Chitral Times

نوجوانوں کو جرائم سے کیسے روکیں؟ ۔ محمد شریف شکیب

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان سمیت دنیا بھر میں مختلف جرائم میں ملوث 67فیصدقیدی جیل سے رہائی کے تین سالوں کے اندر اور76فیصد پانچ سالوں کے اندر دوبارہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچ جاتے ہیں۔ کسی جرم میں سزائے قید گذارنے والوں کومعاشرہ قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ اسے کسی جگہ ملازمت نہیں ملتی۔ اس کے ساتھ کوئی کاروبار کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ اسے سزایافتہ قرار دے کر بینک بھی اسے قرضہ نہیں دیتے نہ ہی وہ کسی عوامی عہدے کا اہل تصور کیا جاتا ہے۔ جب بھری دنیا میں وہ تنہا رہ جاتا ہے تو پیٹ کی آگ بجھانے اور زندگی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے وہ دوبارہ ڈکیتی، رہزنی، چوری، اغوا برائے تاوان اور دیگر جرائم کی طرف راغب ہوتا ہے۔ جامعہ پشاور کے شعبہ کریمنالوجی کے زیر اہتمام مشاورتی ورکشاپ میں اظہار خیال کرتے ہوئے مختلف شعبوں کے ماہرین کا کہنا تھا کہ پاکستان کی 22کروڑ آبادی میں 19سے30سال تک کی عمر کے نوجوانوں کی تعداد 64فیصد ہے۔ جبکہ تیس سال سے زائد عمر کے افراد کی مجموعی آبادی میں تناسب 36فیصد ہے۔

ہر سال کالجوں اور یونیورسٹیوں سے فارع ہونے والے لاکھوں نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع میسر نہیں۔ اس وجہ سے کچھ نوجوان منشیات کے عادی بن جاتے ہیں اور کچھ جرائم کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ چھوٹی موٹی چوری، دھوکہ بازی یا رہزنی میں ملوث یہ نوجوان جب جیل پہنچ جاتے ہیں تو وہاں انہیں پیشہ ور مجرموں کے ساتھ رکھا جاتا ہے ان کی صحبت میں رہنے کے بعدغیر ارادی یا اتفاقیہ جرم کرنے والے بھی ذہنی طور پر پیشہ ورچور، ڈکیٹ، اغوا کار، فراڈی، اجرتی قاتل بننے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ ان کا یہ طرز عمل معاشرتی رویوں کے خلاف بغاوت بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ ملک میں ہوشرباء مہنگائی، بے روزگاری،غربت اور تنگ دستی کی وجہ سے بھی نوجوان زور بازو سے حق چھیننے پر تل جاتے ہیں۔ایک سینئر پروبیشن آفیسر نے بتایا کہ انہیں ایک خود کش حملہ آور کی کونسلنگ کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ خود کش حملہ آور کی عمر صرف دس سال تھی۔ اس کی غربت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صرف پندرہ ہزار روپے اور ایک موبائل فون دے کر اسے خود کش بمبار بننے پر مجبور کیاگیاتھا۔

ٹاسک پورا کرنے میں ناکامی کے نتیجے میں وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہتھے چڑھ گیا۔ قانون توڑنے والوں کو قید میں رکھنے کی سزا معلوم انسانی تاریخ سے جاری ہے۔ سزائے قید کا بنیادی مقصد قیدی کی اصلاح ہوتی ہے۔ تاہم پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک میں جیلوں کو اصلاح خانوں کے بجائے عقوبت خانوں میں تبدیل کیا گیا ہے۔ جیل میں ٹارچر ہونے کے بعد کوئی شخص توبہ تائب ہوکر معمول کی زندگی کی طرف آنا بھی چاہئے تو معاشرہ اسے قبول نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ جرائم کی شرح میں مسلسل اضافہ ہوتا ہے۔ ریاستی اور اداروں کی سطح پر معمولی جرائم میں ملوث نوجوانوں کی اصلاح، انہیں پیشہ ورانہ تربیت دیکر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دینے کا کوئی ادارہ موجود نہیں۔ اس کہانی کا ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ ملک بھر کی جیلوں میں سینکڑوں معصوم بچے اپنی ماؤں کے ساتھ ناکردہ گناہ کی سزا کے طور پر سزائے قید کاٹ رہے ہیں جب وہ بچے جیلوں سے باہر آئیں گے تو ان کا مستقبل کیا ہوگا؟

اس سوال کا کسی کے پاس جواب نہیں۔معمولی جرائم میں ملوث سینکڑوں بچے ملک کی مختلف جیلوں میں قید ہیں۔ جو ملک میں رائج جوینائل قانون میں سقم کا شاخسانہ ہے۔ مشاورتی ورکشاپ میں حکومت سے یہ سفارش کی گئی کہ جوینائل کے قانون میں عصری تقاضوں کے مطابق ترامیم کی جائیں۔ کم عمر بچوں کو جیلوں میں بھیجنے کے بجائے پروبیشن آفسروں کے سپرد کیاجائے تاکہ ان کی کونسلنگ اور ذہنی و اخلاقی تربیت کی جاسکے۔ پروبیشن کے لئے جامع قوانین وضع کئے جائیں۔ نوجوانوں کی ذہنی بحالی کے لئے تمام شہروں میں مراکز قائم کئے جائیں۔اور معاشرتی رویوں میں تبدیلی کے لئے محراب و منبر اور درس گاہوں کے نصاب میں تبدیلی کی جائے۔تاکہ نوجوان نسل کو بے راہروی اور جرائم کو بطور پیشہ اختیار کرنے سے روکا جاسکے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
52963

کہتا ہوں سچ , کیونکہ میں سیاسی نہیں ! – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

دو تہائی سے جیتنا، بغیر اتحادیوں کے حکومت بنانا، نام و نشان مٹا وں گا یا پھر مقابلہ دور دور تک نہیں جیسے دعوے، عوام روز کسی نہ کسی جماعت سے سنتے اور دیکھتے رہتے ہیں، لیکن دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کو عوام کی موجودہ حالت کے حوالے سے ہی بلکہ اپنی جماعتوں میں کارکنان کے تحفظات سے بھی آگاہی (شائد) نہیں۔پاکستان میں انتخابات جیتنے کی روایت جیسی بھی رہی ہو، لیکن جب تک کسی بھی سیاسی جماعت کا کارکن اُس سے مطمئن نہ ہوں، جلسے جلوس کی رونق بڑھانے کے لئے رنگا رنگ تقریبات و ترغیبات دے کر عوام کو جلسہ گاہ لانے کی کوشش کی جاتی رہے گی۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ عام سیاسی کارکن کا خواب، اپنے عہدے دارکے قریب ہونا، اپنی قیادت کی دور سے تصویر لینا اور اگر اس کو قیادت کے قریب آنے کا موقع مل جائے اور پھر سٹیج پر چڑھ کر سیلفی مل جائے تو جیسے اُس کی زندگی کے سارے ارمان پورے ہوگئے۔ تین مرکزی سیاسی رہنماؤں نے ایک ہی دن بڑے دعوے کرتے ہوئے کہا کہ ان کی اگلی حکومت دو تہائی اکثریت سے کامیاب ہوگی تو  دوسرے نے کہا کہ وہ چاروں صوبوں سے منتخب ہوکر اقتدار میں آئیں گے اوریہ بھی کہ بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے مخالفین کو شکست دیں گے۔ تیسرے نے کہا نام و نشان مٹا ڈوں گا، غرض  ملک کی دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے بیشتر رہنماؤں کے بھی کم و بیش یہی دعوے ہیں۔ ان کے دعوؤں میں کتنی حقیقت ہے، اس سے قطع نظر یہ انتخابی چورن ہے، جو ہر سیاسی و مذہبی جماعت کو بیچنا ہوتا ہے، کیونکہ وہ سہانے خواب نہیں بیچیں گے تو سیاست کی دکان کیسے چلے گی۔


بات جب بلدیات کی آتی ہے تو دیکھنے میں تو یہی آیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں بلدیاتی انتخابات میں برادری نظام، جاگیر داری، وڈیرانہ ا، سرداری اور خوانین کا اثر رسوخ استعمال ہوتا ہے، جو جیت کے بعد سیاسی نمائندگی میں ڈھل کر کسی بھی جماعت کا حصہ کہلائے جاتے ہیں۔ خیر اس امر سے تو سب آگاہ ہیں، اس لئے انتخابات کسی بھی نوعیت کے ہوں اس کے لئے بلند بانگ دعوے کرنا بھی عادت اور انہیں سننا بھی عادت ثانیہ ہے۔  راقم وقتاََ فوقتاََ  مختلفسیاسی جماعت  سے وابستہ واقف کار کارکنان، عہدے دارن سے سیاسی ماحول پر تبادلہ خیال کرتاہے تو ان میں سے بڑی تعداد اپنے عہدے داروں سے مطمئن نظر نہیں آتی، حکمراں جماعت تحریک انصاف میں دو دہائیوں سے کارکن سے عہدے دار بننے والے ایسے کئی افراد کو مایوسی کے عالم میں کہتے دیکھا اور سناہے کہ غریب اور نظریاتی کارکنان کی کوئی قدر نہیں، پیسے والے اور اثر رسوخ کے حامل سرمایہ دار، سیاسی پارٹیاں بدل کر آنے والے چند دنوں میں اُس مقام پر پہنچ جاتے ہیں جن کے لئے انہوں نے برسوں برس محنت کی ہوتی ہے،میرے رہائشی علاقے کے ایک ایسے ہی عہدے دار نے اپنی شکوؤں کی ’درد ‘ بھری داستان سنائی کہ جن لوگوں کو ہم نے ایم پی اے، ایم این اے بنانے کے لئے دن رات ایک کئے آج جب وہ ایک بڑے مقام پر ہیں تو ان کی رعونت و غرور ساتویں آسمان پر ہے۔ علاقے میں لوگ ہمیں جانتے ہیں، ووٹ کے لئے ہم ان سے وعدے کرتے ہیں، ان کا کوئی بھی مسئلہ ہو تو  متاثرہ فرد اہل خانہ سمیت رات دو بجے گھر کا دروازے پر بیٹھ جاتے ہیں،فون بند نہیں کرسکتے کہ کارکنان یا عوام طعنے نہ دے کہ ان کی پارٹی اقتدار میں ہے تو اب اس سے فائدے حاصل کررہا ہوگا، اس لئے چھپ رہا ہے، ہمارا تو جینا مرنا اہل علاقہ کے ساتھ ہے، ایم پی اے، ایم این اے کو کیا معلوم ہے کہ فلاں محلے یا گلی کے مسائل کیا ہیں،عوامی مسائل ہم لے جاتے ہیں تو وہ ہم سے پوچھتے ہیں کہ کیا ہوا، ایم این اے ایم پی اے بننے والوں کو جب بلایا جاتا ہے تو نخرے کرتے ہیں، پھر ان کا پروکوٹول بھی کرو، ان کے لئے ہزاروں روپوں کی پُر تعیش دعوت بھی،اور وہ تقریر جھاڑ کر چلے جاتے ہیں لیکن سامنا تو ہمیں کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے اس نظریاتی اور قدرے معقول سابق عہدے دار کو  بخوبی جانتا ہوں اس لئے ان کی طویل داستان سن کر خاموش ہو جاتا ہوں کیونکہ میں سیاسی نہیں۔


پاکستان پیپلز پارٹی کے اہم عہدے پر رہنے والے ایک معروف سیاسی شخصیت کے بھی گلے شکوے پیش کردوں کہ علاقے کے لئے دن رات ایک کرکے ترقیاتی منصوبے منظور کرائے انہیں تکمیل کے آخری حدوں پر لے گئے لیکن جب اس  منصوبے کے افتتاح کا موقع آتا ہے تو انہیں بلایا تک نہیں جاتا بلکہ ان کے خلاف بیان بازی اور ان کی کردار کشی کی جاتی ہے، تاکہ تنظیمی انتخابات میں لابی کروائی جائے اور عہدے مل نہ پائیں، جس سے گروپ بندی کو فروغ ملتا ہے اور ایک پارٹی کے کارکنان منقسم ہوجاتے ہیں، جس کا نقصان پارٹی کو ووٹ منقسم ہونے کی وجہ سے پہنچتاہے، پارٹی بعد از شکست وجوہ پوچھتی ہے تو عہدے دار اور کارکنان ایک دوسرے پر الزامات لگاتے ہیں۔ گروپ بندی کے نتیجے میں مفاد عامہ کا ایک ایک منصوبہ دس دس برس میں مکمل نہیں ہوپاتا، جب وہ منصوبہ مکمل ہوتا بھی ہے تو اس کی حالت ایسی ہوجاتی ہے کہ کروڑوں روپوں کا فنڈ ایک ہفتے میں ہی ضائع ہوجاتا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے عہدے داروں کا بھی یہی گلہ ہے کہ جب حکومت میں تھے تو ان سے پوچھا بھی نہیں جاتا تھا، وزرا ء آتے تو ملاقات کے بغیر چلے جاتے، اب احکامات ملتے ہیں کہ کارکنان اور عوام کو اکھٹا کرو، تو کیسے کریں،ان کو اپنے مسائل کا حل چاہے تھا جو پورے نہیں ہوئے تو کارکنان ناراض ہیں یادوسری سیاسی جماعتوں میں چلے جاتے ہیں اور انہیں جو سخت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ الگ ہے ۔
ان گنت مثالیں ہیں، یہ صرف  نچلی سطح کا نہیں بلکہ بیشترمرکزی رہنماؤں کا بھی یہی حال ہے، کراچی پریس کلب پر پی ایس پی کے تمام مرکزی عہدے داروں نے احتجاجی کیمپ لگایا تھا لیکن کئی روز گذرنے کے باوجود انہیں عوام سے ویسا ردعمل نہیں ملا جس کی توقع  تھی تو ایک مرکزی رہنما سخت مایوسی میں مجھ سے مخاطب تھے کہ دیکھو قادر بھائی، ہم عوام کے لئے سڑکوں پر بیٹھے ہیں، ان کے مسائل کے حل کے لئے ساتھ چاہتے  ہیں لیکن ان کا رویہ دیکھ کر  دل چاہتا ہے کہ سب چھوڑ دوں اور کیمپ سے اٹھ جاؤں، لیکن یہ سوچ کر رک جاتا ہوں کہ شائد انہیں کبھی احساس ہوجائے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
52957

مہنگائی کا شتر بے مہار ۔ محمد شریف شکیب

کورونا وباء نے پوری دنیا کی معیشت کا ہلاکر رکھ دیا ہے۔امریکہ، برطانیہ، ارجنٹائن، بلجیم، فرانس، نیدر لینڈ اور جرمنی جیسے ترقیافتہ ممالک میں بھی لوگ مہنگائی کے خلاف احتجاج پر مجبور ہوئے ہیں۔ تازہ ترین اطلاع کے مطابق برطانیہ میں پٹرول کا بحران سراٹھانے لگا ہے۔ پاکستان میں بھی مہنگائی نے عوام کی کمردوہری کردی ہے۔ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کے حوالے سے جاری کردہ سرکاری رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران مہنگائی کی مجموعی سالانہ شرح 14.33فیصدپرپہنچ گئی۔ بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 57.14 فیصد اضافہ ہوا۔ مرغی کا گوشت110روپے سے 270 روپے فی کلو تک جاپہنچا۔چھوٹے گوشت کی قیمت گذشتہ تین سالوں میں 700 روپے فی کلوسے بڑھ کر 1250 روپے فی کلو ہوگئی۔

