Chitral Times

گرم چشمہ روڈ اور دھرنے کی دھمکیاں – محمدآمین


گرم چشمہ اور چترال ٹاون کے درمیاں واقع گرم چشمہ روڈ اپنی جیو اسٹریٹیجیک اور اقتصادی افادیت کے لحاظ سے ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ایک طرف یہ پاکستان کو درہ دوراہ (Dorah Pass) کے زریعے مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک تک رسائی کے لیئے مختصرترین زمینی راستہ مہیا کرتی ہے کیونکہ چترال ٹاون سے تاجکستان کے درمیان ٹوٹل فاصلہ تقریبا 180کلومیٹر ہے۔اور دوسری طرف درہ شوئی کے زریعے یہ پاکستان کو افغانستان کے نورستان صوبے سے ملاتی ہے۔ایک اندازے کے مطابق 1979؁ء سے لیکر 2007؁ء تک افغانستان سے تقریبا 33ارب کے لاگت کے قیمتی پھتر لاجورد(Lapiz laluzi) اور کم و بیش اٹھائیس لاکھ مال مویشی دوراہ کے راستے پاکستان کے مختلف مارکیٹوں میں داخل ہوئے۔اور دوسرے اشیاء کے مد دونوں ممالک کے درمیان درامدت اور برامدت کی لاگت بھی کروڑوں میں تھی۔پچھلی سال یہ درہ دوبارہ کراس بارڈر ٹریڈ کے لیئے کھولنے کا باقاعدہ اعلاں ہو چکا ہے اور مختلف افس کے لیئے زمین بھی تعین کی گئی ہے۔

اس کے علاوہ گرم چشمہ کے روڈ سے ہر سال کروڑوں مالیت کے آلو،مٹر اور ٹماٹر اور میوے بھی ملک کے مختلف منڈیوں میں منتقل ہوتے ہیں اگر جیو اسٹریجیک اور اقتصادی طور سے دیکھا جائے تو اس پاس کوملک میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔


گرم چشمہ اور چترال کے درمیان45کلومیٹر پر محیط گرم چشمہ روڈ کی تعمیر کا اغاز 1960؁ء کے عشرے میں ہوا تھا۔اور اس کے بعد وقتا فوقتا مختلف حکومتوں کے ادوار میں اس پر کام ہوتا رہا۔تاہم پکاگی (matteled road)کے حوالے سے مرحوم ظفر احمد نے نمایان کا م کیا لیکن اگر یہ ہماری بدقسمتی سمجھی جائے تو غلط نہ ہوگا کیونکہ اس کی حکومت کو مقررہ وقت سے پہلے تحلیل کیا گیا۔اس کے علاہ لٹکوہ کے چمپین شہزادہ محی الدین نے بھی تھوڑے سے اپنے حصے سے اس روڈ میں ڈالا لیکن جو احساں لٹکوہ کے عوام نے اس کے ساتھ کئی عشروں سے کیئے تھا وہ اس کا دس فیصد بدلہ بھی نہیں تھا۔بات یہان تک نہیں رک سکتی ہے پھر وہ دن بھی دیکھنے کو ملا کہ گرم چشمہ کا اپنا بیٹا سلیم خاں کی ایک طویل المدت اقتدار کا اغاز ہوا۔

سیاست کا پہلا سیڑھی بحثیت اسپیکر ضلعی اسمبلی سے ہوا پھر اس کے بعد روکنے کا نام ہی نہیں لیا کیونکہ لٹکوہ کے عوام بڑے مخلص اور سیاسی طور پرعلاقائی پسند ہوتے ہیں بیٹا صوبائی وزیر بھی رہا پھر بڑی مشکل سے اس سے دوبارہ صوبائی اسمبلی کے نشست کے لیئے منتخب کئے گئے اور بات یہاں تک نہیں رکتی موجودہ الیکشن میں بھی اپنے اکثریتی ووٹ ا سکے جھولی میں ڈال دیئے۔امیدیں اور خواہشات بہت زیادہ تھے لیکن کریم اباد،ارکاری اور گرمچشمہ تک سب کا ایک ہی خواہش تھی اور ایک ہی مطالبہ تھا کہ کچھ بھی نہ کریں صرف اس روڈ کو صحیح معنوں میں ہمارے لئے بنائے تاکہ ہم موسم گرما میں سیلاب اور سرما میں برف کے تودے گرنے سے بچ جائیں وعدے ہوئے جلوس جلسوں میں اعلانات ہوئے کہ آن قریب اس روڈ میں کام شروع ہونے والے ہیں لیکن خدا جائے وہ دن کبھی بھی نہ ایااور اس دن کا سورج کبھی بھی طلوع نہیں ہوا،اور ہمارا یہ سپوت خود کہتا تھا کہ گرم چشمہ کے اچھے دن شروع ہونے والے ہیں لیکن گرم چشمہ کے اچھے دن کبھی نہیں ائے البتہ بھائی صاحب کے اچھے دن ضرور ائے ہیں اور اگر ہم یہ کہیں تو غلط نہ ہوگا کہ ہمیں اپنون نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔


جب میں اس اہم راستے کے لیئے بے یارومدگار کا لفظ استعمال کرتا ہوں تو کئی دوست اعتراض کرتے ہیں کہ فلان صاحب نے اس روڈ پر یہ کام کیا تھا فلاں وقت میں ابھی سلیم خان نے تو سوشل میڈیا پر یہاں تک دعوی کیا ہے کہ چترال سے پھاچیلی تک روڈ کو پکا اسی نے کیا ہے اور اس کے دور اقتدار میں چترال سے گبور تک روڈ کی منظوری بھی ہوئی تھی جو حقائق سے مکمل طور پر ہٹ کر اور مضحیکہ خیز بیاں ہے اور حقیقت سے دور تک اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔اگر جیکا چترال سے پھاچیلی تک اس کو پکا کیا تو کیا ہم اس کی کریڈیٹ کسی سیاسی لیڈر کے کھاتے میں ڈالیں تو یہ سراسر ناانصافی ہوگی۔ہاں البتہ گرم چشمہ روڈ کی لاچاری ختم ہوتے نظر اتی ہے کیونکہ ابھی پاکستان کے اہم ادارے این ایچ اے اس سے سنبھال رہی ہے اور ہمیں کام ہوتا نظر ارہے ہیں شاہ سلیم تک مشنری ہر وقت موجود ہیں اور اس سال برف باری میں بھی گبور روڈ بند نہیں ہوا جو ایک معجزہ سے کم نہیں ہے،انصاف کا تقاضہ بنتا ہے کہ جس کے دور حکومت میں این ایچ اے نے کام شروع کیا ہے کریڈیٹ بھی اس کو جاننا چاہئے کیونکہ یہ ادارہ اوپر اسمان سے نہیں ایا بلکہ حکومت کے ماتحت ادارہ ہے اور یہ حکومت کے اجازت کے بغیر کوئی بڑا فیصلہ نہیں کرسکتا۔

جب سے یہ ادارہ تحریک انصاف کے دور حکومت میں گرم چشمہ روڈ پر کام شروع کیا ہے دوسرے جماعتوں کے اکابریں کریڈیٹ لینے کی کوشش میں ہیں کہ اس کو یہاں لانے میں میں نے فلان وقت میں فلان کام کئے تھے،انشاء اللہ بہت جلد پی ٹی آئی کی حکومت میں شاہ سلیم تک روڈ پر کام بھی شروع ہوگا۔


چند روز قبل گرم چشمہ میں پاکستان پپلز پارٹی کا ایک جلسہ منعقد ہوا تھا جس میں فخر انجیگان سابقہ صوبائی وزیر اور دو دفعہ سابقہ ایم پی اے سلیم خان نے پی ٹی آئی کے حکومت کو ورننگ دیا ہے اور ایک سوشل میڈیا پر پیغام بھی اس کی طرف سے وائرل ہوا ہے کہ اگر حکومت نے ایک مہینے کے اندر گرم چشمہ روڈ پر کام شروع نہیں کیا تو ہم اسلام اباد میں دھرنا دیں گے۔ہم جناب سلیم خان کی جرات کو سلام پیش کرتے ہیں کہ وہ عوام لٹکوہ کے لیئے اتنا بڑا کام کرنے جارہا ہے۔لیکن مجھے ہنسی اتی ہے کیا یہ واقع ہو جائے گا؟ہم بس سلیم خان سے صرف یہ مطالبہ کرین گے کہ 100بندوں کو لیکر اسلام اباد میں صرف 26 دن کا دھرنا دیں جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے علاوہ اپنے ساتھ سی ڈی ایم اور دوسرے پریشرگروپس کے لوگ بھی لے جائیں۔

اگر اپ نے چھبیس دن کا دھرنا اسلام میں کامیابی سے دیا تو واپسی پر لٹکوہ کے سارے لوگ پارٹی وابستگی سے بالاتر ہوکر اپ کا چترال میں شاندار استقبال کریں گے اور اپ کو اکیس توپوں کی سلامی دی جائے گی اور اس کام میں سارے علاقے کے لوگ اپ کے ہمت کو داد دینگے۔لیکن جہاں تک میرا خیال ہے یہ اپ کے بس کا کام نہیں ہے اب صرف حکومت پر دباوٗ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اور جو اپکے خلاف بولتے ہیں ان کے اواز کوبھی دبانے کے لئے مختلف بلیک میلنگ کے حربے استعمال کرتے ہیں اور یہاں تک کہ بعض وقت جھوٹ کا سہارا بھی لیتے ہو کہ فلان کو پروجیکٹ میں اتنے ر وپے دیا تھا اور کبھی مخالفیں پر جب شیڈول لگتا ہے تو مسیج سینڈ کرتے ہو کہ ابھی مزا چھکو۔

یہ بڑے cheapکام ہوتے ہیں اور اپ جیسے سیاسی لیڈر سے یہ توقع نہیں کیجا سکتی ہے حتی کہ گاوں کے سطح پر بھی سیاسی ورکر ز یہ کام نہیں کر سکتے ہیں۔بحرحال ہم اپکی اسلام دھرنے کا منتظیر ہیں کہ کب چھبیس دن کا کامیاب دھرنا دیکر ہمارے بھائی واپس چترال پہنچے گا۔تاکہ یہ چترال کی تاریخ کا ایک منفرد واقعہ ہوگا جس کا کریڈیٹ یقینا عمران خان صاحب کو جائے گا کیونکہ اس نے تاریخ کا سب سے بڑا دھرنا دیا تھا جس کادورانیہ 126دن تھے اور ابھی اپوزیشن والے بھی دھرنے کو ایک مثبت پہلو کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
52014

ڈبلیو ایچ او کی چشم کشا رپورٹ – محمد شریف شکیب


پاکستان میں سرکاری سطح پر صحت عامہ کی سہولیات کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی تازہ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان میں صحت عامہ کی صورت حال نہایت غیر تسلی بخش ہے۔ملک میں میڈیکل کالجوں کا معیار بھی انتہائی تشویش کا باعث ہے۔رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2300افراد کیلئے صرف ایک ڈاکٹر دستیاب ہے جبکہ 80فیصد ڈاکٹرز دن میں صرف 4گھنٹے کیلئے ہسپتال آتے ہیں دیہی علاقوں میں ڈاکٹرز کی عدم دستیابی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ پاکستان میں میڈیکل کالجوں کی تعداد118ہے جن میں سے صرف10 ادارے معیاری تعلیم فراہم کر رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں طب کی تعلیم حاصل کرنے والوں میں خواتین کی تعداد بڑھ رہی ہے جو خوش آئند ہے تاہم ان میں سے بیشتر تعلیم مکمل ہونے کے فوری بعد اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی شروع نہیں کرتیں اور58 فیصد لیڈی ڈاکٹر شادی ہونے کی وجہ سے جاب چھوڑ دیتی ہیں جو ملک میں ڈاکٹروں کی قلت کی ایک بڑی وجہ ہے۔رپورٹ کے مطابق ملک میں 2800 مریضوں کے لیے اسپتال میں ایک بستر دستیاب ہے۔طبی سہولتوں تک عدم رسائی کی وجہ سے 80 فیصد زچگیاں غیر تربیت یافتہ دائیوں کے ہاتھوں ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ہزاروں نوزائیدہ بچے اور مائیں زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ ملک کے حکمرانوں اور پالیسی سازوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

سرکاری سطح پر معیاری ہسپتال موجود نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے سیاست دان، اعلیٰ افسران اور ان کے خاندان اپنا علاج ملک سے باہر کرواتے ہیں۔اپنے بچوں کو امریکہ، لندن، فرانس، جرمنی اور آسٹریلیا کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری سطح پر بین الاقوامی معیار کا کوئی ہسپتال پاکستان میں بن سکا اور نہ ہی سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار بہتر بنانے پر کسی نے توجہ دی۔پاکستان کی 70فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے شہروں کے مقابلے میں دیہی علاقوں میں تعلیم اور صحت کے اداروں کی حالت ناگفتہ بہہ ہے۔ المیہ یہ ہے کہ دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹرز بھی اپنے علاقے میں جاکر عوام کی خدمت کرنے سے کتراتے ہیں کیونکہ انہیں دیہات میں صرف تنخواہ پر گذارہ کرنا پڑتا ہے۔ جبکہ شہروں میں پرائیویٹ کلینک کھول کر وہ ماہانہ لاکھوں کماتے ہیں۔

خیبر پختونخوا حکومت نے دیہی علاقوں میں جاکر خدمات انجام دینے والوں کے لئے پرکشش مراعات کا اعلان کیا ہے اس کے باوجود دیر، شانگلہ، بونیر، چترال، کوہستان، بٹگرام ہنگو، لکی مروت، وزیرستان، کرم، اورکزئی، مہمند اور باجوڑ جاکر دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے ان علاقوں سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر بھی تیار نہیں ہوتے۔ لیڈی ڈاکٹروں کے حوالے سے ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ بھی قابل غور ہے۔ ایک ڈاکٹر تیار کرنے پر قوم کے چالیس پچاس لاکھ روپے لگ جاتے ہیں اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد قوم کی امانت خدمت کی شکل میں لوٹانے کے بجائے اکثر لیڈی ڈاکٹرز شادی کرکے ہاؤس وائف بننے کو ترجیح دیتی ہیں جو اس غریب قوم کے ساتھ زیادتی ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے ایک اہم مسئلے کی طرف حکومت کی توجہ دلائی ہے کہ پیشہ ور عملہ اور محفوظ زچگی کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے سالانہ ہزاروں خواتین اور نومولود بچے موت کے منہ میں جاتے ہیں۔ دیہی صحت مراکز، بنیادی صحت مراکز اور ڈسپنسریوں میں کم از کم دو تربیت یافتہ نرسیں اور لیڈی ہیلتھ وزیٹرزتعینات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ خواتین اور بچوں کو گھروں کے قریب صحت کی بنیادی سہولیات میسر آسکیں۔ خیبر پختونخوا حکومت تعلیم اور صحت کے شعبوں کو اپنی اولین ترجیحات قرار دیتی ہے۔ محکمہ صحت خیبر پختونخوا کو عالمی ادارہ صحت کی اس رپورٹ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنا آئندہ کا لائحہ عمل مرتب کرنا چاہئے۔ تاکہ عوام خصوصاًدیہی آبادی کو صحت کی مناسب سہولیات ان کہ دہلیز پر فراہم کرنے کے وعدے ایفا ہوسکیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
52012

قیمتوں پر کنٹرول کی نئی منصوبہ بندی ۔ محمد شریف شکیب

وفاقی حکومت نے ملک بھر میں چینی، گندم، دودھ،گوشت اور دالوں سمیت50 اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کنٹرول کرنے، ناجائزمنافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کوروکنے کا حکم نامہ جاری کردیا ہے۔ تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں کو قیمتوں پر کنٹرول کے لئے کنٹرولر جنرل کے اختیارات سونپ دیئے گئے ہیں۔وزارت صنعت و پیداوار نے وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد پرائس کنٹرول، ناجائزمنافع خوری اور ذخیرہ اندوزی روکنے کے ایکٹ 1977 کے تحت آرڈر 2021 کا نوٹی فیکشن جاری کردیاہے جس کا اطلاق فوری طور پر ہوگا۔سرکاری اعلامیہ کے مطابق چینی اور گندم کی قیمتیں مقرر کرنے کا اختیار وفاقی وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی کے سیکرٹری کو دیا گیاہے۔

خوردنی تیل،چائے، گوشت، سیمنٹ، موٹرسائیکل، سائیکل، ٹرک، ٹریکٹرز، فروٹ جوسز، مشروبات، فیس ماسک، آکسیجن سلنڈرز اور ہینڈ سینٹائزر سمیت 15 اشیا کی قیمتیں مقرر کرنے کا اختیار وفاق کی سطح پر متعلقہ وزارت کے سیکرٹری کے پاس ہوگا۔ دودھ، پیاز، ٹماٹر، دالوں، گوشت، انڈے، روٹی، نان اور نمک سمیت 33اشیا کی قیمتیں مقرر کرنے کے اختیارات صوبائی سطح پر سیکرٹری صنعت کو دیئے گئے ہیں۔اعلامیہ کے مطابق کنٹرولر جنرل درآمد کنندگان،ڈیلرز اور پروڈیوسرز سے ماہانہ بنیادوں پر قیمتوں کے حوالے سے رپورٹ طلب کرسکیں گے۔

کنٹرولر جنرل کے پاس ازخود نوٹس، چھاپہ مارنے، دکانوں اور گوداموں میں داخل ہونے کا اختیار ہوگا۔ وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتیں پوری دنیا میں 10 سال کی بلندترین سطح پر ہیں۔امریکہ، کینیڈا، ہالینڈ، ناروے، فرانس اور جرمنی جیسے ترقی یافتہ ملکوں میں بھی عوام مہنگائی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو کنٹرول کرنا صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ان کا کہنا ہے کہ زرعی پیداوار بڑھا کر قیمتوں کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔مگر یہ بات وزیرخزانہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ زرعی پیداوار بڑھانے کے لئے طویل المعیاد منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

کاشت کاروں کو کھاد، بیج، زرعی ادویات،مشینری کی خریداری، ٹیوب ویلوں کی تنصیب اور پیداوار کو کھیتوں سے منڈیوں تک پہنچانے کی سہولت فراہم کرنی ہوتی ہے۔بنجر اراضی کو قابل کاشت بنانے کے لئے ڈیم اور نہریں نکالنی پڑتی ہیں اور یہ چند ہفتوں یا مہینوں کا کام نہیں۔کمرتوڑ مہنگائی نے عوام کے لئے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا دوبھر کردیا ہے۔ حکومت کی طرف سے بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لئے ضلعی انتظامیہ کو اختیارات تفویض کرنا اورنرخون کا تعین کرنے کی ذمہ داری سرکاری اداروں کو سونپنا خوش آئند ہے۔ تاہم بنیادی مسئلہ نرخنامے پر عمل درآمد کرانا ہے۔

صوبائی اور ضلعی سطح پر گمنام پرائس کمیٹیوں کے نام سے نرخنامے تو بلاناغہ جاری کئے جاتے ہیں مگر سرکاری نرخ نامے اور برسرزمین قیمتوں میں آسمان و زمین کا فرق ہوتاہے۔پرائس کمیٹیوں کے پاس اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کرنے کا اختیار ہے نہ ہی ان کے پاس فورس ہے۔مجسٹریسی نظام کے خاتمے کی وجہ سے تھوک اور پرچون فروش شتر بے مہار ہوچکے ہیں وہ اپنی مرضی کے پرائس ٹیک لگا کر چیزیں بیچتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ عوام کو موجودہ صورتحال میں فوری ریلیف چاہئے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو اعتدال پر رکھنے اور ان کی کڑی نگرانی سے مہنگائی پر قابو پانے میں کافی حد تک مدد مل سکتی ہے۔

تاہم مہنگائی کی بنیادی وجوہات کے تدارک پر بھی حکومت کو توجہ دینی ہوگی اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آئے روز بڑھنے کی اصل وجہ پیداواری لاگت میں اضافہ ہے جو پٹرولیم مصنوعات، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں وقتاً فوقتاً اضافے کا شاخسانہ ہے جب تک حکومت اس پر قابو نہیں پاتی۔ قیمتوں میں اضافے کی رفتار کو روکنے کی کوششیں بار آور ثابت نہیں ہوسکتیں۔اور جب تک حکومت مہنگائی پر قابو نہیں پاتی۔ اس کی عوامی مقبولیت کا گراف گرتا رہے گا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
51995

میری ڈائری کے اوراق سے ۔ برکولتی کے نگینہ کے روبرو ۔تحریر : شمس الحق قمرؔ چترال

میری ڈائری کے اوراق سے ۔ برکولتی کے نگینہ کے روبرو ۔تحریر : شمس الحق قمرؔ چترال

دوران ادئیگی، فرائض منصبی  جہاں ہم  مدرّسین سکو ل سے  ملتے ہیں ، اُن سے سیکھتے  ہیں  وہاں اُن بستیوں کے باسیوں  سے بھی   قصداً اورکبھی سہواً ملاقاتوں کا شرف  حاصل  ہوتا رہتا ہے ۔    مجھے جو لطف مختلف شخصیات  سے ملنے اور  اور اُ ن کے اندر کی  دنیا      کو  دریافت   کرنے میں  آتا ہے    وہ شاید کسی اور کام سے ممکن نہیں ۔   ہم دن میں سینکڑوں  لوگوں سے ملتے ہیں   اُن  میں دو قسم کی مقناطیست  کی حامل  شخصیات ہوتی  ہیں ایک وہ  جو آپ کو اپنے   آپ سے  دور پھینک دیتی ہیں اور ایک وہ جو     کوسوں دور سے آپ کو  اپنی طرف  کھینچتے  ہیں اور چپکا کے رکھ دیتے ہیں     ۔

 یاسین برکولتی میں  آخر الذکر   قبیل  کی  ایک شخصیت سے  اتفاقی ملاقات ہوئی    اور  یوں اُن کی جاذبیت نے مجھے اپنے  دام میں ہمیشہ کے لئے  پھنسا کے رکھدیا۔    میں اُن کا اسیر سخن نہ ہوتا تو شاید    پوری زندگی   اپنی  محرومی   پرکفِ افسوس ملتا رہتا ۔  

            یہ  15 اپریل،  2021کی دوپہر کا   2 بجکر  37 منٹ کا وقت تھا  جب  ہم برکولتی میں وارد ہوئے ۔  برکولتی  گاؤں میں  عجیب سا موسم تھا  ایک طرف خوبانیوں ، چیریوں اور باداموں کے درخت اُمید کے پھولوں سے اٹے دعوت  نطارہ دے  رہے تھے تو دوسری طرف خنکی کا زور اتنا  تھا کہ  یہاں کے باسیوں نے موسم سرما کے گرم لباس اب تک زیب تن کیے ہوئے تھے ۔  جس سکول میں میں دورے پر گیا  تھا اُسی  سے  مُتصل میرے ایک ہنس مکھ رفیقِ کار اسد للہ کا دولت کدہ   واقع تھا  جسکا مجھے  مطلقاً علم نہیں تھا  البتہ موصوف کو ہمارے برکولتی میں نازل ہونے کی خبر  پہلے سے ہوئی  تھی لہذا انہوں  نے اپنے اگھر میں ہمارے لئے طعام  کا بندوست کیا ہوا تھا ۔ مجھے دعوت کی اطلاع ملی اور میں نے  چند اور دوستوں کی معیت   میں، جن میں  دینار شاہ ، سلیمان شاہ اور تاج عالم شامل تھے  موصوف کے دولت خانےکی راہ لی ، ہم جیسے ہی موصوف کے گھر کے قریب پہنچے  تو ایک  معمّر  مگر بے حد جاذب نظر شخصیت نے اپنے گھر کے داخلی  دروازے سے باہر آکر ہمارا پرتپاک استقبال کیا ۔

village bulbul nazar gb 1

قریب قریب  6 فٹ طویل قد کاٹھ ، سنولی رنگت ، قدرے لمی ناک ، ہلکی سفید ریش ، اُبھرے اُبھرے  گالوں پر مروّر زمانہ کے آثار نمایاں ، پُر نور آنکھوں پر خلوص سے بھر پور خمدار آبرو ، ( میں اپنی زندگی میں جن جن لوگوں سے ملا ہوں میرا یہ تجربہ رہا ہے کہ جن کی آبرو خمدار ہوتی ہیں وہ لوگ اتنے ہی  شریف النفس ، پر خلوص اور انسان دوست ہوتے ہیں)  تنا ہوا سینہ ، منحنی چہرہ  داہنے ہاتھ میں لکڑی کی بنی چھڑی  پکڑے اپنی بیٹھک کی جانب ہماری راہنمائی فرمائی یہ  اسدللہ کے والد محترم بلبل نذرخان صاحب تھے جو ایک مدّت سے باہر ہمارا منتظر تھے  اس وقت آپ ماشا اللہ    زندگی کی  93  ویں بہارں سے گزر کر     94  ویں    میں قدم  رکھ  چکے ہیں ۔اُن کی چال سے معلوم ہوتا تھا کہ جیسے اُن کے گھٹنے اُن سے روٹھ گئے ہوں   پھر بھی   بڑھاپے کو  موصوف نے اپنی  مظبوط  وقوّت    ارادی سے  یکسر زیر کیا  ہوا تھا   ، ایسے شان سے    ہمارے آگے چل  رہے تھے جیسے    کوئی  تند و تیز  فوجی جوان  اپنے  چاق و چوبند دستے کی  قیادت کرتے ہوئے چبوترے کے سامنے سے گزر  رہا ہو   ۔

بعد میں معلوم ہوا کہ  وہ واقعی  پاک آرمی کے جری    فوج کا ایک سپاہی  بھی گزرے  تھے  ۔ وضع داری ، ادب   اور رکھ رکھاؤ کا یہ عالم  تھا کہ  آپ اُس وقت تک تشریف نہیں رکھے جب تک کہ ہم اپنی نشستوں پر نہ بیٹھے ۔ مجھے آپ جناب کے استقبالی مصافحے سے لیکر  وداعی معانقے  تک    اُن کے ملنے کے طور طریقوں  سے خوب اندازہ ہو چکا تھا  کہ میں ایک عام عمر رسیدہ  آدمی سےنہیں بلکہ  علاقے کے  ایک   نگینےسے  متعارف ہونے کا شرف حاصل کر رہا ہوں  جنہوں نے اپنی پوری زندگی  قوم کی تعلیم اور صحت کے لئے  جدو جہد کرتے  گزاری تھی۔    

ہم جیسے ہی بیٹھے  تو میں نے   قدرے قریب جاکر   استفسار کیا “محترم  کتنی اونچی آواز  میں سن سکتے ہیں؟”  اس سوال کی وجہ یہ تھی کہ      اس عمر میں   انسان کے سننے کی صلاحیت  عموماً کمزور پڑ جاتی ہے   ۔میں سوچ رہا  تھا کہ    اگر موصوف  کی سماعت درست  ہے  تو میرا بلا وجہ  اُونچا بولنا    خلاف  ادب  عمل ہوگا  ۔ انہوں نے  جواب میں انتہائی شائستگی سے فرمایا ”   جوانی کی طرح  سماعت  تیز نہیں ہے   ”   ۔ یہ سننے کے بعد  ہم  نے  موصوف  کی سمعی استعداد  کے  عین مطابق  بات چیت شروع کی۔ آپ  کا لہجہ   عالم لوگوں کا نہیں تھا کیوں کہ  آپ جملوں  کو   زبان کی کسوٹی میں  پر تول تول کر پیش کرتے  تھے  ۔ موصوف کی نشست و برخواست سے  یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ  موصوف      جہاں دیدہ  شخص   ہیں       ۔

1927 میں پیدا ہوئے، 1950 میں نارتھرن سکاؤٹ میں ملازمت اختیار کی اور 1964 کے اوآخر میں حوالدار رینک میں سبکدوش ہوئے، 1965 میں جب ملکی حالات  دوبارمخدوش ہوئے  اور بھارت نے لاہور میں ناشتے کا  پروگرام  بنا لیا    تو ملک کے دوسرے اور ریٹائرڈ فوجیوں کی طرح پاک آرمی کو  بلبل نذر خان جیسے محب وطن سپاہی  کی خدمات کی   بھی ضرورت پیش آئی  ۔ موصوف نے  واپس  محاز  جنگ کا رخ کیا  یوں مزید     دو سالوں  تک محاز جنگ میں رہے ۔ 1967 کی شروعات میں ملک میں امن قائم ہوا تو بلبل نذرصاحب دوبارہ  گھر آئے ۔

ہم نے    جب محترم  بلبل نظر صاحب سے  اُ ن کی زندگی  کے   مدو جزر  پر  مختصر سی   گفتگو کی  کوشش   کی تو ہمیں  یہ  جان کر  خوشگوار حیرت ہوئی کہ محترم   بلبل نذر صاحب   فوجی سپاہی  ہی نہیں تھے  بلکہ ملازمت سے سبدوش ہونے  کے بعد ایک سماجی کارکن کی حیثیت سے  اپنی زندگی   قوم  کے لئے  قربان  والے   یاسین کے گنے  چنے  لوگوں میں سے ایک تھے       ۔

 آپ 1967 سےسن   2000  کے پہلے دو عشروں تک سماجی کاموں میں بڑی حد تک  متحرک نظر  آتے ہیں ۔ اُس وقت حکومت وقت کی نظر میں   آپ  ایک قابل  اعتماد    شخص تھے  کیوں  زمانہ سپاہ گری  سے ہی اُن کی ہشیاری  کی کہانیاں  حکومت کی کانوں تک پہنچ چکی تھیں       ۔ 

ایوب خان نے   1959 ء میں  نئی حکومتی اصلاحات میں  ایک پروگرام متعارف کروایا تھا  جسے  Basic Democracy   (BD)  کہا جاتا تھا اس  پروگرام کے تحت  کسی ضلعے  میں قانون کی  عملداری   کے لئے  ضلعی  افیسر    کے ساتھ  غیر سرکاری طور پر  ایک  کمیٹی بنائی جاتی تھی جس میں با اعتماد  اور دانشمند  افراد کو ذمہ داری سونپی جاتی تھی تاکہ وہ   علاقائی اثرو رسوخ کے بل بوتے  پر   قانوں کے نفاذ میں  حکومت کے شانہ بشانہ  کام  کرتے ہوئے    عوام کے مسائل    ایوان بالا تک پہنچا سکیں    ۔ موصوف  اسی کونسل  کی متعدد بار  ممبر اور پھر   چئرمن  رہے ۔

village bulbul nazar gb 2

بلبل نذر  کا ایک قصہ  یاسین  میں زبان زد خاص و عام ہے۔   صدر ایوب  خان  نے عنان  حکومت  اپنے  ہاتھ میں لینے کے بعد جمہوریت  کا ڈھونگ  رچاتے  ہوئے     مختلف  علاقوں میں ڈپٹی کمشنروں کے بھیس میں اپنے نمائندے بھیجے   ۔  بلبل نذر صاحب  ابھی ابھی    ( بی- ڈی) کے ممبر بنے تھے تو ایک    نئے ڈپٹی کمشنر  کی یاسین تقرّری ہوئی۔    اُس وقت کا ڈپٹی کمشنر آج کے چیف سکریٹری سے زیادہ    با اختیار تھے       ۔ انتظامی و استقبالی  کمیٹی  میں  موصوف  کے علاوہ   علاقے کے اور بھی شرفاء     یاسین کے ہیڈ کورٹر  ( طاؤس )   میں   ڈپٹی کمشنر کے منتظر تھے ۔ سرکار  نے   دن کے ایک بجے انتظامی کمیٹی سے ملنے کا وعدہ کیا ہوا تھا  (یاد رہے کہ  ڈپٹی کمشنر صاحب  گزشتہ دنوں  یاسین پہنچے تھے اور رنگ رلیوں میں مصروف تھے  ۔    شاید  کوئی  اوارہ  دوشیزہ ہم رکاب  تھی جسکے بارے میں  بلبل نذرصاحب کو پہلے سے علم تھا) ۔

  صاحب بہادر ایوب خان کا  نمائندہ تھے اور    اپنے آ پ کو ہر سپید سیاہ کا مالک سمجھ رہے تھے  ۔صبح  آنے میں بہت دیر کی  جیسے   جیسے گھڑی کی سوئی ایک  بجا نے کے بعد اوپر ہونے لگی ویسے ویسے ویسے     وقت    کے پابند افواج پاکستان کے  بہادر سپاہی  کا پارہ  بھی اوپر  چڑھنے   لگا ۔  ڈپٹی کمشنر صاحب  دن کے دو بجے کچھ سرکاری  پیادوں کے ساتھ وار د ہوئے  تواستقبالی جماعت میں شامل بہت سوں نے  تعظیماً   سر جھکائے  رکھا       ایک  بلبل نظر  خان تھے جو کہ   سینہ تان کے کھڑے رہے  ۔ 

ڈپٹی کمشنر  کےلئے  سپاسنامہ   پیش ہوا   جس میں  بلبل نذر کے ایما ء پر      کچھ ضروری نکات شامل کئے گئے تھے  ۔ سپاسنامے کے  نکات پر  ڈپٹی کمشنر صاحب نے بجائے   ہامی بھرنے کے   کچھ  کرخت لہجے میں  بولا ” تم نے  جو سپاسنامہ پیش کیا  ہے   اس سے لگتا ہے کہ یہ تمہارے الفاظ نہیں ہیں  بلکہ کسی سیانے   کی کارستانی ہے ”     ۔ 

  ڈپنی  کمشنر  کا ترش لہجہ  اور   یاسین کے لوگوں کی ذہانت پر   انگلی  اٹھا نے کی یہ ہمت    بلبل نذر خان  پر بہت گران گزری۔وزیر زادہ   فرزندِ مراد اتلیق اور  گاؤں  سندی کے   ڈاکٹر فیض اللہ   آپ کے شانہ بشانہ بیٹھے ہوئے تھے     موصوف  نے  ساتھیوں کی طرف معنی خیز نگاہوں سے  دیکھا         اور اپنی نشست سے کھڑے ہوکر   بھری محفل میں    ڈپٹی کمشنر صاحب  کی آنکھوں  میں آنکھیں ڈال کر گویا ہوئے   ” ڈپٹی صاحب  حکومت  نے آپ کو یہاں  لوگوں کے مسائل کے حل کے لئے بھیجا ہے    ۔  مجھے بہت افسوس ہے کہ آپ کو آپ کے فرائض  کا علم  نہیں ہے ۔ آپ نے  ہمیں آج  صبح  ملاقات کا وقت  دیا تھا  اور آپ  4 گھنٹے    تاخیر سے آئے  ۔    ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ  آپ لیٹ کیوں ہوئے  ۔   ہمارے جائز   مطالبات    پر اپنی کمزوری   اور نااہلی کا   نزلہ  یاسین  کے  غیرت مند  عوام پر نہ گرائیں ہم آپ جیسے افسروں کو  برداشت کرنے کے متحمل   نہیں ہیں  ”    بلبل نذر کا    نپا تلا جواب    تیر بدف ہوا تو  ڈپٹی کمشنر  نے  بھری محفل میں  وادی  یاسین  سے معافی مانگی  اور  بلبل نذر صاحب کے ساتھ    ایک مخصوص نشست کی درخواست  کی لیکن بلبل نذر نے   اسے بھی قبول نہیں کیا ۔

 صاحب موصوف کے اس دلیرانہ  قدم نے    یاسین کے باسیوں   کا دل  جیت لیا  ۔  زمانے کے لوگوں نے  اُنہیں  اپنا نجات دہندہ  قرار دیا  اور اُن سے محبت  کی  یوں   تین مرتبہ یونین کونسل  کے چئیرمن منتخب ہوئے ۔ علاقے  میں کئی ایک  سکولوں کی بنیاد رکھی  اور اُنہیں  چلانے کےلئے   شعبہ  تعلیم کا    درو دیوار کھٹکھٹاتے رہے ۔  یاسین میں کئی ایک گورنمنٹ  اور ڈی جے     سکولوں کے قیام کے لیے     اُن کی کوششیں  قابل ذکر ہیں ۔  برکولتی  میں سن 1960 کی دہائی کی    ڈسپنسری اور  ڈی جے ہائی سکول آپ کے   مرہوں ِ منت ہیں ۔ آپ کی ایک  آرزو  جو  آپ اپنی  زندگی میں  شرمندہ تعبیری  دیکھنا چاہتے ہیں وہ   آپ ہی کی  پروردہ ڈی جے ہائی سکول  کی ہائیر سیکنڈری   کے درجے تک  ترقی ہے ۔      محترم  بلبل نذر صاحب!   اللہ تبارک وتعالی ٰ  آپ کی ہر  نیک خواہش  پوری کرے  اور آپ  کو عمر نوح عطا فرمائے ۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامین
51961

داد بیداد ۔ جوڑ اور توڑ ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

آج ایک بزرگ سے ملا قات ہوئی وہ گھر سے ٹیلیو یژن کو نکا ل با ہر کر رہے تھے پوچھنے پر بتا یا میں نے اس ملک کی خاطر 1965ء اور 1971ء میں دو خطرنا ک جنگیں لڑی ہیں اس ملک کے ساتھ میرا رشتہ صرف مٹی کا نہیں بلکہ خون کا بھی رشتہ ہے صرف ٹیلی وژن نہیں میں نے ریڈیو، اخبار اور سو شل میڈیا کے مکمل بائیکا ٹ کا بھی پکا فیصلہ کر لیا ہے بات سمجھ میں نہیں آئی تو بزرگ نے وضا حت کی ملک اور قوم کے بارے میں کوئی اچھی خبر نہیں آتی بری خبریں دیکھنے، سننے اور پڑھنے سے میڈیا کا بائیکا ٹ ہی بہتر ہے کم از کم ذہنی کو فت، پریشا نی اور اعصا بی تنا ؤ سے نجا ت مل جا ئے گی بزر گوں سے بحث مبا حثہ منا سب نہیں تا ہم بزرگ کی خد مت میں اس قدر عرض کیا کہ اس میں خبر رساں کا کوئی قصو ر نہیں لڑ کی اغوا ہو گئی تو اس خبر کو خو ش خبری بنا کر پیش کر نا ممکن نہیں ہے میڈیا معا شرے کا آئینہ ہے جو کچھ سما ج میں ہے وہ آئینے میں نظر آتا ہے خوا جہ میر درد نے بڑی بات کہی ہے ؎


ہر چند ہوں آئینہ پر اتنا ہوں نا قبول
منہ پھر لے جس کے مجھے روبرو کریں


بزرگ کو مختصر جواب دینے کے بعد میں نے اپنے گریبان میں جھا نکنے کی کو شش کی 3دن کے اخبارات کو سامنے رکھا تو بزرگ کی بات میں خا صا وزن نظر آیا ایک طرف کورونا کی وبا ہے دوسری طرف افغا نستان سے پا کستان کا رخ کر نے والے پنا ہ گزینوں کی اطلا عات ہیں افغا ن مسئلے پر پا کستا ن عالمی دباؤ سے دو چار ہے دونوں بڑے عذاب اور دہرے مصائب ہیں لیکن ہمارے ہاں جوڑ اور توڑ کی کیفیت سے فرصت نہیں جوڑ بہت کم اور توڑ بہت زیا دہ دیکھنے میں آتا ہے کرا چی میں حکومت مخا لف پا رٹیوں کا جلسہ اور اسلا م اباد مارچ کا اعلا ن آگیا ہے،

لا ہور میں ڈاکٹر وں کا احتجا ج اور مظا ہرین پر پو لیس کا لا ٹھی چارج، کیمیکل سپرے، اسلا م اباد میں نا درا کے ملا زمین کا دھر نا،وفاقی دار لحکومت سے 7000ملا زمین کے بید خلی کی خبر قانونی جنگ اور احتجا ج کی دھمکی، سب سے بڑے صوبے کے دار لخلا فہ میں میٹرو بس سروس کے ڈرائیور وں کی ہڑ تا ل، سروس کی بندش، منی بسوں اور رکشہ والوں کی من ما نیاں ایک ہی دن کے اخبارات کی زینت بن چکی ہیں گذشتہ 3دنوں کے اندر ملک میں 7کمسن بچیوں کو جنسی ہرا سا نی کا نشا نہ بنا یا گیا، 5لڑ کیوں کو اغوا کیا گیا 11مسخ شدہ لا شیں برآمد کی گئیں پورے مہینے کے اندر جنسی جرائم کے اعداد شمار دل کو وحشت زدہ کر دیتے ہیں عدا لتوں سے جو خبریں آرہی ہیں ان میں 36سالوں سے زیر التوا مقدمات کی سما عت ہو رہی ہے 18سال پرانے مقدمے کا فیصلہ آتا ہے 24سال پرانے مقدمے کو از سر نو تفتیش کے لئے واپس نا ئب تحصیلدار کے پا س بھیجا جا تا ہے.

