Chitral Times

تعلیمی میدان میں حوصلہ افزائی کی اہمیت – علی مراد خان

 لعت کی رو سے حوصلہ افزائی کی معنی ہمت بڑھانا یا شاباش دینا ہے۔ اس کا متضاد لفظ حوصلہ شکنی ہے جس کی معنی ہمت توڑنا یا بے ہمت کرنا لیا جا سکتا ہے۔ ہمت بڑھانا یا بے ہمت کرنا ایسے دو عوامل ہیں جن کا بچوں کی زندگیوں پر دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔


اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ وہ بچے جن کو گھر یا سکول یا دونوں جگہوں سے حوصلہ افزائی ملتی ہے وہ بہتر تعلیمی کارکردگی دیکھاتے ہیں۔ دوسری طرف وہ بچے جن کو کم حوصلہ افزائی ملتی ہے وہ پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اگرہم تھوڑا کچھ لکھے پڑھے لوگ خود اپنی تعلیمی سفر کے بارے میں سوچیں گے تو یہ بات ضرور ذہن میں آئےگی کہ اس سفر کو جاری رکھنے اور تعلیم کے ساتھ دلچسپی برقرار رکھنےمیں خاندان یا معاشرے کے کسی فرد یا افراد کی طرف سےحوصلہ افزائی کا عمل دخل ضرور یاد آئےگا۔ جس کے لئے ہمیں ان لوگوں کا مشکور ہونا چاہیے۔


تعلیمی میدان میں حوصلہ افزائی یا حوصلہ شکنی کی بات ہو تو عام طور پر مشہور سائنسدان ایڈیسن کی مثال دی جاتی ہے۔ جس کو سکول سے نکال کر ایک خط کے ساتھ گھر بھیجا گیا تھا جس میں لکھا گیا تھا کہ آپ کا بچہ کمزور ہے لہٰذا ہم اس کو اپنے سکول میں نہیں رکھ سکتے۔ ماں نے وہ خط پڑھی اور جب بیٹے نے خط میں موجود پیغام کے بارے میں پوچھا تو اس نے یہ کہ کر اس کو مطمیؑن کیا کہ اس میں لکھا ہے کہ ان کے سکول میں آپ کے قابل انتظامات نہیں ہیں۔ سکول سے اس قدر سخت خبر آنے کے بعد بھی ماں نے بیٹے کی ذرا برابر حوصلہ شکنی نہیں کی۔بلکہ گھر میں پڑھائی کا بندوبست کیا۔ ایک دن یہی بچہ ایک سائنسدان بن کے سامنے آیا جس کا ایجاد کردہ بلب ہم آج بھی روشنی جیسی نعمت کے حصول کے لئے استعمال کرتے ہیں۔


ہمارے ہاں حوصلہ افزائی ایسے طالب علموں کی ہوتی ہے جن کی تعلیمی کارکردگی اچھی ہو۔ جبکہ ایسے طالب علم جن کی تعلیمی حالت قدرے کمزور ہو حوصلہ افزائی کے حقدار نہیں پاتے۔ کیونکہ ان کے لئےاس کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ ۔حالانکہ حوصلہ افزائی کے ذریعے آگے لانے کی زیادہ ضرورت دوسری صورت میں ہوتی ہے۔ نیزاکثر گھروں میں ایسے بچوں کے لئے ماحول خوش آئند نہیں ہوتا ۔ مثلاً ہم اکثر یہ الفاظ والدین سے سنتے ہین کہ فلاں بچہ کمزور ہے، فلاں بچہ نالائق ہے ، وہ کچھ نہیں کر سکتا وغیرہ۔ ایسے الفاظ بچوں کی زہنی نشونما کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم سے بھی دوری کی طرف لے جاتے ہیں۔ کچھ والدین بچوں کو ایک دوسرے سے بے جا موازنہ کرتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ ہرانسان کی اپنی خوبیان اور خامیاں ہوتی ہیں۔ وہ بار بار کمزور پہلوؤں کو سامنے لاتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح سے وہ بچوں میں مثبت تبدیلی لائینگے۔حالانکہ اس سے ان کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے۔ اور وہ تعلیم سے دور ہٹ جاتے ہیں۔


سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک بچہ تعلیمی میدان میں کچھ کمزور ہے تو اس کی حوصلہ افرائی کس لئے کی جائے۔ یقیناً اس کا جواب یہ ہوگا کہ یہ اس کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے کی جائے۔ اور اس بات کو مدنظر رکھ کر کیا جائے کہ ہر انسان بے پناہ صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے جن کو ابھارنا والدین اور اساتذہ کی زمہ داری ہوتی ہے۔ لہٰذا بچوں کو نصیحت وصیت کے ساتھ ساتھ پیار اوحوصلہ بھی ملنا چاہیے تاکہ ان کا تعلیمی سفر کامیاب رہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
51258

داد بیداد ۔ کاروان انقلا ب ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

داد بیداد ۔ کاروان انقلا ب ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

جماعت اسلا می کا ایک اور کاروان انقلا ب آج خیبر پختونخوا کے شہروں اور قصبوں سے گذر رہا ہے یہ کاروان ندی اور دریا کی طرح شما ل سے جنوب کی طرف رواں دواں ہے چترال سے اس کا آغا ز ہوا 9دن بعد جنو بی وزیر ستان میں اس کا اختتام ہو گا دعوت و تبلیغ کے بزرگ کہتے ہیں کہ گشت کے آخیر میں یہ ہر گز مت کہو کہ گشت ختم ہوا بلکہ یوں کہو کہ محلہ ختم ہوا گشت تو قیا مت تک جا ری ہے کاروان کا راستہ ختم ہوا پھر نئے راستے ہو نگے اور اپنا کارواں ہو گا علا مہ اقبال کا ایک شعر قاضی حسین احمد کبھی کبھی سنا یا کر تے تھے ؎


کونسی وادی میں ہے کو نسی رہ گذر میں ہے!
عشق بلا خیز کا قا فلہ سخت جاں!


انہوں نے پا کستان کی سیا ست میں ”دھر نا“ متعارف کرا یا 1989ء میں اس وقت کی حکومت کے خلا ف پا کستان کی تاریخ کا پہلا دھر نا دیا یہ کنٹینر کے بغیر دھر نا تھا جس میں تین کا رکن شہید ہوئے اور وسط مدتی انتخا بات کی راہ ہموار ہوئی اسلا می جمہو ری اتحا د و جو د میں آئی اور تاریخ بن گئی آج میں سوچتا ہوں تو ”دھر نے“ کی طرح کاروان انقلاب بھی نیا نا م ہے نیا تصور ہے نیا طریقہ ہے چترال سے وزیر ستان تک 83مقا مات پر جلسے ہو نگے تقریر یں ہو نگی 9دنوں تک ما حول کو خوب گر ما یا جائے گا علا مہ اقبال نے اس کو شا ہین کی زبان سے یو ں ادا کیا ہے ؎


پلٹ کر جھپٹنا جھپٹ کر پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہا نہ


فو جی نظم و نسق میں لہو گرم رکھنے کووارم اپ (Warm up) کہتے ہیں اس مقصد کے لئے فو جی مشقیں کرائی جا تی ہیں جو امن کے زما نے میں جنگ کا ما حول پیدا کر کے افیسروں اور جوا نوں کو تازہ دم رکھنے کے کام آتی ہیں کاروان انقلا ب کو جو انوں کی سر گرمی کا عنوان دیا گیا ہے جما عت اسلا می کی ذیلی تنظیم جے آئی یوتھ کے زیر اہتمام یہ سر گرمی ہو رہی ہے امیر جما عت اسلا می سراج الحق کا کہنا یہ ہے کہ ملک کی آبا دی کا 66فیصد نو جواں پر مشتمل ہے اور نو جوانوں کی تائید کے بغیر کوئی انقلا ب بر پا نہیں ہو سکتا ؎


یہ دور اپنے بَراہیم کی تلا ش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الٰہ الااللہ


یقینا صنم کدے کو ڈھا نے والا نو جوانوں میں پیدا ہوگا تین دنوں سے مختلف ذرائع ابلاغ پر صدیق الرحمن پراچہ،زبیر احمد گوندل اور مشتاق احمد خا ن سمیت کاروان کے دیگر مقررین کی جو تقریریں سننے کو مل رہی ہیں ان میں ایک ہی پیغام ہے کہ اُٹھو اور اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام نا فذ کر کے دکھا ؤ اس پیغام کو سن کر ذہن میں ڈاکٹر صفدر محمود کی کتاب ”پا کستان کی سیا سی جما عتیں“ کا خا کہ ابھر تا ہے کتاب میں فاضل مصنف نے پا کستان کی منہ زور بیورو کریسی کا بڑا افسر ہو تے ہوئے ملک کی تما م سیا سی جماعتوں کا تفصیلی جا ئزہ لیا ہے اور جما عت اسلا می کو ایک مکمل سیا سی جماعت قرار دیا ہے جس کا اپنا فنڈ ہے فنڈ کا حساب اور آڈٹ ہے جس کا الگ انتخا بی نظام ہے ہر 3سال بعد انتخا بات ہو تے ہیں زندگی کے مختلف شعبوں کے لئے جس کی ذیلی تنظیمیں ہیں

کسانوں، مزدوروں، وکیلوں، ڈاکٹروں اور اسا تذہ کے ساتھ طلبہ کی بھی ذیلی تنظیم ہے نو جوا ں کے لئے الگ تنظیم کا اضا فہ اب کیا گیا کتاب پڑھنے کے بعد ایک ستم ظریف نے جملہ چُست کیا کا ش ووٹر وں کی بھی ذیلی تنظیم ہو تی اور 22کروڑ کی آبادی میں دوچار کروڑ ووٹر ہو تے تو کتنا مزہ آتا انیس نے کہا تھا خلو ص کے بندوں میں کمی ہو تی ہے

ستم ظریف بڑے جلد باز ہو تے ہیں ہم ستم ظریفوں کی طرح جلد بازی کے قائل نہیں جما عت اسلا می چترال کے سابق امیر اور سابق ضلع نا ظم حا جی مغفرت شاہ کہتے ہیں کہ جماعت اسلا می جس دعوت کو لیکر اٹھی ہے اس دعوت کا تقا ضا ہے کہ اس کی قیا دت اب علما ئے کرام کے ہاتھوں میں ہو اور جما عت اسلا می کی صفوں میں علمائے کرام کی کوئی کمی نہیں.

پشاور کے مو لا نا محمد اسما عیل فہم القرآن کے پر وگرام کے لئے کسی شہر یا قصبے میں جا تے ہیں تو صبح کی اذان کے ساتھ 10ہزار سے لیکر 15ہزار تک کا مجمع اُن کا درس سننے کے لئے جمع ہو جا تا ہے نو جوانوں کے جذبے کے ساتھ اگر علمائے دین کی قیا دت ہو تو سونے پر سہا گہ کا کام دے گا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
51242

ہمارا معاشرہ اور تخریب کار ۔ مہجور زیست ۔ تحریر:دلشاد پری

جب بھی کوئی شخص اپنی زمہ داری نیک نیتی سے انجام دے رہا ہوتو اس کو اس کے فرائض منصبی سے روکنے اور اپنے ناپاک عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے کچھ تخریب کار ہر وہ حربہ استمعال کرتے ہیں جواسکی بس میں اور جب اس میں بھی ناکامی ہو جاتی ہے تو براہ راست مذہبی منافرت کا لیبل لگا کر میدان میں اتر ٓآتے ہیں یہی وہ ہتھکنڈا ہے جس سے عوام جلدی اشتعال میں اجاتی ہے ۔



ہمارے معاشرے کا دوسرا المیہ یہ بھی ہے کہ کچھ زہنی بیمار بھی اس معاشرے میں رہتے ہیں جو نہ خود عوام کے لئے کچھ کرسکتے ہیں اور نہ آپ کو کچھ کرنے دیتے ہیں جب کوئی اپنے حوصلے کے ساتھ کچھ کرنا چاہے تو یہ تخریب کار اچانک بیدار ہوتے ہیں اور مسلک یا مذہب کا سہارا لیکر اپنی زاتی دشمنی نکالتے ہیں کیونکہ سادہ لوح لوگ بات کی تہہ تک نہی جاتے اور فورا جذباتی ہو جاتے ہیں جس کا فائدہ یہ تخریب کار لیتے ہیں۔


جب ایک انسان ٖفارغ اور فضول بیٹھتا ہے تو اسکی ساری سوچ اور کام کرنے کی صلاحیتں ماؤف ہوتے ہیں کیونکہ خالی زہن شیطان کا آما جگاہ بن جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ نہ صرف دوسروں کے جذبات اور خدمات کو نفی کرنے میں اپنی توانائی صرف کرتا ہے بلکہ اس کے خلاف پروپیگنڈوں میں لگتا ہے او پھر اگے یہی آدمی تخریب کار بن جاتا ہے جس کا مقصد اس معاشرے میں فساد پھیلا کر اپنی نفس کی تسکین کرنی ہوتی ہے چاہے اس کے لئے اس سے مذہب کا لبادہ اوڑھنا کیوں نہ پڑے۔

گاہے اس کے لگائے گئے اگ میں کتنا خون خرابہ کیوں نہ ہو۔چاہے معاشرہ کتنے بے راہ روی کی طرف کیوں نہ جائے بس اس سے اپنی انتقام کی اگ بجانے ہوتی ہے جس کے لئے اس نے سارا سال فارغ بیٹھ کر پلاننگ کی ہوتی ہے،جس کو نہ خوف خدا ہے نہ قیامت کے آنے کا یقین۔


اج کل میرے ساتھ بھی یہی ہو رہا۔ہم اپنے قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے اپنے فرائض منصبی بھرپور اور احسن طریقے سے نبھا رہے ہیں ۔جو بھی شخص معاشرے کی بربادی اور سادہ لوح لوگوں کو لوٹنے میں کوئی کسر نہ چھوڑے وہ کسی بھی صورت معافی کے قابل نہی۔جب بھی ایسے لوگوں کے خلاف ہم لوگ میدان میں آتے ہیں تو ان تخریب کاروں کو بہت تکلیف ہوتی ہے اور یہی تخریب کار ان لوگو ں کی پشت پناہی کے لئے سرگرم ہوتے ہیں اور پھر ہزار قسم کی حربے استمعال کرتے ہیں۔یا سوشل میڈیا میں فیک آئی ڈی سے کسی کے خلاف پروپیگنڈا کرکے عوام کو مشتعل کرتے ہیں یا مذہبی رنگ دے کر دوسروں کی ساکھ کو خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

میں چترال کے عوام سے درخواست کرتی ہوں کہ ایسے تخریب کاروں کے مقصد کو پہلے سمجھیے اور اگر کوئی شخص کوئی پیچ چلا رہا ہو تو زمہ داری کے ساتھ چلائے۔دوسروں کی ساکھ اور عزت کے ساتھ کھیلنے کے لئے نہی بلکہ معاشرے کی فلاح کے لئے،۔ہر چیز کا ایک ضابظہ ہوتا ہے۔جس پر عمل پیرا ہونا معاشرے کے ہر فرد کی زمہ داری ہے۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged ,
51235

کشمیر پریمئیر لیگ اور مسئلہ کشمیر – پروفیسر عبدالشکورشاہ

کھیلوں نے مجھے اہداف طے کرنا سکھایا ہے، یقینا کھیل نے مجھے ایک آواز اور شناخت دی ہے۔ مایا ہیم۔ تمام تر مشکلات کے باوجود کشمیر پریمیئرلیگ کے انعقادسے ملک میں خوشی کی ایک لہر دوڑ چکی ہے۔ خاص طور پر دنیا بھر میں مقیم کشمیریوں کا جوش و ولولہ دیدنی ہے۔ شکریہ کے احساسات کا اظہار نہ کرنا ایسے تحفے کی طرح ہے جسے ہم انتہائی خوبصورت گفٹ پیپر میں لپیٹ کر دینے کے بجائے رکھ لیتے ہیں۔ کشمیر پریمئیر لیگ کی اہمیت کا اندازہ اس کی مخالفت، اس کے خلاف سازشوں اور اس کے انعقاد پرموجود خوف اور خوشی سے لگایا جا سکتا ہے۔

یہ لیگ پوری کشمیری قوم کے لیے ظلم کی تاریک رات میں ا مید کرن ہے جو کھیل کے پرامن زریعے سے پوری دنیا میں کشمیریوں کی آزادی، شناخت اور حقوق کا پیغام سنا رہی ہے۔اس لیگ سے خوفزدہ ہو کر، اسے رکوانے کے لیے کشمیریوں کے ازلی دشمن بھارت نے بین الاقوامی کر کٹ کونسل سے بھی رابطے کیے اور اسے تسلیم نہ کرنے کی درخواست کی۔ صرف یہی نہیں، بھارت نے اپنا مکرہ چہرہ انگلش اور جنوبی افریقہ کے کرکٹ بورڈ کو خط لکھ کر بھی بے نقاب کر لیا ہے۔

کے پی ایل کے خلاف سازشوں پر ہرشل گبز پھٹ پڑے اور بھارتی دھکمیوں کا انکشاف کر کے بین الاقومی سطح پر بھارت کے مذموم عزائم کا پردہ چاک کر دیا۔ گبزکو بھارتی کرکٹ بورڈ نے کے پی ایل میں شرکت کرنے پربھارت میں داخلے پر پابندی اوردیگر سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔دیگر کئی ممالک کے کھلاڑیوں کو بھی کے پی ایل میں شمولیت سے دور رکھنے کے لیے بھارت کی جانب سے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے جار ہے ہیں۔ بی سی سی آئی نے ایک بار پھر آئی سی سی کے ممبران کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر کے بین الاقوامی اصولوں کے ساتھ کھیل کے جذبوں اور دنیا میں امن کے پیغا م کو روکنے کی مذموم کوشش کی ہے۔

بھارت کی جانب سے اپنے ریٹائرڈ کرکٹرز کو کے پی ایل میں شرکت سے زبردستی روکنا اور دھمکیوں نے عالمی سطح پر کھیل کے جذبے اور فروغ کو شدید ٹھیس پہنچانے کے علاوہ ا پنی نازی سوچ کا اظہار کیا ہے۔ کشمیریوں کے خون کے پیاسے ڈریکولا بھارت کو یہ ہر گز برداشت نہیں کہ کشمیریوں کی شاخت اور آواز دنیا بھر میں دیکھی اور سنی جائے۔ کشمیری نوجوانو ں کا قاتل بھارت یہ کیسے برداشت کر سکتا ہے کہ کشمیری نوجوان عالمی سطح کے بڑے ناموں کے ساتھ بیٹھیں۔کے پی ایل سے نہ صرف کشمیری ثقافت اجاگر ہو گی بلکہ سیاست کو بھی فروغ ملے گا۔

بھارت اس لیگ سے اتنا خائف ہے کہ اس نے نہ صرف کھلاڑیوں بلکہ کمنٹیٹرز اور براڈ کاسٹرز کو بھی طاقت کے زریعے روک دیا ہے۔بھارت نے پاکستان دشمنی میں کے پی ایل کی مخالفت کر کے پوری دنیا کو اپنی حقیقت سے آگاہ کر دیا ہے۔انتہا پسند بھارت پرامن کھیل سے بھی خوفزدہ ہے کیونکہ اسے اس بات کا یقین ہے یہ لیگ کشمیریوں کی پرامن آزادی کی جدوجہد میں ایک سنگ میل ثابت ہو گی۔ کے پی ایل میں شامل بین الاقوامی کھلاڑیوں کی شمولیت سے مسلہ کشمیر دنیا بھر میں اجاگر ہو گا۔کشمیر پریمیئر لیگ سے کشمیری نوجوانوں کو اپنی صلاحیتیں دکھانے کا موقعہ ملے گا اور انہیں ملکی اور عالمی کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنے کا تجربہ بھی ہو گا۔ اس لیگ سے نوجوانوں کو کھیل کے میدان میں آگے نکلنے کے بیشمار مواقع ملیں گے۔

کے پی ایل کے انعقاد سے کشمیریوں کے جذبہ جدوجہد آزادی کو تقویت ملے گی۔ اس لیگ کے زریعے کشمیری عالمی سطح پر یہ پیغام دینے میں کامیاب ہونگے کہ وہ پرامن قوم ہیں اور عالمی قرادادوں کے مطابق اپنی آزادی کے حصول کے متمنی ہیں۔ کے پی ایل کے انعقاد سے نہ صرف علاقائی، ملکی او ر بین الاقوامی کھیلوں کو فروغ ملے گا بلکے اس کے زریعے کھیلوں میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی بھی ہوگی۔ کشمیر پریمئیر لیگ صحافت کے میدان میں سپورٹس جرنلزم کو پروان چڑھانے میں مدد دے گی۔ حکومت آزادکشمیر، پاکستان اور پاکستان کرکٹ بورڈ کی سرکاری سرپرستی میں منعقد ہونے والی یہ لیگ خطے میں امن کے فروغ اور نوجوانوں کے لیے مواقع کی وسعت کے اعتبار سے بہت اہمیت کی حامل ہے۔

کشمیر پریمئیر لیگ کے زریعے مسلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں ایک نئی جہت اور سمت ملے گی۔کشمیر پریمیئر لیگ کانام دراصل کشمیریوں کی شناخت،ثقافت ان کی پرامن جدوجہد آزادی اور ان کی قربانیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہم جنگ نہیں امن چاہتے، ہم گولی کا جواب گیند سے دینا چاہتے ہیں۔ اس لیگ سے عالمی دنیا کو یہ پیغام بھی دیا جائے گا کہ ایک طرف بھارتی مقبوضہ کشمیر ہے جہاں لاشیں گرتی ہیں،بھارت نے کشمیر کودنیا کی سب سے بڑی جیل بنا رکھا ہے، جہاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، جہاں بچوں کی بینائی چھینی جاتی ہے، جہاں عورتوں کی عصمت دری کی جاتی ہے، جہاں والدین کو ان کے بچوں کے سامنے گولیاں ماد دی جاتی ہیں، جہاں گھر راکھ بنا دیے جاتے ہیں، جہاں ننے پھول مسل دیے جاتے ہیں، جہاں بوڑھوں کو سڑکوں پر گھسیٹا جاتا ہے، جہاں لاشوں کی بے حرمتی کی جاتی ہے جبکہ دوسری طرف پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں کھیلوں کو فروغ دیا جاتا ہے، نوجوانوں کے لیے گولی کے بجائے گیند کا انتخاب کیا جاتا ہے، ظلم کے بجائے امن کا پیغام دیا جاتا ہے۔

کشمیر پریمیئر لیگ مستقبل میں کشمیری کرکٹ ٹیم کی شکل اختیار کر سکتی ہے جو پوری دنیا میں مسلہ کشمیر کو اجاگر کرے گی۔ کشمیر پریمیئرلیگ پوری دنیا کی توجہ ایک بار پھر مسلہ کشمیر کی طرف گامزن کرنے میں اہم کردار ادا کر ے گی۔ عام آدمی ا س لیگ کو محض ایک کھیل تک محدود سمجھتا ہے جبکہ ایسا ہے نہیں۔ یہ لیگ کسی بھی کھیل سے بڑا کھیل ہے جس کے نتائج ہمیں مستقبل قریب میں ملیں گے۔ یہ کھیل کرکٹ سٹیڈیم کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر بھی کھیلا جارہا ہے۔ ہارجیت کھیل کا حصہ ہے مگر اس لیگ کے کے مقاصد میں ہار نہیں بلکہ جیت ہی جیت ہے۔ اس لیے اس لیگ کو محض ایک کھیل تک محدود سمجھنا درست نہیں ہوگا۔کے پی ایل بین الاقوامی میڈیا میں بھر پور پذیرائی حاصل کر رہی ہے۔

کے پی ایل کو سیاسی رنگ دینے کی بھارتی کوشش بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ ہمیں مسلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لیے مزید ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلہ کشمیر پر کشمیریوں کی بڑھتی ہوئی بے چینی کو محض کرکٹ کے زریعے ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ ہر صوبے کی طرح پاکستانی بین الاقوامی کرکٹ ٹیموں میں کشمیر کی نمائندگی کو یقینی بنائے۔ یہ ہمارا حق ہے اگر پاکستان کے باقی صوبوں کے کھلاڑی پاکستانی کرکٹ ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں تو پھر کشمیر اور گلگت بلتستان کے کھلاڑیوں کو بھی یکساں مواقع ملنے چاہیے تاکہ وہ بھی اپنے خطے کی شناخت اور پہچان کا زریعہ بن سکیں۔ کشمیر پریمئیر لیگ کا تسلسل جاری رہنا چاہیے تاکہ خطے میں کھیل، سیاحت، سرمایہ کاری اور امن کو فروغ ملے۔

کھیل کی طرح ہر شعبہ ہائے زندگی میں کشمیریوں کو نمائندگی دی جائے تاکہ ہم ملکی، علاقائی اور عالمی سطح پر اپنا مقدمہ لڑسکیں۔ پاکستان کو دوست ممالک کے ساتھ ملکر بین الاقوامی سطح کی تنظیموں میں کشمیریوں کو نمائندگی دلانے میں اپنا کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

کشمیری کھیل کے میدان کے ساتھ ہر میدان میں اپنی شناخت چاہتے ہیں۔ کرکٹ کی طرح زبان وادب، تاریخ و ثقافت اور قومی اور بین الاقوامی سطح پر نمائندگی کے متقاضی ہیں۔ کشمیر پریمئیر لیگ کی طرح دیگر شعبہ جات کی طرف بھی توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ مسلہ کشمیر کو نئی جہت اور جدید تقاضوں کے مطابق اجاگر کرنے پر ہم کے پی ایل کے منتظمین کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں اگلی مرتبہ کے پی ایل پہلے سے کہیں زیادہ تناور پودے کی شکل اختیار کر چکا ہو گا اور ماضی کی کوتاہیوں سے سبق سیکھتے ہوئے ہم آئیندہ کے لیے زیادہ بہتر اقدامات اور انتظامات کو یقینی بنائیں گے۔ ہم ہر سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے اور آزادی کشمیر کے لیے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
51214

داد بیداد ۔ ہمسا یہ اور جعرافیہ ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

اقوام متحدہ کی سلا متی کو نسل میں افغا نستان کے امن عمل پر بحث ہوئی بحث کا آغا ز کر تے ہوئے افغا نستا ن کے مستقل مندوب نے پا کستان پر الزام لگا یا کہ طا لبان کو پا کستان کی حدود سے مسلح کر کے سر کار ی فو ج اور اہم تنصیبات پر حملے کے لئے بھیجا جا تا ہے انہوں نے 10منٹ کی تقریر میں 7منٹ پا کستان پر الزام ترا شی میں لگا یا جواب میں پا کستا نی مندوب منیر اکر م نے پریس کا نفر نس کر کے افغا نستا ن کے الزا مات کی پُر زور تر دید کی سلا متی کونسل کا خصوصی اجلا س افغا نستا ن کی درخواست پر بلا یا گیا تھا افغا نستان نے اس اجلا س کو پا کستان پر الزام ترا شی کے لئے استعمال کیا پا کستان سلا متی کو نسل کے غیر مستقل ار کا ن میں شا مل نہیں ہے نو مبر 2018ء میں ایشیا سے ایک ممبر کا انتخا ب ہو رہا تھا.

چار اسلا می مما لک بھی اُمید وار تھے بھارت بھی اُمیدوار تھا پا کستان نے جنرل اسمبلی میں اپنا ووٹ بھارت کے حق میں استعمال کر کے خود اپنے پاوں پر کلہا ڑی ما ر نے کا مظا ہرہ کیا 2021ء میں سلا متی کو نسل کی صدارت کا فال بھارت کے نا م نکلا کیونکہ صدارت باری باری ہر ممبر کو ملتی ہے جمعہ 6اگست کو خصو صی اجلا س کی صدارت بھارت کے سفیر ایس جے شنکر کر رہے تھے افغا نستا ن کے سفیر محمد حنیف اتمار نے دو روز پہلے بھارتی سفیر سے تفصیلی ملا قات کی چنا نچہ اجلا س میں پا کستان پر الزام لگا نے سے پہلے پا کستان کے خلاف ما حول بنا یا جا چکا تھا پا کستانی سفیر اجلا س میں مو جود نہیں تھا اس وجہ سے اس کو پریس کا نفرنس کا سہا را لینا پڑا ہمارے لئے افغا نستا ن اور بھارت کا گٹھ جو ڑ نیا نہیں ہے 14اگست 1947ء سے 6اگست 2021ء تک 74سالوں میں ایک دن بھی ایسا نہیں آیا.

جب ہمارے ان دو ہمسا یوں نے پا کستان کے حق میں خیر سگا لی کا کوئی پیغا م دیا ہو بھارت اور افغا نستا ن نے روز اول سے پا کستان کو ہمسا یہ نہیں ما نا بلکہ دشمن کا در جہ دیا دونوں نے پا کستا ن کی سر حدوں کو تسلیم نہیں کیادونوں نے ہمارے وجو د کو تسلیم نہیں کیا ہمارے دونوں ہمسا یوں کو اس بات کا علم نہیں کہ ہمسا یہ اور پڑو سی کا تعلق تاریخ یا سیا سیات سے نہیں ہمسا یہ اور پڑو سی کا تعلق جعرا فیہ سے ہے کوئی ملک کسی خا ص وجہ سے چا ہے تو تا ریخ اور سیا سی نظر یے کو مسخ کر سکتا ہے تبدیل کر سکتا ہے مگر کوئی ملک ہزار بار خواہش کر ے ہزار بار زور لگا ئے تب بھی جعرا فیے کو تبدیل نہیں کر سکتا بھارت لا کھ جتن کرے پھر بھی متحدہ عرب امارات کو اٹھا کر اپنی مغربی سرحد پر پا کستان کی جگہ نہیں رکھ سکتا افغا نستان لا کھ جتن کرے پھر بھی بھارت کو اٹھا کر پا کستان کی جگہ اپنی مشرقی سر حد پر نہیں رکھ سکتا

جعرافیہ اور محل وقوع جیسا ہے ایسا ہی رہے گاا فغا نستا ن اسلامی امارت بن سکتا ہے، کمیو نسٹ ملک بن سکتا ہے ہر صورت میں اس کا مشرقی ہمسا یہ پا کستان ہی ہو گا کوئی اور ملک نہیں ہو گا 1978ء میں کمیو نسٹ افغا نستان سے فرار ہو نے والے مہا جرین پا نج وقتوں کے نما زی تھے علماء اور پا کباز لو گ تھے ان کو پا کستان نے پنا ہ دے دی مہا جر کیمپ مہیا کئے اپنے شہر، دیہا ت، بازار اور مسجدیں ان کے لئے کھول دیئے دل و جا ن سے اُن کی خد مت کی 2021ء میں اگر اما رت اسلا می کی حکومت بنی تو کمیو نسٹوں کو افغا نستا ن چھوڑ نا پڑے گا امریکہ نے اعلا ن کیا ہے کہ اشرف غنی، عبداللہ عبداللہ، انکی کا بینہ، جر گہ ارا کین اور تر جما نوں کو امریکہ میں پنا ہ دی جا ئیگی امریکہ نے 4لاکھ افغا نیوں کو پنا ہ دینے کے لئے بجٹ بھی مختص کیا ہوا ہے

اس طرح نیٹو اتحا د کے دوسرے مما لک بھی محدود تعداد میں افغا ن مہا جرین کو پنا ہ دینگے اب بھی 70لا کھ سے لیکر ایک کروڑ تک کی تعداد میں مہا جرین پا کستان اور ایران میں پنا ہ ڈھونڈ لینگے ایران کی نسبت مہا جرین کا زیا دہ بوجھ پا کستان پر پڑے گا سلا متی کونسل میں پا کستان پر الزام تراشی کرنے والے سفیر محمد حنیف اتمار کو یقین ہے کہ وہ امریکہ میں پنا ہ حا صل کرے گا افغا ن صدر اشرف غنی اور ان کی کا بینہ کو بھی امریکہ پر بھروسہ ہے لیکن دوسرے لو گوں کا یہ حال نہیں امریکہ اور نیٹو مما لک ہر افغا نی کو پنا ہ نہیں دینگے افغا ن شہریوں کی بڑی تعداد ہمسا یہ ملکوں کا رُخ کریگی پا کستان کو ایک بارپھر افغا ن مہا جرین کی میز با نی کرنی پڑے گی اس لئے افغا ن حکومت کو پا کستان پر الزا مات کی بو چھا ڑ کر نے سے پہلے 100بار سو چنا چا ہئیے ہمسا یہ تاریخ اور نظریہ نہیں جسے تم مسخ کر سکو، ہمسا یہ تمہا را جعرافیہ ہے جو کبھی تبدیل نہیں ہو گا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
51212

داد بیداد ۔ جمع اور تفریق ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

پچاس اور ساٹھ کی دہا ئیوں میں ریا ضی کو حساب کہتے تھے پلس اور ما ئنس کو جمع تفریق کہتے تھے طلباء یس سر کی جگہ حا ضر جناب کہہ کر حا ضری لگواتے تھے اب یہ باتیں بھلا دی گئی ہیں 5اگست کو یو م استحصال کشمیر منا نے کی خبروں کو دیکھ اور سُن یا پڑھ کر پہلا سوال ذہن میں یہ ابھر ا کہ گذشتہ 3سالوں میں حکومت کی کا ر کر دگی جمع کے خا نے میں لکھی جا ئیگی یا تفریق کے خا نے میں ڈال دی جائیگی.

2018ء میں تحریک انصاف کی حکومت آئی مخدوم شاہ محمود قریشی وزیر خا ر جہ بنے تو بھارت سلا متی کونسل کا غیر مستقل ممبر نہیں تھا نو مبر 2018ء میں غیر مستقل ممبر کے لئے ووٹنگ ہوئی تو پا کستان نے چار اسلا می مما لک کو مستر د کر کے بھارت کو ووٹ دیکر سلا متی کونسل کا غیر مستقل رکن بنا یا 9ما ہ بعد بھار ت 5اگست 2019کو مقبوضہ کشمیر کی خصو صی حیثیت کو ختم کر نے کے لئے آئین کے دفعہ 370اور 35اے کو ختم کیا پا کستان سلا متی کو نسل میں بھارت کے خلا ف قرار داد لا نے میں نا کام ہوا ہیو من رائٹ کو نسل میں بھارت کے خلاف قرار داد پا س نہ ہو سکی

چنا نچہ مقبو ضہ کشمیر سر ی نگر، جموں اور لداخ سمیت بھارت کا صو بہ قرار دیا گیا 2021ء میں اس واقعے کو دوسال پو رے ہو گئے تو بھارت نے اس اہم مو قع پر ایک سال کے لئے سلا متی کو نسل کی صدارت سنبھا ل لی گویا ہمارے لئے سلا متی کو نسل کے دروازے پر تا لہ لگا دیا گیا ہماری حکومت کہتی ہے کہ یہ سب کچھ ہماری کا میاب خا رجہ پا لیسی کا نتیجہ ہے ملک میں حزب اختلا ف کی آواز کو نیب اور ایف آئی اے کی پے درپے کاروائیوں نے کچل کر رکھ دیا ہے ٹیلی وژن اور اخبارات پر سنسر شپ عائد کی گئی ہے جرء ت اور ہمت کر کے حقائق پر سے پر دہ ہٹا نے والے صحا فیوں کو قو می دھا رے کے میڈیا سے بے دخل کیا گیا ہے اس لئے حکومت کی کار کر دگی پر سوال اٹھا نے کا کوئی فورم نہیں بچا ہے لے دے کے گرین سٹیزن میڈیا ہے جو مظلوموں کی آواز ہے.

خا رجہ محا ذ پر حکومت کی حیران کن کار کر دگی اس بات سے بھی عیا ں ہو چکی ہے کہ قو می سلا متی کے امریکی مشیر ڈاکٹر معید یو سف نے امریکی تھنک ٹینک میں اپنے دیرینہ تعلقات کا سہا را لیتے ہوئے دو دن پہلے شکوہ کیا کہ امریکی صدر جو بائیڈ ن نے افغا نستا ن مسئلے کے حل کے لئے ہمارے وزیر اعظم عمران خا ن کو فون تک نہیں کیا آخر وہ اپنے آپ کو کیا سمجھتا ہے؟ قو می سلا متی کے امریکی مشیر کے تازہ ترین بیان سے اخبار نو یسوں کے خا مو ش گروہ کو وزیر اعظم عمران خا ن کا دو سال پرا نا بیاں یا د آیا وزیر اعظم نے اپنے ”پر مغز“ بیاں میں ارشاد فر ما یا تھا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر ا مو دی کو بار بار فون کر تا ہوں وہ میرا فو ن نہیں اُٹھا تا اپنے آپ کو کیا سمجھتا ہے؟

گویا دفاعی لحا ظ سے ہمارا واسطہ جن دو مما لک کے ساتھ ہے ان میں سے ایک کا صدر ہمارے وزیر اعظم کو فو ن نہیں کر تا دوسرے ملک کا وزیر اعظم ہمارے ہر دلعزیز لیڈر کا فو ن نہیں اٹھا تا یہ ہمارے دفتر خا ر جہ کی شاندار کا ر کر دگی ہے ایک اور خبر یہ ہے کہ سعو دی عرب نے کویڈ 19-سے نجا ت کے بعد 57میں سے 48اسلا می ملکوں کے زائرین کو عمرے کی اجا زت دی ہے 9بلیک لسٹ مما لک کے زائرین کو اجا زت نہیں دی اور ہماری کا میاب خا ر جہ پا لیسی کی بدولت پا کستان اُنہی نا پسندیدہ یا بلیک لسٹ مما لک میں شا مل ہوا ہے اب اس کو جمع کے خا نے میں ڈال دیا جا ئے یا تفریق کے زمرے میں رکھا جائے؟

5۔اگست کا یو م استحصال بہت زبردست تھا سول سو سائیٹی اور قو می نما ئیند وں کا ذکر آنے سے پہلے خبر دی گئی کہ وزیر خا ر جہ نے دفتر خا ر جہ کے افسروں کی ریلی نکا لی افیسروں نے کتبے اٹھا ئے ہوئے تھے اور وزیر خا ر جہ نے بینر کا ایک سرا پکڑا ہوا تھا ریلی کے شر کا ء دو سال پہلے بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کو صو بہ بنا نے کے خلا ف احتجا ج کر رہے تھے

وزیر خا ر جہ پُر جو ش نعرے لگا رہے تھے 5۔ اگست کے ظالما نہ اقدام کے خلا ف دفتر خا ر جہ نے ایک قو می نغمہ بھی ریلیز کیا اور قوم سے ایک منٹ خا مو شی کی استد عا کی قوم ایک منٹ کی خا مو شی کے دوران سوچ میں پڑ گئی کہ ہماری حکومت نے دو سال خا مو شی اختیار کی بھارت پر اس کا اثر نہیں ہوا دو سال پورے ہونے پر مراد بیک اور صمد یا زید اور بکر کی ایک منٹ خا مو شی کا دشمن پرکیا اثر ہو گا؟

قوم کو یا د ہے 5۔اگست 2019کی چلچلا تی دھوپ میں حکومت کے کہنے پر ہم نے 10منٹ دھوپ میں کھڑے ہو کر زبر دست احتجا ج کیا تھا،5۔ اگست 2020کو ہم نے گا نا بھی ریلیز کیا تھا مگر دشمن کے کا نوں پر جوں تک نہیں رینگی اب پھر یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ سر کار کی اس کا رکر دگی کو مثبت لکھا جا ئے یا منفی قرار دیا جا ئے نا طقہ سر بہ گریباں ہے کیا کہئیے خا مہ انگشت بہ دنداں ہے کیا کہیے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
51207

کراچی کی حساسیت! ۔ قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

کراچی کی حساسیت!