بڑا گوشت 480 روپے سے650 روپے فی کلو ہوگیا۔ انڈے90 روپے فی درجن سے180 روپے فی درجن ہوگئے۔کوکنگ آئل کی قیمت 120روپے لیٹر سے 310روپے لیٹر ہوگئی۔ پٹرول کی قیمت تین سالوں میں 68روپے فی لیٹر سے 123روپے فی لیٹر تک جاپہنچی۔پٹرول، ڈیزل، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اب ہفتہ وار بنیادوں پر اضافہ ہونے لگا ہے۔ تیل اور بجلی کے دام بڑھنے کے ساتھ ہر چیز کی قیمت خود بخود بڑھ جاتی ہے۔ حکومت نے مزدور کی کم سے کم ماہانہ اجرت بیس ہزار روپے مقرر کررکھی ہے۔ حالانکہ 95فیصد نجی ادارے اپنے ملازمین کو حکومت کی مقرر کردہ کم سے کم اجرت نہیں دیتے۔ اور اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کرانے کے لئے حکومت کے پاس کوئی میکینزم بھی نہیں ہوتا۔

بیس ہزار ماہانہ تنخواہ میں آٹھ افراد پر مشتمل خاندان کا ماہانہ بجٹ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ماہرین معاشیات بھی نہیں بناسکتے۔ تین وقت کے کھانے پر چھ سات سو روپے لگ ہی جاتے ہیں۔ صرف جسم و جان کا تعلق برقرار رکھنے پر ہی مہینے میں پندرہ بیس ہزار روپے لگ جاتے ہیں۔ یوٹیلٹی بلز، بچوں کے تعلیمی اخراجات،ان کے لئے کپڑے، جوتے اور دیگر ضروریات کہاں سے پوری کئے جائیں۔غمی خوشی ہر انسان کے ساتھ لگی رہتی ہے۔ بیماری کی صورت میں علاج کرانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے کیونکہ ادویات کی قیمتوں میں بھی تقریباً ہر مہینے اضافہ ہورہا ہے۔اور جان بچانے والی ادویات کی قیمتیں عام لوگوں کی قوت خرید سے باہر ہوچکی ہیں۔

کاروباری طبقہ کسی نہ کسی طرح اپنا گذارہ کرہی لیتا ہے کیونکہ اسے ہول سیل مارکیٹ سے چیز مہنگی ملے گی تو اس کے پرچون ریٹ بڑھادے گا۔ تنخواہ دار طبقہ مہنگائی سے سب سے زیادہ متاثر ہورہا ہے۔ کیونکہ مہنگائی کے تناسب سے اس کی تنخواہ نہیں بڑھتی۔ اس لئے کچھ لوگ تو گھر کا چولہا گرم رکھنے کے لئے دو دو نوکریاں کرتے ہیں جبکہ باقی لوگ ایک وقت کا کھانا کم کرکے اخراجات کو بجٹ کے اندر رکھنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ عوام باشعور ہیں انہیں کورونا کی وجہ سے عالمی سطح پر معاشی کساد بازاری کا علم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں کمرتوڑ مہنگائی کے باوجود لوگ احتجاج کے لئے سڑکوں پر نہیں نکلے۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ گھر کے واحد کفیل کواحتجاج کے دوران کچھ ہوگیا یا وہ گرفتار ہوکر جیل پہنچ گیا تو زیر کفالت افراد کا کیا بنے گا۔ حکومت نے عوام کو کھلی مارکیٹ کی نسبت سستی اشیائے ضروریہ کی فراہمی کے لئے جگہ جگہ سرکاری سٹور کھول رکھے ہیں حکومت سرکاری سٹور پرفراہم کی جانے والی اشیاء گھی، کوکنگ آئل، چائے پتی، آٹا، چینی، مصالحہ جات پراربوں روپے کی سبسڈی دے رہی ہے مگر سٹور پر سبسڈی والی اشیاء دستیاب نہیں ہوتیں یہ سامان ویئرہاؤس سے براہ راست اوپن مارکیٹ پہنچ جاتی ہے۔ پاکستان کے عام شہری کو اپنے بچوں کا پیٹ پالنے اور بنیادی ضروریات پوری کرنے کی فکر دامن گیر ہوتی ہے۔ اس کے لئے اپنے بچوں کو پیٹ بھر کر کھانا کھلانا کشمیر، فلسطین، افغانستان کے مسائل، امریکہ کے ساتھ تعلقات، کرکٹ کی بحالی، نیب اپوزیشن محاذ آرائی، حکومت الیکشن کمیشن تنازعے، الیکٹرانک ووٹنگ مشین، سٹاک ایکس چینج کے کاروبار، ڈالر کی اونچی اڑان اور سیاست دانوں کی دیگر پسندیدہ موضوعات سے کہیں زیادہ اہم ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
52951

تلخ و شیریں ۔ نومنتخب ضلعی صدر کی ترجیحات ۔ نثار احمد۔

پیپلز پارٹی کسی دور میں پاکستان کی واحد وفاقی جماعت سمجھی جاتی تھی۔ یہی وہ اکیلی پارٹی تھی جس کی گہری جڑیں چاروں صوبوں کے عوام میں تھیں۔ ماضی میں ہر صوبے کی اسمبلی میں بھرپور نمائندگی رکھنے والی جماعت دن بدن سکڑ کر آج سندھ کی جماعت بنتی جا رہی ہے۔ پہلے اُس صوبے سے تقریباً اِس کا صفایا ہو گیا جہاں انیس سو سڑسٹھ(1967) میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر اس کا تولد ہوا تھا پھر اگلے مرحلے میں خیبر پختونخوا سے بھی عوامی حمایت کھو دینے کے قریب پہنچ چکی ہے۔ گوکہ اس کا ووٹ بینک اب بھی تمام صوبوں میں موجود ہے لیکن پہلے جیسا نہیں۔

یہ کوئی چھوٹی پارٹی نہیں تھی۔ عشروں تک ملک کے چپے چپے پر زوالفقار بھٹو کی اس پارٹی کا طوطی بولتا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان کا شاید ہی کوئی کونا ہو جہاں بھٹو کا جیالا نہ رہتا ہو لیکن اس کی پہلی جیسی اثر پذیری اب نہیں رہی۔ جماعت کس نہج اور کس ڈگر پر چل کر اس حالت میں پہنچی اور کیسے پہنچی اس کا تجزیہ سیاسی تجزیہ کار ہی بہتر انداز میں کر سکیں گے بے نظیر بھٹو کی قیادت سے محروم ہونے کے بعد پیپلز پارٹی اب  بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں ایک دفعہ پھر اپنی کھوئی ساکھ بحال کرنے کے لیے کوشاں دکھائی دے رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں نہ صرف صوبائی سطح کی قیادت میں ردوبدل کیا گیا بلکہ ضلعی سطح کی قیادت کو بھی تبدیل کر کے نئے انرجٹک چہروں کو زمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔

خیبرپختونخوا کے مسند ِ صدارت پر نجم الدین خان کو بٹھایا گیا ہے۔ نجم الدین خان پیپلز پارٹی کا پرانا چہرہ بھی ہے، سینئر ورکر اور قدآور رہنما بھی۔

چترال میں نئے سرے سے اس پارٹی میں روح پھونک کر اسے اٹھانے اور جیالوں کو متحرک کرنے کی زمہ داری انجینئر فضل ربی جان کے کندھوں پر ڈالی گئی ہے۔ انجینئر صاحب بلاول کی توقعات پر اترتے ہوئے اس چیلنج سے نمٹنے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں یہ آنے والا الیکشن ہی بتائے گا۔ سر دست انجینئر صاحب کا “سابقہ کارکردگی کارڈ” اس سوچ کی تائید کر رہا ہے کہ انجینئر صاحب کے لیے یہ کام زیادہ مشکل نہیں ہو گا۔ سن 1993 کو میٹرک کے امتحان میں ضلع بھر میں پوزیشن حاصل کرنے والا فضل ربی وہ واحد طالب علم تھا جسے اسلامیہ کالج میں داخلہ ملا تھا۔ ایف اے سی امتیازی نمبروں سے پاس کرنے کے بعد انجینئرنگ کی تعلیم کے لیے سعودی عرب سدھار گئے لیکن ناسازی ء طبع کی وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑ کر واپس پاکستان آنا پڑا۔

Engr Fazle Rabi chitral

   سن 2001  میں پاکستان ہی کے  انجینئرنگ یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی تعلیم کی تکمیل کر کے انجینرنگ کی ڈگری حاصل کر لی۔  پہلے گورنمنٹ  آف پاکستان، پھر اے کے ڈی این کے ساتھ بحیثیت ملازم وابستہ ہو گئے۔ اس ملازمت کے دوران آپ کو افغانستان اور تاجکستان کے اسفار کا موقع ملا۔ علم جُو طبیعت کو ملازمت راست نہیں آئی چنانچہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مزید تعلیم سے خود بہرہ ور کرنے کے لیے لندن چل دئیے۔ وہاں سے منیجمنٹ میں ڈپلومہ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد باقاعدہ طور پر عملی زندگی میں جُت گئے۔ سن دو ہزار چھ میں اپنی کمپنی  Green alternative power pvt limited کی بنیاد رکھی پھر دو ہزار سات میں اسے  ختم کر کے شمالی علاقہ جات کی مارکیٹ کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے مینوفیکچرنگ کی طرف آ گئے یوں ٹربائن  اور دیگر سازو سامان بنانے والی ایک کامیاب کمپنی بنام Hydrolink Engineering Equipment company Pvt LTD کا آغاز کیا۔ یہ کمپنی خوب چلی۔ دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرنے والی اس کمپنی کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں اسّی فیصد ملازمین چترال سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس وقت بھی ڈیڑھ دو سو سو چترالی تعلیم یافتہ نوجوان  بطورِ ملازم اس کمپنی سے وابستہ ہیں۔ یوں یہ کمپنی چترال کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے روزگار کا ذریعہ بھی بن رہی ہے۔


میرے استفسار پر اپنی سیاسی زندگی پر بات کرتے ہوئے انجینئر صاحب کا کہنا تھا ” سیاست کا آغاز زمانہ ء طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے پلیٹ فارم سے کیا تھا۔ یونیورسٹی کے زمانے میں سرگرم کارکن ہونے کے ناتے قید و بند کی صعوبتیں بھی سہنی پڑی تھیں اور ایک آدھ تعلیمی سال بھی اسٹوڈنٹ پالیٹکس کی بھینٹ چڑھانا پڑا تھا۔ دو ہزار آٹھ سے لے کر دو ہزار سترہ تک جماعت اسلامی کے ساتھ فعال وابستگی رہی۔ سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں مولانا شیر عزیز کے ساتھ کورنگ امیدوار تھا۔ سن دو ہزار سترہ میں ایک اصولی اختلاف کی بنیاد پر جماعت اسلامی کو الوداع کہہ کر پیپلز پارٹی پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔ تب سے لے کر آج تک اسی جماعت سے وابستہ ہوں۔

میرا عزم یہی ہے کہ بلاول کی توقعات پر اترتے ہوئے  پھر سے پیپلز کو چترال کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بناؤں گا۔ صدارت کی زمہ داری ملنے کے بعد میں نے اپنی کمپنی سے بطورِ چیف ایگزیکٹو استعفیٰ بھی اسی لیے دے دیا کہ یکسو ہو کر پارٹی کے معاملات چلا سکوں۔ اب دامے،درمے سخنے بس پارٹی کی ہی خدمت ہو گی”انجینئر صاحب کی ترجیحات میں “یُوتھ” کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ “پہلے بھی اپنی کمپنی کے توسط سے نوجوانوں کے لیے بہت کچھ کیا اب پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے بھی نوجوانوں کو ساتھ لے کر نوجوانوں کے لیے بہت کچھ کروں گا۔ نہ صرف یو سیز کی سطح پر یوتھ وِنگ بحال و فعال ہو گا بلکہ خواتین ونگ کو بھی متحرک کیا جائے گا بالخصوص نوجوانوں کو ایک نئے ویژن، نئی سوچ اور مفید اہداف  و مقاصد سے روشناس کرانے کے لیے ہر ممکن جتن کروں گا۔” 


 حقیقت بھی ہے کہ نوجوان کسی بھی جماعت کا اثاثہ و سرمایہ ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے نوجوانوں کو اٹھانے اور کامیابی کی پگڈنڈیوں پر ڈالنے کے لیے کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس کوئی خاص منصوبہ بندی نہیں ۔ اگر انجینئر صاحب اپنے سابقے تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے واقعی میں نوجوانوں کی فلاح و بہبود کے لیے ٹھوس اقدامات کی تشکیل و صورت گری میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ نہ صرف نوجوانوں کا مستقبل سنوارنے میں ممد و معاون ثابت ہو گا بلکہ ہمارے معاشرے پر بڑا احسان بھی ہو گا۔اس میں دورائے نہیں کہ چترال کے نو منتخب صدر کی زندگی جدوجہد اور محنت سے عبارت ہے۔ انہوں نے محنت کر کے بزنس کی دنیا میں نام بنا کر یہ ثابت کیا ہے کہ آج کا نوجوان اپنی محنت کے بل بوتے پر مشکل سے مشکل ہدف بھی حاصل کر سکتا ہے۔

سیاست میں اس پہلو سے بھی انہیں ایڈوانٹیج حاصل ہے کہ ایک طرف ٹاؤن چترال میں آپ کو مقبولیت حاصل ہے اور دوسری طرف ڑاسپور، یارخون اور لٹکوہ میں بھی آپ کے پرسنل فالورز کی بڑی تعداد رہتی ہے۔ تھوڑی سی محنت اور پلاننگ کے زریعے چترال میں پارٹی کو ایک مستحکم پوزیشن دلانا آپ کے لیے زیادہ مشکل نہیں۔انجینئر صاحب کی شخصیت میں بظاہر کسی چیز کی کمی نہیں۔ سیاسی ورکر رہے ہیں اور طلبا سیاست کا حصہ بھی۔ خوش اخلاق بھی ہیں اور خوش مزاج بھی۔ نیک اطوار بھی ہیں اور نرم گفتار بھی۔ شخصیت میں کشش بھی ہے وقارومتانت بھی۔ شائستہ ہیں اور تہذیب آشنا بھی۔ آج چترال میں جس والہانہ اور مثالی انداز میں آپ کا استقبال کیا گیا یہ نومنتخب صدر کے لیے نیک شگون بھی ہے اور کامیاب سیاسی مستقبل کا اشارہ ۔  اس موقع پر ہم بھی نومنتخب صدر کو اس امید کے ساتھ مبارک باد پیش کرتے ہیں کہ آپ چترال میں نفرت اور کریڈٹ کی سیاست کا خاتمہ کر کے مثبت انداز ِ سیاست متعارف کروانے میں اپنا بساط بھر کردار ادا کریں گے

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
52930

میلین سمائلز فاونڈیشن کا بلڈ ڈونیشن کیمپ ۔ تحریر :اشتیاق احمد

اسلام تمام انسانوں کے ساتھ پیار و محبت کا درس دیتا ہے،صحابہ کرام اپنی ضرورتوں پر دوسروں کو ترجیح دیتے تھے اور انسانوں سے پیار و محبت اور ضرورت مند انسانوں کی مدد کے عمل کو ہر دین اور مذہب میں تحسین کی نظر سے دیکھا جاتا ہے لیکن دین اسلام نے خدمت انسانیت کو بہترین اخلاق اور عظیم عبادت قرار دیا ہے۔اس عظیم خدمت انسانی کو پیش نظر رکھتے ہوئے Million Smiles چترال نے بلڈ ڈونیشن کیمپ کا پیرا میڈیکل انسٹی ٹیوٹ فار میڈیکل سائنسز میں انعقاد کیا اور آج طلبہ و طالبات کا جوش اور ولولہ دیکھ کے دل کو قرار اور سکون نصیب ہوا کہ میلین سمائلز کے ہمارے ممبرز خدمت انسانی کے جذبے کو اپنے سینوں میں لئے ہر وقت ہماری پکار پہ لبیک کہنے لو تیار بیٹھے ہیں۔


