Chitral Times

سماجی تجربہ ۔ تحریر: صوفی محمد اسلم

    Social experience

میریم ڈیکشنری:- علم کی بنیاد پر واقعات کا براہ راست مشاہدہ کو تجربہ کہتے ہیں ۔

ایکسفورڈ ڈیکشنری: -حقائق یا واقعات کے ساتھ عملی رابطہ اور مشاہدہ کو تجربہ کہتے ہیں ۔

کیمبرچ ڈیکشنری:-وہ علم یا مہارت جو کرنے ، دیکھنے یا محسوس کرنے سے حاصل ہو کو تجربہ کہتے ہیں۔

تجربہ وہ عمل ہے جس کے ذریعے سے انسان اپنے ارد گرد کی دنیا کو سمجھتے ہیں، زندگی میں پیش آ نے والے واقعات کو خود کرچکے ہیں یا اس کے سامنے ہوچکے ہیں ایسے واقعات کو مشاہدہ کرکے علم اور احساسات سے جو نتیجہ اخذ کی جاتی ہے اسے تجربہ کہتے ہیں۔ لفظ تجربہ کا مطلب ہے ادراک ،احساس یا مشاہدہ ۔ تجربے سے حاصل کردہ علم کو تجرباتی علم کہا جاتا ہے۔ تجربے کے مختلف اقسام ہوتے ہیں جیسے تصوراتی تجربہ، فیزیکل تجربہ، ذہنی تجربے مگر ہم اج سوشل تجربے پر بحث کرتے ہیں۔ 

اگر آپ نے مجھے  دیکھا کہ  میں کسی پارک میں بیٹھا ہو اور چپس کھا کر شاپر وغیرہ  سامنے کوڑا دان میں ڈالنے کے بجائے وہی چھوڑ کر جاتا ہوں یا میں نسوار یا پان کھاکرآپ کے ساتھ والی زمین یا دیوار پر تھوکتا ہوں  تو تمہیں کیسا محسوس ہو گا؟ اگر اپکو  برا لگا تو سمجھے کہ اپ کسی ایسے معاشرے  سے تعلق رکھتے ہیں جہان ایسے حرکات کو معیوب سمجھے جاتے ہیں۔  اگر جواب غیر حیران کن ہے  تو اپ ایسے  معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں یہ ایک عام عادت اور ثقافتی طور پر غیر حیران کن تصور کی جاتی  ہے۔ اپنے  ثقافت اور معاشرے کو اس طرح  تشکیل دے سکتے ہیں جس طرح ہم واقعات کا تجربہ کرتے ہیں۔ اپنے  اور اپنے ماحول  کے بارے میں کبھی بھی صحیح معنوں میں نہیں جانتے کہ جب تک ہم اس کا تجربہ نہیں کرتے  ہیں۔ زندگی کا تجربہ کرکے ہم دریافت کرتے ہیں کہ ہم کون ہیں اس تجربہ کو ہم سماجی تجربہ کہتے ہیں۔معاشرے کی مغیار معاشرے کے لوگوں کی سوچوں پر منحصر ہے کہ لوگوں کی سوچتے   ہیں کسی معاملے میں انکے تاثرات کیا ہیں ۔لوگوں کی سوچوں کی مغیار کا اندازہ مروجہ قوانین و اصولوں اور نظریاتی و ثقافتی اقدار دیکھ کر لگایا جاسکتا  ہے ۔

 پاکستانی معاشرہ ایک اسلامی نظریاتی معاشرہ ہے جہاں اسلام کو ماننے اور اسلامی معاشرتی نظام  کی نفاذ کی ٪80 لوگ حمایتی  ہیں ۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرتی اصولوں اور اسلامی تعلیمات میں کافی تضاد ہے۔ ہمیں معاشرتی نظام کی درستگی کیلئے سب سے پہلےاسلامی معاشرتی پیمانے کو سامنے رکھتے ہوئے  یہ معلوم کرنا ہے کہ ہمارے معاشرے میں برائیاں کیا ہیں تاکہ معاشرے کو ان برائیوں سے پاک کیا  جا سکے ۔ پھر لوگوں میں برائیوں کو چھوڑنے اور اچھائیوں کو اپنانے کی خواہش اجاگر کرنا ہوگا جس کیلئے مصمم ارادہ ، جدوجہد اور سوچوں میں ہم اہنگی  درکار ہوتی ہے ۔

