Chitral Times

داد بیداد ۔ خبر دار ہو شیار! ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

ایک ہی روز اخبارات میں دو خبریں آگئیں پا کستان کے ما یہ نا ز ایٹمی سائنسدان محسن پا کستان ڈاکٹر عبد القدیر خان نے تردیدی بیان جاری کیا کہ میری وفات کی خبر جھوٹی ہے میں زندہ ہو ں اور تندرستی کے قریب ہوں اسی صفحے پر دو کا لمی خبر میں پڑوسی ملک افغا نستان کی امارت اسلا می کے نائب وزیر اعظم ملا عبد الغنی برادر کا تردیدی بیان آیا ہے کہ میری وفات کی خبر غلط ہے میں صحت مند ہوں اور دفتری فرائض انجام دے رہا ہوں تردیدی خبروں کو پڑھنے کے بعد خیال آیا کہ آج کل ابلاغ عامہ کے ذرائع کسی بھی وقت کسی بھی زندہ شخصیت اور خا ص کر کے نا مور شخصیت کی وفات کی غیر مصدقہ خبردے سکتے ہیں خدا نہ بھی مارے ہمارے ذرائع ابلا غ کسی کی مو ت کا اعلا ن کر سکتے ہیں.

پا بندی کوئی نہیں جر ما نہ کوئی نہیں سزا کوئی نہیں تر دید کرنے والا اگر ہر جا نے کا دعویٰ کرے تو عدا لتوں سے مقدمے کا فیصلہ آنے سے پہلے مو ت کا پروانہ آجا ئے گا اور خبر سچ ثا بت ہو نے کے بعد مقدمہ خارج کیا جا ئے گا محسن پا کستان ڈاکٹر عبد القدیر خان کے بارے میں پہلے بھی ایسی افواہ اڑائی گئی تھی اور شکر ہے کہ وہ بھی غلط تھی یہ وہ دور ہے جس کے بارے میں کسی شاعر نے ایک مصر عے میں پتے کی بڑی بات کہی ہے ”دوڑ و زما نہ چال قیامت کی چل گیا“ اب کوئی بڑی شخصیت اپنے گھر میں راکٹ، میزائیل، بم اور گو لی سے لا کھ محفوظ ہو مو ت کی افواہ سے محفوظ نہیں کسی سہا نی شام یا سہا نی صبح کسی بھی بڑی شخصیت یا سیلبریٹی (Celebrity) کے ”انتقال پر ملا ل“ کی جھو ٹی خبر آ سکتی ہے.

خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلے گی تعزیت، فاتحہ خوانی کے لئے آنے والوں کی قطار یں لگ جا ئینگی ٹیلیفون پر پیغا مات آنے لگینگے پھر ممتاز شخصیت کو ڈاکٹر عبد القدیرخان اور ملا عبدا لغنی برادر کی طرح اپنی وفات حسرت آیات کی تر دید میں بیان دینا پڑے گا اگر یہ سلسلہ اس طرح جاری رہا تو تردیدی بیان کے بعد ایک اور بیان کے ذریعے مر نے کی افواہ پر تعزیت اور جنا زے کے لئے آنے والوں کا شکریہ بھی ادا کر نا پڑے گا آخر وہ لو گ زحمت کر کے تشریف لائے تھے اس نا گوار صورت حال کا خو ش گوار پہلو یہ ہے کہ بندے کو جیتے جی اندازہ ہو جا تا ہے کہ میرے مر نے پر کون کون تعزیت کرے گا کون جنازے پر آئے گا کس کا فو ن آنے کی امید ہے اور کون میری جدائی کو ملک اور قوم کا نا قا بل تلا فی نقصان قرار دے گا اور کون دور کی یہ کوڑی لائے گا کہ مر حوم کی مو ت سے پیدا ہو نے والا خلا کبھی پُر نہیں ہو گا.

1970کے عشرے میں تعلیمی اداروں کے اندر طلبہ کی یو نین فعال ہو اکر تی تھی مختلف نا موں سے دائیں اور با ئیں بازو کی طلبہ تنظیمیں کا م کر رہی تھیں ان دنوں ہما ری یو نیورسٹی کی دیوار وں پر مسلسل چا کنگ ہو رہی تھی ”طو فا ن کو رہا کرو“ایسا لگتا تھا بہت بڑا لیڈر گرفتار ہوا ہے ان کی رہا ئی کے لئے اتنی زبردست تحریک اُٹھے گی کہ یو نیور سٹی کو بند کر نا پڑے گا امتحا نات منسوخ کر نے پڑینگے ہاسٹلوں کو خا لی کیا جا ئے گا مہینہ دو مہینہ تک کچھ بھی نہیں ہوا تو تجربہ کار دوستوں نے ہمارے علم میں یہ کہہ کر اضا فہ کیا کہ طوفان خود راتوں کو گھومتے ہوئے دیواروں پر اپنی گرفتاری کی خبر اور رہا ئی کی اپیل لگا تا جا تا تھا.

اس نے جستی چادر کا ایک بلا ک تیار کیا تھا اس بلا ک کے ساتھ ایک سیڑھی اور کا لے رنگ کے ڈبے اوربرش کو ہاتھ میں لیکر یہ ڈرامہ رچا تا تھاا ور خود کو اس طریقے سے مشہور کر تا تھا اُس وقت سو شل میڈیا ہو تاتو وہ اپنے کمرے میں بیٹھ کر ارام سے اس طرح کا ڈرا مہ رچا تا ہمارے استاد جی کہتے ہیں کہ مو جود ہ دور کے ڈرامہ باز سیا ستدان اس طرح کے پرو پیگینڈے سے فائدہ اٹھا نے میں ننگ اور عار محسوس نہیں کرینگے خو د اپنی مو ت کی خبر سو شل میڈیا پر وائرل کرینگے اور پھر خو د اس کی پرزور تردید کر کے دو ہفتوں کی مفت پبلسٹی کا لطف اٹھا ئینگے استاد جی کہتے ہیں کہ ”خبر دار ہوشیار“ کی تختی ہر گھر کے دروازے پر لگا نی ہو گی پتہ نہیں کس کی مو ت کی جھوٹی خبر دشمن پھیلا ئے اور کس کی مو ت کی افوا ہ دوستوں کی طرف سے وائر ل ہو جا ئے اگر بندہ خبردار اور ہوشیار رہے گا تو بروقت اپنی مو ت کی تر دید کر سکیگا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
52475

پبلک سیکٹر کے میگامنصوبے ۔ محمد شریف شکیب

رواں مالی سال کے لئے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام میں خیبرپختونخوا کے 33 نئے منصوبوں کو شامل کرلیاگیا جن میں سے 14 منصوبوں پر صوبائی حکومت اور 19 منصوبوں پر وفاقی حکومت عمل درآمد کرے گی۔جبکہ اگلے مالی سال کے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام میں شمولیت کے لئے خیبرپختونخوا حکومت نے مختلف شعبوں میں 66 اہم منصوبوں کی نشاندہی کی ہے جن میں مواصلات کے 13، زراعت کے 12، آبپاشی کے آٹھ، اعلیٰ تعلیم کے نو، توانائی کے پانچ اور کھیل و سیاحت کے چار منصوبے شامل ہیں۔

وزیراعلیٰ کی زیرصدارت اجلاس کو اگلے پی ایس ڈی پی میں شامل کرنے کیلئے صوبائی حکومت کے مجوزہ ترقیاتی منصوبوں کے بارے میں بریفنگ کے دوران بتایاگیاکہ مجوزہ منصوبوں میں انڈس ہائی وے تا بنوں سٹی سڑک کو دو رویہ کرنا، ٹل پاڑا چنار روڈ کی بحالی، مہمند ڈیم سے پشاور شہر کو پانی کی فراہمی،تمام ضم اضلاع میں سوشل ویلفیئر دفاتر کی تعمیر، پانچ بندوبستی اضلاع میں سوشل ویلفیئر کمپلیکس کی تعمیر، درابن میں اکنامک زون، پشاور میں ویمن بزنس پارک کا قیام، ریگی للمہ ٹاؤن پشاور میں اسپورٹس کمپلیکس کی تعمیر، لوئر دیر میں خال گریٹر واٹر سپلائی سکیم اور لوئر چترال میں 495 میگاواٹ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی تعمیر شامل ہیں۔

وزیراعلیٰ نے متعلقہ حکام کو خیبرپختونخوا کے زیادہ سے زیادہ منصوبوں کی پی ایس ڈی پی میں شمولیت یقینی بنانے کیلئے پیشگی تیاریاں اور لوازمات بروقت مکمل کرنے کی ہدایت کی اور نئے منصوبوں کی پی سی ونز،فزبیلٹی اسٹڈیز اور انجینئرنگ ڈیزائن رواں سال کے آخر تک مکمل کرکے منظوری کیلئے متعلقہ وفاقی فورم کو ارسال کرنے کی ہدایت کی۔وفاق اور صوبائی حکومت کے اشتراک سے پی ایس ڈی پروگرام کے تحت زندگی کے مختلف شعبوں کے لئے میگاترقیاتی منصوبوں کی منظوری خوش آئند ہے۔ تاہم ان منصوبوں میں سیاحت اور معدنیات کے شعبوں کو شامل نہیں کیاگیا جو صوبائی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہیں اور صوبے کی معاشی ترقی، خوشحالی، روزگار کی فراہمی اور غربت کی شرح کم کرنے میں ان دو شعبوں کا مستقبل میں اہم کردار ہوگا۔

شاہراہوں کی تعمیر سیاحتی مقامات اور معدنی ذخائر تک رسائی کے لئے ضروری ہیں تاہم سیاحتی مقامات کی ترقی اور وہاں ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کو تمام ضروری سہولیات کی فراہمی پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ صوبائی حکومت نے گذشتہ سال دیر کے خوبصورت سیاحتی مقام کمراٹ سے چترال کے ہل سٹیشن مداک لشٹ تک کیبل کار چلانے کے منصوبے کا اعلان کیاتھا۔ یہ سیاحت کے فروغ کا ایک اہم منصوبہ ہے توقع ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل سے لاکھوں سیاح اس خطے کا رخ کریں گے۔ ہزاروں افراد کو روزگار ملے گا اور صوبائی حکومت کو سالانہ اربوں کی آمدنی حاصل ہوگی تاہم منصوبے پر دوسال گذرنے کے باوجود ابتدائی کام بھی شروع نہیں ہوسکا۔

کمراٹ اور مداک لشٹ میں سٹیشن، پارکنگ، ہوٹل اور تفریحی پارک کے لئے زمین کی خریداری کا عمل بھی اب تک شروع نہیں ہوسکا۔ اگر اسی رفتار سے کام ہوتا رہا۔توآئندہ دس پندرہ سالوں میں بھی یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکے گا۔ وزیراعلیٰ صوبے کی تعمیر و ترقی میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں وہ ہر اجلاس میں ترقیاتی منصوبوں کے لئے ٹائم لائن مقرر کرنے اور مقررہ مدت کے اندر منصوبہ مکمل کرنے کی بات کرتے ہیں مگر وزیراعلیٰ کے احکامات پر عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آتا۔حکومت نے دو سال قبل صوبے کے مختلف علاقوں میں سرکاری زمینوں پر ٹاؤن شپ تعمیر کرنے کااعلان کیاتھا اور بجٹ میں بھی اس کے لئے فنڈز مختص کئے گئے تھے۔ غالباً سرخ فیتے کی رکاوٹ کے باعث ان منصوبوں کو اب تک معرض التواء میں رکھا گیا ہے۔قومی تعمیر کے ان اہم منصوبوں میں تاخیر کا وزیراعلیٰ کو خود نوٹس لینا لینا چاہئے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
52473

”سب اچھا“ والی سرکاری رپورٹ۔محمد شریف شکیب

خیبر پختونخوا حکومت نے عوام کو تسلی دی ہے کہ دیگر صوبوں کی نسبت یہاں اشیائے خوردونوش کی ہول سیل اورپرچوں قیمتوں میں فرق سب سے کم ہے۔چینی کے ہول سیل اور پرچون قیمت میں فرق صرف 2 فیصد ہے۔آٹے کی ہول سیل اورپرچون قیمت میں فرق پچھلے ہفتے 3 فیصد سے کم ہوکر اب 2 فیصد پر آگیا ہے،مرغی کے گوشت کی ہول سیل اورپرچون قیمت میں فرق پچھلے ہفتے 9 فیصد سے کم ہوکر اب 6 فیصد پر آگیا ہے،

وزیراعلیٰ کی زیرصدارت اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کا جائزہ لینے کے لئے بلائے گئے اجلاس کو بتایاگیا کہ صوبہ بھر میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کی چیکنگ،نرخ ناموں کی عدم دستیابی، ملاوٹ، غیر معیاری اشیاء کی فروخت، ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ کے خلاف کاروائی کے دوران 38لاکھ 32ہزار روپے سے زائدجرمانے عائد کیے گئے، 304 ایف آئی آرز درج کی گئیں، 716 یونٹس سیل کئے گئے۔مقررہ نرخوں سے زائد قیمت وصول کرنے کی پاداش میں ساڑھے آٹھ لاکھ روپے جرمانے عائد کئے گئے،

45 گرانفروشوں کے خلاف ایف آئی آرز درج کی گئیں اور 74 دکانوں کو سیل کیا گیا۔ نرخنامے آویزاں نہ کرنے پر ڈھائی لاکھ روپے جرمانے عائد کئے گئے اور 72 دوکانیں سیل کی گئیں۔اجلاس میں فیصلہ کیاگیا کہ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لئے وزیر اعلی کی زیر صدارت ہر ہفتے اجلاس منعقد کیا جائے گا۔وزیراعلی نے انتظامیہ کو ہدایت کی کہ ذخیرہ اندوزی میں ملوث عناصر کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔

وزیراعلیٰ نے مختلف محکموں کی طرف سے الگ الگ چھاپوں کا سلسلہ ختم کرنے اوراشیائے ضروریہ کی قیمتوں کی نگرانی کے لئے ضلعی انتظامیہ، فوڈ اتھارٹی اور دیگر متعلقہ اداروں پر مشتمل مشترکہ ٹیمیں تشکیل دینے کی ہدایت کی۔افسرشاہی ہمیشہ حکمرانوں کو اعدادوشمار کے ذریعے یہ باور کرانے کی کوشش کرتی ہے کہ دوسرے صوبوں کی نسبت ہمارے ہاں امن و امان کی صورت حال مثالی، اشیائے ضروریہ کی قیمتیں اور جرائم کی شرح انتہائی کم ہے۔ اوراس ”کامیابی“ کو حکمرانوں کے حسن انتظام سے تعبیر کرکے انہیں شیشے میں اتار کر بوتل میں بند کردیا جاتا ہے اور عوام کو ملاوٹ کرنے والوں، ذخیرہ اندوزوں اور گرانفروشوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔

چونکہ حکمرانوں کو آٹے دال کا بھاؤ معلوم نہیں ہوتا اس لئے وہ افسر شاہی کی رپورٹ کا حرف آخر سمجھتے ہیں۔ ایک حکمران حضرت عمر فاروقؓ تھے جو راتوں کو بھیس بدل کر مدینے کی گلیوں میں پھیرتے تھے کہ کسی گھر سے بھوکے بچے کے رونے کی آواز تو نہیں آرہی۔ ہمارے حکمران عوام کے سامنے یہ تاویل پیش کرکے انہیں بہلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ خطے کے دیگر ملکوں کے مقابلے میں ہمارے ہاں پٹرول، ڈیزل، بجلی، گیس اور اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بہت کم ہیں۔ یہ نہیں بتایا جاتا کہ ان ملکوں میں ملازمین کی تنخواہیں کتنی ہیں اور مزدور کو کتنی اجرت ملتی ہے۔ ہمارے ملک میں صرف مہنگائی ہی عوام کا واحد مسئلہ نہیں۔ ملاوٹ، جعل سازی اور ذخیرہ اندوزی بھی بڑے مسائل ہیں۔

دودھ، آٹا، پکانے کا تیل، گھی،گوشت اور پانی بھی خالص نہیں ملتا۔ دودھ میں آدھا پانی اور آدھا کیمیکل ملاکر اصلی دودھ کی قیمت پر بیچا جاتا ہے۔ آٹے میں خشک روٹی کے ٹکڑے پیس کر اور چوکر ملائے جاتے ہیں۔ مردہ جانوروں کی ہڈیوں کے گودے پگھلا کر اور چربی میں کیمیکل ڈال کر انہیں گھی اور کوکنگ آئل کا لیبل لگا کر بیچا جاتا ہے۔ چائے کی پتی میں لکڑی کے برادے، چنے کے چھلکے اور مصالحوں میں اینٹیں پیس کر ملائے جاتے ہیں۔ بے چارے عوام اصلی چیز کی پوری قیمت دے کر نقلی اور مضرصحت اشیائے خوردونوش خریدنے پر مجبور ہیں۔ گذشتہ دوسالوں کے اندر ضرورت کی ہر چیز کی قیمت میں سو فیصد سے دوسو فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ یہ بات طے ہے کہ جب تک مجسٹریسی نظام بحال نہیں ہوتا۔ مہنگائی، ذخیرہ اندوزی، چور بازاری، ملاوٹ، جعل سازی اور گرانفروشی پر قابو پانے کی باتیں دیوانے کا خواب ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
52466

داد بیداد ۔ اعتماد سازی ۔ ڈاکٹرعنا یت اللہ فیضی

داد بیداد ۔ اعتماد سازی ۔ ڈاکٹرعنا یت اللہ فیضی

حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان خلیج روزبروز بڑھتی جا تی ہے تعلقات میں تعطل روبروز بڑھتا جا تا ہے یہاں تک نو بت آگئی ہے کہ دنوں بند گلی میں داخل ہو چکے ہیں اس گلی میں نہ پیچھے مڑ نے کی گنجا ئش ہے نہ آگے جا نے کا راستہ ہے سوشل میڈیا پر ایک بڑے پا یے کے دانشور نے تجویز دی ہے کہ جمہوریت ہمارے ملک کے لئے مو زوں طرز حکومت نہیں اس کا کوئی بہتر نعم البدل ڈھونڈ لیا جا ئے یعنی بادشاہ ہت لائی جا ئے اور ”مغل اعظم“ کے دور میں سکون امن یا آشتی کی زندگی گذار ی جا ئے دانشور نے طنزاً یہ بات نہیں لکھی انہوں نے دلیل دی ہے کہ جمہوریت میں اخراجات بہت ہیں الیکشن کا خر چہ، ارا کین پا رلیمنٹ کا خر چہ، کا بینہ کا خر چہ، پھر الیکشن،پھر اتنے سارے انتشار، غل غباڑے، ہلہ گلہ، شور شرابہ اور بے اطمینا نی کے سوا کچھ نہیں سوشل میڈیا پر دانشور کی یہ تجویز سب کو بری گلی سب نے اس کی مخا لفت کی بعض دوستوں نے دانشور کو جلی کٹی سنا ئیں.

اب یہ طوفان نہیں تھما تھا کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلا س سے صدر مملکت کے خطاب کی گھڑی آگئی یہ چو تھے پارلیمانی سال کے آغاز پر ہو نے والا آئینی خطاب تھا اس کو دستور یا Ritualکی حیثیت حا صل ہے صدر مملکت خطاب کے لئے روسٹرم پر آئے تو حزب اختلا ف نے شور شرابہ کر کے آسمان سر پر اٹھا لیا پہلے ایوان کو مچھلی بازار بنا یا پھر واک آوٹ کر کے با ہر نکل گئے اندر والوں نے سُکھ کا سانس لیا ”جان بچی لا کھوں پا یے“ یہ واقعہ پہلی بار نہیں ہوا 1989سے مسلسل ایسا ہو تا آرہا ہے غلا م اسحا ق خان کے خطاب سے یہ منفی روایت شروع ہوئی فاروق لغا ری، رفیق تارڑ، پرویز مشرف، آصف زرداری اور ممنون حسین سے ہوتی ہوئی یہ روایت عارف علوی تک آگئی ہے کسی بھی حزب اختلا ف کو اس روایت سے انحراف کی تو فیق نہیں ہوئی.

شا ید فیس بک والے دانشور نے درست بات کہی ہے ہمیں مغل اعظم کی باد شا ہت چاہئیے مگر یہ تفنن کی بات نہیں طنز و تشنیع کا معا ملہ نہیں سنجیدہ مو ضوع ہے حا لات حا ضرہ کی ایک تصویر ہے قومی زند گی کا ایک عکس ہے ہماری جمہوریت کا آئینہ ہے پارلیمنٹ کے اندر ہٹلر بازی کی طرح پارلیمنٹ سے باہر بھی رسہ کشی اور کھینچا تا نی ہورہی ہے گرما گرم مو ضوع الیکٹر انک ووٹنگ مشین ہے جس طرح حکومت نے قومی مفا ہمت (NRO) کو گا لی کا در جہ دیا ہے با لکل اسی طرح حزب اختلاف نے الیکٹرا نک ووٹنگ مشین کو دھا ندلی کا معمہ بنا دیا ہے حالانکہ نہ این آر او بری چیز ہے نہ الیکٹرا نک ووٹنگ مشین دھا ندلی کی نشا نی ہے.

حکومت نے اسمبلی میں پیش کر نے کے لئے جو بل تیار کیا ہے اس بل میں انتخا بی اصلا حات کا پورا پیکچ ہے چو نکہ اسمبلی میں حکومت کے پاس دو تہا ئی اکثریت نہیں اس لئے اس بل کو مشتہر نہیں کرتی اچا نک پا س کر نا چا ہتی ہے حکومت کو شک ہے کہ حزب اختلاف نے اگر بل کو پڑھ لیا تو پا س کرنے نہیں دیگی حزب اختلا ف کو شک ہے کہ حکومت الیکٹرا نک ووٹنگ مشین کے ذریعے ووٹ چوری کرنا چا ہتی ہے گو یا ”دنوں طرف آگ ہے برا بر لگی ہوئی“ دونوں ایک دوسرے پر اعتما د نہیں کر تے جس طرح دو دشمن ملکوں کو مذ اکرات کی میز پر لا نے کے لئے اعتما د کی فضا پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے اعتما د سازی کو CBM کہا جا تا ہے اسی طرح ملک کے اندر دو متحا رب دھڑوں کو ایک دوسرے کے قریب لا نے کے لئے اعتما د سازی ہو نی چاہئیے اعتما د بحا ل ہو گا تو بات آگے بڑھے گی.

ہونا یہ چا ہئیے تھا کہ حکومت اور حزب اختلا ف مل کر عبوری حکومت کی ضرورت کو ختم کر کے بر سر اقتدار جما عت کو انتخا بات کر انے کی ذمہ داری دیدیتے ساری دنیا میں ایسا ہی ہو رہا ہے کتنی خوش آئیند بات ہو تی اگر مو جودہ حزب اختلا ف الیکٹر انک ووٹنگ مشین کا خیر مقدم کر تی پوری دنیا میں یہ مشین استعمال ہور ہی ہے پڑوسی ملک میں بھی اس کو کا میا بی سے استعمال کیا جا رہا ہے ہم مشین سے کیوں خوف زدہ ہیں؟

یہ احساس کمتری کی علا مت ہے ہم نے یہ کیسے فرض کر لیا کہ حکومت مشین کے ذریعے ہمیں ہرا نا چاہتی ہے ہم نے کیسے فرض کر لیا کہ سمندر پار پا کستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کی صورت میں ہم شکست کھا ئینگے حکومت اور حزب اختلا ف کے درمیان حا ئل اس خلیج اور تعطل کو دور نہ کیا گیا تو ”مغل اعظم“ کو واحد حل کے طور پر سامنے لا نے والوں کی تعداد میں روز بروز اضا فہ ہو گا، جمہوریت پر سے عوام کا اعتما د اُٹھ جا ئے گا اعتما د سازی کے لئے حکومتی حلقوں سے صدر عارف علوی، سپیکر اسد قیصر اور وزیر دفاع پرویز خٹک موثر کر دار ادا کر سکتے ہیں حزب اختلا ف کے کیمپ میں مو لا نا فضل الرحمن، میاں شہباز شریف اور آصف زرداری ایسے قائدین ہیں جو تعطل کو دور کر کے اعتما د کی فضاء بحال کر سکتے ہیں سیا ست میں دو جمع دو کا جواب ہمیشہ چار نہیں آتا تین کو بھی درست ما نا جا تا ہے پا نچ کو بھی درست ما نا جا تا ہے یہی جمہوریت کو بچا نے کا فارمو لا ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
52434

پھر کہتے حکمران غلط ہیں!! – پروفیسرعبدالشکورشاہ

پیڑول مہنگا ہو گیا آپ کیا کہیں گے؟ حکمران اچھے نہیں ہیں۔علاج مہنگا ہو جائے تو حکمران اچھے نہیں ہیں۔ اشیاء خوردونوش مہنگی ہو جائیں تو حکمران اچھے نہیں ہیں۔ ملک میں کچھ بھی غلط ہو جائے تو سارا ملبہ حکمرانوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ یا یہ ہماری عادت بن چکی ہے؟ اپنے آپ کو معصوم اور بے گنا ہ ثابت کرنے کے لیے ذمہ داری یا تو شیطان کے سر تھونپ دیں یا حکمران اور سیاستدان کے۔ اگر ہم اپنے گریبان میں جھانکیں تو معلوم ہوگاحکمرانوں سے زیادہ اس سب کے ذمہ دار ہم خود ہیں اور ایسے حکمران اللہ تعالی نے ہم پر ہمارے اعمال کی وجہ سے مسلط کیے ہوئے ہیں۔جیسی عوام ویسے حکمران۔ پٹرول پمپ پرکم پٹرول ہم ڈالیں،پانی میں دودھ ہم ملائیں، شہد میں شیرہ ہم ملائیں، گھی میں کیمیکل ہم ملائیں،ہلدی میں مصنوعی رنگ ہم ملائیں،مرچوں میں سرخ اینٹیں پیس کرہم ملائیں پھر کہتے حکمران غلط ہیں!! چینی کے تھیلے میں پانی ڈال کر وزنی ہم کریں، سٹابری اور تربوز کو رنگ کے ٹیکے ہم لگائیں، ادرک کو پانی میں ڈال کر ہم وزنی کریں،چھوارے گیلے کر کے رمضان میں کجھور بتا کر ہم بیچیں پھر کہتے حکمران غلط ہیں!!ہوٹلوں میں مردار گوشت ہم کھلائیں، پرانی باسی دال سبزی تازہ میں

ہم مکس کریں، روٹی کا ریٹ زیادہ اور وزن ہم کم کریں، بجلی کے بل کے بجائے کونٹی ہم ڈالیں، بجلی کے بل میں میڑ ریڈر سے مل کر ہیرا پھیری ہم کریں،لائین مین سے ملک کر میڑ کی رفتارہم کم کروائیں، ٹیکس کے بجائے رشوت ہم دیں پھر کہتے حکمران غلط ہیں!!مہنگے ہوٹل پر ویٹر کو ٹپ اور ڈھابے پر غریب ویٹر کو جھاڑ ہم پلائیں، ناچنے والوں پر پیسے نچھاور اور مانگنے والوں کوہم کہیں مانگتے شرم نہیں آتی،بہن کو ڈانٹ کر گرل فرینڈ سے میٹھی باتیں ہم کریں، نماز میں ریاکاری ہم کریں،ناپ تول میں کمی ہیں کریں پھر کہتے حکمران غلط ہیں! جہیز بناتے بناتے بیٹیوں کو بوڑھا ہم کریں، اپنے تین فٹ کی بیٹی اور بہو قدآور ہم تلاش کریں، مذہبی حلیہ کے ساتھ منگنی اور ولیمے کا خرچہ ہم پوچھیں، نماز روزہ کے پابندی کی باتیں کر کے مہنگے شادی حالوں میں شادیاں ہم کروائیں، کولیگز کو ہر ہفتے اور بہنوں کو سال بعد عید پر فون ہم کریں پھر کہتے حکمران غلط ہیں!!بریانی کھا کے ووٹ ہم دیں، نوکری کے لیے رشوت ہم دیں،فائلوں کے لیے جیب ہم گرم کریں، بچوں کی فیس لیٹ مگر پولیس والے کے لیے پیسوں کا بندوبست فورا ہم کریں،اشارہ کاٹ کر ایمرجنسی میں ہسپتال پہنچنے کا بہانہ ہم کریں پھر کہتے حکمران غلط ہیں!!

روزانہ ایک پیکٹ سگریٹ ہم پئیں، نسوار کی تھیلیاں ہم خالی کریں، پکے سگریٹ ہم بنائیں، اوبر کی سواری بیٹھا کرکینسل کر کے سواری سے مطلوبہ کرایہ بے ایمانی کرتے ہوئے ہم لیں، رکشہ میں سواری کو جان بوجھ کر لمبے راستے سے لیجا کر اپنا کرایہ ہم بڑھائیں، سی این جی پر گاڑی چلا کر پیڑول کے حساب سے کرایہ ہم لیں پھر کہتے حکمران غلط ہیں!سرکاری سکول سے تنخواہ لیکر پرائیویٹ کالجوں، اکیڈمیوں اور یونیورسٹیوں میں ہم پڑھائیں، مسجد میں دس روپے چندہ وہ بھی پرانا نوٹ اور شادی میں ناچنے والوں پر نوٹوں کی بارش ہم کریں، محلے والوں کی کمیٹی کے پیسے ہم کھا جائیں، سیکھنا دین ہے تنخواہ چندہ کر کے چند ہزار ہم دیں،دین کے لیے مرنے کو تیار مگر مولوی صاحب کو اچھی تنخواہ ہم نہ دیں، ختم نبوت کے جلسے سے واپس آکر ٹک ٹاک ویڈیوز ہم دیکھیں، گھر میں پردے کی تلقین کرتے ہوئے پڑوسیوں کے گھروں میں ہم جھانکیں پھر کہتے حکمران غلط ہیں!! بارش میں پیدل چلنے والوں پر گاڑی سے کیچڑ ہم اچھالیں، اپنے گھر کا کوڑا باہر گلی میں ہم پھینکیں،نلکہ کھلا چھوڑ کر پانی ہم ضائع کریں،کمپریسر لگا کر پورے محلے کی گیس ہم استعمال کریں، کونٹی ڈال کر اے سی میں ہم سوئیں، اللہ سے بہتر کی دعائیں اوراللہ کے نام پر پھٹے پرانے کپڑے، ٹوٹی ہو پلیٹیں، مڑی ہوئی چمچ، بغیر ہتھی والے کپ ہم دیں پھر کہتے حکمران غلط ہیں!!

دہائیوں تک ایک ہی پارٹی کو ووٹ دے کر ہم جتوائیں، ایم این اے، ایم پی اے، ایم ایل اے کی گاڑی کے ساتھ لٹک کر نعرے ہم لگائیں، امیدوار کے جیتنے پر بھنگڑے ہم ڈالیں، مٹھائیاں ہم تقسیم کریں، پورا سال بھوکے رہ کر حلیم کی پلیٹ پر ووٹ ہم بیچیں، اپنے لیڈروں کا دفاع اور دوسروں کو گالیاں ہم دیں، گھر میں نخرے اور کے ایف سی پر لائین میں لگ کر آرڈر خود ہم لیں پھر کہتے حکمران غلط ہیں!!حافظہ عالمہ فاضلہ بن کر میک اپ ہم کریں، داڑھی رکھ کر ٹوپی پہن کر تسبیح جیب میں ڈال کر ٹک ٹاک ہم بنائیں، آدھی آدھی رات تک فون پہ لمبی کالیں ہم کریں، فیشن اور اوپن مانڈیڈ کے نام پر بے حیائی اور فحاشی ہم پھیلائیں، برقعہ پہن کر نکلیں پھر اسے اتار کر بیگ میں ہم چھپائیں، گھر سنبھالنا عورت کا کام ہے اور روٹیاں تندور سے منگوائیں، دن 12بجے سو کر ہم جاگیں، نہ نماز نہ عبادت اللہ سے سب کچھ ملنے کی امید ہم لگائیں پھر کہتے حکمران غلط ہیں!مریض کو ٹھیک کرنے کے بجائے ٹیسٹوں اور ادوایات کے تھیلوں سے نفسیاتی ہیجان میں ہم مبتلا کریں، ساری زندگی سروس میں گزارنے والے ادھیڑ عمر افراد کو پنشن کے لیے خوار ہم کریں،

بس میں خواتین کی سیٹوں پر ہم بیٹھ جائیں، عورت سے معاشقے کرنے اور نچانے کو ہم تیار مگر شادی کے لیے تیار نہیں، سارا سال پڑوس میں غریب بھوکے رہتے، ان کے بچے ہوٹلوں پہ کام کرتے مگر ہم قربانی ضرور دیتے اور حج کرنے چلے جاتے، قرض ادا نہیں کرتے مگر سیر و تفریح کے لیے پیسوں کا بندوبست کر لیتے، مفلسی کا رونا روتے مگر شادیوں پر جی بھر کے فضول خرچی کرتے، پالتوں کتوں کو لے کر پارک میں گھومتے مگر بوڑھے والدین کو ساتھ نہیں لاتے، کبوتروں کے پیچھے جون کی گرمی میں دھوپ میں کالے ہو جاتے مگر بچوں کو سکول سے لینے کے لیے ماں جاتی، مرغ اور کتے لڑانے کے لیے ان کی تربیت کرے مگر بچوں کی تربیت نہیں کرتے، بچوں کو موبائل پہ لگا کر خود بھی موبائل لیکر گھنٹوں نیکی کی پوسٹیں کرتے مگر اٹھ کر نماز پڑھنے مسجد نہیں جاتے، مہنگے ہوٹلوں اور کیفے ٹیریاز، کے ایف سی، میکڈونلڈ پر کھانے کی تشہر کرتے مگر مسجد جا کر نماز پڑھنے اورکسی کی مدد کرنے کی سیلفی نہیں بناتے پھر کہتے حکمران ٖغللط ہیں!

سینما کے باہر فلم کے بعد بند ہونے کا نہیں لکھا ہوا مگر مسجد کے باہر درج ہے، سینما سے آرام سے فلم پر تبصرے کر تے نکلتے مگر مسجد سے یوں بھاگتے جیسے جیل سے آزاد ہوئے ہوں، سینما فلم لگنے سے پہلے جا کر انتظار کرتے جبکہ جمعہ پڑھنے دوسری اذان سن کر ہی جاتے، سارا سال ایک نماز بھی ادا نہ کرنے والے عید پڑھنے ضرور جاتے، سڑک پر حادثہ ہوجائے رک کر دیکھ کر گزر جاتے یا ویڈیو بنانے کی کوشش کرتے، ون اویلنگ کرتے، بائیک کے سلنسر نکال کر ناک میں دم کردیتے،باجے بجا بجا کر جینا محال کر دیتے، شادی پر تین دن گانے بجانے اور ناچنے کے بعد رخصتی پر قرآن کے سائے میں بیٹی رخصت کرتے پھر کہتے حکمران غلط ہیں!نبی کے دفاع کے لیے تاویلیں پیش کرتے مگر اپنے سیاسی لیڈر کے لیے دھرنے، احتجاج، ہڑتالیں اور مظاہرے کرتے، فرضی بھوک ہڑتالی کیمپ لگاتے، سود کا کاروبار کرتے، یتیموں کا حق مارتے، محتاجوں کو دھکے دیتے، بیواوں اور غریبوں کی زمینوں پر قبضے کرتے پھر کہتے حکمران غلط ہیں!نلکے کا پانی منرل واٹرل بناکر ہم بیچتے، مردہ مرغیوں کے شوارمے ہم کھلاتے، جانوروں کی آنتوں سے گھی ہم بناتے، گلے سڑے پھل کاٹ کر جو س، فروٹ چاٹ، دہی بھلے وغیرہ ہم بیچتے،پھل بیچتے  ہوئے خراب پھل ہم شامل کر دیتے، سبزی میں خراب سبزی ہم ڈال دیتے، گھر سے سامان کے لیے دیے گئے پیسوں میں سے پیسے ہم مارتے،پھر کہتے حکمران غلط ہیں!ہمیں اپنے آپ کو درست کرنے کی ضرورت ہے جب ہم یہ سب چھوڑ دیں گے تو اللہ ہم پر ایسے حکمران بھی مسلط نہیں کرے گا۔ مگر ہم نے خود کو درست کرنے کے بجائے دوسروں کو مورد الزام ٹھہرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ جتنا وقت ہم دوسرں کے لیے نکالتے اتنا وقت اگر ہم اپنی اصلاح کرنے میں صرف کریں تو ہم بہت حد تک دل چکے ہوتے۔جب تک ہم نہیں بدلیں گے تب تک کچھ نہیں بدلنے والا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
52419

ملکی سلامتی پل صراط پر اور نورا کشتی ! -قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

انتخابی اصلاحات میں الیکڑونک ووٹنگ مشین اور آئی ووٹنگ کو شامل کرنے کے معاملہ زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیاگیاہے، حکمران جماعت جیسے طے کرچکی کہ کچھ بھی ہوجائے، 2023 کے الیکشن ای وی ایم کے ذریعے ہی ہوں گے۔ وفاقی وزیرریلوے کا جذباتی بیان ہو یا شعلہ بیان ترجمانوں کے، اس باعث ملک کی خاموش اکثریت تشویش میں مبتلاہوگئیہے کہ یہ سب کیا ہورہا ہے۔ قابل غور پہلو یہ بھی  کہ پارلیمان میں موجود حزب اختلاف اور پارلیمان سے باہر سیاسی  و مذہبی جماعتیں ای وی ایم  پر صرف لفاظی کررہی ہیں اور عملاََکچھ نہیں کیا جارہا جس سے  اپنے تحفظات دور  کراسکیں، گو کہ پی ٹی آئی کی اتحادی جماعتوں نے موقف بدلا کہ وہ مشترکہ اجلاس میں قانون سازی ہونے کی صورت میں پہلے اپنے رہنماؤں سے مشاورت کرے گی، حالاں کہ یہ وہی قانون ہے جسے اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود حکومت اور اتحادی جماعتوں نے منظور کیا تھا لیکن اب الیکشن کمیشن کے جانب سے غیر متوقع سٹینڈ لینے پر حزب اختلاف کو آکسیجن ملی اور حکومت شدید تنقید کی زد میں آگئی، حالاں کہ ایم کیو ایم پاکستا ن، مسلم لیگ ق اور گرینڈ ڈیمو کرٹیک الائنس نے واضح کردیا تھا کہ 13ستمبر کا مشترکہ پارلیمانی اجلاس میں،صدر کی حکومت کے تین برس کی مدت مکمل ہونے کے بعد  رسمی تقریر کے علاوہ کوئی دوسرا ایجنڈا نہیں، اگر آیا تو مشاورت کے بعد فیصلہ کیا جائے گا۔


حزب اختلاف ای وی ایم اور آئی ووٹنگ پر اپنا جمہوری کردار ادا کررہی ہے یا نہیں، اس پر راقم نے تینوں بڑی جماعتوں سے واقف کار سنجیدہ سینئر رہنماؤں سے غیر رسمی گفتگو کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اپوزیشن جماعتیں نورا کشتی کررہی ہیں اور درپردہ  وہ بھی ای وی ایم کے ذریعے الیکشن کی حامی ہیں لیکن اوورسیز پاکستانیوں کو حق رائے دہی دینے میں انہیں تحفظات ہیں کہ انہیں شاید کم ووٹ پڑیں۔ حزب اختلاف کی جماعتیں بخوبی آگاہ ہیں کہ ای وی ایم کو چلانے والے کوئی اور نہیں بلکہ وہی لوگ ہوں گے جو ہمیشہ انہیں کسی نہ کسی طرح کامیاب یا ناکام کراتے رہے ہیں، لیکن یہاں اصل جنگ اقتدار کی ہے کہ اگلے پانچ برس تحریک انصاف کو دو تہائی اکثریت کی صورت میں مزید ملنے سے ان کا سیاسی بیانیہ خطرے میں پڑ سکتا ہے، موجودہ حالات میں اب حزب اختلاف کو عمران خان کی جیسی تیسی حکومت سے کوئی مسئلہ نہیں  بلکہ بیشتر اراکین چاہتے ہیں کہ وہ اپنی آئینی مدت بھی پوری کرلیں، لیکن اصل تحفظات یہ ہیں کہ اگر پی ٹی آئی بیساکھیوں کے بغیر دوبارہ آئی تو مخالف سیاسی جماعتوں کا بیانیہ سبوتاژ ہوسکتا ہے،  ذرائع کے مطابق کوشش کی جا رہی ہے کہ 2023 کے الیکشن بر وقت ہونے چاہیں، انتخابات میں تاخیر یا نظام کی تبدیلی کی افواہوں کی بازگشتپریشان کن ہے۔


 آئی ووٹنگ اور ای وی ایم اتنا بڑا ایشو نہیں، اس پر جو تحفظات اور اعتراضات ہیں، وہ سب ایک اِن کیمرہ میٹنگ کی مار ہیں، اس کے بعد ملکی مفاد میں محمود و ایاز سب ایک صف میں کھڑے ہوجائیں گے، تشویش ناک صور تحال یہ ہے کہ عوام کو معاشی مرگ انبوہ کا سامنا ہے، اس کا مداوا کسی بھی جماعت اور ادارے کے پاس نہیں کہ اس سے کس طرح نمٹا جائے۔افغانستان میں تبدیلی ہوئی صورت حال کے بعد ریاستی اداروں کی مکمل توجہ ملکی سلامتی اور سازشی عناصر پر ہے، بالخصوص بھارتی وزیراعظم کے22 تا 27 ستمبر دورہ ئامریکہ میں صدر جوبائیڈن اور نریندرمودی کے درمیان ملاقات کے بعد،پاکستان بابت کئے جانے والے فیصلے اہمیت کے حامل ہوں گے  حالاں کہ امریکی اعلیٰ سطح کے حکام وزیراعظم عمران خان اور چیف آف آرمی اسٹاف سے ملاقاتیں کررہے ہیں، اہم ممالک کے سفارتی وفود بھی پاکستان کے دورے پر ہیں،  اہم ممالک کے قیادت سے ٹیلی فونک رابطے بھی ہوئیلیکن امریکی صدر کی مکمل خاموشی کو بھارتی میڈیا کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت کرانے پر تلا ہواہے ان حالات کا ادارک تمام بڑی سیاسی جماعتوں کو بھی ہے کہ امریکہ اس وقت تو خاموش ہے لیکن اپنی ہزہمیت کا بدلہ پاکستان سے لینے کی ضرور کوشش کرے گا اور بھارت کو استعمال کرسکتا ہے۔


