Chitral Times

دھڑکنوں کی زبان -“ایک مثالی استاد پنشن پہ جارہا ہے” -محمد جاوید حیات

اساتذہ معاشرے کا وہ طبقہ ہے جو انگلیوں کے اشارے پہ ہوتا ہے ایک لحاظ سے محسن، ایک لحاظ سے معصوم، ایک لحاظ سےذمہ دار طبقہ ہے۔اس کا کام یا اس کو عظیم بناتا ہے یا ملزم و مجرم ۔کیونکہ اس کے ہاتھ میں قوم کی منزل ہوتی ہے انسانیت کا تاج محل ہوتا ہے فرد کی تربیت اور انسان کا معیار ہوتا ہے استاد کے پاس دنیا نہیں ہوتی۔ عہدہ نہیں ہوتا پروٹوکول نہیں ہوتا ۔ایک روشنی ہوتی ہے جو اس کی آنکھوں سے شاگردوں کی آنکھوں پہ پڑتی ہے ایک کرن جو اس کے دل سے نکل کر شاگرد کے اندر کی دنیا کو منور کر دیتی ہے ۔ناصر استاد ان اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں جو واقعی قوم کا محسن ہے ۔ناصر احمد یکم فروری 1962ء کو تورکھو کے مشہور گاوٴں شاگرام میں پیدا ہوئے ۔

آپ کے ابو حبیب صوبیدار اپنے زمانے کی نامی گرامی شخصیت تھے بہت متمول خاندان تھا گھر میں پولو کے لیے گھوڑا ۔شکار کے لیے کتا ۔باز اور نوکر چاکر ۔۔۔گھرانا بھرا پورا تھا ۔مہمان آتے محفلیں سجتیں ۔گاوں کے ضرورت مند آکر اپنی ضروریات پوری کرتے ۔ناصر احمد ناز ونعم میں پلے۔ سکول گاوٴں سے پڑھا ۔ہائی سکول شاگرام سے میٹرک کیا ۔پھر مذید تعلیم حاصل کرنے پشاور سدھارے ۔پڑھائی مکمل ہوئی تو استاد بنے ۔روایتی نہیں ہمہ جہت استاد ۔۔کھیل کا میدان ہو ۔تربیت کی بھٹی ہو۔ بچوں کی مدد امداد کا موقع ہو۔۔۔ ناصر استاد آگے آگے رہے ۔بچوں کا یہ کاروان ان کے پیچھے پیچھے رہا ۔

ناصر استاد نے چترال کے اچھے خاصے اداروں میں کام کیا جن میں چترال کے مشہورو معروف تعلیمی ادارہ گورنمنٹ سنٹینیل ماڈل ہائی سکول سرفہرست ہے جہان آپ نے کئی سال گزارے اور شاگردوں کا ایسا گھیپ چھوڑا جو آپ کی زندگی کا سرمایہ ہیں ۔ناصر استاد خود ہمہ جہت ہیں ۔پولو سے لے کر ان ڈور گیم کریم تک امتیازی حیثیت سے کھیلتے ہیں اور اپنی ثانی نہیں رکھتے ۔ ناصر استاد نے بڑےپسماندہ دور میں علم کا چراغ جلایا ہے اور قوم کے محسن ٹھرے ہیں ۔ملازمت کے آخری دور اپنے مادر علمی ہایر سیکنڈری شاگرام میں گزارے اور یکم فروری 2022ء کو پنشن پہ جائے گا ۔ناصر استاد سماجی کارکن رہے ہیں ۔

عوام کے دکھ درد میں اور سماجی کاموں میں آگے آگے رہے ہیں ۔ان کو شاگردوں سے والہانہ محبت ہے اس لیے شاگرد اس کے ارد گرد پروانوں کی طرح منڈلاتے ہیں ۔ ناصر یار باش ہیں ۔بڑا دسترخواں رکھتے ہیں مہمان نواز ہیں ۔خوش خوراک اور خوش لباس ہیں ۔ بزلہ سنج اور سوشل ہیں ۔طبیعت میں خاکساری اور ملنساری ہے ۔دریا دل ہیں ۔ اس جیسا استاد پھر اس قوم کو شاید ملے ۔وہ سکول نہیں آئینگے لیکن استاد نہ برا ہوتا ہے نہ پنشن پہ جاتا ہے وہ قوم کے لیے مینارہ نور ہوتا ہے ۔۔۔

