Chitral Times

مختصر سی جھلک -انفردیت سے اجتماعیت کا سفر-فریدہ سلطانہ فَری

پہلا حصہ

 عقل اورشعور ہمیشہ سےانسان کواچھائی اوربرائی میں تمیزاورفرق سکھاتی ہےاوراسی بنا پرانسان دوسرے مخلوقات سےا فضل اوراعلی بھی تصور کیا جاتا ہے۔ اوراسی کی مدد سے ایک باشعورمعاشرہ کی بنیاد بھی رکھی جاسکتی ہے۔ یہ بات بھی طے ہے کہ معاشرہ انسانوں کے اپس میں مل جل کر رہنے،برداشت کرنے اورایک دوسرے کےدکھ درد و معاملا ت زندگی  میں شریک ہونے کا نام ہے۔ جہاں انسان نہ ہو یا انسان نما رویوں کا فقدان ہو تو اس جگہ کو جنگل و بیاباں ہی قراردیا جا سکتا ہے اورپھر وہاں کا طبعی ماحول کتنا ہی خوشگوار کیوں نہ ہو وہ معاشرہ نہیں کہلاتا اورنہ ہی اس میں بسنے والوں کو انسان کہا جا سکتا ہے۔

دانش ورلوگوں کا قول ہے کہ ایک کامیاب و پرامن معاشرہ کی تعمیر و ترقی کے لئے وہاں کے بسنے والوں میں بہت سے مثبت عوامل کے ساتھ ساتھ  محبت، رواداری، ہمدردی، صبرو تحمل برداشت اورایک دوسرے کی عزت واحترام جیسے عناصر کا ہونا بے حد لازمی ہےاور یہ بات بھی  قابل غور ہے کہ کسی بھی پرامن معا شرے کی تشکیل ہمیشہ گھرسے ہی شروع ہوتی ہے کیونکہ انفرادیت  اخر میں اپنی حقیقی شکل میں اجتعماعیت کو ہی جنم دیتی ہے اور گھر کا ماحول ایک چھوٹا معاشرہ خیال کیا جاتا ہےاوراس اندرونی ماحول یعنی چھوٹے معاشرے سے ہرانسان خصوصا ہر بچہ بڑے معاشرے یعنی خارجی ماحول کی طرف سفر کرتا ہے اب اس سفر کے دوران ہرانسان  خصوصا بچہ اپنے اندرونی ماحول سے جوکچھ سیکھ چکا ہوتا ہے وہی لیکر بیرونی ماحول کے میدان میں اترتا ہے اوراسکا سب سے پہلاحدف ارد گرد کا ماحول اور انسانی رویہ و شخصیت  ہوتا ہے جو ایک سے دوسرے میں منتقل ہوجاتا ہے۔ یوں انفرادیت اپنے ساتھ جوڑے تمام پہلووں سمیت اجتماعیت میں بدل جاتی ہے۔

اگرہرایک صحت مند اور مثبت سوچ لیکرمیدان میں اترنے لگے تواس معاشرے سے ہر طرح کی بیماری جیسے ،رشوت ،بے ایمانی ،دھوکا، جھوٹ، قتل وغارت ،عورتوں اور بچوں کے ساتھ جنسی تشدد والدین کےساتھ بد سلوکی ،مذہب کے نام پر قتل و غارت وغیرہ کا خاتمہ ہو نے لگے گا تب انفرادیت سے اجتماعیت کا سفر بھی سود مند ثابت ہوگا اوریوں ہر فرد معاشرے کی تعمیرو ترقی میں اپنےحصے کا کردارمثبت طریقے سے ادا کرنے میں کامیاب ہوگا۔جب ہم بات کردارکی کرتے ہیں تو اس میں سب کا کردار اپنی جگہ  اہم  ہے مگروالدین اوراساتذہ  کا کردار فرد سے لیکرمعا شرے کی تعلیم و تربیت میں ریڑھ کے ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔والدین اوراسا تذہ ہی وہ افراد ہیں جن کے ہاتھوں میں نسلیں پروان چڑھتی ہیں اورانہی نسلوں کی انفرادی تربیت اگرمثبت طریقے سے مثبت ہاتھوں میں ہونے لگے توانفرادیت سے اجتماعیت کا سفر ہر لحاظ سے سود مند اور کارامد ثابت ہوجائے گا۔

