Chitral Times

آزادکشمیر متحدہ اپوزیشن محاذ – پروفیسر عبد الشکور شاہ

آزادکشمیر متحدہ اپوزیشن محاذ – پروفیسر عبد الشکور شاہ

الیکشن 2021 میں آزادکشمیر کے تمام اضلاع میں سب سے زیادہ آزادامیدوار ضلع نیلم سے دیکھنے کو ملے۔بس صرف دیکھنے کو ملے کیونکہ 99% الیکشن کے دن سے پہلے اپنی ساکھ،نظریہ،بلندوبالا نعرے،نام نہاد انقلابی سوچ، اعلی تعلیمی ڈگریاں وغیرہ وغیرہ سب روائیتی سیاستدانوں کی جھولیوں میں بطور نظرانہ پیش کر چکے تھے۔جو ایک فیصد رہ گئے تھے ان کی داستان غم بیٹھ جانے والوں سے بھی دردناک ہے۔بس یوں سمجھ لیں جب سب بیٹھ گئے تو ان کے بیٹھنے کی جگہ ہی نہ بچی لحاظ انہوں نے کھڑے رہنے میں ہی عافیت سمجھی۔آزادکشمیر کے سبھی اضلاع میں یہی ماجرا پیش آیا۔جیسے ہی الیکشن نتائج کا اعلان ہوا تو رت ہی بدل گئ۔ پی پی کو ووٹ دینے والے ن لیگ کے جیتنے والے امیدوار کو مبارکباد دینے پہنچ گئے اور ن لیگ کو ووٹ دینے والے پی پی کے جیتنےوالے امیدوار کو مبارکباد دینے پہنچ گئے۔پی ٹی آئ کو مبارکباد دینے کے لیے نسونس،پہجو پہج،چمڑوچمڑ،پہلچو پہلچ تے ترپوترپ جیسی صورت حال تھی۔

چھوٹی جماعتیں اور آزادامیدوار خرامے خرامے واپس پنڈی،اسلام آباد،لاہور اور کراچی کی طرف کھسکنے لگے۔یوں الیکشن سے پہلے اپوزیشن کی باتیں کرنے والے کانوں میں روئ ٹھونس کر رفوچکر ہوگئے۔نیلم میں جناب شاہ اور میاں صاحب نے آپس میں مک مکا کر کے الحاج سرکار کو اکھاڑے سے باہر کردیا۔مسلم کانفرنس نے ہر ممکن مفاد حاصل کرنے کی سہی کی مگر کچھ ہاتھ نہ آیا۔مسلم کانفرنس نےچند بکروں کے بدلے ٹکٹ تقسیم کیے تو آخر میں مینگڑاں ای ملیاں۔ہمارے میاں صاحب بھی دیرینہ رفاقت کو چھوڑ کر ن لیگ میں شامل ہوگئے شائد کچھ بھانجے بھتیجے لگوانے کی امید باقی ہو آج تک عوام علاقہ کے ووٹوں کے نام پر اپنی جیبیں بھری ہیں اور اپنے رشتہ دار ہی لگائے ہیں۔نیلم ڈویلپمنٹ بورڈ اور کشمیر کونسل کی نشستوں کے وعدوں پر ایم فل پرائمری پاس کے چرنوں میں جاگرےمگر کوئ امید بر نہ آئ۔واحد حل جماعت اسلامی والے تو اب واٹسپ گروپس اور سوشل میڈیا سے بھی غائب ہوچکے ہیں۔جماعت اپنی ماضی کی روش پر چل رہی جس کا ممبرومحراب چپ رہ کر عہدے اور مفادات حاصل کرنا ہے۔

