Chitral Times

مختصر سی جھلک – تعلیم سے ہوچکی ہے تربیت جدا – فریدہ سلطانہ فّریّ

مختصر سی جھلک – تعلیم سے ہوچکی ہے تربیت جدا – فریدہ سلطانہ فّریّ

انسانی معاشرے کی بقا کا درومدار اس معاشرےکےاصول قواعد وضوابط  اوران پرعمل درامد پرہے اگرہم غورو فکرکریں تونظآم قدرت کی ہرشے  ازل سے اب تک اپنے مقررہ وقت کےحساب سے قدرت کی فرمنبرداری میں کوشاں ہے اوراگردیکھآ جائےتورب کاِینات کے سارے ہی نظآرے انسان کے لیے اشارے اورعبرت کا منظر پیش کرتے ہیں مگرصرف سوچنے اورغورو فکر کرنے والوں کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب بات سوچ سمجھ اور غوروفکر کی کرتے ہیں توفورا ہی یہ بات زہن میں اتی ہے کہ اللہ پاک نے تمام مخلوقات میں انسانوں کو اسی لیے ہی تو افضل رکھآ ہے کہ اسے اللہ پاک نے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اورعقل و شعور سے نوازا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں انسان کے لیے ہزاروں وسیلے بھی پیدا کیے ہیں کہ ان وسیلوں کو استعمال کرتے ہوئے انسان اپنےعقل و شعورکومزید قوت بخشے اور اپنے ساتھ ساتھ اپنے گردوپیش میں رہنے والوں کے لیے بھی زندگی کو سہل بنائے ۔۔۔۔۔۔

ان بہت سارے وسیلوں میں سے ایک بہت ہی اہم اورمستحکم وسیلہ جو انسانی عقل و شعورکو مظبوط و مستحکم کرنے کے لئے ریڑھ کے ہڈی کی حیثیت رکھتا ہےوہ تعلیم یا علم ہے جو انسان کومعتبر کرکےاسمان کی بلندیوں تک پہنچادیتا ہے۔۔۔۔۔۔

مگر اہم بات یہ ہے کہ تعلیم یا علم اس وقت سود مند ہوگی اورعقل وشعورکو قوت بخشنے کے قابل ہوگی۔ جب تعلیم کے ساتھ تربیت اورعلم کے ساتھ عمل پر بھی زور دیا جاَئے ورنہ تعلیم سے تربیت اورعلم سے عمل کو نکال کر زندگی بغیراصول و قاعدوں کے گزاری جائے تو یہی حالات پیدا ہوں گیں جو اج کل ہمارے معاشرے میں ہو رہَی ہیں اور ایسے معاشرے میں بیٹے بیٹیاں کیا جانور بھی محفوظ نہیں رہ سکتے اورایسے ماحول میں انسان خود سے بھی محفوظ نہیں رہ سکتا ۔۔۔۔

یہ خود کشیوں کے واقعات،یہ بچے اور بچیوں کے ساتھ جنسی، تشدد یہ لوٹ مار، والدین کے ساتھ بدسلوگی ،رشتوں کا تقدس پامال ہونا ۔۔۔۔۔۔

یہی تو جنم لیں گیں ایسے معاشرے میں جہا٘ ٘ن کے لوگوں میں عقل وشعور کی کمی ہوں جہاں تعلیم سے تربیت اورعلم  سےعمل  کو نکال کر زندگی گزاری جاَئے پھر ۔۔۔۔

مینارپاکستان کا پارک کیا ایسے صورت حال میں کوئی گھرکی چاردیواری میں بھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔۔۔۔ کیونکہ حیوانوں کو کھلے میدان میں چھوڑ دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یا گھروں کےانگن میں ان سے کہی بھی کچھ بھی توقع کی جاسکتی ہے ۔۔۔۔   

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
51679

شہنشاہِ شہنائی اور چترالی راگوں کا معروف استاد اجدبر خان ۔شمس الحق قمرؔ چترال

میری ڈائری کے اوراق سے ۔ (شہنشاہِ شہنائی اور چترالی راگوں کا معروف استاد اجدبر خان) ۔ شمس الحق قمرؔ چترال

یہ 14 اگست 1984 کی بات ہے جب صبح 6 بجے بونی دول دینیان ٹیک سے کانوں میں رس کھولتی غلوارکی دھن سے پورا گاؤں گونج اُٹھا تھا ۔ اُس زمانے میں میری عمر یہی کوئی 16 سال تھی ( یاد رہے کہ ریاستی دور میں اسی ٹیلے کے اوپر صبح پو پھٹتے ہی شہنائیاں بجا کر سہ پہر کوکھیلے جانے والے پولو کا اعلان کیا جاتا تھا۔  یوں چوگان بازی کے تمام رسیا پولو شروع ہونے تک گھر ہستی کی تمام سرگرمیاں سمیٹ کر پولو دیکھنے کی تیاریاں مکمل کر چکے ہوتے تھے  )- آج  صبح کے  سرنائے کی آواز میں  بلا  کی شیرینی تھی۔ راگی نے اپنا راگ کب کا ختم کیا ہوا تھا لیکن میرے کانوں میں اب بھی سرنائے کی روح پرورمگر دھیمی آواز دیر تک محسوس ہوتی رہی ۔ میں نہیں جانتا کہ کیا یہی کیفیت دوسروں پر بھی طاری ہوئی تھی یا نہیں، مجھ پر اُس کا اثر اتنا دیر پا رہا  ہے کہ اب بھی اُس  لے کی مدہم لہریں دل  کے پردوں سے منعکس ہوتی محوس ہوتی ہیں ۔

 دنیائے موسیقی میں یہ میرا پہلا انوکھا  تجربہ تھا کہ میں ایک غیر مرئی کیفیت سے گزر رہا تھا جس کی تشریح  مجھ سےتا حال  ممکن نہیں رہی ۔ البتہ  میں اتنا ضرورسوچ سکتا تھا کہ سُرنائے پر غلوار کی دھن الاپنے والا اپنے منصب میں  واحد و یکتا ضرور  تھے۔ ایسی ہی ایک کہانی جب میں نے دنیائے موسیقی کی تاریخ میں تان سین کی پڑھی تو معلوم ہوا کہ اجدبرخان کتنے بڑے راگی تھےکہ جن کے  بجا ئے ہوئے ساز تمام موسیقی پرور لوگوں کے دلوں میں نقش ہیں ۔ تاریخ میں اسی طرز کا ایک اورشخص 1500 عیسوی میں گزرے ہیں  جن کے سازوں، گانوں اور راگوں  میں سوز کی شدت اتنی شدید تھی کہ جب دیپک راگ آلاپتے تو خاموش دیئے جلنے لگتے اور میگھ راگ بجاکر  یا  پھرگا کر بادلوں کی آنکھوں کو  پُر نم کیاکرتے۔ یہ ہے موسیقی کا کمال کہ جس کے سوز سے آگ کے دل میں آگ لگتی ہے اور جس کے ساز سے بے لگام بادل مُسخّر ہوجاتے ہیں ۔  اس سچائی تک پہنچنے کےلیے آج کی سائنس نے تجربات سے ثابت کیا ہے کہ موسیقی، راگ، دھن اور سازوں سے انسان کو اس حد تک محو کیا جا سکتا ہے کہ اُس کے جسم کو چیر پھاڑ کرجراحی کرنے سے بھی دُھنوں میں مست مریض کی آنکھوں سے  خمار نہیں اترتا ۔  

            یہی تان سین والا جادواجد برخان( 1918 تا 2003) کےسرنائے کی لَے میں تھا۔ میرے دوست شمس الدین کی تحقیق کے مطابق آپ کے آباؤ ادجداد دیر سے ہجرت کر کے چترال  آئے تھے ۔ ریاستی دور میں چترال فورٹ میں اپنے فن موسیقی سے پورے دربار کو محظوظ کئے رکھا ۔ آ پ  کی بجائی ہوئی دھنیں آج بھی پرستاروں کے ذہنوں میں تازہ ہیں اور رہیں گی۔ اُنہیں موسیقی کی سات بنیادی سُروں( سا، رے ، گا ، ما ، پا ، دھا، نی )کو دو پر تقسیم کر کے کھوار دُھنوں کےمخصوص اُتارچھڑہاؤ کےعین مطابق بنانےکا فن خوب آتا تھا۔

کھوارموسیقی کی بعض دُھنیں سات سے زیادہ سروں کی ترتیب سے بنتی ہیں جیسے اگر ہم سونوغروملنگ کا کلام   

؎

گمبوریان ایتودیتی شا شوترینین بند کورونیان اوا عشقو قلمدار روے مہ ساری شانگ کورونیان- یا یارخون و حاکم کی دھنی 

؎

مشکی نو لیم کھول وطانہ ای یاری جانی اوا سمر قندہ بندی تان دوستو گانی، کی دُھن سنتے ہیں تو سرنائے ، ستار ، بانسری وغیرہ میں ایک اور سُر کی طلب کا احساس ہوتا ہےکیوں کہ موسیقی کے آلات سات سروں کے نقشے پر بنائےہوئے ہوتے ہیں جہاں آٹھواں سُر ممکن نہیں ہوتا۔

لیکن کھوار موسیقی کا دائرہ کا سار سروں سے زیادہ ہے  یہ دئرہ  اُس وقت مکمل ہوتا ہے جب گانے یا   بجانے والا آٹھواں سر سے گزرے۔  یہ کمالِ فن صرف اجدبر خان کو حاصل ہے کہ  سُروں کی انوکھی تقسیم سےآٹھواں کھرج تخلیق کرتے ہیں۔ سُروں کی اس تخلیق کےلیےکسی شہنائی نواز کو اپنی سانسوں پر کنٹرول اور انگلیوں کی پوروں کے استعمال  پر خوب دست رس حاصل ہونا چاہئے۔ کھوار موسیقی میں ایک سُر سے ایک اور سُر تخلیق  کرنے کا ملکہ چترال کے شہنائی نوازوں میں صرف اور صرف اجدبر خان کو حاصل ہے ۔ سرنائے کے تمام  سوراخوں پر انگلیاں رکھ کے ہوا پھونکنے سے جو کھرج پیدا ہوگا وہ موٹا ہوگا( یاد رہے کہ ستار بجاتے ہوئے اوپر کے پردوں میں آواز موٹی اور نشیب میں پتلی ہو جاتی ہے )  جیسے جیسے آپ نیچے سے انگلیوں کی پوریں اٹھا کر اُوپر کی طرف جاتے ہیں تو آواز باریک اور پتلی ہوتی جاتی ہےیوں  سرنائے یا بانسری کے اوپر کے  آخری خانے سے جب آخری اُنگلی اُٹھ جاتی ہے تو سُروں کا اختتام ہوجاتا ہے۔ ہمارے شہنائی نواز ان ہی سات سُروں  پر لے پورا کرتے ہیں مگر گانے کا  دائرہ مکمل نہیں ہوتا یوں موسیقی  تو جنم لیتی ہے جبکہ دُھن میں تشنگی باقی رہتی ہے  لیکن اجدبرخان اپنی سانسوں کی قیامت خیز تغیرو تبدل اور اُنگلیوں کی پوروں کی فنکارانہ جنبش سے سرنائے کی آخری خانے کو دو میں تقسیم کرکے سُرکا وہ جادو جگاتے ہیں جوکہ آج تک اجدبر خان کے علاوہ  کسی اور شہنائی  نوازکے نصیب میں نہیں آیا ۔

اجدبرخان کی بجائی ہوئی دُھنوں کی کیسٹیں اگر توجہ سے سنیں گے تواُن میں  آپ کو کسی دُھن کے صَوتی دائرے کو پورا کرتے کرتے مزید کھرج کے لئے راستہ معاً  بند ہوجانے کی صورت میں  موصوف کے سرنائے سے ایک پتلا سرُ نکلتا محسوس ہوگا جوکہ اُس  دھن کے فطری دائرے کواپنے منطقی نتیجے تک پہنچا ئے گا ۔ اس سحر انگیزی  میں موصوف ایک مشکل اور نئے تجربے سے گزر کر ہی  یہ سب کچھ ممکن بنا لیتے ہیں  ۔ آج کھوار موسیقی میں  سُرنائے بجانے والے راگی کئی ایک ہیں لیکن اجدبر خان کی طرز پر بجانے والے شہنائی نواز صدیوں میں بھی شاید پیدا نہیں ہوں گے۔  اللہ مرحوم کو   جنت فردو س میں اپنے مقرّبین کی صف میں جگہ عطا فرمائے ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51665

پانی کو ترستا درخت بھی تو مظلوم ہے – فلاحی تنظیم چپس

(رپورٹ: مبشر علی مبشر)


ماحولیات پر کام کرنے والی تنظیم چپس نے عشورہ کے دن قاقلشٹ آکر پودوں کی آبیاری کی اور اس بات کا اظہار کیا کہ اس دنیا کو رہنے کے قابل بنانا بھی ایک طرح حضرت امام حسینؑ سے عقیدت کا اظہار ہے۔

جمعرات کے روز چیئر مین چپس رحمت علی جعفر دوست کی قیادت میں چپس کے کارکن فی کس اپنے ساتھ پانی سے بھرے گلین اور بوتل لے کر قاقلشٹ گئے اور حکومت کی طرف لگائے گئے پودوں کی آبیاری کی۔

پودوں کی صحیح دیکھ بھال پر زور دیتے ہوئے رحمت علی جعفر دوست نے کہا کہ جب تک عوام موسمیاتی خطروں کے معاملے میں حکومت کے شانہ بشانہ کھڑی نہیں ہوتی تب تک نئے پودوں کو ایک گھنے درخت میں تبدیل دیکھنا ایک بے حقیقت خواب ہے۔

ساتھ ہی جعفر دوست نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ اس دنیا کو جینے کے لئے سازگار بنانا بھی ہماری سماجی اور مذہبی فرض ہے۔ لہذا ہر انسان کی کوشش ہونی چاہئے کہ وہ اپنی مذہبی یا ذاتی مواقعوں پر جیسے سالگرہ ہوگئی‘ کوئی ایک پودہ لگائے یا کم ازکم پودوں کو پانی ڈالے۔

”یوم عشورہ اپنی نیک صفات کو کسی بھی حالات میں ترک نہ کرنے کا ہمیں درس دیتا ہے“

چودہ اگست‘ یوم آزادی کے موقع پر بھی جعفردوست نے مختلف جگہوں سے آئے ہوئے بائیک سواروں کے ہمراہ قاقلشٹ آکر پودوں کی آبیاری کی تھی۔ اور اس بات کا عندیہ دیا تھا کہ وہ اپنے والنٹئرز کے ساتھ مہینے میں کم از کم تین بار قاقلشٹ آکر پودوں کو پانی ڈالیں گے۔

ؔ حکومت ’کلین اینڈ گرین پاکستان‘ کے موٹو سے ہر سال ملک کے مختلف علاقوں میں پودے لگا رہی ہے‘لیکن پودوں کی صحیح دیکھ بال میں اب بھی فقدان ہے۔ اپر چترال میں بھی حکومت کی جانب سے پودے لگا ئے گئے مگر حکومت اور سول سوسائٹی دونوں کی عدم تعاون کی وجہ سے بیشتر پروجیکٹ ناکام ہوچکے ہیں‘ حال ہی میں ہی پرواک لشٹ میں بہت سے پودے پانی نہ ملنے کی وجہ سے سوکھ گئے۔

chitraltimes cheps plantation2
chitraltimes cheps plantation1
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51658

ٹک ٹاکر عائشہ، شریعت، ہماری مریض ذہنیت اور دوا – ظہورالحق دانش

ٹک ٹاکر عائشہ، شریعت، ہماری مریض ذہنیت اور دوا – ظہورالحق دانش

مینارِ پاکستان اقبال پارک واقعے پر دائیں و بائیں ہاتھ کے لوگوں کے تبصرے کئی دن سے پڑھنے کو مل رہے ہیں۔ ایک حد تک اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے پرہیز کیا۔ مگر کچھ ایسے تبصرے جن سے ہماری مجموعی ذہنیت ریفلیکٹ ہوتی ہے پڑھنے کے بعد اپنا تبصرہ داغنا مجبوری بن گیا۔


اس واقعہ بارے تقریباً اکثریت کی رائے یہ بن گئی ہے کہ چونکہ عائشہ نے “اللہ اور شریعت کے برخلاف کام کیا ہے” لہٰذا اس ہجوم کا اُسے بھنبھوڑنا ایک رد عمل تھا، یہاں رد عمل سے ان کی مراد ‘جائز’ ہے۔ یعنی اگر عائشہ ایسا نہ کرتی تو وہ لونڈے ویسا نہ کرتے۔
کئی ایک پوچھنے کے قابل سوالات پیدا ہوتے ہیں جو پوچھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ چلو مان لیا کہ عائشہ نے “حکم الٰہی اور شریعت کے برخلاف” کام کیا ہے تو کیا یہ منطق ٹھیک ہے کہ وہاں موجود لونڈے بھی اخلاقیات اور شریعت کے سارے تقاضے مٹا ڈالیں اور ایک بے بس بنت حوا کو یوں سرِ عام نوچ ڈالیں؟ یہ کونسا اخلاقی اور شرعی معیار ہے بھئی؟ نکتہ اتنی آسانی سے سمجھ نہیں آئے گا، لہٰذا آئیے ایک الگ طریقے سے دیکھتے ہیں۔ شریعت کا ایک اہم اصول یہ بھی ہے کہ کسی بھی عمل اور رد عمل کو پہلے خود اپنی ذات پر اپلائی کرکے دیکھو۔ آئیے اس واقعے میں عمل اور رد عمل کو بھی اسی طرح اپنے اوپر اپلائی کرکے دیکھتے ہیں۔ فرض کریں اُس دن اقبال پارک مینارِ پاکستان میں ویڈیو بنانے والی عائشہ نہیں تھی۔ بلکہ آپ کی بہت ہی پیاری سگی بہن، سگی ماں، سگی بیٹی یا سگی بیوی تھی۔

آپ کی یہ سگی بہن یا سگی ماں یا سگی بیٹی یا سگی بیوی کسی الوہی آزمائش کے تحت آزاد منش ہے اور آپ کی شریعت کی پابندیوں کی کچھ زیادہ پروا نہیں کرتی۔ ایک دن یعنی آزادی کے دن وہ آپ کی نہیں سنتی اور پارک چلی جاتی ہے۔ تصویریں نکالتے اور ویڈیو بناتے دیکھ کر کچھ انسان نما جنسی مخلوق آپ کی بہت ہی پیاری سگی بہن/ماں/بیٹی/بیوی پر جھپٹ پڑتے ہیں اور اسے برسرعام بھنبھوڑنے اور نوچنے لگ جاتے ہیں۔ آپ کو سوشل میڈیا ویڈیو فوٹیج اور ٹی وی پر تصدیقی خبر سے اس واقعے کا پتہ چلتا ہے۔ کیا تب بھی آپ وہی کچھ کہہ کر دلیل اور جواز دیتے پھر رہے ہوگے جو عائشہ کو نوچنے کے ویڈیو دیکھ کر کہہ رہے ہو؟ خود سے پوچھیے۔
بھئی یہ کونسا شرعی اور اخلاقی معیار ہے کہ اگر اُس نے شریعت کو پامال کیا تو یہی بات عین جواز ہے کہ میں بھی شریعت کو پامال کروں؟ “ہسے پھیرو اویوئے، لہٰذا اوا دی پھیرو ژیبوم، یا ہتو ردعملہ کا کی پھیرو ژوتی اسور سہی کوری اسور، ہیس جائز۔” یہ کونسا شرعی و اخلاقی معیار ہوا؟


یاد رکھیے یہی وہ خطرناک مریض ذہنیت ہے جس نے نہ صرف ہمارے معاشرے کو تباہ کیا ہے بلکہ اسی ذہنیت نے اسلام کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ایسی ذہنیت کے کیے ہوئے تاویلات و مباحث اور ریزننگ کی وجہ سے ہی مغربی اسلام دشمن قوتوں کو لقمے ملتے رہتے ہیں اور وہ دین اسلام پر اعتراضات کرکے اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔ ایسے اسلام دشمن معترضین کو خوراک ہماری یہ مریض ذہنیت فراہم کرتی رہی ہے اور کرتی رہتی ہے۔


یہی وہ ذہنیت ہے جو کہتی ہے کہ اگر وہ غلط کاری کرتا ہے تو تم بھی کرو، کیونکہ تمہارا غلط کرنا ایک رد عمل ہے، پس جائز ہے۔ اگر وہ سود کھاتا ہے تو تم بھی کھاؤ، اگرچہ صریحاً نہ سہی تو سود کا نام کچھ اور رکھ کے کھاؤ، کیونکہ سود کے بغیر گزارا نہیں، اور تمہارا سود کھانا ایک رد عمل ہے، پس جائز ہے۔ اگر عورت مکمل شرعی لباس میں ملبوس نہ ہو تو اُسے چھیڑنا اور نوچنا ایک رد عمل، یوں جائز ہے۔ عورت کو گھر میں قید رہنا چاہیے، اور اگر ایسا نہیں کرتی اور باہر جاتی ہے تو اسے چھیڑنا، بھنبھوڑنا اور نوچنا محض ایک رد عمل ہے، پس جائز ہے۔ کیونکہ وہ اسی لیے ہی باہر نکلتی ہے کہ اسے چھیڑا اور نوچا جائے۔ اگر کوئی کافر کسی انسانی اخلاقی اقدار کو پامال کرتا ہے تو تم بھی کرو، کیونکہ اس کا ایسا کرنا ہی تمہارے لیے جواز ہے کہ تم بھی ویسا ہی کرو۔ اگر کسی لڑکے نے تمہیں ہم جنس پرستی پر بہکایا ہے تو بہک جاؤ، کیونکہ بہکنا اتنا غلط نہیں ہے جتنا بہکانا ہے۔ غلطی/گناہ اس کی زیادہ ہے کہ اس نے بہکایا ہی کیوں؟ آپ کا بہک جانا تو محض ایک رد عمل ہے، پس جائز ہے۔


کرپشن، رشوت خوری، میرٹ کا قتل، اقربا پروری چونکہ ہر کوئی کرتا ہے ہر ادارہ کرتا ہے، اِن کے بغیر کام نہیں چلتا، لہٰذا تم بھی ویسا ہی کرو۔ کیونکہ تمہارا ویسا کرنا ایک ردعمل اور ایک مجبوری ہے، پس جائز ہے۔
گنتے جائے۔ ایسی ریزننگ اور ایسے کرشمہ ہائے جواز ایسی مریض ذہنیت کی پیداوار ہیں۔ اِسی مریض ذہنیت سے خود کو بچانا معاشرے اور دین اسلام پر بہت بڑا احسان کرنے کے مترادف ہوگا۔
کس طرح بچا جا سکتا ہے؟


کسی بھی واقعے، عمل اور رد عمل کو خود اپنے اوپر اور اپنے قریبی رشتوں کے اوپر اپلائی کرکے اپنے فطری جذبات و احساسات و اخلاقیات دیکھو، پھر کلام کرو۔ اسلام دینِ فطرت ہے۔ اس کے تقاضے بڑے فطری اور کل جہتی ہیں۔ دوسروں کی عورت پر بات کرنا بہت آسان ہے۔ اپنی عورت کو اس کی جگہ کھڑی کرکے دیکھو، آپ ایسی ویسی باتیں ہرگز نہیں کر پاؤ گے، بلکہ ہمدردی اور انسان دوستی کا ایک خوبصورت جذبہ آپ کے دل میں پیدا ہوگا۔ اللہ منفی اور مریض ذہنیت سے ہم سب کو بچائے رکھے۔

aisha tiktoker
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51655

نواسہ رسول کاانکار – (عاشورہ محرم کے حوالے سے خصوصی تحریر )- ڈاکٹر ساجدخاکوانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

نواسہ رسول کاانکار – (عاشورہ محرم کے حوالے سے خصوصی تحریر )- ڈاکٹر ساجدخاکوانی اسلام آباد پاکستان

                فرعون کے دربار میں جب حضرت موسی علیہ السلام نے دین اسلام کا جھنڈا بلندکرناچاہا تو فرعون چینخ پڑا  وَ لَقَدْ اَرَیْنٰہُ اٰیٰتِنَا کُلَّہَا فَکَذَّبَ وَ اَبٰی(۰۲:۶۵) قَالَ اَجَءْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ اَرْضِنَا بِسِحْرِکَ یٰمُوْسٰی(۰۲:۷۵) ترجمہ:”ہم نے فرعون کواپنی سب نشانیاں دکھائیں مگروہ جھٹلائے چلاگیااور نہ مانا،کہنے لگااے موسی ؑکیاتوہمارے پاس اس لیے آیاہے کہ اپنے جادوکے زور سے ہمیں ہمارے ملک سے نکال باہر کرے“۔پس یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آواز حق کتنی ہی کمزور اور ناتواں اور مادی و دنیاوی وسائل سے محروم کیوں نہ ہوسے اس کی للکارسے فراعین وقت کواپنے اقتدار کے لالے پڑ جاتے ہیں۔

حضرت موسی علیہ السلام غلام قوم سے تعلق رکھنے والے بے یارومددگار،ملنگ،درویش،صوفی منش اور نہتے و بے سروسامان فرد تھے اور محض اپنا عصالیے اپنے بڑے بھائی کی معیت میں فرعون کے سامنے کلمہ حق کہنے گئے تھے،لیکن فرعون کی باریک بین نگاہ پہچان گئی کہ اس دین کے پیغام میں اقتدارکاحصول بھی شامل ہے۔تب فرعون نے جب اپنے درباریوں سے مشاورت کی تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ”قَالُوْٓا اِنْ ہٰذٰنِ لَسٰحِرٰنِ یُرِیْدٰنِ اَنْ یُّخْرِجٰکُمْ مِّنْ اَرْضِکُمْ بِسِحْرِہِمَا وَ یَذْہَبَا بِطَرِیْقَتِکُمُ الْمُثْلٰی(۰۲:۳۶)“ترجمہ:آخرکار کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ دونوں تومحض جادوگرہیں،ان کا مقصد یہ ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تم کو تمہاری زمین سے بے دخل کر دیں اور تمہارے مثالی طریق زندگی کا خاتمہ کردیں“۔چنانچہ فرعون کو تو صرف اپنے اقتدارکی فکر تھی لیکن فرعون کے ذہین ساتھی بھانپ گئے تھے حضرت موسی علیہ السلام کے پیغام میں صرف اقتدارکاحصول ہی شامل نہیں ہے بلکہ کل نظام زندگی کی تبدیلی ان کا مطمع نظر ہے۔یہی وجہ ہے کہ ابنیاء علیھم السلام کی دعوت سے طاغوت اور استعمار جڑوں اوربنیادوں تک لرزجاتاتھا۔

                حضرت موسی علیہ السلام سمیت کل انبیاء علیھم السلام نے وقت کے طاغوت کوسیاست کے میدان میں للکاراہے۔فرعون،نمرود،ملکہ سبا،عتبہ،شیبہ اور ابوجہل وغیرہ یہ سب کے سب میدان سیاست کے قدآور عنوانات تھے اور حقیقت یہی ہے نظام زندگی کے تمام تر کل پرزے فی الاصل سیاست کی مشینری کے نیچے ہی اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں جیسے دماغ کے نیچے کل اعضائے جسمانی اپنا اپنا فطری کام سرانجام دیتے ہیں۔جب سیاست کی مشینری بدل دی جائے اور اقتداراعلی کاقبلہ تحویل ہوجائے تو مشینری کاکل تحرک اپنی سمت تبدیل کر بیٹھتاہے اور تمام تر نظام نئے اقتداراعلی کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتاہے۔تاریخ انسانی یہ سبق دیتی ہے کہ جہاں نظام کی اصلاح کاآغاز نظام سیاست کی ابجدسے ہوتاہے وہاں نظام کی خرابی کی انتہابھی نظام سیاست پر ہی منتج ہوتی ہے،گویا جو نقطہ آغاز تھا وہی نقطہ انجام بھی ثابت ہوتاہے۔چنانچہ بہت اچھے نظام زندگی کاآغاز نظام سیاست کی اصلاح سے شروع ہوتاہے اور سب سے پہلے قیادت میں حسن اقتدارپیداہونے لگتاہے اورجب کوئی نظام زندگی گل سڑ کر بدبوکی سڑاند چھوڑنے لگتاہے اس کی انتہا بھی اس کے نظام کے بدترین اورظالم و جابروبدکارحکمرانوں کی صورت میں مورخ کے قلم سے پھوٹ نکلتی ہے۔اللہ تعالی کی یہی سنت رہی ہے کہ انبیاء علیھم السلام کی صورت میں بہترین قیادت فراہم کی گئی جس نے استحصالی نظام کے سیاسی قائدین سے اقتدارکے ایوانوں میں کشمکش کے تاریخ ساز ابواب رقم کیے۔

                سیرۃ طیبہ ﷺمیں مکہ مکرمہ کی وادیوں سے جس تبدیلی کاآغاز ہواتھا،مدینہ منورہ کی ریاست اسلامیہ اس کافطری سیاسی نتیجہ تھا۔جس انقلاب نے ختمی مرتبت ﷺکی گود میں پرورش پائی بالآخر وہ دورفاروقی میں اپنے بام عروج کو پہنچااور محسن انسانیتﷺنے اس انقلاب کی کامیابیوں کی جوخو شخبریاں سنائی تھیں وہ دورفاروقی میں تاریخ کے طالب علم نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیں۔نبی علیہ السلام کی تیارکردہ قیادت جیسے جیسے اس دنیاسے پردہ فرماتی گئی اور صحابہ کرام جیسے مقدس گروہ کی کمریں جیسے جیسے جھکتی چلی گئیں،بال سفید ہوتے گئے اور معاملات زندگی ان کے ہاتھوں سے رفتہ رفتہ نکلتے گئے تو معاشرے میں میں بگاڑ نے اپنی جگہ بنانے کی کوششیں شروع کر دی۔تصویرکادوسرارخ یہ تھا کہ فتوحات کے باعث عرب کی خالص معاشرت پر عجم نے بھی اپنے اثرات مرتب کرنے شروع کر دیے اور اس پر مستزاد یہ کہ دولت کی فراوانی نے جہاں سخت کوشی و صحرائی مزاج سے بعد پیداکیاوہاں تقوی اور دینداری کے بھی وہ پہلے والے معیارات نظرسے اوجھل ہونے لگے۔معاشرے کی ان کمزوریوں کے براہ راست یا بالواسطہ اثرات نظام سیاست پر بھی مرتب ہوئے اور سیاست کی دیوی نے خلافت کی مقدس قبا اتارکر ملوکیت کامکروہ لبادہ اوڑھ لیا۔

                ملوکیت نے اسلامی نظام زندگی کے جملہ امور کو اپنے حصارمیں لینا شروع کیااور کامیابی سے آگے بڑھتی رہی۔حکمرانوں کا طرز بودوباش بدلا،بیت المال کا تصور امانت تبدیل ہو گیا،ممبررسول کی تقدیس پائمال ہوئی اوردیدہ دلیری یہاں تک کہ جس رسولﷺکے ممبرپر براجمان ہوا جاتااسی رسولﷺکے اہل بیت کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایاجاتا،سرکاری مناصب میں امانت و دیانت اور تقوی ودینداری کی جگہ حکمران کے ساتھ وفاداری نے لے لی اور حد تو یہ احادیث نبویہ ﷺ میں بھی وضع و تحریف شروع کر دی گئی۔ان سب حالات کے خلاف صحابہ کرام اگرچہ آواز اٹھاتے رہے لیکن اب ان کے گلے میں وہ قوت والی گرج موجود نہیں رہی تھی اور وقت پیری نے انہیں زمانے کی پچھلی صفوں میں دھکیل دیاتھا۔صحابہ کرام کی نسلوں میں سے ان حالات کامقابلہ کرنے کے لیے کچھ تازہ دم نوجوان اٹھے اور ڈٹ کر مقابلہ بھی کیالیکن کسی نے وقت کاساتھ نہ دیا تو کسی کاوقت نے ساتھ نہ دیااور خانہ کعبہ جیسی مقدس عمارت کی قربانی بھی ان کو بچانے کے لیے ناکافی ثابت ہوئی اور بگاڑ پوری قوت سے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیتاچلا گیا۔ان پرفتن حالات میں کچھ بزرگوں نے مسند علم سنبھال لی تو کچھ ممبرومحراب تک محدود ہوگئے،کچھ نے تبلیغ و ارشادکو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیاتوکچھ معرفت وطریقت کی طرف سدھارگئے اور باقی عوام الناس نے کسی اجتماعی کاوش کی بجائے اپنے ذاتی ایمان بچانے کی فکر کی اور بگڑتے ہوئے حالات میدان سیاست کی آخری حدوں کو چھونے لگے۔

                اب ایک ہی خانوادہ باقی بچاتھا،اہل بیت نبوی کا مقدس ومحترم خاندان،زمین و آسمان کی نظریں اب اس خاندان نبوت پر جمی تھیں۔آسمان سے نازل ہونے والی آخری کتاب،آسمان سے اتراہواآخری دین اور آخری نبیﷺکے گھرانے کے آخری افراداوردین کو بچانے کی آخری امید۔نواسہ رسول امام عالی مقام امام حسین بن علی کی ایک ”ہاں“ان پراور ان کے کل اہل خانہ پر بلکہ نسلوں پر بھی دنیاکی تمام تر نعمتوں،آسائشوں اور شاید جزوی اقتدارکے دروازے بھی کھول سکتی تھی لیکن پھر ناناکا دین کسی گہری کھائی میں جاگرتایاشاید کسی قبر میں ہمیشہ کے لیے دفن ہوجاتا کیونکہ نظام سیاست کے آخری بگاڑ پرآخری نبی کے گھرانے کے افراد کی آخری مہر ثبت ہو جاتی۔اور اگر ملوکیت کے اس نظام سیاست کو نبی ﷺکا گھرانہ تسلیم کرلیتاتوامت مسلمہ کے آسمانی صحائف سے اقتداراعلی کے لیے اللہ تعالی کا نام ہمیشہ کے لیے حذف ہوجاتا۔اور اسلام محض ایک پوجاپاٹ اور پندونصائح کا مذہب رہ جاتا اور دین کے استعارے سے نظام زندگی کاجامع تصور اس دین کی تعلیمات سے خارج ہوجاتا۔اس صورت میں قرآن مجید کی تمام تر تعلیمات جامعیت کو اس ایک ”ہاں“کے صفر سے ضرب دے دی جاتی۔

                امام عالی مقام کی ایک ”نہیں“نے تاقیامت دین اسلام کی سیاسی حقانیت کو امر کر دیا۔دین محمدیﷺکے سیاسی نظام کی تجدید ہمیشہ کے لیے اس خانوادہ نبوت اور امام عالی مقام کی احسان مند رہے گی۔قرآن مجید کی اس آیت کی اب کبھی کوئی تاویل نہیں کی جا سکے گی کہ”ُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہ‘ بِالْہُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہ‘ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَ لَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ(۹:۳۳)ترجمہ:وہ اللہ تعالی ہی ہے جس نے اپنے رسولﷺ کو ہدایت اوردین حق کے ساتھ بھیجاتاکہ اسے باقی تمام ادیان پر غالب کر دیا جائے“۔پوری دنیاپر دین اسلام کا غلبہ اورباقی تمام ادیان کواسلام کے تابع بنانے کے لیے جس جرات و شجاعت سے عبارت سیاسی و عسکری نظام کی ضرورت ہے وہ نظام اسوۃ امام عالی مقام سے میسر ہے۔اوراس نظام کی بقا کو جس قسم کے انکار کی ضرورت ہے وہ بھی صرف اسوہ امام عالی مقام امام حسین کی زندگی سے ہی میسر آسکتاہے۔حقیقت یہ ہے کہ وقت کا طاغوت ہمیشہ ہی حق پرچلنے والوں کوقیدوبند،جنگ و جدال اور غریب الدیاری کی صعوبتوں سے دوچار کرتارہے گا،لیکن اسوۃ امام حسین سے حاصل ہونے والا عملی سبق اس کرہ ارض میں آخری انسان تک کے لیے استقامت اور صبرواستقلال کا لازوال درس اولین و آخرین ہے۔تاریخ جس طرح اپنے آپ کو دہراتی رہتی تو اسی طرح حق و باطل کے درمیان کربلا کے میدان سجتے رہیں گے،تاقیامت یزیدکاکرداراور امام عالی مقام کی سنت شبیری زندہ و تابندہ رہے گی یہاں تک کہ صوراسرافیل میں پھونک مار دی جائے۔اہل ایمان دنیاکے پیمانوں کے مطابق شکست خوردہ ہونے کے باوجود بھی کامیاب و کامران اور فوزوفلاح کے حاملین ٹہریں گے جبکہ یزیدان بدبخت حکومت کے ایوانوں میں براجمان ہونے کے باوجود اور نشہ اقتدار میں ڈوبے ہوئے بھی خالق و مخلوق کے ہاں خائب و خاسراور ملعون و مطعون گردانے جائیں گے۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
51632

پس وپیش – افعانستان میں بکھیڑا – اے.ایم.خان


نہ صرف افعانستان بلکہ پوری دُنیا میں اس بات پر بحث جاری ہے کہ کون جیتا اور کس کی ہار ہوئی ، اور ساتھ امریکہ ، طالبان ، پاکستان ، روس، چین ، ہندوستان،  ایران ، ترکی اور افعانستان میں مقیم وار۔لارڈز کے کردار کی بھی بات ہوتی ہے۔  یہ افعانستان کے عام لوگ ہیں جو بہت کم لوگوں میں زیر بحث ہیں۔  افعانستان کی سرزمین میں درحقیقت کسی کی جیت نہ ہوئی بلکہ  امریکہ سمیت  وہ حکومت ، کئی ایک ملک، لوگ اور ادارے کی شکست ہے جن کی وجہ سے حالات اس نہج پر پہنچ گئے جسمیں افعان عوام کیلئے ایک غیریقینی حالت اور اضطراب کی کیفیت ہے۔  جو افعانستان سے باہر کسی ملک جاسکے تھے وہ چلے گئے اور باقی بھی جا رہے ہیں ، اور اکثریت تو کسمپرسی کی حالت میں ہے اگر کہیں جانا بھی چاہیں تو بارڈرز بند ہیں یا بارڈرز کے ساتھ موجود کیمپس ہیں وہاں رہنا پڑے گا۔

 امریکہ کے لئے  اُس کے ایک ملٹری جہاز کے فرش پر  600 کے قریب لوگوں کی سواری ایک استعارہ ہے جو پانچ دہائی پہلے ویتنام میں ہو چُکی تھی۔  اور تین لاکھ تربیت یافتہ جدید ہتھیارون سے لیس فوجی اہلکاروں کی کارکردگی بھی دیکھنے میں آئی جس کے بارے میں بار بار یقین دہانی کی جاتی تھی۔ کہیں یہ بھی ایسی تو نہ تھی کہ جسطرح ویتنام میں باوردی لوگ وردی چھوڑ کر عام لوگوں کے رُوپ میں آئے؟

امریکی صدر ، جوو بائیڈن ، کے پریس کانفرنس سے یہ بات نہایت دلچسپ تھی کہ جب اُس نے کہا کہ ہم افعانستان میں “نیشن بلڈنگ” کے لئے نہیں بلکہ افعان سرزمیں سے امریکہ کے لئے جو خطرات تھے اُن کو ختم کرنے کیلئےآئے تھے۔ یہ جاننا یہاں اہم ہے کہ جو نطریاتی اور شدت پسندی پر مبنی سوچ تیار کی گئی تھی اور اب موجود ہے یہ بھی اُسکی پیداوار ہے جسے ساتھ لے کر  امریکہ ایک زمانے میں روس کے خلاف جنگ کی، اور بیس سال پہلے اُن لوگوں کے خلاف خود افعانستان میں جنگ شروع کی ۔  اب امریکہ انتہائی ناکامی کے باوجود یہ کہہ کر کہ ‘یہ ہماری جنگ نہیں ہے’ ، جولائی کے مہینے سےافعانستان سے  فوجی انخلاء شروع کی اور حالات اسطرح ہو چُکے ہیں جس کی ذمہ داری اُس پر عائد ہوتی ہے۔

 نائن الیون کے واقعے کے بعد القاعدہ کے خلاف امریکہ اور نیٹو فورسسز کی  جو جنگ شروع ہوئی جو بیس سال بعد افعانستان کے لوگوں کے لئے ایک بار پھر غیر یقینی صورت حال پیدا کی ہے ۔ امریکی حکومت نے افعانستان کی سرزمیں میں جمہوریت لانے اور جمہوریت کی آمد  سے ہزاروں کی تعداد میں افعان لوگوں کی ہلاکت ، کئی  ہزار زخمی اور اپاہچ ہوکر اپنی زندگی گزار رہے ہیں جو کہ بیس سال پہلے ہو چُکی تھی۔

 یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ افعانستان اور پاکستان میں لوگ بھی افعانستان میں طالبان کے کنڑول کے بعد تقسیم ہیں اور مختلف آراء کے حامی ہیں۔ایک طرف،  دایاں اور بایاں بازو کے حامی طالبان کی کامیابی کے بعد ، جو 1990 کے بعد افعانستان میں طالبان کے حکومت کے دوران رونما ہوئے،  جسمیں انسانی حقوق، خواتین کے حقوق و تعلیم ، اقلیتوں کے لئے جو حالات پیدا ہوئے تھے اُسی طرح کے حالات پیدا ہونےکے خدشات کا اظہار کررہے ہیں، تو دوسری طرف شعار مذہبی کے حامی اسے اسلام کی کامیابی قرار دیتے ہیں اور اسلامی نظام آنے کی خوشی منا رہے ہیں۔

اب یہ بیان طالبان کی طرف سے آرہی ہے کہ وہ افعانستان میں ایک inclusive حکومت بنائیں گے یعنی جسمیں سب شامل ہونگے۔ افعانستان میں خواتین کی ایک تنظیم پہلے ہی حکومت میں شمولیت کے لئے احتجاج بھی ریکارڈ کی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ افعانستان کی سرزمیں جوکہ بیس سال امریکی ، دوسرے بیرونی ممالک اور افعان جنگی سرداروں کا آپس میں جنگ اورمقابلےسے برباد ہو چُکی ہے،  اب جسے ہم مسیحا سمجھتے ہیں کہ وہ ملک کا سیاسی، معاشی و معاشرتی نظام، ادارے اور انفراسٹرکچر کو کسطرح بحال اور قابل استعمال بنادیتا ہے۔   ایک اندازے کے مطابق اب افعانستان میں 43 فیصد آبادی غربت کا شکار ہے اُنہیں غربت کی لکیر سے اُوپر لے آنا ، ملک کی معاشی، معاشرتی ، سیاسی اور بین الاقوامی پوزیشن کو دوبارہ بحال کرنا اگر ناممکن نہیں تو بہت زیادہ مشکل ہے۔ یہ وقت ہی بتا ئے گا کہ حاصل دعوی کسطرح ہوجاتی ہے۔ 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
51605

حضرت زینبؑ خواتین کے لیئے ایک رول ماڈل ۔ محمدآمین

حضرت زینبؑ خواتین کے لیئے ایک رول ماڈل ۔ محمدآمین

ڈاکٹر علی شریعتی فرماتا ہے حسینؑ اور زینب ؑ ایسے مثالی بہن بھائی ہیں جو تاریخ میں ایک مثالی انقلاب کی علامت ہیں اور ایک ایسا انقلاب جس نے ظلم واستبداداورمکرو فریب کورسوا اور ذلیل کرکے انسانیت کی حرمت اور آزادی کا پرچم سر بلند کیا،،۔حضرت زینب ع نبی اقدس ﷺ کی پیاری نواسی اور امام حسن اور امام حسین کی سگی بہن ہے آپ جناب علی کرم اللہ وجہہ کریم اور خاتون جنت جناب فاطمہ سلام علیہ کی صاحبزادی ہے۔آپ کی پیدائیش مدینہ منورہ میں 626ء میں ہوئی ا اور آپ کی قبر مبارک شام کے مقام ذینبیہ میں واقع ہے۔آپ کا تعلق خاندان اہلبیت اطہار سے ہے جس کی طہارت کی ضمانت اور گواہی اللہ پاک نے خود قرآن مجید میں دی ہے۔


حضرت زینب کا نام اپ کے ناناجان جناب محمد ﷺ نے خود ذ ینب ر کھا جس کا مطلب اپنے باپ کا جمال یا زینت ہے،اپ کی شکل و صورت اپنے ناناجان اور پدر گرامی سے ملتی تھی۔آپ گوشہ بتول تھی اور وہ تمام خصوصیات اپنی مدر گرامی سے حاصل کی تھی جس کے بارے میں نبی اخرلزمان کا ارشاد ہے کہ فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جس نے اس سے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا اور فاطمہ جنت کی خواتین کی سردار (Lady of Heavens)ہے۔چونکہ اپ کی تربیت ایک ایسے گھرانے میں ہوئی جو فضلیتوں اور برکتوں سے بھرا ہوا تھا،شجاعت و بلاغت اپ کو وراثت میں ملی تھی۔آپ کی والدہ محترمہ کی وفات 632؁ء میں ہوئی اور اس وقت اپ کی عمر چھ برس کی تھی،اپنی والدہ محترمہ کی خواہش اور نصیحت پر اپ اپنے دونوں بھائیوں کے لیئے مان کا کردار اپنایا اور یہی وجہ تھی کہ بہن بھائیوں کے درمیان ایک مثالی قربت قائم تھی۔