 انفرادی و اجتماعی و دونوں قسم کے تربیت کے لئے مذہب ہی وہ واحد راستہ ہے جس پر چل کر ہم اپنی منزل پر پہنچ سکتے ہیں کیونکہ اسلام میں فرد واحد کی بھی وہی اہمیت ہے جو اجتماعیت کی ہے  ۔۔۔۔۔۔۔جاری

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
56093

مختصرسی جھلک – ایک گندی مچھلی پورے تالاب کی گندگی-فریدہ سلطانہ فَری

پہلا حصہ

ہرمعاشرہ اپنے اقداروروایا ت کی وجہ سے پہچانا جاتا ہےاوریہ اقدارمختلف خوبیوں و خامیوں پرمشتمل ہوتے ہیں ان میں اتارچڑھاو بھی ایک فطری عمل ہےدانشور کہتے ہیں کہ کسی بھی معاشرے کی ترقی اورتنزلی کا دارومداراس بات پرہوتا ہےکہ اس معاشرے کے لوگوں کی سوچ اورانکا رویہ معاشرہ اوراس میں بسنے والے لوگوں کے حوالے سے کیسا ہے۔ اس اعتبار سےمجموعی طور پردیکھآ جاَئے تواخلاقی بگاڑ اور تنزلی ہمارے معاشرے کے ہرشعبے اورزندگی کے ہرحصے میں داخل ہوچکی ہے۔ہرکوئی اجتماعی بہبود سے نکل کرذاتی مفاد وتسکین اورخود پرستی تک محدود ہوچکا ہے۔

تعلیم کا میدان ہو یا سیاست، صحت کا شعبہ ہو یا قانون غرض ہرجگہ اپ کو منافقت،بے ایمانی ،چوری اور بد دیانتی کا بازار گرم ہی ملے گا یہاں تک کہ مساجد سے باہرلوگوں کے جوتے،کولر کے ساتھ پانی کا گلاس اور سب سے اہم ہمارے اپنے گلی محلوں اور درس گاہوں میں ہمارے بچے اوربچیاں ہی محفوظ نہیں تو کیا ہم یہ توقع کرسکتے ہیں کہ یہاں عورت کھلی فضا میں محفوظ رہے اسی وجہ سے عورتوں کوبھی چاہیے کہ وہ اسلامی تعلیمات ،اپنے اقدارو روایات کی پاسداری کے ساتھ زندگی کی جدوجہد میں شامل ہوجائے تاکہ کسی بھی ناگہانی حادثات سے محفوظ رہ سکیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔

مگرہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ معاشرہ سارے کا سارا خراب ہے یا لوگ سارے ہی اخلاقی بگاڑ کا شکار ہوچکے ہیں جہاں اخلاقی زوال کا شکار لوگ موجود ہیں وہاں اپ کو ایسے لوگ بھی ملیں گیں جواپنی اچھی تربیت کی بنا پراپنے ارد گرد کے ماحول کو سنوارنے میں اپنا کردار بخوبی ادا  کر رہے ہوتےہیں۔مگرافسوس کا مقام یہ ہے کہ ہر شعبے میں کچھ بد کردارعناصرکی وجہ سے اچھے لوگ بھی اس زد میں آجاتے ہیں اوریوں اچھے لوگوں کی اچھاِئی بھی بدکردار لوگوں کی برائی تلے دب جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے پاس اس کی بہت ساری مثالیں ہیں گننے بیٹھ جاوں تو شا ئد وقت کم پڑ جائے ان میں سے حال ہی میں جج کے ہاتھوں خاتون  کے ساتھ جنسی زیادتی اس بات کا  ثبوت ہے کہ ایک گندی مچھلی پورے تالاب کوگندہ کردیتی ہے۔ جب قانون کے رکھوالے اورظلم زیادتیوں کے خلاف فیصلہ سازی کرنے والے ہی بیھڑیوں کی شکل اختیار کرکےعورتوں کو نوچنے لگے تو لوگ انصاف کی بھیگ کس سے مانگے اور اپنی روداد لیکرکس در پر دستک دیں ۔

بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی

کسے وکیل کریں،کس سے منصفی چاہیں؟                                                            

بات یہ نہیں کہ وہ کس علا قے کی تھی بات تو یہ ہے کہ عورت تھی اورقانون کے رکھوالے کے ہاتھوں درندگی کا شکار ہوگئی اب سوال یہ ہے کہ اگر قانون کے محافظ کے ہاتھوں عورت محفوظ نہیں تو کیا موٹر وے،مارکیٹ ، دفاتر، سسرال  یا دوسری ضرورت کی جگہوں پرعام  لوگوں کے ہاتھوں محفوظ رہ سکتی ہے ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
55464

مختصر سی جھلک – ادھوری کہانی ادھورا خواب-فریدہ سلطانہ فَری

 دنیا نام کے اس اسٹیج پرکچھ حقیقی کرداراپ کی کہانی کا بہت ہی اہم اورقیمتی حصہ ہوتے ہیں جن کے اِس اسٹیج سے اترجانے کے بعد چاہ کربھی وہ پھر سےاپ کی اِس کہانی کا حصہ نہیں بن سکتے۔ کیونکہ اپنے حصے کاکردار بخوبی نبھا کروہ لوگ اپ کی کہانی سے کچھ اس طرح سے نکل چکے ہوتے ہیں کہ پوری کی پوری کہانی ہمیشہ کے لئے ادھورے پن اوراداسی کا شکار ہو کر رہ جاتی ہے اور یہ ادھورا پن اِس اسٹیج میں موجود ہرکردار کواس کےحساب سےمتاثر کردیتی ہے پھراس کے بعد اس کردار سے انسان کا واسطہ اور تعلق  ہمیشہ کے لئے منقطع ہوجاتا ہے ۔ یوں وہ اپ کے خوابوں اور خیالوں کا حصہ بن کر رہ جاتے ہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ ان کے بعد کوئی دوسرا ان کے حصے کا کرداربخوبی نبھا بھی نہیں سکتا۔۔۔۔۔کیونکہ کہتے ہیں کہ یہ کرداراللہ پاک کا وہ تحفہ ہے جس کاکوئی نعمل بدل ہی نہیں۔۔۔۔۔۔

 ایسے ہی زندگی نام کے اس کہانی میں بہت سے کرداروں میں سے ایک حقیقی کردارجس کا اس کہانی کے تمام کرداروں  سے بہت ہی گہرا تعلق ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ وہ باپ کا کردار ہے۔۔۔۔۔ مگران تمام کرداروں میں سے  بیٹی کے کردار پر اس کا بہت ہی نمایا ں اور گہرا اثرپڑتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یقینا آپ سب میری اس بات سے اتفاق کریں گے۔۔۔۔۔۔۔ زندگی کی اس کہانی میں باپ کا کرداراوررشتہ  تمام رشتوں پر بھاری ہے۔۔۔۔۔ خصوصا ایک بیٹی کے لئے با پ کی موجودگی اوراسکا سایہ دینا میں ہی کسی جنت سے کم نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باپ کی موجودگی کسی بھی بیٹی کے لئے راحت و سکون اور اعتماد کاباعث ہوتی ہے وہ آپ کو دُنیا سے لڑنے کے لئے ایک طاقت ہمت اورحواصلہ عطا کرتی ہے۔

باپ تو ایک چھت کی مانند ہوتا ہے جو آپ کو موسم کے سردو گرم ماحول سے تحفظ دیتا ہے۔حالات جتنے بھی ناساز ہوں وہ خود سامنا کرتا ہے۔ دن بھرکی مشقت کے بعد اُسے پہلا خیال اپنے بچوں کا آتا ہے کہ بچے میرے منتظر ہوں گے کیوں نہ جاتے ہوئے اپنی جیب کے مطابق ٹافی، سموسے، جلیبی یا ان کا من پسند کوئی کھلونا لیتا جاوں یا اس کو کوئی فرمائش یاد آجاتی ہے جوبچوں نے گھر سے نکلتے وقت کر ڈالی تھی۔یہ کہنا بجا ہوگا کہ باپ قربانی کا دوسرا نام ہے۔