تحریک لبیک مذہبی چورن کے نام پر جماعت اسلامی سے بہتر ووٹ لینے میں کامیاب تو ہوئ مگر الیکشن کے بعد چپ سادھ لی ہے۔چند دن پہلے ان کے گم شدہ کارکنان اپنے سربراہ کے ولیمے کے لیے وئبریشن کرتے دکھائ دیے اور پھر سائلینٹ موڈ پر لگ گئے ہیں۔لبریشن لیگ کے امیدواران تو کیا ان کا صدر آزاد امیدوار کے برابر بھی ووٹ نہ لے سکا۔اب اپوزیشن کرنے کے لیے نہ کوئ فرزندکشمیر ہے،نہ فخرکشمیر،نہ سپوت کشمیر،نہ محافظ کشمیر،نہ شان کشمیر، نہ کوئ کمانڈر اورمجاہد کشمیر۔میراکشمیر جوں کی توں ہے اور یہ سیاسی ہفتہ باز سبزباغ دکھا کر رفوچکر ہوچکےہیں۔لاٹری تو ان لوگوں کی نکلی جن کی حکومت نہیں بنی۔یہ سیاسی شہید بن چکے ہیں۔نہ کام کے نہ کاج کے دشمن قومی اناج کے۔5سال تک ہمارے ٹیکسوں سے تنخواہ،مراعات،سہولیات اور ایم ایل اے فنڈز لیکر کہنا ہماری حکومت ہی نہیں ہم کیا کریں۔سابقہ سپیکر آزادکشمیر تو برسراقتدار ہوتے ہوئے یہ کہتے تھے میری ڈی سی نہیں سنتا، اب تو شائد چپڑاسی بھی نہ سنتا ہو۔رہے میاں صاحب اب موبائل بھی مہنگے والے ہیں اب موبائل توڑنے والا کام بھی مشکل ہے۔سب نے اپنی دکانداری چمکا لی ہے بس بیچاری عوام وہیں کی وہیں ہے۔

غریب کے نام پہ ووٹ لینے والے امیر ہوگئے اور غریب کو دووقت کا کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا۔الیکشن سے پہلے سب بڑی سیاسی پارٹیوں کی اجارہ داری کے خلاف تھے مگر متحدہ کشمیر/ نیلم محاذ بناکر الیکشن تو نہ لڑ سکے کم از کم متحدہ اپوزیشن محاذ کشمیر بنا کر اپوزیشن تو کرسکتے ہیں۔مگر یہ ایسا کبھی نہیں کریں گے کیونکہ ان کا مقصد کشمیر نہیں نوکریاں،تبادلے،سکیمیں،ٹھیکے اور اپنی دیہاڑی لگانا ہے۔جماعت اسلامی ہویا لبیک،لبریشن لیگ ہویا مسلم کانفرنس،ن لیگ ہو یا پی ٹی آی،آزاد امیدوار ہوں،دیگر پارٹیاں ہوں یا پی پی سب کھا پی کے چکروں میں ہیں۔سیاسی پارٹیوں کے حکومتی پارٹی کے ساتھ ماضی کے الحاق اس بات کا واضع ثبوت ہیں یہ مفادات کے لیے اپنا نظریہ تک بیچ دیتےہیں۔رہے آزادامیدوار تو وہ بیچارے معصوم ہیں ان کو تو خود نہیں پتہ تھا وہ الیکشن کیوں لڑرہے تھے۔کچھ نوکری کے لیے لڑ رہے تھے،کچھ انا کی تسکین،کچھ شہرت،کچھ ضد،کچھ بیٹھنے کے لیے،کچھ لیٹنے کے لیے،کچھ سیاسی کاروبار کے لیے،کچھ سیاسی ایڈجسٹمنٹ کے لیے،کچھ سیاسی پارٹیوں کے کہنے پر اور کچھ دیگر مفادات کے لیے میدان میں اترے تھے۔