اج ہم اسلامی معاشرتی نظام کو مدنظر رکھتے ہوئے چند معاشرتی برائیوں پر محث کرتے ہیں۔ چھوٹ ، دھوکہ بازی، بدعنوانی، منشیات اور آلودگی  وغیرہ ایسے برائیاں ہیں جس کی روتھام انتہائی ضروری ہے۔ ایسے برائیوں کی وجہ سے ہمارے ذہن معاشرتی پسماندگی کی طرف بڑھتی جارہی  ہے ۔

جھوٹ  ایک معاشرتی برائی ہے، اسلامی تعلیمات کے مطابق جھوٹ بولانا  منافقت ہے۔ یہ سارے برائیوں کو سہارا دیتی ہے۔  اس کے  سہارے معاشرے میں بہت سارے برائیاں جنم لیتے ہیں۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ کیا  ہم  جھوٹ بولنے کی عادی ہیں؟ کیا ہمیں یہ احساس بھی ہے کہ جھوٹ کتنا بڑا برائی ہے اور معاشرے پر  اسکا اثر کیا  ہے ؟۔ جب معلوم ہو کہ ہم سے یہ گناہ سرزد ہورہی ہے تو اسے چھوڑنے کی کوشش کرنا آسان ہوجاتی ہے ۔ اقدامات سے معاشرتی درستگی ہوتی  ہے ایسے برائیوں کو نظرانداز کرنے سے  معاشرتی نظام میں بگاڑ پیدا ہوتی ہے۔ایک ڈاکٹر کہتا ہے کہ میں کسی یورپین ملک میں ایک خاندان کے ساتھ رہتا تھا ۔ ایک دن مالک مکان مجھے اپنےگھر سے یہ کہہ کر نکال دیا کہ آپ میرے بچے کو جھوٹ بولنا سیکھایا، آج پہلی مرتبہ آپ کی وجہ سے وہ جھوٹ بولا۔ معذرت کے ساتھ مجھے گھر سے بے دخل کر دیا ۔ اسے کہتے اصولوں کی پابندی ایک معزز مہمان کو ایک جھوٹ پر بے دخل کردی جائے۔

دھوکہ دہی بھی معاشرتی  برائیوں میں سے ایک برائی ہے  جو  سرکش قوم جنم دیتی ہے ۔ جس معاشرے میں دھوکہ دہی سے پرہیز نہ ہو وہاں کسی پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ۔ ایسے قوم کو کوئی تہذیب یافتہ نہیں کہتا جہاں دھوکہ دہی عام ہو ۔ اسلام میں دھوکہ دہی کی کوئی جگہ نہیں۔ ہمارے بزرگ ایک جانور کے ساتھ دھوکہ کو برداشت نہیں کیا اور اس شخص سے حدیث تک کو بھی قبول نہیں کیا۔ سوچنا یہ ہے کہ کیا ہمارے مزاج میں دھوکہ دہی کے عنصر موجود ہے ؟ ۔ اگر ہے تو دل و دماغ سے ایسے ناسور کو ختم کرنا ہوگا ۔ اپنے آس پاس کے لوگوں کو بھی اس سے باز رہنے کی کوشش کرنا ہوگا ۔

