Chitral Times

پس وپیش – افعانستان میں بکھیڑا – اے.ایم.خان


نہ صرف افعانستان بلکہ پوری دُنیا میں اس بات پر بحث جاری ہے کہ کون جیتا اور کس کی ہار ہوئی ، اور ساتھ امریکہ ، طالبان ، پاکستان ، روس، چین ، ہندوستان،  ایران ، ترکی اور افعانستان میں مقیم وار۔لارڈز کے کردار کی بھی بات ہوتی ہے۔  یہ افعانستان کے عام لوگ ہیں جو بہت کم لوگوں میں زیر بحث ہیں۔  افعانستان کی سرزمین میں درحقیقت کسی کی جیت نہ ہوئی بلکہ  امریکہ سمیت  وہ حکومت ، کئی ایک ملک، لوگ اور ادارے کی شکست ہے جن کی وجہ سے حالات اس نہج پر پہنچ گئے جسمیں افعان عوام کیلئے ایک غیریقینی حالت اور اضطراب کی کیفیت ہے۔  جو افعانستان سے باہر کسی ملک جاسکے تھے وہ چلے گئے اور باقی بھی جا رہے ہیں ، اور اکثریت تو کسمپرسی کی حالت میں ہے اگر کہیں جانا بھی چاہیں تو بارڈرز بند ہیں یا بارڈرز کے ساتھ موجود کیمپس ہیں وہاں رہنا پڑے گا۔

 امریکہ کے لئے  اُس کے ایک ملٹری جہاز کے فرش پر  600 کے قریب لوگوں کی سواری ایک استعارہ ہے جو پانچ دہائی پہلے ویتنام میں ہو چُکی تھی۔  اور تین لاکھ تربیت یافتہ جدید ہتھیارون سے لیس فوجی اہلکاروں کی کارکردگی بھی دیکھنے میں آئی جس کے بارے میں بار بار یقین دہانی کی جاتی تھی۔ کہیں یہ بھی ایسی تو نہ تھی کہ جسطرح ویتنام میں باوردی لوگ وردی چھوڑ کر عام لوگوں کے رُوپ میں آئے؟

امریکی صدر ، جوو بائیڈن ، کے پریس کانفرنس سے یہ بات نہایت دلچسپ تھی کہ جب اُس نے کہا کہ ہم افعانستان میں “نیشن بلڈنگ” کے لئے نہیں بلکہ افعان سرزمیں سے امریکہ کے لئے جو خطرات تھے اُن کو ختم کرنے کیلئےآئے تھے۔ یہ جاننا یہاں اہم ہے کہ جو نطریاتی اور شدت پسندی پر مبنی سوچ تیار کی گئی تھی اور اب موجود ہے یہ بھی اُسکی پیداوار ہے جسے ساتھ لے کر  امریکہ ایک زمانے میں روس کے خلاف جنگ کی، اور بیس سال پہلے اُن لوگوں کے خلاف خود افعانستان میں جنگ شروع کی ۔  اب امریکہ انتہائی ناکامی کے باوجود یہ کہہ کر کہ ‘یہ ہماری جنگ نہیں ہے’ ، جولائی کے مہینے سےافعانستان سے  فوجی انخلاء شروع کی اور حالات اسطرح ہو چُکے ہیں جس کی ذمہ داری اُس پر عائد ہوتی ہے۔

 نائن الیون کے واقعے کے بعد القاعدہ کے خلاف امریکہ اور نیٹو فورسسز کی  جو جنگ شروع ہوئی جو بیس سال بعد افعانستان کے لوگوں کے لئے ایک بار پھر غیر یقینی صورت حال پیدا کی ہے ۔ امریکی حکومت نے افعانستان کی سرزمیں میں جمہوریت لانے اور جمہوریت کی آمد  سے ہزاروں کی تعداد میں افعان لوگوں کی ہلاکت ، کئی  ہزار زخمی اور اپاہچ ہوکر اپنی زندگی گزار رہے ہیں جو کہ بیس سال پہلے ہو چُکی تھی۔

 یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ افعانستان اور پاکستان میں لوگ بھی افعانستان میں طالبان کے کنڑول کے بعد تقسیم ہیں اور مختلف آراء کے حامی ہیں۔ایک طرف،  دایاں اور بایاں بازو کے حامی طالبان کی کامیابی کے بعد ، جو 1990 کے بعد افعانستان میں طالبان کے حکومت کے دوران رونما ہوئے،  جسمیں انسانی حقوق، خواتین کے حقوق و تعلیم ، اقلیتوں کے لئے جو حالات پیدا ہوئے تھے اُسی طرح کے حالات پیدا ہونےکے خدشات کا اظہار کررہے ہیں، تو دوسری طرف شعار مذہبی کے حامی اسے اسلام کی کامیابی قرار دیتے ہیں اور اسلامی نظام آنے کی خوشی منا رہے ہیں۔

اب یہ بیان طالبان کی طرف سے آرہی ہے کہ وہ افعانستان میں ایک inclusive حکومت بنائیں گے یعنی جسمیں سب شامل ہونگے۔ افعانستان میں خواتین کی ایک تنظیم پہلے ہی حکومت میں شمولیت کے لئے احتجاج بھی ریکارڈ کی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ افعانستان کی سرزمیں جوکہ بیس سال امریکی ، دوسرے بیرونی ممالک اور افعان جنگی سرداروں کا آپس میں جنگ اورمقابلےسے برباد ہو چُکی ہے،  اب جسے ہم مسیحا سمجھتے ہیں کہ وہ ملک کا سیاسی، معاشی و معاشرتی نظام، ادارے اور انفراسٹرکچر کو کسطرح بحال اور قابل استعمال بنادیتا ہے۔   ایک اندازے کے مطابق اب افعانستان میں 43 فیصد آبادی غربت کا شکار ہے اُنہیں غربت کی لکیر سے اُوپر لے آنا ، ملک کی معاشی، معاشرتی ، سیاسی اور بین الاقوامی پوزیشن کو دوبارہ بحال کرنا اگر ناممکن نہیں تو بہت زیادہ مشکل ہے۔ یہ وقت ہی بتا ئے گا کہ حاصل دعوی کسطرح ہوجاتی ہے۔ 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
51605