Chitral Times

Apr 18, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

پس وپیش – یک گونہ چترال؟ – اے۔ایم۔خان

شیئر کریں:

ماضی بعید میں جانے کے بجائے  اگر ہم چار سال پہلے یعنی سن 2017 کے مردم شماری کو دیکھیں جسکے مطابق  چترال کی آبادی چار لاکھ  سینتالیس ہزار تین سو بیاسٹھ  نفوس پر مشتمل ہے۔ لواری ٹاپ کے پار جو لوگ رہائش پذیر ہیں وہ ارندو کے باسیون سے جغرافیہ ، ذریعہ روزگار، زبان، رہن سہن اور رسم ورواج کے تناظر میں مختلف ہیں۔  بالکل اسی طرح بمبوریت ، رمبور اور بریر میں کیلاش کمیونٹی کے لوگ انہی علاقے اور اس سے متصل رہنے والے لوگوں سے موازنہ کیا جائے تو رنگ برنگی ظاہر ہے۔  چترال کے  ایک دوسرے وادی یعنی بوروغل میں ہی جائیں وہاں رہائش پذیر لوگوں کو دیکھا جائے تو ہمیں موجود گونا گونی مزید واضح ہوگی۔  

  یہ ہر فرد کا ذاتی تجربہ  ہے اور ہو بھی سکتا ہے کہ اُس کے گھر میں  رہنے والے لوگوں کی فطرت ، پسند و ناپسند اور ترجیحات کس طرح ہوتے ہیں۔ اپنے گھر میں فطرت کی رنگ برنگی ، پسندوناپسند اور ترجیحات کو مدنظر  رکھتے ہوئے ہم مختلف زبانین بولنے والے، ایک خاص خغرافیائی علاقے میں رہائش پذیر،  اور مختلف  مذاہب [یا مسلک] و تمدن کے  مطابق زندگی گزارنے والے لوگوں کی عام فطرت ، ترجیحات، پسندوناپسند ، سوچ اور سمجھ  کا اندازہ لگا سکتے ہیں جو ساڑھے چار لاکھ کے قریب آبادی میں کیا ہوسکتی ہے۔

چترال میں یہ عام ہے  کہ مختلف مقامات پر رہائش پذیر لوگوں کے پسند  وناپسند ، رجحانات اور عمومی فطرت کے حوالے سے ، گوکہ اس میں غلطی بھی ہوسکتی ہے، ایک تاثر پایا جاتا ہے جسمیں کچھ حد تک حقیقت بھی ہوتی ہے۔جسطرح  وقت ، حالات اور سماجی تغیر ایک حقیقت ہے بالکل اسی طرح چترال اور یہاں کے لوگوں اور  زندگی  کی ہے ۔ اور یہ تبدیلی کا ثمر ہے جو صدیوں پر محیط ہے ۔  چترال اور  اس زمین میں رہائش پذیر لوگوں کو ایک قرار دینا حقیقی اعتبار سے درست نہیں۔ ہاں شندور سے شروع ہوکر ارندو تک جو جغرافیائی علاقہ ہے یہ چترال کہلاتا ہے جو اب دو ضلعے پر محیط ہے۔  

 حقیقت یہ ہے کہ چترال میں مذہب اور مسلک کے حوالے سے تنوع ہے اسی طرح جغرافیائی علاقہ اور ایک خاص قبیلہ [یا نسل] سے تعلق رکھنے کی وجہ سے لوگوں میں کئی ایک چیزیں مشترک ہیں تو کئی غیر مشترک۔زبان کے تناظر میں دیکھا جائے  چترال میں چودہ مقامی مان بولی اور زبانین بولی جاتی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے بلکہ چترال میں مقیم لوگ اپنے آباواجداد کو اس علاقے سے متصل علاقوں سے آنے کی بھی توثیق کرتے ہیں۔ اگر ایک شخص افعانستان سے آیا ہے تو  دوسرا خاندان ایران سے آنے کی بات کرتا ہے۔ اگر ایک فرد وسطی ایشیائ سے آنے کی تاریخ ہے تو دوسرا شمالی علاقہ جات سے اپنا تعلق بتا دیتا ہے۔ اگر ایک شخص کے آباواجداد پختون ہیں تو دوسرے کی رشتہ داری پنجاب میں ہے۔

چترال اپنے گوناگونی کے اعتبار سے بہت وسیع ہے۔ یہان بسنے والے لوگوں کو ایک فریم میں ڈال کر ایک تصویر تیار کرنے کی کوشش حقیقت کو چھپانے اور نطر انداز کرنے کے مترادف ہے۔

چترال میں گونا گونی کی حقیقت کو  دوسرے تناظر میں لینے کے بجائے یہ حقیقت ہمیں تسلیم کرنا ہوگا۔یہ قابل تحسیں ہے اور اسی وجہ سے چترال دوسرے علاقوں کی نسبت منفرد ہو جاتی ہے۔ وسیع گونا گونی کے باوجود  یہاں کے لوگ متحد، امن پسند اور ایک دوسرے کی قدر اور خیال رکھتے ہیں۔ ہمیں یک گونہ اور یک سنگی سوچ اور ذہنیت کی سطحی بناوٹ کو تقویت دینے کے بجائے چترال میں گونا گونی کو تسلیم کرکے اسے بنائے رکھنا ہے۔ اور اس رنگا رنگی کو چترال میں اکثریت جانتی اور سمجھتی ہے۔اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ  ایک مقامی شاعر، مُلا  یا سیاست دان وغیرہ کی رائے ، سوچ اور بات کو اُس شخص تک محدود رکھنا ہوگا کیونکہ اسے اجتماعی رائے عامہ تسلیم کرنے کا کوئی جواز نہ موجود ہے اور نہ ہوسکتا ہے۔ 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
53813