Chitral Times

افغانستان میں انسانی بحران و قحط میں او آئی سی نشستن،گفتن و برخاستن؟-قادر خان یوسف زئی

 تنظیم تعاون اسلامی کے وزرائے خارجہ کا غیر معمولی اجلاس اسلام آباد میں پاکستان کی میزبانی میں منعقد ہوا، جس کا بنیادی مقصد دفترِ خارجہ کے مطابق افغانستان میں انسانی بحران آنے سے قبل ضروری اقدامات کرنا بتایا گیا۔ دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم نے کانفرنس میں سلامتی کونسل کے مستقل اراکین، ورلڈ بینک سمیت دیگر عالمی مالیاتی اداروں کو بھی شریک ہونے کی دعوت دی۔ خیال رہے کہ او آئی کا دوسرا سربراہی اجلاس اور پاکستان میں پہلا  22فروری 1974 کو لاہورمیں، جب کہ پہلا غیر معمولی سربراہی اجلاس 23مارچ 1997کو اسلام آباد میں ہوا تھا۔  1980کے بعد او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کاپاکستان میں ہوا۔ جو افغانستان  میں مستقل و مستحکم قیام امن کے لئے عالمی برداری سے تعاو ن کا عندیہ دے رہا ہے تو دوسری جانب خطے میں کروڑوں عوام  بدترین تکالیف سے بچنے کی مثبت کوششوں کو مزید بڑھانے پر سنجیدگی کا اعلیٰ مظاہرے کے منتظر  ہیں۔

 خیال رہے کہ او آئی سی اقوام متحدہ کے بعد اقوام عالم کی سب سے بڑی تنظیم ہے جس کے 57 ممالک ممبران اور چار مبصرین ہیں۔ کانفرنس میں  20ممالک کے وزرائے خارجہ 10نائب وزرائے خارجہ اوردیگر نمائندوں و مبصرین نے شرکت کی۔  اسلام آباد میں کانفرنس سے مسلم امہ کو درپیش چیلنج کا متفقہ حل نکالنے کا مثبت پیغام دنیا کو جانا چاہے اور انسانی ہمدردی کے طور پر عملی اقدامات عالمی برداری کے لئے عمدہ مثال بنے۔ سعودیعرب نے ایک ارب ریال امداد کا اعلان بھی کیا۔ پاکستان نے افغانستان کو مستقبل میں درپیش مسائل کے حل کے لئے مسلم اکثریتی ممالک میں بانی رکن اور او آئی سی کے چھ رکنی ایگزیکٹیو کمیٹی کے رکن کے حیثیت سے اپنا فرض ادا کرتے ہوئے ایک بار پھر او آئی سی کے کردار کو امہ کے اجتماعی آواز کے طور پر پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔افغانستان کو موجودہ حالات میں کن مسائل کا سامنا ہے، اس کے جائزے میں دیکھنا ہوگا کہ کیا او آئی سی اس حوالے سے حقیقی معنوں میں مثبت و عملی کردار ادا کر پائے گی یا نہیں یہ آنے والا وقت تعین کرے گا۔

یورپی یونین کی ہائی کمشنر برائے امور داخلہ یلوا جوہانسن کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کے رکن پندرہ ممالک چالیس ہزار افغان مہاجرین کو قبول کریں گے۔یورپی یونین کے انصاف و وزرائے داخلہ اجلاس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب میں جوہانسن نے کہا کہ مذکورہ فیصلہ نہایت متاثر کن اور باہمی اتحاد کی ایک مثال ہے۔انہوں نے کہا کہ مذکورہ فیصلہ غیر منّظم نقل مکانی کے سدّباب کے خاطر قانونی اقدامات میں سرمایہ کاری کے لئے بھی ایک اہم قدم کی حیثیت رکھتا ہے، تاہم انہوں نے اس بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کیں کہ  40 ہزار افغان مہاجرین کو قبول کرنے والے 15 ممالک کون سے ہیں۔ درحقیقت افغانستان اس وقت اپنی تاریخ کے نازک دور سے گذر رہا ہے۔

 امریکہ اور نیٹو افواج کی واپسی کے بعد نئے افغانستان کو اس وقت سنگین مشکلات کا سامنا ہے۔ ایک طرف افغانستان میں طویل ترین جنگ کے خاتمے کے بعد امن کے ثمرات نہیں مل پارہے تو دوسری جانب معاشی طور پر بدحالی عوام کی مشکلات میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ افغانیوں کی بڑی تعداد اپنے غیر یقینی مستقبل کے پیش نظر ایسے ممالکسے آس لگائے بیٹھے ہیں، جو انہیں ایک ایسا معاشی محفوظ مستقبل دے سکے، جس کے وہ خواب دیکھتے چلے آرہے ہیں ،  ان میں بڑی تعداد ایسے ہنر مند اور تعلیم یافتہ افغانیوں کی ہے جو افغانستان میں امریکی و غیر ملکی افواج کے سہولت کاری کرتے رہے اور ان کی توقع کے برخلاف قبل ازوقت کابل انتظامیہ کی تبدیلی سے ان کے سہانے خواب چکنا چور ہوگئے۔دوحہ میں امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مفاہمتی عمل معاہدے میں یہ طے پایا گیا تھا کہ امریکہ، افغان طالبان کے خلاف پابندی ہٹانے میں تعاون کرے گا لیکن امریکہ کی جانب سے پابندیاں ہٹانا تو ایک طرف بلکہ مزید مالی پابندیاں عائد کردیں گئیں جس سے نئی افغان حکومت اور عوا م کو پریشانی کا سامنا ہے۔

کسی بھی ملک میں پائدار امن کے لئے مستحکم یا پھر ترقی پر گامزن معیشت کا ہونا ضروری ہے۔ انتہا پسندی کے مختلف عناصر میں یہ امر بھی غالب رہا ہے کہ غربت، تنگ دستی اور معاشی کمزوری سے پریشان حال نوجوان کا رجحان مذہب اور نظریئے کے مقابلے میں کہیں زیادہ اثر پذیر ہوتا ہے۔ تصور کیا جائے کہ اگر کوئی ترقی یافتہ مملکت اپنے عوام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت حکومتی ڈھانچے کی تنخواہیں روک دے تو تمام فلسفے اور شعور کچرے میں پڑے نظر آئے گا اور بھوک و تنگ دستی کے خلاف بڑی سے بڑی طاقت ور مملکت کے اداروں میں کام کرنے والے سڑکوں پر نظر آئیں گے۔ ان حالات میں کہ جب امریکہ جنگ کے لئے کھربوں ڈالر پانی کی طرح بہا رہا تھا اور اُسے ان حالات میں بھی من پسند نتائج نہیں مل پائے، اب افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے بعد کمزور معاشی مملکت کو انارکی اور خانہ جنگی کی جانب دھیکیلنا کسی بھی جمہوریت پسند حکومت کو زیب نہیں دیتا۔امریکہ میں جمہوری نظام سینکڑوں برس سے ارتقائی منازل طے کررہا ہے،

عورت کو ووٹ کا حق نہ دینے سے لے کر نسلی بنیادوں پر انتخابی پالیسیاں آج بھی تنازع کا شکار ہیں، امریکہ کی پوری جمہوری تاریخ میں کسی بھی خاتون کا صدر امریکہ نہ بننا، خود ان کے سیاسی و جمہوری نظام پر سوالیہ نشان ہے کہ کیا سینکڑوں برسوں میں کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس اس قابل کوئی خاتون نہیں تھی جسے صدر امریکہ بنایا جاسکتا۔ موجودہ نائب صدر نے نسلی اور صنفی بنیادوں پر منتخب ہوکر ایک تواتر سے چلے آنے والے سلسلے کو ختم کرنے میں پہل کی، لیکن اب بھی یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ امریکی معاشرے میں ڈیمو کریٹس اور ری پبلکن میں آنے والا صدر کا عہدہ کسی خاتون کو مل سکتا ہے۔امریکہ سمیت یورپی اور مغربی ممالک میں بھی کوئی ایسی مثال نہیں پائی جاتی کہ اکثریتی جماعت، اپنے امور مملکت میں مخالف جماعت کے عہدے داروں کو اپنی کرسی کے ساتھ جگہ دے۔  سوئیڈن کے ادارے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ڈیموکریسی اینڈ الیکٹورل اسسٹنس (انٹرنیشنل آئیڈیا) کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں 98 ممالک میں جمہوریت ہے اور یہ تعداد گزشتہ کئی برسوں کے بعد اپنی کم ترین سطح پر ہے۔