کا بل میں امارت اسلا می نے ابھی با ضا بطہ اقتدار نہیں سنبھا لا تصویر اور ویڈیو کے ساتھ خبر آگئی چور پکڑا گیا تھا قاضی کے سامنے پیش کیا گیا ایک گھنٹہ بعد کھلے میدان میں لا کر چور کا ہاتھ کا ٹ دیا گیا اس خبر کی ویڈیو کو دیکھ کر سب نے کہا کا ش ہمارے ملک میں جنسی درندگی، چوری، قتل، اغوا، ڈاکہ زنی اور دیگر جرائم میں ملوث جن مجرموں کو 16جو لا ئی سے پہلے گر فتار کیا گیا تھا 30اگست تک ان کو سزائے مو ت اور ہاتھ کا ٹنے کی سزا ئیں دی جا تیں تو معا شرہ کتنا پر امن ہو جا تا 40سال بعد ان مقدمات کے فیصلے ہو نگے

تو اخبار پڑھنے اور ٹیلی وژن دیکھنے والے عوام اس گھنا و نے جر م کو بھو ل چکے ہو نگے اور یہ ضما نت بھی نہیں کہ 40سا لوں کی تھکا دینے والی مقد مہ بازی کے بعد بھی مجر موں کو سزا ملے گی میں نے سما ج کے اندر جھا نکنے کی کو شش کی تو چار خطر نا ک صورتیں سامنے آتی ہیں سیا ستدا نوں کے درمیاں سیا سی مبا حثہ کی جگہ ذاتی دشمنی نے لے لی ہے سول اور فو ج کے تر بیت یا فتہ افیسروں کے خلا ف نا زیبا پرو پیگینڈا چل رہا ہے صنعت و تجا رت اور کارو بار میں نا م پیدا کر نے والے شہریوں کو غلیظ الفاظ میں گا لیاں دی جا رہی ہیں، عدلیہ میں گروہ بندی کا تا ثر پھیلا یا جا رہا ہے جس بزرگ نے 1965اور 1971کی جنگوں میں خو ن کا قطرہ بہا کر ملک کی خد مت کی وہ اس صورت حا ل کو برداشت نہیں کرے گا ؎
نا وک نے تیرے صید نہ چھوڑ ا زما نے میں
مرغ باد نما تڑپے ہے آشیا نے میں

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
51959

افغان طالبان بھی ہمارا مسئلہ نہیں ! – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

افغان طالبان بھی ہمارا مسئلہ نہیں ! – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

31 اگست افغانستان سے غیر ملکی افواج کی واپسی کی آخری ریڈ لائن قرار دی گئی، اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ایک بڑا انسانی المیہ جنم رہا ، امریکہ نے خدشات ظاہر کئے کہ کابل میں دہشت گرد حملوں کا خطرہ برقرار ہے، یورپ سمیت دنیا بھر کے ممالک نے اپنے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ اپنے وطن سے ترقی یافتہ ممالک ہجرت کرنے والوں کے آنسو دیکھے کہ انہیں 40 برس سے تباہ حال افغانستان چھوڑنے کا افسوس ہے، کئی خواتین، نوجوانوں اور متعدد شعبوں سے وابستہ افراد کے ٹوئٹر پر دکھ بھرے پیغامات پڑھ پڑھ کر سوچ میں پڑ گیا کہ یہ سب کابل میں افغان طالبان کے داخلے کے بعد ہی کیوں ہورہا ہے، افغان طالبان تو کابل سے قبل 29 صوبوں کا مکمل کنٹرول حاصل کرچکے تھے، لیکن کوئی بھی کچھ نہیں کہہ رہا تھا، یہ ضرور کہ خوف زدہ تھے کہ کہیں افغان طالبان، کابل پر  حملہ نہ کردیں، یہ کابل کے گرد و نواح بھی پہنچ گئے، بیا ن بھی سامنے آگیا کہ ابھی کابل میں داخل نہیں ہوں گے، لیکن اچانک اشرف غنی سمیت پارلیمان کے بیشتر اراکین، افغان سیکورٹی فورس سمیت سب کابل سے نکلگئے، پھر اچانک وہ سب کچھ ہوا کہ اس کی توقع بادی ئ النظر افغان طالبان بھی نہیں کررہے تھے، اس لئے انہیں ”مجبورا“ کابل کا کنٹرول سنبھالنا پڑ گیا۔


مجھے بھی نہیں معلوم کہ 31 اگست کے بعد کیا ہوگا،بلکہ کسی کو بھی نہیں معلوم، یہاں تک کہ افغان طالبان بھی نہیں جانتے کہ افغانستان کا مستقبل کیا ہوگا، صرف اندازہ ہی لگاتے ہیں، ہر دن لمحوں میں صورت حال یوں بدلتی ہے کہ سارے اندازے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں، یورپ نے کابل ائیر پورٹ کے المیے پر افسوس ظاہر کیا تو امریکہ نے اگلے دن ہی افغانستان کے تمام اثاثے منجمد کردیئے، عالمی مالیاتی اداروں نے امداد معطل و منسوخ کردیئے۔ امریکہکہنے لگاکہ داعش حملہ کرے گا، پھر دو دن بعد حملہ بھی ہوگیا، سینکڑوں لوگ جان سے گئے اور زخمی ہوئے، امریکہ نے بدلہ لینے کا اعلان کیا، پسند کی جگہ پر اپنی مرضی کا حملہ اور پھر داعش خراساں کا مبینہ’ماسٹر مائنڈ‘ مار دیا گیا، ایک نہیں بلکہ دو مارے، ایک زخمی ہوا،  پھر کابل میں دوبارہ حملہ کیا، ایک پورا خاندان پانچ بچوں سمیت آناََ فاناََ ہلاک ہوگئے۔ یہ ڈرون کہاں سے آئے، کس ملک کی فضائی حدود سے گذرا، اجازت لی کہ نہیں، دنیا کو کچھ نہیں معلو م، معلوم ہے تو صرف امریکہ کو۔۔یقین کیجئے کہ امریکہ اور اتحادیوں سمیت کئی کردار اسٹار پلس کا ڈرامہ لگ رہے ہیں، جس کا نہ سر ہے نہ پیر، جس نے ماننا ہو تو مانے، نہیں مانتا  تو اُس کی مرضی، کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا، جیسا کہ افغان طالبان نے نجی نیوز چینل کے ایک پروگرام میں انٹرویو دیتے ہوئے افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ”(کالعدم) تحریک طالبان پاکستان، افغانستان کا نہیں بلکہ پاکستان کا مسئلہ ہے، اس لیے اس حوالے سے حکمت عملی بنانا بھی پاکستان کا کام ہے۔ ٹی ٹی پی پاکستان کا مسئلہ،جنگ کے جواز اور عدم جواز کا فیصلہ وہاں کے علماء کریں۔“  افغان طالبان تو کب سے کہہ رہے ہیں کہ افغانستان کا مسئلہ ہمارا ہے، ہم جانیں اور ہمارا کام، لیکن اب انہیں اقتدار حاصل کرنے کے بعد مجھے تو یقین ہوگیا ہے کہ افغان طالبان بھی ہمارا مسئلہ نہیں، وہ جانیں اُن کا کام جانے۔


حکومت نے امریکہ کو ائیر بیس نہ دینے کا  اعلان  کیا تھا، ہم نے بھی یقین کیا کہ ریاست امریکہ کے لئے مزید قربانی کا بکرا نہیں بنے گی،  اب افغانستان جانے اور اُس کا کام جانے، لیکن پھر غیر متوقع  خبر آئی کہ غیر ملکیوں ’وغیرہ‘کو ایک ماہ کا ٹرانزٹ ویزہ دے دیا گیا، راولپنڈی اور اسلام آباد کے ہوٹلوں میں غیر ملکی فوجیوں کو ٹھہرا گیا، کراچی اور لاہور کو اسینڈ بائی رکھا ہوا ہے، لیکن  یہ فیصلہ کس نے اور کب کیا،  کسیکو بھی اس کا علم نہیں، لیکن اتنا سب جانتے تھے کہ ریاست پر دباؤ ہے اور پھر حکومت بھی عالمی دباؤ کتنا برداشت کرسکتی تھی، اس کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ افغانستان کے اور بھی تو پڑوس ممالک ہیں، اُن پر تو کوئی دباؤ نہیں، کوئی کچھ نہیں کررہا۔ اب عوام یہ سوچ رہے ہیں کہ افغان طالبان کے لئے وزیراعظمکتنی آواز اٹھا رہے ہیں، پاکستان نے افغانستان کے لئے کتنی قربانیاں دیں، لیکن کوئی مانے تو، اب امارت اسلامی ایک بار پھر افغانستان  کے کرتا دھرتا ہیں،تو انہیں ائیر پورٹ چلانے کے تکنیکی عملے کی ضرورت تھی تو اُنہیں اپنے کسی پڑوسی ملک کا خیال نہیں آیا، بلکہ سات سمندر دور ترکی کو یاد کیا، اُن سے طویل مذاکرات کئے، ترکی نے اپنی شرائط نہ ماننے پر دو ٹوک انکار کردیا۔ وزیراعظم کی خارجہ پالیسی سمجھ سے باہر ہے کہ ایک جانب افغان طالبان کو بھی اپنا فیورٹ قرار نہیں دیتے، لیکن عبوری حکومت کے قیام سے قبل دنیا سے مطالبے اور اپیل بھی کی جا رہی ہے کہ اُن کی مدد کی جائے، درحقیقت مجھ  ایسے کئی لکھاری بھی سمجھنے سے قاصر رہے کہ افغان طالبان کی حمایت کرنی چاہے یا افغانستان کی؟۔


درحقیقت ہمیں زمینی حقائق کے مطابق پہلے افغانستان کی حمایت کو ترجیح دینی چاہے، افغانستان کے عوام کے لئے اپنی آواز اٹھانی چاہے، کسی ایک فریق کو اپنا فیورٹ بنا کر اپنی غیر جانب داری کو مشکوک بنانے سے گریز کرنا ہوگا، جس طرح افغان طالبان کے ترجمان نے کہا کہ ٹی ٹی پی، پاکستان کا مسئلہ ہے،  تو افغانستان کا مسئلہ، وہاں کے عوام اور اُن کی مذہبی و سیاسی جماعتوں کا مسئلہ ہے، ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں، اتنے بھی غافل نہیں کہ سمجھ نہ سکیں کہ  افغانستان میں ابھی بھی گریٹ گیم کھیلی جا رہی ہے، اشرف غنی کا  صدارت سے استعفیٰ ابھی تک سامنے نہیں آیا، افغانستان کا آئین ختم نہیں ہوا۔ اس وقت بھی اشرف غنی جلا وطن صدر ہیں، مغرب کے لئے ترپ کا پتا ہیں کہ انہیں جب چاہیں، جس وقت جس طرح چاہیں کھیل سکتے ہیں۔ افغانستان کی پارلیمان اراکین کی بڑی تعداد جلا وطن ہے، کسی نے استعفیٰ نہیں دیئے، یہاں تک کہ کابل میں موجود ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے بھی اپنے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیا۔ اس صورت حال میں امریکہ اور ان کے اتحادیوں پر قطعی اعتماد نہیں کیا جاسکتا کہ وہ،مستقبل میں اپنے مفادات پورے نہ ہونے پر کس شکل میں واپس آئیں گے۔  کیونکہ دنیا جانتی ہیں کہ امریکہ جہاں جاتا ہے وہاں سے واپس نہیں آتا۔ 

Posted in تازہ ترین, مضامین
51957

چترال کے قدیم مذاہب – (ایک مختصر جائزہ) – تحریر: علی اکبرقاضی

یہ ایک عقلی دلیل ہے کہ جہاں تاریخ کے حوالے سے تحریری ماخذات کی کمی ہو وہاں تاریخی زبانی روایات، قدیم نقشہ نگاری اور آثار قدیمہ جیسے تحقیقی میدانوں سے ذیادہ سے ذیادہ فائدہ لینے کی کوششیں کی جاتی ہے اور اگر کوئی مذکورہ ماخذات کو بنیاد بناکر اپنا تجزیہ کرتا ہے اور خصوصا زندہ روایات کو تحریری شکل دیتا ہے تو کل کے ریسرچرز کے لئے یہ ایک تحریری تاریخی سند اور تحقیقی مواد تصور کیا جاتا ہے۔

چترال میں دین اسلام سے پہلے کے مذاہب کے بارے میں اکثر محققین اور مصنفیں مثلاََڈاکٹر عزیز اللہ نجیب (۲۰۰۰)، ڈاکٹر فیضی (۲۰۰۵) رحمت کریم بیگ (۲۰۰۴) میرزہ محمد غفران (۱۹۶۲) وغیرہ کے تحقیق کے حساب سے تین مذاہب کا یکے بعد دیگر اس خطے میں ہونے پر اتفاق ہے یعنی زرتشت، بدھ مت اور کلاشہ۔ جبکہ جان بڈلف (۱۹۸۱) اور کارل جیٹمار (۱۹۹۶)کے ہاں چترال اسلام کے آمدسے پہلے ہندو مذہب کے زیر اثر بھی رہا ہے۔ زرتشت اور بدھ مت کا چترال میں ہونا عین ممکن اس لئے بھی ہے کہ قدیم فارس، سمرقند، بلخ و بخارا تاریخی طور پر ان مذاہب کے لئے مرکز یت کا کردار ادا کرتے رہے ہیں لہذامیری نظر میں اِن مذاہب کا چترال تک رسائی ایک تاریخی حقیقت ہے۔ فارس کے جیوگرافی پر لکھی ہوئی سب سے قدیم کتاب حدود العالم ہے جو کہ ۹۲۲/۳۷۲ عیسوی میں لکھی گئی ہے اور اسکا کا ترجمہ Minorsky نے ۱۹۳۰ میں کیا ہے۔ اس کتاب میں دو راہ (شاہ سلیم) اور بروغل کے راستوں کو تجارتی راستے Business Routs قرار دیے گئے ہیں اور ان راستوں سے گھریلو استعمال کے برتن، شہد وغیرہ کی تجارت وسط ایشیا سے چین تک ہوتی تھیں۔ لہذا تاریخی حقائق اور عقلی تجزیے کی بنیاد پر وسط ایشیا اور ایران میں زرتشتوں اور بدھ مت کی حکومت و مرکزیت کی وجہ سے اُن کا قدیم چترال میں اپنے عقائد کو پھیلانا منطقی عمل ہے۔


تاریخی اعتبار سے چترال میں سب سے پہلا مذہب زرتشت ہے جس کے پیروکار آگ سے مذہبی عقیدت رکھتے تھے۔ میرزہ محمد غفران اس حوالے سے یہ دلیل دیتے ہیں کہ اُس دور میں بلخ زرتشتیوں کا مرکزِ تبلیغ ہوا کرتا تھا جبکہ پامیر اس کا ایک ضلع تھا اور یہاں سے لوگ ہر سال زیارت کے لئے بلخ جایا کرتے تھے۔ میرا خیال ہے کہ یہی وجہ ہے کہ ہماری روایات اور ادب میں (بلخو زیارت) کا تصور پایا جا تا ہے اور آگ و لنگر کو ایک مقدس مقام تصور کرنے کا رواج اور اُس پر قسم کھانے کا رسم ہماری روایات کے حصے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں نوروز کی تہوار جو کہ در حقیقت زرتشتوں کی تہوار تھی آج بھی چترال سمیت وسط اشیا

اور ایران میں مذہبی و ثقافتی جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے۔ لٹکوہ خصوصا انجگان تک محدود ہوکر اگر اس حوالے سے سے
بات کی جائے تو ایک حیران کُن نتیجہ اُس وقت میرے سامنے آیا جب میں مختلف دیہات کے ناموں پر ریسرچ کر رہا تھا تاکہ کوئی تاریخی مدد مل سکے۔ برزینBirzin جوکہ انجگان کا ایک گاوں ہے درحقیقت (برزینِ مھر) زرتشتوں کے اُس مقدس اتشکدہ کا نام ہے جہاں وہ اپنے عقیدت کا اظہار کیا کرتے تھے اور وسط ایشیا میں اس نام سے کئی مقامات اور افراد موجود ہیں جو زرتشتیوں کی موجودگی کے واضح اثبات ہیں۔ شاہنامہ فردوسی میں کچھ اس طرح کے اشعار بھی درج ہیں۔


شبِ تار جوئیندہ کین منم۔ ہماں اَتشِ تیز برزین منم


جدید دور کے ایک مشہور ریسرچر کارل جیٹمار (۱۹۹۶) چترال اور ناردرن ایریاز میں بدھ مت مذہب کی موجودگی کے حوالے سے آثار قدیمہ، سٹوپا Stupa کے تقشے جو کہ چترال کے مختلف مقامات پر لکڑی اور پتھروں پر بنائے گئے ہیں کو بنیاد بناکر اس علاقے میں بدھ مت کی موجودگی کو یقینی مانتے ہیں۔ رحمت کریم بیگ کے مطابق تیسری صدی میں کنیشکا جو کہ کُوشان کا بدھ مت عقیدہ رکھنے والا راجا تھا چترال پر قبضہ کرلیا تھا اور اس علاقے میں بدھ مت کی ترویج کروائی۔


چترال کا تیسر ا مذہب کلاشہ رہا ہے جس کا واضح اثر آج تک چترال میں موجودہے۔ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی صاحب سمیت کئی اور سکالرز کے ہاں جنوبی چترال میں دسویں صدی سے لیکر رئیسہ کے آمد تک ایک دور کیلاش حکمرانی کا گزرا ہے جو کہ نورستان سے چترال میں واردہوئے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب برنس سے اگے یعنی بالائی چترال میں ُسومالک کی حکومت تھی۔


اس مخصوص دورانیے میں اس پورے علاقے میں کیلاشہ عقیدے کی ترویج ہوئی ہے۔ کلاشہ حکومت کی اخری حکمران بال سنگھ تھا جس کو ۱۳۲۰ ء میں شاہ نادر رئیس نے شکست دی اورر ئیسہ حکومت کی ابتدا کی۔ آج انجگان سمیت پوری چترال کے مختلف علاقوں میں کلاش تہذیب کے واضح اثرات موجود ہیں۔ کچھ مقامات آج بھی با قائدہ طور پر کلاشان دُور، کلاشان دہ ، کلاشان شال وغیرہ کے نام سے پائے جاتے ہیں۔ کچھ علاقوں میں ایسے قبریں بھی دریافت ہوتے ہیں جہاں مُردوں کے ساماں بھی دفنائے ہوئے ہوئے ہیں مثلا انجگان کے اخری علاقہ گبور میں گُبت کے مقام پر ایسے قبروں کے بارے میں معلومات ہیں جہاں قبرستان میں بہت سارے سامان ملتے ہیں جو تدفیں کئے گئے ہیں لیکن یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ الہامی مذاہب سے پہلے دنیا کے تقریبا تمام تہذیبوں کے اندر لاشوں کے ساتھ اُن کے سامان دفن کرنے کا سلسلہ عام تھا۔ لہذا آج کیلاش قوم کی چترال میں موجودگی ہی اس بات کا قوی ثبوت ہے کہ نہ صرف اُن کی حکومت رہی ہے بلک اُن کے ثقاتی و مذہبی اثرات بھی رہی ہیں۔

جہاں تک ہندو تہذیب کے اثرات کی بات ہے کارل جیٹمار اور جان بڈلف کے اُس دلیل کہ ہندو مذہب بھی چترال میں رہا ہے کی توثیق فارسی جیو گرافی پر لکھی ہوئی کتاب حدود العالم سے بھی ہوتی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ بلور (چترال اور ناردرن ایریاز کا پرانا نام) کا بادشاہ اپنے آپ کو سورج کا بیٹا مانتا ہے جو کارل جیٹمار کے ہاں یہ ہندو مذہب میں (سورا) کا تصور ہے جو ہندو سماج کے اندر سورج سے ایک مذہبی عقیدے کی بنیاد پر ہوتا ہے اور سورج کو اہم مذہبی علامت تصور کیا جاتا ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ ہندو تہذیب یا مذہب سطورِ بالا میں ذکر شدہ مذاہب کی طرح اس علاقے میں کوئی ایک مخصوص دور کی نمائندگی نہیں کرتا البتہ ہندو اور سکھ تاجروں کا تاریخی طور پر اس خطے میں آمدورفت رہی ہے جن کی وجہ سے کچھ ثقافتی اثرات ہوسکتے ہیں جن کے اُپر مزید تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ لہذا چترال میں درجہ بالا ذکر شدہ تین مذاہب بلترتیب زرتشت، بدھ مت اور کلاشہ کے زیر اثر رہا ہے اور اُن کے کئی اوراہم ثقافتی و مذہبی اثرات بھی ہیں جن پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
51940

حضرت بلال بن رباح رضی اللہ تعالی عنہ – ڈاکٹر ساجد خاکوانی (اسلام آباد،پاکستان)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حضرت بلال بن رباح رضی اللہ تعالی عنہ

”عشق والے جسے کہتے ہیں بلالی دنیا“

(20محرم،یوم وفات کے موقع پر خصوصی تحریر)

ڈاکٹر ساجد خاکوانی(اسلام آباد،پاکستان)

                ابوعبداللہ حضرت بلالؓ حبشی،افریقی نسل کے اولین مسلمانوں میں سے ہیں جو محسن انسانیتﷺ کے دست مبارک پر مشرف بہ اسلام ہوئے اور سابقون الاولون اصحاب نبیﷺمیں ان کاشمار ہوا۔آپ کے والدکانام ”رباح“اور والدہ محترمہ ”حمامہ“تھیں۔ان کے والدین بنیادی طورپر افریقہ کے خطے حبشہ جسے آج کل ”ایتھوپیا“کا ملک کہاجاتاہے وہاں کے رہنے والے تھے۔حضرت بلال کی پیدائش مکہ مکرمہ میں ہی ہوئی،امت مسلمہ میں  ”موذن نبوی“ان کی اول و آخر شناخت ہے۔حضرت ابوبکرصدیقؓ نے خریدکرآزادکیااور پھر ساری عمرجوار نبویﷺمیں بسر کی۔حضرت بلال ؓکو محسن انسانیت ﷺکااس قدرقرب میسرآیاکہ جملہ ضروریات نبویﷺحضرت بلال ؓکی ہی ذمہ داری تھی۔آپ کا شمار اصحاب صفہ میں بھی ہوتاہے، محسن انسانیت ﷺنے حضرت بلال کواولین موذن اسلام بنایا،انہیں آذان سکھائی،الفاظ و حروف کی صحیح ادائگی کا طریقہ سمجھایااورپھرانہیں ”سیدالموذنین“کالقب بھی مرحمت فرمایا۔

                قریش کاایک نامور سردارامیہ بن خلف اسلام کا بدترین دشمن تھا،اس کے غلاموں میں سے حضرت بلال بن رباح  تھے۔روایات کے مطابق آپﷺنے رات کے وقت اونچی آوازسے رونے کی آوازسنی،دیکھاتوایک غلام چکی پیس رہاتھا اور ساتھ ہی ساتھ دردو کرب سے چلا رہاتھا۔آپﷺ کے استفسارپراس نے بتایاکہ وہ سخت بخارمیں مبتلاہے لیکن اگروہ سوگیااوریہ دانے پسنے سے رہ گئے تواس کاآقا کوڑوں سے پٹائی کرے گا۔ساتھ ہی اس نے شکوہ کیاکہ لوگ فقط پوچھ کر چلے جاتے ہیں اوربس۔آپﷺ گھرسے اس کے لیے گرم دودھ کا پیالہ لائے اسے پلایااورسلادیا اورساری رات محسن انسانیتﷺاس کی جگہ چکی پیستے رہے۔گیارہ راتوں تک آپﷺ نے اس کی جگہ چکی پیسی،تب اس غلام نے پوچھاکہ اے بھلے مانس توکون ہے اورمیری چکی کیوں پیستاہے؟؟؟آپﷺنے جب اسلام کی تعلیمات سے آگاہی فراہم کی اوروہ تفصیلی ملاقات نبوی سے بہرہ مند ہوئے تودولت ایمان سے قلب مبارک منور ہو گیاتاہم ایک مختصر مدت تک اپنے ایمان کو پردہ اخفا میں رکھا،لیکن آخر کب تک؟؟نور ایمان کی چندھیائی ہوئی روشنی نے ان کے آقاامیہ بن خلف کی آنکھوں کو اندھاکردیااور مصائب و آلام اور ابتلاء و آزمائش کاایک پہاڑ ان پر ٹوٹ گرا۔صحرائے عرب کی تپتی ریت روزانہ کی بنیادپر ان کی میزبان تھی،عشق نبی ﷺسے بھرپورسینے پر بھاری بھرکم پتھرکاوزن اس آزمائش کی بھٹی میں حضرت بلالؓکو کندن بناتاتھااور زنجیروں میں جکڑی ہوئی رات ’احد،احد“کے سبق کو پختہ ترکرتی چلی جاتی تھی۔کوڑے مارنے والے تھک جاتے اور باریاں بدل لیتے تھے،کبھی امیہ بن خلف اور ابو جہل اور پھرکوئی اور لیکن حضرت بلالؓکی پشت سے دروں کی آشنائی دم توڑنے والی نہ تھی،خون اور پسینہ باہم اختلاط سے جذب ریگزارہوتے گئے یہاں تک کہ رحمۃ اللعالمین ﷺتک کسی مہربان نے داستان عزم و ہمت وصبرواسقامت روایت کر ڈالی۔ محسن انسانیت ﷺنے حضرت ابوبکرصدیقؓکوروانہ کیا،انہوں نے امیہ بن خلف کو شرم دلانے کی ناکام کوشش کی اورپھرایک مشرک حبشی لیکن صحت مند غلام کے عوض حضرت بلال کو خریدکرآزادکردیا۔

                مدنی زندگی کے آغازمیں ہی جب ایک موذن کی ضرورت پیش آئی تو محسن انسانیت ﷺکی نگاہ انتخاب سیاہ رنگت کی حامل اس ہستی پر پڑی جس کے چہرے سے پھوٹنے والی حب نبویﷺ کی کرنوں سے آفتاب بھی ماندپڑجاتاتھا۔حضرت بلال فجرکی آذان سے پہلے ہی مسجد نبوی کے پڑوسی مکان،جوبنی نجارکی ایک خاتون کی ملکیت تھا،اس کی چھت پر بیٹھ جاتے اور وقت کے آغازپر آذان دیتے،جس کے بعد سب مسلمان مسجد میں جمع ہوجاتے تھے۔حضرت بلالؓ کاسارادن محسن انسانیت ﷺکے ساتھ ہی گزرتاتھا،خاص طور پر جب مسجدقباجاناہوتاتووہاں بھی حضرت بلالؓہی آذان دیتے جس سے قباکے مکینوں کو محسن انسانیت ﷺکی آمدکی اطلاع ہو جاتی تھی۔قربت نبویﷺکے فیض نے حضرت بلالؓکو خازن نبویﷺ بھی بنادیاتھاچنانچہ جب کبھی کوئی سائل دست سوال درازکرتاتواسکو موذن اسلام کی طرف بھیج دیاجاتااور حضرت بلال محسن انسانیت ﷺکے ایماپرحسب ضرورت و حسب توفیق سائل کی معاونت فرمادیتے تھے۔کچھ لوگوں نے حضرت بلالؓکے تلفظ پر اعتراض کیاکہ وہ ”شین“کو”سین“کہ کراداکرتے ہیں لیکن ان کااعتراض بارگاہ رسالت ماب سے مسترد کردیاگیا۔ایک بار محسن انسانیت ﷺنے پوچھا”بلال ایساکیاعمل کرتے ہوکہ میں نے جنت میں تمہارے قدموں کی چاپ سنی ہے؟؟“حضرت بلالؓ نے جواب دیاکہ جب بھی وضوکرتاہوں دو رکعت تحیۃ الوضو کے ضرورپڑھ لیتاہوں۔ہجرت کے بعد حضرت بلال نے رفاقت نبویﷺ کا حق اداکیااورہر غزوہ میں شامل رہے خاص طورپرغزوہ بدر میں اپنے سابق آقاامیہ بن خلف کوقتل کیا۔درباررسالتماب ﷺمیں اس سے بڑھ کر اور کیاپزیرائی ہو سکتی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر کباراصحاب رسول ﷺاورسرداران قریش کے درمیان سے آپ کو ہی حکم آذان ملااور آپ،حضرت بلال،نے خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کرآذان دی جواس شہراور اس گھرمیں طلوع اسلام کے بعد پہلی آذان ہی نہ تھی بلکہ اعلان فتح تھا۔ایک پسے ہوئے طبقے کے فرد کی محض تقوی کی بنیادپراس قدرعزت افزائی صرف دین اسلام کا ہی خاصہ ہے۔

                وصال نبویﷺکاسانحہ کل اصحاب رسولﷺکے لیے بالعموم جبکہ حضرت بلالؓ کے لیے بالخصوص جاں بلب تھا۔مدینہ شہرکاگوشہ گوشہ آپ کو  محسن انسانیت ﷺکی یادلاتاتھاچنانچہ آپ لشکراسامہ بن زید کے ساتھ ملک شام کی طرف سدھارگئے اور آذان دینا بندکردی۔ایک بارجب حضرت عمر ؓنے بیت القدس فتح کیاتوساتھیوں کے بے حد اسرارپرامیرالمومنین نے حضرت بلال سے آذان کی درخواست کی جس کوآپ نے قبول فرمایا۔ایک بارآپ دمشق میں محواسراحت تھے کہ خواب میں زیارت اقدسﷺہوئی،استفسارکیاکہ بلال ہمیں ملنے کیوں نہیں آتے!!!۔بیدارہوتے ہی آقائے دوجہاں کے شہرکاقصد کیااورروضہ رسول کی زیارت کی۔مدینہ طیبہ میں حسنین کریمین شفیقین سے ملاقات ہوئی تو انہیں بے حد پیارکیااور ان کی بلائیں لیں۔شہزادوں نے آذان کی فرمائش کی تو یہ کیسے ممکن تھا کہ آقاکے نورنظر لخت جگرکی فرمائش کو حضرت بلالؓ جیسے محبان رسول پوری نہ کرتے۔جب آذان کی دوسری شہادت پر پہنچے اور حسب عادت ممبر کی طرف نظراٹھائی تو محسن انسانیت ﷺعنقا تھے،روتے روتے بے ہوش ہو گئے۔دوسری جانب جس جس کے کانوں میں صدائے بلالی پہنچی دورنبوت کے مناظر تازہ ہوتے گئے اور مردوزن اپنے گھروں سے نکل نکل کرآنسؤں کی لڑیوں کے ساتھ مسجد کی طرف ایسے کھچے چلے آئے جیسے مقناطیس کی طرف لوہے کے ذرات چلے آتے ہیں۔یہ حضرت بلالؓکی زندگی کی آخری آذان تھی۔

                20محرم،ہجرت کے بیسویں سال ماہتاب عشق نبویﷺزوال پزیرہوگیا،اناللہ وانا الیہ راجعون۔دمشق کے محلہ باب الصغیرمیں آپ نے وفات پائی،اس وقت عمر عزیز،بمطابق سنت،خاص تریسٹھ برس تھی۔دومزارات آپ سے منسوب ہیں،ایک تو دمشق میں ہے اور ایک اردن کے ”بدر“نامی گاؤں میں ہے۔اعلان نبوت کے وقت حضرت بلال تیس برس کے تھے،بقیہ تیتیس برس کچھ نہ کیا سوائے صحبت نبویﷺ کے۔ محسن انسانیت ﷺکے ساتھ چلتے رہتے تھے اور جب آپ ﷺ اپنے گھر تشریف لے جاتے تو حضرت بلالؓباہر بیٹھ جاتے۔انتظار کے لمحات طویل ہوتے یامختصر،آپ ﷺ جب گھرسے باہرنکلتے توحضرت بلال آپ کی معیت میں پھرپیچھے پیچھے چل پڑتے۔یہ ساتھ روزحشر بھی قائم رہے گااور جنت الفردوس کے دورازے پر جب اگلی پچھی امتوں کے افراد منتظر ہوں گے کہ کب خاتم النبیین تشریف لائیں اور سب سے پہلے انہیں کے لیے جنت کے اس خوبصورت ترین حصے کادورازہ کھولاجائے،تومیدان حشرسے سب سے آخر میں روانہ ہونے والے محسن انسانیتﷺجب جنت الفردوس کے دروازے پر پہنچیں گے تو اپنی اونٹنی قصوی پر تشریف رکھے ہوئے ہوں گے اور اونٹنی کی نکیل حضرت بلالؓنے تھامی ہوگی،جنتی کی حیثیت سے توآپ ﷺ ہی جنت الفردوس میں سب سے پہلے داخل ہوں گے لیکن عملاََحضرت بلال قصوی کی نکیل تھامے وہ اولین فرد ہوں گے جنہیں جنت کے اس اعلی ترین درجے میں سب سے پہلے داخلے کا شرف حاصل ہوگا۔جبکہ جنت کی حوروں میں سے بھی سب زیادہ حسین و جمیل حور آپ کی قسمت میں لکھی گئی ہے۔

                حضرت بلال ؓقرآن مجید کی اس آیت کی عملی تصویر ہیں ”اللہ تعالی کے نزدیک زیادہ عزت والاوہ ہے جو زیادہ تقوی والاہے“۔کہنے کو سب مذاہب انسانیت کے مذاہب ہیں لیکن ہندؤں نے انسانیت کو چار ذاتوں میں تقسیم کررکھاہے اور عورت کو گائے جیسے جانور کے برابربھی عزت حاصل نہیں ہے،یہودی کسی دوسرے کو اپنے مذہب میں داخل نہیں ہونے دیتے الایہ کہ وہ یہودی النسل ہو،مذہب عیسائیت دنیاکاسب سے بڑامذہب ہے اور اس مذہب کے ماننے والوں کی اکثریت افریقہ اور ایشیاسے تعلق رکھتی ہے لیکن گزشتہ دوہزارسالوں میں عیسائیوں کے سب فرقوں کے ”پوپ“صرف یورپ سے ہی وارد ہوئے ہیں،ان کے نزدیک صرف گورے ہی اس منصب کے اہل ہیں جب کہ انسانیت کا دین صرف اسلام ہی ہے جس کا پہلا موذن افریقہ جیسے پسماندہ خطہ ارضی کے بھی انتہائی غربت وافلاس اورقحط زدہ علاقے ”ایتھوپیا“سے تعلق رکھتے تھے اورمروجہ معیارات شرف وبرتری کو بالائے طاق رکھتے ہوئے محسن انسانیت ﷺ نے ان کی عزت افزائی کی انتہامیں انسانوں کو درس انسانیت یاددلایاہے کہ کل انسان ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں۔طلوع اسلام کا صرف ایک کردار”حضرت بلالؓ“نے دنیاکے پسے ہوئے اور محرومی کا شکار طبقوں کو کس طرح اعتماد نفسی عطا کیاہے؟؟اس کا جواب الفاظ میں دینا ممکن نہیں اور کن کن مسترد شدہ اقوام نے اس کردار سے جتنی جتنی تقویت حاصل کی ہے اسے دنیاکے کسی پیمانے میں تولنااورناپنا ممکن ہی نہیں۔صرف اسی ایک مقدس ہستی نے دنیا کے ذہنوں میں غلامی وسیاہی کے تصورات کو ہی یکسرتبدیل کر دیاہے اور نفرتوں و حقارتوں کو عزتوں اورمحبتوں میں گوندھ گوندھ کرانسانیت کو اس مقام تک پہنچایاہے کہ آج دنیائے انسانیت سے غلامی کاوجود ہی ختم ہو چکاہے۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
51938

بھارت پر افغان صورتحال کے اثرات – محمد شریف شکیب


افغانستان کی مودی نواز حکومت کا طالبان کے ہاتھوں دھڑن تختہ ہونے کے بعد بھارتی حکام کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ بھارتی فوج کے سابق جنرل ایچ ایس پناگ نے مودی حکومت کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی حکومت امریکہ کے حقیقی ارادوں کو بھانپ سکی نہ ہی طالبان کی طاقت کا اندازہ لگاسکی اورکابل میں اشرف غنی کی قیادت میں بدعنوان اور غیر مقبول حکومت کی کمزوریوں کو سمجھنے میں بھی بھارت ناکام رہا جس کی وجہ سے آج خود ہی مشکل میں پھنس گیا ہے۔

جنرل پناگ کا کہنا تھا کہ ہمارے سفارت کار یہ سمجھ نہیں پائے کہ بھارت کو طالبان کے ساتھ مذاکرات اور معاملہ کرنے میں طالبان کے نظریات کے بجائے اپنے قومی مفاد کومدنظر رکھنا چاہیے تھا جب ہمیں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، پاکستان، ترکی، انڈونیشیا، بنگلہ دیش اورایران جیسے مسلم ملکوں سے تعلق رکھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے تو ہم طالبان کے ساتھ بات چیت کیوں نہیں کرسکتے۔ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد بھارت جس الجھن اور پریشانی کا شکار ہوگیا ہے اس کی اہم وجہ سٹرٹیجک متبادل کا فقدان نہیں بلکہ اس کی خوش فہمی اور بروقت صحیح فیصلہ نہ لینا ہے۔

یہ بھارت کی تاریخی انٹیلی جنس ناکامی ہے۔جنرل پناگ کے مطابق طالبان کے خلاف کھڑے ہونے کے لیے ہم شمالی اتحاد کے جن رہنماوں پر بھروسہ کررہے تھے وہ بھی آزمائش کا وقت آنے پر اپنی جانیں بچاتے ہوئے پاکستان چلے گئے اور جب طالبان کی پیش قدمی شروع ہوئی تو وہ ہمارے مفادات کو بچانے کے لیے سامنے آنے کی جرات ہی نہ کرسکے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھارت کی موجودہ پریشانی کااہم سبب ہندوقوم پرست حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی آئیڈیالوجی ہے، یہ افسوس کی بات ہے کہ بی جے پی افغانستان کی صورت حال کا اپنے سیاسی فائدے کے لیے استحصال کرنے سے بھی باز نہیں آئی۔

افغانستان میں سیاسی تبدیلی نے جہاں امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں کو اپنے زخم چاٹنے پر مجبور کردیا وہیں بھارت کو بھی منہ کی کھانی پڑی ہے۔ افغانستان کی تعمیر نو کے نام پر مودی حکومت نے کابل میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی۔ وہاں سڑکیں اور ڈیم بنوائے۔ افغانستان کے مختلف صوبوں میں اپنے قونصل خانے قائم کئے یہ قونصل خانے پاکستان کے دشمنوں کو تربیت، تخریبی مواد اور لاجسٹک سہولیات فراہم کرنے کے لئے قائم کئے گئے تھے۔ افغان فورسز کو تربیت بھی بھارتی فوج فراہم کرتی رہی۔جب اس تربیت کو عملی جامہ پہنانے کا وقت آیا تو افغان فورسزنے راہ فرار اختیار کرلی۔

جو مودی سرکار کی خارجہ پالیسیوں اور بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کی تاریخی انٹیلی جنس ناکامی ہے۔ بھارتی قیادت نے کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق طالبان پر نکتہ چینی شروع کردی ہے انہیں شدت پسند، بنیاد پرست اور دہشت گرد کے القابات سے نوازا جارہا ہے اور یہ پیش گوئیاں کی جارہی ہیں کہ حکومت چلانا مدارس کے نیم خواندہ طالبان کے بس کی بات نہیں، چند مہینوں کے اندر ان کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی۔

طالبان نے بھی مودی حکومت کو ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کو اپنے کام سے کام رکھنا چاہئے طالبان اپنی اہلیت ثابت کریں گے۔بھارتی حکمرانوں کا مقبوضہ کشمیر، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور افغانستان کے ساتھ معاملات کو اپنے سیاسی مفادات کے لئے استعمال کرنا معمول رہا ہے۔ وہ پاکستان دشمنی کی بنیاد پر اپنے ملک میں انتخابی مہم چلاتے رہے ہیں۔

جنرل پناگ نے بھارتی حکمرانوں کا آئینہ دکھایا ہے یہ بات خوش آئند ہے کہ افغانستان میں شرمناک شکست کے بعد بھارتی عوام حقائق کا ادراک کرنے لگے ہیں اور انہوں نے اپنے پالیسی سازوں پر کھلے عام نکتہ چینی شروع کردی ہے۔ جو آگے چل کر بھارت کی داخلی اور خارجہ پالیسی میں غیر معمولی تبدیلی پر منتج ہوسکتی ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51936

بزمِ درویش ۔ آزادی یا فحاشی ۔ تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

جب سے اسلام آباد میں عثمان مرزا نے جوان جوڑے پر بند کمرے میں کپڑے اتا ر کر ذلیل اور تشدد کیا ہے پھر اُس کے بعد خونی درندے ظاہر جعفر نے اپنی ہی دوست نور مقدم کو بلا کر بند کمرے میں اُس کے جسم سے چھیڑ چھاڑ کی پھر اُس کا سر تن سے جدا کر کے اُس کے سر سے فٹ بال کھیلا یہ مناظر دیکھ کر اہل وطن دم بخود ہیں کہ یہ جوان نسل کیا کر رہی ہے کس راستے پر چل پڑی ہے انسان کا اس قدر گھناؤ نا روپ پہلی بار نظرو ں کے سامنے سے گزرا۔

اِن دونوں واقعات نے مہذب معاشرے کے چہرے کو بری طرح بگاڑ کر رکھ دیا ہے کیا ہمارا معاشرہ اِس قدر خطرناک تعفن زدہ بانجھ اور بنجر بلکہ درندگی شدہ ہو چکا ہے جو اِن دونوں جوانوں نے صنف نازک کے ساتھ کیا اِن دونوں واقعات کا اگر تجربہ کریں تو حیران کن حقیقت یہ سامنے آتی ہے کہ دونوں واقعات میں ملزموں نے جو درندگی کی اُس پر وہ شرمندہ یا خوفزدہ نہیں بلکہ عثمان مرزا تو احساس تفاخر ہے اِس طرح ظلم کر رہا تھا جیسے وہ کسی کھیل کے میدان میں کامیابی سے کھیل رہا ہے یا پھر کسی فلم میں ولن کا رول ادا کر رہا ہے ظلم اور درندگی کرتے وقت اُس کے چہرے یا گفتگو حرکات سے بلکل بھی پتہ نہیں چلتا کہ وہ کوئی بہت غلیظ حرکت کر رہا ہے بلکہ وہ خوشی خوشی نارمل سی بات سمجھ رہا ہوتا ہے پھر بعد میں کپڑے اتار کر فلم بنا تا پھر جوڑے کو بلیک میل کر کے اُن سے لاکھوں روپے بٹور تا رہا۔

پتہ نہیں وہ اِس دھندے میں کب سے کتنے لوگوں کو ظلم کی چکی میں پیس چکا تھا اُس کے ساتھ کتنے لوگ تھے معاشرے کے کون سے بااثر لوگ اُس کی پشت پناہی کر رہے تھے اِن سوالوں کے جوابوں نے اہل علم و دانش کو چیر کر رکھ دیا ہے دوسرے واقعے میں ظاہر جعفر نے جس طرح جوان لڑکی کو بلا کر خنجر کے وار کر کے لہو لہان کیا پھر اُس کا سر کاٹ کر اُس سے فٹ بال کھیلا یہ کیا ہے ایسا منظر ایسا واقعہ کیوں اور کیسے ہو گیا حیران کن سچائی یہ سامنے آتی ہے کہ پہلے جب بھی ایسا کوئی واقعہ پیش آتا تو فورا مدرسوں پر اسلامی تنظیموں پر یا اسلام کی تعلیمات پر الزام لگا دیا جاتا ہے کہ مدرسوں میں اساتذہ جہالت سے لبریز ہو تے ہیں وہ مہذب معاشروں کی ضروریات اخلاقیات سے واقف نہیں اسلامی مدرسے ایسے جوانوں کی نرسری ہیں جہاں پر ایسے سفاک درندے پرورش پاتے ہیں یہی واقعہ اگر کسی مدرسے کے طالب علم سے ہو جاتا تو اب تک ہمارے ملک کی نام نہاد ترقی پسند تنظیموں نے بھونچال لے آنا تھا مغرب کی آزادی اور عورت مارچ کے حمایتیوں نے طوفان بر پا کر دینا تھا کہ مذہبی پابندیاں ہم برداشت نہیں کریں گے

ایسے جوان اِن مذہبی درس گاہوں میں ہی پرورش پاتے ہیں لیکن یہاں معاملہ الٹ نکلا کیونکہ عثمان مرزا اور ظاہر جعفر کسی مدرسے کے تعلیم یافتہ نہیں بلکہ ظاہر جعفر تو امریکی نیشنل اور امریکہ کی جدید تعلیمی درس گاہوں سے تعلیم یافتہ ہے اُس کے والدین مذہبی اقدار پر کا ر بند نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کی ایلیٹ کلاس امیرزادوں میں شامل ہیں ظاہر جعفر امریکہ کے بعد برطانیہ میں بھی زندگی گزار چکا ہے۔ اور پھر حیران کن حقیقت یہ سامنے آتی ہے یہ خود ایک نفسیاتی معالج بن کر مختلف جگہوں پر ذہنی بیماریوں پر لیکچر بھی دیتا تھا یعنی یہ ہمارے ترقی یافتہ مہذب معاشرے کا ایک تعلیم یافتہ سمجھ دار جوان تھا جس کے والدین اعلی خاندانی روایات کے حامل تھے اپنے بیٹے کو امریکہ اور برطانیہ کے ترقی یافتہ مشہور اداروں سے تعلیم حاصل کرائی نور مقدم عورت مارچ کے حمایتی میں اگلے مورچے پر نظر آتی ہے عورت مارچ اور آزادی کے حمایتی اب خاموش کیوں ہیں اب وہ اِس مکروہ آزادی کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھاتے کہ یہاں تو کوئی اسلامی مدرسہ ملوث نہیں ہے نہ ہی یہ پاکستان کے جہالت کے ماحول میں پروان چڑھا ہے.

