Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

آزادکشمیر کے آفت زدہ متاثرین کی حالت زار -پروفیسر عبدالشکورشاہ

شیئر کریں:

مالک کے آگے اور گھوڑے کے پیچھے سے گزرنے میں انسان بہت کم فائدے میں رہتا ہے۔ مالک کام  اور گھوڑا لات لگائے بغیر نہیں رہتا۔ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ ہم جیت کر بھی ہار گئے ہیں۔ ہم نہ تو جیتنے والے کے پاس جاسکتے اور نہ ہی ہارنے والے کے پاس۔ جیتنے والا کہتا میری حکومت نہیں میں کیا کروں؟ہارنے والا کہتا میں جیتا ہی نہیں میں کیا کروں؟ دراصل دونوں جیتے ہوئے ہیں ہاری صرف عوام ہے۔ نیچے والا حلقہ شاہ جی بیچ کر اوپر سے جیت گئے اور اوپر والا حلقہ میاں جی بیچ کر نیچے سے جیت گئے۔ سیاسی احترام بھی نرالا ہے جہاں بزرگوں کی تکریم کے بجائے بزرگوں کو ہرانے کے لیے شیر اور تیر اکھٹے ہو جاتے ہیں۔دونوں سے کوئی امید بھی نہیں لگائی جا سکتی کیوں کے دونوں انسانوں کوجان سے مارنے کے لیے مشہور ہیں۔شاہ جی نے ایسی سیاست متعارف کروائی ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔

ہر قوم و قبیلے سے رشتہ داری اور خاندانی وابستگی کی ڈرامہ بازی، ہر فرد کا نمبر محفوظ کرنے کی شعبدہ بازی،ہر جعلی سکیم میں حصہ، ہر بھرتی پر جیب گرم، ہر دوسرے فردسے کاروباری شراکت داری،ہر سڑک میں جعل سازی، ہر پل میں بے ضابطگی، اقربا پروری، رشوت خوانی، جعلی سازی اور میرٹ کا استحصال قابل ذکر ہیں۔جڑی بوٹی کی سمگلنگ، جنگلات کا قتل عام،ٹھیکہ سسٹم کی بھر مار اورواچروں کی یلغار بھی لاثانی رہی۔جہاں سابقہ سپیکر نے ووٹ لینے کا ریکارڈ قائم کیا وہاں پر تاریخی مینڈیٹ کے باوجود ایک حلقے سے راہ فرار اختیار کرنے کا ریکارڈ بھی انہی کے سر سجتا ہے۔ اپنے دور میں محکموں کوآپس میں لڑوایا، تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ٹرخایا، ووٹروں کوبلایا اور اسمبلی گیٹ پر پٹوایا،سیاسی حریفوں کو تھانوں میں بلوایا، اپنے بنیادی حقوق کے لیے احتجاج کرنے والوں پر لاٹھی چارج کروایا اورآفات سماوی کا پیسہ جی بھر کرکھایا۔ عوام بھارتی گولہ باری سے مرتی رہی اور ایک بنکر تک نہ بنوایا۔ سارا پیسہ کہاں گیا؟اس کا جواب کون دے گا؟نیلم میں آفات سماوی کا پیسہ کون کھا گیا؟

احساس پروگرام کی رقم سرکاری ملازمین ہڑپ کر گئے اس کی نہ تو ریکوری ہوئی نہ کچھ خبر، فائرنگ سے شہید اور زخمی ہونے والوں کا معاوضہ کس نے ہڑپ کیا؟ لیسوا، بکوالی، سالخلہ اور دیگر آفت زدہ علاقوں کی امداد کدھرگئی؟ اس کا جواب تو یقینا مقتدرہ ہی دے سکتے ہیں۔ اپنے بچے عوام کے ٹیکسوں سے بنے محلات میں رکھے ہوئے اور ووٹروں کے بچے اس یخ بستہ سردی میں چھت کے بغیر رہ رہے،اس کا ذمہ دار کون ہے؟ شاہ جی اور میاں جی نے نہ صرف پوری منصوبہ بندی سے پی ٹی آئی کو ہرایا بلکہ اپنا پنج سالہ بھی بھر پور انداز سے لگایا ہے۔ دونوں عوام کو یہ کہتے کہتے پانچھ سال پیسے بنائیں گے کہ وہ حکومت میں نہیں ہیں حالانکہ ایم ایل اے فنڈ سے بہت سارے کام کروائے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ دونوں متذکرین کون سے غریب غرباء میں سے ہیں اگر انہیں واقعی نیلم کی فکر ہوتو اپنے ذاتی اکاونٹ سے کسی بھی وزیر سے زیادہ کام کروا سکتے ہیں۔