روس، مراکش اور  ترکی سمیت 20 ممالک میں ہائبرڈجمہوریت ہے جبکہ چین، سعودی عرب، ایتھوپیا اور ایران سمیت 47 ممالک میں مطلق العنان حکومت ہیں۔ رپورٹ کے اعداد و شمار کے جائزے میں عیاں ہے کہ کسی بھی ملک میں ایسی کوئی بھی اقوام متحدہ کو تسلیم حکومت نہیں جس نے حزب اختلاف کو اپنے اقتدار نے شریک کیا ہو، بلکہ صرف ایک جماعت نہیں، کسی بھی ملک کے اندر نسلی اکائیوں کو بھی شریک کار بنایا گیا ہو۔  افغانستان میں عبوری انتظامیہ حکومت میں ایک امر ضرور دیکھا جاسکتا ہے کہ نسلی اکائیوں کو بھی عہدے تقویض کئے گئے، ایسی مثال دنیا کے کسی بھی جمہوری، ہائبرڈ یا مطلق العنان حکومت میں نہیں دیکھی جاسکتی۔تاہم یہ مطالبہ کیا جانا کہ امریکہ جو کہ شکست کے بعد افغانستان سے نکلا، وہ اپنے اتحادیوں کو اقتدار میں دیکھنا چاہتا ہے تو اس مطالبے کو تسلیم کرنا عبث و مضحکہ خیزہے۔افغانستان میں سب سے بڑا مسئلہ تشدد، خانہ جنگی اور جنگ کا خاتمہ تھا، یہ ایک دیرینہ مسئلہ تھا، جو قریباََ 98فیصد حل ہوچکا۔ افغانستان میں ایک بار پھر سوویت یونین کے انخلا کے بعد جیسی صورت حال نہیں اور امریکہ کے جانے کے بعد جس خانہ جنگی کے امکانات زور و شور سے ظاہر کئے جا رہے تھے،

خلاف توقع ایسا کچھ نہیں ہوا اور پورے افغانستان پر بلا شرکت غیرے امارات اسلامیہ افغانستان کی عبوری حکومت قائم ہوچکی  اور ماسوائے عالمی دہشت گرد تنظیم داعش خراساں کے علاوہ ایسا کوئی گروپ نہیں جو افغان طالبان کے خلاف لڑ رہا ہو۔ داعش کی سرپرستی اور انہیں افغان طالبان کے خلاف کون مسلح اور فنڈنگ کررہا ہے یہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، تاہم اس انتہا پسندی کا رخ پاکستان کی جانب موڑنے کی کوششیں ظاہر کررہی ہیں کہ خطے میں امن کے بجائے جنگ کے دائرے کو بتدریج ایک مخصوص اسٹریجک پالیسی کے تحت پھیلایا جارہا ہے، جس کی زد میں ایران، چین، تائیون اور بھارت آسکتے ہیں، یہ عالمی قوتوں کا ایران اور چین کو کمزور کرنے کے لئے ایسا منصوبہ بھی قرار دیا جاسکتا ہے، جس کے اشارے، تائیوان کا آزادی کے نام پر چین سیجنگ، بھارت۔ چین کے درمیان لداخ و سرحدی تنازع، ایران۔ اسرائیل جھڑپ، روس کا یوکرائن کے معاملے پر طاقت کا مظاہرہ اور یورپ کے لئے مشکلات پیدا ہونا،  وسط ایشیا  کے بعض ممالک کا افغانستان سے تاریخی تنازع، یہاں تک کہ سب سے بڑی اور بھیانک صورت حال پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے معاملے پت ایٹمی جنگ بھی ہوسکتی ہے، جس کے نتائج سے صرف ایک خطہ نہیں بلکہ پوری دنیا متاثر ہوسکتی ہے۔ عظیم مشرق وسطیٰ میں کسی بھی وقت عالمی قوتوں کی ایما پر کسی بھی ملک کا طاقت کا استعمال تیسری عالمی جنگ کے امکانات کو بڑھانے کا سبب بن سکتی ہے۔

خطے میں موجود غیر یقینی صورت حال اور مستقبل کو درپیش خطرات کے پیش نظر یورپ اور امریکہ کو غور کرنا ناگزیر ہے کہ 20برس کی لاحاصل جنگ کے بعد افغانیوں کی بڑی تعداد کو اپنے ساتھ لے جانا، انہیں ایسی جگہ رکھنا جہاں انہیں نقل و حرکت کی آزادی نہ ہو، امیگریشن قوانین کے مطابق ان کے مستقبل کا فیصلہ کرنا اور صرف چند ہزار افغانیوں کو یورپ کے 15ممالک کی جانب سے پناہ دینے جانے کا ’اعلان‘  ناکافی ہے۔ اس وقت افغانستان میں ڈھائی کروڑ سے زائد افغانیوں کو خوراک کی کمی کا مسئلہ درپیش ہے، ایک انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔عالمی ادارہ خوراک کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلے نے اس صورتحال پر جوتجزیہ پیش کیا وہ تشویش ناک ہے۔ ڈیوڈ نے کہا کہ ‘یہ(صورت حال) اتنی خراب ہے جتنی کہ آپ تصور کر سکتے ہیں۔ درحقیقت ہم زمین پر بدترین انسانی المیے کا سامنا کر رہے ہیں۔’اُن کا  مزیدکہنا تھا کہ ’95 فیصد لوگوں کے پاس کافی خوراک نہیں ہے اور اب ہمارے سامنے دو کروڑ 30 لاکھ کے قریب افراد ہیں جو قحط کا شکار ہونے والے ہیں۔اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ آنے والے مہینوں میں افغانستان میں ایک ملین بچے بھوک سے مر سکتے ہیں۔ اگلے چھ مہینے آفت کی طرح ہوں گی۔ یہ زمین پر جہنم ہوں گے۔’ صحت عامہ کی صورت حال بھی بڑی تشویش ناک ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ادھانوم گیبریئس اور مشرقی بحیرہ روم کے لیے عالمی ادارہ صحت کے علاقائی ڈائریکٹر احمد المدھاری کا کہنا ہے کہ صحت کے عالمی ادارے کو یہ موقع ملا کہ وہ افغان عوام کی فوری ضروریات کا جائزہ لے سکے اور متعلقہ عہدے داروں سے مل کر یہ تعین کر سکے کہ ڈبلیو ایچ او کس طرح ان کی مدد کر سکتا ہے۔

 ٹیڈروس کے مطابق ملک کے صحت کی دیکھ بھال کے سب سے بڑے منصوبے، ‘صحت مندی پراجیکٹ’ کے لیے بین الاقوامی عطیات دہندگان کی مدد میں کمی سے ہزاروں افراد کے لیے صحت کی سہولیات، طبی ساز و سامان اور صحت کے عملے کی تنخواہوں کے مالی وسائل کو دھچکا لگا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘صحت مندی پراجیکٹ’ کی صحت کی سہولیات کا صرف 17 فیصد کلی فعال ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے شعبوں نے اب اپنی سرگرمیاں محدود یا بند کر دی ہیں، ” علاج معالجہ کرنے والا طبی عملہ فنڈز کی کمی کے باعث یہ فیصلے کرنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ کس کا علاج کرنا ہے اور کس کو دوا کے بغیر مرنے کے لیے چھوڑ دینا ہے۔

اقوام متحدہ کے بچوں کی بہبود کے ادارے یونیسیف کے مطابق افغانستان میں 40 لاکھ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں، جن میں لڑکیاں سب سے زیادہ ہیں۔اقوام متحدہ کے ادارے نے یہ بھی کہا کہ اس نے گزشتہ تین مہینوں میں 142,700 افغان بچوں کو تعلیم دینے کے لیے مدد فراہم کی ہے۔یونیسیف  کے مطابق   انہوں  نے 5,350 کمیونٹی پر مبنی تعلیمی کلاسوں کی مدد کی جو پورے افغانستان میں 142,700 سے زیادہ بچوں کے لیے تعلیم کے حصول کو یقینی بناتی ہے۔ ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے،”۔اقوام متحدہ، امریکہ، یورپ، مغربی سمیت مسلم اکثریتی ممالک کو اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ افغانستان میں انسانی ہمدردی کے بنیاد پر قحط سے لاکھوں انسانوں کو ہلاک ہونے دیا جائے یا پھر ان کی مدد کے لئے حقیقی معنوں میں اقدامات کئے جائیں۔

