Chitral Times

اپرچترال؛ تھانہ لاسپور کے حدود میں ایک اور خاتون کی مبینہ خودکشی

اپر چترال ( نمائندہ چترال ٹائمز ) تھانہ لاسپور کے حدود میں ایک اور شادی شدہ خاتون نے مبینہ طور پر دریا ئے لاسپور میں چھلانگ لگاکر خودکشی کرلی ہے ۔پولیس ذرائع کے مطابق مسماۃ طاہرہ زوجہ غلا م سکنہ بالیم عمر تقریبا پچیس سال نامعلوم وجوہات کی بناپر گزشتہ شب سے لاپتہ تھی جس کی تلاش جاری تھی کہ آج اسکی لاش دریا کی کنارے سے ملی ہے ۔ جس کو مقامی پولیس پوسٹ مارٹم کے بعد ورثا کے حوالہ کردی ہے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق خاتون نے خودکشی کرلی ہے تاہم مقامی پولیس انکوائری کررہی ہے ۔

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , ,
51153

اپرچترال؛ ایک اور شادی شدہ خاتون کی مبینہ خودکشی ،لاش دریا سے نکال لی گئی۔ ریسکیو 1122

اپرچترال؛ ایک اور شادی شدہ خاتون کی مبینہ خودکشی ،لاش دریا سے نکال لی گئی۔ ریسکیو

اپر چترال(چترال ٹائمز رپورٹ ) ریچ تورکھو سے تعلق رکھنے والی شادی شدہ خاتون زوجہ سید کریم شاہ گزشتہ دن علی الصبح گھر سے نکل کر لاپتہ تھی۔بعد میں پتہ چلا کہ خاتون نے دریائے تورکہومیں چھلانک لگاکر مبینہ طورپر خودکشی کی ہے، اطلاع ملنے پر ریسکیو 1122 کی غوطہ خور ٹیم اپر چترال تورکھو پہنچ کر ثور وخت کے مقام پر دریائے چترال سے ڈیڈ باڈی ریکور کرکے ورثاء کے حوالے کر دیا، ابتدائی معلومات کے مطابق خاتون زہنی مریضہ تھیں.تاہم مقامی پولیس انکوائری کررہی ہے۔

chitraltimes suicide case torkhow
Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged ,
51025

ہر خودکشی کرنیوالے کا ایک قاتل ہوتا ہے! – گل عدن

ہمیشہ کہا جاتا ہے کہ ہر خودکشی کرنے والے کا کوئی قاتل بھی ہوتا ہے ۔مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے اور میں نے اپنی محدود سمجھ کے مطابق اس قتل کے ذمہ داروں کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔لیکن یاد رہے کہ یہ میری رائے ہے ایک فرد واحد کی حثیت سے۔قارئین کا مجھ سے اتفاق رائے رکھنا ضروری نہیں ۔


اب ہم اپنے موضوع کیطرف آتے ہیں ۔اس جرم کے حصہ داروں میں پہلا نام والدین کا آتا ہے ۔میں والدین کو قاتل تو نہیں کہتی مگر جو والدین اپنی اولاد میں تفرقہ کرکے انہیں ذہنی امراض میں دھکیل دیتے ہیں’جو اپنی اولاد کو حلال اور حرام میں ‘سہی اور غلط میں تمیز نہیں سکھا پاتے’ جو اولاد کے معصوم ذہنوں میں رشتے داروں کے خلاف زہر بھرتے ہیں ‘جو اولاد کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے ہیں’جو اپنے بچوں کی صحبت پر نظر نہیں رکتھے اور اونچ نیچ ہونے کی صورت میں اپنی اولاد کی غلطیوں کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھرا کر اپنی اولاد کو ہمیشہ ہر جرم سے بری الزمہ کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ایسے والدین کو میں خودکشیوں کا ذمہ دار سمجھتی ہوں۔ یاد رہے اولاد کی حق میں والدین کا بہترین عطیہ انکی اچھی تعلیم و تربیت ہے۔