عثمان مرزا اور ظاہر جعفر کے دونوں واقعات مہذب نام نہاد ترقی یافتہ کلچر کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں جس کے گن گاتے اور جگالی کرتے ہمارے دانشور نظر آتے ہیں جن کو مغرب پرستی کا دورہ ہر وقت پڑا رہتا ہے جو مغرب کی تعریفوں پر دن رات اپنی انرجی ضائع کرتے نظر آتے ہیں اب ان مغرب زدہ دانشوروں کو سانپ سونگھ گیا ہے آزادی اور فحاشی کی دلدادہ عورتیں جو آزادی مارچ کے نعرے مارتی سڑکوں پر نکل آئی تھیں وہ بھی خاموشی کی چادر اوڑھے سو رہی ہیں دن رات اسلام اور اسلامی مدرسوں اسلامی تعلیم پر حقارت تنقید کی گولہ باری کی بجائے اگر ایسے جنسی جانور نما درندوں کا نفسیاتی تجزیہ کیا جائے تو ہم اپنے خاندانوں اور معاشرے کو اِن درندوں سے بچاسکتے ہیں مسئلہ یہ ہے کہ آزادی پسند امیر والدین نے مغرب کی تقلید میں اپنی اولاد کو بے لگام کھلا چھوڑ رکھا ہے ترقی یا فتہ مہذب اور ایلیٹ کلاس کے دعوے دار ایسے والدین دولت تعلقات کے زور پر اپنی اولاد کو مغرب کے ترقی یافتہ ممالک میں بھیج کر معاشرے میں اپنی ناک بلند کرتے ہیں کہ ہمارا سپوت فلاں ترقی یافتہ ملک کی فلاں یونیورسٹی میں پڑھ رہا ہے

پھر دولت کی بارش کر کے اُس کو جوانی کے گرم خون میں عیاشی آزادی کا پورا موقع فراہم کرتے ہیں مغرب کا معاشرہ جوصدیوں پہلے مذہب کی چادر اتار کر پھینک کر لادین گروپ میں شامل ہو چکا ہے وہ جوانوں کو آزاد جنسی جانور بنا دیتے ہیں دوسرا یور پ نے بلیو جنسی فلموں کی بھر مار کر کے جوانوں کو مذہب سے دور کر دیا ہے اوپر سے پھر کوئی روک ٹوک نہیں اسلام اور اسلامی حدود و قیود پابندیوں سے آزاد ہو کر یہ جوان نسل راتوں کو بلیو فلمیں دیکھتے ہیں جس میں رشتوں کو کھلے عام پامال کیا جاتا ہے وہاں پر ماں باپ بہن بھائی کسی رشتے کا خیال یا احترام نہیں ہے ان کو دیکھ کر مذہب سے دور جوان بھی رشتوں کے تقدس اور نزاکت سے آزاد ہو کر جنسی درندہ بن جاتا ہے پھر اسلام نے شدت سے نشہ آور اشیاء کو حرام قرار دیا ہے

مذہب سے دورجدت پسند کہلوانے کے شوق میں جدید آزاد طبقہ والدین اور جوان نسل کھلے عام پارٹیوں میں نشہ آور چیزوں کا بھرپور استعمال کر تے ہیں فحش جنسی فلموں اور نشے کی آغوش میں پل کر یہ نسل تیار ہوتی ہے نشہ اور فحاشی کی کوکھ سے جنم لینے والی یہ جوان نسل جنسی درندے کا روپ دھار لیتی ہے جو مقدس رشتوں کے تقدس سے عاری ہوتی ہے اور لذت کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار رہتی ہے جبکہ اسلام کی آغوش میں پروان چڑھتی نسل کو رشتوں کا تقدس اور بھرم اخوت بھائی چارے کا بخوبی احساس ہو تا ہے وہ کسی کے ایک خون کے قطرے کو انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے ہر عورت کو ماں بہن بیٹی کا مقدس مقام دیتا ہے اگر ہم اپنے خاندانوں کو معاشرے کو اور ملک کو پر امن دیکھنا چاہتے ہیں تو مغرب کی آزادی فحاشی کو ترک کر کے اسلام کی مقدس آغوش میں آنا ہو گا صوفیا کرام کی اخوت بھائی چارے کی فضا کو قبول کر نا ہو گا جہاں پر دشمن کو بھی دودھ کا پیالہ پیش کیا جاتا ہے پوری انسانیت کی بقا اسلام اور صوفیا کرام کے امن کے پیغام میں ہے نہیں تو آزادی اور فحاشی کے اِس سیلاب سے اِسی طرح معاشرے تباہ برباد ہوتے رہیں گے فحاشی کی کوکھ سے عثمان مرزا اور ظاہر جعفر جیسے جنسی خونی درندے جنم لے کر خود کو والدین خاندان اور معاشرے کو برباد کر تے رہیں گے ہماری بقا صرف اور صرف اسلام اور صوفی ازم کے بھائی چارے اور اخوت میں ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
51930

سماجی تجربہ ۔ تحریر: صوفی محمد اسلم

    Social experience

میریم ڈیکشنری:- علم کی بنیاد پر واقعات کا براہ راست مشاہدہ کو تجربہ کہتے ہیں ۔

ایکسفورڈ ڈیکشنری: -حقائق یا واقعات کے ساتھ عملی رابطہ اور مشاہدہ کو تجربہ کہتے ہیں ۔

کیمبرچ ڈیکشنری:-وہ علم یا مہارت جو کرنے ، دیکھنے یا محسوس کرنے سے حاصل ہو کو تجربہ کہتے ہیں۔

تجربہ وہ عمل ہے جس کے ذریعے سے انسان اپنے ارد گرد کی دنیا کو سمجھتے ہیں، زندگی میں پیش آ نے والے واقعات کو خود کرچکے ہیں یا اس کے سامنے ہوچکے ہیں ایسے واقعات کو مشاہدہ کرکے علم اور احساسات سے جو نتیجہ اخذ کی جاتی ہے اسے تجربہ کہتے ہیں۔ لفظ تجربہ کا مطلب ہے ادراک ،احساس یا مشاہدہ ۔ تجربے سے حاصل کردہ علم کو تجرباتی علم کہا جاتا ہے۔ تجربے کے مختلف اقسام ہوتے ہیں جیسے تصوراتی تجربہ، فیزیکل تجربہ، ذہنی تجربے مگر ہم اج سوشل تجربے پر بحث کرتے ہیں۔ 

اگر آپ نے مجھے  دیکھا کہ  میں کسی پارک میں بیٹھا ہو اور چپس کھا کر شاپر وغیرہ  سامنے کوڑا دان میں ڈالنے کے بجائے وہی چھوڑ کر جاتا ہوں یا میں نسوار یا پان کھاکرآپ کے ساتھ والی زمین یا دیوار پر تھوکتا ہوں  تو تمہیں کیسا محسوس ہو گا؟ اگر اپکو  برا لگا تو سمجھے کہ اپ کسی ایسے معاشرے  سے تعلق رکھتے ہیں جہان ایسے حرکات کو معیوب سمجھے جاتے ہیں۔  اگر جواب غیر حیران کن ہے  تو اپ ایسے  معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں یہ ایک عام عادت اور ثقافتی طور پر غیر حیران کن تصور کی جاتی  ہے۔ اپنے  ثقافت اور معاشرے کو اس طرح  تشکیل دے سکتے ہیں جس طرح ہم واقعات کا تجربہ کرتے ہیں۔ اپنے  اور اپنے ماحول  کے بارے میں کبھی بھی صحیح معنوں میں نہیں جانتے کہ جب تک ہم اس کا تجربہ نہیں کرتے  ہیں۔ زندگی کا تجربہ کرکے ہم دریافت کرتے ہیں کہ ہم کون ہیں اس تجربہ کو ہم سماجی تجربہ کہتے ہیں۔معاشرے کی مغیار معاشرے کے لوگوں کی سوچوں پر منحصر ہے کہ لوگوں کی سوچتے   ہیں کسی معاملے میں انکے تاثرات کیا ہیں ۔لوگوں کی سوچوں کی مغیار کا اندازہ مروجہ قوانین و اصولوں اور نظریاتی و ثقافتی اقدار دیکھ کر لگایا جاسکتا  ہے ۔

 پاکستانی معاشرہ ایک اسلامی نظریاتی معاشرہ ہے جہاں اسلام کو ماننے اور اسلامی معاشرتی نظام  کی نفاذ کی ٪80 لوگ حمایتی  ہیں ۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرتی اصولوں اور اسلامی تعلیمات میں کافی تضاد ہے۔ ہمیں معاشرتی نظام کی درستگی کیلئے سب سے پہلےاسلامی معاشرتی پیمانے کو سامنے رکھتے ہوئے  یہ معلوم کرنا ہے کہ ہمارے معاشرے میں برائیاں کیا ہیں تاکہ معاشرے کو ان برائیوں سے پاک کیا  جا سکے ۔ پھر لوگوں میں برائیوں کو چھوڑنے اور اچھائیوں کو اپنانے کی خواہش اجاگر کرنا ہوگا جس کیلئے مصمم ارادہ ، جدوجہد اور سوچوں میں ہم اہنگی  درکار ہوتی ہے ۔

اج ہم اسلامی معاشرتی نظام کو مدنظر رکھتے ہوئے چند معاشرتی برائیوں پر محث کرتے ہیں۔ چھوٹ ، دھوکہ بازی، بدعنوانی، منشیات اور آلودگی  وغیرہ ایسے برائیاں ہیں جس کی روتھام انتہائی ضروری ہے۔ ایسے برائیوں کی وجہ سے ہمارے ذہن معاشرتی پسماندگی کی طرف بڑھتی جارہی  ہے ۔

جھوٹ  ایک معاشرتی برائی ہے، اسلامی تعلیمات کے مطابق جھوٹ بولانا  منافقت ہے۔ یہ سارے برائیوں کو سہارا دیتی ہے۔  اس کے  سہارے معاشرے میں بہت سارے برائیاں جنم لیتے ہیں۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ کیا  ہم  جھوٹ بولنے کی عادی ہیں؟ کیا ہمیں یہ احساس بھی ہے کہ جھوٹ کتنا بڑا برائی ہے اور معاشرے پر  اسکا اثر کیا  ہے ؟۔ جب معلوم ہو کہ ہم سے یہ گناہ سرزد ہورہی ہے تو اسے چھوڑنے کی کوشش کرنا آسان ہوجاتی ہے ۔ اقدامات سے معاشرتی درستگی ہوتی  ہے ایسے برائیوں کو نظرانداز کرنے سے  معاشرتی نظام میں بگاڑ پیدا ہوتی ہے۔ایک ڈاکٹر کہتا ہے کہ میں کسی یورپین ملک میں ایک خاندان کے ساتھ رہتا تھا ۔ ایک دن مالک مکان مجھے اپنےگھر سے یہ کہہ کر نکال دیا کہ آپ میرے بچے کو جھوٹ بولنا سیکھایا، آج پہلی مرتبہ آپ کی وجہ سے وہ جھوٹ بولا۔ معذرت کے ساتھ مجھے گھر سے بے دخل کر دیا ۔ اسے کہتے اصولوں کی پابندی ایک معزز مہمان کو ایک جھوٹ پر بے دخل کردی جائے۔

دھوکہ دہی بھی معاشرتی  برائیوں میں سے ایک برائی ہے  جو  سرکش قوم جنم دیتی ہے ۔ جس معاشرے میں دھوکہ دہی سے پرہیز نہ ہو وہاں کسی پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ۔ ایسے قوم کو کوئی تہذیب یافتہ نہیں کہتا جہاں دھوکہ دہی عام ہو ۔ اسلام میں دھوکہ دہی کی کوئی جگہ نہیں۔ ہمارے بزرگ ایک جانور کے ساتھ دھوکہ کو برداشت نہیں کیا اور اس شخص سے حدیث تک کو بھی قبول نہیں کیا۔ سوچنا یہ ہے کہ کیا ہمارے مزاج میں دھوکہ دہی کے عنصر موجود ہے ؟ ۔ اگر ہے تو دل و دماغ سے ایسے ناسور کو ختم کرنا ہوگا ۔ اپنے آس پاس کے لوگوں کو بھی اس سے باز رہنے کی کوشش کرنا ہوگا ۔

بدعنوانی یہ معاشی اور معاشرتی برائ ہے۔ یہ برائی جب کسی معاشرے میں پروان چڑھتی تو وہ معاشرہ کھنگال ہوجاتی ہے ۔ لوگوں میں نفسانفسی کی کیفیت ہوتی ہے۔ غربت، بیروزگاری بڑجاتی اور لوگوں میں تفریق آجاتی ہے۔ لوٹ مار جیسے معاشرتی جرائم  جنم لیتے ہیں۔ حرام خوری کی لت جب کسی قوم کو لگ جاتی ہے تو ان کے اندر سے غیرت مندی سمٹ لی جاتی  ہے۔ محنت اور مشقت وجود سے بے دخل ہو جاتی ہیں ۔ بدعنوانی ایک نظریہ  ایک سوچ ہے جو ہے جو ایک روپے سے بڑے  رقم تک سب شامل ہیں ۔ اگر ہمیں یہ معلوم ہو کہ ہمارے سوچ میں ایسے محرکا شامل ہیں  ہمیں فوراً  اس کی روک تھام  کیلئے عملی اقدامات اٹھانا   اور  اپنے معاشرے کو کنگال ہونے سے بچانا ہوگا ۔

منشیات  یہ جسمانی،ذہنی، روحانی، معاشی اور معاشرتی برائی ہے جو معاشرےکیلئے  آلہ قتل کی طور پر کام کرتی ہے، جو انسان کے سارے صلاحیتوں کو دیمک کی طرح چاٹ  کر وجود کو کھولا کردیتا ہے ۔ یہ برائی مستی سے شروع ہوکر بے بسی پر ختم ہوجاتی ہے۔ منشیات ایسی دشمن ہے جو معاشرے کےسب سے کارآمد حصے پر وار کرتی ہے ۔یہ ہمیشہ خوبصورت پھولوں کو نشانہ بناتی ہے ۔یہ پھول وہ جوان ہیں جو معاشرے کےسب سے مضبوط حصہ ہے جو قوم کے ترقی کی ضامن ہوتے ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے ہم اس برائی کی روک تھام کیلئے کیا کرسکتے ہیں ۔ اسکے لئے ایک دوسرے سے تعاون کرنا ہوگا ۔ پولیس اور عوام ملکر لڑنا ہوگا ۔ جب ہم مصمم ارادہ کرکے ملکر لڑیں گےتو اسے مٹناہی پڑے گا۔

آلودگی  ۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق جسمانی، ذہنی اور ماحولیاتی صفائی نصف ایمان ہے۔ بغیر صفائی اور پاکیزگی کے ایمان کامل نہیں ہوسکتا۔ اب ہمیں یہ معلوم کرنا ہے کہ ہم اس کو کتنی اہمیت دیتے ہیں۔ کیا ہم اپنے جسم ، ذہن اور ماحول کو پاک و صاف رکھنے کی خود کوشش کرتے ہیں، کوئ اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرے تو کیا ہمیں برا محسوس ہوتا ہے ؟ کہی  ہم کسی سرکاری یا نجی عمارت یا جائیداد  کے خوبصورتی کو نقصان تو نہیں پہنچا رہے ہیں اور جب کوئی اور اس کی خوبصورتی کو کوئ نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں کیا ہمیں عصہ آتا ہے  اور نقصان کی ممانعت کرنے کیلئے کیا کرتے ہیں؟  یہ قومی فریضہ ہے کہ ہم اس کی روتھام  کیلئے عملی اقدامات کرنا ہے ،ردعمل نہ آنے کی صورت میں ہم  بھی قصور وار ہیں۔

جب معاشرتی اصلاح کی بات اتی ہے تو ہم ایک دوسروں کو دوش دیتے ہیں ذمہ داری دوسروں پر ڈال کر خاموشی اختیار کرتے ہیں    جیسے حکومت کی زمہ دار قرار دیتے ہیں جو کسی صورت درست نہیں۔ ایسے بہانہ بنا کر ہم خود کو ہی دھوکہ دے سکتے ہیں۔ حکومت ہم سے بنتی اور ہم بناتے ہیں۔ ایسے بہانہ کرکے دوسروں کو دوش دیکر معاشرے   کی اصلاح ممکن نہیں۔ ہمیں ملکر ان برائیوں کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔ اگر ہم نہیں کرتے تو کوں آئے گا، ہمیں اپنے سوسائٹی کو  خود سنبھالنا ہوگا۔ معاشرتی دوڑ دھوپ میں سب ملکر حصہ لینا ہوگا ۔ تب جا کہ ہم اس مملکت خداداد کو عظیم ممالک اور خود کو تہذیب یافتہ قوموں  کی فہرست میں شامل کرسکتے ہیں ۔

وماعلیناالاالبلاغ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
51928

ارکاری کا سر سید احمد خان ۔ تلخ و شیریں؛نثار احمد

دو دن قبل فیس بُک پر ایک تصویر نظر آئی. تصویر میں میں وزیر زادہ جماعتی رفقاء کے جلو میں سیاہ ارکاری کو سفید ارکاری کے ساتھ ملانے والے ایک پل کا افتتاح کر رہے ہیں۔ تصویر نے سرشاری کی لہر میرے تن بدن میں دوڑا دی۔ وجہ ِمسرت یہ نہیں تھی کہ پل کا افتتاح ہو رہا تھا وہ تو یہاں ہوتا رہتا ہے۔ یہاں خوشی کی وجہ “ارکاری” میں کسی پل کا واقعی افتتاح بھی تھا اور وزیر اعلیٰ کے مشیر کی ارکاری میں موجودگی بھی ۔ مطلب خوشی ارکاری جیسے پسماندہ علاقے میں کچھ ہونے کی تھی۔


ارکاری لوئر چترال کا انتہائی دور افتادہ اور پس ماندہ علاقہ ہے۔ چترال ٹاون سے پچاس پچپن کلومیٹر دور ارکاری دو ہزار اکیس میں بھی بعض ان سہولیات سے بھی محروم ہے جن سے بہت سارے علاقے سن دو ہزار ایک سے ہی پہلے مستفید ہوتے آ رہے ہیں۔ یہاں ترقیاتی کاموں کے ناپید ہونے کا کیا رونا، ترقیاتی کام تو خدا کے فضل سے اچھے خاصے علاقوں میں بھی نہیں ہو رہے لیکن تین چار ہزار نفوس پر مشتمل ارکاری میں وہ کام بھی نظر نہیں آ رہے جنہیں کسی بھی انسانی معاشرے کے لیے بنیادی اور ضروری گردانا جاتا ہے۔
خدا جانے یہاں کی آبادی کا معاشی انحصار کس پر ہے۔ زراعت پر اس لیے نہیں ہو سکتا کہ آگست کے دوسرے عشرے میں بھی گندم کی کٹائی ارکاری کے بعض حصوں میں نہیں ہوئی ہے۔ ہم پانچ آگست تک یہاں تھے تب تک ارکاری کے زیادہ تر حصوں میں ابھی تھریشنگ کیا، کٹائی بھی نہیں ہوئی تھی۔ اسی طرح معاشی دارو مدار سرکاری ملازمت پر بھی ہونا اس لیے مشکل لگ رہا ہے کہ یہاں کے اکلوتے گورنمنٹ ہائی سکول میں مقامی سے زیادہ غیر مقامی اساتذہ تعینات ہیں۔ شاید آمدنی کا بڑا زریعہ وہ مزدور کار نوجوان ہیں جو یا تو کراچی، لاہور وغیرہ جا کر مزدوری کرتے ہیں یا پھر سعودیہ دبئی جا کر پاکستان کے ایک کونے میں موجود اپنے گھر کا چولہا جلاتے ہیں۔


بہرحال جو بھی ہے ارکاری میں بھی چترال کے دوسرے دیہات کی طرح زندگی جدوجہد سے بھرپور بھی ہے اور پُرمشقت بھی۔ پرانے دور و وضع کے بے ترتیب کچے مکانات دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یا تو باشندگانِ ارکاری جدید تمدنی زندگی کے قائل نہیں یا پھر علاقے میں پھیلی غربت انہیں اپنے آباؤ اجداد کے نشانات کا حلیہ بدلنے سے باز رکھ رہی ہے۔ علاقے کی اندرونی گلیوں کو چھوڑئیے خود مرکزی سڑک کی ہیئت و حالت ایسی نہیں کہ اس پر سڑک کی تعریف منطبق کی جا سکے۔


میرے مشاہدے کے مطابق یہاں کل دو نفیس، عالیشان، دیدہ زیب اور معیاری عمارتیں ہیں۔ ایک سیاہ ارکاری کا جماعت خانہ ہے اور دوسری گولڈن جوبلی سکول اینڈ کالج۔ اس کے علاوہ دو قابلِ ذکر سرکاری عمارتیں بھی ہیں ایک گورنمنٹ ہائی سکول ارکاری اور دوسری حال ہی میں تعمیر ہونے والا گندم گودام۔ ماشاءاللہ چشم بد دور یہاں سرکار کئی سالوں سے ترقیاتی کاموں کے حوالے سے “کفایت شعاری” اور “پیسے بچاؤ پالیسی” پر مضبوطی سے عمل پیرا ہے۔ البتہ اپنی مدد آپ کے تحت اور “ادارے” (یہاں کے لوگ ادارہ بولیں تو اس سے اے کے ڈی این کا کوئی ذیلی ادارہ مراد ہوتا ہے) کی طرف سے بہت سارے ایسے کام ہوئے جنہیں سرکار کو کرنا چاہیے تھا۔ مثلاً پانی نہایت ہی بنیادی ضرورت ہے۔ سیاہ ارکاری سے تعلق رکھنے والے نوجوان نثار کے مطابق ان کے گھروں میں استعمال ہونے والا پانی “ادارے” کا تحفہ ہے۔ مثلاً سیاہ ارکاری کے بالمقابل سفید ارکاری کی طرف ایک خاصا کشادہ کھیل گاہ موجود ہے۔ عصر کے وقت یہاں کرکٹ دیکھتے ہوئے جب میں نے نثار کے سامنے کھیل گاہ کی تعریف کی تو فٹ سے بول پڑے۔ ‘یہ ہم لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت “ادارے” کے تعاون سے بنایا ہے۔ دراصل پچھلی دفعہ امام کی تشریف آوری یہاں ہونی تھی۔ اور اسی میدان میں جلوہ افروز ہو کر انہوں نے دیدار کروانا تھا سو لوگوں نے اپنی زمینیں دل بخوشی رضاکارانہ طور پر دے دیں۔ پھر امام کی تشریف آوری ہوئی اور نہ ہی لوگوں نے اپنی زمینیں واپس لیں۔ یوں کھیلنے کے لیے ایک کھیل گاہ معرضِ وجود میں آ گیا۔’


لیکن مسئلہ یہ ہے ایک تو اس میں جابجا پتھرپیوست ہیں دوسرا یہ کہ نہ صرف اس کے نیچے پانی کی وافر مقدار ہے بلکہ وہ پھوٹ کر باہر ابل بھی رہا ہے اور چھوٹی ندی کی شکل میں بڑی ڈی کے اندر سے چکر لگاتا ہوا گول کے پاس سے ہوتا ہوا گراؤنڈ سے باہر جا رہا ہے۔
متعدد کمروں پر مشتمل گولڈن جوبلی سکول اینڈ کالج ڈاکٹر میر افضل تاجک کا اہل ارکاری کو ایسا تحفہ ہے کہ اس پر ارکاری والے ڈاکٹر تاجک کا جتنا شکر ادا کریں، کم ہے۔ کالج کا اندرونی نظام، درسگاہیں، لائبریری، دفتر، کچن اور کمپیوٹر روم دیکھ کر کہیں سے بھی نہیں لگتا کہ یہ ارکاری میں واقع ہے۔ کالج معیاری طرزِ تعمیر کا نمونہ بھی ہے اور نہایت جازب نظر بھی۔ ماشاءاللہ کالج کا ماحول تعلیم و تعلّم کے لیے ساز گار ہے۔ مشفق اور باصلاحیت اساتذہ کی بڑی تعداد سکول و کالج سے منسلک ہے۔ اگر کسی چیز کی کمی ہے وہ طلبا کی ہے بس۔ بالخصوص سکول پورشن میں طلبا کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔


کالج کے موجودہ پرنسپل کا نام عبد الکریم ہے۔ عمر میں جوان، مزاجاً کم گو عبد الکریم وفاقی اردو یونیورسٹی کراچی سے فارغ التحصیل ہیں۔ سکول کے علاوہ مقامی کونسل کے پلیٹ فارم سے سماجی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ نمل یونیورسٹی کا فاضل افتاب اور حال ہی میں ڈگری کالج چترال سے بی ایس کی تکمیل کرنے والے شفیع بھی یہاں ٹیچر ہیں۔ کراچی یونیورسٹی سے علم حاصل کرنے والے سر مقصود کے کیا کہنے جو ٹیچر کم، خادم ذیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ اسی طرح میموں کی بڑی تعداد روز یہاں پڑھانے اور بچوں بچیوں کا مستقبل سنوارنے آتی ہے۔ ہمارے نوجوانوں کے اس بات سے سبق لینے کی ضرورت ہے کہ پہلے تاجک صاحب نے محنت سے خود پڑھا۔ ارکاری کا دور افتادہ یا پسماندہ ہونا ان کی تعلیم کے لیے رکاوٹ نہیں بن پایا۔ انہوں نے اپنے جذبے اور محنت کو اعلیٰ تعلیم کے لئے وسیلہ بنایا۔ رسمی تعلیم کی تکمیل کے بعد اسکالر شپ میں پہلے آغا خان یونیورسٹی سے ایم ایڈ کیا پھر باہر سے پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اب بیرون ملک ہی کسی یونیورسٹی میں بطورِ پروفیسر اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔


مزید دل چسپ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر تاجک نے اسکالر شپ ارینج کرنے والوں کا احسان بھولا نہیں، ان کا احسان اس طرح چکایا کہ ایک ایسے علاقے میں عالیشان تعلیم گاہ بنا دی جس کے باسیوں کے لیے میٹرک کے بعد تعلیم جاری رکھنا بہت مشکل ہوتا تھا جس طرح سر سید احمد خان دوستوں سے چندہ کر کر کے قوم کے بچوں کے لیے سکول و کالج بنایا تھا اسی طرح ڈاکٹر تاجک نے بھی اپنے مخیّر واقف کاروں کو مائل و قائل کر کے ارکاری میں مثالی کالج قائم کیا۔ سر سید احمد نے بھی تعلیم کے زریعے برصغیر کے مسلم معاشرے کو اٹھانے کی کوشش کی تھی ڈاکٹر تاجک بھی اپنی کمیونٹی کو تعلیم کے زریعے مستقبل سے نبردآزما ہونا سکھا رہے ہیں۔ پاکستان اور صوبہ خیبر کا نہ سہی، ڈاکٹر تاجک اپنے علاقے ارکاری کا سر سید احمد خان تو ہے ناں۔ قوم کو ایسے ہی سر سید احمد خانوں کی ضرورت ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51917

نوائے سُرود ۔ لفظ کی آبرو ۔ شہزادی کوثر

نزول قرآن کی ابتدا جس حکم سے ہوئی ہے اس نے انسانی عقل وشعور کے دریچے کھول دیئے ہیں یہ صرف کسی حرف یا لفظ کو دہرانے کا نام نہیں ہے حرف وصوت کی ادائیگی ،سمجھ اور عمل کا ایسا نظام ہے جس پہ دنیا کی بقا اور سالمیت کا انحصار ہے ۔پڑھا اس وقت جاتا ہے جب کچھ لکھا ہوا ملے، جو کاغذ پر ہو یا کسی پتھر پر نقش تحریر ہو۔لیکن کچھ ایسی بھی تحریریں ہوتی ہیں جو صرف چہرے پہ نقش ہوتی ہیں بظاہر وہ حروف نہیں ہوتے لیکن تاثرات کے طور پر اپنی کہانی ضرور بیان کرتے ہیں۔ایسی تحریر کو پڑھنے اور سمجھنے کے لئے وصف خاص درکار ہے۔تحریر کسی بھی طرح کی ہو اس کا مقصد علم دینا ،معلومات فراہم کرنا ،بیتے سمے کی داستان بیان کرنا، مستقبل کے امکانات کی طرف رہنمائی کرنا یا لمحہ موجود میں رہ کر تمام تر لطافتوں اور مسرتوں سے محظوظ ہونے کا فن سکھانا ہوتا ہے۔

دنیا کا کوئی بھی کام تحریر سے بے نیاز نہیں ہوتا ،ہر چیز کے لیے تحریر دلیل اور سند کا درجہ رکھتی ہے،اور خاص کر لین دین کا معاملہ ہو تو اس کی ضرورت و اہمیت دوچند ہو جاتی ہے، کیونکہ قرآن کہتا ہے کہ  ”جب تم آپس میں کسی چیزکا معاملہ کروتواسے لکھ لیا کرو۔” مذہب ،عدالت ،تعلیم،کاروبار ،سیاست غرض معاشرے کے ہر شعبے میں لکھنے پڑھنے اور سمجھنے کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ،لیکن ہمارا تمام علم وہاں آ کر ڈھیر ہو جاتا ہے جہاں ہم لکھنے پڑھنے  اور سمجھنے کے قابل ہونے کے باوجود عقل وشعور سے بے بہرہ بن جاتے ہیں ۔وہ حروف جو ہمیں انسانیت اور علم و آگہی کی دولت سے مالا مال کرتے ہیں ہمورے سامنے اپنی وقعت کھو دیتے ہیں۔ جس علم کی بدولت ہم اوج ثریا کی ہمدوشی کے دعوی دار ہیں اسی علم کی بے حرمتی کے سبب تحت الثری میں منہ کے بل گر سکتے ہیں۔ ہر گلی کوچے اور سڑک کنارے جمع شدہ گندگی کے ڈھیر پہ اخبارات کے صفحے اور کتابوں کے ورق نظر آیئں گے

ان صفحوں پر وہی حروف ہیں جو قرآن مجید کے احکامات کو ہم تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں جن میں ایات قرآنی احادیث مبارکہ اللہتعالی اور انبیا کے پاک نام تک شامل ہیں ۔اخبار پڑھنے کے بعد اسے اگر کسی اور جگہ استعمال نہیں کیا جا سکتا تو آتش دان میں جلانا چاہیے کم از کم کچرے کے ڈھیر پہ پھینک کر اس علم کی بے توقیری تو نہیں کرنا چاہیے۔ ملک میں روزانہ کئی لاکھ اخبار چھپتے ہیں  جن میں ہر قسم کی خبریں ہوتی ہیں ،ایک حصہ خالص اسلامی صفحہ کا بھی ہوتا ہے لیکن آگہی کے فقدان کے سبب یہ سب کچھ کوڑے دان میں دیکھنے کو ملتا ہے۔بہت سے لوگ پرانی کتابیں اور کاپیاں چھاپڑی والے کے ہاتھ فروخت کرتے ہیں دونوں حضرات یہ دیکھنے کی زحمت نہیں  کرتے کہ یہ کس قسم کی کتاب ہے نتیجتا اسلامی کتاب کے صفحات پر پکوڑے سموسے اور چپس وغیرہ ڈال کر بیچا جاتا ہے ۔

خریدنے والا اپنی پسند کی چیز سے لطف اندوز تو ہوتا ہے لیکن اپنی ”صفائی دشمنی ” کی عادت کے پیش نظراس صفحے کو راستے میں ہی کہیں پھینک دیتا ہے اور یہ صفحہ راہگیروں کے قدموں تلے کئی بار کچلا جاتاہے۔اور انجانے میں ہمارے پیروں تلے اللہ اور اس کے حبیبﷺ کا نام روندا جاتا ہے اس میں ہم سب گناہ کے مرتکب بن جاتے ہیں کوئی جان بوجھ کر اور کوئی انجانے میں۔   ایک انسان اس کا ذمہ دار نہیں بلکہ ہر وہ انسان سزا کا مستحق ہے جو اس بات کو سنجیدگی سے نہیں لیتا ۔ان پڑھ لوگ پھر بھی کوئی جواز پیش کر سکتے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ ایسے پڑھے لکھے جاہلوں سے بھرا ہوا ہے جو نہ تو خود سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں بچوں کو یہ تعلیم نہیں دی جاتی کہ جو کھائیں اس کا کاغذ کوڑے دان میں ڈالیں ۔

گھر کے بڑے دیکھ رہے ہوتے ہیں اور بچہ جہاں کھاتا ہے کچرا وہیں بکھیر کر کھڑا ہو جاتا ہے ۔خود بڑوں کو بھی تمیز نہیں ہوتی کہ کونسی چیز کہاں ٹھکانے لگانی ہے۔ بچے بھی وہی کرتے ہیں جو اپنے بڑوں کو کرتا دیکھتے ہیں اب ایسے میں کسی کارٹون کا نام ہو یا کوئی آیت راستے میں ہی پھینک کر چلتے بنتے ہیں جس سے ایک طرف ہمارا ماحول غلاظت کا ڈھیر بنتا ہے اور دوسری طرف اسلامی احکامات اور تعلیمات کی دھجیاں اڑ جاتی ہیں۔

اسلام میں صفائی کو نصف ایمان کہا گیا ہے ،کتنا اسانی پسند اور فطری مذہب ہے کہ صرف صفائی کا خیال رکھنے سے ہی ہم نصف ایمان کے حقدار بن جاتے ہیں لیکن اسلام کے نام لیوا اپنی غلاظت پسند طبیعت کی وجہ سے اپنے نصف ایمان کو اپنے ہاتھوں سے غارت کرتے ہیں اور باقی نصف جھوٹ بداخلاقی ،دھوکہ ملاوٹ کی نذر ہو جاتا ہے ۔یہ بہت بڑا مسلہ ہے جس سے پورا ملک دوچار ہے۔ لیکن اس کا  حل ڈھوڈنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔

یہ ذمہ داری کسی ایک فرد یا ادارے پر عائد نہیں ہوتی مل کر اس کو حل کرنا ہوگا۔ گھروں میں اپنے بچوں کو پابند کرنا ہو گا کہ کوئی بھی صفحہ ادھر ادھر نہ پھینکے سکولوں میں طالب علموں کو صرف کتاب پڑھنا نہ سکھائیں بلکہ علم کی عزت اور قدر کرنا اور حرف و لفظ کی آبرو کرنا سکھائیں ۔مدارس میں پڑھانے والے معزز علما کرام اور دوسرے منتظمیں بچوں کے ذہنوں میں یہ بات نقش کرنے کی کوشش کریں کہ جب تک علم کی قدر نہیں ہو گی تب تک ثواب سے اور علم کے فوائد سے محروم رہیں گے کیونکہ یہی علم دنیا اور آخرت میں کامیابی کا واحد ذریعہ ہے۔     

21۔8 28′

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
51905

افغانوں کی ہجرت کا کیا جواز ہے؟۔ محمد شریف شکیب

افغانوں کی ہجرت کا کیا جواز ہے؟۔ محمد شریف شکیب

اقوام متحدہ نے افغانستان کی صورت حال کو انتہائی غیرمستحکم قرار دیتے ہوئے اقوام عالم سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد کی اپیل کی ہے۔ پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آرکا کہنا ہے کہ کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد سے پرتشدد واقعات میں خاطر خواہ کمی آئی ہے تاہم صورت حال کا مکمل نقشہ ابھی واضح نہیں ہے۔ لاکھوں افغان شہری خوف و ہراس میں مبتلا ہیں اور وہ اپنا ملک چھوڑنا چاہتے ہیں اس سال خانہ جنگی کی وجہ سے افغانستان میں 5لاکھ 50ہزارافراد بے گھرہوچکے ہیں۔ پہلے سے 29 لاکھ افراد ملک کے اندربے گھر ہیں اورگزشتہ چالیس سالوں سے26لاکھ افغان باشندے ملک سے فرار ہوکر دنیا کے مختلف ممالک میں مقیم ہیں۔

اقوام متحدہ نے افغانستان کےa پڑوسی ملکوں پاکستان، ایران اور تاجکستان سے مہاجرین کے لئے اپنی سرحدیں کھولنے کی اپیل کی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ افغان شہری اپنا ملک کیوں چھوڑنا چاہتے ہیں طالبان نے دارالحکومت پر قبضے کے بعد اپنے مخالفین کے لئے عام معافی کا اعلان کردیا ہے۔ اور واضح کیا ہے کہ اشرف غنی حکومت کے لئے کام کرنے والوں کے خلاف بھی کوئی انتقامی کاروائی نہیں کی جائے گی۔ طالبان ملک میں وسیع البنیاد حکومت کے قیام پر بھی راضی ہیں۔ انہوں نے عالمی برادری سے بھی افغانستان کی تعمیر نو کے لئے تعاون کی اپیل کی ہے۔ افغانوں کو اپنے ملک میں رہتے ہوئے قومی تعمیر نو میں اپنے حصے کا کردار ادا کرنا چاہئے۔سابق صدر اشرف غنی کے ملک سے فرار اور طالبان کے اعلان فتح کو ایک ہفتے سے زائد عرصہ گذر گیا۔

اب بھی کابل کے ہوائی اڈے پر دس ہزار سے زائد افراد بیرون ملک جانے کے انتظار میں بیٹھے ہیں کچھ لوگوں نے رن وے سے ٹیک آف کرنے والے جہاز پر چڑھنے کی کوشش کی۔جہاز جب فضاؤں میں اڑان بھرنے لگا تو جہاز کے پہیوں سے لٹکے دو افراد گر کر ہلاک ہوگئے شناخت کے بعد پتہ چلا کہ ان میں سے ایک افغان یوتھ فٹ بال ٹیم کا کھلاڑی اور دوسرا ڈاکٹر تھا جو طالبان کے خوف سے نہیں بلکہ خوشگوار مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے امریکہ اور یورپ جانا چاہتے تھے۔ امریکہ، برطانیہ، متحدہ عرب امارات سمیت بعض ملکوں نے افغانستان چھوڑنے والوں کو عارضی بنیادوں پر پناہ دینے کی پیش کش کی ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو پناہ گزینوں کی حوصلہ افزائی کے بجائے افغانستان میں ان کی بحالی اور آباد کاری کا کوئی جامع منصوبہ تیار کرنا چاہئے اورپہلے سے پڑوسی ملکوں پاکستان اور ایران میں مقیم افغان مہاجرین کی وطن واپسی کا کوئی لائحہ عمل مرتب کرناچاہئے۔

اگر افغان شہری خود اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں حصہ نہیں لیں گے تویہ ملک کیسے ترقی کرے گا۔ جرمنی سمیت بعض ممالک نے نہ صرف مزید افغان مہاجرین کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے بلکہ پہلے سے رہائش پذیر مہاجرین کو بھی ان کے ملک واپس بھیجنے کا عندیہ دیا ہے۔ پاکستان نے سب سے پہلے اعلان کیا تھا کہ وہ گذشتہ چالیس بیالیس سالوں سے 35لاکھ رجسٹرڈ اور نان رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے مزید مہاجرین کا بوجھ نہیں اٹھاسکتا۔ان مہاجرین کی وجہ سے نہ صرف ہماری معیشت پر اضافی بوجھ پڑا ہے بلکہ یہاں امن و امان کا مسئلہ بھی پیدا ہوا ہے۔ ڈکیتی، رہزنی، چوری،اغوا برائے تاوان، قتل اوربم دھماکوں سمیت دیگر سنگین جرائم میں 80فیصد افغان مہاجرین ملوث پائے گئے ہیں۔

ان لوگوں نے جعل سازی کے ذریعے پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی بنوارکھے ہیں جائیدادیں خریدی ہیں اور بڑے پیمانے پر کاروبار کر رہے ہیں۔جبکہ عالمی برادری کی طرف سے مہاجرین کے لئے ملنے والی امداد بھی بند ہوچکی ہے۔ گذشتہ روز حیات آباد میں سینکڑوں کی تعداد میں افغان مہاجرین نے طالبان کی طرف سے قومی پرچم کی جگہ امارات اسلامی کا پرچم لہرانے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔پولیس پر پتھراؤ کیا اور پاکستان کے خلاف نعرے بازی کرتے رہے۔ جس کے ردعمل میں ہزاروں مقامی باشندے مساجد میں اعلانات کرکے سڑکوں پر نکل آئے اس مرحلے پر خونریز تصادم کا خطرہ تھا تاہم قانون نافذ کرنے والے اداروں نے فوری مداخلت کرکے صورتحال پر قابو پالیا۔امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں کو افغانستان میں اپنا گند صاف کرنے اور خانہ جنگی سے تباہ حال ملک کی تعمیر نو کے لئے جامع پروگرام کا اعلان کرنا چاہئے۔چند ہزار پناہ گزینوں کو عارضی پناہ دینا افغانستان کے بحران کا حل نہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
51903

داد بیداد ۔ دو سیا حتی مقا ما ت ۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

داد بیداد ۔ دو سیا حتی مقا ما ت ۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

گر میوں کے 6مہینے پہا ڑی علا قوں کی سیا حت کے مہینے ہوتے ہیں اس دوران سیاح شہروں کی مصروف زند گی سے کچھ وقت نکا ل کر پہاڑی وا دیوں کا رخ کر تے ہیں اس ہفتے کے دوران دو سیا حتی مقا مات پر جا نے والے سیا حوں نے اپنے تجربات اور مشا ہدات میڈیا پر لے آئے کا لم نگار جا وید چوہدری نے 35سیا حوں کے گروپ کے ساتھ خیبر پختونخوا کے ضلع لوئیر چترال میں وادی کا لا ش کا دورہ کر کے اپنے مشا ہدات بیان کئے محمد فاروق اور فرخ مسعود نے اپنے با ل بچوں کے ہمراہ سو ئٹزر لینڈ کے سیا حتی مقام اینگل بر گ (Engelberg) کا دورہ کر کے اپنے مشا ہدات کو میڈیا کی نذر کیا دونوں سیا حتی مقا ما ت میں ہزاروں کلو میٹر کی دوری ہے ایک ایشیا میں ہے دوسرا یو رپ میں ہے دونوں میں اگر مشترک اقدار ڈھو نڈنے کا کا م کیا جا ئے تو پہا ڑ کے سوا کچھ بھی مشترک نہیں دلچسپ با ت یہ ہے کہ اینگل برگ میں ٹٹلیس (Titlis) پہاڑ کی چوٹی 10620فٹ ہے چترال لوئیر میں لوا ری درے کی بلندی 10500فٹ ہے یعنی دونوں برابر کی بلندی پر واقع ہیں.

اگست کے مہینے میں لواری کا درہ برف سے خا لی ہو چکا ہے جبکہ ٹٹلیس کی چو ٹی پر گلیشر بھی ہے برف بھی ہے اسلا م اباد سے وا دی کا لاش جا نے والے سیا حوں نے پہلے جہا ز کا ٹکٹ لیاجہا ز کی اُس روز والی پرواز مو سم کی خرا بی کی وجہ سے منسوخ ہو نے پر سیا حوں نے اپنے سفر کو دوحصوں میں تقسیم کیا اسلا م اباد سے براستہ چکدرہ دیر تک کو سٹروں میں سفر کیا دیر سے کا لا ش ویلی تک جیبوں میں سفر کیا اسلا م اباد سے دیر تک 340کلو میٹر کا سفر زیا دہ تھکا دینے والا نہیں تھا سیا حوں نے محسوس کیا کہ راستے میں بزر گوں، بچوں اور خوا تین کے لئے واش روم کی ایک بھی سہو لت نہیں کسی ہو ٹل کا دروازہ کھٹکھٹا نا اور اگر وقت رات کا ہو تو کسی اونگھتے ہوئے سیکیورٹی گارڈ کو جگا نا پڑتا ہے جگا نے کے بعد اس کو یہ بھی بتا نا پڑ تا ہے کہ کمرہ یا کھا نا نہیں چا ہئیے صرف واش روم کا سوال ہے.

