Chitral Times

دوائے دل – افغان طالبان ۔ تختے سے تخت تک! – (محمد شفیع چترالی)


نائن الیون کے واقعات کو کل بیس برس کا عرصہ مکمل ہورہا ہے اور وقت کی گردش کا کمال بلکہ عجوبہ یہ ہے کہ ان بیس برسوں میں دنیا بہت سے انقلابات،جنگوں،حوادث اور تبدیلیوں کے باوصف ایک بار پھر گھوم کر اس نقطے پر آ کھڑی ہوئی ہے جہاں نائن الیون کے وقت تھی۔ کل جب واشنگٹن اور نیویارک میں امریکی شہری نائن الیون میں مارے جانے والے اپنے پیاروں کا ماتم کر رہے ہوں گے،کابل اور قندہار میں افغان طالبان اپنی نئی حکومت کے قیام کا جشن منارہے ہوں گے۔ آج کے دن کا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ وہ کیا اسباب و وجوہ ہیں جن کے باعث انسانی تاریخ کی جدید ترین عسکری ٹیکنالوجی سے لیس پچاس کے قریب ممالک کی افواج افغانستان کے بے سرو سامان طالبان کو شکست نہ دے سکیں اور انسانیت کا کھربوں ڈالرز کا سرمایہ اور اسلحہ افغانستان میں بے کار اور ضائع چلا گیا۔ دنیا بھر کے مبصرین اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کے مختلف پہلوؤں پر بحث ہورہی ہے مگر اس حقیقت کا اعتراف کہیں نہیں کیا جارہا کہ اس جنگ کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ دراصل اس کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز ہی نہیں تھابلکہ یہ محض انتقامی جذبے کے تحت اندھا دھند شروع کی جانے والی ایک مہم جوئی تھی جس کا واحد مقصد اپنی دھاک بٹھانا تھا۔ اس کا بالاخر یہی نتیجہ نکلنا تھا جو کہ نکلا۔


آج بیس برس بعد کا منظر نامہ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ آپ کھربوں ڈالرز کا سرمایہ اور آدھی دنیا کی معاشی و عسکری طاقت لگاکر بھی غلط کو صحیح، جھوٹ کو سچ اور باطل کو حق بناکر نہیں دکھاسکتے۔ اتحادی افواج اس لیے افغانستان میں ذلت وادبار سے دوچار ہوئیں کہ ان کے پاس لڑنے کے لیے اسلحہ اور سرمایہ تو بے تحاشا تھا،پر کوئی نظریہ، مقصد اور جذبہ نہیں تھا جبکہ طالبان اس لیے سرخ رو ہوئے کہ ان کے پاس اسلحہ اور وسائل تو نہ ہونے کے برابر تھے تاہم لڑنے کا جذبہ،نظریہ اور اپنے حق پر ہونے کا حد درجے کا پختہ یقین تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کی سرفروشانہ جدوجہد اور بے مثال مزاحمت نے دنیا میں طاقت کے فلسفے اور ٹیکنالوجی کی خدائی کے تصور کو دفن کرکے رکھ دیا ہے۔ یہ صرف افغانستان کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کی محکوم اور مظلوم اقوام کے لیے حوصلے اور امید کا ایک پیغام ہے کہ آج کی دنیا میں بھی سچ اور حق پر مبنی جدوجہد ہی کامیابی کا ذریعہ ہے۔
طالبان اپنی بیس سالہ جدوجہد کے دوران تین محاذوں پر ناقابل تسخیر رہے اور پوری دنیا کوحیران کرکے رکھ دیا، جس کی شاید ان کے بہت سے حامیوں کو بھی توقع نہیں تھی۔ پہلا محاذ عسکری مبارزت کا تھا جس میں افرادی قوت، مادی وسائل، اسلحے، سرمایے اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے ان کا اتحادی افواج کی طاقت سے کوئی مقابلہ ہی نہیں بنتا تھا۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے جب اتحادی افواج نے افغانستان پر جارحیت کا آغاز کیا اور دیوہیکل بی باون طیاروں سے ”بموں کی ماں“ کہلانے والے ڈیزی کٹر بم گرانا اور کارپٹ بمباری کرکے آن واحد میں بستیوں کی بستیاں اڑانا شروع کردی تھیں تو ادھر پاکستان میں بیٹھے ہمارے بہت سے دانشوروں کے بھی دل دہل گئے تھے اور کہا جاتا تھا کہ آج کی دنیا میں گھوڑوں خچروں پر بیٹھ کر دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرنے والے دیوانے ہیں۔ مگر پھر دنیا نے دیکھا کہ انہی دیوانوں نے کس طرح اپنی چھاپہ مار کارروائیوں کے ذریعے اتحادی افواج کو ناکوں چنے چبوائے اور دنیا بھر کے فرزانوں کے ہوش اڑانے شروع کر دیے۔ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف افغانوں کی جدوجہد کو امریکا کے کھاتے میں ڈالنے والے ہمارے دانشوروں کو آج سمجھ نہیں آرہی کہ طالبان کی اس فتح کو کس کھاتے میں ڈال دیں۔


