Chitral Times

پس وپیش ۔ ستائشستان کی بیماری – اے۔ایم۔خان

پس وپیش ۔ ستائشستان کی بیماری – اے۔ایم۔خان

گزشتہ چند سالوں سے ایک بیماری نہ صرف نوجوان نسل میں عام ہو چُکا ہے بلکہ اب درازعمر کے لوگ بھی اس سے متاثر ہورہے ہیں

اس بیماری میں عام طور پر بندہ زیادہ وقت مصروف رہتا ہے لیکن کوئی عملی کام نہیں کرتا اور  ہوسکتا ہوتا ہے ۔

اس بیماری میں اپنی ‘شہرت اور دوسروں کی حجت’ ٹھیک کرنے کی غرض سے شب و روز محنت کرنا پڑتی ہے۔ اس میں کئی ایک کام کرنا پڑتے ہیں جسمیں فوٹو ، لکھ کر، آڈیو یا ویڈیو  پیغام کے ذریعے کیا جاتا ہے۔

تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ اس بیماری کی وجہ سے اگر  رات کی نیند اور دن کا کام متاثر ہو بھی جائے لیکن شہرت اور حجت کی ذمہ داری جاری رہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ چینی زیادہ استعمال کرنے  سے افاقہ ہونے کے بجائے بیماری قابو سے باہر کیوں نہ ہو چُکا ہو۔

ستائشستان میں یہ پہلا کام ہوتا ہے جسمیں’ کام سے زیادہ نام’ پر توجہ دی جاتی ہے۔

 اس ملک میں اگر کوئی شہری  اس بیماری میں مبتلا نہ ہونا چاہے تو کوئی قدغن نہیں۔ اُس وقت تک جب وہ  اپنے اوپر خود یہ قدغن نہ لگا دے تب تک ہر معاشرتی، سیاسی اور معاشی قدغن نہیں ہوتی۔ ایک تکلیف یہ ہوتی ہے کہ اس میں ‘پسند اور تعریف’ کرنے والے گھٹنے  کا خدشہ رہتا ہے اور ساتھ زیادہ ہونے کی وقتی خوشی بھی۔

 اس بیماری میں پسند اور تعریف کرنے والے  زیادہ  ہونا  بیماری کا فوری علاج ہے لیکن یہ بیماری کا بنیادی  وجہ بھی جس سے یہ بیماری روز بروز بڑھ جاتی  ہے۔  

اس بیماری کا ایک تاثیر یہ ہوتی ہے کہ سامنے اور موبائل میں موجود اس ایک فرد میں آسانی سے فرق کیا جاسکتا ہے  اور یہ اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اُس کی بیماری کس نوعیت کی ہے۔ عام علامات میں نیند کی کمی، آنکھوں میں جلن، تنہائی، الجھن، بے کیفی اور تعلیمی کمزوری نمایاں ہوتے ہیں اس کے علاوہ ذہنی افسردگی بھی بعض لوگوں میں عام نظر آتا ہے۔  

اس بیماری کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ بیمار بندہ چوبیس گھنٹے میں جاگتا اور  عملی کام کے باوجود مصروف رہتا ہے

ستائشستان میں چینی کی ہوش ربا استعمال سے شوگر کی بیماری روز بروز بڑھ رہی ہے۔ حالیہ اعداو شمار کے مطابق پاکستان میں چار کم سن افراد میں ایک اس بیماری کا شکار ہے۔ اگر یہ بیماری ایک حد میں پہنچ جائے جس کا علاج پھر ممکن نہیں ہوتا۔ اسلئیے عام استعمال میں حد سے زیادہ چینی کے استعمال کو کم کیا جائے اور کڑوے چیزیں کھانے کی عادت بنانے کا مشورہ ڈاکٹرز دیتے ہیں  تاکہ وقت پر اس بیماری پر قابو پایا جا سکے۔ ستائشستان میں اس بیماری سے ہلاکت کی کوئی خبر اب تک موصول نہیں ہوئی ہے۔ اس بیماری کی نوعیت قریہ قریہ مختلف ہے لیکن ترقی یافتہ لوگوں اور دیہات میں علامات زیادہ نظر آرہے ہیں۔

تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق چینی کے تھوک و پرچون  یعنی دونوں کاروبار پر  کئی سال سے ادب کے لوگ قابض ہیں، اور یہ جاری ہے کیونکہ اب اس میں مندی کی گنجائش نہیں ہے۔  قیاس کے مطابق ایک عشرہ  گزرنے کے بعد لوگ افاقہ کی خاطر  خود چینی کا استعمال معمول سے کم کرنا شروع کردیں گے تو بیماری میں بھی کمی ہوسکتی ہے۔  

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56348

پس وپیش – واقعاتی ڈرامہ – اے.ایم.خان

پہلے ڈرامہ سنتے اور پڑھتے تھے اب ڈرامہ دیکھتے ہیں۔یہ دیکھنے کا سفر وہاں سرکاری ٹی۔وی سے شروع ہو جاتا ہے، بعد میں پرائیوٹ چینلز پر اور اب سوشل میڈیا پر بھی ڈرامے  دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جب ڈرامہ سننے اور پڑھنے کا دور تھا تو کوئی قصہ سنتا یا پڑھتا تو وہ دوسروں کو بھی سناتا تھا۔ اب وہ روایت ختم ہو چُکی ہے  کہ لوگ ڈرامہ دیکھنے کے بعد منہ دیکھتے ہیں اور دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔

بعض لوگ  ڈرامہ کے  بہت شوقین ہوتے ہیں تو بعض وقتاً فوقتاً دیکھ لیتے ہیں، اور ایسا بھی ہے کہ بعض لوگ ڈرامہ دیکھتے ہی نہیں۔ یہ صرف ڈرامہ دیکھنے والوں کا ایک جائزہ ہے، ڈرامہ کرنے والوں کی بات تو الگ ہے کیونکہ بات کردار پر آجاتی ہے۔

ڈرامہ میں بعض کردار تو لوگوں کو بہت پسند ہوتے ہیں۔ نہ صرف بچے بلکہ بڑے بھی اُس اداکار کی پسند سے اپنی پسند، بات، چال ڈھال اور ڈائیلاگ اپنالیتے ہیں۔ اور یہ انداز ایک زمانے سے ہوتے آرہے ہیں۔

