Chitral Times

پی ٹی آئی واحد پارٹی ہے جس کی حکومت کے اختتام پر بھی لوگ جوق درجوق اس میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ 

Posted on

پی ٹی آئی واحد پارٹی ہے جس کی حکومت کے اختتام پر بھی لوگ جوق درجوق اس میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ

پشاور ( چترال ٹائمز رپورٹ ) وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے کہا ہے کہ  پی ٹی آئی واحد پارٹی ہے جس کی حکومت کے اختتام پر بھی لوگ جوق درجوق اس میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔  جو پی ٹی آئی کی قیادت پر عوام اور سیاست میں دلچسپی لینے والے حلقوں کے بھرپور اعتماد کا واحد ثبوت ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ضلع دیر سے پیپلز پارٹی کے عہدیداروں کی پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ پیپلز پارٹی ضلع دیر کے عہدیداروں نے جمعرات کے روز وزیراعلیٰ ہاوس پشاور میں وزیراعلیٰ محمود خان سے ملاقات کی اور پی ٹی آئی میں شمولیت کا باضابطہ اعلان کیا۔ ایم این اے بشیر خان اور سابقہ صوبائی وزیر محب اللہ بھی اس موقع پر موجود تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابقہ ڈسٹرکٹ کونسلرچکدرہ حاجی نواب ، تالاش تیمر گرہ سے پاکستان پیپلز پارٹی کے سابقہ ڈسٹرکٹ کونسلر محمد اسرار ، لوئیر دیر کوٹی گرام سے تعلق رکھنے والے پاکستان پیپلز پارٹی کے سابقہ ڈسٹرکٹ کونسلر ہارون الرشید اور پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے لوئیر دیر تالاش کے صدر ملک ممتاز جبکہ قومی وطن پارٹی تحصیل تیمر گرہ کے صدر اور 2013 میں صوبائی اسمبلی کے امیدوار خضر حیات نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔

 

وزیراعلیٰ نے پی ٹی آئی میں شامل ہونے والوں کا خیر مقدم کیا اور انہیں عوام کی نمائندہ سیاسی جماعت کا انتخاب کرنے پر خراج تحسین پیش کیا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ پی ٹی آئی نے نچلی سطح پر تمام سیاسی جماعتوں کا تقریباً صفایا کردیا ہے۔ نہ صرف عوام بلکہ روایتی سیاسی جماعتوں سے وابستہ رہنما ، عہدیدار اور ان کے کارکنان بھی پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کررہے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے واضح کیا کہ عمران خان واحد لیڈر ہے جو اس وقت ملک و قوم کے مفاد میں جدوجہد کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ ان کی عوامی مقبولیت اور سیاسی طاقت میں اضافہ ہورہا ہے۔ وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ باشعو ر عوام اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ صرف عمران خان ہی ملک کو مسائل کی دلدل سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامز ن کر سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی مخالف پیداگیر سیاسی جماعتوں کا اصل چہرہ عوام کے سامنے عیاں ہوچکا ہے اور وہ کسی صورت ان پر اعتماد نہیں کریں گے۔

 

وزیراعلیٰ نے اس موقع پر صوبائی حکومت کی ترقیاتی و فلاحی حکمت عملی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت نے گزشتہ ساڑھے چار سالوں میں تمام شعبوں کی بہتری و بحالی کےلئے ٹھوس اقدامات اٹھائے ہیں۔ خصوصی طور پر صحت ، تعلیم اور دیگر سماجی خدمات کے اداروں کو جدید خطوط پر استوار کرنے کیلئے متعدد اصلاحی اور ترقیاتی منصوبے مکمل کئے گئے ہیں، جن کے مثبت نتائج سے عوام مستفید ہو رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ پی ٹی آئی اپنی کارکردگی کی بدولت دوبارہ بھاری اکثریت کے ساتھ حکومت میں آئے گی اور صوبے کے تمام علاقوں کی یکساں ترقی کے سلسلے میں اپنے اہداف کو پایہ تکمیل تک لے جائے گی۔ وزیراعلیٰ نے اس موقع پر کہا کہ وہ بہت جلد ضلع دیر میں بھی ایک عظیم الشان جلسہ کریں گے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ ان کی حکومت نے دیر اور دیگر پسماندہ اضلاع کی ترقی پر خصوصی توجہ دی ہے