 متعصب بھارتی میڈیا جس طرح پاکستانی ریاستی اداروں اور افغان عبوری حکومت کے خلاف یک آواز ہوکر منفی اور جھوٹا پراپیگنڈا کرکے عالمی برداری کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہا ہے، اس کے نتائج سے پاکستان اتنا ضرور متاثر ہوا ہے کہ ایک نئے بلاک کا حصہ بن گیا جو امریکہ کی منشا کے مطابق نہیں، ان حالات کا فائدہ اٹھا کر بعض سیاسی جماعتیں اپنے لئے ریلیف حاصل کرنا چاہتی ہیں تاکہ 2023 میں ہی سہی، لیکن انہیں اقتدار میں حصہ ملے۔چین، ایران، روس، قازقستان، تاجکستان، ترکمستان  اور ازبکستان  کے انٹیلی جنس چیف کی پاکستانی حساس ادارے آئی ایس آئی کے چیف کی میزبانی میں اجلاس پر عالمی برداری نے گہری دلچسپی سے مشاہدہ کیا۔ اس کے آفٹر شاک جھٹکے بھارت میں بری طرح محسوس کئے گئے، نائن الیون کے موقع پر جس طرح بھارتی میڈیا نے دشنام طرازی اور الزام تراشیوں کے ساتھ بدکلامی کے ریکارڈ توڑے، اس کی دنیا بھر میں مثال نہیں ملتی، صحافتی اقدار کو جس طرح پامال کیا گیا اور بھارتی میڈیا نے پنج شیر کی جھڑپ میں پاکستانی فوج کے خلاف  جس قسم کابے بنیاد رپورٹنگ کی اس پر حیرت ہے کہ جھوٹ کا پردہ فاش ہونے کے باوجود میں نہ مانوں کی ضد لئے، کس طرح اخلاقیات کو پامال کرکے چانکیہ سیاست اور آر ایس ایس کے نازی نظریئے کے ترجمان بنے ہوئے ہیں۔


ای وی ایم اور آئی ووٹنگ اتنا بڑا مسئلہ نہیں، جتنا رائی کا پہاڑ بنا یا جا رہا ہے، الیکشن کمیشن کا اس وقت جو کردار ہے، اس پر حکمران جماعت نے حسب روایت عدم برداشت کی پالیسی کو اپنا کرانتخابات کو پہلے ہی سے متنازع بنا دیا، مملکت کو درپیش چینلجز کا مقابلہ حزب اقتدار، اختلاف اور عوام کو ایک صفحے پر کرنے کی ضرورت زیادہ ہے، در حقیقت یہ پاکستا ن کی تاریخ کا سب سے نازک موڑ ہے، ملکی سلامتی پل صراط پر ہے اور بعض سیاسی جماعتیں فروعی مفادات کے لئے اُس کھیل کا حصہ بنتی جا رہی ہیں جس کے خطرناک نتائج یکساں سب کو بھگتنا ہوں گے۔ سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ ملک میں ہر الیکشن میں جس قسم کی دھاندلی ہوتی رہی ہے،اس کا سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔ چاہے ای وی ایم ہو یا نہ ہو۔ 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
52416

افغانستان میں شکست کے بعد جنوبی ایشیاء کیلئے امریکی پالیسی – پروفیسرعبدالشکورشاہ

پشتون بہترین دوست اور بدترین دشمن کے طور پرمشہور ہیں۔سکندراعظم، برطانیہ، روس اور اب امریکہ یہاں آکر زخموں سے چور ہو کر نکلے۔ تاریخ گواہ ہے افغانستان کی سرزمین سلطنتوں کا قبرستان ثابت ہوئی ہے۔ امریکہ نے افغانستان سے نکلنے کے لیے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر دو بڑی غلطیوں کا رتکاب کیا جن کی وجہ سے 90دن کی مزاحمت کی امید خاک میں مل گئی اور طالبان نے چند دن میں افغانستان کا کنٹرول سنبھال لیا۔ پہلی غلطی ایمرجنسی منصوبے کا فقدان تھا اور دوسری غلط امریکہ نواز افغانیوں، اور اتحادی عملے کو وقت سے پہلے افغانستان سے نکالنا تھا۔ دوسری غلطی میں کرونا اور بیوروکریسی نے کلیدی کردارادا کیا۔ امریکہ جتنی عجلت میں آیا تھا اس سے زیادہ عجلت اور بدحواسی میں فرار ہو چکا ہے۔

امریکہ روانگی کے بعد پاکستان اور بھارت مختلف انداز میں اپنا اثرورسوخ استعمال کریں گے۔ پاک افغان تعلقات بہت دیرینہ ہیں اورہم کئی لحاظ سے ایک دوسرے سے ایسے تعلق میں پروئے ہوئے ہیں جسے ختم کرنا ناممکن ہے۔پاک افغان مذہبی، ثقافتی، معاشی، جغرافیائی، سیاسی، سماجی اور دفاعی بندھن اتنے مضبوطی سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں جنہیں الگ نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارت افغانستا ن میں ایک نومولود کی حیثیت رکھتا ہے جو اپنے آقا امریکہ کے جاتے ہی رفو چکر ہو چکا ہے۔ بظاہر پاکستان افغانستان کو علاقائی اور عالمی سطح پر تسلیم کروانے میں بھر پور مدد کرے گا کیونکہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کی امریکی پالیسی غیر واضع ہے۔

تعجب اس بات پہ ہے اگر امریکہ طالبان سے مذاکرات کر کے خلاصی طلب کر سکتا ہے اور جنگ میں ہار کر بھاگ چکا ہے تو اب طالبان حکومت کو تسلیم کرنے میں کیا حرج ہے۔ اس ساری صورتحال میں بھارتی امیدوں پر پانی پھر چکا ہے اب وہ من گھڑت پروپگنڈہ کے زریعے اپنے رنج و الم کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اب بھارت کے لیے ایک ہی چارہ ہے کہ وہ آرام سے بیٹھے اور طالبان کے رویے کے مطابق چلنے کو تیار رہے۔ یہ بات بھی خارج از امکان نہیں کے مستقبل میں امریکہ کے کہنے اور پاکستان میں دوبارہ سے دہشت گردی پھیلانے کے لیے طالبان حکومت کو تسلیم کر لے۔

یہ عمل صرف تین صورتوں میں ہی ممکن دکھائی دیتا ہے امریکہ کا حکم بجا لانے، پاکستان کو غیر مستحکم کرنے اور افغانستان میں اپنی سرمایہ کاری کو بچانے کے لیے۔ چینی، روسی، اور پاکستانی نقوش افغانستان میں اتنے گہرے ہیں کہ بھارت کی دال گلتی دکھائی نہیں دیتی یہی وجہ ہے بھارت پاکستان میں چینی باشندوں کو دہشت گردی کا ہدف بنا رہا ہے۔ بھارت پہلے بھی افغانستان میں پاکستان مخالف مہم جوئی کے لیے آیا تھا اور اس نے پاکستان مخالف افغانیوں اور ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث گروہوں کو ملا کر پاکستان کو کمزور کرنے کی مذموم کوشش کی۔ اب بھارت کے لیے صورتحال یکسر مختلف ہے کیونکہ طالبان نے پاکستان کی حمایت کے لیے ان مخالف گروہوں کا سر کچل دینا ہے۔

روس اور چین بھی افغانستان کے استحکام اور سلامتی کے لیے مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دے سکتے ہیں کیونکہ دونوں افغانستان سے امریکہ کے چلے جانے کے خوہاں تھے۔ یقینا امریکہ اپنی جنوبی ایشیاء سے متعلق پالیسی میں روس اور چین کو کھلی چھوٹ نہیں دے گا بلکہ پالیسی میں ردوبدل کر کے ان پر کڑی نظر رکھے گا۔ ایران جسے بھارت نواز سمجھا جاتا ہے امریکہ کے جانے پر خوش ہے کیونکہ امریکہ سے سب سے زیادہ خطرہ ایران کو تھا۔ افغانستان سے انخلاء کے بعد یقینا امریکہ ایران سے متعلق اپنی پالیسی میں بھی تبدیلی لائے گا۔ خطے میں بیرونی عناصر کی مداخلت اور سراہیت روکنے کے لیئے چین، روس، ایران اور پاکستان کا متحدہ بلاک بنانا ناگزیر ہو چکا ہے۔ اگرچہ افغانستان میں امریکہ کی موجودگی خطے کے بیشتر ممالک کے لیے ایک لحاظ سے مفید تھی کیونکہ امریکہ کی موجودگی نے خطے میں سیکورٹی کے فرائض سنبھال رکھے تھے تاہم سب کے مفادات داو پر لگے تھے اس لیے سبھی امریکہ کی واپسی کے خواہاں تھے۔ امریکی کی جنوبی ایشیاء کے لیے پالیسی ہمیشہ سے بھارت نواز رہی ہے اور اس لحاظ سے بھارت کے علاوہ نہ تو امریکہ کے پاس کوئی اور آپشن ہے اور نہ ہی پالیسی میں کسی بڑی تبدیلی کی امید کی جا سکتی ہے۔

جنوبی ایشیاء کے لیے امریکی پالیس کا محور مرکز امریکی مفادات کا دفاع ہو گا اور اس ضمن میں وہ ہر ممکنہ تبدیلی لانے کی کوشش کر ے گا۔دراصل امریکہ افغانستان سے نکل کر بھارت کو خطے میں مزید سپیس دینا چاہتا تھا جو امریکہ کی موجودگی میں ممکن نہیں تھا۔ دوسری وجہ امریکہ چین کو روکنے کے لیے بھارت کو اس کے مد مقابل لانے کی سہی کر رہا ہے اور بھارت بھی ناچاہتے ہوئے امریکہ کا اتحادی بنا کیونکہ اس کے پاس بھی خطے میں کوئی اور آپشن موجود نہ تھا۔ بھارت یہ سمجھتا ہے کہ امریکہ نوازی سے اس کا ایشیائی اجارہ داری کا خواب پورا ہو جائے گا تو یہ خام خیالی ہے۔ اب امریکہ اپنی جنوبی ایشیاء کے لیے پالیس میں ایسی تبدیلی لائے گا جس کے زریعے وہ بھار ت اور چین کی کشمکش کی وجہ سے نالاں چھوٹے ممالک کو دانہ ڈالے گا اوریہ دانہ قرض کے جال، جمہوریت کی پائیدار ی اور قومی ترقی کے نام پر ڈالا جائے گا۔ جنوبی ایشیاء کی پالیس میں مائنس پاکستان کاتصور بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ افغانستان میں امن کے لیے امریکہ کو پاکستان کی اشد ضرورت ہے اور اس ضمن میں بھارت امریکہ کے کسی کام کا نہیں ہے۔ طالبان کا خلاف توقع چند دنوں میں افغانستان کا کنٹرو ل سنبھال لینا سب کے لیے حیران کن ہے۔

اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سابقہ افغان حکومت، افغان عوام اور مغربی طاقتوں کے بیچ کچے دھاگے سے بنا گیا ناپائیدار تعلق تھا جو ریت کی دیوار ثابت ہوا۔ علاقائی اور عالمی ماہرین مستقبل قریب میں چین، روس، پاکستان اور ایران کے کھیل کو کامیاب ہوتا دیکھ رہے ہیں۔بھارت کو یہ خوف بھی کھائے جا رہا ہے کہ کہیں طالبان افغانستان میں استحکام کے بعد بھارتی مقبوضہ کشمیر کا رخ نہ کرلیں اور افغانیوں کے بارے کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی جب وہ لڑنے لگ جائیں تو کوئی طاقت ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اب بھارت خطے میں تنہا اور امریکہ کے رحم و کرم پر ہے اور امریکہ اسی وقت کے انتظار میں تھا تاکہ بھارت کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کرے۔ امریکی کی جنوبی ایشیاء پالیس بھارت نواز ہونے کی وجہ سے مسئلہ کشمیر حل ہو تا دکھائی نہیں دیتا۔

جنوبی ایشیاء میں موجودگی اور کنٹرول امریکہ کی مجبوری ہے کیونکہ اس کے بغیر وہ اپنے آپ کو دنیا کی سپر پاور برقرارنہیں رکھ سکتا۔ بھارت کو یہ بات جان لینی چاہیے تاریخ گواہ ہے امریکہ نے آج تک کسی کا ساتھ نہیں دیا بلکہ انہیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کیا ہے۔ طالبان حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی پالیسوں کو ایسے ڈوپلومیٹک اندازمیں بنائیں اور چلائیں تاکہ تصادم کے بجائے امریکہ میں افغان حکومت کا پیسہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں یہ ان کے معاشی استحکام کو مضبوط کر ے گا۔

افغانستان کو کھنڈربنانے والے امریکہ اور اس کے حواریوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ نہ صرف معافی مانگیں بلکہ اپنی منتخب کردہ حکومت کی ناکامی کو تسلیم کر تے ہوئے طالبان حکومت کو تسلیم کرے اور افغانستان کی تعمیرو ترقی، سلامتی اور استحکام کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کرے۔ امریکہ کے لیے اپنی جنوبی ایشیاء پالیسی کو بھارت نواز بنانے کے بجائے افغان نواز بنانی چاہیے کیونکہ افغانستان بھارت کی نسبت امریکہ کے لیے کئی گناہ زیادہ مفید ثابت ہو سکتاہے۔ ایک پر امن اورمستحکم افغانستان خطے، عالمی سطح، علاقائی اور بیرونی مداخلت کاروں سب کے لیے مفید ثابت ہو گا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
52388

داد بیداد ۔ سیاسی بیداری کی آزما ئش ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

کنٹونمنٹ بور ڈ کے انتخا بات کو پا کستان میں سیا سی بیداری کی آزما ئش قرار دیا جا سکتا ہے یہ انتخا بات ایسے وقت پر ہوگئے جب بلدیاتی انتخا بات میں چھ مہینے رہ گئے ہیں عام انتخا بات میں دو سال رہتے ہیں ایسے وقت پر ملک کی تما م چھا ونیوں میں بورڈ وں کے انتخا بات کا انعقاد بہت مشکل فیصلہ تھا حکومت نے بڑی سوچ بچار کے بعد انتخا بات کی تاریخ کا اعلان کیا اور خیر سے انتخا بات ہو گئے اگلے چند دنوں میں کنٹونمنٹ بورڈوں کے منتخب نما ئیندے حلف اٹھا کر کا م شروع کرینگے یہ درحقیقت سیا سی بیداری کی ازمائش تھی الیکشن کے دن ہم نے پریس کلب کے ہا ل میں بیٹھ کر گزارا ٹیلی وژن پر گھنٹے گھنٹے کی خبریں آرہی تھیں سوشل میڈیا پر بھی ہرگھنٹے کی خبریں تقسیم کی جا رہی تھیں ان خبروں میں کراچی سے لیکر کوئٹہ، سیا لکوٹ سے لیکر پشاور تک ہر حلقہ انتخا ب سے، ہر وارڈ اور ہر پو لنگ سٹیشن سے سیا سی پارٹیوں کے درمیاں ہاتھا پا ئی اور گا لم گلوچ کی باتیں آرہی تھیں پو لیس کے ہاتھوں کار کنوں کی گرفتا ریاں دکھا ئی جا رہی تھیں.

ان خبروں پر تبصرہ ہو رہے تھے ذرائع ابلا غ پر جو تبصرے ہورہے تھے ان میں ہمارا کوئی حصہ نہیں تھا البتہ پریس کلب کی حد تک ہم بھی اپنے تبصرے کر رہے تھے ایک سینئر اخبار نویس اپنے نما ئندوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے دس بارہ فو ن کا لیں سننے کے بعد انہوں نے سرد آہ بھر تے ہوئے کہا ہمارے سیا سی کا رکنوں میں سیا سی بیداری نا م کی کوئی چیز نہیں ہے ہماری سیا سی جما عتیں انتخا بات کا سامنا کرنے کے لئے تیا ر نہیں ہیں مجلس میں بیٹھے ہوئے سیا سی کا رکن نے اخبار نویس کے جواب میں کہا کہ یہ قصور سیا سی کار کنوں کا نہیں سیا سی جما عتوں کے سر براہوں کا قصور ہے.

ہمارے ہاں 15قابل ذکر سیا سی جماعتوں کے تما م لیڈر ایک دوسرے کو سیا سی مخا لف سے زیا دہ ذا تی دشمن قرار دیتے ہیں جا نی دشمن قرار دیتے ہیں لیڈر کی تقریر کو اس کے کار کن اپنے لئے نمو نہ اور مشعل راہ سمجھتے ہیں چنا نچہ جس کار کن کے ہاتھ میں ما ئیک آجا تا ہے وہ مخا لف پر بمبا ری شروع کر تا ہے اچھا مقرر اور اچھا کار کن اس کو سمجھا جا تا ہے جس کی زبان تلخ ہو جس کے لہجے میں کڑوا ہٹ ہو اور جو مخا لف کو جی بھر کر طعنے دیتا ہو گا لی دیتا ہو زبان پر آنے والی یہ تلخیاں ہاتھوں میں بھی آجا تی ہیں ہا تھوں سے اسلحہ اور ڈنڈوں تک آجا تی ہیں اگلا ٹکٹ اس کو ملتا ہے جو پکڑا گیا ہو حوالات میں ڈالا گیا ہو قیدو بند سے گذرا ہوا ہو اس کو ”نر بچہ“ کہا جا تا ہے.

صحا فیوں نے سیا سی کار کن کو غور سے سنا اس کی با توں میں تجربے اور مشا ہدے کا وزن تھا وہ گھر کا بھیدی تھا جو لنکا ڈھا رہا تھا ہمارے ایک دوست نے لقمہ دیا اگر یہ حا لت رہی تو بلدیا تی انتخا بات کس طرح ہو نگے اور پھر عام انتخا بات کا کیا ما حول ہو گا؟ بات دل کو لگی ایک اخبار نویس نے کہا بلدیا تی انتخا بات بھی ہو نگے عام انتخا بات بھی ہو نگے افغا نستا ن میں جنگ کے دوران چار انتخا بات ہو ئے ان انتخا بات میں لا قا نو نیت کا ایک بھی واقعہ نہیں ہوا دوسرے اخبار نویس نے نفی میں سر ہلا تے ہوئے کہا افغا نستان اور پا کستان میں فرق ہے .

وہاں جنگ کی حا لت میں بھی ملکی نا موس، قومی غیرت اور ننگ کا خیال رکھا جا تا ہے ہمارے ہاں امن کی حا لت میں بھی اپنی پارٹی کے لیڈر کو ملک اور قوم کے مقا بلے میں اولیت اور فو قیت دی جا تی ہے یہاں ملک اور قوم کی عزت و نا مو س کا ذکر نہیں ہوتا اپنے لیڈر کو دکھا نے کا شوق، جو ش اور جذبہ ہوتا ہے اور یہی جو ش و جذبہ لا قا نو نیت کی راہوں کو ہموار کرتا ہے ملک اور قوم گھوڑا ہے سیا سی لیڈر تا نگہ ہے گھوڑے کو آگے با ندھو گے تو یہی حال ہو گا جو ہمارا ہوا ہے ہمارے ایک دوست نے اخبار سے نظریں ہٹا کر چشمے اتارے پیا لی سے چا ئے کا گھونٹ لیا ا

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
52385

پس و پیش – انگریزی زبان چترال میں کیسے پہنچی؟-اے۔ایم۔خان


چترال اپنی تنوع کی وجہ سے نمایاں رہی ہے۔ اس میں موجود  تمدن، زبانین، مسلکی اور مذہبی گونا گونی کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ چترال کی تاریخ کو دیکھا جائے تو یہ ایک پُر امن علاقہ ہونے سے مشہور ہے۔اگرچہ ریاستی دور میں ایک ‘لہر’ آئی تھی اسکی نوعیت مسلکی تفرقہ کے حوالے سے اختلافات اور نقصانات جو سن80 کی دہائی میں  رونما ہوئے اُن سے مختلف تھیں لیکن عمومی طور پر چترال کی تاریخ میں منافرت کی لہر ، اختلافات اور شدت پسندی نہایت محدود رہ چُکی ہے۔

یورپ میں صنعتی انقلاب کے بعد برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے اہلکار جب ہندوستان (1611-15) پہنچے تو اُن کے ساتھ انگریزی زبان ہندوستان پہنچی۔کمپنی کے اہلکار تو انگریزی بولتے تھے لیکن  جب ہندوستان میں1858 کے بعد ہندوستان کی بھاگ دوڑ براہ راست برطانوی حکومت نے لے لی تو انگریزی زبان بھی سکہ رائج الوقت ہوگئی۔ جیسے ہی سلطنت برطانیہ کی بساط ہندوستان کے شہر در شہر  سے ہوکر باہر سرحدات یا سرحدی علاقوں میں برسر پیکار رہی تو اُن کے ساتھ انگریزی زبان بھی وہاں سرایت کر گئی۔

 بین الاقوامی جریدےکے ایک آرٹیکل میں ڈاکٹر طارق رحمان لکھتے ہیں  کہ ہندوستان میں برطانوی حکومت کا آغاز اور جدیدیت نے زبان کو شناخت کی ایک اہم علامت بنا دی… جوکہ )انڈیا میں (مذہب کے بعد تشخص متعین کی. نوآبادیاتی نظام میں انگریزی زبان تشخص کے علاوہ  سرکاری زبان اور طاقت کی علامت بھی رہی ۔ 

19ون صدی کے آخری عشرے میں گریٹ گیم کے پیش نظر جب برطانوی حکومت کیلئے ریاست چترال نے اہمیت لے لی تو ویلیم لوکھرٹ مشن سن 1877ء کو اُسوقت کے ریاستی حکمران کے ساتھ معاہدہ کر لی تو اس کے بعد برطانوی اہلکار چترال آئے اور قیام کرتے رہے ۔  اور یہ وہ دور تھی جب رسمی طور پر انگریزی زبان انگریز کے ساتھ چترال آئی۔ فرنگی اہلکار اپنے روداد سفر جس میں چترال آنے ، وہاں قیام کرنے ،اور چترال سے واپس جانے کے حوالے سے اپنے کتابوں میں لکھے ہیں۔

فرنسس ایڈورڈ ینگھسبنڈ  اپنے کتاب(1884-94) میں کئی ایک موضوعات پر لکھنے کے علاوہ  چترال آنے  اور وہاں تعلیم کے حوالے سے تحریر کرتےہیں کہ اس پورے [ملک] میں یقیناً ایک درجن سے زیادہ لوگ لکھ اور پڑھ نہیں سکتے ہیں۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ مستوج کے گورنر کے پاس اُس وقت کوئی نہیں تھا کہ وہ لکھ سکے اور چند مواقع پر انہیں خط ملے تو وہ اُنہیں میرے کلرک کے پاس پڑھنے کے لئے لے آئے۔

اُس وقت کے تناظر میں چترال میں تعلیم کی شرح کے حوالے سے شاید کوئی دوسری رائے ہوسکتی ہے کیونکہ چترال میں پہلے سکول کی بنیاد 1920میں رکھی گئی ۔ غیر رسمی تعلیم کے علاوہ،  گوکہ وہ بھی نہایت محدود تھی، اس سکول سے چترال میں رسمی تعلیم کا آغاز ہوا تھا۔ ینگھسبنڈ کے کتاب کے اس اقتباس سے یہ بات واضح نہیں کہ وہ کس زبان میں لکھنے اور پڑھنے کی بات کرتا ہے۔ اُس وقت فارسی یا اُردو زبان میں کچھ لکھنا اور پڑھنا خواندگی کے ذمرے میں آتا تھا یا نہیں یہ معلوم نہیں؟ہاں یہ معلوم ہے کہ اس سے پہلے ہندوستان میں لارڈ میکالے کا وہ قول تو سب کو یاد ہوگا جسمیں اُس نے یورپ کے ایک اچھے لائبریری کا ایک شلف ہندوستان اور عرب کی مقامی ادب سے قدرے بہتر ہونے کی بات اپنے  “منٹ” میں درج کی تھی۔

ہندوستان سے باہر پہاڑی سرحدات  یعنی پامیر سے ہوتے ہوئے جب انگریز  چترا ل پہنچا تو اُن کی زبان ، چال ڈھال، طور طریقے، کلچر، رہن سہن اور لباس توجہ کا مرکز بنے۔ مقامی لوگوں کیلئے یہ وہ زبان تھی  جسے کوئی نہیں جانتا تھا۔ اور جو کوئی  غیر مقامی ہندوستانی انگریزی جانتا تھا دربار میں اُسکی بھی بہت قدرو منزلت تھی۔

پہاڑی لوگوں میں اُسوقت انگریزی بولنے اورسمجھنے  کا شوق پیدا  ہونے کی ایک بڑی وجہ اانگریزی زبان اور کلچر سے منسلک امتیاز، طاقت اور مراغات تھیں۔ چترال میں اُس وقت انگریزی  زبان میں لکھی کتابوں میں موجود علم توجہ کا مرکز بننے کی گنجائش کم تھی۔ اُس وقت جو انگریزی بول اور لکھ سکتا تھا وہ تعلیم یافتہ ، اور وہ ایک اچھے عہدے پر فائز ہوسکتا تھا ۔ اور ساتھ وہ انگریز کے قریب اور رابطے کا ایک ذریعہ بن سکتا تھا۔

برنرڈ کہن کے مطابق 17 ون صدی عیسوی میں برطانیہ کو ہندوستان میں یہ محسوس ہوگیا کہ فارسی نہایت اہم زبان ہے جسے سیکھنا چاہیے۔ آٹھارون صدی میں پھر برطانوی افسران فارسی سیکھے، اس میں دستاویزات تیار کئے، اور یہ بھی اُنہیں محسوس ہوا  کہ اسے انڈیا میں جو اشرافیہ ہے اسےبھی سیکھایا جائے۔ ایک دوسرے جریدے کے آرٹیکل میں ڈاکٹر طارق رحمان لکھتے ہیں کہ فارسی زبان سیکھنے کا اصل مقصد اس سے پہلے نظام حکومت کو سمجھنا اور اُس مربوط نظام کے مطابق حکومت چلانا تھا تاکہ ہندوستان کے لوگوں کے پاس کم سے کم حکومت کے خلاف ہونے یا بغاوت کرنے کی گنجائش باقی رہے۔

اُس زمانے میں انگلینڈ میں بھی فارسی سیکھنے کا ڈیمانڈ بڑھ گیا، اور بنگال کی فتح کے بعد یہ مزید زیادہ ہوگئی تھی۔ اور تو اور ، فورٹ ویلیم کالج(1800) میں برطانوی افسران کو فارسی کی تعلیم  دی جانے لگی۔

جو انگریز اہلکار اُس وقت چترال آیا اُسکی تعلیم، سمجھ اور دُنیا بینی مقامی لوگوں کیلئے فکر انگیز تھی ۔ گوکہ مقامی لوگ سودیشی علم و سمجھ کے مالک تھے لیکن ہم عصری، بین الاقوامی ،  نظریاتی اور دوسرے دقیق موضوعات سے  اگر عاری نہیں تو اُن پر دسترس بھی نہیں رکھتے تھے۔ اور جو علم اُس وقت لوگوں تک پہنچتی تھی جوکہ ملک میں رائج اور ریاست چترال میں فارسی زبان سے مل رہی تھی۔

انگریز کی آمد کے بعد فارسی زبان، ادب اور علم پر توجہ جس مقصد کیلئے شروع ہوا اُس مقصد کے حصول کے بعد اس پر توجہ کم ہوئی ۔ اب فارسی سے انگریزی میں موجود علم کو ‘خالص’ قرار دینے پر کام شروع ہوا تاکہ فارسی کی جگہ انگریزی زبان لے سکے۔  یہ صورت حال  تقسیم سے پہلے ہندوستان میں رہی، اور پاکستان بننے کے بعد جب اُردو قومی زبان قرار دی گئی اور سرکاری یا دفتری زبان انگریزی جاری رہی تو فارسی کی حالت ہوئی۔

چترال میں فارسی زبان کا استعمال پاکستان بننے کے بعد بھی ہوتا رہا اور اس کی اہمیت طویل وقت تک رہی جسکی ایک وجہ اُسوقت کے تعلیم یافتہ  لوگ فارسی داں تھے، اور دوسرے زبان اور مضامین میں تعلیم اسے ریپلیس نہ کر چُکے تھے۔ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی کے مطابق ‘چترال میں 1030ء سے فارسی کی آمد آمد تھی’ اور یہ ایک وقت تک جاری رہی جبکہ گل مراد خان حسرت  تاریخ رشیدی کا حوالہ دے کر بتاتے ہیں کہ 1540ء کے بعد یہ علاقہ فتح ہوا تو فارسی زبان چترال پہنچی۔   چترال ریاست میں )چترال کے زبانوں کے حوالے سے 1992 کے ایک سروے کے مطابق( فارسی زبان 1952 ء تک سرکاری زبان رہی۔ انگریزی کی افادیت ، ضرورت  اور طاقت پہلے سے محسوس کی جارہی تھی اور جب فارسی ریاستی زبان سے بھی نکل گئی تو چترال میں بھی فارسی زبان کی جگہ اُردو اور انگریزی نے لے لی، اور پاکستان کے ساتھ باقاعدہ ضم ہونے کے بعد سکول وکالج میں جو بھی سیلیبس تیار ہوئی  وہی پڑھایا گیا۔تقسیم سے پہلے کی طرح پاکستان اور چترال میں بھی انگریزی ، اُردو اور مقامی زبانین سماجی اور معاشی تقسیم کی پیمائش کے طور پر  بھی لئے جانے لگے۔

چترال میں انگریزی تعلیم سے متاثر ہوئے، اور فائدہ سب سے پہلے وہ لوگ لئے جو انگریز کے ساتھ براہ راست رابطے میں رہے اور تھے ۔  انگریزوں کے ساتھ کام کرنے والے لوگ اور اُن کے رشتہ دار انگریزی زبان اور اس سےمتعلق چیزیں اُسی طرح اختیار کیں۔ مقامی لوگ بعد  میں اُن غیر مقامی لوگوں کے ساتھ رشتہ ازواج میں بھی منسلک ہوئے جو اسوقت انگریز کے ساتھ چترال آئے تھے ۔ اسطرح چترال کے لوگوں کا چترال سے باہر رشتہ داری بھی ہوگئے ۔جس کا ایک اثر یہ ہوا کہ عام لوگ اسوقت تعلیم اور انگریزی تعلیم کی ضرورت ، افادیت اور اہمیت کا ادراک رکھتے تھے وہ اپنے بچوں کے تعلیم اور خصوصاً انگریزی تعلیم و تمدن کو ہر چیز پر فوقیت دی۔ اور انگریز اب بھی نسل اور زبان سے فائدہ بٹور رہی ہے۔  

 1980ء کے بعد چترال میں انگریزی تعلیم پر کام مزید شدت سے شروع اُسوقت ہوئی جب چترال میں بھی پرائیوٹ سکول بنے ۔ اُسوقت )اور اب( ہر پرائیوٹ سکول کا مطلب انگلش میڈیم سکول ہے۔ سرکاری سکولوں میں چند سال پہلے تک وہی نظام تھا جو چلی آرہی تھی، اور  چند سال پہلے سے سرکاری سکول بھی انگریزی تعلیم شروع کئے۔ )اب سنگل نیشنل کریکلم کے بعد کیا منظرنامہ ہوگا وہ دیکھنے کی بات ہے(

برصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے کارندے  آئے تو ساتھ انگریزی زبان کی بھی یہاں پہنچی۔ ہندوستان میں نطام حکومت اور قواعد وضوابط کو سمجھنے کیلئے انگریز نے وقت کی مناسبت سے فارسی زبان پر توجہ دی، اور مقصد کے حصول کے بعد اپنی زبان پر کام شروع کی۔  نو آبادیاتی نظام کے دوران انگریزی ایک علامتی زبان رہی، اور سولائزنگ مشن میں انگریزی زبان اور کلچر کا کردار اہم رہا۔ گریٹ گیم کے دوران جب انگریز چترال آئی تو انگریز کے ساتھ اُس کی زبان بھی چترال پہنچی۔ 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
52383

ماں ۔ میری جنت ۔ (ایک غم زدہ بیٹے کی کہانی ) ۔ شہزادی کوثر

دنیا کے خوبصورت الفاظ میں سے ایک لفظ ” ماں ” ہے۔ اس لفظ کو سن کر ہی انگ انگ میں محبت کی مٹھاس رچ بس جاتی ہے۔ زبان سے حلق اور پھر دل تک شیرینی اور ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے ۔ماں کا رشتہ ہر قسم کی غرض ،مکاری اور دھوکے سے پاک ہوتی ہے جس میں سوائے شفقت اور مہربانی کے اور کسی چیز کی ملاوٹ نہیں ہوتی ۔اس رشتے کے تقدس کو بیان کرنے کے لیے الفاظ کم پڑ جاتے ہیں زبان گونگی ہو جاتی ہے اور خیالات کا سمندر خشک ہو جاتا ہے لیکن تعریف و توصیف کا حق ادا نہیں ہو پاتا ۔پروردگار نے کن عناصر کے ملاپ سے اس پیارے رشتے کو تخلیق کیا ہو گا ؟۔ یقینا اپنی کمال خلاقیت کا اظہار کرنے اور اپنی محبت کی جھلک دکھانے کے لیے ہی ماں کی تخلیق کی ہو گی۔ ماں دنیا میں اللہ کی محبت اور رحمت کا حسین عکس ہےجو اولاد کو اپنے پیار کی چادر میں لپیٹے رکھتی ہے ،ان کی محبت میں پوری دنیا اور اپنی جان عزیز بھی قربان کرنے کو تیا ر رہتی ہے،اولاد کی پیدائش سے پرورش تک کا عمل آسان نہیں ہوتا جس کی تصدیق میں قرآن پاک میں کہا گیا۔۔۔ ووصینا الانسان بوالدیہ حملتہ امہ وھنا علی وھن فصالہ فی عامین۔۔۔  

ترجمہ۔۔ اور ہم نے وصیت کی انسان کو اس کے والدین کی طرف کہ جس کی ماں نے دکھ پر دکھ سہہ کر اسے پیٹ میں اٹھائے رکھا اور دو برس تک دودھ پلانے کا فریضہ انجام دیا ۔۔۔۔۔۔                                                       

قرآن واضح الفاظ میں بتاتا ہے کہ انسان پر والدین اور خاص کر ماں کا کتنا حق ہے۔۔جہاں لفظ ماں آئے تو سمجھ لینا کہ ادب کا مقام آگیا ۔اس پاک ہستی کی تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ جب انسان  سکون کی دولت کے لیے ترسے اور زمانے کی تلخیوں سے دل برداشتہ ہو تو اپنی ماں کی آغوش میں آکر ساری پریشانیوں ،غموں اور دکھوں کو بھول کر راحت محسوس کرے             

اس کار گاہ زیست میں گھبرائے جب بھی دل                   

سر رکھ کے ماں کی گود میں سو جانا چاہیے                   

ماں کی محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اولاد کے تمام دکھوں کو بہا کر ان میں جینے کی امید پیدا کرتا ہے ۔حالات کیسے ہی سخت کیوں نہ ہوں تکالیف ہر طرف سے انسان کو اپنی گرفت میں لے لیں ،زمانے کی مصیبتیں پاوں کی زنجیر بنیں جب وہ ماں رب کے حضور سجدہ ریز ہوتی ہے تو زمانے کی گردشیں رک جاتی ہیں جب وہ دعا کے لیے اپنے ہاتھ بلند کرتی ہے تو بڑی سے بڑی مصیبت بھی جڑوں سمیت اکھڑجاتی ہے ۔سفر پر روانہ ہوتے وقت اپنی دعاوں کی زادراہ ساتھ کر دیتی ہے اور جائے نماز پر کھڑی رہ کر خالق سے گڑگڑاتی ہوئی ہماری خیریت سے واپسی کی دعا کرتی ہے ۔اس وقت جو اس ماں کے دل پر گزرتی ہے وہ صرف اللہ ہی جانتا ہے ،ہماری واپسی کے بدلے اگر ان کی جان بھی مانگی جائے تو خوشی سے وہ بھی پیش کرے گی ،انہی دعاوں کی برکت سے منزل تک بخیر وعافیت پہنچنا ہمیں نصیب ہوتا ہے                                  

گردشیں لوٹ جاتی ہیں میری بلائیں لے کر                    

گھر سے جب نکلتا ہوں میں ماں کی دعائیں لے کر               

ماں کے ایثار و قربانی اور خلوص کا بیان لفظوں میں بیان ہی کیسے ہو سکتا ہے جو اپنا کھانا پینا ،اپنی توانائی ۔اپنا خون اپنی دھڑکنیں اور سانسیں تک اپنی اولاد سے بانٹتی ہے ۔اپنا وجود کاٹ کر اپنی خوشیاں چھوڑ کر ،اپنی ضروریات کو پس پشت ڈال کر اولاد کی خواہشوں اور ارادوں میں ان کی مدد گار ہوتی ہے ۔اللہ پاک نے بھی اپنی محبت کوبیان کرنے کے لیے ماں کی محبت کی مثال دی ہے کہ             ۔۔۔ ”اللہ ستر ماوں سے زیادہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے۔۔”  

نبی پاکﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ”ماں کے قدموں تلے تمھاری جنت ہے،”‘

ان ارشادات کی روشنی میں ماں کی عظمت اور مقام کا اندازہ  لگایا جا سکتا ہے ۔ اس ہستی کی محبتوں کا مول کیا ہو گا جو خود بھوکی رہ کر بچے کو کھلاتی ہے سرد راتوں میں بچے کے سکون کی خاطر کئی بار اٹھتی ہے یا سرے سے سوتی ہی نہیں ۔اگر بچہ بستر گیلا کرے تو خود گیلی جگہ سو کر اپنے لخت جگر کو خشک جگہ سلاتی ہے ۔ اس کی خاطر اذیت پر اذیت سہتی اور حالات کی سنگینیوں سے لڑتی ہے ۔غموں کے تیروں کو اولاد تک پہنچنے سے پہلے ہی اپنے سینے کی ڈھال پہ روکتی ہے ،حالات کے گرم وسرد کو اپنے وجود میں جذب کرتی ہے تاکہ اولاد محفوظ رہے۔ ان کے لیے اگر جان کا بھی سودا کرنا پڑے تو کر جاتی ہے ۔خود روکھی سوکھی کھائے گی ،ننگے پیر چلے گی،پیوند لگے کپڑے پہن کرصبر شکر بجا لائے گی لیکن اپنی اولاد کی ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کرے گی ۔ ماں حا لات کی چکی میں ایک بار نہیں کئی بار پستی ہے ۔معاشرتی اور معاشی پریشانیوں کا مردانہ وار مقابلہ کرتی ہے لیکن اولاد کو احساس کمتری کا شکار ہونے نہیں دیتی ۔تنگ دستی اور معاشی ابتری کی وجہ سے اگر کھانا کم پڑ جائے تو یہ کہہ کر کھانے سے دست بردار ہوتی ہے کہ مجھے بھوک نہیں ہے۔۔۔۔ سارا دن امور خانہ داری میں لگی ہوتی ہے مہمانوں کی خاطرداری سے لے کر عزیزواقارب ،گھر کے افراد اور اولاد تک کی خدمت کرتی ہے لیکن ان کے ماتھے پر شکن نہیں آتی۔                               

دن بھر کی مشقت سے بدن چُور ہے لیکن              

ماں نے مجھے دیکھا تو تھکن بھول گئی ہے            

ان کے تقدس بھرے چہرے پر رب کی رضا جھلکتی ہے۔ ان کے ہونٹوں پہ ملکوتی مسکراہٹ ہمیشہ رقص کرتی ہے ،جن کی آنکھوں میں صلہ رحمی کی چمک اپنا جلوہ دکھاتی ہے ۔جن کی پیشانی پہ سجدوں کا نور روشنی بکھیرتا ہے ۔جن کی باتوں میں ممتا کی مٹھاس اور دل میں اللہ کی رحمتیں بھری ہوتی ہیں،جن کے ہاتھوں میں نرمی،قدموں میں جنت اور آغوش میں پوری دنیا کا سکون رکھ دیا گیا ہے۔ جن کی عظمت کا اعتراف خالق نے خود کیا ہے ۔جنھیں اللہ پر ایمان نبیﷺ کی پیروی کے بعد فرمانبرداری اور خدمت گزاری کا سب سے بڑا حقدار قرار دیا گیا ہے۔والدین اور خاص کر ماں کی طرف محبت بھری نگاہ سے دیکھنے والے کو مقبول حج کا ثواب ملتا ہے ۔ ماں ایسا درخت ہے جس کی ٹھنڈی چھاوں میں اولاد زمانے کا دکھ بھول جاتی ہے ۔بچے کو انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتی ہے،مشکلات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ دیتی ہے ،لفظوں کا استعمال سکھا کر بولنے کے فن سے آگاہ کرتی ہے۔                                                                       

انہیں سے بولنا سیکھا تھا ہم نے                           

وہی جو بزم میں کم بولتے تھے                           

ماں ہی سے ہر گھر جنت ہے۔جس گھر میں ماں سلامت ہو اس کے افراد کو کسی اور جنت کی طلب نہیں ہوتی ۔جہاں ماں کی تلاوت کی صدا گونجے ،جہاں جائے نماز ان کے سجدوں سے آباد ہو ،جہاں بیمار کا علاج آیات قرآنی اور آب زم زم سے کیا جائے ، جہان نظر اتارنے کے لیے دانہ اسپند (اسپاندور) کی دھونی دی جائے،جہاں کسی کو رخصت کرنے سے پہلےدورکعت نفل کی ادائیگی لازمی ہو ،جہاں قرآن کے سائے میں کسی کو رخصت کیا جائے تو سمجھ لو وہی جنت ہے ۔  دنیا میں اللہ تعالی کی طرف سے سب سے حسین اور قیمتی تحفہ ماں ہے جو بچے کی تمام تر شرارتوں کو کتنی اسانی سے برداشت کرتی ہے ۔ دوسرے بچوں کی طرح میری شرارتوں کی فہرست بھی بہت طویل ہے ،جب بھی میں کوئی نئی شرارت ایجاد کر کے اپنی ماں کو تنگ کرتا تو کہتی کہ  ”بھاگ جاو۔۔۔ ورنہ میں ماروں گی۔۔۔”    لیکن مجھے یاد نہیں پڑتا کہ ماں نے مجھے کبھی مارا بھی ہو۔۔

  کاش ۔۔۔! ایک بار ہی سہی میری ماں مجھے مارتی اور میں واپس جا کر ان سے لپٹ جاتا۔۔۔۔  ان کے ہاتھ مارنے یا کسی کو تکلیف دینے کے لیے بنے ہی نہیں تھے۔وہ تو دعا میں اٹھنے کے لیے،خدمت کرنے کے لیے اور رحم سے سر پر پھیرنے کے لیے بنے تھے۔ ان کی زبان سے اونچی آواز کبھی کسی نے نہیں سنی وہ زبان کڑوی باتوں اور سخت الفاظ سے کبھی آشنا ہی نہیں ہوئی۔ سخت لہجہ اور لفظ تو غصہ کے وقت استعمال ہوتا ہے میری ماں کو غصہ آتا ہی نہیں تھا ویسے حیرت کی بات ہے۔۔۔۔۔شاید ان کے اندر ردعمل اور غصے کا سسٹم تھا ہی نہیں یا انہیں اپنے اعصاب پر بے پناہ کنٹرول تھا جس کی وجہ سے وہ کسی کو تلخی دینے کی وجہ کبھی نہیں بنی ۔  صبر وشکر کا مجسمہ ،رب کی رضا پر راضی رہنے والی میری ماں میرا حوصلہ اور اعتماد تھی جس کی دعاوں نے بڑے بڑے مصائب کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں،کئی بار مشکل حالات آئے،میری جان کو بھی خطرہ لاحق ہوا،بیماری نے بھی میرا حوصلہ توڑنے کی کوشش کی ملازمت بھی خطرے میں پڑ گئی لیکن ہمیشہ مجھے اس بات کا یقین رہتا کہ یہ مصائب میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے  ،نہ بیماری مجھے شکست دے سکتی ہے نہ مخالفین میرا بال بیکا کر سکتے ہیں کیونکہ جب تک میری ماں سجدے میں جھکی ہے جب تک رب کے حضور ان کے ہاتھ بلند ہیں کوئی بھی غم میرے سامنے ٹکنے کا حوصلہ نہیں رکھتا ۔۔۔۔۔ان کی دعاوں کے بھروسے بڑی بڑی مصیتوں سے ٹکرانے سے میں کبھی نہیں ہچکچایا۔۔                    