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم کراچی کی حساسیت کو سمجھیں، لیکن جب تک کراچی کے اصل حالات اور زمینی حقائق سے صرف نظرکیا جاتا رہے گا ہم کراچی کے مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہیں گے۔ ایک عام انسان سے اگر پوچھا جاتا تو اس کی بس یہی دہائی ہوتی کہ کراچی میں امن قائم ہوجائے، اب امن تو قائم ہے لیکن ایک اسے سوچی سمجھی سازش کے تحت شہر قائد کو آئسولیٹ کیا جارہا ہے، سیاسی تنہائی میں دھکا دینے سے اہل کراچی میں احساس محرومی بڑھتا جارہا ہے۔مستقل علاج نہ نکالنے کی وجہ سے جس طرح شوگر کے مریض کو بد قسمتی سے اگر کوئی زخم لگ جائے تو جوں جوں وہ دوا کرتا ہے،اس کا مرض بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شوگر کے مریض کا سب سے بڑا اور اہم علاج احتیاط کرنا ہے۔ شاید کراچی کو اب علاج سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ کراچی کے مسئلے کو جس  قدر حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کی ایک انگلی کا زخم آہستہ آہستہ پورے جسم میں پھیلنا شروع ہوجاتا ہے۔ ایک انگلی کاٹی جاتی ہے تو پھر دوسری تو پھر پیر، تو اس کے بعد بھی آپریشن کا نتیجہ سوائے زخم دینے کے کچھ نہیں نکلتا۔


 کراچی  شیطان کی آنت کی طرح اتنا طویل تر بھی نہیں کہ اس  کے لیے مربوط پلاننگ نہ کی جاسکے،چھپنے کے لیے پہاڑ، غار تو نہیں لیکن نیلا، گدیلا سمندر ضرور ہے۔ اگر غار کے لیے پہاڑ ہونا ضروری ہیں تو پھر کراچی میں بلند وقامت عمارتوں کو پہاڑوں سے تشبیہہ دی جا سکتی ہے اور ان بلند و بالا عمارات میں بنے فلیٹس کو غار کہا جا سکتا ہے۔بات دراصل یہی ہے کہ کراچی میں مزیدتجارب کا وقت گذر چکا، اب احتیاط کی ضرورت ہے،مشرقی پاکستان کے چھ نکات کو تسلیم نہیں کیا تو وہ بنگلہ دیش بن گیا، بلوچستان والوں نے بھی چھ نکات دیے تھے لیکن اس پر کماحقہ عمل نہ ہو پایا، سیاسی جماعتوں میں پھوٹ ڈالنے سے بھی حوصلہ افزا نتائج نہیں نکلتے، نئے اتحاد بنانے کے بھی فوائد حاصل نہیں ہوتے، سیاسی کوششیں بھی ناکام، تو پھر طاقت، مفاہمت اور مصلحت، سب ناکامی کا سامنا کر رہے ہوں  تو اس کا واضح مطلب ہے کہ اب ارباب اختیارکو احتیاط کی ضرورت ہے۔


طاقت کے استعمال سے کسی کے ہزاروں کارکنوں کو ختم نہیں کیا جاسکتا تو  لاکھوں انسانوں پر کوئی سیاسی جماعت ہمیشہ کے لیے جبر سے اجارہ داری بھی قائم نہیں رکھ سکتی۔کچھ تو ایسا ہے جس کی پردہ داری کی جاتی ہے، لیکن عوام کے سامنے اصل حقیقت کو پوشیدہ رکھا جاتا ہے اس لیے خاموش طبقہ، جو اکثریت میں ہے، وہ خاموش ہی رہتا ہے کیونکہ اس کے اعتماد کو بحال نہیں کیا جاتا،شاید اسی میں ان سب کی بھلائی ہے کہ خاموش طبقہ خاموش ہی رہے کیونکہ، جب کراچی بولے گا تو پاکستان بول اٹھے گا۔کراچی کی اکثریت خاموش رہنے کو ہی فوقیت دیتی ہے کیونکہ اسی میں عافیت نظر آتی ہے۔جب چند برسوں میں 8 ہزار انسانوں کو صرف کراچی میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، لیکن سب ٹھیک ہے، روزانہ کراچی میں گیارہ بارہ  افراد ٹارگٹ کلنگ کرکے ہلاک کردیے جاتے، لیکن سب کچھ ٹھیک ہے۔مذہبی علما کو خون میں نہلا دیا جاتا لیکن پھر بھی سب کچھ ٹھیک ہے، علم کی روشنی پھیلانے والوں کی زندگیاں بجھا دی جاتی،لیکن پھر بھی سب کچھ ٹھیک ہے،انسانی زندگیوں کو بچانے والے موت کے گھاٹ اتار دیے جاتے ہیں لیکن پھر بھی سب کچھ ٹھیک ہے،،قانون نافذ کرنے والے، اپنی حفاظت نہیں کر پاتے، لیکن پھر بھی سب کچھ ٹھیک ہے۔کراچی کے جسم ناتواں پر کتنے گہرے گہرے زخم ہیں، کتنے زخم کریددوں،لیکن دل پھر بھی نہیں دہلے گا، دھرنے کبھی کراچی والوں کے لیے نہیں ہونگے۔اس لیے احتیاط ضروری ہے۔


بات کی جاتی ہے کہ سندھ کی تقسیم کوئی مائی کالال نہیں کرسکتا، تو کیا ہندوستان جب تقسیم ہو رہا تھا تو دوسری جانب کے لوگ ماؤں کے لال نہ تھے،سندھ کا شہر کراچی، سندھ کا حصہ تھا تو، وفاق کے نام پر ایسے سندھ سے الگ کردیا گیا۔ کوٹہ سسٹم جب لاگو کرکے دیہی و شہری تفریق پیدا کی جارہی تھی تو سندھ کی تقسیم کی بنیاد تو خود سندھ کے وارثوں نے ہی رکھ دی۔ تو پھر گلہ کس سے کرتے ہو۔ مہمان نوازی کا پرفریب نعرہ ان لوگوں کو دیا جائے جو اس بہکاوے میں آجاتے ہونگے، یہاں اب کوئی میزبان نہیں اور کوئی مہمان نہیں، کیونکہ یہ پاکستان ہے، پاکستان کی شناخت رکھنے والا، پاکستانی ہے،اس کی شناختی علامت اس کا پاکستانی ہونا ہے۔سندھ کو تین انتظامی یونٹس میں تقسیم کیا جائے یا پاکستان کے بجائے سندھ کو بیس انتظامی یونٹس میں تقسیم کیاجائے تو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ نئے یونٹس انتظامی بنیادوں کے نام پر نہیں بلکہ لسانی بنیادوں پر بنائے جا رہے ہیں، صوبہ سرائیکی، جنوبی پنجاب، ہزارہ صوبہ، بلوچستان پختونخوا،اور سندھ کے مشرقی، مغربی و شمالی صوبہ دراصل کوئی انتظامی یونٹس نہیں بلکہ، واضح طور پر لسانی بنیادوں پر بنائے جانے والے مطالبات ہیں۔


اگر کوئی جماعت خیبر پختونخوا کی تقسیم کی حامی ہے لیکن سندھ کی تقسیم کی مخالفت پر یکجا ہوجاتے ہیں تو یہ کھلی منافقت ہے، سیدھی سی بات ہے کہ، سب سے پہلے تو یہ طے کیا جائے کہ ہم سب پاکستانی ہیں یا نہیں؟۔ پھر یہ طے کیا جائے کہ بحیثیت پاکستانی، پاکستان کے کسی بھی حصے پر ہمارا اتنا ہی حق ہے جتنا کسی دوسرے پاکستانی کا تو بات تسلیم؟ تو ٹھیک ہے، لیکن اگر بات یہ ہو کہ ہم پہلے، سندھی، پنجابی، بلوچی، پٹھان(پختون)، مہاجر ہیں اور پھر پاکستانی ہیں تو بیس کے بجائے دو سو یونٹس بنانے کی ضرورت ہوگی۔ پاکستان کے پاس چار صوبوں کے لیے پہلے ہی وسائل نہیں ہیں، صوبائی خود مختاری کے باوجود صوبائی حکومتیں، مثالی نہ بن سکیں تو چاہے کتنے ہی یونٹس بنا لیں، جب وسائل ہی نہیں تو کیا نئے یونٹس اپنے عوام کے لیے آسمان سے من و سلویٰ کھلانے کی امید لیے بیٹھے ہیں۔ پاکستان کے حالات بار بار کے آپریشن سے اس نہج پر جا پہنچیں ہیں کہ اب علاج کی نہیں احتیاط کی ضرورت ہے، یا تو صوبے بنا لیں یا پھر خاموش ہوکر بیٹھ جائیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51190

دھڑکنوں کی زبان -”میر گلزار ایک نابعہ روزگار” – محمد جاوید حیات


میر گل زار اس کارزار ہستی کی ایک ایسی شخصیت تھی جس کا متبادل کوئی نہیں چترال کے ایک دور افتادہ اور پسماندہ گاوں کھوت میں نہایت پسماندگی کے دور میں پیدا ہونے والا بچہ اگر نابعہ روزگار شخصیت بن جائے تو یہ اس کی خداداد صلاحیتیں ہی ہو سکتی ہیں یہ بچہ گلشن انسانیت کے لیے اللہ کی طرف سے gift تھا آپ نے پچاس کی دھائی میں موضع کھوت میں معزز قبیلے خوشیے کے ایک متمول خاندان میں آنکھ کھولی آپ کے والد خوش امیر ریاستی حکمرانوں میں رسوخ والے تھے گھرانہ کھاتا پیتا تھا البتہ علاقے میں صرف ایک پرائیمری سکول تھا اس وجہ سے تعلیم ادھوری رہ گئی۔

میر گلزار نے کچھ عرصہ پشاور اور پنجاب میں گزارے اور واپس آکر ایک سماجی کارکن کے طور پر علاقے کی خدمت کرنے لگے آپ نے جب سیاست میں قدم رکھا تو اس کو خدمت اور عبادت تصور کرنے لگا اور لوگوں میں اتنا ہردلعزیز ہوا کہ ہر الیکشن میں بازی جیتنے لگا آپ نے لوکل کونسل کے الیکشن میں مسلم لیگ کی طرف سے حصہ لیا اور اخر دم تک مسلم لیگ کے ساتھ رہا آپ لوکل کونسل کے چیرمین منتخب ہوئے اور علاقے میں چیرمین نام سے مشہور ہوئے۔۔آپ ایک کامیاب کنٹریکٹر تھے اور بڑے بڑے projects آپ کی زیر نگرانی اور ٹھیکے سے مکمل ہوئے۔آپ بہت دیدہ زیب شخصیت کے مالک تھے حلیم الطبع شریف ہمدرد غریب پرور اور خدمتگار تھے آپ کے پاس اخلاق حسنہ تھا کوئی آپ سے ناراض نہیں تھا دوست دشمن آپ کی تعریف میں رطب اللسان رہتے غریبوں کے مونس تھے امن پسند تھے علاقے کے چھوٹے موٹے مسائل خوش اسلوبی سے حل کرتے۔

لوگوں کا آپ پر اعتماد تھا ہر ایک کی غمی خوشی میں شریک رہتے نہایت خاموش طبع نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو واقع ہوئے تھے زیرک اور ذہین تھے آپ جیسے سیاسی سوچ بوجھ رکھنے والے پھر اس علاقے میں پیدا نہیں ہوگا۔میر گزار شرافت کے پتلے تھے آپ کے بچے آپ کی روایتی تربیت سے اسی طرح کردار کے مالک ہیں۔میر گلزار نے بھر پور زندگی گزاری۔احمد ندیم قسمی کہتے ہیں
اشک تھا چشم تر کے کام آیا
میں بشر تھا بشر کے کام آیا


میر گلزار نے زندگی میں بہت ساری کامیابیاں حاصل کی مگر بشر ہی رہا وہی خدمت اور غمخواری وہی شرافت و ہمدردی وہی زندہ دلی سادگی۔کبھی مقام،دولت اور شہرت نہیں جتائی۔کبھی اپنے اور غریبوں میں فاصلہ نہیں رکھا محروم مقہورو مجبور کا دست و بازو رہا۔بے سہاروں کا سہارا بے اسراوں کا اسرا اور کتنوں کے سروں پر سایبان رہا۔میر گلزار ایک عہد تھے ایک حوالہ اور ایک مثال۔۔ خود بے مثال تھے اپنے پیچھے پھر بھی مثال چھوڑ گئے۔آپ انتقال کر گئے تو لوگوں نے ان کی جسد خاکی کے ساتھ شرافت انسانیت اعلی اخلاق نرم لہجہ اور دھیمی مسکراہٹ کو بھی مٹی کے حوالہ کیا۔۔وہ نام کے گلزار تھے شرافت کے پھول کھیلا گئے۔۔اللہ اس کی قبر کو روشنیوں سے بھر دے

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51183

ریپ کی وجہ – طاقت کا اظہاریا بھٹکی ہوئی جنسیت؟ – غزالی فاروق

ریپ کی وجہ – طاقت کا اظہاریا بھٹکی ہوئی جنسیت؟ – غزالی فاروق


ریپ کے واقعات میں اضافہ  ایک بڑھتا ہوا معاشرتی مسئلہ ہے ، جس کی روک تھام  کےمتعلق   میڈیا پر بحث صرف  اُس وقت جنم لیتی ہی جب ایساا ندوہ ناک واقعہ میڈیا میں رپورٹ ہوتا ہے ۔ پھرجب سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر اس مسئلے کے حل کے متعلق آراء کےمابین بحث بہت  شدت اختیار کرلیتی ہے تو حکمرانوں کی طرف سے کچھ بیانات جاری کئے جاتے ہیں اور پھر حکومتی عہدیدار اور حکمران اس سے یوں غافل ہو جاتے ہیں کہ گویا کوئی مسئلہ موجود ہی نہیں ۔

پاکستان کے ایک مختصر مگر اس نظام میں اثر رسوخ رکھنے والے گروہ  کے مطابق ریپ کی وجہ معاشرے میں مردوں کی بالادستی اور عورتوں کو معاشرے میں برابری کا مقام حاصل نہ ہونا ہے جس کی وجہ سے جنسی بھوک کے حامل مرد ،عورتوں  کو کمزور اور حقیر جانتے ہوئے انہیں اپنی  جنسی تسکین  کا نشانہ بناتے  ہیں۔ٍ اس گروہ  کے نزدیک ریپ کا تعلق عریانی یا کسی مخصوص  تصورات  سے بالکل نہیں ہے، بلکہ یہ ٹولہ اس بات میں کو ئی حرج نہیں سمجھتا کہ مرد و عورت اپنی رضامندی و اختیار سے  نکاح کے بغیر تعلق قائم کریں۔ لہذا جب کوئی عریانی کی روک تھام یا مغرب زدہ عورتوں  کے لباس  کی بات کرتا ہے تو وہ اس شخص کو ریپسٹ کا ہمدرد کہہ کر مجرم کے ساتھ کھڑا کردیتے ہیں۔  

جب ہم اس بیانیے کا بغور مشاہدہ کرتے ہیں  تو ہمیں نظر آتا ہے کہ یہ بیانیہ محض  سطحیت پر مبنی ہے اور  اس میں  حقیقت  کا نامکمل احاطہ کیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ یہ بیانیہ مغربی نقطۂ نظر سے متاثر ہے جوانسانی فطرت اور  معاشرے کو لبرل ازم کے گمراہ کن تصورات کی عینک سے دیکھتا ہے۔ 

اگر ہم ریپ سمیت معاشرے میں رونما ہونے والے جرائم اور ان کے سدباب کے متعلق درست فہم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں انسانی فطرت اور معاشرے کی  تشکیل کے متعلق درست سمجھ حاصل  کرنا ہو گی ، وہ فطرت کہ جس  پر انسانوں کے خالق نے انہیں تخلیق کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو چاہے مرد ہو یا عورت،  ایک متعین فطرت پر پیدا کیا ہے اور نسل انسانی کی بقا کا دارومدار ان کے ملاپ پر رکھا ہے۔ مردوعورت دونوں میں انسان ہونے کی تمام خصوصیات اور زندگی کے لوازمات موجود ہیں۔  وہ خصوصیات یہ ہیں کہ ہر انسان صاحب ِعقل ہے  اور اس کی سوچ اس کے عمل پر اثر انداز ہوتی ہے ۔ اسی طرح یہ بھی انسان کی فطرت میں سے ہے کہ ہر انسان میں کچھ ایسی حاجات ہیں کہ جنہیں پورانہ کیا جائے تو انسان زندہ نہیں رہ سکتا جیسا کہ کوئی بھی انسان پیٹ کی بھوک مٹائے بغیر، رفع حاجت کے بغیر اور سانس لیے بغیر زندگی نہیں گزارسکتا۔   ان لازمی حاجات کے علاوہ اللہ نے انسان میں کچھ ایسی جبلتیں بھی رکھی  ہیں کہ جن کے پورا نہ ہونے سے انسان مرتا تو نہیں  مگر بے چین رہتا ہے۔ جنسی جبلت ان جبلتوں میں سے ایک ہے۔ انسان کی فطرت کے یہ حقائق قطعی ہیں اور کوئی ایک انسان بھی اس سے مختلف نہیں  ہے۔

یہ اللہ ہی ہے کہ جس نے انسان میں جنسی  جبلت رکھی ہے اور اس کے پورا کرنے کے اسباب بھی پیدا کیے  ہیں ۔ ایسا نہیں کہ اللہ نے یہ جبلت تو پیدا کی ہے مگر اسے پورا کرنے کے لوازمات نہیں رکھے۔  اور اللہ تعالیٰ نے اِس امر کے متعلق بھی رہنمائی فرما دی ہے کہ انسانی جبلتوں کو پورا کرنے کا درست طریقہ کیا ہے، خواہ وہ جبلتِ بقاء (survival instinct) ہو یا جنسی جبلت(procreation instinct) یا پھر جبلتِ تدَیُّن(reverence instinct)۔ کسی بھی جبلت کی تسکین کا کوئی بھی طریقہ بذاتِ خود یہ طے نہیں کرتا کہ وہ طریقہ کار لازماً درست ہے۔ مثال کے طور پر ہر انسان میں بقا کی جبلت موجود ہے ۔ اور یہ انسان کو ابھارتی ہے کہ وہ اپنےلیے آرام اور آسائشیں حاصل کرے،جس کےحصول کے لیے ایک شخص دولت کماتا ہے اور پھر اس دولت سے  آسائشیں خریدتا ہے۔ مگر کیا دولت کو کسی بھی طریقے سے حاصل کرنے مثلاً چوری ، ذخیرہ اندازی، منشیات فروشی   وغیرہ کومحض اس وجہ سے درست قرار دیا جا سکتا ہے کہ ایسا اس شخص نے اپنی جبلت کی تسکین کے لیے کیا ہے؟ اگر نہیں ، تو پھر جنسی جبلت کے معاملے میں  کیوں یہ طرزعمل اختیار کیا جائے کہ ایک انسان جیسے چاہے اسے پورا کر لے، خواہ وہ اس کا خونی رشتہ ہو یا کوئی جانور ہو  یا کسی پر جنسی حملہ ہو! 

پس وہ کیا معیار یا پیمانہ ہو گا جو یہ طے کرے گا کہ کسی جبلت کو فلاں طریقے سے پورا کرنا درست ہے؟ کیا وہ پیمانہ یہ ہے کہ اگر دو انسان باہمی رضامندی سے اپنی جبلت کو پورا کرنے کے لیے تیار ہیں تو انہیں اجازت ہونی چاہئے، مثال کے طور پر اگر دو مرد ہم جنس پرستی کے ذریعے یا ایک مرد اور ایک عورت نکاح کے بغیر  ایک اجرت طے کر کے  یا بوائے گرینڈ اور گرل فرینڈ کے طور پر اپنی جنسی جبلت کو پورا کرنا چاہیں  تو کیا انہیں اس کی اجازت ہونی چاہئے؟   لبرل ازم کا  تصور یہ کہتا ہے کہ اس پر کوئی روک ٹوک نہیں ہونی چاہئے۔ تاہم اگر یہ مفروضہ درست تسلیم کر لیا جائے تو  اگر دو مختلف ممالک کے افراداپنی مرضی و رضامندی سے ملکی رازوں کا ایک دوسرے سے تبادلہ کرنا چاہتے ہوں تو اس کی آزادی ہو سکتی ہے؟  ظاہر ہے نہیں۔

اگر معاشرے کے لیے کچھ معیار اور پیمانے ہی اس بات کو طے کریں گے کہ انسان کا درست اور غلط طرزعمل کیا ہے تو  پھر یہاں سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان پیمانوں اور معیارات کو کیسے اور کون طے کرے گا؟ اور اگراس کائنات کا کوئی خالق ہے تو کیا اس کا بھی ان معیارات اور پیمانوں کو طے کرنے میں کوئی عمل دخل ہے یا نہیں ؟!

جبلتوں اور انسانی حاجات کا بغور جائزہ لینے سے ہمیں انسانی فطرت کے متعلق یہ بات بھی پتہ  چلتی ہے کہ عضویاتی حاجات  جیسا کہ بھوک پیاس وغیرہ کی صفت یہ ہے کہ یہ کسی بیرونی محرک stimulusکی محتاج نہیں ہوتیں۔ پس ایک شخص کو لازماً بھوک لگتی ہے خواہ اس کے سامنے اچھا کھانا موجود ہو یا نہ ہو جبکہ انسانی جبلتوں کی نوعیت یہ ہے کہ یہ اس وقت بھڑکتی ہیں اور اپنی تسکین چاہتی ہیں جب کوئی بیرونی محرک  stimulus انہیں ابھارتا ہے اور اس وقت سرد پڑ جاتی ہیں جب یہ بیرونی محرک موجود نہیں ہوتا، تاہم جب تک ان جبلتوں کو پورا نہ کیا جائے تو انسان بے چین  اور غیر مطمئن رہتا ہے۔چنانچہ  جب ایک  بے اولاد  شخص کسی ماں کو اپنے بچے سے پیار کرتا دیکھتا تو اس کے اندرجذبات اُبھرتےہیں مگر جب یہ منظر سامنے نہ ہو تو ان جذبات کی شدت کم ہو جاتی ہے،لیکن ایک بے اولاد شخص مستقل طور پر غیر مطمئن رہتا ہے اور اپنے زندگی میں ایک کمی محسوس کرتا رہتا ہے۔  جنسی جبلت کی بھی یہی حقیقت ہے کہ یہ اس وقت بھڑک اٹھتی ہے جب ایک شخص کو جنسی محرک کا سامنا ہوتا ہے خواہ یہ محرک ایک  جنسی تخیل ہی کیوں نہ ہو۔

انسانی فطرت کی دوسری اہم حقیقت یہ ہے  انسان کے تصورات اس کے میلانات و رجحانات پر لازماًاثرانداز ہوتے ہیں اور اس کی جبلتوں کومخصوص شکل دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مسلمان اپنی بہن یا والدہ کے متعلق کسی قسم کا کوئی جنسی میلان نہیں رکھتا کیونکہ والدہ اور بہن کے متعلق دین اور معاشرہ   اسے خاص تصورات سے روشناس کراتا ہے، جو ان خونی رشتوں کی حرمت سے متعلق اسلام نے دیے ہیں۔  گویامعاشرے کے اندر مرد و عورت کے تعلق کے  بارے میں  درست تصورات کو پروان چڑھانا اور انہیں پختہ کرنا درست جنسی رویوں کو تشکیل دیتا ہے جبکہ  معاشرے میں اس سوچ کو ترویج دینا  کہ ہر انسان آزاد ہے اور اس کی زندگی کا ہدف اپنی خواہشوں کو زیادہ سے زیادہ پورا کرنا ہونا چاہئے، ایک شخص کو اس چیز پر مائل کرتا ہے کہ وہ  جس طرح چاہے بن پڑے جنسی تسکین حاصل کرے۔

لہٰذا  وہ  بنیادی محرکات  جو ریپ جیسے قبیح جرم  میں اضافے کا باعث   بنتے ہیں   ان میں سے ایک  وہ بیرونی  عوامل ہیں جو انسان کی جنسی جبلت کو ممکنہ طور پر بھڑکاتے  ہیں۔ جبکہ اس جرم  میں اضافے کا دوسرا بنیادی   محرک      معاشرے میں ایک انسان کے دوسرے انسانوں کے ساتھ  تعلقات   کو  منظم کرنے کے حوالے سے درست تصورات کا فقدان ہونا    ہے۔  تبھی  ہم دیکھتے ہیں  کہ اس مسٔلہ کی اصل آماجگاہ مغربی معاشرے ہیں  جہاں پر ” شخصی آزادی” کے تصور کے  پیش نظر،   یہ دونوں محرکات اپنے جوبن پر ہوتے ہیں۔

لیکن اگر یہ سوال کیا جائے کہ پھر پاکستان کے معاشرے میں ان واقعات  میں کیوں اضافہ ہو رہا    ہے جہاں پر اکثریت میں مسلمان آباد  ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ   چونکہ ان معاشروں میں بھی اسلام کے نظام کا ہماگیر نفاذ نہیں بلکہ انگریز کا چھوڑا ہوا نظام چند ترامیم کے ساتھ آج بھی   نافذ   ہے ، اس لیے  اس  جرم  کو تقویت دینے والے  بیان کردہ دونوں بنیادی محرکات یہاں بھی موجود ہیں۔  لیکن چونکہ ان کی  شدت یہاں  نسبتاً  کم ہے  اس لیے  مغربی معاشروں کی نسبت  ہمارے  معاشروں میں اس جرم کی شرح  بھی کم  ہے۔  البتہ پوری دنیا کی طرح ہمارے  یہاں بھی اس کی شرح  میں اضافہ ہو رہا ہے۔

لیکن  مسلمانوں کے معاشروں میں بھی اس کا حل محض عورتوں کو شرعی لباس کا پابند بنا دینے  یا محض شرعی سزاؤں کو متعارف کرا دینے میں  نہیں، جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے۔ اسلام کے احکامات  ایک دوسرے سے علیحدگی میں کام نہیں کرتے کہ اسلام کے جزوی یا ادھورے نفاذ کو مسٔلہ کا حل سمجھ لیا  جائے۔ بلکہ اسلام کے احکامات    باہم  مربوط ہیں اور ان کا  صرف    جامع اور ہمہ گیرنفاذ ہی مطلوبہ نتائج پیدا کرنے  اور شریعت کے مقاصد کو پورا کرنے کا ضامن  ہے ۔ لہٰذا  یہ مسئلہ صرف  اس وقت حل ہو گا جب  پاکستان میں رائج مغربی سرمایہ دارانہ نظام کو ہر جگہ سے کرید کر مٹا نہ دیا جائے اور اس  کی جگہ پر ہر شعبے مثلاً  سیاست، معاشرت، معیشت، عدالت اور تعلیم میں   مکمل طور پر اسلام کا نفاذ نہ کر دیا جائے ۔یوں ایک ایسے  پاکیزہ معاشرے کی تشکیل ہو سکے گی  جو پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہو گا۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged , ,
51174

ایون کالاش ویلیز روڈ کی تعمیر – تحریر محکم الدین ایونی

کالاش ویلیز روڈ کی تعمیر کے حوالے سے بار بار مطالبات کے بعد حکومت کی طرف سے مسلسل خاموشی سے مایوس ہو کر ایون اور کالاش ویلیز کے عمائدین نے گذشتہ روز احتجاج کیا ۔ اور ستمبر تک سڑک پر عملی کام شروع نہ کرنے کی صورت میں احتجاج کو سنگین بنانے اور اس کا دائرہ وسیع کرنے کے فیصلے کے گئے ہیں ۔دوسری طرف اس پراجیکٹ کے حوالے سے ایگزیکٹیو انجنئیر سی اینڈ ڈبلیو ڈویژن لوئر چترال کی طرف سے ڈپٹی کمشنر چترال کو لکھا گیا ایک خط سامنے آیا ہے ۔ جس میں یہ تحریر کیا گیا ہے ۔ کہ کالاش ویلیز روڈ کامنصوبہ اے ڈی پی 2021-22 میں شامل کیا گیا ہے ۔ جس کا تخمینہ لاگت دو ارب روپے ہے ۔ اور پراجیکٹ کیلئے ابتدائی طور پر پانچ کروڑ روپے اے ڈی پی میں رکھے گئے ہیں ۔ خط میں ڈپٹی کمشنر لوئر چترال سے استدعا کی گئی ہے ۔ کہ وہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے پراجیکٹ ڈائریکٹر سے رابطہ کرکے مذکورہ سڑک کے گزر گاہ ( alignment) کے بارے میں دستاویزات مہیا کرے ۔ تاکہ زمین کے معاوضے کی آدائیگی کیلئے پی سی ون تیار کرکے مجاز حکام سے اس کی منظوری لی جاسکے ۔

یہ خط تحریر کی تاریخ کے مطابق 30 جولائی کو لکھا گیا ہے ۔ اس پراجیکٹ کی تعمیر کے حوالے سے ایسے بے شمار سرکاری خطوط نیشنل ہائی وے اتھارٹی ، صوبائی حکومت اور کئی اداروں کی طرف سے لکھے جا چکے ہیں ۔ اور وقتا فوقتا مختلف خبروں کی زینت بھی بن چکے ہیں ۔ لیکن یہ خط ان سے منفرد ہے ۔


اس خط کے سامنےآنے کے بعد یہ امید پیدا ہو گئی ہے ۔ کہ روڈ کی تعمیر کے سلسلے میں حکومتی سطح پر کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے ۔ اور معاون خصوصی وزیر اعلی خیبر پختونخوا وزیر زادہ جو خود بھی اس سڑک کے اہم سٹیک ہولڈر ہیں ۔ کی مسلسل کوششوں کا ریزلٹ سامنے آگیا ہے ۔ جس کیلئے وہ داد و تحسین کے مستحق ہیں ۔ یقینی طور پر سڑک کی تعمیر سے انہیں جتنی خوشی ہو سکتی ہے۔ وہ کسی دوسرے استفادہ کنندہ سے کم نہیں ہو سکتی ۔ اس لئے پراجیکٹ کو اس مرحلے تک پہنچانے کیلئے انہوں نے جتنی جدو جہد کی ۔ وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔ لیکن خط کے متن کو دیکھ کر یوں محسوس ہو رہا ہے ۔ کہ پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کی اس پراجیکٹ کی تعمیر میں نہ پہلے دلچسپی تھی ۔ اور نہ اب اس میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔ بلکہ انہوں نے محض معاون خصوصی وزیر زادہ سے گلو خلاصی کیلئے پانچ کروڑ روپے اس سال کے اے ڈی پی میں رکھے ہیں ۔ جو کہ ایک میگا پراجیکٹ کے ساتھ کھلا مذاق کے مترادف ہے ۔ پانچ کروڑ روپے سے سڑک کی الائمنٹ جہاں سے بھی اور جس طریقے سے بھی کی جائے ۔ آدھا کلومیٹر ایریے کےزمین و املاک کے معاوضے کیلئے ناکافی ہے ۔ اس سے یوں لگتا ہے ۔ کہ کالاش ویلیز روڈ کی تعمیر کیلئے اگر ہر اے ڈی پی میں پانچ کروڑ روپے ا یلوکیٹ کئے جائیں ۔ تو سڑک کی تعمیر چالیس سال میں مکمل ہو سکےگی ۔ جبکہ زمین کی قیمت اس وقت آسمان تک پہنچ چکی ہوگی ۔


کالاش ویلیز روڈ کتنی اہم ہے اس کا اندازہ اس ڈیٹا سے لگایا جا سکتا ہے ۔ کہ جو ریکارڈ ٹورزم ڈویلپمنٹ اتھارٹی خیبر پختونخوا نے حالیہ عید کے دوران سیاحوں کے بارے میں تیار کیا تھا ۔اور وزیر اعلی خیبر پختونخوا محمود خان نے اسے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو پیش کیا تھا ۔ اس کے مطابق پچاس ہزار افراد بغرض سیاحت چترال آئے ۔ اور پچانوے فیصد سیاحوں نے کالاش وادیوں تک پہنچنے کیلئے موجودہ کھنڈر اور تباہ حال سڑکوں کو استعمال کیا ۔ جبکہ محتاط اندازے کے مطابق نو ہزار گاڑیوں کا گزر اس راستے سے ہوا ۔
کالاش ویلیز روڈ اگر مالم جبہ یا جھیل سیف الملوک کی طرح آبادی سے دور کسی سیاحتی مقام کی سڑک ہوتی ۔ تو شائد اس کی تعمیر کیلئے احتجاج کی ضرورت نہ پڑتی ۔ لیکن یہاں سب سے زیادہ تکالیف مقامی لوگوں کو درپیش ہیں ۔ اور مقامی لوگ فیسٹولز کے دنوں میں روڈ بند ہونے سے انتہائی تکلیف سے دوچار ہوتے ہیں ۔

مریضوں کو ہسپتال پہنچانا، کسی غمی خوشی میں شریک ہونے کیلئے سفر کرنا ناممکن ہو جاتا ہے ۔ حالیہ عید کے دوران پولیس کے جوانوں کی دن رات کوششوں کے باوجود پانچ سے آٹھ گھنٹوں میں مسافر ایون سے کالاش ویلی بمبوریت اور رمبور پہنچنے میں کامیاب ہوئے ۔ جبکہ اتنے عرصے میں مسافرچترال سے پشاور اوراسلام آباد پہنچ جاتے ہیں ۔ یہ مسئلہ ایک تہوار کا نہیں ۔ بلکہ ہر تہوار کا یہی معمول ہے ۔ اس لئے ایون سے کالاش ویلیز کی سڑک کی تعمیر سیاحت کی ترقی کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کی سفری مشکلات کم کرنے کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اور مقامی لوگوں کا اس حوالے سے احتجاج بےجا بھی نہیں ہے ۔ بلکہ ایون بمبوریت رمبور اور بریر کے لوگوں نے مجبور ہو کر احتجاج کا یہ راستہ اپنا یا ہے ۔ علاقے کےلوگوں کو معاون خصوصی وزیر زادہ کی کوششوں اور جدو جہد کا بھی احسا س ہے ۔ اس کے باوجود بھی اگر حکومت اس سڑک کی تعمیر میں غیر معمولی تاخیری حربہ استعمال کر رہا ہے ۔ تو لوگ احتجاج نہ کریں تو کیا کریں ۔ اور یہ احتجاج وزیر زادہ کو حکومت کے سامنے اس روڈ کے حوالے سے اپنا موقف مزید زوردار طریقے سے پیش کرنے اور کام میں تیزی لانے کیلئے ممدو معاون ثابت ہو گی ۔


پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کاحالیہ اے ڈی پی سیمی فائنل اے ڈی پی تھا ۔ جس میں کالاش ویلیز روڈ کیلئے مناسب فنڈ کی منظوری ضروری تھی ۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے ۔ کہ ساڑھے تین سال سابقہ ریکارڈ کے الٹ پھیر میں گزرے ۔ اور اب لے دے کے تقریبا حکومت کے پاس ڈیڑھ سال سے بھی کم وقت رہ گیا ہے ۔ اس میں بھی مذکورہ پراجیکٹ کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا ہے ۔ حالانکہ لوگ یہ امید کر رہے تھے ۔ کہ دیر آید درست آید کے مصداق کام ہو گا ۔ لیکن اس روڈ کو اب انتخابی پراجیکٹ بنانے کی کوشش کی گئی ہے ۔


سب سے بڑا سوال یہ ہے ۔ کہ ایون اور ملحقہ کالاش وادیوں کے عوام نے اب متفقہ طور پر اس پراجیکٹ کیلئے احتجاجی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اور ماہ ستمبر تک اس پر کام شروع نہ کرنے کی صورت میں بمبوریت ، رمبور ، بریر اور ایون میں بڑ ے پیمانے پر اجتجاجی جلسے منعقد کرنے کے انتظامات کئےگئے ہیں ۔ اب یہ حکومت اور معاون خصوصی وزیر زادہ پر ہے ۔ کہ وہ عملی کام کے آغاز کرنے کیلئے راستہ صاف کرتے ہیں ۔ یا لوگوں کو سنگین قدم اٹھانے کا موقع فراہم کرتے ہیں ۔

کالاش ویلی روڈ
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51161

طوفان کی آمد اور پتوں پر تکیہ ۔ محمد شریف شکیب

افغان صدر اشرف غنی نے اپنے ملک کی مخدوش سیکیورٹی صورتحال کا ذمہ دار امریکہ کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے امریکہ کو پہلے ہی آگاہ کردیا تھا کہ امریکی اور نیٹوافواج واپس بلائی گئیں تو سنگین صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے،انہوں نے دعویٰ کیا کہ جن علاقوں میں صورتحال خراب ہے۔وہاں آئندہ6 مہینوں میں حالات قابو میں آجائیں گے، افغان صدر کا کہنا ہے کہ امریکہ نے جاتے جاتے ہماری بھرپور مددجاری رکھنے کا عہد بھی کیا ہے۔افغان پارلیمنٹ سے خطاب میں صدراشرف غنی نے طالبان کی پیش قدمی روکنے اور خراب سیکیورٹی صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے سیکیورٹی پلان بھی پیش کیا۔

افغان صدر کا شکوہ اس قول کے مصداق ہے کہ ”جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے“جو لوگ طوفان بادوباراں سے بچنے کے لئے پتوں پر تکیہ کرتے ہیں ان کا زبوں حال ہونا فطری امر ہے۔ امریکہ نے اپنی کٹھ پتلی افغان حکومت کو واقعی سرپرائز دیا ہے۔ فوجی انخلاء کے لئے تاریخ یکم ستمبر مقرر کی گئی تھی جولائی میں ہی راتوں رات بگرام کا ہوائی اڈہ خالی کردیا اور نودوگیارہ ہوگیا۔ اب تو امریکی بہ بانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ افغان اپنے جھگڑے اور تنازعات خود حل کریں اور اپنے ملک کا انتظام سنبھالیں۔ہمارے دل کا زور ختم ہوگیا۔ہمارے گاؤں میں عید کے موقع پر انڈے لڑانے کا رواج ہے۔