مجھے اساتذہ سے محبت ہے اس لیے کہ ان کی خدمات قابل تحسین ہوتی ہیں ان کو بھلایا نہیں جا سکتا ۔۔شاید پھتر کا معاشرہ ہو کہ وہاں پر استاد کا مقام نہ ہو ۔۔ناصر جیسے استاد اپنے الگ مان رکھتے ہیں اور ایڈنٹیٹی بھی ۔۔محکمہ تعلیم ایک نابعہ روزگار سےمحروم ہو رہا ۔۔ اللہ ان کو عمر نوح عطا کرے

nasir ahmad teacher
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
57485

نرس پریکٹیشنرز وقت کی اہم ضرورت ہے. بلاوجہ متنازعہ بنانا عوام کے ساتھ نا انصافی ہے۔ناصرعلی شاہ

نرس پریکٹیشنرز وقت کی اہم ضرورت اور صحت کو عام کرنے کا بہترین موقع ہے. بلاوجہ متناغہ بنانا عوام کے ساتھ نا انصافی ہے
تحریر: ناصر علی شاہ

لفظ ڈاکٹر انتہائی اہمیت کا حامل اس لئے ہے کہ ڈاکٹر مسیحا ہوتا ہے اور انتہائی عقیدت و احترام کیساتھ ان الفاظ کی طرف دیکھا جاتا ہے کیونکہ درد و تکلیف میں کراہتے مریض کی اپنی زندگی میں آرام سکوں پانے کی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں اسی وجہ سے سامنے والا شخص چاہے وہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہو , نرسنگ یا پیرامیڈیکل سٹاف اپنی عقیدت اور امید لیکر ان تمام کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے ڈاکٹر (مسیحا) سے پکارتا ہے کیونکہ وہ یہ نہیں دیکھتا کہ سامنے والا شخص کتنا با اثر یا پیسے والا ہے کالا ہے یا گورا, ہندو ہے یا مسلمان, ایم بی بی ایس ہے یا بی ایس این بلکہ ہیلتھ میں ہونے کی وجہ سے لفظ ڈاکٹر کو عقیدت و احترام سے دیکھتا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عوام یا مریض امید لیکر لفظ ڈاکٹر کو قدر و عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے تمام پروفیشنلز کو ڈاکٹر سے مخاطب کرتے ہیں. لفظ ڈاکٹر بولنے سے نرسز کی محنت اور خدمت لفظ ڈاکٹر میں چھپ جاتا ہے اور مریض کے لئے کی گئی محنت اللہ کے علاوہ کسی کو نظر نہیں اتا اور نرسز کی انتھک کوشش و محنت کا صلہ شاباش یا شکریہ کی صورت میں ڈاکٹر کو ہی ملتا ہے یا یوں کہہ لیجئے جتنا اچھا پرفارمنس نرسز کی طرف سے ملی ہو وہ ڈاکٹر کے حصے میں جاتا ہے اور خدانخواستہ کوئی غلط یا کم ہو نرسز کے اوپر ڈال دیا جاتا ہے.


پہلے صحت سے منسلک لوگ چاہے ڈاکٹرز ہو, نرسز ہو یا پرامیڈیکز تمام دکھی انسانیت کی خدمت کو لیکر پیشے کیساتھ وابستہ ہوتے تھے مگر اب ہر چیز میں پیسہ ہی پیسہ نظر انے لگتا ہے کلینک لگانا نیت پیسے کمانے کی, دوائیاں لکھی تو کمپنی کی طرف سے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے, مریض کو پروٹوکول عہدے و تعلقات کو دیکھتے ہوئے دی جاتی ہے.

کچھ دن پہلے نرسنگ ٹاسک فورس کی طرف سے نرس پریکٹیشنر کی اجرا کے لئے بل قانوں سازی کے لئے تیار کی گئی تاہم ڈاکٹرز کی طرف سے سخت الفاظ کیساتھ مخالفت سامنے ایا ان میں سے کچھ ڈاکٹرز نے نرسنگ پیشے کیساتھ نرسز کو بھی گالیاں دیتے نظر ائے اور اوقات دلانے کی باتیں ہوتی رہی, جواب میں کچھ سخت باتیں نرسز کی طرف سے بھی ادا ہوئی.


یاد رکھیں کوئی پیشہ دوسرے کے اوپر فوقیت نہیں رکھتی بلکہ نمایان تعلیم و ٹرینگ کیساتھ کسی مخصوص فیلڈ میں سپشیلیٹی اور نظام کو اگے بڑھانے کے لئے ہیلتھ سسٹم کے اندر باہمی تعلق و مفاہمت سے عالمی ادارہ صحت کے قوانیں کے مطابق مریضوں کی تکلیف دور کرنے کی کوشش کیجاتی ہے اگر ہم اپس میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے بجائے لڑنے لگے پھر نہ ہمارے پروفیشن میں انے کا فائدہ اور نہ ہماری ڈگریوں کی کوئی اہمیت ہوگی اور پیشے کی اخلاقیات کے اندر رہتے ہوئے ہر اس کام کی ہمایت ہونی چاہئے جسمیں مریضوں کا فائدہ شامل ہو. ایم بی بی ایس ڈاکٹر کی اختیارات کسی نرس کو منتقل نہیں ہو رہے اور نہ ایسا ہونا چاہئے بلکہ بیماری سے پہلے صحت اور بیماری کے بعد ریکوری میں عوام کو ریلف دینے کی باتیں کی جارہی ہیں.