یہاں آپ شاید مجھ سے اتفاق کریں گے کہ خودکشی کرنے والے کہ ذہن میں بہت سی وجوہات کے علاوہ ایک مقصد کسی مخصوص فرد یا کچھ مخصوص رشتوں کو دنیا کے سامنے اپنی موت کا ذمہ دار دکھانا ہوتا ہے یا کسی کو اسکے برے سلوک کا احساس دلانا یا اپنی ہر بایعنی ضد کو ثابت کرنا ہوتا ہے ۔اب آپ مجھے بتایئں کیا ایسی سوچ ایکدم سے دماغ میں آتی ہے ؟؟نہیں !!یہ سوچ ہمارے اندر بچپن سے پروان چرھتی آرہی ہے ۔جب گھر میں بیٹے کی سگریٹ پینے کی شکایت موصول ہوتی ہے یا سکول سے بچوں کی نالائقی کی شکایت آتی ہے تو کیسے ہماری مائیں ہر چیز کا ذمہ ہمارے دوستوں پر ڈال دیتی ہیں۔ہمارے ذہن میں یہ بات ڈالی جاتی ہے کہ ہم جب جب کچھ غلط کریں گے تو اسکا قصوروار ہم سے زیادہ ہمارے دوست ہونگے۔ ۔

بس ایسا دیکھتے دیکتھے ہم اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں کے جاتے جاتے اپنی موت کی ذمہ داری بھی کسی کے سر پر ڈالنا چاہتے ہیں۔کیونکہ اپنا کیا دھرا دوسروں کے سر پر ڈالنے کی ہماری گندی عادت پختہ ہو چکی ہوتی ہے ۔ 2:خودکشی کرنے والے کا دوسرا قاتل “گھر کا ماحول ” ہے ۔ایک کہاوت ہے کہ ایک گندی مچلی پورے تالاب کو گندہ کر دیتی ہے ۔گھر میں اگر ایک شخص بخیل ہے تو علاقے میں کنجوس گھرانہ آپکا تعارف بن جاتا ہے ۔ گھر میں ایک فرد اگر پیشانی پر بل ڈال کر مہمانوں سے ملتا ہے تو باقی تمام اہل خانہ کی مہمان نوازی خاک میں مل جاتی ہے ۔

گھر کا ماحول بنانے میں تو سبھی گھر والوں کا ہاتھ ہوتا ہے مگر بنے بنائے ماحول کو بگاڑنے کے لئے ایک فرد کافی ہوتا ہے ۔اس اک فرد کو جسے آپ کسی بھی طرح خوش یا مطمئن نہیں کر پارہے ہیں ۔ جو آپکی نہ خوشی دیکھتا ہے نا غم۔جو چاہتا ہے کہ پورا گھر بس اسکے مسائل میں الجھا رہے ۔اور جسکی پریشانیاں مسائل بیماریاں کسی صورت ختم نہیں ہورہیں اس شخص کو ذہنی امراض کے ماہرین سے ملوانے کی ضروت ہے ۔مسئلہ یہ ہے کہ ایسے لوگ خود کو ذہنی مریض کھبی تسلیم نہیں کرتے۔اور کسی صورت اپنی علاج پر راضی نہیں ہوتے۔لیکن ایک ذہنی مریض کو جانتے بوجھتے اسکے حال پر چھوڑ دینا اسے قتل کرنے کے برابر ہے۔بلکہ ایک فرد کا دماغی علاج نہ کرنا پورے گھر کو اپنے ہاتھوں سے پاگل خانہ بنا دینے کے مترادف ہے ۔

یاد رہے ذہنی اذیت جسمانی اذیت سے کہیں زیادہ تکلیف دہ اور قابل رحم ہوتے ہیں ۔یہ بھی حقیقت ہے کے ہر کوئی ماہر نفسیات تک رسائی نہیں رکھتا ہے لیکن اگر آپکے گھر کا کوئی فرد ڈپریشن کا شکار ہے تو آپ اسکے ساتھ ہمدردی کا رویہ رکھیں۔اپنے ذہنی طور پر صحت مند ہونے کا ثبوت دیں اور اسے ” پاگل” کے خطاب سے نہ نوازیں۔ 3خودکشی کرنے والے کا تیسرا اور سب سے بنیادی ذمہ دار (قاتل ) خودکشی کرنے والا خود ہوتا ہے۔ ۔باوجود اسکے کہ ہمیں اچھے والدین نہیں ملے۔ ۔باوجود اسکے کے ہمیں بدترین خاندان ملا ۔بہت برے رشتہ دار ملے۔باوجوداسکے کے کسی کو ہم سے ہمدردی نہیں ‘محبت نہیں ۔ ہمیں کچھ بھی حسب منشا نہیں ملا ۔ ۔