جب یزیدی افواج میدان کربلا میں خانوادہ رسالت ماب ص پر اپنے مظالم کا انتہا کرہے تھے کیونکہ یزید بدبخت یہ چاہتا تھا کہ امام اعلی مقام اس کے ناپاک ہاتھوں پے بیعت کرلے،جو کہ نواسہ رسول ص کے لیئے ناممکن تھا کیونکہ مواریخین اس بات پر متفق ہیں کہ یزید اسلام کے اصولوں سے منحرف ہوا تھا۔اپ اپنی انکھوں سے سارے مظالم دیکھ رہی تھی کہ کس طرح اپ کے بیٹے جناب عون اور محمد شہید کر دیئے گئے اور یک بعد دیگر اہلبیت اور اسکے رفقاء بے دردی سے جان قربان کر رہے تھے پھر اپ نے وہ سمان بھی دیکھا کہ کس طرح جنت کے جوانوں کے سردار کا سر مبارک کاٹ دیا گیا اور بد بختوں نے اپکے جسم مبارک پر گھوڑا دوڑائے۔اپنے کربلا میں پیاسے کے شدت بھی محسو س کیئے۔جب کربلا میں 72 آہل بیت کے گھرانے اور ان کے اصحاب شہید ہوئے اور روایت میں اتا ہے کہ اس وقت مردوں میں امام ذین العابدین جو بری طرح بیمار تھی فاسق فوج میں سے کسی نے اس سے قتل کرنے کے لیئے اپہنچا لیکن بی بی زینب سلام علیہ ڈھال بنی اور یہ فرمائی کہ پہلے مجھے قتل کرو پھر اس بیمار کو،اس طرح منشاء الہی سے اپنے بیمار امام کو پچائی کیونکہ آل محمد کا سلسلہ دنیا میں قائم ہونا تھا۔


واقعہ کربلاکے بعد جب خاندان رسالت کے عورتوں،بچون اور بچیوں کو قیدی بناکر اور زنجیروں میں جھکڑ کر دمشق روانہ کردیے تویہ منظر قیامت صغرا سے کم نہ تھا،اس بابرکت خاندان جہان قرآن پاک نازل ہوا تھا اور جس گھر سے اسلام پھیلا تھا،کے خواتیں بغیر چادر اور دوپٹے کے بازاروں اور مارکیٹوں سے گزر رہے تھے،جب یہ قافلہ دمشق پہنچے۔دمشق میں قید کی حالت میں جناب زینب نے یزید کی محل میں اپنے پیارے بھائی کی شہادت میں پہلامجلس یا ماتم کا اغازکیا،جب قیدیوں کو یزید کی دربار میں لائے گئے تو اپنے یزید کی دربار میں بہادری اور شجاعت کا وہ مظاہرہ کیا جس سے تاریخ رہتی دنیا تک ذندہ رکھے گی،کیونکہ انسانی فطرت ہوتی ہے کہ جب قیدی کو بادشاہ کے دربار میں پیش کی جاتی ہے تو بولنا کجا وہ تو بادشاہ کے قدموں میں گر کر جان کی سلامتی چاہتی ہے اور جس کے سارے خاندان لٹ جاتے ہیں ان کی حال کیا ہوتے ہیں وہ تو صرف اللہ پاک ہی جانتا ہے،لیکن اس بار ظالم کے دربار میں بی بی زینب ہے۔آپ نے اللہ پاک کی حمد و ثنا کی اور اپنی خاندان کی تعارف کی کہ میں پیغمبر اسلام جناب محمد ص کی نواسی اور فاطمہ زہرہ کی بیٹی ہوں یہ سن کر دربار میں موجود لوگ حیرت سے اپ کی متوجہ ہوئے اپ نے یزید کو للکار کے بولی کہ تو اپنی عورتوں کو بغیر پردے کے باہر جانے نہیں دیتے ہیں لیکن خاندان نبوت کے خواتین کو بغیر دوپٹے کے اپنے دربار میں کھڑے کیئے ہیں او ر یہ تمہارا نصاف ہے۔جب یزید بد بخت نے غرور سے یہ کہا کہ تمہارے بھائی نا فرمانی کر رہا تھا جس کی وجہ اس کی موت ہوئی اور اللہ نے ہمیں سروخرو کیا یعنی ہم نے انہیں شکست دی اور اللہ جسے چاہئے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلت دیتا ہے، تو اپنے فرمایا،اے یزید تمہیں کیا معلوم کہ قرآن کے اس ایت کا مفہوم کیا ہے یہ تو وقت بتائے کہ اللہ کسے عزت دیتا ہے اور کسے ذلت دیتا ہے اور ہمارے لئے یہ ایک خوبصورت شہادت ہے۔اج تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ جناب زینب نے کیا خوب فرمائی تھی اور کوئی انسان چاہتے بھی اپنے عزیز کا نام یزید نہیں رکھ سکتا ہے۔


جب یزید کے دربار میں ایک شامی فوجی نے قیدی خواتیں میں سے ایک لڑکی کو اس کے حوالے کرنے کا بولا تو دختر بتول نے اس سے یہ کہتے ہوئے منع کی تو اس کے قابل نہیں اور تیرا اس پر اختیار نہیں ہے اس پر یزید نے کہا کہ دو نوں صورتوں میں میرا اختیار چلے گا اس پر بی بی نے فرمائی کہ یہ فیصلہ نا انصافی اور ظلم پر مبنی ہوگی اس طرح اپنے دختر خاندان رسالت کو ایک جابر غیر محرم کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہونے سے بچائی۔


جناب زینب ص کا انسانیت پر ایک احسان یہ ہے کہ اپنے واقعہ کربلاکے بعد تمام حالات و واقعات کو مدینہ پہنچنے کے بعد لوگوں کو بتائی ورنہ یزید اور اس کے درباری تاریخ دان اور مفاسریں ان حقائق کے بالکل غلط پیش کرسکتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا یزیدیت اور حسنیت میں فرق کرسکتا ہے کیونکہ حق حسنیت کا نعرہ اور یزیدیت طاغوت اور ظلم کا نشان بن چکی ہے اور رہتے دنیا تک رہے گی۔مذید یہ اپنے امام سجاد کی دیکھ بھال میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور ہمیشہ اس سے ہمت دی۔اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو جناب زینب کی دربار یزید میں حاضری اور خطبہ (women empowerment)کے سلسلے میں ایک سنگ میل کی حثیت رکھتی ہے کہ ایک عورت کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لیئے ظالم سے ظالم تر حکمران اور بااثر لوگوں کا سامنے کر سکتی ہے بشرطیکہ اس میں جرات و بہادری کا عنصر ہو۔دراصل میں حسینیت حق گوئی،سچ گوئی اور ظلم کے خلاف ڈٹھ کھڑے ہونے کا نام ہے اور تا قیامت یہ دو نوں افکار یعنی حسنیت اور یزیدیت دو الگ نہروں کی طرف روان دوان رہیں گے اور حسینی افکار مذاہب، رنگ ونسل اور جعرافیائی حدود سے بالاتر ہوکر تما م بنی نوع انسان کے لئے حق کا راستہ تعین کرے گی۔اور شاعر نے کیا خوب کہا ہے
انسان کو بیدار تو ہونے دو ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51603

”نہایت اس کی حسیں ؓہے ابتدااسماعیلؑ“ – ڈاکٹر ساجد خاکوانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

”نہایت اس کی حسیں ؓہے ابتدااسمائیلؑ“

)عاشورہ محرم کے حوالے سے خصوصی تحریر(

ڈاکٹر ساجد خاکوانی(اسلام آباد،پاکستان(

                 بعض تاریخی واقعات صدیاں گزرجانے کے بعد بھی ایک گنجلک راز کی حیثیت رکھتے ہیں۔اللہ تعالی ان رازوں سے کب پردہ اٹھائے گا کچھ معلوم نہیں۔واقعہ کربلا بھی شایدان رازوں میں سے ایک راز ہے۔نواسہ رسول ﷺکا اپنے مقدس خانوادہ سمیت تاریخ کی مختصرترین مدت میں کنارفرات تپش و پیاس کی انتہاشدتوں میں جام شہادۃ کونوش جان کرجانا، کوئی معمولی و آسان فہم امر نہیں ہے۔چندہفتوں پہلے تک بھی اتنے بڑے واقعے کے کچھ بھی اثرات کا بالکل معدوم ہونا اور انگلی پر گنے چنے چند ایام میں دیکھتے ہی دیکھتے اتنے بڑے سانحے کاظہور،تاریخ کے کسی بھی طالب علم کے لیے ایک لاینحل مسئلہ ہی ہو سکتاہے۔تاریخ کے معمولی معمولی واقعات بھی وقوع پزیر ہونے سے پہلے تاریخ کو چند بڑی بڑی کروٹیں ضرور دلاتے ہیں،کہیں تو پیشین گوئیاں بھی نظر آنے لگتی ہیں کہ انسانی حالات کی نبض پر نظررکھنے والے ذہین افرادوقت سے پہلے ہی بدلتے حالات کی چاپ سن لیتے ہیں۔لیکن واقعہ کربلا ان تمام تاریخی حقائق سے الگ ایک ایسا وقوعہ ہے کہ تجزیے،جائزے اور جس پر تبصرے صدیوں سے جاری ہیں اور نہ معلوم کتنی صدیاں اور جاری رہیں گے کہ کبھی اس راز سے پردہ اٹھ  پائے گا یا پھر کبھی نہیں۔

                واقعہ کربلا کی تفہیم کاایک حوالہ مکۃ المکرمہ کے جوارمیں منی کی وادی میں واقع ہونے والا ”ذبح عظیم“بھی ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام  نے اللہ تعالی کے حکم پر اپنے خانوادہ مختصرکو بیابان میں چھوڑا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام جب کسی بلند چوٹی پر پہنچتے تواللہ تعالی سے پوچھتے کہ یہاں اپنی بیوی اور بچے کو چھوڑ دوں؟؟؟،ان کے ذہن میں شاید یہ بات تھی کی بلندی پر ہونے کے باعث کسی مشکل کی صورت میں دوردورتک کسی گزرنے والے کو پکار نے کاامکان ہوسکتاہے،جواب میں اللہ تعالی کی طرف سے انکار سن کر آگے کو سدھارجاتے،پھرکسی بلند چوٹی پر پہنچتے تویہی عمل دہرایاجاتا یہاں تک ایک انتہائی کی نشیبی مقام پر بے آب و گیاہ،بنجروویران اور کل اطراف میں بلندوبالا پہاڑوں میں گھراایک مقام جب قدموں تلے آیاتو حکم خداوندی ہواکہ اس مقام پر اپنی بیوی اور بچے کو چھوڑ کر چلے جائیں۔یہ غریب الدیاری تو حضرت اسمائیل علیہ السلام پرآئی تھی اور انہیں قدرت نے ویرانے میں چھوڑاتھا لیکن فیصلہ ربانی کہ ان کے لیے تو ایک شاندار شہر اور اس شہر میں ایک عظیم الشان تاریخ و تمدن اورلازوال تہذیب کی بنیاد ڈال دی گئی لیکن بلآخر یہ غریب الدیاری حضرت امام عالی مقام امام حسین بن علی پر آن کر ٹوٹی کہ ان کی قسمت میں کرب و بلا کی ویرانیاں لکھ دی گئی تھیں۔

                حضرت ابراہیم علیہ السلام کادیاہوا پانی کا مشکیزہ جب ختم ہوا تو ننھے اسمائیل علیہ السلام پیاس کی شدت سے پڑپنے لگے،مامتانے صفاو مروہ کے درمیان سات چکر لگائے جب تک تو لخت جگرنظر آتارہتا تو آہستہ آہستہ دوڑتی تھیں لیکن جب مزید نشیب میں جاتیں اور فرزندارجمندنظروں سے اوجھل ہو جاتا تودیوانہ وار بھاگ پڑتی تھیں یہاں تک کہ پھر مرکزمحبت پر نگاہیں ٹک جاتیں۔سینکڑوں سالوں سے اسی طرح ہی سعی بین الصفا والمروہ جاری ہے اور رہتی دنیاتک جاری رہے گی۔قدرت کو اس معصوم جان پر ترس آیااور اس کے قدمو ں کی رگڑ سے زم زم کا چشمہ پھوٹ نکلا جو تادم تحریرگزشتہ چا ہزارسالوں سے جاری ہے اور اس کے بہاؤ میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی یہاں تک کہ صوراسرافیل میں پھونک ماردی جائے۔پیاس کی شدت کا شکار تو حضرت اسمائیل علیہ السلام ہوئے لیکن ان کے لیے ایک چشمہ جاری کر دیاگیا جبکہ یہی پیاس امام عالی مقام امام حسین پر آن کر ٹوٹی اور دریائے فرات کی ٹھاٹھیں مارتی ہوئی لہروں کے کنارے پیاس کی جان لیوا شدت نے اہل بیت اطہار کے ہونٹوں کی نمی بھی چوس لی۔

                حضرت اسمائیل علیہ السلام لڑکپن میں پہنچے تو اللہ تعالی نے ذبح کا حکم صادر فرما دیا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے باربارخواب دیکھا کہ اپنی پیاری چیزراہ للہ قربان کررہے ہیں۔بہت غوروحوض کے بعد اسی نتیجہ میں پہنچے پیرانہ سالی میں نوخیزاولاد نرینہ کے سوا اور کیا متاع عزیز ہوسکتی ہے؟؟حضرت اسمائیل علیہ السلام سے ذکرکیاتو باپ کی طرح بیٹابھی چونکہ حامل وحی تھا،اللہ تعالی کا حکم سن کر فوراََہی سمعنا واطعناکی عملی تصویر بن گیا۔اچھے کپڑے پہن کر باپ بیٹا مکہ مکرمہ سے وادی منی کی طرف روانہ ہوئے،دونوں نے اپنی آنکھوں پر پٹیاں باندھیں کی مبادا اس ”ذبح عظیم“کے عمل میں نظروں کے ٹکرا جانے سے شفقت و محبت کاجذبہ حائل ہو جائے۔چھری کواچھی طرح تیزکیاتاکہ جگرگوشہ نبی کو زیادہ دیرتکلیف نہ ہونے پائے،جب چھری گردن پر چلی اور پورے زور اور پوری قوت سے چلنے کے باوجود گردن کٹنے کانام ہی نہ لے رہی تھی،حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ساتھ پڑے پتھرپر چھری چلائی تووہ پتھر دو ٹکڑے ہو گیالیکن حضرت اسمائیل علیہ السلام کی گردن پر یہ چھری ناکام رہی تاآنکہ جب چھری چلی تو جنت سے لایاگیامینڈھاذبح ہوگیا۔جس چھری کو حضرت اسمائیل علیہ السلام کی گردن پر چلناتھا،تاریخ کا مسافر بلآخر اس چھری کو کرب و بلا کی تپتی دوپہر میں امام عالی مقام امام حسین کی گردن پر چلتے دیکھتاہے۔

                حضرت اسمائیل علیہ السلام کے زمانے سے چلنے والی چھری سے درمیان میں ایک بار پھر بھی حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب ذبح ہونے سے بال بال بچ گئے تھے۔واقعہ یہ ہے کہ بنوجرہم کے جانے کے بعد سقایۃ الحاج کامنصب حضرت عبدالمطب کے حصے میں آیااور چاہ زم زم کو بنوجرہم نے مٹی ڈال کر زمین کے برابر کر دیاتھا۔کنویں کی تلاش کاکام حضرت عبدالمطلب نے اس وقت کیاجب ان کاایک ہی بیٹا ”حارث“تھا اور دونوں باپ بیٹے نے تین دن مسلسل محنت شاقہ کے بعد زم زم کا نشان نکالا تھا۔افرادی قوت کی کمی کے مشاہدے و تجربے کے بعداس موقع پر حضرت عبدالمطلب نے منت مانی تھی کہ اگران کے دس سے زیادہ بیٹے ہو گئے تو ایک بیٹاوہ اللہ تعالی کے راستے میں قربان کردیں گے۔دس بیٹوں کے پیداہونے اور ان کے جوان ہونے میں ایک طویل عرصہ گزر گیااور حضرت عبدالمطلب اپنی منت بھول بیٹھے۔کاتب تقدیرکویہ گوارانہ ہوا اور ایک سچے خواب کے ذریعے خانہ کعبہ جیسی مقدس عمارت کے اس متولی و نگران بزرگ کو اپنی منت یاد دلائی گئی۔اپنے کل بیٹوں کے ہمراہ کاہن کے پاس گئے اور کرہ ڈالا تو کرہ فال امام عالی مقام امام حسین کے پرناناکے نام نکل آیا۔حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب کوکیاخبر تھی کہ یہ ذبیحہ اصل ذبح کے آغازوانجام کادرمیان ہے۔ایک ہاتھ میں بڑی سی چھری اور دوسرے میں اپنے نورنظرعبداللہ کی کلائی تھامے جب حضرت عبدالمطلب قربان گاہ کی جانب بڑھے تو حضرت عبداللہ کی خالائیں،پھوپھیاں اور دیگررشتہ دار آڑے آ گئے۔لیکن منت کاپورا کرنا بھی توضروری تھا،چنانچہ کاہن کے مشورے سے حضرت عبدالمطلب نے بیٹے کی جان کے عوض اگلے حج کے موقع پر ایک سو اونٹوں کی قربانی کی۔ایک جان کی دیت ایک سو اونٹ کے قانون کی تاسیس بھی دراصل یہی واقعہ ہے۔

                اپنے مختصرخاندان،والدہ محترمہ،کے ساتھ تو حضرت اسمائیل علیہ السلام نے اپنے گھر سے دیار ویران کی طرف ہجرت کی،لیکن انہیں اس ویرانے میں گزرتے قبائل کے قیام کی صورت میں رونقیں اور آبادیاں میسر آگئیں،ان کی شادی بھی انہیں خانہ بدوش قبائل میں ہو گئی اور ان کی تنہائی کو بارالہ نے محفل میں بدل دیاگیااور ان کی خلوتیں اپنی حقیقت میں جلوتوں میں تبدیل ہو گئیں لیکن اپنے خاندان کے ساتھ گھرسے ویرانے کی طرف ہجرت بلآخرامام عالی مقام امام حسین کے مقدر میں آن کر ٹہر گئی اور کل خانوادہ مقدس کے ساتھ امام عالی مقام کرب و بلا کے تپتے ہوئے خشک صحرامیں غریب الدیاری کے ساتھ خیمہ زن ہوئے۔حضرت اسمائیل علیہ السلام کے ساتھ تو صرف والدہ محترمہ تھیں لیکن امام مظلوم کے ساتھ پورے خاندان کی وہ مقدس روحیں تھیں جن کے باہر نکلنے پر شمس و قمر بھی اپنی آنکھیں موند لیتے تھے اور آسمان دنیا اپنے وجود پر شرم و حیاکی ردا تان لیتاتھا،یہاں تو تقدیس و احترام کے ایسے وجود مقدسہ تھے جن کے پاؤں تلے فرشتے اپنے پر بچھاتے تھے اورکل مخلوقات ان کے لیے بارگاہ ایزدی میں دعا گورہتی تھی۔

                کرب و بلا کے راز کو اللہ تعالی ہی سمجھتاہے،کوئی انسان تن تنہا یااجتماعی طور پر کبھی اسے سمجھ پائیں گے یا نہیں؟؟؟یہ ایک تاریخی سوال ہے جس کاجواب تاریخ کا سفر ہی شاید دے سکے لیکن اس کے لیے کسی وقت یامدت کی قید انسانی حواس خمسہ کی دسترس سے باہر ہے۔اس ایک کرب و بلا کے بعد کیاخانوادہ نبی ﷺکا سفر رک گیاہے یا جاری ہے؟؟؟اس سوال کاجواب تاریخ دیتی آئی ہے دے رہی ہے اور جب تک اس زمین کے سینے پر اور اس نیلے آسمان کی چھت کے نیچے ایمان کا حامل ایک انسان بھی زندہ ہے اس سوال کا جواب ملتا رہے گا۔تاریخ کاپہیہ جب چلتاہے توجلد یابدیروقت اپنے آپ کو ضرور دہراتاہے۔واقعہ کرب و بلا کے کردارتوشاید ہمیشہ بدلتے رہیں لیکن مقدارومعیار کے تغیرکے ساتھ یہ داستان ہمیشہ زندہ رہی ہے اوررہے گی۔وقت کا طاغوت یزیدکی صورت میں اہل حق کے ساتھ ہمیشہ ستیزہ کاررہاہے اور کنارفرات کرب و بلا کاتندور ہمیشہ گرم رہاہے۔خاص طور پر گزشتہ چند دہائیوں سے توگویا پھر کوئی کرب و بلا مسلمانوں کو مسلسل پکاررہی ہے اوردھیرے دھیرے وقت کا دھارا امت مسلمہ کو ایک بار پھر میدان کرب و بلا کو تازہ کرنے چلاہے۔مشرق سے مغرب تک سیکولرازم،لبرل ازم، فرقہ بندی اور انتشارکا یزید امت مسلمہ کے حسینی کردار کوباربار للکار رہاہے،اب یہ امت مسلمہ کی بیدارمغزقیادت کا وقت امتحان ہے کہ اس معرکہ سے سرخروہوکر نکلیں اور قریب ہے کہ وقت کے یزید اپنی موت آپ مریں گے اورامت مسلمہ کی اقبال مندی کا سورج مشرق سے طلوع ہوکر کل انسانیت کو اپنے سایہ امن و سلامتی میں لے لے گا،انشاء اللہ تعالی۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
51601

ماہ محرم الحرام اور یوم عاشوراء – ابوسلمان

ماہ محرم الحرام اور یوم عاشوراء – ابوسلمان

یوم عاشوراء زمانہٴ جاہلیت میں قریشِ مکہ کے نزدیک بڑا محترم دن تھا، اسی دن خانہٴ کعبہ پر نیا غلاف ڈالا جاتا تھا اور قریش اس دن روزہ رکھتے تھے، قیاس یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کچھ روایات اس کے بارے میں ان تک پہنچی ہوں گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور تھا کہ قریش ملتِ ابراہیمی کی نسبت سے جو اچھے کام کرتے تھے، ان کاموں میں آپ ان سے اتفاق واشتراک فرماتے تھے، اسی بنا پر حج میں بھی شرکت فرماتے تھے، اپنے اس اصول کی بنا پر آپ قریش کے ساتھ عاشورہ کا روزہ بھی رکھتے تھے؛ لیکن دوسروں کو اس کا حکم نہیں دیتے تھے، پھر جب آپ مدینہ طیبہ تشریف لائے اور یہاں یہود کو بھی آپ نے عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا اور ان کی یہ روایت پہنچی کہ یہ وہ مبارک تاریخی دن ہے، جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے نجات عطا فرمائی تھی اور فرعون اور اس کے لشکر کو غرقاب کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کے روزے کا زیادہ اہتمام فرمایا اور مسلمانوں کو بھی عمومی حکم دیا کہ وہ بھی اس دن روزہ رکھا کریں(بخاری۱/۴۸۱) بعض حدیثوں میں ہے کہ آپ نے اس کا ایسا تاکیدی حکم دیا جیسا حکم فرائض اور واجبات کے لیے دیا جاتا ہے؛ چنانچہ بخاری ومسلم میں سلمہ بن الاکوعؓ اور ربیع بنت معوذ بن عفراءؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشورہ کی صبح مدینہ منورہ کے آس پاس کی ان بستیوں میں جن میں انصار رہتے تھے، یہ اطلاع بھجوائی کہ جن لوگوں نے ابھی تک کچھ کھایا پیا نہ ہو وہ آج کے دن روزہ رکھیں، اور جنھوں نے کچھ کھاپی لیا ہو وہ بھی دن کے باقی حصے میں کچھ نہ کھائیں؛ بلکہ روزہ داروں کی طرح رہیں، بعد میں جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو عاشورہ کے روزہ کی فرضیت منسوخ ہوگئی اور اس کی حیثیت ایک نفل روزہ کی رہ گئی (بخاری شریف۱/۲۶۸، مسلم شریف ۱/۳۶۰) لیکن اس کے بعد بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہی رہا کہ آپ رمضان المبارک کے فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزوں میں سب سے زیادہ اسی روزہ کا اہتمام فرماتے تھے، جیساکہ حدیث آگے آرہی ہے (معارف الحدیث۴/۱۶۸)

یومِ عاشورہ کی تاریخی اہمیت

یوم عاشورہ بڑا ہی مہتم بالشان اور عظمت کا حامل دن ہے، تاریخ کے عظیم واقعات اس سے جڑے ہوئے ہیں؛ چناں چہ موٴرخین نے لکھا ہے کہ:

(۱) یوم عاشورہ میں ہی آسمان وزمین، قلم اور حضرت آدم علیہما السلام کو پیدا کیاگیا۔

(۲) اسی دن حضرت آدم علیٰ نبینا وعلیہ الصلاة والسلام کی توبہ قبول ہوئی۔

(۳) اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا گیا۔

(۴) اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ہولناک سیلاب سے محفوظ ہوکر کوہِ جودی پر لنگرانداز ہوئی۔

(۵) اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو،،خلیل اللہ“ بنایا گیا اور ان پر آگ گلِ گلزار ہوئی۔

(۶) اسی دن حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔

(۷) اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کو قید خانے سے رہائی نصیب ہوئی اور مصر کی حکومت ملی۔

(۸) اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کی حضرت یعقوب علیہ السلام سے ایک طویل عرصے کے بعد ملاقات ہوئی۔

(۹) اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم واستبداد سے نجات حاصل ہوئی۔

(۱۰) اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توریت نازل ہوئی۔

(۱۱) اسی دن حضرت سلیمان علیہ السلام کو بادشاہت واپس ملی۔

(۱۲) اسی دن حضرت ایوب علیہ السلام کو سخت بیماری سے شفا نصیب ہوئی۔

(۱۳) اسی دن حضرت یونس علیہ السلام چالیس روز مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے بعد نکالے گئے۔

(۱۴) اسی دن حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی توبہ قبول ہوئی اور ان کے اوپر سے عذاب ٹلا۔

(۱۵) اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔

(۱۶) اور اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں کے شر سے نجات دلاکر آسمان پر اٹھایاگیا۔

(۱۷) اسی دن دنیا میں پہلی بارانِ رحمت نازل ہوئی۔

(۱۸) اسی دن قریش خانہٴ کعبہ پر نیا غلاف ڈالتے تھے۔

(۱۹) اسی دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہ سے نکاح فرمایا۔

(۲۰) اسی دن کوفی فریب کاروں نے نواسہٴ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور جگر گوشہٴ فاطمہ رضی اللہ عنہما کو میدانِ کربلا میں شہید کیا۔

(۲۱) اور اسی دن قیامت قائم ہوگی۔ (نزہة المجالس ۱/۳۴۷، ۳۴۸، معارف القرآن پ ۱۱ آیت ۹۸۔ معارف الحدیث ۴/۱۶۸)

یومِ عاشورہ کی فضیلت

مذکورہ بالا واقعات سے تو یوم عاشورہ کی خصوصی اہمیت کا پتہ چلتا ہی ہے، علاوہ ازیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس دن کی متعدد فضیلتیں وارد ہیں؛ چنانچہ:

(۱) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ما رأیتُ النبیَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یَتَحَرّیٰ صیامَ یومٍ فضَّلَہ علی غیرِہ الّا ہذا الیومَ یومَ عاشوراءَ وہذا الشہرَ یعنی شہرَ رَمَضَان (بخاری شریف۱/۲۶۸، مسلم شریف ۱/۳۶۰،۳۶۱)

میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوکسی فضیلت والے دن کے روزہ کا اہتمام بہت زیادہ کرتے نہیں دیکھا، سوائے اس دن یعنی یومِ عاشوراء کے اور سوائے اس ماہ یعنی ماہِ رمضان المبارک کے۔

مطلب یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے آپ کے طرزِ عمل سے یہی سمجھا کہ نفل روزوں میں جس قدر اہتمام آپ یومِ عاشورہ کے روزہ کا کرتے تھے، اتنا کسی دوسرے نفلی روزہ کا نہیں کرتے تھے۔

(۲) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لَیْسَ لِیَوْمٍ فَضْلٌ عَلٰی یومٍ فِي الصِّیَامِ الاَّ شَہْرَ رَمَضَانَ وَیَوْمَ عَاشُوْرَاءَ․ (رواہ الطبرانی والبیہقی، الترغیب والترہیب ۲,۱۱۵)

روزہ کے سلسلے میں کسی بھی دن کو کسی دن پر فضیلت حاصل نہیں؛ مگر ماہِ رمضان المبارک کو اور یوم عاشورہ کو (کہ ان کو دوسرے دنوں پر فضیلت حاصل ہے)۔

(۳) عن أبی قتادة رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: انّي أحْتَسِبُ عَلَی اللّٰہِ أنْ یُکفِّر السنةَ التي قَبْلَہ․ (مسلم شریف ۱,۳۶۷، ابن ماجہ ۱۲۵)

حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ عاشوراء کے دن کا روزہ گذشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔ (ابن ماجہ کی ایک روایت میں ”السنة التی بعدہا“ کے الفاظ ہیں) کذا فی الترغیب۲/۱۱۵)

ان احادیث شریف سے ظاہر ہے کہ یوم عاشوراء بہت ہی عظمت وتقدس کا حامل ہے؛ لہٰذا ہمیں اس دن کی برکات سے بھرپور فیض اٹھانا چاہیے۔

یوم عاشوراء کے ساتھ ساتھ شریعت مطہرہ میں محرم کے پورے ہی مہینے کو خصوصی عظمت حاصل ہے؛ چنانچہ چار وجوہ سے اس ماہ کو تقدس حاصل ہے:

(۱) پہلی وجہ تو یہ ہے کہ احادیث شریفہ میں اس ماہ کی فضیلت وارد ہوئی ہے؛ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کسی شخص نے سوال کیا کہ ماہ رمضان المبارک کے بعد کون سے مہینہ کے میں روزے رکھوں؟ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ یہی سوال ایک دفعہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کیا تھا، اور میں آپ کے پاس بیٹھا تھا، تو آپ نے جواب دیا تھا کہ: انْ کُنْتَ صَائِمًا بَعْدَ شَہْرِ رَمَضَانَ فَصُمِ الْمُحَرَّمَ فانَّہ شَہْرُ اللّٰہِا فِیْہِ یَوْمٌ تَابَ اللّٰہُ فِیْہِ عَلٰی قَوْمٍ وَیَتُوْبُ فِیْہِ عَلٰی قَوْمٍ آخَرِیْنَ ․ (ترمذی ۱/۱۵۷) یعنی ماہ رمضان کے بعد اگر تم کو روزہ رکھنا ہے تو ماہِ محرم میں رکھو؛ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ (کی خاص رحمت) کا مہینہ ہے، اس میں ایک ایسا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی اور آئندہ بھی ایک قوم کی توبہ اس دن قبول فرمائے گا۔

نیز حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: أفْضَلُ الصِّیَامِ بَعْدَ صِیَامِ شَہْرِ رَمَضَانَ شَہْرُ اللّٰہِ الْمُحَرَّمُ․ (ترمذی ۱/۱۵۷) یعنی ماہ رمضان المبارک کے روزوں کے بعد سب سے افضل روزہ ماہ محرم الحرام کا ہے۔

اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ صَامَ یَوْمًا مِنَ الْمُحَرَّمِ فَلَہ بِکُلِّ یَوْمٍ ثَلاَثُوْنَ یَوْمًا․ (الترغیب والترہیب ۲/۱۱۴) یعنی جو شخص محرم کے ایک دن میں روزہ رکھے اور اس کو ہر دن کے روزہ کے بدلہ تیس دن روزہ رکھنے کا ثواب ملے گا۔

(۲) مندرجہ بالا احادیث شریفہ سے دوسری وجہ یہ معلوم ہوئی کہ یہ ”شہرُ اللّٰہ“ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں کا مہینہ ہے تو اس ماہ کی اضافت اللہ کی طرف کرنے سے اس کی خصوصی عظمت وفضیلت ثابت ہوئی۔

(۳) تیسری وجہ یہ ہے کہ یہ مہینہ ”اشہر حرم“ یعنی ان چار مہینوں میں سے ہے کہ جن کو دوسرے مہینوں پر ایک خاص مقام حاصل ہے، وہ چار مہینے یہ ہیں:

(۱) ذی قعدہ (۲) ذی الحجہ (۳) محرم الحرام (۴) رجب (بخاری شریف ۱/۲۳۴، مسلم ۲/۶۰)

(۴) چوتھی وجہ یہ کہ اسلامی سال کی ابتداء اسی مہینے سے ہے؛ چنانچہ امام غزالی لکھتے ہیں کہ ”ماہِ محرم میں روزوں کی فضیلت

کی وجہ یہ ہے

ماہِ محرم کی فضیلت اوراس کی وجوہات

(۴) چوتھی وجہ یہ کہ اسلامی سال کی ابتداء اسی مہینے سے ہے؛ چنانچہ امام غزالی لکھتے ہیں کہ ”ماہِ محرم میں روزوں کی فضیلت کی وجہ یہ ہے کہ اس مہینے سے سال کا آغاز ہوتا ہے؛ اس لیے اسے نیکیوں سے معمور کرنا چاہیے، اور خداوند قدوس سے یہ توقع رکھنی چاہیے کہ وہ ان روزوں کی برکت پورے سال رکھے گا۔ (احیاء العلوم اردو ۱/۶۰۱)

یوم عاشوراء میں کرنے کے کام

احادیث طیبہ سے یومِ عاشوراء میں صرف دو چیزیں ثابت ہیں: (۱) روزہ: جیساکہ اس سلسلے میں روایات گزرچکی ہیں؛ لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار ومشرکین کی مشابہت اور یہود ونصاریٰ کی بود وباش اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے، اس حکم کے تحت چونکہ تنہا یوم عاشوراء کا روزہ رکھنا یہودیوں کے ساتھ اشتراک اور تشابہ تھا، دوسری طرف اس کو چھوڑ دینا اس کی برکات سے محرومی کا سبب تھا؛ اس لیے اللہ تعالیٰ کے مقدس پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ یوم عاشوراء کے ساتھ ایک دن کا روزہ اور ملالو، بہتر تو یہ ہے کہ نویں اور دسویں تاریخ کا روزہ کھو، اور اگر کسی وجہ سے نویں کا روزہ نہ رکھ سکو تو پھر دسویں کے ساتھ گیارہویں کا روزہ رکھ لو؛ تاکہ یہود کی مخالفت ہوجائے اور ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا تشابہ نہ رہے، جیساکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشوراء کا روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا تو بعض صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس دن کو یہود ونصاریٰ بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں(تو کیا اس میں کوئی ایسی تبدیلی ہوسکتی ہے جس کے بعد یہ اشتراک اور تشابہ والی بات ختم ہوجائے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: فَاذَا کَانَ العامُ المُقْبِلُ ان شاءَ اللّٰہ ضُمْنَا الیومَ التاسعَ قال فَلَمْ یَأْتِ الْعَامُّ الْمُقْبِلُ حَتّٰی تَوَفّٰی رسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم (مسلم شریف ۱/۳۵۹) یعنی جب اگلا سال آئے گا تو ہم نویں کو بھی روزہ رکھیں گے، ابن عباس بیان فرماتے ہیں کہ اگلاسال آنے سے پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی۔

اہم فائدہ

بعض فقہاء نے لکھا ہے کہ صرف یوم عاشوراء کا روزہ رکھنا مکروہ ہے؛ لیکن حضرت علامہ انور شاہ کشمیری نے فرمایا ہے کہ عاشوراء کے روزہ کی تین شکلیں ہیں: (۱) نویں، دسویں اور گیارہویں تینوں کا روزہ رکھا جائے (۲) نویں اور دسویں اور گیارہویں کا روزہ رکھا جائے (۳) صرف دسویں تاریخ کا روزہ رکھا جائے۔ ان میں پہلی شکل سب سے افضل ہے، اور دوسری شکل کا درجہ اس سے کم ہے، اور تیسری شکل کا درجہ سب سے کم ہے، تو حضرت شاہ صاحب نے فرمایا کہ تیسری شکل کا درجہ جو سب سے کم ہے اسی کو فقہاء نے کراہت سے تعبیر کردیا ہے، ورنہ جس روزہ کو آپ نے رکھا ہو اور آئندہ نویں کا روزہ رکھنے کی صرف تمنا کی ہو اس کو کیسے مکروہ کہا جاسکتا ہے۔ (معارف السنن ۵/۴۳۴)

(۲) اہل وعیال پر رزق میں فراخی: شریعتِ اسلامیہ نے اس دن کے لیے دوسری تعلیم دی ہے کہ اس دن اپنے اہل وعیال پر کھانے پینے میں وسعت اورفراخی کرنا اچھا ہے؛ کیونکہ اس عمل کی برکت سے تمام سال اللہ تعالیٰ فراخیِ رزق کے دروازے کھول دیتا ہے؛ چنانچہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ أوْسَعَ عَلٰی عِیَالِہ وَأہْلِہ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ أوْسَعَ اللّٰہُ عَلَیْہِ سَائِرَ سَنَتِہ․ (رواہ البیہقی، الترغیب والترہیب ۲/۱۱۵) یعنی جو شخص عاشوراء کے دن اپنے اہل وعیال پر کھانے پینے کے سلسلے میں فراخی اور وسعت کرے گا تو اللہ تعالیٰ پورے سال اس کے رزق میں وسعت عطا فرمائیں گے۔

بعض رسمیں اور بدعات

اوپر کی تفصیل سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ماہ محرم اور یوم عاشوراء بہت ہی بابرکت اور مقدس مہینہ ہے؛ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اس باعظمت مہینہ میں زیادہ سے زیادہ عبادات میں مشغول ہوکر خدائے تعالیٰ کی خاص الخاص رحمت کا اپنے کو مستحق بنائیں؛ مگر ہم نے اس مبارک مہینہ کو خصوصاً یوم عاشوراء کو طرح طرح کی خود تراشیدہ رسومات وبدعات کا مجموعہ بناکر اس کے تقدس کو اس طرح پامال کیا کہ الامان والحفیظ، اس ماہ میں ہم نے اپنے کو چنددر چند خرافات کا پابند بناکر بجائے ثواب حاصل کرنے کے الٹا معصیت اور گناہ میں مبتلا ہونے کا سامان کرلیا ہے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جس طرح اس ماہ میں عبادت کا ثواب زیادہ ہوجاتا ہے، اسی طرح اس ماہ کے اندر معصیات کے وبال وعقاب کے بڑھ جانے کا بھی اندیشہ ہے؛ اس لیے ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ اس محترم مہینہ میں ہر قسم کی بدعات وخرافات سے احتراز کرے۔ ذیل میں مختصر انداز میں اس ماہ کی چند بدعات ورسومات کی نشاندہی کی جاتی ہے۔

(۱) ماتم کی مجلس اور تعزیہ کے جلوس میں شرکت

عشرئہ محرم میں مسلمانوں کی کثیر تعداد ماتم کی مجلسوں میں، اسی طرح دسویں تاریخ کو تعزیہ کے جلوس کا نظارہ کرنے کے لیے جمع ہوجاتی ہے، اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے؛ حالانکہ اس کے اندر کئی گناہ ہیں:

(۱) ایک گناہ تو اس میں یہ ہے کہ ان مجالس اور جلوس میں شرکت کرنے سے دشمنانِ صحابہؓ کی رونق بڑھتی ہے؛ جبکہ دشمنوں کی رونق بڑھانا حرام ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ”مَنْ کَثَّرَ سَوَادَ قَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ“ (کنزالعمال ۹/۳۶) یعنی جس نے کسی قوم کی رونق بڑھائی وہ انھیں میں سے ہے۔

(۲) دوسرا گناہ اس میں یہ ہے کہ جس طرح عبادت کا کرنا اور دیکھنا اور اس سے خوش ہونا باعثِ اجر وثواب ہے، اسی طرح گناہوں کے کاموں کو بخوشی دیکھنا بھی گناہ ہے، ظاہر ہے کہ ماتم کی مجلس میں جانا اور تعزیہ نکالنا یہ سب گناہ کے کام ہیں۔

(۳) تیسرا گناہ یہ ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہے، وہاں اللہ کا غضب نازل ہوتا ہے اور ایسی غضب والی جگہ پر جانا بھی گناہ سے خالی نہیں، غرض کہ ان مجلسوں اور جلوسوں سے بھی احتراز کرنا لازم ہے۔ (مستفاد احسن الفتاویٰ ۱/۳۹۳، خیرالفتاویٰ ۱/۳۳۶)

(۲) دسویں محرم کی چھٹی کرنا

یوم عاشوراء کی چھٹی کرنے میں کئی قباحتیں ہیں، مثلاً: (۱) پہلی قباحت تو یہ ہے کہ اس دن چھٹی کرنا روافض اور اہلِ تشیع کا شعار ہے اور غیروں کے شعار سے اجتناب لازم ہے؛ کیونکہ حدیث میں ہے ”مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ“ (مشکوٰة شریف ص ۳۷۵) جس شخص نے کسی دوسری قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے۔

(۲) دوسری قباحت یہ ہے کہ اس دن چھٹی کرکے ہم لوگ بیکاری اور بے ہمتی کا مظاہرہ کرتے ہیں؛ جبکہ اہلِ تشیع اپنے مذہب کے لیے بے پناہ مشقت اور سخت محنت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

(۳) تیسری خرابی یہ ہے کہ چھٹی کرنے کی وجہ سے اکثر مسلمان تعزیہ کے جلوس میں چلے جاتے ہیں اور تعزیہ کے جلوس میں شرکت کی خرابیاں بتائی جاچکی ہیں۔

(۳) دسویں محرم کو کھچڑا پکانا

بعض لوگ محرم کی دسویں تاریخ کو کھچڑا پکاتے ہیں، یہ بالکل ناجائز اور سخت گناہ ہے، البدایہ والنہایہ میں لکھا ہے کہ سیّدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خوشی میں خوارج دسویں محرم کو مختلف اناج ملاکر پکاتے تھے۔ ”فَکَانُوْا الٰی یَوْم عَاشُوْرَاءَ یَطْبَخُوْنَ الْحُبُوبَ“ (البدایہ والنہایہ ۸/۲۰۲، ۵۹۹ بیروتی) معلوم ہوا کہ اس دن کھچڑا پکانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت سے دشمنی رکھنے والوں کی ایجاد کردہ رسم ہے، اہل بیت سے الفت ومحبت رکھنے والوں کو اس رسم بعد سے بچنا نہایت ضروری ہے۔ (فتاویٰ رشیدیہ ۱۳۸، خیرالفتاویٰ ۱/۵۵۸، بحوالہ جامع الفتاویٰ ۲۰/۵۸۸)

ایصال ثواب کے لیے کھانا پکانا

محرم کے مہینے میں خصوصاً نویں، دسویں، گیارہویں تاریخ میں بعض لوگ کھانا پکاکر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی روح کو ایصالِ ثواب کرتے ہیں، یہ طریقہ بھی بالکل غلط اور کئی قباحتوں کا مجموعہ ہے۔

(۱) جن ارواح کو ایصال ثواب کیا جاتا ہے اگر ان کو نفع ونقصان کا مالک سمجھا گیا اوران اکابرِ سلف کے نام سے وہ کھانا پکایاگیا تو یہ شرک ہے اورایسا کھانا ”مَا اُہِلَّ بِہ لِغَیْرِ اللّٰہِ“ میں داخل ہونے کی وجہ سے حرام ہے۔

(۲) عموماً یہ خیال کیاجاتا ہے کہ جو چیز صدقہ دی جاتی ہے، میت کو بعینہ وہی ملتی ہے؛ حالانکہ یہ خیال بالکل باطل ہے، میت کو وہ چیز نہیں پہنچتی؛ بلکہ اس کا ثواب پہنچتا ہے۔

(۳) ایصالِ ثواب میں اپنی طرف سے قیود لگالی ہیں یعنی صدقہ کی متعین صورت یعنی کھانا، مہینہ متعین، دن متعین؛ حالانکہ شریعت نے ان چیزوں کی تعیین نہیں فرمائی، جو چیز چاہیں جب چاہیں صدقہ کرسکتے ہیں، شریعت کی دی ہوئی آزادی پر اپنی طرف سے پابندیاں لگانا گناہ اور بدعت؛ بلکہ شریعت میں مداخلت ہے۔

(۵) پانی یا شربت کی سبیل لگانا

بعض لوگ محرم کی دسویں تاریخ کو پانی کی یا شربت کی سبیل لگاتے ہیں اور راستوں وچوراہوں پر بیٹھ کر گزرنے والے کو وہ پانی یا شربت پلاتے ہیں تو اگرچہ پانی بلانا باعثِ ثواب اور نیکی کا کام ہے؛ لیکن یہ عمل بھی مندرجہ بالا پابندیوں کی وجہ سے بدعت اور قابلِ ترک ہے۔ (مستفاد: فتاویٰ رشیدیہ ۱۳۹، خیرالفتاویٰ ۱/۵۶۹، بحوالہ جامع الفتاویٰ ۲/۵۸۸)