ہم خیال گروپ ایسا شڑپ ہوا کہ کیا کہوں۔ہم خیال کے امیدوار نے کلمہ پڑھ کر کہا بیٹھوں گا نہیں وہ بیٹھاواقعی نہیں لیٹ گیاہے۔مقامی سیاسی چیلوں کو نہ تو کسی پارٹی سے سروکار ہے اور نہ ہی کسی شخصیت سے۔ان کا مقصد ٹھیکوں اور سکیموں کے زریعےمال بٹورناہے۔عام ووٹر ابھی بھی کسم پرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔کچھ بڑے مقامی سیاسی چیلے پہلے نوجوانوں کو نشے پہ لگواتے ہیں پھر ان سے چوریاں کرواتے ہیں۔مال خود کھاجاتے اور چوروں کو یاتو بچا دیتے یا بھگا دیتے۔ان نقب زن گروہوں میں کچھ مقامی سیاستدانوں اور آستانہ نشینوں کے بچے بھی شامل ہیں۔پورے کشمیر کا کوئ پرسان حال نہیں ہے۔اگر ہم سیاسی پارٹیوں سے پیوستہ رہ کر بہتری یا اپوزیشن کی امید لگائے رکھیں گے تو یہ عبس ہے۔سیاسی پارٹیاں اور افراد اپوزیشن نہیں اپنی پوزیشن کے بارے فکر مند رہتے۔اب یہ ذمہ داری کشمیر کے پڑھے لکھے،باشعور اور غیورنوجوانوں کے کندھوں پر ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے اپوزیشن کا کردار ادا کریں۔اس الیکشن میں اکثر اعلی تعلیم یافتہ  نے اپنی ڈگریاں،قابلیت،اہلیت،جدوجہد، نظریہ سب کچھ پرائمری پاس کے چرنوں میں ڈال کر بھی خوار ہو رہے۔ یہ پڑھے لکھے نوجوانوں کے لیے نصیحت ہے کہ وہ سیاسی بتی کے پیچھے لگنے کےبجائے اپنی تعلیم،قابلیت،اہلیت اورمیرٹ پر یقین رکھیں۔اپنی خوداری،عزت نفس اور وقار کسی صورت مجروح نہ ہونے دیں۔جو اسمبلی ایم ایل اے کے لیے پرائمری اور چپڑاسی کے لیے میٹرک پاس ضروری قرار دے وہاں کیا امید کی جاسکتی ہے۔درد دل رکھنے والے احباب کشمیر متحدہ اپوزیشن محاذ بنا کر اپنے حقوق کی جدوجہد کا آغاز کریں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58313

آزادکشمیر کے آفت زدہ متاثرین کی حالت زار -پروفیسر عبدالشکورشاہ

مالک کے آگے اور گھوڑے کے پیچھے سے گزرنے میں انسان بہت کم فائدے میں رہتا ہے۔ مالک کام  اور گھوڑا لات لگائے بغیر نہیں رہتا۔ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ ہم جیت کر بھی ہار گئے ہیں۔ ہم نہ تو جیتنے والے کے پاس جاسکتے اور نہ ہی ہارنے والے کے پاس۔ جیتنے والا کہتا میری حکومت نہیں میں کیا کروں؟ہارنے والا کہتا میں جیتا ہی نہیں میں کیا کروں؟ دراصل دونوں جیتے ہوئے ہیں ہاری صرف عوام ہے۔ نیچے والا حلقہ شاہ جی بیچ کر اوپر سے جیت گئے اور اوپر والا حلقہ میاں جی بیچ کر نیچے سے جیت گئے۔ سیاسی احترام بھی نرالا ہے جہاں بزرگوں کی تکریم کے بجائے بزرگوں کو ہرانے کے لیے شیر اور تیر اکھٹے ہو جاتے ہیں۔دونوں سے کوئی امید بھی نہیں لگائی جا سکتی کیوں کے دونوں انسانوں کوجان سے مارنے کے لیے مشہور ہیں۔شاہ جی نے ایسی سیاست متعارف کروائی ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔

ہر قوم و قبیلے سے رشتہ داری اور خاندانی وابستگی کی ڈرامہ بازی، ہر فرد کا نمبر محفوظ کرنے کی شعبدہ بازی،ہر جعلی سکیم میں حصہ، ہر بھرتی پر جیب گرم، ہر دوسرے فردسے کاروباری شراکت داری،ہر سڑک میں جعل سازی، ہر پل میں بے ضابطگی، اقربا پروری، رشوت خوانی، جعلی سازی اور میرٹ کا استحصال قابل ذکر ہیں۔جڑی بوٹی کی سمگلنگ، جنگلات کا قتل عام،ٹھیکہ سسٹم کی بھر مار اورواچروں کی یلغار بھی لاثانی رہی۔جہاں سابقہ سپیکر نے ووٹ لینے کا ریکارڈ قائم کیا وہاں پر تاریخی مینڈیٹ کے باوجود ایک حلقے سے راہ فرار اختیار کرنے کا ریکارڈ بھی انہی کے سر سجتا ہے۔ اپنے دور میں محکموں کوآپس میں لڑوایا، تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ٹرخایا، ووٹروں کوبلایا اور اسمبلی گیٹ پر پٹوایا،سیاسی حریفوں کو تھانوں میں بلوایا، اپنے بنیادی حقوق کے لیے احتجاج کرنے والوں پر لاٹھی چارج کروایا اورآفات سماوی کا پیسہ جی بھر کرکھایا۔ عوام بھارتی گولہ باری سے مرتی رہی اور ایک بنکر تک نہ بنوایا۔ سارا پیسہ کہاں گیا؟اس کا جواب کون دے گا؟نیلم میں آفات سماوی کا پیسہ کون کھا گیا؟