باپ کی  قدرو قیمت ان سے پوچھو جن کے سروں پہ باپ کا سایہ نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔مجھے اج بھی یاد ہے۔۔۔ اج سے کچھ سال پہلے۔۔۔۔۔ رمضان کا ۱۳ روزہ تھا۔۔۔۔ افطا رکے بعد میں کچن میں تھی اچانک میرے فون کی گھنٹی بجی اورمیں نے فون اٹھایا تو میرے بڑے بھائی دھیمی اواز میں بولے کہ فریدہ ابو کی طبعیت خراب ہے تم آجاوجلدی۔۔۔۔۔۔۔۔میرے بدن پہ کپکپی سی طاری ہوگئی۔۔۔۔۔مگر اس کی توقع ہرگز نہیں تھی جو واقع ہوچکی تھی۔

میں تقریبا دس منٹ کی دوری پررہتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ فون رکھنے کے تقریبا بیس منٹ بعد میں اپنے والدین کے گھر پہنچی۔۔۔۔۔۔۔ کیا دیکھتی ہوں کہ خاندان کے سارے لوگ جمع ہیں۔ اورارام ارام سے بات کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے دیکھ کر سب پریشان ہوگئے۔۔۔۔۔۔ میرے تو وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ میری دُنیا اجڑ چکی تھی اورمیرے سرسے شفقت کا ہاتھ اٹھ چکا تھا ۔۔۔۔۔۔بڑے بھائی مجھےابو کے کمرے میں لے گئے۔۔۔۔۔۔تو ابوکے جسم پرکفن ڈالا گیا تھا۔۔۔۔ میرے بھا ئی نے مجھے مضبوطی سے پکڑے رکھا تھا ۔۔۔۔۔ یہ منظر مجھ سے برداشت نہیں ہو ا اورمیں چیخ مارکر بے ہوش ہوگئی۔۔ ۔۔۔۔انسان کیا کرسکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔خدا کے اس امر کے آگے۔۔۔۔۔۔برداشت و صبر وتحمل کے علاوہ  اور کوئ چارہ بھی تو نہیں تھا میرے پاس۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابو کے مرنے کا دکھ ایک طرف مگر اس سے بھی بڑا دکھ یہ تھا کہ ابو نے اخری وقت میں کئی بارمیرا نام لیا اورمیں اس اخری وقت میں اس کے پا س موجود نہیں تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اج بھی خواب ابو کے حوالے سے ادھورے دیکھتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمیشہ خواب میں ابو کے پاس پہنچنے کی کوشش  کرتی ہوں اور پہنچ نہیں پاتی ۔۔۔۔اور وہ چلے جاتے ہیں ۔۔۔۔ اگراخری وقت میں اس کے پاس پہنچ پاتی توشاید میں یہ ادھورے خواب نہ دیکھتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس ادھوری کہانی کے خواب شاید ادھورے نہ ہوتے

۔۔۔۔۔۔۔۔               

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
54418

مختصرسی جھلک – بیٹیوں کا دن -فریدہ سلطانہ فری

    اس حقیقت سے تو کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ اللہ پاک کی نظرمیں تمام انسان برابر ہیں اور نبی پاک ﷺ نے بھی اللہ پاک کی انہی ارشادات کی روشنی میں زندگی گزار کر تمام انسانوں سے برابری ،حسن سلوک اور محبت کا درس دیا ہے مگر ہم انسانون سے اس حوالے سے بہت کوتاہیاں ہوتی رہتی ہیں جن کی وجہ سے ہماری زندگی اونچ نیچ کا بھی شکار ہورہی ہے پچھلے دنوں بیٹیوں کے قومی دن کے طور پر منایا گیا اگر دیکھا جائے تو ہر دن بیٹیوں کے نام ہونا چاہیے کیونکہ اس بات سے تواب سب لوگوں کا اتفاق ہوگا کہ بیٹاں ہر گھر کے انگن کی زینت اورخوبصورتی ہوتی ہیں بیٹاں انتہائی حساس اور سب کا خیال رکھنے والی  بے ضرر سی مخلوق ہوتی ہیں اور بلاشبہ بیٹیاں اللہ رب العزت کی طرف سے والدین کے لیے انعام ہوتی ہیں۔ وہ ایک ایسا پھول ہوتی ہیں جو کِھلتے ہی اپنی خوشبو ہر سُو پھیلا دیتی ہیں۔ نبی آخر الزمان ﷺ خود بھی بیٹیوں والے تھے، اگر کسی کی ایک یا ایک سے زائد بیٹیاں ہیں تو اس سے زیادہ فخر کی کیا بات ہوسکتی ہے کہ اس وجہ سے اسے نبی کریم ﷺ سے ایک نسبت اور مشابہت حاصل ہے۔