دیر سے چترال تک 100کلو میٹر کے راستے میں سیا حوں کو وقت کے ضیاع کے ساتھ تھکا وٹ کا بھی گہرا احساس ہو تا ہے چترال سے کا لا ش وادی 27کلو میٹر کا راستہ ہے مگر اس راستے کا خوف اور دہشت سیا ح کو اتنا تھکا دیتا ہے کہ 340کلو میٹر کا سفر اس کے مقا بلے میں کچھ بھی نہیں.

کا لا ش وادی دنیا کے 10خوب صورت ترین سیا حتی مقا مات میں شا مل ہے اس کی منفرد ثقا فت دنیا میں پہلے نمبر پر ہے مگر وہاں جا نے والے سیاح دونوں کا نوں کو ہاتھ لگا کر تو بہ کر تے ہیں اور حکومت کو مشورہ دیتے ہیں کہ سیا حتی مقا مات کی تشہیر سے پہلے سٹرک بنا ؤ، ہو ٹل بنا ؤ، ریسٹو رنٹ بناؤ، واش روم بناؤ جب سہو لیات پوری ہو ں تو اشتہار دیدو کہ سیا حتی مقا م آپ کا منتظر ہے.

سو ئٹزر لینڈ کے دونوں سیاح پا کستا نی ہیں فرخ مسعود کا تعلق کو ہاٹ سے ہے محمد فاروق چترال کے با سی ہیں دونوں کا پختونخوا سے تعلق ہے اینگل برگ (Engelberg)سے دونوں بال بچوں کے ہمراہ ریل میں بیٹھے 3300فٹ کی بلندی پر ریل سے اتر کر کیبل کار کے ذریعے 10620فٹ کی بلندی تک خو ش گوار سفر کیا جب ٹٹلیس کی چو ٹی پر اتر گئے تو ایک نیا جہاں ان کے سامنے تھا گلیشر کو چیرتے ہوئے سرنگوں میں روشن راستے اور برف سے ڈھکے ہوئے پہاڑ جہاں جرمن، فرنچ اور انگریزی کے علا وہ کسی زبان کا چلن نہیں ان لو گوں نے ٹٹلیس کی چو ٹی پر شاہ رخ خا ن کی تصویر کے ساتھ ان کی فلم کا دیو قامت اشتہار لگا یا ہوا ہے فلم کا نام ہے ”دل والے دلہنیا لے جا ئینگے“ یہاں کے ریستو رانوں میں شاہ رخ خان کے ملک کا پکوان بھی ملتا ہے تا ہم کمبل میں لپٹی ہوئی جو بڑھیا یہاں اپنے پوتے پو تیوں کا انتظار کر رہی تھی اس کے پا س تھر مو س میں اپنی ہندوستا نی چا ئے تھی اور صاف ستھری اردو بول رہی تھی .

سوئس حکومت نے اس سیا حتی مقا م پر فلم کا اشتہار لگا کر ایک ارب سے زیا دہ کی آبادی والے ملک کو سیا حت کی دعوت دینے کا انو کھا انتظا م کیا ہے پا کستانی سیا حوں نے زیو رخ (Zurich) کے چڑیا گھر میں ایسے جا نور دیکھے جن کے نا م لکشمی، دیوی، چکوری وغیرہ تھے پو چھنے پر معلوم ہوا کہ یہ جا نور شارخ خا ن کے ملک نے تحفے میں دیئے تھے یہاں منگو لیا کے خو ش گاؤ (یا ک) چترالی سیا حوں کے لئے خصو صی طور پر باعث مسرت تھے۔دونوں سیا حتی مقا مات کا موازنہ کر نے کے بعد اس پر مزید تبصرے کی ضرورت نہیں رہتی۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51896

سید قطب شہید رحمۃ اللہ علیہ – (29اگست یوم شہادت پرخصوصی تحریر) – ڈاکٹر ساجد خاکوانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سید قطب شہید رحمۃ اللہ علیہ – (29اگست یوم شہادت پرخصوصی تحریر) – ڈاکٹر ساجد خاکوانی

                دور غلامی کے بدترین اثرات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ قوموں کو ماضی کے صفحات میں دفن کر کے تو اس دنیاسے ان کا وجود نابود کر دیتاہے۔لیکن امت مسلمہ تاریخ انسانی وہ محترم و متبرک گروہ ہے جس کی کوکھ دور غلامی میں بھی علمیت و قیادت کے بارآورثمرات سے سرسبزو شاداب رہی ہے۔سیدقطب شہیداس امت وسط کے وہ مایہ ناز سپوت ہیں جنہوں نے دورغلامی کے پروردہ استعمار کے سامنے سپرڈالنے کی نسبت شہادت کے اعلی ترین منصب کو پسند کیااور پھانسی کے پھندے پر جھول کرابدی حیات جاوداں کے راستے پر ہمیشہ کے لیے کامیاب و کامران ہو گئے۔سیدقطب شہید،مصر کے ایک نامور ماہر تعلیم،مسلمان دانشوراورعربی کے معروف شاعر تھے۔”اخوان الملمون“سے وابستگی ان کے لیے جہاں باشعورمسلمان حلقوں میں تعارف کا باعث بنی وہاں امت مسلمہ کو ذہنی طور پردورغلامی سے نکالنے کے لیے انہوں نے قلم کے ہتھیارکو بھی استعمال کرنا شروع کر دیا۔مصر کے غلامی زدہ سامراج کوسیدقطب کی قلمی کاوشوں کے نتیجے میں مسلمانوں کاباشعورہونا پسند نہ آیااوروقت کے طاغوت نے اس بطل حریت کو راہی ملک عدم کردیا۔

                ”سید قطب“9اکتوبر1906ء کو مصرکے ”موشا“نامی گاؤں میں پیداہوئے،یہ جگہ بالائی مصر کے ”اسیوط“نامی صوبے کاایک نواحی مقام ہے۔یہ ایک زمیندار گھرانہ تھااورآپ کے والد محترم کاشماراپنے خاندان اورعلاقے کے بڑے  بزرگوں میں ہوتاتھا۔علاقے کے جملہ سیاسی وسماجی و انتظامی مسائل میں آپ کے والدبزرگوار کی رائے کوایک طرح سے فیصلہ کن مقام حاصل تھا۔گویاقیادت کی صلاحیت سیدقطب کوخاندانی وراثت سے ہی ملی تھی۔آپ کے والد محترم کی ایک خاص بات ہفتہ وار مجالس ہیں جن میں اس وقت کے سیاسی وقومی معاملات کوقرآن کی روشنی میں سمجھاجاتاتھا۔اس طرح گویاقرآن فہمی بھی آپ کو اپنے باباجان کی طرف سے علمی وراثت میں ملی۔شاید اسی کے باعث لڑکپن سے ہی روایتی ملائیت کے خلاف ان کے اندر شدید نفرت کی آگ بھڑک اٹھی تھی،کیونکہ روایتی مذہبی تعلیم کے مدارس قرآن مجید کی انقلابی تعبیر سے بہت بعیدہوتے ہیں الا ماشاء اللہ۔وہ بچپن سے ہی کتب کے بہت شوقین تھے،اپنی جیب خرچ سے پیسے بچاتے ہوئے اپنے ہی گاؤں کے کتب فروش ”امصالح“سے کتابیں خرید لیتے تھے اور بعض اوقات شوق مطالعہ انہیں ادھار پر بھی مجبور کر دیتاتھا۔بارہ سال کی عمرمیں ان کے پاس پچیس کتابوں کی لائبریری مرتب ہو چکی تھی،گویا امت مسلمہ کا یہ یکے از مشاہیر اپنی جسمانی عمر سے دوہری نوعیت کی ذہنی و فکری عمرکا حامل تھا۔اس چھوٹی عمر میں بھی لوگ ان سے اپنے سوالات کیاکرتے تھے اور بعض اوقات بڑی عمرکے لوگوں کی ایک مناسب تعدادان سے اجتماعی طورپرکسب فیض بھی کرتی تھی تاہم خواتین کوان کے اسکول کی چھٹی کا انتظارکرناپڑتاتھااور خواتین سے خطاب کے دوران ان پر شرم غالب رہتی تھی۔

                ابتدائے شباب میں وہ قاہرہ سدھارگئے اور 1929سے1933کے دوران برطانوی تعلیمی اداروں سے عصری تعلیم حاصل کی۔اپنی عملی زندگی کا آغاز ایک معلم کی حیثیت سے کیا،اور پیشہ ورانہ زندگی کی ابتدامیں ہی ادیب اور نقاد ہونا آپ کی پہچان بن گئی۔اگرچہ کچھ ناول بھی لکھے لیکن زیادہ تر ادیبوں،شاعروں اور عربی ناول نگاروں کی مددکرتے رہے۔علوم و معارف میں ترقی آپ کی پیشہ ورانہ ترقی کا باعث بھی بنی اور1939ء میں مصر کی وزارت تعلیم جس کا مقامی نام ”وزارت معارف“ہے،میں انتظامی عہدوں پر تعینات ہو کراعلی افسر بن گئے۔1948تا1950ء آپ نے امریکہ میں قیام کیاجس کا مقصد وہاں کے تعلیمی نظام سے آگاہی حاصل کرنا تھا۔سیدقطب شہیدکاکسی بھی مغربی ملک میں یہ پہلا دورہ تھا۔سیکولرمعاشرے کی قباحتیں آپ نے بہت گہرائی سے محسوس کیں اور خاص طورپر مغربی دنیاکا جوروشن چہرہ سارے عالم کے سامنے ہے اس کے اندرون میں چنگیزسے تاریک تر تاریکی آپ نے بنظر خود مشاہدہ کی۔دل میں موجود ایمان بھڑک اٹھااور اسی دورے کے دوران آپ کی پہلی  شہرہ آفاق تصنیف”العدل الاجتماعیہ فی الاسلام“1949میں شائع ہوگئی۔امریکہ میں دوسالہ قیام کے دوران کے تاثرات اور مشاہدات بھی”امریکہ،جو میں نے دیکھا“کے عنوان سے کتاب میں شائع ہوئے۔حضرت علامہ اقبال ؒکی طرح انتہائی دیانتداری سے سیدقطب شہیدؒ نے امریکی معاشرے کا تجزیہ پیش کیا،جہاں خامیوں اور کمزوریوں پر نقد کیاوہاں اس معاشرے کی خوبیوں کوبھی بیان کیا۔

                1950ء کے آغاز سے ہی اس ذہین انسان کو مذہب نے اپنی طرف کھینچ لیااورسید قطب شہیدؒنے ”اخوان المسلمین“میں شمولیت اختیارکرلی۔ابتداََآپ کی علمی  استعدادکے باعث  کے ”اخوان المسلمین“کے ہفتہ وار رسالے کامدیرمقررکیاگیا،بعد میں وہ ”اخوان المسلمین“کے مرکزی ذمہ دار برائے نشرواشاعت بنادیے گئے اورپھرا ن کاخلوص اور تقویت ایمان انہیں ”اخوان المسلمین“کے اعلی ترین مشاورتی ادارے کی رکنیت تک لے آئے۔ان دنوں جمال عبدالناصرنے حکومت کے خلاف تحریک چلارکھی تھی ابتداََ”اخوان المسلمین“اور جمال عبدالناصر کے تعلقات بہت اچھے رہے تھے اور ایک بار تو جمال عبدالناصرخود چل کرسیدقطب شہید کے گھربھی گئے تاکہ انقلاب کی کامیابی کے لیے تفصیلی منصوبہ تیارکیاجائے،بعد میں بارہ بارہ گھنٹے طویل نشستوں میں جزیات پر بھی بحث کی جاتی رہی اوراس دوران سیدقطب شہیدکو آنے والی حکومت میں وزارتوں کی پیشکش بھی کی جاتی تھی۔

جمال عبدالناصرکے ان اقدامات کے باعث ”اخوان المسلمین“کی اکثریت بہت خوش ہو گئی کہ شاید اب نفاذاسلام کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔1952ء میں جمال عبدالناصرنے ایک بغاوت کے ذریعے مصری حکومت کو چلتاکردیااورخود اقتدارکے ایوانوں پرقابض ہوگئے اورنفاذ شریعت کے کئے گئے تمام وعدوں سے منحرف بھی ہو گئے۔ پس بہت جلد جمال عبدالناصر کو سیکولرازم کی روایتی بدعہدی نے ”اخوان المسلمین“سے بہت دور کردیاکہ مسلمانوں کو پہلے دن سے ہی ”لکم دینکم ولی دین“کا سبق پڑھادیاگیاتھااور اسلام اورسیکولرازم اکٹھے نہ چل سکے۔اس کے باوجود بھی ”اخوان المسلمین“عوام کے اندر نظریاتی اور خدمت خلق کاکام کرتی رہی اور عوام الناس میں مقبول تر ہوتی رہی۔بہت جلدمصر کے سیکولرحکمرانوں کے لیے ”اخوان المسلمین“کاوجودہی ناقابل برداشت ہوگیاااور1954ء میں بغاوت کے جھوٹے الزامات کے تحت سیدقطب شہید سمیت ”اخوان المسلمین“کے ہزارہاکارکنوں اور مقتدرراہنماؤں کو قیدوبندمیں ڈال دیاگیااور انہیں بدترین تشدداور انتہائی غیراخلاقی اور غیرانسانی بہیمانہ مارپیٹ کانشانہ بنایا گیاکہ سیکولرازم کویہی رویہ ہی زیب دیتاتھا۔

                تین سالوں کی طویل مدت تک جب طاغوت اپنی پوری کوشش کے باوجود ”اخوان المسلمین“کے پائے استقامت میں لغزش پیدانہ کرسکاتو استعمار کی رگیں ڈھیلی پڑ گئیں اور سیدقطب شہیدؒکومحدود نقل و حرکت اور لکھنے کی اجازت مل گئی۔جس طرح پاکستان میں ”تفہیم القرآن“کا بیشتر حصہ دارورسن میں ضبط تحریرمیں آیااسی طرح مصر میں ”فی ظلال القرآن“بھی پس دیوار زنداں سے منظر عام پر آئی۔آہنی سلاخون کا دوسراعرق ”معالم الطریق“کے عنوان سے امت کو میسرآیا۔اب تک ان کتب کے بے شمار طباعتیں اور کتنی ہی زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔1964ء میں انہیں عراق کے صدرعبدالسلام عارف کی سفارش پر رہاکردیاگیا۔یہ ایک اورامر تعجب ہے کہ پاکستان اور مصر کے مشاہیرکو عالمی حمایت تو حاصل ہوتی ہے لیکن اپنے ہی وطن کے حکمران ان کی نہایت بے قدری پر ہی کمربستہ رہتے ہیں۔

محض آٹھ ماہ کی مختصرمدت کے بعد ہی انہیں ”معالم الطریق“جیسی کتاب لکھنے کے جرم میں دھر لیاگیا۔آفرین ہے اس مرد مجاہد پرجس نے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرعدالت میں اپنی تحریرکردہ کتاب پرکسی طرح کامعذرت خواہانہ رویہ اختیارکرنے کی بجائے ڈنکے کی چوٹ پراپنے موقف کے حق میں پرزوردلائل دیے۔انسانی تاریخ میں انبیاء علیھم السلام کے بعد یہ آسمان شاید پہلی مرتبہ دیکھ رہاتھا کہ ملزم کس شان سے نہ صرف اعتراف جرم کررہاہے بلکہ اپنے جرم کے حق میں مضبوط ترین دلائل بھی بیان کررہا ہے۔”معالم الطریق“بارہ ابواب پر مشتمل ایک سوساٹھ صفحات کی مختصرسی کتاب ہے،لیکن محققین کے مطابق گزشتہ صدی میں عربی زبان میں اس سے عمدہ کتاب شاید نہیں لکھی گئی۔اس کتاب میں امت کو جھنجوڑاگیاہے کہ قرآن مجیدکی فراہم کردہ بنیادوں پرایک نئی فکراور نئے معاشرے کاقیام عمل میں لایا جائے۔

اس کتاب کے مضامین کافی حد تک علامہ محمداقبال کے خطبات ”فکراسلامی کی تجدیدنو“سے ملتے جلتے ہیں۔سیدقطب شہید کی بنیادی اٹھان توادیب اور شاعرکی حیثیت سے ہی تھی اور قرآن مجیدجیسی الہامی کتاب میں بھی صرف ایک چیلنج ہے اور ادیبوں اور شاعروں کوہے کہ اس جیسی کوئی کتاب یاسورۃ یاآیت ہی بناکردکھاؤ،پس جب ادب و نقد اورقرآن مجیدیک جا ہوگئے تو مصر کی تاریخ گواہ ہے کہ”معالم الطریق“جیسی مختصر کتاب سے ہی باطل شکست کھاگیا۔سیکولرازم جیسے انسان دشمن نظریے کی عدالتوں سے انصاف کی توقع رکھناگویااپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے،چنانچہ پہلے سے طے شدہ منصوبہ کے مطابق سیدقطب شہیدؒسمیت چھ اور اسلامیان مصرکو سزائے موت سنا دی گئی۔پاکستان میں یہی کھیل مولانا مودودی کے خلاف ”ختم نبوت“جیسی کتاب لکھنے کے ”جرم“ میں کھیلا گیا۔29اگست1964ء کوسیدقطب شہیدکوابدی حیات جوداں میں پہنچادیاگیا۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51893

مہمان نوازی – (فہم حدیث نبوی ﷺ کے حوالے سے) – ڈاکٹر ساجد خاکوانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مہمان نوازی – (فہم حدیث نبوی ﷺ کے حوالے سے) – ڈاکٹر ساجد خاکوانی

                حضرت ابو شریح قاضی سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالی اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتاہے اسے چاہیے کہ مہمان کا اکرام کرے اور ایک دن اور ایک رات تک اسے پر تکلف کھانا کھلائے،اور تین دنوں تک اس کی مہمان نوازی کرے اس کے بعد صدقہ ہے پھر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مہمان کے لیے بھی جائز نہیں کہ میزبان کے ہاں اتنا عرصہ قیام کرے کہ اسے مشقت میں ڈال دے۔

                بظاہر دیکھنے سے اس حدیث میں تین امورکا ذکر ملتا ہے،پہلا امر یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے مسلمانوں کو انکے نام سے نہیں پکارا بلکہ فرمایا ”جو شخص اللہ تعالی اور یوم آخرت پر ایمان رکھتاہے“،یعنی اسم ذات کی کی بجائے اسم صفت سے یا د کیااور مسلمانوں کو بتایا ان کی اصل پہچان یہ ہے کہ وہ توحید کے ماننے والے ہیں اور ایک دن مرنے کے بعد جی اٹھنے پر یقین رکھتے ہیں۔ایمانیات کے ان دو اجزا کا حدیث کے نفس مضمون سے بہت گہرا تعلق ہے،جو شخص اللہ تعالی پر ایمان رکھے گا وہ اپنے دل کی گہرائیوں سے اس بات کا ایقان رکھے گا کہ کل کائنات اور اسکے خزانے اللہ تعالی کی ملکیت ہیں اور وہ تن تنہا ان سب کا مالک ہے۔وہ مسلمان جو اللہ تعالی پر یقین رکھتا ہے وہ اس بات پر بھی یقین رکھتا ہے کہ بحیثیت خلیفہ اس کے پاس جو کچھ بھی وہ سب اللہ تعالی کی دی ہوئی امانت ہے اور اللہ تعالی نے اسے اس لیے دیا ہے کہ وہ اس سب مال کو اللہ تعالی کے راستے میں اس کی مخلوق پر خرچ کرے اور اللہ تعالی کو مال جمع کرنا اور اسے سینت سینت کر رکھنا سخت ناپسند ہے،دوزخ میں سانپ اور بچھو دوزخی کی طرف لپکیں گے اور وہ دوزخی ان سے دور بھاگے گا تب وہ زہریلے جانور کہیں گے کہ اب ہم سے دور کیوں بھاگتاہے ہم وہی سوناچاندی ہیں جو تو دنیا میں سنبھال سنبھال کر رکھتاتھا۔پس جو شخص بھی اللہ تعالی پر ایمان کا دعوی کرتا ہے وہ مال کی محبت سے بے گانہ ہوگا اور مال کو سنت نبوی ﷺ کے طریقے کے مطابق اللہ تعالی کی مخلوق پر خرچ کرے گا۔

                ایمانیات کا دوسرا جزو جو اس حدیث میں ذکر کیاگیاہے وہ ایمان بالآخرت ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ نیکی کا بدلہ اور برائی کا بدلہ بھی اللہ تعالی نے ہی دینا ہے۔جو شخص کسی سے برائی کر کے یہ توقع رکھے کہ اسے کوئی نہیں دیکھ رہااور کسی نے اس سے اس برائی کی بابت استفسارنہیں کرنااور کوئی مجھے پوچھنے والا نہیں ہے اور کوئی مجھے اس برائی کا بدلہ نہیں دے سکتا اس کا گویا آخرت کے دن پر ایمان نہیں ہے اور جو شخص کسی سے نیکی کر کے اسی سے یہ توقع رکھے کہ وہ اسے اس نیکی کا اجر دے گایا اس فرد کی بجائے اسکے والدین سے یہ توقع رکھے کہ وہ اسے اپنے بچے کے ساتھ بھلا کرنے کا بدلہ دیں گے یا پھر کسی گروہ کے ایک فردکے ساتھ بھلا کرکے کل گروہ سے اسکے اچھے بدلے کی توقع کرے تو اس کا بھی گویاآخرت کے دن پر ایمان نہ ہوا۔یہ ایک حقیقت ہے کہ قیامت کے دن صرف اسی نیکی کا بدلہ ملے گا جو محض اللہ تعالی کی خاطر ہی کی گئی ہو گی اورجس نیک عمل میں تھوڑا سا بھی شرک شامل ہو گا اس کے اجر کے لیے حکم ہوگا کہ اسی سے اجر مانگو جس کے لیے یہ کام کیا تھا۔

                حدیث کے اندر دوسرا مضمون جس کی خاطر آنحضرت ﷺ نے ایمانیات کی تمہید باندھی وہ مہمان نوازی کی ترغیب ہے۔مہمان نوازی حقوق العباد میں سے ہے اورجو اللہ تعالی پر ایمان رکھتاہے وہ مہمان پر خرچ کرے کیونکہ اس کے پاس موجود مال اللہ تعالی کا ہی دیا ہوا ہے اور اسی کے نبیﷺ یہ حکم دے رہے ہیں کہ مہمان پر اپنے مال میں سے خرچ کرو اورجو آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ مہمان پر اس لیے خرچ کرے کہ اسے اللہ تعالی سے اس کا اجر لینا پے اور کسی نے اس نیت سے مہمان پر خرچ کیا کہ کل کو میں جب اس کا مہمان بنوں گا تو یہ بھی میری خدمت کرے گا یا اس سے میرا فلاں کام پڑنے والا ہے اور اس مہمان نوازی کے عوض میرا مسئلہ حل ہو جائے گایا اس لیے مہمان نوازی کی کہ یہ ہماری خاندانی روایات ہیں جس کے عوض ہمیں نیک نامی میسر آتی ہے تو اس نے گویا آخرت کے دن کواس طرح نہیں مانا جس طرح اللہ اور اسکے رسول ﷺ نے اس کا حکم دیاتھا۔

                ایک بار خدمت اقدس ﷺ میں ایک مسافرحاضر ہوا،رات ہوجانے پر محسن انسانیت ﷺنے بلند آواز سے پوچھا کون اس مسافر کو مہمان بناکر اپنے گھر لے جائے گا؟؟غربت کازمانہ تھاجس کے باعث سب خاموش رہے تاہم تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد ایک مسلمان نے حامی بھر لی اور اس مسافرکو مہمان بناکر گھر لے گیا۔گھرآنے پر بیوی نے بتایا کہ کھانا تو صرف ایک ہی آدمی کا ہے،اس مسلمان نے کہاکہ جب مہمان کھاناشروع کرے تو تیل ختم ہونے کے بہانے چراغ گل کردینایوں میں بس منہ چلاتارہوں گااورمہمان سیرہوکرکھاناکھالے گا۔ سارا کھانا مہمان کو کھلا دیااورمیزبان اور اسکی بیوی بچے بھوکے سو گئے،اللہ تعالی کو یہ عمل اس قدر پسند آیا کہ اس مسلمان کی تعریف وتوصیف میں حضرت جبریل علیہ السلام اگلے دن قرآن مجید کی یہ آیت لے کر حاضر ہوئے کہ ”اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں،حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں“(سورۃ حشر آیت9)۔اس مسلمان کی شان میں نازل ہونے والی یہ آیت قیامت تک تلاوت ہوتی رہے گی کیونکہ اس نے مہمان نوازی میں اپنے گھرکاساراکھانا پیش کر دیا تھا۔

                اس دنیا میں مسلمانوں کے ایک ہزارسالہ دوراقتدار میں بڑے بڑے شہروں کے اندر بھی کسی ہوٹل اور ریسٹورینٹ کا سراغ نہیں ملتا کیونکہ مہمان نوازی ایک قومی و ملی شعار کی صورت میں معاشرے کے اندر موجود رہی۔فجر کی نماز اور عشاء کی نماز میں مقامی لوگ مسجدوں کے اندر باقائدہ آواز لگایا کرتے تھے کہ کوئی مسافر ہے تو ہمارے گھر چلے،نوابین نے اپنی اپنی جاگیروں میں سرراہ مسافر خانے بنواتے تھے جس میں قیام کرنے والوں سے یہ نہیں پوچھا جاتا تھا کہ وہ کب روانہ ہوں گے؟ اور اعلی درجے کا کھانا پورے مہمان نوازی کے آداب کے ساتھ پیش کیاجاتاتھااور نوابین اور سرداران قوم جب باہم ملتے تو مہمانوں کی کثرت پر فخر کرتے تھے۔مدارس کے طلبہ مستقل طور پر مقامی افراد کے مہمان سمجھے جاتے تھے اور مقامی افراد کے ہاں سے قسم قسم کے پکوان ان کے طعام کے طور پر مدارس کے دسترخوانوں پر بھیجے جاتے۔اس طرح معاشرے کے افراد کے درمیان پیارومحبت کا جذبہ پروان چڑھتا،امیروغریب کے درمیان فاصلے سمٹ جاتے اور منعم اورگداباہم دو مضبوط اینٹوں کی مانندناقابل تسخیرمعاشرے کی بنیاد رکھتے۔

                مغربی سیکولرتہذیب نے جہاں انسانیت کے متعدد شعائر پر اپنا تیشہ چلایا ہے وہاں مہمان نوازی پر بھی کمرشل ازم کا نشترگارگر ثابت ہواہے جس کے نتیجے میں گھروں کے دستر خوان سکڑ گئے ہیں اور ہوٹلوں اور ریستورانوں کی لمبی لمبی قطاریں بازاروں کی زینت بن گئی ہیں۔گھروں میں مہمان داری سے پیارومحبت پروان چڑھتاہے جبکہ ہوٹلوں میں منافع خوری کا رجحان گرم رہتاہے،گھریلوکھانا صحت بخش ہوتا ہے جبکہ بازاری کھانے میں وہ احتیاط ممکن نہیں ہوتی جو گھر میں کی جاتی ہے،گھریلودسترخوان پر کھانا کھانے سے احسان مندی کاعنصر پھلتاپھولتاہے جس کے باعث لوگ جس کے دسترخوان پر کھاناکھاتے ہیں پھر اس سے حیاکرتے ہیں اور اس سے عزت و احترام سے پیش آتے ہیں جبکہ بازاری ہوٹلوں میں گاہکی بڑھتی ہے اور مغربی سیکولر تہذیب کے معاشی جاگیردارانہ نظام کے ”مقابلے کے رجحان“میں اضافہ ہوتاہے اور گھریلو دسترخوان پر مہمان فطرتاََکم کھانا کھاتا ہے جس سے صحت برقرار رہتی ہے جبکہ ہوٹل اور ریسوران میں رقم پوری کرنے کی خاطر بسیاخوری کی جاتی ہے جو صحت کی تباہی کا باعث بنتی ہے۔

                مہمان نوازی سے اللہ تعالی کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں،آنے والے سے پہلے اسکا رزق میزبان کے دسترخوان پر اترآتاہے،خاندانوں کے درمیان تعلقات مضبوط ہوتے ہیں،دسترخوان وسیع ہوتے ہیں،ظرف بڑھتے ہیں،وسعت نظر پیدا ہوتی ہے،بہت سارے لوگوں کے درمیان بیٹھ کر انسان کی سوچ اور فکر میں گہرائی پیدا ہوتی ہے،ملنے جلنے سے ذہنی دباؤختم ہوتاہے،باہم مشورے کرنے سے مسائل کے نئے نئے حل نکلتے ہیں جبکہ مہمان نوازی ختم ہو جانے سے انسان آہستہ آہستہ تنہائی کا شکار ہوکر ذہنی دباؤ میں الجھ جاجاتاہے اور چھوٹی چھوٹی پریشانیاں اسے اس طرح گھیر لیتی ہیں کہ وہ ان کوبہت بڑی مصیبت سمجھ بیٹھتاہے اوریہ سب اس بات کا نتیجہ ہوتا ہے کہ مہمان نوازی سے دستکش ہو کر اللہ تعالی کی رحمتوں سے دور ہٹ جاتاہے۔

                اللہ تعالی کے رسول ﷺ نے حکم دیا ہے کہ ایک دن تک مہمان کو پر تکلف کھانا کھلایا جائے ظاہر ہے یہ کھانا اپنی حیثیت کے مطابق ہی ہونا چاہیے،پھر تین دن تک میزبان اپنے گھر میں جو بھی تیار کرے اسے مہمان کے سامنے لاکر پیش کردے اور بہت اچھی روایت ہے کہ مہمان کے ساتھ ہی مل کر کھانا کھائے۔اس کے بعد بھی اگر مہمان قیام پزیر رہتاہے تو پھر اسکو جو کھانا پیش کیاجائے گا وہ مہمان نوازی کی بجائے صدقہ کے زمرے میں لکھاجائے گا۔مہمان اپنی مجبوری کے تحت کتنا قیام کرتا ہے؟؟یہ تو اس کام کی نوعیت پر منحصرہے جس کی خاطر وہ اپنا وطن چھوڑ کر دوسرے شہر میں داخل ہوا ہے لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کہ مہمان کو بھی اتنا عرصہ قیام کرنا چاہیے کہ میزبان اسے بوجھ نہ سمجھنے لگے۔اگر میزبان صاحب استطاعت ہے تو مہمان کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں لیکن اگر میزبان سفیدپوش ہے اوراسکے دسترخوان کے ساتھ ساتھ گھر کے ایک حصے پر بھی مہمان عرصے سے جما بیٹھاہے تو ایسے میں مہمان کوچاہیے کہ وہ میزبان کی پریشانی کا مناسب مداواکرے۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51882

بی بی فوزیہ تیرا شکریہ – تحریر : محکم الدین ایونی

بی بی فوزیہ تیرا شکریہ – تحریر : محکم الدین ایونی

گذشتہ دنوں چترال کے خوبصورت سیاحتی علاقہ ایون کیلئے نو تعمیر شدہ آر سی سی پل کا افتتاح کردیا گیا ۔ دس کروڑ کی لاگت سے پانچ سالوں کی مدت میں تعمیر ہونے والا یہ پاکستان تحریک انصاف کا بڑا پراجیکٹ ہے ۔ یہ پل گو کہ ایون کو مین شاہراہ سے ملانے والا منصوبہ تھا ۔ لیکن اپنی افادیت کے لحاظ سے یہ بین الاقوامی پل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ کیونکہ اس پل پر سے دنیا بھر سے آنے والے وہ تمام سیاح گزریں گے ۔ جو قدیم کالاش تہذیب و ثقافت دیکھنے کیلئے کالاش وادیوں میں جانا چاہتے ہیں ۔ اس پل کی افتتاحی تقریب میں معاون خصوصی وزیر اعلی برائے اقلیتی امور وزیرزادہ کے علاوہ بڑی تعداد میں صوبائی وزرا ایم این اے اور ایم پی ایز نے شرکت کی ۔ لیکن جو کمی محسوس کی گئی ۔ وہ پل کی تعمیر کیلئے انتھک کوشش کرنے والی اور اپنے ہاتھوں سے پل کی تعمیری کام کا افتتاح کرنے والی سابق خاتون ایم پی اے بی بی فوزیہ کی عدم موجودگی تھی ۔


ایون آر سی سی پل کی تعمیر بی بی فوزیہ کی محبت اور ان کی مرہون منت ہے ۔ وہ اس کیلئے قدم نہ اٹھاتی ،صوبائی حکومت میں اس پراجیکٹ کیلئے تگ ودو نہ کرتی ۔ تو شاید ہم اب بھی لکڑی کے معلق پل کے ہچکولوں اور ابھرتے کیلوں کے اوپر سے گذرنے پر مجبور رہتے ۔یہ منصوبہ بلا شبہ بی بی فوزیہ کی اپنے ننھیال سے دلی وابستگی کا واضح ثبوت ہے ۔


بہت سے لوگ ایون آرسی سی پل کی تعمیر کی کریڈٹ لینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جبکہ حقیقت حال یہ ہے ۔ کہ اس پل کی تعمیر کیلئے ایون کے کسی سیاسی لیڈر نے آواز اٹھائی اور نہ کسی ادارے کے آفیسر کا اس پراجیکٹ کی تعمیر میں کوئی ہاتھ ہے ۔ 2014کی بات ہے ۔ ایون چتر معلق پل کی حالت بہت خراب تھی ۔ تختے اکھڑے ہوئے تھے ۔ اور پل پر لگی کیلیں ہاتھی دانت کی طر ح باہر نکلے ہوئے تھے ۔ پل پر گزرنے والی گاڑیوں میں سے کوئی خوش قسمت ہی بغیر پنکچر ہوئے گزرتا تھا ۔ کسی کو سمجھائی نہیں دیتا تھا ۔ کہ کیا کیا جائے ۔

راقم نے اس خستہ حال پل کی تصویر کھینچی ۔ تصویر کے ساتھ پل کی شکستہ حالی اور مسافروں کو درپیش مشکلات سے متعلق خبر لگائی ۔ اور اگلے روز اے وی ڈی پی آفس میں اس حوالے سے ایک میٹنگ منعقدکی ۔ کہ اس حوالے سے کیا کیا جائے ۔ اس میٹنگ میں یہ فیصلہ ہوا ۔ کہ بی بی فوزیہ ایم پی اے سے اس سلسلے میں ملا جائے ۔ کہ یہ پل انتہائی خستہ و شکستہ ہو چکا ہے ۔ کسی بھی وقت کوئی بڑا حادثہ رونما ہو سکتا ہے ۔ لہذا اس کے متبادل آر سی سی پل تعمیر کرکے موجودہ پل سے لوگوں کو نجات دلانے کی کوشش کی جائے۔ ماہ صیام کے دن تھے ۔ ایم پی اے بی بی فوزیہ اپنے گھر مغلاندہ آئی ہوئی تھی ۔ راقم کے پاس اس وقت اے وی ڈی پی چیرمین کی ذمہ داری تھی ۔

رحمت الہی بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ممبرتھے موجودہ معاون خصوصی وزیر اعلی وزیر زادہ اے وی ڈی پی کے منیجر ، جاوید احمد سوشل آرگنائزر اور آمین اکاونٹنٹ تھے ۔ ہماری پوری کابینہ اگلے دن وقت ضائع کئے بغیر آر سی سی پل کیلئے درخواست اور لکڑی کےمعلق پل کے تصویری اخباری تراشوں کے ساتھ اس کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ اور اپنا مدعا بیان کرتے ہوئے عرض کیا ۔ کہ چونکہ ایون آپ کا ننھیال ہے ۔ اس لئے اس رشتے کی بنیاد پر ایون والے آپ سے بہت زیادہ توقعات رکھتے ہیں ۔ لیکن فی الحال ایون کا بہت بڑا مسئلہ چیتر ایون کے مقام پر ایک آر سی سی پل کی تعمیر ہے ۔ چاہے جو کچھ بھی ہو ۔ یہ پل ہر صورت میں تعمیر ہونا چاہئیے ۔

محترمہ بی بی فوزیہ نے اس وقت کہا ۔ کہ میں وعدہ نہیں کرسکتی ۔ لیکن میں آپ کو یقین دلاتی ہوں ۔ کہ چترال کیلئے اگر ایک بھی آر سی سی پل کا پراجیکٹ مجھے دیاگیا ۔ تو اہمیت کی بنیاد پر ترجیحی طور پر اس کی تعمیر ایون میں ہی کی جائے گی ۔ اس کے بعدوہ سابق وزیر اعلی پرویز خٹک سے ہر ملاقات میں اس پل کے مطالبے کو سر فہرست رکھا ۔ بالاخر انہوں نے ایون پل کی منظوری کی خوشخبری سنادی ۔ اور باقاعدہ طور پر بعد آزان اس نے خود اس کا افتتاح کیا ۔

یہ پل بی بی فوزیہ اور پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے ایک بڑے تحفے کی صورت میں مکمل ہونے کے بعد عوام کی آمدورفت کیلئے کھل اب گیا ہے ۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے ۔ کہ پراجیکٹ کو منظور کروانے والی چترال کی بیٹی بی بی فوزیہ اس افتتاحی تقریب میں شامل نہ ہو سکی ۔ مگر ان کی اپنے ننھیال والوں کیلئےیہ عظیم تحفہ ہمیشہ ان کی یاد دلاتا رہے گا ۔ یہی نہیں ، بی بی فوزیہ کی طرف سے لڑکیوں کیلئے گورنمنٹ ڈگری گرلز کالج کا قیام بھی ایک نہایت اہم منصوبہ ہے ۔ جس پر اگرچہ فوزیہ بی بی کی حکومت سے علیحدگی کے بعد کام سست روی کا شکار ہے ۔تاہم یہ منصوبہ بھی چند سالوں کے اندر مکمل ہو کے رہےگا ۔ ایون کیلئے ان دو پراجیکٹس کی تعمیر پر ہم سابق ایم پی اے بی بی فوزیہ اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتے ہیں ۔

chitraltimes ayun bridge chitral
chitraltimes ayun bridge chitral old
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
51878

دھڑکنوں کی زبان – ”مان کا مسئلہ ہے ” – محمد جاوید حیات

دھڑکنوں کی زبان – ”مان کا مسئلہ ہے ” – محمد جاوید حیات

ٹی وی مذاکرے کے میزبان (نئی اردو میں ٹاک شو کے اینکر) سے کوئی کہدے کہ یہ پاکستان ہمارا ہے اور تبصرہ کرنے والے سے بھی خواہ اس کا تعلق جس پارٹی سے بھی ہو کہدے کہ جی پاکستان ہمارا ہے۔آپ کا مان آپ کا گھمنڈ،آپ کا غرور آپ کی پارٹی ہو آپ کی ادھوری سیاست ہو آپ کی خدمت سے عاری سیاست ہو جو بھی ہو لیکن ہمارا مان ہمارا ملک ہے جو اس کی درست نہج پہ خدمت کرے گا وہ ہمارا مان ہے ہمارا غرور ہے ہمیں اس پہ فخر ہے مگر ہمارا قومی المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی کوتاہی اپنی کمزوری اپنی غلط پالیسی ماننے کو تیار نہیں اگر مانیں تو یہ ہمارے مان کا مسئلہ ہے۔

میرے ایک دیہاتی سیدھا سادا بابا بیٹھ کے ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ ٹی وی پہ مذاکرہ ہو رہا تھا میزبان مہنگائی کا کہہ رہا تھا اور ریٹ دے رہا تھا کہہ رہا تھا قیمتیں اتنی بڑھی ہیں۔نمائیندہ اِدھر اُدھر کی باتیں کر رہا تھا کوئی معقول جواب نہیں دے پا رہا تھا درمیان میں ایک جملہ بولا جس پر دیہاتی چونک پڑا۔جملہ یوں تھا کہ ملک قرضوں پر چل رہا تھا ہم ملک کو اور قوم کو قرضوں سے نجات دلانا چاہتے ہیں۔۔دیہاتی نے چیخ کر مجھ سے کہا بیٹا اگر یہ لوگ ملک کے قرضے چکا رہے ہیں تو ہمیں مہنگائی کی پرواہ نہیں ہم پانچ سو روپے میں ایک کلو گھی خریدنگے بغیر گھی کے کھانا کھائینگے لیکن قرضوں پر زندگی نہیں گزار سکتے۔قرض لینا بے غیرتی بھی ہے بے عزتی بھی ہے۔اس سمے مجھے مرد قلندر کا شعر یاد آیا


مانگنے والا گدا ہے صدقہ مانگے یا خراج
کوئی مانے یا نہ مانے میر و سلطان سب گدا


پھر حکمرانوں کے کچھ نعرے اور دعوے یاد آئے۔۔ہم گھاس کھائینگے لیکن اٹم بم بناینگے۔۔ہم دامن نہیں پھیلاینگے۔۔قرض اُتارو ملک سنوارو۔۔ہم کشکول گدائی توڑینگے۔۔بابا میرے جواب کا انتظار کر رہا تھا۔۔یہ ساری باتیں بابا کے سمجھنے کی نہیں تھیں۔میں نے کہا بابا اس کے لیے بڑی قربانی چاہیے۔۔جاپان پر اٹم بم گرایا گیا۔۔قوم نے عہد کیا کہ دن میں ایک بار کھانا کھائینگے۔بیس سال تک سب نے اس پر عمل کیا حکمران سے لے کر رعایا تک۔۔انقلاب چین کے بعد موزوتنگ ظالم جو ایک معروف شاعر بھی تھا کہا میرے قوم کے لوگو! زندہ رہنے کے لیے کھانا کھاؤ کھانے کے لیے زندہ نہ رہو۔چرچل نے کہا۔۔ہوٹلوں میں پیٹ کاٹنے کے لیے جاؤ پیٹ بھرنے کے لیے نہیں۔یہودیوں نے یہ سبق مسلمانوں سے پڑھا کہ۔۔قوت لا یموت۔۔اتنا کھاؤ کہ مر نہ جاؤ۔۔مگر ہتھیار خریدو دن کے مقابلے میں اپنے آپ کو مضبوط کرو۔۔بابا مسلمانوں نے دنیا کو سسٹم دیے وہ مسلمانوں سے چرایا گیا۔صلیبی جنگوں کا یورپ کو یہ فائدہ ہوا کہ وہاں نشاط ثانیہ آگیا اُنہوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی مسلمانوں سے چرا کر لے گئے یہاں پر اُمت سوگئی وہاں پر مغرب جاگ گیا۔۔بابا ہم قرض لیتے رہینگے اور قرض پر پلتے رہینگے اس لیے کہ ہمارا مان اُلٹا ہے ان کا مان ان کو قرض لینے نہیں دیگا .