احساس پروگرام کی رقم سرکاری ملازمین ہڑپ کر گئے اس کی نہ تو ریکوری ہوئی نہ کچھ خبر، فائرنگ سے شہید اور زخمی ہونے والوں کا معاوضہ کس نے ہڑپ کیا؟ لیسوا، بکوالی، سالخلہ اور دیگر آفت زدہ علاقوں کی امداد کدھرگئی؟ اس کا جواب تو یقینا مقتدرہ ہی دے سکتے ہیں۔ اپنے بچے عوام کے ٹیکسوں سے بنے محلات میں رکھے ہوئے اور ووٹروں کے بچے اس یخ بستہ سردی میں چھت کے بغیر رہ رہے،اس کا ذمہ دار کون ہے؟ شاہ جی اور میاں جی نے نہ صرف پوری منصوبہ بندی سے پی ٹی آئی کو ہرایا بلکہ اپنا پنج سالہ بھی بھر پور انداز سے لگایا ہے۔ دونوں عوام کو یہ کہتے کہتے پانچھ سال پیسے بنائیں گے کہ وہ حکومت میں نہیں ہیں حالانکہ ایم ایل اے فنڈ سے بہت سارے کام کروائے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ دونوں متذکرین کون سے غریب غرباء میں سے ہیں اگر انہیں واقعی نیلم کی فکر ہوتو اپنے ذاتی اکاونٹ سے کسی بھی وزیر سے زیادہ کام کروا سکتے ہیں۔

محترم میاں صاحب تو موروثی سیاست کی بدترین مثال ہیں اور شاہ جی کی پارٹی بھی موروثیت کے گرد گھومتی ہے۔ جب پارٹی ہی موروثیت پر چلے پھر کسی تبدیلی کی امید عبس ہے۔ اب تو لفظ تبدیلی سن کر بھی ڈر لگتا ہے کیونکہ تبدیلی کے نام پر جتنی تباہی مہنگائی خان لا چکا ہے اس کے بعد شاید لوگ اپنے بچوں کا نام عمران خا ن رکھتے ہوئے بھی ڈرجائیں۔ لیسوا، بکوالی، سالخلہ اور دیگر آفت زدہ علاقوں کے متاثرین کے سردی سے ٹھٹھرتے، بھوکے سے بلکتے، پاس سے تڑپتے بچے، خالی پیٹ سونے والی مائیں، بازار سے خالی ہاتھ واپس آتاسفید داڑھی والا ضعیف، کمزور، لاغر اور جھکی ہوئی کمر والا غمزدہ، بے بس، بے سہارا اور ناامید باپ بچوں کے ساتھ آنکھیں نہیں ملاپاتا۔ پھٹا ہو ٹینٹ جسے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے دن میں کئی بار اکھاڑ دیتے ہیں، وہ گھرانے جو بھوک، پیاس اور سردی کی وجہ سے سو نہیں پاتے۔ عوام کے ٹیکسوں کے محلات میں سونے والے ایم ایل ایز کیا جانیں ان غریب، بے بس، بے سہارا، بے گھر اور بے سروسامان افراد کورات کو بھو ک نہیں سونے دیتی اگر آنکھ لگ ہی جائے تو یخ بستہ سرد ہوا کی سائیں سائیں کی آواز انہیں جاگنے پر مجبور کر دیتی ہے۔بارش کا ہر قطرہ انہیں طوفاں دکھائی دیتا، برف کا ہر گال انہیں گلیشئر کا پہاڑ دکھائی دیتا، بجلی کی گرج ان کے وسان خطا کر دیتی کیونکہ یہ بے سروسامان، کھلے آسمان کے نیچے پھٹے ہوئے خیمے لگائے افراد کی ستم ظریفی اور بدحالی کی داستان بارش، برف اور بجلی کی کڑک سے جڑی ہوئی ہے۔