ایک مرتبہ انڈے لڑانے والے متحارب گروپوں میں خوب لڑائی ہوگئی۔ بیچ بچاؤ کے بعد جب لڑائی کی وجہ پوچھی گئی تو فریق اول کا کہنا تھا کہ فریق دوم نے میرا انڈہ توڑا۔ یہ کھیل کا حصہ ہے اس پر مجھے غصہ نہیں آیا۔ لیکن جب اس نے میرا انڈہ توڑنے کے بعد اپنے ساتھی کو آنکھ ماری تو مجھ سے برداشت نہیں ہوسکا اور میں نے اس کا گریبان پکڑ لیا۔ افغان صدر کو بھی امریکہ سے انڈے توڑنے کا گلہ نہیں۔ امریکی وزیرخارجہ، مشیر قومی سلامتی اور پینٹاگون کی طرف سے آئے روز بیانات آرہے ہیں کہ طالبان نے تین چوتھائی افغانستان کا کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔ اور افغان حکومت کی رٹ کابل تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔

بات اگرچہ سچ ہے مگر اشرف غنی اسے اپنے لئے باعث رسوائی سمجھتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ شدت پسندوں کی مزاحمتی تحریک وقتی ابال ہے۔ اب بھی ان کی پورے افغانستان پرحکمرانی ہے۔ چند مہینوں کے اندر بغاوت کچل دی جائے گی۔ جب سے امریکی فوج افغانستان سے واپس گئی ہے امریکی حکام دانستہ طور پر اشرف غنی کو تنگ کر رہے ہیں۔ افغان صدر اپنے ملک کے بیشتر مسائل کو پاکستان کی پیداکردہ گردانتے ہیں تو امریکہ سے بیان آتا ہے کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے اور افغان امن عمل میں پاکستان کا بنیادی کردار ہے۔ چونکہ پاکستان اور افغانستان کے مفادات مشترک ہیں اس لئے آئندہ بھی پاکستان ہی افغان عمل کا منطقی انجام تک پہنچا سکتا ہے۔

واشنگٹن سے ایسے برانگیختہ کرنے والے بیانات تواتر کے ساتھ آنے پر افغان صدر کا مشتعل ہونا فطری بات ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ افغان طالبان نے حال ہی میں عندیہ دیا ہے کہ وہ ہتھیار ڈالنے کے لئے تیار ہیں لیکن اشرف غنی ان کے ہتھیار ڈالنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ گویا طالبان کے بقول افغان صدر نہیں چاہتے کہ طالبان ہتھیار ڈال دیں۔ دوسری جانب اشرف غنی نے خانہ جنگی کی تمام تر ذمہ داری طالبان پر عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لئے اپنے ہی ملک میں فتوحات کے جھنڈے گاڑھنے شروع کردیئے ہیں۔ نوشتہ دیوار یہ ہے کہ افغانستان میں تمام گروپوں پر مشتمل وسیع البنیاد قومی حکومت کے قیام کے بغیر وہاں خانہ جنگی کا خاتمہ اور امن کا قیام ممکن نہیں۔ مگر تمام گروپوں کی آنکھوں پر ہوس اقتدار کی پٹی بندھی ہوئی ہے اس وجہ سے وہ نوشتہ دیوار پڑھ نہیں پاتے۔ جس دن یہ پٹیاں اتر گئیں ان کے ہوش ٹھکانے آجائیں گے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51166

مختصرسی جھلک – کیریرکونسلینگ – فریدہ سلطانہ فّریّ

دوسراحصہ

کیریرکونسیلنک انگریزی زبان کا لفظ ہے اوراس کے کئی معنی ہیں اِس کا سب سےمناسب ترجمہ طرزمعاش لیا جاسکتا ہےاورکونسلینک بھی انگریزی زبان کا لفظ ہےاوراس کے معنی راہنمائی کے ہیں توکیریرکونسلنک کے معنی طرزمعاش کےمتعلق راہنمائی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کوشعبہ زندگی بھی کہا جاتا ہے۔

    کیریرکےمتعلق راہ نمائی طالب علموں کوزہنی پریشانی اوردباو سے نکالنےاوران کو روشن مستقبیل کی طرف گامزان کرنے کے لئے ریڑھ کے ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ رانمائی اورمدد اب بحثیت والدین، استاد یا کونسلراس وقت دینےکے اہل ہوسکتے ہیں جب اپ کواس بات کا اندازہ ہوکہ اپ کے بچے یا طالب علم اصل میں کن قابلیتوں اورصلاحیتوں کا مالک ہیں اوروہ کونسےمضامین پڑھ کران صلاحیتوں کومزید نکھارکران سے استفادہ حاصل کرکے زندگی میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ اسکی بہترین جانچ پڑتال استاد اوروالدین کے سوا کوِئی نہیں کرسکتا۔

بعض اوقات کچھ بچےخود بھی اس درجے کے ہوشیاراورتیز ہوتے ہیں کہ وہ اس بات کا اسانی سے اندازہ لگا سکتےہیں کہ ان کے اندرقدرتی طورپرکیا کیا صلاحیتیں موجود ہیں اوروہ ان کوکونسے مضامین پڑھ کر فروغ دے سکتے ہیں۔ ایسےغیرمعمولی بچے بہت کم ہی پاَئےجاتے ہیں۔اکثراس طرح بھی دیکھنےمیں ایا ہےکہ ماں وباپ یا بڑے بہن بھآئی کیریرکےحوالے سے اپنی پسند بچوں پرمسلط کردیتے ہیں کہ اپ یہ نہیں کرسکتے اپ وہ نہیں کرسکتے۔۔۔۔ بس اپ کو ہرحال میں ڈاکڑ یا انجینیر ہی بننا ہے تب بچے اپنےاندر کی صلاحیتوں اوراہلیتوں کومجبوری میں دبا دیتے ہیں اور زہنی دباو اورتناو کا شکاربھی ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کا اندر انہیں کسی اور کام کی ترغیب دے رہا ہوتا ہے اوروالدین یا بڑے کچھ اور کرنے کو بول رہے ہوتے ہیں۔

عموما بچوں کے اندرقابلیت اورصلاحیت کو مزید پروان چڑھآنے کے لئےان کی صلاحتیوں سےمنسلک مختلف مضآمین کا سہارہ لیا جاتا ہے تاکہ بچے وہ مضامین پڑھ کراپنےاندرموجود ان صلاحیتوں کو مزید سامنے لا سکیں۔ اس طرح  بچے وہ مضا مِین زیادہ دلچسپی اور شوق سے بھی پڑھ لیتے ہیں کیونکہ وہ ان کی اندرونی شوق اورجزبے سے مطابقت جورکھتے ہیں ۔ جب ہم بات صلاحیتوں سےمتعلق مضآمین کے انتخآ ب کی کرتے ہیں تو ہمارے ہاں پہلا اپشن طالب علموں کے پاس میڑک سے پہلے ہوتا ہے کہ اس نے سائیس کے مضامین کا انتخاب کرنا ہےیا ارٹس۔۔۔۔۔۔ مگر ہمارے ہاں یہ روایات بہت ہی کم ہے کہ بچوں کی صلاحیت اوراہلیت کے مطابق اساتذہ اور والدین بچے کی راہنمائی کریں۔ اس کے بہت سارے وجوہات ہیں ایک تو اگاہی کی کمی اور دوسرے ان میں ایسی اہلیت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے بچوں کی صلاحیتیوں کی جانچ پڑتال کرسکیں۔

بعضی ماں وباپ سکول کا فیس دیکرسمجھتے ہیں کہ ہماری زمہ داری پوری ہوگئی اب بچے نے پڑھنا ہے اورکچھ بننا ضرور ہے ان کواس بات کا اندازہ نہیں کہ بچے اس پودے کی مثآل ہیں جس کو ہردن پانی کی فراہمی کےسا تھ ساتھ تیزاندھی طوفان اورتیزدھوب بارش،کیڑے مکڑوں وغیرہ سے بچا کر ہی ہم سرسبز وشاداب رکھ سکتے ہیں  ۔۔۔۔۔

ہمارے ہاں اکثروالدین پرسائنس کا بھوت بھی سوارہو جاتا ہے حالانکہ بچے کے اندرسائنس کے مضآمین پڑھنے کا کوئی شوق اوراہلیت ہی نہیں ہوتا ہے اور۸ کلاس  کے بعد بچوں پر دباو ڈال کر اس سے غلط رانمائی کر کے ان سے ساینس کے مضآمین کا انتخاب کروایا جاتا ہے یا بچےخود دوسروں کی دیکھا دیکھی ساِئنس کے مضآمین کا انتخاب کرلیتے ہیں اوربعد میں جب بچوں کو اس حوالےسے مشکلا ت کا سامنا ہوتا ہے یا اس کے نمبر کم اجاتے ہیں یا ملا زمت میں دشواری اجاتی ہے تو ان کو اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے اندر تو سائنس پڑھنے والی کوئی صلاحیت ہی نہیں تھی ا سے اگر ٹاِئم پررانمائی ملتی تو اپنے پسند کے مضآمین کاانتخاب کرتے اوراچھے نمبر بھی اجاتے  اور اس حساب سے ملازمت میں کوئی مسئلہ بھی نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے       

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged , ,
51164

ہمارے معاشرے میں قانون کی عملداری – علی مراد خان

ہمارے معاشرے میں قانون کی عملداری – علی مراد خان

 ایک ریاست کی یہ اہم زمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنائے اور جہاں کہیں انصاف کی فراہمی کی ضرورت ہو وہاں سستا انصاف مہیا کرے۔ مگر ہمارے معاشرے میں بات اس کی الٹ ہے۔ ہہاں انتظام چلانے والے خود دانستہ طور پر قانون کی دھجیان اڑاتے ہیں۔


ٹھٹھہ میں میں فلمائی گئی ایک ویڈیو انٹرنیٹ پر اپلوڈ ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک پولیس اہلکار ایک غریب شہری کے سینے میں بیٹھ کر گلا دباتا ہے۔ دم گھٹنے سے شہری کا برا حال ہوتا ہے۔ پاس بیٹھی ماں آہ و فریاد کرتی ہے کہ کوئی اس کے بیٹے کو بچائے۔ اس کی پکار کی طرف کوئی کان نہیں دھرتا۔ پولیس اہلکار نوجوان پر تشدد یوں جاری رکھتا ہے جیسا کہ کسی شکاری بھڑیئے نے جنگل میں شکار پکڑا ہو۔ نام نہاد یہ خادم اور قانون کا عملدار دوسروں کی کیا مدد کر سکتا ہے جس کو خود قانون کا کچھ پتہ نہں۔ اردگرد کھڑی ہجوم یہ سب کچھ دیکھ رہی ہوتی ہے۔ لیکن ان میں یہ حوصلہ کہاں کہ وہ پولیس اہلکار کو یہ سمجھائیں کہ وہ مجرمانہ فعل کر رہا ہے۔


اوپر بیاں کئے گئے واقعے کی طرز کے واقعات ملک کے طول و عرض میں روز وقوع پزیر ہوتے ہیں۔ کہیں پولیس کی فائرنگ سے انسانی جانوں سے کھیلا جاتا ہےتو کہیں بے جا شیلنگ سے پر امن شہری لہولہاں ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ گزشتہ برس یہ خبر بھی میڈیا میں گردش کرتی رہی کہ شہر لاہور میں ایک پولیس افسر کی ہدایت پر مظاہرین پر کیمیکل ملا پانی پھینکا گیا جس سے ایک غریب شہری کی جان چلی گئی۔


ڈرائیوروں، ریڑھی بانوں اور معاشرے کے دوسرے غریب طبقات کو بے جا تنگ کرنا، خواہ مخواہ میں چالان کاٹنا، دھمکانا اور قانون کی پاسداری کے بجائے قانون کو ذاتی مفاد اور پسند یا ناپسند کی بنیاد پر استعمال کرنا تو عام سی بات بن گئی ہے۔


سب سے گھناؤنا کام اس وقت ہوتا ہے جب کوئی انتظامی عہدیدار یا اہلکار اپنی رشتہ داری، برادری، دوستی،ذاتی فائدے وغیرہ کی خاطر مجرموں سے ہمدردی کا اظہار کرتا ہےیا مدد کرتا ہے تاکہ وہ قانون کے شکنجے میں نہ آسکے۔ یہ ایک طرح سے ان کی سرپرستی ہوتی ہے۔ جس سے نہ صرف انصاف کی فراہمی رک جاتی ہے بلکہ مجرم کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے۔ اور وہ دوبارہ جرم کرنے، کسی کا حق چھیننے، یا امن و امان خراب کرنے میں خوف محسوس نہیں کرتا۔ اور یوں قانوں کے رکھوالے قانون اور انصاف کی پرچار کرنےکے بجائے معاشرتی بگاڑ کا سبب بنتے ہیں۔ جس سے لوگوں میں عدم اعتماد جنم لیتی ہے۔ لوگ اپنے اپ کو غیر محفوظ پاتے ہیں۔ نتیجتا کئی دوسرے معاشرتی برائیاں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ سب ایسے عملداروں کی وجہ سے ہوتا ہے جو اپنی پیشہ ورانہ زمہ داریوں کی اہمیت سے نا آشنا ہوتے ہیں۔ اور جو اپنی منصب کو ریاست کی امانت نہیں سمجھتے۔ یہی


لوگ معاشرتی برائیوں کی اصل جڑ ہوتی ہیں۔ انہی کی وجہ سے قانون کے نظام پر سوالیہ نشان لگتا ہے۔
صحتمند معاشرے کا قیام صرف اور صرف قانون کی حکمرانی سے ہی ممکن ہے۔ اس کے لئے قانون کو ایسے رکھوالوں کی ضرورت ہوتی ہے جو خود اعلٰی اخلاقی اقدار کے مالک ہو۔ ساتھ ساتھ ملک و قوم کی
ترقی کے لئے ان کے دل میں درد اور خدمت خلق کا جذبہ ہو۔ اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کے دوران تعصب، اقرباء پروری، اور ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر تمام انسانون سے برابری کا برتاؤ کریں۔


کیونکہ صداقت پر مبنی برتاؤ اور فیصلوں سے معشرے میں روشنی پھیلتی ہے۔ سچائی اپنے ساتھ ہمیشہ امن اور آشتی لاتی ہے۔ لوگوں کے درمیاں برادرانہ سوچ کو پروان چڑھاتی ہے۔ معاشرتی اور اخلاقی اقدار ترقی پاتے ہیں اور یوں پورا معاشرہ تہذیب یافتہ بن جاتا ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
51125

امید کی شمع – ڈاکٹر شاکرہ نندنی

چار شمعیں آہستہ آہستہ جل رہی تھیں ، اس پرسکون ماحول میں ان کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ 

پہلی شمع نے کہا: میں امن ہوں اور سکون، کوئی بھی میرے شعلوں کو جلتا نہیں رکھ سکتا، مجھے یقین ہے کہ میں جلد ہی مر جاؤں گی ……. پھر شعلہ ٹمٹما کر بجھ گیا اورامن و سکون کمزور ہوا۔ 

دوسری شمع نے کہا: میں ایمان اور اعتقاد ہوں، لیکن زیادہ تر لوگوں کے لئے میں زندگی میں اب کوئی ضروری چیز نہیں رہی، لہٰذا میرے لئے روشن رہنے کی کوئی وجہ نہیں ہے، پھر ہلکی سی ہوا کے ساتھ ، ایمان بجھ گیا۔

تیسری شمع نے غم سے کہا: میں محبت ہوں، لیکن میں اب زیادہ دیر روشن نہیں سکتی، لوگوں نے مجھے ایسے کنارے کھڑا کردیا جہاں ان کی زندگی اور میری اہمیت کو نہیں سمجھتے، وہ یہاں تک کہ بھول گئے ہیں کہ اپنے قریبی لوگوں سے محبت قائم رکھنی ہے، مگر محبت ختم ہونے میں دیر نہیں لگتی تھی۔ یہ کہہ کر محبت بھی دم توڑ گئی۔

اچانک ایک بچہ کمرے میں داخل ہوا اور اس نے تین بُجھی ہوئی شمعیں دیکھیں، اس نے کہا: آپ کیوں بجھ رہی ہیں، ہر ایک آپ سے توقع کرتا ہے کہ آخری لمحے تک روشن رہیں، پھر اس نے رونا شروع کردیا۔

قریب ہی موجود چوتھی شمع نے کہا: مت رو اے نا اُمید روشن مستقبل، میں اُمید کی شمع ہوں اور مجھے اُمید ہے کہ جب تک میں موجود ہوں ہم نا اُمید نہ ہوں اور ہم باقی شمعیں اُمید کی لَو سے روشن کرسکتے ہیں۔

بچے نے امید کی شمع لیتے ہوئے جوش و خروش سے چمکتی آنکھیوں کے ساتھ دوسری شمعیں دوبارہ روشن کردیں۔

nandinifilephoto sahma
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
51068

کچھ آوازیں مرتی نہیں۔تحریر: تقدیرہ خان

انسان مرتا ہے اور مٹی میں تحلیل ہو جاتا ہے مگر اس کا عمل اور آواز زندہ رہتی ہے۔ وہ لوگ جو اچھے عمل کرتے ہیں اور حق گوئی و بے باکی کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ اپنے عمل، عدل او رصدائے حق کی وجہ سے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ شیخ سعدی ؒ فرماتے ہیں:۔


قارون ہلاک شد، کہ جہل خانہ گنج داشت
نوشین رواں نمُبرد کہ نام نکو گزاشت


مدت ہوئی قارون مر گیا حالانکہ وہ بڑے خزانوں کا مالک تھا اس کی دولت اُس کے کام نہ آئی اور وہ سب کچھ اسی دنیا میں چھوڑ گیا۔ نوشیروان اپنے عد ل کی وجہ سے آج بھی زندہ ہے چونکہ وہ انصاف پسند تھا۔


آج کے دور میں سیاست سب سے بڑا منافع بخش کاروبار ہے۔ سیاست دانوں اور حکمرانوں کے اردگرد ایسے لوگوں کا ہجوم رہتا ہے جو نہ صرف سرکاری خزانے پر ہاتھ صاف کرتے ہیں بلکہ عوام کی جیبوں پر بھی نظر رکھتے ہیں۔پٹوار خانے اور تھانے نیلام ہوتے ہیں، نوکریاں بکتی ہیں اور تقرریوں اور تبادلوں کی بولی لگتی ہے۔ میرٹ اور قابلیت کا فقدان ہے۔ ہر جگہ غنڈے، ٹاؤٹ اور مافیائے کارندے سرگرم عمل ہیں جنہیں آئینی اور قانونی تحفظ حاصل ہے۔ بڑے اور مہنگے وکیل ان کے پے رول پر ہیں جس کی وجہ سے عد ل ان کی مرضی سے ہوتا ہے۔ دنیا کا بہترین نہری نظام ہونے کے باوجود غذائی اجناس میں کمی ہورہی ہے۔ ملک کے جن حصوں میں گندم اور کپاس پیدا ہوتی تھی، حکمران خاندانوں نے وہاں شوگر ملیں لگا کر چینی پیدا کرنی اور پھر سمگل کرنی شروع کر دی۔ یہی حال باقی اشیاء ضروریہ کا ہوا۔ تاجر، سمگلر، وزیر، مشیر اور اُن کے فرنٹ مین امیر کبیر ہوگئے اور عوام فقیر اور بدحال ہوگئے۔


رہی سہی کسر نو کر شاہی نے نکال دی اور عام آدمی سے جینے کا حق چھین لیا۔ عدالتوں اور کچہریوں پر بھی مافیانے کنٹرول حاصل کر لیا تو عام آدمی نے ذلت و رسوائی سے بچنے کے لیے سیاسی غنڈوں کے سامنے سجدہ ریز ہونے میں ہی آفیت جانی۔ سیاستدانوں اور اُن کے اشاروں پر ناچنے والی بیورو کریسی نے قبضہ مافیا کی سرپرستی شروع کر دی تو ہر شخص کے جملہ حقوق بحق پٹواری و تھانیدار محفوظ ہو گئے۔ جھوٹی ایف آئی آروں اور زمینوں کے ریکارڈ میں ردوبدل نے سار ا انتظامی ڈھانچہ تباہ کر دیا تو ملک کی آبادی کانوے فیصد سفید پوش طبقہ سیاسی اور انتظامی غنڈ ہ گردی بلکہ دہشت گردی کا شکار ہو گیا۔


نفسا نفسی، بے عدلی، بد انتظامی اور غنڈہ گردی کے اس دور میں عوام کے حق میں اُٹھنے ولی چند آوازوں میں ایک آواز سینٹر عثمان خان کاکڑ کی بھی تھی۔ بائیس کروڑ انسانوں کو آہ وبکا، چیخ و پکار، شور وغل، لیڈروں کی چیخ و چنگاڑ اور عام آدمی کی سسکیوں اور آہوں کی صاد کی ہنگامہ خیز فضا میں عثمان کاکڑ نے صدائے حق بلند کی تو مظلوموں، غلاموں، بے کسوں، بد حالوں اور مایوس انسانوں کا ترجمان بن گیا۔ وہ اسمبلی کے فلور پر ہوتا یا کسی جلسے جلوس یا محفل میں، وہ سچ کی ترجمانی کرتا وہ جھوٹ و فریت کی سیاست پر طنز کے تیر برساتا۔ بلوچستان کے دور دراز علاقے میں پیدا ہونے والا عثمان کاکڑ نہ کسی قبیلے کا سردار تھا نہ نواب اور جاگیردار تھا۔اُس کا تعلق ایک محنت کش خاندان سے تھا۔ اس نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے میں مسلم باغ کے عام سکول سے حاصل کی اور پھر بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد سٹوڈنٹ پالیٹکس میں حصہ لینا شروع کیا۔


وہ غریبوں اور مفلوک الحال لوگوں کے دکھ درد جانتا تھا۔ عثمان کاکڑ صرف بلوچستان ہی نہیں بلکہ سارے پاکستان کے غریبوں کی آواز تھا۔ عثمان خان کاکڑ پہلا نوجوان سیاستدان تھا جس نے بلوچستان سے کشمیر کے مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھائی۔ وہ بھارت اور افغانستان کے مسلمانوں کے دکھ درد کو بھی سمجھتا تھا اور ہمیشہ بھارتی سازشوں اور مکاریوں سے بچنے کی تلقین کرتا تھا۔ عثمان خان کاکڑ آ ج ہم میں نہیں رہا ہے مگر اس کی آواز زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گی۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged ,
51065

خیبرپختونخوا میں سیاحت ۔ محمد شریف شکیب

خیبر پختونخوا حکومت نے عید الاضحی پرصوبے کے پرفضاء مقامات پر سیاحوں کی آمد کے بارے میں رپورٹ جاری کر دی ہے رپورٹ کے مطابق عید کے چار دنوں میں صوبے کے سیاحتی مقامات پرملک کے مختلف علاقوں اور بیرون ملک سے 27لاکھ 70ہزارسے زائد افراد کی آمد سے 66ارب روپے کا کاروبار ہوا۔ رپورٹ کے مطابق سیاحت سے مقامی معیشت کو بھی 27ارب سے زائد کا فائدہ ہوا۔ عید کے دوران دس لاکھ 50سے زائد سیاحوں نے سوات کے علاقے بحرین، کالام، مالم جبہ اور سیدو شریف، دس لاکھ نے گلیات اور ایک لاکھ 20ہزار سیاحوں نے دیر بالا کے سیاحتی مقام کمراٹ کارخ کیا۔

وادی کاغان میں سات لاکھ سے زائد جبکہ چترال میں 50 ہزار سیاحوں کی آمد ہوئی۔عید کے دنوں میں صوبے کے بالائی علاقوں میں سیاحوں کی آمد سے مقامی لوگوں کے روزگار وآمدن میں بھی اضافہ ہوا جبکہ لاکھوں کی تعداد میں سیاح اب بھی صوبے کے سیاحتی مقامات میں سیر وتفریح کر رہے ہیں۔میدانی علاقوں میں گرمی کی شدت میں اضافے کی وجہ سے لوگوں کی بڑی تعداد نے صوبے کے سیاحتی مقامات کا رخ کرلیا ہے سیاحوں کی آمد سے ان علاقوں میں ٹرانسپورٹروں، ہوٹل انڈسٹری اور دیگر شعبوں سے منسلک افراد کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے۔

سڑکوں کی مخدوش حالت، قیام و طعام کے مناسب انتظامات نہ ہونے اور بارشوں سے سیلاب کے خطرات کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں سیاحوں کی آمد اس بات کا ثبوت ہے کہ خیبر پختونخوا میں سیاحت کے غیر معمول مواقع موجود ہے۔ انہی سطور میں ہم نے صوبائی حکومت کو یہ تجویز دی تھی کہ صوبے میں ترقی کے لئے سالانہ ایک شعبے کو فوکس کیا جائے۔ خیبر پختونخوا میں سیاحت، معدنیات، جنگلات، اور آبی وسائل کو ترقی دینے سے یہ صوبہ معاشی طور پر خود کفیل ہوسکتا ہے اور ہمیں بینکوں سے قرضہ لینے یا وفاق سے مدد مانگنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔

ترقی کے ان وسائل پرباری باری کام شروع کرکے ایک سال کے اندر انہیں مکمل کرنے کا ٹائم فریم مقرر کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ صوبائی حکومت کے پاس مزید دو سال کی آئینی مدت باقی ہے۔ اگر رواں مالی سال کو سیاحت کی ترقی کا سال قرار دیا جائے۔ اورتمام وسائل کا رخ اسی شعبے کی ترقی کی طرف موڑ دیا جائے تو اگلے سال صوبے میں سیاحت کے لئے باہر سے آنے والوں کی تعداد میں پانچ سو فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔ اور صوبے کی آمدن میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس صوبے کو قدرتی حسن سے نہایت فیاضی کے ساتھ نوازا ہے یہاں سرسبز و شادات کھیت کھلیان ہیں،شور مچاتے دریا، گنگناتی ندیاں، گھنے جنگلات، فلک بوس برف پوش پہاڑاور بلند آبشار بھی ہیں، انواع و اقسام کی جنگلی حیات اورٹھنڈے میٹھے پانی کے چشمے بھی ہیں۔

یہاں کا ہر منظر نظروں کو خیرہ کرتی ہے۔ گلیات، وادی کاغان، الائی، شانگلہ، بونیر، بحرین، مالم جبہ، کالام، مرغزار، کمراٹ، لواری، وادی بمبوریت، مداک لشٹ، برموغ لشٹ، کاغ لشٹ، شندور اور بروغل وادی سمیت صوبے کے دیگر سیاحتی مقامات حسن قدرت کے شاہکار ہیں۔ وہاں تک پہنچنے کے لئے ہموار سڑکوں کی تعمیر، سیاحوں کے قیام اور سیکورٹی کی مناسب سہولیات فراہم کرنے سے یہ خطہ سیاحوں کے لئے یورپ، بنکاک، کوالالمپور اور سوئزرلینڈ سے زیادہ پرکشش بن سکتا ہے۔محکمہ سیاحت نے صوبے کے بعض مقامات پر کیمپنگ کی بہترین سہولیات انتہائی مناسب ریٹ پر مہیا کی ہیں کیمپنگ کی یہ سہولیات تمام سیاحتی مقامات پر مہیا کرنے کی ضرورت ہے تاہم سب سے اہم سڑکوں کی تعمیر، توسیع و مرمت اور موثر نگرانی کی ہے۔ کمراٹ، کالام اور چترال میں سڑکوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہہ ہے۔

گذشتہ ایک مہینے کے دوران صرف چترال میں مخدوش سڑکوں کی وجہ سے دس ٹریفک حادثات ہوچکے ہیں جن میں کئی قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوگئیں۔ایسی پرخطر،تنگ اور خستہ حال سڑکوں کے باوجود چار دنوں میں پچاس ہزار سیاحوں کی چترال آمد ثابت کرتا ہے کہ اس خطے میں سیاحت کا کتنا پوٹیشنل موجود ہے اور ہم نے 70سالوں تک اپنے سیاحتی مقامات کو دنیا سے دانستہ پوشیدہ رکھ کر اپنے ملک اور قوم کے ساتھ کتنی بڑی زیادتی کی ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51053

آزادکشمیر میں پی ٹی آئی کی حکومت سازی اور مستقبل – پروفیسرعبدالشکورشاہ

سیاسی جوڑ توڑ اور اتحادپارٹی سیاست کا حصہ ہے۔ پاکستان، گلگت بلتستان اور آزادکشمیر میں سیاسی اتحادکا عروج و زوال سیاسی مقاصد کے حصول تک محدود ہے۔ متحدہ اپوزیشن پارٹیز (سی او پی (1964ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی (ڈی اے سی 1968، پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے)1977، تحریک برائے بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی)1983،اتحاد برائے بحالی جمہوریت (اے آر ڈی)2002 اور موجودہ پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ (پی ڈی ایم) پاکستان میں اقتدار کے لیے سیاسی اتحاد کے عروج و زوال کی زندہ مثالیں ہیں۔ بڑی سیاسی جماعتیں اقتدارکے حصول کے لیے روائیتی اقتدار کی سیاست کی طرف گامزن ہو جاتی ہیں۔اگرچہ پی ڈی ایم میں شامل اکثر جماعتیں اقتدار کا حصہ ہونے کی وجہ سے یہ اتحاد کچھ مختلف ضرور تھا مگر اقتدار میں شامل پارٹیاں استعفی دے کر خالص اپوزیشن کرنے کے لیے تیار نہ تھی اور نہ ہیں۔دراصل یہ اتحاد اقتدار میں اپنے حصے کی وسعت کے لیے تشکیل دیا گیا ہے جو ماضی کی طرح مفادات کی نظر ہوتا جا رہا ہے۔

پیپلز پارٹی مفاہمتی سیاست کے نظریہ کے تحت مخلوط طرز کی پی ڈی ایم سے علیحدگی اختیار کر چکی ہے اور دیگر پارٹیوں کا جوش و خروش بھی ماند پڑھ چکا ہے۔پاکستان میں چند ہی مثالیں ملتی ہیں جہاں احتجاج اور مظاہروں کے زریعے حکومت کو رخصت کیا گیا ہو۔اگرچہ پی ڈی ایم نے دو روائیتی حریفوں ن لیگ اور پی پی کو مختصر عرصے کے لیے اکھٹا کر لیا مگر یہ اتحاد زیادہ دیر نہ چل سکا۔ پی ڈی ایم نے اپنی بقاء کے علاوہ کوئی کارہائے نمایاں سرانجام نہیں دیا۔ پی ٹی آئی حکومت کو سب سے بڑا خطرہ مہنگائی کے طوفان سے ہے جو آئے روز شدت اختیار کر تا جا رہا ہے۔پی ڈی ایم میں اختلافات کی وجہ سے گلگت بلتستان کے بعدآزادکشمیرانتخابات میں پی ڈی ایم طرز کی کشمیر ڈیموکریٹک مومنٹ(کے ڈی ایم) بنانے میں ناکام رہی۔اگر پی ڈی ایم متحد رہتی تو کشمیر میں ن لیگ، پی پی اور ایم سی مل کر پی ٹی آئی کا پتہ صاف کر سکتی تھی مگر ایسا ہوا نہیں۔

ن لیگ گلگت بلتستان کی طرح کشمیر میں بھی برسراقتدار تھی مگر پی ٹی آئی نے اس کا صفایا کر تے ہوئے محض چار سیٹوں تک محدود کر دیا ہے۔ن لیگ کی طرف سے حکومت مخالف تحریک چلانا خوش فہمی سے زیادہ کچھ نہیں۔پیپلز پارٹی پاکستان میں پی ٹی آئی کے ساتھ خفیہ اتحاد کی بدولت گیارہ سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔یہ آزادکشمیر الیکشن سے پہلے ہی عیاں تھا کیونکہ پی ٹی آئی کی ساری بیٹنگ ن لیگ کے خلاف تھی۔ یہ بات بھی خارج از امکان نہیں ہے کہ ن لیگ کے اسٹیبلشمنٹ مخالف نظریہ کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو ڈیل کے بدلے ڈھیل ملی ہواور دوسال بعد اسلام آباد میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی پی ٹی آئی میں فاروڈ بلاک بنا کر آزادکشمیر کی حکومت پیپلز پارٹی کے حوالے کر دی جائے۔ ایم سی کے پاس کھونے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے پانچھ سال ایک سیٹ پر ہی گزارہ کرنا ہو گا۔ پی ٹی آئی آزادکشمیر کو فی لوقت کسی بڑے خطرے کا سامنا تو نہیں ہے تاہم محبت، جنگ اور سیاست میں کب کیا ہو جائے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ قابل افسوس پہلو یہ ہے کہ کسی بڑی سیاسی پارٹی نے کشمیر ایشوپر الیکشن لڑنا تو درکنار کشمیر کو بطور سیاسی نعرے کے بھی استعمال نہیں کیا۔

اگر پی ٹی آئی کشمیر ایشو سے متعلق کوئی غلطی نہیں کرتی تو کم از کم مرکز میں اقتدار کی تبدیلی تک پی ٹی آئی کو کوئی خطرہ درپیش نہیں ہے۔ ن لیگ اور پی پی نے کشمیر کو پاکستان میں ضم کرنے کے پروپگنڈے پر جو سیاست کی ہے اب وہ اس انتظار میں ہیں کہ پی ٹی آئی کشمیر کے حوالے سے کوئی ایسی غلطی کرے تاکہ انہیں کشمیر کی سالمیت اور شناخت کی ڈھال مل جائے۔ آزادکشمیر الیکشن نے انتخابات کے ناقص نظام کی بھی کلی کھول دی ہے۔ ابھی تک ہم کوئی ایسا انتخابی نظام لانے میں کامیاب نہیں ہوئے جس کے نتائج سب پارٹیوں کے لیے قابل قبول ہوں۔ ہارنے والی پارٹی ہمیشہ کی طرح دھاندلی کے الزامات کا سہار ا لیتی ہے۔ البتہ پیپلز پارٹی خوش ہے16سیٹوں کے وعدے پر11ملی۔الیکشن کمیشن ضابطہ اخلاق کو لاگو کروانے میں پوری طرح ناکام رہا۔ بعض حلقوں میں پارٹیوں نے اپنے عہدیداروں کے بیٹوں کو ضلعی الیکشن آفیسر تعینات کر وا رکھا تھا۔ رشوت، تشدد، بلیک میلنگ، سیاسی پیش کش، دھکمیاں، برادری ازم، نسل پرستی اور سیاسی ایڈجسٹمنٹ وغیرہ نے اہم کردار ادا کیا۔

بلاول بھٹو اورمریم نواز کی محنت گلگت بلتستان کی طرح رائیگاں گئی۔اب پی ٹی آئی کا مستقبل مرکز میں حکومت کی تبدیلی سے وابستہ ہے۔ مرکز میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی آزادکشمیر میں سیاسی تبدیلی آجانی ہے۔ پی ٹی آئی آزادکشمیر کو فی الوقت ایک بڑا چیلنج وزارتوں کے دانشمندانہ تقسیم کا ہے تاکہ مرکز میں حکومت کی تبدیلی کے باوجود بھی پی ٹی آئی اپنا وجود قائم رکھ سکے۔ پی ٹی آئی کو یہ بات بھی ملحوظ خاطر رکھنی ہو گی کہ برادری کی بنیاد پر دیئے گئے ٹکٹ ان کے لیے مشکل کھڑی کر سکتے ہیں۔برادری اور سفارش کی بنیاد پر دیئے گئے ٹکٹس ہی پی ٹی آئی میں فاروڈ بلاک کی داغ بیل ڈالیں گے۔پی ٹی آئی آزادکشمیر قیادت کو مسٹر خان کی طرف سے ملنے والی تھپکی آزادکشمیر میں حکومت کے تسلسل کے لیے ناکافی ہے۔

آزادکشمیر الیکشن مسلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کا ایک بڑا زریعے بن سکتا تھا مگر تما م پارٹیوں نے کشمیر ایشو کوسیاست کا محور و مرکز بنانے کے بجائے برانڈیڈ سیاست کا سہارا لیتے ہوئے مسلہ کشمیر کو پس پشت ڈال دیا۔تما م سیاسی پارٹیوں کو الیکشن اصلاحات کی طرف توجہ دیتے ہوئے الزام در الزام کی سیاست کو دفن کرنا چاہیے۔مگر نظام اور اصلاحات کی طرف یہ کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے کیونکہ انہیں یقین ہے جلد یا بدیر یہ بوسیدہ نظام ہی ان کے لیے کوئی راہ نکال لے گا۔ روائیتی حریف پی پی اور ن لیگ کی جانب سے پی ٹی آئی کو اپنے خلاف کسی متحدہ اپوزیشن کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔پی پی پاکستان کی طرح کشمیر میں بھی ن لیگ کو اپوزیشن کے اہم عہدوں سے نکال باہر کر نے میں کامیاب ہو جائے گی۔ یوں لگتا ہے پی ٹی آئی، پی پی اور اسٹیبلشمنٹ تینوں نے مل کر ن لیگ کی بیساکھیاں توڑنے کاتہیہ کر رکھا ہے۔ماضی میں بھی آزادکشمیر میں مفادات کی سیاست کی گئی ہے کسی بھی اپوزیشن پارٹی نے حقیقی معانی میں اپوزیشن کا کردار ادا نہیں کیا ہے۔

پی ٹی آئی کے خلاف ن لیگ اور پی پی کے لیے مرکز میں تبدیلی سے پہلے صرف ایک موقعہ ہے کہ یہ وزات عظمی کے عہدے کی تفویض پر پی آئی میں فاروڈ بلاک بنا کرحکومت سازی کی کوشش کریں۔ مگر یہ دونوں کے لیے فائدے مند نہیں رہے گا کیونکہ تمام اہم وزارتیں اور عہدے تو فاروڈ بلاک اور دو سیٹوں والے اتحادی لے اڑیں گے اور ان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا اور یہ اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ اگر ن لیگ اور پی پی پی ڈی ایم میں ایک ساتھ ہوتی تو اس وقت آزادکشمیر میں صورتحال بلکل مختلف ہوتی۔حکومت سازی کے مکمل ہونے تک کا عرصہ پی ٹی آئی کے لیے کافی آزمائش طلب ہے خاص کر ان حلقوں میں صوابعدیدی عہدوں کے زریعے وزارتیں دینی اشدضروری ہیں جہاں سے ن لیگ اور پی پی نے میدان مار ا ہے۔ اس سے پی ٹی آئی کی نہ صرف گرفت مضبوط ہو گی بلکہ اپوزیشن کے لیے حکومت مخالف عوامی مہم چلانے میں معاون ثابت ہو گی۔ پی ٹی آئی کے آزادکشمیر میں مستقبل کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ وہ دو سال کے قلیل عرصے میں مرکز سے کتنے زیادہ فنڈز حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔ اگر پی ٹی آئی نے دوسال کے اندر مرکز سے خاطر خواہ فنڈز حاصل کرنے کے ساان کے شفاف استعمال کو یقینی بنایا تو شائد مرکز میں حکومت کی تبدیلی آزادکشمیر میں کسی بڑی سیاسی تبدیلی کا باعث نہ بن سکے۔ 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
51051