 

دیر میں تیسرے ضلع “سنٹرل دیر” اور تین نئی تحصیلوں کا اعلامیہ جاری کیا جاچکا ہے جو وہاں کے عوام کا دیرینہ مطالبہ تھا۔ اس موقع پر شمولیتی وفد نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ آنے والے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی بھر پور حمایت کریں گے اور ضلع دیر میں کلین سویپ کریں گے۔ ایم این اے بشیر خان نے واضح کیا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے فراہم کردہ ترقیاتی فنڈز کے باعث ضلع دیر میں متعدد ترقیاتی منصوبے پایا تکمیل کو پہنچے جن میں یونیورسٹی کا قیام ، میڈیکل کالج کی تکمیل ، کوٹو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی تکمیل ، گرڈ اسٹیشن کا قیام اور کیڈٹ کالج کا قیام شامل ہے۔ علاوہ ازیں متعدد ترقیاتی منصوبوں پر پیشرفت جاری ہے جن میں کمراٹ روڈ اور دیر موٹر وے جیسے اہم منصوبے شامل ہیں۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
70624

پی ٹی آئی کی مقبولیت کا گراف روزافزوں بڑھ رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم انتخابات سے فرار کا راستہ اختیار کررہی ہے۔وزیرزادہ

Posted on

پی ٹی آئی کی مقبولیت کا گراف روزافزوں بڑھ رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم انتخابات سے فرار کا راستہ اختیار کررہی ہے۔وزیرزادہ

پشاور( نمایندہ چترال ٹایمز ) وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی وزیر زادہ نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کی مقبولیت کا گراف روزافزوں بڑھ رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم انتخابات سے فرار کا راستہ اختیار کرہی ہے کیونکہ عمران خان کی دو تہائی اکثریت کے ساتھ واپسی نوشتہ دیوار بن گئی ہے۔

منگل کے روز سول سیکرٹریٹ میں واقع اپنے دفتر میں ایک شمولیتی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امپورٹڈ حکومت نے ایک ماہ کے اندر عوام پر مہنگائی و گرانی کا جو پہاڑ گرادیا ہے، غریبوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے اور خان صاحب کی بیانئے کا ایک ایک حرغ درست ثابت ہورہا ہے۔ انہوں نے اس بات پر مسرت کا اظہار کیا کہ چترال میں آزاد حیثیت سے بلدیاتی الیکشن کر کامیابی حاصل کرنے والے منتخب نمائندے جوق درجوق پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ آنے والا دور بھی اسی جماعت کا ہوگا اور یہی عوام کا نجات دہندہ ہے۔

انہوں نے ویلج کونسل بونی ون کے نو منتخب چیرمین مظہر الدین کا پی ٹی آئی میں شمولیت پر ان کا خیر مقدم کرتے ہوئے ان کو مبارک باد دی اور کہا کہ اپر اور لویر چترال میں درجنوں ویلج چیرمین پہلے ہی پی ٹی آئی میں شامل ہوچکے ہیں اور کئی ایک مزید رابطے میں ہیں۔ اس سے قبل انہوں نے پارٹی کے سینئر رہنماؤں عبداللطیف، الحاج رحمت غازی خان کے ساتھ مظہرالدین کو پارٹی پرچم سے بنی مفلر اور ٹوپی پہنائی۔