(۶) مٹھائی تقسیم کرنا

بعض جگہوں پر یہ بھی رواج ہے کہ دس محرم کو مٹھائی وغیرہ مسجد میں لاکر یا گھر میں ہی تقسیم کردیتے ہیں، یہ امر بھی معصیت اور خلافِ شریعت ہے۔ (مستفاد: فتاویٰ محمودیہ ۱۵/۳۴۹)

(۷) عید کی طرح زینت کرنا

بعض حضرات یومِ عاشورہ میں عید کی طرح زینت اختیار کرتے ہیں، یہ بھی بدعت ہے، اور بعض حضرات جواز کے قائل ہیں، اور تائید میں حدیث پیش کرتے ہیں؛ مگر جواز پر دلالت کرنے والی تمام احادیث موضوع ہیں۔ (فتاویٰ عبدالحئی ۵۰۹ بحوالہ جامع الفتاویٰ ۲/۵۸۹)

(۸) محرم میں نکاح کرنا

اس سلسلے میں اصل گفتگو یہ ہے کہ یہ مہینہ معظم ومحترم ہے یا منحوس ہے؟ شیعہ حضرات اس ماہ کو منحوس سمجھتے ہیں اور وجہ اس کی یہ ہے کہ ان کے نزدیک شہادت بہت بری اور منحوس چیز ہے اور چونکہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت اس میں ہوئی ہے اس لیے وہ لوگ اس میں کوئی تقریب اور خوشی کا کام شادی ونکاح وغیرہ نہیں کرتے۔

اس کے برخلاف سنیوں کے نزدیک یہ مہینہ معظم ومحترم اور فضیلت والا ہے، محرم کے معنی ہی پُرعظمت اور مقدس کے ہیں، جیسا کہ بالتفصیل مضمون کی ابتداء میں بیان کیاگیا ہے۔

جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ مہینہ اور دن افضل ہے تو اس میں نیک اعمال بہت زیادہ کرنے چاہئیں، نکاح وغیرہ خوشی کی تقریبات بھی اس میں زیادہ کرنی چاہئیں، اس میں شادی کرنے سے برکت ہوگی۔ ان شاء اللہ۔ اس مہینے میں شادی کو منحوس سمجھنا غلط بات ہے، جس سے پرہیز لازم ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کا صحیح فہم عطا فرمائے، اور ہر قسم کے گناہوں اور معصیتوں سے محفوظ فرمائے اور اپنی اور اپنے حبیبِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت واطاعت کی دولتِ عظمیٰ سے نوازے۔ آمین ثم آمین“`’/oi

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
51579

نوائے سُرود ۔ ’’کسی کے تشنہ لبوں پرسوال تھا پانی‘‘۔ شہزادی کوثر

نوائے سُرود ۔ ’’کسی کے تشنہ لبوں پرسوال تھا پانی‘‘۔ شہزادی کوثر

بے آب و گیاہ ریگستان، سبزہ وسایہ ناپید، زمین پہ کوئی جانور اور آسمان میں کوئی پرندہ نظر نہیں آرہا تھا ،آگ برساتے سورج اور لو کی تپش سے وجود جھلستا محسوس ہو رہا تھا ۔جگر گوشہ بتول رضی اللہ عنھا اورشیر خدا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نور نظر اپنے اہل وعیال اور ساتھیوں سمیت کرب وبلا کی سرزمین میں خیمہ زن ہوا۔ ان  جانثاروں میں خواتین ،بچے،جوان اور بزرگ موجود تھے جو حالات کی سنگینی اور کرختگی سے غافل نہیں تھے بلکہ انہیں یقین تھا کہ جو رستہ ہم نے چنا ہے وہ سیدھا بہشت کی طرف جاتا ہے اور نواسہ رسولﷺ نے جو فیصلہ کیا ہے وہ حق و باطل کو تمام انسانیت کے سامنے واضح کرے گا۔

خلفائے راشدین کے عہد کے بعد اسلام کی دینی ،سیاسی ،اور اجتماعی تاریخ پر جس نے سب سے زیادہ اثر ڈالا وہ کربلا کا واقعہ ہے، ساتھ ہی سنگدلی،اور بے حسی کی جو داستان اس واقعے کے ساتھ منسوب ہے اس پر نسل انسانی کا سر شرم سے جھکا رہے گا۔ دھوکہ،مکراور فریب کی ایسی اوچھی چال کوفہ والوں نے چلی کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور اہل بیت کے طرفداروں کی کثیر تعداد کوفہ میں موجود تھی وہ حضرت حسینؑ کو خط پر خط بھیجتے رہے کہ  ہم آپ کا ساتھ دیں گے ۔۔ لیکن ان کی تلواریں ابن زیاد کے حکم کی تعمیل پرمائل تھیں ۔وہ حسینؑ ابن علی کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھنے کی طاقت کے باوجود ایسا کرنے کے لیے تیار نہیں تھے ،انہوں نے عہد شکنی کی، اپنی گردن سے بیعت کا حلقہ اتار پھینکنے اور  امام حسینؑ کو دشمنوں کے حوالے کرنے تک کے روادار تھے۔ ان کی تمام ہمدردیاں اہل بیت کے بر عکس دشمنوں کے ساتھ تھیں۔ مسلم بن عقیل کو شہید کرنے کے ساتھ امام حسینؑ کے قاصد قیس بن مسہر کو بھی ابن زیاد نے قتل کر ڈالا تھا اب وہ لوگ بھروسے کے قابل نہیں رہے تھے۔                

     کوفے  کے بعد ایسی ہوا دل میں چل پڑی                        

     ہم نے کسی بھی خط پہ بھروسہ نہیں کیا                          

ابن زیاد نے حُر کو خط لکھا کہ حسینؑ کو کہیں ٹکنے نہ دو،وہ کھلے میدان کے سوا کہیں اترنے نہ پائے وہ قلعہ بند نہ ہونے پائے،انہیں سرسبزوشاداب جگہ پر پڑاو ڈالنے کی اجازت نہ دو۔۔۔۔۔      مجبورا اہل بیت کو کربلا کی سرزمین پر پڑاو ڈالنا پڑا۔ کہنے کو تو دریائے فرات سامنے تھا لیکن ابن زیاد کی سختی کی وجہ سے عمر بن سعد نے مجبور ہو کر گھات کی حفاظت پر سپاہی تعینات کر دئیے تا کہ اہل بیت تک پانی کا ایک قطرہ بھی نہ پہنچ سکے ۔                                                                              

کتنے یزید وشمر ہیں کوثر کی گھات میں                        

پانی حسین کو نہیں ملتا فرات کا                                 

ریگستان کی ہوا اور پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے معصوم بچوں کے پھول جیسے چہرے مرجھانے لگے تو امامؑ اعلی مقام نے اپنے بھائی اور علمدار حضرت عباسؑ بن علی کو حکم دیا  کہ تیس سوار اور بیس پیادے لے کر جائیں اور پانی بھر لائیں لیکن پانی کے محافظ نے رستہ روکا، اس پر باہم لڑائی ہوئی اور حضرت عباسؑ بیس مشکیں بھر لائے۔ شدید گرمی اور دو دن کی پیاس کی وجہ سے ان سپاہیوں کو پانی کی طلب تھی لیکن امام حسینؑ اور ان کے اہل وعیال کی پیاس جب تک نہیں بجھتی انہوں نے پانی پینا اپنی غیرت کے منافی سمجھا حضرت عباس سکینہ کی بیقراری دیکھ کر کیسے پہلے پانے پی سکتے  ۔ٰ میر انیس کہتا        ہے                                                                                     

گرمی سے تشنگی میں کلیجہ تھا آب آب                                       

تڑپا رہا تھا قلب کو موجوں کا پیچ وتاب                                       

آجاتے تھے قریب جو ساغر بکف حباب                                       

کہتا تھا منہ کو پھیر کہ وہ آسماں جناب                                        

عباس آبرو میں تیری فرق آئے گا                                             

پانی پیا تو نام وفا ڈوب جائے گا                                               

امام اعلی مقام کے ساتھیوں میں وفاداری اور آل رسولﷺ سے محبت کی ایسی صفات تھیں جس کی وجہ سے انہوں نے آپ کو چھوڑ کر جانے کی تجویر یکسر مسترد کر دی ۔رات کے وقت حضرت نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا تم سب خاموشی سے نکل جاو میں چراغ بجھاتا ہوں میرے اہل بیت کا ہاتھ پکڑو اور تاریکی میں ادھر اُدھر چلے جاو،میں خوشی سے تمہیں رخصت کرتا ہوں ،یہ لوگ صرف مجھے چاہتے ہیں میری جان لے کر تم سے غافل ہو جائیں گے۔۔۔                                                                                  

شبیر نے اس رات کے رتبے کو بڑھایا                                                                                                                             

ہر نور سے پُر نور تھا اس رات کا سایہ                    

شبیر نے جس وقت چراغوں کو بجھایا                    

محشر کے اجالوں کو اندھیروں میں دکھایا                 

شبیر سلاتا ہے مقدرکو جگا کر                             

کردار پرکھتا ہے چراغوں کو بجھا کر                     

لیکن تمام ساتھیوں نے آپ کے ساتھ جان دینے کو اپنی سعادت سمجھا اور اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہانے کے لیے تیار ہوگئے۔ان اعلی مرتبت جان نثاروں نے راستے کی تھکان ،پیاس کی شدت ،ظلم وجبر کو برداشت کرنے اور حسینؑ کی آخری دم تک حفاظت کرنے کی قسم کھائی ،اپنی جان ،مال اور اولاد کو بھی آل رسولﷺ پر بخوشی قربان کرنے پر کمر بستہ ہو کر اعلی کردار کا ثبوت دیا۔ دنیاوی محبت اور سکون کی زندگی کے حصول کے لیے نفس وشیطان کی بے صبریاں ان کے ایمان واستقامت پر غالب نہ آسکیں ،صبر ورضا ،توکل اور استقامت کی ایسی مثال کہیں نہیں ملتی۔ امام حسینؑ نے ہر سختی اور مصیبت میں اللہ پر توکل کیا سچائی اور حق پرستی کو قربان نہیں ہونے دیا ۔ریا کاری سے حق چھیننے والوں کے آگے سینہ سپر ہو کر آنے والے زمانوں پریہ ثابت کر دیا کہ فریب کے مقابلہ میں جیت ہمیشہ راست بازی کی ہوتی ہے۔

دین حق پر کٹ مرنے والوں کی ہمیشہ جیت ہوا کرتی ہے۔ اسلام کی شمع کو روشن رکھنے کے لیےلہو کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر چہ  اقتدار کے بھوکے بھیڑیوں نے حق کے راستے میں رکاوٹیں ڈال کر انہیں منزل سے دو ر کرنے کی کوشش کی لیکن امام اعلی مقام نے اپنی جان دے کر یہ ثابت کر دیا کہ حق کا راستہ اپنانا آسان نہیں ، یہ تلوار کی دھار پر چلنے جیسا ہے ،لیکن لگن سچی اور اللہ پر توکل ہو توشیر خوار  بچے سے لے کر ستر سال کے بزرگ تک طوفان کا رخ موڑ سکتے ہیں۔  کربلا صرف زمیں کا ٹکڑا نہیں جہاں نواسہ رسولﷺ اور اہل بیت شہادت کا جام پی کر امر ہو گئے، بلکہ یہ صفحہ دہر پر ثبت ہونے والا وہ نقش ہے جو نورو ظلمت کے درمیان حد امتیاز ہے، یہ انسانیت اور    شیطانیت کو پرکھنے کی کسوٹی ہے، یہ شفقت و محبت کے مقابلے میں حیوانیت و بربریت  کی ایسی المناک داستان ہے جسے نسل انسانی تا قیامت یاد رکھے گی اور اس پر خون کے آنسو بہاتی رہے گی۔                                                                    

 فرات میری آنکھوں کا سوکھتا ہی نہیں                       

کسی کے تشنہ لبوں پرسوال تھا پانی                        

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51577

موسیقی کلچر ، تہذیب اور مذہب کے تناظر میں ۔ تحریر: محمدپرویزبونیری

موسیقی یاناچ گانا دنیاکی ہرقوم اور ہردورمیں کسی نہ کسی شکل میں موجودرہاہے۔ایک طرف لوگ تفنن طبع اورتفریح کے لئے موسیقی سے محظوظ ہوتے ہیں اوردوسری طرف اس شعبے سے وابستہ افراد اسے شغل یا ذریعہ معاش کے طورپر اپناتے ہیں۔دنیاکی ترقی کے ساتھ ساتھ موسیقی اورآلات موسیقی میں بھی بہت جدت آگئی ہے جبکہ کیمرے کی ترقی نے موسیقی اورناچ گانے کے فروغ اورجدت میں بہت اہم کردار اداکردیاہے۔اس شعبے سے وابستہ مرداورخواتین شادی، بیاہ اوردوسری مختلف قسم کی تقریبات میں باقاعدہ مدعوکئے جاتے ہیں اورانہیں اس شُغل کے بدلے میں اجرت دی جاتی ہے، جس سے انکے گھروں کاچولھاجلتاہے۔موسیقی اورناچ گانے سے وابستہ افرادمختلف زبانوں میں مختلف ناموں سے پکارے جاتے ہیں۔اردومیں انکے لئے موسیقار، گلوکار،گویا،طوائف، ڈومنی اوررقاصہ جیسی اصطلاحات مستعمل ہیں مگر جب موسیقی اورناچ گانا فنون لطیفہ، شائستگی اورشرافت کی حدود سے تجاوزکرکے حسن پرستی، عیاشی،بے حیائی، ابتذال اورپھکڑپن کی شکل اختیارکرلے اوررقص ونغمہ کی محفلیں تسکین نفس کاسامان بنے توپھر انکے لئے رکیک اورمتبذل قسم کی اصطلاحات بھی استعمال ہوتی ہیں۔

بہرحال موسیقی شرافت وشائستگی، اخلاق واخلاص اورآدابِ محفل کی رعائت کے ساتھ اس قدر مذموم عمل نہیں سمجھاگیاہے، بہرحال اسے کسی بھی قوم نے اپنی ثقافت، تہذیب اورمذہب کے اعلیٰ قدروں میں شمارنہیں کیاہے۔یہی وجہ ہے کہ اس شعبے سے وابستہ مرد اورخواتین ہرقوم اورہر دور میں معاشی تنگدستی کے ساتھ ساتھ قدرومنزلت اورعظمت والے مرتبے سے محروم رہتے ہیں۔گوکہ موسیقی یاناچ گانا بحیثیت فنون لطیفہ کسی بھی قوم یاخطے کی تہذیب اورثقافت کاجزو ہوسکتاہے مگریہ کسی قوم یاخطے کی ثقافت یاتہذیب نہیں ہوسکتی۔ اگرکوئی انسان بہ بانگ دہل یہ دعویٰ کرتاہے کہ موسیقی ہماری تہذیب یاثقافت ہے توانکی یہ بات انتہائی احمقانہ اورجہالت پر مبنی ہوگی۔جزو کی حیثیت ہمیشہ عارضی ہوتی ہے اوراس پر کُل کااطلاق نہیں ہوتا، اس لئے کسی ایک جزو کو پوری تہذیب یاثقافت کہنا درست نہ ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے تہذیب اورثقافت کی تعریف جان لینا بہت ضروری ہے۔


بقو ل سرسید”جب ایک گروہ انسانوں کاکسی جگہ اکھٹابستاہے تواکثران کی ضرورتیں اوران کی حاجتیں، غذائیں اورپوشاکیں، انکی معلومات اورخیالات، مسرت کی باتیں، نفرت کی چیزیں سب یکساں ہوتی ہیں اوربرائی اوراچھائی کے خیالات بھی یکساں ہوتے ہیں اوریہی ایک قوم یاگروہ کاسیولائزیشن ہے۔“


علامہ اقبال کے خیال میں تمدن کاتعلق ظاہری آداب اوررسوم سے ہے جبکہ تہذیب کاتعلق انسان کی باطنی اورذہنی کیفیتوں سے ہے۔ اس سلسلے میں کلچر کی سب سے جامع تعریف ڈاکٹرجمیل جالبی نے کی ہے، جن کے مطابق،”کلچرایک ایسالفظ ہے جوزندگی کی ساری سرگرمیوں کا خواہ وہ ذہنی ہوں یا مادی، خارجی ہویاداخلی احاطہ کرلیتاہے۔کلچراس کل کانام ہے جس میں مذہب وعقائد، علوم واخلاقیات، معاملات اورمعاشرت، فنون وہنر، رسم ورواج، افعال ارادی اورقانون، صَرفِ اوقات اوروہ ساری عادتیں شامل ہیں جن کاانسان معاشرے کے ایک رکن کی حیثیت سے اکتساب کرتاہے اورجن کے برتنے سے معاشرے کے متضاد اورمختلف افراد اورطبقوں میں اشتراک ومماثلت، وحدت اوریکجہتی پیداہوجاتی ہے۔کلچرمیں زندگی کے مختلف مشاغل، ہنر اورعلوم وفنون کو اعلیٰ درجے میں پہچاننا، بری چیزوں کی اصلاح کرنا، تنگ نظری اورتعصب کو دورکرنا، غیرت وخودداری، ایثارووفاداری،اخلاق میں تہذیب اورشائستگی اوراپنی اعلیٰ روایات کی پاسداری، یہ ساری چیزیں شامل ہیں“۔ڈاکٹرغلام جیلانی برق نے مختصرالفاظ میں کہاہے کہ کلچرصرف ذہنی جلا، دانش اوراس نقطہ نگاہ کانام ہے جوعمل، مطالعہ اورایمان سے پیداہوتاہے۔


کلچر کی ان جامع تعریفوں میں کہیں بھی یہ بات نہیں ہے کہ موسیقی اورناچ گانا کسی قسم قوم کاکلچرہے بلکہ یہ کسی قوم کے کلچر کاادنیٰ جزو ہے، جسے اس قوم کے کچھ افراد تفریح اورتفنن طبع کی خاطر استعمال کرتے ہیں جبکہ اکثرافراد اسے معاشرتی، تہذیبی اورمذہبی لحاظ سے مذموم قراردیتے ہیں۔ بادشاہ اکبر ایک سیکولرانسان تھے اورجن کے عقیدے میں ہندؤازم کو مرکزی اہمیت حاصل تھا،مگرمبینہ طورپر انہوں نے اپنے اکلوتے اورتاج وتخت کے وارث فرزند کو صرف اس وجہ سے عتاب کانشانابنایاکہ اس نے ایک طوائف سے محبت کی تھی۔دنیاکی مختلف تہذیبوں اورمذاہب میں اہل علم،مذہبی لوگ اوراشرافیہ موسیقی اورناچ گانااپنانے کو معیوب سمجھتے ہیں اوراپنی اولادکے لئے بھی اسے ناپسند قراردیتے ہیں۔

ہمارااشرافیہ اپنی اولاد کے لئے رقاصہ، ڈومنی اورموسیقار جیسے القاب کبھی پسند نہیں کرتے۔ جہاں تک مذہب کاتعلق ہے تو اسلام میں کہیں بھی موسیقی کوجائز قرارنہیں دیاگیاہے بلکہ جتنے بھی مذہبی لوگ ہیں، وہ سب متفقہ طورپر موسیقی کو حرام قراردیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کاواضح حکم ہے کہ خبردار اللہ تعالیٰ کے ذکرسے اپنے دلوں کو مطمئن کرو۔یعنی دل اورروح کی اصل غذا ذکرالٰہی ہے نہ کہ موسیقی اورناچ گانا۔اب جو لوگ کسی نہ کسی شکل میں موسیقی کے حق میں زمین آسمان کے قلابے ملاکر بے بنیاد دلائل سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ موسیقی ہمارا کلچرہے، انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ موسیقی کبھی کسی قوم کاکلچر، تہذیب یامذہب نہیں ہوتابلکہ یہ کلچریاتہذیب کاادنیٰ جز وہوسکتاہے، جسے کبھی قبول عام حاصل نہیں ہواہے بلکہ مذموم اورمعیوب سمجھی جاتی ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51573

افغان طالبان کی جنگی حکمت عملی پر ایک نظر! – قادر خان یوسف زئی

افغان طالبان کی جنگی حکمت عملی پر ایک نظر! – قادر خان یوسف زئی

افغانستان میں افغان طالبان کی تیزی سے بڑھتی پیش قدمی اور قریباََ پورے افغانستان کا کنٹرول بظاہر’چند ہفتوں‘  میں حاصل کرلینا، دنیا کے لئے باعث حیرت ہے کہ یہ کس طرح ہوگیا ، امریکی صدر بھی شدید تنقید کی زد میں اور انہیں فوجی انخلا کو عجلت کا موجب قرار دے کر موجودہ صورت حال کا ذمے دار قرار دیا جارہا ہے۔ مغرب میں یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ جنگ تو اربوں ڈالر ز خرچ کئے بغیر نہیں لڑی جاسکتی، تو اس پر مختلف آرا ء اور تھیوریوں سامنے آرہی ہیں کہ افغان طالبان، مبینہ طور پر  افیون کی پیداوار، اسمگلنگ، کان کنی، اغوا برائے تاوان سمیت روس، ایران اور پاکستان سے مالی امداد حاصل کرتے ہوں گے۔ امریکہ تو باقاعدہ روس پر الزام عائد کرچکا کہ مبینہ طور پر افغان طالبان کو جنگی ساز و سامان سمیت مالی مدد بھی دے رہا ہے۔سوویت یونین کے خلاف جنگ میں امریکہ نے بھی اپنے خزانے کھولے تھے بالفرض مبینہ الزام کو مان لیتے ہیں تو جیسی کرنی ویسی بھرنی والا معاملہ ہی سمجھ لیں، ویسے بھی یہ کوئی انہونی بات نہیں، تاہم یقینی طور پر اس حوالے سے کوئی مصدقہ اطلاع نہیں۔


یہاں ایک نہیں بلکہ کئی سوال اٹھتے ہیں کہ یہ جو امریکی ٹینک و بھاری جنگی ساز و سامان افغان طالبان استعمال کررہے ہیں، ان کے قبضے میں کیسے آئے؟۔ جنگی پوسٹوں پر بھاری ہتھیاروں کے ذخائر غنی انتظامیہ نے دیئے یا ٹرمپ اور بائیڈن انتظامیہ نے، اب جو  مکمل افغانستان پر افغان طالبان کی عمل داری کو دنیا تسلیم کرچکی تو وہاں موجود اربوں ڈالر و سونے کی شکل میں ملنے والی بلیک منی و کرپشن سے حاصل، مال غنیمت کیا افغان طالبان کے لئے کافی نہیں۔ اس نکتے کو یہیں تک محدود رکھ دیں کہ افغان طالبان کے لئے رقوم کا حاصل کرنا مشکل کام نہیں تھا اور نہ ہے۔ اب آتے ہیں کہ اتنے جلدی افغانستان ان کے کنٹرول میں کیسے آگیا، یہاں تک کہ ماضی میں سب سے زیادہ مزاحمت کرنے والے علاقوں میں بھی انہیں جنگ کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور افغان سیکورٹی فورسز سمیت کابل انتظامیہ کے ہمراہ جنگجو گروپوں نے بھی ہتھیار ڈال دیئے، افغانستان کی صورت حال کا مستقل جائزہ لینے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ افغان طالبان نے اپنی گوریلا وار اسٹریجی ایک مہینے قبل نہیں بلکہ 20 برسوں سے اختیار کی ہوئی ہے، انہوں نے غیر ملکی افواج و افغان سیکورٹی فورسز کے ساتھ ساتھ جنگجو گروپوں کے ساتھ سخت جھڑپوں کے بعد افغانستان کے پچاس فیصد سے زائد علاقوں پر کئی برس قبل ہی قبضہ کرلیا تھا، یہ باقی ماندہ وعلاقے صرف اس لئے محفوظ تھے کہ امریکہ و نیٹو افواج زمینی جنگ کے بجائے فضائی حملوں میں اندھا دھند بمباریاں کرتے تھے۔ ٹرمپ کی جانب سے مدر آف آل بمز کا بھیانک تجربہ کسی کے ذہن سے محو نہیں ہوا ہوگا۔ گوریلا  وار دنیا کی سب سے سخت اور دقت آمیزقرار دی جاتی ہے، ویت نام میں امریکہ کو ناکوں چنے چبانے میں گوریلا وار نے ہی اہم کردار ادا کیا تھا۔


اب کچھ حلقوں کے اُن مفروضوں کی جانب بڑھ جاتے ہیں جیسے ہضم کرنے کے لئے اس الزام کے لئے بھی تیار رہنا ہوگا کہ افغان طالبان کی جنگی حکمت عملی کی تشریح کرنے والے ان کے حامی ہوسکتے ہیں، تاہم اسے ایک مفروضہ ہی سمجھ لیں کہ اگر افغان طالبان کی جنگی حکمت عملی سمجھ میں نہ آرہی ہو تو تاریخ میں ایسے ان گنت واقعات درج ہیں کہ ہفتو ں کے اندر اندر کئی حکمرانوں نے فتوحات حاصل کی، ایک ہی مثال سمجھانے کے لئے کافی ہے کہ الیگزینڈرسکندر اعظم نے آرگنائز آرمی کے ساتھ 10 برسوں میں 17لاکھ مربع میل کا علاقہ قبضہ کیا تھا، جب کہ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالہ عنہ نے صرف دس برسوں میں دنیا کی دو سپر پاور روم اور ایران کے ساتھ آرگنائز آرمی کے بغیر 22لاکھ مربع میل کے علاقے کو فتح کیا۔  الیگزینڈر کا نام صرف کتابوں میں سمٹ کر رہ گیا جب کہ حضر ت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے بنائے  نظام دنیا کے 245 ممالک میں آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔  یقین کیجئے کہ صرف جنگی حکمت کے عزم  و جذبے کے حوالے سے موازنہ کرانے کے لئے صرف اُن حقائق کو سامنے رکھنے کی جسارت کی،جس سے سمجھنے میں مدد ملے گی کہ  افغانستان کا کل رقبہ تو صرف 652230   مربع کلو میٹر پر محیط ہے، یہاں تو چار دہائیوں سے جنگ جاری ہے،20برس پنجہ آزمائی کرنے کے بعد امریکہ نے 52ممالک کے ساتھ واپسی کی راہ لی،کیا دنیا دیکھ نہیں رہی کہ پہلے گھوڑے ہوتے تھے جس پر سوار ہوکر فتوحات حاصل کی جاتی تھی آج صرف موٹر سائیکل سواربھاری جنگی ہتھیاروں کے ساتھ اضلاع و دارلحکومتوں پر قبضہ کررہے ہیں۔ امریکہ کے خوف کا یہ عالم کہ پہلے تو اپنی تمام فوج کو واپس بلا لیا، لیکن چند افراد کے لئے تین ہزار سے زائد فوجی دستے دوبارہ کابل بھیج دیئے، کویت میں ڈیرے جما لئے، سمندر میں بحری جنگی بیڑوں کو الرٹ کردیا۔


افغان طالبان کی  جنگی حکمت عملیمیں بادی ئ النظر یہی اسٹریجی نظر آتی ہے کہ ان کے حامیوں کی بڑی تعداد افغان سیکورٹی فورس میں شامل ہوئے،”بلیو و گرین وار“  اس حکمت عملی کی توثیق کرتی ہے۔ جھڑپوں میں سیکورٹی فورسز پر حملوں اور پھر 52ممالک اور سپر پاور امریکہ کی شکست کے بعد واپسی نے افغان عوام سمیت افغان فوجیوں کے دل و دماغ میں افغان طالبان کو تسلیم کرنے کا رجحان کو بڑھایا۔ افغان طالبان نے معروف جنگجوؤں کو عام معافی کے اعلان میں عزت کے ساتھ جان کی امان دے کر اپنی کامیابی کی راہ ہموار کی۔ کابل انتظامیہ نے افغان عوام کو نسلی و فرقہ وارانہ بنیادوں پر خانہ جنگی کروانے کی کوشش کی، لیکن مزار شریف جیسے شہروں اور تمام بارڈر کراسنگز  پر قبضے نے ثابت کردیا کہ افغان عوام اب طویل جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
 کیا دنیا یہ نظارے نہیں دیکھ رہی کہ جہاں جہاں افغان طالبان جاتے ہیں عوام اُن سے گھل مل جاتے ہیں، ان کے ساتھ بنا خوف و ڈر سیلفی بناتے ہیں، امریکی ٹینکوں پر جشن مناتے ہیں، کیا یہ افغان طالبان کے خلاف مزاحمت نہیں کرسکتے تھے، کیا یہ افغانی نہیں ، ایسا نہیں ہے، افغانی صرف امن چاہتے ہیں، جو انہیں ایک مضبوط اور طاقت ور قیادت کی صورت میں مل سکے، فی الوقت تو افغان جنگ میں بھرپور مسلح مزاحمت دیکھنے میں نہیں آئی۔ یہ ضرور ہے کہ کابل انتظامیہ اور ان کے جنگجوؤں نے عوام میں اس قدر خوف و ہراس پیدا کیا کہ وہ بعض علاقوں سے نقل مکانی  کرچکے، اور خود بھی فرار ہوگئے، لیکن ان کی جلد واپسی ہوگی کیونکہ وہاں تو افغان سیکورٹی فورسز نے بنا لڑے ہتھیار ڈال دیئے، جسے عوامی ریفرنڈم بھی کہا جاسکتا ہے،  اب کسیبڑی جنگ کا کوئی امکان نظر نہیں آتا، اس لئے دنیا کو بھی دیکھنا چاہے کہ جن جن علاقوں میں افغان طالبان گئے وہاں عوام نے ان کا استقبال کرکے انہیں تسلیم کیا۔ پھر جبر کا سوال کہاں سے پیدا ہوتا ہے۔افغان عوام کے فیصلوں کو دنیا کو بالاآخر تسلیم کرنا ہوگا کیونکہ یہی سب کے حق میں بہتر ہے۔ ( با شکریہ جہان پاکستان  )

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51571

کیا تیل اور گیس کی قیمتوں پر ہمارا کوئی کنٹرول نہیں ؟ – غزالی فاروق

کیا تیل اور گیس کی قیمتوں پر ہمارا کوئی کنٹرول نہیں ؟ – غزالی فاروق

کچھ روز قبل  تیل کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ کرنے پر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات   فواد چوہدری صاحب  نے بیان دیتے ہوئے کہا “عالمی مارکیٹ میں  تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے باعث حکومت کے پاس تیل کی قیمتوں میں اضافے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔” تیل کی قیمتوں میں اضافے کے دفاع میں حکومت کی جانب سے  علاقائی ملکوں کی قیمتوں سے تقابلی جائزہ اور پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی  (Petroleum Development Levy)کے ختم ہونے کے دلائل دئیے گئے۔  اور یوں بےبسی اور لاچارگی کی تصویر بن کر عوام کو مسلسل کڑوا گھونٹ پینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی۔

 لیکن  اس کے بر عکس اگر مسٔلہ کا ذرا سا گہرائی  میں جا کر تجزیہ کیا  جائے  تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ بے چارگی اور بے بسی  ہمارے حکمرانوں  کی  خود مسلط کردہ  ہے، نہ کہ یہ کوئی آفاقی حقیقت ہے کہ  جس کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔تیل کی عالمی قیمتیں   اوپیک (OPEC)کی جانب سے تیل کی سپلائی کم یا زیادہ کرنے سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں ، البتہ  یہاں پر اہم بات یہ ہے  کہ سپلائی بڑھانے یا کم کرنے کا فیصلہ معیشت کے اصولوں یا مارکیٹ ڈیمانڈ کے مطابق  نہیں کیا جاتا  بلکہ عالمی قوتوں کے مفادات کی خاطر کیا جاتا ہے۔لہٰذا  جب امریکہ اور یورپ کو سستے تیل کی ضرورت تھی تاکہ اس سے ان کی صنعت، ٹرانسپورٹ اور معیشت کا پہیہ تیزی سے چلتا رہے تو اس وقت یہ تیل دہائیوں تک 25 ڈالر فی بیرل سے بھی کم قیمت پر فروخت ہوتا رہا، یعنی یہ تیل فرانس کے منرل واٹر سے بھی سستا بکتا رہا ۔  ڈاکومینٹری فارن ہیٹ 9/11 کے مطابق سعودی عرب کے تیل سے امریکہ نے 88 کھرب ڈالر سے زائد کا فائدہ اٹھایا ۔ لیکن  اب جب  کہ امریکہ کو   اس بات کی  ضرورت ہے کہ  عالمی مارکیٹ میں تیل اور گیس کی مصنوعات  کی قیمتیں زیادہ ہوں  تا کہ  اس کی   شیل (Shale)   پر مبنی تیل  اور گیس  کی   مہنگی لاگت والی  مصنوعات عالمی منڈی میں   قابل فروخت (competitive) بن سکیں  اور وہ  ان کے  مزید ذخائر کی تلاش میں آنے والی لاگت کو بھی  پورا کر سکے   ، تو امریکہ اوپیک ممالک کے ذریعے ان مصنوعات کی سپلائی کم کروا دیتا ہے جس کے باعث ان  کی قیمتیں بڑھنے لگتی ہیں  اور امریکی شیل آئل اینڈ گیس کمپنیاں کامیاب ہونے لگتی ہیں۔ انہی قسم کے اقدامات کی بدولت   امریکہ دنیا کا شیل آئل و گیس پیدا کرنے والا بڑا ملک بن گیا ہے۔ 

اسی طرح جب امریکہ کو ایران پر دباؤ بڑھانا ہوتا ہے تو وہ بقیہ او پیک ممالک کے ذریعے پٹرولیم مصنوعات کی سپلائی کو بڑھا  دیتا ہے ۔ یوں عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات  کی قیمتیں گر جاتی ہیں جس سے ایرا ن کی معیشت کو زک پہنچتی  ہے ، جس کا ایک بڑا حصہ   تیل کی فروخت سے حاصل ہونے والے منافع پر مبنی ہے۔

لہٰذا عالمی منڈی میں  پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے  کی  وجہ اکثر و بیشتر  عالمی قوتوں کے مفادات  کا تحفظ ہوتا ہے۔ اور ایسا اوپیک ممالک     کے حکمرانوں کی عالمی قوتوں  کے ساتھ ملی بھگت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اور ان اوپیک ممالک میں بہت سے مسلم ممالک بھی شامل ہیں۔ لہٰذا یہ مسٔلہ مسلمان ممالک کے حکمرانوں کا  خود مسلط کردہ ہے جس کو وہ چاہیں تو یکسر تبدیل کر سکتے ہیں۔  اگر عالمی قوتیں تیل کی قیمتوں کا تعین اپنے مفادات کے مطابق کرتی ہیں اور ان قیمتوں کے سامنے ‘بےبس و لاچار’نہیں، تو کس نے مسلمانوں کے حکمرانوں کو روکا ہے کہ وہ  وسطی ایشیا، مشرق وسطہ اور افریقہ کے  مسلم ممالک  کو ایک ہی لڑی میں پرو  کر ان کے وسائل کو یکجا کر  دیں، جبکہ  ہم جانتے  ہیں کہ زیادہ تر تیل کے ذخائر مسلمانوں کے پاس  ہی ہیں؟! لیکن وہ  ایسا   نہیں کرتے کیونکہ یہ ان کے اپنے مفادات کے خلاف ہے اور انہیں مسلمانوں کے مفاد سے زیادہ اپنا مفاد عزیز ہے۔

 تیل اور گیس  کی قیمتوں میں زیادتی کی  ایک  دوسری بڑی وجہ بھی  ہے  جو ہمارے حکمرانوں کے کنٹرول میں ہے۔ پٹرولیم سیکٹر  اسلام کے قانون معیشت کے مطابق  عوامی ملکیت   کے زمرے میں آتا ہے  نہ کہ کسی شخص یا  چند لوگوں  کی نجی ملکیت میں۔لہٰذا اگر  اس سیکٹر کو اسلام کی رو سے عوامی ملکیت    قرار دے دیا جائے تو ڈیلر کمیشن اور پٹرولیم مارکیٹنگ کمپنیوں سمیت آئل  سپلائی چین میں شامل پارٹیوں کا منافع ختم کر کے عوام کو ریلیف دیا جا سکتا ہے۔یوں ریاست عوام کی جانب سے  اس سیکٹر کو ریگولیٹ کرے گی  جس سے تیل اور گیس  کی قیمتیں عالمی منڈی میں اضافے کے باوجود لوگوں کی دسترس میں رہیں گی۔ اور اس سیکٹر سے  جو بھی منافع حاصل ہو گا  ، ریاست اسے  عوام  پر خرچ کرنے کی مجاز ہو گی۔ یوں  اس  سیکٹر سے حاصل ہونے والا بھاری منافع جو اس وقت  چند لوگوں کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے،  وہ  تمام عوام میں تقسیم ہو  گا۔

سرمایہ دارانہ نظام میں یہ بہت بڑا مسٔلہ ہے کہ  چونکہ ان کے ہاں  ” آزادیوں” کی فکر  کو عقیدے کی حیثیت حاصل  ہے، اس وجہ سے وہ   “ملکیت”  سمیت تمام معاملات میں   ” آزاد”  ہیں۔ یوں تو  بظاہر   اپنے نام سے  ” آزادیٔ ملکیت”  ایک    بہت دلکش فکر معلوم ہوتی  ہے لیکن ایک سرسری سے مطالعے کے بعد ہی یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ دراصل  “لوگوں  کے  معاشی استحصال کی آزادی “ہے۔ کیونکہ جب لوگوں کو  ملکیت کی مطلق  آزادی  حاصل ہو تی ہے  اور نظام  یہ  ریگولیٹ نہیں کرتا  کہ   کس قسم کی  اشیاء کو نجی ملکیت میں   دیا جا سکتا ہے اور کس  کو نہیں ، تو نتیجتاً   اثر و رسوخ اور  سرمایے کے حامل  چند لوگ  ان  وسائل کے بھی تنہا مالک بن بیٹھتے ہیں  جن کا تعلق  اصلاً لوگوں کی بنیادی ضروریات سے ہوتا ہے۔  یوں  ان وسائل کے عوامی نوعیت کے ہونے کی وجہ سے وہ چند سرمایہ دار    بھاری منافع خوری کرتے ہیں  کیونکہ ریاست یا معاشرے کا  ہر شخص ہی ان کا کسٹمر ہو تا ہے،  اور اس طرح  پیسہ  تمام لوگوں کی جیبوں سے نکل کر صرف چند لوگوں کی جیبوں میں منتقل ہو  جاتا ہے۔ تبھی تو  اس نظام کا نام سرمایہ دارانہ نظام یا کیپٹلزم (Capitalism)ہے      کیونکہ یہ  صرف سرمایہ داروں  کو  فائدہ پہنچاتا ہے،  جبکہ اس کی بھاری  قیمت عوام کو  مہنگائی اور    غربت و افلاس کی  صورت میں ادا  کرنی پڑتی ہے۔ ہمارے حکمران اگر چاہیں تو   اس نظام کو ایک حکم نامے سے تبدیل کر کے اس کی جگہ پر  اسلام کے معاشی نظام  کو  رائج کر سکتے ہیں۔ اس لیے  بھی ان کے پاس اس بے بسی اور لاچارگی  کا کوئی جواز نہیں جس کا وہ اظہار کرتے ہیں۔

 پھر  جنرل سیلز ٹیکس جیسا  ظالمانہ ٹیکس  قیمتوں کی زیادتی   کی ایک اور بڑی وجہ   ہے ۔  یہ وہ ٹیکس ہے  جو   “بالواسطہ  ٹیکس ” (Indirect Tax) کے زمرے میں آنے کی وجہ سے سبھی پر لاگو ہوتا ہے۔  یعنی چاہے کسی کے پاس  کھانے کو روٹی تک نہ ہو ، اسے  بھی یہ ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے  ۔ پھر  اپنی نوعیت کے اعتبار سے   “جنرل “یعنی  عمومی   ہونے کی وجہ سے یہ ٹیکس  ان اشیاء پر بھی لاگو ہوتا ہے جو ایک انسان کی بنیادی ترین ضروریات سے تعلق رکھتی ہیں۔   اگر   ہمارے حکمران   چاہیں تو عوام کو  ایک لمحے میں  اس قسم کے ظالمانہ ٹیکسوں سے چھٹکارہ دلا  سکتے ہیں  لیکن   ایسا کرنے کی بجائے وہ اپنی بے بسی کا ایسے اظہار کرتے نظر آتے ہیں جیسے ان کے بس میں کچھ بھی نہ ہو۔

لہٰذا صرف اسلام کا نظام ہی لوگوں کو  معاشی استحصال اور  خود ساختہ مہنگائی جیسے مسائل سے نجات  دلا سکتا ہے۔  انگریز کی کھینچی گئی سرحدوں میں قید اور  مغرب کے مسلط کردہ عالمی آرڈر کی چوکھٹ پر سجدہ ریز  رہ کر پاکستان  اور دیگر مسلمان ممالک کبھی بھی عالمی طاقتوں کی مسلط کردہ بیڑیوں کو نہیں توڑ پائیں گے ، خواہ وہ تیل کی عالمی قیمتوں پر موثر طور پراثر اندازہونا ہو،  مسلم مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانا ہو، آئی ایم ایف یا ایف اے ٹی ایف کے چنگل سے نکلنا ہو یا ڈالر کرنسی کا عالمی تجارت پر کنٹرول توڑنا ہو۔  مسلمانوں کو اب اپنے  اپنے وطن اور  قوم  کے   لیول سے  بلند ہو  کر       امت کے لیول پر آ کر  سوچنا ہو گا اور امت کے اتحاد  کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا باقاعدہ  تعین کرنا ہو گا ۔ صرف اور صرف اسی میں  ان کی کامیابی اور ترقی کا راز پنہاں ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51562

تلخ و شیریں ۔ افغان طالبان کی فتح ۔ نثار احمد

الآخر وہ دن دیکھنا ہمیں نصیب ہوا جسے دیکھنے کی تمنا لے کر کئی سفید ریش بزرگ اس دنیا سے چلے گئے۔ باقی کیا، امریکہ کے ہاں میں ہاں نہ ملا کر گوریلا جنگ کا بڑا فیصلہ والے ملا عمر مرحوم بھی دن دیکھنے کے لیے آج نہیں رہے ہیں۔ دراصل استعمار کے خلاف برسرپیکار، مزاحمتی جدوجہد کی عملی تصویر افغان طالبان کی فتح کا یقین بہت سوں کو تھا اسی طرح یہ دیکھنے کی آرزو بھی۔ کل وہی دن تھا جب امریکی کٹھ پتلی انتظامیہ کی آخری نشانی اشرف غنی کابل ائر پورٹ پر جہاز پہ چڑھ کر الوادعی ہاتھ ہلاتے ہوئے تاجکستان فرار ہوا تو افغانستان میں ذمام ِ اقتدار واپس طالبان کے ہاتھ میں آ گیا۔


طاقت کے نشے میں مخمور ہو کر افغانستان پر چڑھ دوڑنے والے ایک دن نامراد لوٹیں گے، یہ سب جانتے تھے لیکن اتنے بے آبرو ہو کر افغانستان چھوڑیں گے شاید اس کا کسی کو یقین نہیں تھا۔ کہاں امریکہ اُس کے ہمنوا اتحادی اور کہاں بے سروسامانی کے باوجود گوریلہ جنگ لڑنے والے مٹھی بھر مجاہدین۔۔ کہاں جدید ہتھیاروں سے لیس ساڑھے تین درجن ممالک کا لاؤلشکر اور کہاں وسائل سے عاری چند مزاحمت کار۔


اس عظیم فتح کو لے کر بحیثیت پاکستانی بھی خوشی ہو رہی ہے اور بحیثیت مسلمان بھی۔
مجھ جیسے لاکھوں بندے آج خوش ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اب افغانستان میں اسلامی نظام نافذ ہو گا، چہار سُو عدل بال و پر نکال کر راج کرے گا، انصاف کا علم بلند رہے گا، کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہو گی ، خوش حالی کا دور دورہ ہو گا، ملک میں قانون کا راج اور میرٹ کی حکمرانی ہو گی۔ بلکہ اس خوشی کی وجوہات دوسری ہیں مذکورہ بالا نہیں۔


طالبان کا افغانستان کیسا ہو گا، جدید دنیا کے ساتھ طالبان اسے ہم آہنگ کر کے چلا سکیں گے یا نہیں؟ انتظامی انارکی پھیلے گی یا نہیں،۔سکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں تعلیم کا مبارک عمل رواں دواں رہے گا یا اسے جہل کی بھینٹ چڑھا دیا جائے گا۔ سردست تیقن کے ساتھ کچھ کہنا مشکل ہے۔ ان سب سوالوں کا جواب فی الحال ہمارے پاس ہے اور نہ ہی اس حوالے سے ہمیں زیادہ خوش فہمی ہے۔ دوسروں کی طرح ہمیں بھی اچھے کی امید و انتظار ہے بس۔ اللہ کرے کہ طالبان ان چیلنجز سے سرخ رو کر نکلیں۔ آج ریاست چلانے کے تقاضے الگ اور ضروریات جدا ہیں۔ صرف طاقت کے بل بوتے پر ریاستیں نہیں چلا کرتیں۔ ریاستی نظم و نسق کو بہتر انداز میں چلانے کے لیے ہی نہیں، لوگوں کو دو وقت کی روٹی تک رسائی کے لیے مواقع پیدا کرنا بھی بڑی انتظامی بصیرت مانگتی ہے۔


دراصل طالبان کی فتح کو لے کر خوش ہونے کی ایک وجہ سات سمندر پار سے وارد ہو کر بدکے ہوئے بدمست ہاتھی کا حواریوں سمیت ذلیل وخوار ہونا ہے۔ امریکہ اپنے اتحادی نیٹو افواج کو لے کر جس طمطراق اور کروفر کے ساتھ افغانستان پر چڑھ دوڑا تھا آج اسے واپس جاتے دیکھ کر، اور اقتدار اُس کے “پروردہ” انتظامیہ سے چِھنتا دیکھ کر بخدا بڑا چس آ رہا ہے۔ پہلے نیٹو ممالک کان پکڑ کر ایک ایک کر کے کھسک گئے بعد ازاں مذاکرات کے کئی دور چلا کر خود امریکہ بہادر بھی محفوظ راستہ مانگ کر پتلی گلی سے نکل جانے میں عافیت جانی۔ آج امریکن این جی اوز کے وہ راتب خور دانشور بھی بہت یاد آ رہے ہیں جو اپنا وظیفہ حلال کرنے کے لیے اس بات کی جگالی کرتے نہیں تھکتے تھے کہ طالبان مزاحمت کے نام پر مضبوط دیوار سے سر ٹکرا رہے ہیں۔ اس میں نقصان دیوار کا نہیں، خود طالبان کا ہو گا سر پھٹنے کی صورت میں۔ اپنی بات میں مزید وزن پیدا کرتے ہوئے کہتے تھے کہ کھانے کو روٹی، پہننے کو کپڑے اور پاؤں میں جوتے نہیں۔ نکلے ہیں سپر پاور کا مقابلہ کرنے۔اسی طرح آج ٹاک شوز پر بیٹھنے والے وہ تجزیہ کار بھی یاد آ رہے ہیں جو افغان طالبان کی مزاحمت کا مذاق اڑا کر ان کے ہمنوا دانشوروں پر ٹھٹہ اڑاتے تھے۔


خوشی میں سرشار ہونے کی دوسری وجہ افغانستان میں روایتی حریف بھارت کی شکست فاش ہے۔ ہم بھارت سے دوستی کا لاکھ دم بھریں ، دونوں ممالک میں دوستی کی ہزاروں نہیں، لاکھوں خواہش دل میں پالیں۔ پھر بھی موقع ملنے پر انڈیا نے ہمیں نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ضائع ہونے نہیں دینا ہے۔ یہ کوئی گہری منطق نہیں، عام مشاہدے کی بات ہے کہ مودی سرکار پاکستان کی جڑیں کاٹنے میں کبھی دریغ نہیں کرتا۔ تازہ محاذ اسے افغانستان کی صورت میں ملا تھا۔ یہاں بیٹھ کر پاکستان میں سازشوں کے جال بچھانا اور پھیلانا اُس کے لیے اِس لیے آسان تھا کہ تقریباً ڈھائی ہزار کلومیٹر لمبی سرحدی لائن پاکستان کی افغانستان کے ساتھ لگتی ہے۔ چنانچہ بھارت کے شر سے بچنے کے لیے افغانستان میں پاکستان نواز حکومت کا قیام پاکستان کی ضرورت ہی نہیں، مجبوری بھی ہے۔ خاکم بدہن اگر افغانستان میں انڈیا نواز حکومت مستحکم رہتی تو اس کا ناقابلِ تلافی نقصان کسی اور ملک کو نہیں، خود پاکستان کو اٹھانا پڑتا۔ پاکستان کی افغانستان میں مبیّنہ مداخلت پر اشرف غنی اینڈ کمپنی اور مودی سرکار ہی عورتوں کی طرح رونا دھونا نہیں کر رہے تھے، ہمارے بعض دانشور بھی اس مبیّنہ مداخلت پر “نامعلوم” ریاستی کارندوں کو ہدف ِ تنقید ٹھہراتے تھے۔ آج ان دوستوں کو بھی معلوم ہوا ہو گا کہ یہ”مداخلت” ہمارے کارندے ریاست کے مفاد میں مجبوراً کر رہے تھے۔


یہاں آج ان حضرات سے بھی اظہارِ تعزیت کا من کر رہا ہے جو بوجوہ پوری طرح لبرل ازم کے رنگ میں خود کو رنگ سکے اور نہ بالکل نیوٹرل رہ سکے۔ یہ “حضرات” کل سے آپے سے تقریباً باہر ہیں۔ امریکہ نے جب انخلاء کا اعلان کیا تو کہتے پائے گئے تھے کہ امریکہ کو نہیں جانا چاہیے۔ یہاں کے متحارب جنگجووں اور طالبان میں نہ ختم ہونے والی جنگ شروع ہو گی نتیجتاً ہر طرف کشت و خون ہو گا۔ اور خون ِمسلم خوب ارزاں ہو گی۔ اب جب طالبان کی کامیاب حکمت عملی کی بدولت ایسا کچھ نہیں ہوا تو پینترا بدل کر یہ کہنے لگے کہ طالبان امریکہ کے ساتھ مل گئے ورنہ افغان آرمی نے ہتھیار ڈالنے میں اتنی عجلت کیوں دکھائی۔ افغانستان کی صورتحال پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ ایک تو اشرف غنی اینڈ انتظامیہ اور دوسرے جنگجو سرداروں کے کچھ ایسے داخلی ٹھوس اختلافی مسائل تھے جن کی وجہ سے وہ متحد ہو کر طالبان کا سامنا نہیں کر سکے .