ایک طرف دیکھیں تو یہ موسولینی کے فسطائیت کے نظریے کے قریب ہے کہ  عوام کو کچھ سمجھ نہیں آتی تو اسی لئے اُنہیں دیکھنے اور پڑھنے کی چیزیں بھی دی جائے، تو دوسری طرف ہم ریاست کی مہربانی سے شہرہ آفاق ‘ڈرامہ’ اپنے گھروں میں مفت دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اب آپ یہ نہ پوچھیں کہ اسطرح کام کا اثر معاشرے پر کیا ہوتا ہے کیونکہ یہاں پوچھنے والا  کوئی نہیں ہے۔

کیا حالت ایسی ہے کہ  جو ڈرامہ بنتا ہے اُسے دکھانا اور اس کے بارے میں بات کرنا مشکل ہو چُکا ہے؟ آپ کی اپنی رائے مختلف ہوسکتی ہے، میرے رائے کے مطابق ایسی کوئی بات نہیں ہے کم ازکم ڈرامہ کی بات ڈرامائی انداز میں کرسکتے ہیں۔

گزشتہ سال فیس بک کے ایک پیج  سےبچے کے ہراسمنٹ کے حوالے سے انگریزی میں ایک پوسٹ  سامنے سے گزرا۔ یہ پوسٹ تکلیف دہ تھی لیکں اُس پوسٹ پر پہلا  کمنٹ نہایت دلچسپ تھی جس میں گلم گلوچ کے بعد اُس فرد نے لکھا تھا کہ کیا ضروری ہے کہ یہ سب کچھ دُنیا والوں کو بتاتے کہ ہمارے علاقے میں یہ واقعہ ہوا ہے۔ اگر خواہ مخوا ہ لکھنا چاہتا تھا تو اپنے مقامی زبان میں لکھتے تو دوسرے لوگوں کو سمجھ نہیں آتا۔

کیا یہ فلسفہ  اب بھی  رائج عام  تو نہیں ہے۔

اگر ایک ایسا ڈرامہ ہوا ہو اور پھر اُس کی خبر آجائے تو وہ ڈرامائی خبر بن جاتی ہے۔

مارکیٹ اور من گھڑت خبر کے حوالے سے ایک تجزیہ کار نے کیا خوب لکھا کہ دُنیا میں جمہوری اور آمرانہ حکومتیں اس کا اندازہ نہیں کرتے کہ صحافی اور رپورٹر کی اظہار رائے کی آزادی پر پابندی اور قدغن لگانے سے کتنا نقصان ہورہا ہے۔ ہم نے اب تک حکومتوں کی بات کی ہے معاشرے کی پابندی پر کسی نے بات نہیں کی ہے۔ بہرحال شاید نقصان کا اندازہ اُس وقت ہوجاتا ہے جب یہ کسی  بندےکے ساتھ ہو جاتا ہے۔

کیا صوبائی حکومت نے ۲۰۱۳ ء میں معلومات تک رسائی کا قانون پاس کرکے عوام پر احسان اور ادارون کو ہلکان کر چُکا ہے؟ اس پر آراء مختلف ہوسکتے ہیں لیکن سب اس بات کو مانتے ہیں کہ  خبر درست ، شفاف ،غیر جانبدارانہ اور اسمیں ذاتی پسندوناپسند شامل نہ ہو۔

اچھا ، مجھے آج یہ معلوم ہوا کہ اسطرح کا ایک قانون بھی ہے جس سےہمیں معلومات تک رسائی کا حق حاصل ہے اور  ادارے  معلومات کی فراہمی کے پابند ہیں ۔ ظاہری بات ہے اس قانون پر عملداری اُس کا عملی پہلو ہے۔

اگر وہاں کوئی نظریاتی ڈرامہ جب ریلیز ہوجاتی ہے تو اُسکا  آخری قسط بہت اہم ہوتی ہے کیونکہ اُس میں کہانی مکمل ہوجاتی ہے یعنی اُس نظریے کی تکمیل تو ہوجاتی ہے۔  باقی سب کچھ بُھول کر لوگ صرف آخری قسط پر اکتفا کرلیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شروع میں جو کچھ ہوا ہےخیر  آخری قسط اُن سب باتوں کو صاف کر دیتی ہے۔ لیکن اس کا معاشرے پر ایک اثر ہوتا ہے وہ ایک کیفیت ہے۔ یعنی جو  نظریاتی ڈرامہ کا آخری قسط دیکھتا ہے  اُس میں بات کرنے کی سکت ختم ہو جاتی ہے جسطرح وہ  ڈرامہ جس کے آخری قسط میں  ایک کم عمر غیر مسلم لڑکی آخر میں مسلم ہوجاتی ہے اور سٹیج سمٹ جاتے ہی سب دیکھنے والے اُس کیفیت کا شکار ہوگئے تھے۔

اور جو اُس ڈرامے کے بارے میں پڑھ رہے تھے جیسے ہی سٹیج میں یہ ڈرامہ ختم ہوئی تو اُن میں بھی وہ کیفیت طاری ہوئی یعنی پڑھنے والوں میں بھی بات کرنے کی سکت باقی نہ رہی۔ بالکل  اسی طرح یہ واقعاتی ڈرامہ کی تحریر  آخری قسط لکھتے ہی سمٹ کر رہ گئی۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54271

پس وپیش – یک گونہ چترال؟ – اے۔ایم۔خان

ماضی بعید میں جانے کے بجائے  اگر ہم چار سال پہلے یعنی سن 2017 کے مردم شماری کو دیکھیں جسکے مطابق  چترال کی آبادی چار لاکھ  سینتالیس ہزار تین سو بیاسٹھ  نفوس پر مشتمل ہے۔ لواری ٹاپ کے پار جو لوگ رہائش پذیر ہیں وہ ارندو کے باسیون سے جغرافیہ ، ذریعہ روزگار، زبان، رہن سہن اور رسم ورواج کے تناظر میں مختلف ہیں۔  بالکل اسی طرح بمبوریت ، رمبور اور بریر میں کیلاش کمیونٹی کے لوگ انہی علاقے اور اس سے متصل رہنے والے لوگوں سے موازنہ کیا جائے تو رنگ برنگی ظاہر ہے۔  چترال کے  ایک دوسرے وادی یعنی بوروغل میں ہی جائیں وہاں رہائش پذیر لوگوں کو دیکھا جائے تو ہمیں موجود گونا گونی مزید واضح ہوگی۔  