بدعنوانی یہ معاشی اور معاشرتی برائ ہے۔ یہ برائی جب کسی معاشرے میں پروان چڑھتی تو وہ معاشرہ کھنگال ہوجاتی ہے ۔ لوگوں میں نفسانفسی کی کیفیت ہوتی ہے۔ غربت، بیروزگاری بڑجاتی اور لوگوں میں تفریق آجاتی ہے۔ لوٹ مار جیسے معاشرتی جرائم  جنم لیتے ہیں۔ حرام خوری کی لت جب کسی قوم کو لگ جاتی ہے تو ان کے اندر سے غیرت مندی سمٹ لی جاتی  ہے۔ محنت اور مشقت وجود سے بے دخل ہو جاتی ہیں ۔ بدعنوانی ایک نظریہ  ایک سوچ ہے جو ہے جو ایک روپے سے بڑے  رقم تک سب شامل ہیں ۔ اگر ہمیں یہ معلوم ہو کہ ہمارے سوچ میں ایسے محرکا شامل ہیں  ہمیں فوراً  اس کی روک تھام  کیلئے عملی اقدامات اٹھانا   اور  اپنے معاشرے کو کنگال ہونے سے بچانا ہوگا ۔

منشیات  یہ جسمانی،ذہنی، روحانی، معاشی اور معاشرتی برائی ہے جو معاشرےکیلئے  آلہ قتل کی طور پر کام کرتی ہے، جو انسان کے سارے صلاحیتوں کو دیمک کی طرح چاٹ  کر وجود کو کھولا کردیتا ہے ۔ یہ برائی مستی سے شروع ہوکر بے بسی پر ختم ہوجاتی ہے۔ منشیات ایسی دشمن ہے جو معاشرے کےسب سے کارآمد حصے پر وار کرتی ہے ۔یہ ہمیشہ خوبصورت پھولوں کو نشانہ بناتی ہے ۔یہ پھول وہ جوان ہیں جو معاشرے کےسب سے مضبوط حصہ ہے جو قوم کے ترقی کی ضامن ہوتے ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے ہم اس برائی کی روک تھام کیلئے کیا کرسکتے ہیں ۔ اسکے لئے ایک دوسرے سے تعاون کرنا ہوگا ۔ پولیس اور عوام ملکر لڑنا ہوگا ۔ جب ہم مصمم ارادہ کرکے ملکر لڑیں گےتو اسے مٹناہی پڑے گا۔

آلودگی  ۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق جسمانی، ذہنی اور ماحولیاتی صفائی نصف ایمان ہے۔ بغیر صفائی اور پاکیزگی کے ایمان کامل نہیں ہوسکتا۔ اب ہمیں یہ معلوم کرنا ہے کہ ہم اس کو کتنی اہمیت دیتے ہیں۔ کیا ہم اپنے جسم ، ذہن اور ماحول کو پاک و صاف رکھنے کی خود کوشش کرتے ہیں، کوئ اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرے تو کیا ہمیں برا محسوس ہوتا ہے ؟ کہی  ہم کسی سرکاری یا نجی عمارت یا جائیداد  کے خوبصورتی کو نقصان تو نہیں پہنچا رہے ہیں اور جب کوئی اور اس کی خوبصورتی کو کوئ نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں کیا ہمیں عصہ آتا ہے  اور نقصان کی ممانعت کرنے کیلئے کیا کرتے ہیں؟  یہ قومی فریضہ ہے کہ ہم اس کی روتھام  کیلئے عملی اقدامات کرنا ہے ،ردعمل نہ آنے کی صورت میں ہم  بھی قصور وار ہیں۔