باوجود اسکے کے ہمیں ہر قدم پر ناکامی کا سامنا کرنا پرتا ہے ۔کوئی ہمارا ساتھ نہیں دیتا۔باوجود اسکے کے کہ ہم بہت بدصورت ہیں ۔غریب ہیں ۔مصائب کا سامنا ہے ۔ہار گئے ہیں ۔ازیت میں ہیں ۔کوئی چھوڑ کر جا چکا ہے کسی کو چھوڑنا پڑ رہا ہے ۔اس سب کے باوجود کوئی وجہ اس قابل نہیں ہے جو “خودکشی” کے لئے “کافی”ہو جائے۔ بڑی سے بڑی وجہ اور بڑی سے بڑی مصیبت بھی “زندگی “جیسے قیمتی تحفے کو جو اللہ رب العزت کی ذات نے ہمیں عطاء کی ہے’ کو ٹھکرانے کے آگے چھوٹی پر جاتی ہے ۔ جب خالق کی ذات اتنی مہربان ہوسکتی ہے کہ ہماری گناہوں سے تر زندگی کو ایک اشک ندامت پر معاف فرمادے تو ہم کون ہوتے ہیں خود کو یا دوسروں کو سزا دینے والے۔اور یہ کہاں لکھا ہے کہ زندہ رہنے کے لئے ہر میدان میں کامیاب ہونا شرط ہے ؟

کس نے کہا کے دنیا صرف خوبصورت لوگوں کے لئے ہے ؟یا اہم ہونا زندگی کی شرط ہے ؟ کس نے آپ سے کہا ہے کہ اچھی زندگی کہ لئے خاص ہونا’امیر ہونا’پسند کی زندگی گزارنا شرط ہے ؟ یہاں تو پھول بھی کانٹوں کے بغیر نہیں اگتے پھر آپکو کیوں نہیں دکھتا کہ ہر شخص باوجود خوبصورت ہونے کے’ کامیاب ہونے کے ‘ بے تحاشہ دولت مند ہونے کے پریشانیوں اور مشکلات کا شکار ہے ۔آپکو محبوب نہ ملنے کا غم ہے اور کچھ لوگ محبوب کو پاکر غمگین ہیں ۔کوئی ہار کر غمزدہ ہے کسی کو جیت مزہ نہیں دے رہی ہے۔امیر غریب پہ رشک کھا رہا ہے ۔غریب امیر کو دیکھ کے آہیں بھرتا ہے۔ آپ کسی کے بارے میں بھی یقین سے نہیں کہ سکتے کہ وہ اپنی زندگی سے سو فیصد خوش یا مطمئن ہے زرا سوچیں آپکی آنکھوں پ بندھی پٹی محبت کی ہے یا کم عقلی کی۔خودترسی سے جتنی جلدی ہوسکے باہر آجائیں۔ضرورت یہ جاننے کی ہے کہ اگر دنیا کے سارے لوگ مصائب کا تو شکار ہیں مگر سارے لوگ تو خودکشی نہیں کر رہے ہیں ۔

کیوں؟ کیونکہ سارے لوگ بزدل اور بے وقوف نہیں ہیں۔ کیونکہ پسند کی شادی نہ ہونا’افسر نہ بننا ہر دلعزیز نہ ہونا اتنا بڑا نقصان نہیں ہے کہ آپ اپنی موت کو ہی گلے لگالیں۔مجھے ان لوگوں پر بھی حیرت ہوتی ہے جو خواہش رکھتے ہیں کہ کاش وقت انہیں کچھ سال پیچھے لے جائے تاکے ان سے جو غلطیاں ہوئیں ہیں وہ ان سے بچ نکلیں۔آپ دس سال پیچھے جا کر غلطی سدھار آئیں لیکن اس بات کی کیا گاڑنٹی ہے آپ دس سال بعد یا موجودہ وقت میں کوئی غلطی نہیں کررہے ہیں ؟؟ جبکہ انسان تو خطاء کا پتلا ہے ۔غلطیوں کو سدھارنا یہ ہے کہ آپ اپنی غلطی کو غلطی تسلیم کرلیں۔اس سے سبق حاصل کریں۔اور انہیں بار بار دہرا کر اپنی عادت نہ بنائیں۔