ہمارا مان ہمیں اپنی غلطیاں قبول کرنے نہیں دیگا۔ہم اگر قرض نہیں لینگے تو ہمارے بڑے عیاشی کیسے کریں گے۔کسی وزیر خزانے کو ایک غریب کے باورچی خانے میں لاؤ اور اس سے ناشتہ کراؤ۔ایک جاگیردار کی بچی کو عید کے دن ایک مزدور کے گھر لاؤ اور اس کی بچی کے ساتھ عید منانے کا کہو۔ایک کارخانہ دار کو کسی پگڈنڈی پر ایک گھنٹہ پیدل چلنے کا کہو اس کے ہاتھ میں کچھ سامان بھی دے دیدو۔ایک جج کی بیٹی سے کہو کہ وہ بغیر جہیز کے شادی کرے۔۔۔بابا یہ ناممکنات ہیں۔ یہ لوگ ایسا نہیں کر سکتے نہ یہ قربانی دے سکتے ہیں۔ یہ سب اس قرض کے شاخسانے ہیں اگر قرض نہ ہوگا تو ان کا بھرم کھل جائیگا بابا ان کا مان ٹوٹ جائے گا۔

کرپٹ اپنی کرپشن چھپایے گا اقرار نہیں کرے گا کام چور اپنی کام چوری چھپائیگا اقرار نہیں کرے گا کیونکہ مان کا مسئلہ ہے بابا۔۔اگر پوری قوم قربانی دینے پہ تیار ہوجائے تو پہلی قربانی بڑوں کو دینی ہوگی۔۔ان کو اپنی رنگینیوں اور عیاشیوں سے کنارا کرنا ہوگا۔۔مگر ایسا نہیں ہوسکتا بابا ان کا مان ٹوٹ جائے گا۔ اگر یہ سوال ٹی وی کا میزبان مہمان سے پوچھے کہ صاحب یہ ٹیکس کے پیسے یہ ریوینو ملکی پیداوار یہ کارخانے یہ دریا سمندر یہ بندرگاہیں یہ دوسرے ملکوں میں بڑے فائدہ مند ہوا کرتے ہیں ہمارے ہاں کیوں نہیں۔۔مان کا مسئلہ ہے کوئی معقول جواب نہیں آئے گا۔۔۔۔۔بابا سب مان کا مسئلہ ہے تماشا دیکھو۔۔۔ایک کلو گھی کی قیمت کہاں تک جاتی ہے۔۔ملک کے پیسے باہر لیجانے والوں کے پاس اس کا کیا جواب ہو سکتا ہے۔۔آئیں بائیں شایں ہی ہوگا۔۔۔بابا مان کا مسئلہ ہے

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
51868

افغانستان میں پرائیوٹ کنٹریکٹر ز کا مستقبل؟ ۔ قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

افغانستان میں پرائیوٹ کنٹریکٹر ز کا مستقبل؟ ۔ قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

 افغانستان میں ہزاروں افغانی پرائیوٹ کنٹریکٹر زکے ساتھ آگے کیا ہوگا،انہوں نے تو اپنا مستقبل یورپ، برطانیہ اور امریکہ کے کہنے پر داؤ میں لگا دیا تھا کہ شائد یہ ممالک ہمیشہ کے لئے افغانستان پر قابض رہیں گے یا پھر ان کے شہروں کو نیویارک، لندن، پیرس اور برلن بنا دیں گے لیکن مسئلہ پیدا ہوگیا کہ سب  کو امریکہ میں نہیں رکھا جاسکتا اور دنیا کے دوسرے ممالک بھی محتاط ہیں لیکن پاکستان سمیت وسط ایشائی ممالک پر دباؤ بڑھا یا جارہا ہے کہ مہاجرین کے علاوہ ان کے لئے کام کرنے والے،(جاسوسوں) کو بھی مکمل سیکورٹی کے ساتھ پناہ دی جائے۔ یورپ اور امریکہ کا یہ مطالبہ دراصل زمینی حقائق کے برخلاف، مزاج اور سوچیں حتیٰ کہ افغانستان میں طبقاتی تفریق کا سبب بنتا جارہا ہے کیونکہ 31 اگست تک ممکن نہیں کہ کابل میں موجود تمام پرائیوٹ کنٹریکٹرز کا انخلا کردیا جائے، بلکہ اطلاعات ہیں پاکستان سمیت افغانستان کے دوسرے حصوں سے بھی بڑی تعداد نے کابل ائیر پورٹ کا رخ کیاہے،چونکہ افغان طالبان کا رویہ(تاحال) مثبت ہے اس لئے انہیں ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں جانے کے لئے مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اقوام متحدہ کا یہ کہنا اس حد تک درست ہے کہ افغانستان میں ایک انسانی المیہ جنم لے رہا ہے، تو اس کا ذمے دار صرف امریکہ ہی نہیں بلکہ یورپ، برطانیہ سمیت وہ عالمی قوتیں ہیں جو سلامتی کونسل میں بیٹھ کر کسی بھی ملک پر الزام لگانے کے بعد اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ہیں اور مقصد پورا ہونے کے بعد خراماں خراماں چل دیتے ہیں۔


 پرائیوٹ کنٹریکٹرز کو ٹرانسفر کرانے کے لئے 31 اگست کی ڈیڈ لائن ناکافی تصور کی جا رہی ہے، اس کی واحد وجہ یہی ہے کہ انہوں نے اپنے سفارت خانے بند اور عملہ واپس بلا کر کمرشل فلائٹس پر بھی پابندی عائد کردی  اور جوکنٹریکٹرز ڈیلی ویجز یا مخبری کی مد میں انعام کی لالچ  کے لئے کام کرتے تھے، انہیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے کا حتمی فیصلہ بھی کرلیا۔ کابل ائیر پورٹ کے مناظر باعث عبرت اُن لوگوں کے لئے ہیں، جنہوں نے استعماری قوتوں کے لئے خودکو استعمال کرایا  اور اب انہیں بیکار ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیا گیا، سابق کابل انتظامیہ کی ایک بڑی تعداد کابل کے مکمل ٹیک اوور سے پہلے ہی کمرشل فلائٹس سے بیرون ملک نکلنے میں کامیاب ہوچکی تھی اور ہوش آنے تک پرائیوٹ کنٹریکٹر یہی سمجھتے رہے کہ ان کے ساتھ کئے گئے امریکی وعدے ایفا ہوں گے۔ درحقیقت امریکہ چاہے تو چند دنوں میں ہی کمرشل پروازوں سے پرائیوٹ کنٹریکٹرز کو باہر نکال سکتا ہے، ٹرانزٹ کے لئے پاکستان سمیت عرب ممالک، امریکہ کے ساتھ مکمل تعاون کرنے کے لئے تیار ہیں، لیکن امریکہ کو خود ا ن پرائیوٹ کنٹریکٹرز پر اعتبار نہیں، کیونکہ جو ڈالروں کی لالچ میں مادر وطن اور ضمیر کا سودا کرسکتا ہے تو وہ اُن کے خلاف بھی بھاری رشوت کے عوض، کسی کے لئے بھی استعمال ہوسکتا ہے۔(کابل دھماکے بھی اس کی ایک مثال سمجھی جاسکتی ہے)۔


پرائیوٹ کنٹریکڑز نے افغان طالبان کی سرگرمیوں پر مخبریاں کیں، درست یا غلط معلومات دیں، جن کی اطلاع پر فضائی حملے اور آپریشن کئے گئے اور بے گناہ نہتے عام افغانی بھی جاں بحق ہوئے۔لواحقین جانتے ہیں کہ ان کے بچوں کا قاتل کون اور سہولت کاری کس نے کی، لہذا پرائیوٹ کنٹریکٹرز اس امر سے بھی شدید خوف زدہ ہیں کہ افغان طالبان کی عام معافی کے اعلان کے باوجود لواحقین، روایات کے مطابق ان سے بدلہ ضرور لیں گے، یہ افغانستان سمیت دنیا کے کسی بھی کونے میں چلیں جائیں لیکن ان کا ضمیر، انہیں ہراساں کرتا رہے گا کہ ڈالروں کی لالچ میں انہوں نے امریکہ اور اتحادیوں کو غلط معلومات بھی دیں، جس کے باعث ان گنت افغانی زیر حراست رہے اور سیکڑوں جانوں کا نقصان بھی ہوا۔ یہ ایک بہت بڑا امتحان بن سکتا ہے کہ افغان طالبان کی موجودگی میں ایسے لواحقین انصاف کے لئے، پرائیوٹ کنٹریکٹرز کے خلاف مقدمات دائر کرسکتے ہیں اور ظاہر ہے کہ افغان طالبان جب فیصلہ کریں گے تو اس پر مغرب اور امریکہ نے تو شور مچانا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ افغان طالبان کا عام معافی کا اعلان اپنے خلاف کئے گئے حملوں تک محدود رہے گا لیکن جب مدعی سامنے آکر اپنا ذاتی مقدمہ رکھے گا تو افغان طالبان بھی کچھ نہیں کرسکتے، کیونکہ انہوں نے وہی فیصلہ کرنا ہوگا جو اسلامی قانون کا حکم ہے۔


خارج از امکان نہیں افغان طالبان، امریکہ کو لاسٹ ڈیڈ لائن دینے کے باوجود دنیا میں مثبت تاثر قائم کرنے کے لئے مزید مہلت بھی دے دیں، کیونکہ کابل میں چھ ہزار امریکی اور  600 برطانوی فوج پر  حملہ  کرکے نئی جنگ کی بنیاد رکھنا نہیں چاہیں گے، اس لئے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر پرائیوٹ کنٹریکٹرز کو جانے کی اجازت کے لئے مہلت ملنے کا امکان موجود ہے، اس کے علاوہ بھی یہ ہزاروں کا جمع غفیر کہاں جائے گا، کیا یہ واپس اپنے گھروں میں جاسکتے ہیں، شائد یہ فیصلہ کرنا ان کے لئے مشکل ہوگا کیونکہ ان کی مخفی پہچان اب منکشف ہوچکی، اس لئے ان پر سماجی دباؤ بڑھے گا۔ وسط ایشیائی ممالک انہیں قبول کرنے کے لئے بالکل تیار نہیں، ایران نے پہلے ہی اتنی سخت پابندیاں افغان مہاجرین پر عائد کی ہوئی ہیں، جس کے بعد وہاں امریکی پرائیوٹ کنٹریکٹرز کا رہنا مشکل ہے، ان کے لئے آئیڈیل ملک پاکستان بچ جاتا ہے، جہاں وہ مہاجرین کے ریلے کی صورت میں یا سفارت خانے میں قانونی دستاویزات کی آڑ لے کر آسکتے ہیں۔جہاں پہلے ہی 30 لاکھ سے زائد افغانی ایک عام پاکستانی شہری کے طرح نقل و حرکت کرتے ہیں، لہذا ن کا پاکستان کے کسی بھی علاقے میں چھپ جانا اور نئی شناخت کے ساتھ ایک بار پھر امریکہ اور مغربی ممالک کے لئے سہولت کار بننا خارج از امکان نہیں۔
خیال رہے کہ ان پرائیوٹ کنٹریکٹرز میں بڑی تعداد ایسی بھی موجود ہے جو این ڈی ایس اور را کی فنڈنگ پر پاکستان مخالف منفی پراپیگنڈوں و سرگرمیوں میں متحرک رہے اور افغانستان سے نکلنے کے بعد بھی یہی کام کریں گے، انہیں اس امر کا ڈر تو ہوگا کہ انہیں شناخت نہ کرلیا جائے، لہذا یہ کہنا کہ کابل ائیر پورٹ پر معاشی بدحالی اور افغان طالبان کے خوف سے  انخلا کیا جارہا ہے، تو اس کا اطلاق پورے افغانستان پر ہوگا۔ عالمی اداروں کو 20برس کی جنگ کے خاتمے کے بعد تعمیر نو کے لئے امداد دینی چاہیے تھی لیکن الٹا اربوں ڈالرز منجمد کردایئے۔ عالمی برداری کو سوچنا ہوگا کہ کیا یہ عمل افغانستا ن کے حق میں بہتر ہے؟۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
51866

داد بیداد ۔ آبادی اور ڈاکٹر ۔ تحریر: ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

داد بیداد ۔ آبادی اور ڈاکٹر ۔ تحریر: ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ میں ممبر اقوام کے اندر آبا دی اور ڈاکٹروں کا تنا سب دکھا یا گیا ہے ترقی یا فتہ اقوام اور ترقی سے محروم اقوام کا فرق نما یا ں کیا گیا ہے رپورٹ میں یہ انکشا ف کیا گیا ہے کہ پائیدار ترقی کے اہداف (SDGs) کے مطا بق ہزار نفوس کی آبا دی کے لئے سر کاری ہسپتال کا ایک ڈاکٹر ہو نا چا ہئیے پا کستان میں 2300کی آبا دی کے لئے ہسپتال کے ایک ڈاکٹر کی گنجا ئش رکھی گئی ہے مگر 70فیصد ہسپتا لوں میں ڈاکٹر دستیاب نہیں رپورٹ کی جو موٹی مو ٹی باتیں اردو میں تر جمہ ہو کر اخبا رات کی زینت بن چکی ہیں۔

ان میں یہ بات بھی آئی ہے کہ اصول کے مطا بق ایک ہزار کی آبا دی کے لئے ایک ڈاکٹر کے ساتھ 4نرس ہو نے چا ہئیں لیکن پا کستان میں 1500کی آبا دی کے لئے ایک نرس ہے وہ بھی اُس آبا دی میں واقع ہسپتال میں نہیں بلکہ قواعد وضوابط کے کا غذات میں ہے رپورٹ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ پا کستان میں 110میڈیکل کا لج ہیں ان میں سے صرف 10کا لجوں میں معیاری تعلیم کا انتظام ہے ان میں سے 8سر کاری شعبے میں اور دو نجی شعبے میں ہیں رپورٹ کا یہ حصہ خا صا تشویشنا ک ہے یعنی نجی کا لجوں سے پچا س کروڑ روپے کے عوض ڈگر ی لیکر آنے والا ڈاکٹر دیہا تی علا قے میں غریب اور نا دار بیمار کا علا ج کیوں اور کسطرح کرے گا۔

فیمیل میڈیکل افیسروں کے بارے میں رپورٹ کے اندر ایک اور تشویشنا ک با ت لکھی گئی ہے بات یہ ہے کہ وہ شادی ہوتے ہی اپنے پیشے کو چھوڑ دیتی ہیں ایک اور انکشاف یہ بھی کیا گیا ہے کہ پاکستا نی ڈاکٹر وں میں ملک چھوڑ نے کا رجحا ن دیگر پیشوں کی نسبت زیا دہ ہے ہر تیسرا ڈاکٹر ملک چھوڑ کر با ہر جا نا چا ہتا ہے اگر پوری رپورٹ کا اردو تر جمہ کیا گیا تو اور بھی کئی ایسے حقا ئق سامنے آئینگے جن کو ہم جا نتے ہیں مگر بتا نہیں سکتے مثلا ً یہ کہ 70فیصد یو نین کونسلوں میں 15000کی آبا دی کے لئے ایک بھی ڈاکٹر یا نرس نہیں 80فیصد تحصیل اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوار ٹر ہسپتا لوں میں علا ج کی بنیا دی ضروریا ت دستیاب نہیں۔

سی ٹی سکین، ایم آر آئی، کلچر وغیرہ کے لئے ایمر جنسی مریضوں کو 300کلو میٹر دور بھیجا جا تا ہے اگر چہ اقوام متحدہ کی رپورٹ نے ہمارے نظام صحت کا بھا نڈا پھوڑ کے رکھ دیا ہے مگرا س رپورٹ کی روشنی میں اصلا ح احوال کی کوئی امید نہیں وجہ یہ ہے کہ 1980کے عشرے میں منصو بہ بندی اور ترقی کا کام پیشہ ور ما ہرین اور سر کاری افیسروں سے لیکر سیا ستدا نوں کو سونپ دیا گیا ہے سیا ست دا نوں کے ہاں فائل پڑھنے، مشاورت کرنے اور بنیا دی مسا ئل سے آگا ہی حا صل کر نے کا کلچر نہیں ہے اس لئے زندگی کے ہر شعبے میں بنیا دی مسا ئل پر تو جہ دینے کا رواج اور دستور نہیں رہا ۔

محکمہ صحت کو سما جی شعبے کا اہم محکمہ قرار دیا جا تا ہے سما جی شعبے کے کا م کا بڑا حصہ اس شعبے میں انجام پا تا ہے ایک سرکاری ہسپتا ل آر ایچ سی مستوج کو جا پا ن کی حکومت نے ایکسیرے پلا نٹ کا عطیہ دیا یہ پلانٹ 22سال استعمال کے بغیر پڑا رہا 22سال بعد ایک غیر سر کاری تنظیم نے اس پلا نٹ سے کا م لیا ڈسٹرکٹ ہیڈ کوار ٹر ہسپتال چترال کو 2011ء میں ایک غیر سر کاری تنظیم نے کچرا جلا نے کا پلا نٹ انسی نیر یٹر (Incinerator)عطیہ دیا گذشتہ 10سالوں سے استعمال کے بغیر پڑا ہے اس کی تکنیک سے واقفیت رکھنے والے ما ہرین کہتے ہیں کہ ایک سال بعد یہ پلا نٹ قابل استعمال نہیں رہے گا۔

اقوام متحدہ کی سروے ٹیم کو اگر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوار ٹر ہسپتالوں کا دورہ کرا یا جا تا تو معلوم ہو تا کہ ان میں سے 50فیصد ہسپتا لوں میں گندے پا نی کے نکا سی کا بندوبست نہیں مریضوں کے وارڈ سے ملحق کوئی واش روم قا بل استعمال نہیں یہ بنیا دی ضروریات ہیں ان پر کوئی تو جہ نہیں دیتا بڑی خرابی یہ ہے کہ اختیار ات فیلڈ افیسروں سے لیکر ڈویژنل ہیڈ کوار ٹر اور صو با ئی ہیڈ کوار ٹر کو دے دیے گئے ہیں فیلڈ افیسر نہ معا ئینہ کر سکتے ہیں نہ رپورٹ لکھ سکتے ہیں نہ بنیا دی ضروریات اور سہو لیات کا مطا لبہ کر سکتے ہیں پورا سسٹم ہوا میں معلق ہے۔

شکر ہے اقوام متحدہ کی سروے ٹیم نے یو نین کو نسل، تحصیل اور ضلع کی سطح پر جا کر اعداد شمار جمع نہیں کئیے ورنہ ہماری حکومت کے لئے مزید بد نا می کا با عث بنتی۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
51863

پاکستان ، افغانستان اور وسطی ایشیاء پر مشتمل ایک اسلامی ریاست – غزالی فاروق

پاکستان ، افغانستان اور وسطی ایشیاء پر مشتمل ایک اسلامی ریاست – غزالی فاروق

جب افغان مجاہدین کابل میں داخل ہوئے  تو مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی  جبکہ امریکہ جلدی میں اپنے سفارتی عملے کو کابل سے نکال کر اپنا سفارت خانہ خالی کررہا تھا اور افغانستان کا کٹھ پتلی حکمران اشرف غنی ملک سے فرار ہو چکا تھا۔  چند ہزار ہلکے ہتھیاروں سے مسلح مجاہدین نے تیسری استعماری طاقت ،امریکہ کے غرور کو اپنے قدموں تلے روند ڈالا،بالکل ویسے ہی جیسے اس علاقے کے  مجاہدین نے برطانوی سلطنت اور پھر سوویت روس کے غرور کو خاک میں ملایا تھا۔

وقت کی سپر پاور امریکہ کے خلاف یہ فتح دراصل افغانستان اور پاکستان، دونوں میں بسنے والے مسلمانوں کی فتح ہے جو افغانستان پر امریکہ کے قبضے کے سخت خلاف تھے اور  مجاہدین کی ہر ممکن مددوحمایت کر رہے تھے۔ لیکن اس وقت پاکستان کے مسلمانوں کو افغانستان کے مسلمانوں سے جو چیز الگ  کرتی ہے وہ “ڈیورینڈ  لائن” (Durand Line)ہے ۔   یہ  وہ سرحد ہے جس کی بنیاد 1893ء میں برصغیر میں قائم برطانوی راج کے سیکرٹری خارجہ مورٹمر ڈیورنڈ (Mortimer Durand)نے رکھی تھی۔ پھر اس سرحد کو 1919 ء میں برطانیہ اور افغانستان کے درمیان لڑی جانے والی تیسری جنگ کے نتیجے میں مستقل حیثیت دے دی گئی۔اس سرحد کا قیام برطانوی راج کی جانب سے اس بات کا اعتراف تھا کہ وہ افغانستان کے  علاقے کے مسلمانوں کے خلاف   تین  جنگیں لڑنے کے باوجود  اس  سرحد  پار کے علاقوں کو فتح نہیں کر سکا تھا ۔ لہٰذا جہاں تک وہ فتح کر سکا وہ علاقے ڈیورنڈ لائن کے  ایک طرف  قائم  برطانوی راج کے زیر اثر   آ گئے ،جبکہ باقی علاقے اس  سرحد کی دوسری جانب  رہے،اس سے قطع نظر کہ اس سرحد کے  دونوں  اطراف پر  پشتون مسلمان ہی آباد تھے، جن کی آپس میں رشتے داریاں تھیں۔ لہٰذا یہ اپنی نوعیت کی  ایک نہایت  غیر فطری  اور مصنوعی سرحد تھی۔   برصغیر کی تقسیم کے موقع پر جب برطانیہ یہاں سے نکلا تو    انگریز کی کھینچی ہوئی یہ لکیر اسی طرح قائم رہی اور  آج کی تاریخ تک یہ اسی طرح قائم چلی آ رہی ہے۔

آج جبکہ امریکہ ایک ذلت آمیز شکست سے دوچار ہو کر افغانستان سے بھاگ اٹھا ہے اور افغانستان مکمل طور پر مسلمانوں کی اتھارٹی تلے آ گیا ہے تو اس بات کا آخر کیا جواز باقی رہتا ہے کہ مسلمانوں کے دو آزاد علاقے ایک دوسرے سے جُڑے ہونے کے باوجود استعمار کی تراشی ہوئی  غیر فطری اور مصنوعی  سرحدوں کو اختیار کیے رکھیں؟اسی طرح جب وسطی ایشیاء کے مسلم علاقوں  کو 1991ء کے بعد سوویٹ  یونین سے آزادی حاصل ہو گئی  اور آج وہ  طور پر مسلمانوں کی اتھارٹی  کے نیچے ہیں  تو  آخر ایسا کیوں نہ ہو کہ پاکستان، افغانستان اور وسطی ایشیاء  کے علاقوں پر  مشتمل ایک بڑی اسلامی ریاست  کو قائم  کیا جائے ، جو نہ صرف    خطے میں بلکہ   پوری دنیا میں ایک  عالمگیر طاقت  بن کر  ابھرے  ؟

اگر ہم    ان علاقوں  میں موجود قدرتی وسائل کا جائزہ لیں تو  جہاں ایک طرف ایٹمی صلاحیت سے لیس پاکستان  اللہ سبحانہ و تعالیٰ  کے فضل و کرم سے   زراعت اور معدنیات پر مشتمل ان گنت وسائل سے مالا مال ہے  ، جن  کو آج تک  پاکستان کی کسی سیاسی یا فوجی  حکومت نے  صحیح معنوں میں خطے کے مسلمانوں کو مضبوط بنانے کے لیے استعمال   نہیں کیا، تو دوسری جانب  افغانستان  کی سرزمین بھی     بے شمار معدنیات  اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔14 جون 2010 کو نیو یارک ٹائمز کی جانب سے  شائع کردہ ایک رپورٹ  کے مطابق  امریکی پینٹاگون کے سرکاری اہلکاروں  اور جیولوجی  کے ماہرین پر مشتمل  ایک گروہ نے    یہ حساب  لگایا تھا کہ افغانستان جس سرزمین پر موجود ہے  ، وہ  ایک ٹرلین ڈالر   کی مالیت  کے   معدنیاتی ذخائر   کی حامل ہے  ۔ ان معدنیات  میں لوہا، تانبا، سونا ،  کوبالٹ، نیوبیم اور نایاب زمینی اجزاء (rare earth elements)  بھاری مقدار  میں موجود ہیں۔ لیتھیم کی مقدار اس قدر پائی گئی کہ افغانستان کو ” لیتھیم کا سعودی عرب” بھی کہا گیا۔

ان سب معدنیات کی موجودہ اور آنے والے دور میں اہمیت کا اندازہ ان کے استعمالات سے بخوبی    لگایا جا سکتا ہے ۔ سونے اور لوہے کے بارے میں تو  کیا کہنا،   تانبے کا استعمال بجلی کی تاروں میں  اور  الیکٹرانکس میں ہوتا ہے۔  کوبالٹ اور لیتھیم   کا استعمال   ریچارج ایبل بیٹریوں اور الیکٹرک گاڑیوں میں  ہوتا ہے جبکہ  نیوبیم    ایک خاص قسم کے  سٹین لیس سٹیل میں استعمال ہوتا ہے۔   نایاب زمینی اجزاء (rare earth elements)   آپٹیکل فائر کیبل میں استعمال ہوتے ہیں ،جو  جدید مواصلاتی نظام کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔  یہ تمام معدنیات وہ  ہیں جن کی پوری دنیا میں اس وقت بھی   اشد ضرورت ہے  اور مستقبل قریب میں ان کی      ضرورت میں ہوشربا اضافہ    ہونے کے واضح قرائن موجود ہیں۔ افغانستان میں یہ سروے پہلے سوویت یونین نے 80 کی دہائی میں  شروع کیے جب افغانستان   پر اس کا قبضہ تھا۔  امریکہ  کو روس  کے چھوڑے ہوئے  نتائج 2004ء میں کابل کی ایک لائبریری سے دریافت ہوئے۔  امریکہ نے ان تحقیقات کو   آگے بڑھاتے ہوئے جدید آلات کے ذریعے افغانستان کے 70فیصد علاقے کا سروے کیا اور پھر 2010ء میں بالآخر  ان حیران کن نتائج  کا انکشاف کیا۔ 

جہاں تک وسطی ایشیائی ممالک کی بات ہے تو   90 کی دہائی میں  ترکمانستان سے لے کر  پاکستان کے بحیرۂ عرب تک براستہ افغانستان، تیل کی  ایک ہزار میل لمبی   ایک پائپ لائن  بچھائے جانے  کا  منصوبہ بنایا گیا تھا، جو روزانہ  ایک ملین بیرل  کے تیل  کی ترسیل کے قابل ہو گی۔ یہ صرف ان  بیش قیمت وسائل کی ایک ہلکی سی جھلک ہے  جن   سے یہ تمام علاقہ مالا مال ہے۔ 

یوں پاکستان ، افغانستان اور وسطی ایشیاء  کے مسلمان مل کر ایک ایسی مضبوط ریاست  کو تشکیل دے سکتے ہیں، جو وسائل کے لحاظ سے خودکفیل ہو گی اور نہ صرف بھارت کے علاقائی عزائم کا خاتمہ کر سکے گی بلکہ عالمی سطح پر ایک بڑی ریاست کی شکل میں ابھرے گی۔  جس قسم کی کھلی اور  ذلت آمیز  شکست سے  امریکہ دو دہائیوں تک مسلسل جنگ لڑنے کے بعد  طالبان کے ہاتھوں  دوچار ہوا  ہے، تو یہ بات واضح ہے کہ اس کی افواج کے لیے مسلمانوں کی وحدت کے سلسلے میں اٹھائے گئے اس اقدام کے خلاف دوبارہ اس خطے کا رخ کرنا بعید از قیاس ہے،  جیسے  برطانوی راج اور سوویت روس نے افغانستان سے اپنے فوجی انخلا ء کے بعد کبھی دوبارہ اس خطے میں واپس آکر قدم جمانے کی ہمت نہیں کی ۔

 لہٰذا جس طرح امریکہ افغانستان سے  نکلا ہے کہ اس کا نام و نشان تک  بھی  اب   وہاں باقی نہیں رہا ،  آج ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان  بھی امریکہ کو اپنے ملک سے ہر شکل میں نکال باہر کرے۔ اس کے لیےضروری ہے کہ  امریکہ کے ساتھ طے پائے گئے اے ایل او سی (ALOC)اور جی ایل او سی (GLOC) جیسے معاہدات  کا خاتمہ کیا جائے   جن کے تحت امریکہ کو پاکستان کی  زمینی اور فضائی حدود استعمال کرنے کی   اجازت  ہے۔  کیونکہ یہ حدود  خطے میں امریکہ کے علاقائی ڈھانچے کو برقرار رکھنے کے لیے شہ رگ کا کام کرتی ہیں۔ جب تک پاکستان کی  جانب سے امریکہ کو یہ  زمینی وفضائی گزرگاہیں میسر رہیں گی، خطے میں امریکہ کی  شر انگیز موجودگی برقرار رہے گی اور  نتیجتاً اس کے دوبارہ پھلنے  پھولنے کی صلاحیت  بھی برقرار رہے گی ۔

اس کے   ساتھ  یہ بھی ضروری ہے کہ  پاکستان  میں امریکی سفارت خانے اور قونصل خانے  کے تحت کام کرنے والے  امریکہ کے حساس ادارے   سی آئی اے(CIA) کے نیٹ ورکس  کا ملک بھر سے   خاتمہ  کیا جائے۔ یہ امریکہ کی وہ آنکھیں ہیں جو دن رات چوبیس گھنٹے پوری طرح کھلی رہتی ہیں اور جاسوسی کا کام سر انجام دیتی رہتی ہیں ۔ جب تک پاکستان اپنے ملک میں   انہیں کام کرنے کی اجازت دیئے رکھے گا، ہماری  خفیہ اور حساس  فوجی اور انٹیلی جنس مواصلات کبھی بھی محفوظ نہیں رہ سکیں گی، اور یہ  نیٹ ورکس امریکہ کو اس قابل بنائے رکھیں گے  کہ وہ خطے میں اپنی   موجودگی برقرار رکھے، جو کسی بھی طرح سے اس خطے کے مسلمانوں کے لیے نفع بخش نہیں ۔

 پھر مزید یہ کہ   پاکستان  کو  امریکہ کے لیے  سہولت کار کا کردار ادا کرنے   سے بھی  رکنا ہو گا۔ اور  افغان طالبان سے ایسے  مذاکرات کو بھی ترک کرنا   ہو گا، جن کا مقصد محض  طالبان سے امریکہ کے مطالبات منوانے کی کوشش کرنا ہے ۔ مذاکرات امریکہ کا ایک پُرفریب طریقہ کار ہے  جسے وہ  اپنے دشمن  کو نقصان پہنچانے اور اُس سے اپنے لیے مراعات حاصل کرنے  کے لیے استعمال کرتا ہے۔  اور وہ  طریقہ یہ  اُس وقت استعمال کرتا ہے  جب اسے  اس بات کا یقین ہوجاتا ہے کہ  اس کا حریف   اس پوزیشن میں ہے کہ وہ بغیر کوئی مراعات دیے اور بغیر کوئی نقصان اٹھائے، اُس سے اپنا حق  واپس لے  سکتا ہے۔  اس لیے  جب تک پاکستان مذاکرات میں امریکہ کی خاطر سہولت کار کا کردار ادا کرتا رہے گا،   دشمن  کو یہ موقع ملتا رہے گا کہ وہ  گھر  کے سامنے کے دروازے سے نکل کر پچھلے دروازے سے دوبارہ داخل ہوجائے۔

 مسلمانوں کی  طاقت کا   راز   کفار  سے اتحاد کرنے اور اُن پر انحصار کرنے میں نہیں ہے ، چاہے وہ  مشرق میں  روس اور چین ہوں  یا مغرب میں امریکہ و برطانیہ ۔  مسلمانوں کی طاقت کا  راز  آپسی بھائی چارے اور امتِ مسلمہ کی وحدت میں  ہے ، اور  ایک ریاست کی شکل میں   ہے جہاں مسلم علاقوں کی افواج اور ان کے مادی و معاشی وسائل، سب مجموعی طور پر  ایک ریاست کی شکل میں   یکجا ہوں۔ اب یہ پاکستان کے حقیقی حکمرانوں  پر ہے کہ آیا وہ امریکہ کے قائم کردہ قومی ریاستی ویسٹ فیلی (Westphalian) ماڈل کے ساتھ ہی چمٹے رہتے ہیں یا   وہ اِس ڈیورنڈ لائن  نام کی مصنوعی سرحد کو مٹا کر  مسلمانوں کی  قوت کو  ایک ریاست  تلے  اکٹھا کرتے ہیں  اور پھر  وسطی ایشائی ممالک تک وسعت دے کر  اس ریاست کو  ایک عالمی طاقت کے طور پر کھڑا کرتے ہیں،جو کشمیر و فلسطین سمیت مسلمانوں کے تمام مقبوضہ علاقوں کو آزاد  کرائے  اور پوری دنیا میں اسلام پر مبنی عدل کی علمبردار بنے ۔

pak afghan central asian islamic countries
Posted in تازہ ترین, مضامین
51853

سیاحوں کے لئے ہوم سٹے پراجیکٹ ۔ محمد شریف شکیب

خیبرپختونخوا کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی نے صوبے میں سیاحوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر نئے سیاحتی مقامات کی آباد کاری اور کیمپنگ پاڈز کے پراجیکٹ کو مزید بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے موجودہ سیاحتی مقامات پر مقامی افراد کو روزگار کے مواقع کی فراہمی اور سیاحوں کوگھر جیسا ماحول فراہم کرنے کیلئے ہوم سٹے پراجیکٹ کیلئے قرضہ دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ڈائریکٹر جنرل کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی کا کہنا ہے کہ محکمہ سیاحت کے زیر اہتمام صوبے میں پانچ مقامات پر کیمپنگ پاڈز کا پراجیکٹ توقع سے زیادہ کامیاب رہا ہے۔سیاحوں کا رش بڑھنے کی وجہ سے پانچ نئے سیاحتی مقامات پر کیمپنگ پاڈز نصب کئے گئے ہیں جن میں بمبوریت وادی کالاش چترال، الائی بٹگرام، مہابن اور مالکہ بونیراور شہید سر شامل ہیں.

صوبے میں دس نئے سیاحتی مقامات کا بھی تعین کیا گیا ہے جہاں پر جلد کیمپنگ پاڈز نصب کئے جائینگے جن میں جاروگو واٹر فال اور صولاتنڑ سوات، لشکرگاز بروغل چترال، سورلاسپور چترال، کمراٹ دیر اپر، کالام سوات، الپوری شانگلہ، ثما نا ٹاپ ہنگو، لڑم ٹاپ دیرلوئراور بن شاہی دیر لوئر شامل ہیں۔سیاحت کو فروغ دینے کے لئے ہوم سٹے پراجیکٹ ایک منفرد اور اچھوتا آئیڈیا ہے۔ جس کے تحت خیبر بینک کے تعاون سے سیاحتی مقامات کے لوگوں کو قرضہ فراہم کیا جائے گا۔مقامی لوگ اس قرضے سے اپنے گھروں میں ایک کمرہ حکومتی ڈیزائن کے مطابق تعمیر کریں گے اس کمرے میں سیاحوں کو تمام بنیادی سہولیات کے ساتھ رہائش فراہم کی جائے گی۔

گھر میں رہائش پذیر سیاحوں کو روایتی اور ان کی پسند کے کھانے فراہم کئے جائیں گے جن کے لئے وہ ادائیگی کریں گے۔ اپنے گھر کا ایک کمرہ سیاحوں کو کرائے پر دینے اور انہیں قیام کے ساتھ طعام کی سہولت دینے سے جہاں مقامی لوگوں کے لئے آمدن کے ذرائع پیدا ہوں گے اور ان کا معیار زندگی بہتر ہوگا وہیں ملکی اور غیر ملکی سیاحوں خصوصاً فیملی کے ساتھ سیاحت کے لئے آنے والوں کو رہائش کی معیاری سہولیات میسر آئیں گی جس سے سیاحت میں کئی گنا اضافہ ہوسکتا ہے۔

قدرت نے اس صوبے کو حسن فطرت سے مالامال کیا ہے۔ یہاں درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں ایسے سیاحتی مقامات ہیں جن کے بارے میں صرف مقامی لوگ جانتے ہیں ان پوشیدہ سیاحتی مقامات کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔جہاں قدرتی ماحول کا نظارہ کرنے والوں کی دلچسپی کا ہر سامان موجود ہے۔ یہاں گلیشئیر بھی ہیں ٹھنڈے میٹھے پانی کے چشمے بھی ہیں۔ بہت سے پہاڑی مقامات پر گرم پانی کے چشمے بھی بہتے ہیں۔ گھنے جنگلات اور انواع و اقسام کی نایاب جنگلی حیات بھی یہاں پائی جاتی ہے۔ یہاں بلند و بالا آبشار، گنگناتی ندیاں اور سرسبز لہلہاتے کھیت کھلیان بھی ہیں۔ نئے سیاحتی مقامات کا کھوج لگانے کے ساتھ صوبائی حکومت اگر مقامی تہواروں کو سپانسر کرے تو ہزاروں سیاحوں کو ان تہواروں میں شرکت پر مائل کیا جاسکتا ہے۔ بہت سے مقامی تہوار متروک بھی ہوچکے ہیں محکمہ سیاحت ان کی بحالی پراگر توجہ مرکوز کرے تو اس خطے کی ثقافت کی احیاء کے ساتھ سیاحوں کو ان منفرد تقریبات میں شرکت پر راغب کیا جاسکتا ہے۔

محکمہ سیاحت نے عالمی بینک کے تعاون سے کائیٹ پراجیکٹ کے تحت چترال،ایبٹ آباد،مانسہرہ اور دیر اپر میں کنٹینر بیس سہولت سنٹربھی تعمیر کرر ہا ہے جہاں سیاحوں کوہنگامی امداد کی سہولیات میسر ہونگی۔عید الاضحی کے دوران لاکھوں افراد نے ملک کے مختلف علاقوں سے خیبر پختونخوا کے سیاحتی مقامات کی سیرکی۔ ان سیاحوں نے ٹرانسپورٹ، رہائش اور قیام و طعام کے علاوہ مقامی مصنوعات کی خریداری پر چار دنوں میں 66ارب روپے خرچ کئے جن سے صوبائی حکومت کو 26ارب روپے کی آمدنی ہوئی۔ مزید سیاحتی مقامات کھولنے اور وہاں سیاحوں کو بنیادی سہولیات اور سیکورٹی فراہم کرنے سے صوبے کو اربوں کی آمدنی ہو سکتی ہے۔

یہ بات طے ہے کہ صوبائی حکومت سیاحت پر جتنی بھی سرمایہ کاری کرے گی۔ وہ رقم ایک سال کے اندرریکور ہوسکتی ہے۔ اس سے بہتر سرمایہ کاری کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔یہ حقیقت ہے کہ خیبر پختونخوا کا خوشحال مستقبل سیاحت سے وابستہ ہے۔ جس کا ادراک موجودہ صوبائی حکومت کو بھی ہے۔ حکومت نے سیاحتی مقامات تک سڑکوں کی تعمیر، چیئرلفٹس کی تنصیب اور کیمپنگ پاڈز لگانے کے جو اعلانات کئے ہیں ان پر فوری عمل درآمدضروری ہے تاکہ حکومت جو فصل بو رہی ہے اس کے ثمرات بھی موجودہ حکومت کے دور میں ہی عوام تک پہنچ سکیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
51825

ایک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی – تلخ و شیریں، نثار احمد

ایک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی – تلخ و شیریں، نثار احمد

جب بھی علمی حوالے سے ملک گیر یا عالم گیر شہرت یافتہ عالم دین کی دنیا سے رخصتی کی جان گسل خبر پھیل جاتی ہے تو علمی حلقوں اور اصحابِ علم میں “موت العالِم موت العالم” ، “ناقابلِ تلافی نقصان” اور “خلا تادیر پُر نہیں ہو گا” جیسے جملوں کا تذکرہ و تبادلہ رسما ً ہوتا ہے لیکن بعض علمی ہستیاں فی الواقع ایسی ہوتی ہیں جن کے بچھڑنے پر مذکورہ جملے انتہائی گہرے معانی و مفاہیم کے ساتھ دماغ کی اسکرین پر قیامت ڈھاتے ہیں۔


کل علی الصبح عزیز و اقارب کو الوادع کہہ کر سفر آخرت پر روانہ ہونے والے مفتی فیض الرحمن عثمانی بھی انہی جلیل القدر علماء کرام میں سے تھے جن کی وفات سے پیدا ہونے والا علمی خلا تادیر پر نہیں ہو سکے گا۔ کل جیسے ہی مولانا صاحب کے وفات کی خبر موبائل پر سنی بخدا دل و دماغ کو سخت قسم کی یاسیت نے جکڑ لیا۔ ایسا لگا کہ کاش مولانا صاحب کو چند سال اور ملتے تو مولانا صاحب اپنے مزید منصوبوں کی تکمیل کرتے۔ بہرحال تقدیر کے آگے پہلے کس کی چلی ہے؟ جو اب چلتی۔

ا گرچہ مفتی فیض الرحمن عثمانی رحمہ اللّٰہ مذہبیات پر دقیق نظر رکھنے والے ایک مایا ناز عالم دین تھے اور ان گنت کمالات سے متصف ایک عظیم انسان بھی۔ لیکن ان کی اصل وجہ ِ شہرت ان کا قائم کردہ مدرسہ “ادارہ علوم اسلامی” بنا۔ اس مدرسے کو باقی روایتی دینی مدارس سے الگ تعارف و شناخت اور منفرد اہمیت اس لیے حاصل رہی کہ اس میں ایک ہی چھت تلے مکمل درس نظامی بھی پڑھایا جاتا ہے اور بی اے تک باقاعدہ طریقے سے سکول و کالج کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ یوں یہ عدیم النظیر علمی ادارہ گزشتہ دو ڈھائی عشروں سے معاشرے کی ضرورت کے مطابق افراد سازی کے عالی مشن پر عمل پیرا ہے۔


یہ مولانا فیض عثمانی رح کا حددرجہ اخلاص اور اپنے مشن کے ساتھ کمال کی وابستگی تھی کہ آپ دینی و عصری علوم کے حسین امتزاج کے ساتھ اس وقت میدانِ عمل میں اترے جب ہمارے روایتی مدارس میں عصری علوم کا نام لینا بھی گناہ سمجھا جاتا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب درس نظامی کے ساتھ ضمناً عصری علوم پڑھانے کی خواہش کو “مرعوبیت” ، “سازش” اور گمراہی جیسے الفاظ کے طعنے سننے اور سہنے کو ملتے تھے۔ باقی مدارس کو چھوڑیے، کافی جدید اور وسیع الفکر سمجھے جانے والے دارالعلوم کراچی کورنگی جیسے عظیم ادارے میں بھی ہم ظہر کے وقت پرچے کا گتا سفید رومال میں لپیٹے چھپکے سے کھسک جاتے تھے انٹر کے پیپرز میں شریک ہونے کے لیے۔ کہ مبادا کس کو پتہ چلے اور ہماری سرزنش ہو۔ بعد ازاں انہی دنوں دارالعلوم کراچی میں اس مسئلے کا حل یہ نکالا گیا جو طالب علم گزشتہ درجے میں ستر فی صد نمبروں کے ساتھ کامیاب ہوا ہو گا اسے امتحان دینے کی اجازت بھی ملے گی اور پرچوں کے لیے چھٹی بھی۔ یوں دارلعلوم میں امتحان دینے کے لیے اجازت ملنے کا محمود سلسلہ شروع ہوا۔باقی مدارس میں تب صورت حال انتہائی پتلی تھی اب اللہ جانے۔