اس لئے چل نہ سکا کوئی بھی خنجر مجھ پر               

میری شہ رگ پہ میری ماں کی دعا رکھی تھی            

                      شیرین نان   صرف ماں نہیں تھی  میری غم خوارمیری طاقت

 میری رکھوالی، میرا بازو، میرا سائبان ، میری دنیا اور میرے جینے کی وجہ تھی۔ وہ گھنا سایہ تھی جو چھاوں تو دیتی ہے لیکن صلے سے بے نیاز ہوتی ہے۔ ان کی دعائیں بادلوں کو پھاڑ کر اوپر جاتیں اور قبولیت کا شرف حاصل کرتی تھیں۔ ان کی دعاوں کے طفیل میں اور میرے بیوی بچے عیاشی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔دنیا کی ہر نعمت میسر ہے کسی کی مالی مدد کر سکتا ہوں،مہنگی سے مہنگی چیزیں خریدنے کی استطاعت رکھتا ہوں سب کچھ میسر ہے جس کا خواب میرے والدین نے دیکھا تھا ان ہی وجہ سے وہ خواب تعبیر میں بدل گیا ۔آج مجھے اس مقام تک پہنچانے والی طاقت اللہ کی مہربانی کے ساتھ میری ماں کی دعائے نیم شبی ہے۔۔     لیکن                                                                                       

ہر لمحہ تیرے بعد یہ احساس رہے گا                          

ہر چیز کے ہوتے ہوئے ہر شے کی کمی ہے                    

ماں نے ساری عمر جائے نماز پر گزار دی ،تہجد نفلی نمازیں اور روزے ان کی زندگی کا لازمی حصہ تھے جن کے صدقے ہم زمانے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے قابل ہو گئے۔ اپنی تمام تر ذمہ داریوں سے فارغ ہو تے ہوئے اپنا وہ خزانہ بھی نئی نسل کو منتقل کر دیا جو ان کی کل کائنات تھا یعنی میری بیدائش کے وقت جو کرتا انہوں نے اپنے ہاتھوں سے سی کر مجھے پہنایا تھا اسے آج تک ایک متاع عزیز کی طرح سنبھال کے رکھا تھا اب جب کی میری عمر   56  سال سے تجاوز کر گئی ہے میری ماں نے اپنا وہ خزانہ میری اولاد کے سپرد کر کے اپنی ذمہ داری سے ہمیشہ کے لیے سبکدوش ہو گئی۔ کچھ دنوں سے  ایک ڈر لگا رہتا تھا کہ میری ماں کمزور ہو گئی ہے اگر انہیں کچھ ہو گیا تو۔۔۔۔۔۔۔                                                                                    

پھر میری آنکھوں نے وہ تاریک دن بھی دیکھا جب میرے لئے دعا کرنے والے ہاتھ پہلو میں دھر گئے۔ خالق کے سامنے میری زندگی اور خوشیوں کی دعا مانگنے والی آواز خاموش ہو گئی۔ میری منتظر رہنے والی آنکھیں ہمیشہ کے لئے بند ہو گئیں۔ جس چہرے پر میں نے پروردگار کی رحمتوں کا نزول دیکھا آج بھی اس پر رحمتیں برس رہی تھیں۔ وہ ہاتھ جو شفقت کی تپش سے گرم رہتے تھےآج وہ ٹھنڈے پڑ گئےلیکن  اس ٹھنڈک کو چیر کر ان کی محبت میرے وجود میں سرایت کر رہی تھی۔ ان خاموش ہونٹوں پر اب بھی پر سکون دعائیں مچل رہی تھیں جنہیں اللہ کی ذات کے سوا کوئی نہیں سن سکتا ۔  وہ قیامت کی گھڑی مجھ پر بیت گئی مجھے کچھ بھی نہیں ہوا،زندہ ہوں  کھاتا پیتا ہوں لیکن میرا حوصلہ ٹوٹ گیا ہے ،میری ہمت جواب دے رہی ہے۔

میری حالت اس مسافر کی سی ہو گئی ہے جو ننگے سر اور ننگے پیر صحرا میں بھٹک گیا ہو جسے پانی اور سائے کی تلاش ہو لیکن اس کا سایہ دار درخت کہیں نہیں مل رہا جس کی چھاوں میں زندگی کی تلخیوں سے میں بے خبر رہتا تھا ۔۔۔کیسے اپنی پیاس بجھاوں میرے میٹھے پانی کا چشمہ خشک ہو گیا ہے ۔ دنیا ہر طرف سے مجھے کاٹ کھانے کو دوڑتی محسوس ہورہی ہے ۔کون اس کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ دے گا ۔۔؟ میری دنیا اجڑ گئی۔ زندگی کی رونقیں ماند پڑ گئیں۔اب کون میرے لیے رب کے حضور گڑگڑائے گا ؟ کس کی آنکھیں میری منتظر رہیں گی ؟میری نظر اتارنے کے لیے اسپند کی دھونی کون دے گا۔۔ مجھے قرآن کے سائے میں رخصت کرنے والی ماں منوں مٹی تلے جا کر سو گئی ۔۔۔ میرا تھکا ہارا وجود ماں کی آغوش میں جا کر راحت محسوس کرتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                    

 اے رات مجھے ماں کی طرح گود میں لے لے                 

دن بھر کی مشقت سے بدن ٹوٹ رہا ہے                     

اے خالق کون و مکاں میری ماں کی قبر کو اپنی رحمت کے نور سے بھر دے ۔۔۔ آمین                                                                                    

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged ,
52364

مشرقی اُفق ۔ اسلامی متحدہ ریاستہائے مدینہ ۔ میرافسرامان

اسلامی متحدہ ریاستہائے مدینہ کا تصور غیر محسوس طریقے سے اس کے موجودہ ستاون) 57) صوبوں کے عوام کے دلوں میں اوّل روز سے ہی موجود ہے۔ صرف موجودہ مسلم حکمران اس نعمت سے محروم ہیں۔مدینہ کی اسلامی ریاست(اسلامی متحدہ ریاستہائے مدینہ) کی بنیاد اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے شہر مدینہ میں رکھی تھی۔جو صرف مسلمانوں ہی کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ان کے رب کی صرف سے ایک نعمت ہے۔


اس کے اوّلین آئین کے مطابق حاکم اعلیٰ اللہ کی ذات ہے۔ تمام انسان آدم کی اولاد ہیں۔اس میں تمام انسانوں کے حقوق برابر ہیں۔ کسی کالے کو کسی گورے پر اور کسی عربی کو عجمی پر فضیلت نہیں مگر تقویٰ کی بنیاد پر۔ خزانہ اس کے عوام کی ملکیت ہے۔ اس کے انتظامی ادارے کا سربراہ خزانے کو اللہ کے احکامات کے مطابق استعمال کرنے کاپابند ہے۔اس کا نظام ِحکومت چلانے کے لیے سربراہ کا انتخاب مسلمانوں کے باہمی مشورے سے ہے۔اس حکومت کا سربراہ اللہ کے حدود کے علاوہ مسلمانوں کے معاملات باہمی مشورے سے چلاتا ہے۔اس میں نماز کا انتظام قائم ہوتا ہے۔ زکوۃ کے کا نظام حکومت کے سپرد ہے۔امربالمعروف و نہی المنکر کا ادارہ ہمیشہ قائم رہے گا۔مردوں کو عورتوں کے حقوق کا خیال رکھنا ہے۔ رسول ؐ اللہ کے بعد اسی طرز حکومت کو خلفائے راشدینؓ نے چلایا۔ پھر حالات کے دھارے نے اس اسلامی متحدہ ریاستہائے مدینہ کو شخصی حکومت میں تبدیل کر دیا گیا۔

لیکن مسلمانوں کی یہ خلاف دوسری قوموں کی حکومتوں سے ہزار درجے بہتر تھی۔ مسلمانوں کی یہ خلافت بنی امیہ،بنو عباس اور آخر میں بنو عثمانیہ کے نام سے ترکی میں 1923 قائم تھی۔ اس کا شاندار دور تقریباً بارہ سو سال(1200) پر محیط ہے۔ اس دور کی نشاۃ ثانیہ کے لیے دنیا میں مختلف نیک بندوں کے ساتھ ساتھ برصغیر میں شاعر اسلام حکیم الامت علامہ شیخ محمد اقبالؒ نے خواب دیکھا تھا۔ اپنے خواب کو اشعار کے ذریعے مسلم حکمرانوں اور سوئی ہوئی امت مسلمہ کو جگایا۔ اس میں رنگ حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے پاکستان کی شکل میں بھرا۔ ہندووں اور انگریزوں کی شازشوں کے باوجود برصغیر کے مسلمانوں کو پاکستان کا مطلب کیا ”لا الہ الا اللہ“ کے مستانے دے کر حاصل کیا۔برصغیر کے وہ مسلمان جن کے علاقوں میں پاکستان نہیں بننا تھا انہوں نے بھی اسلامی پاکستان کا ساتھ دیا۔ قائد اعظمؒ نے تحریک پاکستان کے دوران اپنی تقریباً سو(100)تقریروں میں اسلامی نظام حکومت کے خط و خال واضع کیے تھے۔

مگر مسلم لیگ کے کھوٹے سکوں نے پاکستان میں اسلامی نظام حکومت قائم نہیں کیا۔ اس طرح مجدد وقت مولانا سید ابو الا علی مودوددی ؒ نے حکومت الہیا قائم کرنے لیے اپنی بائیس(22) سالہ سوچ و بچار کر بعد1941 میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی۔ سید موودیؒ اس کو اپنی کتاب ”جماعت اسلامی کے29 سال“ میں اس طرح فرماتے ہیں۔”دراصل یہ کوئی اتفاقی واقعہ نہیں کہ کسی شخص کے دل میں یکایک یہ شوق چرایا ہو کہ وہ اپنی ایک جماعت بنا ڈالے اور اس نے چند لوگوں کو جمع کر کے ایک جماعت بنا ڈالی ہو، بلکہ وہ میرے بائیس(22) سال کے مسلسل تجربات، مشاہدات۔ مطالعے اور غور غوص کا نچور تھا جس نے ایک اسکیم کی شکل اختیار کی تھی اور اسی اسکیم کے مطابق جماعت اسلامی بنائی گئی“ اصل میں یہ پاکستان اور دنیا میں اسلامی متحدہ ریاستہائے مدنیہ”(حکومت الہیا) کو پھر سے قائم کرنے جد و جہد شروع کی جو اب تک جاری ہی ہے۔سید مودودیؒ نے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ”قرآن و سنت کی دعوت لے کر اُٹھو اور پوری دنیا پر چھا جاؤ“ اسلامی متحدہ ریاستہائے مدینہ کے صوبوں پر کہیں امریکا نے اور کہیں سابقہ یو ایس ایس آر”رشیا“ نے غلامی میں جھکڑ لیا۔ اسلامی متحدہ ریاستہائے مدینہ کے ایک صوبہ ا فغانستان پر رشیا نے ببرک کارمل، اپنے ٹرینڈ شدہ پٹھو کو ٹینکوں کے ساتھ حملہ کر کے قبضہ کر لیا۔

پھر ملت افغانیہ نے رشیا کے خلاف دس(10) سال تک جہاد کی۔ افغانیوں کی مدد کے لیے پاکستان اوراسلامی متحدہ ریاستہائے مدینہ سے جہادی مجائد افغانستان میں آئے اور رشیا کو شکست دی۔ دو(2) سال بعد امریکا بھی اپنی نظریاتی مخالف رشیا کو شکست دینے کے لیے شامل ہو گیا۔ پھر امریکا کے اسٹنیگر میزائل نے کام دکھایا۔ رشیا افغانستان بھاگ گیا۔ جہاد کی برکت سے چھ اسلامی ریاستوں قازقستان،کرغیزستان،اُزبکستان،ترکمانستان، آزربائیجان، اور تاجکستان کی شکل میں آزاد ہوئیں۔ مشرقی یورپ کی سوشلست ریاستیں آزاد ہوئیں اور مشرقی مغربی جرمنی کے درمیان دیوار برلن ٹوٹی۔دیوار کا ایک ٹکڑا جہاد کے پشیتبان جنرل حمید گل کو جرمن حکومت نے پیش کیا۔ پھرامریکا نے افغانستان میں جیتنے والے نو(9) پارٹیوں کو اسلامی حکومت قائم نہیں کرنے دی اور اختلافات کو ہوا دے کر خانہ جنگی کرائی۔ اللہ کا کرنا کہ قندھار کے ایک دینی مدرسہ سے ملا عمر اُٹھے اور امن کا سفید جھنڈا لہرا کراسلامی متحدہ ریاستہائے متحدہ کے صوبہ افغانستان میں دنیا کہ پہلی امارت اسلامیہ افغانستان قائم کی۔ پھر پورے افغانستان میں امن و امان قائم ہو گیا۔ سارے وار لاڈز سے اسلحہ واپس لیا۔ پوست کی کاشت ختم کی۔ملا عمر کو اسلامی مشاورت سے امیر مومنین تسلیم کر لیا گیا۔صلیبیوں کو اسلامی متحدہ ریاستہائے مدینہ کے صوبہ افغانستان میں امارت اسلامی قبول نہیں تھی۔ انہوں نے جب1923ء میں مسلمانوں کے آخری ترکی کی مرکزی امارت اسلامی ختم کی تھی تو برطانیہ کے وزیر اعظم نے تکبر سے کہا تھا کہ اب دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں کی اسلامی امارت قائم نہیں ہونے دیں گے۔


2001 ء میں اسلامی امارت فغانستان پر نائین الیون9/11 کے جعلی حملے کا بہانہ بنا کر اُسامہ بن لاد ن کو امریکا کے حوالے کرنے کا کہا۔ امیر المونین ملا عمر نے کہا کہ ثبوت دیں تو ہم اسلامہ بن لادن پر اپنے ملک میں مقدمہ چلا کر قرار واقعی سزا دیں گے۔ مگر امریکا کے پاس ثبوت نہ تھا۔ ملا عمر نے اپنے اسلاف کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے وقت کے شیطان کبیر کی بات نہیں مانی اورمسلمانوں کے محسن کو امریکا کے حوالے نہیں کیا۔پھر امریکا نے بہانا بنا کر اسلامی متحدی ریاستہائے مدینہ کے ایک صوبہ افغانستان کی امارت اسلامی پر اڑتالیس(48) صلیبی نیٹو اتحادیوں کو ملا کر کے ختم کر دیا۔افغان طالبان بغیر کسی مسلم و غیر مسلم ملک کی مدد کے امریکا کے ساتھ بیس(20) برس جہاد کیا۔ امریکا نے منہ کی کھائی اور جس افغان طالبان کو دہشت گرد قرارار دیتا تھا، پاکستان کے ذریعے امن کی بھیک مانگی۔

افغان طالبان نے کہا کہ پہلے ہماری امات اسلامیہ کو فریق تسلیم کرو پھر مذاکرات ہو سکتے ہیں۔ دوحہ معاہدے میں فریق اوّل امریکا اور فریق دوم افغان طالبان(طالبان افغان امارت اسلامیہ جسے اقوام متحدہ نے تسلیم نہیں کیا) کے الفاظ داخل کیے تب دوحہ امن معاہدہ ہوا۔ جس میں امریکا نے شکست تسلیم کی۔بلا آخر ریشیا کی طرح اکتتیس31))اگست2021ء کو امریکاذلیل اور نیو ورلڈ آڈر کے تکبر سے دسبردار ہو کر اسلامی متحدہ ریاستہائے مدینہ کے صوبہ افغانستان سے نکل گیا۔


قارئین! اسلامی متحدہ ریاستہائے مدینہ کے شہروں کو مبارک باد ہو کہ اس کے صوبہ افغانستان کے عوام نے مسلمانوں کے دشمن امریکا اور اس کے اڑتالیس(48) صلیبی ملکوں کی متحدہ فوجوں سے بیس(20) سال کی مسلسل اور جان کسل جہاد کے بعد شکست فاش دی۔ اپنے صوبہ اسلامی امارت افغانستان کی بنیاد رکھ دی ہے۔ عبوری حکومت کا اعلان کرتے ہوئے ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا کہ وزیر اعظم حسن اخوند، ملا عبدالغنی اور عبد السلام حنفی نائبین،ملا یعقوب وزیر دفاع،سراج ھقانی وزیر داخلہ، ملا ہدایت اللہ وزیر خزانہ، امیر متقی وزیر خارجہ، قاری فصیح آرمی چیف، ملا خیراللہ وزیر اطلاعات مقرر ہوئے۔

تیتیس(33) رکنی کابینہ کی منظوری طالبان کے سربراہ ملا ہبت اللہ نے دی۔اسلامی متحدہ ریاستہائے مدینہ کے صوبہ افغانستان کا سرکاری نام افغانستان اسلامی امارت ہوگا۔ صوبہ افغانستان میں امریکا کے بنائے ہوئے بدیشی آئین کی جگہ قرآن اور سنت کے تابع بنانے کا اعلان امارت اسلامیہ افغانستان نے اعلان کر دیا ہے۔


صاحبو!۔اللہ سے دعا کہ ساری دنیا میں اسلامی متحدہ ریاستہائے مدینہ کے عوام اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی طرف بڑھیں۔ اپنے اپنے صوبوں میں بھی صوبہ افغاستان کے عوام کی طرح امارت اسلامیہ قائم کریں۔ اللہ سے دعا ہے کہ ایسا ہی ہو آمین۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
52360

نیا پاکستان اور دو سال کی ڈیڈلائن ۔ محمد شریف شکیب

وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ نیا پاکستان بٹن دبانے سے نہیں بنتا۔بلکہ نیا پاکستان بہتری کے لئے مسلسل جدوجہد، نظام میں اصلاحات اور مائنڈ سیٹ کی تبدیلی کا نام ہے جس میں وقت لگے گا، ماضی میں برآمدات کو نظر انداز کرکے اس ملک کے ساتھ بڑا ظلم کیاگیا، برآمدات بڑھائے بغیر معیشت ترقی نہیں کرسکتی۔ لوگ ایمانداری سے ٹیکس دیں گے تو ہمیں بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے سخت شرائط پر قرضے لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ لوگ جنت میں جانا چاہتے ہیں مگرجنت کے حصول کے لئے نیک اعمال کرنے پر توجہ نہیں دیتے۔نئے پاکستان کے حوالے سے اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اگر چینی، بجلی، گیس، ایل پی جی، سی این جی، گھی، کوکنگ آئل اور ضرورت کی دیگراشیاء مہنگی کرنے کا نام نیا پاکستان ہے تو چوہا لنڈورا ہی بھلا۔ ہمیں پرانا پاکستان ہی لوٹا دیں۔ جہاں لوگوں کو روزگار میسر تھا۔ اشیائے ضروریہ مناسب نرخوں پر دستیاب تھیں۔نئے پاکستان میں گذشتہ تین سالوں کے دوران ایک محتاط اندازے کے مطابق بیس لاکھ سے زائد افراد بے روزگار ہوچکے ہیں مہنگائی میں تقریباً80فیصد اضافہ ہوا ہے۔ موجودہ حکومت کو کچھ مسائل ورثے میں ملے ہیں۔عالمی وباء کورونا کی وجہ سے کچھ نئے اور سنگین نوعیت کے مسائل نے جنم لیا ہے۔

مہنگائی اور بے روزگاری صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں۔ امریکہ، ارجنٹائن، ناروے، فرانس، جرمنی اور برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملکوں میں بھی لوگ مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ ملک کی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر کشیدگی نے بھی حکومت کے مسائل میں اضافہ کیا ہے۔ ملک میں کسی بھی شعبے میں اصلاحات کی راہ میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔ بیوروکریسی، میڈیا، مذہبی طبقہ، جاگیر دار، سرمایہ دار، بڑے تاجر اور برآمد کنندگان بھی حکومت کی پالیسیوں سے خوش نہیں ہیں۔کیونکہ اصلاحات کی صورت میں ان کے مفادات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

ملک کے تمام سرکاری ادارے کرپشن کا گڑھ بن چکے ہیں۔جب قومی احتساب بیورو کرپٹ عناصر کے خلاف کاروائی کرتا ہے تو ملزموں کے ہم نوا بھی سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ سرکاری اداروں کے ملازمین روز ہڑتالیں کررہے ہیں۔ سڑکوں پر دھرنے دے رہے ہیں احتجاجی جلسے اور جلوس نکالے جارہے ہیں اور قومی املاک کو نقصان پہنچایاجاتا ہے۔ تمام اداروں میں مراعات یافتہ طبقے اور اشرافیہ کے نمائندے بیٹھے ہوئے ہیں جو اصلاح احوال کی کوششوں میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔عمران خان کو اقتدار میں آنے سے پہلے یہ گمان تھا کہ وہ وزیراعظم کی کرسی سنبھالنے کے ساتھ منی لانڈرنگ کے ذریعے ملک سے باہر بھیجی گئی ساری رقوم ایک مہینے کے اندر واپس لائیں گے۔

تمام کرپٹ عناصر کو جیلوں میں ڈال دیں گے اور ان سے لوٹی گئی پائی پائی ہفتوں اور مہینوں کے اندر وصول کریں گے۔ تمام اداروں کا نظام تبدیل کریں گے۔ اور اپنی آئینی مدت پوری ہونے سے پہلے ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہادیں گے۔ مگر اقتدار میں آنے کے بعد انہیں پتہ چل گیا کہ اس معاشرے میں تبدیلی لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ملک میں چینی، آٹا، گھی، کوکنگ آئل اور دیگر اشیائے ضروریہ تیار کرنے کے کارخانے، پولیٹری اوردیگر انڈسٹری ان کے سیاسی مخالفین کی ملکیت ہیں۔ جو اپنی مرضی سے اپنی مصنوعات کی قیمتیں مقرر کرتے ہیں۔ انہیں غریب عوام سے کوئی ہمدردی نہیں۔

وہ چاہتے ہیں کہ مہنگائی میں روزبروز اضافہ ہو اور حکومت کی مقبولیت کا گراف گرتا رہے۔ کمر توڑ مہنگائی اور بے روزگاری صرف حکمرانوں اور عوام کا مسئلہ رہ گیا ہے۔ موجودہ حکومت کی سیاسی بقاء کا انحصار بھی مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کرنے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں ہے۔ حکومت کے تین سال سابقہ حکمرانوں کو کوستے ہوئے گذر گئے اگلے دوسال فیصلہ کن ہیں اگر عوام کی عدالت میں سرخرو ہونا ہے تو عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
52358

خاندان اور ہمارے ایوان22 – پروفیسرعبدالشکورشاہ

خاندان اور ہمارے ایوان22 – پروفیسرعبدالشکورشاہ

ہم ریاست کے نام پر سیاست کے نعرے لگاتے لگاتے ریاست کو سیاست کی نظر کر دیتے ہیں۔ طبعی کرونا کی طرح ہمارا وطن عزیز بے شمار غیر طبعی کرونوں کی لپیٹ میں ہے مگر ان کے خلاف نہ ہم لاک ڈاون کرتے، نہ ویکسین بناتے، نہ زبردستی لگواتے بلکہ ان کو سمارٹ تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ کرونا سے بچاو کی طرح بے شمار جرائم سے بچنے کے ماسک بھی موجود ہیں جنہیں پہن کر آپ بلکل محفوظ رہ سکتے ہیں۔جب پرائیویٹ سکولز، کالجزاور یونیورسٹیز چلانے والے ایم این اے اور ایم پی اے بن جائیں تو تعلیمی بہتری ممکن نہیں ہے۔ جب سرکاری سکولوں میں بھاری تنخواہیں لینے والے اپنے بچوں کوپرائیویٹ سکولز میں پڑھائیں تو انقلاب نہیں آنا۔ جب شوگر مل مالکان وزیر بن جائیں تو چینی نہیں ملے گی، جب آٹا مل مالکان اسمبلیوں اور سینیٹ میں پہنچ جائیں تو آٹا نہیں ملے گا، جب گھی مل مالکان وزیر بنیں گے تو گھی مہنگا ہو گا۔

جب ٹمبر مافیا وزیر جنگلات بنے گا تو جنگلات نہیں بچیں گے، جب غریب کے نعرے لگانے والے امیر بن جائیں تو غریب نہیں ملے گا۔ جب مزدور کے نعرے لگانے والے افسر بن جائیں تو مزدور رلتا رہے گا۔ جب نیا پاکستان بنانا بھول جائیں گے تو پرانے کا یہی حال ہو گا۔ جب رشوت اور سفارش سے بھرتی ہونے والے محکمہ کے سربراہ بن جائیں تو میرٹ نہیں ملے گا، جب سول محکموں پر ریٹائرڈ جنرل تعینات کیے جائیں گے پڑھے لکھے سول لوگ ملک میں نہیں رہیں گے۔ جب قانون شکن عدلیہ میں شامل ہو ں گے تو انصاف نہیں ملے گا، جب سائنس سے نابلد وزیر سائنس بنیں گے تو سائنس نہیں ملے گی، جب غیر متعلقہ اور غیر پیشہ ورانہ افراد وزیر ریلوے بنیں گے تو حادثات ہوں گے۔ جب علماء ممبر و محراب چھوڑ کر سیاست کریں گے تو مساجد کو تالے لگیں گے اور مندر بنیں گے۔ جب ڈاکٹر علاج کے بجائے ہڑتالیں کریں گے تو انسان نہیں رہے گا، جب صحافی قلم فروش بنے گا تو مظلوم نہیں ملے گا۔

جب پولیس ڈاکے ڈالے گی تو ہر گلی میں ڈاکو ملے گا، جب افسر دیر سے آئے گا تو دفتر خالی ملے گا، جب سیاست زدہ لوگ بھرتی کیے جائیں گے توریکارڈ جلے گا فائیلیں نہیں ملیں گی۔ جب مہنگائی کے خلاف بولنے والا مہنگائی کرے گا تو عوام چپ نہیں رہے گی۔ جب 22خاندان پاکستان کو چلائیں گے تو 22کروڑ عوام کی چیخیں سنائی دیں گے۔ جب وزیر تعلیم، سیکرٹری تعلیم اور دیگر اعلی افسران کے بچے سرکاری سکولوں میں نہیں پڑھیں گے تو سرکاری سکول کبھی ٹھیک نہیں ہو ں گے۔جب تک محکمہ صحت کا وزیر اور اس کے اعلی افسران اپنے علاج سرکاری ہسپتال سے نہیں کروائیں گے تب تک سرکاری ہسپتال ٹھیک نہیں ہوں گے۔ جب تک واپڈا والے مفت یونٹ استعمال کریں گے بجلی کے بل کم نہیں آئیں گے۔

جب تک وزراء کی کالونیوں میں لوڈ شیڈنگ نہیں ہو گی تب تک لوڈ شیڈنگ ختم نہیں ہو گی۔ جب تک وزراء، سیکرٹریز، مشیران وغیرہ کے گھر کے باہر پانی جمع نہیں ہو گا تب تک نکاسی کا نظام ٹھیک نہیں ہو گا۔ جب تک ایم این ایز اور ایم پی ایز کے گھروں کے سامنے کچرے کے ڈھیر نہیں لگیں گے تب تک کوڑا صاف نہیں ہوگا۔ جب رئیل اسٹیٹ کے مالکان وزراء بن جائیں تو قبضہ مافیا ختم نہیں ہو گا۔ جب سیاست دان جرنیلوں سے رشتہ داریاں بنائیں گے تو مارشل لاء لگیں گے، جب تک عوام نہیں بولے گی پستی رہے گی۔ جب پی آئی اے میں جعلی بھرتیاں ہوں گی تو یہ بہتری کے بجائے ڈوبے گی،

جب کارکردگی کے بجائے سفارش پہ کھلاڑی ٹیم میں شامل ہو ں گے تو ٹیم ہارے گی۔ جب پولیس ریاست کے بجائے افراد کے ماتحت ہو گی تو وہ مظلوموں اوربے گناہوں کو گولیاں مارے گی۔جب امپورٹ ایکسپورٹ کے مالکان وزراء کے رشتہ دار بنیں گے تو گاڑیاں مہنگی ہوں گی۔ جب وزیر اعلی کا بیٹا چکن انڈسٹری کا مالک بنے گا تو غریب عید پہ ہی گوشت کھائے گا۔ جب ادوایات مہنگی ہوں گی تو عوام مرے گی،پہلی عوام مرے گی تو نیا پاکستان بنے گا۔ جب کسان کو معاوضہ نہیں ملے گا تو فصل نہیں اگے گی، جب مزدور کی دیہاڑی نہیں لگے گی تو وہ مانگے گا، جب تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگار رہیں گے تو جرائم بڑھیں گے۔ جب جہیز کی نمائش ہوگی توبیٹیاں گھر بیٹھے بوڑھی ہوں گی، جب میرا جسم میری مرضی پروان چڑھے گی تو طلاقیں ہوں گی۔

جب عاشق رسول کو جیل اور ٹک ٹاکرز اور یوٹیوبرز کو پروموٹ کریں گے تو یادگار جیسے واقعات ہو ں گے۔ حیرت اس بات پہ ہے ہم اپنی حفاظت کے لیے گلی میں سیکورٹی گارڈ اپنے پیسوں سے رکھیں، اپنی گلی سے پانی اپنے پیسوں سے مزدور لگوا کر نکلوائیں، اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکولز میں جیب سے پیسے دے کر پڑھائیں، علاج پرائیویٹ ہسپتال سے کروائیں، سفر پرائیویٹ ٹرانسپورٹ میں کریں، گلی محلے کا کچرا بھی پیسے دے کر اٹھوائیں، گٹر بھی پیسے دیکر کھلوائیں، بجلی کی جگہ جنریٹر اپنے پیسوں سے لگوائیں، سولر بلب اپنے خرچے پر لگوائیں، گلی محلے کا ٹرانسفارمر بھی پیسے دیکر ٹھیک کروائیں تو بھلا حکومت کس بات کے ٹیکس پہ ٹیکس لیے جارہی ہے کیا یہ سب نیا پاکستان بنانے کے لیے پیسے اکھٹے کیے جارہیے ہیں۔

بجلی کے بل غلط آنے پر اپنی جیب سے پیسے لگا کر درست کروائیں، سرکاری اور دفتری غلطی کی تصحیح بھی جیب سے فیس بھر کر کروائیں، قانونی مدد کے لیے پولیس کو رشوت دیں تو ہم پھر ٹیکس کس بات کا دیں؟ جب جہیز پر سخت ریمارکس دینے والا اپنی بیٹی کی شادی پر کروڑوں لگائے گا تو شرمندگی ہوگی۔ جب حب الوطنی کے دعوے کر کے غیر ملکی نیشنیلٹی لے کر بیرون ملک رہیں گے تو حب الوطنی پیدا نہیں ہو گی۔ جب دہائیوں تک ملک میں حکمرانی کرنے کے باوجود اپنے علاج کے لیے کوئی ہسپتال نہیں بنائیں گے تو شرمندگی ہو گی۔ سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگا کر بیرون ملک رہیں گے توپاکستان ترقی کیسے کرے گا۔

جب وزیر خوارک گندم سمگل کروائے گا تو گندم کی کمی ہوگی، جب حکومتی افسران ٹینکر مافیا چلائیں گے پانی نہیں ملے گا، جب ایل ڈی اے رشوت لے کر این او سی دے گی تو پوش ایریاز میں بربادی ہو گی۔ جب کشمیر کے وکیل کا کھوکھلا نعرہ لگائیں گے تو مودی کشمیر کو جیل بنائے گا۔ جب ماڈل ٹاون قتل عام پر تقریریں کرنے والے حکومت بنا کر بھی انصاف نہ دیں تو ساہئیوال جیسے واقعات ہو ں گے۔ جب کرپٹ لوگوں کو وزارتیں دیں گے تو تبدیلی نہیں آئے گی۔

جب عوام کو ریلیف دینے کے بجائے ایک خاندان کے درپے رہیں گے تو مہنگائی بڑھے گی، جب آزادکشمیر کا وزیر اعظم انٹرویو لے کر لگائیں گے تو کشمیر آزاد کیسے کروائیں گے۔ آپ نے کہا تھا میں ان کا رلاوں گا بھولی عوام سمجھی وزیروں مشیروں کی بات کر رہے مگر ان سے مراد عوام تھی جو رو رہی ہے اور آپ مسلسل رلا رہیں ہیں۔ وزیر مشیر تو سب آپ کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے ہیں۔ مہنگی گاڑی میں بیٹھ کر غریبوں کی بستی کا چکر لگانے سے غریب امیر نہیں ہو جاتے بلکہ اس سے خلیج مزید وسیع ہو جاتی ہے۔ جب معیشت کو چند ماہ میں مضبوط کرنے والے خود چند ماہ تک وزیر خزانہ نہ رہ سکیں تو معیشت نہیں سنبھلے گی۔ جب ہر موقعہ پر فوج بلائیں گے تو سول ادارے مضبوط نہیں ہوں گے۔ جب تک اصلاحات نہیں لائیں گے کچھ تبدیل نہیں ہو گا۔

جب مہینے میں چار بار پیڑول مہنگا کریں گے تو مہنگائی کیسے کم ہو گی۔ اگر ایک روپیہ پیڑول مہنگا ہو تا ہے تو ہر چیز پانچھ روپے مہنگی ہو جاتی ہے۔ جب وزراء عوام کے ٹیکسوں سے مفت میں کھائیں پئیں گے تو انہیں مہنگائی کہاں نظر آئے گی۔عوام یہ سمجھتی ہے ملک کی بھاگ ڈور حکومت کے ہاتھ میں ہے جبکہ ایسا قطعا نہیں ہے۔ ہر حکومت کو سرمایہ دار، بیوروکریٹس، مافیا، مل مالکان، لینڈ لارڈزاوربااثر طبقات چلاتے ہیں۔ حکومتی پالیسی سازایسی پالیسیاں بناتے ہیں اور بجٹ کو اس انداز میں تیار کر تے ہیں جس سے انہیں فائدہ ہوتا ہے جبکہ عام آدمی ٹیکسوں کی چکی میں پستہ چلا جاتا ہے۔

ہمیں اپنی ترجیحات کو بدلنا ہو گا اور ایسے افراد کو اسمبلیوں تک پہنچانے سے توبہ کرنی ہو گی جن کو ہم اپنے ووٹوں سے اسمبلیوں تک پہنچانے کے بعد ان سے اپنے جائز کام کا کہتے ہوئے بھی نہ صرف کتراتے ہیں بلکہ ملاقات کا موقعہ بھی نصیب نہیں ہوتا۔ سب مسائل کا حل یہ ہے کہ عام آدمی ان سرمایہ داروں، جاگیرداروں، ٹھیکداروں، امراء اورموروثی سیاست دانوں کے بجائے عام آدمی کو ووٹ دے کر اسمبلیوں تک نہیں پہنچائے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
52335

داد بیداد ۔ مفت مشورہ ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

آج کل میڈیا میں مفت مشوروں کا بڑا چر چا ہے اس کو جمعہ بازار یا اتوار با زار اس لئے نہیں کہا جا سکتا کہ اس پر پیسہ نہیں لگتا بھاؤ تاؤ نہیں ہوتا بز عم خود بزر جمہروں اور دانشوروں کی طرف سے افغا نستا ن کی نئی قیا دت کو مفت مشورے دئیے جا رہے ہیں کچھ نا بغہ روز گار مشورہ باز ایسے بھی ہیں جو پا کستان کی تین سال پرا نی حکومت کو 2028تک حکومت کرنے کے لئے تیر بہدف نسخے بتا رہے ہیں اور مفت مشوروں سے نواز رہے ہیں ہمارے ایک دوست ہیں اُن پر ہر سال مشورہ بازی کا زبردست دورہ پڑ تا ہے جب دورہ آتا ہے تو وہ پرانے اور نئے مشوروں کی پوٹلی کھولتے ہیں اور فی سبیل اللہ تقسیم کر تے ہوئے نظر آتے ہیں.

آج صبح میں نے دیکھا مو صوف سات سمندر پار بیٹھے ہوئے سپر پاور امریکہ کو مفت مشوروں سے نواز رہے تھے انہیں یہ زعم تھا کہ امریکہ افغا نستا ن سے بے آبرو ہو کر نکلنے کے بعد دنیا میں نا م کما نے کا ابرومندا نہ راستہ تلا ش کر رہا ہے حا لانکہ واشنگٹن اور نیو یارک سے ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا ہمارے ایک دوسرے دوست کے پا س عالم اسلا م کے لیڈروں کے لئے مفید مشوروں کا تازہ سٹاک آیا ہوا ہے وہ صدر اردگان، صدر رئیسی اور شاہ سلمان بن عبد العزیز کو اپنے مفید مشوروں سے رات دن نواز رہے ہیں مفت مشورہ دینے والوں کا ایک المیہ ہے کہ وہ دوسری طرف سے مشورے کا رد عمل نہیں دیکھتے اور یہ بھی نہیں دیکھتے کہ جس کو مفت مشورہ دیا جا رہا ہے اس کو مشورے کی ضرورت بھی ہے یا نہیں؟

میں نے اپنے دوست سے کہا کہ مفت مشورے اپنے پا س سنبھا ل کر رکھو ملا ہیبت اللہ، ملا عبد الغنی برادر یا ملا حسن اخو ند کو مشوروں کی ضرورت پڑی تو وہ آپ کو کا بل بلا ئینگے یا خو د چل کر آ پ کے پا س آئینگے کہ پیا سا کنوئیں پر جا تا ہے کنواں پیا سے کو نہیں ڈھونڈ تا مگر میرا دوست نہیں ما نتا وہ کہتا ہے کہ مشورہ اما نت ہے اما نت ہر حال میں ان تک پہنچا نی چا ہئیے محض دل لگی کے لئے میں نے کہا اگر ان کو اس اما نت کی ضرورت نہ ہو، مشورہ باز نے بلا تو قف جواب دیا میرے سر سے بوجھ اتر جا ئے گا میں نے کہا تمہارے سر پر کس نے یہ بو جھ رکھا ہے؟ اُس کے پا س جواب نہیں تھا تا ہم میں سمجھ گیا مشورہ باز کی مثال انڈے دینے والی مر غی اور نظم کہنے والے شاعر کی طرح ہو تی ہے جب تک وہ ”ڈیلیور“ نہ کرے اُس کو سکون نہیں ا ٓتا.

اس لئے وہ مشورہ اپنے پا س نہیں رکھ سکتا 50مر د ایک میز کے ارد گرد بیٹھ کر اس بات پر افسوس کر تے ہیں کہ امارت اسلامی افغا نستا ن کی کا بینہ میں کوئی خا تون کیوں نہیں؟ ان کا مشورہ یہ کہ دو چار خواتین ضرور ہو نے چا ہئیں ان مشورہ بازوں سے کوئی نہیں پوچھتا کہ تم پچاس مر د یہاں خواتین کے حقوق کا دکھ سنبھالے بیٹھے ہو دو چار خواتین کو اپنے گرد پ میں جگہ کیوں نہیں دیتے َ؟ اس قسم کے دو چار سوالات آجا ئیں تو مشورہ بازوں کا نا طقہ بند ہو جا ئے گا ہمارے ایک دوست نے وزیر اعظم عمران خا ن کو مفت مشورہ دیا ہے کہ ڈالر کو 60روپے کے برابر لاؤ، آٹے کی 20کلو والی پیکنگ 800روپے کا لگاؤ چینی 55روپے کلو تک نیچے لے آؤ پیٹرول 70روپے اور ڈیزل 65روپے لیٹر لگاؤ.

2023ء میں بھاری مینڈیٹ کے ساتھ جیتو اور 2028تک جم کر حکومت کرو ہم نے مشورہ باز سے تین بے ضرر سوالات پوچھے عالی جا ہ یہ بتائیے وقت کے پہئیے کو پیچھے گھما کر 2021سے 1998کی سطح پر لے جا نے کا آلہ کب ایجا د ہوا؟ یہ آلہ کہاں دستیاب ہے؟ اور کتنے کا آتا ہے؟ مو صوف نے برا منا یا اور مجلس سے اُٹھ کر جا نے میں عا فیت محسوس کی دراصل مفت مشورہ دینے والوں کا مسئلہ یہ ہے کہ مشورہ تراشنے پر کوئی خر چہ نہیں آتا، کوئی مشقت اور محنت نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ جو بھی گھر سے با ہر نکلتا ہے مفت مشوروں کی زنبیل لیکر آتا ہے اور بلا ضرورت بے تکان بانٹتا جا تا ہے ہمارا مفت مشورہ یہ ہے کہ مفت مشورے اپنے پا س رکھو

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
52326

دھڑکنوں کی زبان – پتھر کا معاشرہ – محمد جاوید حیات

میں ایک شاگرد کے ابو کے جنازے میں شریک تھا لوگ جنازہ اٹھایے قبرستان کی طرف جا رہے تھے شاگرد جو ساتویں میں پڑھتا تھا ابو کی جدائی کے غم سے نڈھال تھا زارو قطار رو رہا تھا اپنے ابو کے جنازے کے ساتھ جا رہا تھا ۔کچھ نرم دل لوگ اس کو دیکھ کر افسوس کر رہے تھے ابھی تک یہ چہرہ میرے لیے اجنبی تھا بے شک یہ بچہ میرے سکول میں تھا لیکن میری اس کے ساتھ کوئی کلاس نہیں تھی اس لیے اس کو پہچاننے سے عاری تھا.

