Chitral Times

عیدالاضحی پر صفائی کے مسائل اور ہماری ذمہ داریاں – پروفیسرعبدالشکور شاہ


دروازے کی گھنٹی بجی تو بچہ دروازہ کھولنے کے لیے بھاگا۔ ماں نے پوچھاکون ہے؟ جواب آیاکوڑے والا ہے۔ ماں نے بیٹے کو بلایا اور پیار سے سمجھایا بیٹا کوڑے والے تو ہم ہیں وہ تو کوڑا صاف کرنے والا ہے۔ماں کے اس جملے نے بچے کے رویے میں کتنی تبدیلی لائی اس کا ندازہ لگانا مشکل ہے۔ ہمیں بھی اس عید اپنے رویوں کو بدلنا ہے تاکہ یہ عید ہمارے ملک کی سب سے شاندار، صاف ستھری اور خوشیوں سے بھر پور عید ہو۔ یہ تہورہمارے اندر دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔عید ہمیں غریبوں، محتاجوں اور ضرورت مندوں کا خیال رکھنے کا درس دیتی ہے۔ عید الاضحی ہمیں قربانی کے علاوہ بھی بہت سارے درس دیتی ہے۔ ہم عید کے موقعہ پر قربانی کے علاوہ باقی سارے اسباق بھول کر گوشت سے گوشت تک محدود ہو جاتے ہیں۔ہمار ا دین ایک کامل دین ہے اور قربانی کے ساتھ ساتھ صفائی کا درس بھی دیتا ہے۔

حتی کہ یہاں تک فرمایا گیا ہے صفائی نصف ایمان ہے۔ عید سے پہلے ہی ہمارے گلی محلوں میں جانوروں کے فضلے کی بدبو شہریوں کے ناک میں دم کر دیتی ہے۔ جہاں ہم قربانی کے جانور کا خیال رکھتے ہیں وہاں ہمیں اپنے ارد گرد بسنے والے انسانوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ ہم ہزاروں لاکھوں روپے صرف کر کے جانور خریدتے ہیں اگرتھوڑے سے پیسے مزید خرچ کر کے قربانی سے پہلے انکو گلیوں میں باندھ کر سارے علاقے کو گوبرزدہ کرنے کے بجائے نہیں کسی محفوظ جگہ پر باندھیں اور ان کی دیکھ بھا ل کا خیال رکھیں تو ہم زیادہ نیکیاں حاصل کرسکتے ہیں۔ اس ضمن میں حکومت کو کوئی ایسی جگہ مختص کرنی چاہیے جہاں پر لوگ قربانی سے پہلے کچھ پیسے ادا کر کے اپنے جانور رکھیں اور ان کی دیکھ بھال کا انتظام کریں۔

اس اقدام سے نہ صرف قربانی کرنے والوں کی مشکلات کم ہوں گی بلکہ ماحول کو بھی صاف ستھرا رکھنے میں مدد ملے گی۔ گلی محلے میں موجود گندگی انسانی صحت کے لیے مضر ہونے کے ساتھ ساتھ اس عظیم تہوار کی خوشیوں کا بھی ماند کر دیتی ہے۔ ہم خود سجتے سنورتے، گھروں کو صاف کر تے، خوشبولگاتے، صاف ستھرے کپڑے پہنتے ہیں مگر ہم اپنی گلیوں محلوں میں صفائی کا خیال بھول جاتے ہیں۔ ہم اس تہوار پر سادگی اور میانہ روی کے اسلامی اصولوں کو بھی پس پشت ڈال کر مزے مزے کے کھانے پکاتے اور کھاتے ہیں جبکہ ہمارے گردونواع میں موجود بہت سارے لوگ بڑی مشکل سے گزر بسر کر تے ہیں۔ اگر ہم گوشت کے علاوہ باقی چیزوں کی قربانی بھی دیں تو کیا ہی بہتر ہو۔ ہم اضافی گوشت کسی غریب کو دینے کے بجائے فریج میں رکھ لیتے۔ عید کے دوران تقریبا ہر گھر کا فریج گوشت سے بھر جا تا ہے مگر ہم نے کبھی ان لوگوں کے بارے نہیں سوچا جن کے پاس فریج بھی نہیں ہے۔