یہ مولانا رح کا پہاڑ جیسا عزم اور چٹان جیسا ارادہ ہی تھا کہ اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے آپ نے اسلام آباد میں ایسے ادارے کی داغ بیل ڈالی جس میں قدیم و جدید علوم کو کسی نہ کسی حد تک یکجا کرنے کی کوشش کی۔ اس نئی سمت میں علمی سفر کا آغاز کرنے کے بعد آپ کے قائم کردہ ادارے نے پے در پے علمی فتوحات کے ایسے جھنڈے گاڑے کہ مخالفت کرنے والے بھی ان کی کامیابیوں پر رشک کرنے لگے۔ ورنہ ناقدین کی طرف سے عام طور پر ایسی صورت حال میں ایک رٹی رٹائی جملے کی جگالی ہوتی تھی کہ دو کشتیوں پر پاؤں رکھنے والا ادھر کا رہتا ہے نہ ادھر کا۔


ادارہ علومِ اسلامی میں جہاں ایک طرف پورا درس نظامی پڑھایا جاتا ہے وہاں دوسری طرف بی اے تک کی عصری تعلیم بھی باقاعدہ دی جاتی ہے درس نظامی کے امتحانات وفاق المدارس العربیہ، جبکہ میٹرک اور ایف اے کے امتحانات فیڈرل بورڈ لیتا ہے۔ بی اے کے لیے ادارے کا انسلاک پنجاب یونیورسٹی سے ہے۔


بورڈ میں پیپر دینے والے یہ طلبا دوسرے سکول و کالج والوں سے ہر گز پیچھے نہیں ہیں۔ بلکہ فیڈرل بورڈ کے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں زیادہ تر پوزیشنز ادارہ علومِ اسلامی کے طلبا کی آتی ہیں۔ ایک دفعہ ایسا بھی ہوا کہ شروع کی پندرہ پوزیشن اسی ادارے کے طلبا کے حصے میں آئیں۔ یقیناً یہ ناقابلِ فراموش ریکارڈ اور قابلِ ستائش کارنامہ ہے۔ اسی طرح علمی رسوخ اور تعلیمی قابلیت میں بھی ادارہ علومِ اسلامی کے طالب علم دیگر روایتی مدارس کے طالب علموں سے اگر اگے نہیں ہیں، تو پیچھے بھی نہیں ہیں۔
مجھے مولانا رح سے عقیدت کی حد محبت تھی یہ محبت اس لیے بھی تھی مولانا ایک زمانہ ساز انسان تھے۔

آپ پہلے سے تراشیدہ لکیروں پر چلنے کی بجائے خود سے لکیریں تراشنے پر یقین رکھتے تھے۔ ایسے زمانہ ساز شخصیات کے ساتھ سب سے بڑا ظلم یہ ہوتا ہے کہ خود زمانہ ان کی قدر نہیں کرتا۔ ایسے نابغوں کو روایتی علمی حلقوں میں وہ مقام نہیں دیا جاتا جس کے یہ مستحق ہوتے ہیں ان کے کاموں کی حوصلہ افزائی کی بجائے حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ ان کے ویژن کا تمسخر کیا جاتا ہے اگر چہ بعد ازاں پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہنے کے بعد لوگوں کو بہت کچھ سمجھ بھی آتا ہے۔ ان سے عقیدت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہ ان مہتممن میں سے تھے جو اپنی جیب سے مدرسے میں لگاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔


کیا ہی اچھا ہوتا جب کوئی سال ڈیڑھ سال پہلے مولانا رح اپنے سمدھی مولانا خلیق الزمان صاحب کے ہاں تشریف لائے تھے تو ان سے تفصیلی ملاقات ہو جاتی۔ ہماری حرمان نصیبی ہی سمجھئے کہ حاضر ِ خدمت نہیں ہو سکے۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51820

لاہور واقعہ – صوفی محمد اسلم

14اگست 2021 شام کے 06بجے عائیشہ اکرام بیگ نامی ایک ٹک ٹوکر لاہوراقبال پارک میں اپنے چند ٹیم ممبرز کے ساتھ داخل ہوتی ہے۔ ٹک ٹوک ویڈیو بنانے اور مداحوں سے سلفی لینے میں مصروف ہوجاتی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک بڑا ہجوم  اسے گھیر لیتی ہے۔ شرارتی لڑکوں  نے اس کی جسم پر ہاتھ پھیرنے نے لگتے ہیں،اس کو ہوا میں اچھالی جاتی ہے ، گسیٹا گیا، اسے کے کپڑے پھاڑے گئے۔ اس کے جسم کو نوچھا گیا۔ اس واقعہ کا ویڈیو نیشنل اور انٹر نیشنل پرنٹ اور ڈجیٹل میڈیا میں خوب وائرل ہوئ۔ یہ ویڈیو ہمارے مغاشرے کی امیج کو بہت متاثر کیا۔ 


اس واقعہ کی بابت جو کچھ بھی کہا جا رہا ہے وہ سب احتیاطی تدابیر ہیں. کوئ لڑکی کو اس سارا واقعہ کی زمہ دار قرار دیتے ہیں کہ عائیشہ مداحوں کو گزشتہ دن پارک میں اپنی آمد  کی خبر دی تھی اور دوسروں کو بھی پارک میں انے اور سلفی لینے کیلئے کہی تھی۔ کہتے ہیں کہ ٹک ٹوکر فلائینگ کس بھی کررہی تھی۔ ان واقعات کو جواز بناکر بعض لڑکی کو اس واقعہ کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں ۔


دوسرا طبقہ لڑکوں  کے حرکتوں  کو بداخلاقی قرار دے کر کہتے ہیں کہ فرض کرے عائیشہ ان مداحوں کو بلائ بھی تو کیا ہجوم کو حق حاصل ہوگیا  کہ کسی نامحرم کو چھوئے ،کسی عورت کے جسم کے ساتھ کھیلے ۔اگر کوئ  گھر تالا لگانا بھول جاتا ہے یا دانستہ بھی تالا نہیں ڈالا تو یہ چور کو لوٹنے کی اجازت و سند تو نہیں ہے۔ مزید کہتے خاتون پر جو بھی سوال اٹھایا جا سکتا ہے وہ اخلاقی نوعیت کا ہے, خاتون کی جانب سے ٹک ٹاک پر پیش کیا جانے والا غیر مناسب مواد بھی ایک اخلاقی معاملہ ہے. وہ خاتون اگر بالفرض اس روز بھی کچھ نا مناسب کر رہی تھیں تب بھی کسی ایک آدمی کو بھی یہ استحقاق حاصل نہیں تھا کہ اسکو دور سے بھی چھوئے. وہ ہجوم اخلاقاً , قانوناً اور مذہباً  صریح جرم کا مرتکب ہوا ۔ خاتون کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا  جہالت ہے. کوئی عذر  اس جرم و ظلم کو جواز فراہم نہیں کر سکتی ہے.


اقبال پارک ،یہ وہ مقام جہاں اکھٹے ہوکر ہمارے آبائواجداد اس ملک کا قرارداد منظور کیے تھے ۔ جہاں سے اللہ اکبر کے نعرے کھونجتا رہتا تھا۔ آج اسی جگہ اسی آزادی کے دن ایک بدنام زمانہ ٹک ٹوکر اپنی گندی حرکتوں سے اس جگہ کو ناپاک کرتی پھیرتی ہے ۔ نہ اس پر کوئ قانوں لاگو ہوتی ہے نہ اسے کوئ روکنے کی ہمت کرتا ہے۔ اسی دوران اسی لڑکی کے ہم پیہ نوجوان لڑکے اسی لڑکی کے جسم  کا ذائقہ چکنے اور لطف اندوز ہونے کیلئے سرپٹ دوڑتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں  تمام سکیورٹی فورسز کے اہلکار خاموش تماشائی بنی رہتی۔


 اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انکا کام  مینار پاکستان اور اردگرد کے سجاوٹ کی حفاظت تو ہے مگر اس مقام کی تقدس سے کوئ غرض نہیں۔  اور پھر ہمارے ٹی وی چینلوں میں اس واقعے کو خوب اچھالا جاتا ہے۔ اس لڑکی سے دن میں دو تین بار مختلف چینلز کے اسکرین میں دکھائی جاتی ہے۔ کسی کو کوئی پرواہ نہیں کہ  اس سے پاکستان کے کتنی بدنامی ہوتی ہے ۔ انفرادی مقبولیت کے خاطر قومی شناخت کو پیچھے روندے چلے جاتے ہیں۔ 


سوال یہ ہے کہ آخر ایسی واقعہ پیش کیوں ائ ۔ کیوں ہزاروں کے  مجمع میں کوئ ایک شخض نھی نہیں تھا کہ انہیں روک سکے پولیس ان کے خلاف بروقت کاروائی کیوں نہ کرسکا۔وجہ کیا ہے ایسے حالات میں کہاں جاتی ہماری غیرت و ایمان۔ کیونکہ ہم اندر سے ایسے ہی ہیں ہمیں جھنجوڑنے والا ضمیر مر چکی ہے ۔ تہذیب کے  ہم ایسے اسٹیج میں کھڑے ہیں جہاں ہمارے پاس برائی ،اچھائی، عزت، آبرو، نیک نامی اور بدنامی کے کوئی پیمانہ نہیں جس کے روبرو لا کے برائی اور اچھائی میں  تمیز کرسکے۔ ہم مخالف  سمت جانے والی دو کشتیوں میں سوار ہیں۔ 


 ہمیں ان تہذیبوں میں سے ایک تہذیب کو مکمل طور پر اپنانا ہوگا۔ اس کو اپنے قانوں میں واضاحت کے ساتھ ذکر کرنا ہوگا اور لاءانفورسمنٹ ایجنسی اس کو مکمل لاگو کر عوام الناس کو اس بارے میں آگاہی دینی ہوگی تب جا کے ایک ایسے واقعات پر قابو پاسکتے ہیں۔ 


وماعلیناالاالبلاغ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51799

نت نئی تبدیلیوں کے تجارب – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

نت نئی تبدیلیوں کے تجارب – قادر خان یوسف زئی

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے تین برس مکمل ہونے پر ایک بار پھر بڑی شدومد کے ساتھ سوال  اٹھائے جانے لگے ہیں کہ کیا عمران خان اپنے وعدوں پر عمل درآمد کرچکے یا پیش رفت جاری ہے۔ حکومتی معاشی اعداد و شمار گواہی دے رہے ہیں کہ عوام کو بدترین مہنگائی اور غیر یقینی صورت حال نے جکڑ رکھا ہے، اس کی کئی وجوہ ہوسکتی ہیں جن میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے احتساب پر مکمل توجہ مرکوز رکھنا اور قرضے واپس کرنے کے لئے مزید قرض لینا، خاص طور پرآئی ایم ایف کی کڑی شرائظ نے عوام کے کس بل نکال دیئے ہیں، سرکاری ملازمین کے علاوہ نجی شعبے سے تعلق رکھنے والوں کی ذرائع آمدنی منجمد ہے، مہنگائی کے مقابلے میں کوئی اضافی امداد نہ  ملنے کے سبب سفید پوش طبقے کو بدترین مشکلات کا سامنا ہے۔ پی ٹی آئی بادی ئ النظر عوام سے کئے جانے والے وعدے پورے کرنے کی”کوشش“ کررہی ہے اور اس کی وجہ وہ حزب اختلاف کی اُن جماعتوں کو قرار دیتے ہیں جن کی مبینہ کرپشن یا غلط معاشی حکمت عملی نے انہیں مشکلات اور مملکت کو دیوالیہ ہونے کی دہلیز تک پہنچایا۔


درحقیقت عوام کو اس امر سے کبھی سروکار نہیں رہا کہ ان کی معاشی بدحالی اور مسلسل بڑھتی مہنگائی کا اصل ذمے دار کون ہے، یہ ایک ایسے سیاسی بلوغت کی کمی کی جانب اشارہ ہے، جسے سمجھنے کے لئے کسی گنجلگ حساب کتاب کی ضرورت نہیں، کوئی  دورائے  نہیں کہ ہر نئی حکومت میں عوام کو پچھلی حکومت کے مقابلے میں مہنگائی اور کم آمدنی ورثے میں ملی، بعض سیاسی پنڈتوں کا ماننا ہے کہ عمران خان اس وقت سیاسی خاندانوں میں واحد  مقبول سیاسی شخصیت ہیں، جنہیں کک بیک، اور سیاسی خاندانی جانشین کی ضرورت نہیں، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہیں ایسے مشیر بھی میسر نہیں آئے جو تخلیقی صلاحیتوں کی مالک ہوتے، گھوم پھیر کر اُن کے قرب و جوار میں انہی سیاسی جماعتوں کے الیکٹیبلز ہیں جو اقتدار میں آنے والی ہر سیاسی جماعت میں شامل ہوجاتے ہیں، اس لئے ان کی سوچ کا محور محدوداور کارکردگی فطری طور پر مورثیہے۔ اس حوالے سے وزیراعظم کا یہ کہنا بھی صائب نظر آنے لگاہے کہ فرشتے کہاں سے لاؤں، اگر کہا جائے توان تین برسوں میں زیادہ وقت انہیں اندرون خانہ ایسے مسائل کا سامنا  رہا جو حز ب اختلاف سے زیادہ پریشان کن ہیں۔


کئی معاملات اور اہم امور پر پی ٹی آئی کو اپنے بنیادی نظریئے سے پیچھے ہٹنا پڑا، اسے ہم زرداری کی اصطلاح میں مفاہمت کی سیاست بھی کہہ سکتے ہیں، عمران خان نے تین برسوں میں اپنے اتحادیوں کو راضی کرنے کے لئے مفاہمت کی سیاست کی اور ماضی کی ان روایات کو توڑنے میں ناکام نظر آئے کہ انہیں کسی کنگ میکر کے بغیر قانون سازی کا موقع ملے،  اس وقت لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ خطے میں تیزی سے ہونے والی تبدیلیوں نے ناگزیر کردیا ہے کہ مملکت میں عدم سیاسی استحکام نہ ہو، حزب اختلاف اپنے جلسے جلوس اور احتجاجی مظاہروں کی جو بھی منصوبہ بندی کررہی ہو لیکن ایک ایسے وقت میں کہ پڑوس میں آگ لگی ہو اور اُس سے اپنے گھر کے چولہے جلانے کی کوشش کی جائے تو یہ شائد ایسے اچھے لفظوں میں تاریخ میں جگہ نہ ملے۔عمران خان کے دور حکومت کے تین برس ان کے لئے کبھی آسان ثابت قرار نہیں دیے جاسکتے، ’غیبی امداد‘ نے ان کی بُر ے وقتوں میں بھرپور ساتھ دیا اور ناممکن کو ممکن بنایا ، اس لئے انہیں غیبی امداد پر شکر بجا لانا چاہیے اور خاطر جمع رکھیں کہ وہ اپنے اقتدار کی مدت(شائد) پوری کرلیں گے۔


کہنے والے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کو بطور وزیراعظم بنانے کا تجربہ کامیاب نہیں رہا اور متبادل کے طور پر تین ایسی شخصیات ہیں جن پر غور کیا جارہا ہے کہ مستقبل میں مملکت کی بھاگ دوڑ ان میں سے کسی ایک شخصیت کے حوالے کی جاسکتی ہے۔ اس وقت مقتدور حلقوں میں چہ مگوئیاں ہیں کہ عمران خان کی خواہشات و مراعات محدود ہیں انہیں دولت کے انبار لگانے کا خبط نہیں ور یہی وہ واحد نکتہ ہے جس کی وجہ سے ان کی کرسی کو بار بار بچایا جاتا ہے، جب کہ ان کے مقابلے میں سیاسی خاندانوں کے پُرتعیش معمولات زندگی اور سیاسی جوڑ توڑ میں فروعی مفادات کی وجہ سے کوئی بھی قابل قبول  نہیں۔ اگر دیکھا جائے تو تمام تر تحفظات کے باوجود وزیراعظم نے ماضی کے حکمرانوں کے مقابلے میں غیبی امداد زیادہ حاصل کیں، لیکن بدقسمتی سے بیشتر نا اہل نادان دوستوں کی وجہ سے ان کے تین برس عوام کے لئے آئیڈیل نہیں بن سکے، انہیں مثالی قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ جو بھی اقدامات کئے گئے اس سے مرض بڑھتا رہا اور دوا نے کوئی کام نہیں کیا۔


موجودہ حکومت کے دورِ اقتدار سے عوام مطمئن نہیں، اگر حزب اختلاف کے قائدین کے خلاف کرپشن کے مقدمات بھی ثابت ہوجاتے تو کم ازکم اطمینان ضرور ہوتا کہ چلو، قوم کو مبینہ کرپٹ حکمرانوں سے نجات ملی، لیکن احتسابی اداروں کی جانب سے تین برس بعد کسی بھی سیاسی جماعت کے قائد کے خلاف کرپشن، منی لانڈرنگ ثابت نہ ہونا اور انصاف کا عمل سست روئی سے جاری ہے، اپوزیشن جماعتوں کے کئی رہنما کڑے احتسابی عمل سے گزرے اور بعض اب بھی  پابند سلال ہیں، زیادہ تر ضمانتیں حاصل کرچکے ، شنید ہے کہ نئے ریفرنس بھی دائر ہونے والے ہیں، لیکن اس کے وہ نتائج سامنے کیوں نہیں آرہے جس کا اعلان وزیراعظم بار بار اپنے جلسے جلوس، ملکی و غیر ملکی ذرائع ابلاغ کو دیئے گئے انٹرویو میں کرتے رہے۔ یقیناََ کچھ تو ایسا ہے جس کی پردہ داری ہو رہی ہے لیکن اس عمل میں کس کا دخل زیادہ ہے، اس پر کوئی رائے دینا بھوسے کو شعلہ دکھانے کے مترداف ہوگا۔ پی ٹی آئی اگلے دو برس روایتی طور پر الیکشن کی تیاریوں کے لئے قومی وسائل کو استعمال کرے گی،  یہ حیران کن نہیں کیونکہ ہر  دوسیاسی جماعت اپنے دور حکومت میں ایسا ہی کرتی رہی ہے، یہ بھی کوئی نئی بات نہیں ہوگی لیکن نیا آخر ہے کیا، اس پر عوام کو خودسوچنا ہوگا کہ وہ کب تک نت نئی تبدیلیوں کے تجارب کا حصہ بنتے رہیں گے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کے اقتدار کی مدت کو لے کر جائزہ لینا آسان ہے، تعریف اور تنقید بھی مشکل نہیں، لیکن حقیقی تبدیلی وہی ہوگی جو عوام کو نظر آئے گی، تین سال ہوں یا تیس برس، دیکھتے رہے ہیں کہ کبھی عوام کے حق میں بہتر نہیں ہوا اور دیکھتے ہیں کب سب ٹھیک ہوگا۔ 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
51791

اسلام کا تصورشہادت – (محرم الحرام کے موقع پر خصوصی تحریر)-ڈاکٹر ساجد خاکوانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اسلام کاتصورشہادت – (محرم الحرام کے موقع پر خصوصی تحریر-ڈاکٹر ساجد خاکوانی (

                قرآن مجید نے شہدا کے بارے میں فرمایاکہ انہیں مردہ مت کہووہ زندہ ہیں اور اللہ تعالی کے ہاں سے انہیں رزق بھی فراہم کیاجاتاہے۔اسی بنیاد پر مسلمانوں کے ہاں شہادت کا مقام حاصل کرناایک بہت بڑی سعادت سمجھاجاتاہے۔مقام شہادت کی اہمیت کااندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ انبیاء نے عمومی طور پر اور خاتم الانبیاء ﷺنے خصوصی طور پر منصب شہادت پانے کی خواہش کی۔قرآن مجید نے اس بات کا صراحتاََذکرکیاے کہ کتنے ہی انبیاء علیھم السلام کو قتل کیاگیااور انہیں مقام شہادت حاصل ہوا۔خود محسن انسانیت انسانیت ﷺ کو بھی کھانے میں زہر دیاگیا تھاجس کے باعث آپ کی حالت بگڑ گئی اور اس دنیاسے پردہ فرماگئے چنانچہ سیرت نگار لکھتے ہیں کہ یہ آپ کی شہادت کاایک ثبوت ہے۔خلفائے راشدین میں سے حضرت عمر،حضرت عثمان اور حضرت علی رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین بھی منصب شہادت پر فائزہوئے۔خاص اہل بیت میں سے حسنین کریمین شفیقین کو بھی یہ اعلی مقام حاصل ہوا اور خاص طور پر امام عالی مقام امام حسین نے تو اپنے کل خانوادہ مطہرہ کے ساتھ میدان کرب و بلامیں جام شہادت نوش فرمایا۔اور اس کے بعد امت مسلمہ میں ایک طویل سلسلہ ہے جو آج تک جاری ہے اور تاقیامت اس وقت تک جاری و ساری رہے گاجب تک کہ سینوں میں ایمان زندہ سلامت ہے۔

                ”شہادت“دراصل فریضہ قتال کاایک طرح سے تکملہ ہے۔اللہ تعالی نے ان لوگوں کے لیے اپنی بے پناہ محبت کا اظہار کیاہے جو صف بستہ ہو کر ایک آہنی دیوار کی طرح ظلم سے ٹکراتے ہیں اور اللہ تعالی کے راستے میں ”قتال“کرتے ہیں۔”قتال“ اسی طرح ہر مسلمان مردوعورت پر فرض ہے جس طرح نمازاور روزہ فرض ہیں۔جو مسلمان بھی قتال کی نیت سے گھر سے رخت سفرباندھتاہے،شہادت اس کی آخری منزل ہوتی ہے۔پھرکچھ مجاہدین تو اپنی اس منزل کو حاصل کر کے بارالہ میں سرخرو ہو جاتے ہیں اور باقی غازی بن کر اپنی اگلی باری کاانتظار کرتے ہیں۔اللہ تعالی کے آخری نبی ﷺ کو بھی شہداسے بہت پیار تھا خاص طورپر جنگ احد کے شہدا بہت عزیزجاں تھے۔اپنے وصال مبارک سے چند روز قبل جب کہ چلنے کی ہمت نہ تھی تب بھی دو مسلمانوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر میدان احدمیں تشریف لے گئے اورشہداکے کیے دعافرمائی اور ساتھ ارشاد فرمایاکہ بہت جلد تم سے ملنے والے ہیں۔دیگر معرکوں کے شہدا بھی اکثروبیشتر نبی علیہ السلام کی مقبول دعاؤں سے بکثرت اپنا حصہ پاتے تھے یہاں تک کہ شہدا کے پس ماندگان کی کفالت بھی آپ ﷺ کی ذاتی نگرانی میں ہواکرتی تھی۔

                اللہ تعالی نے قرآن پاک میں واضع طور پر ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے اس دین حق کو غلبہ کے لیے بھیجاہے،پس اسلام کی فطرت میں جھک کر رہنا ممکن ہی نہیں ہے،یہ غالب اور حکمت والے کا بھیجاہوا دین ہے جو غالب رہ کر ہی زندہ رہ سکتاہے۔دورغلامی اس دین کے لیے زہر قاتل سے بھی بڑھ کر ہے۔چنانچہ اس دین کے ماننے والے ”مسلمان“جو صرف اللہ تعالی کے سامنے ہی جھکنے کی تربیت رکھتاہے اس کے لیے ممکن نہیں کہ وہ کسی طاغوت اورغیراللہ کی غلامی پر آمادہ ہو جائے۔امت مسلمہ پر تین صدیوں تک غلامی مسلط رہی لیکن اس دوران بھی جا بجا آزادی کی مسلح و غیر مسلح سیاسی تحریکیں چلتی رہیں اور امت کی کوکھ سے جنم لینے والی بیدارمغزقیادت نے بالآخراس امت کو غلامی کو اندھیرے غار سے نکال باہر کیااور باقیات غلامی بھی مٹنے کو ہیں۔پہلے نبی سے آخری نبی علیھم السلام تک جس جس کی دعوت و تحریک اپنے منطقی انجام کو پہنچی توزمین پراقتدارو غلبہ کے نتیجہ میں اسلام کا سیاسی نظام نافذہوااور انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلا کر انہیں خالق حقیقی کی غلامی سے آشنا کیاگیا۔اس سیاسی اسلامی نظام کاقیام دراصل جہاد یا قتال کی اجتماعی منزل ہے،اس منزل کے حصول کے لیے شہادت ایک سنگ میل ہے تاکہ مسلمان جہاں انفرادی طور پر شہادت کی اس منزل کو حاصل کر سکیں وہاں کل انسانیت،خلافت اسلامیہ کے سیاسی نظام کو اجتماعی طور پر حاصل کر پائے۔

                باطل نظام کاخاتمہ اوراس کی جگہ خلافت اسلامیہ کا قیام کل امت کی اجتماعی ذمہ داری ہے،وہ جس ذریعہ سے بھی ممکن ہواس ذریعہ کو اپنانامستحب ہے لیکن تاریخ انسانی گواہ ہے طاغوت اپنے دفاع کے لیے حق کی قوتوں کو متعدد دیگرراستوں میں الجھاکر اپنے لیے وقت حاصل کرتارہتاہے اور بالآخرآخری فیصلہ میدان کارزار ہی کیاکرتاہے۔مکہ کی وادیوں میں فصاحت و بلاغت کا میدان ہو یا دلائل و براہین کا مقابلہ ہو یا پھر حسن کردارو حسن اخلاق کی نمایاں پیش کش ہو ہر میدان میں طاغوت کے شکست کھانے کے بعد بلآخرآخری فیصلہ تلوارکے ہاتھوں ہی ہوا۔بعینہ فی زمانہ جمہوری اقدارہوں یا پروپیگنڈے کا میدان یا پھر تعلیم و تعلم کی دوڑاور تہذیب و ثقافت کی کشمکش ہو ہر میدان میں سیکولرازم شکست کھانے کے باوجودمحض وقت کے حصول کے لیے مسلمانوں کو مصروف رکھناچاہتاہے۔خواتین کوآڑ بناکریا پھر امن کا ڈھونک رچاکر اور یا پھر انسانی حقوق کے نام پر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر،حق آورقوتوں سے صرف وقت کی مہلت لینا مقصود ہے جبکہ آخری فیصلے کے لیے طاغوت کی افواج آج بھی سرزمین مسلمانان پر شب خون کی ہولی کھیلنے میں مصروف ہیں۔قرآن نے طاغوت کے اس کردار کو بہت پہلے طشت ازبام کیاہے اور مسلمانوں کو حکم دیا ہے طاغوت کی اس طرح کی چالوں سے  بچتے ہوئے اسے براہ راست للکاراجائے اور ”قتال“کے ذریعے شہادت کی منزل کی جستجومیں انسانیت کو ظلم و ستم کے اس نظام سے آزادی دلائی جائے۔

                واقعہ کربلامیں امام عالی مقام کا کردار اس منزل کے حصول کے لیے بہت واضع ہے۔امام عالی مقام کی سعی مبارکہ کسی ایک فرد کے خلاف نہ تھی بلکہ ایک نظام کے خلاف تھی۔اس وقت مسلمانوں کا سیاسی نظام خلافت ایک نیالبادہ باطل اوڑھ کر ملوکیت کی جانب بڑھ رہا تھا،اسی فکرفرسودہ کے خلاف حضرت علی کرم اللہ وجہ نے بھی تلوار اٹھائی اور اسی کے خاتمے کے لیے امام عالی مقام نے اپنے اہل بیت کے ہمراہ ایک تاریخ ساز قربانی پیش کی۔ملوکیت کے نتیجے میں ایوان اقتدار سے نظام اسلامی کی روح نے نکل جانا تھا جیسے کہ بعد کے ادوار سے یہی نتیجہ ثابت ہوا،اورنظام سیاست سے اسلام کے نکل جانے کا مطلب تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ دیگر نظم ہائے حیات سے بھی اسلام کی باقیات کو دیس نکالا دے دیا جائے اس لیے کہ اسلام بہر حال ایک کل ہے اور اس کے چند اجزا کے نفاذسے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے چنانچہ بادی النظرمیں اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاناہی امام عالی مقام کا ”مقصد قتال“تھا جس کے نتیجے میں خلافت اسلامیہ کی تجدیدہونا تھی لیکن قاضی قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔کنار فرات غریب الدیاری،پیاس اور بے سروسامانی کے عالم میں بھی باطل بھرے طاغوت سے نبردآزما ہونااور جام شہادت نوش کر جاناقرآن مجید کی اس آیت کی عملی تصویر تھی کہ ”نکلواللہ تعالی کی راہ میں ہلکے ہو یا بوجھل“۔اگرچہ وقتی طور پر طاغوت کی قوتیں غالب رہیں لیکن امام عالی مقام نے رہتی دنیاتک یہ درس دیا کہ نظام کی تبدیلی تک مومن گھرمیں قرار نہیں پکڑ سکتاگویا یہ ختمی مرتبتﷺ کے اس قول کو عملی جامہ پہنانا تھا کہ ”یا تو یہ کام تکمیل پزیر ہو گا یا پھر میں اس راہ میں کام آجاؤں گا“۔پس ”شہادت“وہ بند ہے جس سے باطل قوتیں ٹکراتی ہیں تب یاتو اللہ تعالی کی زمین پر اللہ تعالی کانظام قائم ہوتا ہے یا پھر حق و باطل کی آفاقی کشمکش میں حق و شرکی پہچان دنیاپر واضع ہو جاتی ہے اورحق ہمیشہ کے لیے امر ہو کر باشرکا بطلان کر دیتاہے۔

                ”شہادت“کا سفرہمیشہ سے جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گا،چھری حضرت اسمائیل ؑپرچلی وہ تو بچ گئے لیکن ذبح امام عالی مقام ہوئے،پیاس حضرت اسمائیل ؑکو لگی ان کے لیے تو زم زم پھوٹ پڑالیکن پانی بندش امام عالی مقام کوبرداشت کرنی پڑی،غریب الدیاری حضرت  اسمائیل ؑپر آئی ان کے لیے تو مکہ آباد ہو گیالیکن ”کرب و بلا“ امام عالی مقام کے دامن گیررہی اورحضرت اسمائیل ؑکو صرف اپنی والدہ محترمہ کے ساتھ ہجرت کرنا پڑی جبکہ امام عالی مقام کل اہل بیت کو لے کرمقتل کی طرف چل نکلے۔تاریخ اپنے آپ کو ہمیشہ دہراتی رہتی ہے وہ عراق سے فلسطین کا سفر ہویابدروحنین کی گھاٹیاں ہوں یا پھرکربلا سے کابل تک،یاکشمیرسے برماتلک، شہادتوں کا سفر آج بھی جاری ہے۔وقت کے فرائین آج بھی زندہ ہیں،نمرود کے دربار آج بھی اسی سج دھج کے ساتھ آباد ہیں،دنیاکے دانش کدے آج بھی اجوجہلوں سے بھرے پڑے ہیں اور یزیدی افواج آج بھی وقت کے امام کی کھوج میں مسجد مسجداہل حق کو گھیری ہوئی ہیں۔اس امت کی تاسیس ایک مقدس خاتون کی شہادت سے ہوئی تھی اور شہداکے خون کی سیرابی سے یہ دین ایک کونپل سے تناور درخت بنااور جب بھی اس شجرسایہ دار پر بادسموم کے جھونکے آئے اور اس کے پتے مرجھانے لگے توشہدانے اپنے تروتازہ نوجوان خون سے اس درخت کی جڑوں کوحیات نو عطا کی۔شہداکایہ قافلہ منزل منزل اس امت کو بام عروج کی طرف لے جانے کا باعث ہے۔آج پھرشرق و غرب میں ایک معرکہ کارزار گرم ہے اور سیکولرازم ابولہب کی صورت میں خود اس امت کے گھر سے اس پرشعلہ زن ہے لیکن سودی معیشیت اور ہوس نفس کاماراہوافکرفرسودہ کا مرقع سیکولرازم اسی طرح اپنے دارفانی کی ابدی آرام گاہ کی طرف تیزی سے گامزن ہے جس طرح ماضی قریب میں اسی کا ہم جنس کیمونزم شہادت کی مضبوط چٹان سے سر ٹکراٹکراکر پاش پاش ہوااورخوشخبری ہوبنی آدم کوکہ خلافت علی منہاج نبوت انسانیت کے دروازے پر دستک کناں ہے۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51780

مدینے کی ریاست میں طالبان کی ضرورت-تحریر: گل عدن

ہمارے ہمسائے میں طالبان کی حکومت اور امریکہ کی شکست ہمارے لئے یقینا خوشی کی بات ہے ۔لیکن افغانستان کا مستقبل ‘افغانستان کی معاشی اقتصادی ترقی پر بات کرنا قبل از وقت ھوگا۔ لیکن طالبان کی حکومت سے مغربی دنیا اور اندرون ملک روشن خیال طبقے میں جو واضح خوف اور بے چینی نظر آرہی ہے ۔ وہ “شریعت” کے نفاز کا خوف ہے ۔

جن لوگوں کو پچھلے کئی دہائیوں سے مقبوضہ کشمیر میں جاری بربریت اور ظلم کا نشانہ بننے والے خواتین اور بچوں کا مستقبل کبھی نظر نہیں آیا وہ عظیم ہستیاں آج افغانستان کے بچوں اور خواتین کی تعلیم و ترقی کے لئے ازحد پریشان ہیں ۔میں ان سے اتنا پوچھنا چاہتی ہوں کیوں صرف افغانستان کی عوام کی آزادی تعلیم اور روشن مستقبل آپکے لئے اتنا اہم ہوگیا ہے؟

کیا کشمیر فلسطین اور ایسے کئی دوسرے ممالک جو سالوں سے ملک دشمن افواج کے ہاتھوں پس رہے ہیں کیا انکا سکون انکی تعلیم مستقبل انکی جان و مال کوئی حیثیت نیں رکھتا؟کیا چین و سکون کی زندگی پر انکا کوئی حق نہیں ؟ کیوں سالوں سے انسانی حقوق کے علمبردار تنظیمیں کشمیر کے حق میں مردہ تصور کی جا رہی ہے ۔امریکہ چین اور دوسرے کئی ممالک میں مسلمانوں کی زندگی اجیرن ہے ۔لیکن کوئی آہ تک نہیں کرسکتا۔میڈیا پرلانا یا انہیں انصاف دلانا تو دور کی بات۔

موجودہ حالات میں امریکا اور اسکے اتحادیوں کی تلملاہٹ بے چینی اور بے سکونی مجھ جیسے پاکستانیوں کے لئے کسی کامیڈی ڈرامے سے کم نہیں تھا ۔لیکن جو حالات ہمارے ملک میں چل رہے ہیں وہ ہماری ہر خوشی اور فخر کو خاک میں ملانے کے لئیے کافی ہے ۔محرم کے پاک مہینے میں پڑوس میں طالبان کی فتح لیکن دوسری طرف کلمے کی بنیاد پر اور ہزاروں قربانیوں کے بعد حاصل کی گئی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں چودہ اگست کے دن اقبال پارک میں جشن آزادی کے نام پر آزادی امن قربانی اور مذہب نام کی جو دھجیاں اڑا دیں گئیں اسکی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔

یہ اور اسکے علاوہ آئے روز پاکستان میں جس طرح کے واقعات رونما ہو رہے ہیں وہ زبان پر لانے کے قابل بلکل نہیں ہیں ۔ لیکن خاموش تماشائی کا کردار تو ہمارے حکمران خوب نبھا رہے ہیں ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خان صاحب کو اقتدار میں صرف شریف خاندان کوسزا دلوانے کے لئے لایا گیا ہے باقی ملک جائے بھاڑ میں ۔مجھے تو اس بھولی عوام پر ترس آرہا ہے جو اس حکومت سے انصاف کی توقع رکھتی ہے ۔جو حکومت چار سال کی زینب کو انصاف نیہں دلاسکی ۔جو موٹڑ وے کیس کے چار درندوں کو سزا نہیں دلواسکی وہ حکمران چار سو درندوں کو چوک پر لٹکائیں گے؟؟!

یہ سوچ کر بھی گھن آتی ہے کہ وہ کم و بیش چار سو درندے چار سو گھرانوں کے چشم و چراغ تھے ۔چار سو ماؤں کے بیٹے کہلاتے رہے ہیں ۔نجانے کتنی ہی بیٹیوں کے باپ اس غلیظ مجمع کا حصہ ہوںگے۔ان بہنوں پر رحم آرہا ہے جن کے وہ بھائی ہیں۔اور ان ان چار سو مردوں کی جو مرد نام پر دھبہ ثابت ہوچکے ہیں ‘ ان کی نسل پروان چڑھے گی پاکستان کی سر زمین پر۔ ۔قلم اٹھانے پر مجھے ان تبصروں نے مجبور کیا جو نجانے کس منہ سے کہہ رہے ہیں کہ وہ لڑکی خود قصوروار ہے لہذا پاکستانی معاشرے کے مردوں کو بدنام نہ کیا جائے۔۔ یعنی ایک لڑکی کی وجہ سے چار سو مردوں کا کردار بے نقاب ہو جائے تب بھی مرد کو بد کردار نہ کہا جائے۔ایسا ہے پاکستانی معاشرہ۔


میں اتنا پوچھنا چاہتی ہوں کہ آپ مردوں کو کیوں لگتا ہے کہ آپکا کردار کوئی معنی نہیں رکھتا؟؟؟آپکو کیوں لگتا ہے کہ آپ کچھ بھی کرکے دامن جھاڑ دیں گے اور آپکا دامن پاک ہوجائگا؟؟ جنکی سوچ ہے کہ مفت کی شراب قاضی بھی نہیں چھوڑتا میں کہتی ہوں مفت کی شراب نہ چھوڑنے والے قاضی کے کردار پر بھی لعنت۔معاشرہ آپکے کردار کومرد پیدا ہونے کے ناطے سائیڈ پر ضرور رکھتا آیا ہوگا۔مگر اللہ کی عدالت میں کسی بدکردار مرد کو کسی باکردار عورت پر فوقیت حاصل نیہں ہوگی۔انشاءاللہ


اور میں یہ نیہں کہتی کہ راہ چلتی عورت کی عزت آپکی ذمہ داری ہے موقع نیہں مگر میں یہ کہتی ہوں کی آپکی شرافت اور آپکا کردار صرف اور صرف آپکی اپنی ذمہ داری ہے ۔یہ آپ مان لیں۔


آئے روز کے ان واقعات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اس ملک کی بقا ء شریعت کے نفاز میں ہے ۔پاکستان کو طالبان کی شدید ضرورت ہے۔وہ دن دور نہیں جب پاکستانی عوام اپنی حکمرانوں اور عدالتوں سے مایوس ہوکر طالبان سے مدد کی اپیل کریں گے ۔کیونکہ عوام کو غرض اپنی جان مال اور عزت سے ہے۔

عوام کو اس سے کوئی غرض نیہں کہ اقتدار کی کرسی پر بیھٹنے والا آکسفورڈ کا تعلیم یافتہ ہے یا غاروں میں پلنے والا انپڑھ مجاہد۔ایک آزاد ریاست کی عوام کو صرف تحفظ درکار ہے جو اب شریعت سے ہی ممکن ہے ۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged ,
51775

داد بیداد ۔ افغا نستان کا اونٹ ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

داد بیداد ۔ افغا نستان کا اونٹ ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

پوری دنیا کے ہزاروں ریڈیو اور ٹیلی وژن چینل، لا کھوں اخبارات اور کروڑوں سو شل میڈیا اکا ونٹس پر یہ سوال زیر گر دش ہے کہ افغا نستا ن کا اونٹ اب کس کروٹ بیٹھے گا؟ 15اگست سے اب تک صورت حا ل غیر یقینی اور غیر واضح ہے اما رت اسلا می افغا نستا ن کے پر چم پورے ملک پر چھا یے ہوئے ہیں اما رت اسلا می کے رہبروں نے قصر صدارت کا کنٹرول سنبھا ل لیا ہے تا ہم یہ بات اب تک افوا ہوں کی زد میں ہے کہ مستقبل کا افغا نستا ن کیسا ہو گا؟ اور حکمران کو ن ہو گا؟ اس ابہام کی دو بڑی و جو ہا ت ہیں پہلی وجہ یہ ہے کہ افغا نستا ن کے پا س سمندر نہیں بند رگا ہ نہیں اس کی آمدن کا مستقل ذریعہ نہیں اپنے محل وقوع کی وجہ سے بیرونی دنیا پر انحصار کر تا آیا ہے اور اور بیرو نی دنیا اس کی محتا جی کا نا جا ئز فائدہ اُٹھا تی آئی ہے.

اس وجہ سے بیرو نی دنیا افغا نستا ن میں افغا نوں کی مر ضی سے زیا دہ اپنی مر ضی اور خو اہش کی حکومت دیکھنا چا ہتی ہے دوسری وجہ یہ ہے کہ افغا نستا ن کے اندر قبیلوں، قو موں کی تقسیم ان کے اتفاق اور اتحا دکی راہ میں رکا وٹ ہے یہاں سو ئٹزر لینڈ والا ما حول گذشتہ ڈھا ئی سو سا لوں کی تاریخ میں پیدا نہیں ہوا جہاں مختلف نسلوں، مختلف قوموں اور قبیلوں کے لو گ ایک دوسرے کو برداشت کر کے مل جل کر زندگی گذار نے کا طریقہ اپنا ئیں تین زبا نوں کو قومی زبان بنائیں جر من اور سو ئس مل کر ایک قوم ہو نے کا تا ثر دے سکیں.

افغا نستا ن میں تا جک اور افغا ن کبھی ایک نہیں ہو ئے ازبک اور افغا ن کبھی یکجا نہیں ہوئے ان میں کینہ، بعض، عداوت اور دشمنی جس طرح 1757ء میں گہری تھی 2021میں بھی اُسی طرح گہری ہے 1978ء کے انقلا ب ثور کے بعد قومی وحدت کی راہ میں ترقی پسند اور قدامت پسند کی نئی دیوار بھی حا ئل ہو گئی ہے چنا نچہ ایک اور خلیج آکر بیچ میں حا ئل ہو ئی اس خلیج کو پا ٹنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی اس پس منظر میں مو جو دہ صورت حال کو دیکھیں تو ایسا نظر آتا ہے کہ مسئلے کی کنجی اگر کسی فریق کے پاس ہے تو وہ امارت اسلا می کی قیا دت ہے کسی اور کے پا س مسئلے کی کنجی نہیں اورنہ یہ کنجی کسی اور کے ہاتھ آسکتی ہے.

15اگست کو یہ بات عجیب لگتی تھی کہ بیرونی مما لک سے اما رت اسلا می کی قیا دت کو مشورے کیوں دیئے جا رہے ہیں؟ امریکہ، بر طا نیہ اور جر منی کی طرف سے کیوں کہا جا رہا ہے کہ ہزارہ، تا جک، ازبک اور ترقی پسند گروپوں کو ساتھ ملا کر قو می اتفاق رائے سے مشتر کہ حکومت بنا ؤ، مخلوط کا بینہ بنا ؤ ہفتہ، عشرہ گذر نے کے بعد عا لمی خبروں کے ساتھ دلچسپی رکھنے والے سب لو گ اس بات کے قائل ہو گئے ہیں کہ امارت اسلا می کو حکومت چلا نے کے لئے بیرونی امداد کی ضرورت ہے اور بیرونی امداد حا صل کر نے کے لئے سب کو ساتھ لیکر چلنے کی ضرورت سے انکا ر ممکن نہیں.