ہم صدر، وزیر اعظم، سپیکر اور وزراء پر غریبوں کے ٹیکسوں سے اربوں خرچ کر تے مگر غریب، محتاج بے گھر اور بے سہارا افرادجن کے ووٹوں اور ٹیکسوں سے ان وزیروں مشیروں کے خاندان عیش و عشرت کی زندگی گزارتے ان کے لیے دو وقت کی روٹی اور سر چھپانے کو چھت بھی مہیا کرنے کی توفیق نہیں ہوتی۔ اگر ہم صدر، وزیر اعظم اور سپیکر کے اخراجات کا تیسرا حصہ بھی مختص کرتے تو یہ سب خاندان اس وقت دوبارہ آباد ہو چکے ہوتے۔ آفات سماوی سے بڑھ کر بڑی آفت یہ سیاسی لوگ ہیں جن کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ یہ اللہ کی طرف سے انسانوں کی شکل میں ہم پر عذاب اور سزاء کے طور پر نازل کیے گئے ہیں۔حاجی، مفتی، میاں اور شاہ جی اپنے بچوں کوبکوالی، لیسوا، سالخلا اور دیگر متاثرہ علاقوں کے متاثرین خاندانوں کے ساتھ رکھیں تو ان کو پتہ چلے غریب کس حال میں رہتا ہے۔ یہ ووٹ کے لیے ہمارے بچوں کو گود میں اٹھا لیتے، ان کے ساتھ سیلفیاں بناتے، ان کو پیار کرتے حتی کے غریب کے بچے کی بہتی ناک بھی مسکرا کر صاف کرتے مگر جیتنے کے بعد یہ بچے ان کی راہ دیکھتے دیکھتے تھک جاتے۔

محلات میں رہنے والے کبھی غریب یا اس کے مسائل کو نہیں سمجھ سکتے۔ سابقہ اور موجودہ ایم ایل ایز اپنے خاندان کو ان متاثرین کے خیموں میں منتقل کرتے شرماتے اور ہچکچاتے ہیں تو ووٹ مانگتے شرم کیوں نہیں آتی؟ ستم ظریفی دیکھیں سابقہ اور موجودہ ایم ایل ایز اگر چاہیں تو ان تمام متاثرین کو اپنے بنگلوں میں رہائش فراہم کر سکتے ہیں۔ ان کے محلات ان کے پیٹوں اور حرص کی طرح بہت وسیع ہیں جو بھرنے کا نام نہیں لیتے۔ اس میں کیا قباحت ہے کل متاثرہ خاندانوں کو سابقہ اور موجودہ ایم ایل ایز اور ٹکٹ ہولڈر رہائش فراہم کریں مگر ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔ تسبیح پکڑ کر الیکشن مہم چلانے والوں کویہ خیمہ زن نظر نہیں آتے؟ جیتنے پر سجدے میں گرنے کا ناٹک کرنے والواں کو بھوک افلاس سے بلکتے اور سردی سے ٹھٹھرتے بچے نظر نہیں آتے؟جیتنے کے لیے مزاروں پر چادریں چڑھانے، آتش بازی کرنے، محفل رقص و سرور سجانے، مٹھائیاں تقسیم کرنے والوں کو ان متاثرین کی ننگے سر مائیں بیٹیاں اور بھوکے ننگے بچے نظر نہیں آتے؟ یہ بے حس، بے مروت،بے شرم اور بے ضمیر لوگوں کو کب احساس ندامت ہو گا؟ اللہ نے ان متاثرین سے ز مین بھی چھین لی ورنہ ان مصائب کا سامنا کرنے کے بجائے یہ شائد زمین میں ہی گھڑ جاتے۔