مجھے یاد ہے ایک حاجی صاحب نے ایک غریب کو بلا کر کہا جتنا گوشت چاہیے لے لو۔ پہلے تو وہ اسے مذاق سمجھا مگر جب اسے یقین دلایا گیا تو اس نے محض دو کلو کے قریب گوشت لیا۔ اس سے پوچھا گیا اتنا کم کیوں لیا تو بولا حاجی صاحب رکھوں گا کہاں فریج نہیں ہے خراب ہو جائے گا اس سے بہتر ہے کسی فریج والے کو دے دیں تا کہ ضائع نہ ہو۔ ہم اس کے برعکس چلتے اگر ہمارا فریزر بھر جائے تو پڑوسی کے فریزر میں جمع کر لیتے۔ہم سیخ کباب، کڑاہی، روسٹ وغیرہ سے لطف اندوز ہوتے اور ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ بھی رہتے جن کو دو وقت کا کھانا دستیاب نہیں ہوتا۔ قربانی صرف گوشت کا نام نہیں ہے۔ہمیں عیدسے قبل اس با ت پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم کس طرح اپنے ماحول کو صاف ستھرا رکھ سکتے ہیں۔قربانی کے جانوروں کے لیے خریدا جانے والا چارہ جو جانوروں کے کھانے کے بعد بچ جاتا ہے ہم اپنا قربانی کا جانور سنبھالتے مگر وہ چارہ اور جانور کا گوبر گلیوں میں ہی پڑا رہتا جو ماحولیاتی آلودگی کا باعث بنتا۔ جانوروں کا چارہ عموما پلاسٹک کے شاپروں میں لا یاجا تا ہے اور یہ پلاسٹک کسی بیماری سے کم نہیں ہے۔

اگر ممکن ہو تو پلاسٹک کے شاپر استعمال کرنے سے پرہیز کریں۔ عید کے موقعہ پر خاندان پارکوں یا صحت افزاء مقامات کارخ کرتے ہیں۔ اگر چہ کرونا کی وجہ سے اس بار یہ منظروسیع سطح پر تو دیکھنے کو نہیں ملے گا، پھر بھی ہمیں پارکوں اور صحت افزاء مقامات کی صفائی کا خاص خیال رکھنا ہے۔ اگر ہم صحت افزاء مقامات اور پارکوں کو گنداکر دیں گے تو پھر ہم گھر سے باہر کہاں جائیں گے۔ ہماری ان چھوٹی چھوٹی لاپرواہیوں کی وجہ سے اس وقت دنیا کو ماحولیاتی آلودگی کے مسلے کا سامنا ہے۔ ہمیں اس تہوار پر اپنے رویوں کو بدلنا ہے اور ماحول دوست روش اختیا ر کرنی ہے۔ عید کی خوشیوں میں مگن ہم اپنے ماحول اور صفائی کو بھول جا تے ہیں۔ خوشی اورتفریح ہماری آنکھوں کو بند کر دیتی ہے۔عید سے کچھ دن پہلے جانوروں کی منڈیاں سج جاتیں ہیں۔ منڈیوں میں نہ تو صفائی کو کوئی نظام ہو تا ہے اور نہ ہی ایس او پیز پرعمل درآمد ہو تا ہے۔

منڈیوں میں جانور لانے والے اکثر صفائی کے ناقص نظام، پانی کی عدم دستیابی اور ناکافی سہولیات کی شکایات کر تے ہیں۔ عید کے بعدیہ منڈیاں گندگی اور غلاظت کا ڈھیر نظر آتیں ہیں۔ ان منڈیوں کے علاوہ شہر میں چلتی پھرتی منڈیوں کی بھی بھر مار نظر آتی۔ ہر چوک، ہر نکڑ اور ہر چوراہے پر افراد ٹولیوں کی شکل میں قربانی کے جانور لیے گھوم رہے ہوتے۔ یہ جہاں جاتے وہاں ماحول کو آلودہ کرتے جاتے۔ ان کا کوئی ایک ٹھکانہ نہیں ہوتا اس لیے حکومت کو چاہیے کہ ان افراد پر پابندی لگائے اور منڈی کے علاوہ جانوروں کو فروخت کر نا غیر قانونی قرار دے۔ یہ گھومتی پھرتی منڈیاں ٹریفک کے نظام کو بھی درہم برہم کر کے رکھ دیتی ہیں۔ قربانی کے جانور چوری ہونے کے ڈرسے انہیں گھروں کے اندر یا باہر گلی میں باندھ دیے جاتا ہے مگر ہم اس حقیقت سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں کہ اگر کسی بھی جانور کو کانگو وائرس ہوا تو یہ اس جانور سے انسانوں تک منتقل ہو سکتا ہے۔