بظاہر کہا جا رہا ہے کہ انسا نی حقوق کی ضما نت دی جا ئے عورتوں کو کام پر جا نے کی اجا زت ہو نی چا ہئیے لڑ کیوں کو سکولوں، کا لجوں اور یو نیور سٹیوں میں جا نے کی اجا زت ہو نی چا ہئیے لیکن ہا تھی کے دانت کھا نے کے اور دکھا نے کے اور ہو تے ہیں مغر بی طا قتوں کو اصل خطرہ یہ ہے کہ 1996کی طرح پوست کی کا شت پر پا بند ی نہ لگے، مو ل جیسی مغر بی کمپنیوں کے کاروبار کو محدود نہ کیا جا ئے، ہیرو ئین کی پیداوار اور اس کی تجا رت پر پا بندی نہ لگا ئی جا ئے.

پرو پیگینڈ ے کے ذریعے باور کرا یا جا رہا ہے کہ مغربی مما لک پوست کی فصل اور ہیرو ئین کی تجا رت کے خلا ف صف اراء ہیں حقیقت اس کے بر عکس ہے 2001ء میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کا بہا نہ تراشا گیا دراصل پوست کی فصل اور ہیرو ئین کی تجا رت کے ساتھ مول جیسی کمپنیوں کو افغا نستا ن کی چرا ہ گاہ میں کھلا چھوڑ کر دولت بٹور نا مقصد تھا 20سالوں میں اگر مغربی مما لک نے افغا نستا ن میں ایک ٹریلین ڈالر خر چ کیا تو اس کے بد لے میں 3ٹریلین ڈالر کما کر لے گئے مگر یہ بات کوئی نہیں کرے گا ”قلم درکف دشمن است“یہی وجہ سے کہ افغا ن سے ان کا اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھتا

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
51753

ملکی ترقی میں زرعی معیشت کا کردار – پروفیسرعبدالشکورشاہ

ملکی ترقی میں زرعی معیشت کا کردار – پروفیسرعبدالشکورشاہ

زراعت فصلیں اگانے اور غلہ بانی کو ترقی دینے کا فن ہے۔ ترقی یافتہ اور رترقی پذیر دونوں ممالک کے لیے زراعت کی اہمیت بہت اہم ہے۔پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ترقی کے لیے زراعت کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ 40کی دہائی میں زراعت ملک کی جی ڈی پی کا 53% تھی جبکہ 65%سے زیادہ مزدور زراعت کے شعبہ سے وابستہ تھے۔ گزشتہ 7عشروں کی سیاسی، سماجی، موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں نے ان اعداد و شمار کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ زراعت ترقی کے بجائے تنزلی کی راہ پر گامزن ہے۔ موجودہ دور میں ملکی جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ محض22.4%ہے جبکہ زراعت سے وابستہ بر سر روزگار افراد کی تعداد 65%سے کم ہو کر صرف 35.9%رہ گئی ہے۔

ملک کی تقریبا63.09%آبادی دیہاتوں میں مقیم ہے۔ 60%سے زیادہ آبادی بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر زراعت کے شعبے سے منسلک ہے۔ زراعت متعلقہ شعبہ کی صنعتوں کے لیے مختلف اشیاء کی ترسیل اور خرید و فروخت کو کا زریعہ بھی ہے۔ یہ بات انتہائی قابل افسوس ہے کہ ہم 796,09کلومیٹر رقبے میں سے زراعت کے لیے محض21.1ملین علاقہ ہی زیر استعمال لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے تقریبا ملک کی ایک تہائی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ہماری 49%آبادی کو خوراک کی قلت کا سامنا ہے یا وہ غیر معیاری خوراک استعمال کر تے ہیں۔

ایک تخمینے کے مطابق 2050تک پاکستان میں گندم کی پیداوار میں 50%کمی واقع ہونے کا خدشہ ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہماری آم کی پیداوار پہلے ہی سے شدید متاثر ہو چکی ہے۔ ان تمام پریشانیوں اور خطرات کے باوجود، ہم دنیا میں سب سے زیادہ بڑی فصلیں کاشت کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہیں۔ملکی زراعت میں 35%، لائیو سٹاک، 61%،ماہی گیری،2.06%اور جنگلات کا2.13% حصہ زراعت میں شامل ہے۔سال 2015-16-19کے دوران زراعت کا شعبہ پیداواری لحاظ سے زوال کا شکار رہا۔ جنگلات سے آمدن میں سال 2015کے دوران بہت کمی ہوئی 2017میں یہ کمی2.33%تک پہنچ گئی۔ گندم دنیا بھر میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی فصل ہے۔ سال 2020 میں گندم کے زریعے زراعت میں 8.7%جبکہ قومی جی ڈی پی میں اس کا تناسب1.7%رہا۔

سال 2019-20میں کرونا کے باوجود پاکستان نے24.9ملین ٹن گندم پیدا کی اور گندم کے پیداواری علاقے میں 1.7%اضافہ ہوا۔ گندم کے بعد چاول کھانے، بیرون ممالک بھیجنے اور نقد فروخت کے لحاظ سے دوسری اہم فصل ہے۔ چاول کے زریعے زراعت میں 3.1%جبکہ قومی جی ڈی پی میں اس کے حصے کا تناسب0.6%رہا۔ سال 2020میں پاکستان نے 7.4ملین ٹن چاول کاشت کیے اور اس کے پیداواری کاشت کے علاقے میں 8%کا اضافہ ہوا۔ کپاس کو ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے۔زراعت میں اس کا حصہ4.1% جبکہ قومی جی ڈی پی میں اس کا تناسب0.8%رہا۔ سال 2019-20میں پاکستا ن نے 2018-19کے مقابلے میں 9.1ملین کاٹن کی گانٹھیں فروخت کی جبکہ کپاس کی 7پیداوار میں تقریبا7%کی کمی واقع ہوئی۔

کپاس کے پیداواری علاقے میں 6.5%اضافہ ہوا جبکہ 2019-20میں مجموعی طور پر کپاس کی فصل زوال کا شکار رہی۔گنا بھی گنے سے متعلقہ صنعتوں میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ چند ماہ قبل شوگر مافیاکا پورے ملک میں راج تھا اور گنے کی پیداوار اور دیگر لاز می عوامل پر عدم توجہ کی وجہ سے اس بحرانی اور ہیجانی کیفیت نے جنم لیا۔زراعت میں گنے کی پیداوار کا حصہ2.9%ہے جبکہ ملکی جی ڈی پی میں اس کے حصے کا تناسب0.06%ہے۔سال 2019-20کے دوران گنے کی کاشت اور پیداوار زوال کا شکار رہی اور اور اس کے پیداواری علاقے میں اضافے کے بجائے5.6%کمی واقع ہوئی۔ بدانتظامی اور ناقص حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے چینی کے بحران نے جنم لیا۔ مکئی بھی بہت اہم فصل ہے۔ زراعت میں اس کا حصہ2.9%جبکہ قومی جی ڈی پی میں اس کے حصے کا تناسب0.06%ہے۔ سال 2019-20میں اس کے پیداواری علاقے میں 2.9%اضافہ ہوا اور اس کی پیداوار میں بھی 7%اضافہ دیکھنے کو ملا۔ مکئی کی پیداوار میں اضافے کا سببب پیداواری علاقے میں اضافہ اور بہتر بیجوں کا استعمال ہے۔

چنے، باجرہ اور تمباکو کی پیداوار میں سال 2019-20کے دوران بلترتیب21.9%,9.7%اور 5.8%اضافہ ہوا جبکہ جوار کی پیداوار میں 19.5%کمی واقع ہوئی۔ دالوں کی کاشت اور پیداوار میں 12.6%اضافہ دیکھنے کو ملا دال ماش کی پیداور میں 5.8%کمی ہوئی جبکہ مسور کی دال کی پیداوار مستحکم رہی۔ بہتر موسم کی وجہ سے مرچ کی پیداوار میں 34.6%اضافہ ہو اجبکہ آلو اور ٹماٹر کی پیداوار میں سال 2019-20کے دوران1% اور 5.3%کمی واقع ہوئی جس کے سبب عوام کو ٹماٹر بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ بیجوں سے نکالے جانے والے تیل کی پیداوار صرف 0.5ملین ٹن رہی۔ 8ملین سے زیادہ خاندان لائیو سٹاک کے شعبے سے بلواسطہ یا بلا واسطہ طور پرمنسلک ہیں اور یہ ان کی35-40%تک آمدن کا زریعہ بھی ہے۔ملکی درآمدات میں لائیو سٹاک کو حصہ3.1%ہے۔زراعت کا 960.6%حصہ لائیوسٹاک پر انحصار کر تا ہے اور ملکی جی ڈی پی میں اس کا تناسب11.7%ہے۔

عالمی سطح پرپاکستان دودھ پیدا کر نے والا چوتھا بڑا ملک ہے۔ سال 2019-20کے دوران ہم نے61.6ملین ٹن دودھ اور4.7ملین ٹن گوشت پیدا کیا۔ پولٹری بھی لائیوسٹاک کا ایک ذیلی شعبہ ہے حال ہی میں اس میں سرمایہ کاری میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے کو ملا ہے اور اس شعبہ میں سرمایہ کاری کا حجم700ملین روپے تک پہنچ چکا ہے جبکہ دوسری جانب یہ شعبہ1.5%ملین لوگوں کے لیے روزگار کا زریعہ بھی ہے۔ یہ شعبہ ملک میں گوشت کی مانگ کے توازن کو برقرار رکھنے میں بہت اہم ہے کیونکہ گوشت کی ملکی مانگ کا35%حصہ پولڑی کا شعبہ پورا کر تا ہے۔ سال 2019-20کے دوران اس شعبے میں 9.1%اضافہ ہوا۔ ماہی گیری بھی ساحلی علاقوں میں رہنے والوں کے لیے روزگار کا زریعہ ہے۔ ملکی جی ڈی پی میں اس کاتناسب 0.4%ہے۔ سال 20019-20میں پاکستان نے تقریبا کل 701762میڑک ٹن مچھلی درآمد کی اس کے علاوہ ہم نے49528ملین روپے کی مچھلی اور مچھلی سے متعلق دیگر پیداوار فروخت کیں۔

مجموعی طور پر اس شعبے میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔ مچھلی کی مجموعی برآمدات کا حجم 2.7%رہا۔ جنگلات کا زراعت میں کلیدی کردارہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کل رقبے کاصرف5.01%جنگلات پر مشتمل ہے۔ ملک میں کل 4.51ملین ہیکڑ جنگلات ہیں جن میں سے 3.44ملین جنگلات سرکاری اراضی پر جبکہ باقی پرائیویٹ اراضی پر مشتمل ہیں۔ یوں جنگلا ت کا حصہ محض2.1%ہے جسکی وجہ سے ملکی زراعت پر شدید منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ہمیں اپنے عدسے زرعی معیشت کی طرف موڑنے کی اشد ضرورت ہے بلخصوص آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں اس شعبے میں روشن مستقبل کے وسیع ترین مواقع موجود ہیں۔ ان علاقوں پر توجہ دینے سے نہ صرف ملکی معیشت میں اضافہ ہو گا بلکہ ان علاقوں کی پس ماندہ عوام بھی تیزی سے ترقی کر ے گی۔مزید سستی اور عدم توجہی کی وجہ سے صورتحال مزید گھمبیر ہو جائے گی۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
51751

پس وپیش – یہ ہوتا رہا تو تھوڑی اور چلے گی – اے۔ایم۔خان


پس وپیش – یہ ہوتا رہا تو تھوڑی اور چلے گی – اے۔ایم۔خان

سوشل میڈیا نے ہمیں ڈیجیٹل دُنیا میں لے آئی۔ اب چترال میں چند الفاظ یا مرکب  جو برائے نام اعزاز و القاب کی صورت میں دئیےاور لئے جاتے ہیں اُودھم مچا دی ہیں ۔ چترال میں ایک دوسرے کو،  خود کو ، اپنے خاندان کے کسی فرد کو  ایک ٹائٹل کا حقدار بنا نا یہ ایک میڈیا گیم بن چُکی ہے ۔ جب  ایک صفحے میں یہ پوسٹ ہوگئی تو  اسے زیادہ سے زیادہ پسند کی جائے، شئیر اور اکنالج بھی کی جائے۔ اس عمل میں سوشل میڈیا میں لوگوں کے گروپس بھی بنے ہیں اور وہ ایک دوسرے کیلئے یہ کام کرتے ہیں۔[گوکہ شیئرنگ میں مارکیٹنگ کی چیز اور ایک کاز کو آگے لے جانے میں بھی فرق ہے]

 درحقیقت  یہ ایک احساس [[… ہے  اور مصنوعی بناوٹ کی ایک بڑھتی معاشرتی رجحان ہے جو سوشل امیج سے ڈیجیٹل امیج میں ٹرانزشن کی وجہ سے سیلف  پروفائلنگ اور مارکیٹنگ کو دیکھ کر ہور ہی ہے۔ ہمارے ہاں اسکی نوعیت سماجی ہے اور دوسرے لوگوں کیلئے یہ ایک پیشہ ورانہ کام ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک میں ڈیجیٹل امیج کو دیکھ کر اور اس بناء پر کمپنیز ملازم ہائر کرتے ہیں۔

گزشہ دو سال سے سوشل میڈیا میں ایک ٹر ینڈ شروع ہوئی جسمیں لوگ فیسبک پروفائل فوٹو اپڈ یٹ کرنا شروع کئے جو نہایت  نمایان ہوتے تھے۔ ایک صارف ،سجاد حسین،  نے سوشل میڈیا میں اس تناظر میں  ایک پوسٹ میں  لکھا ، چلو اب ہم اوریجنل فوٹو لگانے کا چیلنج شروع کر دیتے ہیں۔ اسکا مطلب یہ تھا کہ ہمارا اصل فوٹو کسطرح ہے اُس سےجسے ہم فیسبک میں لگاتے ہیں۔ دوسرے تناظر میں اسے دیکھا جائے تو چترال سے  سوشل میڈیا صارفین کا یہ میڈیا پروفائلنگ کی روایت چلنے کی علامت تھی اور اُس کی نوعیت سماجی پروفائلنگ تھی اور اب بھی وہی ہے۔  

 ایک زمانے میں اعزازو القاب اور نام ریاست کی طرف سے دی جاتی تھیں۔  ہندوستان میں لوگوں کو ٹائٹل دئیے جاتے تھے ، پھر فرنگی راج کے دوران رائے بہادر کی لقب ، سر کے علاوہ اور  دوسرے اعزاز دئیے جانے لگے۔  اور آزادی کے بعد  پاکستان میں مختلف مواقع پر لوگوں کو ایوارڈز سے نوازا جاتا ہے ۔ اب یہ ایوارڈز کام اور  کارکردگی کے علاوہ سیاسی  بھی ہوتے ہیں  یہاں زیر بحث نہیں ۔

اب چترال میں چند الفاظ ایسے ہیں جو بہت زیادہ استعمال ہوتے ہیں اور وہ کیوں ہوتے ہیں یہ ایک الگ سوال ہے  اور یہ کسطرح ہوتے آرہےہیں ایک تاریخی بحث ہے جو کافی گہری ہے جس پر تاریخی اور تنقیدی بحث کی ضرورت اب محسوس ہور ہی ہے۔  

ہمارے یہاں اب موضوع بحث وہ فریم ورک ہونی چاہیے جو اس کالم کا وجہ تسمیہ ہے  جسے بنیاد بناکر لوگوں کو  خطاب یا نام دیا جائے جو اخبار کے رپورٹس اور کالم کے سرخی بن جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا میں اس پروجیکٹ کو آگے لے جانے کیلئے جو کام ہوا اور ہو رہا ہے وہ قابل غور بات اسلئیے ہے  کہ فلان کو کس نے یہ اختیار دی ہے کہ وہ زید اور بکر کو  ایسے القابات سے نوازے ۔ اور سب سے پہلے وہ فریم ورک جسے بنیاد بناکر ایک ٹائٹل دی جائے اسے واضح کیا جائے تاکہ اسکی ایک ٹھوس بنیاد سمجھ میں آجائے۔میرے خیال میں لوگوں کے کام ، کارکردگی اور کنٹربیوشن کو اکنالج کرنا ضروری ہے  جو وہ معاشرےمیں اور کیلئے کرتے آرہے ہیں لیکن وہ اگر پیشہ ورانہ طریقے اور ایک فریم ورک میں ہو تو اس کی اہمیت بھی  ہوجائے گی۔ یہ درست ہے کہ کسی کام، کارکردگی اور کنٹربیوشن کو ماپنا بھی ایک پیچیدہ اور سائنسی عمل ہے۔ جو لوگ اس پروجیکٹ میں کام کر رہے تھے انہیں اس پر غور کرنا ہوگا گوکہ اب اُن کیلئے کنٹنٹ کی شدید قلت ہورہی ہے۔

چند ہفتے پہلے فیس بک میں ایک صفحےپر  جو ممتاز لوگوں کا بایوگرافی جاری کرتی ہے اُس میں ایک ویڈیو اپلوڈ ہوئی جسمیں دماغی لحاظ سے غیر معمولی حالت میں ایک شخص فائر کرکے ایک شخص کو مار دیتا ہے اور پولیس اہلکار اُس کے ساتھ گتھم گتھا ہو رہے ہیں ۔ گویا اُس پیج میں آنے کا مطلب وہ بھی اُن لوگوں میں شامل ہے جس کے نام کے ساتھ ایک سابقہ لگا دیا جاتا ہے یعنی  وہ بھی ایک امتیازی حیثیت حاصل کرلی جو  ایک بے قصور کو مارنے کے بعد؟  

 سوشل میڈیا نے  ایک کام  کہ ممتاز لوگوں کو عام کر دی۔  جسکا ایک فائدہ یہ ہوا کہ چترال میں ایک بڑی آبادی غیر معمولی کام اور امتیازی کارکردگی کی وجہ سے ممتاز حیثیت کا حامل بن گئے ہیں۔  ہر کوئی اگر نہیں تو ایک سے دوسرے گھر میں  ہوسکتا ہے وہ شخصیت ہے۔  

چترال میں لوگوں کو اغزازی ٹائٹل دینے کا کام انگریزی صفحے سے شروع ہوئی ، اس کی مقبولیت کے بعد اُردو میں بھی یہ کاوش شروع ہوئی اور یہ سفر جاری   ہے اور اب لوگ فیچرڈ رپورٹ پبلش کر رہے ہیں انلائن کیبلز پر۔ لوگوں میں وہ تجسس ، کہ ممتاز بن جائیں کہ اُن کے نام سے پہلے  فخر ، پہلی شخص، بانی، ممتاز اور واحد شخصیت [فرد یا شخص کی قید سے آزاد ہو ] ہیں اُس نے یہ کردی اور وہ ہوگئِ ، یعنی اس ٹائٹل کا حقدار ہے ۔اُس نے یہ کی تھی یا کیا  ہے،  اوراس کام اور کارکردگی کی بنیاد پر اُسے یہ ٹائٹل دینا اسکا حق بنتا ہے ۔یہ عمل سوشل میڈیا کے ایک صفحے کے علاوہ رسمی پروگرامز میں مدعو لوگ بھی کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے زیر اثر  اب یہ مزید زیادہ ہورہی ہے۔ مثال کے طور پر  رپورٹ لکھنے والا  اُسے ‘بابائے’ کا خطاب لکھ دے تو اپنے لئے ‘ممتاز’  کا ملقب لگا دے تو وزن اور بحر دونوں براب ہوجاتے ہیں۔

یہ بھی ایک بڑی پروجیکٹ ہے جو جاری ہے  کہ اپنی خاندان کی  درخت اس طرح تیار کرلی جائے جسکی بیچ کہان کی ہے،  کتنی نایاب ہے ، کس مبارک زمیں سے ہوکر ایک تناور درخت بنی،  جس کے اتنی شاخیں ہیں اور وہ ایک علاقے سے دوسرے علاقے اور ملک میں پھیلےہوئے ہیں تاکہ لوگوں کو لگے کہ واقعی انسان کا بچہ [آدم زادہ]ہے۔ اور یہ ایک الگ بحث ہے کہ یہ اصطلاح کتنی  انکلوزیو ہے اور کس طرح ایکسکلوزیو  ہوجاتی ہے۔  

چترال سے ایک خاتون،  جو جاپان سے گزشتہ سال یا اس سے پہلے اپنی ڈاکٹریکٹ کی ڈگری مکمل کرکے آئی تھی، ممتاز لوگوں کیلئے مختص فیسبک صفحے پر ایک دفعہ کمنٹ میں لکھ دی ‘کہ یہ لوگوں کو اپنے مرضی سے ٹائٹل دینا کہ اس نے یہ امتیازی کام کرنے پر اس ٹائٹل کا حقدار ہے، یہ ایک غیر سنجیدہ اور نازک کام ہے’ تو یہ ایک ایسی ردعمل تھی جوکہ قابل غور بات تھی۔

چترال ایک چھوٹی بستی ہے جسمیں لوگ سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں اور پہچانتے ہیں۔ سوشل میڈیا پروفائلنگ، مارکیٹنگ ، بناوٹ، سجاوٹ  اور شہرت اپنی جگہ لیکن وہ ٹرینڈ جس سے ایک احساس[کمتری اور برتری]، غیر سنجیدگی اور نازک مسائل جنم لیں اور سماجی اور نفسیاتی فاصلے پیدا ہونے کے رجحانات بن جائیں تو معاشرے میں  اُس کی تاثیر غیر صحت مند ہے۔ اور اگر یہ ہوتا بھی رہا تھوڑی اور چلے گی اور آخر میں سوشل حقائق اور ڈیجیٹل پروفائل آپس میں کمپلائنٹ نہ ہوں تو سسٹم کے فنکشن میں فرق آجائے گی تو پھر سسٹم کو دوبارہ سوفٹ وئیر کرنا پڑے گا جس سے ڈیٹا لاز ہونے کا خطرہ بھی ہوسکتا ہے۔   —

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
51746

میری ڈائری کے اوراق سے – ایک دو جملے میتارباک کی 19 ویں برسی پر – تحریر شمس الحق قمر

میری ڈائری کے اوراق سے – ایک دو جملے میتارباک کی 19 ویں برسی پر – تحریر شمس الحق قمر

بونی کی مشہور شخصیت میتار باک یا آدم زادہ کا اصل نام بلبل تاج تھا(1912 تا 22 اگست 2002) ۔  دادا جی  کی پیدائش کا سال 1912 قیاس کیا جاتا ہے کیوں کہ دادا جی خود فرماتے تھے کہ 1918 میں ہسپانیہ سے پھیلنے والی متعدی وباء 1919 میں جب جنوبی چترال پہنچی تو یہ جملہ زبان زدِ خاص و عام ہوا  ” بریک سنگورا ہائے”  ۔ دادا بتاتے تھے کہ گاؤں میں مرنے کی شرح اتنی بڑھی  کہ تجہیزو تکفین کے لئے انسانوں کا قحط  سا پڑگیا تھا۔  اُدھر گاؤں، محلّہ سب سنسان ہے، ایک  ہو کاسا عالم ہے ،بیماری کے خوف سے سہمے ہوئے لوگ ااپنی باری کے انتظار میں  اپنے اوسان خطاء کئے بیٹھے ہیں اور اِدھر ہٹا کھٹا اور زندگی کے غموں سےیکسر آزاد بچہ ( بعد کا  آدم زادہ اور میتار باک)  بستر مرگ پر زندگی اور موت کی کشمکش میں  پڑے ماں باپ کےلئے پھوشپاک ٹِکی بنارہا ہے (ہنگامی طورپر خوراک کی ضرورت کو پوری کرنے کےلیے گوندھے ہوئے آٹے کی خمیر کو تازہ تازہ اٹھاکر گرما گرم راکھ  کے نیچے رکھ کر اوپر چنگاریاں رکھی جاتی ہیں جسے کھانے سے خوراک کی فوری ضرورت پوری ہو جاتی ہے جسے کھوار میں  “پھوشپاک”  کہتے ہیں )  ۔اپنی عمر کے بارے میں  آپ فرماتے  تھے کہ وباء کے دنوں آپ یہی کوئی سات سال کی عمر  کا نونہال تھے ۔

chitraltimes matar bak

            داد جی میتار باک کے نام سے مشہور کیوں ہوئے ؟  اس نام  کی وجہ تسمیہ کے بابت گاؤں کے مُعمّرلوگ کہتے ہیں کہ دراصل اُن کے والد زرعالم تاج (مرحوم )کو گاؤں کے باسیوں نے اس نام سے ملقب کیا تھا ۔ میں نے  خود دادا  جی سے سنا تھا کہ  اُن کے والد زرعالم تاج معاشی طور پر متمّون اگر چہ نہیں تھے تاہم اپنے آپ کو مہتر چترال کا مد مقابل سمجھتے ہوئے ریاست کے اندر ایک چھوٹی سی ریاست بنائی ہوئی تھی جس میں اُس نے گاؤں کے چیدہ چیدہ لوگوں کا ایک مجلس شوریٰ بنایا ہوا تھا اور خود ، خود ساختہ،  حکمران بن کر علامتی طور پر مہتر چترال کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ ہم اگرچاہیں تو اپنے لیے الگ ریاست بھی بنا سکتے ہیں ۔  دربار سجتا ، عوام آتے اور لوگوں کے مسائل مقامی طور پر سنے جاتے ۔ ایک باغی سا آدمی تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ گاؤں کے لوگوں نے میتارباک کا لقب دیا جو کہ منتقل ہوکر میرے دادا اور دادا کے بھائیوں تک پہنچا ۔ اسی نسبت سے آجکل ہمارے محلے کوبھی ” میتارباکان دور” کہتے ہیں ۔

            دادا جی کو گاؤں اورگاؤں سے باہر کے لوگ “آدم زادہ ” کے نام سے جانتے تھے ۔  لفظ “آدم زادہ ” کھوار زبان میں اُن لوگوں کےلیے مخصوص ہے جنہوں نے عزت دیکر عزت کمانے کے فلسفے کو سمجھا اور عزت کمائی   ۔  یہ یقیناً بہت بڑا اور اعزازی لقب تھا جوگاؤں کے لوگوں نے آپ کے مثالی کردار اور خدمات کے عوض آپ کو دیا تھا یہ لقب اُنہی کے ساتھ منسوب رہا ۔ سوال یہ ہے کہ یہ لقب کیوں کر ایک ٹھیٹھ اَن پڑھ آدمی کو  دیا گیا تھا  ؟ گاؤں کے  معتبر اورمُعّمر لوگ کہتے ہیں کہ 1900ء کے اوائل میں علاقے میں غربت اتنی تھی کہ انسان امراض سے زیادہ افلاس اور غربت و تنگدستی کے ہاتھوں مر جاتا تھا ۔ صاحب و محتاج و غنی سب ایک تھے ۔ غربت کی حد یہ تھی کسی کے گھر میں کھانے کےلیے کچھ ہوتا  تو اُسے  پکاتے وقت اپنے گھروں کے دروازوں کو باہر سے مقفل رکھتے ٓ ۔  ایسے میں ایک آدمی کےلیے کتنا مشکل فیصلہ ہوگا کہ وہ اپنے بچوں کو بھوکا سُلا کے دوسرے بھوکوں کی خبر گیری کرے ۔ دوپہر کا وقت تھا داداجی نے کسی راہگیر کو یہ کہتے سنا کہ ” کہاں جائیں کون اللہ کا بندہ ہوگا کہ ایک نوالہ کھلائے اور ہماری جان بچائے ”  دادا جی نے راہگیروں کو روک لیا اور بولے ” آو میرے ساتھ میں ہوں آپ کو کھانہ کھلانے والا ” ۔ یہ مسافر بڑے شش و پنج کے عالم میں ان کے ساتھ اُن کے گھر روانہ ہوئے ۔ گھر میں کھانے کو کچھ بھی نہ تھا لیکن اُس نے ایک تدبیردل میں  سوجھی ہوئی تھی، اُنہیں معلوم تھا کہ گھر میں کاشت کرنے کےلئے کوئی ادھا کلو چاول بھگونے کےلیے تیار پڑا ہے ۔ اگرپہلے  بھگویا گیا ہے تو اُسے پانی سے نکال کر اُس کے گیلے چھلکے اتار کر اُبالا جا سکتا ہے اگر ابھی تک نہیں بھگویا گیا ہے تو اپنی بیوی سے کُٹوا کے پکوائے گا تاکہ انسانوں کی جانیں بچ جائیں( یاد رہے کہ چاول کو کاشت کرنے سے پہلے اُسے چند دنوں کےلئے پانی میں بھگویا جاتا ہے تاکہ اُس کی چڑیں نکل آئیں اور بوائی کےلئے تیار ہو) ۔گھر پہنچ کر اپنی بیوی یعنی میری نیک دل دادی( مرحومہ) کو راہگیروں کا مسئلہ بتایا اور یوں چاول ابھی تک نہیں بھگویا گیا تھا ۔ تازہ چاول کو خود کوٹ کر چھلکے اُتارے  ، مرغی کو ذبح کیا اور ادھے گھنٹے میں ایک شاہی طعام تیار تھا ۔ مسافروں نے کھایا ، خوب دعائیں  دیں اور چلتے بنے ۔ ادھر مہمانوں کے جانے کے بعد دادی امّاں نے دادا سے استفسار کیا کہ اپ کہاں سے چاول لا کر کاشت کرو گے تو دادا نے کہا ” ہمارا خالق چاول سے بہت بڑا ہے, پیدا کیا ہے تو روزی بھی دے گا جیسے ان بھوک سے نڈھال راہگیروں کےلیے مجھے اور آپ کو سبب بنایا “

            مضبوط قویٰ کا آدمی تھے ۔ بلا کے خوش خوراک ، جسمانی ورزش کے دلدادہ ۔ تیراکی کا مشہور استاد جوکہ بونی کے سامنے دریائے چترال کے بھنوروں سے کھیلتا ہوا جنالکوچ جنالکوچ تک جاتے  ۔ زندگی بھر کھانے کی کسی چیز سے پرہیز نہیں کیا ۔ ناشتے میں اکثر شکایت کرتے اور کہتے کہ ہم اپنے زمانے میں 6 سے 10 انڈے ایک وقت میں کھایا کرتے ۔ ڈراور خوف نام  کی کوئی لفظ اُس کی لغت میں نہیں تھا   گھر میں بیٹھے اگر زور دار بھونچال آجائے تو بھی ہمیں گھر سے باہر نکلنے نہیں  دیتے  اور کہتے  ” کہاں بھاگے جا رہے ہو میں جو یہاں بیٹھا ہوں ”  یہ عظیم شخص آج کے دن  بعمل 11   اپنی جان ، جان آفرین کی سپرد  کی اور ہمیں ہمیشہ کی داغ مفارقت دی ۔حق معفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
51740

مہنگائی کی ساتویں لہر ۔ محمد شریف شکیب

Posted on

سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کی جانب سے جولائی کی ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی کی قیمت میں ایک روپے 47پیسے فی یونٹ اضافے کی درخواست دائر کردی گئی۔ نیپرا یکم ستمبر کو سماعت کرے گا۔درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ جولائی میں مجموعی طور پر 15 ارب 21کروڑ یونٹس بجلی پیدا کی گئی، ہائیڈل سے 29.94فیصد، کوئلے سے 15.29 فیصد، مہنگے فرنس آئل سے 10.28 فیصد، مقامی گیس سے 8.68، درآمدی ایل این جی سے 20.01 فیصد اور ایٹمی پلانٹ سے 10.59 فیصد بجلی پیدا کی گئی.

جولائی کے لئے ریفرنس فیول لاگت 5 روپے 27 پیسے فی یونٹ مقرر تھی اور جولائی میں بجلی کی پیداواری لاگت 6 روپے 74 پیسے فی یونٹ رہی۔ نیشنل پاور ریگولیٹری اتھارٹی نے اگر پرچیزنگ ایجنسی کی درخواست منظور کرلی تو یہ رواں سال بجلی کی قیمت میں ساتویں بار اضافہ ہوگا۔ اور گھریلو صارفین کے لئے بجلی کی قیمت سولہ روپے یونٹ پڑنے کا امکان ہے۔ موجودہ حکومت کے تین سالوں میں بجلی کی قیمت میں اٹھارہ مرتبہ اضافہ ہوا ہے۔

اس کے باوجود حکومت بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی ذمہ داری تین سال پہلے سبکدوش ہونے والی حکومت پر ڈال رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں پانی سے سستی بجلی پیدا کرنے کے بجائے تیل سے بجلی پیدا کرنے پر زیادہ توجہ دی گئی۔ کیونکہ اس سودے میں کمیشن کی صورت میں حکمرانوں کو کروڑوں ڈالر کا فائدہ پہنچ رہا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مفلوج نظام کوواپس ٹریک پر لانے کے لئے وقت اور وسائل درکارہوتے ہیں۔موجودہ حکومت تین سالوں تک سابقہ حکومتوں کو کوستی رہی ہے اور عوام نے بھی ان کے موقف کی تائید کی اور اصلاح احوال کے لئے حکومت کو مہلت دیتے رہے۔ مگراب سابق حکمرانوں کو موردالزام ٹھہراکر راہ فرار اختیار کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔

تیل،گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا اثر ہر چیز پر پڑتا ہے۔ گذشتہ تین سالوں میں تیل، گیس اور بجلی کی قیمتیں تقریباً دوگنی ہوگئی ہیں اور تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں دو سو فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کو مہنگائی بڑھنے کا ادراک ضرور ہے،وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ اس کا اظہار بھی بار ہا کرتے رہے ہیں مگر اس کا تدارک کرنے اور عوام کو ریلیف پہنچانے کے لئے کچھ نہیں کیا جارہا۔چند شہروں میں لنگر خانے کھولنا مہنگائی کا توڑ نہیں۔ نہ ہی منتخب عوامی نمائندوں اورسرکاری ملازمین کی تنخواہیں اور مراعات میں اضافے سے عوام کو ریلیف مل سکتا ہے۔

سرکاری ملازمین ہڑتال، جلسے اور دھرنے دے کر اپنی تنخواہیں بڑھا دیتے ہیں عوام کیا کریں۔وہ اگر احتجاج کے لئے سڑکوں پر نکلیں گے تو ان کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ جائیں گے اور فاقوں کی نوبت آئے گی۔ حکومت کو سب سے پہلے اپنی انتظامی مشینری کو لگنے والی زنگ نکالنی ہوگی۔تنخواہیں اور مراعات بڑھانے کے لئے دھرنے دینے والوں کو ڈیوٹی سرانجام دینے پر مجبور کرنا ہوگا۔ مارکیٹ اکانومی کو کنٹرول کرنے کے لئے مجسٹریسی نظام کی بحالی ناگزیر ہے۔ پرائس ریویو کمیٹیاں اپنی افادیت کب کی کھوچکی ہیں۔ ائرکنڈیشنڈ دفتروں میں بیٹھ کر اشیائے ضروریہ کے نرخ مقرر کرنے والوں کے پاس اپنے احکامات پر عمل درآمد کرانے کا کوئی مکینزم نہیں ہوتا۔

پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے ہر مہینے جاری کئے جاتے ہیں سرکاری کرایہ نامہ اور مسافروں سے وصول کئے جانے والے کرائے میں آسمان زمین کا فرق ہوتا ہے۔ دس پندرہ سال پہلے کسی کلرک نے کمپیوٹر پر کرایہ نامہ کا شیڈول بنایا ہوتا ہے۔ اوپر تاریخ تبدیل کرکے وہی کرایہ نامہ آج بھی جاری کیا جاتا ہے۔ حالانکہ دس سال پہلے پٹرول کی قیمت 35روپے اور پشاور سے مردان کا کرایہ آٹھ روپے تھا۔ آج پٹرول 120کا اورکرایہ 80روپے ہوگیا ہے۔مگر بابو لوگوں کو خبر ہی نہیں۔ ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ تو حکومت نے کیا تھا۔ یہاں لاکھوں افراد اپنے لگے بندھے روزگار سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔دو وقت کا کھانا کھانے والے اب ایک ہی وقت کھانے پر اکتفا کر رہے ہیں حکومت انسانی ہمدردی کی بنیاد پر یہ حق غریبوں سے نہ چھینے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
51726

زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم پرکوسپ غورو

زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم پرکوسپ غورو

پرکوسپ چھوٹے دیہات پر مشتمل مستوج سے جڑا ہوا گاؤں ہے۔گشتہ کئی سالوں سے اس گاؤں کے سوتیلی ماں کا سلوک کیا جا رہا ہے۔

۔چار ہزار نفوس پر مشتمل پرکوسپ۔غورو پایئن غورو بالا موژدہ گل بیار۔غورو لشٹ اب بھی اس ترقی یافتہ دور میں زندگی کے بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔اس علاقے کا لیٹرسی ریٹ 90% ہے۔

کسی بھی علاقے کے چند سہولیات ایسے ہیں جو اس علاقے کا بنیادی حق تصور ہوتے ہیں۔اور یہ کام ریاست اور عوام کے منتخب نمایندوں پر عائد ہوتی ہے کہ اپنے آولین ترجیح میں ان ترقیاتی اور بنیادی کاموں کو اہمیت دیں۔اور لوگوں کی معیار زندگی کو بہتر بنایئن۔

صاف پینے کا پانی
ہسپتال
بجلی کا نظام
تعلیم
سڑکین اور پل

گزشتہ کئی سالوں سے اپنے جائز حق کے واسطے اس علاقے کے باسی ہر سیاسی نمایندے اور براۓ نام انصاف کے دعوے داروں کو منت کرتے پھیر رہے ہیں۔لیکن بدقسمتی کہیں یا بے ہسی پنجرے میں بند طوطی کی طرح ان کی آواز کوئی نہیں سنتا۔اور نہ سنے کو تیار ہیں۔

اس علاقے کے باسی اور یہاں کے معصوم بچے اور بچیاں 18 کلو میٹر کا فاصلہ طے کے مستوج میں جا کر پڑھتے ہیں۔اس علاقے میں اب تک سرکار نے ایک ڈسپنسری تک بنایا ہے۔علاقے کے لوگ بیماروں کو کاندوں پر اٹھا کر مستوج ہسپتال یا آغا خان بیسک ہیلتھ سنٹر چوینچ لے جاتے ہیں۔

گزشت سال سیلاب کی وجہ سے مستوج چینار اور پرکوسب غورو کو ملانے والا واحد پیدل چلنے والا پل سیلاب کے نظر ہوا علاقے کے عوام نہ جانے کوئی ایسا سرکاری دفتر نہیں چھوڑا جس کے دروازہے پر دستک نہ دی ہو۔

مستوج قساڈو پل سے لے کر غورو تک تک سڑک کھنڈارات کا منظر پیش کر رہا ہے۔کسی بھی وقت بڑے سانحے کا سبب بن سکتا ہے۔اور یہ کھنڈارات نما سڑک ہمارے نمایندون کی بے ہسی اور لاپرواہی کا رونا رو رہے ہیں۔اس روڈ کی مرمت اور توسع وقت کی اہم ضرورت ہیں۔

اس علاقے میں اب تک بجلی کا نظام بھی درست نہیں ہے۔کئی سالوں سے بجلی کے کھمبے اکھڑے ہوۓ ہیں۔غورو سے لے کر غورو لشٹ تک ریشن بجلی گھر اب تک مہیا نہیں کیا گیا ہے اور ساتھ گرے ہوۓ کھمبے اب تک وہ اسی حالت میں پڑے ہیں جبکہ ادارہ ہذا خوب خرگوش سو رہا ہے۔

انصاف کے سرکار سے اور ضلعی انتظامیہ سے سوال ہے۔

سنیڑ فلک ناز صاحبہ
ایم این اے مولانا عبداکبر چترالی صاحب
ایم پی اے مولانا ہدایت الرحمن صاحب
معاون خصوصی براۓ وزیراعلیٰ ؤزیرذادہ صاحب
ڈپٹی کمشنر اپر چترال

کیا یہ بنیادی سہولیات اس علاقے کا جائیز حق نہیں ہیں۔کیا یہ آپ کے فرایض منصبی میں شامل نہیں ہیں۔
کیا حقوق اس علاقے کو ملنا نہیں چاہیے۔

اگر یہ سارے مسائل کسی منتخب نمایندے کے علاقے کو پیش آئیں تو شاید وہ سرکار کو ہلا کے رکھ دینگے۔ ہزار افسوس کہ بے سہاورں کا کوئی نمایندہ نہیں ہے۔

معزرت کیساتھ

حسین علی شاہ

chitraltimes parkusap mastuj chitral upper 2
chitraltimes parkusap mastuj chitral upper
chitraltimes parkusap mastuj chitral upper4
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51683

افغان مستقبل پربے معنی بحث کا خاتمہ بھی ناگزیر !- قادر خان یوسف زئی

افغان مستقبل پربے معنی بحث کا خاتمہ بھی ناگزیر !- قادر خان یوسف زئی

افغانستان میں دو دہائیوں یا چار عشروں سے جاری جنگ ختم ہوچکی، اس کا اعلان، فاتح کابل کے بعد کردیا گیا، لیکن سوشل میڈیا اور ٹاک شوزمیں ایک نئی جنگ کا آغاز شروع ہوچکا کہ آیا، خواتین کے حقوق پورے کئے جائیں گے یا نہیں، بچیوں کی تعلیم کا مستقبل، انسانی حقوق، عوام میں خوف و ہراس، قومی حکومت قائم ہوگی یا اسلامی ، غرض یہ ہے کہ جتنے منہ اتنی باتیں۔امارات اسلامی کے ترجمان نے اپنی پریس کانفرنس میں اپنی تمام ترجیحات و گائیڈ لائن کو وضاحت سے بیان کردیا، ان کے رہنما نے اپنے شدید مخالف نیوز چینل میں خاتون اینکر کے ہمراہ لائیو شو بھی کردیا،

افغان نیوز چینل کی خاتو ن رپورٹرز کو مرکزی شاہراؤں پر رپورٹنگ کرتے دیکھا گیا، عالمی میڈیا کی خواتین بھی کوریج کرتی نظر آئیں، شائد عالمی ادارے دیکھنا چاہتے تھے کہ اب افغان طالبان آئیں گے اور ان پر کوڑے برسانا شروع کردیں گے، مخالفین کے سر کاٹ کر چوراہوں پر لٹکا دیئے جائیں گے، مجالس جلوس روک دیئے جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔۔ تحفظات و خدشات اپنی جگہ ہیں، لیکن کوئی اس امر کو تسلیم بھی تو کرے کہ افغانستان غیر ملکیوں کی جارحیت و قبضے سے آزاد ہوا، امریکی صدر کے اعتراف پر غور کیا جائے کہ وہ افغان قوم کی تعمیر کرنے نہیں آئے تھے، تو اسامہ بن لادن کو گرفتار کرنے کے بعد ان کا ایجنڈا تو پورا ہوچکا تھا، 02مئی2011 کے بعد بھی افغانستان میں رہنے کا جواز کیا تھا، افغان فوجیوں پر اربوں ڈالر خرچ کیوں کئے جا رہے تھے، امریکہ بتائے کہ اس نے جب 20برس میں افغان عوام کے لئے مفاد عامہ کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا تو دو ٹریلین ڈالر، کابل انتظامیہ کو رشوت کے طور پر کیوں دیتے رہے، القاعدہ کے نام پر اگست 2011 اور جون 2012 میں شیخ عطیہ اللبی،شیخ ابو یحیی اللبی،ایمن الظواہری کے بعد سب سے سینئر رہنما شیخ ابو الخلیل المدنی ،، یمن میں القاعدہ کے سربراہ ناصر الوحیشی کوامریکی ڈرون حملوں میں مارا گیا۔ الوحیشی نائن الیون سے قبل اسامہ بن لادن کے سیکرٹری بھی رہے تھے۔