خواتین و بچوں کے حقوق کے نام پر مغرب اور ایسے ممالک جنہوں نے افغانستان پر چڑھائی کرکے تین نسلوں کو برباد ہونے دیا، کیا ان کے امدادی فنڈز روک کر خدمتکرے گی یا پھر معاشی جنگ لاکھوں انسانوں کی ہلاکت پر اختتام پزیر ہوگی، آج یورپ 45ہزار افغان مہاجرین کو 15ممالک میں تقسیم کرنے میں مہینے بلکہ برسوں لگارہا ہے لیکن یہ پہلو کیوں نظر انداز کررہے ہیں کہ چار دہائیوں کی جنگ میں لاکھوں افغان مہاجرین، پاکستان، ایران میں پناہ گزیں ہیں اور یہ ایسے ممالک ہیں جنہیں عالمی قوتوں کے فروعی مفادات کا سامنا ہے۔

اگر افغانستان میں قحط کا بحران خدانکردہ بڑھا تو اس کا بوجھ کیا پڑوسی ممالک اٹھانے کے متحمل ہوسکتے ہیں، جو پہلے ہی عالمی قوتوں کی وجہ سے بدترین معاشی صورت حال کا شکار ہیں، سیاسی عدم استحکام نے ان ممالک میں گھیر رکھا ہے اور دیرینہ دشمن ملک ہر لمحے جنگ اور حملے کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔ او آئی سی کا غیر معمولی اجلاس منعقد ہوچکا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلم اکثریتی ممالک عالمی برداری کو کس طرح افغان عوام کے لئے امداد پر اپنی ذمے داری پوری کر پائے گی یا پھر نشستن، گفتن و برخاستن۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56368

افغانستان کے موجودہ بحران سے نکلنے کیلئے اوآئی سی کونسل ٹھوس حکمت عملی وضع کرے۔ وزیراعظم

اسلام آباد(سی ایم لنکس)وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ایک مستحکم افغانستان ہی خطہ کے لئے بہتر ہے، افغانستان کی موجودہ صورتحال انتہائی سنگین ہے،افغان عوام کی مدد کرنے کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے،افغانستان سے ہمسایہ ممالک میں مہاجرین کی آمد روکنے کے لئے افغانستان میں مستحکم حکومت ضروری ہے، پاکستان پہلے ہی 30 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی چار دہائیوں سے میزبانی کررہا ہے، ہر معاشرے میں انسانی اور خواتین کے حقوق کا تصور مختلف ہے،ہمیں ان حقوق کے حوالے سے حساسیت کا ادراک کرنا ہو گا، اگرکوئی حکومت اپنے ملازمین، طبی عملہ کو تنخواہیں نہیں دیسکتی تو وہ مستحکم نہیں رہ سکتی، اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کو فلسطین اور کشمیر کے تنازعہ کے حل کے لئے متعلقہ قراردادوں پر زور دینا چاہیے،اسلاموفوبیا ایک اہم مسئلہ ہے، نائن الیون کے بعد یہ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے، او آئی سی اس کے سد باب کے لئے اپنا کردار اد اکرے، افغانستان کے موجودہ بحران سے نکلنے کے لئے وزرائے خارجہ کونسل ٹھوس حکمت عملی وضع کرے،امید ہے کہ او آئی سی پر امن افغانستان کے لئے اپنا کردار اداکرے گی۔

وہ اتوار کو یہاں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کونسل کے 17 ویں اجلاس سے خطاب کرتے رہے تھے۔اجلاس سے او آئی سی کے سیکرٹری جنرل حسین ابراہیم طہٰ، اسلامی ترقیاتی بینک کیچیئرمین ڈاکٹر محمد سلمان الجاسر، اقوام متحدہ کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری برائے انسانی حقوق، سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان، ترکی کے وزیرخارجہ میولت کاؤسگلو، اردون کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی، نائیجیر کے وزیرخارجہ یوسف محمد اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی خطاب کیا۔وزیراعظم عمران خان نے تمام شرکا کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی تعاون تنظیم کا یہ غیر معمولی اجلاس افغانستان کے موجودہ بحران پر غور کے لئے طلب کیا گیا ہے۔ جتنی مشکلات افغا نستان کے عوام نے اٹھائیں کسی اور نے نہیں اٹھائیں۔ افغانستان کے حالات کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان پاکستان نے اٹھایا، افغانستان چار دہائیوں سے خانہ جنگی کا شکار ہے، یہاں کی ایک بڑی آبادی نے نقل مکانی کی۔ دنیا کے کسی ملک کا افغانستان سے زیادہ مسائل نہیں دیکھے۔انہوں نے کہا کہ یہ بات باعث اطمینان ہے کہ کانفرنس میں شریک تمام مہمان افغانستان کی صورتحال سے آگاہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کا بینکنگ کا نظام جمود کا شکار ہے، کسی بھی ملک کے بینکنگ کے نظام میں جمود سے اس ملک میں اس ملک میں استحکام نہیں آ سکتا۔ افغانستان کا مسئلہ 4 کروڑ انسانوں کا مسئلہ ہے۔افغانستان کے موجودہ بحران میں پہلے ہی تاخیر ہو چکی ہے۔

یہاں قائم ہونے والی جامع حکومت کے عبوری وزیرخارجہ نے عائد کی گئی تین شرائط کے حل کے عزم کا اعلان کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہر معاشرے میں انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کا تصور ہے۔پاکستان میں خیبر پختونخوا کا کلچر افغانستان سے ملتا جلتا ہے۔ شہری اور دیہی علاقوں کے کلچر میں واضح فرق ہے۔پشاور کا کلچر افغانستان کے ساتھ ملنے والے پاکستان کے شہروں سے مختلف ہے۔ ہمیں انسانی اورخواتین کے حقوق کے حوالے سے حساسیت کا ادراک کرناچاہیے۔ انہوں نے کہاکہ افغانستان میں حکومت کے پاس اپنے ملازمین یہاں تک کہ ڈاکٹروں اور طبی عملہ کو دینے کے لئے تنخواہیں نہیں۔ ایسے کوئی حکومت مستحکم نہیں رہ سکتی۔افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی کی روک تھام کے لئے وہاں ایک مستحکم حکومت کی ضرورت ہے۔ پاکستان نے افغان جنگ کے بعد 80 ہزار جانوں کی قربانی دی ہے۔ 100 ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان اٹھایا۔ 30 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی مسلسل چار دہائیوں سے میزبانی کررہا ہے۔ اگر افغانستان میں امن و استحکام نہ آیا تو مزید مہاجرین آ سکتے ہیں۔ پوری دنیا کو مہاجرین کے مسئلے کا سامنا ہے۔ایران بھی افغانستان میں عد م استحکام کی وجہ سے مزید مہاجرین کا سامنا کر سکتا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ اگر ترقی یافتہ ممالک کے لئے مہاجرین مسئلہ ہے تو پاکستان جیسے غریب ممالک کیسے لاکھوں مہاجرین کی میزبانی برداشت کر سکتے ہیں۔ امید ہے کہ او آئی سی پر امن افغانستان کے لئے اپنا کردار اداکرے گی۔وزیراعظم نے کہا کہ اسلامی ترقیاتی بینک کے چیئرمین کی جانب سے فوری اور طویل المدتی اقدامات اہم ہیں۔انہوں نے کہا کہ اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ افغانستان کے موجودہ بحران کے حل کے لئے ایک واضح روڈ میپ کے ساتھ سامنے آئیں تاکہ افغانستان میں اس بحران کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔ وزیراعظم نے کہا کہ کشمیر اور فلسطین کے عوام ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔ ان کے انسانی اور جمہوری حقوق پامال کئے جا رہے ہیں۔ انہیں اقوام متحدہ کی طرف سے دیئے گئے حقوق پر بھی عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ ہمیں اسلامی تعاون تنظیم کے فورم سے اس حوالے سے بھی کردار اداکرنا ہو گا۔وزیراعظم نے کہا کہ اسلامو فوبیا دنیا میں بہت بڑا مسئلہ ہے۔