کانگو وائرس بہت خطرناک اور جان لیوا ہے۔ مگر اس سے بھی سنگین معاملہ قربانی کے جانوروں کو ذبح کرنے کا فریضہ انجام دینے کے بعد شرو ع ہو تا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں ذبح کیے جانے والے جانوروں کا خون ہم نالیوں میں بہادتے ہیں جو پانی کے زیر زمین زخیرے کے ساتھ شامل ہو کر ہماری صحت کے لیے مضر ثابت ہوتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم قربانی کے جانور یا تو ذبح خانے لے جا کر ذبح کر وائیں یا کم از کم خون پانی کے ساتھ دھو کر نالیوں میں بہانے سے اجتناب کریں۔ قربانی کا جانور ذبح کر نے کے بعد ہم جانوروں کی آلائیشیں اور دیگر بے کار اجزاء کھلے عام پھینک دیتے ہیں جو تعفن کے ساتھ ساتھ بے شمار بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کے ان اشیاء کو خود پھینکنے کے بجائے حکومت کی مقرر کر دہ ٹیم کے حوالے کریں تا کہ وہ انہیں تلف کر دیں۔ کھلی جگہوں پر پھینکنے سے چوہیے، گدھ، کتے اور دیگر جانور اور پرندے ان کو کھاتے ہیں اور پھر ہمیں بہت سی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔کچھ لوگ آلائیشوں کو اپنے قریبی کھلی جگہ یا کسی خالی پلاٹ میں پھینک دیتے ہیں اور یہ امید کرتے ہیں کہ حکومت کی مقرر کر دہ ٹیم وہاں سے اٹھا لے جائے گی۔ ہمیں ایسا کرنے سے اجتناب کر نا ہے تبھی ہم اپنے ماحول کو آلودہ ہونے سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

متحدہ عرب امارات اور دیگر غیر ملکی ممالک میں قربانی کا فریضہ انتہائی صاف ستھرے مقام پر بڑے منظم انداز میں ادا کیا جا تا ہے۔ مگر ہمارے ملک میں اس طرح کا تصور ابھی تک ناپید ہے۔ ہمارے ہاں نام نہاد موسمی قصائی بھی قربانی کے گوشت کا ستیاناس کر دیتے ہیں۔ بعض معاملات میں تو انہیں صحیح طریقے سے ذبح کر نا بھی نہیں آتا اور ان کی طہارت کے بارے بھی میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس لیے بہتر یہی ہے کے مالک جانور خود ذبح کرے۔

قصائی جانوروں کی کھال بھی خراب کر دیتے ہیں جس سے کھال لینے والوں کو کافی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عید کے بعد ہمارے ہاں وعید والا ماحول دیکھنے کو ملتا ہے۔ کچھ لوگ تو ان آلائیشوں کی بدھو سے اتنا متنفر ہو کر گوشت کھانے سے بھی انکار کر دیتے ہیں۔قربانی کے گوشت کو فریج میں کئی ہفتوں تک فریز رکھنے کے بعد کھانے سے بھی بہت سی بیماریاں لاحق ہو تی ہیں جن میں دل کے امراض، بلڈ پریشر، شوگر اور دیگر بیماریوں قابل ذکر ہیں۔صحت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں اپنی صحت کے ساتھ ماحول کو صاف رکھ کر دوسروں کی صحت کا بھی خیال رکھنا ہے۔ ملک کو صاف رکھنا صرف محکمہ صفائی کا کام نہیں ہے بلکہ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ یہ ہم سب کا ملک ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , ,
50426