  یہ ہر فرد کا ذاتی تجربہ  ہے اور ہو بھی سکتا ہے کہ اُس کے گھر میں  رہنے والے لوگوں کی فطرت ، پسند و ناپسند اور ترجیحات کس طرح ہوتے ہیں۔ اپنے گھر میں فطرت کی رنگ برنگی ، پسندوناپسند اور ترجیحات کو مدنظر  رکھتے ہوئے ہم مختلف زبانین بولنے والے، ایک خاص خغرافیائی علاقے میں رہائش پذیر،  اور مختلف  مذاہب [یا مسلک] و تمدن کے  مطابق زندگی گزارنے والے لوگوں کی عام فطرت ، ترجیحات، پسندوناپسند ، سوچ اور سمجھ  کا اندازہ لگا سکتے ہیں جو ساڑھے چار لاکھ کے قریب آبادی میں کیا ہوسکتی ہے۔

چترال میں یہ عام ہے  کہ مختلف مقامات پر رہائش پذیر لوگوں کے پسند  وناپسند ، رجحانات اور عمومی فطرت کے حوالے سے ، گوکہ اس میں غلطی بھی ہوسکتی ہے، ایک تاثر پایا جاتا ہے جسمیں کچھ حد تک حقیقت بھی ہوتی ہے۔جسطرح  وقت ، حالات اور سماجی تغیر ایک حقیقت ہے بالکل اسی طرح چترال اور یہاں کے لوگوں اور  زندگی  کی ہے ۔ اور یہ تبدیلی کا ثمر ہے جو صدیوں پر محیط ہے ۔  چترال اور  اس زمین میں رہائش پذیر لوگوں کو ایک قرار دینا حقیقی اعتبار سے درست نہیں۔ ہاں شندور سے شروع ہوکر ارندو تک جو جغرافیائی علاقہ ہے یہ چترال کہلاتا ہے جو اب دو ضلعے پر محیط ہے۔  

 حقیقت یہ ہے کہ چترال میں مذہب اور مسلک کے حوالے سے تنوع ہے اسی طرح جغرافیائی علاقہ اور ایک خاص قبیلہ [یا نسل] سے تعلق رکھنے کی وجہ سے لوگوں میں کئی ایک چیزیں مشترک ہیں تو کئی غیر مشترک۔زبان کے تناظر میں دیکھا جائے  چترال میں چودہ مقامی مان بولی اور زبانین بولی جاتی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے بلکہ چترال میں مقیم لوگ اپنے آباواجداد کو اس علاقے سے متصل علاقوں سے آنے کی بھی توثیق کرتے ہیں۔ اگر ایک شخص افعانستان سے آیا ہے تو  دوسرا خاندان ایران سے آنے کی بات کرتا ہے۔ اگر ایک فرد وسطی ایشیائ سے آنے کی تاریخ ہے تو دوسرا شمالی علاقہ جات سے اپنا تعلق بتا دیتا ہے۔ اگر ایک شخص کے آباواجداد پختون ہیں تو دوسرے کی رشتہ داری پنجاب میں ہے۔

چترال اپنے گوناگونی کے اعتبار سے بہت وسیع ہے۔ یہان بسنے والے لوگوں کو ایک فریم میں ڈال کر ایک تصویر تیار کرنے کی کوشش حقیقت کو چھپانے اور نطر انداز کرنے کے مترادف ہے۔

چترال میں گونا گونی کی حقیقت کو  دوسرے تناظر میں لینے کے بجائے یہ حقیقت ہمیں تسلیم کرنا ہوگا۔یہ قابل تحسیں ہے اور اسی وجہ سے چترال دوسرے علاقوں کی نسبت منفرد ہو جاتی ہے۔ وسیع گونا گونی کے باوجود  یہاں کے لوگ متحد، امن پسند اور ایک دوسرے کی قدر اور خیال رکھتے ہیں۔ ہمیں یک گونہ اور یک سنگی سوچ اور ذہنیت کی سطحی بناوٹ کو تقویت دینے کے بجائے چترال میں گونا گونی کو تسلیم کرکے اسے بنائے رکھنا ہے۔ اور اس رنگا رنگی کو چترال میں اکثریت جانتی اور سمجھتی ہے۔اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ  ایک مقامی شاعر، مُلا  یا سیاست دان وغیرہ کی رائے ، سوچ اور بات کو اُس شخص تک محدود رکھنا ہوگا کیونکہ اسے اجتماعی رائے عامہ تسلیم کرنے کا کوئی جواز نہ موجود ہے اور نہ ہوسکتا ہے۔ 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
53813

پس وپیش – پانی دھرتی کا دودھ – اے.ایم .خان

اقوام متحدہ کے ایک ذیلی تنظیم کا دُنیا میں پانی کے بحران کے حوالے سے رپورٹ قابل غور اور تشویشناک ہے۔ وہ علاقے اور ممالک جہاں موسمیاتی تبدیلی سے جو بھی حالات ہو چُکے ہیں  اور رونما ہو رہے ہیں جسمیں مزید شدت آنے  کی پیشن گوئی کی گئ ہے ۔ اور وہ ممالک جہاں لوگوں کا زیادہ دارومدار زراعت پر ہے وہاں موسمیاتی تبدیلی سے پیداوار میں کمی اور پانی کی قلت سے مزید نقصانات ہو نے کی گنجائش ہے۔

  ورلڈ میٹیورولوجیکل ارگنائزیشن کے رپورٹ کے مطابق دُنیا میں پانچ عرب سے زیادہ لوگوں کو 2050  ء تک پانی کی رسائی میں مشکلات درپیش ہوسکتے ہیں جوکہ 2018ء تک ایک سال کے دوران تین اعشاریہ چھ عرب لوگوں کیلئے کم ازکم سال کے ایک مہینے پانی تک رسائی کے مسائل  بنتے تھے۔