اور پسند کی شادی نہ ہونا محبوب کا آپکو چھوڑ دینا یا اپنی والدین کی خوشی کی خاطر اپنی خوشی سے دستبردار ہونا کوئی اتنی بڑی قیامت نہیں ہے کہ جسکے بعد آپکی زندہ رہنے کی وجہ ختم ہوجائے۔مثال کے طور پر جب کوئی مرجاتا ہے تو اسکے اپنے کس دل سے اسے منوں مٹی تلے دفنا کر اپنے گھر اور دنیا کیطرف لوٹ آتے ہیں۔اس میں یہی ایک سبق ہے ہماری زندگی کی تمام معاملات کو لیکر ۔جسطرح مرنے والے کے ساتھ مرا نہیں جاتا۔اگر آپ اپنے ہی جان چھرکنے والے ماں باپ کو بہن بیٹی بھائی یا کسی بھی عزیز کو مٹی کے حوالے کرکے واپس دنیا کی طرف لوٹ سکتے ہیں کھا پی سکتے ہیں ہنس بول سکتے ہیں تو اسکا مطلب ہے کہ ایسے ہی آپ کسی بھی خواہش خوشی اور فرد کے بغیر زندہ اور خوش باش رہ سکتے ہیں۔

دنیا کی کوئی بھی چیز رشتے اور تعلق آپکی زندگی کی ضمانت نہیں ہیں بلکہ صرف آپکی آزمائش ہیں۔اور ہاں ایک بات اور آپکو کیوں لگتا ہے کہ خوش رہنا ہی زندگی ہے سچ تو یہ ہے کہ اپنے غموں محرومیوں اور ناکامیوں کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کا نام ہی زندگی ہے اور یہ سب ایسے ممکن ہو سکتا ہے کہ کہ ہر معاملے کو رب کی رضا جان کر اس میں راضی رہ کرصرف صبر اورشکر سے ہماری زندگیاں آسان ہوسکتی ہیں ۔ اللہ ہمارا مدد گار ہو۔آمین
پرھنے اور سمجھنے والوں کا بے حد شکریہ

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged , , , , ,
50204

آخری قدم سے واپسی – محبوب اعظم

جیسا کہ آپ سب کو پتہ هے که خودکشی ایک قابل علاج بیماری هے،  اور یہ اسلام میں حرام  ہے لیکن پھر بھی ہمارے چترال میں آئے روز ایسے بہت واقعات هوتے ہیں جن کے بارے میں سن کر دل خون کے انسو روتا هے! 


ابھی تک بہت سے دانشوروں نے خود کشی ،  اس سے متعلق مسائل کے بارے میں،  اس کے روک تھام کیلئے کوششں کی ہیں اور کر رہے ہیں۔ البته اس کا کوئی مثبت حل ابھی تک نکالنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں. 


کیا خودکشی واقعی مسائل کا حل هے؟ اصل سوال یه ہے کہ کیا خودکشی کرنے سے مسائل حل ہوجاتے هیں یا اور بڑھ جاتے هیں؟ ویسے دنیا میں سب سے قیمتی چیز جان ہے اگر ہم اسے ہی ختم کریں تو حل کیسا ہوا! پہلے زمانے میں خواتیں میں یه عمل زیاده ہوتا تھا تو لوگ اس کو تعلیم کی کمی کی وجہ سے ہونے والی ومل  کہتے تھے جو که قابل غور  تھا اور ہے لیکن اب یه عمل نوجوان نسل میں تیزی سے بڑھ رہی ہے۔  میں بھی ایک نوجوان ہوں اور مسائل ہر کسی کی زندگی میں آتے ہیں اور انسان بے بس بھی ہوتا هے لیکن اس کا ہر گز یه مطلب نہیں که وه اپنی جان دینا ان مسائل کا حل سمجھے جس سے ایک جان چلی جاتی ہے اور بعد میں وہ خاندان کیسے مسائل اور پیچیدگیون کا شکار ہو جاتی ہے۔ نوجوانوں میں یه عمل کیوں زیاده ہے تو اس کی دو وجوہات ہیں:

 1: تعلیم 

2: شادی

کیا تعلیم کیوں خودکشی کی وجه بنتی هے۔  یه تو انسان کو جینا کا طریقه سکھاتی هے، ہاں بالکل تعلیم انسان کو جینا کا سلیقہ سکھاتی هے لیکن ہمارے معاشرے میں اس کو غلط سمت میں لے جایا جاتا هے۔ هم تعلیم کو صرف اور صرف روزگار کیلئے حاصل کرتے هیں کیونکه روزگار بھی ہمارا ایک اہم مسله ہے لیکن اتنا بھی نہیں که ہم اپنی جان دے دیں. 