عیدالاضحی کے سائنسی اور نفسیاتی پہلو .. پروفیسر عبدالشکورشاہ

اللہ تعالی نے انسان کو حواس خمسہ کی نعمت سے نوازہ ہے۔عید الاضحی کا تہور اپنی ساری سعادتوں اور مذہبی فوائد کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کی طرف سے ہمیں اپنے حواس خمسہ کو، متحرک، طاقتور اور تروتازہ کرنے کا ایک زریعہ بھی ہے۔ تحقیق یہ بات ثابت کر چکی ہے کہ ہمارے حواس خمسہ معلومات جمع کرنے اور کسی صورتحال میں مکمل طور پر شامل ہونے کے لیے بہترین زریعہ ہیں۔عیدکے موقعہ پر تمام مسلمان دلی، دماغی، روحانی، بصری، سمعی، چکھنے اور سونگھنے کی صلاحیتوں کو نہ صرف تروتازہ کر تے ہیں بلکہ ان سب کو پاک صاف رکھ کر اپنے حواس خمسہ کو جلا بخشتے ہیں۔ عید الاضحی ہماری سونگھنے کی صلاحیت کو دوبالا کر دیتی ہے۔خوشبو اور عید الاضحی لازم و ملزوم ہیں۔دین اسلام کے ہر حکم کے پیچھے ہماری بہتر ی ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی کوئی نہ کوئی سائنسی وجہ بھی ہوتی۔

خوشبو او ر یاداشت کا گہرا تعلق ہے۔کچھ سکولوں میں اساتذہ تعلم کو موثر بنانے کے لیے بھی خوشبو کا استعمال کر تے ہیں۔اگر تاریخ پر نظر دوڑائیں تو مختلف مذاہب میں خوشبوکا استعمال ملتا ہے۔یونانی چرچ میں حواس خمسہ کو جلا بخشنے کے لیے خوشبو کا استعما ل کیا جا تاتھا۔ سبت کے دن بھی خوشبو استعما ل کی جاتی تھی۔خوشبو کے زریعے ماضی کی یاداشتوں کو بھی اجاگر کیا جا تا ہے۔ادوار کے بدلنے کے ساتھ ساتھ خوشبو کے زرائع بھی تبدیل ہوتے رہے ہیں 1920سے 1940 کے عرصہ کے دوران پیدا ہونے والوں کو قدرتی خوشبو میسر رہی ہے جبکہ اس کے بعد کے عرصہ میں پیدا ہونے والوں نیم قدرتی یہ غیر قدرتی خوشبو سونگھنے کو ملی۔ عید کا تہورا ہماری سونگھنے کی حس کے لیے اللہ تعالی کا بیش بہا خزانہ ہے۔

قسم قسم کے پکوان، انواع و اقسام کی خوشبو، مختلف اقسام کی پرفیومز کے جھونکے، بھنے اور روسٹ کیے ہوئے گوشت کی خوشبو، روسٹ ہوتی کلیجی، مٹن، بیف، اونٹ کے گوشت کی کڑاہیوں کی بھوک لگانے والی خوشبوں، چھتوں اور صحن میں بنائی جانے والے تکے، ملائی بوٹی، پھر دوسرے اور تیسرے دن گوشت پلاو، نہاری اور دیگر پکوان ہماری سونگھنے اور چکھنے کے حواس کو تروتازہ اور توانا بنا دیتے ہیں۔ ہم اپنی سونگھنے کی حس کی مدد سے بہت سے واقعات کو یاد رکھتے ہیں۔سونگنے کی حس دیگر حسیات کی نسبت سب سے زیادہ موثر ہے۔ سونگھنے سے پیغام یا اثر فورا دماغ تک منتقل ہو تا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بیہوشی  کے لیے سونگھائی جانے والی اشیاء بیہوشی کے انجکشن سے زیادہ جلدی اثر کرتی ہیں۔ بصری پہلو، یعنی دیکھنے کی حس کا بھی عید الاضحی سے بہت گہر تعلق ہے۔ دیکھنے کی حس دوسری اہم حس ہے۔ انسان کے جسم کے اندر موجود تمام حواس کا70% تعلق انسان کی بصری حس سے ہے۔عید الاضحی کے موقعہ پر ہرکسی کو زرق برق لباس پہنے دیکھنا ہماری دیکھنے کی حس کے لیے انتہائی مفید ہے۔