سطح زمین پر پانی کے ذخائر کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ پانی کی یہ مقدار گزشتہ بیس سال سے ایک سینٹی میڑ  کے حساب سے گھٹ رہی ہے۔ اب جوکہ زمین میں 0.5فیصد پانی تازہ اور قابل استعمال ہے، وہ ذخائر جو زمین کی سطح، زیر زمیں ، برف اور گلیشیرز کی صورت میں موجود ہیں، اُن میں مزید کمی ہوسکتی ہے۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو دہائی سے سیلاب اور اس سے متعلق تباہی میں بھی 124 فیصد اضافہ دیکھنے میں آئی ہے۔

  جرمن واچ کا حوالہ دے کر پاکستان اکنامک سروے (2019-20)میں یہ رپورٹ ہوئی ہے کہ پاکستان اپنے جغرافیہ کی وجہ سے دُنیا میں اُن دس ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے گزشتہ بیس سال سے سب سےزیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔ ماحولیاتی ابتری اور حالات سے نمٹنے کے لئے ملک میں ، سروے کے مطابق،  ہر سال سات سے چودہ عرب ڈالر کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ ایک دوسرے  اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال تین اعشاریہ آٹھ عرب ڈالر کے حساب سے معاشی نقصان موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہوجاتا ہے۔

پاکستان میں پانی کا سب سے بڑا اور اہم ذریعہ دریائے سندھ ہے جس سے زراعت میں نوے فیصد پیداوار  ہوجاتی ہے۔ ذرعی پیداوار  ملک کے جی۔ڈی۔پی کا  ایک کوارٹر حصہ بن جاتی ہے اور یہ ملک کے اندر خوارک اور ذریعہ معاش کا اہم وسیلہ ہے۔ پاکستان کے برآمدات اور بیرونی آمدنی کا اہم ذریعہ بھی ذراعت ہے جو پانی کی کمی سے زیادہ متاثر ہوسکتا ہے۔

دلچسپی کی بات یہ ہے کہ  آزادی کے وقت پاکستان میں پانی فی کس کے حساب سے عالمی معیار کے مطابق زیادہ تھی جوکہ اب گر کر ایک ہزار میٹر فی کس سے بھی کم ہوچُکی ہے جس سے شدید پانی کی قلت، ترقی میں رکاوٹ اور انسانی صحت متاثر ہونے کا خطرہ ظاہر کیا جاتا ہے۔

پاکستان واٹر وژن 2025 کے مطابق پاکستان میں جنگلات کی کٹائی ہر سال چار فیصد کے حساب سے جاری ہے جس سے بلندی پر واقع علاقےجہاں عالمی حدت کا اثر زیادہ ہو جاتی ہے جس سے برف کی پگھلاو زیادہ اور پانی کے ذخائر میں کمی ہورہی ہے۔ اگر اس عمل سے ایک طرف  نقصانات ہو رہے ہیں تو دوسری طرف پانی کے وسائل کم ہونے کا شرح بڑھ چُکی ہے۔

پاکستان کے ڈرافٹ نیشنل واٹر پالیسی کے مطابق پاکستان میں 2025ء  تک پانی اور اُس کے ذخائر کے تحفظ اور ترقی سے کافی پانی  موجود ہونا چاہیے۔اس مقصد کے حصول کے لئے ملک میں پانی کی تقسیم کا معیار بہتر  کرنے پر زور دیا گیا ہے۔پانی کے حوالے سے قومی پالیسی کا لب لباب یہ ہے کہ  ماحول کو سامنے رکھتے ہوئے معیار زندگی کو بہتر بنانے، وسائل کی معاشی اہمیت اور تمام اسٹیک ہولڈر کی شمولیت سے پانی کے نظام تقسیم کے معیار کو بہتر بنانے اور اس کی برابر تقسیم کو یقینی بنانا چاہیے۔ اور صارفین کے ضروریات کو مدنظر رکھ کر بہتر انتظام کا ہونا، اداراتی اور قانونی نظام جس سے پانی کے پائیدار استعمال سے ملک میں سماجی اور معاشی ترقی ممکن ہوسکے۔

پانی کو دھرتی کے دودھ سے تغبیر کیا جاتا ہے جس سے زمین میں بسنے والے زندگی کا انحصار ہے۔ گوکہ پاکستان میں کئی علاقوں میں پانی کی کمی موجود ہے ، اور چند شہروں میں پانی کی کمی قلت کی صورت لے چُکی ہے۔بشمول پاکستان، دُنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی اور عالمی حدت سے متاثر ہونے والے ممالک میں پانی کی کمی سے قلت اور اس سے پیدا  ہونے والے نقصانات کا اندازہ  قابل غور ہے۔  دُنیا میں پانی کے بحران کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کی یہ رپورٹ پاکستان میں آنکھ کھولنے کیلئے کافی ہے۔ نیشنل واٹر پالیسی پر عملی کام کرکے ملک میں بننے والے پانی کی قلت سے نمٹنے کیلئے اقدامات اور موجود پانی کے ذخائر کو محفوظ کرنے ، اور اُن کے پائیدار استعمال کو یقینی بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53329

پس وپیش – یہ ہوتا رہا تو تھوڑی اور چلے گی – اے۔ایم۔خان


پس وپیش – یہ ہوتا رہا تو تھوڑی اور چلے گی – اے۔ایم۔خان

سوشل میڈیا نے ہمیں ڈیجیٹل دُنیا میں لے آئی۔ اب چترال میں چند الفاظ یا مرکب  جو برائے نام اعزاز و القاب کی صورت میں دئیےاور لئے جاتے ہیں اُودھم مچا دی ہیں ۔ چترال میں ایک دوسرے کو،  خود کو ، اپنے خاندان کے کسی فرد کو  ایک ٹائٹل کا حقدار بنا نا یہ ایک میڈیا گیم بن چُکی ہے ۔ جب  ایک صفحے میں یہ پوسٹ ہوگئی تو  اسے زیادہ سے زیادہ پسند کی جائے، شئیر اور اکنالج بھی کی جائے۔ اس عمل میں سوشل میڈیا میں لوگوں کے گروپس بھی بنے ہیں اور وہ ایک دوسرے کیلئے یہ کام کرتے ہیں۔[گوکہ شیئرنگ میں مارکیٹنگ کی چیز اور ایک کاز کو آگے لے جانے میں بھی فرق ہے]