جب کوئی تعلیم حاصل کرتی ہے تو اس سے لوگوں کو بہت سے امیدیں وابسطہ ہوتی ہیں کہ اس نے تعلیم کی اب یہ اور وہ کرے گی، یقیناً یہ امیدیں بھی ہونی چاہیں.زندگی کا کوئی نہ کوئی مقصد تو ہونا چاہیے لیکن اتنی بھی امیدیں وابستہ نہیں ہونے چاہیے کہ جو اپنا جان دے کر پورا کرنا هو.

ایک اور اہم مسلہ جو ہمارے معاشرے میں درد سر بنا هوا هے جوکہ لڑکے سے زیادہ لڑکیوں میں ہے جوکہمن پسند کی شادی میں منسلک ہونا۔

شادی ایک رسم ہی نهیں بلکہ انسانی زندگی کی ایک اہم پہلو هے جس میں ایک مرد اور عورت ایک ازواجی رشتے میں منسلک ہو جاتے ہیں جو مرد اور عورت دونوں کیلئے ضروری ہے. 

اب سوال یہ ہے کہ شادی خودکشی کی وجہ کیوں ہے ۔

گوکہ شادی معاشرے میں قابل قبول اور ازواجی رشتے میں منسلک ہونے کا ایک جائز اور پسندیدہ عمل ہے۔ اب شادی کے بعد خود کشی ہونے کے  بہت سے وجوهات ہیں۔   اس کا ایک وجہ جہالت بھی کہہ سکتے ہیں۔  جہالت اس لئے کہ ہمارے معاشرے میں لڑکا تو اپنی مرضی سے کسی سے پسند کے رشتے میں منسلک ہو سکتا ہے لیکن لڑکیوں کیلئے زیاده تر یہ اپشن نہیں ہوتا۔  وه لڑکی کیا چاہتی ہے  یا کس کے ساتھ ازواجی رشتے میں رہنا  چاہتی ہے ایک اہم مدعا ہے۔   ہمارے علاقے بلکہ ملک میں گھر والوں کو جو اچھا لگے اور پسند ہو بعض دفعہ ایسا لگتا هے وه فیصلہ  ان پر مسلط کیا جاتا ہے جو کہ بعد میں ان کیلئے مجبوری بن جاتی ہے۔

اب لڑکی گھر والوں کی ناراضگی یا غصے کی وجه سے شادی تو کرتی ہے لیکن شاید اس رشتے سے تھک جاتی ہے یا حالات سے مغیوب ہو جاتی ہے ، اور وه آخری قدم اٹھانے پر مجبور ہو جاتی هے جوکہ خود کشی ہے۔ 

اگر ہمیں خود کشی کو روکنا ہے تو اپنے بچوں سے دوستانہ  ماحول بنانا ہوگا اور برتاو کرنا هوگا۔ ان کے مسائل کو خود سننا ہوگا اور ان سے مل کر انکے مسائل کا حل ڈھونڈنا ہوگا تب ہم خود کشی پر کچھ حد تک قابو کر سکتے هیں۔ 


محبوب اعظم شعبۂ انگریزی جامعۂ پشاور

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
50207

بونی ، ایک اورجوانسال خاتون نے دریائے چترال میں چھلانگ لگاکرخودکشی کرلی

بونی (نمائندہ چترال ٹائمز) جنالی کوچ بونی میں ایک اورجوان سال بیٹی نے مبینہ طور پر خودکشی کرکے اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا ہے . پولیس ذرائع کے مطابق گزشتہ دن جنالی کوچ کی رہائشی سید بادشاہ کی جوانسال بیٹی نے نامعلوم وجوہات کی بناپر مبینہ طورپر خود کودریابردکردیا ہے . جنکی لاش بعد میں دریا سے برآمد کرکے ٹی ایچ کیوہپستال بونی پہچنا دیا گیا ہے . زرائع کے مطابق خاتون کی عمرتقریبا 28 سال اوریونیورسٹی سے فارع التحصیل تھیں. مقامی پولیس انکوائری کررہی ہے .

