Chitral Times

دوائے دل – افغان طالبان ۔ تختے سے تخت تک! – (محمد شفیع چترالی)


نائن الیون کے واقعات کو کل بیس برس کا عرصہ مکمل ہورہا ہے اور وقت کی گردش کا کمال بلکہ عجوبہ یہ ہے کہ ان بیس برسوں میں دنیا بہت سے انقلابات،جنگوں،حوادث اور تبدیلیوں کے باوصف ایک بار پھر گھوم کر اس نقطے پر آ کھڑی ہوئی ہے جہاں نائن الیون کے وقت تھی۔ کل جب واشنگٹن اور نیویارک میں امریکی شہری نائن الیون میں مارے جانے والے اپنے پیاروں کا ماتم کر رہے ہوں گے،کابل اور قندہار میں افغان طالبان اپنی نئی حکومت کے قیام کا جشن منارہے ہوں گے۔ آج کے دن کا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ وہ کیا اسباب و وجوہ ہیں جن کے باعث انسانی تاریخ کی جدید ترین عسکری ٹیکنالوجی سے لیس پچاس کے قریب ممالک کی افواج افغانستان کے بے سرو سامان طالبان کو شکست نہ دے سکیں اور انسانیت کا کھربوں ڈالرز کا سرمایہ اور اسلحہ افغانستان میں بے کار اور ضائع چلا گیا۔ دنیا بھر کے مبصرین اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کے مختلف پہلوؤں پر بحث ہورہی ہے مگر اس حقیقت کا اعتراف کہیں نہیں کیا جارہا کہ اس جنگ کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ دراصل اس کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز ہی نہیں تھابلکہ یہ محض انتقامی جذبے کے تحت اندھا دھند شروع کی جانے والی ایک مہم جوئی تھی جس کا واحد مقصد اپنی دھاک بٹھانا تھا۔ اس کا بالاخر یہی نتیجہ نکلنا تھا جو کہ نکلا۔


آج بیس برس بعد کا منظر نامہ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ آپ کھربوں ڈالرز کا سرمایہ اور آدھی دنیا کی معاشی و عسکری طاقت لگاکر بھی غلط کو صحیح، جھوٹ کو سچ اور باطل کو حق بناکر نہیں دکھاسکتے۔ اتحادی افواج اس لیے افغانستان میں ذلت وادبار سے دوچار ہوئیں کہ ان کے پاس لڑنے کے لیے اسلحہ اور سرمایہ تو بے تحاشا تھا،پر کوئی نظریہ، مقصد اور جذبہ نہیں تھا جبکہ طالبان اس لیے سرخ رو ہوئے کہ ان کے پاس اسلحہ اور وسائل تو نہ ہونے کے برابر تھے تاہم لڑنے کا جذبہ،نظریہ اور اپنے حق پر ہونے کا حد درجے کا پختہ یقین تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کی سرفروشانہ جدوجہد اور بے مثال مزاحمت نے دنیا میں طاقت کے فلسفے اور ٹیکنالوجی کی خدائی کے تصور کو دفن کرکے رکھ دیا ہے۔ یہ صرف افغانستان کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کی محکوم اور مظلوم اقوام کے لیے حوصلے اور امید کا ایک پیغام ہے کہ آج کی دنیا میں بھی سچ اور حق پر مبنی جدوجہد ہی کامیابی کا ذریعہ ہے۔
طالبان اپنی بیس سالہ جدوجہد کے دوران تین محاذوں پر ناقابل تسخیر رہے اور پوری دنیا کوحیران کرکے رکھ دیا، جس کی شاید ان کے بہت سے حامیوں کو بھی توقع نہیں تھی۔ پہلا محاذ عسکری مبارزت کا تھا جس میں افرادی قوت، مادی وسائل، اسلحے، سرمایے اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے ان کا اتحادی افواج کی طاقت سے کوئی مقابلہ ہی نہیں بنتا تھا۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے جب اتحادی افواج نے افغانستان پر جارحیت کا آغاز کیا اور دیوہیکل بی باون طیاروں سے ”بموں کی ماں“ کہلانے والے ڈیزی کٹر بم گرانا اور کارپٹ بمباری کرکے آن واحد میں بستیوں کی بستیاں اڑانا شروع کردی تھیں تو ادھر پاکستان میں بیٹھے ہمارے بہت سے دانشوروں کے بھی دل دہل گئے تھے اور کہا جاتا تھا کہ آج کی دنیا میں گھوڑوں خچروں پر بیٹھ کر دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرنے والے دیوانے ہیں۔ مگر پھر دنیا نے دیکھا کہ انہی دیوانوں نے کس طرح اپنی چھاپہ مار کارروائیوں کے ذریعے اتحادی افواج کو ناکوں چنے چبوائے اور دنیا بھر کے فرزانوں کے ہوش اڑانے شروع کر دیے۔ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف افغانوں کی جدوجہد کو امریکا کے کھاتے میں ڈالنے والے ہمارے دانشوروں کو آج سمجھ نہیں آرہی کہ طالبان کی اس فتح کو کس کھاتے میں ڈال دیں۔