‘القاعدہ کے جن تین سرکردہ رہنماؤں کو ایران نے 2015 میں آزاد کیا ان میں ابوالخیر المصری اور الظواہری کا متوقع جانشین سمجھے والے ابومحمد المصری بھی مارے جا چکے ہیں۔”القاعدہ کے رہنماؤں کی ہلاکتوں میں اسامہ بن لادن کے بیٹے حمزہ بن لادن بھی مارے گئے۔اسامہ بن لادن کے علاوہ قریباََ القاعدہ کے مرکزی رہنماؤں کو امریکی ڈرون حملوں میں ہلاک کیا گیا، القاعدہ عملی طور پر ختم ہوگئی، تو زمینی جنگ افغانستان میں کیوں لڑتے رہے، بہیمانہ فضائی حملوں کا کیا جواز تھا، اپنی مرضی کا نظام نافذ کیا گیا، کبھی حامد کرزئی کو لائے تو کبھی عبداللہ عبداللہ کی جیت کو تبدیل کرکے دوہری حکومت بنوائی کہ نصف عرصہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ ٰ(چیف ایگزیکٹو) اور نصف اشرف غنی(صدر) پورا کریں گے۔، لیکن جب اشرف غنی کی مدت صدارت ختم ہوئی تو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو اقتدار حوالے نہیں کیا گیا ،

افغان انتخابات میں تاریخ کے کم ترین ٹرن آؤٹ کے باوجود، دھاندلی کے بدترین الزامات کے باوجود ایک مرتبہ پھراشرف غنی کو صدر تسلیم کروادیا، ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو امن کونسل کا سربراہ بنادیا یہ سب افغانستان میں داخلی معاملات میں مداخلت نہ تھی تو اور کیا تھا۔ امارات اسلامی اور افغان عوام اس امر کی منتظر ہیں کہ امریکہ و غیر ملکی افواج اپنے عسکری مشن ختم کریں، وہ اپنا گھر کا مسئلہ اپنی روایات و اقدار کے مطابق بیٹھ کر حل کرلیں گے۔ انہیں کسی اتحادی کی ضرورت نہیں، جو انہوں نے کرنا ہے انہیں وہ کرنے کی آزادی تو دی جائے، عالمی برداری ان پر دباؤکیوں ڈال رہی ہے کہ یہ کرو، وہ کرو، فلاں نظام قائم کرو، حقوق انسانی کی پامالی نہ ہو، تو معذرت کے ساتھ وہ بیس برسوں میں جھک مار رہے تھے، انہوں نے کون سے انسانی حقوق کا خیال رکھا، نہتے عوام پر بمباریاں، مساجد مدارس، شادی کی تقاریب، جنازوں پر حملے اورقتل عام، خواتین کی عصمت دری، سمیت جنگی جرائم کو یونامہ کی رپورٹ منکشف کرتی رہی ہے۔،

اگرعالمی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے تو امریکہ، برطانیہ سمیت نیٹو کے تمام ممالک قصور وارقرار پائیں گے۔ امارات اسلامی کی حکومت کو بے شک ابھی قبول نہ کریں لیکن افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے بعد سوشل میڈیا کے دانشور اپنی حدود میں رہیں تو بہتر ہیں، پاکستان کے ساتھ افغان طالبان کے تعلقات خراب کرنے کی کوششوں پر ٹھنڈا پانی ڈالیں، اس سے نقصان صرف ہمیں ہی ہوگا، بعض وزرا ء کی جانب سے بلاوجہ کا کریڈٹ لینے اور امریکہ کو طعنے بازی کرنے کی روش کو اب ختم کریں، سفارتی تعلقات میں بہتری کے لئے اپنے مثبت بیانیہ میں تبدیلی نہ لائیں، اور سب سے بڑھ کر تیل دیکھیں اور تیل کی دھار، پہلے ہیپوری دنیا ہاتھ دھو کر افغان طالبان کے پیچھے پڑی ہوئی ہے جیسے افغانستان انہوں نے امارات اسلامی کے حوالے کیا ہو، اس سے تنگ آمد بجنگ آمد والی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔

اس امر پر شکر ادا کرنا چاہیے کہ پاکستان کو کسی بھی جانب سے مورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا، ورنہ موجودہ حکومت کو سنبھالنا مشکل ہوجاتا، امریکہ نے اپنی ناکامی کا ملبہ افغان صدر اور فوج کے سر پر ڈال دیا اور اتحادیوں نے امریکی صدر جو بائیڈن کو تمام صورت حال کا ذمے دار قرار دے دیا۔ یہ پاکستان کے لئے ایک مثبت خبر ہے، حکومت کو افغانستان میں عوام کی اکثریت یا سیاسی و مذہبی سٹیک ہولڈر کی متفقہ حکومت قائم ہونے کے بعد افغانستا ن کی باقاعدہ قانونی حکومت کو فوراََ تسلیم کرلینا چاہیے، اور پاکستان میں موجود تمام افغان مہاجرین کو واپس اپنے وطن جانے کا آخری ڈیڈ لائن دے دینا چاہیے تاکہ افغانستان کے داخلی معاملات میں کسی بھی امن دشمن ملک کی جانب سے ناخوشگوار واقعہ ہونے کی ذمہ داری پاکستان پر عائد نہ کیا جاسکے،

افغان طالبان کے رہنماؤں کے رشتے داروں کو بھی عزت کے ساتھ رخصت کرنا چاہے تاکہ پشاور یا کوئٹہ شوری کا ملبہ پاکستان پر نہ گرایا جا سکے، یہ تو طے ہے کہ امریکہ، پاکستان پر برہم ہے لیکن ابھی اس کا کھل کا اظہار نہیں کررہا، لیکن انکل ٹام و سام ضرور اپنی ہزیمیت کا بدلہ پاکستان سے لینے کی کوشش کریں گے، لہذا بہتر یہی ہے کہ مستقبل کی قبل از وقت تیاری کرلی جائے کیونکہ یہی ملک و قوم کے حق میں بہتر ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51681

مختصر سی جھلک – تعلیم سے ہوچکی ہے تربیت جدا – فریدہ سلطانہ فّریّ

مختصر سی جھلک – تعلیم سے ہوچکی ہے تربیت جدا – فریدہ سلطانہ فّریّ

انسانی معاشرے کی بقا کا درومدار اس معاشرےکےاصول قواعد وضوابط  اوران پرعمل درامد پرہے اگرہم غورو فکرکریں تونظآم قدرت کی ہرشے  ازل سے اب تک اپنے مقررہ وقت کےحساب سے قدرت کی فرمنبرداری میں کوشاں ہے اوراگردیکھآ جائےتورب کاِینات کے سارے ہی نظآرے انسان کے لیے اشارے اورعبرت کا منظر پیش کرتے ہیں مگرصرف سوچنے اورغورو فکر کرنے والوں کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب بات سوچ سمجھ اور غوروفکر کی کرتے ہیں توفورا ہی یہ بات زہن میں اتی ہے کہ اللہ پاک نے تمام مخلوقات میں انسانوں کو اسی لیے ہی تو افضل رکھآ ہے کہ اسے اللہ پاک نے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اورعقل و شعور سے نوازا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں انسان کے لیے ہزاروں وسیلے بھی پیدا کیے ہیں کہ ان وسیلوں کو استعمال کرتے ہوئے انسان اپنےعقل و شعورکومزید قوت بخشے اور اپنے ساتھ ساتھ اپنے گردوپیش میں رہنے والوں کے لیے بھی زندگی کو سہل بنائے ۔۔۔۔۔۔

ان بہت سارے وسیلوں میں سے ایک بہت ہی اہم اورمستحکم وسیلہ جو انسانی عقل و شعورکو مظبوط و مستحکم کرنے کے لئے ریڑھ کے ہڈی کی حیثیت رکھتا ہےوہ تعلیم یا علم ہے جو انسان کومعتبر کرکےاسمان کی بلندیوں تک پہنچادیتا ہے۔۔۔۔۔۔

مگر اہم بات یہ ہے کہ تعلیم یا علم اس وقت سود مند ہوگی اورعقل وشعورکو قوت بخشنے کے قابل ہوگی۔ جب تعلیم کے ساتھ تربیت اورعلم کے ساتھ عمل پر بھی زور دیا جاَئے ورنہ تعلیم سے تربیت اورعلم سے عمل کو نکال کر زندگی بغیراصول و قاعدوں کے گزاری جائے تو یہی حالات پیدا ہوں گیں جو اج کل ہمارے معاشرے میں ہو رہَی ہیں اور ایسے معاشرے میں بیٹے بیٹیاں کیا جانور بھی محفوظ نہیں رہ سکتے اورایسے ماحول میں انسان خود سے بھی محفوظ نہیں رہ سکتا ۔۔۔۔

یہ خود کشیوں کے واقعات،یہ بچے اور بچیوں کے ساتھ جنسی، تشدد یہ لوٹ مار، والدین کے ساتھ بدسلوگی ،رشتوں کا تقدس پامال ہونا ۔۔۔۔۔۔

یہی تو جنم لیں گیں ایسے معاشرے میں جہا٘ ٘ن کے لوگوں میں عقل وشعور کی کمی ہوں جہاں تعلیم سے تربیت اورعلم  سےعمل  کو نکال کر زندگی گزاری جاَئے پھر ۔۔۔۔

مینارپاکستان کا پارک کیا ایسے صورت حال میں کوئی گھرکی چاردیواری میں بھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔۔۔۔ کیونکہ حیوانوں کو کھلے میدان میں چھوڑ دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یا گھروں کےانگن میں ان سے کہی بھی کچھ بھی توقع کی جاسکتی ہے ۔۔۔۔   

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
51679

شہنشاہِ شہنائی اور چترالی راگوں کا معروف استاد اجدبر خان ۔شمس الحق قمرؔ چترال

میری ڈائری کے اوراق سے ۔ (شہنشاہِ شہنائی اور چترالی راگوں کا معروف استاد اجدبر خان) ۔ شمس الحق قمرؔ چترال

یہ 14 اگست 1984 کی بات ہے جب صبح 6 بجے بونی دول دینیان ٹیک سے کانوں میں رس کھولتی غلوارکی دھن سے پورا گاؤں گونج اُٹھا تھا ۔ اُس زمانے میں میری عمر یہی کوئی 16 سال تھی ( یاد رہے کہ ریاستی دور میں اسی ٹیلے کے اوپر صبح پو پھٹتے ہی شہنائیاں بجا کر سہ پہر کوکھیلے جانے والے پولو کا اعلان کیا جاتا تھا۔  یوں چوگان بازی کے تمام رسیا پولو شروع ہونے تک گھر ہستی کی تمام سرگرمیاں سمیٹ کر پولو دیکھنے کی تیاریاں مکمل کر چکے ہوتے تھے  )- آج  صبح کے  سرنائے کی آواز میں  بلا  کی شیرینی تھی۔ راگی نے اپنا راگ کب کا ختم کیا ہوا تھا لیکن میرے کانوں میں اب بھی سرنائے کی روح پرورمگر دھیمی آواز دیر تک محسوس ہوتی رہی ۔ میں نہیں جانتا کہ کیا یہی کیفیت دوسروں پر بھی طاری ہوئی تھی یا نہیں، مجھ پر اُس کا اثر اتنا دیر پا رہا  ہے کہ اب بھی اُس  لے کی مدہم لہریں دل  کے پردوں سے منعکس ہوتی محوس ہوتی ہیں ۔

 دنیائے موسیقی میں یہ میرا پہلا انوکھا  تجربہ تھا کہ میں ایک غیر مرئی کیفیت سے گزر رہا تھا جس کی تشریح  مجھ سےتا حال  ممکن نہیں رہی ۔ البتہ  میں اتنا ضرورسوچ سکتا تھا کہ سُرنائے پر غلوار کی دھن الاپنے والا اپنے منصب میں  واحد و یکتا ضرور  تھے۔ ایسی ہی ایک کہانی جب میں نے دنیائے موسیقی کی تاریخ میں تان سین کی پڑھی تو معلوم ہوا کہ اجدبرخان کتنے بڑے راگی تھےکہ جن کے  بجا ئے ہوئے ساز تمام موسیقی پرور لوگوں کے دلوں میں نقش ہیں ۔ تاریخ میں اسی طرز کا ایک اورشخص 1500 عیسوی میں گزرے ہیں  جن کے سازوں، گانوں اور راگوں  میں سوز کی شدت اتنی شدید تھی کہ جب دیپک راگ آلاپتے تو خاموش دیئے جلنے لگتے اور میگھ راگ بجاکر  یا  پھرگا کر بادلوں کی آنکھوں کو  پُر نم کیاکرتے۔ یہ ہے موسیقی کا کمال کہ جس کے سوز سے آگ کے دل میں آگ لگتی ہے اور جس کے ساز سے بے لگام بادل مُسخّر ہوجاتے ہیں ۔  اس سچائی تک پہنچنے کےلیے آج کی سائنس نے تجربات سے ثابت کیا ہے کہ موسیقی، راگ، دھن اور سازوں سے انسان کو اس حد تک محو کیا جا سکتا ہے کہ اُس کے جسم کو چیر پھاڑ کرجراحی کرنے سے بھی دُھنوں میں مست مریض کی آنکھوں سے  خمار نہیں اترتا ۔  

            یہی تان سین والا جادواجد برخان( 1918 تا 2003) کےسرنائے کی لَے میں تھا۔ میرے دوست شمس الدین کی تحقیق کے مطابق آپ کے آباؤ ادجداد دیر سے ہجرت کر کے چترال  آئے تھے ۔ ریاستی دور میں چترال فورٹ میں اپنے فن موسیقی سے پورے دربار کو محظوظ کئے رکھا ۔ آ پ  کی بجائی ہوئی دھنیں آج بھی پرستاروں کے ذہنوں میں تازہ ہیں اور رہیں گی۔ اُنہیں موسیقی کی سات بنیادی سُروں( سا، رے ، گا ، ما ، پا ، دھا، نی )کو دو پر تقسیم کر کے کھوار دُھنوں کےمخصوص اُتارچھڑہاؤ کےعین مطابق بنانےکا فن خوب آتا تھا۔

کھوارموسیقی کی بعض دُھنیں سات سے زیادہ سروں کی ترتیب سے بنتی ہیں جیسے اگر ہم سونوغروملنگ کا کلام   

؎

گمبوریان ایتودیتی شا شوترینین بند کورونیان اوا عشقو قلمدار روے مہ ساری شانگ کورونیان- یا یارخون و حاکم کی دھنی 

؎

مشکی نو لیم کھول وطانہ ای یاری جانی اوا سمر قندہ بندی تان دوستو گانی، کی دُھن سنتے ہیں تو سرنائے ، ستار ، بانسری وغیرہ میں ایک اور سُر کی طلب کا احساس ہوتا ہےکیوں کہ موسیقی کے آلات سات سروں کے نقشے پر بنائےہوئے ہوتے ہیں جہاں آٹھواں سُر ممکن نہیں ہوتا۔

لیکن کھوار موسیقی کا دائرہ کا سار سروں سے زیادہ ہے  یہ دئرہ  اُس وقت مکمل ہوتا ہے جب گانے یا   بجانے والا آٹھواں سر سے گزرے۔  یہ کمالِ فن صرف اجدبر خان کو حاصل ہے کہ  سُروں کی انوکھی تقسیم سےآٹھواں کھرج تخلیق کرتے ہیں۔ سُروں کی اس تخلیق کےلیےکسی شہنائی نواز کو اپنی سانسوں پر کنٹرول اور انگلیوں کی پوروں کے استعمال  پر خوب دست رس حاصل ہونا چاہئے۔ کھوار موسیقی میں ایک سُر سے ایک اور سُر تخلیق  کرنے کا ملکہ چترال کے شہنائی نوازوں میں صرف اور صرف اجدبر خان کو حاصل ہے ۔ سرنائے کے تمام  سوراخوں پر انگلیاں رکھ کے ہوا پھونکنے سے جو کھرج پیدا ہوگا وہ موٹا ہوگا( یاد رہے کہ ستار بجاتے ہوئے اوپر کے پردوں میں آواز موٹی اور نشیب میں پتلی ہو جاتی ہے )  جیسے جیسے آپ نیچے سے انگلیوں کی پوریں اٹھا کر اُوپر کی طرف جاتے ہیں تو آواز باریک اور پتلی ہوتی جاتی ہےیوں  سرنائے یا بانسری کے اوپر کے  آخری خانے سے جب آخری اُنگلی اُٹھ جاتی ہے تو سُروں کا اختتام ہوجاتا ہے۔ ہمارے شہنائی نواز ان ہی سات سُروں  پر لے پورا کرتے ہیں مگر گانے کا  دائرہ مکمل نہیں ہوتا یوں موسیقی  تو جنم لیتی ہے جبکہ دُھن میں تشنگی باقی رہتی ہے  لیکن اجدبرخان اپنی سانسوں کی قیامت خیز تغیرو تبدل اور اُنگلیوں کی پوروں کی فنکارانہ جنبش سے سرنائے کی آخری خانے کو دو میں تقسیم کرکے سُرکا وہ جادو جگاتے ہیں جوکہ آج تک اجدبر خان کے علاوہ  کسی اور شہنائی  نوازکے نصیب میں نہیں آیا ۔

اجدبرخان کی بجائی ہوئی دُھنوں کی کیسٹیں اگر توجہ سے سنیں گے تواُن میں  آپ کو کسی دُھن کے صَوتی دائرے کو پورا کرتے کرتے مزید کھرج کے لئے راستہ معاً  بند ہوجانے کی صورت میں  موصوف کے سرنائے سے ایک پتلا سرُ نکلتا محسوس ہوگا جوکہ اُس  دھن کے فطری دائرے کواپنے منطقی نتیجے تک پہنچا ئے گا ۔ اس سحر انگیزی  میں موصوف ایک مشکل اور نئے تجربے سے گزر کر ہی  یہ سب کچھ ممکن بنا لیتے ہیں  ۔ آج کھوار موسیقی میں  سُرنائے بجانے والے راگی کئی ایک ہیں لیکن اجدبر خان کی طرز پر بجانے والے شہنائی نواز صدیوں میں بھی شاید پیدا نہیں ہوں گے۔  اللہ مرحوم کو   جنت فردو س میں اپنے مقرّبین کی صف میں جگہ عطا فرمائے ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51665

پانی کو ترستا درخت بھی تو مظلوم ہے – فلاحی تنظیم چپس

(رپورٹ: مبشر علی مبشر)


ماحولیات پر کام کرنے والی تنظیم چپس نے عشورہ کے دن قاقلشٹ آکر پودوں کی آبیاری کی اور اس بات کا اظہار کیا کہ اس دنیا کو رہنے کے قابل بنانا بھی ایک طرح حضرت امام حسینؑ سے عقیدت کا اظہار ہے۔

جمعرات کے روز چیئر مین چپس رحمت علی جعفر دوست کی قیادت میں چپس کے کارکن فی کس اپنے ساتھ پانی سے بھرے گلین اور بوتل لے کر قاقلشٹ گئے اور حکومت کی طرف لگائے گئے پودوں کی آبیاری کی۔

پودوں کی صحیح دیکھ بھال پر زور دیتے ہوئے رحمت علی جعفر دوست نے کہا کہ جب تک عوام موسمیاتی خطروں کے معاملے میں حکومت کے شانہ بشانہ کھڑی نہیں ہوتی تب تک نئے پودوں کو ایک گھنے درخت میں تبدیل دیکھنا ایک بے حقیقت خواب ہے۔

ساتھ ہی جعفر دوست نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ اس دنیا کو جینے کے لئے سازگار بنانا بھی ہماری سماجی اور مذہبی فرض ہے۔ لہذا ہر انسان کی کوشش ہونی چاہئے کہ وہ اپنی مذہبی یا ذاتی مواقعوں پر جیسے سالگرہ ہوگئی‘ کوئی ایک پودہ لگائے یا کم ازکم پودوں کو پانی ڈالے۔

”یوم عشورہ اپنی نیک صفات کو کسی بھی حالات میں ترک نہ کرنے کا ہمیں درس دیتا ہے“

چودہ اگست‘ یوم آزادی کے موقع پر بھی جعفردوست نے مختلف جگہوں سے آئے ہوئے بائیک سواروں کے ہمراہ قاقلشٹ آکر پودوں کی آبیاری کی تھی۔ اور اس بات کا عندیہ دیا تھا کہ وہ اپنے والنٹئرز کے ساتھ مہینے میں کم از کم تین بار قاقلشٹ آکر پودوں کو پانی ڈالیں گے۔

ؔ حکومت ’کلین اینڈ گرین پاکستان‘ کے موٹو سے ہر سال ملک کے مختلف علاقوں میں پودے لگا رہی ہے‘لیکن پودوں کی صحیح دیکھ بال میں اب بھی فقدان ہے۔ اپر چترال میں بھی حکومت کی جانب سے پودے لگا ئے گئے مگر حکومت اور سول سوسائٹی دونوں کی عدم تعاون کی وجہ سے بیشتر پروجیکٹ ناکام ہوچکے ہیں‘ حال ہی میں ہی پرواک لشٹ میں بہت سے پودے پانی نہ ملنے کی وجہ سے سوکھ گئے۔

chitraltimes cheps plantation2
chitraltimes cheps plantation1
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51658

ٹک ٹاکر عائشہ، شریعت، ہماری مریض ذہنیت اور دوا – ظہورالحق دانش

ٹک ٹاکر عائشہ، شریعت، ہماری مریض ذہنیت اور دوا – ظہورالحق دانش

مینارِ پاکستان اقبال پارک واقعے پر دائیں و بائیں ہاتھ کے لوگوں کے تبصرے کئی دن سے پڑھنے کو مل رہے ہیں۔ ایک حد تک اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے پرہیز کیا۔ مگر کچھ ایسے تبصرے جن سے ہماری مجموعی ذہنیت ریفلیکٹ ہوتی ہے پڑھنے کے بعد اپنا تبصرہ داغنا مجبوری بن گیا۔


اس واقعہ بارے تقریباً اکثریت کی رائے یہ بن گئی ہے کہ چونکہ عائشہ نے “اللہ اور شریعت کے برخلاف کام کیا ہے” لہٰذا اس ہجوم کا اُسے بھنبھوڑنا ایک رد عمل تھا، یہاں رد عمل سے ان کی مراد ‘جائز’ ہے۔ یعنی اگر عائشہ ایسا نہ کرتی تو وہ لونڈے ویسا نہ کرتے۔
کئی ایک پوچھنے کے قابل سوالات پیدا ہوتے ہیں جو پوچھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ چلو مان لیا کہ عائشہ نے “حکم الٰہی اور شریعت کے برخلاف” کام کیا ہے تو کیا یہ منطق ٹھیک ہے کہ وہاں موجود لونڈے بھی اخلاقیات اور شریعت کے سارے تقاضے مٹا ڈالیں اور ایک بے بس بنت حوا کو یوں سرِ عام نوچ ڈالیں؟ یہ کونسا اخلاقی اور شرعی معیار ہے بھئی؟ نکتہ اتنی آسانی سے سمجھ نہیں آئے گا، لہٰذا آئیے ایک الگ طریقے سے دیکھتے ہیں۔ شریعت کا ایک اہم اصول یہ بھی ہے کہ کسی بھی عمل اور رد عمل کو پہلے خود اپنی ذات پر اپلائی کرکے دیکھو۔ آئیے اس واقعے میں عمل اور رد عمل کو بھی اسی طرح اپنے اوپر اپلائی کرکے دیکھتے ہیں۔ فرض کریں اُس دن اقبال پارک مینارِ پاکستان میں ویڈیو بنانے والی عائشہ نہیں تھی۔ بلکہ آپ کی بہت ہی پیاری سگی بہن، سگی ماں، سگی بیٹی یا سگی بیوی تھی۔

آپ کی یہ سگی بہن یا سگی ماں یا سگی بیٹی یا سگی بیوی کسی الوہی آزمائش کے تحت آزاد منش ہے اور آپ کی شریعت کی پابندیوں کی کچھ زیادہ پروا نہیں کرتی۔ ایک دن یعنی آزادی کے دن وہ آپ کی نہیں سنتی اور پارک چلی جاتی ہے۔ تصویریں نکالتے اور ویڈیو بناتے دیکھ کر کچھ انسان نما جنسی مخلوق آپ کی بہت ہی پیاری سگی بہن/ماں/بیٹی/بیوی پر جھپٹ پڑتے ہیں اور اسے برسرعام بھنبھوڑنے اور نوچنے لگ جاتے ہیں۔ آپ کو سوشل میڈیا ویڈیو فوٹیج اور ٹی وی پر تصدیقی خبر سے اس واقعے کا پتہ چلتا ہے۔ کیا تب بھی آپ وہی کچھ کہہ کر دلیل اور جواز دیتے پھر رہے ہوگے جو عائشہ کو نوچنے کے ویڈیو دیکھ کر کہہ رہے ہو؟ خود سے پوچھیے۔
بھئی یہ کونسا شرعی اور اخلاقی معیار ہے کہ اگر اُس نے شریعت کو پامال کیا تو یہی بات عین جواز ہے کہ میں بھی شریعت کو پامال کروں؟ “ہسے پھیرو اویوئے، لہٰذا اوا دی پھیرو ژیبوم، یا ہتو ردعملہ کا کی پھیرو ژوتی اسور سہی کوری اسور، ہیس جائز۔” یہ کونسا شرعی و اخلاقی معیار ہوا؟


یاد رکھیے یہی وہ خطرناک مریض ذہنیت ہے جس نے نہ صرف ہمارے معاشرے کو تباہ کیا ہے بلکہ اسی ذہنیت نے اسلام کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ایسی ذہنیت کے کیے ہوئے تاویلات و مباحث اور ریزننگ کی وجہ سے ہی مغربی اسلام دشمن قوتوں کو لقمے ملتے رہتے ہیں اور وہ دین اسلام پر اعتراضات کرکے اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔ ایسے اسلام دشمن معترضین کو خوراک ہماری یہ مریض ذہنیت فراہم کرتی رہی ہے اور کرتی رہتی ہے۔


یہی وہ ذہنیت ہے جو کہتی ہے کہ اگر وہ غلط کاری کرتا ہے تو تم بھی کرو، کیونکہ تمہارا غلط کرنا ایک رد عمل ہے، پس جائز ہے۔ اگر وہ سود کھاتا ہے تو تم بھی کھاؤ، اگرچہ صریحاً نہ سہی تو سود کا نام کچھ اور رکھ کے کھاؤ، کیونکہ سود کے بغیر گزارا نہیں، اور تمہارا سود کھانا ایک رد عمل ہے، پس جائز ہے۔ اگر عورت مکمل شرعی لباس میں ملبوس نہ ہو تو اُسے چھیڑنا اور نوچنا ایک رد عمل، یوں جائز ہے۔ عورت کو گھر میں قید رہنا چاہیے، اور اگر ایسا نہیں کرتی اور باہر جاتی ہے تو اسے چھیڑنا، بھنبھوڑنا اور نوچنا محض ایک رد عمل ہے، پس جائز ہے۔ کیونکہ وہ اسی لیے ہی باہر نکلتی ہے کہ اسے چھیڑا اور نوچا جائے۔ اگر کوئی کافر کسی انسانی اخلاقی اقدار کو پامال کرتا ہے تو تم بھی کرو، کیونکہ اس کا ایسا کرنا ہی تمہارے لیے جواز ہے کہ تم بھی ویسا ہی کرو۔ اگر کسی لڑکے نے تمہیں ہم جنس پرستی پر بہکایا ہے تو بہک جاؤ، کیونکہ بہکنا اتنا غلط نہیں ہے جتنا بہکانا ہے۔ غلطی/گناہ اس کی زیادہ ہے کہ اس نے بہکایا ہی کیوں؟ آپ کا بہک جانا تو محض ایک رد عمل ہے، پس جائز ہے۔


کرپشن، رشوت خوری، میرٹ کا قتل، اقربا پروری چونکہ ہر کوئی کرتا ہے ہر ادارہ کرتا ہے، اِن کے بغیر کام نہیں چلتا، لہٰذا تم بھی ویسا ہی کرو۔ کیونکہ تمہارا ویسا کرنا ایک ردعمل اور ایک مجبوری ہے، پس جائز ہے۔
گنتے جائے۔ ایسی ریزننگ اور ایسے کرشمہ ہائے جواز ایسی مریض ذہنیت کی پیداوار ہیں۔ اِسی مریض ذہنیت سے خود کو بچانا معاشرے اور دین اسلام پر بہت بڑا احسان کرنے کے مترادف ہوگا۔
کس طرح بچا جا سکتا ہے؟


کسی بھی واقعے، عمل اور رد عمل کو خود اپنے اوپر اور اپنے قریبی رشتوں کے اوپر اپلائی کرکے اپنے فطری جذبات و احساسات و اخلاقیات دیکھو، پھر کلام کرو۔ اسلام دینِ فطرت ہے۔ اس کے تقاضے بڑے فطری اور کل جہتی ہیں۔ دوسروں کی عورت پر بات کرنا بہت آسان ہے۔ اپنی عورت کو اس کی جگہ کھڑی کرکے دیکھو، آپ ایسی ویسی باتیں ہرگز نہیں کر پاؤ گے، بلکہ ہمدردی اور انسان دوستی کا ایک خوبصورت جذبہ آپ کے دل میں پیدا ہوگا۔ اللہ منفی اور مریض ذہنیت سے ہم سب کو بچائے رکھے۔

aisha tiktoker
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51655

نواسہ رسول کاانکار – (عاشورہ محرم کے حوالے سے خصوصی تحریر )- ڈاکٹر ساجدخاکوانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

نواسہ رسول کاانکار – (عاشورہ محرم کے حوالے سے خصوصی تحریر )- ڈاکٹر ساجدخاکوانی اسلام آباد پاکستان

                فرعون کے دربار میں جب حضرت موسی علیہ السلام نے دین اسلام کا جھنڈا بلندکرناچاہا تو فرعون چینخ پڑا  وَ لَقَدْ اَرَیْنٰہُ اٰیٰتِنَا کُلَّہَا فَکَذَّبَ وَ اَبٰی(۰۲:۶۵) قَالَ اَجَءْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ اَرْضِنَا بِسِحْرِکَ یٰمُوْسٰی(۰۲:۷۵) ترجمہ:”ہم نے فرعون کواپنی سب نشانیاں دکھائیں مگروہ جھٹلائے چلاگیااور نہ مانا،کہنے لگااے موسی ؑکیاتوہمارے پاس اس لیے آیاہے کہ اپنے جادوکے زور سے ہمیں ہمارے ملک سے نکال باہر کرے“۔پس یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آواز حق کتنی ہی کمزور اور ناتواں اور مادی و دنیاوی وسائل سے محروم کیوں نہ ہوسے اس کی للکارسے فراعین وقت کواپنے اقتدار کے لالے پڑ جاتے ہیں۔

حضرت موسی علیہ السلام غلام قوم سے تعلق رکھنے والے بے یارومددگار،ملنگ،درویش،صوفی منش اور نہتے و بے سروسامان فرد تھے اور محض اپنا عصالیے اپنے بڑے بھائی کی معیت میں فرعون کے سامنے کلمہ حق کہنے گئے تھے،لیکن فرعون کی باریک بین نگاہ پہچان گئی کہ اس دین کے پیغام میں اقتدارکاحصول بھی شامل ہے۔تب فرعون نے جب اپنے درباریوں سے مشاورت کی تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ”قَالُوْٓا اِنْ ہٰذٰنِ لَسٰحِرٰنِ یُرِیْدٰنِ اَنْ یُّخْرِجٰکُمْ مِّنْ اَرْضِکُمْ بِسِحْرِہِمَا وَ یَذْہَبَا بِطَرِیْقَتِکُمُ الْمُثْلٰی(۰۲:۳۶)“ترجمہ:آخرکار کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ دونوں تومحض جادوگرہیں،ان کا مقصد یہ ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تم کو تمہاری زمین سے بے دخل کر دیں اور تمہارے مثالی طریق زندگی کا خاتمہ کردیں“۔چنانچہ فرعون کو تو صرف اپنے اقتدارکی فکر تھی لیکن فرعون کے ذہین ساتھی بھانپ گئے تھے حضرت موسی علیہ السلام کے پیغام میں صرف اقتدارکاحصول ہی شامل نہیں ہے بلکہ کل نظام زندگی کی تبدیلی ان کا مطمع نظر ہے۔یہی وجہ ہے کہ ابنیاء علیھم السلام کی دعوت سے طاغوت اور استعمار جڑوں اوربنیادوں تک لرزجاتاتھا۔

                حضرت موسی علیہ السلام سمیت کل انبیاء علیھم السلام نے وقت کے طاغوت کوسیاست کے میدان میں للکاراہے۔فرعون،نمرود،ملکہ سبا،عتبہ،شیبہ اور ابوجہل وغیرہ یہ سب کے سب میدان سیاست کے قدآور عنوانات تھے اور حقیقت یہی ہے نظام زندگی کے تمام تر کل پرزے فی الاصل سیاست کی مشینری کے نیچے ہی اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں جیسے دماغ کے نیچے کل اعضائے جسمانی اپنا اپنا فطری کام سرانجام دیتے ہیں۔جب سیاست کی مشینری بدل دی جائے اور اقتداراعلی کاقبلہ تحویل ہوجائے تو مشینری کاکل تحرک اپنی سمت تبدیل کر بیٹھتاہے اور تمام تر نظام نئے اقتداراعلی کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتاہے۔تاریخ انسانی یہ سبق دیتی ہے کہ جہاں نظام کی اصلاح کاآغاز نظام سیاست کی ابجدسے ہوتاہے وہاں نظام کی خرابی کی انتہابھی نظام سیاست پر ہی منتج ہوتی ہے،گویا جو نقطہ آغاز تھا وہی نقطہ انجام بھی ثابت ہوتاہے۔چنانچہ بہت اچھے نظام زندگی کاآغاز نظام سیاست کی اصلاح سے شروع ہوتاہے اور سب سے پہلے قیادت میں حسن اقتدارپیداہونے لگتاہے اورجب کوئی نظام زندگی گل سڑ کر بدبوکی سڑاند چھوڑنے لگتاہے اس کی انتہا بھی اس کے نظام کے بدترین اورظالم و جابروبدکارحکمرانوں کی صورت میں مورخ کے قلم سے پھوٹ نکلتی ہے۔اللہ تعالی کی یہی سنت رہی ہے کہ انبیاء علیھم السلام کی صورت میں بہترین قیادت فراہم کی گئی جس نے استحصالی نظام کے سیاسی قائدین سے اقتدارکے ایوانوں میں کشمکش کے تاریخ ساز ابواب رقم کیے۔

                سیرۃ طیبہ ﷺمیں مکہ مکرمہ کی وادیوں سے جس تبدیلی کاآغاز ہواتھا،مدینہ منورہ کی ریاست اسلامیہ اس کافطری سیاسی نتیجہ تھا۔جس انقلاب نے ختمی مرتبت ﷺکی گود میں پرورش پائی بالآخر وہ دورفاروقی میں اپنے بام عروج کو پہنچااور محسن انسانیتﷺنے اس انقلاب کی کامیابیوں کی جوخو شخبریاں سنائی تھیں وہ دورفاروقی میں تاریخ کے طالب علم نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیں۔نبی علیہ السلام کی تیارکردہ قیادت جیسے جیسے اس دنیاسے پردہ فرماتی گئی اور صحابہ کرام جیسے مقدس گروہ کی کمریں جیسے جیسے جھکتی چلی گئیں،بال سفید ہوتے گئے اور معاملات زندگی ان کے ہاتھوں سے رفتہ رفتہ نکلتے گئے تو معاشرے میں میں بگاڑ نے اپنی جگہ بنانے کی کوششیں شروع کر دی۔تصویرکادوسرارخ یہ تھا کہ فتوحات کے باعث عرب کی خالص معاشرت پر عجم نے بھی اپنے اثرات مرتب کرنے شروع کر دیے اور اس پر مستزاد یہ کہ دولت کی فراوانی نے جہاں سخت کوشی و صحرائی مزاج سے بعد پیداکیاوہاں تقوی اور دینداری کے بھی وہ پہلے والے معیارات نظرسے اوجھل ہونے لگے۔معاشرے کی ان کمزوریوں کے براہ راست یا بالواسطہ اثرات نظام سیاست پر بھی مرتب ہوئے اور سیاست کی دیوی نے خلافت کی مقدس قبا اتارکر ملوکیت کامکروہ لبادہ اوڑھ لیا۔

                ملوکیت نے اسلامی نظام زندگی کے جملہ امور کو اپنے حصارمیں لینا شروع کیااور کامیابی سے آگے بڑھتی رہی۔حکمرانوں کا طرز بودوباش بدلا،بیت المال کا تصور امانت تبدیل ہو گیا،ممبررسول کی تقدیس پائمال ہوئی اوردیدہ دلیری یہاں تک کہ جس رسولﷺکے ممبرپر براجمان ہوا جاتااسی رسولﷺکے اہل بیت کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایاجاتا،سرکاری مناصب میں امانت و دیانت اور تقوی ودینداری کی جگہ حکمران کے ساتھ وفاداری نے لے لی اور حد تو یہ احادیث نبویہ ﷺ میں بھی وضع و تحریف شروع کر دی گئی۔ان سب حالات کے خلاف صحابہ کرام اگرچہ آواز اٹھاتے رہے لیکن اب ان کے گلے میں وہ قوت والی گرج موجود نہیں رہی تھی اور وقت پیری نے انہیں زمانے کی پچھلی صفوں میں دھکیل دیاتھا۔صحابہ کرام کی نسلوں میں سے ان حالات کامقابلہ کرنے کے لیے کچھ تازہ دم نوجوان اٹھے اور ڈٹ کر مقابلہ بھی کیالیکن کسی نے وقت کاساتھ نہ دیا تو کسی کاوقت نے ساتھ نہ دیااور خانہ کعبہ جیسی مقدس عمارت کی قربانی بھی ان کو بچانے کے لیے ناکافی ثابت ہوئی اور بگاڑ پوری قوت سے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیتاچلا گیا۔ان پرفتن حالات میں کچھ بزرگوں نے مسند علم سنبھال لی تو کچھ ممبرومحراب تک محدود ہوگئے،کچھ نے تبلیغ و ارشادکو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیاتوکچھ معرفت وطریقت کی طرف سدھارگئے اور باقی عوام الناس نے کسی اجتماعی کاوش کی بجائے اپنے ذاتی ایمان بچانے کی فکر کی اور بگڑتے ہوئے حالات میدان سیاست کی آخری حدوں کو چھونے لگے۔

                اب ایک ہی خانوادہ باقی بچاتھا،اہل بیت نبوی کا مقدس ومحترم خاندان،زمین و آسمان کی نظریں اب اس خاندان نبوت پر جمی تھیں۔آسمان سے نازل ہونے والی آخری کتاب،آسمان سے اتراہواآخری دین اور آخری نبیﷺکے گھرانے کے آخری افراداوردین کو بچانے کی آخری امید۔نواسہ رسول امام عالی مقام امام حسین بن علی کی ایک ”ہاں“ان پراور ان کے کل اہل خانہ پر بلکہ نسلوں پر بھی دنیاکی تمام تر نعمتوں،آسائشوں اور شاید جزوی اقتدارکے دروازے بھی کھول سکتی تھی لیکن پھر ناناکا دین کسی گہری کھائی میں جاگرتایاشاید کسی قبر میں ہمیشہ کے لیے دفن ہوجاتا کیونکہ نظام سیاست کے آخری بگاڑ پرآخری نبی کے گھرانے کے افراد کی آخری مہر ثبت ہو جاتی۔اور اگر ملوکیت کے اس نظام سیاست کو نبی ﷺکا گھرانہ تسلیم کرلیتاتوامت مسلمہ کے آسمانی صحائف سے اقتداراعلی کے لیے اللہ تعالی کا نام ہمیشہ کے لیے حذف ہوجاتا۔اور اسلام محض ایک پوجاپاٹ اور پندونصائح کا مذہب رہ جاتا اور دین کے استعارے سے نظام زندگی کاجامع تصور اس دین کی تعلیمات سے خارج ہوجاتا۔اس صورت میں قرآن مجید کی تمام تر تعلیمات جامعیت کو اس ایک ”ہاں“کے صفر سے ضرب دے دی جاتی۔

                امام عالی مقام کی ایک ”نہیں“نے تاقیامت دین اسلام کی سیاسی حقانیت کو امر کر دیا۔دین محمدیﷺکے سیاسی نظام کی تجدید ہمیشہ کے لیے اس خانوادہ نبوت اور امام عالی مقام کی احسان مند رہے گی۔قرآن مجید کی اس آیت کی اب کبھی کوئی تاویل نہیں کی جا سکے گی کہ”ُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہ‘ بِالْہُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہ‘ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَ لَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ(۹:۳۳)ترجمہ:وہ اللہ تعالی ہی ہے جس نے اپنے رسولﷺ کو ہدایت اوردین حق کے ساتھ بھیجاتاکہ اسے باقی تمام ادیان پر غالب کر دیا جائے“۔پوری دنیاپر دین اسلام کا غلبہ اورباقی تمام ادیان کواسلام کے تابع بنانے کے لیے جس جرات و شجاعت سے عبارت سیاسی و عسکری نظام کی ضرورت ہے وہ نظام اسوۃ امام عالی مقام سے میسر ہے۔اوراس نظام کی بقا کو جس قسم کے انکار کی ضرورت ہے وہ بھی صرف اسوہ امام عالی مقام امام حسین کی زندگی سے ہی میسر آسکتاہے۔حقیقت یہ ہے کہ وقت کا طاغوت ہمیشہ ہی حق پرچلنے والوں کوقیدوبند،جنگ و جدال اور غریب الدیاری کی صعوبتوں سے دوچار کرتارہے گا،لیکن اسوۃ امام حسین سے حاصل ہونے والا عملی سبق اس کرہ ارض میں آخری انسان تک کے لیے استقامت اور صبرواستقلال کا لازوال درس اولین و آخرین ہے۔تاریخ جس طرح اپنے آپ کو دہراتی رہتی تو اسی طرح حق و باطل کے درمیان کربلا کے میدان سجتے رہیں گے،تاقیامت یزیدکاکرداراور امام عالی مقام کی سنت شبیری زندہ و تابندہ رہے گی یہاں تک کہ صوراسرافیل میں پھونک مار دی جائے۔اہل ایمان دنیاکے پیمانوں کے مطابق شکست خوردہ ہونے کے باوجود بھی کامیاب و کامران اور فوزوفلاح کے حاملین ٹہریں گے جبکہ یزیدان بدبخت حکومت کے ایوانوں میں براجمان ہونے کے باوجود اور نشہ اقتدار میں ڈوبے ہوئے بھی خالق و مخلوق کے ہاں خائب و خاسراور ملعون و مطعون گردانے جائیں گے۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
51632