دوسرا یہ کہ ایسا نہیں ہوا کہ طالبان ایک دم زمین سے اُگ آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے افغانستان پر پھیل گئے۔ سن دو ہزار دس سے پہلے ہی “متعلقہ” دوستوں سے ہم سنتے آ رہے ہیں کہ افغانستان کے زیادہ تر حصوں پر عملاً کنٹرول طالبان کا ہے۔ افغان امور پر نظر رکھنے والے صحافی چھ سات سال قبل سے لکھتے رہے ہیں کہ ستر اسی فیصد افغانستان پر کابل انتظامیہ کا نہیں، طالبان کا کنٹرول ہے۔ وہاں پر تعینات ہونے والے انتظامی اہلکار بھی طالبان کی اجازت و رضا مندی سے ہی اپنی زمہ داریاں سنبھالتے ہیں۔ مطلب میدان سازی پہلے سے ہوئی تھی صرف موافق حالات کا انتظار تھا۔ جونہی حالات سازگار ہوئے، طالبان نے کابل میں داخل ہونے میں دیر نہیں لگائی۔ اس لیے خوہ مخواہ شکوک وشبہات پھیلانے سے بہتر ہے کہ طالبان کی بیس سالہ مزاحمت سامنے رکھ کر تجزیہ کیا جائے۔


بہرحال ہماری نیک تمنائیں افغان عوام کے لیے اور مثبت جذبات طالبان کے لیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں افغان عوام کے حق میں درست فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51560

دھڑکنوں کی زبان – ”طالبان کی کامیابی اسلام کی فتح“ – محمد جاوید حیات

دھڑکنوں کی زبان – ”طالبان کی کامیابی اسلام کی فتح“ – محمد جاوید حیات

آخر کار بیس طویل سالوں کی خونریز جد و جہد کے بعد بظاہر بے سرو سامان طالبان نے دنیا کی عظیم طاقتوں کو ان کی جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ پسپا ہونے پہ مجبور کردیا اگر عزم و ہمت مضبوط ہو تو معرکے سر کیے جاتے ہیں جنگ ہتھیاروں سے نہیں لڑی جا سکتی قوت ارادی اور ہمت سے لڑی جاتی ہے اور ایسے دین کے پیروکار جو موت کو زندگی پہ ترجیح دیتے ہوں ان سے لڑنا آسان کام نہیں۔۔۔آگے افغانستان کی تاریخ اور جغرافیہ ہی ایسا ہے کہ اس میں غیروں کو کبھی کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔بحیثیت مسلمان ہمیں اس فتح اور کامیابی سے اس لیے دلچسپی ہے کہ یہ مسلمانوں کی فتح ہے اسلام کی فتح ہے .

وہ اسلام جس کو ہم سلامتی کا دین کہتے ہیں امن کا پیغام کہتے ہیں حقوق کا پاسدار کہتے ہیں اور انصاف کی علامت کہتے ہیں۔۔تاریخ اس بات کی شاہد ہے لیکن تاریخ کو مانتا کون ہے؟ اغیار کے ہیروز نے انسانیت پر انسانیت سوز مظالم ڈھایے کامیاب ہوئے،طاقت حاصل کیا تاریخ میں ان کا بڑا نام ہے۔اسلام نے دنیا کو جنت بنا دی انسانیت کو ہر مصیبت سے نجات دلا دی یہ تسلیم کرتے ہوئے بھی کوئی اسلام کو نظام کی خوبصورتی اور انسانیت کی نجات دہندہ دین کہنے کو تیار نہیں۔اس صدی میں جہان سائنس اور ٹیکنالوجی نے ترقی کی اور اسلام کے پیروکار اس میدان میں پیچھے رہے تب سے اسلام کی اہمیت کو کم کرنا اغیار کا ٹارگٹ بن گیا ہے۔

ساتھ تہذیبوں کا تصادم آیا تو اسلام خاص ہدف میں رہا ہے اسلام دین فطرت ہے اور اللہ کا بھیجا ہوا دین ہے قرآن عظیم الشان میں واضح کیا گیا ہے کہ رسول خدا کا کام اللہ کا پیغام پہنچانا ہے آپ اپنی طرف سے اس پیغام میں ایک حرف کا بھی اضافہ نہیں کر سکتے بلکہ قران میں اس حوالے سے تنبیہ ہے کہ رسول خدا خدا کے پیغام میں ایک حرف کا بھی اضافہ نہیں کر سکتا۔اب طالبان کے پاس قران کی صورت میں آئین موجود ہے سنت رسول رسولﷺ کی صورت میں قانون موجود ہے اسلام جب اپنی اصل صورت میں دنیا پہ نافذ تھا تو انسانیت اپنی معراج پہ تھی لیکن اس دور چکا چوند میں دنیا والوں کے لیے وہ اسلام کی سنہری تاریخ محض افسانہ ہے لہذا ہمارا خواب ہے کہ طالبان کے ہاتھوں اسلام ایک دفعہ پھر اپنی اصلی صورت میں نافذ ہو اگر ایسا ہوا تو دنیا امن کا گہوارہ بن جائے گی ہر طرف عدل و انصاف ہو گا اور انسانیت ہر مصیبت سے نجات پائیگی۔

یہ طالبان کے لیے بہت بڑا امتحان اور ازمائش ہے پوری دنیایے کفر ملت واحدہ ہے وہ نہیں چاہے گی کہ طالبان کے ہاتھوں اسلام کی اصل روح زندہ ہو ان کا تجربہ ہے کہ اس اُمت کی غیرت کبھی کم نہیں ہوتی اس لیے انہوں نے عورت شراب عریانی و فحاشی کی مدد سے اس کی غیرت کو تہس نہس کر دیا ہے اب اگر اس اُمت میں یہ برُایاں ختم ہونگی تو یہ انگڑائی لے کے اٹھے گی اور قریب تاریخ صلاح الدین ایوبی کے لگائے ہوئے زخم ہرے ہونگے مسلم اُمہ میں استین کے سانپ ہیں ڈس لینگے۔لیکن
پھونکوں سے خاک کیا جو حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیوں بجھے جسے روشن خدا کرے


انسانی حقوق کے عالمبردار واویلہ کر رہے ہیں کہ خواتین اور بچوں کے حقوق پامال ہونگے ان سے کون پوچھے گا کہ خاتون اور بچے کے جو حقوق قران میں ہیں ان کی احیاء ہوگی وہ پایمال نہیں ہونگے۔قران نے عورت کو پردے کا حکم دیا ہے اس سے تعلیم حاصل کرنے اور سروس کرنے کا حق کسی نے نہیں چھینا ہاں عریانی اور فحاشی کی اجازت اسلام ہر گز نہیں دیتا یہ طالبان کا حکم نہیں اللہ کا حکم ہے بچوں کے ریپ کیسس کی اسلامی سزا ہوگی جرائم کا خاتمہ ہوگا ان کی اسلامی اقدار کے مطابق تعلیم وتربیت ہوگی یہ ان کا اسلامی حق ہے ان کو سائنس پڑھنے دنیاوی علوم حاصل کرنے اور ہنر سیکھنے سے کوئی نہیں روکے گا۔

عدالتوں میں قران و سنت اور اسلامی شریعت کے مطابق فیصلے ہونگے۔ کسی رولنگ ریفرنس اور جھوٹی دلایل سے ناحق کو حق ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔سر عام اخلاق سوز سرگرمیاں بند ہونگی لوگوں کی جان مال اور آبرو کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہوگی۔قانون سب کے لیے یکسان ہوگا۔میڈیا پر کوئی پابندی نہیں ہوگی البتہ میڈیا کے نام پہ جو طوفان بدتمیزی برپا ہے اس کی اجازت نہیں ہوگی۔اقلیتوں کے حقوق پایمال نہیں ہونگے۔

ہر ایک کو جینے کا حق ہے چوری بدعنوانی استحصال بند ہوگا۔سارے ہمسایے امن اور چین سے رہینگے۔قوم کی دولت قوم پر خرچ ہوگی۔قومی خزانہ امانت تصور کیا جائے گا۔۔یہ اسلام کی روح ہے یہ ہمارا خواب ہے یہ طالبان کی آزمائش ہے کہ وہ بہت ہوشیاری اور احتیاط سے ہر ہرلمحے پہ نظر رکھیں۔۔دنیا کو ساتھ لے کے چلیں۔اپنی تحریکی تنظیموں اور دھڑوں میں اتحاد پیدا کریں کوئی بھی فیصلہ جذباتی نہ ہو۔تاکہ اسلام کو جس خوفناک صورت میں دنیاکو دیکھایا جا رہا ہے وہ جھوٹ ثابت ہو۔۔

اللہ کے دین کی حقانیت طالبان کی صورت میں دنیا کے سامنے آجائے ہم اللہ کے حضور ایسی کامیابی کے لیے دعاگو ہیں۔۔۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51558

بول کے لب آزاد ہیں، کیونکہ ہم آزاد ہیں؟ – پروفیسر عبدالشکورشاہ

 آزادی کسی قوم پر نازل نہیں ہوتی بلکہ اسے حاصل کرنے کے لیے قوم اپنے آپ کو بلند کرتی ہے۔حقیقی آزادی محض نام تک محدود نہیں ہے۔ ہم آزادی کی اصل روح سے کوسوں دور ہیں۔ تاہم جن کاموں میں ہمیں آزاد نہیں ہونا چاہئے تھا ہم ان میں مکمل آزاد ہیں۔ آزادکشمیر کے ساتھ آزاد کا سابقہ لگا کر سارے اختیار ات لینے والے وفاق کو آزادی مبارک۔کروڑوں نوکریوں اور اپنے گھر دینے کا کہہ کر بے روزگار اور بے گھر کرنے والوں کوآزادی مبارک۔قوم کو مہنگائی کی چکی میں پیسنے والوں کو آزادی مبارک۔،ملک کا آخری وزیر اعظم کہنے اور کشمیر پر نانی کے خواب سنانے والوں کو آزادی مبارک۔ آزادکشمیر الیکشن میں ووٹ ہارنے والی پارٹی کو دیکر جیتنے والی پارٹی کے جشن منانے والوں کو آزادی مبارک۔ایڈہاک ملازمین کی مستقلی کو غیر قانونی قرار دینے اور کشمیر لبریشن سیل میں اپنے حلقے کے درجنوں افراد بھرتی کرنے والوں کو آزادی مبارک۔

کشمیر پریمئیر لیگ کے ساتھ کشمیر لگا کر ساری آمدن کھانے والوں کوآزادی مبارک۔ 5سال اپوزیشن میں رہ کر اپوزیشن نہ کرنے والے میاں وحید صاحب کو اپوزیشن کی جانب سے نامزد ہونے پرآزادی مبارک۔محکمہ تعلیم نیلم ڈپٹی ڈی ای اوزنانہ اور دیگر سرکاری ملازمین کو شاہ غلام قادر کی جیت پر مخلوط رقص و سرور کی محافل سجانے پر آزادی مبارک۔الیکشن سے پہلے پیسے بانٹنے والوں کو بھی آزادی مبارک۔ قربانی کے گوشت سے فریج بھر کر خراب کرنے والوں کو آزادی مبارک۔ 20روپے کے جوس کا ڈبہ ٹیڑا کر کے پینے اور پھر پٹاخہ مارنے والوں کو بھی آزادی مبارک۔ یوم آزادی پر باجے بجاکر ناک میں دم کرنے والوں کو آزادی مبارک۔ اپنی گاڑیوں اور جسم پر پاکستانی پرچم سجا کر انڈین گانے لگانے والوں کو بھی آزادی مبارک۔

سرکاری دفاتر میں فائلیں دبانے، چھپانے، گمانے اور ریکارڈجلانے والوں کو بھی آزادی مبارک۔ دفتروں میں لیٹ آکر جلدی چلے جانے والوں کو بھی آزادی مبارک۔پبلک مقامات پر واٹر کولر سے گلاس چرانے، مسجد سے جوتیاں چرانے اورملک سے جنگلات کا صفایا کرنے اور درخت کاٹنے والوں کو آزادی مبارک۔ آزادکشمیر کے سابقہ جنگلات کش وزیر کو دوبارہ وزیرجنگلات بننے پر آزادی مبارک۔ دودھ میں پانی ملانے، باسی اشیاء کو تازہ بتا کر بیچنے والوں اور خراب فروٹس پر چند صاف فروٹ سجاکر بیچنے والوں کو آزادی مبارک۔ سبزی میں چپکے سے خراب سبزی ڈالنے والوں، مری ہوئی مرغیاں کھلانے والوں، ادرک کو پانی میں ڈال کر وزنی کرنے والوں اور ناقص مال کو ایک نمبر بتا کر بیچنے والوں کو آزادی مبارک۔

عوام سے مفت ووٹ لیکرآگے کروڑوں میں بیچنے والے کونسلرز،ایم ایل ایز، ایم این ایز اور ایم پی ایز کو آزادی مبارک۔ملک میں دہائیوں حکومت کرکے کوئی میعاری ہسپتال نہ بنا کر لندن علاج کروانے والوں کو آزادی مبارک۔ پاکستان میں پروٹوکول اور باہر قطار میں لگنے والوں کو آزادی مبارک۔ کمپوڈر کا کورس کر کے ڈاکٹر کہلوانے والوں، دونمبر بوتلیں بیچنے والوں، باسی اور تازہ کھانے مکس کر کے بیچنے والوں،جوس، گنے کا رس اور شیک کم اوربرف زیادہ ڈالنے والوں،ٹرالی میں اینٹوں اور ریت کی کرپشن کرنے اور کالے پائپ، گلی سڑک، ٹوٹی نلکہ، سکیم، کول کے نام پر ووٹ دینے والی عوام کو آزادی مبارک۔ مریم نواز او ر بلاول بھٹو کو آزادکشمیر میں گلا پھاڑ کر الیکشن ہارنے پر آزادی مبارک۔ پوری مزدوری لے کر چند اینٹیں لگانے والے مستریوں، کندھے پر بیلچہ رکھ کر مانگے والے جعلی مزدوروں، کاروں او ر بنگلوں کے مالک بھکاریوں، مفت میں کھانے پینے والے پولیس والوں، سکول آکر بچوں کو نہ پڑھانے والوں، ہسپتال میں جا کرمریضوں کو ٹیسٹوں کی دلدل، اپنی کمیشن والی دوائیاں اور لیبارٹریاں تجویز کرنے والوں، جعلی عاملوں،حکیموں اورافسروں کو آزادی مبارک۔ کھیل میں سٹے لگانے والوں، جواء کھیلنے والوں کو بھی آزادی مبارک۔

ہر مرتبہ ہر حکومت کا حصہ بننے والے شعبدہ بازوں، راتوں رات وفاداریاں بدلنے والے وزیریوں، سول محکموں پر مسلط کرنلوں، برگیڈئیروں اور جنرلوں کو بھی آزادی مبارک۔ چائینہ کٹنگ کے پیسوں سے ویلفئیر فاونڈیشن بنانے، عوامی عطیات پر الیکشن لڑنے اور اسلام کے نام پر کھانے والوں کو بھی آزادی مبارک۔ مخصوص لوگوں کا احتساب کرنے والی نیب، میچ ہارنے والی پی سی بی، لوڈ شیڈنگ کرنے والی واپڈا، پانی گندہ کرنے والی واسا اور کچرے کے ڈھیر لگانے والی کارپوریشن کو بھی آزادی مبارک۔ کپڑا بچا کر اپنے بچوں کے کپڑے سینے والے درزیوں، ایمبولینس کو راستہ نہ دینے والوں، اشارے توڑنے والوں،بیسن میں آٹا ملاکر پکوڑے بنانے والوں، پاوں سے آٹاگوندھنے اور پیسے بڑھا کر وزن کم کرنے والے نان بائیوں، سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگا کر بیرون ملک رہنے والوں، ڈیم فنڈز کے پیسے کھانے والوں، جہیز کے خلاف باتیں کرکے کروڑوں جہیز پر لگانے والوں، غریب کے نعرے لگا کر امیر ہونے والوں کو بھی آزادی مبارک۔ قبضہ مافیا، ٹمبر مافیا، واٹر مافیا، ٹرانسپورٹ مافیا اور ویکسن مافیا کو بھی آزادی مبارک۔ لاکھوں رشوت دے کر استاد بھرتی ہونے والے معماروں کو آزادی مبارک۔ پارٹیوں کی الیکشن کمپین چلانے والے سرکاری ملازمین کو آزادی مبارک۔

محنت کیے بغیر بڑے لوگوں کے ساتھ سیلفیاں بنانے والوں، منہ چبہ کر کے سیلفیاں بنانے والوں، الٹی سیدھی ویڈیو بنانے والوں جواب یا کمنٹ کے بجائیے ایموجی یا نائیس لکھنے والوں، یوٹیوب کے سبسکرائبر کی ریکوسٹ کرنے والوں، نہ جان نہ پہچان ایویں کی فیس بک ریکویسٹ بھیجنے والوں اور برا بھلا کہہ کر گروپ لفٹ کرنے والوں کو بھی آزادی مبارک۔ پیسوں سے جعلی ڈگریاں بنوانے والوں، عمرہ کر کے کھجوریں لانے مگر قرض ادا نہ کرنے والوں، مس کال مارنے والوں،لڑکی سمجھ کر دوستی کی پیش کش کرنے والوں، دعوت کے چکر میں سارا دن بھوکے رہنے والوں،شادیوں پہ بن بلائے آنے والوں اور بوٹیاں چاولوں کے نیچے چھپا کر کھانے والوں کو بھی آزادی مبارک۔ اپنا بن کر چونا لگانے والوں، جلدی دعا مانگ کر اگلی محفل میں شرکت کرنے والے مولویوں،والدین کو بھوکا رکھ کر فوتگی پہ مولویوں کو فروٹ کھلانے والوں، دوسرے کے کپڑے پہن کر چوہدری بننے والوں، شہر سے گاوں اور بیرون ملک سے پاکستان آکر نواب زادے بننے والوں، اپنی مادری زبان اور کلچر کو بھول جانے والوں، صرف جمعہ کے دن شلوار قمیض پہننے والوں، مہنگی گاڑی سے جوس اور لیز کے پیکٹ باہر پھیکنے والوں، رات کو کوڑے کے شاپر دوسروں کی چھتوں پر پھیکنے والوں، خالی کپ لیکر چھت پہ گھومنے والوں،موبائل چوری کر کے گیم کھیلنے والوں، خریداری کے پیسوں سے ایزی لوڈ کروانے والوں، ساری رات لمبی کالیں کرنے والوں، کانوں میں ہینڈ فری لگا کر گاڑی چلانے والوں،چوری چھپے دوسروں کے میسج پڑھنے والوں، نوکری کے لیے لمبے لمبے فارم پر کروانے والوں، پراسسنگ فیس کی مد میں لاکھوں بٹورنے والوں اور ایڈ مشن فیس، سیکورٹی، لائبریری فنڈز او ر دیگر نام نہاد فنڈز کے زریعے غریب والدین کو لوٹنے والوں کو بھی آزادی مبارک۔اپوزیشن کے بہانے مک مکا کرنے والوں کو آزادی مبارک۔ ماڈل ٹاون، ساہیوال اور دیگر سانحات پر لواحقین کو ڈرانے دھمکانے اور فیصلے نہ کرنے والوں کو بھی عید مبارک۔

آئے روز وزارتیں بدلنے اور عوام کو الو بنانے والوں کو بھی آزادی مبارک۔ نیازی نام پر حیران ہونے والوں، پیرنی کے بتائے ہوئے ع سے شروع ہونے والے ناموں کو ترجیح دینے والوں، وزارتو ں کے لیے اہلحدیث سے اہلسنت ولجماعت بننے والوں، عہدوں کے لیے کروڑوں کے فنڈز کے نام پر رشوت دینے والوں، اوروں کو بچے لندن میں رکھنے کا طعنہ دیکر اپنے بچے برطانیہ رکھنے والوں،سابقہ کرپٹ لوگوں کو اعلی عہدوں پر تعینات کرنے والوں اور محرم میں جعلی اہل تشیح بننے والوں کو بھی آزادی مبارک۔ لاک ڈاون میں شٹر نیچے کر کے دکانداری کرنے والوں، بیوی سے لڑ کر فوڈ پانڈہ سے کھانے منگوانے والوں، غلط راستہ بتانے والوں، جعلی صحافی بن کر بلیک میل کرنے والوں،چھوٹے بچوں کا لنچ، پاکٹ منی اور چاکلیٹ کھانے والوں اور چند ہزار تنخواہ کے بدلے قائداعظم اور علامہ اقبال بنوانے والے والدین  اور فون کر کے اپنے بارے کالم لکھوانے کی فرامائش اور درخواست کرنے والوں کو بھی آزادی مبارک۔    

بول کے لب آزاد ہیں، کیونکہ ہم آزاد ہیں؟

پروفیسرعبدالشکورشاہ

03214756436

 آزادی کسی قوم پر نازل نہیں ہوتی بلکہ اسے حاصل کرنے کے لیے قوم اپنے آپ کو بلند کرتی ہے۔حقیقی آزادی محض نام تک محدود نہیں ہے۔ ہم آزادی کی اصل روح سے کوسوں دور ہیں۔ تاہم جن کاموں میں ہمیں آزاد نہیں ہونا چاہئے تھا ہم ان میں مکمل آزاد ہیں۔ آزادکشمیر کے ساتھ آزاد کا سابقہ لگا کر سارے اختیار ات لینے والے وفاق کو آزادی مبارک۔کروڑوں نوکریوں اور اپنے گھر دینے کا کہہ کر بے روزگار اور بے گھر کرنے والوں کوآزادی مبارک۔قوم کو مہنگائی کی چکی میں پیسنے والوں کو آزادی مبارک۔،ملک کا آخری وزیر اعظم کہنے اور کشمیر پر نانی کے خواب سنانے والوں کو آزادی مبارک۔ آزادکشمیر الیکشن میں ووٹ ہارنے والی پارٹی کو دیکر جیتنے والی پارٹی کے جشن منانے والوں کو آزادی مبارک۔ایڈہاک ملازمین کی مستقلی کو غیر قانونی قرار دینے اور کشمیر لبریشن سیل میں اپنے حلقے کے درجنوں افراد بھرتی کرنے والوں کو آزادی مبارک۔ کشمیر پریمئیر لیگ کے ساتھ کشمیر لگا کر ساری آمدن کھانے والوں کوآزادی مبارک۔ 5سال اپوزیشن میں رہ کر اپوزیشن نہ کرنے والے میاں وحید صاحب کو اپوزیشن کی جانب سے نامزد ہونے پرآزادی مبارک۔محکمہ تعلیم نیلم ڈپٹی ڈی ای اوزنانہ اور دیگر سرکاری ملازمین کو شاہ غلام قادر کی جیت پر مخلوط رقص و سرور کی محافل سجانے پر آزادی مبارک۔

الیکشن سے پہلے پیسے بانٹنے والوں کو بھی آزادی مبارک۔ قربانی کے گوشت سے فریج بھر کر خراب کرنے والوں کو آزادی مبارک۔ 20روپے کے جوس کا ڈبہ ٹیڑا کر کے پینے اور پھر پٹاخہ مارنے والوں کو بھی آزادی مبارک۔ یوم آزادی پر باجے بجاکر ناک میں دم کرنے والوں کو آزادی مبارک۔ اپنی گاڑیوں اور جسم پر پاکستانی پرچم سجا کر انڈین گانے لگانے والوں کو بھی آزادی مبارک۔ سرکاری دفاتر میں فائلیں دبانے، چھپانے، گمانے اور ریکارڈجلانے والوں کو بھی آزادی مبارک۔ دفتروں میں لیٹ آکر جلدی چلے جانے والوں کو بھی آزادی مبارک۔پبلک مقامات پر واٹر کولر سے گلاس چرانے، مسجد سے جوتیاں چرانے اورملک سے جنگلات کا صفایا کرنے اور درخت کاٹنے والوں کو آزادی مبارک۔ آزادکشمیر کے سابقہ جنگلات کش وزیر کو دوبارہ وزیرجنگلات بننے پر آزادی مبارک۔ دودھ میں پانی ملانے، باسی اشیاء کو تازہ بتا کر بیچنے والوں اور خراب فروٹس پر چند صاف فروٹ سجاکر بیچنے والوں کو آزادی مبارک۔ سبزی میں چپکے سے خراب سبزی ڈالنے والوں، مری ہوئی مرغیاں کھلانے والوں، ادرک کو پانی میں ڈال کر وزنی کرنے والوں اور ناقص مال کو ایک نمبر بتا کر بیچنے والوں کو آزادی مبارک۔ عوام سے مفت ووٹ لیکرآگے کروڑوں میں بیچنے والے کونسلرز،ایم ایل ایز، ایم این ایز اور ایم پی ایز کو آزادی مبارک۔ملک میں دہائیوں حکومت کرکے کوئی میعاری ہسپتال نہ بنا کر لندن علاج کروانے والوں کو آزادی مبارک۔ پاکستان میں پروٹوکول اور باہر قطار میں لگنے والوں کو آزادی مبارک۔ کمپوڈر کا کورس کر کے ڈاکٹر کہلوانے والوں، دونمبر بوتلیں بیچنے والوں، باسی اور تازہ کھانے مکس کر کے بیچنے والوں،جوس، گنے کا رس اور شیک کم اوربرف زیادہ ڈالنے والوں،ٹرالی میں اینٹوں اور ریت کی کرپشن کرنے اور کالے پائپ، گلی سڑک، ٹوٹی نلکہ، سکیم، کول کے نام پر ووٹ دینے والی عوام کو آزادی مبارک۔

مریم نواز او ر بلاول بھٹو کو آزادکشمیر میں گلا پھاڑ کر الیکشن ہارنے پر آزادی مبارک۔ پوری مزدوری لے کر چند اینٹیں لگانے والے مستریوں، کندھے پر بیلچہ رکھ کر مانگے والے جعلی مزدوروں، کاروں او ر بنگلوں کے مالک بھکاریوں، مفت میں کھانے پینے والے پولیس والوں، سکول آکر بچوں کو نہ پڑھانے والوں، ہسپتال میں جا کرمریضوں کو ٹیسٹوں کی دلدل، اپنی کمیشن والی دوائیاں اور لیبارٹریاں تجویز کرنے والوں، جعلی عاملوں،حکیموں اورافسروں کو آزادی مبارک۔ کھیل میں سٹے لگانے والوں، جواء کھیلنے والوں کو بھی آزادی مبارک۔ ہر مرتبہ ہر حکومت کا حصہ بننے والے شعبدہ بازوں، راتوں رات وفاداریاں بدلنے والے وزیریوں، سول محکموں پر مسلط کرنلوں، برگیڈئیروں اور جنرلوں کو بھی آزادی مبارک۔ چائینہ کٹنگ کے پیسوں سے ویلفئیر فاونڈیشن بنانے، عوامی عطیات پر الیکشن لڑنے اور اسلام کے نام پر کھانے والوں کو بھی آزادی مبارک۔ مخصوص لوگوں کا احتساب کرنے والی نیب، میچ ہارنے والی پی سی بی، لوڈ شیڈنگ کرنے والی واپڈا، پانی گندہ کرنے والی واسا اور کچرے کے ڈھیر لگانے والی کارپوریشن کو بھی آزادی مبارک۔ کپڑا بچا کر اپنے بچوں کے کپڑے سینے والے درزیوں، ایمبولینس کو راستہ نہ دینے والوں، اشارے توڑنے والوں،بیسن میں آٹا ملاکر پکوڑے بنانے والوں، پاوں سے آٹاگوندھنے اور پیسے بڑھا کر وزن کم کرنے والے نان بائیوں، سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگا کر بیرون ملک رہنے والوں، ڈیم فنڈز کے پیسے کھانے والوں، جہیز کے خلاف باتیں کرکے کروڑوں جہیز پر لگانے والوں، غریب کے نعرے لگا کر امیر ہونے والوں کو بھی آزادی مبارک۔ قبضہ مافیا، ٹمبر مافیا، واٹر مافیا، ٹرانسپورٹ مافیا اور ویکسن مافیا کو بھی آزادی مبارک۔ لاکھوں رشوت دے کر استاد بھرتی ہونے والے معماروں کو آزادی مبارک۔

پارٹیوں کی الیکشن کمپین چلانے والے سرکاری ملازمین کو آزادی مبارک۔ محنت کیے بغیر بڑے لوگوں کے ساتھ سیلفیاں بنانے والوں، منہ چبہ کر کے سیلفیاں بنانے والوں، الٹی سیدھی ویڈیو بنانے والوں جواب یا کمنٹ کے بجائیے ایموجی یا نائیس لکھنے والوں، یوٹیوب کے سبسکرائبر کی ریکوسٹ کرنے والوں، نہ جان نہ پہچان ایویں کی فیس بک ریکویسٹ بھیجنے والوں اور برا بھلا کہہ کر گروپ لفٹ کرنے والوں کو بھی آزادی مبارک۔ پیسوں سے جعلی ڈگریاں بنوانے والوں، عمرہ کر کے کھجوریں لانے مگر قرض ادا نہ کرنے والوں، مس کال مارنے والوں،لڑکی سمجھ کر دوستی کی پیش کش کرنے والوں، دعوت کے چکر میں سارا دن بھوکے رہنے والوں،شادیوں پہ بن بلائے آنے والوں اور بوٹیاں چاولوں کے نیچے چھپا کر کھانے والوں کو بھی آزادی مبارک۔

اپنا بن کر چونا لگانے والوں، جلدی دعا مانگ کر اگلی محفل میں شرکت کرنے والے مولویوں،والدین کو بھوکا رکھ کر فوتگی پہ مولویوں کو فروٹ کھلانے والوں، دوسرے کے کپڑے پہن کر چوہدری بننے والوں، شہر سے گاوں اور بیرون ملک سے پاکستان آکر نواب زادے بننے والوں، اپنی مادری زبان اور کلچر کو بھول جانے والوں، صرف جمعہ کے دن شلوار قمیض پہننے والوں، مہنگی گاڑی سے جوس اور لیز کے پیکٹ باہر پھیکنے والوں، رات کو کوڑے کے شاپر دوسروں کی چھتوں پر پھیکنے والوں، خالی کپ لیکر چھت پہ گھومنے والوں،موبائل چوری کر کے گیم کھیلنے والوں، خریداری کے پیسوں سے ایزی لوڈ کروانے والوں، ساری رات لمبی کالیں کرنے والوں، کانوں میں ہینڈ فری لگا کر گاڑی چلانے والوں،چوری چھپے دوسروں کے میسج پڑھنے والوں، نوکری کے لیے لمبے لمبے فارم پر کروانے والوں، پراسسنگ فیس کی مد میں لاکھوں بٹورنے والوں اور ایڈ مشن فیس، سیکورٹی، لائبریری فنڈز او ر دیگر نام نہاد فنڈز کے زریعے غریب والدین کو لوٹنے والوں کو بھی آزادی مبارک۔

اپوزیشن کے بہانے مک مکا کرنے والوں کو آزادی مبارک۔ ماڈل ٹاون، ساہیوال اور دیگر سانحات پر لواحقین کو ڈرانے دھمکانے اور فیصلے نہ کرنے والوں کو بھی عید مبارک۔ آئے روز وزارتیں بدلنے اور عوام کو الو بنانے والوں کو بھی آزادی مبارک۔ نیازی نام پر حیران ہونے والوں، پیرنی کے بتائے ہوئے ع سے شروع ہونے والے ناموں کو ترجیح دینے والوں، وزارتو ں کے لیے اہلحدیث سے اہلسنت ولجماعت بننے والوں، عہدوں کے لیے کروڑوں کے فنڈز کے نام پر رشوت دینے والوں، اوروں کو بچے لندن میں رکھنے کا طعنہ دیکر اپنے بچے برطانیہ رکھنے والوں،سابقہ کرپٹ لوگوں کو اعلی عہدوں پر تعینات کرنے والوں اور محرم میں جعلی اہل تشیح بننے والوں کو بھی آزادی مبارک۔ لاک ڈاون میں شٹر نیچے کر کے دکانداری کرنے والوں، بیوی سے لڑ کر فوڈ پانڈہ سے کھانے منگوانے والوں، غلط راستہ بتانے والوں، جعلی صحافی بن کر بلیک میل کرنے والوں،چھوٹے بچوں کا لنچ، پاکٹ منی اور چاکلیٹ کھانے والوں اور چند ہزار تنخواہ کے بدلے قائداعظم اور علامہ اقبال بنوانے والے والدین  اور فون کر کے اپنے بارے کالم لکھوانے کی فرامائش اور درخواست کرنے والوں کو بھی آزادی مبارک۔    

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
51541

تجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی – تحریر: آمینہ نگار بونی اپر چترال

تجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی – تحریر: آمینہ نگار بونی اپر چترال

کورونا وائرس دنیا  کے کونے کونے میں اس طرح  زیرِ بحث ہے کہ شاید ہی کوئی مسئلہ اس طرح بیک وقت دنیا کے چپے  چپے میں زبان زدِ خاص و عام رہا ہو ۔  اس موزی مرض کی شرح اموات  دوسری  کئی ایک  امراض سے مرنے والوں کی شرح اموات سے  زیادہ  ہے  ۔ اس عارضے کا شکار بے شمار  مریض  ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں  ۔  اس مرض کا نہ صرف غریب لوگ شکار ہوتے  ہیں بلکہ  اس کے دربار میں پہنچنے کے بعد محمود  ایاز  ایک صف میں استادہ  ہوتے ہیں ۔ اس سے بچنے کی  احتیاطی  تدابیر   میں ، چہرے پر ماسک چڑھانا‘ بار بار ہاتھ صابن سے دھونا اور پُرہجوم جگہوں سے بچنے  کی کو شش سے شاید   اس سے محفوظ رہا  جائے  ۔

  ہماری دعا  ہے کہ اللہ  آپ سب کو اس سے محفوظ رکھے ۔ لیکن کہیں خدا نخواستہ   اس کی زد میں آئے تو   جن حالات سے گزرنا  پڑتا ہے  یہ وہی لوگ اچھی طرح بیان کر سکتے ہیں جن پر یہ قیامت ٹوٹی ہو ۔ کیونکہ یہ وہ بیماری ہے کہ اس کو تن تنہا سہنا ہو تا ہے   اور   اکیلے لڑ کرشکست دینے میں  کامیاب ہوئے تو زندگی کی رمق باقی رہتی ہے نہیں  تو  انسان  ہمیشہ کی نیند سو جاتا ہے ۔

  بیماری میں تیمارداری کا رواج پرانا ہے  پہلے یہ ہوتا تھا کہ گھر میں خدا نخواستہ کوئی بیمار پڑ جائے تو سب اس کے لیے پریشان ہوتے تھے  اور اس کی صحت یابی کے لیے مسلسل اس کی خد مت میں لگے رہتے  تھے۔  دن کے وقت رشتہ دار عیادت کے لیے آتے   اور مریض کا دل بہلاتے تھے اور رات کو گھر والے  اس کے ساتھ بیٹھ کر کبھی سر دباتے تھے  تو کبھی ہاتھ اور پیر دبا کر آرام دلانے کی کوشش کرتے تھے  جس کے نتیجے میں مریض کے درد میں افاقہ ہوتا تھا اور وہ کم عر صے میں صحت یاب ہو کر معمول کی زندگی گزارنے کے قابل ہو جاتا تھا لیکن  کرونا میں چچا غالب کی دعا کو  قبولیت ملی ہے

                        ؎ پڑیئے  گر بیمار تو تیمار دار کوئی نہ ہو ۔ کورونا نے بیمار کے سارے ناز و نخرے  چھین لیے اب ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا جو پہلے ہوتا تھا۔ ایک ایسے دشمن کے خلاف  تن تنہا   صف آرا ئی جو نظر وں سے اوجھل   کسی کمین گاہ سے تیر  برساتا ہوبڑے جگر جوکھوں کا کام ہے ۔  اس کار ِزار  جنگ سے واپسی کی صرف دو صورتیں ہیں  ، پہلی صورت  یہ کہ  آپ  خوب ہمت آزمائی کریں اور  دشمن کو  شکست فاش دیں اور ددوسری  صورت یہ کہ  آپ   اُس کے سامنے ہتھیار  ڈال دیں   اور زندہ گی کو خدا حافظ کہیئے ۔

          چونکہ میں بھی اس کی زد میں آنے والوں میں سے ایک  ہوں اس لیے خود پر  بِیتے  لمحات کو سب کے ساتھ بانٹنا  چاہتی ہوں۔قصہ یوں کہ کورونا کی آمد میں ہم انتہائی احتیاط برتتے تھے۔ ماسک کا مسلسل استعمال ،ہاتھوں کو صابن سے بار بار دھونا  اور سماجی فاصلہ رکھنا ایک معمول بن گیا تھا۔ مگر رفتہ رفتہ سب کچھ کم ہوتا گیا اور ایک وقت ایسا آیا کہ ہم نے  احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا چھوڑ ہی دیا جہاں کہیں اس پر عمل کرنے  پر زور ہوتا  اور ماسک پہننے کے لیے کہا جاتا تو ہم ٹھوڑی کے نیچے لگائے ہوئے ماسک اوپر کر کے ناک کے اوپر لگاتے اور اس کو بھی دوسروں پر بڑا  احسان سمجھتے۔

 احتیاطی تدابیر چھوڑنے کا  ایک جواز یہ پیش کرتے  تھے کہ ہمارے یہاں کورونا ورونا کچھ بھی نہیں ہے یہ سب بنائے گئے افسانے ہیں۔ اور دل ہی دل میں مطمئن تھے کہ اب کچھ نہیں ہونے والا ہے ۔ پھر اچانک ایک شام کو طبیعت خراب ہوئی ۔ سر میں شدید درد اور بدن کے ہر حصے الگ الگ دکھنے لگے۔ پوری رات اس وہم میں گزری کہ نجانے کب بے ہوش ہونا ہے پھر  اللہ اللہ کر کے صبح ہوئی تو تھوڑی سی ہمت کر کے اٹھی  لیکن ٹانگیں جواب دے گئی  تھیں ۔ پھر بھی ہمت نہیں ہاری  اور روزمرہ کے کاموں کو انجام دینے کی کوشش کی مگر دن ختم ہونے سے پہلے کمزوری اور بڑھ گئی اب تھوڑا سا یقین ہونے لگا کہ کورونا کے اثرات ہیں اور ان کا ڈٹ کے مقابلہ کرنا ہے ۔ لیکن اب فائدہ نہیں تھا کیونکہ یہ پورے بدن کو اپنے لپیٹ میں لےچکا تھا اور آرام اور سکون نام کی چیز ختم ہو گئی تھی ۔

ارادہ کیا کہ کل ٹیسٹ کر کے باقاعدہ علاج کراؤں گی۔ لہذا پوری رات بڑی تکلیف میں گزارنے کے بعد جب صبح ٹیسٹ کیا تو پتہ چلا کہ واقعی کورونا  نے دبوچ لیا ہے ۔ پھر کیا تھا کہ خود کی حالت بدل گئی    اور میں اپنے آپ کو ایک الگ مخلوق سمجھنے لگی کیو نکہ  یک دم   لو گوں کے رویے بھی  بدل گئے ایسا لگا کہ کوئی بڑا گناہ مجھ سے سر زد ہوا  ہو  جس کی سزا تنہائی کی صورت میں دی جارہی ہو  ۔ کوئی آپ کے نزدیک آنے کو تیار نہیں اور  ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں۔ جس کے پاس سے گزرو  گے تو ایسے دور جابھاگیں گے جیسے  میں کوئی خود کش  دہشت گرد ہوں ۔ دن تو  اسی طرح اسی نہج پر گزرے لیکن رات تو قیامت  بن  کر ٹوٹتی تھی ۔نیند کا غائب ہونا اور جسم کا مسلسل  دکھنا اور سب سے تکلیف دہ بات  ذہنی سکون کا ختم ہو نا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسا کہ مجھے کسی گہرے کنواں میں ڈالا گیا ہو  یا  کوئی  بہت بڑا  پہاڑ  اوپر گر ا ہو ا ہو اورمیں  اُس کے نیچے   موت و حیات کی کشمکش  میں زندگی کے دن گن رہی ہوں ۔