 درحقیقت  یہ ایک احساس [[… ہے  اور مصنوعی بناوٹ کی ایک بڑھتی معاشرتی رجحان ہے جو سوشل امیج سے ڈیجیٹل امیج میں ٹرانزشن کی وجہ سے سیلف  پروفائلنگ اور مارکیٹنگ کو دیکھ کر ہور ہی ہے۔ ہمارے ہاں اسکی نوعیت سماجی ہے اور دوسرے لوگوں کیلئے یہ ایک پیشہ ورانہ کام ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک میں ڈیجیٹل امیج کو دیکھ کر اور اس بناء پر کمپنیز ملازم ہائر کرتے ہیں۔

گزشہ دو سال سے سوشل میڈیا میں ایک ٹر ینڈ شروع ہوئی جسمیں لوگ فیسبک پروفائل فوٹو اپڈ یٹ کرنا شروع کئے جو نہایت  نمایان ہوتے تھے۔ ایک صارف ،سجاد حسین،  نے سوشل میڈیا میں اس تناظر میں  ایک پوسٹ میں  لکھا ، چلو اب ہم اوریجنل فوٹو لگانے کا چیلنج شروع کر دیتے ہیں۔ اسکا مطلب یہ تھا کہ ہمارا اصل فوٹو کسطرح ہے اُس سےجسے ہم فیسبک میں لگاتے ہیں۔ دوسرے تناظر میں اسے دیکھا جائے تو چترال سے  سوشل میڈیا صارفین کا یہ میڈیا پروفائلنگ کی روایت چلنے کی علامت تھی اور اُس کی نوعیت سماجی پروفائلنگ تھی اور اب بھی وہی ہے۔  

 ایک زمانے میں اعزازو القاب اور نام ریاست کی طرف سے دی جاتی تھیں۔  ہندوستان میں لوگوں کو ٹائٹل دئیے جاتے تھے ، پھر فرنگی راج کے دوران رائے بہادر کی لقب ، سر کے علاوہ اور  دوسرے اعزاز دئیے جانے لگے۔  اور آزادی کے بعد  پاکستان میں مختلف مواقع پر لوگوں کو ایوارڈز سے نوازا جاتا ہے ۔ اب یہ ایوارڈز کام اور  کارکردگی کے علاوہ سیاسی  بھی ہوتے ہیں  یہاں زیر بحث نہیں ۔

اب چترال میں چند الفاظ ایسے ہیں جو بہت زیادہ استعمال ہوتے ہیں اور وہ کیوں ہوتے ہیں یہ ایک الگ سوال ہے  اور یہ کسطرح ہوتے آرہےہیں ایک تاریخی بحث ہے جو کافی گہری ہے جس پر تاریخی اور تنقیدی بحث کی ضرورت اب محسوس ہور ہی ہے۔  

ہمارے یہاں اب موضوع بحث وہ فریم ورک ہونی چاہیے جو اس کالم کا وجہ تسمیہ ہے  جسے بنیاد بناکر لوگوں کو  خطاب یا نام دیا جائے جو اخبار کے رپورٹس اور کالم کے سرخی بن جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا میں اس پروجیکٹ کو آگے لے جانے کیلئے جو کام ہوا اور ہو رہا ہے وہ قابل غور بات اسلئیے ہے  کہ فلان کو کس نے یہ اختیار دی ہے کہ وہ زید اور بکر کو  ایسے القابات سے نوازے ۔ اور سب سے پہلے وہ فریم ورک جسے بنیاد بناکر ایک ٹائٹل دی جائے اسے واضح کیا جائے تاکہ اسکی ایک ٹھوس بنیاد سمجھ میں آجائے۔میرے خیال میں لوگوں کے کام ، کارکردگی اور کنٹربیوشن کو اکنالج کرنا ضروری ہے  جو وہ معاشرےمیں اور کیلئے کرتے آرہے ہیں لیکن وہ اگر پیشہ ورانہ طریقے اور ایک فریم ورک میں ہو تو اس کی اہمیت بھی  ہوجائے گی۔ یہ درست ہے کہ کسی کام، کارکردگی اور کنٹربیوشن کو ماپنا بھی ایک پیچیدہ اور سائنسی عمل ہے۔ جو لوگ اس پروجیکٹ میں کام کر رہے تھے انہیں اس پر غور کرنا ہوگا گوکہ اب اُن کیلئے کنٹنٹ کی شدید قلت ہورہی ہے۔

چند ہفتے پہلے فیس بک میں ایک صفحےپر  جو ممتاز لوگوں کا بایوگرافی جاری کرتی ہے اُس میں ایک ویڈیو اپلوڈ ہوئی جسمیں دماغی لحاظ سے غیر معمولی حالت میں ایک شخص فائر کرکے ایک شخص کو مار دیتا ہے اور پولیس اہلکار اُس کے ساتھ گتھم گتھا ہو رہے ہیں ۔ گویا اُس پیج میں آنے کا مطلب وہ بھی اُن لوگوں میں شامل ہے جس کے نام کے ساتھ ایک سابقہ لگا دیا جاتا ہے یعنی  وہ بھی ایک امتیازی حیثیت حاصل کرلی جو  ایک بے قصور کو مارنے کے بعد؟  

 سوشل میڈیا نے  ایک کام  کہ ممتاز لوگوں کو عام کر دی۔  جسکا ایک فائدہ یہ ہوا کہ چترال میں ایک بڑی آبادی غیر معمولی کام اور امتیازی کارکردگی کی وجہ سے ممتاز حیثیت کا حامل بن گئے ہیں۔  ہر کوئی اگر نہیں تو ایک سے دوسرے گھر میں  ہوسکتا ہے وہ شخصیت ہے۔  

چترال میں لوگوں کو اغزازی ٹائٹل دینے کا کام انگریزی صفحے سے شروع ہوئی ، اس کی مقبولیت کے بعد اُردو میں بھی یہ کاوش شروع ہوئی اور یہ سفر جاری   ہے اور اب لوگ فیچرڈ رپورٹ پبلش کر رہے ہیں انلائن کیبلز پر۔ لوگوں میں وہ تجسس ، کہ ممتاز بن جائیں کہ اُن کے نام سے پہلے  فخر ، پہلی شخص، بانی، ممتاز اور واحد شخصیت [فرد یا شخص کی قید سے آزاد ہو ] ہیں اُس نے یہ کردی اور وہ ہوگئِ ، یعنی اس ٹائٹل کا حقدار ہے ۔اُس نے یہ کی تھی یا کیا  ہے،  اوراس کام اور کارکردگی کی بنیاد پر اُسے یہ ٹائٹل دینا اسکا حق بنتا ہے ۔یہ عمل سوشل میڈیا کے ایک صفحے کے علاوہ رسمی پروگرامز میں مدعو لوگ بھی کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے زیر اثر  اب یہ مزید زیادہ ہورہی ہے۔ مثال کے طور پر  رپورٹ لکھنے والا  اُسے ‘بابائے’ کا خطاب لکھ دے تو اپنے لئے ‘ممتاز’  کا ملقب لگا دے تو وزن اور بحر دونوں براب ہوجاتے ہیں۔