ملین سمائلز کا بنیادی مقصد ہی لوگوں کے چہروں پہ مسکراہٹیں بکھیرنے اور ان کے شانہ بشانہ رھ کے اس عظیم مشن کو آگے لوگوں تک پہنچانے کا ہے اور اس کو بحسن و خوبی انجام دہی کی جانب گامزن ہے۔


بطور سٹی لیڈ میلین سمائلز چترال میں اس چیز پہ خداوند تعالٰی کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے کہ مجھے لوگوں کی خدمت کرنے کے جذبے سے سرشار ایسے نوجوان طلبہ۔و طالبات عطا کئے ہیں کہ آج کل کے اس پر فتن دور میں بھی دوسروں کا درد سینے میں لئے اپنی پڑھائی اور زندگی کی دوسری مصروفیات کو ایک طرف رکھ کے دوسروں کو فوقیت دیتے ہوں۔


آج ہم نے PIMS میں بلڈ ڈونیشن کیمپ کا انعقاد کیا جس میں جس جانفشانی سے ہمارے ممبرز نے کام کیا وہ لائق صد تحسین ہے اس عظیم مشن میں ہمارے ساتھ کالج انتظامیہ خاص کر ڈائریکٹر انہار خالق صاحب اور جناب محمد شاہد صاحب اس کے علاوہ عدیل لیبارٹری کے ذمہ داران جناب اسفندیار صاحب(جو باوجود صحت کی خرابی کے) اعجاز صاحب ، لیبارٹری میں موجود محمد شاہ اور باقی ہمارے دوست احباب نے بغیر کسی دنیائی لالچ کے جس جذبے خلوص اور لگن سے اس کام کو انجام تک پہنچایا اس کی مثالیں بہت کم ہیں جن کو نہ کوئی مالی فائدے کا امکان تھا اور نہ ہی دنیائی حرث ولالچ کی حوس صرف اور صرف خدمت انسانی کا جذبہ دلوں میں دھڑک رہی تھی اور اس کا عملی مظاہرہ نظروں کے سامنے آیا اس پر ان کا شکریہ ادا کرنے کے لئے الفاظ کی کمی کو میں شدید انداز میں محسوس کر رہا ہوں اور دل سے یہی دعا ان کے لئے نکل رہی ہے رب ذوالجلال ان کے مشکلات اور مسائل کو اپنے خاص فضل و کرم سے حل کردے آمین۔


چترال کے مشہور و معروف پھتالوجسٹ ڈاکٹر جناب شجاع احمد صاحب ،جناب ڈاکٹر ولی صاحب اور جناب حسن صاحب نے کیمپ کا دورہ کیا اور طلبہ و طالبات کو خون کا عطیہ کرنے اور اس کے انسانی جسم پر فوائد کے حوالے سے بھی آگاہ کیا۔اس مشن میں ہمارے ساتھ ہراول دستے کا کردار ادا کرنے والے معروف سماجی کارکن جناب عنایت اللّٰہ اسیر صاحب بھی پیچھے نہ رہے اور ہمارے ساتھ کیمپ میں موجود رہے۔


میلین سمائلز کے ہمارے ممبرز آج داد و تحسین کے مستحق ہیں کہ باوجود کسی بھی قسم کے مالی وسائل اور فائدے کے انھوں نے ایک تاریخ رقم کی اور آنے والی نسلوں کو بھی سبق دے گئے کہ دلوں میں اگر خلوص اور نیت صاف اور جذبہ صرف خدمت انسانی ہو تو دنیائی وسائل نہ بھی ہوں تو یہ اللّٰہ تعالٰی کی مدد اور خاص نصرت سے حاصل ہو سکتی ہے چونکہ میلین سمائلز ایک چیرٹی فائونڈیشن ہے اور اس کے ذمہ داران اور ممبرز سارے صرف اور صرف رب کی رضا اور خوشنودی کے ساتھ قیامت میں سرخروئی کے لئے بر۔سر پیکار رہتے ہیں۔


اس کیمپ میں کثیر تعداد میں بلڈ گروپبگ اور سمپلنگ کے علاوہ کافی تعداد میں طلبہ نے اپنا خون عطیہ کیا اور اس خون کو کسی مجبور و بے کس انسان تک پہنچانے کا اعادہ کیا اور چترال کے مختلف ہسپتالوں میں دور دراز سے علاج کیلئے آتے ہیں اور بر وقت خون کی دستیابی نہ ہونے کی وجہ سے قیمتی جانوں کے ضیاع کا بھی نھی موقع دیکھنے کو ملتا ہے اور باقاعدہ طلبہ و طالبات نے اپنا گروپ ٹیسٹ کرواکے مناسب وقت پہ خون دینے کا عہد کیا اور اسی طرح آج کا یہ بلڈ ڈونیشن کیمپ اس امید کے ساتھ اختتام پذیر ہوا کہ یہ پہلا بلڈ کیمپ تو تھا لیکن آخری ہر گز نہیں ہو گا اور انشاء اللّٰہ تعالٰی اس طرح کے فلاح انسانی کے کام باقی علاقوں تک پھیلائے جائیں گے انشاء اللّٰہ۔ اللّٰہ تعالٰی کی گئی کاوشوں کو شرف قبولیت بخشے آمین

chitraltimes similes blood donations1
chitraltimes similes blood donations
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
52925

دھڑکنوں کی زبان – ”انور امان کا ارادہ ہمارا خواب“ -محمد جاوید حیات

انور امان چترال کے کاروباری اور مخیر فرزند ہیں کئی سالوں سے امریکہ میں رہتے ہیں اور وہاں پر اپنی محنت سے دولت کمایا ہے اور اپنے آپ کو ایک دولت مند منوایا ہے۔اس لیے کہ سننے میں آرہا ہے کہ وہ لوگوں کی مدد کرتا ہے ہم وطنوں کی فلاح کا سوچتا ہے۔ڈر لگتا ہے کہ ان کے ارد گرد ایسے خودغرضوں کا گروپ نہ منڈلائے کہ ان کو کچھ کرنے نہ دیں انشا اللہ ایسا نہیں ہوگا اس لیے کہ ان کی جنم بومی کی خوشبو اور ان کا خلوص ان کو واپس یہاں پر لایا ہے۔

حال ہی میں انہوں نے چترال میں پانچ ستاری (Five stars) ہوٹل کی بنیاد رکھی ہے۔ سننے میں آیا کہ اس کا افتتاح بھی دھوم دھام سے کرایا گیا انور امان صاحب کے قبلہ گاہ کی تقریر خاصے کی چیز تھی۔سننے والوں نے بتا یا کہ موصوف نے بڑے درد سے کہا کہ اگر میرے بیٹے کی دولت ثروت میں غریبوں کا حصہ نہ ہو تو یہ میرے لیے فضول ہے یہ ایک عظیم باپ کے قیمتی الفاظ ہیں۔انور امان صاحب چترال میں خدمت کر نے کی ٹھانی ہے حال ہی میں معروف کالمسٹ جاوید چودھری کے چترال کے دورے کے موقع پر چترال پر اس کے کالم پر نظر پڑی انور امان صاحب نے اس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپر چترال کے ہیڈ کواٹر بونی میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ایک اعلیٰ پیمانے کی یونیورسٹی بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں یہ دیکھ کر ہمارے بچوں کا مستقبل روشنی بن کر آنکھوں کے سامنے آگیا۔

ہمیں یقین ہے کہ انور امان صاحب ارادہ کرتے ہیں تو کچھ کرکے دکھاتے ہیں۔چترال میں جو ٹیلنٹ ہے اس کے مطابق کوئی ایسا معیاری ادارہ نہیں جہان پر ہمارے بچے ایسے نام پیدا کریں جس سے ہمارا نام روشن ہو اور ان کا مستقبل تابناک ہو۔ہمارے بچوں کی ٹیلنٹ کا ثبوت یہ ہے کہ ہر سال ہمارے بچے CSS, PMS, اور فوج میں کمیشن لیتے ہیں یہ چترال کا پورے پاکستان سے مقابلہ ہے کیونکہ یہ ملکی سطح کے مقابلے ہیں اس کے علاوہ میڈیکل اور انجینئرنگ کی ٹسٹوں کو کئی بچے کوالیفائی کرتے ہیں۔

دنیا کی مختلف یونیورسٹیوں میں سکالرشپ لیتے ہیں۔اس کے باوجود ہم معذرت سے کہتے ہیں کہ ملک میں آغاخان یونیورسٹی کراچی لمس لاہوروغیرہ کے علاوہ کسی اور مشہور تعلیمی ادارے کے فارغ التحصیل سکالرز میں بھی وہ معیار نظر نہیں آتا جو ایک ایم فل اور پی ایچ ڈی سکالر کا ہوتا ہے۔ یہ علم کی پیاس ہے جو ہم محسوس کر رہے ہیں کیونکہ سرکاری تعلیمی اداروں میں سسٹم ہی ایسا غیر معیاری ہے کہ اس میں معیار لانا آسان نہیں۔جس ادارے میں جزاء و سزا سخت نہ ہوں فرائض اور کام کو جانچا نہ جائے ادارے کے اندر کوئی میرٹ نہ ہو تو معیار لایا نہیں جا سکتا۔

چترال میں آغا خا ن ہائر سیکنڈری سسٹم اور چترال کے چند نامی گرامی پبلک سکولوں اور کالجوں جن میں گورنمنٹ گرلز کالج اور گورنمنٹ مردانہ کالج شامل ہیں میں میرٹ پرCompromise نہیں ہوتا اس لیے تعلیمی عمل بہتر ہے۔انور امان صاحب نے جس یونیورسٹی کی بات کی ہے یہ اگر بنی تو چترال کی آئندہ کی نسلیں ان کے اس احسان کے مقروض ہونگے۔۔اپر اور لویر چترال کی ٹیلنٹ کو اپنے گھر کی دہلیز پر ایسا معیاری اور دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق ادارہ مل جائے گا جو ان کی ٹیلنٹ کو چمکائے گا۔

یہ وہ ادارہ ہوگا جس کی حیثیت انگلینڈ کی اکسفورڈ ہندوستان کی علی گڑھ امریکہ کی مچینگن جرمنی کی مونخ مصر کی الاظہر یونیورسٹی کی ہوگی۔یہاں پہ چترالی قوم کی تقدیر بدلے گی اور ایسا تعلیم یافتہ گروپ اُٹھے گا جو پاکستان کے لیے فخر ہوگا۔۔یہ ہمارے لیے خواب ہو مگر جس بندے نے ارادہ کیا ہے اس کے لیے خواب نہ ہو۔ہوٹل سے پہلے یہ تعلیمی ادارہ بنے کیونکہ ہمیں نونہالوں کی تقدیر بدلنی ہے۔


اولولا عظمان دانشمند جب کرنے پہ آتے ہیں
سمندر پھاڑتے ہیں کوہ سے دریا بہاتے ہیں۔۔

bejaan hotel earth breaking chitral anwar aman
Posted in تازہ ترین, مضامین
52916

داد بیداد ۔غائبا نہ یا پرا کسی ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

اس وقت عرب مما لک سے لیکر افغا نستا ن تک جو جنگیں لڑی جا رہی ہیں ان جنگوں میں اصل فریق غا ئب ہے اصل فریق کی جگہ اس کے گما شتے اور کا رندے مختلف نا موں سے یہ جنگیں اصل فریق کی طرف سے لڑ رہے ہیں انگریزی میں ایسی جنگوں کو پراکسی وار (Proxy War) کہا جا تا ہے اردو میں بھی انگریزی کی یہ تر کیب دھڑ لے سے استعمال ہو رہی ہے اگر اردو میں اس کو غا ئبا نہ لڑائی لکھا جائے تو مبا لغہ نہ ہو گا صحا فی، وکلا ء اور دا نشور جا نتے ہیں کہ یہ غا ئبا نہ لڑا ئیاں ہیں اصل فریق با ہر بیٹھا ہوا ہے افغا نستان کی 40سالہ خا نہ جنگی میں روس کے 1500سپا ہی مارے گئے، امریکہ کے 2800سپا ہی قتل ہوئے 2لا کھ افغا نی شہید ہوئے 3لا کھ افغا نی عمر بھر کے لئے معذور ہوئے اس جنگ کے جو شعلے پا کستان کی طرف آئے ان شعلوں نے 88ہزار پا کستانیوں کی جا ن لے لی ان میں 7ہزار پولیس یا فو جی اور 81ہزار شہری شا مل تھے

اصل فریقین کا نقصان نہ ہو نے کے برابر ہے اب جو نئی جنگ کے نقا رے بجا ئے جار ہے ہیں اس میں چین اور امریکہ جنگ کے اصل فریق ہیں لیکن میدان میں دونوں غیر حا ضر ہیں دونوں کی جگہ پا کستانی اور افغا نی تو پوں کے دہا نے پر ہیں جنگ طویل ہو جا ئے تو اصل فریق کا کچھ نہیں بگڑے گا ایسے لو گ متا ثر ہو نگے جن کا اس جنگ میں کوئی مطلب نہیں کوئی مقصد نہیں کوئی مفا د نہیں پرائی جنگ کا ایندھن بن رہے ہیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے جا ری اجلا س سے لو گوں کو بہت سی اُمیدیں ہیں اور سب غلط ہیں جنرل اسمبلی کے پاس جنگوں کو روکنے اور امن بحا ل کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے

دنیا کی تین طا قتوں کولگا م دینے کا کوئی طریقہ کا ر نہیں دنیا میں جی ایٹ، جی سیون اور جی سکس کے نا م سے ترقی یا فتہ اور صنعتی مما لک کے جو بڑے بڑے گروپ ہیں ان کے مفا دات کو عالمی امن کے لئے خطرہ بننے سے جنرل اسمبلی نہیں روک سکتی سلا متی کونسل ایران اور افغا نستا ن پر پا بندی لگا سکتی ہے عالمی طا قتوں پر پا بندی نہیں لگا سکتی سلا متی کونسل میں عالمی طا قتوں کو ویٹو کا ہتھیار دیا گیا ہے ان میں سے کسی ایک کے مفا دات کو زک پہنچنے کا اندیشہ یا احتمال ہو تو وہ ویٹو کے ذریعے اقوام متحدہ کی کسی بھی قرار داد کو جو تے کی نو ک پر رکھ سکتے ہیں سیا ست، جمہوریت، سفارت کاری،انصاف، قانون اور دستو ر کی کسی کتاب میں ویٹو پاور کی گنجا ئش نہیں 191مما لک ایک طرف ایک ملک دوسری طرف ہو تو ویٹو کے ذریعے وہ اکیلا ملک اپنی من ما نی کر لیتا ہے 191مما لک میں جن 15مما لک کو سلا متی کونسل میں میں رکنیت حا صل ہو تی ہے