لاکھ  جتن  کے باوجود اپنے اپ کو سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ اس حالت میں کوئی پاس نہیں  ہوتا تھا جو کہ اپ کے درد کو سمجھے اور بانٹے۔  درد سے چور چور  بدن   ، تن تنہا جان اور شب کی تاریکی جو کہ طویل ہوتی جارہی تھی ، فقط قیامت صغرا  تھی  اور پروین شاکر کی غزل کے  شعر کا  یہ مصرعہ ” تجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی ”  اس بات  کی غماز تھا کہ  واقعی شب تنہائی تکلیف دہ ہوتی  ہے چاہے ہجر کا ہو یا بیماری کا ۔ اور سوچ سوچ کے دل سے یہ دعا نکل رہی تھی کہ خدا  اس بیماری  سے دشمن کو بھی محفوظ رکھے ۔  ۔ساتھ ساتھ وہ تمام باتیں اور حرکتیں بھی  شدت سے یاد ارہی  تھیں   جو اس مصیبت میں پڑنے کے اسباب تھے۔ اور آ نے والے دنوں کے لیے منصوبہ بندی بھی بنائی جارہی تھی کہ اگر بچ گئے تو آئندہ وہ غلطیاں نہیں ہو نگی جن کی وجہ سے اس حال تک پہنچے ہیں۔ بحر حال  ، پندرہ سولہ دن کے بعد ان  مشکل حالات سے نکلنے کے آثار نظر آ نے لگے اور زندگی آہستہ آہستہ معمول کی طرف  لوٹنے  لگی  لیکن اس دردناک حالت کا  اثر دماغ پر ایسا ہو ا کہ  کئی عرصے تک نفسیاتی   دباؤ کا شکار رہے اور خود کو  روز مرہ کی زندگی کی طرف لانے میں کافی وقت لگا ۔ یہ سب کچھ آپ سب سے بانٹنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ بیماری ختم نہیں ہوئی اور  ہمیں اب بھی بہت احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ  ایک دفعہ اس کا شکار ہوئے دوبارہ نہیں ہونگے یا بہت سے لوگ ہوئے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا۔  کیا پتہ  یہ    کب دوبارہ حملہ آور ہو اور پھر سے اس دردناک عذاب سے گزرنا پڑے ۔  اس لیے  میں احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے  کے حوالے سے اپنی مشاہدات بیان کرتی ہوں تاکہ ہم ان    غلطیوں کو نہ دہرائیں  اور اپنے  اپ کو  اس  تکلیف دہ مرض سے  دور رکھیں۔

۱۔ ماسک صحیح  طریقے سے   پہنیں  اور کسی سے ملتے وقت ماسک نہ اُتاریئے کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ خاص کر کے خواتین ماسک پہنتی  ہیں لیکن کسی سے ملتے وقت اسے  اتارتے ہیں۔    اول یہ کہ  ملنا ہی ضروری نہیں اگر بہت  ہی ضروری ہے تو ماسک پہن کر ہی دوسروں سے ملیں۔

۲۔ ماسک  کا صاف ہونا انتہائی ضروری ہے ایسا نہ ہو کہ اس کو صاف نہ رکھنے کی وجہ سے اور بیماری کا خطرہ ہو۔کیونکہ یہ دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ  ایسے ماسک پہنتے ہیں جو کہ پہننے کے  قابل نہیں ہیں۔

۳۔ ہاتھوں کو صابن سے دھونا نہ بھولیں۔ اور جہاں پر صابن  اور پانی میسر نہ ہو سینی ٹایزر کا استعمال کریں ۔ یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ کچھ لوگ پانی اور صابن کی موجودگی  میں  اٹھنے کی زحمت کرنے کے بجائے   بیٹھے بیٹھے  سینی ٹائیزرز  استعمال کرتے ہیں جو کہ مناسب نہیں ہے۔  صابن اور پانی  کی موجودگی میں ان سے ہاتھ دھونے کی کوشش زیادہ بہتر ہے ۔

۴۔ سماجی فاصلہ رکھنے کی پوری کوشش ہونی چاہیے اور لوگوں کو آگاہی دینے  کی ضرورت ہے کہ اپنوں سے مل کر ان کو تکلیف دینے سے بہتر ان سے دور رہ کر ان کی صحت کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ کچھ لوگ یہ سمجھ کر ملتے ہیں کہ مجھ میں کوئی جراثیم نہیں  لہذا مجھ سے کسی کو   کوئی تکلیف نہیں ہو گی یا یہ کہتے ہیں کہ  میرے ایک بندے کے ملنے سے کیا فرق پڑتا ہے لیکن  وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اس ایک بندے میں اگر یہ جراثیم موجود ہیں تو وہ کئی اور میں منتقل ہو سکتے ہیں اور ان کا جینا حرام کر سکتے ہیں اس لیے لوگوں میں یہ  شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ جسمانی طور پر ملنے سے بہتر فا صلےرکھنا ضروری ہے تاکہ  دوسروں کی صحت کو اپ کی وجہ سے نقصان نہ پہنچے۔

اُمید ہے کہ ہم سب مل کر معمول کے مطابق مقررہ طریقہ کار پر عمل کریں گے ۔اپنے اور دوسروں کی صحت کا خیال رکھتے ہوئے  اس بیماری کا مقابلہ کریں گے جو بھیس بدل کر وقتا فوقتا   نمودار ہو تا ہے۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
51539

داد بیداد ۔ افغانستان بمقابلہ باقی دنیا ۔ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

داد بیداد ۔افغا نستان بمقا بلہ با قی دنیا ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

امریکہ میں مقیم افغا ن دانشور اور نا ول نگار خا لد حسینی کا درد بھر اخط پڑھنے کو ملا خا لد حسینی نے امریکہ، یو رپ اور با قی دنیا میں بسنے والے لو گوں کی بھاری اکثریت کی طرح افغا نستان میں امارت اسلا می کی فتو حا ت پر گہرے غم اور تشویش کا اظہار کیا ہے وہ خود افغا ن ہے مسلمان ہے اس کے وا لدین نے 1980کی دہائی میں کمیو نسٹو ں کی فتح سے تنگ آ کر ملک چھوڑ نے کا فیصلہ کیا اور امریکہ میں پنا ہ گزین ہوئے کم و بیش 40سال بعد خا لد حسینی کو امارت اسلا می کی فتو حات سے خوف آتا ہے

وجہ یہ ہے کہ امریکہ اور یورپ کو 40سال پہلے کمیو نسٹوں سے دشمنی تھی اب 40سال گزر نے کے بعد وہ مسلما نوں سے بغض اور عداوت رکھتے ہیں ان کو ڈر اور خوف ہے کہ افغا نستان میں امارت اسلا می کیوں قائم ہورہی ہے؟ انسا نی حقوق اور شہری آزادی کے قوانین کا تقا ضا یہ ہے کہ امریکہ، یورپ اور افغا نستان کے لئے ایک ہی معیار ہونا چا ہئیے مگر ایسا نہیں ہے امریکہ اور یورپ میں انسا نی حقوق اور شہری آزادی کا جو معیار ہے اس کے مطا بق امریکہ کی آ مش برادری کو ان کی مر ضی کے مطا بق جینے کا حق دیا گیا ہے، بر طا نیہ کی ویلش برادری اپنی مر ضی کی زندگی گذار رہی ہے،

کینڈا میں مینو نا ئٹ نا م کا قبیلہ ہے جس کو اپنی مر ضی کی زند گی گذار نے کا پور احق دیا گیا ہے لیکن جب افغا نستان کے تین کروڑ عوام اپنی مر ضی کی زندگی جینا چاہتے ہیں تو امریکہ اور یو رپ میں خطرے کی گھنٹیاں بجا ئی جاتی ہیں وہاں رہنے والے افغا نی بھی چیخ اُٹھتے ہیں کہ ایسا کیو ں ہو رہا ہے؟ یہ لبر ل اور کنزر ویٹیو کی بحث نہیں یہ قدامت پسند اور ترقی پسند کی بحث نہیں یہ صرف انسا نی حقوق کے دہرے معیار کی بحث ہے تم پوری دنیا کے لئے الگ معیار اور افغا نستان کے لئے الگ معیار کیو ں رکھتے ہو؟ امریکہ میں آمش (Amish) عیسائی قبیلہ جدید دور کی ترقی کو قبول نہیں کر تا،

سڑک اور بجلی کو قبول نہیں کر تا کھیتی باڑی کے لئے مشینوں کے استعمال کو قبول نہیں کر تا، سکول، کا لج، اور یو نیور سٹی کی تعلیم کو نہیں مانتا امریکی آئین نے اس قبیلے کو اپنی مرضی کی زندگی جینے کا حق دیا ہے ان پر جبر کر کے جدیدیت اور ترقی کو مسلط کرنے کی اجا زت نہیں بر طا نیہ کے ولیعہد شہزادہ چارلس کو پرنس آف ویلز کا خطا ب دیا گیا ہے ویلز کی آبا دی ویلش کہلا تی ہے ویلش (Walsh) ایک الگ قبیلہ ہے جو انگریزی زبان، انگریزی سکول اور ذرائع ابلا غ میں انگریز ی کے استعمال کا مخا لف ہے ویلش کو بر طا نیہ کے قا نو ن نے یہ حق دیا ہے کہ وہ ویلش زبان میں تعلیم، اخبار، ریڈیو اور ٹی وی پر و گرام چلا ئیں بازاروں شاہرا ہوں اور دفتروں کے سائن بور ڈ انگریزی کی جگہ ویلش زبان میں لکھوائیں

یہ ان کا بنیا دی انسا نی حق ہے جسے حکومت نے بھی اور بر طا نیہ کے عوام نے بھی خو شی سے تسلیم کیا ہے اسی طرح کینڈا میں ایک مذہبی اقلیت رہتی ہے اس کو مینو نا ئٹ (Mennonite) کہتے ہیں یہ عیسا ئیوں کا الگ گروہ ہے کینڈا کے آئین میں اس کو مکمل آزادی حا صل ہے یہ لوگ الگ تھلگ نہیں رہتے کینڈا، امریکہ اور افریقہ میں جہاں بھی رہتے ہیں آبا دی میں گُھل مل کر بستے ہیں اور اپنے عقائد پر عمل کرتے ہیں یورپ اور امریکہ کے ذرائع ابلا غ نے کبھی ان کو خوف اور بد امنی کی علا مت قرار نہیں دیا اگر افغا نستا ن کی آبا دی امریکہ سے 7ہزار کلو میٹر دور سمندر پا ر پہاڑی وادیوں میں اپنے مذہب اسلا م کی تعلیما ت کے مطا بق زند گی گذار نا چا ہتی ہے تو باقی دنیا کو کیاتکلیف ہے؟

تم نے جو حق آمش کو دیا ہے، ویلش کو دیا ہے، مینو نا ئٹ کود یا ہے وہی حق افغا ن کو کیوں نہیں دیتے خا لد حسینی کی عمر کے افغا ن دا نشور خود اپنی قوم کو، اپنے ہم وطنوں کو ان کی مر ضی کے مطا بق جینے کا حق کیوں نہیں دیتے؟ ایک گوشے سے آواز آتی ہے کہ افغا نوں نے اسلحہ اٹھا یا ہوا ہے جواب یہ ہے کہ امریکہ اور 29یو رپی ملکوں نے اسلحہ لیکر افغا نستا ن پر حملہ کیا تو جواب میں افغا نوں کو اسلحہ اٹھا نے کی ضرورت پڑی آج بھی مخا لف فریق امن سے رہنے دے تو افغا ن امن کو سینے سے لگا ئینگے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
51537

داعش کے خطرات پاکستان کی دہلیز پر! – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

دولت اسلامیہ کی جانب سے شام اور پھر عراق میں خود ساختہ خلافت کے اعلان کے بعد ان کے لیے ہمدردوں کا رخ یورپ کے ساتھ بڑھتا ہوا افغانستان اور پھر پاکستان تک بھی آ پہنچا۔ کچھ عرصہ قبل داعش (دولت اسلامیہ) کی جانب سے پاکستانی علاقوں میں پمفلٹ، بینرز اور اسٹیکر کی تقسیم کی اطلاعات کے بعد بھی پاکستان میں اس بات کا سراغ نہیں لگایا جاسکا کہ دولت اسلامیہ کے لیے کون سا مقامی نیٹ ورک فعال ہوا تھا۔پاکستان میں کالعدم تحریک طالبان کے خلاف متواتر عسکری آپریشنز اور خود تحریک میں دھڑے بندیوں کے سبب ایک وسیع میدان داعش کے لیے خالی پڑا ہے، اسی طرح افغانستان میں امریکا اور نیٹو کے انخلا کے بعد افغانستان کی جہادی تنظیموں کی جانب سے آہستہ آہستہ سابقہ علاقے واپس لینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کنڑ اور نورستان کے علاقے پاکستانی طالبان کی پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں، جس کی مبینہ طور پس پردہ سرپرستی افغان حکومت کی جانب سے کی جا تی رہی۔

خدشہ اسی بات کا ہے کہ داعش ان علاقوں میں اپنے لیے ہمدردوں کا وسیع ٹولہ بنانے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔ حساس اداروں کی جانب سے یہ رپورٹ سامنے آچکی تھی کہ داعش کے اہم اراکین اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر پاکستان میں داخل ہوچکے ہیں اور ان کے ساتھ سیکڑوں کی تعداد میں ہمدردوں کی پہلے ہی کثیر تعداد پاکستان میں موجود ہیں، جس کا عملی مظاہرہ، جہاں افغان مہاجرین کے کیمپوں میں داعش کے تحریری دعوت نامے کی تقسیم، تو کراچی کے مختلف علاقوں میں مبینہ وال چاکنگ کی صورت میں سامنے آیا تھا، جب دیواروں پر ISIS کی چاکنگ کی گئی تھی، جس سے شہریوں میں مزید سراسیمگی پھیل گئی۔
دیکھنا یہ ہے کہ آخر ایسی کیا وجوہات ہیں کہ داعش کو اپنے ہمدردوں کی تعداد میں اضافے کے لیے پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑرہا۔ داعش میں نوجوانوں کے شمولیت کی وجوہات میں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسلامی ریاست ایک خیالی سیاسی دنیا کا تصور پیش کرتی ہے، جس میں حکمرانوں کو رومانوی شخصیت بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

دوسری اہم وجہ یورپ، امریکا میں اسلام کے خلاف شدید مذہبی منافرت اور مباحثے ہیں، جس کی وجہ سے مسلمانوں کی بڑی تعداد معاشرے کے مرکزی دھارے سے الگ تھلگ کردی گئی۔جس سے ان کی مذہبی منافرت کا بھیانک تصور سامنے آتا ہے کہ انھیں اسلام اور  خود ساختہ مذاہب میں بھی تمیز نہیں رہی ہے، بلکہ وہ ظاہری وضع قطع سے ملتے جلتے معاملات پر ہی خود ساختہ مذہبی انتہا پسندی کرتے نظر آتے ہیں، اسی طرح  کینیڈا سمیت مغربی ممالک میں مسلمانوں پر جینا دشوار کردیا اور مذہبی آزادی پر شدید پابندیاں عائد کیے جانے اور مختلف متشدد گروپوں کی جانب سے دھمکیوں اور اشتعال انگیزیوں کے سبب اوپن ڈے بھی منایا  جاتا رہا، جس میں مسجد میں داخلے کے لیے تمام مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے لیے دروازے کھولے گئے تاکہ وہ نزدیک سے اسلامی عبادات کو دیکھیں اور اپنی غلط فہیماں دور کریں، اس سلسلے میں بعض مغربی ممالک میں مسلمانوں میں شدید عدم تحفظ کا احساس پایا جاتا ہے، جس سے ان کی گورنمنٹ کے لیے مذہبی رواداری قائم رکھنے میں ناکامی پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔


یورپ سے داعش میں شمولیت کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے جس میں بہت سے مرد اور خواتین اجنبی ممالک میں جاکر وہاں کی تسخیر میں بھی بہت دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس کا موازنہ 75 سال قبل اسپین میں ہونے والی خانہ جنگی سے کیا جاتا ہے کہ خواتین کسی نئی چیز کا حصہ بننا چاہتی ہیں، ملک و قوم کے ماں کی حیثیت سے بھی اور جنگجوؤں کی بیویوں کی شکل میں بھی۔ جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں تحفظ آئین کے ملکی ادارے کی علاقائی شاخ کے سربراہ برک ہارڈ فرائیر کے مطابق صرف ایک جرمن صوبے سے شام کا سفر کرنیوالی خواتین کی تعداد 25 تھی، ان کے بقول یہ بہت کم عمر ہیں، مردوں سے کہیں زیادہ جوان۔ داعش میں شمولیت اختیار کرنیوالوں میں ایک معقول تعداد ایسے تارکین وطن کی بھی ہے۔جنھیں اپنی شناخت اور اپنی ذات سے متعلق عدم واقفیت ہے، جس کی وجہ سے وہ تلاش کی اس مہم جوئی میں شامل ہونے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

معاشرے یا نظام کے خلاف احتجاج اور خود کو اپنے خاندان سے الگ تھلگ کردینے میں خواتیں کا اہم کردار ادا ہوتا ہے، ان وجوہات میں یہ بھی سمجھا جا رہا ہے کہ مستقبل میں خود شہید کی حیثیت سے شجاعت و بہادری کی علامت کا جذبہ بھی ان میں کارفرما نظر آتا ہے۔ داعش کی افغانستان میں موجودگی نے بھی عالمی برادری میں تشویش کو بڑھا دیا ہے۔جب کابل یونیورسٹی میں داعش کی چاکنگ ہوئی اور طالب علموں کی کثیر تعداد کو گرفتار کرلیا گیا، مقامی طالبان کمانڈروں کی داعش میں شمولیت کی ایک بڑی وجہ دولت کی فراوانی بھی بتائی جاتی ہے جس میں شام و عراق کے مفتوحہ علاقوں سے نوادرات اور بلیک مارکیٹ میں تیل کی فروخت کے ساتھ اغوا برائے تاوان کے ذریعے بڑی رقومات کا حصول ہے، جس کی وجہ سے پاک، افغان گروپس میں داعش کے لیے بڑی کشش پیدا ہوئی ہے کیونکہ انھیں اپنے بے تحاشا اخراجات پورے کرنے کے لیے فنڈنگ کی دشواریاں کم ہونے کی سہولت حاصل ہوجائے گی۔


پاکستان میں 21 ایسے افراد کی نگرانی کی گئی تھی جو مقامی طور پر داعش کی تنظیمی ڈھانچے کو مستحکم بنانے کی کسی کوشش میں ملوث ہوسکتیتھے، پاکستان میں بڑی شدومد کے ساتھ فرقہ وارانہ خانہ جنگیوں کے لیے راہ ہموار کی جارہی ہے، جس کے سبب فرقہ وارانہ خیالات کے حامل انتہاپسندوں کو داعش کی صورت میں اپنے خوابوں کی تکمیل کا ذریعہ دکھائی دیتا ہے۔ اس کے علاوہ منفی جذبات ابھارنے کے لیے پاکستان کے ان ہی علاقوں کو ایک بار پھر کسی بین الاقوامی ایجنڈے کو کامیاب بنانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، جب امریکا نے روس کے خلاف اور پھر امریکا کے خلاف طالبان کی صورت میں استعمال ہوئے۔

وہاں آپریشن کے بعد بڑی تعداد میں نقل مکانی اور اس بات کو ہوا دینے کی مسلسل کوشش کی گئی کہ فوجی آپریشن کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا، یہ ضرور ہے کہ مختلف آپریشن کے نتیجے میں آئی ڈی پیز کی مزید بڑی تعداد پشاور اور گردو نواح منتقل ہوئی اور فوج کا آپریشن جاری رہا۔ داعش میں شمولیت کے لیے غلط فہمیوں کی ماضی کی فضا دوبارہ سازگار بنانے کے لیے اس قسم کے پروپیگنڈے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں اور مستقبل میں ان علاقوں میں احساس محرومی کے نام پر کسی بھی مسلح گروپ کو دوبارہ قدم جمانے میں دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ اب یہ ارباب اختیار کی پالسیوں پر منتج ہے کہ وہ کس طرح مستقبل میں داعش کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے اقدامات کرتی ہے۔ کیا وہ ماضی کی طرح کسی ’خاص مقاصد‘ کے لیے ان علاقوں میں کسی نئی مہم جوئی کے حق میں ہیں یا پھر قلع قمع چاہتے ہیں۔ یہ سب کچھ پاکستان کے پالیسی سازوں پر منحصر ہے۔


افغانستان میں تبدیل ہوتے حالات میں ایسے عسکریت پسندوں کو راہ  ل سکتی ہے جو دولت و طاقت کے لئے سخت گیر انتہا پسندوں تنظیموں میں شامل ہوسکتے ہیں، اسی اطلاعات بھی سامنے آچکی ہیں کہ مختلف جنگجوؤں تنظیموں کو مخصوص مفادات کے لئے اکھٹا و اسلحہ دیاجارہا ہے،، ان حالات میں پاکستان خطرات کی زد میں آتا ہے جہاں مذہب کے نام پر ناپختہ اذہان کو استعمال کرنے کا رجحان عمومی رہا ہے، داعش (خراساں شاخ) اور آئی ایس الباکستان کی تنظیم نو پاکستان اور افغانستان میں پر تشدد کاروائیوں کے لئے ایک بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے، افغان۔ پاک اور ایران بارڈر سسٹم کی ضرورت ناگزیز ہوجاتی ہے کہ ایسے عناصر کو کسی بھی طرح ملک دشمن قوتوں کے ایجنڈے پر مذموم سازشیں کرنے سے روکا جاسکے۔

مستقبل میں افغانستان کا جو بھی نقشہ ہوگا لیکن اس میں شدت پسند تنظیمیں بالخصوص داعش (خراساں شاخ) اور آئی ایس الباکستان اور انتہا پسند تنظیموں کا اتحاد مملکت میں دہشت گردی اور شدت پسندی کی اُس لہر کو واپس لا سکتا ہے، جس کا سامنا پاکستان کرچکا ہے اور اب بھی سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ افغانستان میں امن کے قیام تک پاکستان کی سرحدیں اور داخلی چابک دستی بڑے سانحات کو روکنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں۔ پڑوسی ملک میں کسی بھی گروہ کی حکومت قائم ہو یا موجودہ سیٹ اپ چلتا رہے، پاکستان شدت پسندوں کے لسٹ پر سرفہرست رہے گا، جس کا مقابلہ سب کو یکجا ہوکر کرنا ہوگا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51535

کھوار زبان وادب کی تاریخ ۔ تبصرہ : ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

کھوار زبان وادب کی تاریخ ۔ تبصرہ : ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

زبان و ادب کی تاریخ ایک پیچیدہ مضمون ہے رام با بو سکسینہ سے لیکر ڈاکٹر سلیم اختر تک کئی نا بغہ روز گار مورخوں اور نقادوں نے اس پر کا م کیا ہے لیکن پرو فیسر محمد نقیب اللہ رازی صاحب کا تحقیقی اور تنقیدی کام سب سے الگ ہے آپ نے ایسی زبان پر کام کیا ہے جس کا لسا نیاتی اور ادبی ذخیرہ بہت مختصر ہے یہ ایسے دریا کی ما نند ہے جس کی تہہ میں غو طہ لگا ئے بغیر مو تی کا ہاتھ آنا ممکن نہیں اور شکر کا مقا م ہے کہ رازی صاحب نے غو طہ لگا یا اور ہمارے دامن کو کھوار ادب کے مو تیوں سے بھر دیا 473صفحات کی خو بصورت کتاب ”تاریخ زبان وادب کھوار“ رازی صاحب کی نئی کتاب ہے جس کو ادارہ فروغ قو می زبان نے خصو صی اہتمام سے شا ئع کیا ہے

مصنف نے 1997میں ”کھوار زبان و ادب“ کے نا م سے تاریخ ادبیات پر 176صفحات کی مختصر کتاب شائع کی تھی جو اب تک حوالے کی کتاب کے طور پر کا م آرہی ہے زیر نظر کتاب اپنے نقش اول والے اجما ل کی تفصیل ہے اس میں مو ضوع کے ساتھ پورا انصاف کیا گیا ہے اور اس کے کسی پہلو کو تشنہ نہیں چھوڑا گیا 110شعرائے کرام کا تذکرہ نمو نہ کلا م کے ساتھ دیا گیا ہے جبکہ 370شعرائے کرا م کے اسمائے گرامی حروف تہجی کی تر تیب سے ریکارڈ کے لئے کتاب میں درج کئے گئے ہیں یو ں کم و بیش 500نا موں کے ساتھ کھوار زبان کے سابقہ اور مو جو دہ شعرا ء کی اچھی خا صی تعداد سا منے آگئی ہے اور خو شی کی بات یہ ہے کہ گلگت،کراچی اور لا ہور میں مو جود شعراء کو بھی شا مل کیا جا ئے تو یہ فہر ست 600سے اوپر تک جا تی ہے جو کھوار کی ثروت مندی کی نشا نی ہے مصنف نے کتاب کو 15ابواب میں تقسیم کیا ہے

پہلا بات کھوار کی تاریخ پر ہے جو 2000قبل از مسیح سے مو جو د ہ حال تک کا احا طہ کر تا ہے دوسرا باب کھوار کے لسا نیاتی مطا لعے پر ہے اس میں صو تیات کا تفصیلی ذکر ہے تیسرے باب میں کھوار کے لسا نی اسلو ب، ضر ب لامثا ل اور محا ورات پر بحث کی گئی ہے چو تھے باب کا عنوان ہے کھوار پر اثر انداز ہو نے والے عوامل یا عنا صر، اس باب میں عر بی، فارسی، انگریزی، پشتو اور اردو کے اثرات کا ذکر ہے پا نچویں باب میں کھوار کے حروف تہجی، رسم الخط اور املا پر بحث کی گئی ہے چھٹا باب کھوار ادب کے ارتقا پر ہے اس میں فروری 1957کے پہلے مشا عرے سے بات شروع کی گئی ہے پھر انجمن تر قی کھوار، ریڈیو پا کستان، مجلہ جمہور اسلا م کھوار، سکولوں کے لئے کھوار نصاب کی تیاری، ایف ایم ریڈیو اور سو شل میڈیا کے ساتھ ساتھ کھوار کے مختلف رسائل اور جرا ئد کا ذکر ہے سا تواں باب کھوار زبان کی خصو صیات اور ادبی ثروت مندی کا بیان ہے

آٹھواں باب کھوار پر ہو نے والے تحقیقی کا موں سے بحث کرتا ہے یہ بحث ڈاکٹر لیٹنرسے شروع ہو کر دور حا ضر تک سوا سو سال کے کا موں کا احا طہ کر تا ہے نویں باب میں اس تسلسل کو شہزادہ حسام الملک سے شروع کر کے قاری نصیر اللہ منصور تک لا یا گیا ہے دسواں باب کھوار اصنا ف شاعری اور مو سیقی پر ہے گیا رھویں باب میں شعرائے قدیم کا ذکر ہے جو اتا لیق محمد شکور غریب سے لیکر جبیں تک آیا ہے بارھواں باب عصر حا ضر کے شعراء کا تذکرہ ہے اس حصے میں محسوس ہوتا ہے کہ 1880سے لیکر 1960تک کھوار گیتوں کے حوا لے سے جو اہم شعرا ء گزرے تھے ان کا ذکر نہیں ہوا گل اعظم خا ن، امان، زیا رت خان، شیرین، یسا ول، حبیب گل اور ان کے ہم عصر شعراء پر گل نواز خا کی نے جو کام کیا ہے وہ رازی صاحب سے مخفی رہا ہو گا تیرھواں باب شاعرات کے تذکرے کے لئے مخصوص ہے

اس میں نا ن دوشی، ڈوک یخدیذننو بیگال، ننو ژان کی شاعرات کے ساتھ ساتھ دور حا ضر کی شاعرات میں فریدہ سلطا نہ فری اور سیدہ حیات بیگم نسیم،ثاقیہ کوثر بلقیس اور بشارت جبیں سمیت درجن بھر شاعرات کا ذکر آیا ہے بات نمبر 14میں کھوار شاعری اور کلا سیکی مو سیقی کا بیان آیا ہے کتاب کا آخری باب کھوار نثر پر ہے اس میں نقد و جرح، تحقیق، افسانہ، انشا ئیہ، ناول، ڈرامہ، خواتین قلم کا ر، بچوں کا ادب وغیرہ آگئے ہیں.

کتاب کا دیباچہ ادارہ فروغ قومی زبان کے صدر نشین ڈاکٹر راشد حمید نے لکھا ہے اپنے دیباچے میں آپ لکھتے ہیں ”ادارہ مولا نا نقیب اللہ رازی کا احسان مند ہے کہ انہوں نے انتہا ئی احسن طریقے سے کھوار زبان و ادب کے بنیا د ی خدو خال اجا گر کر تے ہوئے ایک تاریخ قلمبند کی ہے پا کستانی زبا نوں اور ان کے ادب کے اجتما عی دھا رے کا مطا لعہ کر تے وقت یہ کتاب یقینا ممدو معاون ہو گی“ الغرض ”تاریخ زبان وا دب کھوار“کی اشاعت کے ذریعے مصنف نے خود اپنا ریکارڈ توڑ دیا ہے جس کے لئے آپ مبارک باد کے مستحق ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51512

شیر ولی خان اسیرؔ کے ساتھ مختصر نشست اور بھولی یادیں ۔تحریر : شمس الحق قمر

میری ڈائری کے اوراق سے (سر شیر ولی خان اسیرؔ صاحب کے ساتھ مختصر نشست اور بھولی یادیں )

تحریر : شمس الحق قمر

استاد کتنی پیاری اور سب پہ بھاری  شخصیت ہوتی ہے آپ کو اس کا اندازہ تب ہوگا جب سکول ، کالج سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد زندگی کے بکھیڑوں میں اُلجھے ہوں اور کہیں اتفاق سے  بچپن کا کوئی استاد آپ کو ملے ۔ یہ وہ عظیم  لمحہ ہوتا ہے کہ جب عشروں کے اُس پار کی زندگی اور سکول میں بیتے تمام لمحات زندہ  ہوتے ہیں ۔

        آج سر شیر والی خان اسیرؔ صاحب  سے گلگت میں ملاقات ہوئی ۔ انہوں نے پچھلے دنوں  ٹٰیلی فون پر اپنے گلگت آمد اور مجھے شرف ملاقات سے نوازنے کےلیے میرے گھر تشریف لانے کی خواہش کا اظہار بھی کیا تھا  جو کہ ناچیز پر آپ کا بڑا احسان تھا ۔ مجھے معلوم ہے انہوں  نے اپنی زندگی میں بے شمار لوگوں کو علم کے نور سے منوّر کیا ہوگا اور یوں اُن بہت سوں کی قطار میں اُن کے دل میں اپنا مقام دیکھ کر اپنے آپ پر فخرمحسوس ہونے لگا کہ دیکھ بھائی تو کتنا عظیم  آدمی  ہے کہ  تیرے استاد نے تجھے یاد فرمایا ہے ۔ میں نے آداب بجا لانے کے بعد سر سے درخواست کی کہ  وہ تکلّف نہ فرمائیں بلکہ میں اُن کی رہائش گاہ حاضر ہو کر دست بوسی کا شرف حاصل کروں گا۔

chitraltimes sher wali khan aseer 3

         شیر ولی خان اسیر صاحب کے ساتھ  ایک استاد اور شاگرد کے رشتے کے علاوہ بھی  بے شمار خاندانی  رشتے ہیں  لیکن مجھ پر بھاری رشتہ اولذکر ہی رہا ہے کیوں کہ ہم نے آپ کا  وہ پیشہ وارانہ کھرا پن دیکھا ہےکہ  سچائی اور حق  کے سامنے سر تا پا سر تسلیم خم کیے رکھتے تھے  اور باطل کو جوتی کی نوک پر رکھتے ۔ پیشے کے اعتبار سے اُن سے زیادہ پابند نظم و ضبط آدمی میں نے آج تک نہیں دیکھا  ۔ اپنے زمانے کا کیا شاندار اور جاذب نظر آدمی تھے۔ بعض خاص موقعوں پر صبح کی اسمبلی میں تشریف لاتے تو طویل قد کاٹھ پر کوٹ ، پتلوں اور ٹائی کی سجاوٹ صبح کی اسمبلی پر قامیت بر پا کیا کرتی ۔

میں نے بہت بعد میں جب خود ٹیچنگ شروع کی تو پیشہ وارانہ کتابوں کی ورق گرانی سے معلوم ہوا کہ ایک پیشہ وارانہ مُدرس کےلئے لباس کتنی اہمیت کا حامل ہے ۔ میں یہاں پر 1980 کی دہائی کا ذکر کر رہا ہوں جب شیر ولی خان اسیرؔ صاحب ہائی سکول بونی میں  ہیڈ ماسٹر تھے ۔آج جب آپ سے ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی  تو وہ ہی پرانے میلے یاد آئے جو آج سے 30 سال قبل گزرے تھے لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ سربڑی اچھی صحت سے زندگی گزار رہے ہیں ۔ ہم جب ملے تو ہماری گفتگو کا آغاز پرانے زمانے کی دیسی خوراک اور پوشاک کے علاوہ حال ہی میں جیو ٹیلی وژن پر گلگت میں پینے کے پانی کے اندر زہریلے اثرات کے انکشاف  سے ہوا اور مثبت سوچ کے انسانی زندگی اورانسانی  روح پر مثب اثرات پر ہم نے گفتگو سمیٹی ۔

سوال یہ ہے کہGEO ٹیلی وژن کی رپورٹ کے مطابق  پاکستان کے کئی ایک شہروں  کےعلاوہ گلگت کے پانی میں زہریلے اثرات اگر موجود ہیں تو ورلڈ ہیلتھ ارگینائزیشن اور صحت کے  دیگر سرکاری و نجی ادارے تحقیق کیوں نہیں کرتے ؟ یہ سوال بہت معنی خیز تھا لیکن  اپنے سوال  کا خود جواب دیتے ہوئے  شیر ولی خان اسیرؔ  نے فرمایا کہ شاید یہ مختلف تجارتی  کمپنیوں کی آپس کی معاشی سرگوشیوں کا نتیجہ ہو بصورت دیگر اگر گلگت کے پانی میں  زہریلے اثرات موجود ہوتے تو آج گلگت کا نقشہ کچھ اور ہوتا  ۔ اس وقت گلگت کے اندر شرح اموات یا شرح امراض اتنی کم ہے کہ  یہاں کے لوگ دنیا کے صحت مند لوگوں میں شمار ہوتے ہیں ۔ باتوں سے باتیں نکلتی گئیں اور  ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ انسان کی سوچ مثبت ہو تو انسان کی زندگی اور روح دونوں ترو تازہ  رہتی ہیں ۔ جسے ہم مثبت سوچ کہتے ہیں اُسے علامہ اقبالرح نے خودی کہا ہے ۔ فرماتے ہیں

؎   ہو اگر خود نگر و خود گر و خود گیر خودی         بہت ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے

chitraltimes sher wali khan aseer 2
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
51496

میموگرافی کیا ہے؟ – تلخ و شیریں، نثار احمد

میموگرافی کیا ہے؟


امریکہ میں مقیم چترالی فیملی کے تعاون سے کینسر کیئر ہسپتال لاہور کے زیر اہتمام چترال میں جاری میموگرافی کا عمل آج بحسن و خوبی انجام پذیر ہوا۔ میمو گرافی میں چترال کے طول و عرض سے ساڑھے پانچ سو کے قریب خواتین کا معاینہ کیا گیا۔
انسان کے بدن میں سرطان (Cancer) کے اثرات کی تشخیص میمو گرافی کی بدولت ممکن ہوتی ہے۔اس میں چھاتی کے ایکس رے کیۓ جاتے ہیں ایکسرے میں چھاتی کے اندر ہونے والی کسی بھی قسم کی تبدیلی یا گلٹی کا پتہ چل جاتا ہے ۔ اس کے زریعے سینے میں پیدا ہونے والی گلٹیوں کو بڑے ہو کر تباہی پھیلانے سے قبل ہی دریافت کر کے جان لیوا ہونے نہیں دیا جاتا۔


عام طور پر چالیس سال سے زائد العمر خواتین ہی سینے کے سرطان (بریسٹ کینسر) کے ہتھے چڑھ کر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں اس لیے چالیس سال سے زائد عمر کی ہر خاتون کو میمو گرافی کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ جن ممالک میں خواتین ہر دو تین سال بعد میمو گرافی یعنی سینے میں سرطان کے اثرات کا معاینہ کرواتی ہیں ان ممالک میں سرطان سے اموات کی شرح نہایت کم ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں معاشرتی سطح پر میموگرافی پر توجہ دی جاتی ہے اور نہ ہی اس کی سہولیات ہر جگہ موجود ہیں۔ نتیجتاً سالانہ ہزاروں لوگ بالخصوص بڑی تعداد میں خواتین موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ چترال میں جن دو بڑی بیماریوں کی وجہ سے شرحِ اموات تشویش ناک حد تک بڑھی ہے ان میں ایک سرطان (Cancer) جیسا مہلک مرض بھی ہے۔

میرے لیے اس مرض کے پھیلاؤ کا اندازہ لگانا اس لیے مشکل نہیں کہ میرے قریب ترین رشتہ داروں میں ماموں اور خالہ اس کی بھینٹ چڑھ کر ابدی نیند سو چکے ہیں۔ اس مرض میں مریض ایک دفعہ نہیں، کئی دفعہ مرتا ہے۔ سرطان کا متاثر اذیت کی چکی میں پِس کر خود بھی ناقابلِ برداشت تکلیف سہتا ہے اور متعلقین کو بھی رُلاتا رہتا ہے۔ ہمارے ہاں سرطان کے ناقابلِ علاج ہونے کی وجہ تاخیر سے تشخیص ہے۔ ہمیں اُس وقت اس کا احساس ہوتا ہے جب یہ ہمارے بدن میں اپنی گہری جڑیں مضبوط کر کے تیسرے یا چوتھے اسٹیج تک پہنچ چکا ہوتا ہے۔ اگر اس کے ابتدائی اثرات کی جسم میں پیدائش کے ساتھ ہی اس کی تشخیص ہو سکے تو پھر اس کا علاج ممکن ہی نہیں، آسان بھی ہے۔ اس مرض سے لڑ کر اسے شکست دینے کی واحد صورت یہی ہے کہ ہر دو تین سال بعد معاینہ کروا کر دیکھ لیا جائے آیا کہ سرطان کے اثرات جسم کے کسی حصے میں ولادت پا کر برگ و بار تو نہیں لا رہے؟


یہ دیکھ کر اطمینان کی خوش گوار لہریں جسم میں دوڑنے لگیں کہ امریکہ میں مقیم چترال سے تعلق رکھنے والی ایک فیملی نے کینسر کیئر ہسپتال لاہور کے تعاون سے چترال بھر میں چند روزہ میموگرافی مراکز کا اہتمام کروایا۔ ان معاینہ مراکز میں ساڑھے پانچ سو کے قریب خواتین نے اپنا معاینہ کروایا۔ یہ چترال جیسے پسماندہ علاقے کے باسیوں کی بڑی خدمت بھی ہے اور اپنی ذات میں عظیم عبادت بھی۔ مجھے یہ تو نہیں پتہ کہ محترم روزیمن شاہ اور نگہت شاہ کا تعلق چترال کے کس علاقے سے ہے لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ دیار ِ غیر میں سکونت رکھتے ہوئے روزیمن شاہ اور نگہت اکبر کا دل اپنی جنم بھومی چترال کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ یہ وہاں جا کر اپنوں کو بھولے ہیں اور نہ ہی اپنے علاقے کے مسائل سے لا تعلق ہیں۔

میموگرافی کی سہولت م ہی نہیں، گردوں کی صفائی کے لیے اہل ِ چترال کو ڈائیلاسز مشین کا تحفہ بھی ان کا ایسا کارنامہ ہے کہ اس پر ان کا شکریہ “شکریے” کا بے محل استعمال ہرگز نہیں۔

میموگرافی
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51463

“وجعلنا الیل لباسا” – تحریر: اقبال حیات اف برغذی

“وجعلنا الیل لباسا” – تحریر: اقبال حیات اف برغذی

اللہ رب العزت کے اس کائنات کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو خود بخود احساس ہوتا ہے۔ کہ رب کائنات نے انسانی مزاج کے مطابق اس کی تشکیل عمل میں لائے ہیں۔ موسموں کے تغیرات اس حقیقت کے غماز ہیں کہ یک رنگی کیفیت سے انسان کی بے رغبتی پیدا  نہ ہوجائے مختلف رنگوں کی امیزش بصارت کو جلد بخشنے کا کردا ر ادا کرتے ہیں۔ پرندوں کی چہچاہٹ سے سماعت کو سرورحاصل ہوتا ہے۔ منہ مختلف النوع نعمتوں کی چاشنیوں سے لطف اندوزہوتا ہے۔ اسی طرح دن اور رات کے بدلنے میں بھی انسانی مزاج کے خیال کا رنگ ابھرتا ہے ۔جس طرح دن معاش زندگی کے لئے دست وپا کو بروئے کار لانے کے فوائد کے حامل ہوتے ہیں اسی طرح راتین آرام وسکون اور نیند کی ضرورت پوری کرنے کے مقاصد سے مربوط ہیں۔

حفظ مراتب کا لحاظ رکھتے ہوئے زندگی کے شب ورز گزرنے کے عمل کو نظام کے روح کی حیثیت حاصل ہے۔ اور اس کے برعکس زندگی گزارنے میں پیچدگیوں اور مسائل  کا شکار ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

یہ چند تمحیدی سطور حال ہی میں چترا ل کے علاقہ ریشن میں گاڑی کے اندوہناک حادثے اور قیمتی جانوں کے ضیاع کے واضح  بنیادی اسباب کی طرف خصوصی توجہ مبذول کرنے کی غرض سے زیر قلم کئے گئے ہیں ۔فطرت کے تقاضوں کے برعکس راتوں کے مقاصد کو نظر انداز کرکے دن کے رنگ میں ڈھالا جائے تو نیند کے غلبے کا شکار ہونا  اظہر من الشمس ہے نیند ایک  منفرد بشری تقاضا اور ضرورت ہےکہ جس کا کوئی متبادل نہیں اور جس کے تدارک کے لئے کوئی بھی عمل کارگزنہیں ہوسکتا۔ اور نیند کی کمی کا شکاور انسان کا بے حسی کی کفییت سے دوچار ہونا لازمی امر ہے ۔ اسلامی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری زندگی میں راتوں کے سفر سے اجتناب فرمائے ہیں اور ہر قسم کی مہمات سے واپسی پر رات کے دخول کے بعد شب باشی کے لئے مختلف مقامات پر قیام فرمائے ہیں۔ ہجرت کے نازک سفر میں غار ثور میں آپ کی شب گزاری اس حقیقت کا آئنہ دار ہے۔

حضرت موسی علیہ السلام اللہ رب العزت سے آپ کی نیند کرنے سے  متعلق سوال پررب العزت انہیں دونوں ہاتھوں میں پیالیان رکھ کر کھڑے ہونے کا حکم دیتے ہیں۔ موسی علیہ السلام حکم کی تعمیل کرتے ہوئے کھڑے ہوتے ہی ان پر نیند کی عنودگی طاری ہوتی ہے۔ اور دونوں ہاتھوں سے پیالیاں زمین پر گر کر پاش پاش ہوتی ہیں ۔ اللہ پاک موسی علیہ السلام سے فرماتے ہیں کہ اگر مجھے نیند آئے تو کائنات کے نظام کا حشر بھی اس طرح ہوگا۔

نیند کی اہمیت سے متعلق ان حقائق کے تناظر مین چترال جیسے سنگلاخ پہاڑی اور دورافتادہ علاقے کے لئے راتوں کو سواری لیکر ٹرانسپورٹ کی آمدورفت میں جانی نقصانات کے احتمال کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔

ا س لئے ٹرانسپورٹروں او ر جانی تحفظ پر مامور اداروں سے بجا طور پر یہ امید رکھی جاسکتی ہے کہ وہ احتیاط میں عافیت کے مصداق اس اہم معاملے کی طرف توجہہ مرکوزکریں گے تاکہ آئندہ کف افسوس ملنے کی نوبت نہ آئے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51438