یہ بھی ایک بڑی پروجیکٹ ہے جو جاری ہے  کہ اپنی خاندان کی  درخت اس طرح تیار کرلی جائے جسکی بیچ کہان کی ہے،  کتنی نایاب ہے ، کس مبارک زمیں سے ہوکر ایک تناور درخت بنی،  جس کے اتنی شاخیں ہیں اور وہ ایک علاقے سے دوسرے علاقے اور ملک میں پھیلےہوئے ہیں تاکہ لوگوں کو لگے کہ واقعی انسان کا بچہ [آدم زادہ]ہے۔ اور یہ ایک الگ بحث ہے کہ یہ اصطلاح کتنی  انکلوزیو ہے اور کس طرح ایکسکلوزیو  ہوجاتی ہے۔  

چترال سے ایک خاتون،  جو جاپان سے گزشتہ سال یا اس سے پہلے اپنی ڈاکٹریکٹ کی ڈگری مکمل کرکے آئی تھی، ممتاز لوگوں کیلئے مختص فیسبک صفحے پر ایک دفعہ کمنٹ میں لکھ دی ‘کہ یہ لوگوں کو اپنے مرضی سے ٹائٹل دینا کہ اس نے یہ امتیازی کام کرنے پر اس ٹائٹل کا حقدار ہے، یہ ایک غیر سنجیدہ اور نازک کام ہے’ تو یہ ایک ایسی ردعمل تھی جوکہ قابل غور بات تھی۔

چترال ایک چھوٹی بستی ہے جسمیں لوگ سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں اور پہچانتے ہیں۔ سوشل میڈیا پروفائلنگ، مارکیٹنگ ، بناوٹ، سجاوٹ  اور شہرت اپنی جگہ لیکن وہ ٹرینڈ جس سے ایک احساس[کمتری اور برتری]، غیر سنجیدگی اور نازک مسائل جنم لیں اور سماجی اور نفسیاتی فاصلے پیدا ہونے کے رجحانات بن جائیں تو معاشرے میں  اُس کی تاثیر غیر صحت مند ہے۔ اور اگر یہ ہوتا بھی رہا تھوڑی اور چلے گی اور آخر میں سوشل حقائق اور ڈیجیٹل پروفائل آپس میں کمپلائنٹ نہ ہوں تو سسٹم کے فنکشن میں فرق آجائے گی تو پھر سسٹم کو دوبارہ سوفٹ وئیر کرنا پڑے گا جس سے ڈیٹا لاز ہونے کا خطرہ بھی ہوسکتا ہے۔   —

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
51746

پس وپیش – افعانستان میں بکھیڑا – اے.ایم.خان


نہ صرف افعانستان بلکہ پوری دُنیا میں اس بات پر بحث جاری ہے کہ کون جیتا اور کس کی ہار ہوئی ، اور ساتھ امریکہ ، طالبان ، پاکستان ، روس، چین ، ہندوستان،  ایران ، ترکی اور افعانستان میں مقیم وار۔لارڈز کے کردار کی بھی بات ہوتی ہے۔  یہ افعانستان کے عام لوگ ہیں جو بہت کم لوگوں میں زیر بحث ہیں۔  افعانستان کی سرزمین میں درحقیقت کسی کی جیت نہ ہوئی بلکہ  امریکہ سمیت  وہ حکومت ، کئی ایک ملک، لوگ اور ادارے کی شکست ہے جن کی وجہ سے حالات اس نہج پر پہنچ گئے جسمیں افعان عوام کیلئے ایک غیریقینی حالت اور اضطراب کی کیفیت ہے۔  جو افعانستان سے باہر کسی ملک جاسکے تھے وہ چلے گئے اور باقی بھی جا رہے ہیں ، اور اکثریت تو کسمپرسی کی حالت میں ہے اگر کہیں جانا بھی چاہیں تو بارڈرز بند ہیں یا بارڈرز کے ساتھ موجود کیمپس ہیں وہاں رہنا پڑے گا۔

 امریکہ کے لئے  اُس کے ایک ملٹری جہاز کے فرش پر  600 کے قریب لوگوں کی سواری ایک استعارہ ہے جو پانچ دہائی پہلے ویتنام میں ہو چُکی تھی۔  اور تین لاکھ تربیت یافتہ جدید ہتھیارون سے لیس فوجی اہلکاروں کی کارکردگی بھی دیکھنے میں آئی جس کے بارے میں بار بار یقین دہانی کی جاتی تھی۔ کہیں یہ بھی ایسی تو نہ تھی کہ جسطرح ویتنام میں باوردی لوگ وردی چھوڑ کر عام لوگوں کے رُوپ میں آئے؟

امریکی صدر ، جوو بائیڈن ، کے پریس کانفرنس سے یہ بات نہایت دلچسپ تھی کہ جب اُس نے کہا کہ ہم افعانستان میں “نیشن بلڈنگ” کے لئے نہیں بلکہ افعان سرزمیں سے امریکہ کے لئے جو خطرات تھے اُن کو ختم کرنے کیلئےآئے تھے۔ یہ جاننا یہاں اہم ہے کہ جو نطریاتی اور شدت پسندی پر مبنی سوچ تیار کی گئی تھی اور اب موجود ہے یہ بھی اُسکی پیداوار ہے جسے ساتھ لے کر  امریکہ ایک زمانے میں روس کے خلاف جنگ کی، اور بیس سال پہلے اُن لوگوں کے خلاف خود افعانستان میں جنگ شروع کی ۔  اب امریکہ انتہائی ناکامی کے باوجود یہ کہہ کر کہ ‘یہ ہماری جنگ نہیں ہے’ ، جولائی کے مہینے سےافعانستان سے  فوجی انخلاء شروع کی اور حالات اسطرح ہو چُکے ہیں جس کی ذمہ داری اُس پر عائد ہوتی ہے۔