یہ تو ہوئی عسکری محاذ کی بات جہاں طالبان نے ایک طرح سے افغانوں کی تاریخ کو ہی دوہرایا ہے۔ اس محاذ پر ماضی میں بھی افغان ناقابل تسخیر رہے۔ دوسرا محاذ جوکہ افغانوں کی تاریخ کا ایک کمزور باب ہے اور جہاں کئی دفعہ عسکری محاذ کی جیتی ہوئی جنگیں بھی ہاری گئی ہیں، معاشی اور مالی ترغیبات کے جال سے بچنے کا ہے جس میں طالبان نے تاریخ کو بدل کررکھ دیا ہے۔ واقفان حال جانتے ہیں کہ افغانستان میں ابتدائی دو تین برسوں کے اندر ہی امریکا اور عالمی طاقتوں کو اندازہ ہوگیا تھا کہ عسکری میدان میں طالبان کو شکست دینا ممکن نہیں ہے،چنانچہ ہمیشہ کی طرح ڈالروں کی تجوریاں کھول دی گئیں اور ایک ایک طالبان کمانڈر کولاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں ڈالرز کی پیشکش کرکے خریدنے کی کوشش کی گئی،خاص طور پر مذاکرات کے آغاز کے بعد تو کہا جاتا ہے کہ ایک نہیں بلکہ کئی ممالک کی جانب سے طالبان کے اہم رہنماؤں کو اپنے دام میں لانے کے لیے ہر ایک کو سونے میں تولنے کی پیش کش کی گئی مگر یہ مردان خود آگاہ و خدامست اس محاذ پر بھی ثابت قدم رہے اور دنیا کے درجنوں ممالک مل کر ان میں سے کسی ایک کو بھی خرید نہ سکے۔


اس سے اگلا محاذ سفارت کاری اور مذاکرات کا تھا۔ بہت سے مبصرین کا خیال تھا کہ یہ سیدھے سادھے افغان ملا اپنے مخصوص قبائلی پس منظر اور جنگی ماحول کی وجہ سے عسکری میدان میں تو زیر نہیں ہوئے تاہم مذاکرات کی میز پر دنیا کے گھاگ ترین سفارت کاروں اور چرب زبان”زلمیوں“ کے آگے ٹکنا شاید ان کے بس کی بات نہ ہو۔ پھر ظاہر ہے کہ مذاکرات ہمیشہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور جہاں مدمقابل دنیا کا واحد سپر پاور کہلانے والا ملک ہو تو کچھ نہیں بلکہ بہت کچھ دے کر ہی اپناکچھ منوایا جاسکتا ہے مگر یہاں بھی طالبان حوصلے اور تدبر کا پہاڑ ثابت ہوئے۔ انہوں نے کسی بھی مرحلے پر کسی عجلت، کمزوری، مجبوری یا طمع کا تاثر نہیں پیدا ہونے دیا جبکہ مد مقابل کی عجلت،مجبوری اور بے بسی کا مزہ لیتے رہے چنانچہ جب دوحہ میں مذاکرات کے بعد معاہدے کا اعلان ہوا تو ملابرادر کے چہرے پر فاتحانہ تمکنت اور امریکی وزیر خارجہ کی”مسکینی“کا ساری دنیا نے مشاہدہ کیا اور درحقیقت یہی وہ لمحہ تھا جب افغانستان کے مستقبل کی پیشانی پر طالبان کا نام کندہ ہوگیا تھا۔ اس لیے اب امریکا اور اس کے اتحادیوں کا بچارے اشرف غنی سے یہ شکوہ بالکل بے جا ہے کہ وہ پندہ اگست کی شام کو کیوں کابل چھوڑ کر بھاگ گیا۔ یہ تو نوشتہئ دیوار تھا اور ظاہر ہے کہ جان بچانا بھی توفرض ہے!