ان میں 14مما لک ایک طرف ہو ں ایک ملک دوسری طرف ہو تو اکیلا ملک ویٹو کی مدد سے کا میاب ہوتا ہے شما لی کوریا، افغا نستان، ایران اور چین کو جمہوریت کا درس دینے والے بڑے بڑے مما لک اقوام متحدہ میں جمہوریت کو داخل ہونے نہیں دیتے اگر اقوام متحدہ میں جمہوریت آگئی تو پرا کسی وار یا غا ئبا نہ لڑا ئی کی گنجا ئش نہیں رہے گی جمہوریت کسی ملک کو اجا زت نہیں دیتی کہ دس کھرب ڈالر کما نے کے چکر میں غریبوں کو لڑا ؤ ان کی لڑا ئی سے ما ل کما ؤ اپنی چود ھرا ہٹ بٹھا ؤ سوال یہ ہے کہ اقوام متحدہ میں جمہوریت کے اصو لوں کو آخر کیوں نہیں اپنا یا جا تا؟ کب تک دنیا کے مظلوم، غریب اور نا دار مما لک بڑی طا قتوں کی غا ئبا نہ جنگ کا ایندھن بنتے رہینگے؟ کب تک دنیا میں بڑی طا قتوں کے ما لی مفا دات کے لئے غریبوں کا خو ن بہا یا جا تا رہے گا؟ اس نا انصا فی اور ظلم کے خلا ف مو ثر آواز اُٹھا نے کے لئے دنیا کے تر قی پذیر مما لک کو نیو یارک میں الگ سکر ٹریٹ قائم کر کے اقوام متحدہ کی متوا زی تنظیم بنا نی چا ہئیے جس طرح سرد جنگ کے زما نے میں تیسری دنیا کا فورم مظلوموں کے لئے آواز اٹھا تا تھا اس لئے مو جو دہ حا لا ت میں پرا کسی وار یا غا ئبا نہ لڑ ائی کو ختم کر کے مظلوم عوام کو انصاف دینے کے لئے ویٹو پاور کو ختم کرنے کی تجویز پر بھی مو ثر لا بنگ ہو نی چا ہئیے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
52907

اولڈ بوائز ڈے کی تقریب – اشتیاق احمد


چترال اور یہاں کے باسیوں کیلئے شاہی خاندان کی خدمات کسی سے ڈکھی چھپی نہیں ہیں ان میں کچھ ایسی خدمات بھی قابل ذکر ہیں کہ جن کی داد دئے بغیر آگے بڑھنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بن جاتا ہے اور ان میں سر فہرست چترال میں سکول کا قیام ہے جس کی تعمیر کیلئے سر ناصر الملک نے جس دل جمعی سے کام کیا بے اختیار دل سے ان کے درجات کی بلندی کیلئے دعانکلتی ہے اللہّٰ تعالٰی ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور ان کےقبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنا دے آمین۔
اس عظیم درسگاہ کی بنیاد آج سے تقریباً پچاسی سال قبل ہزہائنس محمد ناصر الملک نے رکھی پہلے پرائمری پھر مڈل، اور آخر میں ہائی سکول کا قیام عمل میں آیا۔


سر ناصر الملک نے جو بیج بویا تھا آج وہ ایک تناور درخت بن چکا اور اس کی شاخیں اور جڑیں چہار سو پھیل چکی ہیں۔آج چشم فلک نے دیکھا کہ اس عظیم درسگاہ سے پڑھے ہوئے افراد ہر شعبہ ہائے زندگی میں گرانقدر خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور ملک و ملت کے ساتھ ساتھ اپنے پیارے علاقے چترال کا نام بھی دنیا بھر میں روشن کر رہے ہیں۔یہاں سے فارغ التفصیل طلبہ کی ایک لمبی فہرست ہے اور اگر ان کو گنوانے کیلئے بیٹھ جائیں تو ایک کتاب کی شکل اختیار کرے گی لیکن ان کے نام پھر بھی باقی رہ جائیں گی کیونکہ چترال کی پاکستان سے الحاق سے پہلے اور بعد میں کئی عرصے تک یہ چترال میں واحد تعلیمی ادارہ تھا۔


آج اسی عظیم درسگاہ میں اولڈ بوائز ایسو سی ایشن نے اس تعلیمی ادارے سے وابستگی کی یاد تازہ کرنے اور ابھی تک یہاں سے فارغ التفصیل طلبہ کو دوبارہ آکے ایک ساتھ بیٹھنے اور بھولی بسری یادوں کو دلوں میں پھر سے تازہ کرنے کے لئے تقریب کا اہتمام کیا۔اس پروگرام کو بہت خوبصورت انداز میں ترتیب دیا گیا تھا اور ہر پروگرام کے الگ الگ ذمہ دار مقرر کئے گئے تھے جو اس کی نگرانی کر رہے تھے۔


تقریب کے انعقاد کو کامیاب اور دلکش بنانے کیلئے اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے موجودہ صدر الحاج عید الحسین، جنرل سیکرٹری شہزادہ تنویر الملک اور انکی پوری ٹیم کہ جس میں قابل ذکر (جناب ظہیر الدین صدر پریس کلب’ جناب عنایت اللّٰہ اسیر، جناب محمد عرفان عرفان، صلاح الدین صالح، اقبال حیات، اقبال الدین سحر ) پیش پیش تھے نے جس محنت اور لگن سے اس کا انعقاد کیا اس کو الفاظ میں لانا ممکن نہیں۔


تقریب کا آغاز ساڑھے نو بجے اسمبلی پروگرام سے ہوا جس میں اولڈ سٹوڈنٹس نے اسمبلی میں شرکت کی اور پروفیسر جمیل احمد صاحب کے دل کو چھو لینے والی تلاوت کلام پاک سے مستفید ہوئے پھر قومی ترانہ اور علامہ محمد اقبال کا مشہور نظم (لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری ) سے ہوا اور آخر میں اس سکول کے اساتذہ کرام جو اس دار فانی سے کوچ کر چکے ہیں کیلئے فاتحہ خوانی کی گئی۔ اسمبلی کی کمانڈ کی ذمہ داری ڈس ایس او چترال جناب فاروق اعظم صاحب نے انجام دی اور سرکاری سکول کے پرانے یونیفارم ( کالے کپڑے اور کالے ٹوپی) سر پہ سجائے ہوئے پرانے پرانی یادوں کو پھر سے دلوں میں تازہ کر دی۔


اسمبلی کے بعد ان اولڈ طلبہ کو مختلف کلاسز میں بھیج دیا گیا جہاں انھوں نے باقاعدہ کلاس اٹینڈ کی اور اپنے خیالات سکول سے وابستہ یادیں اور کچھ تاریخی لمحات دوسروں سے شیئر کئےاور دوسرے دلچسپی کے موضوعات پہ باتیں ہوتی رہیں۔
اگلا مرحلہ ہائی سکول کے ہال میں منعقد کیا گیا جس میں تلاوت نعت شریف نظم اور تقاریر سے حاضرین خوب محظوظ ہوئے اور جو افراد سکول سے وابستہ یادوں کو دوسروں سے شیئر کرنا چاہ رہے تھے ان کو بھی اسٹیج پہ آکے اپنی بھولی بسری یادیں دوسروں تک پہنچانے کا موقع دیا گیا ۔اس پروگرام کی صدارت اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے صدر جناب عید الحسین صاحب کر رہے تھے اور مہمان خصوصی کی کرسی پہ 1981 میں اسی سکول سے فارغ ہونے والے جناب افتخار حسین جان اور دوسرے مہمانوں میں Ex Dho جناب ڈاکٹر اسرار اور جناب محی الدین صاحب شامل تھے ۔


مہمانوں نے اس سکول سے وابستہ یادوں کے قصے ایک دوسرے کو سنائے اور یہاں کے اساتذہ کرام کی درازی عمر اور جو اس دنیا سے چلے گئے ہیں کی درجات کی بلندی کی دعائیں کی اور اس طرح کے پروگرامات کے انعقاد پر زور دیا ،ایسو سی ایشن کو آج کے پروگرام کے انعقاد پر داد دی، سکول کی دن دگنی رات چوگنی ترقی کیلئے بھی دعائیں ہوئیں اور ایسو سی ایشن کے اس کام کی بھر حمایت کرنے اور مالی مدد فراہم کرنے کا بھی اعلان کیا۔عنایت اللّٰہ اسیر صاحب اور اقبال الدین سحر نے سکول میں گزرے ہوئےیادوں اور لمحات کو جس انداز میں اپنے نظموں کی شکل میں پیش کیا اس پر حاضرین سے خوب داد سمیٹیں اور دونوں نے مملکت خداداد پاکستان کے ساتھ اپنے والہانہ محبت کا بھی اظہار کیا۔


آخری پروگرام چترال کے معروف فنکار جس میں جناب افسر علی، منور شاہ، محی الدین اور صوبیدار توکل خان نے اپنے خاکے میں معاشرے میں موجود اہم امور کو ڈرامائی انداز میں پیش کیا اور سبق یہ دینے کی کوشش کی کہ نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں میں حصہ لینے ،تعلیم۔حاصل کرنے والدین اور اساتذہ کرام کی خدمت کرنے اور اپنے بہتر مستقبل کے لئے تعلیم کو ہی زیور بنانے پر زور دیا اور پھر اساتذہ کرام اور دیگر مہمانان میں شیلڈز اور سوینیئرز تقسیم کئے گئے ۔مہمان خصوصی، صدر محفل کے خطاب اور دعا کے ساتھ اس پروگرام کا اختتام ہوا اور پھر وہ وقت بھی آیا جب سارا دن ایک ساتھ رہنے کے بعد ماضی کے کلاس فیلوز اور دوست دوسروں کو اشکبار آنکھوں سے الوداع کہ رہے تھے اور ایسو سی ایشن کے ذمہ داروں پر زور بھی دیا کہ اس طرح کے پروگرامات مزید منعقد کئے جائیں اور آج کے پروگرام کے انعقاد پر دل کی گہرائیوں سے ان کا شکریہ ادا کیا اور پھر اس طرح اس پر رونق پروگرام کا اختتام ہوا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
52888

مہنگائی ملک کا ایک ایسا آتش کدہ، جس میں عوام جھلستے جا رہے ہیں – قادر خان یوسف زئی



مہنگائی کا ایک ایسا عفریت ملک پر حاوی ہوتا جارہا ہے جس کے سدباب کی ایسی کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آرہی، جس کے سبب عوام کو ریلیف مل سکے۔ مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ پیٹرولم مصنوعات میں ہر پندرہ دن بعد اضافہ ہے۔ ایک عام مزدور کی اجرت اس کے گھر کا چولہا جلانے کے لئے بھی ناکافی ہے، اس وقت 102 ڈالر ماہانہ اجرت ہے، اس محدود آمدنی کی وجہ سے پسماندہ طبقہ اشیاء ضروریہ کی گرانی کے سبب مسلسل معاشی عذاب کاسامنا کررہا ہے۔ حکومت کی جانب سے مہنگائی، ذخیرہ اندوزی اور گرانی میں ملوث مافیاز کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا اعلان تو کیا جاتا ہے لیکن اس کے ثمرات سے عوام ابھی تک محروم ہیں، کیونکہ جہاں عالمی کسازد بازاری کی وجہ سے پیٹرولیم مصنوعات مہنگی ہوتی جا رہی ہیں تو روپے کی قدر گرنے کے باعث بھی بھاری بوجھ تلے عوام نیچے آچکے ہیں، اس بوجھ کی کمی کے لئے حکومت کی جانب سے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن میں کسی قدر اضافہ تو کردیا جاتا ہے لیکن وہ بھی آٹے میں نمک کے برابر نہیں ہوتا، لیکن دوسری جانب نجی سیکٹر میں ملازمین کی تنخواہ میں کسی قسم کا کوئی اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا، غیر محفوظ ملازمت کی وجہ سے متوسط طبقہ بھی غیر یقینی صورت حال کا شکار رہنے کی وجہ سے، نفسیاتی الجھنوں اور گھریلو مسائل میں الجھ گیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان چپقلش کی وجہ سے عوا م کے دیرینہ مسائل بڑھتے ہی جارہے ہیں، ان کی توجہ بدقسمتی سے سیاسی اکھاڑ پچھاڑ اور پوائنٹ اسکورنگ تک محدود ہے، ان کے پاس موجودہ حالات کے لئے کوئی ایسی مربوط منصوبہ بندی نہیں جس کی وجہ سے عوام سکون کا سانس لے سکیں۔


پاکستان میں غریب اور متوسط طبقے پر پیٹرولیم مصنوعات کے بڑھنے سے براہ راست اثرات مرتب ہوتے ہیں  اس وقت پیٹرول کی قیمت 123روپے 80 پیسے اور ڈالر 170کی اڑان بھر رہا ہے، پیٹرولیم مصنوعات کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کے ساتھ ساتھ ذرائع نقل وحرکت اور پیداواری لاگت میں اضافہ ہوجاتا ہے، ملازمت پیشہ افراد کے لئے پیٹرولم مصنوعات کے اضافے سے سبزی، گوشت، دالیں، آٹا،چینی، تیل، گھی وغیرہ سب مہنگا ہوجاتا ہے چونکہ اس کی بنیادی وجہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے پیداواری لاگت کا بڑھنا قرار دیا جاتاہے۔ پیٹرولیم مصنوعات میں اضافے کو روکنے کے لئے متبادل ذرائع بھی دستیاب نہیں، عوام اشیا ء ضروریہ میں خوردنوش کا استعمال کرتے ہیں کیونکہ یہ انسانی زندگی کی ناگزیز ضرورت ہے،دو وقت کے بجائے ایک وقت کا کھانا بھی پیٹ بھر نہیں کھا سکتے، دودھ کی قیمتوں میں اضافے کے باعث غریب طبقہ تو تصور بھی نہیں کرسکتا کہ اپنے بچوں کی صحت کا خیال رکھنے کے لئے غذائی ضرورت کو پوری کرسکے، بچوں کی تعلیم کے لئے سرکاری اسکولوں کا مناسب معیار نہ ہونے کے باعث متوسط طبقہ اپنے بچوں کو کسی اچھے اسکول میں بھی داخل کراتا ہے تو اس کی فیس آسمان سے چھو رہی ہوتی ہیں، اگر بچوں کی تعداد تین سے زیادہ ہوں تو ان کے پڑھائی کے اخراجات، ٹیوشن اور ٹرانسپورٹ کی فیس ادا کرنے کے لئے گھر کے کفیل کو اپنی خواہشات کا گلہ گھوٹنا پڑتا ہے، کم تنخواہ میں گذارا کرنے کے لئے خوشحال زندگی کا تصور مقفود ہوتا جارہا ہے، نجی اداروں میں کام کرنے والے ملازمین دوہرے مسائل کا شکار ہوتے ہیں، انہیں بغیر اوور ٹائم  ملے، طے شدہ وقت سے زیادہ مشقت کرنا پڑتی ہے، ان پر ایسی ذمے داریوں کا بوجھ بھی لاد دیا جاتا ہے، جو ان کی نہیں ہوتی، لیکن ملازمت بچانے یا اچھی ملازمت کی تلاش کرنے تک انہیں گھٹے ہوئے ماحول میں رہنے کی عادت اختیار کرنی پڑتی ہے جس کے باعث ان کا مزاج و اطوار میں نفسیاتی الجھنیں پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور تلخ مزاجی اور چڑ چڑے پن کی وجہ سے ان کی استعداد اور تخلیقی صلاحیتوں کو زنگ لگنا شروع ہوجاتا ہے۔ ایسے شخص کو معاشرے میں بوکھلاہٹ کا شکارسمجھا جانے لگتا ہے، جس سے ڈیپریشن اور سماجی الجھنیں بڑھتی چلی جاتی ہیں۔


حکومت کی جانب سے مہنگائی کے جواز کے لئے حیرت انگیز بیانات آنے سے عوام کے زخموں پر مزید نمک پاشی ہوتی ہے، وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری حکومتی اقدام کا دفاع کرتے ہوئے دعویٰ  کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ”پاکستان میں تیل کی قیمتیں اب بھی خطے میں سب سے کم ہیں، ان کے مطابق کہ جب آپ نے تیل باہر سے خریدنا ہے تو قیمتیں بڑھیں گی، اصل کامیابی ہے کہ پچھتر فیصد آبادی کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے“۔ عوام کو یہ فلسفہ کبھی سمجھ میں نہیں آیا کہ اگر موازنہ کسی بھی دوسرے ملک سے کرنا مقصود ہے تو پھر ان کی اشیا ء ضروریہ کا تقابل بھی سامنے رکھا جائے، کہ آیا اُن ممالک میں اگر پیٹرولم مصنوعات کی قیمتیں پاکستان سے کم ہیں تو کیا آٹا،چینی، گھی، تیل، دالیں، گوشت وغیرہ کی قیمت بھی کم ہیں، یہ افسوس ناک امر ہے کہ اس کا تقابل نہیں کیا جاتا ہے کہ اُن ممالک میں عوام کو زندگی کی بنیادی ضرورت کی اشیا کی قیمتیں کئی گنا کم ہیں، ذخیرہ اندوزی اور لوٹ کھسوٹ کے لئے مافیاز کا ایسا کردار بھی نہیں ہے جیسا  اب  دیکھنے میں آتا ہے۔