نوائے سُرود – دلخراش سچائی – شہزادی کوثر

دنیا کا نظام ازل سے ایک ہی تسلسل سے رواں ہے ۔شب و روز کی تبدیلی ،موسموں کا تغیر۔ مہینوں اور سالوں کا ایک ہی میعاد مقرر میں بدل کر دنیا کا نیا نقشہ پیش کرنا ہمیں پیغام دیتا ہے کہ بدلاو نظام کائنات کا لازمی جزو ہے۔ماہ وسال اور بدلتے اوقات یقین دہانی کرواتے ہیں کہ اگر کسی چیز میں زندگی ہے تواس میں ٹھہراو کبھی نہیں ہو گا کیونکہ ٹھہراو کا مطلب ہے جمود،سکوت اور موت۔۔۔ اس کے بر عکس زندگی اپنے اندر تغیر کی ہزار داستانیں سموئے ہوئے ہے جن سے حیات انسانی میں رنگا رنگی اور خوب صورتی ہے۔ ہر گزرتا سمے ایک رفتار سے اپنی منزل کی طرف بڑھتا جا رہا ہے اس کی راہ میں کوئی بھی رکاوٹ حائل نہیں ہو سکتی چاہے آندھی ہو یا طوفان بادوباراں،سیلاب ہو یا زلزلہ، قدرت کی کوئی طاقت وقت کی رفتار کومدہم نہیں کر سکتی، وقت پہ کسی کا زور نہیں چلتا اور نہ ہی اسے لگام ڈال کر اپنے قبضے میں کرنا ممکن ہے۔ گویا وقت ایک منہ زور گھوڑا ہے جسے تازیانے اور لگام کی ضرورت نہیں پڑتی ، اسی رفتار کے ساتھ انسان کی عمر بھی گزرتی جا رہی ہے                                                                        

رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیئے تھمے            

نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں                

اسی گردش دوراں میں کیسے کیسے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ہر پل کے ساتھ تجربات کا ایک بڑا ذخیرہ وجود میں آتا ہے  اور آنے والی نسل اس تجربے کو بنیا د بنا کر اپنی زندگی کی عمارت کھڑی کرتی ہے ۔عروج و زوال کے بیسیوں افسانے نیلے اسمان تلے وجود میں اتے ہیں اور دھرتی کے سینے پہ کئی عبرت انگیز واقعات کی مہر ثبت ہوتی ہے ۔ وقت کی اس بہتی دھارا میں انسانی خدو خال سے لے کر پسند ،نا پسندیدگی،سوچ ،حالات ،نفسیات اور معیار تک بدل جاتے ہیں۔ سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہونے والا تقدیر  کی گردش میں پس کر کاسئہ گدائی کا مستحق بنتا ہے اور کوئی خاک نشینی سے تخت نشینی کا حقدار بن جاتا ہے ۔

اپنے زور بازو سے زمانے کا رخ موڑنے کی صلاحیت رکھنے والا اس منزل پہ بھی پہنچتا ہے جب اس کے اعضا زوال پذیر ہونے لگتے ہیں ۔بینائی اتنی کمزور ہو جاتی ہے کہ اپنی اولاد کو پہچاننا بھی دشوار لگتا ہے ،ہاتھوں میں رعشہ کی وجہ سے پیالی نہیں پکڑی جا سکتی، پہاڑ کی چوٹییوں کو سر کرنے والا بغیر لاٹھی کے ایک قدم بھی نہیں اٹھا پاتا ۔ جس  چہرے پہ کبھی تابندگی کھیلا کرتی تھی وہ جھریوں سے اٹ جاتا ہے ، جس پیشانی پہ ماہتاب کا نور دمکتا تھا اس پہ گہری لکیروں کی دراڑیں پڑ جاتی ہیں ۔جن آنکھوں کی چمک میں خوشیوں کی نوید ہوتی تھی وہ چمک ماند پڑ جاتی ہے ،جن زلفوں پہ شب ہجراں کا گماں ہوتا تھا وہ چاندی کے تاروں میں ڈھل جاتے ہیں ۔۔۔۔   وقت کتنا ظالم ہے ۔زمین کا سینہ چیر کر جوئے شیر نکالے والے زندگی کی اس موڑ پہ پہنچ جاتے ہیں کہ اپنی ناک پہ بیٹھنے والی مکھی کو بھی نہیں اڑا سکتے ۔عظیم الشان محلات اور مضبوط قلعے بنا کر خود کو ناقابل شکست تسلیم کروانے والے وقت کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔

ایسی ہستیاں بھی زوال کا شکار ہو گئیں جن کے سامنے دنیا گھٹنے ٹیکا کرتی تھی ۔تاریخ عالم ایسے ناموں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے اپنی شجاعت ،طاقت واختیار اور ذہانت سے کارہائے نمایاں انجام دیئے لیکن گزرتے پل کے ساتھ یہ سب کچھ ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ عروج وزوال کے اسی کھیل سے یہ نظام قائم ہے۔ ہر شخص اپنے حصے کا کام کرنے کا پابند ہو کر دنیا میں آتا ہے شیکسپئیر کے بقول ہر شخص اداکار ہے ،دنیا کے اسٹیج پہ اپنی اداکاری کا جوہر دکھا کر روانہ ہوتا ہے لیکن یہ اس اداکار پہ ہی منحصر ہے کہ وہ اپنے کردار میں کتنی جان ڈالتا ہے اور لوگوں کے ذہنوں پراس کا کتنا  اثر ثبت کرپاتا ہے۔ دینا کے اس اسٹیج پہ بچپن۔ لڑکپن، جوانی ،ادھیڑ عمر اور سب سے مشکل مرحلہ بڑھاپا ہے جن سے بہت سے لوگوں نے گزرنا ہوتا ہے۔ جو لوگ اس منزل پہ پہنچ چکے ہیں اگر ان کی زندگی با مقصد اور کامیاب گزری ہے تو انہیں ایک طرف خوشی اور دوسری جانب رنج بے سبب کا دکھ بھی ہوتا ہے۔ خوشی کے پیچھے وجہ ان کی مسلسل محنت کامیابی اولاد کی خوشحالی ،تندرستی اور کامل ایمان ہے،لیکن دامن گیر ہونے والے رنج کی وجہ اور کچھ نہیں صرف یہ بات ہوتی ہے کہ                                                                                          

جھک جھک کے ڈھونڈتا ہوں جوانی کدھر گئی۔۔۔                  

جب وہ جان محفل ہوا کرتے تھے ان کے آگے پیچھے لوگوں کا ہجوم ہوتا تھا ،عہدہ اختیار ،طاقت ۔توانائی حسن ،جوانی ہر نعمت سے مالا مال تھے اور اب ہر چیز ساتھ چھوڑ گئی۔ دوست احباب دوسرے آگے پیچھے پھرنے والے اب سلام تک کرنا گوارا نہیں کرتے ،ہم عمر اور ہم نوالہ دنیا چھوڑ گئے، جوان لوگ پاس بیٹھنا نہیں چاہتے، اولاد اپنے کاموں اور دنیا داری کے پیچھے بھاگ رہی ہے ،پاس بیٹھ کر بات کرنے اور دل بہلانے والا کوئی نہیں۔ صبح سے شام تک اپنے کمرے کی دیواریں تکتے تکتے یہ قابل رحم ہستیاں اس انتظار میں ہوتی ہیں کہ اب کوئی آ کر پاس بیٹھے گا ہم پر توجہ دے گا ۔میرے بیٹے اپنے دیدار سے میری بے نور آنکھوں کی تشنگی دور کریں گے ۔لیکن بچے ماں باپ کو وقت دینا بھول جاتے ہیں۔جن کی دعاوں کی برکت سے دنیا کی آسائشیں حاصل ہوئی ہیں اب ان ہاتھوں کے لمس کو ہی فراموش کر دیتے ہیں ۔

  پیسے کے عشق میں اللہ کی ان رحمتوں سے غافل ہو جاتے ہیں جو ماں باپ کی شکل میں ان کے گھر کے کسی کمرے میں منتظر ہوتے ہیں ۔ اولاد کو سوچنا چاہیے کہ نظرانداز کرنے کا دکھ کتنا شدید ہوتا ہے اوران  کمزور دلوں پہ کیا گزرتی ہوگی جو اولاد کی خوشی کی خاطر اپنی ضرورتوں کوبھی قربان کر چکے ہیں۔ اب ان کی جوانی اور توانائی تو واپس نہیں آسکتی لیکن اولاد کی صورت دیکھ کر جو روشنی ان کی آنکھوں میں پیدا ہوتی ہے اسے انہیں محروم کرنا اولاد کی سیاہ بختی ہے۔ وہ اپنا زمانہ گزار چکے لیکن زندگی کی کچھ مہلت انہیں ملی ہے ان کی حیثیت چراغ سحری کی سی ہے کہ کسی بھی لمحے تیز ہوا کا جھونکا اسے بجھا سکتا ہے ،ناتوانی کی وجہ سے ان کا دل ذود رنج اور شکستہ ہو جاتا ہے کہ بہت معمولی بات بھی انہیں ناگوار گزر سکتی ہے  کیونکہ انہیں اس بات کا شدید احساس ہوتا ہے ۔۔۔۔                                  

محسن ہمارے ساتھ عجب حادثہ ہوا                    

ہم رہ گئے ہمارا زمانہ گزر گیا                         

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged ,
51049

مادرملت؛ محترمہ فاطمہ جناح-(31جولائی،یوم پیدائش کےموقع پر خصوصی تحریر)-ڈاکٹر ساجد خاکوانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

                 کل آسمانی کتب میں اللہ تعالی کی کوئی مثال موجود نہیں ہے،اللہ تعالی نے کہیں یہ نہیں کہاکہ میں فلاں پہلوان سے زیادہ طاقتورہوں یا فلاں امیرآدمی سے اتنے گنازیادخزانوں کامالک ہوں یافلاں بادشاہ سے بھی زیادہ بڑے اقتدارکامالک ہوں یا فلاں اور فلاں اہل دانش سے اتنے گنازیادہ عقل و فہم رکھتاہوں لیکن ایک جگہ ضرورارشادفرمایاگیاکہ ماں جیسی ہستی سے بھی سترگنازیادہ رحم کرنے والاہوں گویاعورت ذات کااللہ تعالی کے ہاں کتنابڑامقام ہے۔قرآن مجیدمیں تمام انبیاء کے ساتھ خواتین کاذکرہے تاہم انبیاء علیھم السلام سے وابسطہ کتنے مردانہ رشتے تو دوزخ کی نذر ہوگئے جیسے حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹااور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا والدلیکن ان معلمین انسانیت سے کوئی زنانہ رشتہ داخل دوزخ نہیں ہوایہاں تک کہ ایک نبی حضرت موسی علیہ السلام کی پرورش کے عوض فرعون جیسے دشمن خداکی بیوی بھی دولت ایمان سے مالا مال کر دی گئی۔کم و بیش گزشتہ چارہزارسالوں سے حج وعمرہ کی عبادت اس زمین کے سینے پر جاری و ساری ہے،اس عبادت کا مقتدر حصہ ایک مامتا کی یاد میں اداکیاجاتاہے،جب ایک ماں اپنے لخت جگرکے لیے پانی کی تلاش میں سرگرداں رہی۔یہ عبادت اتنی باریک بینی سے اداکی جاتی ہے کہ جہاں وہ ماں اپنے معصوم کے لیے دوڑپڑی وہاں تمام افراد دوڑناشروع کردیتے ہیں اور جہاں وہ ماں تھم گئی وہاں تمام حجاج بھی تھم تھم کر چلنے لگتے ہیں۔عورت ذات کا یہ مقام خاص عطیہ خداوندی ہے جس سے اللہ تعالی کی رحمت کااندازہ کیاجاسکتاہے کہ دنیامیں وارد ہونے والے انسان کا وجود بھی عورت ذات کامرہون منت ٹہرا۔

                مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کاتذکرہ تاریخ پاکستان کاایک شاندارباب ہے۔کہاجاتاہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کاہاتھ ہوتاہے،اسی طرح قائداعظم محمدعلی جناحؒ کی جملہ کامیابیوں کے پیچھے بھی ان کی خواہرحقیقی محترمہ فاطمہ جناح کا بہت بڑا کرداررہاہے۔تحریک پاکستان کے دوران سفروحضراور خاص طور پر آخری عمر میں بزرگی اور بیماری اورعالم نقاہت میں محترمہ فاطمہ کی شکل میں قائد اعظم ؒکو ایک مضبوط لاٹھی میسر آگئی تھی۔قائداعظم کی اولاد کے بارے میں مشہورہے کہ وہ مسلمان نہ ہوئی چنانچہ اولاد سے لاتعلقی کارویہ بہن سے قربت کا مقدمہ بنتاچلاگیااور ان بہن بھائی نے مل کرپاکستان کی تاسیس کی جو یقیناََفتح مکہ کے بعدتاریخ اسلام کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔قائداعظم ؒ کی بعض تحریروں سے اندازہ ہوتاہے کہ انہیں اپنی بہن کاکتنا مضبوط سہارامیسرتھا جس کے باعث وہ اس چومکھی لڑائی میں پہاڑ کی مانند استقامت اور صبر کی مثال بنے رہے۔قائداعظم ؒ نے اپنی تحریروں میں کھل کر اپنے ساتھیوں کی بے وفائیوں اور ان کے ناقابل اعتمادہونے کا ذکر کیاہے لیکن ان حالات میں ان کی رازدان اور قریبی مخلص مشیر ان کی اپنی چھوٹی بہن ہی ہوتی تھیں جس کے باعث امت مسلمہ کے لیے ایک نایات تحفہ تخلیق ہوسکا۔قیام پاکستان میں قائداعظم کی طرح محترمہ فاطمہ جناح بھی امت مسلمہ کی ایک بہت بڑی محسنہ خاتون ہیں،اللہ تعالی ان کے درجات بلند فرمائے اور انہیں اپنے خاص جوار رحمت میں جگہ عطافرمائے اور کی مرقد کو جنت کے باغات میں سے ایک باغ بنادے،آمین۔

                محترمہ فاطمہ جناح31جولائی 1893ء کو پیداہوئیں،جناح پونجا اور بی بی مٹھی کے ہاں یہ سب سے آخری اولاد تھی۔ سات بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی اورظاہر ہے لاڈلی بھی۔یہ کراچی میں وزیرمنشن کی تیسری منزل پر کرائے کاایک مکان تھا۔1901ء میں پونجاجناح کی رحلت ہوئی توفاطمہ ابھی بہت چھوٹی تھیں،سب سے بڑے بھائی محمدعلی جناح نے باپ کی کمی محسوس نہ ہونے دی اور یتیم بہن کے سر پر دست شفقت رکھااوران کی پرورش اپنے ذمہ لے لی۔بہت جلد یہ لوگ بمبے منتقل ہوگئے جہاں ابتدائی تعلیم کے لیے فاطمہ کو ایک مقامی اسکول میں داخل کردیاگیا۔وقت پر لگاکر اڑتارہا اور ننھی فاطمہ نے اپنے تعلیمی مراحل بہت تیزی اور کامیابی کے ساتھ مکمل کر لیے۔پیشہ ورانہ تعلیم کے لیے یونیورسٹی آف کلکتہ کے ڈاکٹرآراحمد ڈینٹل کالج میں داخلہ لے لیا۔یہ 1923ء کاسال تھا جب بمبے شہر میں ڈاکٹرفاطمہ جناح نے اپنے دندانی مطب کاآغاز کر دیا،اس طرح سے زندگی کے عملی نشیب و فراز پیش آنے لگے۔1929میں جب ان کی بھرجائی رتن بائی،جو کہ محمدعلی جناح کی زوجہ تھیں،کاانتقال ہواتو وہ اپنے بڑے بھائی کی دیکھ بھال کے لیے بمبے میں ہی ان کی رہائش گاہ پر منتقل ہوگئیں اور پھر محمدعلی جناح کے آخری دم تک ان کے ساتھ رہیں۔اس دوران بھائی کی خدمت سمیت ان کے جملہ معاملات میں ان کی معاونت،مشاورت اور کبھی کبھی راہنمائی کافریضہ بھی سرانجام دیتی رہیں۔

                خاص طورپر جب تحریک پاکستان جوں جوں زور پکڑتی گئی تودوسری طرف قائداعظم کی صحت بگڑتی چلی گئی تو اس دورانیے میں قائدکا کمزوروناتواں ڈھانچہ اس چھوٹی بہن کے خدادادسہارے ہی کھڑارہا۔قائدکے کینسرکاعلم قائد اور طبیب کے علاوہ صرف محترمہ فاطمہ جناح کو تھا۔اگر یہ خبر باہر نکل جاتی توتقسیم ہند میں معمولی تاخیرسے بھی علامہ اقبال کاخواب تشنہ تعبیررہ جاتا۔اگرچہ خواتین کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کے لیے بات کو چھپانا ممکن نہیں رہتااوروہ کہیں نہ کہیں رازمحمل اگل دیتی ہیں لیکن قدرت نے جس سے جتنابڑاکام لیناہو اس کوحوصلہ اورظرف بھی اتنا بڑاملتاہے۔ کم و بیش دس سالوں تک ایک رازکو دبائے رکھناجو دیمک کی طرح قائد کے جسم کو چاٹتاچلاجارہا تھاصرف فاطمہ جناح جیسی خواتین کا ہی خاصہ ہے۔قائدکی انگریزوں اور ہندؤں سے مسلسل ملاقاتیں،مزاکرات،نزاعات اور معاہدات اس تحریک کے دوران پیش آتے رہے اور فاطمہ جناح کے ساتھ ساتھ دیگر خواتین بھی ان مراحل میں مردوں کے شانہ بشانہ ہوتی تھیں،ایسے ماحول میں خود کو آلودگی سے بچانا کس قدر مشکل مرحلہ ہوتاہے خاص طور پر خواتین کے لیے۔چنانچہ تقسیم کے وقت ہندوستان کے وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اپنی کتاب میں اعترافات کے عنوان سے اپنے سے منسوب متعدد تعلقات کا ذکر کیاہے لیکن آفرین ہے امت مسلمہ کی اس خاتون راہنماکے لیے جس کا کسی غیرمرد سے ہاتھ ملانا بھی کوئی مورخ نقل نہیں کرسکا۔بھائی اور بہن کے  ان پہاڑوں جیسے عظیم اور بے داغ کردارنے ہی تاریخ کے منہ زوردریاکے آگے ایسا بند باندھاکہ اس کو اپنا رخ موڑنے پر مجبورکردیا۔

                تحریک پاکستان میں خواتین کو متحرک کرنے کی غرض سے قائدنے خواتین کی ایک تنظیم بنائی تھی جس کی اولین راہنما محترمہ فاطمہ جناح تھیں۔اس تنظیم نے پورے ہندوستان کی خواتین میں پاکستان کامطلب کیا     لاالہ الا اللہ کی روح پھونک دی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان بھر کی مسلمان خواتین نے تحریک پاکستان کا ساتھ دینا شروع کر دیاتھا۔تقسیم کے بعد مہاجرین کا مسئلہ ایک سنگین شکل اختیارکرتاجارہاتھا،پورے ہندوستان سے خشکی کے راستے مغربی پاکستان میں اورسمندرکے راستے مشرقی پاکستان میں لٹے پٹے اور کٹے پھٹے قافلے پہنچ رہے تھے۔ان مہاجرین میں ایسی عورتوں کی بہت بڑی اکثریت شامل تھی جن کے مرد شہیدہوچکے تھے،بہت زخمی حالت میں تھے یا پھر لاپتہ تھے۔غیرمسلم اقوام نے ہجرت کرنے والوں پر ظلم کے وہ پہاڑ توڑے تھے کہ الامان والحفیظ۔فاطمہ جناح کی قیادت میں مسلمان خواتین نے مہاجرعورتوں کی مسائل ہنگامی اور جنگی بنیادوں پرحل کر نا شروع کیے۔نوزائدہ ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پاس مالی وسائل اگرچہ نہ ہونے کے برابر تھے لیکن اس امت کی کوکھ دورغلامی میں بھی جراتمندقیادت کو جنم دیتی رہی ہے جس کے نتیجے میں فاطمہ جناح کے ساتھ اس وقت کی مسلمان راہنماخواتین نے مہاجرین کے خیموں میں پہنچ پہنچ کر بے آسراخواتین کے مسائل حل کیے۔محترمہ فاطمہ جناح کا سیاسی اور سماجی تجربہ انہیں پاکستانی سیاست میں بھی لایا،اپنے صدارتی انتخاب میں جب وہ مشرقی پاکستان گئیں تو ڈھائی لاکھ کامجمع انہیں دیکھنے کے لیے موجود تھااور ڈھاکہ سے چٹاگانگ جانے والی ریل گاڑی بائیس گھنٹے تاخیر سے پہنچی کیونکہ مادرملت کے دیدارکامشتاق پاکستانیوں کاجم غفیرباربار گاڑی کے رکنے کاباعث بنارہا۔محترمہ فاطمہ جناح نے قائداعظم ؒ کی سوانح حیات”میرابھائی“ بھی تحریرکی لیکن ابھی وہ کتاب تکمیل کے مراحل میں ہی تھی کہ 9جولائی1967ء کوداعی اجل آن پہنچا۔محترمہ کو بھائی کے پہلو میں آسودہ خاک کردیاگیا۔

                امہات المومنین اور حضرت زینب بنت علی ؓسے قافلہ سخت جاں کے سفرکاجوآغاز ہواوادی وادی،قریہ قریہ اور منزل منزل وہ قافلہ چلتاچلتاجب ہندوستان کی تقسیم پر براجمان ہواتو یہاں بھی ملت کی ایک ماں کی چادر عفت و عصمت کاخیمہ اس پر سایہ زن تھا۔خواتین کاایک کردارسیکولرازم نے پیش کیاہے جہاں سے انسانیت کو سوائے ہوس نفس،شرمندگی و ندامت اورخاندانی نظام کی تباہی کے کچھ میسر نہیں آیااور ایک کردار تاریخ اسلام نے پیش کیا جہاں آفتاب و ماہتاب کی کرنیں بھی ادب و احترام کے باعث کچھ فاصلے پر اپنی آنکھیں موند لیتی ہیں اوراگر ایمان و یقین کی یہ دیویاں اپنے دامن نچوڑیں تو ملا الاعلی سے اترے ہوئے فرشتے وضو کرنے کے لیے باہم سبقت لے جانا چاہیں۔حقوق نسواں کے نام پراستحصال نسائیت کی نام نہاد تحریکوں نے اس آسمان کے نیچے جس ننگ دیں ننگ قوم اور ننگ وطن کردارکامظاہرہ کیااس کے مقابلے میں آج بھی ڈاکٹرعافیہ صدیقی کے نام پرامت کی بیٹیاں ایمان و عزم و ہمت اور صبر و استقامت کی ایک تاریخ رقم کررہی ہیں۔پاکدامنی اور شرم و حیاء سے مرکب یہ نسوانی کردار تاقیامت تعلیمات اسلامیہ سے پھوٹتے رہیں گے اور عالم انسانیت کی راہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں گے کہ کائنات کے رنگ وجود زن سے مستعارہیں اوراسی کی کوکھ سے جنم لینے والے اسی کی پاؤں تلے اپنی جنت کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
51022

مٹی کا مزدور ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

زندگی کی تجارت میں آخری سودا ہوتا ہے کہ روٹی ختم ہو جائے تو نوکری کر لو، سو میں نے بھی مزدوری شروع کی، اور اب میں ایک مٹی کی کان کا مزدور ہوں، کام ختم ہوجانے کے بعد ہماری تلاشی لی جاتی ہے، ہمارے نگران ہمارے جوڑ جوڑ الگ کر دیتے ہیں، پھر ہمیں جوڑ دیا جاتا ہے، ہمارے نگران ہمیں لاپروائی سے جوڑتے ہیں، پہلے دن میرے کسی حصے کی جگہ کسی اور کا کوئی حصہ جوڑ دیا گیا تھا، ہوتے ہوتے ایک ایک رواں کسی نہ کسی اور کا ہوجاتا ہے، خبر نہیں میرے مختلف حصوں سے جڑے ہوئے مزدوروں میں کتنے کان بیٹھنے سے مرگئے ہوں گے، مٹی چرانے کے عوض زندہ جلا دئیے گئے ہوں گے۔

مٹی کی کان میں کئی چیزوں پر پابندی ہے، مٹی کی کان میں پانی پرپابندی ہے، پانی مٹی کی حاکمیت کو ختم کر کے اسے اپنے ساتھ بہا  لے جاتا ہے، اگر نگرانوں کو معلوم ہوجائےکہ ہم نے مٹی کی کان میں آنے سے پہلے پانی پی لیا تھا، تو ہمیں شکنجے میں الٹا لٹکا کر سارا پانی نچوڑ لیا جاتا ہے، اور پانی کے جتنے قطرے برآمد ہوتے ہیں اتنے دنوں کی مزدوری کاٹ لی جاتی ہے۔

مٹی کی کان میں آگ پر پابندی نہیں ہے، کوئی بھی نگران آگ پر پابندی نہیں لگاتے آگ کان کے مختلف حصوں کے درمیان دیوار کا کام کرتی ہے، میں بھی آگ کی چار دیواریوں کے درمیان کام کرتا ہوں، کوئی بھی مزدوری آگ کی چار دیواریوں کے بغیر نہیں ہوسکتی، مٹی کی کان میں آگ کا ایک اور کام بھی ہے، کبھی کبھی نگران ساری کان کو اچانک خالی کرانا چاہتے ہیں اس وقت کان میں آگ پھیلا دی جاتی ہے، اس دن اگر کوئی سلامت نکل جائے تو اس کی تلاشی نہیں لی جاتی، مٹی ایسے ہی دن چرائی جاسکتی ہے

میں اس کے لیے مٹی چراؤں گا، اور تحقیق کروں گا کہ کان میں آگ کس طرح لگتی ہےاور کان میں آگ لگاؤں گا اور مٹی چراؤں گا۔

اتنی مٹی کہ اس آدمی کے لئے ایک مکان، ایک پانی انبار کرنے کا کوزہ ، اور ایک چراغ بنادوں اور چراغ کے لئے آگ چراؤں گا، آگ چوری کرنے کی چیز نہیں مگر ایک نہ ایک ضرورت کے لئے ہر چیز چوری کی جاسکتی ہے۔ پھر اس آدمی کو میرے ساتھ رہنا گوارا ہوجائے گا، آدمی کے لئے اگر مکان ہو، پینے کے پانی کا انبار ہو اور چراغ میں آگ ہو تو اسے کسی کے ساتھ بھی رہنا گوارا ہوسکتا ہے، میں اسے اپنی روٹی میں شریک کروں گا، اور اگر روٹیاں کم پڑیں تو روٹیاں چراؤں گا۔

ویسے بھی نگران ان مزدوروں کو جو کان میں شور نہیں مچاتے، بچی کھچی روٹیاں دیتے رہتے ہیں میں نے مٹی کی کان میں کبھی کوئی لفظ نہیں بولا اور اس سے باہر بھی نہیں، میں اپنے بنائے ہوئے آدمی کو اپنی زبان سکھاؤں گا اور اس سے باتیں کروں گا میں اس سے مٹی کی دکان کی باتیں نہیں کروں گا، مجھے وہ لوگ پسند نہیں جو اپنے کام کاج کی باتیں گھر جاکر بھی کرتے ہیں، میں اس سے باتیں کروں گا گہرے پانیوں کے سفر کی اور اگر میں اس کے سینے میں کوئی دھڑکنے والا دل چرا کر لگا سکا تو وہ بھی لگائوں گا، اس طرح اس سے محبت کی باتیں کروں گا، اُس لڑکی کی، جسے میں نے چاہااور اس لڑکی کی بھی، جسے وہ چاہے گا، میں اس آدمی کو ہمیشہ اپنے ساتھ نہیں رکھوں گا کسی بھی آدمی کو کوئی ہمیشہ اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا۔

میں اس میں سفر کا حوصلہ پیدا کروں گا اور اسے اس خطے میں بھیجوں گا، جہاں درخت مٹی میں پانی ڈالے بغیر نکل آتے ہیں اور وہ ان بیجوں کو میرے لئے لے آئے گاجن کے اگنے کے لئے پانی کی ضرورت نہیں ہوتی، میں روزانہ ایک ایک بیج مٹی کی کان میں بوتا جاؤں گا، بوتا جاؤں گا، ایک دن کسی بھی بیج کے پھوٹنے کا موسم آجاتا ہے، مٹی کی کان میں میرا لگایا ہوا بیج پھوٹے گا اور پودا نکلنا شروع ہوگا، میرے نگران بہت پریشان ہوں گے، انہوں نے کبھی کوئی درخت نہیں دیکھا ہے، وہ بہت وحشت زدہ ہوں گے اور بھاگیں گے۔

میں کسی بھی نگراں کو بھاگتے دیکھ کر اس کے ساتھ کان کے دوسرے دہانے کا پتا لگالوں گا کسی بھی کان کا دوسرا دہانہ معلوم ہوجائے تو اس کی دہشت نکل جاتی ہے۔ جب میری دہشت نکل جائے گی، میں آگے کی دیوار سے گزر کر مٹی کی کان کو دور سے جاکر دیکھوں گا، اور ایک ویران گوشے میں اوپر کی طرف ایک سرنگ بناؤں گا، سرنگ ایسی جگہ بناؤں گا جس کے اوپر ایک دریا بہہ رہا ہو۔

 مجھے ایک دریا چاہئیے، میں وہ آدمی ہوں جس نے اپنا دریا بیچ کر ایک پل خریدا تھااور چاہا تھا کہ اپنی گزراوقات پل کے محصول پر کرے مگر بے دریا کے پل سے کوئی گزرنے نہیں آیا، پھر میں نے پل بیچ دیا اور ایک ناؤ خرید لی مگر بے دریا کی ناؤ کو کوئی سواری نہیں ملی، پھر میں نے ناؤ بیچ دی اور مضبوط ڈوریوں والا ایک جال خرید لیا مگر بے دریا کے جال میں کوئی مچھلی نہیں پھنسی، پھر میں نے جال بیچ دیا، اور ایک چھتری خرید لی اور بے دریا کی زمین پر مسافروں کو سایہ فراہم کرکے گزارہ کرنے لگا مگر دھیرے دھیرے مسافر آنے بند ہوتے ہوگئے، اور ایک دن جبسورج کا سایہ میری چھتری سے چھوٹا ہوگیا تو میں نے چھتری بیچ دی اور ایک روٹی خرید لی۔ ایک رات یا کئی راتوں کے بعد جب وہ روٹی ختم ہوگئی تو میں نے نوکری کرلی اور ۔۔۔۔۔نوکری مُجھے مٹی کی کان میں ملی !!! 

matti ka mazdoor shakira nandani
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged ,
51000

دادبیداد – متناسب نما ئیندگی کا نظام – ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

دادبیداد – متناسب نما ئیندگی کا نظام – ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر کہا ہے کہ انتخا بی اصلا حا ت کے بغیر دھا ندلی، دھاندلی کا شور نہیں تھمے گا ہر ایک ہا ر نے والا دھا ندلی ہی کا بہا نہ بنا ئے گا حکومت نے انتخا بی اصلا حا ت کے حوالے سے قومی اسمبلی میں جو بل پیش کیا ہے اس میں با یو میٹرک نظا م پر زور دیا گیا ہے اگر حکومت کو دو تہا ئی اکثریت ملی اور بل منظور ہوا تو ٹھپہ لگا نے کی جگہ کمپیو ٹر کی مدد سے خود کار طریقہ سے ووٹ دیئے جا ئینگے ووٹوں کی گنتی بھی کمپیو ٹر سے ہو گی اور کسی کو اعتراض کا مو قع نہیں ملے گا.

اپو زیشن با یو میٹرک سسٹم کے لئے تعاون پر تیار نہیں اپو زیشن کا کہنا ہے کہ 25جو لا ئی 2018کو کمپیو ٹر کا نظام نا کا م ہوا ریموٹ کنٹرول سے آر ٹی ایس کو نا کا رہ بنا یا گیا اور نتا ئج کے اعلا ن میں جا ن بوجھ کر 18گھنٹوں کی تا خیر سے کیا گیا جس کی وجہ سے شکو ک اور شبہات پیدا ہوئے اس وقت مجوزہ بل پر تعطل بر قرار ہے اس اثنا میں آزاد کشمیر کے انتخا بات نے حکومت اور اپو زیشن کو با مقصد مذاکرات کے ذریعے بل میں تر میم کے بعد با یو میٹرک سسٹم کی طرف جا نے کا راستہ دکھا یا ہے.

پر نٹ اور الیکٹرا نک میڈیا میں خبریں آگئی ہیں کہ آزاد کشمیر کے انتخا بات میں تحریک انصاف کو 6لا کھ 74ہزار ووٹ ملے، پیپلز پارٹی کو 5لا کھ سے اوپر ووٹ مل گئے ن لیگ نے 3لا کھ ووٹ لئیے ممبروں کی تعداد اس تنا سب سے سا منے نہیں آئی یہ وہ نکتہ ہے جس پر حکومت اور اپو زیشن مذا کر ات کی میز پر آسکتے ہیں ووٹوں کے تنا سب سے نما ئندگی اور ممبروں کی تعداد حا صل کر نے کے لئے دنیا کے جمہوری مما لک میں جو طریقہ اختیار کیا جا تا ہے اس کو پرو پورشنل رپیریزنٹیشن یعنی متنا سب نما ئندگی کا نظام کہا جا تا ہے فری اینڈ فیر الیکشن نیٹ ورک (FAFEN) نے اپنی حا لیہ رپورٹ میں پا کستا ن کے لئے متنا سب نما ئندگی کے نظام کو سیا سی مسا ئل کا حل قرار ر دیا ہے اور اسے رائج کر نے کی سفارش کی ہے اس اوقت یو رپی یو نین کی پا رلیمنٹ کے انتخا بات متنا سب نما ئندگی کی بنیا د پر ہو تے ہیں یورپی مما لک میں سے بیشتر قوموں نے اپنے حا لا ت کے مطا بق اس طریقہ کو اپنا یا ہے اور اسے مفید پا یا ہے متنا سب نما ئندگی کے نظام میں کئی ما ڈل اور نمو نے از ما ئے گئے ہیں .

سب سے عام فہم اور آسا ن ما ڈل یہ ہے کہ انتخا بات میں اُمیدوار سامنے نہیں آتے سیا سی پا رٹیوں کے درمیاں مقا بلہ ہو تا ہے ہر پارٹی انتخا بات میں اپنے متو قع ممبران اسمبلی کی تر جیحی فہرست الیکشن کمیشن کے پا س جمع کر تی ہے جیسا کہ ہمارے ہاں مخصوص نشستوں کے لئے فہرستیں جمع کر ائی جا تی ہیں اس سسٹم میں برادری، دولت اور دھو نس دھا ند لی کے ذریعے ووٹ لینے کی گنجا ئش نہیں ہو تی پارٹی کو اپنے وفادار کا ر کنوں اور مختلف شعبہ جا ت کے ما ہرین کی جگہ جیتنے والے گھوڑوں یعنی عرف عام میں الیکٹیبلز کو تلا ش کر کے پیرا شوٹ کے ذریعے میدان میں ا تار نے کی ضرورت نہیں ہو تی نیز انتخا بات کے بعد خزانہ، قا نون،

اطلا عات اور دیگر شعبوں کے لئے غیر منتخب لو گوں کو کا بینہ میں بٹھا نے کی ضرورت نہیں ہو تی کیونکہ ہر شعبہ کے ما ہرین ان کی فہرست میں میرٹ کے لحا ظ سے جگہ پا تے ہیں جن سیا سی جما عتوں کے پاس نظر یاتی کا ر کنوں کی تعداد لا کھوں کروڑوں میں ہو تی ہے ان پا رٹیوں کو متنا سب نما ئندگی کے نظام سے فائدہ ہو تا ہے مثلا ً تحریک انصاف، جما عت اسلا می، پیپلز پارٹی، جمعیتہ العلمائے اسلا م اور عوامی نیشنل پارٹی اس نظام کی مخا لفت نہیں کر ینگی کیونکہ ان کے پا س نظریاتی کا ر کنوں کا تیار کیڈر ہے مسلم لیگ کے مختلف دھڑوں کو اس پر غور کر کے اپنی پارٹیوں کے کیڈر کو شخصیات کی جگہ منشور کے حوالے سے منظم کرنا ہو گا اگر ایک پارٹی کو منشور کے لحا ظ سے 55فیصد ووٹ ملے تو وہ حکومت بنا ئے گی اور اس کے پاس حکومت چلا نے کے لئے مطلو بہ قابلیت، کردار اور صلا حیت کے حا مل اراکین مو جو د ہو نگے.