نئے کپڑوں کی خریداری نہ صرف ہماری آنکھوں کی تروتازگی کو دوبالا کر تی ہے بلکہ ہماری خریداری سے ملکی معیشت کو بھی استحکام ملتا ہے۔عمومی طور پر والدین اپنے بچوں کے کپڑے بھی اپنے لباس سے ملتے جلتے یا یکساں رنگ کے بناتے ہیں۔ عید کے موقعہ پر مختلف رنگوں کی مختلف ٹولیاں ایک عجیب نظارہ پیش کر تی ہیں۔ سرمہ لگانا بھی عید کا ایک لازمی جز و سمجھا جا تا ہے۔ سرمہ آنکھوں کے لیے انتہائی مفید ہے۔ہر طرف چمکتے چہرے اور نئے کپڑوں کا نظارہ ہماری آنکھوں کو ٹھنڈک اور تازگی فراہم کر تا ہے جو ہماری دیکھنے کی حس کے لیے خوراک کی طرح ہے۔ معدے کی طرح باقی اجزاء کو بھی خوراک کی ضرورت ہو تی ہے۔ آنکھوں کی خوراک صفائی، طہارت، تروتازگی اور خوبصورتی ہے۔

عید الاضحی ہمیں یہ تمام لوزمات فراہم کر تی ہے۔ عید کا موقعہ ہمیں حسد،جلن، نفرت، حقارت، برتری، کم تری اور دیگر بری نظروں سے دیکھنے سے روکتا ہے۔ تمام مسلمان صرف محبت،پیار اور خلوص کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ عید الاضحی بصری اور سونگھنے کی حسیات کے ساتھ ساتھ چھونے کی حس کے لیے بھی اللہ تعالی کی طرف سے تفویض کر دہ گراں قدرنعمت ہے۔چھونے کی حس سونگھنے اور دیکھنے کی حس کے بعد تیسری اہم حس ہے۔ اگرچہ اس کا حاطہ کرنا قدرے مشکل ہے کیونکہ جلد دیگر حسیات کی نسبت زیادہ وسیع ہے۔انسانی جسم کی جلد کا وزن تقریبا6سے10پونڈ تک ہوتا ہے۔ تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ لمس یا چھونا بچوں کی نشونما میں اہم کر دار ادا کر تاہے۔چھونے کی حس شاید ہماری بقاء کی ضامن ہے۔ عید الاضحی کے موقعہ پر کپڑوں کی خریداری اور ان کو چھونے کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔

قربانی کے جانوروں کی خریداری اور ان کو پیار و محبت سے چھونا اور عید کے ایام میں ایک دوسرے سے گلے ملنے اور ہاتھ ملانے سے ہماری چھونے کی حس کو بیش بہا تونائی ملتی ہے۔ عید کے موقعہ پر ملنے والے تحائف، عیدی، مساجد میں صاف ستھری قالینوں، صفوں اور جائے نمازوں کو خوشبووں سے معطر کیا جا تا ہے۔ انہیں چھو کر ہم اپنی چھونے کی حس کو مزید تقویت دیتے ہیں۔ کھانے پینے اور سجاوٹی اشیا ء کو چھو کر بھی دیدنی خوشی حاصل ہوتی ہے۔عید کا تہورا باقی حسیات کے ساتھ ساتھ ہماری سمعی حس کو بھی متحرک کر تا ہے۔ عید کی تسبحات کا ورد، عید کے واعظ، خطبہ اور دعائیں ہماری سننے کی حس کو جلا بخشتی ہیں۔ متذکرہ حسیات کے علاوہ عید الاضحی کا تہوار ہمارے دلوں میں ایک عجیب خوشی پیدا کر نے کا باعث بنتا ہے۔

روحانی ماحول اور تزکیہ نفس کے لیے بھی عیدا لاضحی کا تہوار باقی تمام تہواروں کی نسبت زیادہ پرا اثر اور مفید ہے۔ عید کے تہوار کے موقعہ پر ہم ماضی کی عیدوں اور ماضی کی روایات سے بھی آراستہ ہوتے ہیں۔ عید کے موقعہ پرمختلف پروگرامات اور بزرگوں کی زبانی سنی جانے والی باتیں ہماری سمعی، بصری، روحانی اور تخیلیاتی صلاحیتوں کی نشوونما اور ہماری معلومات میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔

عید الاضحی انسانی نفسیات کے مطابق ہے جو انسان کی زندگی میں نہ صرف ایک تبدیلی لا تا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ انسان کی حسیات کے لیے انتہائی مفید ہے۔عید الاضحی کا تہوار سائنسی اور نفسیاتی فوائد سے بھر ا ہے جس کا ایک کالم میں احاطہ کر نا مشکل ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اسلامی تہواروں کو مذہبی تشریحات کے ساتھ ساتھ جدید سائنس اور نفسیاتی نقطہ نظر سے بیان کریں تا کہ روائیتی طرز تبلیغ کے بجائے ہم نئی نسل کو جدید سائنس اور نفسیات کی مدد سے اسلامی تہواروں اور احکامات خداوندی کی طرف راغب کرسکیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
50368

تمام میونسپل حکام شہروں کے اطراف میں آئیڈیل مقامات پر مویشی منڈیاں لگائیں۔سیکریٹری بلدیات

صوبے کے تمام میونسپل حکام شہروں کے اطراف میں آئیڈیل مقامات پر مویشی منڈیاں لگائیں۔سیکریٹری بلدیات

پشاور (چترال ٹائمز رپورٹ) خیبرپختونخوا کے سیکرٹری بلدیات و دیہی ترقی شکیل احمد نے صوبے کے تمام میونسپل حکام کو ہدایت کی ہے کہ عیدالاضحی کی آمد کے پیشِ نظر شہروں کے اطراف میں آئیڈیل مقامات پر مویشی منڈیاں بڑھائیں تاکہ ان میں رش کم سے کم سطح پر لایا جائے جبکہ ان میں ویکسینیشن، حفظان صحت، آبنوشی، سیکورٹی، روشنی اور دیگر بنیادی سہولیات کے علاؤہ ویٹرنری ڈاکٹر کی موجودگی اور کرونا و ایبولا سمیت وبائی امراض کی موثر روک تھام کیلئے بھی حفاظتی اقدامات یقینی بنائے جائیں وہ لوکل گورنمنٹ سیکرٹریٹ پشاور میں صوبے کے تمام میونسپل اداروں اور اتھارٹیز کے مشترکہ اجلاس کی صدارت کر رہے تھے.

اجلاس میں سپیشل سیکرٹری معتصم بااللہ شاہ، سیکرٹری لوکل کونسل بورڈ سلیم خان، ڈائریکٹر جنرل لوکل گورنمنٹ خدا بخش اور دیگر اعلیٰ حکام کے علاؤہ ضم شدہ اضلاع سمیت صوبے بھر کے ٹی ایم ایز، ڈبلیو ایس ایس سیز اور اتھارٹیز کے سربراہان نے شرکت کی سیکرٹری بلدیات نے واضح کیا کہ عیدالاضحی کیلئے جدید مشینری سے لیس چاق و چوبند عملے کی تعیناتی کا شیڈول ہنگامی بنیادوں پر تیار کیا جائے اور اسے رابطہ نمبروں کے ساتھ متعلقہ آر ایم اوز اور لوکل کونسل بورڈ کے علاؤہ لوکل گورنمنٹ سیکرٹریٹ کے ساتھ شئیر کیا جائے۔ انہوں مزید ہدایت کی کہ عید کے موقع پر تمام میونسپل ادارے قربانی کے جانوروں کے فضلے بروقت ٹھکانے لگانے کیلئے عید سے پہلے انتظامات مکمل کریں اور عید کے تین دنوں میں صفائی کے عمل کو مسلسل یقینی بنائیں۔

سیکرٹری بلدیات نے یہ بھی ہدایت کی کہ عید پر تمام شہروں اور قصبوں میں صاف ستھرا ماحول یقینی بنانے کیلئے عوامی آگاہی بھی اجاگر کریں اور اس مقصد کیلئے ٹی ایم ایز کی جانب سے مساجد میں اعلانات، چوراہوں پر بینرز لگانے، وٹس ایپ نمبر اور پمفلٹ کی تقسیم سمیت تمام روایتی طور طریقے اپنائے جائیں تاکہ عیدالاضحٰی کے موقع پر صفائی کی مہم کو بھرپور عوامی تعاون و پذیرائی حاصل ہو انہوں نے واضح کیا کہ عید سے ایک دو روز پہلے رہائشی علاقوں میں مفت قابل تحلیل بیگز بھی تقسیم کئے جائیں جن پر متعلقہ ٹی ایم ایز یا دیگر میونسپل اداروں کے مونوگرام اور ہدایات درج ہوں تاکہ وہ مقررہ مقامات پر فضلہ جات رکھنے میں میونسپل اداروں سے پورا تعاون کریں۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged , ,
50004