حکومت کو توازن برقرار رکھنے اور مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لئے ان مافیاز کو لگام دینے کی زیادہ ضرورت ہے جو سیاسی چھتری کا استعمال کرکے اربوں روپے کی کرپشن کرتے ہیں اور عوام کی معاشی کمر کو توڑ نے میں کوئی کسر نہیں رکھتے، بظاہر لاکھوں روپے گاڑی رکھنے والوں کے لئے چند روپوں کا اضافہ کوئی معنی نہیں رکھتا لیکن غریب اور متوسط طبقہ، قیمتوں میں معمولی اضافے سے ہر اُس اشیا کی قوت خرید سے دور ہوتا چلا جاتا ہے جو اس کے اور اس کے اہل خانہ کے لئے اہمیت کا حامل ہے، پھلوں اور غذائیت کی کمی کو پورا کرنے کے اشیاء کی قیمتوں میں اضافے سے نئی نسل میں قوت مدافعت میں کمی اور جسمانی و ذہنی کمزوری کے اثرات نمایاں ہوتے نظر آرہے ہیں، ناتوانی کے باعث ایک ایسی نسل کا دور سامنے آرہا ہے جنہیں غذائی کمی کا سامنا ہوگا اور اشرافیہ انہیں اپنا معاشی غلام بناتے چلے جائیں گے۔


بدترین صورت حال یہ بھی ہے کہ ملک کو خطے میں تبدیل ہوتی صورت حال کے باعث دہشت گردی کا بھی سامنا ہے جس کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے، سلگتے ہوئے عوام کو مہنگائی کے ظالمانہ سسٹم نے ایک ایسے حصار میں جکڑ لیا ہے کہ عوامی حلقے بے یقینی میں خیال آرائی کرتے ہیں کہ کیا نادیدہ اور مافیاز حکومت پر حاوی تو نہیں، ملکی ڈیمو گرافک تبدیلیوں، اشرافیہ کے شاندار محلات نما عمارات پر مبنی نئی آبادیاں اور ان مکانوں کی بیش بہا قیمتوں کے آرائش کے تناظر میں سمجھا جاسکتا ہے کہ تین فیصد طبقہ 97 فیصد عوام پر مسلط ہے۔ مہنگائی ملک کا ایک ایسا آتش کدہ ہے جس میں عوام جھلستے جا رہے ہیں، عوام کو مختلف النوع مذہبی، فرقہ وارنہ، لسانی اور قوم پرستی کا ایک ایسا میٹھا زہر دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے دیرینہ مسائل کے حل کے لئے بھی آواز اٹھانے کے قابل نہیں رہتے۔

انسانی زندگی کو بچانے کے لئے جس طرح دہشت گردوں کی تخریب کاری کا سدباب جتنا ضروری ہے، وہیں عوام دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ تاریخ ساز دورانیہ کب آئے گا جب ان کے مسائل کے حوالے سے درد مندی کا مشاہدہ کرتے ہوئے مثبت اقدامات کئے جائیں گے، ضرورت اس امر کی ہے کہ غریب اور متوسط طبقے کے تالیف قلوب اور بحالی کے اقدامات پر توجہ دی جائے، ارباب اختیار مہنگائی کے بڑھتے سونامی کے متبادل اقدامات کی حکمت عملی اپنائے اور سار بوجھ پہلے سے کچلے ہوئے طبقے پر ڈالنے سے گریز کرے۔ مافیاز کے خلاف ایک ایسا آپریشن کیاجائے جو ضرورت بلا امیتاز ایک ایسا نتیجہ خیز اور بے رحم ہو کہ وہ نشانہ عبرت بنیں اور یہ کاروائی قوم کو نظر آئے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
52860

جنوبی ایشیاء میں علاقائی تعاون کو کیسے فروغ دیں ؟ – پروفیسرعبدالشکورشاہ

جنوبی ایشیاء معاشی لحاظ سے دنیا کا سب سے کم موبوطہ خطہ ہے جس کی علاقائی تجارت عالمی تجارت کا محض5%ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ دائمی عدم اعتماد کی فضاء تصور کی جاتی ہے۔یورپ کی طرح  جنوبی ایشیاء کے ممالک بھی مشترکہ تہذیب و تمدن، رہن سہن، بود وباش،تاریخ اور زبان و ثقافت کے باوجود تقریبا یکساں مسائل اور خطرات کا شکار ہیں۔ مگر اس سب یکسانیت کے باوجود جنو بی ایشیاء میں علاقائی تعاون کی روایت اور تاریخ یورپی ممالک سے یکسر مختلف ہے۔ دوسری جنگ عظیم نے دنیا بھر کے ممالک پرگہرے اثرات مرتب کیے جس کے نتیجے میں تمام ممالک کسی ایسے حل کے بارے غور کرنے لگے جس سے تجارت کے ساتھ دنیا میں امن کو فروغ ملے۔ 1980کی دہائی کے بعد دنیا بھر میں علاقائی تعاون کی سوچ زیادہ تقویت اور مقبولیت اختیار کرنے لگی۔

نتیجتا یہ نظریہ بیشتر دیگر فکریات کی طرح جنوبی ایشیاء تک پہنچا اور 1985میں سارک کی بنیاد رکھی گئی۔ ساپٹا معاہدے پر1993میں دستخط کیے گئے اور سافٹا(آزاد تجارت کا معائدے) پر2006میں عمل درآمد کا آغاز ہوا۔ علاقائی تعاون کے لیے ان تمام اقدامات کے باوجود جنوبی ایشیاء میں علاقائی تعاون کی فضاء حوصلہ افزاء نہیں رہی۔ سارک تنظیم ایک تنظیمی ڈھانچے کے علاوہ غیر فعال ہے اور جنوبی ایشیاء کے مسائل کو حل کرنے کی سکت، ارادہ اور وسائل سے محروم ہے۔ سارک تنظیم جنوبی ایشیاء کے لیے سافٹا(آزاد تجارت کا معائدہ) پر عمل درآمد کروانے میں ناکام ہو چکی ہے۔

خطے میں علاقائی تعاون کی کمی کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں معاشی،غیر معاشی اور غیر علاقائی عناصر کی مداخلت قابل ذکر ہیں۔ جنوبی ایشیاء کے دیگر ان گنت مسائل کی طرح ایک بڑا مسلہ معاملات میں لچک دکھانے کاشدید فقدان ہے جس پر خطے کی معاشی ترقی کا انحصار ہے۔ غیر علاقائی عناصر جنوبی ایشیاء کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے آئے ہیں۔ وقت کی نزاکت اور ایشیاء میں امن اور تعاون کی ابتر صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے جنوبی ایشیاء میں ایک متحدہ بلاک بنانا ناگزیر ہو چکا ہے۔ سال2003-8جنوبی ایشیاء میں معاشی ترقی کے عروج کا عرصہ تصور کیا جاتا ہے جب اوسطا سالانہ ترقی کا تناسب7.8%رہا۔ اس عرصے کے دوران مشرق وسطی کے بعد جنوبی ایشیاء کی ترقی دوسری نمبر پر تھی۔ یہ خطہ ہنگامی توجہ اور تعاون کا منتظر ہے کیونکہ جنوبی ایشیاء میں دنیا کے 40%سے زیادہ غریب آباد ہیں،

دنیا کی تقریبا چوتھائی آبادی جنوبی ایشیاء میں بستی ہے اوریہ خطہ عالمی جی ڈی پی میں 3.3%مقامی خام مال کی پیداوار کی شراکت سے موجود ہے۔ جنوبی ایشیاء میں باہمی تعاون کے تحت مربوط تجارت میں 2008میں 4.5%سے بڑھ کر2015میں 7.6%تک پہنچ گئی جو 2018میں متوازن نوعیت اختیار کرتے ہوئے6.9%تک رہی۔ اگر یورپ اور ایشیاء پیسیفک کی مربوط علاقائی تجارت کا موازنہ جنوبی ایشیاء کی تجارت سے کیا جائے تو یہ شر ح ناکافی ہے۔ جنوبی ایشیائی ریاستیں غیر لچک دار تجارتی پالیسی پرکاربند رہتے ہوئے تمام تر کوششوں کے باوجود روائیتی اختلافات کی وجہ سے تجارت کو محدود کر دیتے ہیں۔ سال 2016میں جنوبی ایشیاء کااوسطا ٹیرف 13.6%تھاجو عالمی پیمانے پر اوسطا6.3%سے زیادہ ہے۔ جہاں تک حساس نوعیت کی تجارت کا تعلق ہے، جنوبی ایشیاء میں سارک ممالک کی برآمدات میں سے  44%سے 45%تجارتی ایشیاء حساس فہرست میں شامل ہیں۔

مثلا انڈیا کی 39%سے زیادہ برآمدات جنوبی ایشیاء کے دیگر ممالک کی حساس فہرست میں شامل ہیں۔ علاقائی تعاون کی قلت کے مسئلہ سے نپٹنا بلاشبہ نہ صرف بہت زیادہ وقت کا طلبگار ہے بلکہ یہ سفر کافی کھٹن، سست اور تھکا دینے والا ہونے کے ساتھ ساتھ بیوروکریسی کی نظر ہو جاتاہے۔ جنوبی ایشیا ء میں دیر پا علاقائی تعاون اور باہمی مربوط تجارت کے لیے تمام ریاستوں کا غیر روائیتی تعاون کی طرف ٹھوس اقدامات کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ہمیں دنیا میں موجود دیگر جدید تجارتی اور شراکت داری کے نظریات پر غور کرنے کی ضرور ت ہے تاکہ دنیا کے دیگر خطوں کی طرح جنوبی ایشیاء بھی پرامن بننے کے علاوہ معاشی اور دیگر شعبوں میں تیزی سے ترقی کرے۔ غیر علاقائی عناصر کی مداخلت روکنے او رخطے کے معاملات کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے والوں کے خلاف ایک متحدہ اور مضبوط محاذ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

جنوبی ایشیاء دنیا کے دیگر ممالک کی طرز پر چلتے ہوئے مرکزی اختیارات کی صوبوں کو تقسیم کے فارمولے پر بھی عمل درآمد کر سکتی ہے۔ جنوبی ایشیاء میں تمام تر مسائل کی جڑ پاکستان اور بھارت کے درمیان دیرنہ مسئلہ کشمیر ہے جسے حل کیے بغیر جنوبی ایشیاء میں کسی صورت بھی امن اور خوشحالی ممکن نہیں۔دونوں ممالک کشمیر پر کئی جنگیں لڑ چکے ہیں اب دونوں ممالک کو اس رسہ کشی سے نکل کر کشمیر کو آزاد ریاست کے طور پر آزاد چھوڑدیں۔ غیر علاقائی عناصر جنوبی ایشیاء میں مداخلت کے عادی ہو چکے ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ خطے میں کسی مضبوط علاقائی تعاون کی تنظیم کی عدم موجودگی ہے۔ خطے کے تمام ممالک کو اپنی پالیسیوں میں بدلاو اور لچک کے علاوہ باہمی تعاون کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرنا بھی اشد ضروری ہے۔جنوبی ایشیا ء کے مسائل کو حل کرنے کی ماضی کی کوششوں کو مدنظر رکھتے ہوئے طریقہ کار کو تبدیل کیا جانا چاہیے۔

علاقائی ریاستوں کے زیادہ ترمسائل جغرافیائی اور سیاسی نوعیت کے ہیں اس لیے علاقائی تعاون اور باہمی مربوط اور پائیدار تعلقات کی بحالی اور بقاء کے لیے آسان سے مشکل کی طرف جانے کی ابتداء کی جائے۔ ایک اور بڑی وجہ جنوبی ایشیائی ممالک کے مابین رابطہ سڑکوں اور زرائع کی قلت بھی ہے جس کی وجہ سے باہمی تجارت اور دیگر معاملات احسن طریقے سے سرانجام نہیں ہوپاتے۔ جنوبی ایشیاء میں طاقت کا عدم توازن، رابطوں کی کمی اور تحفظ سے متعلق خدشات کی وجہ سے علاقائی تعاون کی طرف ٹھوس اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ خطے کے بیشتر ممالک معاشی، دفاعی اور ڈپلومیٹک لحاظ سے مغربی ممالک پر انحصار کرتے ہیں اور خطے میں موجود متنوع تناو میں علاقائی تعاون کے بجائے غیر علاقائی عناصر کا سہارا لیتے ہیں جس نے جنوبی ایشیا ء کے مسائل کو مزید گھمبیر کر دیا ہے۔

عدم اعتماد کی اس فضاء کی وجہ سے جنوبی ایشیاء کو شدید خطرات کا سامنا ہے۔ تمام ممالک کو مسائل کی نوعیت او ر نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کر کے ان میں مطلوبہ تبدیلیوں اور باہمی تعاون کے لیے لچک اور اعتماد کی بحالی کی فضاء کے قیام کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کریں۔ خطے میں باہمی رابطہ کے لیے انفراسٹرکچر کی کمی ایک بہت بڑی رکاٹ ہے۔ زرائع نقل و حمل اور زرائع رسل و رسائل کی قلت علاقائی تعاون اور باہمی مربوط تجارت کے گراف کو بہت نیچے لے جاتی ہے۔ مثلا بھارت اور نیپال میں کل 22سے زیادہ تجارتی پورٹس ہیں اور 15پورٹ محض ٹرانزٹ ٹریفک کے لیے ہیں۔ اس کے باوجود ان میں سے صرف 6زیر استعما ل ہیں۔ ایک اور وجہ بھارت کی اجارہ دارانہ اور سامراجی رویہ ہے جس کی وجہ سے خطہ معاشی، سیاسی، دفاعی اور سماجی میدانوں میں ترقی سے محروم ہے۔ سارک ممالک کی کل آبادی میں سے 75%آبادی بھارت کی ہے جو تقریباجی ڈی پی کا 80%بنتی ہے جبکہ دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنے والے دونوں ممالک کی کل آبادی 10%اور جی ڈی پی میں شرح 7%بنتی ہے۔ خطے میں بھارتی دھمکیوں اور سامراجی نظریات کی وجہ سے جنوبی ایشیاء کی دیگر ریاستوں میں بے چینی اور اضطراب پایا جاتا ہے۔

ایک اور وجہ مختلف ممالک کی سرحدوں کا بھارت کے ساتھ ہونا بھی ہے۔ بھارت کی جانب سے سرحدوں پر کشیدگی اور جنوبی ایشیاء کی چھوٹی ریاستوں کے اندرونی معاملا ت میں بے جا مداخلت ہے۔ ان مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے جنوبی ایشیائی ممالک اپنی پالیسیاں علاقائی تعاون کے بجائے اپنی سلامتی اور دفاعی نقطہ نظرسے ترتیب دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جنوبی ایشیاء سے نوآبادیات کے جغرافیائی خاتمے کے بعد اس خطے میں مغربی سامراجیت نے اپنے پنچے گاڑھ رکھے ہیں۔ جنوبی ایشیاء مغربی ممالک کے اسلحہ کی فروخت کی بہت بڑی منڈی ہے اور خطے میں امن اور باہمی مربوط تعاون و تجارت ان کے لیے تجارتی نقطہ نظر سے درست نہیں ہے۔ اس لیے مغربی ممالک جنوبی ایشیاء اور اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر موجود دیرینہ مسلہ کشمیر حل کرنے سے گریزاں ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
52856