 نائن الیون کے واقعے کے بعد القاعدہ کے خلاف امریکہ اور نیٹو فورسسز کی  جو جنگ شروع ہوئی جو بیس سال بعد افعانستان کے لوگوں کے لئے ایک بار پھر غیر یقینی صورت حال پیدا کی ہے ۔ امریکی حکومت نے افعانستان کی سرزمیں میں جمہوریت لانے اور جمہوریت کی آمد  سے ہزاروں کی تعداد میں افعان لوگوں کی ہلاکت ، کئی  ہزار زخمی اور اپاہچ ہوکر اپنی زندگی گزار رہے ہیں جو کہ بیس سال پہلے ہو چُکی تھی۔

 یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ افعانستان اور پاکستان میں لوگ بھی افعانستان میں طالبان کے کنڑول کے بعد تقسیم ہیں اور مختلف آراء کے حامی ہیں۔ایک طرف،  دایاں اور بایاں بازو کے حامی طالبان کی کامیابی کے بعد ، جو 1990 کے بعد افعانستان میں طالبان کے حکومت کے دوران رونما ہوئے،  جسمیں انسانی حقوق، خواتین کے حقوق و تعلیم ، اقلیتوں کے لئے جو حالات پیدا ہوئے تھے اُسی طرح کے حالات پیدا ہونےکے خدشات کا اظہار کررہے ہیں، تو دوسری طرف شعار مذہبی کے حامی اسے اسلام کی کامیابی قرار دیتے ہیں اور اسلامی نظام آنے کی خوشی منا رہے ہیں۔

اب یہ بیان طالبان کی طرف سے آرہی ہے کہ وہ افعانستان میں ایک inclusive حکومت بنائیں گے یعنی جسمیں سب شامل ہونگے۔ افعانستان میں خواتین کی ایک تنظیم پہلے ہی حکومت میں شمولیت کے لئے احتجاج بھی ریکارڈ کی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ افعانستان کی سرزمیں جوکہ بیس سال امریکی ، دوسرے بیرونی ممالک اور افعان جنگی سرداروں کا آپس میں جنگ اورمقابلےسے برباد ہو چُکی ہے،  اب جسے ہم مسیحا سمجھتے ہیں کہ وہ ملک کا سیاسی، معاشی و معاشرتی نظام، ادارے اور انفراسٹرکچر کو کسطرح بحال اور قابل استعمال بنادیتا ہے۔   ایک اندازے کے مطابق اب افعانستان میں 43 فیصد آبادی غربت کا شکار ہے اُنہیں غربت کی لکیر سے اُوپر لے آنا ، ملک کی معاشی، معاشرتی ، سیاسی اور بین الاقوامی پوزیشن کو دوبارہ بحال کرنا اگر ناممکن نہیں تو بہت زیادہ مشکل ہے۔ یہ وقت ہی بتا ئے گا کہ حاصل دعوی کسطرح ہوجاتی ہے۔ 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
51605

پس وپیش ۔۔۔ شکاری سیاح کا معمہ ۔۔۔اے۔ایم۔خان

گزشتہ ایک دن سے  فیسبک میں ایک ویڈیو توجہ کا مرکز بن چُکی ہے ۔  ہفتے کے روز ایک غیر مقامی سیاح جو گاڑی میں چترال کے گرم چشمہ وادی سے واپسی پر ایک مارخور کو پانی پیتے وقت نشانہ بنا دیا تھا  جسمیں مارخور کو زخمی حالت میں دریا کے پار کنارے دیکھا جاسکتا ہے۔  ویڈ یو میں یہ واضح نظر آرہی ہے کہ مارخور دریا کے کنارے پانی کے اندر موجود ہے اور باہر نکلنے کی کوشش کررہی ہے۔ زخمی ہونے کی وجہ سے باہر جا نہیں سکتی۔

 مقامی اخبارکے رپورٹس اور عین شاہدین کے مطابق ایک غیر مقامی سیاح مارخور کو دریا میں پانی پیتے وقت گولی مار دی اور وہ  اپنے گاڑی میں سوار ہوکر چلی گئی۔ اسی طرح ایک جنگلی جانور کا شکار  غیر قانونی اور غیراخلاقی عمل ہے۔

  [سیاح کے شکار کا شوق تو پوری ہوگئی لیکن گولی لگنے کے بعد  ٹھنڈے پانی کے اندر اُس جانور کو کتنی درد اور تکلیف سہنا پڑی فی الحال زیربحث نہیں]

ایک سیاح ایک خاص علاقے میں ماحول، فرد، پرندے، جانور اور تمدن کو زد پہنچائے جسطرح  اُس سیاح نے کی ہے جوکہ ناقابل قبول ہے۔دُنیا  اور پاکستان میں خطرے سے دوچار نایاب جانور، کشمیر مارخور، وہ بھی مادہ ہو، کو جو نقصان اُس نے پہنچائی ہے اسوقت ناقابل تلافی ہے ۔

 جنگل میں اُس نے نہ جنگل کے قانون کی قدر کی اور نہ  محکمہ جنگلی حیات کے ضابطہ کا، اُس نے بس  اپنی قانون  بنائی  اور استعمال کی اور اپنی شوق کی پیاس بھجاکر چلی گئی۔ یہ نامعلوم شکاری اگر مارخور کے شکار کی اتنی شوقین تھی تو وہ سیاحت پر خرچ کرنے کے بجائے ٹرافی ہنٹنگ سے اپنا شوق پورا کرسکتا تھا لیکن اُس نے دونوں ہاتھ سے سلام کرکے نکل گئی۔

محکمہ جنگلی حیات خیبر پختونخوا ایکٹ 1975 کے مطابق ٹرافی ہنٹنگ ایک قانونی عمل ہے۔ اس قانون کے مطابق صوبے کے مخصوص علاقے میں متعلقہ ادارے سے اجازت نامہ [پرمٹ] لینے کے بعد ایک شکاری  ایک خاص عمر میں پہنچے ہوئے [میچیور] مارخور کا شکار کر سکتی ہے۔