اب یہ بچہ مجھے تڑپا گیا تھا میں کرچی کرچی ہوگیا تھا ۔وہ کچھ دن بعد سکول آیے میں نے اس کے چہرے پر باپ سے محرومی کا اثر ضرور دیکھا اور وہ تشنگی بھی کہ اب کون میرے ابو کی کمی مجھے محسوس ہونے نہیں دے گا ۔میں نےاس کے دوست بننے کی بڑی کوشش کی اب وہ میرا دوست ہے اس کی سیاہی مائل صورت میری آنکھوں میں چاند بن کر اترتی ہے اور اس کی افسردگی میرے لیے چیلنچ ہے لیکن پتھر کے معاشرے میں ایک دن اس کے گاوٴں کا استاد مجھ سے پوچھتا ہے کہ یار یہ بچہ کون ہے جس کو تم اتنی اہمیت دیتے ہو ۔

میں نے اس کا تعارف کرایا اور کہا کہ دو مہینے پہلے اس بچے کا باپ مرا تو نے اس کو دفنایا اور تمہیں احساس نہیں ہوا کہ اس مردے کے گاوٴں کا ہو ں اس مردےکے بارے میں اس کے یتیم بچوں کے بارے میں پوچھوں معلومات حاصل کروں ان کی خبر گیری کروں۔۔میں نے دور گاؤں کی دو بہنوں کو روتی ہوئی شکوہ کرتی ہوئی دیکھا کہ بھائی ہمارے دو بھائ تھے انہوں نے الگ الگ گھر بنائے باپ کی جائیداد آپس میں تقسیم کیا اب بھابیاں ہم سے نفرت کرتی ہیں ہم کسی بھائی کے گھر بھی نہیں رہ سکتیں ۔ہم کیا کریں ۔میں نےایک ماں کو روتی ہوئی دیکھا کہا کہ بیٹا میں اپنی دونوں بہووں کو ناپسند ہوں اس وجہ سے میرے بیٹے بھی مجھ سے بہت نفرت کرتے ہیں موت آتی نہیں بیٹا زندگی سے بےزار ہو گیا ہوں ۔

میں نےعید کے قریب ایک مزدور کو چیختے چلاتے دیکھا کہ ٹھیکہ دار مزدوری نہیں دیتا عید آگئی ہے بچے بلک رہے ہیں میں کیا کروں ۔میں خود پتھر ہو ں میری تنخواہ آتی ہے اس میں سے بہن کا کوئی حصہ نہیں غریب کا کوئی حصہ نہیں ۔رشتہ داروں کا کوئی حصہ نہیں ۔تنخواہ قرض میں اڑ جاتی ہے۔ میں پھر سے تہی دست اور خالی جیب رہتا ہوں مجھے احساس نہیں ہوتا کہ میں نے دوسروں کا حق ادا نہیں کیا اس لیے خود قرضوں تلے دب جاتا ہوں ۔یا اللہ ! خیر سخاوت کوئی نہیں بڑے ظلموں نا انصافیوں عدالتوں میں گپلوں کی بات نہیں کر رہا ہوں.

معاشرے میں کرپشن محکموں میں اقرباء پروری کی بات نہیں کر رہا ہوں ایک عام انسانی معاشرے کی بات کر رہا ہوں نہیں لگتا کہ یہ انسانوں کا معاشرہ ہے یہاں پہ صلہ رحمی ہمدردی اور محبت کہیں نہیں ہے ییاں پر پیار محبت کہیں نہیں ہے یہاں رشتے ناطے کی قدر کوئی نہیں ہے۔ہم اللہ کی مدد اوررحم و کرم کی کیا امید رکھیں ہم اہل زمین کو بھول جاتے ہیں تو اللہ ہمیں بھول جاتا ہے ۔۔۔
کرو مہربانی اہل زمین پر
خدا مہربان ہوگا عرش برین پر

Posted in تازہ ترین, مضامین
52303

انتخابی عمل کے لئے فرشتے کہاں سے لائیں! – قادر خان یوسف زئی

الیکشن کمیشن نے الیکٹرونک ووٹنگ مشین پر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں 37 اعتراضات پر مشتمل اپنے اعتراضات جمع کرادیئے۔  چونکہ الیکشن کمیشن خودمختار اور آئینی ادارہ ہے،  دستور میں حاصل اختیارات کے تحت ان کے اعتراضات پر ریاستی توجہ ناگزیز ہے۔ بادیئ النظرمیں الیکشن کمیشن کسی سیاسی جماعت کے تابع نہیں، لیکن جو اعتراضات اٹھائے، وہ قابل غور ہیں، حزب اختلاف کی جماعتیں اپنے موقف پر قائم ہیں کہ انتخابی اصلاحات اور آئین سازی کے لئے حکومت کو پارلیمان سے رجوع کرنا چاہے تھا،  حالاں کہ یہ سلسلہ قریباََ گذشتہ دس برسوں سے شٹل کاک بنا ہوا ہے، پاکستان مسلم لیگ(ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اپنے ادوارِ حکومت میں انتخابی اصلاحات کے حوالے سے کچھ کام کرتی رہیں، الیکٹرونک الیکشن مشین بھی بنائی گئی جس پر سنگین تحفظات سامنے آنے پر سلسلہ آگے نہیں بڑھ سکا،  میں ذاتی طو پرکہہ سکتا ہوں کہ پی پی پی نے سپورٹ نہیں کیا تو ن لیگ کو، اب پی ٹی آئی کو دونوں جماعتیں سپورٹ نہیں کررہیں، اپنے اپنے دور میں حکمراں اور حزب اختلاف کی جماعتوں نے کسی بھی وجوہ پر عدالتی، احتسابی اور انتخابی اصلاحات کے لئے سنجیدگی سے آئین سازی کی کوشش نہیں کی، ممکن ہے کہ یہ عمل آگے بھی جاری رہے۔


 موجودہ حکومت صدارتی آرڈنینس کے ذریعے اگر قانون لاتی ہے تو بھی الیکشن کمیشن اور قانون کی تشریح و انصاف فراہم کرنے والے ادارے آئین کے برخلاف کوئی غیر آئینی حکم صادر نہیں کرسکتے، مثلاََ  پی ٹی آئی کی اتحادی جماعتیں بالخصوص ایم کیو ایم پاکستان کے لئے یہ فیصلہ بہت کٹھن ہوگا کہ اپنے مخصوص طرز طریقہ سے ہٹ کر تحفظات و تنازعات سے بھرے اس انتظامی حکم پر سر تسلیم خم کرلیں کیونکہ سندھ کے شہری علاقوں کا مینڈیٹ جس طرح ان کے ہاتھ سے مبینہ طور پر آر ٹی ایس،،آر ایم ایس کی وجہ سے نکلا، اگر متنازع مجوزہ ای وی ایم آگیا تو رہی سہی نشستیں بھی شاید ملنے کا امکان نہ ہو۔ یہ  ذاتی  رائے نہیں بلکہ ایک مخصوص لسانی طبقے کے چیدہ چیدہ احباب کا نقطہ نظر جاننے کے بعد اندازہ ہوا کہ متحدہ کو پہلے ہی پی ٹی آئی کے اتحادی بننے کے باوجود ان تین برسوں میں ماسوائے وزرات کے ایساکچھ نہیں  کرسکی جس سے اپنے خالص ووٹرز کی مطمئنکرسکتی، ان کی برداشت یا مفاہمت کے پیچھے بھی گنجلگ مجبوریاں ہیں،جس سے سب بخوبی آگاہ ہیں۔


2018 کے انتخابات میں آر ایم ایس اور آر ٹی ایس اگر ٹھیک ٹھاک رہتا او ر جس طرح کے دعویٰ کئے گئے، اُسی طرح عمل درآمد ہوتا تو شائد ای وی ایم پر اعتراضات کم ہوتے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں الیکٹرونک ووٹنگ مشین کو قابل اعتماد سمجھا ہی نہیں جاتا، راقم کی عقل اُس وقت دنگ رہ جاتی ہے کہ جب کوئی یہ کہتا ہے کہ یہ سٹم ہیک نہیں کیا جاسکتا، تو دنیا کی کون سی ایسی مشین ہے جو بغیر کسی سسٹم (پروگرامنگ) کے نہیں چلتی، اگر ہم سافٹ وئیر کو یہ سمجھتے ہیں کہ الگ سے انسٹال ہوگا تو انتہائی ناقابل فہم ہے، کسی بھی کمپیوٹر کو چلانے کے لئے جو ونڈو انسٹال کی جاتی ہے، وہ تو خود ہی ایک پروگرام ہے۔ کیا کسی پروگرام کے بغیر کوئی بھی مشین کام کرسکتی ہے،تو جواب یقینا نفی میں ملے گا، اسی طرح مشینوں میں انٹرنیٹ کا استعمال ہو یا نہ ہو، لاکھوں مشینوں میں سے چند ہزار مشینوں کے پروگراموں میں تبدیلی خارج از امکان نہیں پولنگ ایجنٹ کوئی سافٹ وئیر انجینئر تو نہیں ہوسکتا کہ وہ دس گھنٹے کے دورانیہ میں سیل شدہ مشین میں طے پروگرامنگ کو سمجھ سکے، خاص کر دیہی یا پہاڑی علاقوں میں۔ یہ بھی زمینی حقیقت ہے کہ انتخابات میں قریباََ کسی بھی سیاسی جماعت کے پولنگ  ایجنٹس، بالخصوص خواتین میسر نہیں ہوتی کہ ان کوہر بوتھ میں بیٹھایا جاسکے، لہذا پولنگ اسٹیشنوں کے اندر گھوسٹ بوتھ  کا ہونا انہونی نہیں،سچ کہا کہ جب وزیراعظم کا فون ہیک ہوسکتا ہے تو  ای وی ایم کوئی کیوں ہیک نہیں کرسکتا۔


 الیکشن کمیشن کا یہ کہنا کہ 150ارب روپے خرچ کرنے کے باوجود الیکشن کی شفافیت اور ساکھ مشکوک رہی گی، یہ حکومت کے لئے اہم سوالیہ نشان ہے کہ سیاسی جماعتوں کو الیکشن کروانے والے اداروں پر اعتماد نہیں، الیکشن کمیشن کے پاس اپنا انتخابی عملہ نہیں، سیاسی جماعتیں دراصل مبہم لفظوں میں یہ کہنا چاہ رہی ہیں کہ انتخابی سامان ریاستی اداروں کے پاس ہوتا ہے اس لئے ریاست میں شامل بعض عناصر کی مداخلت خارج از امکان نہیں، دوم الیکشن میں کلیدی کردار ریٹرننگ افسران کا ہوتا ہے جو ماتحت عدالت سے تعلق رکھتے ہیں، بدقسمتی سے نظام انصاف میں اصلاحات نہ ہونے اور کرپشن کی جڑیں بہت مضبوط ہیں اس لئے آر اوز پر اورتمام سیاسی جماعتوں کا پریزائڈنگ افسران و عملے پراعتماد کامل نہیں، سوم: الیکشن پروسیس کے لئے نچلی سطح کا متعین عملہ سیاسی سطح پر بھرتی  شدہ ہوتا ہے، ان کی سیاسی وابستگیوں نے ٹرن آوٹ 98 فیصد تک بڑھانے میں تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ اب اصل مسئلہ یہ درپیش ہے کہ فرشتے کہاں سے لائیں جو شفاف و صاف انتخابات کا انعقاد کراسکیں، کیونکہ ان کے نزدیک ریاست کے بعض ا عناصر قابلعتماد نہیں زیادہ تر آر اوز، پی اوزقابل بھروسہ نہیں، کمشنری نظام پر یقین کرنا بھوسے کو گندم سمجھنے کے مترادف ہے، سیاسی بھرتیوں کے کارکنان سے غیر جانب داری کی توقع عبث ہے۔


الیکشن کمیشن پر بھی بارہا قریباََ ہر جماعت نے عدم اعتماد ظاہر اور دفاتر کے باہر مظاہرے بھی کئے، اس لئے فی الوقت  ای وی ایم پر بحث کرنے کے بجائے ضرورت اس اَمر کی ہے کہ پہلے اداروں پر سیاسی جماعتوں اور عوام کا اعتماد بحال ہو۔ دوم ایسا طریق کارمتفقہ طور پر لایا جائے جس سے پارلیمان میں بیٹھی اور ایوان کا حصہ نہ بننے والی جماعتیں بھی مطمئن ہوں کیونکہ جمہوری نظام میں اکثر وہی جماعت کامیاب ہوتی ہیں جن کی مخالف جماعتیں اجتماعی طور اُن سے زیادہ ووٹ لیتی ہیں لیکن منقسم ہونے کی وجہ سے ایوان کا حصہ نہیں بن پاتیں۔ اس مرحلے پر تکینکی طور پر ای وی ایم کی سنگین خامیوں پر اظہار خیال نہیں کرنا چاہتا کیونکہ الیکشن کمیشن ایک خود مختار ادارہ ہے، جب تک وہ کسی نتیجے پر پہنچ نہیں جاتا، اس کے بعد ہی  فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی۔  معاملہ حساس اور ملک کے مستقبل کا ہے، عوامی نمائندوں، ایوان سے باہر سیاسی جماعتوں اور سب سے اہم الیکشن کمیشن کی حتمی و متفقہ رائے نہ ہونے تک چپ رہیں تو یہ ہم سب کے حق میں بہتر ہے۔ 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
52297

دوائے دل – افغان طالبان ۔ تختے سے تخت تک! – (محمد شفیع چترالی)


نائن الیون کے واقعات کو کل بیس برس کا عرصہ مکمل ہورہا ہے اور وقت کی گردش کا کمال بلکہ عجوبہ یہ ہے کہ ان بیس برسوں میں دنیا بہت سے انقلابات،جنگوں،حوادث اور تبدیلیوں کے باوصف ایک بار پھر گھوم کر اس نقطے پر آ کھڑی ہوئی ہے جہاں نائن الیون کے وقت تھی۔ کل جب واشنگٹن اور نیویارک میں امریکی شہری نائن الیون میں مارے جانے والے اپنے پیاروں کا ماتم کر رہے ہوں گے،کابل اور قندہار میں افغان طالبان اپنی نئی حکومت کے قیام کا جشن منارہے ہوں گے۔ آج کے دن کا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ وہ کیا اسباب و وجوہ ہیں جن کے باعث انسانی تاریخ کی جدید ترین عسکری ٹیکنالوجی سے لیس پچاس کے قریب ممالک کی افواج افغانستان کے بے سرو سامان طالبان کو شکست نہ دے سکیں اور انسانیت کا کھربوں ڈالرز کا سرمایہ اور اسلحہ افغانستان میں بے کار اور ضائع چلا گیا۔ دنیا بھر کے مبصرین اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کے مختلف پہلوؤں پر بحث ہورہی ہے مگر اس حقیقت کا اعتراف کہیں نہیں کیا جارہا کہ اس جنگ کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ دراصل اس کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز ہی نہیں تھابلکہ یہ محض انتقامی جذبے کے تحت اندھا دھند شروع کی جانے والی ایک مہم جوئی تھی جس کا واحد مقصد اپنی دھاک بٹھانا تھا۔ اس کا بالاخر یہی نتیجہ نکلنا تھا جو کہ نکلا۔


آج بیس برس بعد کا منظر نامہ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ آپ کھربوں ڈالرز کا سرمایہ اور آدھی دنیا کی معاشی و عسکری طاقت لگاکر بھی غلط کو صحیح، جھوٹ کو سچ اور باطل کو حق بناکر نہیں دکھاسکتے۔ اتحادی افواج اس لیے افغانستان میں ذلت وادبار سے دوچار ہوئیں کہ ان کے پاس لڑنے کے لیے اسلحہ اور سرمایہ تو بے تحاشا تھا،پر کوئی نظریہ، مقصد اور جذبہ نہیں تھا جبکہ طالبان اس لیے سرخ رو ہوئے کہ ان کے پاس اسلحہ اور وسائل تو نہ ہونے کے برابر تھے تاہم لڑنے کا جذبہ،نظریہ اور اپنے حق پر ہونے کا حد درجے کا پختہ یقین تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کی سرفروشانہ جدوجہد اور بے مثال مزاحمت نے دنیا میں طاقت کے فلسفے اور ٹیکنالوجی کی خدائی کے تصور کو دفن کرکے رکھ دیا ہے۔ یہ صرف افغانستان کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کی محکوم اور مظلوم اقوام کے لیے حوصلے اور امید کا ایک پیغام ہے کہ آج کی دنیا میں بھی سچ اور حق پر مبنی جدوجہد ہی کامیابی کا ذریعہ ہے۔
طالبان اپنی بیس سالہ جدوجہد کے دوران تین محاذوں پر ناقابل تسخیر رہے اور پوری دنیا کوحیران کرکے رکھ دیا، جس کی شاید ان کے بہت سے حامیوں کو بھی توقع نہیں تھی۔ پہلا محاذ عسکری مبارزت کا تھا جس میں افرادی قوت، مادی وسائل، اسلحے، سرمایے اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے ان کا اتحادی افواج کی طاقت سے کوئی مقابلہ ہی نہیں بنتا تھا۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے جب اتحادی افواج نے افغانستان پر جارحیت کا آغاز کیا اور دیوہیکل بی باون طیاروں سے ”بموں کی ماں“ کہلانے والے ڈیزی کٹر بم گرانا اور کارپٹ بمباری کرکے آن واحد میں بستیوں کی بستیاں اڑانا شروع کردی تھیں تو ادھر پاکستان میں بیٹھے ہمارے بہت سے دانشوروں کے بھی دل دہل گئے تھے اور کہا جاتا تھا کہ آج کی دنیا میں گھوڑوں خچروں پر بیٹھ کر دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرنے والے دیوانے ہیں۔ مگر پھر دنیا نے دیکھا کہ انہی دیوانوں نے کس طرح اپنی چھاپہ مار کارروائیوں کے ذریعے اتحادی افواج کو ناکوں چنے چبوائے اور دنیا بھر کے فرزانوں کے ہوش اڑانے شروع کر دیے۔ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف افغانوں کی جدوجہد کو امریکا کے کھاتے میں ڈالنے والے ہمارے دانشوروں کو آج سمجھ نہیں آرہی کہ طالبان کی اس فتح کو کس کھاتے میں ڈال دیں۔


یہ تو ہوئی عسکری محاذ کی بات جہاں طالبان نے ایک طرح سے افغانوں کی تاریخ کو ہی دوہرایا ہے۔ اس محاذ پر ماضی میں بھی افغان ناقابل تسخیر رہے۔ دوسرا محاذ جوکہ افغانوں کی تاریخ کا ایک کمزور باب ہے اور جہاں کئی دفعہ عسکری محاذ کی جیتی ہوئی جنگیں بھی ہاری گئی ہیں، معاشی اور مالی ترغیبات کے جال سے بچنے کا ہے جس میں طالبان نے تاریخ کو بدل کررکھ دیا ہے۔ واقفان حال جانتے ہیں کہ افغانستان میں ابتدائی دو تین برسوں کے اندر ہی امریکا اور عالمی طاقتوں کو اندازہ ہوگیا تھا کہ عسکری میدان میں طالبان کو شکست دینا ممکن نہیں ہے،چنانچہ ہمیشہ کی طرح ڈالروں کی تجوریاں کھول دی گئیں اور ایک ایک طالبان کمانڈر کولاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں ڈالرز کی پیشکش کرکے خریدنے کی کوشش کی گئی،خاص طور پر مذاکرات کے آغاز کے بعد تو کہا جاتا ہے کہ ایک نہیں بلکہ کئی ممالک کی جانب سے طالبان کے اہم رہنماؤں کو اپنے دام میں لانے کے لیے ہر ایک کو سونے میں تولنے کی پیش کش کی گئی مگر یہ مردان خود آگاہ و خدامست اس محاذ پر بھی ثابت قدم رہے اور دنیا کے درجنوں ممالک مل کر ان میں سے کسی ایک کو بھی خرید نہ سکے۔


اس سے اگلا محاذ سفارت کاری اور مذاکرات کا تھا۔ بہت سے مبصرین کا خیال تھا کہ یہ سیدھے سادھے افغان ملا اپنے مخصوص قبائلی پس منظر اور جنگی ماحول کی وجہ سے عسکری میدان میں تو زیر نہیں ہوئے تاہم مذاکرات کی میز پر دنیا کے گھاگ ترین سفارت کاروں اور چرب زبان”زلمیوں“ کے آگے ٹکنا شاید ان کے بس کی بات نہ ہو۔ پھر ظاہر ہے کہ مذاکرات ہمیشہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور جہاں مدمقابل دنیا کا واحد سپر پاور کہلانے والا ملک ہو تو کچھ نہیں بلکہ بہت کچھ دے کر ہی اپناکچھ منوایا جاسکتا ہے مگر یہاں بھی طالبان حوصلے اور تدبر کا پہاڑ ثابت ہوئے۔ انہوں نے کسی بھی مرحلے پر کسی عجلت، کمزوری، مجبوری یا طمع کا تاثر نہیں پیدا ہونے دیا جبکہ مد مقابل کی عجلت،مجبوری اور بے بسی کا مزہ لیتے رہے چنانچہ جب دوحہ میں مذاکرات کے بعد معاہدے کا اعلان ہوا تو ملابرادر کے چہرے پر فاتحانہ تمکنت اور امریکی وزیر خارجہ کی”مسکینی“کا ساری دنیا نے مشاہدہ کیا اور درحقیقت یہی وہ لمحہ تھا جب افغانستان کے مستقبل کی پیشانی پر طالبان کا نام کندہ ہوگیا تھا۔ اس لیے اب امریکا اور اس کے اتحادیوں کا بچارے اشرف غنی سے یہ شکوہ بالکل بے جا ہے کہ وہ پندہ اگست کی شام کو کیوں کابل چھوڑ کر بھاگ گیا۔ یہ تو نوشتہئ دیوار تھا اور ظاہر ہے کہ جان بچانا بھی توفرض ہے!


طالبان کی جدوجہد کا چوتھا اور فیصلہ کن مرحلہ 15 اگست کے بعدسے شروع ہوچکا ہے اور شاید یہی سب سے مشکل اور حوصلہ آزما مر حلہ ہے۔ یہ مرحلہ افغانستان میں ایک ایسی مضبوط اور پائے دار اسلامی حکومت کے قیام کا ہے جو افغان قوم کوچار عشروں پر محیط جنگ، خانہ جنگی،غربت،افلاس اور محرومیوں سے نجات دلاکر امن، ترقی،استحکام اور استقلال کی شاہراہ پر گامزن کرسکے۔ اس کی اہمیت صرف افغانستان کے حوالے سے ہی نہیں ہے بلکہ حالیہ تاریخ میں شاید پہلی دفعہ مسلمانوں کو ایک ایسا ملک اور ماحول میسر آگیا ہے جہاں وہ آزادی کے ساتھ اسلامی فلاحی ریاست کا ایک نمونہ اور ماڈل پیش کرسکتے ہیں۔ بین الاقوامی دباؤ کے موجودہ ماحول میں یہ کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن اگر طالبان نے مذکورہ بالا تین مراحل کی طرح یہاں بھی تدبر سے کام لیا اور اپنی زیادہ توجہ ظواہر کی بجائے افغان عوام کے بنیادی مسائل یعنی بے امنی، غربت، بے روزگاری اور جہالت کے خاتمے اور عدل و انصاف، تعلیم، صحت، روزگار اور امن کی فراہمی پر مرکوز کی تو کوئی وجہ نہیں کہ افغانستان ایک جدید ترقی یافتہ اسلامی فلاحی ریاست کی شکل میں پوری دنیا کے سامنے ایک مثال نہ بن سکے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , ,
52274

تجار یونین چترال کےانتخابات ۔ محکم الدین ایونی

تجارت کسی بھی معاشرے کے استحکام کیلٸے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اس لۓ موجودہ دور میں وہ ممالک سب سے مضبوط اور طاقتور سمجھے جاتے ہیں ۔ جو مالی لحاظ سے مستحکم ہوں ۔ لین دین کی بنیاد وہ باہمی اعتماد ہے ۔ جو ایک گاہک اور دکاندار کے مابین شروع ہوتی ہے ۔

چترال سرکاری مردم شماری کے مطابق چار لاکھ سینتالیس ہزار اور غیر سرکاری اعدادو شمار کے مطابق سات لاکھ سے زیادہ ابادی پر مشتمل ہے ۔ جو کہ اب دو اضلاع میں منقسم ہو چکا ہے ۔ لیکن اگر دیکھا جاۓ ۔ تو اپر چترال کی ابادی کی خریداری کا بڑا انحصار اب بھی لوٸر چترال کے مین بازار پر ہے ۔اس لٸے تعمیرات سے لے کر خوراک پوشاک تعلیم و صحت اور غمی و خوشی کی تمام تر خریداری کا بڑا مرکز چترال مین بازار ہی ہے ۔ جس میں روزانہ کروڑوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے ۔ اس لٸے اس بازار کی کاروباری اہمیت مسلمہ ہے۔ اور اس کی تنظیم تجار یونین چترال کے نام سے بہت مضبوط تنظیم ہے ۔ جو چترال کے نامور شخصیات کی سرپرستی میں بہت قدیم سے قاٸم ہے ۔ بد قسمتی سے گذشتہ الیکشن سے تاجر یونین کو نظر لگ گٸی تھی۔ اور تجاریونین کے اندر اختلافات ذاتیات کی شکل اختیار کر چکے تھے ۔ ان تنازعات کی وجہ سے ضلعی انتظامیہ چترال تجار یونین کے انتخابات کے حق میں نہیں تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ تجار یونین کی عبوری کابینہ جب انتخابات کیلٸے پولنگ بوتھ قاٸم کرنے کے سلسلے میں ٹاون ہال اور پولوگراونڈ کی منظوری طلب کی, توڈپٹی کمشنر چترال نے صاف انکار کر دیا۔ بلکہ کامرس کالج ہال میں بھی تجار یونین کے انتخابات کی اجازت نہیں دی گٸی ۔ جو تجار یونین اور تمام ممبران کیلٸے ایک بڑے دھچکے سے کم نہیں تھی ۔

ایسے ماحول میں دو اداروں چترال پولیس اور چترال پریس کلب کا کردار نہایت ہی قابل ستاٸش ہے ۔ جنہوں نے عبوری کابینہ تجار یونین چترال کی درخواست قبول کرکے اپنے ادارہ ہونے کا ثبوت دیا ۔ اور ان کے مطالبے پر اپنی زیر نگرانی انتہاٸی شفاف طریقے سے ڈور ٹو ڈور جا کر دونوں امیدواروں کے پولنگ ایجنٹس کی موجودگی میں تمام دکانداروں کو ووٹ ڈالنے کی سہولت فراہم کی۔ اور دونوں امیداروں اور ان کے پولنگ ایجنٹوں کی موجودگی میں گنتی کرکے نتاٸج کا اعلان کیا ۔ جس کو تجار یونین کے عبوری کابینہ کے صدر حبیب حسین مغل وکامیاب شدہ امیدوار بشیر احمد اور رنر اپ امیدوار نور احمد چارویلو نے نہ صرف تحریری طور پر قبول کیا ۔ بلکہ پریس کلب میی انتخابی نتاٸج کے اعلان سننے کیلٸے جمع شدہ جمع غفیر سے خطاب کرتے ہوٸے نور احمد چارویلو نے جس جمہوری روایات کی پاسداری کی مثال قاٸم کرتے ہوٸے ڈی پی او چترال محترمہ سونیہ شمروز خان ، صدر پریس کلب ظہیرالدین اور ان کی ٹیم کا شکریہ ادا کیا ۔ اور کہا۔ کہ ان دونوں اداروں کی مشترکہ کوششوں اور تعاون سے الیکشن شفاف طریقے سے ہونے ممکن ہوٸے اور میں دل سےتاجروں کا فیصلہ قبول کرتا ہوں ۔

چارویلو کی اس خطاب سے ان کی خاندانی شرافت ، سیاسی بالیدگی اورجمہوری ذہن کی عکاسی ہوتی ہے ۔ انہوں نے نہ صرف اپنے حریف نو منتخب صدر بشیراحمداور ان کی کابینہ کو مبارکباد دی ۔ بلکہ ان کےشانہ بشانہ چترال بازار کے مساٸل حل کرنے کیلٸے بھرپور تعاون کا یقین دلایا ۔ جبکہ بشیر احمد نے بھی نور احمد چارویلو کو ساتھ لے کر دکانداروں کو درپیش مساٸل حل کرنے کی یقین دھانی کی۔

خصوصا چترال بازار میں انتظامیہ کی طرف سے دکانداروں کو أٸے روز بھاری جرمانہ کرنے کے خلاف مشترکہ طور پر بھرپور اواز اٹھانے کے عزم کااظہار کیا ۔ لیکن بعض افراد کو کامیاب اوررنراپ امیدواروں کے باہمی تعاون کا فیصلہ بالکل بھی نہیں بھایا ۔ اور انہوں نے فیس بک پر شفاف ترین الیکشن کے خلاف بنیاد پروپگنڈا کرکے باہمی تعاون کی فضا کو انتقام اور نفرت میں تبدل کرنےکی کوشش کی ہے ۔ ” پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو “ محاورے کےمصداق تاجر اپس میں دست و گریبان ہوں ۔ اور ادارے اپس کی اس اختلاف سے فاٸدہ اٹھاٸیں ۔ یہ رویہ کسی بھی چترالی فرد خصوصا دکانداروں کے مفاد میں نہیں ہے۔ میری فیس بکی دوستوں سے گذارش ہے ۔ کہ وہ کم از کم ایسا لطیفہ تو گھڑیں ۔ جس میں پانچ فیصد حقیقت ہو اور چترالی قوم کے مفاد میں ہو ۔ سو فیصد جھوٹ کسی کو بھی اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکتی ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
52265

فوجداری قوانین میں ترمیم ۔ محمد شریف شکیب

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو سماجی انصاف کے نظام میں اصلاحات کا آخر کار خیال آہی گیا۔ وزارت قانون و انصاف نے نظام انصاف میں اصلاحات کا ایک جامع پیکیج تیار کر لیا ہے جس کے تحت فوجداری نظام میں 225بنیادی جبکہ 644ذیلی ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔ ترمیمی مسودہ قانون کے تحت مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کی صورت میں ججوں کو بھی جواب دہ بنایا گیا ہے۔ وزارت قانون کی جانب سے جن قوانین میں ترامیم کی سفارزشات تیار کی گئی ہیں ان میں پاکستان پینل کوڈ،کوڈ آف کریمنل پروسیجر،قانون شہادت،پاکستان پریزنزرولز،پاکستان ریلویز ایکٹ،کنٹرول آف نارکوٹکس ایکٹ سمیت دیگر ترامیم شامل ہیں۔تعزیرات پاکستان کے تحت ملک میں جو قوانین نافذ ہیں وہ نوآبادیاتی دور میں وضع کئے گئے تھے۔

انگریزوں نے ہندوستانیوں کو محکوم رکھنے کے لئے جو قوانین وضع کئے تھے انگریزوں اور ہندووں سے آزادی حاصل کرنے کے باوجود ان کے وضع کردہ قوانین میں کسی ترمیم اور تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ ماضی میں بھی بدلتے وقت کی ضروریات کے مطابق قوانین میں ترمیم کی تجاویز طلب کی جاتی رہیں مگر وہ تجاویز صرف فائلوں تک محدود رہیں۔وزارت قانون و انصاف نے فوجداری قوانین میں ترمیم کا جو مسودہ تیار کیا ہے۔

اس میں گذشتہ 20سالوں کی تمام سفارشات کو یکجا کرکے چاروں صوبائی حکومتوں کے ایڈوکیٹ جنرلز، وکلا،این جی اوز اور دیگر اداروں کی مشاورت کے بعد ایک ڈرافٹ تیار کیا گیا ہے۔ترمیمی قوانین کے تحت عدالتوں میں مقدمات کے غیر ضروری التوا کو ختم کیا جاسکے گا اور ماتحت عدالتوں میں مقدمات کے التوا کی وجوہات بتانا ہونگی عدالتوں کو مقدمات کے التواء کی تحریری وضاحت دینی ہوگی۔وزارت قانون کا دعویٰ ہے کہ ترمیمی مسودہ قانون کی منظوری اور نفاذ سے ایف آئی آر کے اندراج کا نظام تیز تر ہوگا۔ مقدمات کی پیروی میں غیر ضروری تاخیر بھی ختم ہوجائے گی۔مجوزہ اصلاحات میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو بھی قانون شہادت میں شامل کیا جائے گا۔فوجداری قوانین میں اصلاحات کا مسودہ وزیراعظم کوبھجوایا گیا ہے۔

وزیر عظم کی منظوری کے بعد یہ اصلاحاتی مسودہ کابینہ اور بعد ازاں پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔کہتے ہیں کہ انصاف کی فراہمی میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے۔ ہمارے ہاں مروجہ فرسودہ اور دقیانوسی قوانین کی وجہ سے انصاف کی فراہمی میں مہینوں نہیں بلکہ برسوں لگ جاتے ہیں۔ قصور وار پولیس، وکلاء اور ججوں کو ٹھہرایاجاتا ہے۔ قوانین میں سقم کا فائدہ ہمیشہ مجرموں کو پہنچتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں جرائم کی شرح مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ کسی کو بھی قانون کی گرفت کا خوف نہیں ہوتا۔ فوجداری قوانین کی طرح دیوانی قوانین میں بھی وسیع اصلاحات کی ضرورت ہے۔

خصوصاً وراثت کے قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی ضرورت ہے تاکہ حقداروں کو ان کا حق مل سکے۔ ہمارے ہاں جائیداد کے تنازعات برسوں نہیں بلکہ صدیوں تک چلتے ہیں۔ جب فیصلہ آتا ہے تو سائل اس جائیداد کی قیمت سے دس گنا زیادہ عدالتوں میں مقدمہ بازی پر لٹا چکا ہوتا ہے۔ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین معروضی حالات اور وقت سے مطابقت رکھتے ہیں۔ معاشرے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے مطابق قوانین میں بھی تبدیلیوں اور اصلاحات کی ضرورت ہوتی ہے۔ نصف صدی قبل کے معاشرے، اور آج کے اقدار، حالات و واقعات اور ضروریات میں آسمان و زمین کا فرق ہے۔

پاکستان کا پہلا متفقہ آئین 1973میں مرتب کیاگیا تھا۔ گذشتہ 48سالوں میں آئین پاکستان میں 23ترامیم کی گئی ہیں۔ 1973سے 1977تک ابتدائی چار سالوں میں آئین کے مندرجات میں 34بار ردوبدل کیاگیا۔ دس مرتبہ ایکٹ آف پارلیمنٹ، 24مرتبہ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے آئین کے مندرجات تبدیل کئے گئے۔ اور سات مرتبہ پارلیمنٹ کے ذریعے آئینی ترامیم منظور کی گئیں۔لیکن آزادی کے 74سال گذرنے کے باوجود ملک میں ایک صدی پرانے دیوانی اور فوجداری قوانین نافذ ہیں توقع ہے کہ وزارت قانون و انصاف کی طرف سے فوجداری قوانین میں ترامیم کی سفارشات کی تمام سیاسی جماعتیں وسیع تر قومی اور عوامی مفاد میں منظوری دیں گی۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
52263

مستوج خاص میں آغاخان ہائیرسیکنڈری سکول کے قیام کاخوش آئند فیصلہ ۔ خالد حسین تاج

آغاخان ایجوکیشن سروس نے تعلیم کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے مستوج میں بھی بچوں اور بچیوں کو کوالٹی ایجوکیشن فراہم کرنے کے لئے بہترین اور جدید طرز کا ہائی سیکینڈری سکول بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔


اعلیٰ معیار کی تعلیم و تربیت کسی بھی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ تعلیم کے بغیر کوئی بھی قوم اور معاشرہ اپنے مقاصد اور اہداف حاصل نہیں کر سکتا۔ باشعور قوم ہی ایک مثالی معاشرہ قائم کر سکتی ہے اور تعلیم کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ تعلیم کی اہمیت ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کی اس حدیث سے بہتر طور پر اجاگر ہوتی ہے ’’علم حاصل کرو چاہئے تمہیں اس کے لئے چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔‘‘جنوبی افریقہ کے انقلابی رہنما نیلسن منڈیلا نے کہا تھا کہ ’’تعلیم ایک ایسا طاقتور ہتھیار ہوتا ہے جس کے ذریعے سے آپ دنیا بدل سکتے ہیں

چترال میں اچھی کوالٹی کی تعلیم مہیا کرانے میں آغاخان ایجوکیشن سروس نے سب سے اہم کردار ادا کیا آغاخان ہائی سیکینڈری سکول کوراغ اور سین لشٹ کے طلبا طالبات ہر سال پاکستان کے بہترین یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوتے ہیں اس سال سین لشٹ اور کوراغ کے ہائیر سیکینڈری سکول سے FSC کرنے والے 5 طلبا و طالبات کو امریکہ کے بہترین یونیورسٹیوں نے 100% سکالرشپ دیدیا۔ جبکہ اسی سال کوراغ کے ہائر سیکینڈری سکول سے تعلیم حاصل کرنے والی شازیہ اسحاق نے CSS کا امتحان پاس کر کے ملاکنڈ ڈویژن کی تاریخ میں پہلی خاتون پولیس آفسر بننے کا اعزاز حاصل کیا۔

آغاخان ایجوکیشن سروس چترال میں گزشتہ 40 برسوں سے اچھی تعلیم فراہم کرنے کے سلسلے میں کام کر رہا ہے اس سلسلے میں کمیونٹی نے بھی اس کا بھرپور ساتھ دیا۔ مستوج کے عوام کی خوش قسمتی ہے آغا خان ایجوکیشن سروس نے مستوج میں بھی اعلئ کوالٹی کا ہائر سیکنڈری سکول 2022 میں بنانے کا فیصلہ کیا ہے اس حوالے سے مستوج میں آغاخان ہائی سیکینڈری سکول کے لئے زمین خریدنے کے سلسلے میں ایک اہم اجلاس شہزادہ سیکندر الملک کی زیر صدارت آغا خان سکول مستوج میں منعقد ہوا ۔

اجلاس میں آنری سیکٹری آغان ایجوکیشن بورڈ پاکستان امجد نادر تاج نے خصوصی طور پر شرکت کی، جبکہ لوکل کونسل کے پریذیڈنٹ امام الدین اور کنوینر آغاخان سکول شیر غازی استاد کے علاوہ علاقے کے عمائدین نے بھی شرکت کی۔ اجلاس کا مقصد سکول کے لئے مزید دو کینال زمین خریدنے کے لئے کمیونیٹی کی طرف سے فنڈ مہیا کرنا تھا اس حوالے سے علاقے کے عمائدین نے اپنی طرف سے سکول کے لئے زمین خریدنے کے سلسلے میں ڈونیشن دینے کا اعلان کر دیا


انجینئر امجد نادر تاج نے پاسوم فیملی کی طرف سے سکول کی زمین کے لئے 5 لاکھ ڈونیشن دینے کا اعلان کر دیا تھا، آج 9 ستمبر کو امجد نادر تاج نے 5 لاکھ روپیہ سکول کے اکاونٹ میں جمع کرا دیا جبکہ محئی الدین منیجر نیشنل بینک نے ایک لاکھ روپے دینے کا اعلان کر دیا ہے۔شہزادہ سکندر الملک سمیت اجلاس میں موجود علاقے کے عمائدین نے بھی اپنی استطاعت کے مطابق زمین کی خریداری کے لئے ڈونیشن دینے کا اعلان کیا ہے۔

امیدہے کہ زمین کی خریداری کے بعد ادارہ سکول کی تعمیر پر کام شروع کریگا۔ اس سکول کی قیام سے مستوج سے لیکر لاسپور اور بروغل تک کے عوام خصوصی طورپر مستفید ہونگے۔ اور لوگوں کے دہلیز پر ایک معیاری درسگاہ کی سہولت میسرآئیگی۔ امید ہے کہ عوام اور ادارہ ملکراس سکول کو کامیاب بنانے میں کردار ادا کریں گے۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
52242

انسان اورخواندگی:جنم جنم کاساتھ (8ستمبر:عالمی یوم خواندگی کے موقع پر خصوصی تحریر)-ڈاکٹر ساجد خاکوانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

انسان اورخواندگی:جنم جنم کاساتھ

International Literacy Day

(8ستمبر:عالمی یوم خواندگی کے موقع پر خصوصی تحریر(

ڈاکٹر ساجد خاکوانی (اسلام آباد،پاکستان)

                خواندگی یاکتاب بینی و کتابت کتاب اتنی ہی قدیم ہے جتناکہ خود حضرت انسان قدیم ہے،کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ ہی کچھ صحائف نازل ہوئے تھے۔ان صحائف سمیت ایک حدیث نبوی ﷺ کے مطابق اللہ تعالی نے آسمان سے تین سوتیرہ یاتین سو پندرہ کتابیں نازل کی ہیں۔یہ کتابیں انسان کی ہدایت کے لیے نازل کی گئی تھیں۔پس کہاجاسکتاہے کہ انسان اورخواندگی کتاب اس زمین پر ساتھ ساتھ ہی اترے ہیں۔جس طرح کوئی بھی نئی مشین خریدکر لائیں تواس مشین کے بنانے والے ایک کتابچہ ساتھ دیتے ہیں جس میں اس مشین کے استعمال کی ہدایات درج ہوتی ہیں اسی طرح اللہ تعالی نے بھی انسان کو بناکر اسکے استعمال کی ہدایات کے طور پر آسمانی کتابیں نازل کی ہیں۔جس طرح ہر مشین خریدنے والے کی مشین اسی صورت میں میں صحیح،درست اور مطلوبہ نتائج فراہم کر سکتی ہے اگروہ اسے کتاب میں درج ہدایات کے مطابق استعمال کرے،اسی طرح انسان کے بنانے والے کی ہدایات کے مطابق اگر انسان کی صلاحیتوں اور قوتوں کو استعمال کیاجائے تو اس تخلیق سے بھی مطلوبہ نتائج برآمدہوسکتے ہیں۔اور اگر انسان کا استعمال اس کے بنانے والے کی طرف سے بھیجی گئی کتاب کے مطابق نہ ہو اور انسان اپنی عقل،روایات،خواہشات  یااندازوں،تخمینوں اور ظن و گمان اور وہم و خیال  کے مطابق کوئی نظام بناکر انسانی معاشرے کو چلانا چاہے تو اسکا وہی انجام ہو گا جو ایشی مشین کاجس کو کتاب میں لکھی گئی ہدایات کے الٹ اپنی مرضی سے چلانا چاہے۔