نرس پریکٹیشنر کی قانوں سازی عوام اور مریضوں کے لئے اچھا قدم ہے نرس پریکٹیشنر کا مطلب ایڈیشنل کورسز کیساتھ ٹرین نرس جو صحت مند کو بیماری سے بچانے اور مریض کی ریکوری میں بہترین کردار ادا کر سکے گا, یہ نرسز تشخیص اور لیبارٹری ٹیسٹ کے مطابق مریض ایم بی بی ایس ڈاکٹر کو ریفر کر سکتا ہے جس سے مریض کا وقت بچ جائیگا اور بیماری کے اوپر قابو پانے میں اہم کردار ہوگا. نرس پریکٹشنر بروقت ابتدائی علاج مہیا کرنے میں معاون اور ایمرجنسی حالات میں بھی تیز رسپونس کو یقینی بنا کر مریض کی جان بچانے میں اہم ترین کردار ادا کر سکتا ہے.


تمام بخوبی جانتے ہیں کہ زیادہ تر ڈاکٹرز کی کوشش ہوتی ہے کہ شہروں کے اندر ہسپتالوں میں کام کرے کیونکہ وہاں کیرئیر بنانے کے مواقع کیساتھ کمانے کی گنجائش زیادہ ہوتی ہے اس کے برعکس رورل ایریاز بھجنے کے لئے حکومت کو مراعات دینا پڑ رہا ہے مگر پھر بھی کوئی تیار نہیں, رورل ہیلتھ سنٹر اور بیسک ہیلتھ سنٹر میں ڈاکٹر کے نام کا بورڈ تک نظر نہیں ائیگا کیوں وہ عوام کے زمرے میں نہیں آتے؟؟

بیسویں صدی کے آخر میں امریکہ اپنے عوام کو صحت کی بہترین سہولیات مہیا کرنے کی عرض سے ریسرچ کروا کر نرسنگ پریکٹیشنر کا اجرا کیا جس کا تواقعات سے زیادہ مثبت اثرات مرتب ہونے لگے. اس پریکٹس کی وجہ سے ہسپتالوں میں رش کام ہوگیا اور حقدار مریض کو درست علاج کی فراہمی میں اسانی پیدا ہوگئی کیونکہ نرس پریکٹشنرز نے چھان بین کرکے ضرورت مند مریض کو ہی ہسپتال ریفرنرس پریکٹیشنرز وقت کی اہم ضرورت اور صحت کو عام کرنے کا بہترین موقع ہے. بلاوجہ متناغہ بنانا عوام کے ساتھ نا انصافی ہے کرنا شروع کی.


تمام ڈاکٹر صاحبان نے نوٹس کیا ہوگا ایمرجنسی وارڈ میں ایمرجنسی کم اور او پی ڈی کے مریض زیادہ اتے ہیں جس کی وجہ سے رش بڑھ جاتا ہے اور ضرورت مند مریض کو یا تو وقت کم ملتا ہے یا مناسب وقت ملتا ہی نہیں.

نرسنگ پریکٹشنرز کا بل منظور ہونا چاہئے اور قانوں سازی بھی ہونا چاہئے کیونکہ رورل ایریاز میں نرسنگ پریکٹشنرز کو بھجوا کر ہیلتھ ایجوکیشن کو عام کرنے کی اشد ضرورت ہے تمام علاقے کے لوگوں کی وقت سے پہلے تشخیص اور محدود علاج و معالج کی اجازت ملنا چاہئے تاکہ عالمی ادارہ صحت کا بیانیہ ہیلتھ فار آل یعنی صحت سب کے لئے کا خواب پورا ہوسکے اور دور دراز سے مریض کچے سڑکوں پر ہچکولے کھاتے مزید بیمار ہونے سے بچ سکے..

میری ڈاکٹر کمیونٹی سے بھی گزارش ہے عوام کی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے بل کو غیر ضروری متناعہ بنانے سے خود کو دور رکھیں اور کھلے دماغ سے مثبت اثرات کے اوپر سوچے تاکہ محدود نرسنگ پریکٹس سے دوردراز سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو فائدہ پہنچ سکے

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , ,
50218