کی صورت دیکر ملک میں نافذ کرنا وقت کا تقاضا ہے تاکہ سول عدالتوں پر عوام اعتماد بحال ہو جائے ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
261