دریں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مظہرالدین پارٹی میں شمولیت کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ وطن عزیز کی استحکام اور بقا اور غریبوں کی حالت زار کو بہتر بنانے کیلئےخان صاحب کی وژن بنیادی محرک ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا تعلق پی پی پی سے رہا ہے لیکن الیکشن آزاد حیثیت سے لڑکر کامیاب ہوئے تھے۔

chitraltimes pti joinig program wazir zada1

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریںTagged
62077

آزادکشمیر میں پی ٹی آئی کی حکومت سازی اور مستقبل – پروفیسرعبدالشکورشاہ

سیاسی جوڑ توڑ اور اتحادپارٹی سیاست کا حصہ ہے۔ پاکستان، گلگت بلتستان اور آزادکشمیر میں سیاسی اتحادکا عروج و زوال سیاسی مقاصد کے حصول تک محدود ہے۔ متحدہ اپوزیشن پارٹیز (سی او پی (1964ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی (ڈی اے سی 1968، پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے)1977، تحریک برائے بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی)1983،اتحاد برائے بحالی جمہوریت (اے آر ڈی)2002 اور موجودہ پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ (پی ڈی ایم) پاکستان میں اقتدار کے لیے سیاسی اتحاد کے عروج و زوال کی زندہ مثالیں ہیں۔ بڑی سیاسی جماعتیں اقتدارکے حصول کے لیے روائیتی اقتدار کی سیاست کی طرف گامزن ہو جاتی ہیں۔اگرچہ پی ڈی ایم میں شامل اکثر جماعتیں اقتدار کا حصہ ہونے کی وجہ سے یہ اتحاد کچھ مختلف ضرور تھا مگر اقتدار میں شامل پارٹیاں استعفی دے کر خالص اپوزیشن کرنے کے لیے تیار نہ تھی اور نہ ہیں۔دراصل یہ اتحاد اقتدار میں اپنے حصے کی وسعت کے لیے تشکیل دیا گیا ہے جو ماضی کی طرح مفادات کی نظر ہوتا جا رہا ہے۔

پیپلز پارٹی مفاہمتی سیاست کے نظریہ کے تحت مخلوط طرز کی پی ڈی ایم سے علیحدگی اختیار کر چکی ہے اور دیگر پارٹیوں کا جوش و خروش بھی ماند پڑھ چکا ہے۔پاکستان میں چند ہی مثالیں ملتی ہیں جہاں احتجاج اور مظاہروں کے زریعے حکومت کو رخصت کیا گیا ہو۔اگرچہ پی ڈی ایم نے دو روائیتی حریفوں ن لیگ اور پی پی کو مختصر عرصے کے لیے اکھٹا کر لیا مگر یہ اتحاد زیادہ دیر نہ چل سکا۔ پی ڈی ایم نے اپنی بقاء کے علاوہ کوئی کارہائے نمایاں سرانجام نہیں دیا۔ پی ٹی آئی حکومت کو سب سے بڑا خطرہ مہنگائی کے طوفان سے ہے جو آئے روز شدت اختیار کر تا جا رہا ہے۔پی ڈی ایم میں اختلافات کی وجہ سے گلگت بلتستان کے بعدآزادکشمیرانتخابات میں پی ڈی ایم طرز کی کشمیر ڈیموکریٹک مومنٹ(کے ڈی ایم) بنانے میں ناکام رہی۔اگر پی ڈی ایم متحد رہتی تو کشمیر میں ن لیگ، پی پی اور ایم سی مل کر پی ٹی آئی کا پتہ صاف کر سکتی تھی مگر ایسا ہوا نہیں۔