لوٹے خرید نے اور لوٹے پا لنے کی ضرورت نہیں ہو گی با یو میٹرک سسٹم کے ساتھ متنا سب نما ئندگی کو ملا کر مجوزہ بل پر حکومت اور اپو زیشن نے دو تہا ئی اکثریت سے قا نون بنا یا تو ہما رے انتخا بی نظام کے تما م نقا ئص کو دور کرنے میں مدد ملے گی نہ اسمبلی میں قا بل لو گوں کی کمی ہو گی اور نہ الیکشن کے بعد دھا ند لی، دھا ندلی کا شور ہو گا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
50998

لندن میں پراسرار ملاقاتیں ۔ محمد شریف شکیب

لندن میں پراسرار ملاقاتیں ۔ محمد شریف شکیب

برطانیہ میں مقیم پاکستان کے سابق وزیرا عظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائدمیاں نواز شریف سے افغانستان کے مشیرقومی سلامتی حمد اللہ محب کی زیر قیادت تین رکنی وفد نے ملاقات کی ہے۔ ملاقات کے دوران خطے کی موجو دہ صورتحال اور باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو کی گئی۔افغان سلامتی کونسل کی جانب سے جاری کئے گئے پیغام میں ملاقات کی خبر کے ساتھ تصویر بھی شیئر کی گئی ہے۔

ملاقات کے بعد افغان حکام کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ملاقات کے دوران فریقین کی جانب سے اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت اورباہمی احترام کی پالیسی سے فائدہ اٹھائیں گے اورجمہوریت کی مضبوطی دونوں پڑوسیوں کو استحکام اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرے گی۔ملاقات کا اہتمام سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کیا تھا۔ جوخود بھی ملاقات میں موجود تھے۔ حمد اللہ محب نے نواز شریف کو افغان صدر اشرف غنی کا پیغام بھی پہنچایا۔ نوازشریف نے افغانستان میں پائیدار قیام امن کے لیے تجاویز دیں اوراپنی حکومت کے دور میں افغان حکومت سے بہتر تعلقات کی مثالیں بھی دیتے رہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ بدقسمتی سے نریندر مودی ہو، حمد اللہ محب ہو یا امراللہ صالح۔ہر پاکستان دشمن نواز شریف کا قریبی دوست ہوتاہے۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو باہر بھیجنا خطرناک تھا کیونکہ ایسے لوگ پاکستان کے خلاف عالمی سازشوں میں مددگار بن جاتے ہیں۔نواز شریف کی صاحبزادی مریم صفدر نے اپنے والد سے پاکستان دشمن افغان رہنماؤں کی ملاقات کی تصویر شیئر کرتے ہوئے کہا ہے کہ نواز شریف اپنے تمام پڑوسی ملکوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی پالیسی پر گامزن ہیں یہ ملاقات بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

افغانستان کے نائب صدر امراللہ صالح اور مشیر قومی سلامتی حمد اللہ محب کے اسمبلی کے اندر اور باہر پاکستان مخالف بیانات کسی سے پوشیدہ نہیں۔انہوں نے پاک فوج، حکومت پاکستان اور یہاں کے عوام کے خلاف ہمیشہ غلیظ زبان استعمال کی ہے۔اور پاکستان کے خلاف زہر اگلنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ وہ ہمیشہ بھارت کی زبان بولتے ہیں۔ پاکستان کے تین بار وزیراعظم رہنے والے اور ایک قومی سیاسی جماعت کے قائد کی پاکستان کے دشمنوں سے ملاقات کا جو بھی جوازپیش کیاجائے وہ ناقابل قبول ہے۔ نوازشریف ایک سزایافتہ آدمی ہے جسے پاکستان کی عدالتوں نے مجرم قرار دیا ہے۔

اس کا خطے کی صورتحال کو بہتر بنانے میں کیا کردار ہوسکتا ہے؟ پاکستان مخالف افغان لیڈروں کی اسحاق ڈار کے ذریعے لندن میں نواز شریف سے ملاقات پر کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں اگر افغان حکومت کے نمائندے چاہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی قوتیں قیام امن میں اپنا کردار ادا کریں تو انہیں پاکستان آکر پارلیمانی جماعتوں کے قائدین سے ملاقات کرنی چاہئے تھی وہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو، جے یو آئی کے قائد مولانا فضل الرحمان، اے این پی کے لیڈروں،بلوچ سیاسی قیادت اور حکمران جماعت تحریک انصاف کے قائدین سے ملاقات کرکے قیام امن کے لئے تعاون کی درخواست کرسکتے تھے۔

حمد اللہ محب افغان خفیہ ایجنسی کے سربراہ رہے ہیں جن کے بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ساتھ پرانے اور گہرے مراسم ہیں۔ حکومتی اہلکاروں کا دعویٰ ہے کہ افغان وفد نواز شریف کے پاس افغان صدر اشرف غنی اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا خصوصی پیغام لے کر گئے تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ نواز شریف اپنے علاج کے بہانے پاکستان سے فرار ہوئے ہیں۔ انہیں عدالتوں نے عوامی نمائندگی کے لئے نااہل قرار دیا ہے۔ اور یہ بات ان کے ملاقاتیوں کو بھی بخوبی معلوم ہے۔ پاکستان کے مخالفین سے ان کی ملاقاتوں سے ان کے اپنے سیاسی مستقبل اور ان کی پارٹی پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔مسلم لیگ ن کی قیادت کو اس حوالے سے اپنے رہنما سے وضاحت طلب کرنی چاہئے اور اس ملاقات کے مقاصد قوم کو بتانے چاہیئں کیونکہ دشمن کا دوست بھی تو دشمن ہی ہوتا ہے۔اور دشمن سے ہاتھ ملانے والا اپنے ملک اور قوم کا وفادار اور لیڈر نہیں ہوسکتا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
50990

مثبت فکر – ڈاکٹر ساجد خاکوانی (اسلام آباد، پاکستان)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

                ایک بزرگ دریا کے کنارے کھڑے ایک بچھو کو ڈوبنے سے بچا رہے تھے،وہ بچھو ڈنگ مارتااور پانی میں جاگرتا،بزرگ اسے اپنے ہاتھوں میں اٹھالیتے وہ پھر ڈنگ مارتااورپانی میں جاگرتاجب متعدد بار ایسا ہو چکاتوایک میرے جیسے بے عقل اورکم فہم نے اس بزرگ سے پوچھا کہ وہ بچھوآپ کو ڈس رہاہے اور آپ اسے ڈوبنے سے بچانے کی فکر و کاوش میں مصروف کار ہیں یہ کیابات ہوئی؟؟اس پیر دانش مند نے جواب دیا کہ وہ اپناکام کر رہا ہے اور میں اپنا کام کیے جارہاہوں۔انگریزکے دور سے غلامی کی جو قباحتیں ہمارے ساتھ ابھی تک طفیلی بوٹی کی مانند چمٹی ہیں ان میں سے ایک بہت ہی بری عادت تصویرکے تاریک پہلو کو سامنے رکھنا،ہروقت تنقیدکرنا،تنقیص کے نشترچلانا،خامیوں،کمزوریوں،کوتاہیوں اور کام میں رہ جانے والی کمی کواجاگرکرتے رہنا اورکسی ایک نحیف وجہ کے باعث پور نظام کو پاؤں کی ٹھوکر پر رکھ لینا ہے اور پھر مایوسیاں پھیلاکر اپنے بزرگوں کو،قیادت کو اور اپنے ماضی کوداغدار کردینابھی اس غلامانہ عادت کاحصہ ہے۔جب کہ انسان کی مثبت سوچ کاتقاضاہے کہ تصویرکارخ روشن مدنظر رکھاجائے اور دوسرے رخ سے بھی نظریں چرانانہیں چاہیں لیکن انسانی رویے کا یہ پہلو انسان کی اپنی ذہنیت کی غمازی کرتاہے کہ آدھے گلاس میں پانی دیکھ کر اس کے منہ سے کیا نکلتا ہے کہ آیا آدھا گلاس خالی ہے یا آدھا گلاس بھراہے؟اگر کسی انسان نے گلاس کے بھرے ہونے کی  نشاندہی کی ہے تویہ اسکے خیالات اور اسکی ذہنی و فکری صلاحیتوں کے مثبت ہونے کا اظہار ہے اور اگر اس نے آدھے گلاس کے خالی ہونے کا اظہار کیا ہے توگویااس کے ذہن میں ابھی اصلاح کی کافی گنجائش موجود ہے۔

                مادروطن میں جس کسی کو جب بھی کوئی دقت یاتکلیف ہو تو وہ بغیر ٹکٹ اس مقدس رشتے پر چڑھ دوڑتاہے اور سب سے پہلے ”پاکستان“کوکوسنے لگتاہے کہ اس ملک نے ہمیں کیادیا؟؟حالانکہ اسے سوچناچاہیے کہ فکر کی یہ آزادی جس کے باعث وہ اپنے ملک پر تنقیدکرنے کاحق استعمال کررہاہے یہ بھی تو اسی پاکستان نے ہی اسے دی ہے۔پاکستان نہ ہوتاتوہم آج کسی راجے مہاراجے کی رعایاہوتے،ہماری عورتیں انکے گھروں کی صفائیاں کرتیں اور انکے مردوں کادل بہلاتیں اورہم سب کچھ دیکھ کر بھی ”اف“تک نہ کر سکتے۔ اسکی ریاست میں اسی کے بنے قوانین کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے اور ہم میں سے اکثر کسی ایسے مہاجن کے سامنے بیٹھے ہوتے جس کی چارپائی کے پائے چاندی کے ہوتے اور وہ چارپائی سونے کی اینٹوں پر دھری ہوتی اور سامنے بیٹھاہوا ہمارابرادری دار اس کی منتیں کررہاہوتاکہ سود کے عوض یہ میری جوان بیٹی لے لواوراصل زر میں اگلی فصل پر لوٹادوں گا۔وہ مہاجن جن نظروں سے اس بیٹی کو دیکھتاان نظروں سے شاید قسائی بھی بکری کو نہیں دیکھتااس کی نظروں میں کیاچھپاہوتا؟؟یہ کوئی بتانے کی بات نہیں البتہ یہ بات ضرور بتانے کی ہے اگلی فصل کا وعدہ اگلی نسل تک بھی پورانہ ہوپاتااور چند ہی سالوں بعد تاریخ اپنے آپ کو دہرارہی ہوتی۔پاکستان نے ہمیں ان ظالموں سے نجات دی ہے اور عزت و آبرو سے جینے کا حوصلہ دیاہے۔

                ”لفظ مدینہ“کا مطلب شہر ہے اور ”طیبہ“کا مطلب پاکیزہ ہے،یہ دونوں لفظ مل کر مدینہ طیبہ بنتے ہیں جس کی عصمت سے فرشتوں کی معصومیت بھی شرماتی ہے اور سورج بھی جس کی نورانیت کامقروض ہے،لفظ”پاکستان“کا بھی بعینہ یہی مطلب ہے،”پاک“کامطلب پاکیزہ اور ”استان“کا مطلب شہر یاوطن ہے۔اور جس طرح صاحب مدینہ ﷺکورمضان المبارک کی آخری طاق راتوں میں سے کسی ایک میں اذن نبوت عطاہوااسی طرح اس مملکت پاک کو بھی رمضان کی آخری طاق راتوں میں سے کسی ایک کواذن آزادی مرحمت ہوا،جس طرح ریاست مدینہ طیبہ ایک بہت بڑی ہجرت کے بعد وجود میں آئی اسی طرح ریاست”پاک- استان“کی کتاب کاپہلا باب بھی ہجرت سے عبارت ہے،جس طرح مشرکین مکہ نے ہجرت میں رکاوٹیں ڈالیں اور مہاجرین کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی اسی طرح تاریخ نے اپنے آپ کو یہاں دہرایا،جس طرح ریاست مدینہ طیبہ کودشمنوں نے دل سے قبول نہ کیایہی معاملہ اس مملکت خدادادکے ساتھ بھی ہے،جس طرح یہودومشرکین کوشش کرتے رہے کہ ریاست مدینہ کاوجود مٹ جائے یہ قبیح حرکات پاکستان کے خلاف بھی ہوتی رہیں اورآج بھی ہورہی ہیں اور جس طرح مدینہ طیبہ میں منافقین کاایک گروہ پہلے دن سے موجود رہا اس پاکستان میں بھی غداران وطن پہلے دن سے آج تک موجود ہیں جنہوں نے تادم تحریر دوقومی نظریے کوقبول نہیں کیا۔ لیکن ہماراایمان ہے کہ جس طرح مدینہ طیبہ تاقیامت اس دنیامیں موجود رہے گا اور قیامت کے بعد اسی کی نسبت سے ہی جزاوسزاکافیصلہ ہوگا اسی طرح اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی تاقیامت اس دنیاکے نقشے پر قائم و دائم رہے گا اورروزمحشر محض اللہ ٰتعالی کے نام پر اپنے سے وفاکرنے والوں کی بخشش و نجات کا سبب بنے گا۔اس سب کے باوجود پاکستان کبھی بھی کسی طرح مدینہ طیبہ کی خاک کے برابر بھی نہیں ہوسکتا،ان سطور کی تحریر سے قطعاََ یہ مراد نہیں کہ پاکستان سمیت دنیاوکائنات کا کوئی جزو بھی مدینہ کے مساوی ہوسکتاہے۔ہمیں محض اس نسبت پر اتنا فخراور شکر ہے کہ جوسمیٹانہیں جاسکتااور ہمارادامن بھربھر کر چھلکتاہے کہ پاکستان کی عزت و احترام و وقار و وجودخاک مدینہ ونجف سے مستعار ہیں اور اس مقدس و محترم سرزمین کی مٹی ہماری آنکھوں کاسرمہ ہے۔

                پاکستان کا جغرافہ بھی مدینہ طیبہ سے کتناملتاہے،نقشہ دیکھنے سے معلوم ہوتاہے کہ ریاست مدینہ طیبہ روم اور ایران کی دو سلطنوں کے عین درمیان میں واقع تھا،یہی معاملہ پاکستان کے ساتھ ہے کہ وقت کی دونوں طاغوتی طاقتیں پاکستان کے مشرق اور مغرب میں اپنی پوری قوت کے ساتھ موجود ہیں،ریاست مدینہ نے جیسے کفاراور یہودمیں سے پہلے ایک کے ساتھ معاہدہ کیااور دوسری کے ساتھ جنگ کی پھر دوسرے کے ساتھ معاہدہ کیااورپہلی کے ساتھ جنگ کرکے اس کی قوت کو توڑ دیااور اسکے بعد موقع ملتے ہی دوسری قوت کو بھی پاش پاش کر دیا،عالمی تاریخی تناظر میں دیکھاجائے تو گزشتہ صدی کے نصف آخرمیں پوری دنیاکی سیاست اسی مملکت پاکستان کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔دوسری جنگ عظیم کے بعد سرد جنگ کے آغاز سے اختتام تک اور پاکستان کا کلیدی کرداررہاہے اور قدرت اس مملکت سے وہی کام لے رہی ہے جو ریاست مدینہ سے لیاکہ پہلے ایک سامراج سے دوستی کر کے دوسرے کو ٹھکانے لگایااوراب اللہ تعالی نے چاہادوسرے استعمارکے خاتمے کامقدمہ بھی اسی سرزمین پر ہی رقم کیاجائے گا۔

                جس طرح نصف النہارمیں سورج کو دیکھ کردھوکہ نہیں کھایا جاسکتااسی طرح اس چمکتے ہوئے سورج کی طرح یہ بات عیاں ہے اور صحیفوں میں لکھ دی گئی ہے آنے والا وقت امت مسلمہ کے عروج کادور ہوگا اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسلامی انقلاب کی قیادت  ماضی کی طرح اب بھی عرب کے صحراؤں اور لق و دق ریگستانوں سے اٹھی گی اور چشم بینارکھنے والا اس امر کا مشاہدہ آج کے حالات سے با آسانی سے کر سکتاہے،جبکہ اس انقلاب کا ہراول دستہ ترکی اور پاکستان کے اہل ایمان فراہم کریں گے۔پاکستان کی یہ خوش قسمتی ہو گی کہ نظام مصطفی کی تجدیدنوکاآغازاس سرزمین سے ہوگا اور اس بات کی پیشین گوئی نبی آخرالزماں نے کر دی تھی جب آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے مشرق سے ٹھنڈی ہوا آتی ہے۔

                پاکستان کا ماضی اور حال اس بات پر گواہ ہے،پوری دنیامیں اشاعت اسلام کے عظیم الشان کام کا مرکزیہی سرزمین ہے،یہیں سے بڑی بڑی جماعتیں تشکیل پاتی ہیں اور جہاں اپنے ملک کے چپے چپے تک پہنچتی ہیں اور ایسے ایسے مقامات تک پہنچتی ہیں جہاں سالوں بعد ہی کوئی سرکاری کارندہ جاتاہولیکن یہ جماعتیں وہاں وہاں پوری تندہی سے اورجذبہ ایمان سے پہنچتی ہیں اور مسلمانوں کو بھلایاہوا سبق یاد دلاتی ہیں۔اور اسی مملکت کی سرزمین سے مبلغین کی جماعتیں پوری دنیاکی طرف جاتی ہیں اورجانے والے بتاتے ہیں کہ اتنے دوردراز تک جاتے ہیں جہاں کی دنیا شاید آج سے صدیوں پیچھے کے وقت میں رہ رہی ہے۔یہ جماعتیں پہلے جہاز پر اپنے سفر کاآغاز کرتی ہیں،پھر ٹرین اور بسوں پر پھرریڑھوں اور گدھوں پر اپنا سامان رکھ کر میلوں پیدل چلتے ہیں اور پھر چین،افریقہ اور وسطی ومشرقی یورپ کے دوردراز علاقوں میں پہنچتے ہیں جہاں کے مسلمانوں کووقت کے طاغوتوں نے یہ یقین دلادیاہوتاہے کہ امت مسلمہ کاوجود اس دنیاسے ختم ہوچکاہے۔گزشتہ صدی کے آخر میں جہاد کی تاسیس نو ہوئی اورپوری دنیامیں جہاں جہاں جہاد کی صدابلند ہوئی اسکا بیس کیمپ بنناپاکستان جیسی خوش نصیب سلطنت کے حصے میں آیا۔

                ہر وقت تنقید کرنے سے بہتر ہے کہ اس اپنی سرزمین کے روشن پہلو سامنے رکھ اس سے محبت کی جائے اور آنے والی نسلوں کے دلوں میں اسکی محبت پیداکی جائے۔پاکستان سے محبت اصل میں نظریہ پاکستان سے محبت ہونی چاہیے۔ہم کسی دھرتی کے بیٹے نہیں ہیں اور نہ ہی کسی مٹی کے پجاری ہیں یہ سب ہندوانہ خیالات ہیں،ہم ایک خدا کے ماننے والے ہیں اور اسی لیے پاکستان سے محبت کرتے ہیں کہ اس ملک کاجوازاس نعرے میں پوشیدہ ہے کہ ”پاکستان کا مطلب کیا۔لاالہ الااللہ“۔اس عالی فکر کے حامل اور اس روشن کردار کے امین ملک کو اپنی منفی سوچ کانشانہ بناناکسی بھی طورمناسب نہیں ہے۔غداران قوم اگرچہ موجود ہیں اور حکمرانوں سے عوام تک وہ ملک کے ہرطبقے میں موجود ہیں لیکن اگر کوئی عضوبیمار ہوجائے توسارے جسم پر نشتر نہیں چلائے جاتے اسی طرح اپنے ملک میں وائرس اور بکٹیریاکے حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے پورے ملک کو زخمی نہیں کرناچاہیے۔نشترضرورچلناچاہیے لیکن سروں کی اس فصل پر جو پک چکی ہے اور جس کے کٹنے کا وقت قریب آ چکاہے۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
50988

افغان فوجیوں و مہاجرین کی واپسی ۔ قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

افغان فوجیوں و مہاجرین کی واپسی ۔ قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

وزیر اعظم عمران خان نے افغانستان میں خانہ جنگی کے تناظر میں پاکستان کے بھی متاثر ہونے کا خدشہ ظاہر کیا۔ یہاں تک تو درست کہ مملکت کے خلاف ملک دشمن عناصر خانہ جنگی کروانے کے لئے کئی دہائیوں سے سازشیں کررہے ہیں، فساد اور مفاد کی جنگ میں لسانی، صوبائی یا فرقہ وارنہ رنگ کی آمیزش کرکے مسلکی بنیادوں پر بھی خانہ جنگی کرانے کی کوشش کی جاتی رہی، لیکن ملک دشمن قوتوں کو ہمیشہ ناکامی کا سامنا رہا۔  افغانستان کے حوالے سے پاکستان میں خانہ جنگی کے خدشات ظاہر کرنا ایک تشویش ناک حاؒلات کی جانب نشان دہی کئے جانا ہے، تاہم افغانستان اور پاکستان کے معروضی حالات وواقعات میں نمایاں فرق ہونے کی وجہ سے ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ یہ ضرور ہے کہ صرف چند ہفتوں میں سیکورٹی فورسز پر حملوں سمیت دہشت گردی کے150سے زائدواقعات رونما ہوچکے،  یہ واقعات خیبر پختونخوا و بلوچستان میں ہوئے ہیں، بالخصوص پاک۔افغان بارڈر و شمال مغربی سرحدوں پر دہشت گردوں کے گروپ منظم ہونے کی اطلاعات، اس حوالے سے تشویش ناک ہیں کہ شدت پسندوں کے سیلپرز ونگ متحرک ہونا شروع ہوگئے ہیں اور ان کالعدم گروپوں کی محفوظ پناہ گاہیں مبینہ طور افغان مہاجرین کیمپ قرار دیئے جارہی ہیں۔


پاکستان بارہا کہہ چکا کہ افغانستان اپنے شہریوں کی واپسی کو ممکن بنائے تاکہ افغان مہاجرین کی باعزت واپسی ہو،مبینہ طور پر ان کیمپوں میں اگر کوئی شدت پسند پناہ حاصل کرتا ہے تو اس کا سلسلہ روکا جاسکے۔ بدقسمتی سے کرپشن کی وجہ سے لاکھوں افغانیوں نے مبینہ طور پر پاکستانی شہریوں کے شجرہ میں تبدیلی کرواکر یا پھر جعلی کاغذات کے ذریعے قومی شناختی دستاویزات حاصل کرلی ہیں جس سے عام پاکستانیوں میں افغانیوں کو تلاش کرنا دشوار گذار عمل ہے۔ حکومت کئی بار افغان پناہ گزینوں کی رہائشی مدت میں اضافہ کرچکی، پاکستانی عوام یہ بھی نہیں چاہتے کہ چار دہائیوں سے زائد رہنے والے مہاجرین کی میزبانی کے بعد انہیں ناخوشگوار طریقے سے واپس بھیجا جائے، اس کے لئے قانون سازی بھی کی جاسکتی ہے، لیکن جس طرح کابل انتظامیہ کا رویہ پاکستان مخالفت میں اشتعال انگیزی پیدا کررہا ہے، یہ نا صرف افغان روایات کی عکاسی نہیں کرتا بلکہ اخلاقی و انسانی اقدار سے بھی مطابقت نہیں رکھتا۔ افغانستان کے نائب صدر ہوں یا قومی سلامتی کے خصوصی مشیر، جس طرح پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے  اور مملکت کے لئے جس قسم کا لب و لہجہ و القاب اور الزامات عائد کررہے ہیں اس کا جواب ریاست، تحمل کے ساتھ بھگوڑے افغان فوجیوں کو افغان حکام کے حوالے کرکے دے رہی ہے۔


بھگوڑے افغان فوجیوں کو روایتی، اخلاقی و ثقافتی اقدار کے مطابق عزت و احترام کے ساتھ افغان حکام کے حوالے کردیا جاتا ہے تاکہ انہیں کچھ شرم آسکے، لیکن افغان نائب صدر و قومی سلامتی کے معتصب مشیر کے غلیظ بیانات سے پاکستانی عوام میں غصے کی لہر پیدا ہو رہی ہے، کوئی بھی محب الوطن اپنی سرزمین کے خلاف دشنام طرازی و ہرزہ سرائی کرنے والوں کو برداشت نہیں کرسکتا۔ کابل انتظامیہ کا کوئی اخلاقی مرتبہ نہیں رہا،  انہیں اقتصادی، سیاسی اور سماجی التفات کے قابل بھی نہیں سمجھا جاتا، لیکن اس کے باوجود پاکستان خطے میں امن کے لئے برداشت و تحمل کے ساتھ کلیدی کردار ادا کررہا ہے۔  پاکستان کی سرزمین نے اپنے قیام کے بعد سے ہی مہاجرین کے لئے دل و دروازے کھلے  رکھے،  عزت و احترام دیا۔


افغان طالبان کی برق رفتار پیش قدمی کے باعث کابل انتظامیہ کے زیر انتظام افغان فوجیوں کو اپنی جانیں بچانے کے لئے پاکستان میں پناہ لینا پڑی، افسوس ناک رویہ یہ دیکھنے میں آیا کہ امریکہ کی حاشیہ بردار کابل انتظامیہ، پاکستان کا شکریہ ادا کرتی، احسان مانتی، لیکن الٹا جھوٹ کا پلندہ لے کر بیٹھ گئی اور دشنام طرازی شروع کردی، انتہا ئی غیر مناسب عمل کو پاکستانی عوام نے قطعی پسند نہیں کیا، لیکن انسانی جان کو بچانے کے لئے حکومت کے اقدام کو سراہا اورکمال برداشت سے کام لیا، اس امر کو سراہا جانا چاہے۔ریاست نے افغان عوام کو خوراک و بنیادی ضروریات کی رسائی کو ممکن بنانے کے لئے بڑے پن کا مظاہرہ کیا اور ہزاروں ٹرکوں اور افغانیوں کو سرحد پار کی اجازت دی، ورنہ جنگی حالات میں کوئی ملک، ایسا رسکی اقدام نہیں کرتا۔ پاکستان یہ بھی کرسکتا تھا کہ جب تک افغانستان کی سرحدوں پر عالمی سطح پر منظور شدہ انتظامیہ نہ آجائے، سرحدوں کو بند رکھتا، لیکن انسانی ہمدردی کی نمایاں مثال قائم کرتے ہوئے بلا امتیاز افغانیوں کو مزید تکالیف سے بچانے کے لئے قابل تحسین قدم اٹھایا۔


صدر اشرف غنی قبل از وقت صدارتی عام انتخابات کے لئے دوبارہ پیش کش کرچکے،  براہ راست مذاکرات کے لئے بار بار درخواست بھی کررہے ہیں، لیکن افغان طالبان نہ تو صدر اشرف غنی کو مانتے ہیں اور نہ ہی کابل انتظامیہ کو قانونی سمجھتے ہیں، بین الافغان مذاکرات کے لئے بیشتر افغان سٹیک ہولڈرز نے صدر غنی کو مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا، انہیں اپنے ہم وطنوں کی بات مان لینا چاہیے تھی، افغانیوں نے جنگ بندی کے لئے عبوری حکومت کے قیام کی تجویز کو بھی سراہا تھا لیکن بدقسمتی سے کابل انتظامیہ میں شامل بیشتر شر پسندوں، جنگجوؤں کے سرپرستوں نے اپنے فروعی مفادات کے لئے افغانستان میں امن کو خطرے میں ڈالا ہوا ہے، افغان طالبان کی فوجی و سیاسی حیثیت کو برطانیہ اور چین سرکاری سطح پر تسلیم کرچکا، امریکہ و نیٹو ممالک کی واپسی کے بعد افغان طالبان کا خود فاتح سمجھنا غلط بھی نہیں، کیونکہ انہوں نے 20برس بعد اپنے دور اقتدار کے علاقوں کو واپس لینا شروع کیا تو وہ علاقے بھی اپنے کنٹرول میں لے لئے جو ماضی میں ان کے شدیدمخالف تھے۔ افغانستان میں حکومت سازی افغان عوام کا داخلی معاملہ ہے، لیکن انہیں احسان کرنے والے ملک پاکستان پر دشنام طرازی و بے بنیاد بہتان و الزام تراشیوں سے گریز کرنا چاہے، انہیں ایک لمحے کے لئے یہ ضرور سوچنا چاہے کہ پاکستانی عوام نے ہر بُرے وقت میں ان کا بھرپور ساتھ دیا ، ان کے مہاجرین کو بنجر علاقوں میں باڑ لگی پناہ گاہوں میں محصورنہیں رکھا،افغان حکام ہوش و عقل سے کام لیں کیونکہ یہ ان کے حق میں بہتر ہے۔ 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
50973

افغان قیام امن – راجہ منیب

پاکستان نے افغانستان امن عمل کو آسان بنانے کے لئے ہمیشہ مخلصانہ کام کیا ہے۔ افغانستان کو  اپنی صفوں اور خطے  کے حالات کا جائزہ لینا چاہیے کہ خطے میں امن افغان امن سے منسلک ہے۔ افغانستان میں امن پاکستان کے مفاد میں ہے۔ پاکستان ہمسایہ ملک میں امن و استحکام لانے کے لئے مخلصانہ کوششیں کر رہا ہے۔ خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے لئے باہمی احترام کی بنیاد پر ، افغانستان کے ساتھ دوستانہ اور اچھے دوستی سے تعلقات استوار کرنے کے لئے اپنی کوششوں کو جاری رکھے ہوئے ہے۔

پاکستان کی سول اور فوجی قیادت نے نہ صرف الفاظ بلکہ اقدامات کے ذریعے مظاہرہ کیا ہے کہ وہ پرامن اور مستحکم افغانستان کے لئے پوری طرح پرعزم ہیں۔ پاکستان افغانستان میں امن و استحکام چاہتا ہے اور پوری افغان قیادت کو ملک میں پائیدار امن کے لئے کوششوں میں شامل ہونا چاہئے۔ پاکستان دہشتگرد گروہوں کو دبانے اور بین الاقوامی برادری کے ریاستی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کے دعووں کے خاتمے کے لئے افغانستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی امید کرتا ہے ۔ اس کا مقصد اہم علاقائی طاقتوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر واپس آ کر دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنا ہے۔

پاکستان ہمسایہ ممالک کے ساتھ تمام شعبوں میں پرامن ماحول چاہتا ہے لیکن بھارت اب بھی ایک بگاڑنے والے کا کردار ادا کررہا ہے اور افغانستان میں امن کے لئے کوششوں کو پٹڑی سے اتارنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہندوستان نے ، پوری تاریخ میں ، پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش کی ہے ، کیونکہ وہ افغانستان کو پاکستان کے خلاف کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔جبکہ افغانستان میں امن کا خطے میں ترقی اور خوشحالی کے لئے سب سے زیادہ ضروری ہے۔امریکہ نے دہشت گردی ، افغان امن عمل سے نمٹنے میں پاکستان کے کردار کو تسلیم کیا ہے۔ افغانستان ميں بھارت کی اربوں ڈالر کی سرمايہ کاری ڈوب رہی ہے۔ بھارت فرسٹريشن کا شکار ہے۔ وہاں امن ہوا تو بھارت کیلئے آپريٹ کرنا مشکل ہوگا۔

افغانستان ميں حالات خراب ہوئے تو پاکستان متاثر ہوگا۔ بلوچستان ميں دہشت گردوں کے سليپر سيلز فعال ہونے کا خدشہ ہے۔ دشمن ايجنسيوں کے دہشتگرد سرگرم ہوسکتے ہيں۔ پاکستان ميں دہشت گردی کيلئے افغان سرزمين استعمال ہوتی رہی ہے۔ميں دہشت گردی کيلئے افغان سرزمين استعمال ہوتی رہی ہے۔ افغان بارڈر پر باڑ کا کام 90 فيصد مکمل ہو چکا ہے۔پاکستان قربانياں اور کوششيں رائيگاں نہيں جانے ديں گے۔ افغانستان ميں امن کیلئے کوئی کسر نہ چھوڑی، ليکن پاکستان ضامن نہيں۔ حتمی فيصلہ افغان قيادت نے ہی کرنا ہے۔پاکستان دہشت گردی کی طویل جنگ لڑی، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 86 ہزار سے زائد قربانیاں دیں، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ملک بھر میں ردالفساد آپریشن شروع کرایا، دہشت گردی کےخلاف جنگ میں ہزاروں آپریشن کیے، اس میں بے مثال کامیابیاں ملیں، پاکستان اپنی قربانیوں کو کسی صورت رائیگاں نہیں جانے دے گا۔

مستقبل میں پیدا ہونے والے حالات کے لیے پاکستان نے بہت تیاری کی ہے، ملکی سرزمین کسی کےخلاف استعمال نہیں ہونےدے گا، پاک افغان بارڈر پر 90 فیصد باڑ لگا چکی ہے،  پاک افغان سرحد  پر تمام غیر قانونی پوائنٹس کو سیل کر دیا گیا ہے،  بارڈر پر جدید بائیومیٹرک سسٹم کی تنصیب بھی کی گئی ہے، مغربی سرحد کی فینسنگ افغانستان کے لیے بھی بہترہے، پاک ایران سرحد پر بھی فینسنگ کا کام تیزی سے جاری ہے، قبائلی اضلاع میں پولیس اور لیویز کی تربیت کی نگرانی فوج کر رہی ہے، ایف سی کی استعداد کار میں بھی بے مثال اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے مثال کامیابیاں حاصل کیں، خیبرپختونخوا اور قبائلی اضلاع میں 150 سے زائد دہشتگردی کے واقعات ہو چکے ہیں ، آپریشن بھی ہو رہے ہیں جن میں اب تک 42 دہشتگردوں کو مار چکے ہیں،  پاکستان میں تمام نو گو ایریاز ختم کر دیئے،  آپریشن جارحانہ انداز میں کر رہے ہیں، اور دہشت گرد بھاگ رہے ہیں۔ پاکستان میں کوئی دہشت گرد موجود نہیں، افواج پاکستان دشمن عناصر کی سرکوبی کیلئے ہر طرح تیار ہے، ہمارے جوان دہشت گردوں کو ختم کیے بغیر دم نہیں لیں گے۔ انڈیا افغانستان میں امن کیوں نہیں چاہتا؟ افغانستان میں بدامنی و دہشتگردی کی فضا سے انڈیا کے وابستہ مفادات کیا ہیں؟ جیسے کئی سوال ذہن میں آتے ہیں۔


انڈیا افغانستان میں امن اس لئیے نہیں چاہتا کہ اگر افغانستان میں امن قائم  ہوتا ہے تو اس کا سب سے بڑا فائدہ پاکستان کو اورنقصان انڈیا کو ہے کیونکہ اگر امن ہوتا ہے تو پاکستان افغان سرحد پر لگائی گئی  فوج کو کم کر کے انڈین سرحدوں کی طرف بڑھا دے گا اور افغانستان میں جنگ بندی سے پاک فوج اور طالبان کے آپریشنز افغانستان میں نیٹو امریکی جنگ کی بجائے کشمیر کی طرف موو کریں گے جس کا سیدھا نقصان انڈیا کو ہو گا اور دوسرا افغانستان میں جنگ بندی سے امریکی بلاک میں انڈیا کی اہمیت بہت حد تک کم ہو جاٸے گی جس سے انڈیا کے مفادات کو نقصان پہنچے گا اور یہ انڈیا کے لیے بہت بڑا دھچکا ہو گا کیونکہ جس امریکہ کا وہ اتحادی ہے وہ دنیا کے پرلے کونے پر بیٹھا ہے جبکہ اس کے ہمساٶں سے تعلقات کافی خراب ہیں۔


اس صورت حال میں اگر افغانستان میں امریکہ جنگ بلکل ختم ہوتی ہے اور امن قائم ہوتا ہے تو انڈیا کی وہ اہمیت باقی نہیں رہے گی جو امریکہ اتحاد میں اس وقت ہے کیونکہ واحد وہی اتحادی اس وقت خطے میں امریکہ کے ساتھ کھڑا ہے جس نے امریکہ کے کہنے پر چین ( شہر پاور کمپیٹیٹر) سے بھی تعلقات خراب کر لئے اورباقی ہمسایوں سے بھی قابل ذکر تعلقات نہیں ہیں۔ سعودی عرب اور یو ای اے سے تعلقات کا اچھا ہونا ڈیڑه ارب کی آبادی کی مارکیٹ ہونے کی وجہ سے ہے ورنہ اس کے علاوہ ان تعلقات کی کوئی خاص بنیاد نہیں کیونکہ پاکستان سعودی عرب سے چارارب ڈالر کا تیل لیتا ہے اور انڈیا چالیس ارب ڈالر کا تو ظاہر ہے عرب نے اپنے کاروبار اور معشیت کو بھی دیکھنا ہے اس لیے سعودی عرب بھی پاکستان انڈیا کے معاملے میں مسلمان ملک ہونے کے باوجود برابری کے تعلقات کو دیکھتا ہے اورکشمیر یا دوسرے معاملات پرکسی ایک ملک کی سپورٹ نہیں کرتا لیکن انڈیا ہمیشہ سے اپنی مارکیٹ کا فائدہ اٹھاتا رہا ہے اور شاید آج بھی اٹھا رہا ہے اور نہیں چاہتا کہ افغانستان میں امن قائم ہو اور امریکی اتحاد میں اس کی اہمیت کم ہو اس لیے انڈیا جنگ بندی کی مخالفت کے ساتھ ساتھ کھل کر اففغانستان حکومت کو نہ صرف اسلحہ فراہم کر رہاہے جبکہ دوسری طرف بدلتے کنٹرول کو دیکھتے طالبان سے مذاکرات کا بھی خواہاں ہے، لیکن پچھلے دنوں سفارتی ملازمین کی واپسی کے نام پر آئے جہاز میں موجود اسلحے نے اس دوہری و دوغلی حکمت کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوڑ دیا۔

وزیراعظم پاکستان عمران خان کے حالیہ دورہ کابل پر اشرف غنی کا سرعام پاکستان کو افغان امن کا حریف کہنا غنی پر پیسہ لگانے والی ہندوستانی حمکت عملی کھل کر آخری حربے کے طور پر سامنے آ گئی ہے کہ غنی حکومت ہو یا انڈیا افغانستان میں امن ہوتا نکلنا مشکل ہے ان کے لئے۔ حالیہ دورہ کابل میں وزیراعظم پاکستان عمران خان اشرف غنی کے لگائے بے بنیاد الزام اور امن کی راہ میں رکاوٹ ڈالتی اس کوشش کو بے نقاب کرتے ہوئے افغانستان میں بدامنی سے پاکستان کے ہونے والے نقصان کی یاددہانی بھی کروا دی۔ پاکستان ہمیشہ سے افغانستان میں امن کی بحالی کی کوشش کرتا ہے کیوں کہ پاکستان اس بات کو بخوبی سمجھتا ہے کہ خطے میں امن کے لئے افغانستان میں امن ضروری ہے اور اس کے لیے موجودہ وزیر اعظم عمران خان کی کوششیں نا قابل فراموش ہیں۔

حالیہ دنوں میں انڈیا نے اپنے سفارت خانے سے عملہ واپس لانے کے لئے فضائیہ کے جہازوں میں عملہ کی بجائے بھاری مقدار میں بارود بھر کے بھیجا اور اس کی یہ مکروہ سازش بے نقاب ہو گئی طالبان نے ویڈیو جاری کی اور ساری دنیا کے سامنے انڈیا کی حقیقت واضح ہو گئی انڈیا در حقیقت امریکہ کے کہنے پر اشرف غنی کی دم توڑتی حکومت کو سہارا دینے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کی یہ کوشش کامیاب کرنے میں اشرف غنی نے افغان امن کانفرنس کو ملتوی کر دیا جس میں طالبان کے وفد کی قیادت بھی مدعو تھی اس حقیقت سے انکار نہیں کہ افغانستان میں حالات خراب ہونے سے سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہوتا ہے۔