                اس سے بڑھ کرخواندگی کتاب کی کیااہمیت ہوگی کہ خالق کائنات نے بھی کتاب کے اس وجود کواپنی ہداہت کے سامان کاسبب بنانامنظور کیاہے اور قیامت کے دن بھی انسان سے کہاجائے گاکہ ”وَ کُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰہُ طٰٓءِرَہ‘ فِیْ عُنُقِہٖ وَ نُخَْرِجُ لَہ‘ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ کِتٰبًا یَّلْقٰہُ مَنْشُوْرًا(۷۱:۳۱) اِقْرَاْ کِتٰبَکَ کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا(۷۱:۴۱)“ترجمہ:”ہرانسان کاشگون ہم نے اس کے  اپنے گلے میں لٹکارکھاہے،اورقیامت کے دن ہم ایک نوشتہ اس کے لیے نکالیں گے جسے وہ کھلی کتاب کی طرح پائے گا،(کہاجائے گا) اپنی کتاب پڑھ لے،توآج اپنے حساب کے لیت خود ہی کافی ہے“۔حضرت ادریس علیہ السلام اللہ ٰتعالی کے وہ برگزیدہ نبی تھے جن سے فن تحریریعنی خوانگی و کتابت کاآغاز ہوااورقبیلہ بنی نوع انسان میں سب سے پہلے اس نبی نے قلم سے لکھنے کاآغاز کیا۔ایک زمانہ تھاجب کاغذنہیں تھا اور کتابیں پتھروں پر اسی طرح لکھی جاتی تھیں جس طرح آج کل قبروں پر لگی صاحب قبر کے نام کی سنگی تختی لکھی جاتی ہے۔حضرت موسی علیہ السلام کو توریت پتھرپر لکھی ہوئی صورت میں ملی اوربمشکل ایک دو مزیدنقول اس مقدس کتاب کی تیارکرلی گئی ہوں گی اور پھر اس کتاب کے نسخوں کو تابوت سکینہ میں رکھ دیاگیاجسے بہت سارے بیل مل کر کھنچتے تھے۔ایک بار وہ بیل اتنی رفتار سے دوڑے کہ بنی اسرائیل ان کا پیچھانہ کرسکے اور آسمانی کتب کے نسخے گم ہوگئے۔طالوت کی بادشاہت کے دوران اللہ ٰتعالی کے وعدے کے مطابق وہ کھویاہواتابوت سکینہ پھر بنی اسرائیل کو لوٹا دیاگیا۔حضرت داؤدعلیہ السلام کو زبور عطا کی گئی جس کی نقول بھی پتھر پر کنداں کی گئیں۔توریت اور زبور دونوں عبرانی زبان میں نازل ہوئیں اور انکے مجموعے کو عہدنامہ قدیم کہتے ہیں۔بخت نصر کے حملے میں ان دونوں کتابوں کو نذر آتش کردیاگیایہ حضرت عیسی علیہ السلام سے کوئی پانچ چھ سو سال پہلے کی بات ہے۔دور مسیحی تک کم و بیش پانچ یا چھ دفعہ عہدنامہ قدیم کا تواتر مجروح ہوااور متعدد بار کتابوں کا یہ مجموعہ گم ہوگیایا نذرآتش ہوگیااور دودوتین تین نسلوں کے وقفے سے یادداشت کی بناپر ان کتب کو دوبارہ تحریرکیاگیا۔

                حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانے تک مسودوں کی املاء کے لیے کپڑا اور چمڑابھی استعمال کیاجانے لگااور تحریراپنے اس ارتقائی دور میں کتابی شکل اختیارکرنے لگی۔انجیل مقدس کی آیات اور حضرت عیسی علیہ السلام کے حالات زندگی پرمشتمل مسودے کم و بیش ڈھائی سو کی تعداد میں مرتب کیے گئے،جن میں سے چار مسودے آج تک بائبل کے عہدنامہ جدیدکاحصہ ہیں اور انہیں لوگوں کے نام سے موسوم ہیں جو حضرت عیسی علیہ السلام کے مقدس ساتھی تھے اور انہوں نے یہ مسودے تحریرکیے تھے۔یہ مسودے آرامی زبان میں تحریر کیے گئے تھے،جوکہ آج متروک ہوچکی ہے۔ایک مسودہ جو انجیل برناباس کے نام سے آج بھی کتب خانوں کی زینت ہے لیکن اسے بوجوہ بائبل کاحصہ نہیں بنایاگیاجبکہ ”برناباس“نامی بزرگ حضرت عیسی کے بہت قریبی ساتھی تھے اور باقی چاروں مسودوں میں انکا ذکر بہت کثرت سے ملتاہے۔

                آخری نبی ﷺ کے زمانے تک زبان دانی تواپنے ارتقائی مراحل سے ترقی یافتہ شکل تک پہنچ چکی تھی لیکن فن تحریروخواندگی ابھی تک ناپختگی کاشکار تھااور دنیاکی بڑی بڑی زبانوں کو بھی دوسروں کے لیے پڑھ کر سمجھناکافی مشکل اور بعض اوقات ناممکن تھا۔انہیں حالات میں قرآن مجید کی کتابت عمل میں لائی گئی۔ابتدائی زمانے میں چمڑے پر،اونٹ کی شانے کی ہڈی پر،بوسیدہ کپڑے پر،پتھرپر،کھجور کی چھال پر،لکڑی کی تختی پر اور ابتدائی دور کے گتہ نماکاغذپرقرآن مجیدلکھاگیا۔لیکن قرآن کے نزول کے بعدسے کتاب خوانی کے ارتقامیں جیسے بجلیاں سی کوند گئی ہوں،آہستہ آہستہ پوری دنیامیں کتاب خوانی اور کتابیات اور کتابت کے فنون پیشہ ورانہ انداز میں بڑھنے لگے۔شروع شروع میں ہاتھ سے کتابیں لکھی جاتی تھیں  جنہیں مخطوطہ کہاجاتا۔مسلمانوں کے دورعروج میں یہ فن اتنا ترقی کرگیاکہ ہزار ہزار صفحے کی کتاب ایک آدھ گھنٹے میں نقل کردی جاتی۔جیسے کوئی طالب علم کتاب لے کر کاتب کے پاس پہنچا،کاتب نے جلد کھول کر اپنے پچاس شاگردوں میں بیس بیس صفحے بانٹ دیے،ہم اتنی رفتار پڑھتے نہیں ہیں جتنی رفتار سے اس زمانے کے لوگ لکھ لیاکرتے تھے۔اگلی نماز سے واپسی پر اس طالب علم کو اصلی کتاب اور اسکی نقل مجلد صورت میں تیار ملتی تھی۔

                مسلمانوں نے اپنے ایک ہزار سالہ دوراقتدارمیں جو تہذیب پیش کی اسے بلاشبہ ”خواندگی کی تہذیب‘کہاجاسکتاہے۔کتابوں کی تصنیف و تالیف،انکامطالعہ،ان پر حاشیہ لکھنا،کتاب کے مندرجات پر اپنے رائے تحریر کرنااور صاحب کتاب سے اگر شناسائی ہوتوکتاب کے آغاز میں خالی صفحات پر اس سے ملاقات کاذکر کرنااس زمانے کی عام عادات تھیں۔یورپ نے تو سال کاایک دن ”یوم کتاب“کے طور پر منانے کاعلان کیاہے تاکہ لوگ کتاب کی اہمیت سے آگاہ ہوں جبکہ مسلمانوں کاہردن یوم کتاب ہے۔مسلمانوں کے دن کاآغاز بھی انکی کتاب ”قرآن مجید“ کی تلاوت سے ہوتاہے،نمازمیں وہ اجتماعی تلاوت کرتے اور سنتے ہیں جبکہ اپنے اپنے گھروں میں اور مدرسوں میں کاروائی کاآغاز بھی کتاب کی تفہیم سے ہوتاہے۔

                اندلس کے مسلمانوں کے ہاں نجی لائبریریوں میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کتابیں ہواکرتی تھیں،مسلمان بادشاہوں کے گماشتے پوری دنیا میں متحرک رہتے تھے،جیسے ہی کوئی نئی کتاب تدوین ہوتی اسکی نقول فوراََ بادشاہ کو ارسال کر دیتے اور بعض اوقات مصنف کے ہاتھ سے لکھاہوا اصل کتاب کامسودہ بہت مہنگے داموں اور بولی لگا کر فروخت کیاجاتا۔اس زمانے میں صرف قرطبہ شہر میں بیس ہزارتاجر محض کتابوں کی تجارت سے وابسطہ تھے،بغداد،قاہرہ،حجازاوروسطی ایشیاکے علاقے اس سے علاوہ تھے۔قرطبہ کے مشرقی محلہ میں سترعورتیں صرف قرآن مجید کی کتابت سے منسلک تھیں۔اندلس کا ایک شہر پوری دنیامیں صرف اس لیے مشہور تھا کہ وہاں کاغذ کی بہت بڑی صنعت تھی،اس شہر کاکاغذموجودہ دور کے کاغذسے معیار میں کسی طرح بھی کم نہ تھااور پورے شہر کی آبادی کاروزگار کاغذسے وابسطہ تھا۔ہندوستان میں اکبر اعظم اور اندلس میں عبدالرحمن الناصر کے زمانے میں ابتدائی نوعیت کا چھاپہ خانہ بھی بن گیاتھا لیکن آغاز میں اس چھاپہ خانہ میں صرف بادشاہوں کے احکامات ہی شائع ہواکرتے تھے۔

                مسلمانوں کے زمانے کی کی نجی لائبریریاں بھی بڑی شان و شوکت کی حامل تھیں،ایک لائبریری اگر سبزرنگ کی ہوتی تو اسکی کتابوں کی جلدیں بھی سبزرنگ کی ہوتیں،اسکے قالین اور غالیچے بھی سبزرنگ کے ہوتے،اسکافرنیچراوردرودیوار پربھی سبز رنگ ہوتااور اسکی کھڑکیوں سے نظر آنے والاقدرتی نظارہ بھی سبزرنگ سے بھرپور ہوتا۔لائبریری میں اساتذہ و طلبہ کے قیام و طعام اور قلم و قرطاس اور چراغ کی سہولیات مفت فراہم کی جاتیں۔لائبریریوں میں ایک کمرہ آلات موسیقی کے لیے مخصوص ہوتا تاکہ بہت پڑھ پڑھ کربوریت ہوجائے تودل بہلانے کاسامان مہیاکیاجاسکے۔نوابین اپنی باہمی ملاقاتوں میں کتابوں کی کثرت اورانکی لائبریری میں علماء و طلبہ کی توجہ کو فخرسے بیان کیاکرتے تھے۔اندلس کے مسلمان علماء کی لکھی ہوئی کتب کے تین سوسالوں تک یورپی زبانوں میں ترجمے ہوتے رہے اس کے باوجود بھی بے شمار مخطوطے آج بھی اٹلی،جرمنی اور فرانس کے عجائب گھروں کے تہہ خانوں میں صدیوں سے کسی قاری کے منتظر ہیں۔

                اشاعت کی تیزترین تکنالوجی سے کتابوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہواہے،آج چندگھنٹوں مین کتاب شائع ہوکر قارئین کے ہاتھوں میں پہنچ جاتی ہے۔لیکن مغربی کے تہذیب کے مکروہ تحفوں میں سے ایک تحفہ”سکرین“ہے،ٹیلی ویژن کی سکرین،انٹرنیٹ کی سکرین اور موبائل کی سکرین وغیرہ،اس سکرین کے بہت سارے نقصانات کے ساتھ ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ لوگ عام طور پر اور نوجوان خاص طور پر کتاب خوانی سے دور ہوگئے۔جو فارغ اوقات آج سے پہلے کتابوں کی معیت میں صرف ہوتاتھاآج وہی وقت ہاتھ میں ریموٹ کنٹرول تھامے قسم قسم کے اچھے برے چینل دیکھنے میں صرف ہوتاہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ”یوم خواندگی“کے حوالے سے اپنی قوم میں کتاب خوانی کی اہمیت کو دوبالا کیاجائے،کتاب لکھنے،اسکا مطالعہ کرنے اور اپنے گھر میں ایک مناسب لائبریری کے قیام کو اپنی اجتماعی عادات کاحصہ بنایاجائے۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
52240

امریکی خارجہ پالیسی میں خوشگوار تبدیلی۔محمد شریف شکیب

افغانستان سے فوجی انخلاء کے بعد امریکہ کی خارجی پالیسی میں غیر معمولی تبدیلی آئی ہے۔ امریکی صدر جوزف بائیڈن نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ کابل سے واپس آگیا ہے۔ افغانستان سے انخلاء حکومتی پالیسی میں غیر معمولی تبدیلی کوظاہر کرتا ہے کہ امریکہ معمول کے مطابق عالمی کردار میں واپس نہیں آئے گا۔جو بائیڈن نے کہا کہ کابل سے فوجی انخلاء کا فیصلہ صرف افغانستان کے بارے میں نہیں ہے، یہ دیگر ممالک میں بڑی فوجی کارروائیوں کا دور ختم کرنے کے بارے میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق ہماری خارجہ پالیسی کا مرکز ہوں گے تاہم یہ فوجی تعیناتیوں کے ذریعے نہیں ہوگا۔امریکی صدر کے اس اعلان نے پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ نہ صرف عالمی سطح پر بلکہ خود امریکہ میں بھی صدر بائیڈن کے فیصلے پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے تاہم اکثریت اس فیصلے کو سراہتی ہے۔اٹلانٹک کونسل کے ڈائریکٹر بینجمن حداد نے اس تقریر کوگزشتہ دہائیوں میں کسی بھی امریکی صدر کی جانب سے بین الاقوامی لبرل ازم کی سب سے واضح تردید قرار دیا۔ان کا کہنا ہے کہ یہ اعلان ان امریکیوں کے لیے جو اپنے ملک کو ایک منفرداور ناقابل تسخیر سپر پاور تصور کرتے ہیں یہ ایک بہت بڑا صدمہ ہے۔جو بائیڈن کی پالیسیوں کو عام طور پر ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کے موقف کی تردید کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ جو بائیڈن کے اوول آفس میں داخل ہونے کے بعد امریکہ کا طرز عمل تبدیل ہوچکا ہے جو بائیڈن کا امریکی فوجی مہم جوئی ترک کرنا”دنیا کا پولیس مین“بننے کے تصور کی نفی ہے۔

عالمی امور کے ماہر پروفیسر چارلس فرینکلن کا کہنا ہے کہ صدر جو بائیڈن کا یہ اعلان کہ ‘اب وقت آگیا ہے کہ یہ ہمیشہ کی جنگ ختم ہوجائے، ساری دنیا کے لئے خوشگوار حیرت کا باعث ہے۔ امریکی صدر کا موقف ہے کہ آج امریکی عوام بڑے بین الاقوامی کردار کے لیے پرعزم نہیں ہیں،اب ہمیں دوسروں کا غم بانٹنے کے بجائے اپنے گھر کے معاملات پر توجہ مرکوز رکھنی چاہئے۔ جو بائیڈن کا نظریہ ہے کہ امریکہ ایک بڑھتا ہوا عالمی پولیس نہیں ہو سکتا تاہم یہ ایک دوستانہ کمیونٹی لیڈر ہو سکتا ہے۔امریکی صدر کے اعلان نے ان کے نیٹو اتحادیوں کوپریشانی سے دوچار کردیا ہے۔ وہ کابل سے عجلت میں فوجی انخلاء اور آئندہ ملک سے باہر فوجی کاروائیوں میں حصہ نہ لینے کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں۔کیونکہ یورپی ممالک کی چوہدراہٹ امریکہ کے بل بوتے پر قائم تھی۔برطانوی وزیرخارجہ کا کہنا ہے کہ افغانستان سے فوجی انخلاء اور آئندہ کسی ملک میں فوجی مداخلت نہ کرنے کے اعلان کے بعد امریکہ دنیا کا واحد سپر پاور نہیں رہا۔

واشنگٹن میں عرب سینٹر کے ریسرچ ڈائریکٹر عماد ہارب نے کہا کہ صرف یورپی شراکت دار اکیلے حیرت میں نہیں ہیں۔امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات کے عادی عرب حکومتوں کو بھی صدر بائیدن کے فیصلے سے پریشانی ہوئی ہے۔امریکی صدر کے اس بیان کو تاریخی حقائق کے پس منظر سے دیکھا جائے تو یہ حقیقت پسندانہ نظر آتا ہے۔ گذشتہ چار پانچ عشروں میں دنیا کے مختلف علاقوں میں فوجی کاروائیوں سے امریکہ کو جانی و مالی نقصان اور ذلت و رسوائی اور پسپائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ ویت نام، عراق اور افغانستان کی جنگ کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ بے مقصد، لامتناعی اور تھکادینے والی جنگوں نے امریکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایاہے۔ وہ کھربوں ڈالر کا مقروض ہوچکا ہے ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ملک کے اندر پیدا ہونے والے سنگین بحران سے بچنے کے لئے ضروری تھا کہ خارجہ پالیسی میں غیر معمولی تبدیلی لائی جائے۔ آنے والے وقتوں میں امریکہ دنیا کو ایک جانبدار پولیس مین کے بجائے ایک غیر جانبدار مصالحت کار نظر آئے گا۔اور قوموں کے درمیان تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنے میں آئندہ امریکہ کا مثبت اور فیصلہ کن کردار ہوگا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
52234

قومی زبان: قومی ترقی کا واحدراستہ (8ستمبر،یوم نفاذاردوکے موقع پر خصوصی تحریر)-ڈاکٹرساجد خاکوانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

                دورغلامی کے دوران جوعناصرہماری قوم کو غلامی کی اندھیری غار سے آزادی کے کھلے آسمان تلے لے آئے ان میں سے ایک بہت بڑاعنصر مسلمانوں کی ملی زبان،اردو تھی۔”اردو“ نے پورے ہندوستان کے مسلمانوں کو رنگ و نسل اور مادری زبان کے اختلاف کے باوجودایک مقدس تسبیح میں دانوں کی طرح پرو دیاتھا۔چونکہ اس ”اردو“زبان کی جنم بھونی مغل دربار اور اسکی وفادارافواج کی چھاؤنیاں تھیں اس لیے ہندوستانی مسلمان اسے اپنا تاریخی اورثقافتی ورثہ قرار دیتے تھے۔”اردو“زبان کا رسم الخط عربی اور فارسی سے مستعار ہونے کے باعث ہندوستانی مسلمانوں کے مذہبی حلقے بھی اس زبان کی وکالت میں پیش پیش تھے۔اس کے علاوہ پورے ہندوستان میں تب سے آج دن تک یہ رابطے کی واحد زبان ہے جسے مشرق سے مغرب تک تمام مذاہب کے لوگ کسی نہ کسی حد تک سمجھتے ہیں اور بول بھی سکتے ہیں۔

                آزادی کے بعد مسلمانان ہنداگرچہ مشرق اور مغرب کے دومختصر خطوں میں سمٹ آئے اورصدی کی سب سے بڑی ہجرت وقوع پزیرہوئی لیکن یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ان آزادشدہ علاقوں کے باسیوں کی نسبت زیادہ قربانیاں ان علاقوں کے لوگوں نے دیں جوآج بھی محکومی کی زندگی گزار رہے ہیں،اس کے باوجودکہ ان محکوم علاقوں کے لوگ جانتے تھے کہ انہیں آزادی نہیں دی جائے گی اور انکے علاقے بدستورظالم سامراج کے زیر تسلط ہی رہیں گے۔پاکستان چونکہ ہندوستان کے کل مسلمانوں کی کاوشوں کا نتیجہ تھا،وہ مسلمان جو پاکستان پہنچ گئے اور وہ بھی جو نہیں پہنچے،  اس لیے قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اس نوزائدہ مملکت اسلامیہ کی قومی زبان ”اردو“ قرار دی تاکہ اس زبان کے توسط سے یہ ریاست ہندوستان کے تمام تر مسلمانوں کی نمائبدہ ریاست ہوجو مسلمانوں کے حال کے ساتھ ساتھ اس زبان کے حوالے سے انکے شاندارماضی کی بھی آئینہ دار ہو۔

                تحریک پاکستان میں ”اردو“ کے فیصلہ کن کردار کو قطعاََ بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔اگر مسلمانان ہندوستان حالیؒ کی شاعری اور اقبال کا فلسفہ سمجھنے کے قابل نہ ہوتے تو آزادی کاحصول ممکن ہی نہ تھا،اگرمولانا ظفر علی خان کے کالم اور ”اردو“ زبان میں شائع ہونے والے اخباروں کی تحریریں مسلمانان ہندوستان کے اوپر سے گزر جاتیں اور عربی کی ترکیبیں اور فارسی کے بھاری بھرکم الفاظ انکی سمجھ سے بالاتر ہوتے تو تحریک کی گرمانی ممکن ہی نہ تھی۔احساس غلامی اور روح آزادی کی تڑپ کو جس عنصر نے ہندوستانی مسلمانوں میں عام طور پر اور نوجوانوں میں خاص طور پر بیدار کیا تھا وہ  ”اردو“ زبان کی تفہیم اور اسکی ترویج واشاعت تھی۔یہ ”اردو“ زبان سے محبت تھی کہ کتنے ہی مواقع پر لاکھوں کے مجمعوں نے قائداعظم ؒ سے اردو میں تقریر کی خواہش کااظہار کیالیکن وہ عظیم راہنما جس محاذپر سرگرم تھے اسکے ہتھیارچنداں مختلف تھے۔

                آزادی کے بعد شاید دشمن اس راز آزادی کو پا گیا اور اس نے ہماری آزاد قوم کو غلامی کے شکنجوں میں کسنے کے لیے ہمیں ہماری قومی زبان سے بتدریج محروم کیا۔اگست1947ء کو جب انگریز افسران واپس برطانیہ پہنچے توانہیں محض اس لیے جبری ریٹائر کر دیا گیاکہ غلاموں پر حکم چلانے والے اب آزاد قوم کی قیادت کے قابل نہیں رہے۔لیکن افسوس کہ یہاں آزادقوم پر حکمرانی کرنے لیے غلام ابن غلام،ذہنی وفکری غلام اور ”روشن خیال“غلاموں کومسلط کر دیا گیاجوآج بھی اپنے گزشتہ آقاؤں کے لباس،شعار،معاشرت اورمقروض لہجوں کونہ صرف چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں بلکہ اس میں تفاخر وفوقیت محسوس کرتے ہیں۔

                امریکیوں نے جب جاپان پر قبضہ کیا تو شاہ جاپان نے ان سے صرف ایک چیز مانگی اور فاتحین سے کہا کہ ہماری نسلوں سے ہماری زبان مت چھیننا۔ماؤزے تنگ جوملک چین کی صف اول کی قیادت سے تعلق رکھتے تھے،بہترین انگریزی جانتے تھے لیکن پھر بھی مترجم کے ساتھ انگریزوں سے بات کرتے تھے جبکہ انگریزکوئی لطیفہ سناتاتو سمجھ چکنے کے باوجودمترجم کے بیان کرنے پر مسکراتے تھے۔ 2008کی یورپی یونین کی سربراہ کانفرنس میں فرانس کے نمائندے نے انگریزی زبان میں تقریرشروع کر دی،فرانسیسی صدر احتجاجاََاٹھ کر باہر چلے گئے کہ میرے ملک کانمائندہ کسی اور قوم کی زبان میں کیوں بات کررہاہے۔پڑوسی ملک چین ہمارے بعد آزاد ہوا،ان کا تمام تر تعلیمی،انتظامی اور عدالتی نظام انکی قومی زبان میں ہے،کوریا بہت چھوٹا سا ملک ہے لیکن انکے ہاں طالب علموں کونوجوانوں کو فراہم کے جانے والے کمپیوٹر بھی انکی قومی زبان میں تیار کیے گئے ہیں اور اسی زبان میں ہی کام کرتے ہیں،دنیا بھر میں جس جس ملک میں بھی دوسری دنیاؤں کے لوگ تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں اس ملک میں پہلے انہیں مقامی زبان کے کورسز کرنے پڑتے ہیں کامیابی کے بعد تب انہیں اس ملک کی قومی زبان میں ہی تعلیم کے اگلے مراحل طے کرنے ہوتے ہیں۔تمام دنیاؤں کی قیادت بہترین انگریزی جانتی ہے لیکن بیرونی دنیاؤں کے دوروں پر اگرچہ مقابل میں انگریزی بان قیادت ہی ہو تب بھی وہ ایسے مترجم کا اہتمام کرتے ہیں جو انہیں مقامی زبان میں ترجمہ کرکے سنائے لیکن مملکت خداداپاکستان کی سیاسی،فوجی،انتظامی اور عدالتی قیادت کا وطیرہ ہی مختلف ہے۔

                جدیدترین ٹکنالوجی کواپنی قومی زبان میں ترجمہ کرکے تو کیاجاپان دنیا سے پیچھے رہ گیاہے؟اپنی قومی زبان میں تعلیم فراہم کرنے والا چین کیا سائینس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں دنیاسے مات کھا گیا ہے؟انڈونیشیا،ملائیشیا،کوریا،ہانگ کانگ،سنگاپوراورمغربی و مشرقی دنیا کے بے شمار چھوٹے چھوٹے ممالک و جزائرجن کوعالم انسانیت کے ماضی میں شاید کوئی مقام حاصل نہیں تھا آج اپنی قومی زبان کی ترویج و اشاعت کے باعث کرہ ارض کے مستقبل کے وارث بنتے نظر آتے ہیں جبکہ سینکڑوں سال قدیم اورشاندار واعلی روایات کی حامل تاریخ سازپاکستانی قوم محض زبان سے محرومی پر ایک نودولتیے کی طرح اپنی ایک ایک روایت کودرآمد کرنے کی فکر میں ہے،انگریزی تعلیم،جاپانی مصنوعات، چینی کھانوں اور بدیسی موسیقی جیسے کتنے ہی رویے ہیں جن میں اپنائیت کو ترک کرنا رواج بن گیاہے۔تعارف کی حد تک تو بیرونی دنیاؤں سے رابطہ تعلق بجابلکہ ضروری ہے لیکن اپنے آپ کو دوسروں کے رنگ میں ہی رنگ لینا کسی طور بھی روانہیں۔

                دنیاکی تاریخ گواہ ہے کہ کسی قوم نے دوسری قوم کی زبان سیکھ کر ترقی نہیں کی۔ہم جب تک اپنے نوجوانوں کوخواجہ میردرد،میرتقی میر غالب،حالی،اقبال،ڈپٹی نزیراحمداور مولانامودودی کی تحریریں نہیں پڑھائیں گے انہیں اپنی حقیقت سے آگاہی ہی نہیں ہوگی،جب تک ماضی سے رشتہ نہیں جوڑا جائے گا قوم کے اندر قومی مزاج پیداہی نہیں ہوگا،اپنی اورصرف اپنی روایات کا تسلسل ہی اپنائیت کا ضامن ہے،اپنالباس اور اپنی تہذیب و ثقافت اورصدیوں سے قائم اپنے علاقائی رسوم ورواج ہی ہمیں نئی دنیاؤں میں ہماری شناخت عطا کر سکتے ہیں اور ان سب کا واحدذریعہ قومی وعلاقائی زبانیں ہی ہے،سکرین سے امڈنے والاطوفان ہمیں ماضی کی غلامی سے بھی زیادہ گہری دلدل میں دھکیل دے گااور ہم آنے والی نسلوں کے مجرم ٹہریں گے۔

                کیاہی خوب ہو کہ ابتدائی تعلیم سب بچوں کو انکی مقامی وعلاقائی و مادری زبانوں میں دی جائے جبکہ ثانوی و اعلی تعلیم کا ذریعہ قومی زبان ہواور قانون سازی کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایاجائے تحقیقی و تخلیقی کام صرف قومی زبان میں ہو۔غالب اور اقبال کے احساسات و جذبات کو اپنے دامن وسعت میں سمیٹ چکنے والی زبان کا دامن چنددفتری و عدالتی معاملات کے لیے تنگ کیوں پڑنے لگا؟؟ایسی تنقید کرنے والوں کا اپنا دامن ظرف تو قلیل ہو سکتاہے لیکن اردو کو عربی و فارسی کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہونے کے باعث اس طرح کی کوئی تنگی دامن گیر نہیں ہے۔کھیل تماشوں،ثقافتی طائفوں،بیرونی دوروں اوراللوں تللوں پر اٹھنے والی بھاری بھرکم رقوم سے سائنس اور ٹکنالوجی کی کتب کو قومی زبان میں ترجمہ کیا جائے اور انہیں نصاب کا حصہ بناکرنئی نسل کی تعلیم کے تیار کیا جائے۔قرون وسطی کے تاریخی ”دالترجمہ“اور دارالحکمہ“جیسے اداروں کی تجدیدنو کی جائے۔ممکن ہے ابتدا میں ہمیں قومی طور پر کچھ دقتوں کا سامنا ہو لیکن یہ بہت دور کی منزل کا سفر ہو گاجس کی ابتدائی صعوبتوں کوبرداشت کرنا بہت اعلی منزل کے حصول کے لیے ضروری ہے۔

                بیرونی دنیاؤں کے لوگ ہمارے ملک کے نوجوانوں کوغلامانہ زبان میں تعلیم دلانے پر بے پناہ سرمایاخرچ کرتے ہیں۔ہمارے نوجوان اپنی قومی زبان کی بجائے بیرونی دنیاکی غلامانہ زبان میں مہارت حاصل کرلیتے ہیں۔تب یہ نسل ملک وقوم کے کسی کام کی نہیں رہتی،ان کے دلوں میں ملک و قوم کی محبت ندارد ہوتی ہے،ملک و قوم کا درد ان کے سینوں میں عنقا ہوتاہے،ان کی دلچسپیاں،ان کے شوق،ان کی فکرکامرکزومحور اور ان کی منزل وہی ممالک ہوتے ہیں جن کی زبان میں انہیں تعلیم دی گئی ہوتی ہے۔تب ہمارے ملک و قوم کے نوجوان اور ہمارے لخت جگر اور ہمارے جگرگوشے تکمیل تعلیم کے بعد انہیں ملکوں کا رخ کرتے ہیں اور ہمارے معاشرے کے بہترین اذہان اپنے شاندارمستقبل کی خاطر اپنی مادر وطن سے بوریا بستراٹھاکر دیارغیرسدھارجاتے ہیں اور بیرونی سرماداروں کو اپنے سرمایاکاری کا بہترین منافع مل جاتاہے اور ہم محروم رہ جاتے ہیں۔اگر ہمارامعاشرہ بھی  شاہراہ ترقی پرگامزن ہونا چاہتاہے توہماری قیادت کو وطن دشمنی ترک کر کے قومی زبان میں تعلیم کے دروازے کھولنے ہوں گے تب ہی ہماری نسل اپنے ملک سے محبت بھی کرے گی اور ملک و قوم کی خدمت بھی کرسکے گی۔

                ہمارے ہاں یہ عوامی رویہ بن گیا ہے کہ اپنے ملک پر تنقید کی جائے،ہر براکام اور ہر بری خبر سننے کے بعد کہا جاتا ہے کہ ”یہ پاکستان ہے“،بدیانتی کا کوئی کام کرانے کے لیے دلیل پیش کی جاتی ہے کہ ”یہ پاکستان ہے“اورپاکستان کے ٹوٹنے کی مایوسانہ بازگشت ہر زبان پر جاری ہے۔یہ مایوسیاں صرف اس لیے ہیں کہ ہم نے دوسری قوموں کی زبان پڑھنے اورپڑھانے والی قیادت اورغلامی کی باقیات  سے یہ توقع لگا لی ہے کہ وہ پاکستان کی خیرخواہ ہوگی۔قومی تعلیمی نظام کو قومی زبان سے روشناس کرانے سے ہم ”پاکستان ساختہ“نسل تیار کر سکیں گے،تب گلی گلی محلے محلے ہر کوئی مادروطن پر تنقید کے نشتر نہیں چلا ئے گاکیونکہ اس وقت پاکستانی قیادت کی دولت اپنے ملک میں ہوگی،پاکستانی قیادت کے بچے اپنے ملک میں ہی زیرتعلیم ہونگے،پاکستانی قیادت کے پاس دوسری ملکوں کی قومیتیں نہیں ہونگی، پاکستانی قیادت کی زبان پر قومی زبان اور انکے جسم پر قومی لباس ہوگااورپاکستانی قیادت کاخلوص،محبت اور مفادات پاکستان اور صرف پاکستا ن سے ہی وابسطہ ہوں گے۔

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب کو نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
52230

داد بیداد ۔ میرے وطن کے سجیلے جوانو! ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

یوم دفاع کے ساتھ یو م شہدا ہر سال تزک و احتشام کے ساتھ منا یا جاتا ہے اس سال بھی روا یتی جو ش اور جذبے کے ساتھ یہ دن منا یا گیا یوم شہدا کی سب سے بڑی تقریب جی ایچ کیو میں منعقد ہوئی مقا می تقریبات ملک بھر میں منعقد ہوئیں جہاں دفاع وطن کے لئے شہدائے قوم کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ان تقریبات میں شہیدوں کے ورثا ء کو تحا ئف پیش کئے گئے آر می کے حا ضر سروس افیسروں نے شہدا ء کے گھر وں میں جا کر ان کے اہل خا نہ کی دلجو ئی کی گلگت میں فورس کما نڈاور دوسرے افیسروں نے شہدا ء کے ورثا ء سے ملا قا تیں کیں چترال سکا وٹس کے کما نڈنٹ کرنل محمد علی ظفر اور دوسرے افیسروں نے شہدا کے ورثا ء کی دلجو ئی کی اس سلسلے کی تقریبات میں چترال فورٹ کے اندر منعقد ہونے والی تقریب یاد گار تھی اس تقریب میں شہدا ء کے ورثا ء نے کثیر تعداد میں شر کت کی تقریب میں سول انتظا میہ کے حکام، علما ء، عما ئدین، سیا سی اکا برین اور فو جی حکام بھی مو جو د تھے .

کمانڈنٹ چترال سکا وٹس نے یا د گار شہدا ء پر پھول چڑ ھا کر تقریبات کا افتتاح کیا تلا وت کلا م پاک کے بعد شہداء کی ارواح کو ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوا نی ہوئی فر نٹیر کور پبلک سکول کے طلباء اور طا لبات نے ملی نغموں سے محفل کو گر ما یا اور موقع کی منا سبت سے ٹیبلو پیش کر کے داد حا صل کی چیف آف آر می سٹاف جنرل قمر جا وید باجوہ کا خصو صی پیغام پڑھ کر سنا یا گیا مختصر پیغام میں آر می چیف نے دفاع وطن کے لئے پا ک فو ج کی شاندار خد مات کا ذکر کر نے کے بعد اس بات کا اعادہ کیا کہ پا ک فو ج ملکی سر حدات پر منڈ لا نے والے خطرات کا مقا بلہ کرنے کے لئے پوری عزم وہمت کے ساتھ کمر بستہ ہے نیز اندرون ملک دہشت گردی اور بد امنی کرنے والے ملک دشمن عنا صر کے ساتھ بھی آہنی ہاتھوں سے نمٹنا جا نتی ہے قوم نے دہشت گردی سے نجا ت کے لئے 86ہزار فو جی اور سویلین جا نوں کی بیش بہا قر با نی دی ہے آئیندہ بھی ملک دشمن عنا صر کو سر اٹھا نے کی اجا زت نہیں دی جا ئیگی

کما نڈنٹ چترال سکا وٹ کرنل محمد علی ظفر نے اپنے خطاب میں پا ک فوج، فرنٹیر کور، فرنٹیر کانسٹبلری، خیبر پختونخوا پولیس، لیوی اورچترال سکا وٹس کے شہدا ء کو خراج تحسین پیش کیا جنہوں نے اپنا آج قوم کے کل کے لئے قربان کر کے اپنی سب سے قیمتی متاع اپنی پیا ری جا ن قوم پر نچھا ور کی انہوں نے شہدا ء کے وارثوں کو یقین دلا یا کہ پا کستان کی حکومت پا ک فوج اور قوم ان کو کبھی تنہا نہیں چھوڑ ے گی ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر حیات شاہ نے جنگ اور امن کے زما نے میں قوم اور اہل وطن کے لئے پا ک فو ج، فرنٹیر کور اورخصو صاً چترال سکا وٹس کی خد مات کو سراہتے ہوئے کہا کہ جب بھی ضرورت پڑی سول انتظا میہ نے چترال سکا وٹس کے افیسروں اور جوا نوں کو مستعد اور چاق و چو بند پا یا بیرونی حملہ، اندرونی دہشت گردی، بد امنی یا سیلا ب اور زلزلے جیسی آفات کے مواقع پر فورس نے عوام کی شاندار خد مات انجا م دی ہے.

ایس پی انوسٹی گیشن محمد خا لد خان نے فصیح و بلیع اور دھوا ں دار تقریر میں پو لیس اور فو ج کے ساتھ ساتھ عام شہر یوں کی شہا دتوں کا ذکر کیا اور اپنے پر جو ش اسلو ب بیان سے محفل کو گر ما یا سابق ضلع نا ظم حا جی معفرت شاہ نے کہا 1965کی جنگ ہمیں فو ج اور شہری آبادی کے اشتراک عمل کی یا د دلا تی ہے جب پوری. قوم پا ک فو ج کے شا نہ بشا نہ کھڑی تھی جب نسلی تعصب نہیں تھی جب فر قہ ورانہ منا فرت نہیں تھی آج بھی ہم تما م تعصبات کو بالا ئے طاق رکھ کر پا ک فو ج کے ساتھ دیں تو بڑے سے بڑے دشمن کو شکست فاش دے سکتے ہیں.

خا کسار نے مختصر لفظوں میں 1965ء کی جنگ کا ذکر کر نے کے بعد شہدائے وطن کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ پا ک فو ج کے افیسروں اور جوانوں کواپنی شہادت کا علم ہو تا ہے کوئی سال پہلے کوئی 6ماہ پہلے کوئی 3ماہ پہلے اپنی شہا دت کی بشارت دیتا ہے کپٹن اجمل شہید (تمعہ بسا لت) نے 3ہفتے پہلے عندیہ دیا تھا کہ وہ دور جا رہا ہے اپنے پاوں پر چل کر نہیں آئے گا قومی پر چم میں لپیٹ کر لا یا جا ئے گا حوالدار محمد یو سف نے 3ماہ پہلے اپنے مزار کے لئے چترال سے شندور اور گلگت جا نے والی شاہراہ پر زمین خرید کر برف ہٹا یا زمین کو ہموار کر کے اپنے کنبہ کو بتا یا کہ گاڑی قبرستان میں آسکے گی افیسروں کے لئے قبرستان میں اتر نا آسان ہو گا یہ شہدا ء کا وجدان ہے جو ان کو آنے والے وقت کی بشارت دیتا ہے اور وہ قرون اعلیٰ کے مسلما نوں کی طرح پر عزم ہو کر موت کو گلے لگا تے ہیں۔

چترال
چترال
چترال
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
52224

ختم نبوت کیاہے؟-(7ستمبریوم دفاع ختم نبوت کے حوالے سے خصوصی تحریر) ۔ ڈاکٹر ساجدخاکوانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

                خدائی فیصلوں میں تبدیلی ممکن نہیں ہوتی۔انسان جس خاتون کے بطن سے جنم لے اسکے بعددنیاکی کوئی عورت اس کی ماں نہیں بن سکتی،جس باپ کی نسل سے جنم لیاجائے پھراس کے بعد کوئی مرد انسان کا باپ نہیں بن سکتا۔جس ملک،جس قوم،جس نسل،جس خاندان اور جس سرزمین پر انسان آنکھیں کھولتاہے یہ خدائی فیصلے آخری ہوتے ہیں جن میں کوئی بھی تبدیلی ناممکنات عالم میں سے ہے۔اسی طرح اللہ تعالی نے انسان کی ہدایت کے لیے جو فیصلے کیے ہیں ان میں بھی تبدیلی ممکن نہیں ہوسکتی۔خالق کائنات نے انسانوں میں انبیاء علیھم السلام کاسلسلہ شروع کیا۔شیطان جیسے جیسے انسان کوگمراہ کرنے کے نت نئے طریقے اختیارکرتارہاویسے ویسے اللہ تعالی انبیاء علیھم السلام کو دنیامیں بھیجتارہااورانسانوں کو سیدھی راہ دکھائی جاتی رہی۔پھرایک وقت آیاکہ شیطان کو گمراہی میں مہارت حاصل ہوگئی،جس کے بعد انسان کو بھی ہدایت کامکمل سامان فراہم کردیاگیا۔اب قیامت تک شیطان جن جن راستوں سے انسان کو گمراہ کرسکے گااور جن نت نئے حربوں کو آزماسکے گاان سب کاتوڑ قرآن وسنت میں محفوظ ہے۔ختم نبوت کایہی مطلب ہے کہ انسانی ہدایت کا سامان مکمل ہوچکاہے اور اب کوئی نبی نہیں آئے گا،کوئی رسول نہیں آئے گا،کوئی کتاب،کوئی شریعت اور وحی کے نزول کاسلسلہ بندہوچکاہے۔اگرکسی نے نبوت ورسالت اور شریعت و کتاب و وحی کے دعوے کیے تووہ کذاب ہوگااوراسکی پیروی کرنے والے امت مسلمہ سے خارج ہوں گے۔

                ہر نبی اور ہر آسمانی کتاب نے اپنی امت کو اپنے بعد پیش آنے والے حالات کے بارے میں اطلاعات دی ہیں۔کتب آسمانی میں یہ اطلاعات بہت تفصیل سے بیان کی گئی ہیں۔گزشتہ مقدس کتب میں اگرچہ انسانوں نے اپنی طرف سے بہت سی تبدیلیاں کر دیں،اپنی مرضی کی بہت سی نئی باتیں ڈال کر تو اپنی مرضی کے خلاف کی بہت سی باتیں نکال دیں لیکن اس کے باوجود بھی جہاں عقائد کی جلتی بجھتی حقیقتوں سے آج بھی گزشتہ صحائف کسی حد تک منور ہیں وہاں آخری نبی ﷺ اور قیامت کی پیشین گوئیاں بھی ان تمام کتب میں موجود ہے۔یہودونصاری نے بعثت نبوت اخری کے بعد ان نشانیوں کو مٹانے کی بہت کوشش کی لیکن پھر بھی بکثرت آثار اب بھی باقی ہیں اور علمائے امت مسلمہ نے انہیں تلاش کر کے عالم انسانیت کے سامنے پیش بھی کردیا ہے۔اسی طرح وہ بعد میں آنے والے حالات مستقبل قریب سے تعلق رکھتے ہوں یا مستقبل بعید سے متعلق ہوں،ان کی جزوی تفصیلات ہر کتاب اور نبی نے پیش کی ہیں تاکہ امت کی راہنمائی ہر حال میں جاری رہے۔

                گزشتہ کتب اور گزشتہ انبیاء علیھم السلام کی طرح آخری نبیﷺ نے اور آخری کتاب قرآن مجید نے بھی اپنے بعد آنے والے حالا ت کے بارے میں بارے میں امت مسلمہ کو بہت تفصیل سے بتایاہے۔نئے آنے والے حالات اچھے ہوں یا برے ہوں،وہ دور فتن سے تعلق رکھتے ہوں یاقیامت اور اورآخرت کی نشانیوں کی طور پر ظہور پزیر ہونے والے ہوں،وہ انسانوں کے رویوں سے متعلق ہوں یا آسمانی آفات و بلیات کی پیش آمدہ اطلاعات ہوں یا آنے والے حالا ت کے تجزیے،اسباب و نتائج ہوں یا ان کے اثرات ہوں اور یا امت میں آنے والی مقدس ہستیاں ہوں یا امت کے مقابلے میں آنے والے ظالم و جابر وقاہرافراد ہوں سب کی تفصیلات قرآن مجید میں اجمالاَََ اور کتب حدیث میں تفصیلاََ وارد ہوئی ہیں۔بعض محدثین نے تو ان حالات کے بیان کے لیے الگ ابواب باندھے ہیں۔سوال یہ ہے کہ یہ سب حالات اور افراداہم تھے یا کسی نبی کی آمد کی اطلاع اہم تھی؟؟ظاہر ہے مذکورہ حالات تو ایمان کا حصہ نہیں ہیں لیکن اگر کسی نبی نے آنا ہوتا تو نبی تو ایمان کاحصہ ہی نہیں بلکہ ایمان کی بنیاد ہوتا ہے۔