ن لیگ گلگت بلتستان کی طرح کشمیر میں بھی برسراقتدار تھی مگر پی ٹی آئی نے اس کا صفایا کر تے ہوئے محض چار سیٹوں تک محدود کر دیا ہے۔ن لیگ کی طرف سے حکومت مخالف تحریک چلانا خوش فہمی سے زیادہ کچھ نہیں۔پیپلز پارٹی پاکستان میں پی ٹی آئی کے ساتھ خفیہ اتحاد کی بدولت گیارہ سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔یہ آزادکشمیر الیکشن سے پہلے ہی عیاں تھا کیونکہ پی ٹی آئی کی ساری بیٹنگ ن لیگ کے خلاف تھی۔ یہ بات بھی خارج از امکان نہیں ہے کہ ن لیگ کے اسٹیبلشمنٹ مخالف نظریہ کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو ڈیل کے بدلے ڈھیل ملی ہواور دوسال بعد اسلام آباد میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی پی ٹی آئی میں فاروڈ بلاک بنا کر آزادکشمیر کی حکومت پیپلز پارٹی کے حوالے کر دی جائے۔ ایم سی کے پاس کھونے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے پانچھ سال ایک سیٹ پر ہی گزارہ کرنا ہو گا۔ پی ٹی آئی آزادکشمیر کو فی لوقت کسی بڑے خطرے کا سامنا تو نہیں ہے تاہم محبت، جنگ اور سیاست میں کب کیا ہو جائے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ قابل افسوس پہلو یہ ہے کہ کسی بڑی سیاسی پارٹی نے کشمیر ایشوپر الیکشن لڑنا تو درکنار کشمیر کو بطور سیاسی نعرے کے بھی استعمال نہیں کیا۔

اگر پی ٹی آئی کشمیر ایشو سے متعلق کوئی غلطی نہیں کرتی تو کم از کم مرکز میں اقتدار کی تبدیلی تک پی ٹی آئی کو کوئی خطرہ درپیش نہیں ہے۔ ن لیگ اور پی پی نے کشمیر کو پاکستان میں ضم کرنے کے پروپگنڈے پر جو سیاست کی ہے اب وہ اس انتظار میں ہیں کہ پی ٹی آئی کشمیر کے حوالے سے کوئی ایسی غلطی کرے تاکہ انہیں کشمیر کی سالمیت اور شناخت کی ڈھال مل جائے۔ آزادکشمیر الیکشن نے انتخابات کے ناقص نظام کی بھی کلی کھول دی ہے۔ ابھی تک ہم کوئی ایسا انتخابی نظام لانے میں کامیاب نہیں ہوئے جس کے نتائج سب پارٹیوں کے لیے قابل قبول ہوں۔ ہارنے والی پارٹی ہمیشہ کی طرح دھاندلی کے الزامات کا سہار ا لیتی ہے۔ البتہ پیپلز پارٹی خوش ہے16سیٹوں کے وعدے پر11ملی۔الیکشن کمیشن ضابطہ اخلاق کو لاگو کروانے میں پوری طرح ناکام رہا۔ بعض حلقوں میں پارٹیوں نے اپنے عہدیداروں کے بیٹوں کو ضلعی الیکشن آفیسر تعینات کر وا رکھا تھا۔ رشوت، تشدد، بلیک میلنگ، سیاسی پیش کش، دھکمیاں، برادری ازم، نسل پرستی اور سیاسی ایڈجسٹمنٹ وغیرہ نے اہم کردار ادا کیا۔

بلاول بھٹو اورمریم نواز کی محنت گلگت بلتستان کی طرح رائیگاں گئی۔اب پی ٹی آئی کا مستقبل مرکز میں حکومت کی تبدیلی سے وابستہ ہے۔ مرکز میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی آزادکشمیر میں سیاسی تبدیلی آجانی ہے۔ پی ٹی آئی آزادکشمیر کو فی الوقت ایک بڑا چیلنج وزارتوں کے دانشمندانہ تقسیم کا ہے تاکہ مرکز میں حکومت کی تبدیلی کے باوجود بھی پی ٹی آئی اپنا وجود قائم رکھ سکے۔ پی ٹی آئی کو یہ بات بھی ملحوظ خاطر رکھنی ہو گی کہ برادری کی بنیاد پر دیئے گئے ٹکٹ ان کے لیے مشکل کھڑی کر سکتے ہیں۔برادری اور سفارش کی بنیاد پر دیئے گئے ٹکٹس ہی پی ٹی آئی میں فاروڈ بلاک کی داغ بیل ڈالیں گے۔پی ٹی آئی آزادکشمیر قیادت کو مسٹر خان کی طرف سے ملنے والی تھپکی آزادکشمیر میں حکومت کے تسلسل کے لیے ناکافی ہے۔