رحمت اللعالمین حضرت محمدﷺ نے فرمایا، ’’جس شخص نے تین لڑکیوں اور تین بہنوں کی سرپرستی کی، انہیں تعلیم و تربیت دی اور ان کے ساتھ رحم کا سلوک کیا، یہاں تک کہ خدا انہیں بے نیاز کردے تو ایسے شخص کے لیے خدا نے جنت واجب فرما دی‘‘۔ اس پر ایک آدمی بولا، ’’اگردو ہوں؟‘‘ تو نبی ﷺ نے فرمایا: ’’دو لڑکیوں کی پرورش کا بھی یہی صلہ ہے‘‘۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ اگر لوگ ایک کے بارے میں پوچھتے تو آپ ﷺ ایک کی پرورش پر بھی یہی بشار ت دیتے۔ (مشکوٰۃ

 ہم اسلامی معاشرے کے تو دعوے دار ہیں اورچاہتے ہیں کہ اللہ کی رضآ کی خآطرزندگی گزارے مگرافسوس کا مقام یہ ہےکہ اج بھی ایسے گھرمیں نےدیکھے ہیں جہاں مائیں اس پریشانی میں ہوتی ہیں کہ میرے شوہریا ساس نےاس بار بیٹے کی فرمائش کی ہے اگر بیٹا نہ ہو تو گھر سے نکالے جاوگے اج بھی زمانہ جاہلیت کی طرح اکثریت بیٹی کی پیدائش پر زیادہ خوشی محسوس نہیں کرتی۔ اوراگر ایک سے زائد بیٹیاں پیدا ہوجائیں تو انہیں رحمت کے بجائے بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ اور دوسر ی تیسری شادی تک اتر اتے ہیں ایسے گھر بھی میں نے دیکھے ہیں جہاں بیٹیوں سے حسنِ سلوک تک روا نہ  نہیں رکھا جاتا اور لڑکو ں کے مقابلے میں انہیں جائز حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے اور ایسے گھر بھی ہیں جہان بیٹے اس غرض سے معیاری تعلیمی اداروں میں پڑھایا جاتا ہے کہ وہ خاندان کے کفیل ہوتے ہیں اور بیتٹیوں کو گورنمنٹ سکولوں میں بھیج دیا جاتا ہے کیونکہ انہیں دوسرے گھر جانا ہوتا ہے یا سرے سے ان کو تعلیم سے ہی محروم رکھا جاتا ہے اج بھی ایسے گھرموجود ہیں جہان حق وراثت سے بیٹیوں کو محروم رکھا جاتا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ چترال کی عدالت میں حق وراثت کے کیسز سب سے زیادہ ہیں۔ یوں تو ہم ہررشتوں کا عالمی یا قومی دن میڈیا میں شاندار طریقے سے منا رہے ہوتے ہیں مگرعملی طور انہی رشتوں کو نبھانے میں اتنے کامیاب نہیں ہیں جنتے میڈیا میں خود کودیکھآ رہے ہیں۔

ایک دن بیٹی کے نام  کرنا اچھی بات ہے مگر اس سے بھی زیادہ اچھی بات یہ ہوگی کہ بیٹی کواچھی تعلیم وتربیت سے نواز کر اسے باآختیار اور باشعوربنایا جاَئےاورصنفی امیتاز سے بالا تر رکھ کر اس کی بنیادی حقوق اسےدی جائے۔ والدین کو چاہیے کہ بچپن ہی سے بچیوں کی مہارتوں اورصلاحیتوں پراعتماد کرتے ہوئے انھیں آگے بڑھنے کی جانب مائل کریں تاکہ وہ اپنی شخصیت سے متعلق ظاہری اور باطنی دونوں قسم کا اعتماد حاصل کرکےتعلیم و تربیت کی روشنی میں اگے بڑھ کر معاشرے کے ایک کامیاب فرد کے طور پر جانا جاسکیں۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
53045