پس اگر کسی نبی نے آنا ہوتا اور مشیت ایزدی میں کسی نبی کی بعثت اگر باقی ہوتی تو قرآن و حدیث کے مندرجات اس نبی کی اطلاعات سے بھرے پڑے ہوتے۔یہ بات بہت بڑا دستاویزی ثبوت اور ناقابل انکار شہادت اور ناقابل تردید امرہے کہ چونکہ قرآن و حدیث میں ایسی کسی ہیشین گوئی کا ذکر نہیں ہے جس میں کسی نبی کی آمد کی اطلاع ہو اس لیے اب قیامت تک کسی نبی کی آمد قطعاََ نہیں ہوگی۔یہ ہو نہیں سکتا کہ ایمان و یقین جیسے نازک معاملے میں کوئی نبی اپنی امت کو یوں اندھیرے میں چھوڑ جائے۔قرآن مجید میں متعدد ایسے مقامات ہیں جہاں کسی آنے والے نبی کاذکر موجود ہوناچاہیے تھامثلاََسورۃ بقرہ کے آغازمیں ہی فرمایا  وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَ مَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ یُوْقِنُوْنَ(۲:۴)ََ ترجمہ:”اس پر ایمان رکھتے ہیں جوآپﷺ پر نازل کیاگیااور آپﷺ سے پہلے نازل کیاگیااوریوم آخرۃ پر یقین رکھتے ہیں“۔اگرآپﷺ کے بعد کوئی کتاب،کوئی شریعت،کوئی نبوت و رسالت یا وحی کاکوئی سلسلہ باقی ہوتاتواس مقام پر ضرور اس کاذکرکیاجاتا۔بلکہ آپ ﷺ کی نبوت کے ذکرکے بعد ملحقاََآخرۃ کاذکر کیاگیا یعنی اس نبی محترمﷺکے بعد آسمان سے صرف آخرۃ کی آمد ہی ہوگی۔

                محسن انسانیت خاتم النبیین ﷺ نے انسانیت کے جملہ معیارات اخلاق کو مکمل کیا ہے،آج کئی صدیاں گزرنے کے باوجودا ن معیارات میں کوئی اضافہ نہیں ہوسکا۔خاتم النبیینﷺنے معاشرت کو مساوات کا درس دیا،نماز جیسے پنج وقتہ عمل میں اس مساوات کو قائم کیا،امیر،غریب،عالم،جاہل اور عوام حکمران سب کو تاقیامت ایک صف میں کھڑا کردیااور کسی کو یہ اجازت نہیں دی کہ پہلی صف میں جماعت شروع ہو چکنے کے باوجود اپنے لیے جگہ کو خالی رکھوائے بلکہ پہلے آؤپہلے پاؤکی بنیاد پر نماز میں جگہ حاصل کرنے کا اصول دیا۔اسی طرح حج میں بھی مساوات قائم کی سب لوگ ایک ہی لباس پہنے ایک ہی کمرے کے گرد ایک ہی رخ میں چکر لگاتے ہوئے اور ایک ہی کلمہ زبان سے اداکرتے ہوئے حج کرتے ہیں۔آج صدیاں گزر گئیں کسی کتنے ہی نئے نظام ہائے فکروعمل آئے،کتنے ہی فلسفہ ہائے اخلاق آئے اور تہذیب و تمدن نے کتنی ہی ترقی کر لی لیکن انسانی معاشرے کوخاتم النبیینﷺکے درس مساوات سے بڑھ کر کوئی درس میسرنہ آ سکا۔آپﷺنے معاشرے کے لیے مساوات کے درس اخلاق کومکمل کردیاجس میں آج تک اضافہ ممکن نہ ہوسکا۔

                خاتم النبیینﷺنے انسانی معیشیت کوسود کی ممانعت،تقسیم دولت اور حقوق کی ادائگی کا درس دیا اور یہ درس دیا کہ ”مزدورکی مزدوری اسکا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اداکردو“اسکے دو مطلب ہیں،ایک تو وہی جو سمجھ آگیایعنی ادائگی بروقت ہو جانی چاہیے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ مزدوربھی مزدوری کرتے ہوئے اپنا پسینہ نکالے،یعنی اپنے کام کاحق تواداکرے۔آج صدیاں بیت گئیں،ماضی قریب میں کیمونزم،سوشلزم یااشتراکیت کے نام سے بہت بڑے بڑے معاشی انقلابات آئے جنہوں نے دنیا کے جغراافیے سمیت عالمی معیشیت کو نیچے سے اوپر تک ہلامارا،انکی پشت پر تاریخی شہرت کے حامل اہل فکرودانش کی کاوشیں کارفرماتھیں اور نسلوں کے استحصال کے بعد بہت بڑی بڑی افکار پیش کی گئیں جن کو بنیاد بناکر لاکھوں انسانوں کے خون کی قیمت پر ان معاشی نظاموں کونافذ کیا گیا لیکن ان سب کے باوجودبھی وہ حقوق کی ادائگی سے بڑھ کر کوئی نیادرس انسانوں کے سامنے پیش نہ کر سکے،جب کہ یہی درس صدیوں پہلے خاتم النبیینﷺاپنی معاشی تعلیمات میں پیش کر چکے تھے۔آج کی تہذیب نے راتوں کودنوں سے زیادہ روشن کردیالیکن معیشیت کے میدان میں سوائے اندھیروں کے کچھ نہ دے سکی اورمحسن انسانیتﷺ جن معاشی اخلاقی حقوق و اعلی معاشی معیارات کاتعین فرماگئے ان میں بال برابربھی اضافہ ممکن نہ ہوسکا۔

                خاتم النبیینﷺنے مذہب کوانسانیت کادرس دیا،جنگی قیدیوں کو حق زندگی دیا،غلاموں کی آزادی کو رواج دیا،دشمنوں کو معاف کیا،قاتلوں پر انعامات کی بارش کی،رنگ،نسل،زبان اور علاقے کی بجائے اخوت کو مذہب کا وسیع البنییاد پلیٹ فارم عطاکیا،خدمت کو انسانیت کی معراج  قراردیا اور صلہ رحمی کے احکامات جاری کیے۔ہندومت آج بھی حقوق العبادکا استحصال کرتاہے،عیسائیت نے حقوق اللہ میں غلو سے کام لیا،یہودیوں نے محض حقوق النفس ہی اداکیے،دنیامیں کم و بیش پچیس ہزارمذاہب پر انسانوں کے گروہ عمل پیرا ہیں لیکن تمام مذاہب افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ان مذاہب سے تنگ آکر یورپ نے ”سیکولرازم“کے نام پر مذہب سے روگردانی اختیارکرنا چاہی اورانسانیت کے نام سے اپنی پہچان بنانے کی کوشش کی اور اسی انسانیت کے ہی نئے معیار قائم کیے ان پر عمل پیرا بھی ہونے کی کوشش کرتے رہے  اسکا حق اداکیا یا نہیں یہ ایک الگ موضوع ہے لیکن تب بھی انسانیت سے بڑھ کرکوئی نیادرس تو انہوں نے بھی پیش نہ کیا اور اسی درس کو خاتم النبیینﷺصدیاں پہلے پیش کر چکے تھے۔سیکولرازم نے انسانیت کے نام پر انسانیت کااستحصال کیالیکن انسانیت کی کوئی خدمت بجانہ لاسکی وہ انبیاء علیھم السلام ہی تھے جو بغیرکسی معاوضہ کے خدمت انسانیت کے اعلی ترین منصب پر فائزہوئے اور آخری نبیﷺ نے تواس معیار انسانیت کو اس کے بام عروج تک پہنچادیااور انﷺ کے بعد اس میں کوئی اضافہ ممکن ہی نہ ہوسکااگرچہ تعلیم و تہذیب کاسفرکائنات کے اسرارورموزکی تلاش میں زمین کے مدارسے باہربھی نکل گیا۔

                خاتم النبیینﷺنے سیاست کو”خلافت“کادرس دیا کہ اقتدارایک امانت ہے جواللہ تعالی کی طرف سے انسان کو ملی ہے،خاتم النبیینﷺنے اپنی تعلیمات میں واضع کیا کہ اقتدار کوئی موروثی حق نہیں ہے،زورآوری اور طاقت و قوت کے بل بوتے پر حاصل ہونے والی چیز نہیں جسے ذاتی ملکیت سمجھ لیا جائے بلکہ یہ ایک اجتماعی ذمہ داری ہے جس کے بارے میں سختی سے جوابدہی کی جائے گی۔صدیاں گزر گئیں پولٹ بیورو،پارلیمانی نظام،صدارتی نظام،بنیادی جمہوریت اور نہ جانے کتنے ہی اورسیاسی نظام اس دنیا میں آئے،کتنے ہی سیاسی مفکرین نے اپنے اپنے سیاسی افکار پیش کیے ”علم سیاسیات“کے نام سے ایک علم و فن کی ایک شاخ بھی وجود میں آ گئی اور جمہوریت نامی سیاسی نظام سمیت کئی سیاسی نظاموں کو انسانیت نے آزما کر بھی دیکھ لیالیکن گھوم پھر کر چکر لگا کر اسی نقطے کے گرد ہی سب نظام گھومتے رہے کہ ”اقتدار“امانت ہے۔کسی نے اسے عوام کی امانت کہاتو کسی نے اسے تاریخ کی امانت کہا تو کسی نے اسے آنے والی نسلوں کی امانت کہا،خاتم النبیینﷺکے عطا کردہ درس سے آگے بڑھ کر کسی نے کوئی درس پیش نہ کیا۔خاتم النبیین ﷺنے میدان سیاست کی تمام اخلاقیات کوان کی معراج تک پہنچادیااور آپ کے مقدس وارثین نے ان سیاسی اخلاقیات کواس زمین کے سینے پر جاری وساری و نافذالعمل کر کے ان سیاسی اخلاقی معیارات کو ہمیشہ کے لیے امرکردیا۔اس کے بعد آج تک یہ آسمان ان سیاسی اخلاقی معیارات میں کوئی اضافہ نہ دیکھ سکا۔

            خاتم النبیینﷺنے عدالتوں کو عدل و انصاف کا درس دیا،صدیاں گزرجانے کے باوجود اور تہذیب و تمدن میں اتنی ترقی ہو چکنے کے باوجود کہ راتیں دنوں سے زیادہ روشن ہو گئی ہیں اس درس میں کوئی اضافہ آج تک نہ ہوسکا۔خاتم النبیینﷺنے میدان جنگ کوجن اصولوں کاپابند بنایا ان میں آج تک کوئی اضافہ ممکن نہ ہوسکا،خاتم النبیینﷺنے بین الاقوامی قوانین میں برداشت و رواداری کی جو ریت ڈالی اس میں یہ آسمان آج تک کوئی بڑھوتری نہ دیکھ سکا،خاتم النبیینﷺنے خانگی زندگی میں پیارومحبت کا درس دیا اورنوجوانوں کو نکاح کا درس دیا ان سے زیادہ پاکیزہ درس آج تک کہیں سے ابھر نہ سکااورایک فرد کو تقوی کادرس دیا بھلا اس سے بہتر درس کب ممکن ہے۔یہ سب تشریح ہے کہ آپ ﷺ خاتم النبیین تھے اور جو معیارات آپﷺ قائم کر گئے چونکہ ان میں اضافہ ممکن نہیں اس لیے کسی نئے نبی کی آمدبھی ممکن نہیں۔

            ہماری عقل کہتی ہے کہ جس کسی نے ان معیارات اخلاق میں اضافہ کیا ہم اسے خاتم النبیین مانیں گے اور ہمارا ایمان کہتا ہے کہ اب تاقیامت ان معیارات میں اضافہ ممکن نہیں۔ ایمان چونکہ عقل سے بڑا ہے  اس لیے ہم ایمان کو عقل پر ترجیح دیں گے۔سب انسان سر جوڑ کر بیٹھ جائیں اور چاہیں کہ ان تعلیمات میں کوئی اضافہ کر سکیں یا ن میں کوئی سقم ڈھونڈ کر اس کو ختم کر سکیں یا کوئی کمی تلاش کر کے اسکو پورا کرسکیں یا کسی طرح کی کوتاہی کاازالہ کر سکیں تو اسکا قطعاََ کوئی امکان نہیں ہے۔یہ حکم ربی ہے اور خدائی فیصلہ ہے کہ اب کوئی نبی نہیں آئے گا،کسی اورکاکلمہ نہیں پڑھا جائے گااور کوئی اور ”مطاع“اب تاقیامت پیدا نہیں ہوگا جس کسی نے اس طرح کے دعوے کیے بالاجماع امت وہ کذاب ہوگااور امت سے خارج سمجھا جائے گا۔تاریخ نے ایسے لوگ دیکھے اور ممکن ہے مزید بھی نظر آنے لگیں لیکن ان کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہوگی اور نہ ہی ان کا کوئی دینی و اخلاقی مقام ہوگا۔جو کوئی خاتم النبیینﷺ کی اطاعت کا قلاوہ اپنی گردن میں ڈالے گا وہی دنیاوآخرت میں مسلمان گردانا جائے گا۔

            تاریخ اسلام میں سینکڑوں لوگوں نے نبوت کے دعوے کیے ان میں خواتین بھی شامل رہیں لیکن کل امت نے اجماعی طورپر ان کاانکارکیا۔کہیں بھی کسی عالم دین یاکسی حق پرست گروہ نے ایسے مدعیان نبوت کے بارے میں کسی طرح کے نرم گوشے کاقطعاََاظہارنہیں کیا۔کل امت کی کل تاریخ میں تاشرق و غرب اور صحابہ کرام کے مقدس گروہ کے دورسے آج دن تک ختم نبوت پر کسی طرح کا سمجھوتہ دیکھنے کو نہیں ملا۔آپﷺ کے فوراََبعد تو کذابین کی وباپھوٹ پڑی تھی لیکن اصحاب رسولﷺکے پہاڑوں جیسے ایمان نے انہیں برداشت نہ کیااور اکثرکے ساتھ تو قتال تک کی نوبت آئی لیکن اجماع صحابہ نے اس قتال سے بھی گریزنہیں کیا۔ان مدعیان نبوت کے حالات پڑھنے سے صاف محسوس ہوتاہے کہ حرص و لالچ کی کثرت کے باعث شیطان نے انہیں اس راستے پرڈال دیا۔امت مسلمہ کے مختلف الخیال گروہ ایک دوسرے کے خلاف بہت دورتک نکل جاتے ہیں اور بعض اوقات دوسرے کوخارج از ایمان سمجھتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہر گروہ میں ایک معتدل طبقہ کل امت مسلمہ کے تمام گروہوں کو مسلمان ہی سمجھتاہے جب کہ کسی نئے نبی کو ماننے والو ں کو کل امت کے کل گروہوں کے کل علماء بالاجماع دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں اور کسی کے ہاں اس طرح کے طبقوں کے لیے 1%بھی برداشت نہیں پائی جاتی۔ ماضی قریب میں دورغلامی کے دوران کل میدان ہائے حیات میں تبلیس کے باوجود جب امت کے عقائد کوگمراہ نہ کیاجاسکاتو گورے سامراج نے عقیدہ ختم نبوت میں نقب لگانے کی ناپاک سعی کی۔امت نے ہمیشہ کی طرح آج بھی اس ناپاک سعی کے خلاف آہنی بندباندھااوراسے کفرکے کے اندھیرے غارمیں دھکیل دیااور آئندہ بھی اس طرح کی کوئی کاوش ناقابابل برداشت ہوگی تاآنکہ خاورمحشرجلوہ افروزہوجائے۔

 طلوع ہوجائے۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
52200

بے خبر وزیراعظم – تحریر: عبدول احد

ریاست مدینہ کا دعویدار وزیراعظم کیا آپ کو سپریم کورٹ کے جسٹس مشیر عالم کے فیصلے کا پتہ ہے  کہ جس فیصلے سے آپ کے پاکستانی شہریوں  کی انسانی حقوق متاثر ہوئے 50 سال سے اوپر لوگوں کے گھروں کے چوہلے بجا دیئے گئے ان کو ذہنی بیماریوں میں مبتلا کردئیے گئے 16000 بے قصور خاندانوں کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنا کر نوکریوں سے محروم کر دیا یہ وہ 16000 ہزار ملازمین  ہیں جو پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین کرنے والے لوگ ہیں.

 جناب والا 2010 میں پارلیمنٹ سے ایکٹ پاس ہوتا ہے پھر اخبارات میں اشتہارات دے کر ایک مقررہ وقت میں نوکریوں کے لئیے بلایا جاتاہے اور اشتہارات میں پرانی نوکریوں کو چھوڑنے کی بات کی جاتی ہے 16000 ہزار ملازمین جن کو پارلیمنٹ کی طاقت کا اندازہ تھا کہ اگر پارلیمنٹ سے ایکٹ پاس ہوتا ہے تو اس کو کوئی ختم نہیں کر سکتا  ان ملازمین  کا قصور ہمیں بتائیں ان کو بار بار بلائے گئے  پرینٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے سے جناب والا یہ 16000 پاکستانی شہری  1995 سے 1996 کے درمیان پیپلزپارٹی  کے دور میں ایک باقاعدہ طریقے سے نوکریوں پر رکھا جاتاہے 1997 میں نواز شریف کے ظالمانہ دور میں سیاسی انتقام کا نشانہ بنا کر نوکریوں سے فارغ کر دیتے ہیں.

اس وقت ان شہریوں کی عمریں 30 اور 35 سال کے درمیان تھی ان لوگوں نے چھوٹی موٹی نوکریاں حاصل کی کسی نے چھوٹا موٹا کاروبار شروع کیا 12 سال گزرنے کے بعد 2010 میں 42 اور 47 سال کے درمیان عمروں  پر پہنچ جاتی ہے تو ان کو اشتہارات کے ذریعے سے ایکٹ کا حوالہ دے کر بلایا جاتا ہے 2021 میں 52 اور 57 سال کے درمیان عمریں جب پہنچ جاتی ہے تو ایکٹ آئین کے ساتھ متصادم قرار دے کر نوکریوں سے محروم کر دیے جاتے ہیں  ریٹائرمنٹ کے قریب لوگوں کے منہ سے نوالہ چیھنا گیا اس عمر میں نہ نوکری مل سکتی ہے اور کاروبار کے لیئے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ نوکر پیشہ لوگوں کے پاس نہ ہونے کی برابر ہوتی ہے جناب وزیراعظم آف پاکستان( ریاست مدینہ ) ان تمام باتوں کا نچوڑ میں آپ کو بتاتا ہوں 


1۔  اسلام میں انصاف کی بنیاد پر فیصلے کئیے جاتے ہیں 16000 ملازمین کے معاشی قتل کا ذمےدار کون ہو گا ؟
2۔ کیا ریاست مدینہ میں بوڑھے  والدین کی صحت اور معاشی قتل کیا جاتا ہے  ؟ 
3۔ ریاست مدینہ میں  بچوں کی کفالت  ان کی تعلیم اور صحت  کس کی ذمےداری ہوتی ہے  یہ ذمداری بھی پاکستانیوں نے ریاست مدینہ پر نہیں ڈالی اور خود ہی یہ ذمداری اپنے کندھوں پر ڈال کر نبھا رہے ہیں پھر بھی 16000 ہزار ملازمین  کو نکال کر ان کے بچوں کو تعلیم اور صحت سے محروم کیا جاتا ہے ذمےدار کون ہو گا ؟4۔ ریاست مدینہ میں بچیوں کی شادیوں صحت  اور تعلیم پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے یہاں پر 16000 ملازمین کو نکال کر ان کے بچیوں کو محروم کر دیا جاتا ہے ذمےدار کون ہو گا ؟   بے خبر وزیراعظم آف پاکستان   باخبر رہیئے تاکہ ریاست مدینہ کا تصور دنیا میں ایک مثبت انداز میں  پیھل جائے

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
52187

گلگت بلتستان میں صحت سے متعلق اپنی نوعیت کاپہلا ڈیٹا پراسیسنگ سینٹرکاافتتاح

گلگت(چترال ٹائمز رپورٹ) سیکریٹری صحت گلگت بلتستان میر وقار احمد نے حیات پروجیکٹ کے تحت گلگت میں ایک نئے ڈیٹا سینٹر کا افتتاح کیا ہے۔ حیات پروجیکٹ کو آغا خان فاؤنڈیشن کینیڈا اور گرینڈ چیلنجز کینیڈا نے مشترکہ طور پر مالی اعانت فراہم کی ہے، اور یہ آغا خان ہیلتھ سروس، پاکستان 2019سے گلگت بلتستان کے ضلع غذر اور چترال، خیبر پختون خواہ کے منتخب علاقوں میں شروع کیا ہے۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، میر وقار احمدنے کہا “حیات پروجیکٹ گلگت بلتستان میں اپنی نوعیت کا پہلا پروجیکٹ تھا۔ یہ پروجیکٹ ضلع غذر میں شروع کیا گیا ہے اور اس نے صحت سے متعلقہ اعدادو شمار کے جمع کرنے اور اس کے تجزیے میں بہت مدد کی ہے”۔
ڈیٹا سینٹر کو آغا خان یونیورسٹی نے آغا خان ہیلتھ سروس، پاکستان کے تعاون سے محکمہ صحت، گلگت بلتستان کے لیے ڈیزائن کیا ہے۔ ڈیٹا سینٹر ایک سرور، ایک سرور روم، ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر، نیٹ ورک سوئچ اور دیگر ہارڈ ویئر کے ساتھ ڈیٹا سینٹر قائم کیا گیا ہے تا کہ محکمہ صحت، گلگت بلتستان کو فنڈ کی مد ت سے باہر آزادانہ طور پر حیات پروجیکٹ کے کام جاری رکھنے میں سہولت فراہم کی جا سکے۔

آغا خان ہیلتھ سروس، پاکستان کے سی ای او ندیم عباس نے کہا، ” یہ ڈیٹا سینٹر حیات اقدام کودیرپا بنانے اور ہمارے حکومتی شراکت داروں کو صحت سے متعلق اہم ڈیٹا کو ڈیجیٹلائز کرنے میں اہم کردار ادا کرنے میں اگلا قدم ہے”۔

حیات پروجیکٹ کو آغا خان یونیورسٹی نے ڈیزائن کیا ہے جس کا مقصد ضلعی اور صوبائی سطح پر صحت کے نظام میں احتساب، شفافیت اور گورننس کے طریقہ کار کو آسان بنانا ہے۔اس میں حیات نامی ایک موبائل ایپ شامل ہے، جو کہ ہیلتھ ورکرز کو مریضوں کے ریکارڈ کو ڈیجیٹل طور پر ریکارڈ کرنے اور برقرار رکھنے کی اجازت دیتا ہے، اور صحت سے متعلق امور، جیسے حفاظتی ٹیکوں کی اہمیت،بچوں کی غذائیت، تولیدی صحت اور زچگی کی دیکھ بھال کے بارے میں آگاہی کے سیشن منعقد کرتا ہے۔ حیات میں ایک پائیدار، ڈیٹا پر منحصر ویب پورٹل بھی شامل ہے۔جو حکومت کے قریبی تعاون سے تیار کیا گیا ہے، جو ڈیٹا کی ریموٹ مانیٹرنگ کی سہولت فراہم کرتا ہے۔

“ڈیٹا سینٹر ڈیٹا اکٹھا کرنے کی سرگرمیوں کو ہموار کرے گا اور محکمہ صحت، جی بی کی ہیلتھ ورک فورس کی تکنیکی صلاحیت بھی مزید بہتر بنائے گا، تا کہ وہ حیات اور دیگر ڈیجیٹل ہیلتھ پروجیکٹس کو برقرار رکھ سکیں۔ آغا خان یونیورسٹی میں ڈیجیٹل ہیلتھ ریسورس سینٹر اور ٹیکنالوجی انوویشن سپورٹ سینٹر کے ڈائریکٹر سلیم سیانی نے کہا کہ مجموعی طور پر یہ خطے میں تمام ڈیجیٹل ہیلتھ سرگرمیوں کے مرکز کے طور پر کام کرے گا۔

جیسا کہ کوویڈ 19پھیلتا گیا، حیات کے ساتھ مربوط عمل نے آغا خان ہیلتھ سروسز، پاکستان گلگت بلتستان اور خیبر پختونخواہ میں صحت کے محکموں کے ساتھ موثر طریقے سے رابطہ قائم کرنے بروقت اور موثرمعلومات دینے فراہم کرنے میں مدد کی۔ حیات نے دور دراز علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو کوویڈ 19کے خلاف حفاظتی اقدامات کے لیے کلیدی پیغامات کی ترسیل کو فعال کیا۔

گلگت بلتسان اور چترال میں تقریباً 565ہیلتھ ورکرز حیات ایپ کو زچہ و بچہ کی صحت سے متعلق کلیدی ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں، جن میں دور دراز کمیونٹیز میں تولیدی، زچہ، نوزائیدہ اور بچوں کی صحت اور حفاظتی ٹیکوں اور بچوں کی نشونما کی خدمات شامل ہیں۔

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, مضامینTagged , ,
52151

دھڑکنوں کی زبان – ہمارا ہردن ”یوم دفاع“ہے – محمد جاویدحیات

دشمن کا مکار،طاقتور،نڈر اور مضبوط ہونا بھی نعمت سے کم نہیں کیونکہ ان کے مقابلے میں مضبوط طاقتور اور نڈر ہونا پڑتا ہے۔اس لیے کہ ہر ابو جہل کے مقابلے میں شیر خدا کو اٹھنا ہوتا ہے اس لیے قران عظیم الشان نے فارمولہ دیا۔۔جتناہوسکے طاقت حاصل کرو۔۔اپنے گھوڑوں کوموٹے تازے رکھو۔۔۔اپنے اور اللہ کے دشمنوں پر رعب ڈالو۔۔دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ حق و باطل ٹکراتے رہے ہیں اور یہ کشمکش تا قیامت جاری رہے گی۔ہم نے بے شک انگریزوں سے آزادی حاصل کر لی لیکن ہندوؤں سے اپنا حق چھین لیا تھا ہماری جد و جہد آزادی میں ان کی بہت ثانوی حیثیت تھی۔جب ہندوستان کے بٹوارے کی بات ہو رہی تھی تو گاندھی نے کہا تھا کہ یہ ایک دیوانے کی بڑھ ہے اس کے جواب میں جناح نے کہا تھا کہ دیکھو دیوانے کیا کر دیکھاتے ہیں۔۔

ہندوستان کی تقسیم کیوقت ہی کئی سرحدوں پر تنازعے چھوڑے گئے تھے ان میں مشرقی پنجاب، کشمیر، رن اف کچھ وغیرہ شامل تھے۔ان سرحدوں پر تنازعہ مسلسل رہتا۔سن پینسٹھ شروع ہوتے ہی ان تنازعات میں شدت آگئی ہندوستان نے رن اف کچھ میں بلا جواز پرانے تنازعے اٹھایا جب منہ کی کھائی تو شاستری نے اپنی 22 فروری سن پینسٹھ کی نشری تقریر میں کہا کہ ہم اب اپنی مرضی کامحاذ کھولینگے۔ہمیں دشمن کے عزائم کا یقین نہیں آیا البتہ ہم نے اپنے جانبازوں کو ہوشیار کیا۔۔آخر 6ستمبرکی وہ رات بھی آگئی جب دشمن کا ٹیڈی دل لشکر ناشتہ کرنے لاہور سیالکوٹ جسٹر اور موناباو وغیرہ کی سرحد پر پہنچ گئے۔اس وقت تک قوم بے خبر تھی مگر جانبازوں کے ہاتھوں میں بندوقیں چمکنے لگی تھیں۔ادھر مسجدوں میں اللہ اکبر کی صدایں بلند ہو رہی تھیں ادھر محاذوں پر توپیں اور رافلین چیخ رہی تھیں پاک دھرتی پکار رہی تھی۔۔۔

”اب وقت شہادت ہے آیا” لاہور کے محاظ پر میجر شفقت کو اس کا کمانڈر کال کرکے کہتا ہے۔۔۔بیٹا!صرف دوگھنٹے دشمن کو روکے رکھو تو قوم پر تمہارا احسان عظیم ہوگا۔۔لیکن صبح سات بجے شفقت ہنستے ہوئے کال کرتا ہے۔۔سر! چار گھنٹے ہوگئے دشمن ایک انچ بھی پاک دھرتی کے اندر نہ آسکا۔بیرونی نمایندہ جب اس محاذ پر پہنچتا ہے تو اس کو پاک فوج کے جانباز مسکرا کر گلے لگاتے ہیں وہ اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے۔۔۔یہ لوگ زندگی سے زیادہ موت سے پیار کرتے ہیں۔سارے دن کی لڑائی میں دشمن منہ کی کھاتا ہے۔۔میجر عزیز بھی اس محاذ میں جان کا نذرانہ پیش کرتا ہے۔ سات ستمبر کا دن فضا کے شاہینوں کا دن ہے ایم ایم عالم 52سیکنڈ میں پانچ جہاز مار گراتے ہیں۔سکوارڈن لیڈر سرفراز فیقی اور ضمیر الدین پاک سر زمین پر قربان ہوتے ہیں۔۔

ملک نور خان اور اصغر خان دشمن کو تھس نہس کر دیتے ہیں۔ زمین پر پوری قوم لڑتی ہے چونڈہ محاذ پر 500 ٹینک اکھٹے حملہ اوور ہوتے ہیں یہ جنگ عظیم کے بعد دنیا میں ٹینکوں کی دوسری بڑی لڑائی تھی اٹھ جانباز پہلی دفعہ اپنے بدن کے ساتھ بم باندھ کر موٹر سایئکلوں پر ان کی طرف دوڑتے ہیں دنیا کی تاریخ میں پہلا خود کش حملہ کرتے ہیں اور چوندہ کو دشمن کے ٹینکوں کا قبرستان بنا دیتے ہیں۔بحری بیڑا پی این ایس غازی دشمن کو ششدر کرکے رکھ دیتا ہے ہمارے تجارتی جہاز آرام سے آتے جاتے ہیں دشمن کا جہاز” سرسوتی” ہمارے بندرگاہ پہ کھڑا ہے دشمن کے تجارتی جہاز حرکت نہیں کر سکتے۔۔پوری قوم محاذ کی طرف دوڑی ہے جوان بوڑھے مرد عورت مایں بہنیں بیٹیاں شاعر ادیب گلوکار کوئی فرد ایسا نہیں جس کے لب پہ نعرہ جنگ نہ ہو۔۔

دشمن اپنی پسند کے محاذوں کیم کھرن،رن اف کچھ،چوندہ،جسر قصور،ماناباو وغیرہ میں جنگ ہار چکا ہے۔ہمارے پاس بے سرو سامانی ہے مگر غیرت ایمانی ہے ان کے پاس سامان وافر ہیں لیکن موت سے بھاگنے والے غیرت سے خالی ہیں۔آج کا دن قوم کے امتحان کا دن تھا ہم امتحان میں پاس ہو گئے تھے۔زندہ قوموں کا ہر دن امتحان کا دن ہوتا ہے۔بھٹو مرحوم کے وہ الفاظ قوم کے کانوں میں گونجتے ہیں۔۔میرا ملک میرا انتظار کر رہا میں جا رہا ہوں ہم لڑینگے۔۔۔وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے وہ الفاظ ” ہم لاالہ پر یقین رکھتے ہیں ہم لڑینگے ” یہ الفاظ قوم کے کانوں میں رس گھولتے ہیں۔اس قوم کا ہر دن یوم دفاع ہے۔۔

یہ آزمائش کے لیے تیار قوم ہے۔۔ایوب خان کی وہ نشری تقریر لا الہ کا ورد کرکے اُٹھو اور دشمن کو نیست و نابود کردو۔۔۔ہندوستان کو پتہ نہیں کہ اس نے کس قوم کو للکارہ ہے۔ہم اس وقت تک لڑینگے جب دشمن کے توپ کا آخری گولی چلے اور وہ ہمیشہ کے لیے خاموش نہ ہوجائے” ہم لڑائی پسند ہیں ہم لڑینگے ہم لڑ رہے ہیں۔ہم مسلسل حالت جنگ میں ہیں کیونکہ اسی جد و جہد میں ہماری بقا ہے دنیا مانتی ہے کہ ہماری فوج دنیا کی لڑاکوترین اور بہادر فوج ہے۔ہم سیاسی لحاظ سے جیسے بھی ہیں لیکن آزمائش کی کسی بھی گھڑی میں ہم ایک ہیں۔ہمارا جینا مرنا پاکستان ہے ہماری شناخت اور آخری منزل پاکستان ہے۔۔ اللہ پاکستان کو سلامت رکھے

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
52145

نوائے سُرود – گمنام نجانےکتنے ہیں – شہزادی کوثر

6 ستمبر 1965کو دشمن کے دانت کھٹے کر کے اپنی دفاع کو ناقابل شکست بنانے والے سپوت وطن عزیز کا انمول سرمایہ ہیں،جنھوں نے اپنا سب کچھ وطن پر قربان کرنے کا عزم کیا ہے۔ انہی سر فروشوں کی بدولت مادر وطن کا دفاع آہنی ہاتھوں میں ہے جن کی گرفت میں آنے والے دشمن کو دوسرے لمحے کا سانس لینا نصیب نہیں ہوتا، چاہے وہ پاک فضائیہ کے شاہین ہوں،بحر بیکراں کے مرد آہن جان نثار یا بری فوج کے شیر دل جانباز،ہر ایک پاک دھرتی کی حفاظت کی خاطرسر بکف ہے۔                                                                         

اے وطن تو نے پکارا تو لہو کھول اٹھا                     

 تیرے بیٹے تیرے جانباز چلے آئے ہیں                      

تینوں افواج نے ہر میدان میں وطن کی خدمت کا حق ادا کر کے ،ملک کی سالمیت اور وقار کو ناقابل تسخیر بنا کر تاریخ رقم کی ہے۔ 1965 کی جنگ میں دشمن کی لاہور کے جم خانے میں ناشتہ کرنے کی آرزو تو پوری نہ  ہونے دی لیکن  52  برس بعد ایک کپ چائے سے ابی نندن کا تواضع کر کے اپنی مہمان نوازی کا ضرور ثبوت دیا ۔ 6  ستمبر پاکستانی عوام کے دلوں میں موجود جوش و جذبے کو تازہ دم کرنے کا دن ہے پاک افواج کے شانہ بشانہ عوام نے بھی اپنا سب کچھ وطن پر قربان کرنے کی قسم کھائی تھی۔ دشمن کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ رات کی تاریکی میں بھی ہم جس ملک پر قبضہ کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں اس کے بیٹے نیند میں بھی بیدار رہتے ہیں۔ ان کے حوصلے سر بفلک چٹانوں سے اونچے ہیں ۔یہ اقبال کے شاہین ہیں جن کی دوربین نگاہ ہر زاویئے سے دیکھنے،پرکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔اور اپنے شکار کو لمحہ بھر میں دبوچنے کی صلاحیت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔اس کا ثبوت پاک فضائیہ کے لٹل ڈراگن ،اسکوارڈن لیڈرمحمد محمود عالم ستارہ جرات کا بے مثال کارنامہ ہے جنھوں نے   65  کی جنگ میں ایک منٹ کے اندر اندر انڈین ائیر فورس کے پانچ ہاکر ہنٹر ائیر کرافٹس زمین بوس کر دئیے۔ ان کے اس کارنامے سے پاک فضائیہ کا مورال کس حد تک بلند ہوا ہو گا اسے آسانی سے محسوس کیا جاسکتا ہے۔                                       

عقابوں کے تسلط پر فضائیں فخر کرتی ہیں              

خودی کے رازدانوں پر دعائیں فخر کرتی ہیں            

بطن سے جن کے بیٹے ہوں فقط محمود عالم سے          

وہ دھرتی سر اٹھاتی ہے وہ مائیں فخر کرتی ہیں           

بری فوج کے میجر عزیز بھٹی نے دشمن کی طرف سے ہونے والی شیلنگ کو اپنے سینے پر روک کر وطن کی سلامتی پر قربان ہو گئے۔ اسی طرح نشان حیدر پانے والے اور ملکی وقار کے لئےاپنی جان وطن پر بخوشی نچھاور کرنے والوں سے تو سب واقف ہیں لیکن ان تمام عظیم ہستیوں کے علاوہ اور کتنے سپاہی،نائیک ،لانس نائیک،صوبیدار، لفٹننٹ،اور کیپٹن ہوں گے جنھوں نے مادر وطن کی مٹی کو اپنے لہو کے پھولوں سے گلزار بنا دیا لیکن ان کے ناموں سے ہم آج بھی نا واقف ہیں۔                                                     

دو چار سے دنیا واقف ہے                   

 گمنام نجانے کتنے ہیں                        

ہزاروں سپاہیوں نے وطن کے نام کی لاج رکھنے کے لئے وطن کا قرض اپنے لہو سے اتارا۔آج ان کی قربانیوں کی بدولت ہم آزادی کی نعمت سے سرفراز ہیں۔ اگر انہیں چاند تارا والے پرچم میں لپٹنا  نصیب نہیں ہوا یا ستارہ جرات یا نشان حیدر نہیں ملا اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی قربانیاں رائیگاں چلی گیئں۔اس مٹی کا ہر ذرہ ان کی عظمت کو سلام پیش کرتا ہے ۔انہون  نے اپنے لہو کے چراغ جلا کر سر راہ رکھ دئیے تا کہ ملک کا ہر جوان اس روشنی میں اپنی منزل کا تعین کر سکے ۔ ملکی سالمیت کے لئے ہماری افواج ہر دم تیار ہیں۔ان کا عزم ویقین اور بلند حوصلہ بڑے سے بڑے دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی قوت عطا کرتا ہے۔۔پاک افواج نے نہ صرف حالت جنگ میں بلکہ قدرتی آفات میں بھی  پیش پیش ہیں ۔سرحدوں کی حفاظت سے لے کر اندرون ملک امن وامان کی صورت حال تک ہمیشہ ہراول دستہ کا فریضہ انجام دیا ہے ۔اللہ انہیں اپنی امان میں رکھے اور مادر وطن کو تا قیامت آباد رکھے ۔۔۔۔     آمین           

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged ,
52136

داد بیداد ۔ مشروب پشاور ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

لکھی فقیر کا شربت شکن جبین پشاور کا ایسا تخفہ تھا جو 1960ء کے عشرے میں گرمی کا واحد علا ج تھا وہ زما نہ ایسا تھا جب رنگ رنگ کے مشروبات نہیں آئے تھے جگہ جگہ ڈیپ فریزر نہیں رکھے تھے 18اقسام کی ٹھنڈی جدید بو تلوں کے ساتھ کئی اقسام کی دو نمبر بو تلیں ما رکیٹ کے اندر گردش نہیں کر رہی تھیں بو تل کا نا م مشروب کے لئے استعمال بھی نہیں ہو تا تھا اب یہ حال ہے کہ کوئی آپ کی تواضع کر نا چا ہے تو مشروب کا نا م نہیں لیتا بلکہ یو ں کہتا ہے ”آپ کے لئے بو تل لے آتا ہوں“ یا زیا دہ بے تکلف ہو تو شاگرد کو پکارتا ہے ”اوئے چھوٹے مہمان کے لئے بوتل لے آؤ“ مجھے یا د ہے مئی 1971ء میں پہلی بار پشاور آیا تو لغل خا ن مجھے چوک یا د گار کی سیر پر لے گیا لیڈی ریڈنگ ہسپتال سے آسا ما ئی گیٹ کے راستے اندر شہر میں داخل ہوئے چوک یاد گار پہنچنے کے بعدمو چی لڑہ اور گھنٹہ گھر کا چکر لگا یا واپسی پر ہم نے دوسرا راستہ اختیار کیا.

داہنے ہاتھ مڑ نے کے بعد ہمارے دائیں طرف لکھی فقیر کا سادہ بورڈ نظر آیا بورڈ کے سامنے سے گذر تے ہوئے لغل خا ن نے کہا پشاور کا مشہور شربت آپ کو پلا تا ہوں دروازے کے اندر داخل ہوئے تو کا فی وسیع جگہ تھی دیواروں پر آیا ت قرآنی اور احا دیث کے علا وہ اولیائے کرام کے اقوال، علا مہ اقبال،شیخ سعدی شیرازی اور دوسرے بزرگوں کے اشعار لکھے ہوئے تھے ایک بڑی تختی سامنے نظر آرہی تھی جس پر لکھا تھا ”شربت شکن جبین“ چند چھوٹی چھوٹی تختیاں تھی ایک تختی پر لکھا تھا ”یہاں جناب والا کو پر چی دی جا ئیگی“ ہم نے قطار میں کھڑے ہو کر پر چیاں لے لیں یہ ایک گلاس شربت کی پر چی تھی جو 25پیسے میں آتی تھی پر چی لینے کے بعد ہم دوسری قطار میں کھڑے ہو ئے اب ہمارے سامنے دوسری تختی تھی اُس پر لکھا تھا ”یہاں جناب والا کی خد مت میں شربت شکنجبین پیش کی جائیگی“ قطار میں کھڑے ہو کر ہم نے اوپر دیوار پردیکھا جلی حروف میں لکھا تھا ؎
گنج بخش،فیض عالم، مظہر نو رخدا
نا قصاں را پیر کا مل، کا ملاں رار ہنما


تھوڑی انتظار کے بعد ہماری باری آئی تو بڑے گلا س میں شکنجبین کا شربت ہمارے ہاتھوں میں تھما دیا گیا شربت کا ذائقہ چکھنے سے پہلے ہم نے سلو ر کے خوب صورت گلا س کو بار بار دیکھا اب ہمارے سامنے والی قطار ایک اور تحتی کی طرف آگے بڑھ رہی تھی تختی پر لکھا تھا ”یہاں جناب والا کو کر سی پیش کی جا ئیگی، اس جگہ چھوٹی چھوٹی خو بصورت کر سیاں بھی رکھی تھیں بینج بھی رکھے تھے لغل خا ن خو د پینج پر بیٹھ گئے مجھے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اب شر بت شکنجبین کا ذائقہ چکھنے کی باری آئی تو ہم حیرت کی دنیا میں چلے گئے مئی کی گر می میں ایسا احساس ہوا کہ ہم سطح سمندر سے 960فٹ کی بلندی پر پہاڑی چشمے کے پا نی سے لطف اندوز ہورہے ہیں مگر پا نی کا ذائقہ ایسا ہے جو زندگی بھر ہم نے کبھی نہیں چکھا.