آزادکشمیر الیکشن مسلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کا ایک بڑا زریعے بن سکتا تھا مگر تما م پارٹیوں نے کشمیر ایشو کوسیاست کا محور و مرکز بنانے کے بجائے برانڈیڈ سیاست کا سہارا لیتے ہوئے مسلہ کشمیر کو پس پشت ڈال دیا۔تما م سیاسی پارٹیوں کو الیکشن اصلاحات کی طرف توجہ دیتے ہوئے الزام در الزام کی سیاست کو دفن کرنا چاہیے۔مگر نظام اور اصلاحات کی طرف یہ کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے کیونکہ انہیں یقین ہے جلد یا بدیر یہ بوسیدہ نظام ہی ان کے لیے کوئی راہ نکال لے گا۔ روائیتی حریف پی پی اور ن لیگ کی جانب سے پی ٹی آئی کو اپنے خلاف کسی متحدہ اپوزیشن کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔پی پی پاکستان کی طرح کشمیر میں بھی ن لیگ کو اپوزیشن کے اہم عہدوں سے نکال باہر کر نے میں کامیاب ہو جائے گی۔ یوں لگتا ہے پی ٹی آئی، پی پی اور اسٹیبلشمنٹ تینوں نے مل کر ن لیگ کی بیساکھیاں توڑنے کاتہیہ کر رکھا ہے۔ماضی میں بھی آزادکشمیر میں مفادات کی سیاست کی گئی ہے کسی بھی اپوزیشن پارٹی نے حقیقی معانی میں اپوزیشن کا کردار ادا نہیں کیا ہے۔

پی ٹی آئی کے خلاف ن لیگ اور پی پی کے لیے مرکز میں تبدیلی سے پہلے صرف ایک موقعہ ہے کہ یہ وزات عظمی کے عہدے کی تفویض پر پی آئی میں فاروڈ بلاک بنا کرحکومت سازی کی کوشش کریں۔ مگر یہ دونوں کے لیے فائدے مند نہیں رہے گا کیونکہ تمام اہم وزارتیں اور عہدے تو فاروڈ بلاک اور دو سیٹوں والے اتحادی لے اڑیں گے اور ان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا اور یہ اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ اگر ن لیگ اور پی پی پی ڈی ایم میں ایک ساتھ ہوتی تو اس وقت آزادکشمیر میں صورتحال بلکل مختلف ہوتی۔حکومت سازی کے مکمل ہونے تک کا عرصہ پی ٹی آئی کے لیے کافی آزمائش طلب ہے خاص کر ان حلقوں میں صوابعدیدی عہدوں کے زریعے وزارتیں دینی اشدضروری ہیں جہاں سے ن لیگ اور پی پی نے میدان مار ا ہے۔ اس سے پی ٹی آئی کی نہ صرف گرفت مضبوط ہو گی بلکہ اپوزیشن کے لیے حکومت مخالف عوامی مہم چلانے میں معاون ثابت ہو گی۔ پی ٹی آئی کے آزادکشمیر میں مستقبل کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ وہ دو سال کے قلیل عرصے میں مرکز سے کتنے زیادہ فنڈز حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔ اگر پی ٹی آئی نے دوسال کے اندر مرکز سے خاطر خواہ فنڈز حاصل کرنے کے ساان کے شفاف استعمال کو یقینی بنایا تو شائد مرکز میں حکومت کی تبدیلی آزادکشمیر میں کسی بڑی سیاسی تبدیلی کا باعث نہ بن سکے۔ 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
51051