محترم میاں صاحب تو موروثی سیاست کی بدترین مثال ہیں اور شاہ جی کی پارٹی بھی موروثیت کے گرد گھومتی ہے۔ جب پارٹی ہی موروثیت پر چلے پھر کسی تبدیلی کی امید عبس ہے۔ اب تو لفظ تبدیلی سن کر بھی ڈر لگتا ہے کیونکہ تبدیلی کے نام پر جتنی تباہی مہنگائی خان لا چکا ہے اس کے بعد شاید لوگ اپنے بچوں کا نام عمران خا ن رکھتے ہوئے بھی ڈرجائیں۔ لیسوا، بکوالی، سالخلہ اور دیگر آفت زدہ علاقوں کے متاثرین کے سردی سے ٹھٹھرتے، بھوکے سے بلکتے، پاس سے تڑپتے بچے، خالی پیٹ سونے والی مائیں، بازار سے خالی ہاتھ واپس آتاسفید داڑھی والا ضعیف، کمزور، لاغر اور جھکی ہوئی کمر والا غمزدہ، بے بس، بے سہارا اور ناامید باپ بچوں کے ساتھ آنکھیں نہیں ملاپاتا۔ پھٹا ہو ٹینٹ جسے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے دن میں کئی بار اکھاڑ دیتے ہیں، وہ گھرانے جو بھوک، پیاس اور سردی کی وجہ سے سو نہیں پاتے۔ عوام کے ٹیکسوں کے محلات میں سونے والے ایم ایل ایز کیا جانیں ان غریب، بے بس، بے سہارا، بے گھر اور بے سروسامان افراد کورات کو بھو ک نہیں سونے دیتی اگر آنکھ لگ ہی جائے تو یخ بستہ سرد ہوا کی سائیں سائیں کی آواز انہیں جاگنے پر مجبور کر دیتی ہے۔بارش کا ہر قطرہ انہیں طوفاں دکھائی دیتا، برف کا ہر گال انہیں گلیشئر کا پہاڑ دکھائی دیتا، بجلی کی گرج ان کے وسان خطا کر دیتی کیونکہ یہ بے سروسامان، کھلے آسمان کے نیچے پھٹے ہوئے خیمے لگائے افراد کی ستم ظریفی اور بدحالی کی داستان بارش، برف اور بجلی کی کڑک سے جڑی ہوئی ہے۔

ہم صدر، وزیر اعظم، سپیکر اور وزراء پر غریبوں کے ٹیکسوں سے اربوں خرچ کر تے مگر غریب، محتاج بے گھر اور بے سہارا افرادجن کے ووٹوں اور ٹیکسوں سے ان وزیروں مشیروں کے خاندان عیش و عشرت کی زندگی گزارتے ان کے لیے دو وقت کی روٹی اور سر چھپانے کو چھت بھی مہیا کرنے کی توفیق نہیں ہوتی۔ اگر ہم صدر، وزیر اعظم اور سپیکر کے اخراجات کا تیسرا حصہ بھی مختص کرتے تو یہ سب خاندان اس وقت دوبارہ آباد ہو چکے ہوتے۔ آفات سماوی سے بڑھ کر بڑی آفت یہ سیاسی لوگ ہیں جن کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ یہ اللہ کی طرف سے انسانوں کی شکل میں ہم پر عذاب اور سزاء کے طور پر نازل کیے گئے ہیں۔حاجی، مفتی، میاں اور شاہ جی اپنے بچوں کوبکوالی، لیسوا، سالخلا اور دیگر متاثرہ علاقوں کے متاثرین خاندانوں کے ساتھ رکھیں تو ان کو پتہ چلے غریب کس حال میں رہتا ہے۔ یہ ووٹ کے لیے ہمارے بچوں کو گود میں اٹھا لیتے، ان کے ساتھ سیلفیاں بناتے، ان کو پیار کرتے حتی کے غریب کے بچے کی بہتی ناک بھی مسکرا کر صاف کرتے مگر جیتنے کے بعد یہ بچے ان کی راہ دیکھتے دیکھتے تھک جاتے۔