طالبان کی جدوجہد کا چوتھا اور فیصلہ کن مرحلہ 15 اگست کے بعدسے شروع ہوچکا ہے اور شاید یہی سب سے مشکل اور حوصلہ آزما مر حلہ ہے۔ یہ مرحلہ افغانستان میں ایک ایسی مضبوط اور پائے دار اسلامی حکومت کے قیام کا ہے جو افغان قوم کوچار عشروں پر محیط جنگ، خانہ جنگی،غربت،افلاس اور محرومیوں سے نجات دلاکر امن، ترقی،استحکام اور استقلال کی شاہراہ پر گامزن کرسکے۔ اس کی اہمیت صرف افغانستان کے حوالے سے ہی نہیں ہے بلکہ حالیہ تاریخ میں شاید پہلی دفعہ مسلمانوں کو ایک ایسا ملک اور ماحول میسر آگیا ہے جہاں وہ آزادی کے ساتھ اسلامی فلاحی ریاست کا ایک نمونہ اور ماڈل پیش کرسکتے ہیں۔ بین الاقوامی دباؤ کے موجودہ ماحول میں یہ کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن اگر طالبان نے مذکورہ بالا تین مراحل کی طرح یہاں بھی تدبر سے کام لیا اور اپنی زیادہ توجہ ظواہر کی بجائے افغان عوام کے بنیادی مسائل یعنی بے امنی، غربت، بے روزگاری اور جہالت کے خاتمے اور عدل و انصاف، تعلیم، صحت، روزگار اور امن کی فراہمی پر مرکوز کی تو کوئی وجہ نہیں کہ افغانستان ایک جدید ترقی یافتہ اسلامی فلاحی ریاست کی شکل میں پوری دنیا کے سامنے ایک مثال نہ بن سکے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , ,
52274

دوائے دل…..آہ علامہ ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر! …مولانا محمد شفیع چترالی


وہی ہوا جس کا گزشتہ کئی روز سے دھڑکا لگا ہوا تھا۔ استاذ محترم، شیخ مکرم، مجسمہئ شفقت، پیکر محبت حضرت علامہ ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر صاحب اپنے کروڑوں عقیدت مندوں اور لاکھوں بلاوسطہ اور بالواسطہ شاگردوں کو سوگوار بلکہ یتیم چھوڑ کر خلد آشیانی ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اب یہ کہنا تو ایک رسمی سا جملہ ہوگا کہ مرحوم بڑے اچھے انسان تھے اور ان کے جانے سے ایک بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم آج ایک بہت بڑی خیر سے محروم ہوگئے ہیں اور اس دکھ، درد اور غم کا شاید اللہ کے سوا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا جو حضرت ڈاکٹر صاحب جیسی فرشتہ صفت شخصیت کی رحلت سے ان کے روئے انور کو قریب سے دیکھنے والے شاگردوں اور متعلقین و متوسلین کو آج درپیش ہے۔ سو اللہ سے صبرو سلوان کی توفیق کی دعا و التجا ہے۔ ایسی ہی ہستیاں ہوتی ہیں جن کی زندگی بھی انسانیت کے لیے کوئی معنی رکھتی ہے اور موت بھی اور جن کے جانے پر ایک دنیا پکار اٹھتی ہے کہ ذھب الذین یعاش فی اکنافہم (وہ لوگ چلے گئے جن کے سائے میں جیا جاسکتا تھا) ملک بھر کے دینی حلقوں میں حضرت ڈاکٹر صاحب کے احترام اور ان کی عظمت کردار کے اعتراف کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ ابھی چند روز قبل جب حضرت ڈاکٹر صاحب بستر علالت پر تھے، پاکستان کے دینی مدارس کے سب سے بڑے بورڈ نے محض ان کے وجود مسعود سے وابستہ خیر کو پیش نظر رکھتے ہوئے انہیں ایک بار پھر اپنا سربراہ منتخب کیا تھا۔