”مختصر تاریخ زبان و ادب کھوار“ایک شاندار تصنیف ۔ حافظ نصیر اللہ منصور چترالی

پروفیسر مولانا نقیب اللہ رازی صاحب کا قلم روان دوان ہے وہ اب تک مختلف اہم موضوعات پرکئی کتابیں اور مقالات لکھ چکے ہیں ان کی کتابیں پورے پاکستان میں بڑی دلچسپی کے ساتھ پڑھے جاتے ہیں۔ان کی شخصیت علوم دینی کے ساتھ علوم عصری سے بھی آراستہ ہے۔ وہ ایک عالم دین محقق ہیں اور کئی زبانوں میں مہارت رکھتے ہیں اس پر مستزاد یہ کہ وہ فعال و متحرک لکھاری ہیں۔میرے انتہائی مشفق اور قابل فخر دوست ہیں ان کی نابغہ روزگار تصنیف”مختصر تاریخ زبان و ادب کھوار“انتہائی شدتِ انتظار کے بعد آج میرے ہاتھ میں ہے۔

مولانا صاحب کی محنت اور تبحر علمی کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا لیکن اس شاندار کتاب کو کمپائل کرکے چترال اور اہل چترال پر احسان عظیم کیا ہے۔کھوار ہماری مادری زبان ہے سب کا جواب ”ہاں“ میں ہوگا۔اس زبان کے ذریعے ہم اپنے مافی الضمیر کو بیان کرتے ہیں اور یہ ہی ہماری ہر قسم کی ترجمانی اور راہنمائی کرتی ہے بلکہ ہماری پہچان ہے۔لیکن ہم نے اس کے لئے کچھ نہیں کیا ہم نہیں جانتے کہ یہ زبان کتنی فصاحتوں اور بلاغتوں کا مجموعہ ہے۔ مولانا رازیؔ صاحب نے وہ کام کر دکھایا جو خطے میں بسنے والے ہر اہل علم کے عملی کاوشوں کا تقاضا تھا کھوار زبان وادب میں اس طرح بہترین کتاب کا ہمیں اور ہماری نسلوں کو صدیوں انتظار رہتا۔کتاب کا انداز و اسلوب سادہ او ر عام فہم ہونے کی وجہ سے قاری کو اپنی طرف کھینچ کر لاتی ہے۔

ایک مرتبہ پڑھنا شروع کرلے تو سمیٹنے یا وقفہ لینے کو بھی دل نہیں چاہتا۔پیش نظر کتاب اپنے ناظرین کے دل میں انھیں تمام احساسات کو ابھارتی ہے اوران تمام حقائق کو دل میں اتارتی چلی جاتی ہے لیکن کتاب کا اسلوب یہ نہیں ہے کہ صرف جذبات ابھاردے اس میں اپنی دعوی کے ثبوت میں ٹھوس علمی حقائق سے کام لیا گیا ہے۔ تاریخی واقعات اور اس عصر کے ماحول و متعلقات ایسے منصفانہ طریقہ پر پیش کئے گئے ہیں جس میں مصنف کی روشن دماغی صاف جھلکتی ہے پھر فیصلہ واقعیت و صداقت اور قلب و ضمیر کی بصیرت کے سپرد کیا گیا ہے جس کی وجہ سے کتاب کے مباحث کی تمام کڑیاں مربوط اور ایک دوسرے سے پیوست نظر آتی ہیں اور کہیں بھی کسی مسئلہ میں مقدمات سے نتائچ اخذ کرنے میں غیر واقفیت یا تکلف کا ثبوت نہیں ملتا یہ اس کتاب کی اولین خصوصیت ہے۔