بجلی کے بلوں پرسبسڈی ۔ محمد شریف شکیب

حکومت نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی شرائط پوری کرنے کے لئے بجلی کے بلوں پر سبسڈی ختم کرنے کاعندیہ دیا ہے۔پاور ڈویژن نے تجویز دی ہے کہ چھ ماہ میں دو سو یونٹ بجلی خرچ کرنے والوں کو محفوظ سبسڈی دی جائے۔اگر اس عرصے میں انہوں نے دو سو ایک یونٹ بجلی بھی خرچ کی تو وہ محفوظ سبسڈی کی سہولت سے محروم رہے گا۔ان کا کہنا تھا کہ دو سویونٹ والے صارفین کے پاس لگژری آئٹمز نہیں ہوتے۔ انہیں احساس پروگرام کے تحت محفوظ سبسڈی دی جاسکتی ہے۔ چیئرمین نیپرا نے خبردار کیا ہے کہ اگر بجلی کے بلوں پر سبسڈی ختم کردی گئی تو عوام کی چیخیں نکلیں گی اورانہیں زوردارمعاشی جھٹکا لگے گا،ہم نے قوم کو ذہنی مریض نہیں بنانا ہم نے بجلی بل کو سادہ بناناہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بجلی صارفین کو کونسی سبسڈی مل رہی ہے۔ جسے واپس لینے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ممکن ہے کہ بڑے صنعت کاروں اور کارخانہ داروں کو سبسڈی مل رہی ہو۔ اس سے رعایت واپس لینے سے عوام یا ان کی اپنی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ پاکستان میں پانی سے سب سے زیادہ بجلی پیدا ہوتی ہے۔ جس کی قیمت چار روپے یونٹ بنتی ہے۔ فرنس آئل، شمسی توانائی، کوئلے، ونڈ اور جوہری توانائی سے جو بجلی پیدا ہوتی ہے ان سب کو ملاکر صارفین کو بجلی 14روپے یونٹ پڑتی ہے۔ گھریلواستعمال کی بجلی کا بل اٹھاکر دیکھیں تو اس میں جنرل سیلز ٹیکس، محصول بجلی، اضافی ٹیکس، نیلم جہلم سرچارج، ڈیم ٹیکس، ٹی وی فیس اور دیگر ٹیکس اور محصولات شامل کرنے سے ان کا حجم بجلی کی اصل قیمت سے دوگنا ہوجاتا ہے۔

دنیا میں ہرجگہ بجلی سمیت کسی بھی پراڈکٹ کے استعمال زیادہ ہونے پر اس کی قیمت میں رعایت دی جاتی ہے پاکستان واحد ملک ہے جہاں بجلی اور گیس زیادہ استعمال کرنے پر قیمت بھی دوگنی، تگنی کردی جاتی ہے۔ جس گھر میں دو پنکھے اور پانچ بلب جلائے جاتے ہیں ایک ٹی وی سیٹ اور پانی کا موٹرچلایاجاتا ہے اس کا ماہانہ بل چھ سات سو روپے سے زیادہ نہیں بنتا۔ مگر مختلف ٹیکس ملاکر اسے ڈیڑھ دو ہزار کا بل تھمایاجاتا ہے۔ تین سو یونٹ تک بجلی خرچ کرنے پر اس کی فی یونٹ قیمت پندرہ روپے مقرر ہے۔ تین سو ایک سے چار سو یونٹ خرچ کرنے پر قیمت بیس روپے فی یونٹ وصول کی جاتی ہے۔ چار سو ایک یونٹ سے پانچ سو یونٹ تک بجلی خرچ کرنے والوں سے پچیس روپے فی یونٹ اور پانچ یونٹ سے زائد خرچ کرنے پر اٹھائیس روپے فی یونٹ وصولی کی جاتی ہے۔

جبکہ کمرشل استعمال کا ریٹ بائیس روپے فی یونٹ ہے۔ ہر مہینے کی بارہ تاریخ کو میٹر کی ریڈنگ ہوتی ہے۔ اگر میٹر میں 299یونٹ خرچ ہوئے ہوں تو دانستہ طور پر ریڈنگ کی تاریخ ایک دن بعد کی درج کی جاتی ہے اور صرف شدہ یونٹ کی تعداد تین سو سے زیادہ دکھا کر صارف سے سینکڑوں روپے اضافی وصول کئے جاتے ہیں۔ایک صارف نے بتایا کہ تین ماہ قبل اس کے گھر کا بل چالیس ہزار آیا۔ حالانکہ وہ ہر مہینے باقاعدگی سے بل ادا کرتا رہا ہے۔ بجلی کے دفتر جاکر پتہ کرایا توبتایاگیا کہ سٹاف کی کمی کے باعث میٹر ریڈر پورے ایریا کو کور نہیں کرپاتا اور گھر سے ہی ہر صارف کے کھاتے میں اپنی مرضی سے یونٹ ڈال دیتا ہے۔

پانچ چھ ماہ بعد جب میٹر چیک کیاگیا تو اس کے ذمے ایک ہزار یونٹ واجب الادا نکلے اور ان کا ریٹ اٹھائیس روپے فی یونٹ کے حساب سے مقرر کرکے چالیس ہزار کا بل بھیج دیاگیا۔ لائن لاسز، کنڈے لگانا اور بجلی کی چوری تقسیم کار کمپنی کی کوتاہی ہوتی ہے مگر وہ اپنی غلطی کی سزا اضافی بل بھیج کر اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کی صورت میں صارفین کو دیتے ہیں۔ ایک فیڈر سے بیس بائیس دیہات اور علاقوں کو بجلی فراہم کی جاتی ہے اگر کسی ایک گاؤں کے چند لوگوں نے کنڈے لگادیئے یا بجلی کے بل ادا نہیں کئے تو ان چند لوگوں کے جرم کی سزا لوڈ شیڈنگ کی صورت میں پورے علاقے کو دی جاتی ہے۔

گذشتہ تین سالوں کے اندر مختلف حیلے بہانوں سے بجلی کی قیمتوں میں بیس مرتبہ اضافہ کیاگیا۔ تقسیم کار کمپنیاں جان بوجھ کر صارفین کو تنگ کرتی ہیں جب بل کی ادائیگی صارفین کی استطاعت سے باہر ہوگی تو لوگ میٹر لگانے کے بجائے کنڈے لگانے کو ترجیح دیں گے۔ یاپھر توانائی کے متبادل ذرائع شمسی توانائی پر انحصار کرنے پر مجبور ہوں گے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
51420

عزت و ذلت اللہ کی طرف سے ہے ۔ تحریر:تقدیرہ خان

عزت و ذلت اللہ کی طرف سے ہے ۔ تحریر:تقدیرہ خان

مشہور روسی مفکر،محقق، دانشور اور شاعر رسول حمزہ توف اپنی تحریر”میرا داغستان” میں لکھتے ہیں کہ بستی میں ایک عقل مند اور ایک ہی عقل سے عاری بدھو کافی ہوتا ہے۔ عقلمندوں اور بے عقلوں کی بہتات بستی کا نظام تباہ کر دیتی ہے۔ عام لوگ کنفیوژن کا شکار ہو جاتے ہیں اور غلط فیصلے کرنے لگ جاتے ہیں۔ عقلمندوں اور جاہلوں کے جھگڑے سے معاشرے میں فساد برپا ہو جاتا ہے اور آخر کار بستی تباہ ہو جاتی ہے۔


بد قسمتی سے آج ملک پاکستان پر عاقلوں اور جاہلوں کے درمیان بیانیے کی جنگ جاری ہے اور ملک دشمن عناصر بیانیہ فروشوں کی حمایت میں ملکی نظام پر حملہ آور ہیں۔


آزادکشمیر میں کچھ روز پہلے عام انتخابات ہوئے۔ مریم صفدر، بلاول زرداری اور بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اپنی اپنی ٹیمیں لیکر الیکشن کے میدان میں آئے اور پھر بیانیے کی جنگ شروع ہو گئی۔ بیرسٹر سلطان محمود شروع دن سے ہی مایوس نظر آرہے تھے چونکہ اُن کے ضمیر پر برادری ازم، سیاسی شکست و ریخت کے علاوہ اخلاقی گراوٹ کا بوجھ واضع نظر آرہا تھا۔ بیرسٹر صاحب کا مورچہ وزیر امور کشمیر نے سنبھال لیا اور مریم کی گولی کا جواب گولے سے اور بلاول کے تیر کا جواب توپ سے دینے لگے۔

گولی اور تیر والے ناکام ہوئے اور توپ والے جیت گئے۔ وزارت عظمیٰ کے اُمیدواران کی لیسٹ مرتب ہوئی توجاٹ،گجر اور مغل سوئمبررچانے آگئے۔اقتدار کی دیوی نے جاٹوں، گجروں اور مغلوں کی لڑائی سے بددل ہو کر ایک دُلی راجپوت کے گلے میں نولکھا ہار ڈالا تو پنجاب کے دانش کدے میں آگ لگ گئی۔ نامور صحافی، تجزیہ نگار اور دانشور سونے چاندی کے ڈھیروں، خوراکوں کے انباروں، بلیک لیبل کے کریٹوں، یبرون ملک دوروں، کشمیر ہاؤسنگ سکیم کے پلاٹوں، شاہانہ دعوتوں اور تحفوں پر نظریں جمائے بیٹھے تھے کہ وزارت عظمیٰ ایک شریف النفس، غریب پرور اور عوام کا دکھ درد سمجھنے والے درویش کے حصے میں آگئی۔ سب سے پہلے دانشور صحافی نصر ت جاوید نے مایوسی کا اظہار کیا اور عبدالقیوم نیازی کی وزارت عظمیٰ کو علم الاعداد اور علم بخوم کی دیگر اصناف کا کرشمہ لکھ کر اپنے عزیز الحجان دو ستوں بیرسٹر سلطان محمود چوہدری، مشتا ق منہاس اور دیگر بلیک لیبل اور ٹن قائدین کا غم ہلکا کرنے کی کوشش کی۔

دوسری بڑی مایوسی 92چینل کے ایک اینکر کو ہوئی۔ اینکر محترم نے لاہور سے کسی لاہوڑی سیاسی تجزیہ نگار اور ماہر کشمیریات رانا صاحب سے طویل انٹرویو کیا تو ر۔کو۔ڑبولنے والے رانا صاحب نے پشین گوئی کی ہے کہ سردار عبدالقیوم نیازی کی حکومت چھ ماہ بعد ختم ہو جائے گی۔ دوران گفتگو رانا صاحب نے فرمایا کہ پیپلز پارٹی، نون لیگ اور پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے جاٹ اور گجر جلد ہی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائینگے اور ایک نئے اتحاد کی صورت میں نہ صرف وزارت عظمیٰ بلکہ سارے آزادکشمیر بشمول گلگت، بلتستان پر گجرانوالہ کے سانسی جٹ رنجیت سگھ کی طرح قابض ہوجائینگے۔


رانا صاحب کی سیاسی بصیرت کا کچھ کہہ نہیں سکتے۔ شاید ایسا ہی ہو جائے اور بیرسٹر سلطان جاٹ اور گجر فور س کے ہمراہ سردار تنویر الیاس کے مغل لشکر کی مدد سے آزادکشمیر فتح کر لیں مگر بظاہر ایسا نظر نہیں آرہا۔ بیرسٹر سلطان بہت سے سکینڈلز اور الزامات کی زد میں ہیں جو مقدمات میں بدل سکتے ہیں۔ جٹ گجر اتحاد کی قوت سے انہیوں نے راجہ ممتاز راٹھور کو بلیک میل کرنا شروع کیا تو مرحوم راٹھور صاحب نے حکومت کو ہی چلتا کردیا۔ بیرسٹر صاحب کی اپنی وزارت عظمیٰ نے آزادکشمیر میں بلیک لیبل اور کرپٹ کلچر کی بنیاد رکھی تھی۔ بیرسٹر صاحب کا ایک وزیر اور بردداری کا سرخیل دوبار دھت پکڑا گیا اور کئی بار بے عزت ہوا مگر ہر بار پنجاب کے چوہدری، مجاہد اوّل اور اُن کا پسر اوّل مدد کے لیے میدان میں آگئے۔ شرابی سیاسی کلچر کی حمایت کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب سردار عتیق ڈان کے خوطے کی طرح اکیلے ہی خالی گھوڑے پر سوار پن چکی پر حملہ آور ہوئے نکلے ہیں۔


سردار تنویر الیاس کی مغل فورس اب بہادر شاہ ظفر کے لشکر کی طرح ہے جس کا کمانڈ ر کوئی مغل جرنیل نہیں۔ مرزا حیدر دوغلات کی تاریخ رشید ی کے مطابق مغل بھی دو نسلوں کے تھے۔ ایک جاٹا اور دوسرے کارواناں کہلاتے تھے۔ آزادکشمیر میں بھی مغلوں کی تین اقسام ہیں اور تینوں کے کمانڈر الگ الگ ہیں۔ چغتائی، ملدیال اور سادہ مغل ابھی تک متحد نہیں ہو سکے۔سردار تنویر الیاس بھی درجنوں الزامات اور مقدمات کی زد میں ہیں۔ رانا صاحب کو پتہ نہیں کہ آزادکشمیر کا ہر سیاستدان اور اسمبلی کا ممبر کرپشن زدہ ہے۔ اگر کشمیر ہاؤسنگ سوسائٹی کا کھاتہ کھل گیاتو سوائے سردار عبدالقیوم نیازی کے ننانوے فیصد سیاسی ٹولہ دلائی کیمپ میں ہو گا۔ وزیراعظم آزادکشمیر کے علاوہ وزیراعظم پاکستان کے پاس بھی آئینی اختیار ہے کہ وہ کسی سیاسی تصادم،انتشار ریاستی نظام کے تحفظ کو مد نظر رکھتے ہوئے آزادکشمیر میں ڈائریکٹ ایکشن کر سکتے ہیں۔ ا ب زرداری اور نواز شریف کا دور نہیں۔ عمران خان کا تعلق ہیبت خان اور عیسیٰ خان نیازی کے قبیلے سے ہے۔ پنجاب کے عقلمندوں سے گزارش ہے کہ وہ شیر شاہ سوری کی سوانح حیات کا مطالعہ کرلیں۔


سردار عبدالقیوم نیازی کے وزیراعظم منتخب ہونے پر انتہائی مایوس کن اور نفرت آمیز تبصرہ جناب ہارون الرشید نے کیا ہے۔ ہارون الرشید مجاہد اوّل سردار عبدالقیوم اورسردار سکندر حیات خان کے پرانے ساتھیوں میں سے ہیں۔ آپ دونوں سرداروں کے ہم نوالہ اور ہم پیالہ رہے ہیں۔ بیرسٹر سلطان کے حلقہ احباب میں بھی کبھی کبھی شرکت فرماتے رہے مگر کبھی کھل کر اظہار محبت نہیں کیا۔
ہارون رشید کی نفرت کے سائے میں اُن کی تاریخی علم گہنا گیا ہے۔ آپ سے عرض ہے کہ سردار عبدالقیوم نیازی کا سوات کے محمود خان اور ڈیرہ کے عثمان بزدار سے کوئی مقابلہ نہیں۔ آپ کو طنز کا اختیار ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ زمانہ طالب علمی سے ہی سردار عبدالقیوم نیازی روحانیت اور شاعری کی طرف مائل تھے۔ آپ کے پسندیدہ شاعرمنیر نیازی اور عبدارلستار خان نیازی تھے۔ اپنے پسندیدہ شاعروں سے انس کی بنیاد پر آپ نے اپنا تخلص نیازی رکھا۔آپ کی میٹر ک کی سند پر بھی ہی نام درج ہے۔

آپ حضرت پیر حیدر شاہؒ پناگ شریف کے مریدوں میں سے ہیں۔ آپ کا گھرانہ علاقے میں معزز اور معتبر شمار ہوتا ہے۔ اگر بھاولپور، حاصل پور اور خیر پور ٹامیوالی کے لوگ انہیں نہیں جانتے ہیں تو یہ سردار عبدالیقوم نیازی کا ہر گزقصور نہیں۔ جن مشہور سیاسی لوگوں کو آپ جانتے ہیں وہ نہ تو تحریک آزادکشمیر سے کوئی محبت رکھتے ہیں اور نہ ہی انہیں کشمیر کے لوگوں سے کوئی سروکار ہے۔ ان کی کوالیفکیشن جھوٹ، فراڈ، پٹوار خانوں اور تھانوں پر قبضہ، پیداگیری، بدمعاشی، قانون شکنی، شراب، جوا اور بدکاری ہے۔ آپ کو یاد ہوگاکہ آپ کے مرحوم دوست مجاہد اوّل سردار عبدالقیوم خان جب بھارت کے دورے پر دلی گئے تھے تو اُن کے وفد کا چناؤ سردار عتیق نے کیا تھا۔ سردار صاحب آزادی کشمیر کا مشن لیکر گئے تھے اور ان کا وفد راتیں شراب خانوں اور طوائف خانوں میں گزارتا تھا۔ کیا” ر” نے ان سب کے کوائف جمع نہ کیے ہونگے؟ شاید ایسا نہ کیا ہو؟ آخر میزبانی کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں۔


سردار عبدالقیوم خان نیازی چھ ماہ وزیراعظم رہیں پا پانچ سال۔ تاریخ میں اُن کا نام ایک دیندار،اعلی علمی گھرانے کے چشم و چراغ اور نیک نام وزیر اعظم کی حیثیت سے لکھا جائے گا۔


رانا صاحب کی علم وعقل اور سیاسی بصیرت کو دادنہ دنیا میں درست نہیں۔آپ نے فرمایا کہ آزادکشمیر کا وزیراعظم عالمی سطح پر کشمیر کا مقدمہ لڑتا ہے۔ رانا صاحب کا علم روای کے کنارے تک محدود ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ آزادکشمیر کے ایک وزیراعظم کو یوسف رضا گیلانی کے جہاز سے اتار لیا گیا تھا چونکہ وہ جس ملک میں جارہے تھے وہاں آزادکشمیر کا وزیراعظم کئی جرائم میں ملوث اور وہاں کی حکومت کو مطلوب تھا۔ آزادکشمیر کے ٹن وزیر، وزیراعظم اور سیاستدان بیرون ملک کیا کرتے ہیں ساری دنیا ان کے کرتوت جانتی ہے۔


دانشوروں اور سیاسی تجزیہ نگاروں کی مایوسی اپنی جگہ درست ہے۔ اب کشمیر ہاؤس اور مظفرآباد کے پی سی ہوٹل میں مندے کا رحجان رہیگا۔ آزادکشمیر کا بجٹ غیر ملکی دوروں، پبوں اور کلبوں کے بجائے آزادکشمیر کے عوام پر خرچ ہو گا۔ جناب ہارون الرشید عالم دین بھی ہیں۔ آپ سے بہتر کون جانتا ہے کہ اصل حکمرانی اللہ کی ہے اوروہی عزت و ذلت دینے والا ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51418

دھڑکنوں کی زبان – ”پاکستان زندہ باد“- محمد جاوید حیات

جب سے چودھری رحمت علی نے اپنے پمفلٹ میں لکھا کہ ہم اپنے لیے الگ ملک بنانا چاہتے ہیں جس کا نام”پاکستان“ ہو گا تو ہندو ہم پر طنز کرنے لگے۔۔یہ پاک ہیں لہذا پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔۔پاکستان پاک لوگوں کی سرزمین ہے یہ ہر لحاظ سے پاک ہونگے۔۔مخلص وفادار دیانتدار محنتی پاکباز ریاست کا وفادار ہونگے۔ان کی سرزمین دنیا والوں کے لیے مثال ہوگی۔وہ ترقی کریں گے ترقی کرتے جاینگے۔۔یہ بھپتیاں تھیں طنز تھے ان کا خیال تھا کہ ہم ویسے کھرے سچے تھوڑی ہیں ہم پاک سر زمین کے مکین ہونے کے قابل تھوڑی ہیں۔۔

ہم اس سے وفادار نہیں ہو سکتے۔لیکن جب لے کے رہینگے پاکستان۔۔۔بن کے رہے گا پاکستان کے نعرے بلند ہونے لگے تو اغیار سہم سے گئے اور آخر کو ہتھیار ڈال دیے پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا لیکن پتہ نہیں ہندوؤں اور سکھوں،انگریزوں اور ہندوستان کا بٹوارہ نہ چاہنے والوں کی بھپتیوں میں صداقت تھی یا یہ ہماری آزمائش تھی کہ پاکیزہ اور مخلص لوگوں کو آسمان کھا گیا کہ زمین نگل گئی وہ کہیں غائب ہوگئے


ایے عشاق گئے وعدہ فردا لے کر
اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر


پھر اقتدار کی کشمکش پھر جاگیر بنانے کی دھن پھر دھن دولت سمیٹنے کی دوڑ پھر بدعنوانی کا طوفان۔۔۔۔اس نام پہ شک ہونے لگا کہ واقع پاکیزہ لوگوں کی سرزمین ہے۔۔اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام والا نعرہ درست تھا اور واقع اسلامی نصب العین ان لوگوں کی منزل تھی۔کرپشن سے پاک معاشرہ ان کا ایڈیل تھا۔ بالکل شک ہونے لگا۔وہ معاشرہ خواب ہی رہا۔

لیکن اس پاکستان کے کونے کھدرے میں ایسے افراد موجود ہیں جو اس کی بقا کے لیے سر بسجود ہیں۔اس کی سرحدوں پر ایسے جوان مرد موجود ہیں جو بندوق تانے رات کو جاگتے ہیں یہ وہ افراد ہیں جو اس کے دارالحکومت کی کشادہ سڑکوں پر اپنی قیمتی کاریں نہیں دوڑاتیں جو اے سی لگے کمروں میں بیٹھ کر اس کی قسمت کا فیصلہ نہیں کرتے جو اس کی دولت دونوں ہاتھوں سے لوٹتے نہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو سارا دن کام کرکے اپنے بچوں کی روزی روٹی کا بندوبست کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کے بچے عید کے کپڑوں کی آرزو میں جوان ہوتے ہیں لیکن ان کی قسمت میں کبھی نئے جوڑے نہیں آتے۔

یہ وہ لوگ ہیں جن کی بیٹیوں کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ ان کی جوانی کب آئی کب ڈھلی۔۔یہ وہ لوگ ہیں جو دارالعدل کی سیڑھیوں میں عمریں گنواتے ہیں یہ وہ لوگ جو ہسپتالوں کے باہر قطاروں میں کھڑے کھڑے مرجاتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کی قسمت می مسکراہٹ نہیں ہوتی۔۔

لیکن یہ لوگ اس سرزمین کی مٹی پہ طواف کرتے ہیں اس کی پکڈنڈیوں پہ کھلے آسمان تلے رات گزارتے ہیں لیکن اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں یہ اپنے بچوں کی قربانیاں دیتے ہیں لیکن اس بات پہ فخر کرتے ہیں یہی وہ افراد ہیں جو جب بھی موقع ملے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں ان کے نعروں میں خلوص ہوتا ہے۔۔

ان کی زبان سے جب پاکستان زندہ باد کا نعرہ بلند ہوتا ہے تو وہ شبستان وجود کو ہلا دیتا ہے فلک میں شگاف کرتا ہے دشمن کو لرزہ براندام کر دیتا ہے۔لیکن یہ نعرہ سٹیج پہ آکے بلند بانگ دعوی کرنے والے کی زبان سے نکلے تو صدا بصحرا ہوتا ہے پاک سر زمین کی بقا کے لیے یہ نعرے بے کار ہیں۔۔ایک بندہ ہزار صعوبتیں جھیلنے کے باوجود اس سرزمین کے لیے زندہ باد کا نعرہ لگاتا ہے اسی نعرے کی بدولت پاک سر زمین زندہ و تابندہ ہے یہ اسکے اصل معمار ہیں۔-اللہ اس پاک دھرتی کو تا قیامت سلامت رکھے۔۔۔۔پاکستان زندہ باد

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51416

دادبیداد ۔ پینے کا نا پا ک پا نی ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

دادبیداد ۔ پینے کا نا پا ک پا نی ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

ایک خبر اخبارات میں لگ گئی اس پر اداریے بھی لکھے گئے شذرے بھی لکھے گئے الیکڑا نک اور سوشل میڈیا پر بھی یہ خبر پھیل گئی چاروں اطراف میں تقسیم ہوئی حکومت کی طرف سے اس کی تردید بھی نہیں آئی کسی اعلیٰ شخصیت نے اس کا نوٹس بھی نہیں لیا میں نے کراچی، لا ہور اور اسلام اباد کے ہو ٹلوں میں جگہ جگہ لکھا ہوا دیکھا تھا کہ نلکے کا پا نی پینے کے قا بل نہیں ہے اخبارات کی خبر بھی اس حوالے سے ہے.

قومی اسمبلی میں ایک سوال کے جواب میں وفا قی حکومت کی طرف سے پینے کے پا نی کی صورت حا ل کے جو اعداد و شمار دیئے گئے ہیں ان کی رو سے وطن پا ک کے 29بڑے شہروں میں نلکوں کا پا نی نا پا ک ہے اور پینے کے قا بل نہیں ہے اب تک حکومت نے صر ف 29شہروں کا سروے کیا ہے اگر مزید شہروں اور قصبوں کا سروے ہوا تو خد شہ ہے کہ کسی بھی شہر اور قصبے میں نلکوں کا پا نی پینے کے قا بل ثا بت نہیں ہو گا لیبار ٹری میں ٹیسٹ کے بعد ہر شہر اور قصبے میں نلکوں کا پا نی ان کو نا پا ک اور زہرآلود ہی ملے گا

یہی وجہ ہے کہ بڑے شہروں میں لو گ بڑے مکا نوں میں رہتے ہیں مگر نلکوں کا پا نی کھا نے پینے میں استعمال نہیں کر تے پینے کا پا نی بڑے بو تلوں میں آتا ہے اس کا الگ ٹھیکہ دار ہے روزانہ بھرے پا نی کے بو تل مہیا کر کے خا لی بو تل اٹھا لیتا ہے اور مہینے کے آخر میں نلکے کا بل الگ آتا ہے بو تل کا بل الگ آتا ہے مگر یہ سہو لت صرف چار شہروں میں دستیاب ہے پشاور، مردان، نو شہرہ، ایبٹ اباد اور ڈی آئی خا ن سمیت خیبر پختونخوا کے کسی شہر میں دستیاب نہیں.

1987ء میں ایک غیر سر کا ری تنظیم نے گلگت،چترال، حیدر اباد اور کراچی میں پینے کے پا نی کا سروے کیا پا نی کے نمو نوں کا لیبارٹری ٹیسٹ کروایا اس کے نتا ئج کا ہسپتا لوں میں بیمار یوں کے سروے کے ساتھ موا زنہ کیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ان علا قوں میں 83فیصد بیما ریاں پینے کے نا پا ک پا نی کی وجہ سے پھیلتی ہیں ان بیماریوں میں معدہ، جگر، دل،پھیپھڑوں اور گردوں کی بیماریاں نما یاں طور پر شا مل تھیں نیز یہ بھی رپورٹ ہوئی تھی کہ سانس کی بیما ریاں اور کینسر پھیلنے کا سبب بھی پینے کا نا پا ک پا نی ہے سر وے کے بعد دیہا تی علا قوں میں پینے کا صاف پا نی مہیا کرنے کے بڑے بڑے منصو بے دئیے گئے شہروں میں پرا نے واٹر ٹینک اور بو سیدہ پا ئپ تبدیل کروائے گئے

اقوام متحدہ کی تنظیم یو نیسیف (UNICEF) 190ملکوں میں کام کر تی ہے اس کے مقرر کر دہ معیار کے مطا بق سیمنٹ کی ٹینکی اور جستی پا ئب اپنی عمر پوری کر نے کے بعد زہر آلو د ہو جا تے ہیں نلکے کا پا نی ٹینکی میں بھی آلودہ ہو تا ہے جستی پا ئپوں میں بھی آلودہ ہو جا تا ہے چنا نچہ زنگ آ لود پائپوں میں جو پا نی آتا ہے وہ زہر یلا ما دہ لیکر آتا ہے اور بیما ری پھیلا تا ہے بڑے شہروں کی نوا حی بستیوں میں نکا سی آب کا انتظام نہیں آلودہ پا نی زمین کے اندر جا تا ہے چھوٹے شہروں میں بھی سیوریج اور ڈر ینیج کا کوئی سسٹم نہیں اس لئے گھروں کا آلودہ پا نی زمین کے اندر جا تا ہے اور زیر زمین پا نی کو آلو دہ کر دیتا ہے ٹیوب ویلوں کو بھی زہر آلود کر تا ہے شہری آبا دی کی منصو بہ بندی با لکل نہیں ہو ئی.

خبر آنے کے بعد سول سو سائیٹی اور بیو روکریسی کو ملکر اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے اگر غور کیا جا ئے تو معلوم ہو گا کہ ہمارے ہاں بجٹ سازی اور تر قیاتی منصو بہ بندی کا کام انجینروں اور تر بیت یا فتہ افیسروں سے لیکر سیا سی کا ر کنوں اور عوامی نما ئیندوں کو دیا گیا ہے وسائل کی تقسیم میں ضرورت کو مد نظر رکھنے کے بجا ئے مصلحت کو سامنے رکھا جا تا ہے کہ کسی شخصیت کو خوش کیا جائے اور کسی شخصیت کی خو شنو دی حا صل کی جا ئے

اس وجہ سے عوام کی بنیا دی ضروریات کو ترقیاتی منصو بہ بندی میں جگہ نہیں ملتی مو جو دہ حا لات میں پرانے پائپ لا ئن جتنے بھی ہیں ان کو تبدیل کرنے کے لئے بڑا منصو بہ آنا چا ہئیے شہروں میں سیوریج اور ڈرینیج کا مر بوط نظام لا نا چا ہئیے اگر 2021ء میں افیسروں کو مکمل اختیارات دے کر اس پر کام کا آغاز ہو اتو اگلے 20سالوں میں ملک کی 50فیصد آبا دی کو پینے کا پا ک پا نی ملے گا اگلے 20سالوں میں پوری آبا دی کو آ لو دہ پا نی سے نجات مل جا ئیگی۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51408

حب الوطنی ۔ تحریر:-صوفی محمد اسلم

حب الوطنی ۔ تحریر:-صوفی محمد اسلم

 حب الوطنی کا مطلب ہے اپنے ملک کی حمایت کرنا اس سے محبت کرنا یہاں تک کہ جب وہ مشکل وقت سے گزر رہا ہو۔حب الوطنی میں ملک سے لگاؤ ​​اور محبت کا احساس ہے۔ اس میں قوم کی عقیدت ہے ۔ حب الوطنی ہی وہ جذبہ ہے جو ملک کا جھنڈا بلند رکھتا ہے ۔کسی ملک سے محبت اور لگن قوم کی ترقی کا لازمی جز ہے۔ محب وطن ملک کی عزت کی حفاظت کے لیے قربانی کا مجسمہ ہے۔ حب الوطنی کا مطلب کسی خاص سیاسی جماعت یا رہنما کی حمایت نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب ہے نظام حکومت کا احترام و قوانین کی پاسداری اوراحساس ذمہ داری درحقیقت حب الوطنی ہے۔


کسی کی کمتری کو عزت و وقار کا نشہکسی کو زور و زر کسی کو اقتدار کا نشہنشے میں دھت تمام ہیں، نشے تو سب حرام ہیں
چند ماہ پہلے کی بات ہے میں اپنی بائیک پر لوئیر چترال جارہا تھا۔ ڈی سی پارک کے پاس پہنچا تو میرے اگے جانے والی ایک تیز رفتار گاڑی اچانک سے سائیڈ کی طرف جانے لگی جب میں قریب پہنچا تو وہ گاڑی روک چکی تھی۔ میں بھی بریک لگاکر کچھ فاصلے پر یہ سوچ کر روکا کہ شاہد اس گاڑی میں کوئ مسلہ ہوا ہے۔گاڑی سے ایک فارنر اترا اور میرے طرف انے لگا۔ میں سمجھا کہ شاہد مجھ سے کوئ غلطی ہوگیا مگر وہ میرے پاس سے اداباً مسکراتے ہوئے گزرا اور کچھ فاصلے پر جاکر روڈ کے وسط میں پڑا اس پھتر کو اٹھایاجس کے پاس سے ابھی ابھی میں بڑی اسٹائیل کے ساتھ ٹرن کرکے گزرا تھا، روڈ سے باہر پھینک دیا اور واپس اگیا۔ میں بھی تیزی سے منہ چپاکر وہاں سے چلا گیا۔

دن بھر میں سوچتارہا کہ مجھے وہ پھتر دکھائ تو دیا تھا مگر میرے اور اس کے نگاہوں میں واضح فرق تھا ۔ جس نظر سے اس نے پھتر کو دیکھا اس نگاہ سے میں نہ دیکھ سکا۔ وہ پھتر روڈ کے بالکل وسط میں پڑا تھا نہ مجھے برا لگا نہ اس پھتر سے دوسروں کو ہونے والے تکالیف کا احساس تھا- مگر وہ مجھ جیسا نہ تھا اس لڑکے کے ضمیر کو تکلیف ہوئ تو گاڑی سے اتر کر باہر پھینک دیا۔  اس نے اپنے خاموش مسکراہٹ سے مجھے سکھانے کی کوشش کررہا تھا کہ حب الوطنی نہایت ضروری ہے اور اس کا درست اظہار یہی ہے کہ اپنے اندر احساس زمہ داری پیدا کی جائے نہ کہ بیجا زندہ باد کا نعرہ لگانا اور وگا بارڈر پر جاکر مونجھوں کو تاؤ دینا ہی حب الوطنی نہیں۔


 مزکورہ بالا واقعہ بظاہر بہت معمولی ہے مگر اس واقعہ میں ہمارے مزاج اور ہماری خصلت کی عکاسی ہوتی ہے۔ ایسے واقعات ہمارے لاپرواہی،غیر زمہ داری، نالانی، خودغرضی، ناسمجھی اور مٹی سے محبت کے جھوٹے دعووں کی عکاسی ہوتی ہے۔ ازادی ہمیں نصیب ہوئ مگر اذادی کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ہر پابندی سے ازاد ہوگئے۔ قوانیں کی پاسداری اور اصولوں کی پابندی سے انسان اور انسانوں سے عظیم قوم بنتے ہیں۔ بے اصولی انسان کو یا تو غلام بنادیتی یا وحشی۔ مثبت اصولوں کی غلامی انسان کیلئے نہایت ضروری ہے۔ ازادی کے مفہوم بے راہروی اور بے لگامی  نہیں بالکہ قوانیں اور حب الوطنی کے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے ایک زمہ دار شہری کی طرح زندگی گزرنے کا نام ازادی ہے۔وَمَا عَلَيْنَا إِلاَّ الْبَلاَغُ


Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51405

قیام پاکستان مذہبی اقلیتوں کاکردار – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

عموماََ پاکستان کے حوالے سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ مذہبی اقلیتوں سے اکثریتی مسلم حلقوں کا رویہ متشددانہ رہتا ہے اورمنارٹیز کے ساتھ پاکستانی مسلمانوں کا رویہ درست نہیں۔چند قابل مذمت واقعات کو بنیاد بنا کر بین الاقوامی طور پر پاکستان کو تنہا کرنے کی سازش اور پروپیگنڈے کے سوا کچھ نہیں۔اقلیت کی اصطلاح پاکستان میں عمومی طور پر غیر مسلم کیمونٹی کے لیے استعمال کی جاتی ہے جس پر غیر مسلم کمیونٹی اعتراض کرتی  اور اقلیت کے بجائے منارٹی کہلائے جانا زیادہ بہتر محسوس کرتی ہیں۔دراصل 17ویں اور 18ویں صدی میں یورپی  سیاسی نشیب و فراز کی پیدا کردہ ہے اس زمانے میں طاقتور جب بھی کمزور پر فاتح ہوجاتا تو اپنی قوت کے سہارے محکوم قوم کو اقلیت شمار کرتا۔عموماََ اقلیت کی اصطلاح ایسے نسلی، قومی، مذہبی، لسانی یا ثقافتی گروپوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو تعداد میں باقی آبادی کے مقابلے میں کم ہوں اور جو اپنی شناخت کو قائم رکھنا اور فروغ دینا چاہتے ہوں۔پاکستانی مسیحی اور دیگر اقلیتوں نے قیام پاکستان کی حمایت اس لیے کی تھی کیونکہ یہ ان کا وطن تھا اور یہ بھی دیگر مسلم شہریوں کی طرح مساوی حقوق کی بات کرتے تھے۔


1931ء میں دوسری گول میز کانفرنس کے دوران اقلیتوں کے مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے سکھوں کے علاوہ تمام اقلیتوں نے سر آغا خان کی قیادت میں ایک معاہدہ کیا تھا جو تاریخ پاک و ہند میں ”اقلیتوں کا معاہدہ“ کہلاتا ہے۔اس معاہدے میں مسلم لیگ کی طرف سے سر آغا خان، شیڈول کاسٹ کی جانب سے ڈاکٹر بھیم راؤ میڈکر، ہندوستانی اینگلو کی طرف سے راؤ بہادر پاتیر سلوان اور یورپین مسیحیوں کی طرف سے سر ہنری گڈنی اور سر ہربرٹ کار نے دستخط کیے تھے۔اس معاہدے کو تحریک آزادی کے دوران اقلیتوں کی مشترکہ عملی جدوجہد بھی قرار دیا جاتا ہے۔22دسمبر1939 میں جب اونچی ذات کے ہندو پالیسوں کے احتجاج میں قائداعظم کی کال پر کانگریسی وزارتوں میں مسلمان نمایندوں کے مستعفی ہونے پر ”یوم نجات“ منایا گیا تو کانگریس یہ دیکھ کر حیران ہوگئی کہ ”یوم نجات“ میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ پارسی، مسیحیوں اور لاکھوں کی تعداد میں شیڈول کاسٹ بھی شریک ہوئیں۔


23مارچ 1940 کو مسلم لیگ نے مسلم لیگ سالانہ اجلاس لاہور میں تاریخ ساز قرارداد پاکستان پیش کی تو اس اجلاس میں ستیا پرکاش سنگھا، سی ای گبن، ایم ایل رلیا رام، جوشو افصل الدین، الفریڈ پرشاد، ایف ای چوہدری،  بہادر ایس پی سنگھا، آر اے گومز، ایس ایس البرٹ، راجکماری امرت کور بھی شامل تھے۔ ان کے علاوہ دیگر کئی شیڈول کاسٹ اور مسیحی رہنما بطور مبصر مدعو تھے۔مسیحیوں اور شیڈول کاسٹ نے ہر قدم پر قائد اعظم کا ساتھ اس لیے دیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ پاکستان میں ہی ان کے حقوق کا تحفظ ممکن ہوسکے گا۔اسی وجہ سے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کی صدارت شیڈول کاسٹ راہنما جوگندر ناتھ منڈل نے کی جو کہ پاکستان کے پہلے وزیر قانون بھی تھے۔ان کے علاوہ کرن شنکر رائے، دھیریندر ناتھ دتہ، پریم ہری ورما، راج کمار چکرورتی، سرس چٹو پادھینا، بھویندرکمار دتہ،چندر موجدار، بیروت چندرمنڈل، سری ڈی رائے، نارائن سانیال، پریندر کار،گنگا سرن، لال اوتار، نارائن گجرال، بھیم سین، سی این گبن، بی ایل رلیا رام جیسے شیڈول کاسٹ رہنما بھی شامل تھے۔


 قیام پاکستان سے پہلے 1935میں جیسویٹ مبلغین مشرقی شہر لاہور کے لاویلا ہال کو بین العقائد مکالمے کے مرکز کے طور پر استعمال کرتے تھے اسی طرح کا ایک اہم ادارہ کرسچین اسٹڈی سینٹر 1968 مں راولپنڈی میں قائم کیا گیا تھا۔جس کا مقصد مسیحی اور مسلم علما کو مذہب اور الوہی موضوعات پر بحث اور مختلف مذاہب کے پیروکاروں کو ایک دوسرے سے بات چیت اور باہمی دوستی، تفہیم اور تعاون کی بنیاد پر پرامن طریقے سے مل جل کر رہنے کا پلیٹ فارم فراہم کرتا تھا۔ پاکستان میں جتنے بھی مذہبی نوعیت کے واقعات ہوئے تو اس میں عوام سے زیادہ قصور ان لوگوں کا تھا جو مذہبی جذبات کو مشتعل کرکے اپنے مقاصد کا حصول چاہتیتھے، پاکستان میں رہنے والی تمام مذہبی کمیونٹیز سے زیادہ مسلمانوں کو سب سے زیادہ دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، منارٹیز کی عبادت گاہوں سے زیادہ مسلمانوں کے مقدس مقامات، مساجد، مزارعات، قبرستان، یہاں تک کہ جنازوں تک کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔


 پاکستان میں مسیحی کمیونٹی کی تعداد اتنی نہیں کہ وہ مل کر بھی ایک نشست مقابلہ کرکے نکال سکیں، اس لیے دیگر غیر مسلم کمیونٹیز کی طرح ان کے لیے بھی مخصوص نشستیں رکھی گئیں۔اب اگر ان کے نمائندے ان کے حقوق کے لیے آئین پاکستان کے مطابق کام کریں  تو انھیں کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا لیکن بد قسمتی سے بڑی سیاسی جماعتوں کا یہ وتیرہ رہا کہ وہ ان مخصوص نشستوں پر اپنے من پسند افراد کوبراجمان کرتی ہیں، سیاسی جماعتوں کی جانب سے عام نشستوں سے ایوانوں میں بھیجنے کا رجحان کم ہے، اسی طرح کے مسائل غیر مسلموں کے ساتھ بھی ہیں، ان کے درمیان بھی آپس کی نا اتفاقیوں کی وجہ سے نچلی سطح سے مناسب قیادت کو سامنے نہ لانا ااہم مسئلہ رہا ہے۔

پاکستان کا قیام دو قومی نظریے کے تحت عمل میں آیا،جس میں غیر مسلموں کے حقوق کا تحفظ اسلام کا اہم نقطہ رہا ہے اور اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ اسلام، جبر کے بجائے امن کی تلقین کرتا ہے  اور اسلام کا مطلب ہی سلامتی امن ہے، اگر کسی فرد واحد کی وجہ سے کوئی ناخوشگوار واقع پیش آتا ہے تو اسے معاشرے کی انحطاط پذیری قرار نہیں دیا جا سکتا ہے بلکہ اسے کسی فرد کا عدم برداشت کا رویہ کہا جاسکتا ہے لیکن اسے اسلام کا پیغام یا منشور ہرگز نہیں کہا جا سکتا،اس سلسلے میں پاکستان کے قیام سے اول اور بعد میں قائداعظم کے افکار اور سیکڑوں تقاریر اس بات کی گواہ ہیں کہ دو قومی نظریہ میں غیر مسلم اقلیت کے تحفظ کو ہمیشہ دہرایا گیا ہے اور اپنے عمل سے بھی ثابت کیا ہے۔


غیر مسلموں کے مسائل کا حل ان کے نمائندوں کے پاس ہے، پاکستان میں ان کے سماجی مسائل کے حل کے لیے ان سے تجاویز لے کر آئین کا حصہ بنانا چاہیے،لیکن یہ سب کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ مذہب اور خاص کر اسلامی شعائر اور مقدس ہستیوں اور قرآن پاک کی توہین جیسے واقعات میں تفتیش سے قبل کسی کو بھی یکطرفہ گناہگار قرار دینا مناسب نہیں، جب اس کے لیے آئین میں سخت ترین سزا مقرر ہے تو اس پر عمل درآمد کے لیے قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کا موقع دیا جانا ضروری ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
51403

ہوائی سفر ۔ محمد شریف شکیب

ہوائی سفر ۔ محمد شریف شکیب

خبر آئی ہے کہ دبئی کے ایک ہسپتال میں کام کرنے والا پاکستانی ڈاکٹر اپنے اہل خانہ سمیت خالی بوئنگ طیارے میں متحدہ عرب امارات پہنچ گیا۔ ڈاکٹر سید نادر کورونا کے باعث پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان فضائی سفر پر پابندی کے باوجود بوئنگ 777 طیارے میں اپنے گھر والوں کو لے کر یو اے ای پہنچ گیا۔3 سونشستوں والے طیارے میں ڈاکٹر کے ساتھ ان کی اہلیہ اور تین بچے سوار تھے۔ڈاکٹر سید نادر دبئی کے ایڈم وائٹل اسپتال کے میڈیکل ڈائریکٹر ہیں انہیں اپنی والدہ کی بیماری کی وجہ سے کراچی آنا پڑا۔ والدہ کی بائی پاس سرجری کے بعد فوری دبئی واپس لوٹنا تھا۔

گولڈن ویزہ کی بدولت انہیں خالی جہاز لے کر دبئی جانے کا موقع مل گیا۔ ڈاکٹر نادر کا کہنا ہے کہ سفری پابندیوں کی وجہ سے کئی ڈاکٹر پاکستان میں پھنسے ہوئے ہیں۔ قومی فضائی کمپنی کے ڈھنگ ہی نرالے ہیں کسی زمانے میں پی آئی اے دنیا کی بہترین فضائی کمپنیوں میں شمار ہوتی تھی اس وقت پی آئی اے والے واقعی باکمال تھے اور ان کی سروس لاجواب تھی مگر اب وہ تمام کمالات معدوم ہوگئے۔ ایک جانب مالی نقصان کے بہانے ملک کے اندردرجنوں پروازیں ختم کی جاچکی ہیں جبکہ دوسری جانب عیاشیوں میں کمی نہیں آرہی۔ پشاور چترال روٹ پر گذشتہ تیس سالوں سے روزانہ تین تین پروازیں چلائی جاتی تھیں۔

لوگ دس گنا سفری خرچ کے باوجود لواری کے طویل اور پرخطر سفر سے بچنے کے لئے فضائی سفر کو ترجیح دیتے تھے۔ ہفتہ دس دن پہلے بکنگ کئے بغیر ٹکٹ ملنا مشکل ہوتا تھا۔تین پروازوں کے باوجود مسافروں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں دیر سے دروش تک ہیلی کاپٹر سروس بھی شروع کردی گئی۔ جب قومی ائرلائن کی کمر اپنے ہی بوجھ سے دوہری ہوگئی تو انہوں نے چترال روٹ پر روزانہ تین پروازوں کی تعداد گھٹا کر ایک پرواز کردی۔ کچھ عرصے بعد نامعلوم وجوہات کی بناء پر پشاور کی ایک پرواز بھی موقوف کرکے اسلام آباد سے چترال پروازیں شروع کردیں حالانکہ اسلام آباد چترال پرواز کی آدھی سیٹیں خالی رہتی ہیں۔

اگر اسی پرواز کو اسلام آباد، پشاور، چترال پرواز میں تبدیل کیا جائے تو پی آئی اے اور عوام دونوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ آج کل ہفتے میں اسلام آباد اور پشاور سے دوتین پروازیں ہی چلائی جاتی ہیں حالانکہ پندرہ بیس سال پہلے کے مقابلے میں پشاور اور چترال کے درمیان سفر کرنے والوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ساڑھے تین سو کلو میٹر اور35منٹ کی پرواز کا ٹکٹ سات ہزار روپے وصول کیا جاتا ہے اس کے مقابلے میں پشاور سے کراچی تک ایک ہزار سات سو کلو میٹرکے فاصلے کا رات کی پرواز کا کرایہ آٹھ نو ہزار روپے سے زیادہ نہیں ہے۔

پی آئی اے کے علاوہ ملک میں کئی نجی فضائی کمپنیاں بھی کام کررہی ہیں انہوں نے چترال، سوات اور ڈیرہ کے لئے پروازیں شروع کرنے کی پیش کش بھی کی تھی مگر انہیں نامعلوم وجوہات کی بناء پر پروازوں کی اجازت نہیں دی جارہی۔خیبر پختونخوا حکومت نے سیاحت کے فروغ کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست قرار دیا ہے۔

ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں، سوات اور چترال جانے والے ملکی اور غیر ملکی مسافروں کے لئے فضائی سفر سیکورٹی کے اعتبار سے سب سے محفوظ سفر ہے۔ صوبائی حکومت ان سیاحتی مقامات تک زیادہ سے زیادہ پروازیں شروع کرنے کے لئے وفاقی حکومت اور پی آئی اے انتظامیہ سے رابطہ کرے تو سیاحوں کو صوبے کے خوبصورت مقامات تک رسائی میں آسانی ہوگی۔

سیاحوں کی تعداد بڑھے گی تو مقامی لوگوں کو روزگار ملے گا، معاشی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوگا اور حکومت کے وسائل میں بھی اضافہ ہوگا۔ آمدن بڑھے گی تو قومی فضائی کمپنی کا خسارہ بھی کم ہوگا۔اور اسے وفاق کی طرف سے بیل آؤٹ پیکج پر زیادہ انحصار نہیں کرنا پڑے گا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51385

داد بیداد ۔ ایک اچھا ماڈل ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

داد بیداد ۔ ایک اچھا ماڈل ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

شکوہ یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ اچھی با توں کو نظر انداز کرتے ہیں لیکن یہ پورا سچ نہیں اچھی باتیں منظر عام پرا ٓ ئیں تو ان کی بہت پذیرائی ہو تی ہے آج کا کا لم ایک ایسے سر کار ی سکول کے بارے میں ہے جو کسی بڑے سے بڑے پرائیویٹ سکول کا مقا بلہ کرتا ہے یہ ایک اچھا ما ڈل ہے اور اس کو ماڈل بنا نے کا سہرا عوام کے سر ہے عوام اگر سکول پر تو جہ دیں تو ہر سر کاری سکول اچھا نمو نہ بن سکتا ہے پشاور یا اسلا م اباد میں بیٹھا ہوا کوئی افیسر یا وزیر اس طرح کا کوئی کا ر نا مہ انجام نہیں دے سکتا .