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , ,
26851

چترال کے نواحی گاوں بکر آباد میں شادی شدہ شخص نے خودکو آگ لگاکر خودکشی کرلی

Posted on

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز) چترال شہر کے نواحی گاؤ ں بکرآباد میں ایک شادی شدہ شخص نے اپنے اوپر مٹی کا تیل چھڑ ک کر آگ لگاتے ہوئے خود کشی کرلی۔ پولیس کے مطابق عصمت اللہ ساکن بکرآباد کی بیوی نے پولیس کے روبرو بیان دیتے ہوئے کہاکہ ان کا شوہر ذہنی مریض تھا اور پیر کے روز صبح ناشتہ کرنے کے بعد اپنے کمرے میں چلے گئے جبکہ وہ گھریلو کام کاج سے فارع ہونے کے بعد جب کمرے میں گئی تو کمرے کا دروازہ بند تھا جسے انہوں نے دھکا دے کر کھولا تو وہ اپنے آپ کو آگ لگاچکاتھا اور ان کے شور مچانے پر گھر کے دوسرے افراد جب کمرے میں دیکھا تو وہ مرچکا تھا۔ متوفی کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ چترال پولیس ضابطہ فوجداری کے دفعہ 174کے تحت انکوائری میں مصروف ہے۔

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged ,
14140

ایف ایس سی نتائج ، چوبیس گھنٹوں کے اندر تین طالب علموں کی خودکشی ، وجہ امتحان میں کم نمبر یا فیل

Posted on

چترال ( آن لائن ) ایف اے ایف ایس سی کے نتائج میں کم نمبر آنے پر چترال میں چوبیس گھنٹوں کے اندر خودکشی کے تین واقعات رونما ہوئے جن میں دو طالبات دریا میں چھلانگ لگاکر لاپتہ ہیں جبکہ ایک طالب علم شدید زخمی ہے ۔ تینوں کی عمریں 17سے آٹھارہ سال کے درمیان بتائی جارہی ہے ۔ تفصیلات کے مطابق بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن پشاور کے حالیہ ایچ ایس ایس سی کے نتائج گزشتہ دن آوٹ ہوتے ہی دلبرداشتہ ہوکر چترال میں چوبیس گھنٹوں کے اندر تین طالب علموں نے خودکشی کی ۔خودکشی کا پہلا واقعہ ریچ تورکہو میں گزشتہ دن پیش آیا تھا۔ جبکہ دوسرا واقعہ گرم چشمہ بلپھوک کے مقام پر پیش آیا جہاں ایک پرائیویٹ کالج کی طالبہ صفورہ دختر روزی من خان ساکنہ موغ نے ایف ایس سی میں دو مضامین میں فیل ہونے کی وجہ سے دلبرداشتہ ہوکر دریائے چترال میں کود کر اپنی زندگی کا چراغ گل کردیا ہے ۔ لاش تاحال نہیں ملی ہے ۔ تیسرا واقعہ کریم آباد لٹکوہ میں پیش آیا ہے جہاں ربی الدین ولد حاجی نامی فسٹ ائیر کا طالب علم خود پر بارہ بور رائفل سے فائر کرکے خودکشی کی کوشش کی ہے ۔ وجہ فسٹ ائیر میں ایک مضمون میں فیل ہونابتایا جارہاہے۔ جس کو زخمی حالت میں مقامی ہسپتال پہنچاکر ابتدائی طبی امداد دینے کے بعد پشاور ریفر کیا گیا ہے ۔ پولیس تینوں واقعات میں انکوائری کررہی ہے ۔ یادرہے کہ واقعہ پہلا واقعہ تورکہو ریچ کے مقام پر پیش آیا جہاں فسٹ ائیر کی طالبہ نے مبینہ طور پر کم نمبر آنے پر دلبرداشتہ ہوکر دریائے چترال میں چھلانگ لگاکر خودکشی کی ہے جسکی لاش کی تلاش جاری ہے ۔
دریں اثنا ریسکیو1122 چترال کی ٹیم کی طرف سے چترال شہرکے مقام پر دریا میں لاشوں کی تلاش جاری ہے ۔
Rescue operation by 1122 chitral 5

Rescue operation by 1122 chitral 3

Rescue operation by 1122 chitral 2

Rescue operation by 1122 chitral 1

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged , ,
12493