اور سچی بات یہ ہے کہ لکھی فقیر کے آستا نے کے سوا کہیں بھی یہ ذائقہ چکھنے کو نہیں ملتا یہاں کا ما حول ایسا تھا جیسے ائیر کنڈیشنز لگا ہو حالانکہ چھت کی بلندی سے معمو لی پنکھے ہوا دے رہے تھے شربت پینے کے بعد با ہر نکلنے کو جی نہیں چا ہ رہا تھا مگر ہم نے بائیں طرف دیکھا تو ایک اور تختی نظر آئی جس پر لکھا تھا ”یہاں آپ کی اگلی آمد کے انتظار کی جگہ ہے اب تک کے لئے ہم آپ کا شکر یہ ادا کرتے ہیں“ تختی کی عبارت نے ہمیں با ہر جا نے کا راستہ دکھا یا، با ہر نکل کر مسجد مہا بت خا ن روڈ پر واپس جا تے ہوئے ہم نے شر بت شکنجین سے زیا دہ آستا نہ لکھی فقیر کے ما حول کا ذکر کیا اس ما حول کی رو حا نی کیفیت کا ذکر کیا لغل خا ن نے اپنے تجربے اور مشا ہدے کی بنیا د پر بتا یا کہ یہ صرف شربت نہیں بلکہ دوا بھی ہے اس میں دوا سے زیا دہ دُعا کا اثر ہے لکھی فقیر ایک خدا رسید ہ بزرگ تھے انہوں نے یہاں شربت کی سبیل لگائی اور اس سبیل سے خلق خدا کو فیض پہنچتا ہے پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ہم نے عظمت بلڈنگ میں کمر ہ لے لیا لکھی فقیر کا آستا نہ ہمارے پڑوس میں تھا مجھ سے زیا دہ یو سف شہزاد کو پسند آیا اور ہم ہر روز مشروب پشاور سے لطف اندوز ہونے لگے پشاور کے مصروف کاروبار ی مر کزمیں لکھی فقیر کا آستا نہ ہمارے لئے نعمت سے کم نہیں تھا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
52134

امریکہ کی ناکامیوں کے اسباب ۔ محمد شریف شکیب

افغان محاذ پر امریکہ اور نیٹو کی فوجی شکست سے یہ حقیقت آشکارہ ہوگئی کہ دنیا میں کوئی بڑی سے بڑی فوجی طاقت بھی ناقابل تسخیر نہیں ہوتی۔ اور جنگیں ملی و مذہبی جوش و جذبے سے لڑی اور جیتی جاتی ہیں۔ لشکر جرار اور جدید ترین ہتھیار جنگ میں کامیابی میں ضمانت نہیں۔ دوسری جنگ عظیم سے قبل برطانیہ کی آدھی دنیا پر حکمرانی تھی۔ مگر وہ افغانستان کو تسخیر نہ کرسکا۔ جنگ عظیم کے بعد دنیا دو گروپوں میں تقسیم ہوگئی۔ جسے بائی پولر سسٹم کہا جاتا ہے۔ ایک گروپ سرمایہ دارانہ اور جمہوری نظام کے علمبرداروں کا تھا۔ جس کی قیادت امریکہ کررہا تھا۔ جبکہ دوسرا گروپ کمیونسٹوں کا تھا جس کی قیادت سوویت یونین کر رہا تھا۔

1970کے عشرے میں سوویت یونین نے افغانستان پر لشکر کشی کی اور بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانے کے بعد 1979میں اسے نہ صرف وہاں سے ناکام لوٹنا پڑا۔ بلکہ سوویت یونین کا شیرازہ ہی بکھر گیا اور وہ نو مختلف ریاستوں میں تقسیم ہوگیا۔ اور وسطی ایشیائی مسلم ریاستوں تاجکستان، قازقستان، ازبکستان، آذربائیجان اور ترکمانستان کو بھی افغان جنگ کی بدولت آزادی مل گئی۔ بائی پولر سسٹم کا خاتمہ ہوگیا اوردنیا میں یونی پولر سسٹم قائم ہوگیا اور امریکہ دنیا کا واحد سپر پاور بن گیا۔

اپنے معاشی اور فوجی طاقت کے زغم میں امریکہ نے ویت نام میں فوجی مداخلت کی۔ مگر وہاں سے ناکام لوٹ گیا۔ پھر عراق پر لشکر کشی کی اور بغداد سے بھی کچھ حاصل کئے بغیر نکلنا پڑا۔ 2001میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں افغانستان پر یلغار کی۔اور بیس سالوں میں کھربوں ڈالر کا معاشی اور ہزاروں فوجیوں کا جانی نقصان اٹھانے کے بعد کابل سے بھی رات کی تاریکی میں فرار ہوگیا۔ دنیا کا سب سے طاقتور ملک جس کے پاس جدید ترین فوج، جدید ترین ٹیکنالوجی اور جدید ترین فضائیہ اور بحری بیڑے ہیں وہ طالبان کو شکست کیوں نہیں دے سکا؟ دنیا بھر کے دانشور اس بات پر حیران ہیں کہ امریکہ دورِ جدید میں جنگیں کیوں نہیں جیت پاتا؟ امریکیوں کا دعویٰ ہے کہ امریکہ کو افغانستان اور عراق میں بہت سی کامیابیاں ملی ہیں۔

امریکی فوج نے اسامہ بن لادن کو ڈھونڈ کر مارا ڈالا، القاعدہ کے کئی سرکردہ رہنما یا تو مارے گئے یا گرفتار کر لیے گئے۔ ’افغانستان میں انفراسٹرکچر کو فروغ ملا، خواتین کو تعلیم کے مواقع فراہم کئے گئے۔ ایک تعلیم یافتہ متوسط طبقہ ابھر کر سامنے آیا۔ عراق میں دولت اسلامیہ جیسے خطرناک دہشت گرد وں کوتباہ کیاگیا، لیبیا میں صدام حسین اور کرنل قذافی جیسے آمروں کا تختہ الٹ کر وہاں کے عوام کو بدترین آمریت سے نجات دلائی گئی۔امریکہ کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو امریکہ 1945 تک تقریباً تمام بڑی جنگیں جیت چکا تھا، لیکن 1945 کے بعد سے امریکہ کوکسی جنگ میں قابل ذکر کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ جن میں کوریا، ویت نام، خلیجی جنگ، عراق اور افغانستان کی جنگیں شامل ہیں۔”دی امریکن وار ان افغانستان اے ہسٹری“ نامی کتاب کے مصنف کارٹر ملکاسین کا کہنا ہے کہ دوسری جنگ عظیم سے پہلے لڑی جانے والی جنگیں ممالک کے درمیان تھیں اور امریکہ کو ان جنگوں میں کامیابی ملی۔

نئے زمانے کی جنگوں میں امریکہ کی ناکامی کی بنیادی وجہ یہ ہے یہ جنگیں ریگولر افواج کے درمیان نہیں لڑی گئیں بلکہ جنگجووں کے ساتھ تھیں جو اگرچہ فوجی طاقت میں کمزور ہیں مگروہ امریکی فوج کے مقابلے میں زیادہ حوصلہ مند اور پرعزم ہیں۔جس طرح سے امریکی فوجی بن غازی، صومالیہ، سائیگون اور اب کابل سے بے بسی کی حالت میں واپس آئے ہیں اس نے امریکی شکست کو مزید شرمناک بنا دیا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ جدید دور کی جنگوں میں امریکی فوج کی شکست کی کئی وجوہات ہیں، جن میں مقامی ثقافت کو نہ سمجھنا سب سے اہم ہے۔افغانستان، عراق، شام اور لیبیا جیسی جنگیں بڑی خانہ جنگیاں ہیں۔ فوجی یا مادی طاقت ان جنگوں میں فتح کی ضمانت نہیں۔خاص طور پر جب امریکہ جیسا ملک مقامی ثقافت سے ناواقف ہو اور ایسے دشمن سے لڑے جو زیادہ باخبر اور زیادہ پرعزم ہو۔ایسی جنگ میں قابض فوج کی ناکامی فطری امر ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
52106

یوم دفاع پر ملک کو درپیش مسائل – پروفیسرعبدالشکورشاہ

یوم دفاع دراصل یوم ایفاء عہد ہے۔یوم دفاع اس بات کا تقاضہ کر تا ہے کہ ہم مملکت خداداد پاکستان کے تحفظ اور سالمیت کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ ہم ہر سال اس دن اس عہد کو دہراتے ہیں کہ جب بھی قوم پہ مشکل گھڑی آئے گی1965کی جنگ کی طرح ساری قوم متحد ہو جائے گی۔یوم دفاع ہم سے اس بات کا بھی متقاضی ہے کہ ہم پاکستان کو درپیش اندرونی و بیرونی تمام مشکلات اور مسائل کے حل کے لیے متحد ہو کر کوشش کریں۔ہمیں قائداعظم کے اس فرمان پر پختہ یقین ہونا چاہیے، کام کی شدت سے مت گھبراؤ، پاکستان رہنے کے لیے بنا ہے۔ یوم دفاع1965کے شہدا اور غازیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے منایا جا تا ہے۔6ستمبر 1965 وہ تاریخی دن، جب ہم نے اپنے ازلی دشمن ہندوستان کو نہ صرف ہر محاذ پر پسپا کیا بلکہ پوری دنیا میں ثابت کیا کہ پاکستان قائم رہنے کے لیے بنا ہے اور اس مٹی کا بچہ بچہ اس پر جان نچھاور کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔

موجودہ تمام مشکلات اور مصائب کے باوجود، بطور قوم جب بھی ہمیں آزمائش میں ڈالا گیا ہم سرخرو ہو ئے۔ ہماری ہمت، بہادری اور جرات کا امتحان کئی بار لیا جا چکا ہے۔ہم قائد اعظم کے، ایمان، اتحاد اور تنظیم کے سنہری اصول پر عمل پیرا ہو کر ہر مرتبہ جارہیت، ظلم، ناانصافی،فرقہ واریت، دہشت گردی، معاشی بدحالی اوردیگر بے شمار مشکلات کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر دشمن کے عزائم کو خاک میں ملا دیتے ہیں۔ہم تو یو م دفاع پر اپنے بنیادی حقوق کا دفاع کرنے سے قاصر ہیں۔ ہم نے فوج کو دفاع سے ہٹا کر مردم شماری، مساجد کی سیکورٹی، مظاہروں کو روکنے، احتجاجیوں سے مذاکرات کروانے،سیاسی محاذ آرائی کو روکنے،تعمیراتی منصوبوں اور ویلفیر کے کاموں میں لگا دیا ہے تو پولیس اور دیگرسول اداروں کو سرحدوں پر بھیج دینا چاہیے۔

زلزلہ آئے تو فوج،طوفان آئے تو فوج، آندھی آئے تو فوج، سیلاب آئے تو فوج،دھرنا ہو تو فوج،ادارے تباہ ہونے لگیں تو فوج باقی سول محکموں کی موج۔ہم عجیب نفسیات کے مالک ہیں،بجائے ادارے مضبوط کرنے اور انہیں تربیت فراہم کرنے کے ہر موقعہ پر فوج طلب کرنے کی روش اپنائے ہوئے ہیں۔ ہمیں اپنے نظام کے کینسر کو ختم کرنے کے لیے ایک بڑاآپریشن کرنا پڑے گا پھر جا کر کچھ بدلنے کی امید کی جا سکتی ہے۔ اس وقت پاکستان کو بہت سے اندرونی اور بیرونی مسائل کا سامنا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ اندورنی مسائل میں معاشی تنزلی، معاشرتی اور اندرونی تحفظ کے مسائل سر فہرست ہیں۔عام آدمی کی خواہش ہے کہ وہ محفوظ زندگی گزارے، اسے جان،مال اور عزت کا تحفظ حاصل ہو۔پڑھے لکھے نوجوان نوکریوں اور ملازم نوکریوں کا تحفظ چاہتے ہیں۔جب تک عوام تحفظ کی فضاء میں سانس نہیں لیتی، اس کو معاشی تحفظ حاصل نہیں ہوتا وہ یوم دفاع کو سمجھنے کے بجائے غیرملکی عناصر کے چنگل میں پھنس کر دفاع کو کمزور کرنے کے لیے سرگرم ہو جاتے ہیں۔

بدقستمی سے بااثربدعنوان حکمران، بیوروکریٹس، افسران اور مافیا نے اس ملک کو دیوالیہ کر دیا ہے۔ قوم بھی گونگی، بہری اور اندھی ہو کر اس ساری لوٹ کھسوٹ کاتماشہ دیکھ رہی ہے جس نے ملک کو دہایوں پیچھے دھکیل دیا ہے۔ حکومت ٹیکسوں کے نظا م کو شفاف بنانے اور لوٹی ہوئی دولت واپس لانے میں ناکام ہو چکی ہے جو مستقبل میں مزید کرپشن اور لاقانونیت کو جنم دے گا۔ معاشی استحکام اور ملکی تحفظ لاز و ملزوم ہیں۔ معاشی طور پر کمزور اور قرضوں پر انحصار کرنے والی اقوام زیادہ عرصہ جنگ کے میدان میں سامنا نہیں کر پاتی۔ ملک کے مضبوط تحفظ کے لیے مضبوط معیشت اور اداروں کی مضبوطی انتہائی ضروری ہے۔ کامیابی کے راستے کھٹن ضروری ہو تے ہیں مگر ناپید بالکل نہیں ہو تے۔ حکومت نیک نیتی، حب الوطنی اور خلوص کے ساتھ معیشت کو بہتر ی کی طرف گامزن کرنے کی کوشش کرے اور ان مسائل سے نکلنے کا کوئی راستہ تلاش کیا جائے ورنہ ہر حکومت روتے پیٹتے پانچھ سال پورے کر کے چلی جائے گی اس ملک کا کون سوچے گا۔

معیشت کو پائیدار بنانے کے لیے ہمیں اپنے اضافی اخراجات کو کم اور غیر ضروری اخراجات کو ختم کرنے کا عہد کرنا ہو گا۔ہمارے پاس دنیا کا سب سے ناقص نظام ہے، ریلوے کی بدحالی، پی آئی اے کے خسارے، واپڈا کی لوڈشیڈنگ، واسا کی بری کارکردگی،پولیس کے مظالم، عدالتوں کی ناانصافیاں، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی لاقانونیت، میرٹ کی پامالی، رشوت ستانی، اقربہ پروری، سفارشی کلچر اور اخلاقی بے راہ روی نے نہ صرف جینا حرام کر دیا ہے بلکہ عوام کا اداروں سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ ہم اپنے ملک میں محفوظ نہیں ہیں تو ہم یوم دفاع کس بات کا مناتے ہیں۔جرائم میں ہوش ربا اضافہ، چور ی اور ڈکیتیوں کی بڑھتی وارداتیں،موبائل اور گاڑیاں چھیننے کے ان گنت واقعات، قتل و غارت، بم دھماکے، مذہبی اور فرقہ وارانہ مسائل انتظامیہ کی ناکامیوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ حکومت کی تسلیوں پر عوام اب کان نہیں دھرنے والی، اگر واقعی حکومت نے کچھ کیا ہے تو اس کا فائدہ عام آدمی تک پہنچنا چاہیے۔ عام آدمی تو روٹی اور چینی کو ترس گیا ہے۔

ہم کرکٹ کے بجائے آٹے اور چینی میں سنچریاں بنا رہے ہیں۔حکومت اختیارات کو چند خاندانوں کے محلات سے باہر نکال کر عوامی نمائندوں کے حوالے کرنے اور بلدیاتی الیکشن کو لٹکانے کے بجائے ان کے انعقاد پر توجہ دے۔ جس ملک میں لوگ عدالت سے انصاف کے بجائے روز قیامت کو انصاف لینے کی بات کریں وہاں جینا کسی جہاد سے کم نہیں ہے۔ غیر ملکی عناصر مایوس، بدحال، نادار اور ظلم سے ستائے افراد کی تلاش میں سرگرداں  رہتے ہیں اور وہ انہیں ملکی دفاع کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ ایسے افراد ان کا آسان ہدف ہوتے ہیں۔ یوم دفاع کے موقعہ پر ہمیں دشمن کی چالوں کے مطابق اپنا منصوبہ بنانا ہے۔ آزاد ی ہندوستان کے بعد دونوں ممالک مختصرالمیعاد جنگ کی منصوبہ بندیاں کر تے آئے ہیں یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک میں کوئی جنگ زیادہ عرصہ تک جاری نہیں رہی۔ چھوٹی لڑائیاں ہم کنڑول لائن کے ساتھ لڑسکتے ہیں مگر یوم دفاع کے موقعہ پر ہمیں یہ تہیہ کرنا ہے کہ ہم نے ریگولر آرمی کے ساتھ معاون رضاکار فوج اور مقامی نوجوانوں کو تربیت دینی ہے تا کہ اس ملک کا دفاع درست معانی میں مضبوط ہو سکے۔پاکستانی قوم کو محب وطن، مخلص اورایماندار قیادت کی ضرورت ہے، جس دن اسے ایسی قیادت مل گئی یہ قوم ترقی کے عروج پر پہنچ جائے گی۔

یوم دفاع پر ہم نے اپنے ازلی دشمن بھارت کے عزائم پر نہ صرف نظر رکھنی ہے بلکہ ان کو خاک میں ملانے کا عزم اور منصوبہ بندی بھی کرنی ہے۔ بھارت،امریکہ اور اسرائیل کے گھٹ جوڑ کا ایک مقصدپاکستان اور چین کے لیے مشکلات پیدا کرنا ہے۔ بھارت نواز مغربی طاقتیں ایشیاء کے امن کو تباہ کرنے کی کوششوں میں مگن ہیں۔ بھارت خطے میں اجارہ داری قائم کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے جو شرمندہ تعبیر نہیں ہوں گے۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کر کے بھارت کو عالمی طاقتوں کی چھتری سے نکالناہے۔واشنگٹن اور اسلام آباد کے عرصہ دراز سے استوار تعلقات سے ملک کو فائدے کے بجائے جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اب ہمیں عالمی سطح پر امریکہ کے علاوہ بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ماسکو اور بیجینگ اس ضمن میں اہم آپشنز ہیں۔ہم نے جذبات کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات اٹھانے ہیں تا کہ ہم داخلی اور خارجی مسائل پر قابوپانے میں کامیاب ہو سکیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
52104

دنیا میں 40 فیصد سے زائد افراد، تنازعات سے متاثرہ ’غربت کے ہاٹ سپاٹ‘ – قادر خان یوسف زئی

 عالمی برادری کو ابترمعاشی صورت حال کا سامنا ہے۔  انسانی حقوق کی عالمی  امدادی تنظیمیں ایسے ممالک میں اپنی سرگرمیاں سرانجام دیتی ہیں جہاں عوام کی کثیر تعداد کی دیکھ بھال کے لئے خیرات، رضاکارانہ امداد کی منتظر ہوتی ہیں۔ عالمی بینک نے اپنی ایک رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا تھا کہ سال 2021 تک 15کروڑ افراد انتہائی غربت کی لیکر سے نیچے زندگی گزار رہے ہوں گے، جن کی روزانہ آمدن 1.9 ڈالر یا تقریباً 311 پاکستانی روپے ہوگی۔عالمی بینک کے صدر ڈیوڈ مالپاس نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ‘وبا اور عالمی کساد بازاری کے باعث دنیا کی 1.4 فیصد آبادی انتہائی غربت تک پہنچ سکتی ہے۔’اپنی فلیگ شپ رپورٹ میں بینک کا کہنا تھا کہ اگر یہ وبا نہ آتی تو عالمی انتہائی غربت کی شرح 7.9 فیصد تک گرنے کی توقع کی جارہی تھی۔ تاہم اب یہ شرح 9.4 فیصد تک بڑھ سکتی ہے۔دنیا میں 40 فیصد سے زائد غریب افراد تنازعات سے متاثرہ علاقوں میں رہتے ہیں اور عالمی بینک کی رپورٹ کے مصنفین کا کہنا ہے کہ وبا کی وجہ سے ان علاقوں میں ‘غربت کے ہاٹ سپاٹ’ بن سکتے ہیں جہاں پہلے ہی معاشی بحران اور تنازعات موجود ہیں۔

2018 میں پاکستان کی آبادی کی 31.3  فیصد تعداد یعنی تقریباً سات کروڑ غربت کی لکیر کے نیچے تھی۔ 2020 میں یہ تعداد بڑھ کر 40 فیصد یعنی آٹھ کروڑ 70 لاکھ  ہوچکی ہے۔کرونا وبا کی وجہ سے بے روزگاری اور غربت میں مزید اضافہ ہوا ہے اور 2021 کے مایوس کن اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں غربت کی شرح 31.4 فیصد، سندھ میں 45 فیصد، خیبر پختونخوا میں 49 فیصد اور بلوچستان میں خوفناک 71 فیصد ہے۔ عالمی بینک کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان کی 80 فیصد غریب آبادی دیہاتوں میں بستی ہے۔  پاکستان میں متمول طبقہ ایک اندازے کے مطابق اپنی آمدن کا تقریباً 20 سے 30  فیصد حصہ  جب کہ نچلے متوسط اور غریب طبقے کے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اپنی آمدن کا 70 سے 80 فیصد حصہ خوراک پر ہی خرچ کرتی ہے۔اس لیے اشیائے خوراک کی قیمتوں میں اضافے  سے غریب و متوسط  طبقہ بری طرح متاثر ہوا اور مزید غربت کے مسائل کا شکار ہوا۔ ماہرین معاشیات کے خیال میں صرف پچھلے دو سالوں کی افراط زر کی وجہ سے تقریباً 40 لاکھ نئے لوگ غربت کا شکار بنے۔ غربت کی وجہ سے شہروں میں آباد لوگوں کے صرف 13 فیصد بچے مڈل سکول تک پڑھ پاتے ہیں جبکہ دیہی علاقوں میں یہ شرح 2 فیصد کے قریب ہے۔پاکستان کی آبادی خطرناک دو فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے اور 2050 میں ہماری آبادی 35 کروڑ سے بھی تجاوز کر چکی ہوگی اکستان کی تقریباً آدھی سے زیادہ آبادی ان پڑھ ہے اور اس وقت غربت کی وجہ سے تقریباً 80 لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ ایک مطالعے کے مطابق نائجیریا کے بعد پاکستان میں سب سے زیادہ بچے سکولوں میں نہیں جا پاتے۔


بادی ئ النظر حکومت کی جانب سے غربت کے خاتمے اور کمی کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں لیکن معاشی پالیسیوں میں تسلسل نہ ہونے، مختلف مافیاز کی جاراہ داری کی وجہ سے غریب و متوسط طبقے کو ریلیف نہیں مل  سکا اور غریب، مزید غریب ہوتا جارہا ہے، اشیا ضروریہ میں اجناس کے علاوہ صحت عامہ اور بنیادی تعلیم کا حصول بھی اس قدر مشکل بنا دیا گیا ہے کہ ایک خاندان کو زندہ رہنے کے لئے مل کر کام کرنا پڑتا ہے، فرد واحد سے سات افراد کا کنبہ چلنا دشوار ہوچکا ہے، اس المیے کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے بچے اور گھریلو خواتین بھی اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے کم ترین اجرتوں پر کام کرنے پر مجبور ہیں، جس کا نقصان براہ راست آنے والی نسل پر منتقل ہورہا ہے، ہنر مندی  اور اعلیٰ تعلیم کے ساتھ پیشہ وارانہ ذمے داریوں سے نمٹنے کے لئے پاکستان کے غریب اور متوسط طبقے کو بدترین حالات کا سامنا ہوگا، جس سے نکلنے کے لئے اگر دور رس حکمت عملی وضع نہیں کی گئی تو نقصان ناقابل برداشت ہوسکتا ہے۔
مختلف ممالک نے اپنی عوام کو غربت کی سطح سے باہر نکالنے کے لئے انقلابی اقدامات کئے، جن کی تقلید کرتے ہوئے نا ساعد و پریشان حالات سے باہر نکلا جاسکتا ہے۔ اس وقت چین ایک ایسا ملک ہے جس نے اپنی کروڑوں عوام کو غربت سے باہر نکالا،  چین کے صدر شی جن پنگ نے کہا ہے کہ اُنھوں نے 2012 میں عہدہ سنبھالنے پر 10 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالنے کا جو عزم کیا تھا، وہ اب پورا ہو گیا ہے۔ دستیاب معلومات کے مطابق 1990 میں چین میں 75 کروڑ افراد غربت کی بین الاقوامی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے تھے۔ یہ اس کی آبادی کا دو تہائی حصہ تھا۔ 2012 تک یہ تعداد نو کروڑ تک آ گئی تھی اور 2016 تک یہ تعداد 72 لاکھ (آبادی کا صفر اعشاریہ پانچ فیصد) رہ گئی تھی۔ مجموعی طور پر چین میں 30 سال پہلے آج کے مقابلے میں 74 کروڑ 50 لاکھ لوگ انتہائی غربت کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ چین نے اس کے جو اقدامات و اصلاحات کیں وہ قلیل المدت بھی تھی اور طوہل المعیاد بھی، اس وقت چین کی پالیسیوں پر کافی تنقید بھی کی جاتی رہی لیکن وقت نے ثابت کیا کہ چینی قیادت نے  غربت کے خاتمے کے اقدامات کئے اس سے نمٹا جاسکتا ہے۔


دنیا بھر میں غریب و ترقی پذیر ممالک کی تعداد امیر ممالک سے زیادہ ہے، اس کی بھی ایسی کئی وجوہ ہیں جن میں غریب و ترقی پذیر ممالک پر سرمایہ داری نظام کے تحت قرضوں پر بھاری سود، امدادی پروگراموں پر سخت شراط، عالمی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں کے مطابق حکومت سازیاں کرانا، خانہ جنگیوں اور جنگ مسلط کرانے سے لے کر پابندیوں کی آڑ میں فروعی مفادات کے حصول تک، ترقی یافتہ ممالک کا رویہ و پالیسیاں دنیا میں غربت میں اضافے کا اہم موجب بھی ہیں، بالخصوص کرپشن کے ذریعے غیر قانونی رقوم کو اپنے بنک ذخائر میں محفوظ و خفیہ رکھنے کی پالیسیوں نے  منی لانڈرنگ کے ناسور کو فروغ دیا ہے، جس کے باعث غریب عوام کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ کی جانے والی رقوم ترقی یافتہ ممالک میں استعمال ہوجاتی ہیں اور عالمی قوانین کے موثر نہ ہونے کی وجہ سے غربت میں کمی لانا مشکل تر ہوتا جارہا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ اقوام متحدہ منی لانڈرنگ کے عالمی قانون کو بنانے کے لئے موثر اقدامات کرے، ترقی یافتہ ممالک کی جانب دارانہ پالیسیوں کو تبدیل کرنے کے لئے ان کی بلیک میلنگ میں نہ آئے، جب اقوام متحدہ کی سطح پر غربت کے خاتمے کے لئے موثر و عملی اقدامات نہیں ہوں گے اس وقت تک غریب لوگوں کو خطہ غربت سے باہر نکالنے کی ہر کوشش کمزور رہے گی۔ صرف امدادی تنظیموں و خیراتی اداروں سے دنیا بھر میں غربت کو ختم نہیں کیا جاسکتا، جب تک ترقی یافتہ ممالک اپنے رویئے و پالیسیوں کو بھی تبدیل نہیں کرتے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
52102

سیاحت کی فروغ میں امن و آمان کی ضرورت – محمد امین

موجودہ دور میں سیاحت کی صنعت کو دنیا میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے 2019 ؁ء کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی کل جی ڈی پی کا 2.9ٹریلین ڈالر اسی صنعت سے منسلک رہا۔ٹورزم کی انڈسٹری روزگار مہیا کرنے،امدنی کمانے،غربت میں کمی لانے اور ثقافتوں کو سمجھنے اور فروغ دینے میں اہم کردار کرتی ہے۔آمریکہ،میکاوٗ،سوئزرلینڈ،فرانس،برطانیہ اور اسکینڈ نوئین ممالک (Scandinavian countries)ایسے ممالک کی لسٹ میں شامل ہیں جہاں کی جی ڈی پی کا بڑا حصہ سیاحت کی صنعت سے حاصل ہوتی ہے۔مثال کے طور 2017ء میں امریکہ کی ٹورزم اور ٹریول انڈسڑی کی مد میں 1.6ٹریلین یو ایس ڈالر کا فائدہ ہوا اور تقریبا 7.8ملین لوگوں کو روزگار مہیا ملے اوریہ اعدادوشمار سیاحت کی صنعت کی اہمیت کو اجاگر کرنے میں ایک سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے۔


سیاحت کے اعتبار سے قدرت نے پاکستان کو بہت سے وسائل سے نوازا ہے جہاں ملک کے شمال میں دنیا کے اونچے پہاڑ،گلیشئرز،جھیل اور ہرے بھرے جنگلات واقع ہیں،دوسری طرف ہمارے پاس ٹیکسلہ،کلاش اور موہن جودڑو کے قدیم تریں ثقافتی ورثے موجود ہیں،تھرپارکراور تھر کے ریگستان اور اگے بلوچستان میں ساحل سمند ر سیاحون کے لیئے بڑے دلکش نظارے پیش کرتے ہیں۔جب سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ائی ہے اس نے ٹورزم کی صنعت کو مجموعی (holistically)طور پر ترقی دینے کے لئے کوشاں ہے کیونکہ اس وقت ملک کی وزیر اعظم خود ہی ایک بڑا سیاح ہے اور سیاحت کی صنعت کی اہمیت سے واسع پیمانے پر باخبر ہے۔بقول اوزیر اعظم کے سوئیزرلینڈ جو کہ پاکستان کی گلگت بلتستان سے بہت چھوٹا علاقہ ہے،لیکن ملک کی کل جی ڈی پی کا 2.9فیصد یعنی سنتالیس بلین یو ایس ڈالر اسی صنعت سے حاصل ہوتی ہے اور کیوں نہ ہم پاکستان میں ٹورزم انڈسٹری کو صحیح معنوں میں ترقی دے سکیں تاکہ لوگوں کو روزگار مواقع حاصل ہوسکیں۔یہ عمران خان صاحب کی ایک اچھی وژن ہے۔


چترال کوسیاحت کے لحاظ نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی ایک منفرد مقام حاصل ہے۔یہان کے جعرافیائی خدوخال،پہاڑ،گلشئرز،درے،خوبصورت نظارے،بہتے ندیان،جنگلی حیات،گرم پانی کے چشمے،تاریخی مقامات،قدیم زمانے کے دنیا کی منفرد کلاش کلچر ایسے اثاثے ہیں جو ہر طرح کے سیاحوں کے لیئے استعداد کا باعث بنتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں سیاح اس علاقے کا رخ کرتے ہیں اگرچہ بدقسمتی سے چترال میں روڈ کی حالات انتہائی خراب ہیں لیکن اس کے باوجود یہ رکاوٹ سیاحوں کی ذوق کو کم نہیں کرتے۔


لیکن جن خصوصیات کی بنیاد پر چترال کو سیاحون کے لئے جنت نظیر وادی سے تشبہہ دی جاتی ہے اس میں امن و امان اور سماجی ہم اہنگی کا بڑا داخل ہے،اور اس میں کوئی شک نہیں کہ امن و امان اور سماجی ہم اہنگی کے لحاظ سے چترال اپنی مثال اپ ہیں اور یہان سیاحوں کو کسی قسم کی سکیورٹی کا خوف نہیں رہتا،چاہئے دن کا وقت ہو یا رات کا،وہ ہر وقت بغیر کسی ڈر کے گھومتے ہے۔یہان اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ چترال میں قتل اور ڈاکے کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں اور نہ یہاں کرایے کے قاتل کا کوئی تصور پایا جاتا ہے۔اس کے علاوہ یہاں کے مقامی ابادی میں سیاحوں کے حوالے سے مثبت رویہ پایا جاتا ہے۔


لیکن میں اس کو بدقسمتی کہوں تو غلط نہیں ہوگا کیونکہ کچھ سالوں سے چترال میں دوسرے علاقے کے لوگوں کے زریعے سے آمن و آمان کو خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جیسے کہ دوسال قبل علاقہ گرم چشمہ میں کرایے کے قاتلوں کے زریعے دن دھارے معصوم لوگوں کی جان لی گئی اور اس سے ایک غلط تاثر پھیلا کہ چترال جیسے پرامن علاقے بھی اس لعنت سے متاثر ہورہی ہے۔علاقہ گبور گرم چشمہ میں سیاحت کے لحاظ سے اہم کردار ادا کر رہی ہے اور یہاں جشن گبور بھی سیاحوں کے لیئے کشش کا منظر بنتی ہے ہر سال بڑی تعداد میں سیاح وادی گبور کا رخ کرتے ہیں تاکہ یہاں کے قدرتی حسن کا نظارہ کریں اگرچہ یہ بارڈر ایریا ہے اور اس کی سرحدین افغانستان کے صوبے بدخشان اور نورستان سے ملتے ہیں اور جیو اسٹڑیٹجیک لحاظ سے اہم درہ دوراہ بھی اس علاقے میں واقع ہے جو وسطی ایشائی ممالک تک رسائی کے لئے مختصرتریں زمینی راستہ مہیا کر تی ہے ان تمام کنکٹی ویٹی (connectivity)کے باوجود یہ علاقہ پرآمن رہا ہے اور پڑوسی ملک میں حالات خراب ہونے کے باوجود اس خوبصورت علاقے میں کوئی نا خوشگوار واقعہ پیش نہیں ایا ہے۔

لیکن اس سال بدقسمتی سے یہاں حالات کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی اور علاقہ بشمول اروندہ سے کرایے کے لوگ لاکر مقامی جھگڑے کومنفی پہلو دینے کی کوشش کی گئی جسے سیاحت کو بھی کافی دھچکہ لگا۔کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جہان مقامی چقلشوں اور جھگڑوں میں علاقے سے باہر کے لوگوں کو شامل کیاجائے تو اج کے میڈیا خصوصا سوشل میڈیا کے دور میں ایسے واقعات امن وامان کے حوالے سے کافی پریشان کن منظر کا باعث بن جاتے ہیں، اور ایک منفی پیغام کو پھیلانے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں جسے علاقے میں سیاحت کی صنعت کو شدیدنقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے لہذا یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ سیاحت اور امن ایک دوسر ے کے لیئے لازم و ملزوم ہیں اور موجودہ حکومت گرم چشمہ میں سیاحت کو بڑے پیمانے پر فروغ دینے کے لیئے کو شش کر ہی ہے جس میں ایر لفٹ چیر،زیگ زاگ (zigzag)،اسکیٹنگ (skating) ,گرم پانی کے چشموں کی خوبصورتی (beautification of hot springs) اور آئس ہاکی کے پروپوزلز شامل ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ ملکی اور غیر ملکی سیاح اس علاقے کا رخ کریں اور علاقے کے لوگوں کو روزگار کے سہولتیں میسر ہوسکیں لہذا ارباب اختیار کو ائندہ کے لیئے ایسے واقعات کی روک تھام کے لیئے اقدامات کرنی چاہئے تاکہ امن وامان کی مثالی فضاء یہاں برقرا ر رہیں اورمقامی لوگوں میں بھی خوف و حراس پیدا نہ ہو سکیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
52081

سوشل میڈیا کا معاشرے پر اثر۔ نوید الرحمن

معاشرے کے معنی ہیں مل جل کر رہنا اکھٹے زندگی گزارنا معاشرے سے مراد کسی جگہ یا علاقہ کے لوگوں کا طرز زندگی ہے جس میں ان کے خانگی اور شہری تعلقات قائم ہو۔ معاشرے کی اس تعریف کو ذہن میں رکھتے ہوئے جب ہم انسانی تعلقات کی نوعیت بات کرتے ہیں تو اس میں پہلی چیز خبر یا معلومات آئے گی جسے ہم علم بھی کہہ سکتے ہیں۔


انسان اپنے اردگرد دنیا اور دنیا میں ہونے والی معمولی سے واقعہ سے لے کر بڑے اور اہم واقعات کے بارے میں جاننا چاہتا ہے۔ اس کی یہ خواہش بھی جان ہیں بلکہ اس کی فطرت کا حصہ ہے۔ اس آرزو کو موجودہ دور میں سوشل میڈیا بشمول فیس بک ٹوئٹر یوٹیوب پورا کرتے ہیں۔


ہمارے چترال میں اگر دیکھا جائے تو ایک چھوٹے سے بچے سے لے کر ایک بزرگ سب سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں کوئی اس کو سمجھ کر اور کوئی نہ سمجھتے ہوئے سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس پر کوئی پابندی نہیں ہر کوئی اپنے رائے دے سکتا ہے۔ اور سوشل میڈیا پر چلنے والی خبریں اکثر سچے نہیں ہوتے جھوٹی اور من گھڑت ہوتے ہیں۔


ٹیکنالوجی کے ایڈوانس منٹ کی وجہ سے یہ دنیا ایک گلوبل گاؤں بن گیا ہے جس میں ہم اپنے گھر میں آرام سے بیٹھ کر پوری دنیا میں ہونے والے واقعات سے خبر دار ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا کا ہمارے معاشرے پر افسوس کے ساتھ منفی اثر پڑ رہا ہے جہاں پوری دنیا میں لوگ اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں تو ہم صرف اس سے اپنا وقت برباد کرتے ہیں اور اس کے منفی استعمال سے نہ صرف ہماری ثقافت بلکہ اخلاقیات پر بھی اس کا منفی اثر پڑ رہا ہے جس کا احساس کہیں نہ کہیں اندر سے ہم سب کو ہوتا ہے۔


ترقیاتی ممالک میں سوشل میڈیا کے مہلک اثرات کے بارے میں سروے بڑے اہتمام سے کرائے جاتے ہیں اور ان نتائج کی روشنی میں مختلف پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں ہمارے ہاں اس قسم کے ایک ادارے میں موجود نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں سوشل میڈیا سے مثبت تعمیری کام لیکر نئی نسل اور عام افراد کی تربیت کی جائے سوشل میڈیا خود بریشن نہیں لیکن اس کا منفی استعمال معاشرے میں جرائم، ذہنی ناآسودگی اور ڈپریشن جیسی بیماریوں کی شکل میں ہمارے سامنے ہے با مقصد تفریح اور صحت مند مقابلے ہمارے مالی و اخلاقی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , ,
52079

بھارت ایٹمی ری ایکٹرز سے تابکاری مواد, غیر محفوظ طریق کار : قادر خان یوسف زئی

بھارت ایٹمی ری ایکٹرز سے تابکاری مواد, غیر محفوظ طریق کار کا مرتکب قرار: قادر خان یوسف زئی

دنیا کی موجودہ صورت حال پر متنوع ماہرین کا اتفاق ہوا ہے کہ انسانیت کو ایٹمی ہتھیاروں کے بجائے فلاح و بہبود اور مفاد عامہ کے منصوبوں پر توجہ دینا چاہیے تھی لیکن عالمی قوتوں کے تضاد نے دنیا میں جوہری ہتھیاروں کے حصول و تجرباتی دوڑ نے عالمی امن کو خطرے میں ڈالا ہوا ہے، خاص طور پر جوہری ٹیسٹوں میں خامیوں کی وجہ سے خطے میں انتہائی مضر اثرات رونما ہوتے ہیں، جیسے عموماََ دنیا سے چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے اور عالمی میڈیا میں اسی خبروں کو چھپانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔


 بھارت میں ایٹمی ری ایکٹرز سے تابکاری مواد کو غیر محفوظ طریق کار کا مرتکب قرار دیا گیا۔معروف امریکی تنظیم Nuclear Threat Initiative (NTI) نے جنوری 2014میں بھارت میں نیوکلیئر تنصیبات کی سکیورٹی کی صورتحال پر انتہائی تشویش کا اظہار کیا تھا اور اس نے  نیوکلیئر تنصیبات رکھنے والے 25 ممالک کی نیوکلئیر سکیورٹی کے حوالے سے بھارت کو 23 ویں نمبر پر رکھا،جبکہ ہارورڈ کینیڈی سکول نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں بھارت کے نیوکلیئرسکیورٹی کے حوالے سے متعدد خدشات کا اظہار کیا۔

بھارت میں بلگام ھبل دھرواد کے علاقے میں یورینیم کے وسیع ذخائر موجود ہیں اور  مبینہ طور پر کئی بار متعددبھارتی سائنسدان ایٹمی ٹیکنالوجی فروخت کرنے پر حراست میں لئے جاچکے ہیں۔  اس کے ساتھ ساتھ بھارت دوسرے ممالک سے بھی جوہری ہتھیار، ان کی تیاری میں استعمال ہونے والے حساس پرزے اور ٹیکنالوجی کی چوری میں ملوث ہے۔بھارتی اخبارہندوستان ٹائمز نے انکشاف کیا تھا کہ بھارت نیپال کی سرحد سے تابکار مادے یورینیم کی بھاری مقدار سمگل کرنے کی کوششکی۔اس واقعہ کو بھارتی حکومت نے چھپانا چاہا مگر اس کے اپنے ہی ذرائع ابلاغ نے بھانڈا پھوڑ دیا۔

اس انکشاف سے بھارتی حکومت کے ان دعووں کی قلعی بھی کھل جاتی ہے کہ بھارت ایک ذمہ دار جوہری ملک ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت کا ایٹمی پروگرام آغاز سے ہی عدم تحفظ کا شکار رہا۔ بھارت کی ایٹمی تنصیبات سے اب تک متعدد بار جوہری مواد چرایا جا چکا ہے۔  دسمبر 2006 میں ممبئی کے نواح میں قائم ایٹمی ریسرچ سنٹر سے ایک کنٹینر ایٹمی اسلحہ میں استعمال ہونے والے پرزے لے کر روانہ ہوا اور غائب ہو گیا۔ تاحال اس چوری کا پتہ نہیں چلایا جا سکا، ان کے علاوہ 1984 سے لے کر اب تک بھارت میں یورینیم کی چوری کے 152 کیس رجسٹر کرائے جا چکے، جس کی پوری دنیا میں اور کوئی مثال نہیں۔

بھارت میں 18ماہ تک 7سے 8 کلو گرام یورینیم ایک سائنس دان کی تحویل میں رہا اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہو سکی۔ 16 جون 1998 کو بھارتی ریاست بیہار سے مغربی بنگال میں داخل ہوتے ہوئے کانگریس جماعت سے منسلک اہم وفاقی سیاستدان مشیور سنگھ دیو کو مغربی بنگال کی پولیس نے گاڑی کی تلاشی کے دوران ایک بوری میں بندھے ہوئے مشکوک پیکٹ کی بنا پر گرفتار کر لیا۔ بوری سے ملنے والے مواد کی جانچ کی گئی تو وہ یورینیم نکلا جس کی مقدار 100 کلوگرام بتائی گئی۔ مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے کانگرس جماعت کے رکن سے 100 کلوگرام یورینیم کا برآمد ہونا بہت بڑی خبر تھی۔ جسے تفتیش کیلئے کلکتہ منتقل کر دیا گیا، جہاں اس نے تسلیم کیا کہ وہ بھارت سے باہر یورینیم سمگل کرنے والے اس گروہ کا حصہ ہے، جس کے کچھ اراکین 1994 میں شمال مشرقی ریاست میگھالیہ میں موجود یورینیم کی کان سے یورینیم کی بہت بڑی مقدار سمندر کے راستے مالدیب سمگل کرنے کی کوشش میں پکڑے گئے تھے۔


ایٹمی ذخائر میں ذرا سی بے احتیاطی کی وجہ سے جو نقصانات ایٹمی تابکاری کی شکل میں پیش آسکتے ہیں اس کی ہولناکی کا اندازہ بھارت اور روس کے ایٹمی ذخائر میں ہونے والی تابکاری سے لگایا جاسکتا ہے۔ جس کا ہزاروں معصوم انسان شکار ہوگئے۔ یہ تباہی بھوپال اور چرنوبل میں ہوئی۔ بھارت جیسے ممالک میں بین الاقوامی نیٹ ورک کے ذریعے ایسے ممالک کو جوہری تجربات کے لئے ایٹمی مواد کی منتقلی کا سلسلہ ابھی تک نہیں رک سکا۔جون 2021 میں بھارتییاست جھارکھنڈ کی پولیس نے یورینیم کی فروخت میں ملوث سات افراد کو گرفتار کیا جن کے قبضے سے چھ کلوگرام یورینیم ضبط کی گئی۔