جب معاشرتی اصلاح کی بات اتی ہے تو ہم ایک دوسروں کو دوش دیتے ہیں ذمہ داری دوسروں پر ڈال کر خاموشی اختیار کرتے ہیں    جیسے حکومت کی زمہ دار قرار دیتے ہیں جو کسی صورت درست نہیں۔ ایسے بہانہ بنا کر ہم خود کو ہی دھوکہ دے سکتے ہیں۔ حکومت ہم سے بنتی اور ہم بناتے ہیں۔ ایسے بہانہ کرکے دوسروں کو دوش دیکر معاشرے   کی اصلاح ممکن نہیں۔ ہمیں ملکر ان برائیوں کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔ اگر ہم نہیں کرتے تو کوں آئے گا، ہمیں اپنے سوسائٹی کو  خود سنبھالنا ہوگا۔ معاشرتی دوڑ دھوپ میں سب ملکر حصہ لینا ہوگا ۔ تب جا کہ ہم اس مملکت خداداد کو عظیم ممالک اور خود کو تہذیب یافتہ قوموں  کی فہرست میں شامل کرسکتے ہیں ۔

وماعلیناالاالبلاغ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
51928

معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت ۔ تحریر صوفی محمد اسلم

معاشرے کی عمارت اخلاقیات، برداشت، رواداری اور محبت کے ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے اور جب یہ خصوصیات سماج سے رخصت ہوجائیں تو وہ تباہی کی طرف تیزی سے گام زن ہوجاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کا رجحان تیزی سے فروغ ہو رہا ہے  اس کے باعث تشدد پسند سرگرمیاں بھی سامنے آرہی ہیں۔ لوگوں میں برداشت کم ہوتی جارہی ہے، محض چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی تشدد کرتے ہیں۔ گھروں میں تشدد،  سکولوں میں تشدد، کھیل کی میدان میں تشدد ،یہاں تک کہ پارلیمنٹ میں بھی ایسے متشدد واقعات اکثر دیکھنے میں آتے ہیں، سوشل میڈیا پر تو اس حوالے سے کئی وڈیوز خاصی تیزی سے وائرل ہورہی ہیں۔ 

انسان ایک سوشل انیمل ہے جو ہمیشہ سے مل جل کر رہتے ہیں اسی طرح ایک معاشرہ تشکیل پاتی ہے۔ معاشرتی ارکیں میں مرد ،خواتیں اور بچے شامل ہیں۔جو الگ الگ شخصیات کے مالک ہوتے ہیں۔بعض اراکیں فطرتاً انتہائی جذباتی واقع ہوتے ہیں اور کسی بھی صورت حال میں اپنے اندر اٹھنے والے غصے کو قابو کرنا ان کے لیے انتہائی دشوار گزار مرحلہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ایسے شخصیات بھی ہوتی ہیں جو مشکل صورتحال میں جذبات سے ذیادہ صبر ،تحمل اور عقل سے کام لیتی ہیں۔جب یہ دونوں رویے آمنے سامنے آ جائیں تو عین ممکن ہے کہ منفی جذبات رکھنے والا شخص مثبت سوچ رکھنے والے انسان کے رواداری اور درگزر کو بھی اپنے منفی رویے سے ختم کردے اور نتیجتاًعدم برداشت کی وائرس وباء کی طرح ایک سے دوسرے کو لگتے لگتے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔

معاشرے میں پیش آنی والی پرتشدد اور کردار کشی کے واقعات کی جانچ کی جائے تو بنیادی طور پر ان واقعات کے پیچھے چار طرح کے نظریات پائ جاتی ہیں۔

1 مذہب
2 قومیت
3غیرت
4سیاست
آئیں پہلے مذہب کی بات کرتے ہیں۔ اگر ہم مختلف مذاہب کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ مذہب اہم شخصیات کےکردار گرد گھومتی ہے۔ پیروکاروں کے پاس انہی شخصیات کے افعال و اقوال بطور حوالہ جات موجود ہیں جن سے وہ رہنمائی حاصل کرکے اپنی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ کوئ بھی اپنے نظریات میں مداخلت برداشت نہیں کرپاتے ہیں۔ اس مداخلت کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں عدم برداشت بڑھتی جا رہی ہے۔مداخلت اور عدم برداشت کے سبب مزاہب کے پیروکاروں کے مابین فاصلہ بڑھتی جاری ہیں ۔ یہ حساس پہلو ہے اس  معاملے میں انتہائ سنجیدگی اور تدبر سے کام لینا ہوگا۔ جزباتی رویے سے بلاتر ہوکر برداشت اور رواداری سے پیش انا معاشرے کی اہم ضرورت ہے۔جزباتی اور غیر سنجیدہ تقاریر کی وجہ سے ہم دن بدن فرقہ واریت کے دلدل میں پھنستے جارہے ہیں۔