اس کا آغاز نائن الیون کے بعد ہوا جو اب خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے،نیوزی لینڈ کی ایک مسجد میں 50 سے زائد مسلمانوں کو شہید کر دیاگیا مغرب میں اسلام کے پیغام سے آگاہی نہیں جسے اسلام کا فہم نہ ہونے کی وجہ سیخلیج بڑھ ر ہی ہیاو آئی سی کے لئے یہ بات اہم ہے کہ وہ اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرے۔مغرب اسلام کے خلاف پراپیگنڈا کرتا ہے،رحمت اللعالمین اتھارٹی دنیا بھر کے مسلم دانشوروں کے ساتھ مشاورت کر کے اس کا جواب دے گی۔ وزیراعظم نے کہاکہ ہم نے رحمت اللعالمین اتھارٹی بنائی ہے۔یہ اتھارٹی دنیا بھر کے مسلمان سکالرسے مشاورت کرکے اسلام کے حقیقی تشخص کو اجاگر کرے گی انہوں نے کہا کہ اسلام ایک ہے اور وہ اسلام ہمارے نبی کریم ﷺ کا ہے، نبی کریم دنیا کے تمام انسانوں کے لئے رحمت اللعالمین ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کے رب العالمین ہیں اسی طرح حضور ﷺ رحمت اللعالمین ہیں،انہوں نے کہا کہ ہم نے رحمت اللعالمین اتھارٹی سے دنیا بھر میں اسلام کا اصل تصور اجاگر کرنا ہے۔انہوں نے او آئی سی کے رکن ممالک سے کہا کہ وہ افغانستان کو بحران سے نکالنے کے لئے ٹھوس حکمت عملی وضع کریں، افغانستان کی مدد کرنا ہمارا مذہبی فریضہ ہے، افغانستان کی بڑی آبادی خط غربت سے نیچے ہے، یہ افغان عوام کی بقا کا مسئلہ ہے، افغان عوام کی مدد کرنے کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے، افغانستان کی موجودہ صورتحال انتہائی سنگین ہے۔ انہوں نے کہا کہ پوری دنیا کی طرح ہماری معیشت بھی کورونا سیمتاثر ہوئی ہے۔

chitraltimes pm imran khan addressing OIC council of foreign ministers isb2
PRIME MINISTER IMRAN KHAN ADDRESSES AT THE 17TH EXTRAORDINARY SESSION OF OIC COUNCIL OF FOREIGN MINISTERS. ISLAMABAD ON DECEMBER 19, 2021.
Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
56360

مشرقی اُفق – افغانستان – میرافسر امان

افغانستان اپنی قدیم سرحدوں کے ساتھ موجود ہے۔کسی زمانے میں اس میں پاکستان کا خیبر خواہ صوبہ بھی شامل تھا۔ افغانستان میں دریائے آمو کے شمال میں وسط ایشیا کی مسلمان ریاستیں ہیں جو روس نے عثمانی ترکوں سے چھینی ہے۔ جو روس کی شکست کے بعد آزاد ہوگئیں۔ ان ہی میں سے ایک چیجینیا بھی ہے جہاں امام شامل نے روس کے ساتھ ساٹھ سال تک مذاحمت کی تھی۔بعد میں بھی اس کے پوتے جنرل دادوئف نے بھی اسی سنت پر عمل کیا اور روس سے چیچینیا کو آزاد کرنے کے لیے روس سے لڑتا رہا۔روس اورامریکا نے مشترکہ کاروائی کرتے ہوئے سازش سے ایک ٹیلیفونک پریس کانفریس میں میزائیل مارکر شہید کیا تھا۔انتہائی شمال میں داکھان چین روس اور ریاست جموں کشمیر ہے۔مشرق اور جنوب میں پاکستان ہے۔مغرب میں ایران واقع ہے۔


افغانستان میں زرتشت، سکندر اعظم، اشوک کنشک اور بدھ تہذیب کے اثرات پائے جاتے ہیں۔افغانستان میں اسلام ساتویں عیسوی میں پہنچ چکا تھا۔ اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا مذہب افغانستان میں جڑیں نہیں پکڑ سکا۔ 1965 ء تک افغانستان میں اسلامی شریعت ہی سرکاری قانون تھا۔ حکومے نے قانون بدلہ مگر عوام اپنے فیصلے شریعت کے تحت کرتے رہے۔ افغانستان کا رقبہ 6/ لاکھ 57/ ہزارکلو میٹر ہے۔افغانستان کو چاروں صرف سے خشک زمین اور سنگلاخ پہاڑوں نے گھیرے ہوا ہے۔ یہ ملک سطع سمندر سے چار ہزار فٹ بلندی پر واقع ہے۔افغانستان کی آبادی ڈھائی کروڑ سے زاہد ہے۔ کابل،قندار، جلال آباد اور مزار شریف مشہور شہر ہیں۔افغانستان میں پشتون، ازبک، تاجک،ہزارہ اور دیگر نسلیں ہیں۔پشتون ساٹھ فی صد ہیں۔پشتواوردری زبان زیادہ بولیں جاتیں ہیں۔ایک کروڑ چالیس ہزار ہیکڑ زمین قابل کاشت ہے۔85/فی صد آبادی کاشتکاری اور زراعت سے وابستہ ہے۔معدنی وسائل تانبا،سیسا، قدرتی گیس، کوئلہ،جست، لوہا، سونا اور چاندی کے ذخائر ہیں۔


جہاں تک ہندوستان کا ذکر تو محمود غزنوی کی فتوحات نے ہی ہندوستان میں مسلمان تہذیب کو ہندو تہذیب میں تحلیل ہونے سے بچایاتھا۔ افغانستان کے قوم پرست سوشلٹ حکمران کبھی بھی پاکستان کے دوست نہیں رہے۔ نادر شاہ کے زمانے کا افغانستان اسلامی کا نمونہ تھا۔ حکیم الامت ڈاکٹر شیخ علامہ محمد اقبال ؒ جب نادر شاہ سے ملنے افغانستان گئے تو نادشاہ نے نماز پڑھانے کا کہا تھا۔ تو علامہ اقبالؒ نے نادر شاہ کو امامت کے آگے کیا اور کہا تھا کہ مسلمانوں کے ایک عادل حکمران کے پیچھے نماز پڑھا فخر محسوس کرتا ہوں۔ اپنی ایک فارسی شعری مجموعی کا نام بھی نادر شاہ کے نام کیا تھا۔


برطانیہ نے تین جنگوں میں شکست کے بعد۲۱ /نومبر1893ء افغانستان کے بادشاہ امیرعبدالرحمان کے ساتھ معاہدہ”ڈیورنڈ“ کیا۔ اس قبل افغانیوں نے برطانیہ کہ جس کی کو سخت قسم کی شکست سے دو چار کیا۔ مشہور ہے کہ سای فوج کو ختم کر کے ایک ڈاکٹر کو زندہ چھوڑاتھا تاکہ وہ ہندوستان کی انگریز حکومت کو حالات سے آگاہ کرے۔ڈیورنڈ معاہدے نے افغانستان کے اس حق کوتسلیم کیا وہ دنیا سے تجارت اور سیاسی تعلقات قائم کرے۔ روس وسط ایشیا کی اسلامی ریاستیں ترک عثمانیوں سے ہتھیانے کے بعد دریائے آمو تک پہنچا۔ روس افغانستان کو چالیس سال تک کیمونسٹ بنانے میں لگا رہا مگر افغانیوں کے دلوں سے اسلام کی محبت نہیں نکال سکا۔ افغانیوں نے روس کی اسلامی دشمنی کو پسند نہیں کیا۔ بلا ٓخر روس نے اپنے پٹھو ببرک کارمل کو ٹینکوں پر بیٹھا کر افغانستان سے سارے معاہدے ایک طرف رکھتے ہوئے قبضہ کر لیا۔ دس سال خاک چھاٹنے کے بعد رسوا ہو کر نکلا۔ کیمونسٹ مشرقی یورپ اور وسط ایشیا کی مسلم ریاستیں جو ترکی سے چین تک پھیلی ہوئی تھیں، چھ اسلامی ریاستوں کی شکل میں آزاد ہوئیں۔


روس اور بھارت ہمیشہ اسلامی پاکستان کے مخالف رہے ہیں۔ روس اور بھارت کی سازش سے 1949ء۔1950ء میں پاکستان میں ناکام کیمونسٹ بغاوت ہوئی۔ اس میں مشہور کیمونسٹ سجاد ظہیر اور فیض احمد فیض شریک تھے۔سجاد ظہیر بعد میں ازاں بھارت فرار ہو گئے۔روس نے یہ خدمات بجا لانے پر فیض احمد فیض کو ”لینن انعام“ دیا تھا۔پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نواب زادہ لیاقت علی خان کو شہید کرنے والا اکبر افغانی تھا۔بیان کیا جاتا ہے کہ وہ ببرک کارمل کا رشتہ دار تھا۔ببرک کارمل اسے ملنے ایبٹ آبادگیا تھا۔1949ء میں کشمیر میں پاکستان بھارت جنگ میں افغانستان میں بھارت کے لیے لڑنے کے لیے فوجی بھرتی کر نے کی اجازت دی۔ روس نے پاکستان میں 1949ء میں کراچی میں بین الاقوامی اسلامی کانفرنس کے انعقاد کو سامراجی کیمپ کے قیام کی کوشش قرار دیا۔ روس اور افغانستان نے بھارت کی طرف سے کشمیر، جونا گڑھ،منادور، اورحیدر آباد پر قبضہ کے خلاف