موجودہ دونوں ایم ایل ایز کواگر اب بھی نیلم کے ان بے بس متاثرین کا احساس نہیں ہوتا تو پھر کبھی نہیں ہو گا۔ نیلم میں فاتحہ خوانی کی سیاست کافی مقبول ہے۔ شائد شاہ جی اور میاں جی ان متاثرین کو اس لیے نہ معاوضہ دلوا رہے نہ ان کے لیے مناسب رہائش اور جگہ کا انتظام کر رہے کیونکہ اگر یہ زندہ رہ گئے تو الیکشن سے پہلے کسی کی فاتحہ خوانی کے بہانے الیکشن کمپین کیسے چلائیں گے؟حاجی، میاں، مفتی اور شاہ جی یہ بات آپ بخوبی جانتے ہیں اقتدار کے دن بہت جلد گزر جاتے۔ اس عوام نے آپ کو عزت دی، رفعتیں دیں، اعتماد کیا، ووٹ دیا اور اسمبلیوں تک اس لیے نہیں پہنچایا ہے کہ غریب، مفلس، نادار اور بے سہارا افراد اس یخ بستہ سردی میں بھوکے پیٹ، ننگے بدن آپ کی راہ تکتے تکتے اپنی بینائی اورگوئیائی سے بھی محروم ہوجائیں۔متاثرین کی آہ اور بدعا سے بچیں،تاریخ گواہ ہے شہنشاہ، شہزادے اور شہزادیاں روکھی روٹی کھاتے اور فٹ پاتھوں پر سوتے دیکھے گئے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54699

آزادکشمیر میں پی ٹی آئی کی حکومت سازی اور مستقبل – پروفیسرعبدالشکورشاہ

سیاسی جوڑ توڑ اور اتحادپارٹی سیاست کا حصہ ہے۔ پاکستان، گلگت بلتستان اور آزادکشمیر میں سیاسی اتحادکا عروج و زوال سیاسی مقاصد کے حصول تک محدود ہے۔ متحدہ اپوزیشن پارٹیز (سی او پی (1964ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی (ڈی اے سی 1968، پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے)1977، تحریک برائے بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی)1983،اتحاد برائے بحالی جمہوریت (اے آر ڈی)2002 اور موجودہ پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ (پی ڈی ایم) پاکستان میں اقتدار کے لیے سیاسی اتحاد کے عروج و زوال کی زندہ مثالیں ہیں۔ بڑی سیاسی جماعتیں اقتدارکے حصول کے لیے روائیتی اقتدار کی سیاست کی طرف گامزن ہو جاتی ہیں۔اگرچہ پی ڈی ایم میں شامل اکثر جماعتیں اقتدار کا حصہ ہونے کی وجہ سے یہ اتحاد کچھ مختلف ضرور تھا مگر اقتدار میں شامل پارٹیاں استعفی دے کر خالص اپوزیشن کرنے کے لیے تیار نہ تھی اور نہ ہیں۔دراصل یہ اتحاد اقتدار میں اپنے حصے کی وسعت کے لیے تشکیل دیا گیا ہے جو ماضی کی طرح مفادات کی نظر ہوتا جا رہا ہے۔

پیپلز پارٹی مفاہمتی سیاست کے نظریہ کے تحت مخلوط طرز کی پی ڈی ایم سے علیحدگی اختیار کر چکی ہے اور دیگر پارٹیوں کا جوش و خروش بھی ماند پڑھ چکا ہے۔پاکستان میں چند ہی مثالیں ملتی ہیں جہاں احتجاج اور مظاہروں کے زریعے حکومت کو رخصت کیا گیا ہو۔اگرچہ پی ڈی ایم نے دو روائیتی حریفوں ن لیگ اور پی پی کو مختصر عرصے کے لیے اکھٹا کر لیا مگر یہ اتحاد زیادہ دیر نہ چل سکا۔ پی ڈی ایم نے اپنی بقاء کے علاوہ کوئی کارہائے نمایاں سرانجام نہیں دیا۔ پی ٹی آئی حکومت کو سب سے بڑا خطرہ مہنگائی کے طوفان سے ہے جو آئے روز شدت اختیار کر تا جا رہا ہے۔پی ڈی ایم میں اختلافات کی وجہ سے گلگت بلتستان کے بعدآزادکشمیرانتخابات میں پی ڈی ایم طرز کی کشمیر ڈیموکریٹک مومنٹ(کے ڈی ایم) بنانے میں ناکام رہی۔اگر پی ڈی ایم متحد رہتی تو کشمیر میں ن لیگ، پی پی اور ایم سی مل کر پی ٹی آئی کا پتہ صاف کر سکتی تھی مگر ایسا ہوا نہیں۔