سن ۲۰۰۲ء کو سنڈیاگو چیلی میں ایک کانفرنس کے بعد  پاکستان کیلئے مارخور ، گوکہ دُنیا میں پروٹکٹڈ جانور ہے، کے ایکسپورٹ کا کوٹہ 12 مقرر کی گئ۔  پاکستان کے وہ علاقے جہاں کشمیر مارخور موجود ہے اس حساب سے صوبہ خیبر پختونخوا کو 10 کا کوٹہ مل چُکا ہے ۔ صوبے میں ضلع سوات اور کوہستان کے علاوہ باقی چار مارخور کنزرونسی چترال میں موجود ہیں جہان ٹرافی ہنٹنگ کی قانونی اجازت موجود ہے۔

ٹرافی ہنٹنگ صوبے میں 1998سے شروغ  ہے اور اب تک 78مارخور کے شکار ہوچُکے ہیں۔ گزشتہ سال ایک پرمٹ ایک لاکھ پچاس ہزار [یو۔ایس ڈالر] میں فروخت ہوچُکی تھی۔ چترال میں ٹرافی ہنٹنگ سے جو رقم موصول ہوتی ہے جسکا 20 فیصد حکومت کو اور 80فیصد اُس علاقے کے لوگوں  یعنی کمیونٹی کو دی جاتی ہے۔

وہ غیر مقامی سیاح جس نے مادہ کشمیر مارخور کو فائر کرکے نقصان پہنچائی ہے،جو اب تک زخمی حالت میں زیر علاج ہے،  وہ چترال میں توشی۔شاشا کنزرونسی کے احاطے میں ہوچُکی ہے۔ اس کنزرونسی  کے علاوہ زیرین  چترال میں  گہیریت-گولین کنزرونسی، تریچ میر کنزرونسی، جوکہ ارکاری اور گوبور کے علاقے پر محیط ہے، وہاں بھی مارخور کی ٹرافی ہنٹنگ ہو جاتی ہے۔

خیبر پختونخوا میں مارخور کی شکار کیلئے مقررہ وقت پندرہ دسمبر کو ہر سال شروغ ہوجاتی ہے اور 31مارچ کو ختم ہو جاتی ہے لیکن دسمبر اور جنوری کے مہینے کو شکار کیلئے نہایت موزون قرار دیا جاتا ہے، اور شکار کیلئے مقررہ دن اُس علاقے کے مطابق شکاری کو دئیے جاتے ہیں۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ خیبر پختونخوا وائلڈ لائف ایند بایوڈائیورسٹی ایکٹ 2015 کے مطابق “جنگلی حیات” کا مطلب نہ صرف جنگلی جانور بلکہ وہ جگہ جہان وہ رہتی ہے یعنی وہ مٹی، درخت، پانی اور دوسرے وسائل شامل ہیں۔اور جنگلی حیات حکومت یعنی ریاست کی پراپرٹی ہے۔ اس قانون کے مطابق محفوظ جانور [پروٹکٹڈ انیملز] کی شکار  اور  اُسے قبضےمیں لینے کی گنجائش بالکل موجود نہیں۔ وہ تمام جانور جو چھوٹے [ایمیچیور]ہوں؛ وہ مادہ جانور جو حمل میں ہو؛ ایسی حالت میں جس سے لگے کہ وہ شیرخوار ہوں یا دودھ پلاتے ہوں؛ اُس جانور کے ساتھ چھوٹے بچے ہوں؛ جس میں مارخور کے تمام نسل [پرندے اور دوسرے جانور شامل ہیں] قانونی اعتبار سے  اُن کی شکار نہیں ہوسکتی یعنی وہ پروٹیکٹڈ ہیں۔

رپورٹس کے مطابق  توشی-شاشا کنزرونسی میں جس مارخور کو غیر مقامی سیاح نے زخمی کی ہے اُس کے دو بچے ہیں۔

ایکٹ 2015 کے سیکشن 9 کے مطابق  غیر قانونی شکار، اُس ہتھیار سے جس پر پابندی  ہو،  اور ساتھ محفوظ جانور کا شکار ہوئی ہو تو نہ صرف جرمانہ اور قید بلکہ  اُس جانور کی قیمت ، اور سب ایک ساتھ  ہونے کا سزا بھی ہوسکتی ہے۔ گوکہ جرمانہ ، قید اور پراپرٹی کی قیمت اور سزا کی نوعیت مختلف ہے جسمیں کم ازکم جرمانہ پانچ ہزار روپیہ یا ایک ہفتہ قید ، یا دونوں ، بشمول اُس نقصان کی قیمت؛ اور زیادہ سے زیادہ پینتالیس ہزار روپیہ جرمانہ یا دو سال قید، یا دونوں، بشمول اُس نقصان کی قیمت بھی ادا کرنا پڑتی ہے۔

  گوکہ غیر مقامی سیاح کا یہ شکار تو مقررہ وقت میں نہیں ہوا ہے تو غیر قانونی ہے اور پھر مادہ مارخور کی شکار پر مکمل قانونی پابندی ہے  تو یہ بھی غیر قانونی ہے۔ شکاری کے پاس شکار کی پرمٹ نہیں وہ بھی غیر قانونی ہے۔ اُس مارخور کے دو بچے بھی ہیں  اُس جرم کی نوعیت کو مزید سنگین کر دیتی ہے۔

سوال اب یہ بنتا ہے کہ کیا غیر مقامی شکاری سیاح کے  ساتھ  موجود اسلحہ ، جس سے اُس نے مارخور کو نشانہ بنا دی تھی،  قانونی اور لائسنس یافتہ  ہتھیار تھی ؟اور اگر یہ ہتھیار غیر قانونی اور جس پر قانونی قدغن ہے  تو کسطرح یہ شخص وہ ہتھیار اپنے ساتھ چترال لا چُکی تھی؟ اور اگر یہ ہتھیار قانونی تھی تو یہ کس قسم کا ہتھیار تھی،  اور کیا ہتھیار کا لائسنس اُس شخص کے پاس اُس وقت موجود تھی؟

 یہ سارا معمہ اُس وقت حل ہوسکتا ہے جب یہ غیر مقامی شکاری قانون کی گرفت میں آجاتی ہے

chitraltimes kashmir markhor conservancy wounded11
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
49702