ذہنی طور پر پسماندہ اور جسمانی طور پر معذورافراد ۔ تحریر: محمد عبدالباری

وطن عزیز میں ذہنی طور پر پسماندہ اور جسمانی طور پر معذور افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے ۔ جبکہ سالانہ ان میں اضافہ ہوتارہتا ہے ۔ بہت سے افراد اور خاص طورپرچھوٹے بچے ذہنی پسماندگی کی وجہ سے دوسروں کے محتاج ہوتے ہیں۔ ایسے بچوں یا افراد کو ہرممکن رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔چترال میں بھی اسطرح کے بچوں کی کافی تعداد موجود ہے۔ جنھیں خصوصی افراد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔

اسطرح کے بچوں کیلئے ایک ادارہ چترال کے علاقہ ذرگراندہ میں موجود ہے اس ادارے کا بنیاد 1986 میں رکھا گیا تھا۔
اس ادارے کے قیام کا مقصد خصوصی افراد خصوصا بالخصوص ذہنی اور جسمانی کمزوری کے شکار افراد کی تعلیم اور ان کی فلاح و بہبود ہے۔ ذہنی اور جسمانی کمزوری کے علاوہ باقی تمام قسم کے افراد باہم معذوری کو بھی ادارہ ہذا میں خوش آمدید کہا جاتا ہے۔اس ادارے سے منسلک تمام عملہ درد دل رکھنے اور فرض شناسی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ جو کہ تمام بچوں کو انفرادی توجہ دے کر ان کی جسمانی، ذہنی الغرض ہر طرح کی فلاح و بہبود کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ اس بات کا زندہ مثال اور ثبوت وہ تمام افراد ہیں جو مذکورہ بالا ادارے سے استفادہ حاصل کرنے کے بعد آج ایک خود مختار زندگی گزار رہے ہیں اور اپنا رزق حلال خود کما رہے ہیں۔یہی وہ افراد ہیں جنہیں معاشرے پر بوجھ تصور کیا جا رہا تھا اور نہ ہی انہیں کوئی عزت و احترام دی جاتی تھی بلکہ عام عوام انہیں تفریخی مقاصد کے لیے استعمال کرتے تھے جو کہ آج ادارہ ہذا اور ادارے سے منسلک درد دل رکھنے والے عملے کی انتھک محنت کی بدولت اپنے پیروں پر کھڑے ہیں۔


میں عوام الناس سے پرزور اپیل کرتا ہوں کہ وہ آئیں اور ادارے کی کامیابی میں اپنا کردار بھرپور انداز میں ادا کریں اور خصوصی افراد کو گھروں میں نظر بند رکھنے کے بجائے ادارے کے ساتھ منسلک کریں۔ ادارہ ہذا میں جو سہولیات میسر ہیں ان کا بھی مختصرا ذکر کرونگا۔


ادارہ ہذا کی طرف سے بچوں کو گھر سے سکول اور اسکول سے گھر تک پہنچانے کے لیے مفت ٹرانسپورٹ کی سہولت میسر ہے اس کے علاوہ بچوں کو اسکول یونیفارم، کتابیں کاپیاں اور دیگر تعلیمی مواد بھی مفت فراہم کیے جاتے ہیں۔
خصوصی طلبا و طالبات کے لیے روزانہ کی بنیاد پر ایک وقت کا ریفریشمنٹ بھی مفت فراہم کیا جاتا ہے۔
پرائمری لیول کے لئے انکلوسیو ایجوکیشن کی سہولت دستیاب ہے جس میں تمام بچوں کو چاہے وہ معذور ہوں یا نارمل داخلہ کی سہولت دی جاتی ہے۔


بچوں کی تفریح کے لیے مختلف قسم کے کھیلوں کا بھی انعقاد کیا جاتا ہے اور سالانہ بنیادوں پر خصوصی بچوں کے لئے اندرون ملک سیر و تفریح کا بھی اہتمام مفت میں کیا جاتا ہے۔
افراد باہمی معذوری کے لئے انفرادی تعلیم کی سہولت بھی میسر ہے جس میں ہر بچے کو ان کی انفرادی ضروریات کے مطابق تعلیم دیا جاتا ہے۔


ذہنی پسماندگی کے شکار بچوں پر خصوصی توجہ دیا جاتا ہے اور انہیں روز مرہ زندگی کی ضروریات کے متعلق حصوصی تربیت دی جاتی ہے تاکہ کہ وہ اپنے روز مرہ زندگی کے کاموں میں کسی کا محتاج نہ رہیں۔


تمام افراد باہم معذوری کو ان کی سماجی بحالی کے لئے ان کی صلاحیتوں کے عین مطابق پیشہ ورانہ مہارت بھی سکھائے جاتے ہیں، مثلا کڑھائی کی مہارت، سلائی، کٹائی، بنائی، ڈیزائننگ اور الیکٹرانک مہارت ان کی صلاحیتوں اور ان کی دلچسپی کے مطابق ان کو سکھایا جاتا ہے۔


انفرا مشین اور مساج کے دیگر سازوسامان کے استعمال سے جسمانی تھراپی کے خدمات اور بوقت ضرورت جی ایچ کیو چترال کے ماہر ڈاکٹروں کی نگرانی میں علاج معالجے کی سہولیات بھی میسر ہیں۔


ان تمام تر سہولیات کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ادارے کی طرف سے آپ کی خدمت کے لیے بالکل مفت میسر ہیں تو آئیے ان خدمات سے استفادہ حاصل کیجئے اور خصوصی افراد کی بحالی میں اپنا کردار بخوبی نبھائیں۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
52811

داد بیداد ۔ تیسرا کردار ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

میڈیا میں اس بات کاچر چا ہے کہ پا کستان نے افغا نستان کو اشیائے خوراک کے تحفے بھیجے اور جن لاریوں میں امدادی سامان بھیجے جا تے ہیں ان لا ریوں پر پا کستان کا سبز ہلا لی پر چم لگا ہوتا ہے اس پر جو خبریں اور تصویر یں آگئی ہیں ان میں دکھا یا گیا ہے کہ لا ری افغا نستان پہنچنے کے بعد لو گ پا کستان کا جھنڈا اتار کر پھینک دیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ پشاور کی ایک عمارت پر طالبان کا جھنڈا لہرایا گیا تو لو گوں نے اس کو اتار لیا تھا اس خبر اور تصویر کے آنے کے بعد بھانت بھا نت کی بو لیاں بو لی جا رہی ہیں بعض حلقے مشورہ دیتے ہیں کہ افغا نستا ن کو امدا دی سا مان بھیجنے کا سلسلہ بند کیا جائے اس ہا ہا کار میں جس بات کو نظر انداز کیا جا تا ہے وہ تیسرا کر دار ہے کوئی بھی اس بات پر تو جہ نہیں دیتا کہ افغا نستان میں تیسرا کردار مو جود ہے جو پا کستان اور افغا نستان کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے پر اپنی تما م تر توا نا ئیاں خر چ کر رہا ہے.

اپنی بساط بھر کو شش کر رہا ہے اور پا کستان کا پر چم امدا دی سامان کی کسی لا ری سے اتر وا نا اس کی معمولی کا وش ہے اور یہ کاوش دونوں برادر اسلا می ملکوں کو مو قع دیتی ہے کہ آئیندہ دونوں مما لک تیسر ے کر دار کی کا رستا نیوں سے ہو شیا ر رہیں اس کا پس منظر تاریخ نہیں حا لا ت حا ضرہ کا ایک باب ہے 15اگست 2021تک امریکہ، نیٹو مما لک اور بھا رت کا افغا نستا ن پر راج تھا ان کی حکومت تھی ان کی مر ضی چلتی تھی ان کے حکم کو ما نا جا تا تھا 15اگست 2021کے دن خا موش انقلا ب آیا امارت اسلا می افغا نستا ن کے درویش صفت حکمران کسی جنگ و جدل اور مزا حمت کے بغیر کا بل میں داخل ہوئے قصر صدارت پر ان کا قبضہ ہوا افغا نستان کی حکومت معزول ہو گئی 3لاکھ افغا ن فو ج اردوئے ملی ہتھیا ر اٹھا ئے بغیر منظر سے غا ئب ہو گئی.

ہتھیا ر ڈالنے کی نو بت بھی نہیں آنے دی یہ سب کچھ سابقہ حکمرا نوں کے وہم و گما ن میں نہ تھا امارت اسلا می کے قیام کے بعد پا کستان واحد ہمسا یہ تھا جس نے حدیث کی رو سے ظا لم اور مظلوم دونوں کی مدد کی، ظا لم کو بھا گنے میں مدد دی مظلوم کو پاوں جما نے میں مدد دی بھا گنے والے ظا لموں میں سے دو مما لک نے اپنے گما شتے افغا نستا ن میں پھیلا دیے تا کہ ان کے مفا دات کا کسی نہ کسی حد تک تحفظ ہو پا کستان کے ساتھ افغا ن ملت کی دوستی مستحکم نہ ہونے پا ئے اور اما رت اسلا می افغا نستا ن کی حکومت پائیدار بنیا دوں پر استوار نہ ہو یہ لو گ امارت اسلا می افغا نستا ن کو یا عورت کے آئینے میں دیکھتے ہیں یا پنجشیر اور تا جک قو میت کے آئینے میں دیکھتے ہیں یا ازبک اور شما لی اتحا د کے آئینے میں دیکھتے ہیں ہر آئینے میں ان کو پا کستان کا ایک چبھتا ہوا کا نٹا نظر آتا ہے اور کا بل پر وار کرنے سے پہلے اسلا م اباد پر وار کر تے ہیں.

امدادی سامان کی لا ری سے پاکستانی پر چم کو اتار نا معمولی بات ہے آگے تیسرا کر دار اور بھی کا م کرے گا بھارت اور امریکہ دونوں افغا نستا ن واپسی کا بہا نہ تلا ش کررہے ہیں وہ کسی اہم عمارت میں دھما کہ کر کے اس کا الزام پاکستان پر لگائینگے وہ کسی اہم شخصیت کو قتل کر کے اس واردات میں پا کستان کو ملوث کرینگے یا وہ کسی اہم شخصیت کو اغوا کر کے ایسا مطا لبہ کرینگے جس میں پا کستان کا نا م آئے گا ان کے پاس شرارت کے اور بھی کئی راستے ہیں حا لیہ دنوں میں دو اہم یورپی مما لک کی طرف سے پا کستان میں کر کٹ کھیلنے سے انکا ر کے پس پر دہ بھی ایسی طا قتوں کا ہا تھ ہے جو پا کستان اور افغا نستا ن کے درمیاں برادرانہ قربت کو حسد اور رقابت کی نظر سے دیکھتے ہیں غلط فہمیاں پیدا کر نے میں تیسرا کردار سب سے زیا دہ فعال ہو تا ہے اور افغا نستا ن میں ہمارا اصل مقا بلہ تیسرے کردار سے ہے دونوں ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والی کسی غلط فہمی کو اس زاویئے سے دیکھنا چا ہئیے اور اس کا حل بھی تلا ش کر نا چا ہئیے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
52791

گلگت کا تاج ۔ تحریر: شمس الہدیٰ یفتالیٰ

مملکتِ خداداد پاکستان انتظامی طور پر وفاق  اور چار صوبوں اور ایک عبوری صوبہ گلگت بلتستان میں تقسیم ہے۔ ہر صوبہ کسی ایک وجہ سے مشہور ہے۔ جیسے مینار پاکستان، مزار قائد، باب خیبر ، زیارت بلوچستان جبکہ وفاق میں فیصل مسجد ۔ یہ سب ان صوبوں کی  علامت بن چکے ہیں۔ اسی طرح  شہیدوں کی جنت نظیر عبوری صوبہ گلگت بلتستان کی بات کریں تو یہاں آپ کو ہر منظر ہر نظارہ اپکو ایک الگ ہی دنیا میں لے جاتا ہے۔ نہ جانے اس مٹی  میں ایسا کیا ہے     جو سب کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔

لیکن موصوف گلگت بلتستان کی پہچان ہے۔ گلگت بلتستان انکی جان ہے یہ گلگت بلتستان کے شان ہے ، تاج ہیں۔ آپ ظفر_وقار_تاج ہے۔ ظفر وقار تاج کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ آپ شنا زبان کے مشہور شاعر عبدول خالق تاج کے فرزند ارجمند ہے۔ ظفر وقار تاج نہایت شریف اور ملنسار شخصیت کے مالک ہیں۔جو آپنی ڈیوٹی اور ذاتی زندگی بطریق احسن نبھاتے ہیں۔ وسیع دل و دماغ کے مالک ظفر وقار تاج زندگی کے ہر مسئلے کو وسیع تناظر میں کھلے دل و دماغ کیساتھ کھلی نظر سے بھی دیکھتے ہیں۔ اپ ایک پرفیکشنسٹ ہے۔ ہر لحاظ سے کامیاب شخص ہے زندگی کے ہر محاذ میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے والے ظفر وقار تاج ابتدائی تعلیم رزمک کیڈٹ کالج سے حاصل کی اسکے بعد تاریخی شہر لاھور اور شہر قائد سے اپنی تعلیمی سفر مکمل کر لی۔ ذندہ دلوں کے شہر لاھور سے زندہ دلی اور شہر قائد سے عہدو وفا لئے ظفر تاج اپنی سر زمین گلگت بلتستان کی خدمت اور سر بلندی کو اپنا نصب العین بنا لیا اور اپنی مٹی کی خدمت سے وابستہ ہوگئی ہے۔

کچھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ اتنی صلاحیتوں سے نوازتا ہے کہ خود کامیابی انکا پیچھا کرتے ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے آپ سکریٹری سیاحت و ثقافت گلگت بلتستان ہے۔ چونکہ شاعری آپ کو وراثت میں ملی ہے اسلئے اس میدان میں بھی آپکا کوئی ثانی نہیں۔ آپ بیک وقت اردو اور شنا زبان میں شاعری کرتے ہیں۔ اردو زبان میں آپکی شاعری پر مبنی دو کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں۔ زمانہ طالب علمی میں ملک کے نامور شعراء کیساتھ مشاعروں میں بھی حصہ لیتے رہے ہیں۔ لیکن آپ نے اپنی مادری زبان شنا کو تقویت دی شنا میں شاعری شروع کی اور انقلاب برپا کردیا، اس میں دو رائے نہیں ہے کہ جناب ظفر وقار تاج عصر حاضر کے شنا شاعری کے سر تاج ہیں آپ نے اپنے بے مثال کلام سے شنا شاعری میں جو شاندار اضافہ کیا ہے اس پر شنا زبان کو ناز ہے شنا زبان کی سرحدیں آپکی وجہ سے وسیع سے وسیع تر ہوئے۔

آپ نے شنا بولنے والوں کے لئے ان جمالیاتی تقاضوں کو پورا کیا جنکی کمی شنا بولنے والے ہمشہ سے محسوس کرتے رہے ہیں۔ آپ کے لکھے شنا گیت اتنے مقبول ہوئے کہ علاقائی حدون کو چیرتے ہوئے پشتو اور بلوچی جیسے زبانوں پر بھی اثر انداز ہوئیں۔ آپکے لکھے مشہو گیت “ستمگر ” کئی زبانوں میں ری میک ہوئی ہیں۔ یہ آپ کی اپنی مادری زبان سے محبت کا صلہ ہے۔ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے شنیا زبان کو ایک الگ  پہچان دی۔ یقینا ایک شاعر ہی زبان کو زندہ رکھ سکتا ہے۔ مزید اپ ایک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کو بھی لیڈ کرتے ہے جو شنا زبان کے علاوہ گلگت بلتستان میں بولی جانے والی دوسری تمام زبانوں پر بھی ریسرچ کرتی ہے ان کو زندہ رکھنے انکی تاویل کے لئے کام کرتا ہے۔ گلگت بلتستان کی ادب اور موسیقی کو اس بام عروج پر پہنچانے کا کریڈٹ یقیناً آپ کو ہی جاتا ہے۔