گورنمنٹ ہائیر سیکینڈری سکول فتح پور تحصیل مٹہ ضلع سوات تمام پا کستان کے سرکاری سکو لوں کے لئے اچھی مثال ہے عوام نے اس کو کس طرح اچھی مثال بنا دیا؟ اس کی مختصر سی کہا نی ہے عوام سکول کی حا لت پر تشویش میں مبتلا تھے خدا نے عوام کی فر یا د سن لی اور ان کو مکین خا ن کی صورت میں ایک پرنسپل کی خد مات حا صل ہوئیں عوام چاہتے تھے کہ ان کے بچے گھر کی دہلیز پر سر کاری سکول میں بڑے پرائیویٹ اداروں کے برابر یا ان سے بہتر تعلیم حا صل کریں.

نیا پرنسپل آیا تو اُس نے عوام کے سامنے اپنا منصو بہ رکھا پرنسپل کا منصو بہ عوامی خوا ہشات کے عین مطا بق تھا ان کے منصو بے کے چار حصے تھے پہلا حصہ یہ تھا سکول کے اوقات بڑھا ئے جا ئیں دو گھٹنے کے اضا فے سے نصاب کی دہرائی کا مو قع ملے گا دوسرا حصہ یہ تھا غیر حا ضری صفر ہو، تیسرا حصہ یہ تھا کہ ما ہا نہ امتحا نات لئے جا ئیں اور امتحا نات کے نتا ئج والدین کو بھیجدئیے جا ئیں والدین ان نتا ئج پر اپنی رائے دیدیں ان کی رائے کو دیکھ کر اسباق اور امتحا نات کی تر تیب میں بہتری لائی جا ئیگی اس منصو بے کا چوتھاحصہ یہ تھا کہ مقا می طور پر وسائل پیدا کر کے لا ئبریری،سامان ورزش اور لیبارٹری کی حا لت بہتر بنا ئی جا ئے نیز سکول کے بنیا دی ڈھا نچے کو بہتر کر کے قرب و جوار سے روزا نہ گھنٹہ، ڈیڑھ گھنٹہ سفر کر کے آنے والے طلباء کے لئے ہا سٹل کی سہو لت فرا ہم کی جا ئے عوام نے اس منصو بے سے اتفاق کیا .

دیا نت داری، اما نت داری اور صدا قت سے اس پر عمل در آمد کا آغا ز ہوا پہلے چھ مہینوں میں عوام نے سکول کی سہو لیات اور تعلیمی پرو گرام پر اطمینان کا اظہار کیا ایک سال بعد پرنسپل نے جس طرح کی قر با نی کا مطا لبہ کیا عوام نے اس طرح کی قر با نی دی پہلے یہ بات سامنے آئی کہ سکول میں پرائیویٹ فنڈ بھی آتا تھا، سپورٹس فنڈ بھی آتا تھا، پی ٹی سی فنڈ بھی آتا تھا ان وسائل کا منا سب استعمال نہیں دیکھا گیا تھا کام کا آغا ز کمر ہ جما عت سے ہوا جہاں اسا تذہ اور طلباء کی سو فیصد حا ضری کو یقینی بنا یا گیا نصاب کے مطا بق اسباق چھ مہینے میں مکمل کئے گئے اگلے چھ مہینوں میں اسباق اور مشقوں کی دو بار دہرائی کروائی گئی ما ہا نہ ٹیسٹوں کے لئے خو ش خطی پر تو جہ دی گئی.

انگریزی اور اردو میں طلباء کی خو ش خطی بہت بہتر ہوئی پہلے سال دو نتیجے سامنے آئے طلباء نے سکول میں دلچسپی لی عوام نے سکول کو وقت دیا اور سکول کی بہتری کے لئے ما لی قر با نی پر کمر بستہ ہوگئے ان دو نتا ئج نے آگے کا سفر آسان کر دیا دوسرے سال ہا سٹل کی تعمیر شروع ہو ئی اور سر کاری سکول کو رہا ئشی درس گا ہ کا در جہ دیا گیا ایک بورڈ نگ سکول میں تعلیم و تر بیت کا جو ما حول ہو نا چا ہئیے وہ ما حول فرا ہم کیا گیا اس مر حلے پر ایک دلچسپ مسئلہ پیدا ہو امسئلہ یہ تھا کہ نو یں اور گیا ر ھویں جما عتوں کے دا خلے با قاعدہ ٹیسٹ کے زریعے ہو نے لگے، سیا ستدا نوں اور افیسروں کی طرف سے فیل ہو نے والوں کو دا خل کرنے کے لئے دباؤ بڑ ھا یا گیا.

پر نسپل اور ان کے سٹاف نے دباؤ کو مسترد کیا تو طا قتور لو گوں نے پر نسپل کو تبدیل کر دیا پرنسپل کی تبدیلی کا سن کر عوام مشتعل ہو ئے اور تبدیلی کو منسوخ کروا دیا اس کے بعد تین اور موا قع ایسے آ گئے جب بھی وزیر یا ایم پی اے نے پرنسپل کو سکول سے الگ کرنے کا حکمنا مہ جا ری کر وا یا تو عوام نے اس حکمنا مے کی دھجیاں اڑا دیں سکول کی دن دوگنی را ت چو گنی تر قی کا سفر جا ری رہا مکین خا ن صاحب اپنی تصویر چھپوا نا نہیں چا ہتے اپنے کام کی تشہیر میں دلچسپی نہیں رکھتے اپنے سکول کو ما ڈل اور نمو نہ بھی نہیں کہتے.

مو لوی عبد الحق نے اورنگ اباد دکن میں ایک ما لی کا خا کہ لکھا نا م تھا اُس کا نا م دیو، اس نے کبھی نا م کی فکر نہیں کی اپنے کام سے کام رکھا اس کی پہچان نا م کی جگہ کا م ہی بن گیا فتح پور سوات کے مثا لی سکول کا پر نسپل بھی نا م سے زیا دہ کام سے دلچسپی رکھتا ہے

ہم جیسے لو گوں کے سامنے ایک سوال ہے اور یہ سوال فتح پور کے مثا لی عوام کے سامنے بھی ہے کیا مکین خا ن کا سکول ان کی ریٹا ئر منٹ کے بعد بھی ایسا ہی مثا لی رہے گا؟ اس سوال کا جواب سسٹم نہیں دے سکتا، حکومت نہیں دے سکتی عوام ہی جوا ب دے سکتے ہیں عوام اگر اسی طرح بیدار اور مستعد رہے تو سکول اسی طرح اپنی مثا لی حیثیت کو بر قرار رکھے گا بس اس کو سسٹم سے، حکومت سے اور کا م چوروں سے بچا کر رکھنا ہو گا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
51331

تربیت اولاد – گل عدن چترال

تربیت اولاد – گل عدن چترال

اس میں شک نہیں کہ تربیت اولاد ہر وقت کی اہم ضروت ہے ۔میں اس پر تو بات نہیں کر سکتی کہ اولاد کی تربیت کس طرح کی جائے۔کہ یہ چھوٹی منہ بڑی بات ہوگی۔مگر میں اتنا ضرور کہنا چاہتی ہوں کہ تربیت ہی ہر ایک اولاد کی بنیادی حق ہے ۔اور دینی تعلیم اولاد کی اولین ضرورت بھی ہے اور حق بھی ۔جو والدین اپنی نادانی کے سبب اپنی اولین ذمہ داری یعنی اولاد کی تربیت کو چھوڑ کر اولاد کو آسائشات دینے کو اہمیت دیتے ہیں ۔وقت ثابت کرتا ہے کہ ایسے والدین نے نہ صرف اپنی جانوں پر ظلم کیا بلکہ اپنے اولاد پر بھی ظلم کیا ۔کیونکہ یہ وہ عظیم نقصان ہے (اولاد اور والدین دونوں کا مشترکہ نقصان ) کہ جسکا ازالہ پھر وقت گزرنے کے بعد نہیں کیا جاسکتا۔

اولاد جو اللہ رب العزت کی طرف سے انسان کے لئے تحفہ اور نعمت ہے وہیں اولاد کو اللہ نے آزمائش بھی قرار دیا ہے ۔ کہا گیا ہے کے تین چیزیں انسان کے لئے دنیا اور آخرت میں عذاب کا سبب بنتی ہیں ۔وہ زمین جس پر کوئی شخص نا حق قابض ہو جائے۔ ایسا مال جسے اللہ کہ راہ میں خرچ نہ کیا جائے۔اور ایسی اولاد جسے دین نہ سکھایا گیا ہو ۔اور یہی حقیقت ہے کہ جب اولاد کی تربیت نیہں کی جاتی تو ایسی اولاد آنکھوں کی ٹھنڈک نہیں بلکہ دل کا بوجھ بن جاتی ہے ۔تربیت کے سلسلے میں جو دو بڑی غلطیاں والدین سے سرزد ہوتی ہیں وہ ایک تو اولاد میں تفریق کرنا ہے ۔

دوسرا دینی تعلیم کو معمولی سمجھنا ہے ۔جب بات تفریق کی ہو تو زمانہ شاہد ہے کے جب معاشرے سے انصاف ختم ہوجا تا ہے تو بگاڑ شروع ہوجاتا ہے ۔نا انصافی کی وجہ سے معاشرہ ظلم و زیادتی کا گہوارہ بنتا ہے اور ایسا معاشرہ امن اور سکون کو ترستا ہے ۔یہی حال گھر کا ہے ۔والدین کو اتنا سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جسطرح باپ کی موت کہ بعد جب میراث کی تقسیم ہوتی ہے تو جائیداد میں اس اولاد کو بھی حصہ ملتا ہے جسے والدین نے اپنی زندگی میں (بےشک) عاق کیا ہو۔

یہ اللہ کا انصاف ہے جسکا صاف اور واضح مقصد یہ ہے کہ اولاد چاہے جیسی بھی ہو ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اولاد میں تفریق سے گریز کریں ان کے درمیان مساوات عدل اور انصاف قائم رکھیں ۔اولاد میں اپنی محبت ‘توجہ ‘ شفقت برابر تقسیم کریں بلکل ایسے جیسے ایک دن عدالت نے میراث تقسیم کرنی ہے ۔ورنہ جو بچہ ماں باپ کی بے توجہی اور نا انصافی کا شکار ہو۔پھر میراث میں ملنے والی زمین اس بچہ کی نقصان کا مداوا نہیں کرسکتی۔کیونکہ جن بچوں کی تربیت نیہں ہوتی ان بے چاروں کو زندگی برتنے کا سلیقہ نیہں ہوتا۔انکی زندگی جنگلی پودوں کی مانند ہوتی ہے الجھتی بگڑتی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ۔ جسے سلجھانے والا کوئی نہیں ہوتا۔


دوسری غلطی جو والدین سے سرزد ہوتی ہے وہ دینی تعلیم میں لاپرواہی ہے۔جتنا نقصان کسی بھی فرد کا (کسی بھی مذہب کا) دین سے دوری پر ہوتا ہے اتنا نقصان دوسری کسی چیز نے انسان کو نہیں پہنچایا۔اپنی اور اپنی اولاد کی کامیابی کے لئے اسلامی ماحول ہر گھر کی اولین ضرورت ہے ۔اسلامی لباس اور اسلامی زبان گھر کے تہذیب کی بنیاد ہے ۔جس گھر کے مرد گالم گلوچ کرتے ہوں اس گھر کی بیٹیوں کو حیا ء اور عزت داری کے سبق نہیں پڑھائے جاسکتے۔مجھے حیرت ہوتی ہے کہ جب کوئی تربیت کی بات کرتا ہے تو ہم میں اکثر لوگ تربیت کے معنی صرف بیٹی کی تربیت سمجھتا ہے کیونکہ اسے دوسرے گھر جانا ہوتا ہے ۔

اس خیال کے تحت لوگ بیٹیوں کی تربیت پر زور دیتے ہیں ۔ہم بیٹی کی لباس پر کڑی تنقید سے باز نیہں آتے۔لیکن کیا آپکا بیٹا اسلامی لباس پہنتاہے؟ ۔بیٹیوں کو کہتے ہیں ہماری عزت خراب مت کرنا مگر اپنے بیٹوں کو کالج بیجھتے وقت ہاسٹل میں ڈالتے وقت گھر سے نکلتے وقت کھبی نہیں کہتے کہ ہماری عزت خراب مت کرنا۔کسی کی بیٹی پر گندی نگاہ مت ڈالنا۔کسی کی بیٹی کے دل سے اسکے جذبات سے محبت کے نام پر مت کھیلنا ۔شادی کا جھانسا دے کر کسی بیٹی کے مجبور بے بس ماں باپ کی آہیں مت لینا۔کسی کی گمراہی کا زریعہ مت بننا۔کسی ماں کی بد دعائیں نہ لینا ۔کسی باپ کا سر مت جھکانا ۔کھبی آپ میں سے کسی نے اپنے بیٹے کو یہ نصیحت کی ہیں؟؟۔


مختصرا یہ کے تربیت پر بیٹی ہو بیٹا دونوں کا یکساں حق ہے ۔دنیاوی تعلیم تو ہماری ضرورت ہے سو ہے لیکن ضروت اس بات کی ہے کہ جو سختی سکول بیجھنے کے لئے آپ بچوں پر کرتے ہیں وہی سخت رویہ نماز اور قرآن پاک پڑھنے کے لئے بھی رکھی جائے۔سکول سے اچھی پوزیشن نہ لانے پر جو سزا آپ اپنے بچے کے لئے مقرر کرتے ہیں نماز قضاء کرنے پر بھی بچے کو سزا دی جائے۔دینی اور دنیاوی تعلیم ملکر ہی انسان کو زندگی کا سلیقہ سکھا سکتے ہیں۔ ورنہ بے تعلیم اولاد عمر کے آخری حصے میں بھی اپنی مصیبتوں کا ذمہ دار اپنے ان والدین کو ٹھراتی جاتی ہے جن کے قبروں کے نشان تک دنیا سے مٹ چکے ہوں۔آپکو شاید حیرت ہو مگر دنیا میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو عمر کے چالیس پچاس بہاریں دیکھ چکیں ہیں لیکن جب بھی کوئی غلطی کرتے ہیں تو اسکا ذمہ دار اپنی بوڑھی والدین کو ٹھرا کر خود بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔

یہ تحریر ان لوگوں کو تقویت دینے کے لئے بلکل نہیں لکھی گئی ۔اس تحریر کا مقصد صرف اتنا ہے۔کہ جن لوگوں کو اولاد کی نعمت حاصل ہے اور وہ تربیت کے قابل ہیں کمسن ہیں تو ابھی بھی وقت ہے کہ اپنی تمام تر توجہ انکی تربیت پر لگادیں۔اور انہیں اپنی دنیا میں راحت اور آخرت میں نجات کا زریعہ بنادیں۔باقی پچاس سالہ جاہل بچوں کو میں اتنا کہوںگی کہ حقوق کی جنگ کا اتنا فائدہ نہ اٹھائیں کہ بوڑھے والدین کو تمام عمر کٹہرے پر ہی کھڑا کردیں۔اللہ نے اولاد کو اتنے حقوق نہیں دئیے جتنا حق والدین کو دیا ہے ۔ اگر آپکے والدین آپکا حق ادا نہیں کرسکے تو اللہ نے آپکو علم عقل اور دماغ سے محروم تو نہیں رکھا ؟اللہ تمام والدین کے لئے دنیا اور آخرت میں آسانیاں پیدا فرمائے۔آمین

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged , ,
51329

14 اگست… الہاء تیرے مجرم حاضر ہیں – تحریر۔شہزادہ مبشرالملک

٭ انعام عظیم۔
انگریزوں کی دو سو سالہ طویل… غلامی… جس نے مسلمانان… ہند… کے اندر اپنی مسلسل… زیادتیوں اور ناانصافیوں… کی بدولت… احساس محرومی… کا… شمع… روز اول سے ہی… جلا… رکھا تھا۔ سر سید احمد خانؒ اور اس جیسے دیگر اہل درد نے اس شمع کو نہ صرف… فروزاں… کیے رکھا بلکہ اسے… شعلہ آزادی… بنانے کے لیے اسکی… چنگاریوں… کو… بر صغیر کے ہر مسلمان کے…دل… میں پہنچانے کا… فریضہ… احسن طریقے سے نبھایا… بعد میں حضرت اقبالؒ نے اپنے اشعار کے زریعے نوجوانان… ھند… کے دلوں میں موجود…

ان چنگاریوں کو… ہوا… دی اور سر زمین ھند کو… آتش فشان… بناڈالا….
؎ عشق و آزادی بہار زیست کا سامان ہے عشق میری روح آزادی میرا ایمان ہے
عشق پر کردوں فدا میں اپنی ساری زندگی لیکن آزادی پہ میر ا عشق بھی قر بان ہے


پاکستان… کا مطلب کیا… لا الہ الا اللہ… کی صداوں سے… برطانیہ کے شاہی محلات پر لرزان طاری ہوا اور… حضرت قائد اعظم ؒ… کی ولولہ انگیز قیادت میں لاکھوں جانوں کی دل خراش قربانی، اربوں روپے کے املاک کی تباہی، کڑورں مسلمانوں کی ہجرت و جدائی اور لاکھوں صاحب ثروت لوگوں کی…. آسائیش آرام کی زندگی کو… ٹھوکر… مار کر بے سروسامانی کی زندگی کو ترجع دینا… فقط و فقط اس لیے تو تھا… کہ اس…آزاد مملکت… میں اسلام کے اصولوں کے مطابق اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے… قوانین… کے مطابق زندگی گزاریں گے…. حضرت اقبال و قائد کی بے وقت موت نے ہمیں… بیچ… چوراہے کے لاکھڑا کیا…. یہاں کے حکمرانوں سے لے کر اس ملک کے… طاقتور ترین اداروں، سیاسی پارٹیوں اور عوام تک… سب اللہ تعالی کے اس دیئے ہوئے… عظیم نعمت… کے ناشکرے ہیں جو… 74 سال بعد بھی اس ملک میں… اللہ کا دیا ہوا وہ… نظام… نہ لا سکے جس کے لیے اتنی قربانیاں دی گئیں تھیں۔


٭ تین وعدے اللہ کے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا”جو لوگ ایمان لائیں اور نیک عمل کریں تو اللہ کا وعدہ ہے کہ انہیں دنیا ہی میں تین انعام عطا کرئے گا…. حکومت… دولت… اور… امن…“ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ” تم میں سے جو لوگ ایمان لائیں اور نیک عمل کریں، ان سے اللہ تعالیٰ وعدہ
فرمایا ہے کہ ان کو لازماٰٰ زمین میں حکومت عطا فرمائے گا، جیسا کے ان سے پہلے لوگوں کو حکومت دی تھی اور جس دین کو ان کے لیے پسند فرمایا اس پر چلنے کی… قوت… اور… اسباب مال دولت…. عطا فرمائے گا اور ان کے… خوف… کو… امن… سے بدل دے گا (النور… ۵۵)
تاریخ نے دیکھا ہے کہ اللہ کا یہ… وعدہ… کیسے پورا ہوتا رہا ہے… جب ریاست مدینہ وجود میں آیا اور اللہ کی دھرتی پر اللہ کے… احکامات..


نافذ ہوئے تو نہایت ہی مختصر عرصے میں اللہ کے یہ تینوں… وعدے… پورا ہوئے… اقتدار… ملا جسنے دنیا کے دو… سپر پاور…
کو… تہس نہس… کرکے رکھ دیا… دولت کے ایسے… انبار… لگے کہ… زکوۃ و خیرات لینے والے نہ رہے… لوگ زکوۃ لیے گلیوں محلوں میں پھرتے تھے مگر… زکوۃ… لینے کو کوئی تیار نہ ہوتا… امن و آمان… کی یہ حالت تھی کہ… تنہا لوگ دور دراز کا سفر اختیار کرتے کوئی ان کی طرف… میلی آنکھ… سے دیکھنے والا نہ ملتا… اور یہ سلسلہ مدتوں جاری رہا… جب اور جہاں بھی… اللہ کے احکامات نافذ رہے اللہ نے آگے بڑھ کے اپنا وعدہ نبھایا…. کچھ عرصہ پہلے… افغانستان میں… طالبان… نے اس کا تجربہ کیا… تو دنیا نے دیکھا… کہ دو سالوں کے اندر ہی … جنگوں کی یہ…سر زمین… امن امان… کا نظارہ پیش کرنے لگا… اور بھوک افلاس اور بے روزگاری سے… مالامال… ملک کے یہ فقیر… طالبان… کسی کے ہاں… دست سوال… نہیں پھیلائے…. افغانستان کا کوئی شہری… بھوک… سے نہیں مرا… طالبان… نے ائی ائم ایف… والڈبنک… سے… سود در سود… شرم ناک شرایط پر حاصل نہیں کیے…. سعودی عرب… نے شاہ سعود کی قیادت میں جب اسی اسلامی نظام کو نافذ کیا تو… برکتوں اور رحمتوں نے وہاں ڈھرے ڈال دیے…. آج بھی سعودی عرب…. دولت اور امن کے لحاظ سے دنیا کا بہترین ملک مانا جاتا ہے… برصغیر کے لوگوں نے اللہ سے وعدہ کیا کہ ایک…. خطہ زمین… عنایت فرما جہاں ہم… تیری بندگی کرسکیں ترے نبیﷺ کا نظام نافذ کر سکیں اللہ نے دعائیں سن لیں 27 رمضان کو یہ ملک وجود میں آیا…. مگر میر کاروان… کے فوت ہوتے ہی ہم بھی… اللہ کو… دغا… دے گئے… اس سے… بے وفائی… کی …. تو اللہ بھی جس نے ہم سے… پہلا وعدہ …. اقتدار… کا پورا کیا تھا… وہ دینے کے بعد دو… انعامات سے… دور ہی رکھا… ہم ہوش میں نہیں آئے … تو… ادھا ملک… جدا کرکے ہمیں دیکھا دیا…. ہم اور… باغی… ہوئے تو ہماری… زندگی کی شامیں اور بھی اذیت ناک بنادئیے… دہشت گردی کا ایک نہ تھمنے والا… طوفان… اٹھا… اور ہماری70 ہزار سے زیادہ جانیں اس میں ضائع ہوئیں…. ائی ائم ایف اور والڈ بنک کے… شکنجوں… میں ہم گھرے جارہے ہیں اور اللہ کی عذاب کا یہ… کوڑا… ہم پہ برسا جارہا ہے اور ہمیں خبر ہی نہیں۔


٭ خود فراموشی کی سزا ۔
اللہ تعالیٰ… خود سے بے وفائی کرنے والوں کے لیے دو سزاؤں کا… اعلان… کرتے ہیں۔ ایک دنیا کی… زندگی… میں۔ ترجمہ” اور ان لوگوں کی طرح مت ہوجانا، جنہوں نے اللہ تعالیٰ کو بھلاُ دیا۔ سو اللہ تعالیٰ نے انہیں بھلوا دیا…ان کا اپنا آپ…. یہی لوگ نافرمان ہیں۔“ (الحشر) اور دوسری… سزا… قیامت کے دن… فرمایا”جس طرح تم نے ہماری… ملاقات… کو بُھلائے رکھا… آج… ہم تمہیں
… بُھلائے… رکھتے ہیں۔“ (الحشر)


قرآن مجید… کی یہ آیتیں ہماری… بد نصیبی…ہماری… عملی زندگی… ہمارے مشاغل اور ہمارے… مسائل… کی… بولتی تصویر… ہیں۔ آج ہم… خود کو… بھولا… بیٹھے ہیں… ہماری… حیثیت… ہمارا… منصب… ہماری… منزل… ہماری تخلیق کا… مقصد… ہماری… عظمت و
وقار اور مقام… سب ہماری نظروں سے… اوجھل… ہوچکے ہیں۔ آج کسی… استاد… کسی… مولوی… کسی… سرکاری ملازم…. کسی…سیاست دان… کسی… جسٹس… کسی … جرنیل… کو یہ یاد نہیں کہ وہ اس ملک میں… اللہ تعالیٰ کا… نائب اور خلیفہ… ہے… آج ہم سب اپنی…

یاداشت…کھو چکے ہیں… ہمیں ہمارا نام… مسلمان… تک یاد نہیں ہم اپنی… حیثیت… حقیقت… منصب… اور منزل… بھول چکے ہیں۔ آج جتنے… وسائل… اور معدنی دولت مسلمانوں کے پاس ہے پہلے کبھی نہیں تھی… آج… تعداد… کے لحاظ سے بھی ہم اپنا ثانی نہیں رکھتے… آج دنیا کے سب سے اہم… مقامات… ہمارے پاس ہیں… آج تعلیمی اداروں، مدرسوں، کالجوں اور یونیورسٹیز… کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ ہمارے پاس ہے… جو پہلے نہ تھے…پھر بھی… جہالت… کے اندھیرے یہاں… ڈھیرے… ڈالے ہوئے ہیں… آج جتنے قابل… انجنیئزز… ہمارے پاس ہیں وہ کہیں اور نہیں… پھر بھی ہمارے روڈ، پل، عمارتیں… ناقص میٹریل… کے سبب روز بروز… حادثات… کو جنم دیتے ہیں… دنیا بھرکے قابل… ڈاکٹروں… کافوج طفر موج ہے پھر بھی بیماریوں اور امراض کا ختم نہ ہونے والا… سلسلہ… اور انسانی… عضاء… کا کاروبار جاری وساری ہے… اتنی بڑی عدلیہ کے ہوتے ہوئے… لوگ… عدالتوں… کے باہر… انصاف… کی بھیک ماننے پر مجبور ہیں… دنیا کی سب… منظم اور بہترین… فوج کے ہوتے ہوئے بھی… دہشت گرد… سر گرم عمل ہیں… 74 سال سے یہاں کے کسی رہنما اور سیاست دان بشمول… جے یو آئی و جماعت اسلامی کے اکابرین کو یہ… توفیق… نہیں ملا کہ وہ اس ملک میں… اسلامی نظام… کے نفاذ کے لیے کوئی… تحریک… کوئی بل… پیش کرتے۔یہاں کے… ممبر…. مسلکوں، فروعی اختلافات کی آگ بھڑکا نے اور عوام کو بے حسی کی… گولیاں… کھلا کھلا کر… سلانے کے تو ضرور کام آتے رہے ہیں لیکن… باہمی محبت، روادری، اعتدال، کفایت شعاری، سادگی،اسلامی اخوت اور… نظام مصطفیﷺ… کے نفاذ کے موضوعات سے خالی ہی رہے ہیں اوراگر کہیں… کمزور سی… آواز… اٹھی بھی ہے تو وہ بھی… وقتی مصلحت، ذاتی غرض اور پارٹی مفاد کے لیے۔ یہاں کے… لکھاری… بھی حروف کے… ذروں… کو الفاظ کے… قالب.. میں ڈال کر جملوں کا… لباس… پہناکے پیرگراف کے… دستوں… کو مضامین کی…کشتیوں… میں بیٹھا کر… اخبارات…کے گمنام…سمنددروں… میں مدتوں سے… لڑانے…کے لیے بھجتے رہے ہیں لیکن… قوم… کو… 74 سالوں تک… ساحل… آشنا… کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔


٭ اقراری مجرم۔
ہمیں بحیثیت… قوم… اپنی تمام… کوتاہیوں اور جرائم کا اقرار کرتے ہوئے… رب کائنات… کے حضور… سر تسلیم خم… کرنا ہوگا… اپنی… باغیانہ طرزعمل… جو ہم نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ روا رکھی ہے اس سے… صدقہ دل سے… توبہ تائب… ہونا پڑے گا…تب کہیں جاکے اس ملک میں… ہریالی… آسکتی ہے… یہاں کے دشت و بیابان… سونا… اگل… سکتے ہیں… یہاں… دہشت گردی اور نفرتوں کی لگائی ہوئی… آگ… بھج… سکتی ہے… یہاں… کرپشن… اقربا پروری… اور لوٹ کھسوٹ کے دروازے بند ہوسکتے ہیں… یہاں کی… پررونق شامیں… لوٹ سکتی ہیں… یہاں… بچوں… خواتین… بڑوں… غریبوں… کمزوروں… مزدوروں… سرمایہ داروں… جاگیرداروں… غرض سب کے… نصیب… جاگ… سکتے ہیں… شرط یہ ہے کہ… اللہ تعالیٰ… کاقرب حاصل کیا جائے اس کو اپنایا جائے… اس کے بخشے گئے ملک پر… اس کے… نظام… کو نافذ کیا جائے… ورنہ ہمارے نصیب میں… اپنے آپ میں… گُم… جانا ہی لکھا ہے… ہمارے دشمن… ہمارے ہی ہاتھوں ہمیں ذلیل کروتا ہی رہے گا اور… دنیا… تماشہ ہی دیکھتی رہے گی… دنیا اور ہمارے اندورنی… حالات… کچھ اور ہی منظر ہمیں دیکھا رہے ہیں۔


٭ امید کی کرنیں۔
مایوسی اور… انتشار… کے اس دور میں… امید کی کرنیں… بھی… پاکستان سپریم کورٹ اور پاک آرمی… کی صورت نظر آرہی ہیں… پاکستان میں ہمارے… اداروں… کا… جنازہ… کب کا نکلا جاچکا ہے… لیکن اس کے باوجود بھی یہ دو ادارے جن پہ تکیہ کیے پاکستانی عوام… امید کی شمع… جلاتے رہے ہیں اب اللہ کے فضل کرم سے ایسے… جسٹس صاحبان… عالیٰ عدالتوں میں موجود ہیں جو… ملکی مسائل، اسلامی قوانین اور اسلام کے سنہرے ادوار سے متاثر نظر آتے ہیں… یہ بذریعہ… سو موٹو… بھی اور… پٹیشن… بھی ملک کو… اسلامی خطوط… پر ڈالنے کی سبیل نکال سکتے ہیں دوسرا بڑا اور مضبوط ادارہ… پاک آرمی… ہے جو اب… برٹیش آرمی… سے متاثر قدیم… افیسرز اور جوانوں پر مشتمل نہیں بلکہ ہزاروں… شہیدوں… ہزاروں… زخمیوں… اور لاکھوں… غازیوں… کی عظیم قربانیوں کا… امین… اسلامی فوج… ہے جسے اندورنی… محاذ… میں دشمن… کے اجنٹوں اور سہولت کاروں… سے ملک کو بچانا ہے اور بیرونی محاذ میں… بین القوامی… سازیشوں… امریکہ،اسرائیل اور انڈیا… اتحاد کے مضر اثرات سے ملک و ملت کو نکالنا ہے… یہ تب ہی ممکن ہوسکتا ہے جب اس ملک میں… اسلامی نظام… کا نفاذ ہو اور… دشمن کے خلاف… جہاد… کے جذبے سے لیس… قوم… کے نوجوان… پاک آرمی… کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں… اس لیے… پاک آرمی… کو بھی اسلامی نظام کے لیے اپنی بھرپور صلاحیتیں بروکار لانی ہوگی… ورنہ… شک و شبہات… کے دروازے… بند… ہونے کا نام نہیں لیں گے اور لوگوں کی… امید… بھی دم توڑ دے گی اور اسلام پسند عناصر… غیر شرعی… غیر آئینی…غیر قانونی… راستوں سے… اسلامی نظام… کے نام پر… نوجوانوں کے ذریعے… بھیانک… کھیل کھیلتے رہے گے… جو بین القوامی حالات کے تناظر میں ہمارے سود مند ثابت نہ ہو۔


٭ رہنما ملت۔
رہنما… رہبر… لیڈر… بننے کے… دعویٰ دار… تو بہت ہیں ہماری اسلامی تاریخ میں سب سے… بڑے رہنما و ر رہبر… تومحمد عربیﷺ کی ذات اقدس ہیں جوسب کے لیے واجب… احترام… اور قابل تقلید ہیں… برصغیر پاک وھند کی تاریخ پر نگاہ دوڑاتے ہیں… تو مسلم لیگ… میں بھی قد اور شخصیات کا ایک… گلدستہ موجود ہے لیکن ان سب میں… سب سے اعلیٰ سب سے عظیم… شخصیت حضرت قائداعظمؒ کی ہے… جس نے نہایت ہی… دور اندشی… سے… دھرنا… دیے بغیر… جیل جائے بغیرایک گملہ توڑے بغیر… پاکستان کی تحریک کو… کامیاب و کامران… کر ڈالا… لاکھ سلام اس کی طرز سیاست پر اور لاکھ آفرین اس کے … جذبہ… تلاطم خیز… پر کہ اپنا سب کچھ اس ملک و قوم کے لیے… وقف… کر ڈالا…اس کے اداروں کو مضبوط کرنے کی آرزو اور کوشیش کیں… کا غذ و قلم… کا استعمال بھی… امانت سمجھ کر کیا اور ساتھیوں اور سرکاری ملازمین کو بھی اس کا درس دیا… سادگی اور جہد مسلسل… کو اپنا شعار بنایا… آج اسی پارٹی کے کارکناں… نااہلوں کو بچانے ان کے کرپشن کے کرتوت پر پردہ ڈالنے کے لیے عدالتوں پے سنگ باری،ملک میں انتشار کا دروازہ وا کیے ہوئے عوام کو گمراہ کرنے… اداروں کو آپس میں… لڑا…کر اپنا… غصہ… نکالنے… کے سفر پہ روان دوان ہیں…. راہ نما… اور… راہ زن… میں فرق… آج ہر ایک کو نظر آرہی ہے… اگر نہیں آرہی… تو… نونی..قافلے کے… پیادوں اور مہروں کو..


٭نیا پاکستان۔
اللہ کے فضل وکرم سے آج… نیا پاکستان… بنے تین سال ہونے کو ہیں لیکن وہ پاکستان کہیں نظر نہیں آرہا جس کا خواب پاکستانی عوام کو دیکھا کر…. کمنڈوزی…. کاروائی کی گئی تھی۔ لوگ بے روزگاری، مہنگائی،کے ہاتھوں خود کشیوں پر مجبور ہوتے جارہے ہیں مسجدوں میں دعائیں دی جارہیں ہیں کہ پروردیگار اس…. امین… سے وہ… خائن… بہتر نہ تھے جونصف کھا کے نصف لگا بھی لیا کرتے تھے۔جن کے دم سے غریب کے چولے کے ساتھ ساتھ آمیر کا لنگر بھی آباد تھا۔۔۔ اس ملک کو کس…. کمانڈو… کے نظر لگ گئی کہ لوگ…. انسان سے ٹائیگر بنتے جارہے ہیں اور وہ بھی… سبزی خور ٹائیگر… جناب عمران خان صاحب آپ، آپ کے موجد اور آپ کے یہ منوں وزنی کائیں کائیں کرتے ہوئے وزرا اگر مزید کچھ عرصہ ڈیلیور نہ کر پائے تو پاکستانی عوام…. آپ کے لگائے ہوئے… سونامی ٹریز…. کے پتے کھا کر ان ہی ٹریز کے…ڈنڈوں… کو ٹائیگرز پر آزمانے پر مجبور ہونگے اور پہلے والے…. کرپٹ…رہزانوں کو… تبرک… سمجھ کر کاندھوں میں بیٹھا کے پارلیمنٹ ہاوس لائیں گے اور…خلائی… خلا ہی میں تحلیل ہوجائیں گے۔ لہذا حکمت اور تدبر کے ساتھ
؎ دھوکے میں نہ آئیں تو کبھی مات نہ کھائیں تیشے سے پہاڑوں کا جگر کاٹنے والے


نئے پاکستان میں عمران خان کو کسی بھی حال میں سادگی کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے اور احتساب کے عمل کو تمام…. مگر مچھوں… تک پھیلانا چایئے تاکہ قوم کو پتہ چلے کہ کس کس نے سیاست اور مذہب کے نام پر اس ملک کو لوٹا ہے۔بغیر بے دریغ احتساب کے 14 اگست کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔
٭٭٭٭

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51318

ولنٹئیرخدمت کے نام پر تعلیم یافتہ بے روزگاروں اور ان کے والدین کے ساتھ بھونڈا مزاق؟ – شیرولی خان اسیر

ولنٹئیرخدمت کے نام پر تعلیم یافتہ بے روزگاروں اور ان کے والدین کے ساتھ بھونڈا مزاق؟

آج کل ڈی ای او مردانہ اپر چترال کا کردار بسلسلہء “ولنٹئیر تقرریاں” گرما گرم زیر بحث ہے۔ ڈی ای او صاحب اب تک سینکڑوں بے روزگار نوجوانوں کو مختلف سرکاری اسکولوں میں ولنٹئیر استاد مقرر کرنے کا “اعزاز” حاصل کرچکا ہے جن کے تقرر ناموں میں لکھا گیا ہے کہ وہ کسی قسم کے مالی معاوضے اور تجربے اور آئیندہ کے لیے ریگولر تقرری میں رعایت کا حق نہیں رکھتے اور دعویٰ نہیں کرسکتے۔

یہ بات لفظ” رضاکار” سے خودبخود واضح ہے اور چترال میں ہر کوئی جانتا ہے کہ رضاکار کو کوئی مراعات نہیں مل سکتیں اور نہ وہ اس کی توقع رکھ سکتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اہل چترال رضاکارانہ خدمات انجام دینے کی اچھی روایت رکھتے ہیں اور یہ ان کا ایک بہترین سماجی کردار رہا ہے جس پر ہمیں فخر ہے اور اس کی حوصلہ آفزائی اور اس کا فروع بھی چاہتے ہیں نہ کہ اپنی جوان نسل کا استحصال اور رسوائی۔


ہم اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ اس قسم کی سماجی سرگرمیوں کا ایک بڑا فایدہ یہ بھی ہے کہ اگر ہمارے چند فارع التحصیل بچے بچیاں گھر میں پڑے پڑے بوریت اور ذہنی تناؤ کا شکار ہیں تو ان کی ذہنی صحت کے لیے ایک خوش گوار علمی ماحول یقیناً سودمند ہے۔ ایسے چند بچے ہی ہوں گے جو اپنے گھروں میں بھی مثبت مصروفیات نہیں رکھتے ورنہ ہم دیہاتی لوگ بہت کم بے کار بیٹھنے کے لیے وقت پاتے ہیں۔ خاص کرکے بچیاں تو اپنی والدین کی خدمت اور ہاتھ بٹانے اور اپنے چھوٹوں کی پی تعلیم و تربیت سے فرصت کہاں پاتی ہیں. پھر بھی اگر کسی تعلیم یافتہ بچی رضاکار خدمت کا جذبہ رکھتی ہے تو اس کے لیے اپنے گھر، پڑوس اور گاؤں میں بچوں کو پڑھانے کا موقع ہر وقت موجود رہتا ہے۔ وہ اپنے گاؤں کی مسجد یا جماعت خانے یا اپنے گھر کے مہمان خانے میں عصر کے وقت بچوں کی تدریسی مدد کر سکتی ہے جس کے لیے انٹرویو دینے اور لمبا چوڑا سفر کرنے اور اپنے غریب والدین کو مالی خسارے میں ڈالنے کی ضرورت پیش نہیں اتی۔ یہ ایک عظیم خدمت ہوگی جس کا بدلہ دونوں بہانوں میں ملے گا۔ ڈی ای او صاحب اسکولوں کی پیرینٹس ٹیچرز کونسلوں کو یہ مشورہ کیوں نہیں دیتے کہ وہ اپنے اپنے اسکوں کے احاطے میں فری ٹیوشن کا اہتمام کریں اور مقامی تعلیم یافتہ بچیوں اور بچوں کو رضاکار ٹیوٹر مقرر کریں تاکہ کرونا کی وجہ سے طلبہ کو جو تعلیمی خسارہ ہوا ہے اس کی تلافی ہوسکے۔

یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ڈی ای او صاحب مذکور کو یہ سب کرنے کی ضرورت کیونکر پیش آئی ہے؟ کیا وہ ہماری بچیوں کی ذہنی صحت کے معاملے میں مشوش ہے؟
اگر بعض /’سکولوں میں سٹاف کی کمی ہے تو اسے پورا کرنا حکومت کا فرض بنتا ہے۔ خالی آسامیوں کو پر کرنے سے نہ صرف اسٹاف کی کمی دور ہو جائے گی بلکہ چند نوجوانوں کو روزگار بھی مل جائے گا۔ اگر کسی انتظامی مجبوری کے تحت یہ ممکن نہیں ہے تو جہاں تدریسی اسٹاف کی کمی ہے ان اسکولوں کے ہیڈ ماسٹرز/ مسٹریسز/ ہرنسپلوں کو کیوں نہیں کہا جاتا کہ وہ اپنے اپنے اسکولوں کے اڑوس پڑوس کے نوجوانوں کو بطور رضا کار استاد مقرر کریں تاکہ وہ بچے غیر ضروری سفر اور اخراجات سے بچے رہیں ۔ سینکڑوں میل دور سے نوجوان لڑکیوں کو بونی بلاکر مردوں کے سامنے ان کا انٹرویو کرانا اور ان بے روزگاروں پر کرایہ اور خوردونوش کا مزید مالی بوجھ ڈالنا ، ان کا وقت برباد کرنا اور ان کا پردہ متاثر کرنا چہ معنی دارد؟؟؟

ہم نے یہ بھی سنا ہے کہ بونی خاص کے ایک زنانہ مڈل اسکول میں طلبہ کی تعداد 12 ہے جب کہ اساتذہ 13 ہیں۔ کیا ڈی ای او صاحب ان بارہ بچیوں کو کسی قریبی اسکول میں شفٹ کرکے ان زائد اساتذہ کو دوسرے اسکولوں میں نہیں بھیج سکتے جہاں اسٹاف کی ضروت ہے؟


میں اس بات پر بھی حیران ہوں کہ مانیٹرنگ اسٹاف اس قسم کی بے قاعدگیوں کا نوٹس کیوں نہیں لیتے؟
ڈی ای او صاحب یقیناً بالائی حکام کے ایماء پر یہ سب کچھ کر رہا ہے لہذا ہم سیکرٹری تعلیم اور ڈائریکٹر سکولز اور ضلعی مانیٹرنگ افسر سے اس بابت وضاحت کی امید رکھتے ہیں۔

شیرولی خان اسیر
ڈی ای او/ پرنسپل(ر)
یارخون اپر چترال

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
51312

بلوچستان کی وزیراعظم سے وابستہ امیدیں ! – پیامبر;قادر خان یوسف زئی

بلوچستان کی وزیراعظم سے وابستہ امیدیں !