ڈاکٹر صاحب 1935ء میں ضلع ایبٹ آباد کے گاؤں کوکل کے ایک دینی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم سکندرخان بن زمان خان صوم وصلوٰۃ کے پابند اور علماء کے صحبت یافتہ تھے، بڑے وجیہ اور ذی فہم انسان تھے، ڈاکٹر صاحب نے گاؤں میں ہی قرآن کریم کی تعلیم حاصل کی، اس کے بعد میٹرک تک اسکول پڑھا، بعدازاں دینی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے، ہری پور میں دو مدرسے تھے۔ ایک دارالعلوم چوہڑ شریف، یہاں آپ نے دو سال تعلیم حاصل کی اور دو سال احمد المدارس سکندر پور میں پڑھا۔ اس کے بعد مزید تعلیم کے لیے 1952ء میں کراچی تشریف لائے اور دارالعلوم کراچی(نانک واڑہ) میں داخلہ لیا۔ درجہ رابعہ سے سادسہ تک کی کتابیں آپ نے دارالعلوم نانک واڑہ میں پڑھیں۔


جس وقت ڈاکٹر صاحب دارالعلوم میں زیرتعلیم تھے، اسی دوران لیبیا اور مصر کی حکومت کے تعاون سے کراچی میں عربی سکھانے کے لیے مختلف جگہوں پر کورس شروع کرائے گئے تھے۔ ڈاکٹر امین مصری مرحوم اس کے نگران تھے، تربیتی کورس میں ڈاکٹر صاحب کے علاوہ سارے شرکاء علماء اور اساتذہ تھے۔ ان علماء کو عربی پڑھانے کے لیے مختلف جگہوں پر تعینات کردیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب کو شیخ امین مصری نے نیوٹاؤن مسجد میں کلاس شروع کرنے کے لیے بھیجا۔ یہ کلاس عصر کے بعد ہوتی تھی، کلاس سے فارغ ہوکر آپ محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوریؒکی مجلس میں حاضر ہوتے، اس طرح آپ کا مولانا بنوریؒ سے وہ والہانہ تعلق قائم ہوا، جس کو ”نسبت اتحادی“ کی بہترین مثال سمجھا جاسکتا ہے۔ حضرت بنوریؒ کو بھی عربی زبان و ادب سے بچپن سے غیر معمولی شغف رہا تھا اور ان کی عربی دانی پر ان کے اساتذہ بھی ناز کیا کرتے تھے اور انہیں بھی اپنے دور میں عالم اسلام میں ہندوستانی علماء کی ترجمانی کا اعزاز حاصل تھا، جو ان سے ڈاکٹر صاحب کو ورثے میں ملا۔


حضرت بنوریؒ نے عام مدارس سے ہٹ کر اپنے مدرسہ کا آغاز تکمیل کی کلاس یعنی تخصص سے کیا تھا، نچلے درجات کی کلاسیں نہیں تھیں، ڈاکٹر صاحب کی ہی درخواست پر حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے موقوف علیہ اور دورہ کے درجات شروع کیے اور آپ ان دس ابتدائی طلبہ میں شامل تھے جن سے جامعہ میں درس نظامی کا آغاز ہوا۔ اس وقت سے آخری سانس تک ڈاکٹر صاحب جامعہ سے وابستہ رہے اور اپنے شیخ کے ادارے کو نہایت خوبصورتی سے چلایا۔