کتاب کے ذیل میں پہلا باب کھو اور کھوار کی بحث انتہائی دلچسپ ہے پندرہ ابواب پر منقسم یہ شاندار تصنیف چار سو تہتر صفحات پر مشتمل ہے جس میں کھواور کھوار،کے باب کے ضمن میں چترال کا محل وقوع،چترال کا اصل نام،کھوقوم اور کھوار زبان پر مفصل گفتگو کی ہے۔کھوار کا صوتی نظام،کھوار ادب کے لسانی اسلوب،کھوار پر اثر انداز ہونے والے عوامل،کھوار رسم الخط اور املا،کھوار ادب کا ارتقائی دور، اس باب میں فاضل مصنف نے کھوار پر کئے گئے ابتدائی پروگراموں کا ذکر کیا ہے۔کھوار زبان کی ادبی صلاحتیں اور خصوصیات،کھوار زبان و ادب پر تحقیقی کام،کھوار زبان و ادب پر اردو میں کئے گئے کا موں جائزہ،کھوار اصناف شاعری،کھوار شعرائے قدیم،کھوار شاعری کا ارتقاء،کھوار شاعری میں خواتین کا حصہ،کھوار شاعری اور کلاسیکی موسیقی، کھوار اصناف نثر کا ارتقائی پس منظر،کھوار کے حوالے سے ان تمام مباحث پر سیر حاصل گفتگو کر نا کسی عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے ایسے اہم کاموں کا طرہ امتیازدور حاضر میں مولانا رازی، ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی،پروفیسر اسرار الدین اور شہزادہ تنویر الملک تنویر ؔجیسے تبحر علم شخصیات سے ہی توقع کیا جا سکتی ہے۔

ان تینوں حضرات نے ہیت تاریخ چترال اور کھوار زبان و ادب کو تاریخ عالم کا حصہ بنا دیا ہے۔ ان حضرات کی کوششوں سے کھوار کے حوالے سے ایسے مواد سامنے آئے جنہیں معاشرے اور کھو قوم کو ضرورت تھی ورنہ ہم آج بھی اپنی ضرورت کے مطابق انگریزوں کی تختیوں کے لائبریریوں میں متلاشی تھے۔ رازیؔ صاحب کی مرہون منت ہم اپنی زبان کی صوتی تغیرات اور حرکاتی تغیرات اور صوتی تخفیفات پر گفتگو کر سکتے ہیں ویسے تو رازیؔ صاحب ان چنیدہ صاحبان دانش میں سے ہیں جس کا مطالعہ متنوع او روسیع ہے وسعت مطالعہ اور تفکر سے وسعت نظری پیدا ہوتی ہے مولانا رازیؔ ایک وسیع النظر عالم دین ہیں عربی دانی میں کمال کی مہارت رکھتے ہیں۔تاریخ کا مطالعہ ان کا معمول رہاہے مطالعہ تاریخ او رزبان و ادب کے علاوہ مولانا نے مزید جدید موضوعات پر بھی قلم اٹھایا ہے جن میں ”عرف کی شرعی حیثیت“ بھی مولانا کی اہم خدمات میں سے ہے۔

محبت رسول سے لبریز مولانا کی صدارتی انعام یافتہ تصنیف”آقائے نامدار“ہر قاری کے دل ودماغ میں عشق رسول بٹھا دیتی ہے۔بہر حال اس عنوان پر ان کی محنت اور دلائل کا جمع کرنا ان کے ذوق مطالعہ کی عکاسی کرتا ہے اس قسم کے علوم کو اکھٹا کر نا ہر دو ر میں مقتدر اور اہل علم اور جید علماء کرام کا وطیرہ رہا ہے یہ کتاب اہل علم اور طلباء کرام کے لئے ایک نادر تخفہ ہے مولانا رازیؔ صاحب نے عظیم کام سر انجام دیا ہے۔ چترال کی تاریخی پس منظر میں مرزا غفران جیسے عظیم لوگوں کی صف میں ان کو یاد رکھا جائے گا،میں نے اس کتاب کا اجمالی مطالعہ کیا ہے ۔

مولانا نے چترال کی تاریخ اور کھوار زبان و ادب کے اہم پہلوں کو بہت خوبی سے اس کتاب میں جمع فرمایا ہے اور ہر ہر اعتبار سے فاضلانہ مباحث ترتیب دی ہے اس موضوع پر کام کرنے کے لئے متعلقہ عملی صورت حال کو بھی احسن طریقے سے پیش نظر رکھا ہے۔فاضل مصنف نے انتہائی بالغ نظری سے تاریخ کا مطالعہ کیا ہے اور تحقیقی امور پر انتہائی دقیق نظری سے بحث کی ہے مجھے امید ہے کہ آنے والی نسلوں، تحقیقی اداروں، اسکالروں اور مقالہ نگاروں کے لئے نہایت مفید ثابت ہوگی اس کتاب سے تحقیق کے نئے دروازے کھلیں گے۔  ان کی شب وروز کی مصروفیات و جدوجہد کو دیکھتے ہوئے ان سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ مستقبل میں بھی اسی مستعدی کے ساتھ مذکورہ تمام کاموں کو جاری رکھیں گے میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالی ان سے مزید دینی،اصلاحی، ادبی اور تاریخی کام لے  اور ان کے فیوض و برکات سے میرے جیسے ہزاروں مستفید ہوں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
52622