نسل یا قومیت پرستی 
یہ انسانی فطرت ہے کہ انسان کو اپنے گھر ، اپنے خاندان ، اپنے قبیلے ، اپنی قوم سے زیادہ لگا ہوتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کا گھر ، اس کا خاندان، اس کا قبیلہ ، اس کی قوم کو لوگوں اچھے الفاظ میں یاد کرے۔یہ فطرت بچپن میں اپنے خاندان تک محدود رہتی ہے وقت کے ساتھ ساتھ ماحول اس کے فطرت پر اثرانداز ہوتا ہےاسے خاندان سے نکال کر قبیلہ اور قوم کی طرف لیجاتی ہے۔ جس سے وہ مختلف قسم کے قوم پرستی یا نسل پرستی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کے رویےمیں بھی تبدیلی اجاتی ہے۔اپنے خاندان اور قبیلے کو افضل اور دوسروں کو حقیر سمجھ کر بے تکے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ دوستی اور قرابت داری میں بھی کردار سے زیادہ قومیت کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اس وجہ سے معاشرے میں ایک دوسرے سے دوریاں بڑھتی جارہی ہے ۔ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرپاتے ہیں۔ معمولی غلطی سرزد ہونے پر دوسروں کے خلاف اپنی پوری قوت سے ساتھ ٹکراتے ہیں۔ 

تیسری نمبر پر اتی ہے غیرت۔ غیرت کو ہم نمائشی الہ سمجھتے ہیں۔ انا پرستی اور غیرت میں فرق نہیں کیا جاتا ہے۔ انا پرستی کو غیرت کا نام دیکر ایسی کام کرجاتے ہیں جو اسلامی و اخلاقی نظریے سے اکثر ٹکراتی رہتی ہے۔ انا کی تسکین کیلئے معمولی تکرار پر قتل ،عداوت،  جسمانی اور جنسی تشدد کرتے ہوئے نہیں کتراتے ہیں۔ دشمنی نسل در نسل جلتی رہتی ہے۔جو غیرت مندی کے اصولوں کے سراسر خلاف ورزی ہے۔ اخبارات اور سوشل میڈیا پر ایسے واقعات کے انبار لگی ہوئ ہیں۔ جو غیرت کے علامات نہیں بلکہ عدم برداشت اور انا پرستی  کی علامت ہے۔

سیاسی عدم برداشت۔
یہ بھی ایک ایسا پہلو ہے جس کی وجہ معاشرے میں عدم برداشت کو فروعت حاصل ہوتی ہے۔ سیاست سے منسلک لوگوں میں برداشت کی فقدان کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ بڑے بڑے تعلیم یافتہ لوگ بھی سیاسی عدم برداشت کے دلدل میں پھنس چکے ہیں۔ مختلف پارٹیوں میں منقسم ہوکر اور مخالفت میں ایک دوسرے کو گالیوں سے مخاطب کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کی کردار کشی کی جاتی ہے۔مخالفت میں چادر اور چاردواری کی تقدس کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا ہے ۔ نازیبا الفاظ سرعام استعمال کرتے ہیں۔ایک دوسرے پر تہمت لگا کر ایک دوسرے کو نیچے دکھانے کی کوشش کی جاتی۔ اس کی اثر سے عام لوگوں میں  بھی ایک دوسرے کیلئے عصہ پائ جاتی ہے۔ 