ڈاکٹر صاحب کو یہ منفرد اعزاز بھی حاصل تھا کہ آپ بیک وقت عالم اسلام کے تین ممتاز ترین دینی اداروں جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاون، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ اور جامعہ ازہر مصر کے فاضل تھے۔ 1962ء میں آپ جامعہ سے چھٹی لے کر مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور چار سال وہاں تعلیم حاصل کی۔ وہاں سے فارغ ہوکر دوبارہ جامعہ میں تدریس شروع کردی۔ جامعہ ازہر میں آپ کے داخلے کا پس منظر یہ تھا کہ ایک مرتبہ مصر کی المجلس الاعلیٰ بشؤن الاسلامیہ کے رئیس پاکستان آئے، بنوری ٹاؤن بھی تشریف لائے، مدرسہ کا معاینہ کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے متکلم کے فرائض انجام دیے اور طلبہ واساتذہ کے اجتماع میں کلماتِ ترحیب اور خطبہ استقبالیہ بھی پیش کیا۔ شیخ موصوف، جامعہ کی کارکردگی کے ساتھ ڈاکٹر صاحب سے بھی بہت متاثر ہوئے اور اپنے خطاب میں انہوں نے اعلان کیا کہ میں مصر حکومت اور اپنے ادارہ کی طرف سے اس جامعہ کے لیے چار طلبہ کو جامعہ ازہر میں پی ایچ ڈی میں داخلے کی منظوری دیتا ہوں، جن میں پہلا نام عبد الرزاق کا ہوگا۔ ان کی دعوت پر 1972ء میں حضرت بنوریؒ خود حضرت ڈاکٹر صاحب کو مصر لے گئے اور شفیق باپ کی طرح آپ کا وہاں داخلہ کرواکر آئے۔ ڈاکٹر صاحب نے چار سال وہاں تعلیم حاصل کی اور ”عبداللہ بن مسعودؓ امام الفقہ العراقی“ کے عنوان سے مقالہ تحریر فرمایا اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرکے فروری 1977ء میں پاکستان واپس آئے اور جامعہ کے ناظم تعلیمات مقرر کیے گئے۔ 1997ء میں مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختارؒ کی شہادت کے سانحہ فاجعہ کے بعد اساتذہ جامعہ کے پرزور اصرار پر آپ نے جامعہ کے اہتمام کی ذمہ داری لینا قبول فرمائی اور آپ کے دور میں جامعہ بنوری ٹاون نے بے مثال ترقی کی۔ اس وقت 15000کے قریب طلبہ و طالبات جامعہ میں حصول علم میں مصروف ہیں۔ آپ کو اپنے شیخ حضرت بنوری ؒ سے والہانہ محبت تھی۔ آپ ”فناء فی الشیخ“ کا بہترین مصداق تھے۔ دوران زندگی سفر وحضر میں حضرت بنوری کی خدمت کرنا اور ہر وقت آپ کی مجلس میں حاضر رہنا، آپ کا معمول تھا اور حضرت بنوری کی وفات کے بعد سے تادم واپسیں جب بھی کوئی مجلس ہوتی ہے، حضرت کا تذکرہ ضرور کرتے اور جب بھی حضرت کا تذکرہ کرتے، بے اختیار آبدیدہ ہوجاتے۔ ؎