یہ تو ہوئی عسکری محاذ کی بات جہاں طالبان نے ایک طرح سے افغانوں کی تاریخ کو ہی دوہرایا ہے۔ اس محاذ پر ماضی میں بھی افغان ناقابل تسخیر رہے۔ دوسرا محاذ جوکہ افغانوں کی تاریخ کا ایک کمزور باب ہے اور جہاں کئی دفعہ عسکری محاذ کی جیتی ہوئی جنگیں بھی ہاری گئی ہیں، معاشی اور مالی ترغیبات کے جال سے بچنے کا ہے جس میں طالبان نے تاریخ کو بدل کررکھ دیا ہے۔ واقفان حال جانتے ہیں کہ افغانستان میں ابتدائی دو تین برسوں کے اندر ہی امریکا اور عالمی طاقتوں کو اندازہ ہوگیا تھا کہ عسکری میدان میں طالبان کو شکست دینا ممکن نہیں ہے،چنانچہ ہمیشہ کی طرح ڈالروں کی تجوریاں کھول دی گئیں اور ایک ایک طالبان کمانڈر کولاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں ڈالرز کی پیشکش کرکے خریدنے کی کوشش کی گئی،خاص طور پر مذاکرات کے آغاز کے بعد تو کہا جاتا ہے کہ ایک نہیں بلکہ کئی ممالک کی جانب سے طالبان کے اہم رہنماؤں کو اپنے دام میں لانے کے لیے ہر ایک کو سونے میں تولنے کی پیش کش کی گئی مگر یہ مردان خود آگاہ و خدامست اس محاذ پر بھی ثابت قدم رہے اور دنیا کے درجنوں ممالک مل کر ان میں سے کسی ایک کو بھی خرید نہ سکے۔


اس سے اگلا محاذ سفارت کاری اور مذاکرات کا تھا۔ بہت سے مبصرین کا خیال تھا کہ یہ سیدھے سادھے افغان ملا اپنے مخصوص قبائلی پس منظر اور جنگی ماحول کی وجہ سے عسکری میدان میں تو زیر نہیں ہوئے تاہم مذاکرات کی میز پر دنیا کے گھاگ ترین سفارت کاروں اور چرب زبان”زلمیوں“ کے آگے ٹکنا شاید ان کے بس کی بات نہ ہو۔ پھر ظاہر ہے کہ مذاکرات ہمیشہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور جہاں مدمقابل دنیا کا واحد سپر پاور کہلانے والا ملک ہو تو کچھ نہیں بلکہ بہت کچھ دے کر ہی اپناکچھ منوایا جاسکتا ہے مگر یہاں بھی طالبان حوصلے اور تدبر کا پہاڑ ثابت ہوئے۔ انہوں نے کسی بھی مرحلے پر کسی عجلت، کمزوری، مجبوری یا طمع کا تاثر نہیں پیدا ہونے دیا جبکہ مد مقابل کی عجلت،مجبوری اور بے بسی کا مزہ لیتے رہے چنانچہ جب دوحہ میں مذاکرات کے بعد معاہدے کا اعلان ہوا تو ملابرادر کے چہرے پر فاتحانہ تمکنت اور امریکی وزیر خارجہ کی”مسکینی“کا ساری دنیا نے مشاہدہ کیا اور درحقیقت یہی وہ لمحہ تھا جب افغانستان کے مستقبل کی پیشانی پر طالبان کا نام کندہ ہوگیا تھا۔ اس لیے اب امریکا اور اس کے اتحادیوں کا بچارے اشرف غنی سے یہ شکوہ بالکل بے جا ہے کہ وہ پندہ اگست کی شام کو کیوں کابل چھوڑ کر بھاگ گیا۔ یہ تو نوشتہئ دیوار تھا اور ظاہر ہے کہ جان بچانا بھی توفرض ہے!


طالبان کی جدوجہد کا چوتھا اور فیصلہ کن مرحلہ 15 اگست کے بعدسے شروع ہوچکا ہے اور شاید یہی سب سے مشکل اور حوصلہ آزما مر حلہ ہے۔ یہ مرحلہ افغانستان میں ایک ایسی مضبوط اور پائے دار اسلامی حکومت کے قیام کا ہے جو افغان قوم کوچار عشروں پر محیط جنگ، خانہ جنگی،غربت،افلاس اور محرومیوں سے نجات دلاکر امن، ترقی،استحکام اور استقلال کی شاہراہ پر گامزن کرسکے۔ اس کی اہمیت صرف افغانستان کے حوالے سے ہی نہیں ہے بلکہ حالیہ تاریخ میں شاید پہلی دفعہ مسلمانوں کو ایک ایسا ملک اور ماحول میسر آگیا ہے جہاں وہ آزادی کے ساتھ اسلامی فلاحی ریاست کا ایک نمونہ اور ماڈل پیش کرسکتے ہیں۔ بین الاقوامی دباؤ کے موجودہ ماحول میں یہ کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن اگر طالبان نے مذکورہ بالا تین مراحل کی طرح یہاں بھی تدبر سے کام لیا اور اپنی زیادہ توجہ ظواہر کی بجائے افغان عوام کے بنیادی مسائل یعنی بے امنی، غربت، بے روزگاری اور جہالت کے خاتمے اور عدل و انصاف، تعلیم، صحت، روزگار اور امن کی فراہمی پر مرکوز کی تو کوئی وجہ نہیں کہ افغانستان ایک جدید ترقی یافتہ اسلامی فلاحی ریاست کی شکل میں پوری دنیا کے سامنے ایک مثال نہ بن سکے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , ,
52274