بلوچستان پاکستان کا دل ہے، لیکن اس زخمی دل کے علاج کے لئے مختلف حکومتوں کے صرف دعوی ہی سامنے آتے رہے ہیں، مسائل و عالمی سازشوں کا ایک ایسا گڑھ ہے جس نے عوام میں بے یقینی و احساس محرومی میں روز بروز اضافہ ہی کیا ہے۔  عمران خان نے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد جب اکتوبر، 2018میں بلوچستان کا پہلادورہ کیا تھا تو مجھے یاد ہے کہ انہوں نے یہ کہا تھا کہ”سیاسی جماعتیں صرف ووٹ لینے بلوچستان آتی ہیں، لیکن ہم کام کریں گے۔“  لیکن بدقسمتی سے جس طرح نئے پاکستان کے خواب عوام کو دکھائے گئے تھے اسی طرح کے خوشنما سیراب کو بلوچستان میں دکھایا گیا۔

پاکستان تحریک انصاف اور ان کے اتحادی صوبے کے دیرینہ مسائل کو حل کرنے میں کتنا کامیاب ہوسکے  یا کس قدر پیش رفت ہوئی، بدقسمتی ہے کہ  اس سے کم و بیش سب ہی آگاہ ہیں، بلوچستان میں وجود نہ رکھنے والی تحریک انصاف نے اتحادیوں کے ساتھ ایک ایسی حکومت بنوائی ، جس نے عوام میں مایوسی کی سونامی میں اضافہ ہی کیا۔ انہیں بلوچستان کے اُن دیرینہ مسائل کے حل کی جانب توجہ مرکوز کرانا مقصود ہے کہ بلوچستان میں عوام کے مسائل جوں کے توں ہیں، لاپتہ افراد کی بازیابی کے مسائل ہوں، یا پھر بین کرتی ماؤں بہنوں کی آہ و زایاں، ان میں کمی واقع نہیں ہوئی ۔ آج بھی اِن کے نوحے سینے میں دل کو چاک کرتے ہیں۔


وزیرعظم نے ناراض بلوچوں کو مفاہمت یا رضامند کرنے کے لئے ایک متنازع شخصیت کو ذمے داریاں بھی سونپیں، لیکن اب تک کی پیش رفت سے شاید انہیں بھی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ وہ بلوچستا ن کی سب سے غیر مقبول شخصیت ہیں جو ناراض بلوچوں کو قومی دھارے میں لانے کے لئے مناسب خیال نہیں کی جاتی۔ وزیر اعظم نے اپریل2021کے ایک دورے میں بھی بلوچستان کے پیکچ کے لئے کچھ ’اعلانات‘ کئے تھے، لیکن انہیں پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے آسمان سے خلائی مخوق نہیں اترے گی بلکہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے عوام کے دیرینہ مسائل کو حل کرنے کے لئے سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ گذشتہ دنوں ایک انتہائی افسوس ناک واقعے میں اے این پی کے سینئر رہنما عبید اللہ کاسی کو26جون کو تاوان کے لئے کچلاک سے اغوا کیا گیا، چپے چپے پر موجود سیکورٹی فورسز تمام تر ’کوششوں‘ کے باوجود انہیں بازیاب نہ کراسکی، لیکن کلیجہ اُس وقت منہ پر آگیا جب ان کی سوختہ اور انتہائی تشدد زدہ بے آسرا لاش 5اگست کو پشین کے علاقے سرانان سے ملی۔پولیس ترجمان کے ذرائع کے مطابق سیکورٹی فورسز نے مبینہ طور اُن پانچوں افراد کو ایک کاروائی میں ہلاک کردیا، جو کاسی کے اغوا میں موجود تھے، لیکن قانون اپنی اس گرفت کو پہلے مربوط کردیتا تو شائد عبید اللہ کاسی بھی ہمارے درمیان موجود ہوتے۔


خیال رہے کہ اس سے قبل اے این پی بلوچستان کے سیکریٹری اطلاعات اسد خان اچکزئی کی لاش برآمد ہوئی تھی۔اسد خان اچکزئی کو 20 ستمبر 2020 کو چمن سے کوئٹہ آتے ہوئے ایئرپورٹ روڈ پولیس کی حدود سے اغوا کیا گیا تھا۔پانچ ماہ بعد ان کی لاش کوئٹہ کے علاقے نوحصار میں ایک کنویں سے برآمد کی گئی تھی۔ اسد خان اچکزئی کے اغوا اور قتل کے الزام میں لیویز فورس کے ایک اہلکار کو گرفتار کیا گیا تھا۔عبید اللہ کاسی  اے این پی کے دوسرے سیاسی رہنما کی شہادت تھی جو وزیراعظم پاکستان کے دورے کی آمد سے قبل ہوئی۔عمران خان کو اپنے اس دعوے کو سچ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ بلوچستان میں ووٹ کے لئے نہیں آتے، بلکہ بلوچستان کے احساس محرومی کے خاتمے اور ان کے مسائل کے حل کا کوئی راستہ تلاش کرنا چاہتے ہیں، لیکن اس میں اگر کوئی رکاؤٹیں تو قوم کو اس سے آگاہ کریں، قوم پرستوں کے ساتھ بیٹھ کر بلوچستا ن کے مسئلے کا کب تک سرخ فیتے کی نظر ہوتا رہے گا، اس وقت وطن عزیز جہاں ہائی برڈ وار کا شکار ہے تو دوسری جانب شمالی مغربی و مشرقی صوبے کی سرحدوں ملک دشمن عناصر کی سازشوں میں بھی گھیرا ہوا ہے، اس سازشوں کا ناکام بنانے کے لئے عوام کو اعتماد د میں لانا  اور ثابت کرنا ہوگا کہ بلوچستا ن آج بھی ان کی پہلی ترجیح ہے، بلوچستان کے وسائل و قدرتی انمول خزانے غریب اور محروم طبقات کی فلاح کے لئے ہیں، انہیں ان پر خرچ کرنا چاہیے، وفاق کو صوبائی خود مختاری کے بعد صوبوں میں پھیلنے والی بے چینی و سیاسی خلفشار کو دور کرنے کے لئے ایک ایسی موثر حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے جس پر تمام سیاسی، مذہبی و قوم پرست جماعتوں اوع عوام کا مکمل اتفاق ہو۔افغانستان کی تیزی سے بدلتی صورت حال کا بڑا اثر بلوچستان پر پڑے گا، اور اس امر سے ہم سب آگاہ ہیں کہ بلوچستا ن کو سیاسی و سماجی طور پر مخصوص طبقوں کے حوالے کرنے سے آنے والے وقتوں میں دشواریوں اور مشکلات میں اضافہ ہوگا۔


 کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ وفاق اس امر کا ادراک کررہا ہو کہ بلوچستان آنے والے مہینوں میں ایک بہت بڑی آزمائش سے گذرنے والا ہے، جسے ڈنڈے نہیں بلکہ صرف عوام کی مدد سے ہی ناکام بنایا جاسکتا ہے۔ سی پیک منصوبہ پاکستان کی معاشی تقدیر بدلنے کا عظیم منصوبہ ہے، لیکن اس کے ثمرات سے جب تک بلوچستان کے عوام مستفید نہیں ہوں گے اس پر شکوک و شبہات عالمی اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر اٹھائے جاتے رہیں گے۔ گوادر کا 1.2ملین گیلن واٹر پارجیکٹ کامنصوبہ ہویا صوبہ بلوچستان کیلئے سولر جنریٹر گرانٹ یا پھر نارتھ فری زون، جنوبی بلوچستان کو نیشنل گرڈ سے منسلک کرنے میں ٹرانسمیشن لائنز یا گوادر میں 300میگا واٹ کا پاور پراجیکٹ  یاپھر31پانی کے ڈیموں کی تکمیل کے منصوبے اور دیگر دعوے، انہیں وقت پر مکمل کرنا بلکہ جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچا کر اس کے ثمرات عوام تک پہنچانا، ریاست کی بنیادی ذمے داری اور فرائض میں شامل ہیں۔پاکستان کے دل بلوچستان کو احساس محرومی کے اُس دلدل سے باہر نکالنے کے لئے اپنی پوری قوت بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ لاپتہ افراد ہوں یا پھر سیاسی و سماجی مسائل کا حل، قانون کی بالا دستی ہو یا حکومتی رٹ کو قائم کرنا،  عام عوام کے لئے بلوچستان کے تاریخی امیج دینا ریاست کا پہلا ایجنڈا ہونا چاہیے۔ بلوچستان اسمبلی میں بجٹ کے موقع پر جس طرح حزب اختلاف نے احتجاج کیا تھا، ان پر میرٹ کی بنیاد پر توجہ دینا بلوچستان حکومت کا کام ہے  بلوچستان  کے زمینی حقائق کے مطابق اپنے عمل سے مثبت بنانے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہی ملک، قوم اور اور بلوچستان کے حق میں بہتر ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
51300

خدا محفوظ رکھے ہر بلا سے ۔ محمد شریف شکیب

ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے رواں ہفتے دوسری بارجان بچانے والی 50ادویات کی قیمتوں میں 15 سے 150 فیصد تک اضافہ کیا ہے جس میں شوگر، کینسر،عارضہ قلب، سانس کی تکلیف، گردوں اور دیگر جان لیوا بیماریوں سے بچاؤ کی ادویات شامل ہیں۔ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے ساتھ مارکیٹ سے بیشتر ادویات غائب کردی گئیں۔ادویات کے پیک سائز اور ریٹیل قیمتوں میں اضافے سے یہ دوائیاں مریضوں کی دسترس سے باہر ہوگئی ہیں۔ اس سے پہلے بھی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی ادویات کی قیمتوں میں رواں سال کے اندر 300 فیصد اضافہ کر چکی ہے۔

موجودہ حکومت کے تین سالہ دور میں ادویات کی قیمتوں میں 12ویں بار اضافہ ہوا ہے۔ہمارے ایک استاد اکثر یہ شعر پڑھاکرتے تھے کہ ”خدا محفوظ رکھے ہر بلا سے۔ خصوصاً جس کے پیچھے ”ٹر“ لگا ہو۔“ہم نے ”ٹر“ کی وضاحت چاہی تو کہنے لگے اردو گرامر کی رو سے اسے لاحقہ کہتے ہیں مثلاً ڈاکٹر، ڈائریکٹر، انسپکٹروغیرہ۔ہمیں بھی ”ٹر“ کی طرح ”اتھارٹی“ کے نام سے خوف آنے لگا ہے۔ حکومت نے بجلی، گیس، تیل اور ادویات وغیرہ کی قیمتوں کے تعین کے لئے مختلف اتھارٹیاں قائم کی ہیں جن میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی، آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی، حلال فوڈ اتھارٹی، نیشنل پاور ریگولیٹری اتھارٹی اور مختلف شہروں کی ڈویلپمنٹ اتھارٹیز بھی شامل ہیں۔ ان اتھارٹیوں کے قیام سے پہلے بجلی، گیس، تیل وغیرہ کی قیمتوں میں سال دو سال بعد چند پیسوں کا اضافہ ہوتا تھا۔ 1969میں چینی کی قیمتوں میں چار آنے اضافہ کیا گیا تو پورے ملک میں ہلچل مچ گئی، لوگ سڑکوں پر نکل آئے حکومت کے خلاف احتجاج شروع کردیا۔

فیلڈ مارشل محمد ایوب خان اس وقت ملک کے منتخب صدر تھے۔ عوامی احتجاج پر انہوں نے اقتدار کی کرسی چھوڑ دی اور اس قوم کو احتجاج کی سزا دینے کے لئے اپنی جگہ جنرل آغا محمد یحییٰ خان کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بناکر بٹھادیا۔ اس کے بعد قوم کو جو سزا ملی اسے 52سال گذرنے کے باوجود ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔اس واقعے کے بعد بھی 22سال تک ملک میں آمریت رہی۔ مگر منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے جو منتخب جمہوری حکومتیں آتی رہیں۔ انہوں نے منہ کا ذائقہ مزید خراب کردیا۔ ناکردہ گناہوں کی سزا دینے کے لئے اتھارٹیز کے نام پر جو بلائیں قوم پر مسلط کی گئیں وہ بھی جمہوری حکومتوں کے تحفے ہیں۔ ان اتھارٹیز نے پہلے شش ماہی اور سہ ماہی بنیادوں پر بجلی، گیس، تیل اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ردوبدل شروع کردیا۔

جب قوم نے کوئی مزاحمت نہ کی تو ماہوار قیمتوں میں ردوبدل ہونے لگا۔ پھر بھی قوم نے چپ کا روزہ نہیں توڑا تو ہفتہ وار بنیادوں پر قیمتیں مقرر ہونے لگیں۔بجلی کی قیمتیں متعین کرنے والے یہ حیلے تراشتے ہیں کہ چار ماہ قبل پانی والی بجلی کی پیداوار اچانک کم ہوئی تو ڈیمانڈ پوری کرنے کے لئے ہم نے تیل سے مطلوبہ بجلی پیدا کی تھی جس پر چار ارب روپے کے اضافی اخراجات آئے تھے۔ فیول ایڈجسٹمنٹ کی آڑ میں چار ارب کے بجائے چودہ ارب روپے عوام کی جیبوں سے نکالے جاتے ہیں شاید کوئی پوچھتا اس لئے نہیں کہ عوام سے ہتھیائی گئی اضافی رقم میں سب کو خاطر خواہ حصہ ملتا ہے۔

بھلا عوام کی خاطر کوئی اپنی اوپر کی آمدنی کو کیوں لات مارے۔اس لئے حکومت، آڈٹ والے اور ملکی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے بھی چپ رہتے ہیں۔اگر پی ٹی آئی حکومت واقعی مہنگائی میں کمی اور عوام کو ریلیف فراہم کرنا چاہتی ہے تو پہلی فرصت میں اتھارٹیز کے نام سے قائم لوٹ مار کے اڈوں کو ختم کرے۔لوگوں کی مجبوریوں کا ناجائز فائدہ اٹھانے والوں کا محاسبہ کرے۔ فارماسیوٹیکل کمپنی کے نام سے گلی کوچوں میں کھلنے والے قصاب خانوں کا قلع قمع کرے جو دوائی کے نام پر موت بانٹتے پھیر رہے ہیں۔آٹا، شوگر مافیا کی طرح ڈرگ بیچنے والے بھی مافیا کا روپ دھار چکے ہیں۔ انہیں لگام دینے کے لئے بروقت اقدامات نہ کئے گئے تو وہ اژدھا بن کر سب کچھ نگل جائیں گے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
51298

شعبہ تعلیم آخری ترجیح ۔ محمد شریف شکیب

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے محکمہ تعلیم خیبرپختونخوا کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیوروکریسی کام نہیں کر سکتی تو گھر چلی جائے۔ اکتوبر2005 کے قیامت خیز زلزلے کے نتیجے میں خیبرپختونخوا میں تباہ ہونے والے سکولوں کی عدم تعمیر پر ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ تعلیم خیبر پختونخوا حکومت کی ترجیحات میں کہیں نظر نہیں آتی، زلزلہ کے 16 سال گزرنے کے بعد بھی سکول تعمیر ہونے کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔

سکولوں کی تعمیر نو کے لئے اربوں روپے مختص ہوئے لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا،صوبائی حکومت نے سکولوں کی عدم تعمیر کا ملبہ ایرا پر ڈال دیا، جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیئے کہ بدقسمتی سے تعلیم کاروبار بن چکا ہے اور حکومت نے اس کاروبار کے لئے کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔چیف جسٹس نے خیبرپختونخوا کی بیوروکریسی کو نااہل قرار دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ سارا گورکھ دھندا صرف پیسہ ادھر ادھر گھمانے کے لئے ہے،افسروں کے گھروں میں ایک دن پانی بند کریں تو ان کی چیخیں نکل جائیں گی، ان کے گھروں سے چھتیں ہٹا دیں تو انہیں پتا چلے گا، ان کے کمروں سے اے سی اور فرنیچر بھی ہٹا دینا چاہئے۔

افسران سمجھتے ہیں مختص شدہ پیسے ان کے لئے ہیں،صوبائی حکومت نے سکولوں کی تعمیر مکمل کرنے کے لئے ایک سال کا وقت مانگا جسے عدالت نے مسترد کردیا، سپریم کورٹ نے زلزلہ متاثرہ اضلاع میں تباہ ہونے والے 540 اسکولوں کو 6 ماہ میں مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے چیئرمین ایرا کو آئندہ سماعت پر طلب کرلیا۔ تباہ کن زلزلے کے بعد خیبر پختونخوا میں چار حکومتیں آئیں، تین حکومتوں نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی اور موجودہ حکومت تین سال مکمل کرچکی ہے۔

یہ چار حکومتیں سولہ سالوں میں متاثرہ سکولوں کی مرمت نہیں کرواسکیں۔عدالت عظمیٰ کے معزز ججوں کے یہ ریمارکس پتھر پر لکیر ہیں کہ تعلیم کسی حکومت کی ترجیح نہیں رہی۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بچے پڑھتے ہیں۔ حکمرانوں، وزراء، مشیروں، امراء اور افسروں کے بچے قومی وسائل پریا تو بیرون ملک تعلیم حاصل کرتے ہیں۔یا پھر ملک کے مہنگے پبلک سکولوں میں پڑھتے ہیں۔غریب طبقے سے کسی بھی حکومت کو کوئی ہمدردی نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک کی 40فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے کی سطح پر زندگی گذار رہی ہے۔

یہ ایک تلخ اور افسوس ناک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کی بیوروکریسی خود کو کسی دوسرے سیارے کی مخلوق سمجھتی ہے۔ تربیت کے دوران ان کے ذہنوں میں یہ بات بٹھائی جاتی ہے کہ اس ملک کا معتبر طبقہ صرف وہی ہے۔وہی اس ملک کے وسائل کے مالک ہیں۔ عام لوگ تو کیڑے مکوڑوں کی طرح ہیں اس لئے افسروں کو ان سے مناسب فاصلہ رکھنا چاہئے۔حالانکہ قوم کے ٹیکسوں سے بھاری تنخواہیں اور پرکشش مراعات پانے والے افسران قوم کے خدمت گار ہوتے ہیں ان کے تربیتی نصاب کو تبدیل کرکے انہیں یہ سبق سکھانے کی ضرورت ہے کہ وہ قوم کے آقا یا حاکم نہیں بلکہ تنخواہ دار ملازم اور خدمت گار ہیں۔

خیبر پختونخوا ایک غریب صوبہ ہے۔ یہاں صوبائی محکموں کے گریڈ سترہ سے بائیس تک کے دس پندرہ ہزارافسران صوبے کی سیاہ و سفید کے مالک ہیں ان کے پاس کئی گاڑیاں ہیں نوے فیصد افسروں کے ذاتی گھر ہونے کے باوجود وہ سرکاری بنگلوں میں رہتے ہیں اورہاؤس رینٹ الاونس بھی لیتے ہیں ہزاروں لیٹر پٹرول کے پیسے بھی جیب میں ڈالتے ہیں لاکھوں روپے ٹی اے، ڈی اے بھی وصول کرتے ہیں علاج اور سیر و تفریح کے لئے قومی وسائل پر یورپ اور امریکہ جاتے ہیں۔

صوبائی بجٹ کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ ان افسروں پر خرچ ہوتا ہے اور کارکردگی عدالت عظمیٰ کے ججوں کے بقول صفر ہے کوئی افسر اپنی کرسی پر شاذونادر ہی نظر آئے گا۔ پوچھنے پر رٹا رٹایا جواب دیا جاتا ہے کہ صاحب میٹنگ میں ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے وفاقی اور صوبائی وزراء کے لئے یہ پیمانہ مقرر کیا ہے کہ وہ کارکردگی دکھائیں گے تو وزارت کی کرسی پر برقرار رہیں گے بصورت دیگر انہیں گھر جانا پڑے گا۔ یہی پیمانہ صوبائی اور وفاقی افسروں کے لئے بھی مقرر ہونا چاہئے تاکہ انہیں باور کرایا جاسکے کہ وہ قوم کے خدمت گار ہیں اور اسی کے بدلے بھاری تنخواہوں اور پرکشش مراعات کے حقدار ٹھہرتے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51272

حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں ۔ تحریر: محمد آمین

امام اعلی مقام جناب علی ابن موسی الرضا فرماتا ہے کہ نبی اقدسﷺ کا ارشاد ہے کہ اگر کوئی زمین اور آسمان میں سب سے پیارا انسان دیکھنا چاہتا ہے تو وہ حسین کو دیکھیں۔یہ خوب صورت چاند اور نبی (ص) کے دل کا ٹکڑا 4 ہجری اورتین شعبان کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوا۔آپ کا کنیت ابو عبدللہ تھا۔آپ کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ آپؑ آخری نبی الزماں محمدﷺ کا نواسا،امام متقین علی کرم اللہ وجہہ کا بیٹا اور خاتوں جنت جناب فاطمہ ذہرا کا لخت جگر تھا۔حضرت عباسؓ کی زوجہ محترمہ ام الفضل سے روایت ہے کہ اپ نے ایک خواب میں دیکھا کہ جناب پیغمبر خدا کے جسم مبارک سے گوشت کا ایک ٹکڑا اُڑ کر اپ کیطرف ائی،جب اپ نے یہ خواب نبی اقدس سے بیان کی تو آپ نے فرمایا کہ میری بیٹی فاطمہ سے ایک بیٹا پیدا ہوگا جس سے اپ دودھ پلائیں گے۔

ابن شر آشوب کے مطابق جب یہ مقدس بچہ پیدا ہوا تو اس کی مان کی طبیعت نا ساز تھی اور یوں اُم الفضل نے اسے دودھ پلایا۔جب حسین پیدا ہوا تو رسول خدا (ص) جناب فاطمہ کے گھر تشریف لائے بچے کو اپنے مبارک گود میں لایا اور عجیب طور پر اپنا زبان مبارک بچے کے منہ میں ڈالا اور بچے نے آپ کا زبان چوسنے لگا،اور اس طرح حسین نے سب سے پہلے اپنے ناناجان کا دھن مبارک چوسا اور آپﷺنے فرمایا،،کہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں،،۔


روایت میں اتا ہے کہ جب امام اعلی مقام پیدا ہو تو جناب جبرائیل آپ ﷺکی خدمت میں پیش ہوا اور فرمایا کہ اللہ پاک نے آپ کو سلام اور خوشخبری بھیجا ہے اور اللہ کا ارادہ ہے کہ اس نومولود بچے کا نام حسین رکھا جائے کیونکہ اسمانون میں یہ اسی نام سے پکارا جاتا ہے،یہ کہتے ہوئے جناب جبرئیل افسردہ ہوا اور جب رسول خدا نے اپ سے افسردگی کا وجہ پو چھا تو اپ نے جواب دیا کہ اے خدا کے نبی :اپ کا یہ نواسا بہت زیادہ مشکلات،تکالیف اور مصائب سے گزرے گا اور اخر کر اس سے دریا فرات کے کنارے کر بلہ کے مقام پر اس کے وفادار ساتھیوں سمیت بے دردی سے شہید کیا جائے گا،اور یہ وہ وقت ہوگا جب اسلام بڑی مشکل حالت سے سے گزر رہا ہوگا اور اللہ کے دین کی احیا کا داورومدار حسین کی قربانی پر منحصر ہو گا۔مورخین لکھتے ہیں کہ جناب حسین علیہ السلام کا حلیہ ہو بہو جناب رسالت مآب سے ملتا تھا۔ابن کثیر سے روایت ہے کہ میں حسین سے زیادہ خوب صورت انسان نہیں دیکھا ہوں،اور جناب آنس ؓ کہتا ہے کہ میں حسین سے زیادہ رسول خدا سے مشابہت رکھنے والا نہیں دیکھا۔


آپ کی کمالات یہ تھا کہ اپ اپنے ناناجان اور والدین سے وہ تمام خصوصیات اور فضلتین پایا تھا جن کے پاکیزگی کے تذکیرے قرآ ن میں موجود ہیں۔ایک دفعہ جبکہ حسنین کریمین بچے تھے اور دوسرے دن ایک جشن ہونے والا تھا دونوں بچے اپنے پاک دامن امی کے پاس ائیں اور اس سے نئے کپڑون کی فرمائیش کی،مان کی مامتابچوں کے سامنے بے بس تھا اور یہ پاک گھرانے خود فاقے اور ٹوٹے پھوٹے کپڑوں پر انحصار کر تا تھا،مان نے کہا میرے لاڈلے اگر درزی کپڑے لائے گا تو انشاء اللہ کل تمہارے پاس نئے کپڑے ہوں گے۔رات کو جب دونوں بچے سوئے تو جناب فاطمہ جائے نماز پر جا کر اللہ سے دعا کی اور کہنے لگی اے میرے پروردگار یہ فاطمہ تیرے کنیز جو صرف تیرے ہی رحم کے سہارے جیتی ہے تو جہانوں کا مالک ہے،میں حسن اور حسین کے لیئے نئے کپڑوں کا وعدہ کر چکی ہوں اور اپنی رحمت سے جشن کے دن ان دونوں بچوں کو مایوس مت کرنا۔صبح سویرے جب دونوں بچے بیدار ہوئے اور اپنی پیاری امی سے نئے کپڑوں کی فرمائیش کی تو خاتوں جنت (Lady of Heavens)کے لیئے بڑا مشکل لمحہ تھا اور اسی دوران دروازے پر کسی نے آواز دی کہ نبیﷺکے آہل بیت: حسن و حسین کے کپڑے یہاں ہیں۔جناب فاطمہ یہ کپڑے حاصل کیا اور اللہ پاک کا شکر ادا کیا۔


روایت میں اتا ہے کہ ایک دن جب رسول خدا مسجد نبوی کے منبر سے خطبہ دے رہا تھا تو آپ (ص) نے جناب حسین جو کہ ابھی بچہ تھا مسجد کے اندر داخل ہوتے دیکھا جو اپ کی طرف ارہا تھا اسی دوران اپ کی قمیض ا پکے پاوں میں چمٹ گئی آپﷺ خطبہ چھوڑ کر اپ کی طرف دوڑا تاکہ اپ گر نہ سکیں۔ایک دفعہ اپﷺ مسجد میں نماز کی امامت کررہا تھا کہ جناب حسین ؑ اپ کے کندھے مبارک پر سوار ہوا جس سے اپ کو سجدے کو طول دینا پڑا،اور ستر دفعہ آپ (ص) کو،، سبحان رب العالیٰ و بحمدیہی،،کہنا پڑا اور اسی دوران حسین اپ کی کندھوں سے نیچے اترا پھر آپﷺ نے سجدے سے سر اٹھایا۔

جناب سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ میں جناب حسین کو رسول خدا کے پاس بھیٹے دیکھا آپﷺکو جناب حسین سے یہ فرماتے سننا کہ آپ ایک سید ہیں،سید کا بیٹا ہیں اور سادات کا باپ ہیں۔آپ ایک امام ہیں۔امام کا بیٹا ہے اور آئیمہ کا باپ ہیں۔آپ ایک حجت ہیں اور آپ کے نسل مبارک سے نو (9)حجت پیدا ہونگے جن کا نویں قائم ہو گا۔شیخ صدوق حسیف یمانی سے یہ روایت کرتا ہے کہ ایکدن جناب رسول خدا (ص) امام حسین ؑ کا ہاتھ پکڑ کر یہ فرما رہاتھا کہ اے لوگو یہ حسین جو کہ علی اور فاطمہ کا بیٹا ہے اپ سب اس کو پہچانو،خدا کی قسم جس کے قبضے میری جان ہے حسین جنتی ہے اور اس کے سارے دوست جنت میں جائینگے۔


یہ ہے جنت کے جوانوں کا سردار،سیدولشہداء اور نبیﷺ کے گھرانے کا روشن چراغ جن کی محبت اللہ پاک نے اپنی اخری کتاب میں ہم پر فرض کیا ہے اور ارشاد خداوندی ہے،،اے نبی ان سے کہدیں کہ میں تبلیغ (اسلام) کے عوض تم سے کچھ نہیں مانگتا مگر سوائے یہ کہ میرے گھر والوں سے محبت رکھیں۔


اللہ پاک ہمیں آہل بیت اطہار سے مودد کاشرف عطا فرمائین اور ہمیں ان کے دیے ہوئے تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
51270

موسمیاتی تبدیلیاں ، کرہ ارض کو خطرہ – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

موسمیاتی تبدیلیاں ، کرہ ارض کو خطرہ – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

عالمی موسمیاتی تبدیلیوں نے دنیا کے ہر ملک کو متاثر کیا ہے اور یہ عمل تیزی سے جاری ہے، دیکھا جارہا ہے کہ عالمی موسمیاتی تبدیلیوں نے ماحول کو شدید متاثر کیا، جس سے گلیشیر سکڑتے جارہے ہیں، دریاؤں اور جھیلوں پر جمی برف ٹوٹ رہی ہے جس سے سیلابی کیفیت پیدا ہو رہی ہے، اس عمل سے پودوں کی افزائش اور جنگلی حیات کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ماہرین موسمیات ماضی میں ہی پیش گوئی کرچکے تھے کہ عالمی آب و ہوا میں تبدیلی کے نتیجے میں سمندری برف کے نقصان کے ساتھ ساتھ سطح سمندر میں تیز رفتار اور گرمی کی شدید لہریں اٹھ سکتی ہیں۔ اس وقت کرہ ارض کو بدترین موسمی حالات کا سامنا ہے۔ آب وہوا کی تبدیلی سے نقصانات میں اضافہ و فوائد میں کمی کا رجحان دیکھنے میں آرہا ہے۔

ماہرین موسمیات خطرات سے آگاہ کررہے ہیں کہ عالمی درجہ حرارت اور موسمیاتی تبدیلی کا یہ عمل کئی عشروں تک برقرار رہے گا۔ انٹر گورنمنٹ پینل آن کلائمنٹ چینج (آئی پی سی سی) کے 1300 سے زائد سائنس دانوں نے پیش گوئی کی ہے کہ اگلی صدی تک درجہ حرارت میں 2.5 سے10 فیصد فارن ہائیٹ اضافہ ہوسکتا ہے۔آئی پی سی سی کا یہ بھی کہنا ہے کہ ماحولیاتی نظاموں میں تبدیلی کا  اثر علاقائی سطح پر مختلف درجے کے تحت واقع پذیر ہوسکتا ہے۔یہ امر نہایت تشویش ناک ہے کہ عالمی سطح پر درج حرارت میں 1.8سے5.4ڈگری فارن ہائیٹ (1سے3سینٹی گریڈ)ہونے سے فوائد کے مقابلے میں نقصانات زیادہ ہیں اور شواہد سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نقصانات میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ اس سے بچاؤ کے لئے دنیا کو موسمیاتی تبدیلوں سے مقابلے کرنے کے لئے ہنگامی نوعیت کو اقدامات کرنا ہوں گے۔


موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے درجہ حرارت کے اثرات نے موسموں کو متاثر کرنا شروع کردیا ہے، گرمی و سردی تو کہیں بارشیں اور سیلابوں نے دنیا بھر کے بیشتر ممالک میں تباہی مچائی ہوئی ہے۔ امریکہ اور یورپ جیسے ممالک گرمی کی بدترین لپیٹ میں آنے لگے ہیں، ریکارڈ توڑ گرمیوں نے ان ممالک کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کے اُن ممالک کا کیا حال ہوگا جہاں پہلے ہی گرمی کی وجہ سے انسانی زندگی کو دشواریوں کا سامنا ہے۔بالخصوص غریب اور ترقی پزیر ممالک کے شہریوں کو موسمیاتی تبدیلیوں سے مقابلہ کرنے کے متبادل ذرائع دستیاب نہ ہونے سے زندگیوں کو خطرات کا سامنا ہے۔فضا میں نمی کی سطح میں کمی اور تیز ہوائیں چلنے کی وجہ سے جنگلات میں آگ لگانا معمول بنتا جارہا ہے، جس سے صورت حال مزید سنگین ہو رہی ہے اور اس کے اثرات سے عالمی درجہ حرارت و موسمیاتی تبدیلی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہورہا ہے۔ روس کے علاقے سائیبریا کے 7لاکھ ہیکڑ سے رقبے پر پھیلی جنگلات میں لگی آگ نے ان خدشات کو تقویت دی ہے کہ انسانی غلطیوں کی وجہ سے حیاتیاتی زندگیوں کو خطرات کا سامنا ہے۔ایک اندازے کے مطابق 15لاکھ ہیکڑ سے زاید رقبے پر محیط جنگلات راکھ کا ڈھیر بن چکے ہیں۔اس کا واضح مطلب ہے کہ وسیع پیمانے پر جنگلات میں لگی آگ سے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے جس سے کاربن گیسوں کے اخراج پر قابو پانے میں ناکامی کا سامنا ہورہا ہے۔


موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے غیر معمولی بارشوں اور سیلابوں نے انسانی زندگی کو مشکل تر بنا دیا ہے۔ سیلاب کی وجہ سے جہاں انسانی زندگی متاثر ہورہی ہے تو دوسری جانب انفرا اسٹرکچر کو پہنچنے والے نقصان کے علاوہ ٹرانسپورٹ کے نظام سمیت بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی ایک چیلنج کا درجہ اختیار کرتی جارہی ہے۔عالمی موسمیاتی تبدیلیوں سے درجہ حرارت کے اضافے نے جہاں گرم موسم کو آتش فشاں بنا دیا ہے تو دوسری جانب 1980 کے بعد سے ٹھنڈے موسم میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، جس سے ماحولیاتی نظام کے ساتھ ساتھ زراعت بھی متاثر ہورہی ہے۔ شدید سردی میں درخت اپنی نشو ونما کا عمل روک دیتے ہیں اور توانائی محفوظ کرنے کے لیے غیر فعال ہو جاتے ہیں۔ جمی ہوئی برف کی وجہ سے زیر زمین پانی کی قلت ایک بڑا مسئلہ بن سکتی ہے۔ مثال کے طور پر ایسے میں صنوبر کے درخت اپنے پتوں کے گرد موم جیسی تہہ بنا لیتے ہیں تاکہ ان کا اندرونی پانی پتوں کے راستے ضائع نہ ہو۔مستقبل میں گرمی کی کمی کے لئے کئے جانے والے اقدامات کے ساتھ ساتھ سرد موسم بھی انسانی حیات کے لئے ایک چیلنج بنتا جارہا ہے،

سمندری سطح میں اضافے کا رجحان بھی دیکھنے میں آرہا ہے، ماہرین نے2100 تک سمندر کی سطح میں 8.1فٹ اضافے کی پیش گوئی کی تھی،یہ ریکارڈ اضافہ 1880 کے بعد ہوا اور 2100 تک سمندری سطح میں ایک سے چار فٹ اضافے کا امکان ظاہر کیا گیا۔تاہم موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے یہ اضافہ8فٹ سے بھی زیادہ ہوتا جارہا ہے، اس کی بنیادی وجہ تیزی سے برف پگھلنا اور گرم پانی کا سمندر میں جمع ہونا ہے، گمان کیا جاتا ہے کہ شدید بارشوں اور سیلابوں کی وجہ سے بہت سے علاقوں میں سمندری سطح میں اضافے دیکھنے کو مل سکتا ہے، ماہرین موسمیات اسے کئی دہائیوں تک کہیں زیادہ شرحوں سے بڑھنے کے خدشات کرتے نظر آرہے ہیں۔
یورپ میں غیر معمولی سیلاب اور شدید سیلابی سلسلے نے تباہی مچائی اور سینکڑوں انسانی جانوں کا نقصان الگ ہوا، جب کہ تباہ حال علاقوں کی بحالی و تعمیر نو کے لئے ایک خطیر رقم بھی خرچ کرنا ہوگی۔

موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بھارت، چین میں بھی غیر معمولی سیلاب و معمول سے زیادہ ریکارڈ بارشوں نے معمولات زندگی کو نقصان پہنچایا۔موسمیاتی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مستقبل میں شدید بارشوں کا سلسلہ جاری رہنے کا امکان ہے، گرم پانی کی بڑی مقدار بخارات کی شکل میں بادل بن کر برسیں گے اور پانی کے باافراط پھیلاؤ کی وجہ سے سمندری سطح میں اضافہ ہونے کے امکانات بڑھتے جائیں گے۔

موسمیاتی تبدیلی انسانی و جنگلی حیات کے لئے نئی مشکلات بھی سامنے لا رہی ہے، شدید بارشوں اور سیلابی و ریلوں کی طیغانی کی وجہ سے زراعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے جس سے خوارک کی کمی جیسے خطرناک مسائل جنم لے سکتے ہیں، اس وقت کئی ممالک خشک سالی کی وجہ سے کئی ممالک کے عوام فاقہ کشی و کسمپرسی کی زندگی بسر کررہے ہیں اور ترقی پذیر ممالک کو خوراک کی کمی کا بدترین سامنا ہے، جسے پورا کرنے کے لئے مہنگے داموں خوراک کی خریداری کی وجہ سے گرانی زور پکڑ رہی ہے اور اشیاء ضروریہ ایک عام فرد کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہے، جس سے خدشہ ہے کہ خوراک کے حصولؒ کے لئے انسانوں نے درمیان خانہ جنگیاں بڑھ سکتی ہیں۔

انسانی المیوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سب سے دیرینہ مسئلہ مہاجرت کا ہے۔ قدرتی آفات اور مسلح تنازعوں کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگوں نے اپنے ہی ملکوں میں نقل کانی شروع کی ہوئی ہے، ایک اندازے کے مطابق اپنے ملک میں بے گھرہونے والے افراد کی تعداد55ملین سے بھی بڑھ چکی ہے۔ اس کے علاوہ36ملین افراد غیر ممالک ہجرت کرنے پر مجبور ہو ئے، ایک رپورٹ کے مطابق اپنے ہی ملک میں بے گھر ہونے والوں کی تین چوتھائی تعداد شدید موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہے۔پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق زبردست بارش کی وجہ سے مہاجرین کے کیمپ اور وہاں تعمیر عارضی مکانات تباہ ہوجاتیہیں۔ کیمپوں میں پانی بھرجاتا ہے جس کی وجہ سے ہزاروں مکینوں کو کسی دوسری جگہ کیمپوں میں رہنے والے اپنے رشتہ داروں کے پاس یا پھر عارضی خیموں میں پناہ لینے کے لیے مجبور ہونا پڑتا ہے۔


واضح رہے کہ پہلے موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے مستند معلومات کا حصول مشکل امر تھا، لیکن اب جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے یہ ممکن ہوگیا ہے کہ ہم درجہ حرارت و تبدیلی ہوتی آب وہوا کے بارے میں جان سکیں اور گزرتے وقت کے ساتھ سدباب کی تیاریاں بھی کرسکیں۔ عالمی درجہ حرار ت میں تبدیلی اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجوہ کو جان کر زندگی کو محفوظ بنانے کے ساتھ ماحولیات کے بڑھتے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے حکومتوں اور عوام کو مل کر کام کرنا ہوگا، بالخصوص ایسے ممالک کو اُن ممالک کے ساتھ تعاون کو بڑھانا ہوگا، جو ان کی صنعتی دوڑ یا جنگوں کی وجہ سے عالمی درجہ حرارت میں تبدیلی کا سبب بنے ہیں۔ اقوام متحدہ کو کرونا وبا کے ساتھ ساتھ اُن ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لئے مثبت اقدامات کرنا ہوں گے جس سے انسانی، سمندری و جنگی حیات کے تحفظ کو یقینی بنائے جاسکے۔ کیونکہ یہ کسی ایک ملک کے بس کی بات نہیں، عالمگیر مسئلے کو حل کرنے کے لئے دنیا کو اپنی یکساں ذمے داری نبھانا ہوگی۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
51267

تعلیمی میدان میں حوصلہ افزائی کی اہمیت – علی مراد خان

 لعت کی رو سے حوصلہ افزائی کی معنی ہمت بڑھانا یا شاباش دینا ہے۔ اس کا متضاد لفظ حوصلہ شکنی ہے جس کی معنی ہمت توڑنا یا بے ہمت کرنا لیا جا سکتا ہے۔ ہمت بڑھانا یا بے ہمت کرنا ایسے دو عوامل ہیں جن کا بچوں کی زندگیوں پر دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔


اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ وہ بچے جن کو گھر یا سکول یا دونوں جگہوں سے حوصلہ افزائی ملتی ہے وہ بہتر تعلیمی کارکردگی دیکھاتے ہیں۔ دوسری طرف وہ بچے جن کو کم حوصلہ افزائی ملتی ہے وہ پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اگرہم تھوڑا کچھ لکھے پڑھے لوگ خود اپنی تعلیمی سفر کے بارے میں سوچیں گے تو یہ بات ضرور ذہن میں آئےگی کہ اس سفر کو جاری رکھنے اور تعلیم کے ساتھ دلچسپی برقرار رکھنےمیں خاندان یا معاشرے کے کسی فرد یا افراد کی طرف سےحوصلہ افزائی کا عمل دخل ضرور یاد آئےگا۔ جس کے لئے ہمیں ان لوگوں کا مشکور ہونا چاہیے۔


تعلیمی میدان میں حوصلہ افزائی یا حوصلہ شکنی کی بات ہو تو عام طور پر مشہور سائنسدان ایڈیسن کی مثال دی جاتی ہے۔ جس کو سکول سے نکال کر ایک خط کے ساتھ گھر بھیجا گیا تھا جس میں لکھا گیا تھا کہ آپ کا بچہ کمزور ہے لہٰذا ہم اس کو اپنے سکول میں نہیں رکھ سکتے۔ ماں نے وہ خط پڑھی اور جب بیٹے نے خط میں موجود پیغام کے بارے میں پوچھا تو اس نے یہ کہ کر اس کو مطمیؑن کیا کہ اس میں لکھا ہے کہ ان کے سکول میں آپ کے قابل انتظامات نہیں ہیں۔ سکول سے اس قدر سخت خبر آنے کے بعد بھی ماں نے بیٹے کی ذرا برابر حوصلہ شکنی نہیں کی۔بلکہ گھر میں پڑھائی کا بندوبست کیا۔ ایک دن یہی بچہ ایک سائنسدان بن کے سامنے آیا جس کا ایجاد کردہ بلب ہم آج بھی روشنی جیسی نعمت کے حصول کے لئے استعمال کرتے ہیں۔


ہمارے ہاں حوصلہ افزائی ایسے طالب علموں کی ہوتی ہے جن کی تعلیمی کارکردگی اچھی ہو۔ جبکہ ایسے طالب علم جن کی تعلیمی حالت قدرے کمزور ہو حوصلہ افزائی کے حقدار نہیں پاتے۔ کیونکہ ان کے لئےاس کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ ۔حالانکہ حوصلہ افزائی کے ذریعے آگے لانے کی زیادہ ضرورت دوسری صورت میں ہوتی ہے۔ نیزاکثر گھروں میں ایسے بچوں کے لئے ماحول خوش آئند نہیں ہوتا ۔ مثلاً ہم اکثر یہ الفاظ والدین سے سنتے ہین کہ فلاں بچہ کمزور ہے، فلاں بچہ نالائق ہے ، وہ کچھ نہیں کر سکتا وغیرہ۔ ایسے الفاظ بچوں کی زہنی نشونما کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم سے بھی دوری کی طرف لے جاتے ہیں۔ کچھ والدین بچوں کو ایک دوسرے سے بے جا موازنہ کرتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ ہرانسان کی اپنی خوبیان اور خامیاں ہوتی ہیں۔ وہ بار بار کمزور پہلوؤں کو سامنے لاتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح سے وہ بچوں میں مثبت تبدیلی لائینگے۔حالانکہ اس سے ان کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے۔ اور وہ تعلیم سے دور ہٹ جاتے ہیں۔


سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک بچہ تعلیمی میدان میں کچھ کمزور ہے تو اس کی حوصلہ افرائی کس لئے کی جائے۔ یقیناً اس کا جواب یہ ہوگا کہ یہ اس کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے کی جائے۔ اور اس بات کو مدنظر رکھ کر کیا جائے کہ ہر انسان بے پناہ صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے جن کو ابھارنا والدین اور اساتذہ کی زمہ داری ہوتی ہے۔ لہٰذا بچوں کو نصیحت وصیت کے ساتھ ساتھ پیار اوحوصلہ بھی ملنا چاہیے تاکہ ان کا تعلیمی سفر کامیاب رہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
51258