عیدالاضحی کے موقع پر قربانی کے آلائشوں کو بروقت ٹھکانے لگانے اور صفائی یقینی بنانے کی ہدایات جاری

پشاور (چترال ٹائمز رپورٹ) خیبرپختونخوا میں محکمہ بلدیات کے زیر اہتمام عیدالاضحی کے موقع پر قربانی کے جانوروں کی منڈیاں لگانے، آلائشوں اور کوڑا کرکٹ کو بروقت ٹھکانے لگانے اور صحت و صفائی یقینی بنانے کیلئے ہدایات جاری کر دی گئی ہیں اور ان پر فوری عمل درآمد کا حکم دیدیا گیا ہے اس سلسلے میں وزیر بلدیات و دیہی ترقی اکبر ایوب خان کی زیر صدارت بلدیات سیکرٹریٹ پشاور میں اجلاس ہوا جس میں سیکرٹری بلدیات شکیل احمد، سیکرٹری لوکل کونسل بورڈ سلیم خان، ڈائریکٹر جنرل بلدیات خدا بخش اور دیگر متعلقہ اداروں کے حکام نے شرکت کی حکام کو ہدایت کی گئی کہ صوبے کے تمام شہروں اور قصبوں میں مویشی منڈیوں کیلئے مناسب فاصلے پر جگہوں کا انتخاب فوری شروع کیا جائے منڈیوں کی تعداد بڑھا کر ان میں رش کم سے کم سطح پر لایا جائے کرونا اور صفائی ایس او پیز کا پورا اہتمام کیا جائے بیمار یا لاغر مویشی لانے کی روک تھام کیلئے ہر منڈی میں ویٹرنری ڈاکٹر کی موجودگی یقینی بنائی جائے سپرے، رات کو روشنی، سیکورٹی، واش روم، آبنوشی اور صفائی کا پورا بندوبست کیا جائے اسی طرح متعلقہ ٹی ایم اے عید کے تینوں دنوں آلائشوں کو فوری ہٹانے اور گلی کوچوں سمیت ہر جگہ صفائی کا پورا بندوبست کرے اس مقصد کیلئے عملہ کو بھی الرث کیا جائے عید کے تین دن ان کی چھٹیاں منسوخ کی جائیں اور وہ صاف شفاف یونیفارم میں مصروف عمل نظر آئیں عیدگاہ اور مساجد کے سامنے شاہراہوں پر پانی کا چھڑکاؤ اور صفائی کا عمل ایک روز پہلے شروع کیا جائے صفائی و آبنوشی کی خدمات پر مامور کمپنیاں (ڈبلیو ایس ایس سیز) عید کے تینوں روز واٹر سپلائی کے فول پروف انتظامات یقینی بنائیں اور شہریوں کو مقررہ وقت سے زائد آبنوشی سہولیات فراہم کریں میونسپل حکام نے صوبائی وزیر اور سیکرٹری بلدیات کی ہدایات پر سختی سے عملدرآمد کا یقین دلاتے ہوئے عیدالاضحی کے تینوں دنوں خود بھی اپنے عملے کے شانہ بشانہ دن رات کام کرنے کا عہد دہرایا اکبر ایوب خان نے واضح کیا کہ موجودہ پی ٹی آئی حکومت سزا و جزا کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جس کے تحت محنتی عملے کی پوری حوصلہ افزائی اور دادرسی کی جائے گی انہوں نے کہا کہ ہمارے دین اسلام میں صفائی کو نصف ایمان کا درجہ دیا گیا ہے اور میونسپل عملہ کی عید پر جانفشانی سے فرائض کی انجام دہی سے پورے معاشرے میں صفائی کا شعور اجاگر ہوتا ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
49631