خاموشی اختیار کی۔بھارت اور افغانستان جنوری 1950ء میں دوستی کا معاہدہ طے پایا۔ روس اور بھارت نے پشتونستان کے شوشے کی حمایت کی۔افغانستان کی حکومت نے بین الالقوامی طور پر تسلیم شدہ ڈیورنڈ معاہدہ 1953ء میں یک طرفہ طور پر منسوخ کیا تھا۔پیپلز پارٹی کے ذوالفقار علی بھٹو کے پاکستان میں پھانسی پر دہشت گرد تنظیم اہل ذوالفقار بنی تو افغانستان نے اس کے پزیرائی کی۔بھارت، افغانستان اور روس کی اور کون کون سی سازشیں بیان کی جائیں؟


اللہ کا کرناکہ روس کی شکست کے بعد افغان طالبان کا اسلامی افغانستان وجود میں آیا۔ افغان طالبان نے نادر شاہ کے زمانے کی طرف لوٹ کر امارت اسلامیہ افغانستان کی بنیاد رکھی۔ ملک میں امن امان قائم کیا۔پوسٹ کی کاشت ختم کی۔ مگر صلیبیوں کو یہ منظور نہیں تھا۔ 2001ء میں محسن امت شیخ اسامہ بن لادن کو نائین الیون کا ماسٹر مائنڈ بنا کر امیر المومنین ملا عمر کو ؒ امریکا کے حوالے کرنے کا کہا۔ ملا عمرؒ اپنے اسلاف کی سنت پر عمل کرتے ہوئے وقت کے فرعون امریکا سے ثبوت مانگا اور کہا ہم اسامہ پر افغانستان میں مقدمہ چلائیں گے۔ امریکا کو بہانہ چاہیے تھا۔ اس نے 2001ء میں اپنے 48 نیٹو صلیبی اتحادیوں کے افغانستان پر حملہ کر دیا۔

دشمن ملت ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے امریکا کی ایک کال پر اس کے سارے مطالبات منظور کرتے ہوئے پاکستان کے بحری، بری اور فضائی راستے لاجسٹک سپورٹ کے نام پر دے دیے۔ اس پر وہ بھی پڑوسی مسلمان ملک افغانستان کی تباہی میں برابر کا شریک ہوا۔ امریکا نے بیس سال تک اپنے سارے جدیدہتھیار استعمال کر لیے۔ مگر بیس سال تک فاقہ مست افغان طالبان نے تن تنہا صلیبی اتحادیوں کو شکست فاش دی۔آج افغانستان آزاد ہے۔ امارت اسلامیہ افغانستان قائم کر دی گئی۔ اب انشاء اللہ فرعون جدید پھر اپنے اتحادی صلیبی طاقتوں کے ساتھ کبھی بھی کسی اسلامی مملکت پر حملہ آور نہیں ہو گا۔ اب مسلمان صلیبیوں پر حملہ آور ہوں گا۔ یہ ایسا ہی سین کہ جب مدینہ پر جنگ خندق کے موقعہ پر مکہ کے قریش عرب کے سارے سرداروں اور مدینہ کے یہودیوں کی اتحادی فوجوں نے مدینہ منورہ کو حصار میں لے لیا تھا۔ مگر اللہ نے ان اتحادی فوجوں کو شکست دی۔ امام مجائدین حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے کہا تھا کہ اب کفار تم پر حملہ آور نہیں ہو سکیں بے بلکہ تم ان پر حملہ آور ہوگا۔ پھر فتح مکہ ہوا۔ ابھی غزوہ ہند ہونا باقی ہے۔کشمیر،فلسطین اور دنیا کے مظلوم مسلمان کی اللہ سنے گا۔ اللہ مسلمانوں کی مدد فرمائے گا اور تاریخ اپنے آپ کو دھرائے گی۔ ان شاء اللہ

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53687

افغانستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے وفدکا ایف پی سی سی آئی کے ریجنل آفس کا دورہ

پشاور ( چترال ٹائمزرپورٹ ) افغانستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر خان جان الکوزئی کی قیادت میں ایک اعلی سطحی وفد نے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ریجنل آفس خیبر پختونخوا کا دورہ کیا۔ وفد کے ہمراہ نائب صدر افغان چیمبر ہرات ڈاکٹرمخلص احمد، نائب صدر پاک افغان صدر سلطان محمد، اجمل صافی ، باز محمد افسرزئی ، افغان قونصلیٹ کے کمرشل اتاشی محمد فواد ارش اورحمید اللہ فاروقی پر مشتمل تھا ، ایف پی سی سی آئی خیبر پختونخوا آفس پہنچنے پر کوارڈینیٹر سرتاج احمد خان نے افغان وفد کا گرم جوشی سے استقبال کیا، اس موقع پر مہمند چیمبر کے صدر سجادعلی، نائب صدر نورہادگل، سابقہ نائب صدر ایف پی سی سی آئی محمدعدنان جلیل، چارسدہ چیمبر کے سابقہ صدر سکندرخان اور دیگر عہدیداران بھی موجود تھے ،

ایف پی سی سی آئی آفس میں منعقدہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے خان جان الکوزئی خان جان الکوزئی نے شاندار استقبال پر فیڈریشن آف پاکستان اور پاکستان کے بزنس کمیونٹی کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم دو بردار اسلامی ملک اور خاص کر دونوں برادر ممالک کے بزنس کمیونٹی آپس میں باہمی تجارت کو ترقی دیں ہم پاکستان کی بزنس کمیونٹی کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ افغانستان میں صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری کریں جہاں وافر مقدار میں پوٹینشل اور مواقع موجود ہے،موجودہ حکومت ، چیمبر زاور بزنس مین پاکستان کے ساتھ تجارت کا حجم بڑھانےکا خواہاں ہے اور بزنس کمیونٹی اس موقع سے فائدہ اٹھا کر افغانستان میں بے روزگاری اور معاشی مشکلات کے سد باب میں ساتھ دیں، جبکہ پاک افغان تجارت بڑھانے کے لئے دونوں ممالک کے بزنس کمیونٹی پر مشتمل ورکنگ گروپ تشکیل دینے کی تجویز بھی پیش کی ۔ انہوں نے پاکستان کے بزنس کمیونٹی اور سارک چیمبر کے عہدیداران کو افغانستان کے دورے کی دعوت دی ۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے سرتاج احمد خان نے کہا کہ سارک چیمبر آف کامرس کا افغانستان بھی ایک اہم رکن ہے اور دونوں برادر ممالک کا آپس میں باہمی دوستی ، رشتے کے علاوہ تجارت بڑھانے وقت کی اہم ضرورت ہے ، سرتاج احمد خان نے کہا کہ ایف پی سی سی آئی عنقریب فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ریجنل آفس میں پاک افغان رور ولی ہیلپ ڈسک قائم کررہا ہے جبکہ ایف پی سی سی آئی افغان قونصلیٹ اور خیبر پختونخوا حکومت کے تعاون سے پاک افغان بین الاقوامی صنعتی نمائش منعقد کر رہا ہے جس سے دونوں ممالک کے درمیان تجارت کے حجم بڑھانے میں مدد ملے گی ،

سرتاج احمد خان نےافغان بزنس کمیونٹی وفد کی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے ورکنگ گروپ تشکیل دے دی ۔ اس موقع پر مجوزہ پاک افغان تجارتی نمائش کے حوالے سے وفد کو آگاہ کیا ۔جبکہ ان کی دورہ افغانستان کی دعوت قبول کرتے ہوئے جلد وفد نائب صدر سارک چیمبر حاجی غلام علی اور نائب صدر ایف پی سی سی آئی خیبر پختونخواہ محمد زاہد شاہ کی قیادت میں دورہ کرے گی ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی بزنس کمیونٹی اور ایف پی سی سی آئی روز اول سے پاک افغان باہمی تجارت بڑھانے کےلئے عملی اقدامات کوشش کررہی ہے ،سرتاج احمد خان نے افغان وفد کو ایف پی سی سی آئی شیلڈ اور پختون روایتی تحائف بھی پیش کئے ، اور ایف پی سی سی آئی ریجنل آفس کا دورہ کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔

chitraltimes afghan chamber visit fpcci peshawar2
chitraltimes afghan chamber visit fpcci peshawar22
Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
53453