ن لیگ گلگت بلتستان کی طرح کشمیر میں بھی برسراقتدار تھی مگر پی ٹی آئی نے اس کا صفایا کر تے ہوئے محض چار سیٹوں تک محدود کر دیا ہے۔ن لیگ کی طرف سے حکومت مخالف تحریک چلانا خوش فہمی سے زیادہ کچھ نہیں۔پیپلز پارٹی پاکستان میں پی ٹی آئی کے ساتھ خفیہ اتحاد کی بدولت گیارہ سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔یہ آزادکشمیر الیکشن سے پہلے ہی عیاں تھا کیونکہ پی ٹی آئی کی ساری بیٹنگ ن لیگ کے خلاف تھی۔ یہ بات بھی خارج از امکان نہیں ہے کہ ن لیگ کے اسٹیبلشمنٹ مخالف نظریہ کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو ڈیل کے بدلے ڈھیل ملی ہواور دوسال بعد اسلام آباد میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی پی ٹی آئی میں فاروڈ بلاک بنا کر آزادکشمیر کی حکومت پیپلز پارٹی کے حوالے کر دی جائے۔ ایم سی کے پاس کھونے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے پانچھ سال ایک سیٹ پر ہی گزارہ کرنا ہو گا۔ پی ٹی آئی آزادکشمیر کو فی لوقت کسی بڑے خطرے کا سامنا تو نہیں ہے تاہم محبت، جنگ اور سیاست میں کب کیا ہو جائے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ قابل افسوس پہلو یہ ہے کہ کسی بڑی سیاسی پارٹی نے کشمیر ایشوپر الیکشن لڑنا تو درکنار کشمیر کو بطور سیاسی نعرے کے بھی استعمال نہیں کیا۔

اگر پی ٹی آئی کشمیر ایشو سے متعلق کوئی غلطی نہیں کرتی تو کم از کم مرکز میں اقتدار کی تبدیلی تک پی ٹی آئی کو کوئی خطرہ درپیش نہیں ہے۔ ن لیگ اور پی پی نے کشمیر کو پاکستان میں ضم کرنے کے پروپگنڈے پر جو سیاست کی ہے اب وہ اس انتظار میں ہیں کہ پی ٹی آئی کشمیر کے حوالے سے کوئی ایسی غلطی کرے تاکہ انہیں کشمیر کی سالمیت اور شناخت کی ڈھال مل جائے۔ آزادکشمیر الیکشن نے انتخابات کے ناقص نظام کی بھی کلی کھول دی ہے۔ ابھی تک ہم کوئی ایسا انتخابی نظام لانے میں کامیاب نہیں ہوئے جس کے نتائج سب پارٹیوں کے لیے قابل قبول ہوں۔ ہارنے والی پارٹی ہمیشہ کی طرح دھاندلی کے الزامات کا سہار ا لیتی ہے۔ البتہ پیپلز پارٹی خوش ہے16سیٹوں کے وعدے پر11ملی۔الیکشن کمیشن ضابطہ اخلاق کو لاگو کروانے میں پوری طرح ناکام رہا۔ بعض حلقوں میں پارٹیوں نے اپنے عہدیداروں کے بیٹوں کو ضلعی الیکشن آفیسر تعینات کر وا رکھا تھا۔ رشوت، تشدد، بلیک میلنگ، سیاسی پیش کش، دھکمیاں، برادری ازم، نسل پرستی اور سیاسی ایڈجسٹمنٹ وغیرہ نے اہم کردار ادا کیا۔