عدم برداشت پڑھے لکھے لوگوں کو بھی نہیں چھوڑا ہے۔ سوشل میڈیا میں برداشت پر لیکچر دینے والے بڑے بڑے لکھاریوں کے سوچ ایک کمنٹ سے کھل کر سامنے آجاتی ہیں۔ انکی معمولی طبیعت مخالف کوئی کمنٹ کرے یا کوئی ان کے رائے سے اختلاف رائے کرنے کی جسارت کر لے تو اک منٹ میں یہ برداشت کے سبق کو بھول جاتے ہیں قلم چھوڑ کر عدم برداشت کے میدان میں اتر اتے ہیں جوکہ ایک المیہ ہے۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کوریاست مدینہ بنانے کی بات تو ہورہی ہے جو ہمارے خواہش بھی ہے مگر کیا ریاست مدینہ جن ستوں پر کھڑا تھا ان اصولوں پر کاربند رہنے کی ہم میں وہ ہمت و صلاحیت موجود ہیں۔ ریاست مدینہ کی بنیادی اصولوں میں سے ایک برداشت بھی ہے۔ کیا برداشت ،رواداری اور درگزر کا مادہ ہمارے اندر موجود ہے۔  جس کی مثال چودہ سو سال قبل رسول اللہ نے اخلاق ،تہذیب،برداشت اور درگزر سے دی  ہے ۔ طائف کی گلیوں میں لہولہان ہونے ،عزیز چچا کا کلیجہ چبانے والی ہندہ ، مکہ کی عظیم الشان فتح پر عام معافی کے اعلانات فخر سے ہم بیان تو کرتے  کیا عملی ذندگی میں اس پر عمل کرنے کی بھی اہلیت ہے ۔

دوسری طرف سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم لوگوں میں سے برداشت کیوں ختم ہوتی جارہی ہے۔اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی جائے تو یہ حقائق سامنے آتے ہیں کہ ہمارے عوام کی اکثریت کو گوناگوں مسائل کا سامنا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ مصائب بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔ ان میں انصاف کی فقدان، بیروزگاری اور مہنگائ وغیرہ مسائل شامل ہیں۔ پریشانیوں کا سامنا کرتے کرتے ہمارے عوام اذیت میں مبتلا ہوچکی ہیں۔ لوگوں کے ذہنوں پر اس صورت حال نے انتہائی منفی اثرات مرتب کئے ہیں، مسائل کا سامنا کرنا مشکل ہوچکی ہے۔اگر قریب سے دیکھا جائے عدم برداشت مجموعی طور پر ہمارے ہر طبقے کی بنیاد کھوکھلا کرچکا ہے۔اس عدم برداشت کی وجہ سے ہم مختلف گروہوں میں منقسم ہوکر مزید مسائل اپنی طرف مدعو کیے جارہے ہیں۔ عدم برداشت کی طرف ایسے بھاگتے جارہے ہیں کہ اگے نہ گھاٹی نظر اتی ہے نہ سامنے اٹھتی ہوئی طوفان۔

یہ حقیقت ہے کہ ہم اگر اپنے اندر برداشت کا مادہ پیدا کرلیں تو صورت حال خاصی بہتر ہوسکتی ہے۔ صرف برداشت پیدا کرنے سے ہی معاشرے کا امن و چین لوٹ سکتا ہے۔ انسان ہونے کے ناتے کسی پر بھی تشدد کرنا کسی طور مناسب نہیں۔ یہ ہر لحاظ سے قابل مذمت امر ہے لہٰذا بہتری اسی میں ہے کہ تشدد اور عدم برداشت کے رویوں سے جان چھڑائی جائے۔ اعلیٰ اخلاقی اقدار کو فروغ دیاجائے ۔ مساجد،  سکول اور مدارس میں باقاعدہ برداشت پر درس دیا جائے۔ تبہی ہم اس پر قابو پاسکتے ہیں۔
وما علینا الاالبلاع۔


تحریر صوفی محمد اسلم

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
50430