افغانستان میں شکست کے بعد جنوبی ایشیاء کیلئے امریکی پالیسی – پروفیسرعبدالشکورشاہ

پشتون بہترین دوست اور بدترین دشمن کے طور پرمشہور ہیں۔سکندراعظم، برطانیہ، روس اور اب امریکہ یہاں آکر زخموں سے چور ہو کر نکلے۔ تاریخ گواہ ہے افغانستان کی سرزمین سلطنتوں کا قبرستان ثابت ہوئی ہے۔ امریکہ نے افغانستان سے نکلنے کے لیے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر دو بڑی غلطیوں کا رتکاب کیا جن کی وجہ سے 90دن کی مزاحمت کی امید خاک میں مل گئی اور طالبان نے چند دن میں افغانستان کا کنٹرول سنبھال لیا۔ پہلی غلطی ایمرجنسی منصوبے کا فقدان تھا اور دوسری غلط امریکہ نواز افغانیوں، اور اتحادی عملے کو وقت سے پہلے افغانستان سے نکالنا تھا۔ دوسری غلطی میں کرونا اور بیوروکریسی نے کلیدی کردارادا کیا۔ امریکہ جتنی عجلت میں آیا تھا اس سے زیادہ عجلت اور بدحواسی میں فرار ہو چکا ہے۔

امریکہ روانگی کے بعد پاکستان اور بھارت مختلف انداز میں اپنا اثرورسوخ استعمال کریں گے۔ پاک افغان تعلقات بہت دیرینہ ہیں اورہم کئی لحاظ سے ایک دوسرے سے ایسے تعلق میں پروئے ہوئے ہیں جسے ختم کرنا ناممکن ہے۔پاک افغان مذہبی، ثقافتی، معاشی، جغرافیائی، سیاسی، سماجی اور دفاعی بندھن اتنے مضبوطی سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں جنہیں الگ نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارت افغانستا ن میں ایک نومولود کی حیثیت رکھتا ہے جو اپنے آقا امریکہ کے جاتے ہی رفو چکر ہو چکا ہے۔ بظاہر پاکستان افغانستان کو علاقائی اور عالمی سطح پر تسلیم کروانے میں بھر پور مدد کرے گا کیونکہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کی امریکی پالیسی غیر واضع ہے۔

تعجب اس بات پہ ہے اگر امریکہ طالبان سے مذاکرات کر کے خلاصی طلب کر سکتا ہے اور جنگ میں ہار کر بھاگ چکا ہے تو اب طالبان حکومت کو تسلیم کرنے میں کیا حرج ہے۔ اس ساری صورتحال میں بھارتی امیدوں پر پانی پھر چکا ہے اب وہ من گھڑت پروپگنڈہ کے زریعے اپنے رنج و الم کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اب بھارت کے لیے ایک ہی چارہ ہے کہ وہ آرام سے بیٹھے اور طالبان کے رویے کے مطابق چلنے کو تیار رہے۔ یہ بات بھی خارج از امکان نہیں کے مستقبل میں امریکہ کے کہنے اور پاکستان میں دوبارہ سے دہشت گردی پھیلانے کے لیے طالبان حکومت کو تسلیم کر لے۔

یہ عمل صرف تین صورتوں میں ہی ممکن دکھائی دیتا ہے امریکہ کا حکم بجا لانے، پاکستان کو غیر مستحکم کرنے اور افغانستان میں اپنی سرمایہ کاری کو بچانے کے لیے۔ چینی، روسی، اور پاکستانی نقوش افغانستان میں اتنے گہرے ہیں کہ بھارت کی دال گلتی دکھائی نہیں دیتی یہی وجہ ہے بھارت پاکستان میں چینی باشندوں کو دہشت گردی کا ہدف بنا رہا ہے۔ بھارت پہلے بھی افغانستان میں پاکستان مخالف مہم جوئی کے لیے آیا تھا اور اس نے پاکستان مخالف افغانیوں اور ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث گروہوں کو ملا کر پاکستان کو کمزور کرنے کی مذموم کوشش کی۔ اب بھارت کے لیے صورتحال یکسر مختلف ہے کیونکہ طالبان نے پاکستان کی حمایت کے لیے ان مخالف گروہوں کا سر کچل دینا ہے۔

روس اور چین بھی افغانستان کے استحکام اور سلامتی کے لیے مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دے سکتے ہیں کیونکہ دونوں افغانستان سے امریکہ کے چلے جانے کے خوہاں تھے۔ یقینا امریکہ اپنی جنوبی ایشیاء سے متعلق پالیسی میں روس اور چین کو کھلی چھوٹ نہیں دے گا بلکہ پالیسی میں ردوبدل کر کے ان پر کڑی نظر رکھے گا۔ ایران جسے بھارت نواز سمجھا جاتا ہے امریکہ کے جانے پر خوش ہے کیونکہ امریکہ سے سب سے زیادہ خطرہ ایران کو تھا۔ افغانستان سے انخلاء کے بعد یقینا امریکہ ایران سے متعلق اپنی پالیسی میں بھی تبدیلی لائے گا۔ خطے میں بیرونی عناصر کی مداخلت اور سراہیت روکنے کے لیئے چین، روس، ایران اور پاکستان کا متحدہ بلاک بنانا ناگزیر ہو چکا ہے۔ اگرچہ افغانستان میں امریکہ کی موجودگی خطے کے بیشتر ممالک کے لیے ایک لحاظ سے مفید تھی کیونکہ امریکہ کی موجودگی نے خطے میں سیکورٹی کے فرائض سنبھال رکھے تھے تاہم سب کے مفادات داو پر لگے تھے اس لیے سبھی امریکہ کی واپسی کے خواہاں تھے۔ امریکی کی جنوبی ایشیاء کے لیے پالیسی ہمیشہ سے بھارت نواز رہی ہے اور اس لحاظ سے بھارت کے علاوہ نہ تو امریکہ کے پاس کوئی اور آپشن ہے اور نہ ہی پالیسی میں کسی بڑی تبدیلی کی امید کی جا سکتی ہے۔

جنوبی ایشیاء کے لیے امریکی پالیس کا محور مرکز امریکی مفادات کا دفاع ہو گا اور اس ضمن میں وہ ہر ممکنہ تبدیلی لانے کی کوشش کر ے گا۔دراصل امریکہ افغانستان سے نکل کر بھارت کو خطے میں مزید سپیس دینا چاہتا تھا جو امریکہ کی موجودگی میں ممکن نہیں تھا۔ دوسری وجہ امریکہ چین کو روکنے کے لیے بھارت کو اس کے مد مقابل لانے کی سہی کر رہا ہے اور بھارت بھی ناچاہتے ہوئے امریکہ کا اتحادی بنا کیونکہ اس کے پاس بھی خطے میں کوئی اور آپشن موجود نہ تھا۔ بھارت یہ سمجھتا ہے کہ امریکہ نوازی سے اس کا ایشیائی اجارہ داری کا خواب پورا ہو جائے گا تو یہ خام خیالی ہے۔ اب امریکہ اپنی جنوبی ایشیاء کے لیے پالیس میں ایسی تبدیلی لائے گا جس کے زریعے وہ بھار ت اور چین کی کشمکش کی وجہ سے نالاں چھوٹے ممالک کو دانہ ڈالے گا اوریہ دانہ قرض کے جال، جمہوریت کی پائیدار ی اور قومی ترقی کے نام پر ڈالا جائے گا۔ جنوبی ایشیاء کی پالیس میں مائنس پاکستان کاتصور بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ افغانستان میں امن کے لیے امریکہ کو پاکستان کی اشد ضرورت ہے اور اس ضمن میں بھارت امریکہ کے کسی کام کا نہیں ہے۔ طالبان کا خلاف توقع چند دنوں میں افغانستان کا کنٹرو ل سنبھال لینا سب کے لیے حیران کن ہے۔

اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سابقہ افغان حکومت، افغان عوام اور مغربی طاقتوں کے بیچ کچے دھاگے سے بنا گیا ناپائیدار تعلق تھا جو ریت کی دیوار ثابت ہوا۔ علاقائی اور عالمی ماہرین مستقبل قریب میں چین، روس، پاکستان اور ایران کے کھیل کو کامیاب ہوتا دیکھ رہے ہیں۔بھارت کو یہ خوف بھی کھائے جا رہا ہے کہ کہیں طالبان افغانستان میں استحکام کے بعد بھارتی مقبوضہ کشمیر کا رخ نہ کرلیں اور افغانیوں کے بارے کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی جب وہ لڑنے لگ جائیں تو کوئی طاقت ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اب بھارت خطے میں تنہا اور امریکہ کے رحم و کرم پر ہے اور امریکہ اسی وقت کے انتظار میں تھا تاکہ بھارت کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کرے۔ امریکی کی جنوبی ایشیاء پالیس بھارت نواز ہونے کی وجہ سے مسئلہ کشمیر حل ہو تا دکھائی نہیں دیتا۔

جنوبی ایشیاء میں موجودگی اور کنٹرول امریکہ کی مجبوری ہے کیونکہ اس کے بغیر وہ اپنے آپ کو دنیا کی سپر پاور برقرارنہیں رکھ سکتا۔ بھارت کو یہ بات جان لینی چاہیے تاریخ گواہ ہے امریکہ نے آج تک کسی کا ساتھ نہیں دیا بلکہ انہیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کیا ہے۔ طالبان حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی پالیسوں کو ایسے ڈوپلومیٹک اندازمیں بنائیں اور چلائیں تاکہ تصادم کے بجائے امریکہ میں افغان حکومت کا پیسہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں یہ ان کے معاشی استحکام کو مضبوط کر ے گا۔

افغانستان کو کھنڈربنانے والے امریکہ اور اس کے حواریوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ نہ صرف معافی مانگیں بلکہ اپنی منتخب کردہ حکومت کی ناکامی کو تسلیم کر تے ہوئے طالبان حکومت کو تسلیم کرے اور افغانستان کی تعمیرو ترقی، سلامتی اور استحکام کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کرے۔ امریکہ کے لیے اپنی جنوبی ایشیاء پالیسی کو بھارت نواز بنانے کے بجائے افغان نواز بنانی چاہیے کیونکہ افغانستان بھارت کی نسبت امریکہ کے لیے کئی گناہ زیادہ مفید ثابت ہو سکتاہے۔ ایک پر امن اورمستحکم افغانستان خطے، عالمی سطح، علاقائی اور بیرونی مداخلت کاروں سب کے لیے مفید ثابت ہو گا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
52388

افغانستان میں پرائیوٹ کنٹریکٹر ز کا مستقبل؟ ۔ قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

افغانستان میں پرائیوٹ کنٹریکٹر ز کا مستقبل؟ ۔ قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

 افغانستان میں ہزاروں افغانی پرائیوٹ کنٹریکٹر زکے ساتھ آگے کیا ہوگا،انہوں نے تو اپنا مستقبل یورپ، برطانیہ اور امریکہ کے کہنے پر داؤ میں لگا دیا تھا کہ شائد یہ ممالک ہمیشہ کے لئے افغانستان پر قابض رہیں گے یا پھر ان کے شہروں کو نیویارک، لندن، پیرس اور برلن بنا دیں گے لیکن مسئلہ پیدا ہوگیا کہ سب  کو امریکہ میں نہیں رکھا جاسکتا اور دنیا کے دوسرے ممالک بھی محتاط ہیں لیکن پاکستان سمیت وسط ایشائی ممالک پر دباؤ بڑھا یا جارہا ہے کہ مہاجرین کے علاوہ ان کے لئے کام کرنے والے،(جاسوسوں) کو بھی مکمل سیکورٹی کے ساتھ پناہ دی جائے۔ یورپ اور امریکہ کا یہ مطالبہ دراصل زمینی حقائق کے برخلاف، مزاج اور سوچیں حتیٰ کہ افغانستان میں طبقاتی تفریق کا سبب بنتا جارہا ہے کیونکہ 31 اگست تک ممکن نہیں کہ کابل میں موجود تمام پرائیوٹ کنٹریکٹرز کا انخلا کردیا جائے، بلکہ اطلاعات ہیں پاکستان سمیت افغانستان کے دوسرے حصوں سے بھی بڑی تعداد نے کابل ائیر پورٹ کا رخ کیاہے،چونکہ افغان طالبان کا رویہ(تاحال) مثبت ہے اس لئے انہیں ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں جانے کے لئے مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اقوام متحدہ کا یہ کہنا اس حد تک درست ہے کہ افغانستان میں ایک انسانی المیہ جنم لے رہا ہے، تو اس کا ذمے دار صرف امریکہ ہی نہیں بلکہ یورپ، برطانیہ سمیت وہ عالمی قوتیں ہیں جو سلامتی کونسل میں بیٹھ کر کسی بھی ملک پر الزام لگانے کے بعد اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ہیں اور مقصد پورا ہونے کے بعد خراماں خراماں چل دیتے ہیں۔


 پرائیوٹ کنٹریکٹرز کو ٹرانسفر کرانے کے لئے 31 اگست کی ڈیڈ لائن ناکافی تصور کی جا رہی ہے، اس کی واحد وجہ یہی ہے کہ انہوں نے اپنے سفارت خانے بند اور عملہ واپس بلا کر کمرشل فلائٹس پر بھی پابندی عائد کردی  اور جوکنٹریکٹرز ڈیلی ویجز یا مخبری کی مد میں انعام کی لالچ  کے لئے کام کرتے تھے، انہیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے کا حتمی فیصلہ بھی کرلیا۔ کابل ائیر پورٹ کے مناظر باعث عبرت اُن لوگوں کے لئے ہیں، جنہوں نے استعماری قوتوں کے لئے خودکو استعمال کرایا  اور اب انہیں بیکار ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیا گیا، سابق کابل انتظامیہ کی ایک بڑی تعداد کابل کے مکمل ٹیک اوور سے پہلے ہی کمرشل فلائٹس سے بیرون ملک نکلنے میں کامیاب ہوچکی تھی اور ہوش آنے تک پرائیوٹ کنٹریکٹر یہی سمجھتے رہے کہ ان کے ساتھ کئے گئے امریکی وعدے ایفا ہوں گے۔ درحقیقت امریکہ چاہے تو چند دنوں میں ہی کمرشل پروازوں سے پرائیوٹ کنٹریکٹرز کو باہر نکال سکتا ہے، ٹرانزٹ کے لئے پاکستان سمیت عرب ممالک، امریکہ کے ساتھ مکمل تعاون کرنے کے لئے تیار ہیں، لیکن امریکہ کو خود ا ن پرائیوٹ کنٹریکٹرز پر اعتبار نہیں، کیونکہ جو ڈالروں کی لالچ میں مادر وطن اور ضمیر کا سودا کرسکتا ہے تو وہ اُن کے خلاف بھی بھاری رشوت کے عوض، کسی کے لئے بھی استعمال ہوسکتا ہے۔(کابل دھماکے بھی اس کی ایک مثال سمجھی جاسکتی ہے)۔


پرائیوٹ کنٹریکڑز نے افغان طالبان کی سرگرمیوں پر مخبریاں کیں، درست یا غلط معلومات دیں، جن کی اطلاع پر فضائی حملے اور آپریشن کئے گئے اور بے گناہ نہتے عام افغانی بھی جاں بحق ہوئے۔لواحقین جانتے ہیں کہ ان کے بچوں کا قاتل کون اور سہولت کاری کس نے کی، لہذا پرائیوٹ کنٹریکٹرز اس امر سے بھی شدید خوف زدہ ہیں کہ افغان طالبان کی عام معافی کے اعلان کے باوجود لواحقین، روایات کے مطابق ان سے بدلہ ضرور لیں گے، یہ افغانستان سمیت دنیا کے کسی بھی کونے میں چلیں جائیں لیکن ان کا ضمیر، انہیں ہراساں کرتا رہے گا کہ ڈالروں کی لالچ میں انہوں نے امریکہ اور اتحادیوں کو غلط معلومات بھی دیں، جس کے باعث ان گنت افغانی زیر حراست رہے اور سیکڑوں جانوں کا نقصان بھی ہوا۔ یہ ایک بہت بڑا امتحان بن سکتا ہے کہ افغان طالبان کی موجودگی میں ایسے لواحقین انصاف کے لئے، پرائیوٹ کنٹریکٹرز کے خلاف مقدمات دائر کرسکتے ہیں اور ظاہر ہے کہ افغان طالبان جب فیصلہ کریں گے تو اس پر مغرب اور امریکہ نے تو شور مچانا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ افغان طالبان کا عام معافی کا اعلان اپنے خلاف کئے گئے حملوں تک محدود رہے گا لیکن جب مدعی سامنے آکر اپنا ذاتی مقدمہ رکھے گا تو افغان طالبان بھی کچھ نہیں کرسکتے، کیونکہ انہوں نے وہی فیصلہ کرنا ہوگا جو اسلامی قانون کا حکم ہے۔