کسی بھی ملک نے پرائی جنگ میں اتنی زیادہ قربانیاں نہیں دیں جتنی پاکستان نے ہمسایہ ہونے کے ناطے دی ہیں اسی زمر میں پاکستان نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی ہے اور آیندہ بھی کرتا رہے گا پاکستان ہمیشہ امن چاہتا ہے اور امن کے قیام کے لیے کوشاں رہے گا۔ دو ہزار چار سو تیس کلومیٹر طویل پاک افغان بارڈر جو  پاکستان کے شمال میں واخان پٹی سے شروع ہوکر بلوچستان میں ختم ہوتا ہے، وہاں سولہ مقامات ایسے ہیں جہاں سے روایتی طور پرمقامی لوگوں کی آمدورفت اور سرحدی تجارت ہوتی رہی ہے۔ مگر دنیا بھر میں عموما اور پاک افغان سرحدی علاقوں میں خصوصادہشت گردی، سمگلنگ اور منی لانڈرنگ کے بڑھتے واقعات نے اس سرحد پر آمد ورفت اور تجارت کو بھی متاثر کیا۔حکومت پاکستان کو مجبورا ان سولہ مقامات کو پانچ سرحدی دروازوں (طورخم، خرلاچی، غلام خان، انگور اڈہ اور چمن)تک محدود کرنا پڑا۔چونکہ افغانستان کا کوئی سمندری ساحل نہیں ہے اس لیے بین الاقوامی قوانین کے مطابق پاکستان افغانستان کو دنیا بھر سے تجارتی سامان کی درآمد کے لیے ٹرانزٹ سہولت فراہم کر رہا ہے۔ پاکستان کے خلاف انڈیا اور اسرائیل نے ہائبرڈ وار شروع کی ہوئی ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے۔

ہمارا ڈیٹا چوری کرنے کی پوری کوشش ہے۔ اور نادار کو بدنام کرنے کے لیے ایک بین الاقوامی سوشل میڈیا کا استعمال کیا جا رہا ہےتاکہ اس ملک کے ڈیٹا کو ہی مشکوک بنا دیا جائے۔حال ہی میں پاک افغان تعلقات خراب کرنے کی کوشش میں افغان سفیر کے بیٹی سلسلہ علی خیل کی ڈرامہ پہلی قسط میں ناکام ہوگی ہے انہوں نے افغانستان کے بجائے جرمنی جانے کوترجیح دی ہیں اور ساتھ ہی ڈرامہ نویس بھی چپنے کی کوشش۔۔ افغان سفیر کی بیٹی سلسلہ علی خیل کے اغواہ کا ڈرامہ آ ہستہ آ ہستہ مکمل طور پر بے نقاب ہوگیا ہے۔ الحمدللہ پاکستان کی ایجنسیوں نے بھرپور طریقے سے محنت کی اور اصل حقائق تک پہنچ گئے۔اندرونی اور بیرونی ملک دشمن عناصر نے اس واقع کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی  پوری کوشش کی۔ نجیب اللہ علی خیل پاکستان میں افغانستان کے سفیر ہیں‘ ان کی 27سالہ بیٹی سلسلہ علی خیل کے ساتھ جمعہ 16 جولائی کو ایک حیران کن واقعہ پیش آیا۔

پاکستان کی سفارتی تاریخ میں اپنی نوعیت کا غالباً یہ پہلا واقعہ ہے کہ کسی ملک کے سفیر کی صاحبزادی کے ساتھ ایسا ’’واقعہ منسوب‘‘ ہو کر منظر عام پر آیا ہے جس کی تہیں اب کھل رہی ہیں۔ سکیورٹی کے ادارے جو مختلف پہلوئوں سے اس سارے واقعہ کی تحقیقات کر رہے ہیں یقیناً اُنکے پیش نظر یہ پہلو بھی لازمی ہو گا کہ کسی بھی ملک کے سفیر کے اہل خانہ کو بھی سکیورٹی کی تمام مطلوبہ مراعات دی جاتی ہیں اور وہ سکیورٹی کے ہمراہ ہی سفارت خانے کو مختص شدہ نمبر کی مخصوص نمبر پلیٹ کی گاڑی میں سفر کرتے ہیں اور گاڑی سے باہر نکلنے کے بعد بھی مسلح سکیورٹی کا ایک اہلکار انکے ہمراہ ہوتا ہے‘ تو پھر سلسلہ علی خیل نے ان تمام قواعدو ضوابط کی خلاف ورزی کیوں کی؟ اس کے علاوہ بھی بے شمار سوالات ذہنوں میں اُٹھتے ہیں۔ کیا یہ ’’جاسوسی‘‘ کا معاملہ ہے؟ سلسلہ راولپنڈی میں دستاویزات کے تبادلے کیلئے گئی تھیں؟ کیا خوش شکل اور نوجون سلسلہ کا کوئی ’’انتہانی ذاتی سلسلہ‘‘ تھا یا پھر پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے وہ نادانستگی میں اغیار کی کسی سازش کا شکار ہو گئی۔ 


کیا اُنکے والدین یا دیگر اہل خانہ کو اس بات کا علم تھا کہ سلسلہ گھر سے باہر گئی ہوئی ہے؟ پھر سفارت خانے کی گاڑی میں گھر سے باہر جانے میں کیا امر مانع تھا؟ اگر مبینہ طور پر گھر سے ٹیکسی منگوائی گئی تو کسی کو اس بات کا علم نہیں ہوا جبکہ گھر کے باہر بھی مسلح سکیورٹی گارڈ متعین ہوتے ہیں۔  اسلام آباد میں افغان سفارت خانہ بے پناہ وسائل رکھتا ہے ان کے پاس سیکورٹی گارڈ بھی موجود ہیں اور متعدد سرکاری گاڑیاں بھی اس کے باجود افغان سفیر کی بیٹی پورے اسلام آباد اور راولپنڈی میں چار ٹیکسیاں بدل بدل کر کیوں گھومتی رہیں؟ اس کے علاوہ ان کے ساتھ دوسرا کوئی فرد کیوں نہیں تھا۔ وہ راولپنڈی کیا کرنے گئیں تھیں؟ اور سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ انھوں نے تفتیشی ٹیم کو اپنا موبائل ڈیٹا ڈلیٹ کرکے کیوں دیا؟ پاکستان اداروں کی تفتیش کے مطابق افغان سفیر کی بیٹی کے اغوا کا واقعہ ثابت نہیں ہو سکا ہے۔

افغان سفیر کی بیٹی کے اغوا کا یہ ڈرامہ جو کہ یقینا پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام کرکے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے لگایا گیا تھا بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔  جس عجلت میں افغان سفیر کو پاکستان سے واپس بلا لیا گیا ہے اس سے تو یہی ثابت ہو تا ہے کہ افغان حکومت کو یہ ڈر تھا کہ کہیں افغان سفیر مزید تحقیقات کے نتیجے میں مزید ایکسپوز نہ ہوجائیں۔ افغان قیادت اس صورتحال میں اپنے سر سے ذمہ داری ہٹانے کے لے لیے کچھ بھی کر سکتی ہے اور پاکستان کو بغیر کسی لگی لپٹی رکھتے ہوئے اس پراپیگنڈا مہم کا بھرپور جواب دینا چاہیے۔ پاکستان کو اس حوالے سے افغان حکومت کی کمزوریوں اور بھارت اور افغانستان کے گٹھ جوڑ کو بھی دنیا کے سامنے عیاں کرنے کی ضرورت ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
50947

قانون پسندی اور کافر انگریز – ظہور الحق دانش

قانون پسندی اور کافر انگریز – ظہور الحق دانش

1895ء کی ریاستِ چترال میں اقتدار کی کشمکش اور جنگ کے دوران چترال میں تعینات برٹش ایجنٹ جیارج رابرٹسن اپنی مشہورِ زمانہ کتاب The Story of a Minor Siege میں بہت سے تلخ واقعات و تجربات کا ذکر کرتا ہے۔ مذکورہ کتاب اگرچہ مجموعی طور پر چترال میں جنگ اور محاصرے کے دوران اُن کی فوج پر گزرنے والے حالات و واقعات کی روداد ہے، تاہم اس کتاب سے انسانی فطرت و نفسیات کے پراسرار گوشوں اور سماجی و سیاسی محرکات و عوامل کے حوالے سے بھی آنکھیں کھول دینے والے اسباق اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ سنگین تلخ تجربات کے علاوہ رابرٹسن اس کتاب میں کئی ایک دلچسپ اور مزاحیہ واقعات کا بھی ذکر کرتا ہے۔

ایسے واقعات میں سے ایک واقعہ کچھ یوں ہے کہ شیر افضل اور عمرا خان کی مشترکہ فوج نے جب اُن کو قلعہ چترال میں محصور کیا اور یہ محاصرہ طول پکڑتا گیا، تو اُن پر مسلسل گولہ باری کے علاوہ ایک بہت بڑا چیلنج یہ درپیش ہوا کہ اُن کا راشن کم پڑتا گیا۔ اَسّی مربع گز رقبہ والے قلعہ چترال کے اندر انگریز فوج کے افسران و سپاہی، سبکدوش مہتر امیر الملک اور نئے مہتر شجاع الملک اور ان کے وزراء و عمائدین کو ملا کر 550 افراد محصور تھے۔ راشن کی مقدار بہت محدود تھی اور محاصرہ تھا کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا (جو 47 دن تک جاری رہا)۔ طول پکڑنے والے محاصرے کے مد نظر انہوں نے کچھ سخت گیر اقدامات یوں اٹھائے کہ محصورین کی ماکولات و مشروبات کی شئیر میں شدید کمی کر دی۔ جب ماتحت فوجی افسروں کی مشروب میں کمی کرکے تقریباً آدھا لیٹر فی کس ہر بارہ دن مقرر کیا تو، رابرٹسن لکھتا ہے کہ، ایک جونئیر آفسر ایک دن بڑا پریشان اور چہرے پر مجروح تاثرات کے ساتھ اُن کے کمرے میں داخل ہوا۔ اُس کے ہاتھ میں فوجی قوانین اور ضوابط کا ایک کتابچہ تھا۔ اندر آتے ہی اس نے کہا کہ چونکہ قانون کی اس کتاب کی رو سے ہر فوجی افسر کو ایک مخصوص مقدار کی مشروب مقرر ہے، آپ کیوں ہمیں مقررہ مقدار فراہم نہیں کرتے؟ اس پر رابرٹسن نے مسکراہٹ کے ساتھ بڑے پیار سے اس کو سمجھایا کہ ظاہراً مذکورہ قانون عام حالت کے لیے بنایا گیا ہے اور اس کا محاصرہ جیسے ہنگامی حالت اور راشن کی کمی جیسے حالات پر اطلاق نہیں ہوتا۔ رابرٹسن کہتا ہے کہ یہ اُس متعلقہ قانونی شق کی ایک غیر معمولی بھول تھی، کہ ہنگامی حالت پر وہ خاموش تھا۔


اس واقعے کا ذکر صرف اس لیے کیا جاتا ہے کہ ہم برائے نام قانون کی حکمرانی کے نعرے دینے والے لوگ کیا اپنے اداروں میں قوانین کو کوئی اہمیت دیتے ہیں؟ کیا ہم اتنے با شعور ہیں کہ مملکتِ پاکستان کے قانون نے ہمیں جو حقوق بحیثیت شہری اور بحیثیت ملازم و کاروباری دیے ہیں ان کے حوالے سے ذمہ دار افسران سے پوچھ گچھ کر سکتے ہیں؟ بالکل اسی طرح جس طرح اس انگریز سپاہی نے اپنے ذمہ دار افسر سے پوچھا تھا، حالانکہ حالت بھی نارمل نہیں بلکہ ہنگامی تھی۔ پھر بھی قانون کا اتنا شعور اور اتنا احترام حیران کن ہے۔ نہیں؟ہمارے اکثر ادارے قوانین سے زیادہ کچھ افراد کی مرضی اور طریقہ ہائے استحصال کے بل بوتے پر چلتے ہیں۔ خاص کر خود مختار ادارے تو۔۔۔ تباہ دے تباہ۔میرا دو الگ الگ خودمختار اداروں میں ملازمت کا دس سالہ تجربہ ہوا، اور بہت ہی تلخ تجربہ ہوا۔ اچھا پہلو یہ تھا کہ ہمیں شیطانی انسانی رویوں اور محرّکات کا مشاہدہ و تجزیہ کر کرکے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔

حضرتِ انسان کو لالچ، حسد، خود غرضی، بھوک، کرپشن، انانیت، غرور، دوغلاپن، منافقت، خنّاسیت اور اخلاقی گراوٹ کی دلدل میں مختلف روپ میں رینگتے ہوئے دیکھا۔ مذکورہ دونوں اداروں کے “کامپیٹینٹ اتھارٹیز” استحصال، بدعنوانی، بے قاعدگیوں اور پالیشیانہ طریقہ ہائے کار و طریقہ ہائے واردات کا ایسا بازار گرم کر رکھا تھا کہ اگر آپ اُن سے قانون اور اصول کی بات کرتے تو بہت بُرا مناتے اور کہتے تھے کہ قانون قانون کا رٹہ بند کرو، یعنی ہمیں اپنی مرضی سے چلنے اور چلانے دو۔ بس منافقت خصلت اور مریض ذہنیت والے ایک آدھ بابؤں کو لیکر ملازمین کو ڈرا دھمکا کر اور کچھ کو لالچ دے اُن کو خاموش کراتے ہوئے اور کچھ کے خلاف منفی پروپیگنڈے کرا کے اپنے انداز سے قانون کو توڑ مروڑ کے اداروں کے امور چلائے جاتے تھے۔ وہ سب قصے مع شواہد بتانے اور لکھنے لگ جائیں تو داستان بن جائے۔ (انشاء اللہ ایک دن ایسی داستان بن بھی جائے گی اور چھپے گی بھی۔)یہ پھر الگ بات ہے کہ ایسے فرعون صفت اور استحصالی و مریض ذہنیت کے بھوکے لوگ ذلیل و خوار ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ یہ قدرت کا اُن سے انصاف کا الگ معاملہ ہے۔ 


مدّعا کا لُب لباب یہ ہے کہقانون پسندی اور اصول پسندی بہت بڑی طاقت ہے۔ یہ تہذیب ہے۔ یہ ترقی کا زینہ ہے۔ یہ انسانی نظم کا حسن ہے۔ یہی دین کا معراج بھی ہے کہ اللہ کے قانون کے سامنے اپنی ناجائز خواہشات و مفادات کا سر خم کرو۔ قانون پسند اور اصول پسند معاشرے ہی تہذیب اور ترقی کے بام عروج تک پہنچتے ہیں۔ قانون اور اصولوں کو روندنے والے افراد اور قوموں کا منطقی انجام ہی ذلالت و زوال ہے۔ قوانین سے آگہی حاصل کیجیے، اور اُن پر عمل کیجیے، اور جہاں جہاں قانون یا ضابطہ میں آپ کو کوئی لُوپ ہولز یا بھول چُوک نظر آئیں تو اپنے ادارے کے اس متعلقہ قانون ساز باڈی کو اپنی پرخلوص تجویز دیتے رہیے تاکہ اپنی قوم کی تہذیب و ترقی کے سفر میں آپ کا کنٹریبیوشن رہے، نہ کہ ذلت و انحطاط کے سفر میں۔ کل کو ابراہیمی چڑیے کی طرح کم از کم یہ سرخروئی تو ہو سکتی ہے کہ ہم آگ بُجھانے والوں کی صف میں شامل تھے، نہ کہ آگ لگانے والوں کی صف میں۔ 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
50967

امریکی وزیر خارجہ کے دورہ بھارت میں درپردہ مقاصد !!….قادر خان یوسف زئی

امریکی وزیر خارجہ دورہ بھارت پرآئے، خطے میں تبدیل ہوتی نئی تذیرواتی صورت حال کے تناظر میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن باٗیڈن کے اقتدار میں آنے کے بعد پہلی بار بھارتی ہم منصب سبرامنیئم جے شنکر سے بات چیت اور وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی۔ بھارت میں ہندو انتہا پسندی کی بڑھتی لہر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر دونوں ممالک کے درمیان کسی خاص پیش رفت کی امید کم رکھی جارہی ہے، کیونکہ اس سے قبل بھارت انسانی حقوق کی خلاف وزری پر امریکی رپورٹ کو مسترد کرچکا ہے اور اس نے مذہبی اقلیتوں کے خلاف ریاستی جبر اور آر ایس ایس کے کردار پر متنازع عمل کو ہمیشہ کی طرح مسترد کرنے کی روش اپنا رکھی ہے۔ اس لئے گمان کیا جارہا ہے کہ افغانستان میں امریکی شکست کے بعد بھارت کو نیا کردار ادا کرنے کے لئے ماضی کی طرح کوشش کی جائے گی۔

درپردہ امریکی مقصد عیاں ہے کہ وہ چین اور افغانستان میں اپنے اثر رسوخ کو بڑھانے کی منصوبہ بندی میں چین کے خلاف سابق صدور کی روش کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ چین کے خلاف خطے میں صرف بھارت ایک ایسا ملک ہے جو مفادات کی لالچ میں چین کے خلاف استعمال ہونے کے لئے امریکی مراعات حاصل کرنے کا خواہاں رہا ہے۔ واضح رہے کہ امریکہ نے چین کے ہانگ کانگ میں واقع رابطہ دفتر کے ڈائریکٹر اور سات نائب ڈائریکٹروں کے خلاف  نئی پابندیوں عائد کی، جس کے ردعمل میں چین نے بھی میں متعدد امریکی شہریوں کے خلاف پابندیاں عائدکی۔


 امریکی دوہری پالیسی بھی کسی سے مخفی نہیں، امریکہ اپنے مفادات کے لئے کسی بھی سطح پر جا کر کسی بھی ملک کو استعمال کرنے میں مہارت رکھتا ہے۔ چین کے ساتھ بڑھتے تنازعات میں کوووڈ 19کے پھیلاؤ کی تحقیقات کے حوالے سے امریکہ۔چین کے درمیان کشیدگی کا فائدہ بھارت کو پہنچے گا۔بھارت اور امریکہ چین کی ابھرتی طاقت سے پریشان ہیں، اس سے قبل وزیر دفاع آسٹن لائیڈ نے اپنے دورہ بھارت میں اظہار کرچکے تھے کہ امریکہ اور بھارت کے درمیان چین مخالف تعلقات بائیڈن دور میں بھی بڑھتے رہیں گے۔امریکی وزیر خارجہ کے حالیہ دورہ بھارت میں کواڈ گروپ میں شامل امریکہ، بھارت،آسٹریلیا اور جاپان کے گروپ کو 2017 میں چین مخالف پالیسی کے تناظر میں بحال کیا گیا۔ بادی ئ النظر بھارتی سرکار کا بائیڈن مخالفت میں سابق صدر ٹرمپ کی حمایت کے باوجود امریکہ و چین کے درمیان بدترین تعلقات میں بھارت کے کردار کو اہمیت کا حامل تصور کیاجارہا ہے۔گو کہ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ امریکہ، بھارت نے بالخصوص مخالف آرا کو دبانے اور مسلمانوں کے خلاف شہریت کا امتیازی قانون بنانے جیسی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی ہیں؛ جبکہ بھارتی حکومت کا موقف ہے کہ شہریت کا قانون امتیازی نہیں ہے اور یہ کہ اس کے خلاف لگائے گئے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات درست نہیں ہیں۔ خیال رہے کہ بھارت کے خلاف امریکی حکومت کی امداد سے چلنے والے ایک معروف ادارے  ‘فریڈم ہاؤس’ پورٹجاری کی تھی کہ  جس میں نریندر مودی کے دور حکومت میں انسانی حقوق کی مبینہ بدترین صورت حال کا حوالہ دیتے ہوئے بھارتی آزادی اور جمہوریت کا درجہ کم تر کرتے ہوئے اسے ”جزوی طور پر آزاد” ملک کی فہرست میں ڈال دیا تھا۔لیکن دیکھا جاتا رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے خلاف مظالم پر کانگریس میں آواز اٹھنے اور مذمت کے باوجود مودی سرکار کی انتہا پسندی کو نظر انداز کیا گیا، خطے کی دو ایٹمی ممالک کے درمیان بڑھتی کشیدگی کو کم کرنے کے بجائے اپنا اثر رسوخ پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لئے استعمال کیا گیا اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی رپورٹس کو بھی مخصوص مفادات کے لئے پس پشت رکھا گیا۔


بھارت،اپنے منفی پروپیگنڈے کے تحت افغانستان کی صورت حال پر عالمی برداری کو گمراہ کرنے کی روش کو اختیار کئے ہوا ہے، مقبوضہ کشمیر میں اپنی ریاستی دہشت گردی کو چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغان طالبان ایسے عناصرکی حمایت کریں گے جو مقبوضہ کشمیر میں مودی سرکار کے خلاف برسروپیکار ہیں۔ یہ بھارتی پروپیگنڈا دراصل مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لئے مزاحمت کرنے والوں کی تحریک واداریت کے خلاف مذموم سازش کا ایک حصہ ہے۔ اسی طرح انڈین خفیہ ایجنسی اور افغان این ڈی ایس باہمی اشتراک سے پاکستان کے خلاف ہائی برڈ وار کے ذریعے منظم سازشیں کرکے پاکستان کی خطے میں امن کوششوں کو متاثر کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں، ان حالات میں امریکی وزیر خارجہ کو بھارت کے کردار کو زمینی حقائق کے مطابق دیکھنے اور جنوبی ایشیائی پالیسی کومرتب دینے کی ضرورت دینا ناگزیز ہوگا۔  خیال رہے کہ بلنکن کے دورے سے قبل جب امریکی محکمہ خارجہ میں جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کے معاون سیکریٹری ڈین تھامسن سے نامہ نگاروں نے یہ سوال کیا تھا کہ آیا وزیر اعظم مودی کی ہندو قوم پرست پارٹی بی جے پی کے نافذ کردہ شہریت ترمیمی قانون، جسے ناقدین مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک سے تعبیر کیا جاتا ہے، کا معاملہ اٹھایا جائے گا؟ اس کے جواب میں تھامسن نے کہا تھا،”اسے اٹھایا جائے گا۔” تاہم بادی ئ النظر اس میں سنجیدگی کا عنصر کم نظر آرہا ہے۔


امریکی وزیر خارجہ کو اس امر کا بھی ادارک ہوگا کہ افغانستان کی تیزی تبدیل ہوتی صورت حال میں پاکستان خطے میں امن کے لئے کلیدی کردار ادا کررہا ہے، تاہم کابل انتظامیہ کی جانب سے عدم تعاون و الزام تراشیوں کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے، امریکہ کو اپنی حاشیہ بردار کابل انتظامیہ کو لگام دینے کی ضرورت بڑھ جاتی ہے کہ وہ کابل انتظامیہ کو شر انگیز بیانات سے روکے۔ پاکستان نے گذشتہ دنوں ایک مرتبہ پھر ذمہ دار انہ کردار ادا کیا۔  پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے مطابق خیبر پختونخوا کے ضلع چترال سے متصل افغان صوبے کنڑ کے سے پاکستان میں داخل ہونے والے 46 افغان فوجی اور افسران کو افغان حکام کے حوالیکیا۔پاکستان امن و سلامتی اور پائدار سیاسی استحکام کے لئے مثبت کردار ادا کررہا ہے، امریکہ کو بھارتی تعلقات کے نئے زوایئے میں اس حقیقت کو دیکھنا ہوگا کہ امریکہ کی بحفاظت واپسی و گذشتہ چار دہائیوں کے جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی بن کر امریکی مفادات کا دفاع کیا، انہیں جنوبی ایشیائی دوروں، بالخصوص بھارت کے دورے کے ساتھ پاکستان کا بھی رخ کرنا چاہے، پاکستان امریکی حکام کی آمد کا صرف ڈو مور کے مطالبات سے ہٹ کر دو طرفہ معاملات میں تعلقات کے درمیان موثر حکمت عملی اور اعتماد کی فضا کو قائم رکھنے کے لئے وفود کے تبادلے اور اعلیٰ سطح پر ملاقاتوں سے کئی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوجاتا ہے، جبکہ نظر انداز کرنے سے بد گمانیاں جنم لیتی ہیں، یہ ضرور ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی کی فضا سازگار و ماضی میں بھی آئیڈیل نہیں رہی ہے، لیکن عالمی سطح پر کوویڈ 19نے دنیا کا نقشہ بدل دیا ہے۔ پاکستان تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات کی از سرنو تشکیل کا خواہش مند بھی ہے اور امن کے لئے ایک قدم کے جواب میں دو قدم بڑھانے کا عندیہ دے چکا ہے، امریکہ اپنی جنوبی ایشیائی پالیسی میں برابری کی سطح پر پاکستان کی اہمیت و قربانیوں کو نظر انداز کرنے سے گریز کرے تو یہ خطے میں امن کیلئے بہتر ہوگا۔ 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
50917

کشمیر انتخابات کے حسب توقع نتائج ۔ محمد شریف شکیب

کشمیر انتخابات کے حسب توقع نتائج ۔ محمد شریف شکیب

آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کی 45جنرل نشستوں کے لئے انتخابات کا عمل پایہ تکمیل کو پہنچ گیا۔ پاکستان تحریک انصاف نے گلگت بلتستان کے بعد آزاد کشمیر کے انتخابات میں بھی بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ 45میں سے 44نشستوں پر پولنگ کے غیر سرکاری نتائج کے مطابق پی ٹی آئی نے 25نشستیں حاصل کرلیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے حصے میں گیارہ نشستیں آگئیں جبکہ آزاد کشمیر میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کو صرف 6نشستیں مل سکیں۔اس بار آزاد کشمیر کے انتخابات میں بھرپور مہم چلائی گئی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور مسلم لیگ کی نائب صدر مریم صفدر نے تو کشمیر میں ڈیرے ڈال دیئے تھے۔ وزیراعظم عمران خان اور وفاقی وزراء نے بھی متعدد انتخابی جلسوں سے خطاب کیا۔

آزاد کشمیر کے انتخابی نتائج توقع کے مطابق رہے۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے انتخابات میں ہمیشہ وہی پارٹی کامیاب ہوتی ہے جس کی مرکز میں حکومت ہو۔ یہ دونوں صوبوں کے عوام کا دانشمندانہ فیصلہ ہے۔پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں آزادانہ اور شفاف انتخابات اور تحریک انصاف کی کامیابی سے بھارت پر بین الاقوامی دباؤ میں اضافہ ہوگا کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھی آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرائے اور کشمیری عوام کی سیاسی رائے معلوم کرے۔متحدہ اپوزیشن کے سربراہ مولانا فضل الرحمان پہلے ہی اعلان کرچکے تھے کہ اگر کشمیر انتخابات میں عمران خان جیت گئے تو وہ نتائج کو تسلیم نہیں کریں گے۔ حالانکہ ان کی اپنی جماعت الیکشن میں حصہ ہی نہیں لے رہی تھی۔

مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے بھی کشمیر میں الیکشن چوری ہونے کا الزام لگایاہے۔ وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ کشمیر انتخابات میں شکست کے بعد اپوزیشن کو اپنی سیاست اور قیادت پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ کشمیر الیکشن کے دوران بہت سی انہونیاں دیکھنے کو ملیں۔ ایک انتخابی حلقے سے مسلم لیگ ن کے امیدوار نے اعلان کیا کہ اگر ان کے ساتھ انصاف نہ کیاگیا تو وہ بھارتی وزیراعظم مودی کو مدد کے لئے پکاریں گے۔اس بیان پر ملک بھر میں شدید ردعمل کا اظہار کیاجارہا ہے۔

حکمران جماعت مسلم لیگ کی شکست میں مریم صفدر کی ناپختہ کاری کے علاوہ نواز شریف کی لندن میں پاکستان مخالف افغان رہنماؤں سے ملاقات کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ جبکہ پیپلز پارٹی کو کشمیر میں ان کی توقعات سے زیادہ نشستیں ملی ہیں جس کا کریڈٹ بہرحال بلاول بھٹو کو دیا جانا چاہئے۔ پاکستان میں جن حلقوں میں کشمیر انتخابات کے حوالے سے پولنگ ہوئی۔ وہاں ٹرن آؤٹ مایوس کن تھا۔ لاڑکانہ، بنوں اور دیر میں ایک اور دو ووٹروں کے لئے پولنگ سٹیشن قائم کئے گئے تھے۔ وہاں ایک ووٹ بھی پول نہیں ہوا اور انتخابی عملہ دن بھر پولنگ بوتھ پر اونگھتا رہا۔ ایک یا دو ووٹوں کے لئے پولنگ سٹیشن قائم کرنا اور درجنوں اہلکاروں پر مشتمل عملہ کی تعیناتی اور انتخابی مواد کی ترسیل پر لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرنا سراسر اسراف ہے۔

ان ووٹروں سے پوسٹل بیلٹ پر ووٹ لئے جاسکتے تھے۔ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری کے باوجودکشمیر انتخابات میں پی ٹی آئی کی کامیابی سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان کی تبدیلی کے نعرے میں عوام کے لئے کشش اب بھی موجود ہے۔ اور لوگ روایتی اور موروثی سیاستدانوں کے فرسودہ انداز کو ناپسند کرتے ہیں۔اپنی حکومت کے تین سالوں میں عمران خان نے ذوالفقار علی بھٹو کی طرح عوامی سیاست کی ہے جسے عوام میں پذیرائی ملی ہے۔ تاہم حکومت کے پاس اپنے انتخابی منشور پر پوری طرح عمل درآمد کرنے کے لئے دو سال کا مختصر عرصہ بچا ہے اس دوران اس نے بہت سے کام کرنے ہیں۔

کرپشن کا ابھی تک خاتمہ نہیں ہوسکا۔ سرکاری نوکریاں آج بھی ماضی کی طرح فروخت ہورہی ہیں۔منتخب نمائندوں اور عوام کے درمیان آج بھی فاصلے موجود ہیں۔ مہنگائی کا جن قابو میں نہیں آرہا۔ بجلی اور گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اورلوڈ شیڈنگ نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ بین الاقوامی سطح کی سیاست میں عمران خان کو غیر معمولی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں مگر ملکی سطح پر انہیں عوام کو ریلیف پہنچانے کے لئے بہت کچھ کرنا ہے اور ان کے سیاسی بقاء کا دارومدار بہر حال عوام کا بھرپور اعتماد حاصل کرنے پر ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
50919

پاک افغان سرحد (ڈیورنڈ لائین)-ایک دستاویزی و تاریخی حقیقت-ڈاکٹرساجد خاکوانی اسلام آباد

بسم اللہ الرحمن الرحیم

پاک افغان سرحد(ڈیورنڈ لائین)-ایک دستاویزی و تاریخی حقیقت-ڈاکٹرساجد خاکوانی اسلام آباد

                قائداعظم محمدعلی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے شمال مغربی سرحدی صوبے کے دورے کے دوران جب پاک افغان سرحد پر گئے تووہاں موجود افغان فوجی سے ہاتھ ملایا اور ساتھ ہی کہا کہ ہم بحیثیت امت مسلمہ ایک قوم ہیں جب کہ یہ لکیریں شیطان کی لگائی ہوئی ہیں جو ہمیں تقسیم کرنا چاہتا ہے۔قائداعظم محمدعلی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے قیام پاکستان کے آغاز میں ہی اپنا خصوصی ذاتی نمائندہ افغانستان بھیجا،بعد میں اسی نمائندے کا دفترپاکستان کا سفارت خانہ بنادیاگیاتھا۔اس کے جواب میں افغانستان کے حکمران بادشاہ نے سردارنجیب اللہ خان کواپنا نمائندہ سفیربناکرپاکستان بھیجا۔افغان سفیر نے 3دسمبر1947ء کو اپنی سفارتی دستاویزات قائداعظم محمدعلی جناح رحمۃ اللہ علیہ کوپیش کیں تو اس موقع پر قائدنے تقریر کرتے ہوئے فرمایا:

”پاکستان کے عوام اورحکومت افغان عوام کے ساتھ بہت گہرے اور گرم جوش دوستانہ روابط محسوس کرتے ہیں جوکہ ہمارے قریب ترین ہمسائے بھی ہیں۔افغانستان کے ساتھ ہمارے صدیوں پرانے اور نسلوں سے قائم تہذیبی،ثقافتی اور مذہبی بندھن ہیں۔پاکستان کے عوام اپنے افغانیوں بھائیوں کے جذبہ آزادی اور مضبوط کردارکی قدر کرتے ہیں۔مجھے امید ہے دونوں حکومتیں بہت جلد ایک دوسرے کے ساتھ باہم شیروشکر ہو جائیں گی اور ہم تمام معاملات کو آپس کے تعاون کی بنیادپر خوش اسلوبی سے حل کرلیں گے“۔

اس سے قائداعظم محمدعلی جناح رحمۃ اللہ علیہ کے ان جذبات کا احساس ہوتا ہے جو وہ پڑوسی ممالک کے بارے میں رکھتے تھے اور خاص طورپر مسلمان پڑوسی ممالک کے بارے میں جنہیں وہ امت مسلمہ کے حوالے سے باہم ایک تصور کرتے تھے۔قائداعظم محمدعلی جناح رحمۃ اللہ علیہ کے ان فرمودات سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے اصول بھی مرتب ہوتے ہیں کہ جن کے مطابق وطن عزیز کی خارجہ پالیسی میں ہمسایہ مسلمان ملکوں کی اور دیگر امت مسلمہ کے ممالک کی اہمیت دیگرباقی ممالک سے زیادہ ہے۔

                پاکستان اور افغانستان کو ”ڈیورنڈ لائن‘کی تاریخی و دستاویزی سرحد ایک دوسرے سے جدا کرتی ہے۔یہ 2430کلومیٹر(1510میل)لمبی ہے۔تاج برطانیہ نے ہندوستان کی سونے کی چڑیاکو اپنے پنجرے میں بندکیاتواسے خطرات لاحق ہوئے  اور خاص طور پر شمال سے اسے روس کی بڑی طاقت سے بے حد خطرہ تھا کہ وہ افغانستان کے راستے ہندوستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے میں گڑبڑ کے حالات نہ پیدا کر دے۔چنانچہ انیسویں صدی کے آخر میں وائسرائے ہند نے افغانستان کے بادشاہ امیر عبدالرحمن سے خط و کتابت شروع کی اور ان کی دعوت پر اس وقت کے برطانوی ہندوستان کے امور خارجہ کے نگران سرہنری یٹیمر ڈیورند (Sir Henry Mortimer Durand)کو کابل بھیجا تاکہ پیش نظر مسئلہ کا کوئی سیرحاصل نتیجہ نکالا جا سکے۔نومبر1893ء میں دونوں حکومتوں کے درمیان باقائدہ ایک سوسالہ معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے نتیجے میں سرحدی پٹی کا تعین کردیاگیا۔یہ سرحدی پٹی ”ڈیورنڈ لائین“ کہلاتی ہے۔اس ایک سو سالہ،معاہدے کے تحت واخان،کافرستان کا کچھ حصہ،نورستان،اسمار،مہمندلعل پورہ اوروزیرستان کاکچھ علاقہ افغانستان کو سونپ دیاگیاجب کہ استانیہ،چمن،نوچغائی،بقیہ وزیرستان،بلندخیل،کرم،باجوڑ،سوات،بنیر،دیر،چلاس اور چترال برطانوی ہندوستان کے حصے میں آگئے۔

                قیام پاکستان کے بعد سے پاکستان اس معاہدے کی پابندی کرتارہا اورلیکن افغانستان نے اس ڈیورنڈ لائن کو ماننے سے انکار کر دیااور دریائے کابل تک کے علاقے کا دعوی بھی کردیا۔وہ اس دعوے کے حق میں انگریز کی آمد سے پہلے سکھوں کی حکومت کا حوالہ دیتے ہیں جب سکھوں کی فوج کشی کے نتیجے میں ان کے یہ علاقے چھین لیے گئے تھے۔کتنی حیرانی کی بات ہے کہ سکھوں نے علاقے چھین لیے اور افغانستان کی حکومت کچھ نہ کر پائی،انگریز نے میز پر بیٹھ کر دستخط کروالیے تو بھی والی افغانستان نے ہاتھ ملا کراپنے علاقے،اگریہ ان کے اپنے تھے،انگریز کے حوالے کر دیے اور اس شان سے کیے کہ جو انگریز افسریہ علاقے لینے آیا وہ کئی ہفتوں تک افغانستان کے بادشاہ کی میزبانی سے بھی لطف اندوز ہوتا رہااور اسے پورے تزک و احتشام کے ساتھ رخصت بھی کر دیا۔اور اس معاہدے کی مدت بھی پوری ایک صدی تک طے کر دی،جب کہ دستخط کرنے والوں کو یقین کامل تھا اگلے سوسالوں کے بعد تک ان میں سے کوئی بھی زندہ نہیں ہوگا۔لیکن 14اگست1947کے بعد اپنی طویل قومی،ملی و عوامی جدوجہد کے بعداور صدی کی سب سے بڑی ہجرت کے بعدیہ علاقے حاصل کیے توافغانستان کو ان علاقوں پر اپنا حق ملکیت یاد آگیا؟؟؟

                پاکستان نے ان علاقوں پر سکھوں کی طرح زبردستی یاانگریزوں کے طرح چالاکی سے قبضہ نہیں کیابلکہ بالکل ایک جمہوری انداز سے ان علاقوں کی عوام کی مرضی کے مطابق انہیں اپنے اندر شامل کیاہے۔ 1947ء کوبرطانوی پارلیمان نے ایک قانون منظور کیا جس کے مطابق 15اگست1947ء کو متحدہ ہندوستان کودو آزادریاستوں میں تقسیم ہو جاناتھا۔اس قانون میں یہ شق بھی موجود تھی شمال مغربی سرحدی صوبے میں ریفرنڈم کے ذریعے عام عوام کی رائے معلوم کی جائے۔چنانچہ 6جولائی کو اس تمام علاقے میں برطانوی حکومت کے تحت ریفرنڈم کاانعقادکیاگیا۔نتائج کے مطابق 99.2%رائے دہندگان نے پاکستان میں شمولیت کے حق میں رائے دی اور0.98%رائے دہندگان نے اس سے اختلاف کیا۔پس افغانستان کے حکمرانوں نے جس حکومت کا ڈیورنڈ لائن کا فیصلہ تسلیم کیااسی حکومت کے تحت منعقد ہونے والے ریفرنڈم کافیصلہ کیوں قبول نہیں ہے۔پھر پٹھان سرداران وعمائدین کے جرگے نے بھی اس ریفرنڈم کے فیصلے کی توثیق کر دی۔اور یہ فیصلہ حکومت نے میز پر بیٹھ کر مزاکرات کے نتیجے میں کچھ لواور کچھ دو کے طورپر نہیں کیابلکہ عوام کی فیصلہ کن اکثریت کے بل بوتے پر کیاہے۔اس کے بعد سے پاکستان کی ایک طویل تاریخ ہے جس میں اس علاقے کے لوگ پاکستان کے ساتھ دل و جان سے شریک ہیں،پاکستان کے تمام محکموں میں ان کی نمائندگی موجود ہے،عساکرپاکستان میں اس علاقے کے لوگوں کی قربابانیاں تاریخ نے سنہری حروف سے کنداں کی ہیں۔