محلات میں رہنے والے کبھی غریب یا اس کے مسائل کو نہیں سمجھ سکتے۔ سابقہ اور موجودہ ایم ایل ایز اپنے خاندان کو ان متاثرین کے خیموں میں منتقل کرتے شرماتے اور ہچکچاتے ہیں تو ووٹ مانگتے شرم کیوں نہیں آتی؟ ستم ظریفی دیکھیں سابقہ اور موجودہ ایم ایل ایز اگر چاہیں تو ان تمام متاثرین کو اپنے بنگلوں میں رہائش فراہم کر سکتے ہیں۔ ان کے محلات ان کے پیٹوں اور حرص کی طرح بہت وسیع ہیں جو بھرنے کا نام نہیں لیتے۔ اس میں کیا قباحت ہے کل متاثرہ خاندانوں کو سابقہ اور موجودہ ایم ایل ایز اور ٹکٹ ہولڈر رہائش فراہم کریں مگر ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔ تسبیح پکڑ کر الیکشن مہم چلانے والوں کویہ خیمہ زن نظر نہیں آتے؟ جیتنے پر سجدے میں گرنے کا ناٹک کرنے والواں کو بھوک افلاس سے بلکتے اور سردی سے ٹھٹھرتے بچے نظر نہیں آتے؟جیتنے کے لیے مزاروں پر چادریں چڑھانے، آتش بازی کرنے، محفل رقص و سرور سجانے، مٹھائیاں تقسیم کرنے والوں کو ان متاثرین کی ننگے سر مائیں بیٹیاں اور بھوکے ننگے بچے نظر نہیں آتے؟ یہ بے حس، بے مروت،بے شرم اور بے ضمیر لوگوں کو کب احساس ندامت ہو گا؟ اللہ نے ان متاثرین سے ز مین بھی چھین لی ورنہ ان مصائب کا سامنا کرنے کے بجائے یہ شائد زمین میں ہی گھڑ جاتے۔

موجودہ دونوں ایم ایل ایز کواگر اب بھی نیلم کے ان بے بس متاثرین کا احساس نہیں ہوتا تو پھر کبھی نہیں ہو گا۔ نیلم میں فاتحہ خوانی کی سیاست کافی مقبول ہے۔ شائد شاہ جی اور میاں جی ان متاثرین کو اس لیے نہ معاوضہ دلوا رہے نہ ان کے لیے مناسب رہائش اور جگہ کا انتظام کر رہے کیونکہ اگر یہ زندہ رہ گئے تو الیکشن سے پہلے کسی کی فاتحہ خوانی کے بہانے الیکشن کمپین کیسے چلائیں گے؟حاجی، میاں، مفتی اور شاہ جی یہ بات آپ بخوبی جانتے ہیں اقتدار کے دن بہت جلد گزر جاتے۔ اس عوام نے آپ کو عزت دی، رفعتیں دیں، اعتماد کیا، ووٹ دیا اور اسمبلیوں تک اس لیے نہیں پہنچایا ہے کہ غریب، مفلس، نادار اور بے سہارا افراد اس یخ بستہ سردی میں بھوکے پیٹ، ننگے بدن آپ کی راہ تکتے تکتے اپنی بینائی اورگوئیائی سے بھی محروم ہوجائیں۔متاثرین کی آہ اور بدعا سے بچیں،تاریخ گواہ ہے شہنشاہ، شہزادے اور شہزادیاں روکھی روٹی کھاتے اور فٹ پاتھوں پر سوتے دیکھے گئے ہیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54699