 ظفر کا وقار ہمشہ انچا رہا آپ ذات پات ، اونچ نیچ، رنگ و نسل جیسے تفریق سے پاک ہے۔ گلگت بلتستان اور چترال کے مابین امن امان اور پیار محبت کو اجاگر کرنے میں آپکا کلیدی کردار رہا ہے۔ میں آپ سے خاندانی تعلق کو ایک طرف رکھ کر  ایک چاہنے والے کی حیثیت سے آپکی خلوص عقیدت ،مہرو وفا ، آپکی محبت اور جذبے کو سلام پیش کرتا ہوں۔ یقینا آپ شنا شاعری کے غالب ہیں۔ 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
52781

سرزمین سعادت: سعودی عرب۔ (23ستمبر:قومی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)۔ ڈاکٹر ساجد خاکوانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سرزمین سعادت:سعودی عرب

(Saudi Arabia)

(23ستمبر:قومی دن کے موقع پر خصوصی تحریر(

ڈاکٹر ساجد خاکوانی(اسلام آباد،پاکستان)

                سعودی عرب مسلمانوں کے مرکزی مذہبی و روحانی مقامات کا حامل ملک ہے جس نے جزیرہ نمائے عرب کے تقریباََ اسی فیصد رقبے کو گھیراہے اور کم و بیش آٹھ لاکھ اڑسٹھ ہزارمربع میل کے علاقے میں پھلاہے۔کویت،عراق،اردن اور اسرائیل اس ملک کے شمال میں واقع ہیں،سعودی عرب کے مشرق میں قطر،متحدہ عرب عمارات،عمان اور خلیج فارس ہیں،جبکہ عمان کا کچھ حصہ سعودی عرب کے جنوب مشرق میں بھی موجود ہے،جنوب اور جنوب مغرب میں یمن کا ملک ہے اور مغرب میں بحیرہ احمر اوراسکی خلیج واقع ہیں۔”ریاض     “اس ملک کا دارالحکومت ہے۔آل سعود اس خطہ پر اٹھارویں صدی سے حکمران چلے آرہے ہیں چنانچہ سلطنت عثمانیہ کے ٹوٹنے کے بعد سے اس حکمران خاندان کے حوالے سے اس ملک کو”سعودی عرب“کانام دے دیاگیا۔خلافت عثمانیہ کے اختتام کے بعد طوائف الملوکی نے اس سرزمین میں گھر کر لیااور مغربی استعمار نے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کے بادشاہوں کے درمیان انارکی پھیلائے رکھی اور قتل و غارت گری کابازارگرم رہا۔1923کو برطانیہ کی حکومت نے یہاں کے تمام حکمران بادشاہوں کو ایک کانفرنس میں اکٹھاکیاتاکہ معاملات کے حل کے ذریعے ان کے درمیان کسی صلح کرائی جاسکے لیکن سامراج کی خواہشات کے عین مطابق یہ کانفرنس بغیر کسی نتیجے کے اختتام پزیر ہوگئی اور حکمرانوں کے درمیان اختلافات اور شدت اختیارکرگئے۔

                کانفرنس کی ناکامی کے بعد 8جنوری1926کو عبدالعزیزبن سعود نے سرزمین حجاز میں اپنی بادشاہت کا باقائدہ اعلان کردیا۔1927کو اس نے نجد کے علاقوں پر بھی اپنے حق تسلط کاعلان کیااوریوں سلطنت سعودی عرب کا باقائدہ آغاز23ستمبر1932کو ہوا جب ایک شاہی فرمان کے ذریعے نجداورحجازکی دوریاستوں کو متحد کر کے تو ”سعودی عرب)المملکۃ العربیہ السعودیہ)“کاایک ہی نام دے دیاگیا۔برطانیہ نے،جسے عثمانیوں کی خلافت اس لیے تسلیم نہیں تھی کہ وہ خلاف جمہوریت تھی، سعودی عرب پرابن سعودکی بادشاہت کو تسلیم کر لیا۔آل سعود کو یہاں کی حاکمیت اعلی میسرآگئی۔داخلی طور پر بادشاہت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی اور یہاں کے حکمران نے ”سلطان“کی بجائے باقائدہ سے ”بادشاہ“ کہلواناشروع کردیا۔1933میں بادشاہاہت کی سند پر آخری مہر بھی ثبت ہو گئی جب ابن سعود نے اپنے بیٹے ”سعود“کواپناجانشین ولی عہدمقررکردیا۔دنیابھرکی ”جمہوریتوں“نے اس بادشاہت کو تسلیم کرلیاحالانکہ اس وقت تک سعودی عرب لیگ آف نیشنزکارکن بھی نہیں بناتھا۔ابن سعود کے انتقال کے بعد9نومبر1953اسکابیٹاسعودبادشاہ بنااور دوسرابیٹاشاہ فیصل ولی عہد مقررہوگیا۔لیکن مملکت کے مقتدرحلقوں کی آشیرباد سے 2نومبر1964کو سعودکو برخواست کر کے تو شاہ فیصل کو بادشاہ بنادیاگیا۔یہ حکمران اپنی مملکت سمیت کل امت مسلمہ کے لیے سایہ رحمت ثابت ہوا،اس نے جہاں نظم مملکت کو جدیدخطوط پراستوارکیااور بہت ساری اصلاحات کیں وہاں خاص طورپربین الاقوامی دنیامیں مسلمانوں کے جراتمندانہ کردار کی نمائندگی کی۔طاغوت نے اسے بہت جلد موت کی نیندسلادیااور اس صالح حکمران نے شہادت کا منصب عظیم حاصل کیا۔

                سعودی عرب دنیامیں ایک عرب اور اسلامی ملک کی پہچان رکھتاہے،عرب لیگ اور اسلامی کانفرنس کا تاسیسی رکن ہے۔1960کی دہائی میں انقلابی معاشی ترقیات کے باوجود اس ملک نے اپنی قومی،ثقافتی اور مذہبی شناخت تبدیل نہیں کی،لیکن دولت آجانے سے اتناضرور ہواہے کہ اونٹوں اور پیدل چلنے والے راستوں کی جگہ بڑی بڑی شاہراہوں اور ہوائی اڈوں نے لے لی ہے۔سعودی عرب کااندورنی حصہ دنیاکاسب سے بڑا ریگستان ہے اور یہ لق و دق صحراکم و بیش پچیس ہزارمربع میل کے علاقوں میں پھیلاہے۔یہاں کاسبزہ افریقی صحرائی زراعت سے مستعارہے،صحرائی بوٹیاں یہاں کے جانوروں کے چارے کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔بہت کم علاقوں میں سبزہ نظر آتاہے جبکہ کھجوریہاں کا بہت مشہور پھل ہے جس کے باغات سرسبزعلاقوں میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔یہاں کے صحراؤں میں بھیڑیے،لگڑبھگے،لومڑیاں،شہدکی مکھی،بجو،نیولا،کانٹوں والا جانور سیہ،بابون(کتے کی تھوتھنی  جیسے منہ والاجانور)،صحرائی خرگوش اور صحرائی چوہے جو عام چوہوں سے بڑے ہوتے ہیں پائے جاتے یں۔جنگلات نہ ہونے کے باعث بڑے جانور یہاں عنقا ہیں اور ماضی میں اگر کہیں تھے بھی تو اب شکاریوں کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔پرندوں میں شاہین جو شکار کے لیے سدھائے جاتے ہیں،شکرا،گدھ،الو،غراب(کوے سے بڑا کالاپرندہ)،فلامنگو(لمبی گردن اور جھلی دارپاؤں والاپرندہ)،سفید بگلا،بطخیں،ریتلاتیتر بٹیرے اور کہیں کہیں سبزے والے علاقوں میں بلبلیں بھی پائی جاتی ہیں۔قدر ت نے سعودی صحرا کے پیٹ میں بہت ہی زہریلے سانپ اور چھپکلیوں کی بھی کئی نسلیں پال رکھی ہیں۔پالتو جانوروں میں اونٹ جو کسی زمانے میں سفرکا عمدہ ترین ذریعہ تھا،بھیڑ بکریاں اورکہیں کہیں گدھے بھی نظرآتے ہیں۔

                سعودی عرب کی ستر فیصد سے زائد آبادی شہروں میں ہی رہتی ہے،بقیہ تیس فیصد آبادی صحرائی دیہاتوں میں حکومت کی طرف سے بنے زرعی فارموں میں رہائش پزیر ہے۔کل زمین کا بمشکل ایک سے دو فیصد ہی زراعت کے لیے استعمال ہوتاہے،جبکہ یہاں زراعت سے مراد درختوں کی پرورش بھی مراد ہے۔شہر چند گنے چنے ہی ہیں جو اپنی جداگانہ پہچان رکھتے ہیں باقی پورے ملک میں دو شہروں کے درمیان پہروں کے فاصلوں تک کسی آبادی کا کوئی نام و نشان تک نہیں ملتا،مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ مذہبی سرگرمیوں کا مرکزہیں،ریاض دارالحکومت اورجدہ کاروباری اور بیرونی دنیاؤں سے تعلقات کا مرکزہے۔عربی یہاں کی بولی جانے والی واحدزبان ہے اور مقامی لوگ اپنی زبان کے بارے میں بہت محتاط اوربہت زیادہ حساس ہیں۔آبادی کاایک مقتدر حصہ دوسرے ملکوں سے آیاہواہے جن میں عرب اور غیرعرب سب شامل ہیں۔دنیابھر سے ایک بہت بڑی تعداد ہر سال حج و عمرہ کے لیے بھی اس مملکت کا سفر کرتی ہے۔اسلام یہاں کاحکومتی اور عوامی مذہب ہے اور یہاں کے قوانین اور عدلیہ کے فیصلوں کا مصدر بھی یہی دین ہی ہے۔

                1970اور1980کے دوران دو ابتدائی پنج سالہ منصوبوں نے اس ملک کی معاشی سرگرمیوں کومہمیز لگانے کاکام کیاہے۔پٹرولیم مصنوعات کے باعث یہاں پر دولت کی دیوی بہت مہربان ہے،دنیابھر کے پچیس فیصد سے زائد خزانے اس سرزمین کے سینے میں دفن ہیں۔زراعت میں یہ ملک کافی پیچھے تھا لیکن مسلسل حکومتی توجہ کے باعث اب ملکی آمدن کا چار فیصدتک زراعت سے حاصل ہوتاہے،گندم،انڈے اور دودھ اب مقامی طور پر ہی حاصل کرلیے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی کم و بیش ستر فیصدتک خوراک کے مستعملات باہر کے ملکوں سے درآمد کیے جاتے ہیں۔گندم،سرغو،جواورباجراکی ایک عرصے سے یہاں پر کاشت کاری کی جارہی ہے۔تربوز،ٹماٹر،کھجور،انگور،پیاز اور پیٹھایہاں پر پیدا ہونے والے پھل ہیں۔اب گزشتہ کچھ عرصے سے مصنوعات پر بھی خاصی توجہ دی جارہی ہے اور بہت سے بڑے بڑے کارخانے لگائے جا رہے ہیں ان کارخانوں میں اسٹیل،مختلف کیمائی مادے جو پٹرولیم سے تعلق رکھتے ہیں،کھاد،پائپ،بجلی کی تاریں جو مختلف دھاتوں سے بنائی جاتی ہیں،سیمنٹ،فرنیچر،ٹرک اور بسیں اور پلاسٹک کی بنی ہوئی چیزیں بھی شامل ہیں۔

                سعودی عرب کا دعوی ہے کہ انکا نظام حکومت اسلامی شریعت کے مطابق ہے۔اسلام نے فرداور اجتماعیت اور حکومت و عوام کے جو حقوق و فرائض متعین کیے ہیں ان کو مملکت میں نافذ کیاجاتا ہے،سول قانون کے طور پر اسلامی شریعت کے مطابق یہاں فیصلے کیے جاتے ہیں۔نظام حکومت کی بنیاد بادشاہ وقت کی ذات بابرکات ہے،قانونی،انتظامی اور عدالتی اختیارات تمام کے تمام اس ذات میں جمع ہیں۔کابینہ کے اجلاس کی صدارت بھی بادشاہ کرتا ہے جس میں مملکت کے امور سے متعلق جملہ فیصلے کیے جاتے ہیں لیکن اعلی سطح کے فیصلے حکمران خاندان کے بزرگ ہی کرتے ہیں جن کوکثرت رائے سے منظور یا مسترد کر دیاجاتاہے۔مملکت کے حساس اداروں کی ذمہ داریاں اور بڑے بڑے محکموں کی چنیدہ نشستیں شاہی خاندان کا ہی استحقاق ہیں۔ولی عہد سلطنت کا انتخاب شاہی خاندان کے بڑوں،علمائے دین اور کابینہ کے اراکین کے درمیان طے پاتاہے اوریہ منصب حکومتی ذمہ داریوں میں نائب وزیراعظم کے برابر سمجھاجاسکتاہے اوراسی طرح ولی عہد ثانی کا تقرربھی کیاجاتاہے۔1970میں یہاں پہلی دفعہ وزارت قانون بنائی گئی جس کے تحت علماکو عدالتوں میں تعینات کیاگیاتاکہ شریعت کے مطابق مقدمات کے فیصلے کریں۔جہاں تک ٹریفک قوانین جیسے دیگر معاملات کا تعلق ہے تو ان کے حل کے لیے شاہی احکامات نافذ کیے جاتے ہیں جن کے تحت عدالتیں فیصلے کرتی ہیں جبکہ عدالتوں کے فیصلے کے خلاف اپیل کے لیے بھی بادشاہ وقت کاہی دروازہ کھٹکھٹاناپڑتاہے۔تعلیم کے دروازے سب عوام کے لیے کھلے ہیں اور تعلیم حکومت کی طرف سے مفت مہیا کی جاتی ہے،ابتدائی تعلیم کے چھ درجات ہیں،ساتواں،آٹھواں اور نواں درجہ ثانوی تعلیم کا ہے جبکہ دسویں،گیارویں اور بارویں سال کی تعلیم اعلی ثانوی تعلیم کہلاتی ہے جس کے بعداعلی تعلیم کے مراحل شروع ہو جاتے ہیں جن کے بکثرت مواقع ماضی کے برعکس اب ملک میں ہی موجود ہیں۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
52726

دھڑکنوں کی زبان – ”مکان کی زینت مکینوں سے ہے“- محمد جاوید حیات


اتفاقاً میرے کمرے کی کھڑکی مشرقی اُفق کی طرف ہے۔میں ہر صبح سورج نکلنے اور کبھی کبھی رات کوچاند طلوع ہونے کامنظر دیکھتا ہوں بہت محظوظ ہوتا ہوں اللہ کی کائنات کتنی خوبصورت ہے کبھی اس منظر کو دیکھ کر انگریز لکھاری فلوبر یاد آتا ہے ابھی مر رہا تھا کہا کھڑکی کھلی رکھو باہر کا منظر دیکھا کہا خوبصورت منظر ہے۔پھر اس دنیا کو سدھارے۔۔


اللہ کی کائنات خوبصورت ہے اور اللہ نے اپنے خلیفہ اشرف المخلوقات (انسان) کو یہاں پر بھیج کر مذید اس کو خوبصورت بنایا ہے۔۔یہ انسان مکان بناتا ہے باغ لگاتا ہے پھول کھلاتا ہے عالی شان محلات بناتا ہے اور سب یہاں چھوڑ کر چلا جاتا ہے دنیا خوبصورت ہوتی جاتی ہے اور یہ سلسلہ چل رہا ہے۔تاج محل بنا۔بنانے والا مٹی کے نیچے سو رہا ہے۔لال قلعہ شاہی محلات شاہی باغات بنے بنانے والے مٹی ہوگئے وہ موجود ہیں۔۔۔لیکن کائنات کا جو حصہ ہمارے حصے میں آیا ہے وہ سب سے خوبصورت ہے جو سورج میرے کمرے کی کھڑکی سے اپنی دھوپ میرے کمرے میں اُتارتا ہے وہ یہ منظر ہر کہیں دیکھاتا ہے جو چاندنی میرے کمرے میں اُترتی ہے وہ کہیں اور بھی اُترتی ہے یہ فطرت کی خوبصورتی ہے لیکن ہمارے حصے میں اس کو مذید سجانے کی جو ذمہ داری آئی ہے اس میں ہم صفر ہیں۔ہمارے رب نے ہمیں سب کچھ عطا کیا ہے.