                افغانستان کی حکومت 14اگست1947سے پہلے اور اس کے بعد بھی متعدد مواقع پر اس ڈیورنڈ لائن کو ایک بین الاقوامی سرحد کے طورپر تسلیم کر چکی ہے،اور عملاََگزشتہ ایک صدی سے زیادہ کا تعامل اس پر گواہ بھی ہے۔1905ء کا معاہدہ،1919ء کا معاہدہ  اور1921ء کے معاہدوں پر افغان حکومتون کے دستخط اس ڈیورنڈ لائین کو مزید تقویت دینے کے لیے اور اسے ایک بین الاقوامی سرحدکی حیثیت دینے کے لیے کافی ہیں۔اور اگر اس سے انکار بھی کرنا ہے تو امیرعبدالرحمن کے زمانے سے انکار کیاجائے،اور اگر اس سے بھی پہلے کی تاریخ میں جھانکا جائے تو سکھوں سے بزوربازواس علاقے کو چھین لیاجاتا۔بھلا صدیوں کے بعد یہ کیسے ممکن ہے کہ اس سرحدی حقیقت کو جھٹلا دیا جائے جس میں خود افغانستان کے حکمرانوں کے دستخط موجود ہیں اور انگریزسرکار کی موجودگی تک ڈیورنڈ لائن کے اس پار سے ایک چوں تک کی آواز نہ سنی گئی۔اگرافغانستان کو اپنی آزادانہ تجارت کے لیے بحیرہ عرب تک رسائی درکارتھی تویہ پہلے سوچنے کی بات تھی،ایک سوسال بعد سوچ کے نتیجے میں تاریخ کے فیصلوں پروقت کی بہت زیادہ گرد بیٹھ چکی ہوتی ہے اور کسی جغرافیائی خطے میں صدیوں کے بعد فیصلے تبدیل نہیں کیے جاسکتے۔ڈیورنڈ لائین ایک حقیقت تھی اور ہے اورجب تک اللہ تعالی نے چاہا یہ ایک حقیقی سرحد رہے گی۔

                افغانستان کے لیے بہترین راستہ وہی ہے جس کی راہنمائی قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تقریرمیں کردی تھی۔افغانستان اپنے آپ کوایک اسلامی ملک سمجھتے ہوئے امت مسلمہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط ترکرے۔اپنے قومی مفادات پر امت اور ملت کے مفادات کو ترجیح دے۔ایک مسلمان پڑوسی مملکت کی حیثیت کو مانتے ہوئے پاکستان کی حقیقت کو تسلیم کرے۔بحیرہ عرب کے دروازے پاکستان کے راستے اگر سوشلسٹ چین کے لیے کھل سکتے ہیں تو مسلمان افغانستان کااس پر اولین حق ہے۔اس سے قبل بھی جب روس نے افغانستان پر فوج کشی کی تھی پاکستان کی سرحدیں افغان بھائیوں کے لیے کھول دی گئی تھیں۔پاکستان کا ظرف بہت وسیع ہے لیکن پاکستانی قوم اس بات کو برداشت نہیں کرسکتی کہ افغانستان کی سرزمین کوپاکستان کے دشمن استعمال کریں اور سرزمین پاکستان پر اپنی دہشت گردانہ کاروائیوں کی نگرانی افغانستان سے بیٹھ کرکیاکریں۔پاکستان اور افغانستان کو بہرحال یک میز پر بیٹھ کر آپس کے معاملات آپس میں ہی طے کرنا ہوں گے اورکسی بھی پیرونی عنصر کو آپس میں غلط فہمیاں پیداکرنے سے باز رکھنا ہوگا۔اوراب وقت آ چکا ہے اوراب آنے والی نسلیں اپنی قیادتوں کو مجبورکر دے گی کہ کہ دونوں اکٹھے ہوں گے،بیرونی عناصراوران کے بہی خواہوں اورغداران ملت کو باہر کاراستہ دکھائیں گے اور امت مسلمہ کویہاں سے نوید صبح نوضرور میسر آئے گی،انشاء اللہ تعالی۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
50914

اسلام اور سائنس میں تصادم نہیں – تحریر :شہباز علی

اسلام اور سائنس میں تصادم نہیں – تحریر :شہباز علی

یہ ایک واضح اور کھلی حقیقت ہے کہ وقت اپنے ساتھ حیرت انگیز مشاہدوں اور تجربات کی صورت میں جدیدیت اور منفرد ایجادات لے کر بدلتا رہتا ہے ۔صدی جب کروٹ بدلتی ہے تو ایک ’ممکن‘ کو ’حقیقت‘ کا روپ مل چکا ہوتا ہے۔پچھلی نسل جس ترقی کی خواہش کرتی تھی موجودہ نسل اسے کئی منزلیں پیچھے چھوڑ چکی ہے۔


طبیعیات، نباتات،فلکیات ،حیاتیات،سرجری، آلات خواہ کوئی بھی سائنسی شاخ ہو، وہ چیزیں جن کے متعلق 50 یا 100 سال پہلے سوچنا بھی محال تھا وہ سب ممکن ہوچکا ہے اور ساتھ ہی ہمیں غور کی دعوت دے رہا ہے ۔ متعدد سائنسی حقیقتیں جو آج منظرِ عام پر آئی ہیں قرآن نے 1433 سال پہلے ان کا اعلان کردیا تھا۔ارشاد ہوتا ہے:

وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ

”ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی (جسے صراحتہََ یا کنایۃ بیان نہ کردیا ہو)“

گویا اس کائنات کے ظہور پذیر ہونے اور اس کے بعد رونما ہونے والے ہر اسرارِ کائنات اور مظہرِ خداوندی سے متعلق تمام باریکیوں کا ذکر شریعت ِاسلامیہ نے قرآن و حدیث میں کسی نہ کسی زاویے سے کرڈالا ہے ۔ تمام معاملاتِ زندگی اس کے ارد گرد گھومتے نظر آتے ہیں ۔ مذہب نے قدرت کے رازوں پر غور و فکر کی دعوت دی ہے اور تما م سائنسی ایجادات و انقلابات اس کی عملی شکل ہیں۔مذہب اور سائنس میں عدم تضاد کی اہم وجہ یہ ہے کہ دونوں کی بنیادیں ہی جدا جدا ہیں۔ درحقیقت سائنس کا موضوع ’علم‘ ہے جبکہ مذہب کا موضوع’ایمان‘ہے۔ علم ایک ظنی شے ہے،اسی بنا پر اس میں غلطی کا امکان پایا جاتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف ایمان کی بنیاد ظن کی بجائے یقین پر ہے ، اس لیے اس میں خطا کا کوئی امکان موجود نہیں۔

اس بات کا بالکل انکار نہیں کہ آج کا دور سائنسی عروج کا دور ہے ۔جس کا ماضی، حال اورمستقبل سائنسی انقلابات سے بھرا پڑا ہے۔ ترقی کی یہ منازل طے کرتا ہوا انسان کامیابی و ناکامی کے نشیب و فراز سے گزرتا ہوا یہاں تک پہنچا ہے ۔مسلمان مفکرین اورمحققین آج بھی اسی تلاش میں سرگرداں ہیں کہ یہ ترقی وتبدیلی اسلامی شرعی قوانین کے خلاف نہ ہو اور ہر ترقی اور جدت کو اسلامی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تاکہ دینوی و دنیاوی دونوں فائدےحاصل ہوسکیں۔اسلامی شریعت ایک Universal Codeہے اور اس میں ایک خاصیت اور لچک موجود ہے جو انسان کو جدت طرازی کے ساتھ آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کو حدود وقیود اور ضابطوں کی پابندی بھی سکھاتاہے ۔ دور جدید میں زیب و آرائش کے حوالے سے جو ترقی ہوئی ہے وہ اپنے اندر حلت و حرمت سے متعلق سے کئی سوالوں کو جنم دیتی ہے اسلامی شریعت کی روشنی میں اس حوالے سے مزید تحقیق اورتجربوں کی ضرورت ہے ۔ تاکہ رب کی عطا کردہ نعمتوں سے شرعی حدود میں رہ کر استفادہ کیا جاسکے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَمَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتُهَا ۚ وَ مَا عِنْدَ اللّٰهِ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰی ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ

”اور جو چیز تم کو دی گئی ہے وہ دنیا کی زندگی کا فائدہ اور اس کی زینت ہے۔ اور جو اﷲکے پاس ہے وہ بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔ کیا تم سمجھتے نہیں؟“

یہاں انسان کو دنیا کی زندگی پر آخرت کی زندگی کو ترجیح دینے کی بات کی گئی ہے۔ یعنی اللہ رب العزت نے جو نعمتیں اور فائدے دنیا میں ہم کو عطا کیے ہیں وہ فانی ہیں ایک دن ختم ہو جائیں گے اور جو زندگی ہمارے لیے آخرت میں رکھی ہے اس کے فائدےبے شمار اور کبھی نہ ختم ہونے والے ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم اس دنیا کو برتنا چھوڑ دیں ،دنیا میں رہتے ہوئے اس کی تمام نعمتوں کو بروئے کار لائیں اور اللہ کے آفاقی پیغام کو سمجھتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہوں ۔ اپنے ایمان کو عقل اور فکر سے شناسا کرواکے اس عظیم علمی متاع کو محفوظ کرسکیں۔ ہمار ے گردو پیش کا ماحول اور وہ کائنات جس میں ہم رہتے ہیں نشاناتِ تخلیق سے بھری پڑی ہے مچھر کی اندرونی ساخت میں کارفرما نظام ، مور کے پروں پر فنکارانہ نقش ونگار،آنکھوں جیسی پیچیدہ ساخت اور ان کا حسنِ کارکردگی اور زندگی کی کروڑوں دیگر اشکال ، وجودِ خداوندی کے واضح اور روشن ترین نشانات ہیں ۔غرض یہ کہ ہرشے انسان کو ایک نئے تجربے اور نئے مشاہدے کی دعوت دیتی نظر آتی ہے۔تاکہ انسان ان پر غور و فکر کرکے کائنات کو مسخر کرے اور اوج ثریا تک جا پہنچے۔

یہ قرآن کا اعجازہے کہ قرآن مجید اور جدید سائنس کی ثابت شدہ حقیقتوں میں زبردست مطابقت پائی جاتی ہے ۔ساتھ ہی جدید سائنسی ترقی نے بالخصوص سرجری، جنس کی تبدیلی ،لیزر اور نقوش کی تبدیلی کی فیلڈ میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کی ہیں جو اسلامی قوانین اور اصول و ضوابط کے حوالے سے کئی سوالات کو جنم دیتی ہیں۔لہٰذا جدیدعصری تقاضوں کے پیشِ نظر بننے سنورنے کی خواہشات کو اس طرح پورا کرنا کہ جاذبِ نظر دکھنے کی تمنا بھی پوری ہوجائے اور دین کے بتائے ہوئے اصول وضوابط سے بھی تجاوزنہ ہو۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب جدید سائنسی ایجادات اور علاج کا درست علم ہو اور پھر اس علم کی افادیت کو شریعت کی روشنی میں پرکھا جائے تاکہ اس کے فوائد اور نقصانات سے آگاہی ہو سکے۔لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں ہے اس لیے کہ عام انسان کی پہنچ اور شعور اتنا بلند نہیں ہوتا کہ وہ تما م باریکیوں کو بخوبی سمجھ سکے اور یہ جان سکے کہ اس کے حق میں کیا اچھا ہے اور کیا برا۔یہ محققین اور مفکرین کا کام ہوتا ہے کہ نئے نئے مفروضات،تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں ان تمام نئی سائنسی ترقی اور ایجادات کا جائزہ لیں اور پھران مشاہدات سے حاصل ہونے والے معانی و مفاہم کو دینی امور کی روشنی میں پرکھیں ۔تجربات اور مشاہدات کا سلسلہ جاری ہے.


دورِ جدید میں جہاں دنیا انسان کی خواہشات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ بن چکی ہے وہیں یہ عجیب و نت نئی ایجادات اور طریقہ علاج گہری تحقیق اور فکر کا تقاضا کررہے ہیں تاکہ آنے والی نسلیں اپنی خواہشات کو بے لگام نہ چھوڑ بیٹھیں۔ہر جدت اپنے ساتھ نفع اور نقصان لاتی ہے ہماری حدود و قیود شریعت نے ہمیں عطا کردی ہیں یہ ہمارے رب کا ہم پر کرم ہے کہ ہمیں قرآن و سنت کا وہ پیمانہ عطا کیا ہے کہ جس میں ہم اپنے تمام نفع و نقصان کو ناپ کر اپنے اچھے برے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
50853

بُرجِ خموشاں – ڈاکٹر شاکرہ نندنی

میں ایک نوتعمیر عمارت میں ہوں۔

یہ ایک بُرج سا ہے۔

برج کسی نامقدس ناہنجار ٹوٹم کی طرح ایک طرف جھک گیا ہے۔ ابتدا میں اسے کُرے کا مرکز قرار دے کر عموداً نصب کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا، اگرچہ بنیادی بد دیانتی سے کام لے کر اسے ٹیڑھا گرایا گیا؛ پھر زمین کی کشش دوسری سب چیزوں پر حاوی آ گئی، اس لئے برج زاویۂ قائمہ بنانے سے قاصر رہا اور ایک طرف جھکتا چلا گیا۔ جب یہ ہو چکا تو خاموشی کے ساتھ طے کیا گیا کہ اب اسے صرف کریا کرم کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ اس طرح زندوں کے لئے تعمیر ہونے والی اس عمارت کوبرجِ خموشاں بنا دیا گیا، اور یہ بات مجھ سے چھپائی گئی۔

مجھے برج کے جھک جانے پر، یا اس کے نئے استعمال پر، یا بات کے چھپائے جانے پر کوئی اعتراض نہیں۔ اب تو کسی چیز پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔ اعتراض اسے کرنا چاہئیے جس کے بس میں کچھ ہو۔ میرے بس میں کچھ نہیں ہے۔ صرف تماشائی ہونا میرے اختیار میں ہے، اس لئے میں صرف تماشا دیکھ رہی ہوں۔

میں سر اٹھائے برجِ خموشاں کے دہانے سے نظر آتے روشن آسمان کی طرف دیکھ رہی ہوں، اور دیکھ رہی ہوں کہ مُردارخور پرندوں کے غول روشن آسمان کے مقابل آ کر اسے ڈھک لیتے ہیں۔ ممکن ہے یہ بصری دھوکہ ہو، مگر میں اپنی ہڈیوں میں محسوس کر رہی ہوں کہ ابتلا کا آغاز ہو چکا ہے۔

خواتین و حضرات! مجھے گمان ہے کہ میں کسی حد تک زندہ لڑکی ہوں اور غلطی سے یہاں موجود ہوں، کہ یہ برج غلطی سے میرے گرد تعمیر کر دیا گیا ہے۔ اس لئے امید کرتی ہوں کہ آپ کا خداوند مجھے اب چیخنے کی توفیق عطا فرمائے گا۔

” پھرایک لڑکی کی چیخ، اس کے بعد سناٹا۔۔۔۔۔۔۔”

nandinifile123
Illustration from 19th century
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
50850

1979اور2021کا افغانستان ۔ محمد شریف شکیب

امریکی جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے چیئرمین جنرل مارک ملر نے اعتراف کیا ہے کہ افغانستان کے 419 ضلعی مراکز میں سے دو سو سے زائد طالبان کے قبضے میں ہیں، امریکہ کی زیرِ کمان بیرونی افواج کے مکمل انخلاء کے بعد افغانستان میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے۔ امریکی انٹیلی جنس اداروں نے خبردار کیا ہے کہ افغان حکومت 6 ماہ سے بھی کم عرصہ میں ختم ہوسکتی ہے۔ طالبان تیزی سے افغانستان پر کنٹرول حاصل کررہے ہیں۔ افغان فورسز کی توجہ کابل کے دفاع اور اسٹرٹیجک علاقوں کو محفوظ رکھنے پر مرکوز ہے۔ اہم انفراسٹرکچر میں بھارت کی مدد سے تعمیر کردہ ڈیم اور بڑی شاہراہیں شامل ہیں۔

افغان حکومت کی جانب سے محدود جگہوں پر توجہ مرکوز کرنے سے افغان عوام میں یہ تاثر پیدا ہوگا کہ حکومت نے انہیں طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیاہے،دوسری جانب ایک اعلیٰ افغان عہدے دار کا کہنا ہے کہ نئی حکمت عملی کی فوری ضرورت ہے کیونکہ افغان فوج صوبائی دارالحکومتوں کو کھونے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔پینٹاگون نے بھی تصدیق کی ہے کہ طالبان نے آدھے سے زیادہ افغانستان کے ضلعی مراکز پر قبضہ کرلیا ہے۔

افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلاء 95 فیصد مکمل ہو چکا ہے۔ 31 اگست تک تمام غیر ملکی فوجیں افغانستان سے نکل جائیں گی۔ افغان سیکیورٹی حکام انفراسٹرکچر اور سرحدی راہداریوں کی حفاظت پر مامور ہیں۔ فوجی ماہرین نے اسے سیاسی طور پر ایک خطرناک حکمت عملی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ سیکیورٹی حکام نے اگر یہ غلطی کی تو افغانستان کے دیگر علاقے بھی طالبان کے قبضے میں چلے جائیں گے لیکن حکومت بضد ہے کہ فوج کو پورے ملک میں پھیلانے کے بجائے کچھ علاقوں تک محدود کرنا چاہیے۔طالبان کی فوجی فتوحات کے بارے میں امریکی حکام اور محکمہ دفاع کی طرف سے جو بیانات سامنے آرہے ہیں ان سے یہی تاثر ملتا ہے کہ امریکی حکومت اورمیڈیا طالبان کی فتوحات کی جان بوجھ کر تشہیر کر رہے ہیں تاکہ کابل حکومت کو یہ باور کرایا جاسکے کہ اشرف غنی حکومت کی رٹ امریکی فوج کی مرہون منت تھی۔

اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اشرف غنی حکومت صرف دارالحکومت کابل تک محدود ہے۔ شمالی علاقے ازبک وار لارڈز کے تصرف میں ہیں جبکہ پختون بیلٹ پر طالبان پہلے سے قابض ہیں۔افغان حکومت نے طالبان کی تیزی سے پیش قدمی، ضلعی ہیڈکوارٹرز پر کنٹرول اور اگلے چھ ماہ کے دوران اشرف غنی حکومت کا دھڑن تختہ ہونے سے متعلق امریکی حکام کے بیانات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا آج بھی افغانستان پر مکمل کنٹرول ہے اور عسکریت پسندوں سے چھینے گئے تمام علاقے واپس لئے جارہے ہیں۔افغان سیاسی دھڑوں کے بیانات اور ایک دوسرے پر الزامات سے ثابت ہوتا ہے کہ افغانستان آج بھی اسی موڑ پر آگیا ہے جس موڑ پر سوویت فوج کے انخلاء کے بعد 1979میں تھا۔ اشرف غنی حکومت کے خاتمے کے بعد اقتدار کے لئے لامحالہ رسہ کشی شروع ہوگی۔کیونکہ شراکت اقتدار پر متحارب دھڑوں میں اتفاق رائے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔

عسکری تیاریوں کے لحاظ سے دیکھا جائے تو طالبان کو دیگر افغان دھڑوں پر واضح برتری حاصل ہے اور غالب امکان یہی ہے کہ طالبان رواں سال کے اختتام یا اگلے سال کے اوائل میں افغانستان میں اپنی حکومت قائم کریں گے۔ چونکہ انہیں ملک کے بیشتر حصوں پر کنٹرول حاصل ہوگیا ہے اس لئے بزور طاقت ہی سہی،طالبان ہی افغانستان میں سیاسی استحکام لاسکتے ہیں۔لیکن افغانستان میں پائیدار امن کے قیام اور خانہ جنگی کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ وہاں تمام سیاسی قوتوں پر مشتمل ایک وسیع البنیاد قومی حکومت کا قیام عمل میں لایاجائے جس میں تمام گروپوں کو ان کی عددی اکثریت کی بنیاد پر نمائندگی ملے۔ اور شراکت اقتدار کی صورت میں ہی تمام افغان گروپ اپنے ملک کی تعمیر نو میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
50848

مختصر سی جھلک – کیریر کونسلینگ – فریدہ سلطانہ فّریّ

مختصر سی جھلک – کیریر کونسلینگ – فریدہ سلطانہ فّریّ

پہلا حصہ

نوجوانوں میں بے چینی ،زہنی دباو اور پریشانیوں کے بہت سارے وجوہات میں سےایک وجہ یہ بھی ہے کہ اج کا ہمارا نوجوان جب یونیورسٹی یا کالج سے ڈگری لیکرنکلتا یا نکلتی ہےتواپنے مستقبل کےغرص سے وہ ادھرادھرہاتھ پاوں مارنے لگتا ہے کہ اب اسے کیا کرنا ہےاورکونسا شعبہ اختیارکرنا ہے۔ بس اسی تگودومِیں بھآگتے بھآگتےبعض اوقات کچھ ہاتھ نہ انےپرمایوسی اور نا امیدی کا شکارہوکربیٹھ جاتا ہےکیونکہ اس نے کرنا کچھ اورتھآ اورکیا کچھ اورہوتا ہے

اورخصوصآ ہمارے معاشرے میں بیٹوں پرروزگاراورزرئعہ معاش کا انتہائی بوجھ ہوتا ہے کیوںکہ خآندان اور بچوں کی کفالت اگے جاکر اسی نوجوان نے کرنا ہوتا ہے تو وہ اس کو زیادہ سرپرسوار کرلیتے ہیں۔ روزگار کا غم تعلیم یافتہ اوران پڑھ دونوں طبقوں کوایک ہی طرح سے ہوتا ہے مگرتعلیم یافتہ نوجوانوں پراس لحاظ  سے دباو زیادہ ہوتا ہے کہ ماں باپ نے اپنی پوری عمر کی کمائی اور جمع پونجی بیٹے کے تعلیم میں خرچ کی ہوتی ہے اس وجہ سےیہاں توقعات زیادہ جنم لیتے ہیں اسطرح کچھ ہا تھ نہ انے پر ان توقعات کے بوجھ تلےیہ نوجوان زہنی پریشانی میں دب جاتا ہےمگراج کل یہ سلسلہ بیٹیوں کے ساتھ بھی جوڑ چکا ہے کیوںکہ بیٹیوں کی تعلیم پر بھی لوگ ایسے ہی خرچ کرتے ہیں تاکہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ اپنے ساتھ ساتھ ماں باپ اورخآندان کی ایسی ہی کفالت کریں جیسے بیٹے کرتے ہیں بہت سی ایسی بچیاں ہیں جو تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے والدین اورخآندان کی کفالت خوشی سے کر رہی ہیں۔   

 ۔یہ تمام مسائل اس وجہ سے جنم لیتی ہیں کیونکہ ہمارے تعلیمی اداروں میں   ابتدائی دنوں میں ہی کیریر کے حوالے سے طالب علموں کی کوئی راہ نمائی نہیں کی جاتِی ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں کا واحد مقصد صرف کورس کو پورا کرانا ہوتا ہے اگر ابتدا میں ہی بچوں کی صلاحیتوں کی جانج پڑتال میں ان کی مدد کرکے ان کی مہارات اور قابلیت کے مطابق مضامین کا انتخاب کرنے میں ان کی مدد کی جاَئے تو ہائی لیول پر جاکروہ خود اس قابل ہوجاتے ہیں کہ اپنے من پسند مضمون کے زرئعے ا پنے دلچسپی کا فیلڈ منتخیب کریں۔ 

مگر ہمارے ہاں بچوں کو وقت پرکیرییرکےحوالے سے کوئی راہ نمائی نہیں ملتی اور اخیرمیں جا کراسے احساس ہوجاتا ہے کہ اسے اِس سبجیکٹ، فیلڈ یا اس کیریر کا انتخآب ہی نہیں کرنا چاہیے تھا۔جس وقت اسے اس بات کی سمجھ اجاتی ہےاس وقت بہت دیرہوچکی ہوتی ہے اس کے ساتھ جڑا ایک اور مسئلہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں یونیورسٹیوں تک رسائی نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی تو بڑھتی جا رہی ہے  مگران لاکھوں طالب علموں میں سے صرف کچھ ہی ایسے ہوتے ہیں، جن کا انتخاب کردہ مضمون یا شعبہ واقعی ان کا پسندیدہ ہوتا ہے،

نتیجتاً اکثرطالب علم کبھی بھی اپنے منتخب کردہ شعبے میں بلند معیار کی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرپاتے، جو اس شعبے کا تقاضہ ہوتا ہے یہ بھی نوجوانوں میں زہنی دباو کی ایک معقول وجہ ہے۔۔۔۔جاری                              

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged , ,
50806

نئے پارلیمانی ڈاکٹرائن کی ضرورت – پیامبر:قادر خان یوسف زئی


آزاد جموں کشمیر کے انتخابات ہوگئے، حسب توقع وہی نتائج سامنے آئے جو  جی بی میں بھی آتے رہے ہیں،ان علاقوں کا پاکستان کے وفاق کے ساتھ تعلقات یقینی طور پر مالی و سیاسی طور جڑے رہنا با امر مجبوری بھی ہے، یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ اسے جھٹلایا نہیں جاسکتا، پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نوازنے بھی انتخابی جلسے کئے اور توقعات کے مطابق بڑی تعداد میں عوام بھی آئے، لیکن انہیں بھی یقیناََ علم تھا کہ وفاق سے مخصوص مفادات کے لئے سیاسی انتخابات کے بدلتے ٹرینڈ ایک ایسا عمل ہے جو ہمیشہ سے چلا آرہا، اب تمام سیاسی جماعتوں  احتجاج تو جمہوری حق ہے کہ الیکشن کے نتائج کو تسلیم کریں یا نہ کریں، لیکن جی بی اور اے جے کے میں حکومت تبدیلی کی لہر کے پی کے کی طرح ہونے میں وقت لگے گا۔


صوبہ خیبر پختونخوا نے سیاسی جماعتوں کو ہر انتخاب میں بدلنے کا عمل کا رجحان تبدیل کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو موقع فراہم کیا کہ وہ اپنا ٹرن اوور اور شارٹ و لاگ ٹرم پالیسیوں کے مکمل عمل درآمد کو یقینی بنالے،تاہم خیبر پختونخوا، بالخصوص انضمام شدہ قبائلی علاقوں میں سیاسی بے چینی و مایوسی عروج پربھی ہے جو کہ ایک وفاق کے لئے نیک شگون قرار نہیں دیا جاسکتی۔ گلگت  بلتستان کے بھی آزاد جموں و کشمیر کے انتخابات نئے سیاسی منظر نامے کے ساتھ دنیا کے سامنے جلوہ گر ہوئے ہیں، وفاق و آزاد کشمیر کا بیاینہ ایک ہونا چاہیے کیونکہ یہ کشمیر پالیسی کے تحت ناگزیر ہے۔ لیکن افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ ملکی سیاسی جماعتوں نے کشمیر انتخابات کو جس طرح لڑا، اس سے دنیابھر میں مقبوضہ کشمیر کے مقدمے پرنمایاں فرق پڑے گا کیونکہ جس طرح کے الزامات وفاق پر لگائے گئے اور سیاسی جماعتوں کے بیشتر رہنماؤں نے رکیک و انتہائی نازیبا زباں استعمال کی، وہ قابل مذمت ہے۔ جوش خطابت اپنی جگہ، روایتی طور پر مخالفین کے خلاف پروپیگنڈے برصغیر کی سیاست کا سیاہ باب ہے،اسی طرح ہر الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہ کرنا بھی ایک روایت بن چکی ہے۔ اب سروے کچھ بھی رجحان ساز سروے پیش کریں لیکن اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں آزاد جموں کشمیر بھی وفاق سے اپنے مسائل کے حل سمیت متعدد معاملات میں متفقہ پالیسی کے تحت نتھی رہنا ناگزیر سمجھتا ہے۔


 آزاد جموں و کشمیر کے وزیر اعظم پر سیاسی ایف آئی آر کے استعمال کے ساتھ جو الزام لگائے گئے تو اس وقت ہی 90 فیصد اندازہ ہوچکا تھا کہ الیکشن کون سی جماعت جیتے گی۔ مریم نواز نے آزاد جموں و کشمیر کے حوالے سے سے جو پارٹی پالیسی بیان دیئے، اس سے ضرورت اس امر کی بڑھ جاتی ہے کہ ملک بھر میں صوبوں کے قیام و ان کی خود مختاری کے حوالے سے مشاورت کے دس برس سے رکے عمل کو ازسر نو شروع کیا جائے۔ حکومت سمیت سیاسی جماعتوں کو اس کا ادارک کرنا ہوگا، کہ ریاست کا بیانیہ کسی بھی سطح پر کمزور نہ پڑے۔ پارلیمنٹ کو بار بار مچھلی بازار بنانے کے بجائے سیاسی ڈاکٹرائن کی ضرورت بڑھ جاتی ہے، ہم نے یہ بہت کم دیکھا ہے کہ پارلیمانی ڈاکٹرائن کے قیام کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کا تعاون حاصل کیا گیا ہو۔ ملکی سیاست کے نت نئے پیچ و خم متقاضی ہیں کہ نئے صوبوں کے قیام کو اتفاق رائے سے ممکن بنانے کے لئے اُن وعدوں کی تکمیل پر توجہ دی جائے جس کا ہر الیکشن میں سیاسی جماعتیں وعدہ کرتی رہی ہیں، لیکن اقتدار میں آنے کے بعد دعوام سے کئے وعدوں کو فراموش کردیتی ہیں اور جب بھی انتخابات آتے ہیں، وہ مُردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کے لئے صوبائیت کا سہارا لیتے ہیں۔ صوبائیت کی اس روش سے وفاق مسلسل کمزور ہورہا ہے۔ ایک ہی جماعت کی تمام وفاق سمیت تمام صوبوں اور آزاد جموں و کشمیر سمیت گلگت بلتستان سمیت حکومت میں ہونا بادی ئ النظر بہت مشکل نظر آتا ہے، لیکن نئی اکائیاں بنا کر ان سیاسی تحفظات کو دور کیا جاسکتا ہے جس سے صوبائی خود مختاری میں اختیارات کے محور کا درست استعمال ہوسکے۔


 سرائیکی یا جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کا عمل کا وعدہ ہو، یا پھر ملک کے تمام حصوں میں انتظامی بنیادوں پر نئے یونٹ بنانا، راقم کے خیال میں اسمبلی اخراجات سمیت این ایف سی کی تقسیم جیسے مالی انتظامات کا حل نکالنے کا واحد راستہ نئے و ازسر نو انتظامی یونٹس کا قیام ہے۔ پاکستان دھرتی ماں ہے، اس حوالے سے صوبائیت میں لسانیت یا عصبیت کا رنگ ہمیں مسلسل نئی منفی راہ پر لے جارہا ہے۔ آزا د جموں و کشمیر کے انتخابات میں بعض وفاقی وزراء کا قول و فعل افسوس ناک رہا، عدم برداشت نے ان خدشات کو مزید تقویت دی ہے کہ ملکی انتخابات کا شفاف نہ ہونا، بہت بڑے بحران کا سبب بن سکتا ہے۔ اس امر کا امکان موجود ہے کہ اگر نئے انتظامی یونٹس کو بنانے کاعمل پنجاب سے شروع کردیا جائے تو یہ نئے صوبوں کے قیام کے حوالے سے پہلا قطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔


نئے انتظامی یونٹس میں قیام کے سلسلے میں دو باتوں خیال رکھے جانا ضروری ہے کہ یہ کام سبھی سیاسی قوتوں کے اتفاق رائے سے ہونا چاہیے اور دوسرا یہ کہ یہ تقسیم انتظامی ؒحاظ سے ہونی چاہیے  اسے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ بنانے سے ملکی مفاد میں گریز کرنا ہوگا۔ یہ کہنا زیادہ صائب ہوگا کہ انتظامی حوالوں سے صوبوں کی تقسیم کی ضرورت دوچند ہے، اس میں کسی کی جیت یا کسی کی ہار والا معاملہ نہیں ہے، نہ ایسی کوئی بات کی جانے چاہیے  انتخابات م اپنی منشور کے مطابق لڑیں، لیکن اُسے پورا بھی کریں،اہداف کو عوام کے سامنے رکھیں، عوام میں شعور و آگاہی کو بڑھائیں، عدم برداشت م الزامات اور رہنماؤں کو بُرے القابات سے پکارنے کے عمل کو ختم کردینا چاہیے،ماضی میں بھی سیاسی اختلافات ہوا کرتے تھے، لیکن ایسا کبھی دیکھنے میں نہیں آیا کہ عالمی تنازع کے شکار علاقوں کو عدم برداشت و نئے تبدیلی کلچر سے شکار کیا جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے سیاسی جماعتیں عوام کو وعدوں کی نئی زنجیر میں جکڑنے کی کوشش نہ کریں، بلکہ اُن وعدوں پر پیش رفت و مسائل سے عوام کو اعتماد میں لیں جس سے ان کا اعتماد ملکی نظام پر بحال ہو، وعدے ایفا کرنے کی ایک نئی روایت ڈالنے کی لئے تمام سیاس جماعتو ں کو منطقی قوم اٹھانا ہوگا۔ امید کرسکتے ہیں سیاسی تناؤ کی کیفیت کوختم کرنے کے لئے تمام سیاسی جماعتیں اپنے طرز سیاست کو تبدیل کریں گی، کیونکہ یہی ہم سب کے حق میں بہتر ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
50792

مذہبی اختلاف کے خاتمہ کا نسخہ کیمیاء – تحریر :شہباز علی

آج کے اِس دَور کو کون سا دَور کہیں گے؟ فتنوں کادَور! گناہوں کا دَور! بے حیائی اور بے لگامی کا دَور! خودسری اور خودغرضی کا دَور! شیطانی دَور! یاجوجی ماجوجی دَور! سمجھ میں نہیں آتا کہ عصرِ حاضر کو کیا نام دیا جائے؟ دَورِ حاضر دَورِ جاہلیت کی طرف تیزی سے رَواں دَواں ہے؛ بلکہ بعض لحاظ سے اِس سے بھی آگے جاچکا ہے۔ اِن جملہ خرابیوں کو دُور کرنے اور اِن پر قابو یافتہ ہونے کی سارے عالم میں کوششیں کی جارہی ہیں؛ لیکن کوئی کوشش کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی۔ نئی نئی تجاویز روبہ عمل آکر فیل ہورہی ہیں؛ تعمیر کے بجائے تخریب کا باعث بن رہی ہیں، یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ، ہونا بھی یہی چاہئے؛ اِس لیے کہ اِن جملہ خرافات، بے اطمینانی اور بے چینی پر قابو پانے کے لیے محض انسانی تدبیریں اختیار کی جارہی ہیں۔ اور انسانی تدبیریں پورے طور پر کامیاب ہی کب ہوتی ہیں؟

آج ضرورت ہے اُن تدبیروں کی اورنسخہٴ کیمیا کی جو نبیٴ اُمی  صلی اللہ علیہ وسلم نے بھٹکی ہوئی انسانیت کے لیے استعمال کیا تھا۔ یہ خالقِ کائنات کا عطا کردہ نسخہ تھا، جس نے گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں پھنسی ہوئی انسانیت کو روشن شاہ راہ پر لاکھڑا کردیا۔ جس نے بدترین خلائق کو بہترین خلائق بنادیا اورجس نے مردوں کو مسیحا کردیا۔
لہٰذا عصر حاضر کے مذہبی اختلاف میں سیرتِ نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم سے رہنمائی حاصل کرنی ہوگی.