خارج از امکان نہیں افغان طالبان، امریکہ کو لاسٹ ڈیڈ لائن دینے کے باوجود دنیا میں مثبت تاثر قائم کرنے کے لئے مزید مہلت بھی دے دیں، کیونکہ کابل میں چھ ہزار امریکی اور  600 برطانوی فوج پر  حملہ  کرکے نئی جنگ کی بنیاد رکھنا نہیں چاہیں گے، اس لئے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر پرائیوٹ کنٹریکٹرز کو جانے کی اجازت کے لئے مہلت ملنے کا امکان موجود ہے، اس کے علاوہ بھی یہ ہزاروں کا جمع غفیر کہاں جائے گا، کیا یہ واپس اپنے گھروں میں جاسکتے ہیں، شائد یہ فیصلہ کرنا ان کے لئے مشکل ہوگا کیونکہ ان کی مخفی پہچان اب منکشف ہوچکی، اس لئے ان پر سماجی دباؤ بڑھے گا۔ وسط ایشیائی ممالک انہیں قبول کرنے کے لئے بالکل تیار نہیں، ایران نے پہلے ہی اتنی سخت پابندیاں افغان مہاجرین پر عائد کی ہوئی ہیں، جس کے بعد وہاں امریکی پرائیوٹ کنٹریکٹرز کا رہنا مشکل ہے، ان کے لئے آئیڈیل ملک پاکستان بچ جاتا ہے، جہاں وہ مہاجرین کے ریلے کی صورت میں یا سفارت خانے میں قانونی دستاویزات کی آڑ لے کر آسکتے ہیں۔جہاں پہلے ہی 30 لاکھ سے زائد افغانی ایک عام پاکستانی شہری کے طرح نقل و حرکت کرتے ہیں، لہذا ن کا پاکستان کے کسی بھی علاقے میں چھپ جانا اور نئی شناخت کے ساتھ ایک بار پھر امریکہ اور مغربی ممالک کے لئے سہولت کار بننا خارج از امکان نہیں۔
خیال رہے کہ ان پرائیوٹ کنٹریکٹرز میں بڑی تعداد ایسی بھی موجود ہے جو این ڈی ایس اور را کی فنڈنگ پر پاکستان مخالف منفی پراپیگنڈوں و سرگرمیوں میں متحرک رہے اور افغانستان سے نکلنے کے بعد بھی یہی کام کریں گے، انہیں اس امر کا ڈر تو ہوگا کہ انہیں شناخت نہ کرلیا جائے، لہذا یہ کہنا کہ کابل ائیر پورٹ پر معاشی بدحالی اور افغان طالبان کے خوف سے  انخلا کیا جارہا ہے، تو اس کا اطلاق پورے افغانستان پر ہوگا۔ عالمی اداروں کو 20برس کی جنگ کے خاتمے کے بعد تعمیر نو کے لئے امداد دینی چاہیے تھی لیکن الٹا اربوں ڈالرز منجمد کردایئے۔ عالمی برداری کو سوچنا ہوگا کہ کیا یہ عمل افغانستا ن کے حق میں بہتر ہے؟۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
51866

محرم الحرام اور افغانستان کی موجودہ صورت حال کے تناظر میں امن وامان حوالے اعلیٰ سطح اجلاس

پشاور ( چترال ٹائمز رپورٹ ) وزیر اعلی خیبر پختونخوا محمود خان کی زیر صدارت امن و امان سے متعلق ایک اہم اجلاس پیر کے روز منعقد ہوا جس میں پڑوسی ملک افغانستان میں بدلتی صورتحال کے تناظر میں صوبے میں امن و امان کی مجموعی صورتحال اور خصوصی طور پر محرم الحرام کے دوران سکیورٹی کی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور متعدد اہم فیصلے کئے گئے۔ قائم مقام چیف سیکرٹر ظفر علی شاہ اور انسپکٹر جنرل پولیس معظم جاہ انصاری کے علاوہ ڈویژنل کمشنرز، ریجنل پولیس افسران اور دیگر سول اور عسکری حکام نے اجلاس میں شرکت کی۔

اجلاس میں امن و امان سے متعلق گزشتہ اجلاس میں کئے گئے فیصلوں پر عمل درآمد کی پیشرفت کا جائزہ لیا گیا اور موجودہ صورتحال کے تناظر میں ممکنہ سکیورٹی خدشات، اُن سے موثر انداز میں نمٹنے کیلئے انتظامات اور محرم الحرام کے دوران امن و امان قائم رکھنے کیلئے اُٹھائے گئے خصوصی اقدامات کے بارے میں بریفینگ دی گئی۔

اجلاس کو آگاہ کیا گیا کہ موجودہ صورتحال کے تناظر میں صوبے میں امن و امان کی مجموعی صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا ہے اور پچھلے سالوں کی نسبت اس دفعہ محرم کے دوران سکیورٹی کے خصوصی اور غیر معمولی انتظامات کئے گئے ہیں۔ محرم الحرام کے حوالے سے صوبے کے سات اضلاع کو حساس قرار دیا گیا ہے۔ صوبہ بھر میں محرم الحرام کے دوران سکیورٹی کیلئے 33 ہزار سے زائد پولیس اہلکار تعینات کئے گئے ہیں جبکہ محرم کے جلوسوں کی موثر نگرانی کیلئے صوبائی، ڈویژنل اور ضلعی سطح پر خصوصی کنٹرول رومز قائم کئے گئے ہیں۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ صوبہ بھر میں محرم کے 585 جلوس اور ساڑھے پانچ ہزار مجالس منعقد ہو ں گی۔ محرم الحرام کے دوران مسلکی ہم آہنگی کو یقینی بنانے کیلئے مختلف مسالک کے علمائے کرام کے ساتھ ڈویژنل اور اضلاع کی سطح پرخصوصی اجلاس منعقد کئے گئے ہیںجبکہ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد شائع کرنے والے عناصر کے خلاف موثر کاروائیاں عمل میں لائی جارہی ہیں۔

شرکا کو مزید آگاہ کیا گیا کہ محرم کے جلوس کے روایتی راستوں اور امام بارگاہوں کے آس پاس علاقوں میں واقع ہوٹلوں اور دیگر مقامات کی کڑی نگرانی کی جارہی ہے اور محرم الحرام کے دوران پولیس کی تمام چھٹیاں منسوخ کی گئی ہیں۔اجلاس میں حساس اضلاع میں نویں اور دسویں محرم کو موبائل فون نیٹ ورک بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ و

زیراعلیٰ نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ محرم الحرام کے دوران سکیورٹی کے ساتھ ساتھ کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد کا بھی خاص خیال رکھا جائے اور حساس علاقوں میں ہسپتالوں کے عملے کی چھٹیاں منسوخ کی جائیں۔اُنہوںنے پشاور میں محرم کی سکیورٹی کے لئے دیگر اضلاع سے آئے پولیس عملے کی رہائش کا مناسب بندوبست کرنے جبکہ صوبے، ڈویژنز اور اضلاع کی سطح پر قائم کنٹرول رومز کو آپس میں مربوط کرنے کی بھی ہدایت کی۔

محرم کے دوران جلسے جلوسوں کے سلسلے میں سکیورٹی ایس او پیز پر عملدرآمد کو ہر صورت یقینی بنایا جائے۔انہوںنے افغانستان کی بدلتی صورتحال کے تناظر میں متعلقہ اداروں کو ہمہ وقت مستعد رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہاکہ افغانستان کی صورتحال کا خیبر پختونخوا پر براہ راست اثر پڑتا ہے،موجودہ صورتحال سکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کا تقاضا کرتی ہے۔انہوںنے محکمہ پولیس کو ہدایت کی کہ سماج دشمن عناصر کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ مزید موثر انداز میں جاری رکھا جائے اورپولیس اور انٹیلیجنس اداروں کے درمیان مزید قریبی روابط قائم کئے جائیں۔

محمود خان نے کہاکہ موجودہ صورتحال میں پولیس اور اس کے ذیلی اداروں کو معمول سے زیادہ متحرک اور فعال ہونا ہوگا۔اُنہوںنے واضح کیا کہ عوام کے تحفظ اور امن و امان کو برقرار رکھنا صوبائی حکومت کی اولین ذمہ داری ہے اور ہم کسی صورت اپنی اس اہم ذمہ داری سے غافل نہیں ہوں گے۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged ,
51555