بلاول بھٹو اورمریم نواز کی محنت گلگت بلتستان کی طرح رائیگاں گئی۔اب پی ٹی آئی کا مستقبل مرکز میں حکومت کی تبدیلی سے وابستہ ہے۔ مرکز میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی آزادکشمیر میں سیاسی تبدیلی آجانی ہے۔ پی ٹی آئی آزادکشمیر کو فی الوقت ایک بڑا چیلنج وزارتوں کے دانشمندانہ تقسیم کا ہے تاکہ مرکز میں حکومت کی تبدیلی کے باوجود بھی پی ٹی آئی اپنا وجود قائم رکھ سکے۔ پی ٹی آئی کو یہ بات بھی ملحوظ خاطر رکھنی ہو گی کہ برادری کی بنیاد پر دیئے گئے ٹکٹ ان کے لیے مشکل کھڑی کر سکتے ہیں۔برادری اور سفارش کی بنیاد پر دیئے گئے ٹکٹس ہی پی ٹی آئی میں فاروڈ بلاک کی داغ بیل ڈالیں گے۔پی ٹی آئی آزادکشمیر قیادت کو مسٹر خان کی طرف سے ملنے والی تھپکی آزادکشمیر میں حکومت کے تسلسل کے لیے ناکافی ہے۔

آزادکشمیر الیکشن مسلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کا ایک بڑا زریعے بن سکتا تھا مگر تما م پارٹیوں نے کشمیر ایشو کوسیاست کا محور و مرکز بنانے کے بجائے برانڈیڈ سیاست کا سہارا لیتے ہوئے مسلہ کشمیر کو پس پشت ڈال دیا۔تما م سیاسی پارٹیوں کو الیکشن اصلاحات کی طرف توجہ دیتے ہوئے الزام در الزام کی سیاست کو دفن کرنا چاہیے۔مگر نظام اور اصلاحات کی طرف یہ کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے کیونکہ انہیں یقین ہے جلد یا بدیر یہ بوسیدہ نظام ہی ان کے لیے کوئی راہ نکال لے گا۔ روائیتی حریف پی پی اور ن لیگ کی جانب سے پی ٹی آئی کو اپنے خلاف کسی متحدہ اپوزیشن کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔پی پی پاکستان کی طرح کشمیر میں بھی ن لیگ کو اپوزیشن کے اہم عہدوں سے نکال باہر کر نے میں کامیاب ہو جائے گی۔ یوں لگتا ہے پی ٹی آئی، پی پی اور اسٹیبلشمنٹ تینوں نے مل کر ن لیگ کی بیساکھیاں توڑنے کاتہیہ کر رکھا ہے۔ماضی میں بھی آزادکشمیر میں مفادات کی سیاست کی گئی ہے کسی بھی اپوزیشن پارٹی نے حقیقی معانی میں اپوزیشن کا کردار ادا نہیں کیا ہے۔

پی ٹی آئی کے خلاف ن لیگ اور پی پی کے لیے مرکز میں تبدیلی سے پہلے صرف ایک موقعہ ہے کہ یہ وزات عظمی کے عہدے کی تفویض پر پی آئی میں فاروڈ بلاک بنا کرحکومت سازی کی کوشش کریں۔ مگر یہ دونوں کے لیے فائدے مند نہیں رہے گا کیونکہ تمام اہم وزارتیں اور عہدے تو فاروڈ بلاک اور دو سیٹوں والے اتحادی لے اڑیں گے اور ان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا اور یہ اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ اگر ن لیگ اور پی پی پی ڈی ایم میں ایک ساتھ ہوتی تو اس وقت آزادکشمیر میں صورتحال بلکل مختلف ہوتی۔حکومت سازی کے مکمل ہونے تک کا عرصہ پی ٹی آئی کے لیے کافی آزمائش طلب ہے خاص کر ان حلقوں میں صوابعدیدی عہدوں کے زریعے وزارتیں دینی اشدضروری ہیں جہاں سے ن لیگ اور پی پی نے میدان مار ا ہے۔ اس سے پی ٹی آئی کی نہ صرف گرفت مضبوط ہو گی بلکہ اپوزیشن کے لیے حکومت مخالف عوامی مہم چلانے میں معاون ثابت ہو گی۔ پی ٹی آئی کے آزادکشمیر میں مستقبل کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ وہ دو سال کے قلیل عرصے میں مرکز سے کتنے زیادہ فنڈز حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔ اگر پی ٹی آئی نے دوسال کے اندر مرکز سے خاطر خواہ فنڈز حاصل کرنے کے ساان کے شفاف استعمال کو یقینی بنایا تو شائد مرکز میں حکومت کی تبدیلی آزادکشمیر میں کسی بڑی سیاسی تبدیلی کا باعث نہ بن سکے۔ 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
51051