عالمی پیمانے پر اتحاد واتفاق قائم کرنے کی ضرورت آج سب سے زیادہ محسوس کی جارہی ہے۔ آج کوئی ایسا اقتدار نہیں جس کو سب لوگ تسلیم کریں، جس کی سب اطاعت کریں، کسی متفقہ اقتدار کا نہ ہونا،آج کی سب سے بڑی کمی ہے، ایک قوم دوسری قوم کو دیکھنا نہیں چاہتی،مختلف قسم کے معاہدے ہوتے ہیں اور ٹوٹ جاتے ہیں، اِن کے حل کے لیے اگریہ سوچا جائے کہ کسی ایک انسان کی حاکمیت پر سارے لوگ متفق ہوجائیں، ہر ایک اِس کی اتباع کریں، تو ایسا فطری طور پر ناممکن ہے؛ اس لیے کہ آج ہر قوم دوسری قوم کی مخالف ہے، توجس انسان کا بھی انتخاب ہوگا وہ کسی ایک قوم کافرد ہوگا،اس ایک پر اگراتفاق سے اپنی قوم متفق ہوگئی تو دوسری اقوام کو متفق کرنا آسان نہیں ، پھریہ کہ انسان نفسانی اغراض اور ذاتی خواہشات سے پاک نہیں ہوتا اگر کسی پر اتفاق کرلینے کی پوری دُنیا کوشش بھی کرے تو وہ آدمی وقت کا ”فرعون“ اور دَورِ حاضر کا ”بُش“ ثابت ہوگا، وہ سارے فوائد اپنے لیے، اپنے خاندان، اپنے فرقے اور اپنی قوم کے لیے سمیٹ لے گا، دوسرے لوگ محروم اور منہ تکتے رہ جائیں گے۔ اِس طرح انصاف کی جگہ ظلم اور مساوات کی جگہ بے اعتدالیوں کی حکومت ہوگی۔ کسی آدمی کا علم اتنا وسیع نہیں ہوسکتا کہ ہر انسان کی ضروریات معلوم کرسکے۔ اصلاح و فلاح کی صورتوں سے واقف ہو، ہر ایک کی فطرت کو جانتا ہو؛ اِس لیے وسیع ترین علم نہ ہونے کی وجہ سے وہ جگہ جگہ ٹھوکریں کھائے گا،اور پوری انسانی آبادی کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کردے گا؛ اس لیے کسی انسان پر پوری نوعِ انسانیت کا متفق ہونا ناممکن اور لاحاصل ہے۔

اِس اختلاف کے ختم کرنے کی ایک دوسری شکل بھی ممکن نہیں کہ ساری انسانیت مل کر کسی ایک اِدارہ کی حاکمیت کو تسلیم کرلے، دُنیامیں جتنے اِدارے عالمی پیمانے پر قائم ہوئے اُن سب کا حال یہی ہوا، آج اِس کی واضح مثال عالمی تنظیم ”اقوامِ متحدہ“ ہے۔
لہٰذا آج اختلاف حل کرنے کے لیے وہی کرنا ہوگا، جو اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا، آپ نے اختلاف وانتشار سے تباہ دُنیا کو متحد کرکے عملی مثال پیش کردی، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے دُنیا کو بتادیا کہ اے انسانو! کسی انسان یا کسی اِدارے کی حاکمیت کو تسلیم کرنے کے بجائے ایک ایسی ذات کی حاکمیت کو تسلیم کرلو جس نے سارے انسانوں اور اِداروں کو جنم دیا ہے۔اُسی کی حاکمیت کو تسلیم کرنے میں بھلائی ہے۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی ”دعوتِ توحید“ کو جوق در جوق افرادِ انسانی نے قبول کیا، مذہبی اختلافات کے ختم کرنے کا یہ سب سے بڑا مشترکہ پلیٹ فارم ہے۔


رحمت عالم  صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت عالم گیر ہے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم پوری دُنیا کے لیے چراغِ راہ بن کر تشریف لائے تھے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی سیرت و سنت کو سامنے رکھ کر دُنیا راہ یاب ہوسکتی ہے، ہر طرح کے مسائل کا حل آپ  صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی اتباع میں مضمر ہے، جملہ خرافات و مصائب سے نجات کا ”نسخہٴ کیمیاء“ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی مل سکتا ہے،  اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کو جب کفار نے صرف ایمان باللہ اورایمان بالرسول کی وجہ سے اپنے محبوب وطن مکہ مکرمہ میں ستانا شروع کیا اور ناقابلِ برداشت اذیتیں پہنچائیں، جان کے درپے ہوگئے؛ تو ایسی صورت میں دین کی حفاظت کے لیے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کی اجازت دی، اِس کے بعد مدینہ کی؛ اخیر میں اپنے رفیقِ غار صدیق و غمگسار کے ساتھ بہ نفس نفیس ہجرت کی، دین اور ایمان کی حفاظت کے لیے مال و دولت، عزیز واقارب اور گھر بار ہر ایک کو قربان کردیا،

آج بھی دُنیا کے کسی کونے میں مسلمانوں کی یہ حالت ہوجائے تواُس کیلیے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ عمل کے لیے موجود ہے۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ جانے کے بعد وہاں بسنے والے قبائل اَوس اور خزرج اور یہود و نصاریٰ سے معاہدات کیے، آپسی تعاون وتناصر اور رواداری کے دستاویزات مرتب کیے، پھر اپنی تحریک دعوت و تبلیغ کو تیز تر کیا، آہستہ آہستہ لوگ اِسلام میں داخل ہوتے گئے، پھر کیاتھا کہ چند برسوں میں سارا عرب کلمہ ”لآ الٰہ الی اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ“ کاقائل ہوگیا۔ ہر جگہ امن و امان پھیل گیا، وہ جنگجو قومیں جن کا کام ہی قتل و غارت گری تھا، جنگ سے کبھی تنگ نہ آئی تھیں، آپسی چپقلش کا نہ ٹوٹنے والا سلسلہ رکھتی تھیں، سب شیروشکر کی طرح مل گئیں، سب ایک دوسرے کے دوست ہوگئے۔ع
جو نہ تھے خود راہ پر
اَوروں کے ہادی بن گئے

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
50789

کردار سازی -تحریر: محمد اشفاق خان

قریبا 700 سال قبل از مسیح چائنہ کو بیرونی حملہ آوروں سے محفوظ بنانے کے لئے دیوار چین کی تعمیر کو عمل میں لایا گیا۔ دیوار چین کی تعمیر کے بعد پہلے سو سال میں چائنا کو تین بار بیرونی حملہ آوروں کے ہاتھ شکست ہوئی ۔دشمن کو کسی بار بھی دیوار گرانے یا اس میں شگاف ڈال کر راستہ بنانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی ۔نہ ہی دیوار کو پھلانگ کر اندر جانے کی نوبت آئی کیونکہ ہر بار دربانوں یعنی دیوار کے محافظ دستے کو رشوت دے کر دروازے کھلوائے گئے ۔چینیوں نے دیوار تو بنا ڈالی لیکن محافظ دستے کی کردار سازی پر کوئی توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کردار سازی سب سے مقدم ہے ۔مملکت خداداد پاکستان میں بھی لوٹ مار کا بازار گرم ہے ۔

کرپشن بدعنوانی اور اقرباپروری عروج پر ہے ۔جس کا جتنا بس چلتا ہے وہ اس حد تک بے ایمان ہے۔ بےروزگاروں تک کو نہیں بخشا جا رہا ۔نوکری ڈھونڈنے والوں کو مختلف حیلوں بہانوں سے دونوں ہاتھوں سے لوٹا جارہا ہے. وہ نجی ادارے جو مختلف آسامیوں پر بھرتی کی غرض سے درخواست دینے والے امیدواروں میں سے سب سے موزوں امیدوار کی تلاش اور انتخاب کے لئے بنائے گئے ہیں، اربوں روپے کما رہے ہیں اور وہ بھی ملک کے سب سے کمزور اور پسماندہ بےروزگار طبقے سے ۔ایک زمانہ تھا جب نوکری کے لیے ٹیسٹ یا انٹرویوز دینے والوں کو بڑے عزت اور احترام سے بلایا جاتا تھا ۔آنے جانے کے اخراجات دینے کے علاوہ چائے پانی کا بھی انتظام کیا جاتا تھا ۔لیکن آج نوکری کے لئے اپلائی کرنے والوں کو طویل قطاروں میں کھڑا کرکے ہزاروں روپے کی فیس جمع کروانی پڑتی ہے ۔جس کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہوتی انہیں انٹرنیٹ کیفے والوں کے ہاتھوں بھی لٹنا پڑتا ہے۔ پھر آخر میں آکر کورئیر والے رہی سہی کسر پوری کر لیتے ہیں کوئی پرسان حال نہیں ۔


کرپشن اقرباء پروری اور بدعنوانی کی روک تھام کے لئے کئی ادارے بنائے گئے ۔لیکن پھر بھی کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آرہے ۔قانون سازی پر تو بہت کام کیا گیا لیکن کردار سازی پر کسی نے توجہ نہیں دی ۔ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں قانون تو بنا دیا جاتا ہے لیکن اس پر عمل درآمد اتنا مشکل اور کٹھن بنا دیا جاتا ہے کہ کوئی عام شریف آدمی اول تو قانونی چارہ جوئی کے بارے میں سوچتا ہی نہیں اور اگر کبھی کوئی اللہ کا بندہ غلطی سے یہ حماقت کر بیٹھے تو اس کو اتنا ذلیل و خوار کیا جاتا ہے کہ باقی ماندہ زندگی میں وہ آنے والی نسلوں کو نصیحت کرتا رہتا ہے کہ کبھی اس کے نقش قدم پر چلنے کی غلطی نہ کریں ۔آپ کسی بھی جائز کام کے لئے کسی بھی سرکاری محکمہ میں چلے جائیں اگر آپ کی شناخت یا پہچان والا کوئی بندہ وہاں پر موجود نہ ہو توآپ رل جاتے ہیں۔رشوت دیے بغیر آپ کے جائز کام کے مکمل ہونے کی رفتار کیچوے کی رفتار سے کئی گنا زیادہ سست ہوتی ہے ۔ جان بوجھ کر اس نظام کو اتنا پیچیدہ بنا دیا گیا ہے کہ بندہ رل جاتا ہے۔ آپ کسی بھی سرکاری ہسپتال میں ریگولر او پی ڈی کے اوقات میں چلے جائیے، کسی بھی سرکاری محکمے یا ادارے میں چلے جائیں خواہ وہ گیس کا ہو بجلی کا ہو ٹیلیفون کا ہو، فنانس کا ہو، اکاؤنٹس کا ہو یا کوئی بھی محکمہ ہو آپ کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ایسا کیوں ؟ اس نظام کے اس قدر خراب ہونے کی اصل وجہ کیا ہے ؟ اس نظام کو کیسے ٹھیک کیا جاسکتا ہے ؟ درست سمت کا تعین کیوں کر اور کیسے ممکن ہے ؟


میرے خیال میں ان تمام مسائل کی جڑ ، نظام کے اس حد تک خراب ہونے کی اصل وجہ کردار سازی پر توجہ کا فقدان ہے۔کردار سازی پر توجہ نہیں دی جا رہی ۔ایک وقت تھا جب سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اخلاقیات پر درس دینا پڑھائی کا لازمی جز قرار دیا جاتا تھا۔پاکستان ٹیلی ویژن پر اندھیرا اجالا جیسے ڈرامے دکھا کر اچھائی اور برائی کی تمیز کروانے کا رجحان عروج پر تھا ۔تاریخی موضوعات پرڈرامے بنا کر نوجوان نسل کو اپنے اسلاف کی تاریخ اور طرز زندگی سے آگاہ کیا جاتا تھا ۔


وقت بدل گیا سوچ بدل گئے اغراض و مقاصد تبدیل ہوچکے ۔تعلیم ایک منافع بخش کاروبار اور ٹی وی گلیمر کی زد میں آگیا۔کردار سازی جیسے اہم اور ناگزیر پہلو کو یکسر نظرانداز کیا گیا ۔معاشرہ دن بدن بد سے بدتر اور بدتر سے بدترین ہوتا جا رہا ہے ۔ابھی بھی وقت ہے اس نظام کو بدلہ جاسکتا ہے اس سوچ کو بدلا جاسکتا ہے درست سمت کا تعین کیا جاسکتا ہے ۔اس معاملے میں حکومت وقت کو کردار ادا کرنا ہوگا، سول سوسائٹی کو آگے آنا ہوگا،ہم سب کو اپنی اپنی بساط کے مطابق کردار ادا کرنا ہوگا ۔کردار سازی پر توجہ دینا ہوگا کردار سازی کو فروغ دینا ہوگا ۔


از

محمد اشفاق خان
پی ایچ ڈی اسکالر
جارج اگست یونیورسٹی
گوٹینگن، جرمنی

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , ,
50786

کشمیر انتخابات کے حسب توقع نتائج ۔ محمد شریف شکیب

کشمیر انتخابات کے حسب توقع نتائج ۔ محمد شریف شکیب

آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کی 45جنرل نشستوں کے لئے انتخابات کا عمل پایہ تکمیل کو پہنچ گیا۔ پاکستان تحریک انصاف نے گلگت بلتستان کے بعد آزاد کشمیر کے انتخابات میں بھی بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ 45میں سے 44نشستوں پر پولنگ کے غیر سرکاری نتائج کے مطابق پی ٹی آئی نے 25نشستیں حاصل کرلیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے حصے میں گیارہ نشستیں آگئیں جبکہ آزاد کشمیر میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کو صرف 6نشستیں مل سکیں۔

اس بار آزاد کشمیر کے انتخابات میں بھرپور مہم چلائی گئی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور مسلم لیگ کی نائب صدر مریم صفدر نے تو کشمیر میں ڈیرے ڈال دیئے تھے۔ وزیراعظم عمران خان اور وفاقی وزراء نے بھی متعدد انتخابی جلسوں سے خطاب کیا۔ آزاد کشمیر کے انتخابی نتائج توقع کے مطابق رہے۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے انتخابات میں ہمیشہ وہی پارٹی کامیاب ہوتی ہے جس کی مرکز میں حکومت ہو۔ یہ دونوں صوبوں کے عوام کا دانشمندانہ فیصلہ ہے۔پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں آزادانہ اور شفاف انتخابات اور تحریک انصاف کی کامیابی سے بھارت پر بین الاقوامی دباؤ میں اضافہ ہوگا کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھی آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرائے اور کشمیری عوام کی سیاسی رائے معلوم کرے۔

متحدہ اپوزیشن کے سربراہ مولانا فضل الرحمان پہلے ہی اعلان کرچکے تھے کہ اگر کشمیر انتخابات میں عمران خان جیت گئے تو وہ نتائج کو تسلیم نہیں کریں گے۔ حالانکہ ان کی اپنی جماعت الیکشن میں حصہ ہی نہیں لے رہی تھی۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے بھی کشمیر میں الیکشن چوری ہونے کا الزام لگایاہے۔ وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ کشمیر انتخابات میں شکست کے بعد اپوزیشن کو اپنی سیاست اور قیادت پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ کشمیر الیکشن کے دوران بہت سی انہونیاں دیکھنے کو ملیں۔ ایک انتخابی حلقے سے مسلم لیگ ن کے امیدوار نے اعلان کیا کہ اگر ان کے ساتھ انصاف نہ کیاگیا تو وہ بھارتی وزیراعظم مودی کو مدد کے لئے پکاریں گے۔اس بیان پر ملک بھر میں شدید ردعمل کا اظہار کیاجارہا ہے۔

حکمران جماعت مسلم لیگ کی شکست میں مریم صفدر کی ناپختہ کاری کے علاوہ نواز شریف کی لندن میں پاکستان مخالف افغان رہنماؤں سے ملاقات کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ جبکہ پیپلز پارٹی کو کشمیر میں ان کی توقعات سے زیادہ نشستیں ملی ہیں جس کا کریڈٹ بہرحال بلاول بھٹو کو دیا جانا چاہئے۔ پاکستان میں جن حلقوں میں کشمیر انتخابات کے حوالے سے پولنگ ہوئی۔ وہاں ٹرن آؤٹ مایوس کن تھا۔ لاڑکانہ، بنوں اور دیر میں ایک اور دو ووٹروں کے لئے پولنگ سٹیشن قائم کئے گئے تھے۔ وہاں ایک ووٹ بھی پول نہیں ہوا اور انتخابی عملہ دن بھر پولنگ بوتھ پر اونگھتا رہا۔ ایک یا دو ووٹوں کے لئے پولنگ سٹیشن قائم کرنا اور درجنوں اہلکاروں پر مشتمل عملہ کی تعیناتی اور انتخابی مواد کی ترسیل پر لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرنا سراسر اسراف ہے۔

ان ووٹروں سے پوسٹل بیلٹ پر ووٹ لئے جاسکتے تھے۔ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری کے باوجودکشمیر انتخابات میں پی ٹی آئی کی کامیابی سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان کی تبدیلی کے نعرے میں عوام کے لئے کشش اب بھی موجود ہے۔ اور لوگ روایتی اور موروثی سیاستدانوں کے فرسودہ انداز کو ناپسند کرتے ہیں۔اپنی حکومت کے تین سالوں میں عمران خان نے ذوالفقار علی بھٹو کی طرح عوامی سیاست کی ہے جسے عوام میں پذیرائی ملی ہے۔ تاہم حکومت کے پاس اپنے انتخابی منشور پر پوری طرح عمل درآمد کرنے کے لئے دو سال کا مختصر عرصہ بچا ہے اس دوران اس نے بہت سے کام کرنے ہیں۔

کرپشن کا ابھی تک خاتمہ نہیں ہوسکا۔ سرکاری نوکریاں آج بھی ماضی کی طرح فروخت ہورہی ہیں۔منتخب نمائندوں اور عوام کے درمیان آج بھی فاصلے موجود ہیں۔ مہنگائی کا جن قابو میں نہیں آرہا۔ بجلی اور گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اورلوڈ شیڈنگ نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ بین الاقوامی سطح کی سیاست میں عمران خان کو غیر معمولی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں مگر ملکی سطح پر انہیں عوام کو ریلیف پہنچانے کے لئے بہت کچھ کرنا ہے اور ان کے سیاسی بقاء کا دارومدار بہر حال عوام کا بھرپور اعتماد حاصل کرنے پر ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
50743

بزمِ درویش – عید کے بکرے – تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

بزمِ درویش – عید کے بکرے – تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

آج بہت دنوں بعد امریکہ سے چوہدری جمیل صاحب کا فون آیا۔وہی زندگی سے بھر پور جوش آواز ایسی آواز جس سے مخلوق خدا کا درد اور مدد کا جذبہ ٹھاٹھیں مار رہا تھا حال احوال کے بعد کرونا کی تباہ کاریوں پر بات چیت کہ کس طرح سر زمین چین سے پھوٹنے والی پراسرار وبا کرونا نے دنیا کے سب سے ترقی یافتہ اکلوتی سپر پاور کو اُدھیڑ کر رکھ دیا کرونا کے خوفناک اثرات جب امریکہ میں پھیلے تو اپنی ہی ذات میں گم رہنے والی امریکی جو احساس تفاخر کے کے ٹو پر ہمہ وقت سوار خود کو دنیا کا خدا سمجھتے تھے کرونا کے ہاتھوں جب بے بس ہو کر زمین پر رینگتے کیڑے مکوڑوں کی طرح بے بسی سے ہاتھ مارنے لگے امریکی زیادہ تر ملحد لادین ہوچکے جو چرچ کا رخ صرف شادی موت پر ہی کرتے ہیں کرونا کے خو ف سے خدائے لازوال سے معافیاں مانگتے نظر آئے۔

کرونا وبا نے سپر پاور کے طاقت اور غرور کے غبارے سے ہوا نکال کر رکھ دی وہ امریکہ جو ساری دنیا کا مالک بنا بیٹھا تھا بے بسی کا مجسمہ بنا نظر آیا جبکہ متاثرین کی تعداد لاکھوں اور مرنے والوں کی تعدا روزانہ ہزاروں میں پہنچی تو امریکیوں کو بھی ان کی اوقات یا دآگئی کہ اِس کائنات کا مالک امریکہ نہیں بلکہ سارے جہانوں کا مالک خدائے لازوال ہے زمینی خداؤں کے حکمرانی نہیں بلکہ بنانے والے خدا ئے ذوالجلال والاکرام کی ہے کرونا کی تباہ کاریوں اور امریکیوں کی بے بسی پر بات چیت کے بعد چوہدری صاحب اصل بات کی طرف آئے پروفیسر صاحب جس طرح اللہ تعالی کی توفیق سے پچھلے کئی سالوں سے میں غریبوں میں قربانی کا گوشت اور سالم بکرے تقسیم کرتا ہوں وہ نیک عمل اِس سال کرونا کی وجہ سے بند نہیں ہو گا بلکہ ماضی کی طرح اُسی طرح مستحق لوگوں تک قربانی کی خوشیاں پہنچیں گی.

میں تو کرونا اور قرنطینہ کی وجہ سے پاکستان نہیں آپاؤں گا لیکن میں نے بھانجے کی ڈیوٹی لگائی ہے وہ ماضی کی طرح اُسی طرح قربانی کا گوشت تقسیم کر ے گا میں چوہدری صاحب کے ایمانی جذبے سے سرشار سا ہوگیا چوہدری صاحب کی یہ انسان دوستی بہت بھاتی ہے ان کی خدمت خلق کے جذبے کہ وجہ سے میرے دل میں اُن کا بہت احترام ہے کہ موجودہ دور کے مادیت پرستی کے طلسم ہوشربا کے زمانے میں جب موجودہ مادی انسان مادیت پرستی کی کبھی نہ ختم ہونے والی شاہراہ پر اندھا دھند دوڑے چلے جا رہے ہیں اِس پر فتن دور میں بھی چوہدری صاحب جیسے درد دل رکھنے والے انسان مغرب کے دیس میں خدمت خلق کی شمع جلائے ہوئے ہیں جہاں پر انسان خدا اور مذہب سے ناطہ توڑ کر لادینی کے اندھیروں میں گم ہو چکا ہے چوہدری صاحب جیسے لوگوں کو دیکھ کر ہی تو سر ماؤں سے شفیق خدا یاد آتا ہے جو معاشرے کے توازن اور غریبوں تک اپنے انعامات پہنچانے کے لیے انسانوں کے دلوں میں سخاوت اور خدمت خلق کا جذبہ ڈالتا ہے خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کو حق تعالی ایسے نیک کاموں کے لیے چُن لیتا ہے

چوہدری صاحب سے میری پہلی ملاقات چند سال پہلے اُس وقت ہوئی جب امریکہ میں ان کی بہن نے اُن کو میرانام پتہ دیا رابعہ بہن اپنے خاندانی مسائل کے لیے چند سال پہلے میرے پاس آئی تھیں اللہ نے جب ان پر کرم خاص کر دیا تو عقیدت بھرا رشتہ قائم ہو گیا چوہدری صاحب اپنے بیٹے کے حوالے سے پریشان تھے پاکستان آئے تو مُجھ سے بھی ملے دو چار ملاقاتوں میں تعارف شناسائی میں ڈھل گیا پہلی باقاعد ہ تفصیلی ملاقات اُس وقت ہوئی جب چند سال پہلے بقرہ عید پر چوہدری صاحب میرے پاس آئے اور بولے میں صرف قربانی کر نے پاکستان آیا ہوں اللہ تعالی نے مجھے بہت ساری دولت سے نواز رکھا ہے بلکہ رب تعالی نے مجھے میری اوقات سے زیادہ نواز رکھا ہے اتنی میری اوقات نہیں تھی میں بچپن میں ہی یتیم ہو گیا تھا بچپن جوانی غریت کی کڑی دھوپ میں گزری پھر یورپ سے امریکہ چلا گیا تو اللہ تعالی نے میرے اوپر رزق کی بارش کر دی دولت مند ہونے کے بعد بھی میں اپنی غربت اوقات نہیں بھولا جہاں تک ممکن ہو تا ہے غریبوں تک پہنچنے کی کو شش کرتا ہوں میں ہر سال اپنے والدین اور شہنشاہ دو عالم محبوب خداﷺ کے نام کے بہت سار ے جانور ذبح کر کے گوشت غریبوں میں تقسیم کرتا ہوں وہ جانور میں نے لے لئے ہیں کل آپ میرے ساتھ چل کر اُن جانوروں کو دیکھیں گے

ساتھ میں چند حق دار غریب خاندانوں کا پتہ بھی دے دیں تاکہ ان تک قربانی کا گوشت پہنچا یا جا سکے چوہدری صاحب کا قابل تحسین جذبہ اور انسانوں سے پیار مجھے ان کے ساتھ دریا ئے راوی کے اُس پار لے گیا جہاں پر حیرتوں کا سمندر میرا منتظر تھا ایک فارم ہاؤس پر بہت سارے صاف ستھرے بکرے ادھر اُدھر گھوم رہے تھے یہاں پر قربانی کے تمام قسم کے جانور چارہ کھاتے نظر آرہے تھے چوہدری صاحب نے جانوروں کی دیکھ بھال کا خوب انتظام کیا ہوا تھا صحت مند تازہ چارے کے ساتھ مختلف قسم کے پھل جو جانور شوق سے کھاتے ہیں وہ بھی جانوروں کو کھلائے جا رہے تھے سفید بکروں کو صابن سے خوب نہلا کر اُن پر مہندی کے پھول بوٹے اور گلوں میں گانیاں ہار ڈالے ہوئے تھے جانوروں کے لیے تازہ چارے کے ساتھ ٹھنڈا پانی بھی خوب میسر تھا اس طرح جانوروں کی بھوک کے ساتھ ساتھ گرمی کا توڑ بھی کیا گیا تھا

اب میں اور چوہدری صاحب بہت سارے جانوروں کے ساتھ گھوم رہے تھے چوہدری صاحب جانوروں کی دیکھ بھال میں مصروف ہو گئے تو وہاں پر موجود کام کرنے والا بندہ میرے پاس آگیامیری متجسس فطرت اُس سے چوہدری صاحب کے بارے میں سوال کرنے لگی تو اُس بندے نے بتایا چوہدری صاحب انسان نہیں فرشتہ ہے جو انسانوں سے پیار کرنے کے لیے اللہ نے زمین پر بھیجا ہے چوہدری صاحب نے ایک لسٹ بنا رکھی ہے جس کے مطابق وہ عید کے تین دن گوشت تقسیم کر تے ہیں سب سے خوشگوار حیرت مجھے اُس وقت جب پتہ چلا کہ ایسے خاندان جن کے افراد زیادہ ہیں چوہدری صاحب ان کو عید سے پہلے سالم بکرہ دے دیتے ہیں یا چند خاندانوں کو بڑا جانور دے دیتے ہیں میں نے لوگوں کو عید کا گوشت تقسیم کرتے تو بہت سنا یہ پہلا شخص تھا جو عید سے پہلے مستحق لوگوں کے گھروں میں سالم جانور دیتا ہو .

جب چوہدری صاحب میرے قریب آئے تو میں نے ممنون ستائشی نظروں سے چوہدری صاحب کی طرف دیکھا اور پوچھا چوہدری صاحب سنا ہے آپ قربانی پر گوشت نہیں سالم بکرے لوگوں میں بانٹ دیتے ہیں تو وہ بولے ایسے گھر جہاں غربت نے ڈھیرے ڈالے ہوں اور چھوٹے بچے ہوں جب محلے والے اپنے جانوروں کی گلی میں نمائش کریں گے تو وہ چھوٹے بچے حسرت بھری نظروں سے ان جانوروں کو دیکھیں گے اُن کی خوشی کے لیے میں ایسے گھروں میں سالم جانور دے دیتا ہوں تاکہ وہ غریب یتیم بچے بھی خوشی سے اپنے جانور کو دیکھ اور محسوس کر سکے میں چوہدری صاحب کے جذبہ انسانیت سے متاثر اور سر شار ہو چکاتھا چوہدری صاحب بولے پروفیسر صاحب دعا کریں اللہ مجھے معاف اور جنت عطا کرے تو میں آسمان کی طرف اشارہ کر کے بولا چوہدری صاحب وہ اب آپ کو معاف بھی کرے گا اور روز محشر یقینا آپ کے لیے جنت کے سارے دروازے کھول دیے جائیں گے آپ جہاں سے مرضی داخل ہو جائیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
50734

عالم اسلام کی عید قربان کیسی ہوتی ہے – تحریر :حافظ عثمان علی معاویہ

Posted on

اللہ تعالیٰ نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ آپ کہہ دیجئے کہ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، مسلمان کی ہر عبادت محض رب العالمین کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہوتی ہے۔
دیگر عبادات کے ساتھ ساتھ عید الاضحی کی قربانی بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے امت مسلمہ پر لازم ہے
عالم اسلام کی عید قربان بڑے جوش و خروش سے منائی جاتی ہے۔


یہ عظیم عبادت ایک طرف اللہ کا حکم ہے تو دوسری طرف سنت ابرھیمی کے ساتھ سنت حبیب خدا بھی ہے
نبی اکرمؐ نے خود قربانی کی ہے اور امت کو قربانی کرنے کا حکم دیا ہے۔ حضرت عقبہ بن عامرؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ عید الاضحی کے موقع پر جناب نبی اکرمؐ نے بھیڑ بکریوں کا ایک ریوڑ میرے سپرد کیا اور فرمایا کہ اسے میرے صحابہ میں قربانی کے لیے تقسیم کر دو۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ دو جانور عید قربان پر ذبح کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ مجھے نبی اکرمؐ نے وصیت فرمائی تھی کہ ان کی طرف سے بھی قربانی دیا کروں اس لیے میں ایک جانور آپؐ کی طرف سے ذبح کیا کرتا ہوں۔


حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ جناب نبی اکرمؐ نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور ہر سال قربانی کرتے تھے۔ حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرمؐ ہر سال دو مینڈھے قربانی کیا کرتے تھے اور میں بھی دو مینڈھے قربانی دیتا ہوں۔ ایک روایت میں ہے کہ جناب نبی اکرمؐ قربانی میں دو مینڈھے ذبح کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ ایک جانور اپنی طرف سے قربان کر رہا ہوں اور دوسرا اپنی امت کے ان افراد کی طرف سے ذبح کر رہا ہوں جو قربانی نہیں کر سکیں گے۔


ان تعلیمات اور روایات کی روشنی میں دیکھا جائے تو آج بھی دنیا بھر کے تمام مسلمان سنت ابرھیمی پر طریق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق عمل پیرا ہیں
قربانی کی عید جس میں دنیا بھر کے مسلمان اللہ تعالی کی بارگاہ میں نذرانہ پیش کرنے کے لیے جانور ذبح کرتے ہیں اور اللہ تعالی کی رضا کے لیے اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔


دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر بہت سے ادارے اور تنظیمیں غریب عوام تک گوشت پہنچا کر انہیں اپنی خوشیوں میں شریک کرتے ہیں
’عوام الناس اجتماعی قربانی مختلف مدارس اور اداروں کے ذریعے کرتے ہیں، جبکہ زیادہ تر لوگ اپنے گھروں میں ہی اس سنت ابراہیمی کو ادا کرنا پسند کرتے ہیں، اس کو بہتر سمجھتے ہیں اور گھروں میں حفاظتی تدابیر کا اہتمام بہتر طریقے سے کیا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں انسانی صحت کے ناگزیر تقاضوں، مذہبی شعائر و عبادات کے تحفظ و احترام اور قومی یکجہتی کو برقرار رکھنے کے بنیادی اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے بین الااقوامی سطح پر اعلٰی مذہبی قیادت، ماہرین صحت اور متعلقہ ذمہ دار حکام باہمی مشاورت و اعتماد کے ساتھ جلد کسی اجتماعی لائحہ عمل کا اعلان کر دیں تاکہ قوم اس کے لیے ذہنی طور پر تیار رہے اور عید الاضحٰی اور قربانی بھی رمضان المبارک اور عید الفطر کی طرح مناسب ماحول میں کی جا سکے۔


کیونکہ اب پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمان اپنا مذہبی تہوار عیدالاضحیٰ منانے کی تیاریوں میں مشغول نظر آرہے ہیں اس سلسلہ میں قربانی کے لئے جانوروں کے لئے مویشی میڈیاں سج چکی ہیں
عید الاضحی سے قبل ہی میل جول کے حوالے سے احتیاطی تدابیر کے شعور کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنا چاہیے کیونکہ نماز عید کی ادائیگی کے لیے لوگ عید گاہ میں نماز پڑھتے ہیں نماز اور خطبات کے اختتام پر مسلمان ایک دوسرے کو گلے لگاتے ہیں اور ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں۔


بہت سارے مسلمان اس موقع پر اپنے غیر مسلم دوستوں، پڑوسیوں، ساتھی کارکنوں اور ہم جماعتوں کو اپنے عید کے تہواروں پر دعوت دیتے ہیں تاکہ وہ اسلام اور مسلم ثقافت سے بہتر طور پر واقف ہوں۔ ہر طرف خوشی اور مسرت کا ماحول رہتا ہے۔
نماز عید کھلے علاقوں جیسے شہروں میں عیدگاہ یا بڑی مسجدوں یا محلے کی مسجدوں میں ادا کی جاتی ہے اور گاؤں میں کھیتوں ، برادری کے مراکز وغیرہ میں ادا کی جاتی ہے۔ نماز عید کے بعد مسلمان اپنے آس پاس کے نمازیوں سے اور دوستوں سے بڑی ہی خوشی کے ساتھ ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں اور پھر دن بھر یہاں تک کہ پورے تین دن تک اپنے عزیز و اقارب اور رشتےداروں کے ساتھ عید کی خوشیاں بانٹتے رہتے ہیں۔
یہ عید ڈھیروں خوشیاں لاتی ہے اور بہت سی یادیں چھوڑ جاتی ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
50731

نوائے سُرود ۔ الفاظ کا جُھنجُھنا ۔ شہزادی کوثر

نوائے سُرود ۔ الفاظ کا جُھنجُھنا ۔ شہزادی کوثر

اپنی جنم بھومی سے محبت اور عقیدت کا بڑا اٹوٹ اور گہرا رشتہ ہوتا ہے جو انسان کے رگ وریشے میں ساری زندگی کے لیے سرایت کر جاتا ہے ۔جس میں آب و ہوا ،علاقے کی روایات، لوگوں کے آپس کے تعلقات شامل ہیں ،ان ہی چیزوں سے ہماری شخصیت سازی میں مدد ملتی ہے۔ بچپن سے جو کچھ ہم اپنے ارد گرد کی دنیا میں دیکھتے ،جو کھاتے پیتے ہیں ،زمین کی کوکھ سے ہر طرح کی لذت ،طاقت اور توانائی حاصل کرتے ہیں انہی کے سہارے ہماری زندگی کی بنیادیں مضبوط ہوتی ہیں جو آگے جا کر ہمارے وجود اور شخصیت کی عمارت کو خدوخال اور دلکشی عطا کرتے ہیں ۔

جس طرح والدین رشتہ داروں اور اولاد کے حقوق ہیں ،اسی طرح علاقے اور وطن کے بھی کچھ حقوق ہیں ۔جنھیں ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے عمدگی سے ادا کرنا ہونگے۔ صرف زبانی کلامی محبت کے اظہار سے یہ حق ادا نہیں ہوا کرتا ۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں عملی کام کی روایت نہ ہونے کے برابر ہے ۔اس کے بر عکس اگر صرف بولنے کا مقابلہ کروایا جائے تو کوئی بھی ہم سے نہیں جیت سکتا ۔ بڑے بڑے دعوے کر کے عوام کو بےوقوف بنانے سے لے کر اپنے بے روح وعدوں کے ذریعے انہیں سبز باغ دکھانے تک کا کام بڑی آسانی سے انجام دیا جاتا ہے۔ ساری گفتگو ” چاہییے ” کے گرد گھومتی ہے۔ کوئی کام عملی شکل میں کم ہی سامنے اتا ہے ۔ جن کے پاس طاقت اور اختیار ہے وہ اسے استعمال کرنے کے فن سے نا واقف ہیں۔ 

اس وقت بہت سے مسائل منہ کھولے ہمیں نگلنے کے لیے تیار ہیں جن میں مہنگائی، بے روزگاری، غربت،بنیادی سہولیات کا فقدان، سڑکوں کی خستہ حالت، صاف پانی کی عدم دستیابی، ہسپتالوں میں ناقص انتظام ،اشیا خورد ونوش میں ملاوٹ ،بڑھتی ہوئی آبادی،زمینی آبی اور فضائی آلودگی ان کے علاوہ بے شمار معاشی معاشرتی اور اخلاقی مسائل ہیں جن میں ہم بری طرح سے پھنسے ہوئے ہیں ۔ان تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی خضر ملے گا یا آسمان سے کسی فرشتے کے اترنے کا انتظار ہے؟  یہ ہمارے اپنے پیدا کردہ مسائل ہیں اور ان کو خود ہی حل کرنا ہوگا۔ اگر چھوٹے پیمانے پہ کوئی مسلہ پیدا ہو تو اسی وقت اس کا تدارک کرنے سے معاشی مشکلات میں کافی حد تک کمی آئی گی۔

ہم بھی عجیب قوم ہیں ایک طرف غربت ،تنگدستی اور معاشی ابتری کا رونا روتے ہیں تو دوسری طرف  فضولیات لاکھوں خرچ کرتے ہیں ۔اگر واقعی میں ملکی حالات ناگفتہ بہ ہیں تو اخراجات کی مد میں خرچ ہونے والی رقم کا جائزہ لیں کہ کہیں بے مصرف جگہ پہ خرچ تونہیں ہو رہا ؟ اگر کوئی فنڈ ملا ہے تو ایسے کاموں میں لگا دیا جائے جس سے عوام کو فائدہ پہنچے۔ ملک وقوم سے محبت کے دعوے دار صرف ” آئی لو چترال ” کے بورڈ لگا کر کیا اپنی ذمہ داریوں سے فارغ ہو گئے۔۔؟

محبت چار حروف کی ادائیگی کا نام نہیں یہ عملی طور پر کچھ کرنے کا نام سے جس سے سب کا بھلا ہو سکے۔ یہ جولاکھوں روپے لگا کر اظہار محبت کیا گیا ہے بے شک اچھا لگ رہا ہے لیکن  میری ناقص رائے ہے کہ کیا ہی اچھا ہوتا اگر ان پیسوں سے کہیں کنواں کھودا جاتا ،کسی یتیم خانے کی مالی معاونت کی جاتی ،کسی غریب طالب علم کے لیے ماہوار وظیفہ مقرر کیا جاتا تا کہ وہ بغیر مالی پریشانی کے اپنے تعلیمی اخراجات پوری کرتا، کسی خیراتی ادارے میں لگائے جاتے،سڑکوں پہ پڑا ہوا ملبہ ہٹایا جاتا ، کہیں پودے لگا کر ان کی دیکھ بھال کی جاتی ،شہر میں کچھ جگہوں پے کوڑے دان رکھوائے جاتے ، کچرا تلف کرنے کے لئے بڑے بڑے گڑھے کھودے جاتے یا  مختلف جگہوں پر انتظار گاہ بنوائے جاتے تاکہ سکول جانے والے بچے بارش اور سورج کی تمازت سے بچ جاتے ڈیوٹی پہ جانے والی خواتین کو سہولت مل جاتی ، سڑکوں میں جگہ جگہ گڑھے بنے ہیں ان کی پیوند کاری کروائی جاتی ۔۔۔،

ہزاروں ایسے کام  ہیں جو بہت کم پیسوں سے کیے جا سکتے ہیں ۔۔  صرف” آئی لو یو ” کہنے سے ملک اور علاقے کا حق  ادا نہیں  ہوتا۔ جن کے  ہاتھ میں اختیار ہے جو علاقے کی خدمت پر مامورہیں حکومت کی طرف سے لاکھوں روپے تنخواہ لیتے ہیں جن کے ہاتھ میں فنڈز آتے ہیں انہیں زیب نہیں دیتا کہ عوام کو ان چیزوں سے ٹرخائیں۔۔۔ 

بیوٹیفیکیشن کے نام پہ بڑی بڑی اسکرین لگانے یا گراونڈ کے چاروں طرف برقی قمقمے لگوانے سے پسی ہوئی عوام کو کیا فائدہ پہنچے گا۔۔؟ ہم غریب ملک کیےلٹے پٹےاور مقروض باشندے ہیں ہماری معیشت اجازت نہیں دیتی کہ ہم دوسروں کی دیکھا دیکھی ان کا معیار زندگی اپنانے کی کوشش کریں ۔

ہمارا بال بال قرض کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے ۔ہمارے ہاتھ سے گدائی کا کشکول ابھی نہیں گرا اس لیے ہم ان عیاشیوں کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔ہہمیں سائن بورڈ اور اسکرین کی ضرورت نہیں بلکہ ہمارے بنیادی مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے مسائل تبہی حل ہوں گے جب عوام کا پیسہ انہی کے کام ائے انہیں سہولیات دی جائیں اوران کا پیسہ صحیح جگہ پر استعمال ہو۔ جہاں عملی اقدام کی ضرورت ہے وہاں محبت کی افیون سے کام نہیں لیا جاتا۔ اگر ذاتی ۔

انفرادی اور اجتماعی طور پر صحیح کام کریں گے اپنے علاقے کے مسائل کو حل کرنے کا تہیہ کر کے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کریں گے تو وطن کا حق ادا ہو گا ورنہ صرف “آئی لو چترال ” کہنا بھوک سے بلکتے بچے کے ہاتھ میں جھنجھنا دینے کے مترادف ہے۔                                                                                        

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
50716