یاد رہے کہ اس سے قبل گذشتہ ماہ  بھارتمیں دہشت گردی کے واقعات کی تفتیش کرنے والے سب سے اہم ادارے نیشنل انوسٹیگیشن ایجنسی (این آئی اے) نے ممبئی میں دو افراد کو گرفتار کرکے ان کے قبضے سے سات کلو گرام یورینیم برآمد کی تھی۔ا سی واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ گذشتہ ماہ انڈیا کی ریاست مہاراشٹرا میں سات کلوگرام یورینیم کی برآمدگی اور ماضی میں اسی طرح کی دیگر اطلاعات گہری تشویش کا باعث ہیں کیونکہ ان واقعات سے انڈیا میں کنٹرول، ریگولیٹری اور نفاذ کے ناقص طریقہ کار کے ساتھ ساتھ انڈیا میں جوہری مواد کی بلیک مارکیٹ کے ممکنہ وجود کی نشاندہی ہوتی ہے۔ترجمان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1540 اور ایٹمی مواد کے تحفظ سے متعلق انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کنونشن (سی پی پی این ایم) ریاستوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ جوہری مواد کو غلط ہاتھوں میں جانے سے روکنے کے لیے سخت اقدامات کو یقینی بنائیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اس طرح کے واقعات کی مکمل تحقیقات، ایٹمی مواد کے پھیلاؤ کی روک تھام اور جوہری مواد کی سکیورٹی کو مستحکم کرنے کے اقدامات کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔


جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ اور غلط ہاتھوں سے غیر قانونی اقدامات پر اقوام متحدہ کو اپنی قرار دادوں پر عمل درآمد بنانے کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔  کرونا وبا نے دنیا کی عالمی قوتوں کا چہرہ بھی بے نقاب کردیا ہے کہ انہوں نے اپنی تمام توجہ فلاح انسانیت کے بجائے قدرت کے وسائل سے انسانوں کو خطرے سے دوچار کرنے والے اقدامات پر دی۔ایٹمی تجربات کے نتیجے میں خراب صورت حال بھارت میں پیش آنے والے ان واقعات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایٹمی تجربات میں غیر ذمے داری کتنی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔


اطلاعات کے مطابق  1986 میں مدراس اٹامک پاور سٹیشن کے ایٹمی ری ایکٹر میں دراڑیں پڑ یں۔2 سال بعد 1988 میں ری ایکٹر سے بھاری پانی کا اخراج شروع ہونے سے پلانٹ میں تابکاری پھیلنے سے بے شمار ملازمین متاثر ہوئے اور مئی 1991 میں ری ایکٹر کے اندر زوردار دھماکہ ہوا۔ ٹنوں کے حساب سے پانی پلانٹ میں ہر طرف پھیل گیا۔ اردگرد موجود سینکڑوں افراد تابکاری کے اثرات کی تاب نہ لاتے ہوئے لقمہ اجل بن گئے نیو دہلی سے 180 کلومیٹر مشرق کی جانب واقع ناروڑااٹامک پاور پلانٹ میں اچانک آگ بھڑک اٹھی،بھارتی شہر کرناٹک میں ایٹمی ری ایکٹر میں دراڑیں پڑ نے کے نتیجے میں تابکاری پھیلنے سے بے شمار ملازمین متاثر ہوئے، گجرات میں واقعہ کاکڑا پور ایٹمی پاور پلانٹ سے تابکاری کا اخراج ہوا،صوبہ مہاراشٹر میں ساحل سمندر کے قریب تری پور ایٹمی پلانٹ واقع ہے۔ نہ صرف اس کے گرد موجود تین ہزار گاؤں تابکاری سے آلودہ پانی استعمال کرنے پر مجبور ہے۔دنیا کو مہلک و خطرناک ہتھیاروں سے نجات دلانے کے لئے عالمی قوتوں کو پہل کرنا ہوگی، ورنہ تمام کوشش بے سود ہوں گی۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
52071

حجاب: حسن نسوانیت -(4 ستمبر:عالمی یوم حجاب کے موقع پرخصوصی تحریر)- ڈاکٹر ساجد خاکوانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

                قرآن مجیدمیں اللہ تعالی نے حکم دیا ہے کہ”یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ وَ بَنٰتِکَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(۳۳:۹۵)“ترجمہ:اے نبیﷺ اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دوکہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں،یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور ستائی نہ جائیں اوراللہ تعالی غفورالرحیم ہے         “۔اس آیت میں لفظ ”جلابیب“استعمال ہوا ہے جو ”جلباب“کی جمع ہے،جلباب سے مراد ایسی بڑی چادر ہے جس سے پورا جسم ڈھک جائے۔اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ عورتیں اپنی چادر اچھی طرح لپیٹ کر اس کا ایک پلو اپنے اوپر لٹکا لیں۔حضرت عمر فاروق کے زمانے میں قاضی شریح سے اس آیت کا مطلب پوچھاگیاتو وہ قولاََجواب دینے کی بجائے کھڑے ہو گئے اور اپنی چادر سے اس طرح اپنے کل جسم کو سر تا پاڈھانپ لیاکہ صرف ایک آنکھی باہر رہ گئی۔حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ہم نے اپنے کپڑوں میں سے موٹے کپڑے چھانٹ کر علیحدہ کیے اور ان سے اپنے دوپٹے بنالیے۔ایک مسلمان خاتون ام خلادرضی اللہ تعالی عنھاکابیٹا ایک جنگ میں شہید ہوگیا،اتنی بڑی پریشانی کی حالت میں خدمت اقدس ﷺمیں پیش ہوئیں اور معاملے کے بارے میں اس حالت میں استفسارفرمایاکہ جسم مکمل طور پر چادر میں ڈھکاہواتھااور چہرے پر نقاب تھا۔اصحاب رسولﷺ نے حیرانی کااظہارکیاکہ صدمے کی اس حالت میں بھی اس قدر پردہ؟؟؟تو اس صحابیہ نے جواب فرمایا کہ بیٹا کھویاہے،شرم و حیاتو نہیں کھوئی۔

                اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ تعالی نے فرمایا کہ”ِّ وَ اِذَا سَاَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَسْءَلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ ذٰلِکُمْ اَطْہَرُ لِقُلُوْبِکُمْ وَ قُلُوْبِہِنَّ وَ مَاکَانَ لَکُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ (۳۳:۳۵)“ترجمہ:”نبیﷺ کی بیویوں سے اگرتمہیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگاکرویہ تمہارے لیے اور اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے،تمہارے لیے یہ ہرگزجائزنہیں کہ اللہ کے رسولﷺ کو تکلیف دو“۔اس آیت میں حکم حجاب کے ساتھ ساتھ مصلحت حجاب بھی بتادی گئی۔اس آیت کے نزول سے پہلے تمام مسلمان بلاروک ٹوک امہات المومنین کے پاس آتے جاتے تھے جبکہ کچھ مسلمانوں کو یہ بات سخت ناگوار محسوس ہوتی تھی اور ایک بار تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا اظہار کر بھی دیاکہ کاش آپﷺ امہات المومنین کو پردے کا حکم دیتے۔آخر کار یہ آیات نازل ہوئیں جس کے بعد صرف محرم مرد ہی امہات المومنین کے ہاں آتے جاتے اور باقیوں کے لیے پردے کی پابندی عائد کر دی گئی۔قرآن مجید کا اسلوب بیان ہے کہ کسی ایک فرد یا طبقے کو حکم دے کر کل امت مراد لیتاہے مثلاََنبی علیہ السلام کومخاطب کر کے حکم دیا جاتا ہے لیکن اس سے مرادکل امت کوحکم دینا ہوتاہے،اسی طرح یہاں بھی اگرچہ صرف امہات المومنین کو حکم دیا گیا لیکن اس حکم کی مطابعت کل صحابیات نے کی اور مدینہ کے کل گھروں میں پردے لٹکا دیے گئے اور عام لوگوں کاگھروں میں آناجانا بندہو گیاسوائے محرم مردوں کے۔اس طرح سے مخلوط مجالس اور مردوزن کے آزادانہ میل جول پر کلیتاََ پابندی لگ گئی۔

                اسی سورۃ میں ایک اور جگہ ارشاد فرمایا کہ”وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرَّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْاُوْلٰی(۳۳:۳۳)“:ترجمہ (اے خواتین اسلام)اور اپنے گھروں میں رہاکرواور دورجاہلیت کی سج دھج نہ دکھاتی پھراکرو“۔اس آیت میں لفظ ”تبرج“وارد ہواہے جس کے تین معانی ہیں ۱۔اپنے چہرے اور جسم کی موزونیت اور حسن لوگوں کو دکھانا،۲۔اپنے چمکتے زیوروں اور زرق برق لباس اور سامان آرائش کی نمائش کرنااور۳۔اپنی چال ڈھال اور نازوانداز سے خود کو نمایاں کرنا۔پس عورت کا میدان کار اس کے گھر کی چار دیواری ہے،محسن نسوانیتﷺنے فرمایا کہ ”عورت تو سراپا پردہ ہے،جب وہ گھرسے نکلتی ہے تو شیطان اسے گھورتاہے اور وہ اللہ تعالی کی رحمت کے قریب تر اسی وقت ہوتی ہے جب وہ اپنے گھر کے اندر ہو“۔ان احکامات کے نتیجے میں کسی مجبوری یعنی تعلیم یا علاج یاصلہ رحمی کے لیے تو گھرسے نکلنا بجا لیکن محض کھیل تماشے اور سیر سپاٹے کے لیے اس طرح گھر سے نکلنا کہ عورت کے ساتھ اس کی تمام تر عیش سامیانیاں بھی موجود ہوں،تو اس سے کلی طور پر منع کر دیا گیا۔جو لوگ کسی بھی طرح سے عورت کو بلا کسی شرعی عذرکے گھر سے باہر نکالنے کا جواز پیش کرتے ہیں وہ دراصل دانستہ یا نادانستہ اصحاب سبت کا کردار اداکرنے کی کوشش کرتے ہیں جنہوں نے اللہ تعالی کے حرام کو حلال اورحلال کو حرام کرنے کی کوشش کی تھی اور اس کے لیے حیلے بہانے تراشے تھے پس وہ قوم ذلیل بندر بنادی گئی اور ان کی نسل ہی ختم ہو گئی۔حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی اپنے احکامات اوراپنے نیک بندوں کامذاق و استہزابالکل بھی پسند نہیں ہے۔یہودیوں کے بارے میں قرآن نے نقل کیاہے کہ ”سمعنا وعصینا“کہ ہم نے سن لیالیکن مانا نہیں اور نافرمانی کی جبکہ مسلمانوں کے بارے میں قرآن نے بتایا کہ ”سمعنا واطعنا“کہ ہم نے سنا اور مان بھی لیااور اطاعت و فرمانبرداری بھی کی،سو جس جس تک یہ احکامات پہنچے اس کے ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ بلا چوں و چراان کو تسلیم کر لے۔

                اسی طرح کاایک حکم اللہ تعالی نے سورۃ نور میں بھی ارشاد فرمایا ہے کہ”وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ وَ لَایُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوْبِہِنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ اٰبَآءِہِنَّ  اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ اَبْنَآءِہِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ اِخْوَانِہِنَّ اَوْ بَنِیْٓ اَخْوَانِہِنَّ اَوْ بَنِیْٓ اَخَوٰتِہِنَّ اَوْ نِسَآءِہِنَّ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُنَّ اَوِ التّٰبِعِیْنَ غَیْرِ اُوْلِی الْاِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْہَرُوْا عَلٰی عَوْرٰتِ النِّسَآءِ وَ لَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِہِنَّ لِیَعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِہِنَّ وَ تُوْبُوْ ٓا اِلَی اللّٰہِ جَمِیْعًا اَیُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ(۴۲:۱۳)“ترجمہ:اے نبیﷺمومن عورتوں سے کہہ دو اپنی نظریں بچاکہ رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا طبناؤ سنگھار نہ دکھائیں سوائے اس کے کہ جو خود ہی ظاہر ہو جائے اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رکھیں وہ(مومن عورتیں)اپنا بناؤ سنگھار(صرف) ان لوگوں کے سامنے ظاہر کر سکتی ہیں:شوہر،باپ،شوہروں کے باپ،،اپنے بیٹے،شوہروں کے بیٹے،بھائی،بھائیوں کے بیٹے،بہنوں کے بیٹے،اپنے میل جول کی عورتیں،اپنے لونڈی غلام،وہ زیردست مرد جوکسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں اور وہ بچے جوعورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں۔وہ اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپارکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے،اے مومنوتم سب مل کر اللہ تعالی کے حضور توبہ کرو  توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے۔“اس آیت میں اسللہ تعالی نے بڑی وضاحت سے بتادیاہے کہ صرف محرم مرد وں کے سامنے ہی اپنی زیب و زینت کااظہار کیاجا سکتا ہے اوربس۔

                آواز کے پردہ سے متعلق سورۃ احزاب میں اللہ تعالی کا حکم ہے کہ”یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ وَّ قُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا(۳۳:۲۳)“ ترجمہ:نبیﷺ کی بیویو؛تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو،اگرتم اللہ تعالی سے ڈرنے والی ہو تو(مردوں سے)دبی دبی زبان میں بات نہ کیاکرو کہ دل کی خرابی کاکوئی شخص لالچ میں پڑ جائے بلکہ صاف سیدھی بات کرو“۔یہاں ایک بار پھر قرآن مجید نے اپنے عمومی اسلوب کے مطابق امہات المومنین کو خطاب کر کے تو تمام خواتین اسلام کو مراد لیاہے۔اس آیت میں عورتوں کوآواز کے پردے کی تلقین کی گئی ہے۔اسلام کے قوانین عورتوں کو بلاضرورت مردوں سے گفت و شنید کی اجازت نہیں دیتاتاہم اگر بامرمجبوری بات کرنی بھی پڑے تو خواتین کے لیے اللہ تعالی کاحکم ہے کہ اپنی آواز میں نرمی اختیار نہ کریں کہ مبادا کسی کے دل میں کوئی بری آس و امید جنم لے بلکہ سیدھی اورصاف بات کی جائے تاکہ معاشرے کا ماحول انتہائی پاکیزہ رہے اوراخلاقی آلودگیوں سے انسانوں کو بچایا جا سکے۔یہ تمام احکامات اگرچہ کسی قدر دقت طلب ضرور ہیں لیکن ان کے ثمرات کو دیکھاجائے تو دنیاوآخرت کی کامیابیوں کے نتیجے میں ان احکامات کی مشقت گویا کچھ بھی نہیں،نظروں کی پاکیزگی براہ راست کردار پر اثر انداز ہوتی ہے اور کردار کی پاکیزگی سے ہی نسلوں کا حسب نسب وابسطہ ہے۔

                پس عورت کو چاہیے کہ اپنا ستر،جس میں منہ اور ہاتھ کے سواکل جسم داخل ہے،چھپائے رکھے،جہاں محرم مردہوں وہاں زیب و زینت کے ساتھ آ سکتی ہے جہاں بہت قریبی رشتہ دار ہیں وہاں بغیر زیب و زینت کے آسکتی ہے تاکہ قطع رحمی واقع نہ ہواور جو جگہ بالکل غیر مردوں کی ہو وہاں مکمل پردے،نقاب اور حجاب کی پابندی کے ساتھ آئے حتی کہ اپنی آوازکو بھی شیرینی سے خالی کر کے گفتگوکرے۔یہ تعلیمات عورت کی فطرت کے عین مطابق ہیں جس سے عورت کی نسوانیت محفوظ رہتی ہے،اس کی عفت و پاک دامنی کاجوہرمیلا نہیں ہوتااور عنداللہ وہ عورت بہت بڑے اجر کی حق دار ٹہرے گی۔

جوعورتیں ان احکامات کا خیال نہیں رکھتیں تو مردوں کے ساتھ مسلسل میل جول کے نتیجے میں ان کے چہروں سے ملائمیت و نورانیت و معصومیت رخصت ہو جاتی ہے،ان کے رویوں میں عجیب سی غیرفطری کرختگی آجاتی ہے اورنتیجۃ وہ ایک ایسی شخصیت میں ڈھل جاتی ہیں جس میں مامتا،زوجہ اورخواہرہ جیسے اوصاف عنقا ہو جاتے ہیں اورپھرایسی عورتوں سے وابسطہ مردحضرات تلاش نسوانیت میں جب گھرسے باہر نظریں دوڑاتے ہیں تو معاشرے میں ایک نہ ختم ہونے والا برائی کادائرہ شروع ہو جاتاہے جسے قرآن نے کہاکہ ”عَلَیْہِم دَآءِرَۃُ السَّوْء“کہ وہ برائی کے گھیرمیں آجاتے ہیں۔پھروہ اپنے خلاف شریعت کاموں کا حیلوں بہانوں سے جواز ڈھونڈتے ہیں اور ضعیف روایات،غیرمصدقہ واقعات اور کچھ غیرمستندفتاوی کاسہارالے کر وحی الہی کی مخالفت کرتے ہیں اورگناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔جب ان کی زندگی مسلسل انہیں گناہوں کی نذرہوجاتی ہے تو قرآن مجید کے مطابق ”‘خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ وَ عَلٰی سَمْعِہِمْ وَ عَلٰٓی اَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٌ وَّ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ(۲:۷)‘ترجہ ”اللہ تعالی نے ان کے دلوں پر اوران کے کانوں پرمہر لگادی ہے اور ان کی آنکھوں کے آگے پردہ پڑ گیاہے اوران کے لیے دردناک عذاب ہے“۔ایسے لوگوں کوان کے بداعمال خوشنمابناکر دکھائے جاتے ہیں اور ان کی ہدایت کے راستے مسدودہوجاتے ہیں؛”وَ زَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَہُمْ فَصَدَّہُمْ عَنِ السَّبِیْلِ فَہُمْ لَا یَہْتَدُوْنَ(۷۲:۴۲)ترجمہ”شیطان نے ان کے اعمال ان کے لیے خوشنما بنادیے ہیں اورانہیں شاہراہ سے روک دیاہے  پس وہ سیدھاراستہ نہیں پاتے۔

            اس طرح کے حوس نفس کے پجاری اپنی آتش حیوانیت بجھانے کے لیے خواتین کو خوبصورت نعروں سے رجھاتے ہیں،بدکاری کی آزادی کو خواتین کی آزادی قراردیتے ہیں،اختلاط مردوزن جیسے قبیح فعل کو خواتین کی طاقتوری قراردیتے ہیں اورمردانہ نصاب تعلیم ہی عورتوں کو پڑھاکر اسے خواتین کی تعلیم و ترقی قراردیتے ہیں۔یہ سیکولر تہذیب کے گماشتے ہیں جنہوں نے عورت سے اس کی نسوانیت سلب کر لی ہے،اس کے سینے سے بہنے والے جنت کے چشموں کی جگہ اسے ہونٹوں سے انگورکی بیٹی کا مشروب لگادیاہے،اس کے پیٹ کے مقدس اورفطری بوجھ سے محروم کر کے اس پر معاش کابوجھ ڈال دیاہے،

اس کی گود سے جنت کواس کے پاؤں تلے لے جانے والے نفوس سے محروم کر کے اس کو اپنے پیداواری مصنوعات کی مشہوری وبڑھوتری کا ذریعہ بنالیاہے۔آج اکیسویں صدی میں نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ کل سرمایادارانہ نظم معیشیت نسوانیت کے حسن کی بنیادپر چل رہاہے اور اس کے نتیجے میں دنیابھرکا خاندانی نظام تباہی کے دہانے پر آن کھڑاہواہے۔کل انسانی تاریخ میں جس طرح کانسوانی استحصال آج کی سکیولرمغربی تہذیب نے کیاہے ماضی میں اس کی مثال عنقا ہے،یہاں تک کہ عورتوں سے وابسطہ اخلاقی معیارات ہی تبدیل کر دیے ہیں ان ظالم سیکولرمردوں نے۔”تماشادکھاکرمداری گیا“کے مصداق آج کی عورت جان چکی ہے کہ اس کی فلاح و کامیابی اور اسکے حقوق کا تحفظ صرف محسن نسواں ﷺکی تعلیمات میں ہی پوشیدہ ہے اور اب عالمی سطح پر ”گھر کو واپسی“(Back To Home)کے نعروں کے ساتھ خواتین کی تحریکیں متحرک ہیں جن کا مطالبہ ہے کہ ہمیں گھریلوذمہ داریوں واپس کرو اور دنیاکاکاروبار معیشیت و معاشرت و سیاست خود سنبھالو۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged , ,
52068

نوائے سُرود – حجاب ہماری پہچان – شہزادی کوثر

رب کائنات نے اپنی تخلیقات کی رنگا رنگی اور تنوع کے ذریعےاس کارگہ ہستی میں ایسی دلکشی اور خوبصورتی پیدا کی ہے کہ ہر دیکھنے والی آنکھ محو حیرت ہےکہیں پہاڑوں کی اونچائیاں آسمان سے ہمدوشی کرتی ہیں ،کہیں سمندروں کی گہرائی اپنے سینے میں ہزاروں راز دفن کیے ہوئے ہیں ۔دشت وبیابان میں کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی زندگی پوری آب وتاب سے رواں دواں ہے۔بدلتے سمے کائنات کے نظام میں عجیب طرح کی رعنائی بکھیر دیتے ہیں،جس طرف بھی نگاہ اٹھتی ہے خوبصورتیوں کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا نظرآتا ہے ،لیکن ان سب میں اگر انسان کا وجود نظر نہ آئےتو سب کچھ ماند پڑتا محسوس ہوتا ہے ۔ ۔۔۔۔۔  

   ‘انسان ” جسے خالق ارض وسما نے اپنے کلام پاک میں احسن تقویم کے لقب سے سرفراز کیا ہے جو تمام مخلوقات میں حسن وجمال کا ایک منفرد مجسم ہے ۔ کائنات کی رنگینیاں بھی اسی سے مشروط ہیں قرآن پاک میں ارشاد ہے ۔۔۔۔ لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم۔۔۔ یہ صرف ایک آیت نہیں بلکہ ایک شرف ہے جو مشت خاک کے حصے میں آئی ہے۔ایک تاج ہے جسے آدم کے سر پہ سجایا گیا ہے ،ذر وجواہر کی ایک مسند ہے جس پر یہ پیکر خاکی متمکن ہوتا ہے ،لیکن اس تخت وتاج اور اس شرف کی لاج بھی رکھنی ہے جو بنت حوا کے فرائض میں سب سے زیادہ مقدم ہے۔ کیونکہ اسی کی گود میں معاشرہ پروان چڑھتا ہے ،

اسی کے آنگن میں اخلاق  و کردار کا بیج تناور درخت بنتا ہے ،اسی کے آنچل میں شرم وحیا کے نگینے جڑ دیے گئے ہیں جن کی موجودگی عورت کو شیرنی بناتی ہے۔  حجاب عورت کا سب سے خوب صورت سنگھار ہے ۔بنت حواکی زینت اور اس کے ناموس کا محافظ ہے۔ پردے اور حجاب کی اہمیت سے انکار اس وجہ سے ممکن نہیں کہ کلام پاک میں اس کا واضح حکم موجود ہے ۔ویسے بھی ہر قیمتی شے کو دوسروں کی نگاہوں سے چھپا کر رکھا جاتا ہے کسی کی نظر اس پہ پڑنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ عورت جو سب سے قیمتی ہے اسے بنا پردے کے چھوڑا جائے۔جواہرات بھی پتھر ہوتے ہیں لیکن قدرت نے انہیں عام پتھروں کی طرح نہیں بنایا ان کی وقعت ان کے پردے کے سبب ہی ہے وہ قیمتی ہیں اس لئے انہیں پہاڑوں کے اندر چھپایا گیا ہے،اسی طرح عورت تب تک قیمتی ہے جب تک حجاب میں رہتی ہے، اگر عورت اپنے پردے کا خیال رکھتی رہے تو دنیا میں اس سے بڑھ کر کوئی بھی چیز قیمتی تصور نہیں ہو گی۔                    

حجاب ہماری تہذیب ،ہماری شناخت اور پوری دنیا میں اسلامی روایات واقدار کی پہچان ہے۔اس کے ساتھ ساتھ حجاب کی انفرادیت یہ بھی ہے کہ جو عورت حجاب میں ،دوپٹے میں یا چادر میں چھپی ہوتی ہے تو دوسرے لوگ بھی اس عورت کی عزت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔یہ ایسا سٹیٹس سمبل ہے جس کی وجہ سے کوئی بھی اس عورت کی طرف بری نگاہ ڈالنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ گویا بنت حوا کے ہاتھ میں ایسا ہتھیار ہے جو اس کی طرف اٹھنے والی ہر بری نظر کو روکتا ہے۔ بعض لبرل حضرات کا خیال ہے کہ حجاب ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے ،یہ دقیانوسی چیز ہے موجودہ دور میں اگر اگے بڑھنا ہے تو حجاب کو بالائے طاق رکھنا ہو گا وغیرہ۔۔۔۔۔    ان کے لئے اکبرآلہ آبادی کا یہ قطعہ بہترین جواب ہے۔۔                                                                       

بے پردہ کل جوآئیں نظر چند بیبیاں                               

             اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑھ گیا                         

پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا                            

کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا                           

حجاب نہ کسی دور میں رکاوٹ بنا ہے اور نہ آئندہ بنے گا ،اسلام کی تاریخ میں ایسی خواتین کی طویل فہرست ہے جنہوں نے اپنے پردے اور حجاب کے باوجود کارہائے نمایاں انجام دیں۔ اسلامی دنیا کو بے شرمی اور بے حیائی کے جہنم میں دھکیلنے اور عورت کو حجاب سے باہر گھسیٹنے کے لئے ہزاروں حیلے بہانے بنایے جاتے ہیں،یہ شیطانی طاقتوں کا سب سے آسان اور کامیاب حربہ ہے کہ مسلمان خواتین کو سیدھی راہ سے ہٹا کر ان کے شرم وحیا پر کاری ضرب لگائی جائے اور اپنی ہوس کے دانت ان کے ناتواں وجود مین اتار دیں۔تاکہ وہ اپنی شناخت کھو کر شیطان کے ہاتھ میں آلہ کاربن جائے ۔مختلف ہتھکنڈوں سے عورت کے دل ودماغ میں یہ بات بٹھائی جاتی ہے کہ حجاب آگے بڑھنے کی راہ مسدود کرتا ہے ۔۔حجاب کے نام پر عورت پر ظلم روا رکھا جاتا ہے اور اس کی وجہ سے عورت کو ساری زندگی قیدی کے طور پر گزارنا پڑتی ہے ۔۔۔۔۔

   حالانکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ حجاب عورت کو تقدس و تحفظ فراہم کرتا ہے اسے حریص نگاہوں سے محفوظ رکھتا ہے اس کی وجہ سے عورت برہنگی اور حیا باختگی سے بچ جاتی ہے ۔ ملک میں خواتین کو ہراساں کرنے اور ان کی عصمت دری کے واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں ایسے واقعات کا تدارک اسی صورت میں ممکن ہے جب عورت چادر اور حجاب کو اپنی زینت بنا لے۔اپنے مذہب کے تقاضوں اور اسلامی اقدار کی پاسداری کر کے زندگی کے ہر شعبے میں اپنی خدمات پیش کرے کیونکہ عورت اپنی اسی شناخت اوراسلامی تشخص کے ساتھ نئی دنیاوں کو تسخیر کرنے اور ستاروں پہ کمندیں ڈالنے کا حوصلہ رکھتی ہے ۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
52066

دشمنوں کی بھی رائے لی جائے ! – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

 افغان طالبان سے  پاکستان کا بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ ٹی ٹی پی اور داعش، افغان سرزمین کو ہمارے خلاف استعمال نہ کریں،امریکہ کا کہنا ہے کہ داعش کی کمر ٹوٹ گئی اور پاکستانی سیکورٹی فورس کسی بھی شر پسندی کا جواب دینے کے لئے مکمل تیار ہے۔  افغان سرزمین کا پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کے پس پشت بھارت اور این ڈی ایس کا ہاتھ رہا اورریاست نے ناقابل تردید ثبوت بھی عالمی برادری کو دیئے، اس لئے حکومت کاحکمراں جماعت امارات اسلامی کو بار بار یاد دہانی کرانا ضروری خیال کیا جاتا ہے تاکہ مستقبل میں کوئی ناخوشگواری کا اندیشہ پیدا نہ ہو۔ افغان طالبان کے کابل داخلے اور امریکی انخلا کے بعد امارات اسلامی کو کئی اہم داخلی مسائل کا سامنا ہے، بہرحال یہ ان کا اپنا مسئلہ ہے، وہ زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ درپیش مسائل سے کس طرح نمٹا جاسکتا ہے، ماضی میں افغان طالبان کی حکومت دنیا بھر میں تنہائی کا شکار تھی اور عالمی برداری سے سیاسی روابط نہ ہونے کی وجہ سے ناتجربہ کاری نے افغانستان کو کافی نقصان پہنچایا لیکن اب ماضی کے مقابلے میں امارات اسلامی دفاعی، سیاسی اور داخلی سمیت امور خارجہ میں ٹھوس تجربہ رکھتے ہیں۔


سلامتی کونسل میں حالیہ اجلاس  کے بعد میں انہیں دو اہم ممالک روس اور چین کی قریباََ مکمل حمایت حاصل ہوچکی، اس لئے گمان کیا جاسکتا ہے کہ اب سلامتی کونسل کو امریکی خواہشات کے مطابق ا فغانستان کے خلاف ماضی کی طرح استعمال کرنا آسان نہیں ہوگا، روس اور چین کو افغانوں کے لئے کمک کا درجہ  حاصل ہوسکتا ہے، دوسری جانب پاکستان، ایران سمیت وسط ایشائی ممالک کی کوشش و خواہش ہے کہ خطے میں امن قائم ہو، تاکہ انہیں اپنی سرحدوں پر حفاظت کے لئے اربوں روپے جو خرچ کرنے پڑتے ہیں، اس میں کمی آئے اور ان کی پوری توجہ اپنے اصل دشمن کی شر انگیزی پر ہو۔ ایران کا دشمن، اسرائیل تو پاکستان کا دیرینہ دشمن بھارت ہے لیکن عالمی قوتوں کے مفادات نے کچھ ایسا گھن چکر بنایا کہ بالخصوص پاکستان کے لئے مشرقی سرحد کے ساتھ ساتھ شمال مغربی سرحدوں پر بھی دشمنوں سے ملک کو بچانا ضروری ہوگیا۔

اب حالات قدرے تبدیل ہیں، گو کہ افغان طالبان نے ڈیورنڈ لائن، ٹی ٹی پی کے حوالے سے جو بیانات دیئے اس سے کچھ پاکستانی حلقوں میں مایوسی پھیلی لیکن اہمیت اس امر کی زیادہ ہے کہ افغانستان میں آنے والے دنوں میں ایک ایسی حکومت بننے جا رہی ہے، جس کا کوئی ملک بادی ئ النظر دشمن نہیں اور وہ کسی بھی ملک کے مخالف نہیں، تاہم وطن عزیز کو افغان سرزمین سے دہشت گردی کے سدباب کے لئے کچھ وقت لگے گا لیکن توقعات یہی ہیں کہ ماضی کی غلطیوں سے تمام فریقین نے سبق حاصل کیا ہوگا اور کسی نئی مہم جوئی کا مقصد دنیا میں اپنے امیج کو نقصان پہنچانا ہوگا۔


افغانستان کی نئی عبوری حکومت کو تسلیم کرنے کے لئے دنیا کے تمام ممالک میں سے100 ممالک انتظار کررہے ہیں کہ افغان طالبان کی پالیسی میں قول و فعل کا تضاد تو نہیں، چین اور روس کی جانب سے افغانستان کی عبوری حکومت کو تسلیم کرنے کے لئے بس چند ٹھوس معاملات میں پیش رفت کی ضرروت ہے اور دو سپرپاورز کے تسلیم کئے جانے کے بعد پڑوسی ممالک کوبھی افغان عبوری حکومت کو تسلیم کرنے میں کوئی مشکلات حائل نہیں ہوں گی۔ امارات اسلامی کا بھارت، امریکہ سمیت دنیا کے کسی بھی ملک سے سفارتی رابطہ کرنا اور افغانستان کی تعمیر نو کے لئے تعاون طلب کرنا، اس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ افغان طالبان نہیں چاہتے کہ دنیا کے سامنے یہ تاثر جائے کہ وہ کسی بھی ”خاص ملک“کے فیورٹ ہیں،یہ کڑوی گولی ہے لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ افغانستان کو کوئی ایک ملک درپیش چیلنجز سے باہر نکالنے کی اہلیت نہیں رکھتا، لہذا کسی بھی ملک کو افغان طالبان کو اپنے دائرہ اختیار میں سمجھنا یا پھر کسی بھی قسم کا دباؤ ڈالنا، خطے میں  خلفشارکے لئے نیک شگون نہیں ہوگا، یورپی ممالک اور امریکہ بھی اس امر سے بخوبی واقف ہے کہ اگر افغانستان کی تعمیر نو میں تعاون کے بجائے افغانستان کو معاشی زنجیروں میں جکڑنے کی کوشش کی تو ان کے اپنے مفادات کو نقصان پہنچے گا۔


ذرائع کے مطابق چین  اور روس سے امارات اسلامی کو کافی توقعات وابستہ ہیں، خاص طور پر چین تباہ حال افغانستان کی بحالی و تعمیر نو کے لئے کلیدی حیثیت رکھتا ہے، بیجنگ اگر افغان عبوری حکومت سے کچھ مطمئن ہوجاتا ہے تو خطے میں کئی معاملات میں امارات اسلامی کو درپیش دشواریوں میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ چین ون بیلٹ ون روڈ  جیسے منصوبے کے تحت افغان حکومت کی مالی امداد سمیت انفرا اسٹرکچر کی بحالی میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے، افغانستان کو پڑوسی ممالک سے جنگ کا کوئی خطرہ نہیں اس لئے بھاری جنگی ساز و سامان خریدنے کے لئے انہیں اپنے آپ کو گروی نہیں رکھنا ہوگا، خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ میں انہیں بھاری سود پر قرضوں کی ضرورت نہیں پڑے گی، داعش خراساں ہوں یا شمالی مزاحمتی گروپ کے ساتھ جھڑپیں، اس کے لئے انہیں زیادہ محنت کی ضرورت نہیں، کیونکہ امریکہ کے ساتھ مسلسل بیس برس کی جنگ نے انہیں دنیا کی سب سے تجربہ کار فوجی قوت بنادیا ہے، انہیں خود کش حملوں کی اسٹریجی کا بھی بخوبی علم ہے اس لئے اس قسم کے حملوں کو روکنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔


امریکہ جاتے جاتے، سوا لاکھ کا مرا ہوا ہاتھی چھوڑ  گیا ہے، اب اس اسکریپ کا فائدہ کوئی بھی با آسانی اٹھا سکتا ہے، چین اور روس جیسے ممالک کباڑ سے جہاز بنانے میں کامل مہارت رکھتے ہیں، ان کے لئے چنداں مشکل نہیں کہ وہ جنگی جہاز وں ہیلی کاپٹر ز کو قابل استعمال نہ بنا سکیں، بالفرض چین اور روس نئی افغان عبوری حکومت کو تسلیم کرلیتے ہیں تو امارات اسلامی کو ایسی چھوٹی موٹی پیشہ وارانہ تربیت دینے کے لئے  پڑوس ممالک  کو بھی پابندیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، جب ماضی میں بھارت افغان فوجیوں کی تربیت کرسکتا ہے تو پڑوس ممالک  کیوں نہیں، تاہم ایسے کئی مفروضات ہیں جن پر عملی طور پر اُس وقت ہی کار آمد ہوسکے گا جب افغان طالبان اپنے کئے گئے وعدوں کو ”خلوص دل“ یا عبوری دور کے اجتہاد ی مصلحت سے پورا کرنے کی کوشش کریں، ہمیں افغان طالبان اور دیگر اتحادیوں کی متفقہ عبوری حکومت اور ان کی عملی پالیسیوں کے مثبت اقدامات تک دنیا کے ساتھ چلنا ہوگا، جلد بازی یا اپنی مرضی تھوپنے کی پالیسی سے ہم جتنا دور رہنے پر کاربند رہیں تو یہی ہم سب کے حق میں بہتر ہے۔ 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
52049

داد بیداد ۔ سید علی شاہ گیلا نی ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

داد بیداد ۔ سید علی شاہ گیلا نی ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

جموں و کشمیر کی مقتدر سیا سی شخصیت اور حریت کا نفرنس کے رہنما سید علی شاہ گیلا نی 92برس کی عمر میں انتقال کر گئے ان کے پسما ند گان میں 3بیٹوں اور چار بیٹیوں کے علا وہ بر صغیر پا ک و ہند کے 50کروڑ مسلما ن اور آزادی کی جدو جہد کرنے والے ڈیڑھ کروڑ کشمیری بھی شا مل ہیں میرا گھر خیبر پختونخوا کے شمال مشرق میں شندور کی وادی کے اندر 9000فٹ کی بلند ی پر واقع گاوں با لیم میں واقع ہے میرے والد صاحب 1965ء سے ریڈیو پر سید علی گیلا نی کی سر گر میوں کو سنتے اور ڈاک کے ذریعے آنے والے رسائل و جرائد میں ان کی تقریریں اور انکے بیا نا ت تصویروں کے ساتھ دیکھتے آرہے تھے .

کشمیر کی آزادی کے لئے جدو جہد کے ساتھ جما عت اسلا می کے ساتھ وا بستگی بھی میرے والد صاحب کے لئے ان کا معتبر حوا لہ تھا ان کی وفات کی خبر آگئی تو گھر کے افراد نے ایسا محسوس کیا جیسے ہمارا چچا یا ما مو ں ہم سے جدا ہوا ہو یہ اپنائیت ان کے اخلا ص کا ثمر ہے دور دراز رہنے والے لوگ بھی ان کو اپنے دل کے قریب سمجھتے تھے اور یقینا وہ ہمارے دل کے قریب تھے عام طورپر علی گیلا نی کے نا م سے شہرت رکھنے والے کشمیری رہنما کا تعلق بارہ مولا کے گاوں سو پور سے تھا انہوں نے ابتدائی تعلیم سری نگرسے حا صل کی اور لا ہور سے اپنی تعلیم مکمل کی اورینٹل کا لج پنجا ب یونیورسٹی کے گریجو یٹ تھے جہاں ادبی اورعلمی شخصیات کے ایک کہکشاں سے انہوں نے کسب فیض کیا ان کے اسا تذہ میں حا فظ محمود شیرانی، ڈاکٹر سید عبد اللہ، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، سید عابد علی عابد، سیدوقار عظیم اور ڈاکٹر وحید قریشی جیسے بلند پا یہ ادیب شا مل تھے.

ان کی خود نو ست سوانح عمری ”روداد قفس“ ان کے اعلیٰ ادبی ذوق کا آئینہ دار ہے یہ کتاب آپ نے بھارتی جیلوں میں قید کا ٹتے ہوئے لکھی ہے اس میں کشمیر کی تحریک آزادی کی تاریخ بھی ہے سید علی شاہ گیلا نی کے وسیع مطا لعے اور مشا ہدے کا نچوڑ بھی دیکھنے کو ملتا ہے یکم ستمبر 2021کی رات 10بجے سید علی گیلا نی کے انتقال کی خبر ملتے ہی قا بض بھارتی فوج نے سری نگر، سوپور، بارہ مولا اور نوا حی شہروں میں کر فیو لگا دی، سڑکوں پر خاردار تاروں کی رکا وٹیں بچھا کر لو گوں کو باہر نکلنے سے منع کیا اور ان کے خاندان پر دباؤ ڈال کر انکی وصیت کے خلا ف صبح 4بجے انہیں خا مو شی سے گھر کے قریب دفن کروا دیا حا لا نکہ ان کی وصیت یہ تھی کہ انہیں شہدا کے قبرستان میں سپر د خا ک کیا جا ئے ان کے تد فین کے بعد بھی کر فیو بر قرار رہا اور پا بندیاں جاری رہیں.

سید علی گیلا نی کو دو بڑی وجو ہات سے کشمیر ی لیڈوروں میں اہمیت حا صل ہے پہلی وجہ یہ ہے کہ وہ بر ملا کشمیر کا الحاق پا کستان سے کرنے کے علمبر دار تھے اپنی تقریروں میں کہا کر تے تھے ”ہم پا کستا نی ہیں، پاکستان ہماری منزل ہے “دوسری وجہ یہ ہے کہ انہوں نے 21سال قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، 10سال جیلوں میں رہے گیا رہ سال ان کے گھر کو سب جیل قرار دیکر پیرانہ سالی میں نظر بند رکھا گیا اس نظر بندی میں اپنے خا لق حقیقی سے جا ملے بھارتی قابض فو ج کو 92سالہ بوڑھے شیر کی بیماری میں بھی ان کے نا م سے خو ف آتا تھا ان کی وفات کے بعد ان کے جنا زے اور سو گواروں کا خوف قابض فوج پر سوار ہے سید علی گیلا نی کی زند گی کے ادوار کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا تا ہے.

1962سے 1972تک جما عت اسلا می کے رکن اور بعد ازاں امیر کی حیثیت سے خد مات انجام دیئے 1972، 1977اور 1987ء میں مقبوضہ کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے ممبر کی حیثیت سے آزادی کی آواز ایوا نوں میں بلند کر تے رہے 1989میں اسمبلی کی رکنیت سے استغفٰی دیکر بھارتی قابض فو ج کے خلا ف بغا وت کا اعلا ن کیا 1993ء میں آل پارٹیز حریت کا نفرنس نے انہیں اپنا سر براہ منتخب کیا 2019ء میں کشمیر کی خصو صی حیثیت کو ختم کر نے کے بعد بھارت نے جما عت اسلا می پر پا بندی لگا ئی اس وقت حریت کا نفرنس کے دیگر رہنما وں میں یا سین ملک اور میر واعظ عمر فاروق بھی جیلوں میں قید ہیں ایسے وقت پر علی گیلا نی کی جدا ئی دہرے صدمے کا با عث ہے .

پا کستان میں وزیر اعظم عمران خا ن نے علی گیلا نی کی وفات پر ایک روزہ سوگ کا اعلا ن کیا آزاد کشمیر کے وزیر اعظم سردار عبد القیوم نیا زی نے 3روزہ سوگ کا اعلا ن کیا ہے اپنے تعزیتی پیغا مات میں صدر پا کستان عارف علوی، صدر آزاد کشمیر برسٹر سلطان محمود چوہدری، وزیر اعظم عمران خا ن، وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار عبد القیوم نیا زی، وفا قی وزرا، اور سیاسی جما عتوں کے قائدین نے گہرے دکھ اور غم کا اظہار کیا ہے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مر حوم حریت پسند لیڈر کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔اسلام اباد اور دوسرے شہر وں میں غا ئبانہ نما ز جنا زہ بھی ادا کی گئی۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
52043