میرے دل وارفتہ حیرت کو ہے اب تک
اس نازش صد ناز کی ایک ایک ادا یاد
محدث العصر مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ کی اس بے پناہ محبت اور ”نسبت اتحادی“ کا کرشمہ ہی ہے کہ جن جن اعلیٰ ترین دینی مناصب پر حضرت بنوری ؒ اپنی زندگی میں فائز رہے، ان میں سے ہر منصب نے رفتہ رفتہ ڈاکٹر صاحب کو اپنی طرف کھینچا۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کے اہتمام اور مسند بخاری سے لے کر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی امارت اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی سربراہی تک ہر منصب پر حضرت بنوری کی جانشینی کا اعزاز آپ کے حصے میں آیا۔ علاوہ ازیں آپ 20ہزار کے قریب دینی مدارس کے ساتھ ساتھ اقراء روضۃ الاطفال ٹرسٹ کے ملک گیر اسکول سسٹم کے دسیوں ہزار طلبہ کے بھی باقاعدہ سرپرست تھے۔ پوری اسلامی دنیا میں آپ کے شاگردوں اور متوسلین کے زیر اہتمام چلنے والے ہزاروں ادارے اس پر مستزاد ہیں۔ ڈاکٹر صاحب متعدد بین الاقوامی اسلامی فورموں کے بھی رکن رہے اور تقریباً نصف صدی سے عالم اسلام میں پاکستان کی نمایندگی کا اعزاز حاصل کیا۔
ڈاکٹر صاحب نے مسلسل تدریسی و انتظامی مصروفیات کے باوجود تصنیف و تالیف کے میدان میں بھی نمایاں خدمات انجام دیں، 15سے زائد کتابیں اور رسالے آپ کے قلم سے نکلے۔ آج کے دور میں جو بھی طالب علم عربی انشاء کی تعلیم کا آغاز کرتا ہے، ڈاکٹر صاحب کی کتاب ”الطریقہ العصریہ“ سے ہی آغاز کرتا ہے۔ قادیانی مسئلے سے متعلق ڈاکٹر صاحب کی کتاب ”موقف الامۃ الاسلامیہ“ نے عرب دنیا کو قادیانی فتنے سے آگاہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔


ڈاکٹر صاحب کی زندگی اور سوانح پر یقینا اہل قلم مختلف زاویوں سے روشنی ڈالیں گے۔ آج سے کوئی اکیس سال پہلے کی بات ہے، ہمارے دورہئ حدیث کے سال ہمارے کچھ ساتھیوں نے تعلیمی سال کے اختتام پر اساتذہ اور کلاس کے ساتھیوں کے تعارف پر مشتمل ایک ڈائریکٹری مرتب کرنے کا فیصلہ کیا اور حضرت ڈاکٹر صاحب کی زندگی سے متعلق کچھ لکھنے کی راقم کی ذمہ داری لگائی۔ لیکن یہ میرے لیے بڑا مشکل ٹاسک ثابت ہوا کیونکہ میں جب بھی حضرت سے اپنے کچھ سوانح عنایت کرنے کی درخواست کرتا، حضرت فرماتے، ”ارے بھائی کیا ہم اور کیا ہمارے حالات، کیا پدی کیا پدی کا شوربہ……! بہت اصرار پر حضرت نے اپنے ریکارڈ سے ایک پرانی تحریر نکال کر عنایت فرمائی جو کسی عربی جریدے کے سوالنامے کے جواب میں لکھی گئی تھی۔ یہی وہ فنائیت، عاجزی اور بے نفسی تھی جس نے حضرت استاذ گرامی کو اندرون وبیرون ملک بے مثال محبوبیت عطاکی۔ ڈاکٹر صاحب کی شفقت، مہربانی، کرم نوازی اور تواضع وانکساری کے بیان کے لیے شاید یہ بات ہی کافی ہوگی کہ ایک دور میں جامعہ بنوری ٹاون میں عبد الرزاق نامی کئی اساتذہ ہوتے تھے تو ان میں ڈاکٹر صاحب کی عرفیت ”میٹھے عبد الرزاق“ کی ہوتی تھی ڈاکٹر صاحب میں بہت خوبیاں تھیں تاہم ان کی سب سے نمایاں خوبی ان کی مثبت سوچ، شفیقانہ مزاج اور فکری اعتدال تھا۔ ہم نے ڈاکٹر صاحب کو کبھی کسی فرد، مسلک، فرقے کے خلاف سخت زبان استعمال کرتے نہیں دیکھا۔ ان کا زیادہ سے زیادہ غصہ”اللہ کے بندے!“کے نیم فقرے پر مبنی ہوتا۔ اللہ تعالیٰ حضرت ڈاکٹر صاحب کی کامل مغفرت فرمائے اور ہم سب پسماندگان کو صبر جمیل نصیب فرمائے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , ,
49734