مختصر سی جھلک – تعلیم سے ہوچکی ہے تربیت جدا – فریدہ سلطانہ فّریّ

مختصر سی جھلک – تعلیم سے ہوچکی ہے تربیت جدا – فریدہ سلطانہ فّریّ

انسانی معاشرے کی بقا کا درومدار اس معاشرےکےاصول قواعد وضوابط  اوران پرعمل درامد پرہے اگرہم غورو فکرکریں تونظآم قدرت کی ہرشے  ازل سے اب تک اپنے مقررہ وقت کےحساب سے قدرت کی فرمنبرداری میں کوشاں ہے اوراگردیکھآ جائےتورب کاِینات کے سارے ہی نظآرے انسان کے لیے اشارے اورعبرت کا منظر پیش کرتے ہیں مگرصرف سوچنے اورغورو فکر کرنے والوں کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب بات سوچ سمجھ اور غوروفکر کی کرتے ہیں توفورا ہی یہ بات زہن میں اتی ہے کہ اللہ پاک نے تمام مخلوقات میں انسانوں کو اسی لیے ہی تو افضل رکھآ ہے کہ اسے اللہ پاک نے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اورعقل و شعور سے نوازا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں انسان کے لیے ہزاروں وسیلے بھی پیدا کیے ہیں کہ ان وسیلوں کو استعمال کرتے ہوئے انسان اپنےعقل و شعورکومزید قوت بخشے اور اپنے ساتھ ساتھ اپنے گردوپیش میں رہنے والوں کے لیے بھی زندگی کو سہل بنائے ۔۔۔۔۔۔

ان بہت سارے وسیلوں میں سے ایک بہت ہی اہم اورمستحکم وسیلہ جو انسانی عقل و شعورکو مظبوط و مستحکم کرنے کے لئے ریڑھ کے ہڈی کی حیثیت رکھتا ہےوہ تعلیم یا علم ہے جو انسان کومعتبر کرکےاسمان کی بلندیوں تک پہنچادیتا ہے۔۔۔۔۔۔

مگر اہم بات یہ ہے کہ تعلیم یا علم اس وقت سود مند ہوگی اورعقل وشعورکو قوت بخشنے کے قابل ہوگی۔ جب تعلیم کے ساتھ تربیت اورعلم کے ساتھ عمل پر بھی زور دیا جاَئے ورنہ تعلیم سے تربیت اورعلم سے عمل کو نکال کر زندگی بغیراصول و قاعدوں کے گزاری جائے تو یہی حالات پیدا ہوں گیں جو اج کل ہمارے معاشرے میں ہو رہَی ہیں اور ایسے معاشرے میں بیٹے بیٹیاں کیا جانور بھی محفوظ نہیں رہ سکتے اورایسے ماحول میں انسان خود سے بھی محفوظ نہیں رہ سکتا ۔۔۔۔

یہ خود کشیوں کے واقعات،یہ بچے اور بچیوں کے ساتھ جنسی، تشدد یہ لوٹ مار، والدین کے ساتھ بدسلوگی ،رشتوں کا تقدس پامال ہونا ۔۔۔۔۔۔

یہی تو جنم لیں گیں ایسے معاشرے میں جہا٘ ٘ن کے لوگوں میں عقل وشعور کی کمی ہوں جہاں تعلیم سے تربیت اورعلم  سےعمل  کو نکال کر زندگی گزاری جاَئے پھر ۔۔۔۔

مینارپاکستان کا پارک کیا ایسے صورت حال میں کوئی گھرکی چاردیواری میں بھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔۔۔۔ کیونکہ حیوانوں کو کھلے میدان میں چھوڑ دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یا گھروں کےانگن میں ان سے کہی بھی کچھ بھی توقع کی جاسکتی ہے ۔۔۔۔   

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
51679