ہمارے پاس دریا ہیں دریاؤں کے دلکش کنارے لیکن یہ کنارے کوڑ کواڑ سے ہمارے ہاتھوں بھر دیے جاتے ہیں۔ہمارے پاس سمندر ہیں سمندروں کے کنارے دعوت نظارہ دیتے ہیں لیکن ہم نے ان کو حس و خاشاک سے بھر دیا ہے۔ہمارے پاس جنگلات ہیں ان کو ہم نے کاٹ کاٹ کے چٹیل پہاڑوں میں بدل دیا ہے ہمارے پاس سبزہ زار ہیں لیکن وہ ویران ہیں ہم نے قدرت کی دی ہوئی کسی نعمت، کسی خوبصورتی کی حفاظت نہیں کی۔سیاحت آج کل صنعت بن گئی ہے وزیر اعظم پاکستان اس کی ترقی کا خاص خواہاں ہے سیاح اِدھر اُدھر آتے بھی ہیں لیکن جہان آتے ہیں ان کو اس قدرتی خوبصورتی کی کوئی قدر نہیں۔۔

ان کے فرائض میں یہ شامل ہے کہ جہان جائیں گند نہ پھیلائیں لیکن چترال کا خوبصورت سیاحتی مقام بمبوریت چترال میں جہان سیاح بہت بڑی تعداد میں آتے ہیں لیکن اپنے پیچھے ایک غیر ذمہ دار قوم کا نشان چھوڑ جاتے ہیں۔ان کو اس خوبصورتی کی کوئی پرواہ نہیں۔اس پاک سرزمین کے دوسرے مقامات بھی ہماری لا پرواہی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ہمارے ہسپتال ہماری لا پرواہی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ہمارے بڑے بڑے پارک ہماری گندی طبیعت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔آپ ہمارے شہروں گلی کوچوں میں جائینگے تو انگشت بدندان ہونگے۔ کراچی گوادر پورٹ اسلام آباد پارکز راول ڈیم آگے مری ایوبیا نتھیاگلی ایبٹ آباد کاغان ناران سوات مالم جبہ کمراٹ کس کس جنت کا ذکر کیا جائے۔

یہ اپنی خوبصورتی ہمارے ہاتھوں کھو رہے ہیں۔سیاحت کا فروع اس وقت ممکن ہے جب سیاحوں کے لیے قوانین بنائے جائیں اس پر عمل کرایا جائے۔اور سیاحتی علاقوں میں مکینوں کے لیے بھی کہ وہ سیاحوں کو ہر ممکن سہولیات فراہم کریں۔ہمارے ہاں باہر ملکوں کے سیاح بھی آتے ہیں۔ وہ ہماری دھرتی پر کاغذ کا ایک پرزہ بھی نہیں چھوڑتے۔وہ ہماری گلیوں میں ایسے ادب سے قدم رکھتے ہیں جیسے یہ کوئی ان کے لیے متبرک جگہ ہو۔یہ ہمارے پھول نہیں توڑتے ہمارے چشمے گندے نہیں کرتے بغیر اجازت ہمارے باغیچوں میں داخل نہیں ہوتے۔مگر ہم اپنے ہوتے ہوئے اس کی پرواہ نہیں کرتے۔۔مکان کی خوبصورتی مکینوں کے اعلی ظرف اور پاکیزہ طبیعت سے وابسطہ ہے جس دنیا کو رب نے خوبصورت بنایا ہم نے مذید اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرنا ہے۔ دنیا کا ہر خوبصورت منظر ہمارے پاس ہے اس کی قدر کرنا ہمارا فرض ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
52707

سی پیک اور دوراہ پاس ۔ محمد آمین

دراہ دوراہ (Dorah Pass) کی تاریخی اہمیت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا،کیونکہ یہ دراہ زمانہ قدیم سے ہندوستان،افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارتی لین دین اور فوجی نقل و حمل کے لحاظ سے ایک منفرد اہمیت کا حامل رہا ہے۔پرانے زمانے میں اسی راستے سے مختلف اشیاء تجارتی قافلوں کی صورت میں سر حد پار ان ریاستوں میں پہنچاتے تھے اور وہاں سے تجارتی ساماں ہندوستان کی تجارتی منڈیوں میں پہنچ جاتے تھے۔اگر اس وقت کی تجارتی سامان کا تذکرہ کیا جائے تو ان میں مصالحہ جات،جڑی بوٹیان،قالیں،پرانے دگچے،کپڑے،خشک میوہ جات،قیمتی پھتریں،سلاجیت وغیرہ قابل ذکر ہیں جو دونوں اطراف سے درامدات اور برآمدات کی شکل میں واقع ہوتے تھے۔اسکے ساتھ ہی انہی ممالک سے مختلف حملہ آور بھی چترال سے ہوکر اگے تک گئے ہو نگے اور اسی طرح یہان سے بھی حملہ اور یہی راستہ اپنائے ہوئے ہوں گے۔چونکہ چترال کے حوالے سے مختلف تواریخ سے یہ عندیا ملتا ہے کہ چترال پر پرانے زمانے میں ایرانیوں کا تسلط بھی رہا ہے تو اس سے یہ بھی ثابت ہو سکتی ہے کہ ایران کا بھی اسی راستے سے داخل ہونا کوئی قیاس نہیں ہو سکتی ہے کیونکہ ایران (پرانے فارس) کا افغانستان پر تسلط رہا ہے اور دوسری یہ کہ صوبہ ہرات ایران کے ساتھ واقع ہے۔مذید پرانے زرتشت مذہب کے کچھ اثرات چترال میں پائے جاتے ہیں۔


جب 1979؁ء میں سویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو اس راستے کی اہمیت پہلے سے بھی زیادہ ہوا،لاکھوں کی تعداد میں شمالی افغانستان سے افغان مہاجرین اسی راستے سے پاکستان میں داخل ہوئے اور یہاں ان کے لیئے کیمپ بنائے گئے۔اس کے ساتھ یہ راستہ شمالی اتحاد کے نقل و حمل(mobilization)کے لیئے بھی اہم کردار ادا کیا۔یہ تھی اس کی جیو اسٹریٹیجیک اہمیت۔اور جہاں تک تجارت کا تعلق رہا میں یہاں صرف دو چیزوں کا تذکرہ کرنا چاہوں گا،ایک تخمینہ کے مطابق 1979؁ء سے لیکر 2007؁ء تک اسی راستے سے لگ بھگ 23ارب کے مالیت کے قیمتی پھتر لاجورد (lapis lazuli)پاکستان اوردوسرے بین الاقوامی منڈیوں میں فروخت ہوئے اور ساتھ ہی 28لاکھ کے قریب مال مویشی پاکستان کے منڈیوں میں لائے گئے۔
اب ہم اتے ہیں اس حقیقت کی طرف کہ دوراہ سے وسطی اشیائی ریاستوں کا فاصلہ کتنی ہے؟یہ جان کر قارئیں کو حیرات ہوگی کہ چترال سے دریا آمو (Oxus River)تک کم وبیش دو سو کلو میٹر کا فاصلہ بنتا ہے۔دریا آمو وہ ایک تاریخی دریا ہے جو افغانستان کے صوبہ بدخشان کو تاجکستان کے بدخشان سے ملاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وسطی ایشیاء تک رسائی کے لیئے دراہ دراہ سب سے مختصرترین روٹ مہیا کر سکتی ہے۔


چترال چیو پل سے شاہ سلیم (چترال کا اخری گاوں جو دوراہ کے قریب ہے)تک کا کل فاصلہ 82.5کلو میٹر ہے۔یہاں سے اگے راستہ کافی عرصے سے ناقابل استعمال اور خراب ہے۔شاہ سلیم سے لیڈی ڈیفرین جھیل تک تین گھنٹے کا راستہ ہے اس جھیل کو ہوز ہ دوراہ بھی کہا جاتا ہے اور چترالی زبان میں یہ چھات کے نام سے مشہور ہے۔فارسی زبان میں دوراہ کا معنی دو راستے ہیں اور یہاں سے ایک راستہ بائیں جانب سے منجان ہوتے ہوئے پنجشیر کو جاتی ہے،جبکہ دائین والا راستہ آشکومن کی طرف جاتی ہے جو کہ دریا آمو کے ساتھ واقع ہے۔ہوزہ دوراہ سے ہوتے ہوئے آشکومن تک کئی چھوٹے گاوں درمیان میں اتے ہیں جن میں سنگلچ،اسکوتل،پورو،کیدا اور زیباک شامل ہیں اور کچے خراب راستے میں آشکومن تک پہنچنے میں تقریا اٹھ گھنٹہ لگ سکتا ہے۔اس طرح چیو پل چترال سے دریا آمو کا فاصلہ 200

کلو میٹر ہے۔اگر چترال سے آشکومن تک پکا روڈ بنایا جائے تو اٹھ گھنٹے میں بندہ اسانی سے تاجکستان پہنچ سکتا ہے۔
وسطی ایشیاء قدرتی دولت سے مالا مال ہے اور ان کی دریافت کا کام شروع ہے ان قدرتی وسائل میں معدنی تیل اور گیس بڑی اہمیت کا حامل ہیں اور پاکستان جیسے ملک کو ان کی اشد ضرورت ہے تاکہ ان سے ہماری اقتصادی گاڑی کا پہیہ چال سکے۔اس کے علاوہ ورلڈ میپ میں بھی تبدیلی نظر اتے ہیں اور نئے بلاک بن رہے ہیں جن کا مقصد علاقائی روابط میں اضافہ اور بیرونی ہتھکنڈون سے نجات ہے۔پہلے ہی سے ایران،چین اور روس پر مبنی بلاک نظر اتی تھی اور بعد میں ترکی بھی اس بلاک میں شامل ہوا اور موجودہ پاکستان تحریک انصاف کی زیرک قیادت بھی ملک کی بہتری کے خاطر اس بلا ک میں دیکھائی دیتا ہے۔جہان چین کی ون بلٹ ون روٹ کا تعلق ہے اس میں افغانستان، وسطی ایشائی ریاستیں اور روس بھی شامل ہیں اور اس کی فلیگ شیپ سی پیک کامیابی سے اپنے منزل کی طرف روان دواں ہے۔حال ہی میں افغانستان میں طالبان کی نئی حکومت نے بھی سی پیک میں شمولیت کا عندیہ دیئے ہیں اور افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ افغانستان میں ایک انکلوسیو (inclusive)اور استحکام والی حکومت بنائی جائے۔افغانستان کی آمن سے سی پیک کی connectivity جھڑی ہوئی ہے،افغانستان سے انڈیا اور دوسرے شرپسند عناصر کے نیٹ ورک تقریبا ختم ہوچکی ہے اور پاکستان،ایران،چین اور روس دوسرے وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ ان کوششون میں لگے

ہوئے ہیں کہ افغانستان میں ایک پرامن اور پائیدار حکومت تشکیل پائے تاکہ سب کو معاشی فوائد حاصل ہو سکیں۔
مرکزی حکومت نے پچھلے سال ایک باقاعدہ اعلان کے تحت دوراہ کو سر حد پار تجارت کے لیئے کھول دیا تھا اور ساتھ ہی کسٹم،نیشنل بنک برانچ،انٹی نرکاٹیکس اور اینٹی امیگرشین کے دفاتر کے لیئے زمینات کی نشاندہی بھی ہو چکی تھی۔حال ہی میں حکومت نے چترال دوراہ روڈ کی منظوری باقاعدہ طور پر کیا ہے اور ا س ضامن مین اٹھ آرب سے زیادہ فنڈ بھی مختص کی گئی ہے اور سب سے خوش ائیند بات یہ ہے کہ لینڈ کی خرید (land acquaisition)کے لیئے کلیکٹر کا نو ٹیفیکش بھی ہو چکی ہے۔اور انشاء اللہ بہت جلد اس روڈ پر کام شروع ہونے والا ہے۔اور اس میں چترال کے بیٹے وزیر زادہ کی کوشش بھی قابل تحسین ہے،جو وزیر اعظم عمران خان صاحب کے وژن کے مطابق کام کرہا ہے۔


اگر سی پیک اسی راستے سے گزر جائیں تو چترال کی تقدیر بدل جائے گی۔شاہ سلیم سوست کی طرح ایک ڈرائی پورٹ بن جائے گا جس کا علاقے کے لیئے بہت زیادہ اقتصادی فائدے ہو نگے۔چترال اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے درمیاں موجود ثقافتی روابط کو مذید مستحکم بنایا جائے گا۔ضلعی حکومت کی امدنی میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔چترال کے لوگوں کی معاشی و اقتصادی ترقی اس سے ضامن ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
52684

بورڈز کے حالیہ نتائج، ایک پہلو یہ بھی ہے – تلخ و شیریں، نثار احمد

زیادہ نمبرات دینے پر پشاور بورڈ کو کوستے کوستے اور محنت کر کے زیادہ نمبر لینے والے بچوں کا مذاق اُڑاتے اڑاتے اگر سیر ہو چکے ہیں تو تھوڑی سی زحمت کر کے اب اتنی بات بھی سمجھ لیں کہ اس مرتبہ ہزار سے اوپرنمبر لینا محنتی بچوں کے لیے اتنا مشکل بھی نہیں تھا جتنا سمجھا اور باور کرایا گیا۔ حقیقت ِ حال کا ادراک کیے بغیر نہ صرف پشاور بورڈ پر طعن و تشنیع کے تیر برسائے گئے بلکہ زیادہ نمبر لینے والے بچوں کے حاصل کردہ نمبرات پر الٹے سیدھے جملے کس کر ان کی بھی زبردست حوصلہ شکنی کی گئی۔ ستم یہ ہوا کہ دوسروں لوگوں کی ہمنوائی میں بورڈ میں پیپر چیک کرنے والے اور ان بچوں کو پڑھانے والے اساتذہ کرام بھی اس مکروہ عمل میں پیش پیش رہے۔ حالانکہ یہ بات سب کو معلوم تھی کہ اس مرتبہ دسویں اور گیارہویں میں تمام مضامین کی بجائے چند (اختیاری) مضامین کا امتحان ہوا تھا۔ طلبہ و طالبات نے بارہویں میں تین کتابوں کا اور دسویں میں چار کتابوں کا پرچہ دیا تھا۔

مطلب بارہویں کے جس طالب علم نے بھی ان تین پرچوں میں سے فی پارچہ ساٹھ بٹا پچھتر لینے میں کامیاب ہوا فارمولے کے مطابق اس کے ایک ہزار سے اوپر نمبرز کنفرم ہو گئے۔ مثلاً زید نے اگر بارہویں کی بیالوجی میں ساٹھ نمبر لیا ہے تو اُسے گیارہویں کی بیالوجی میں بھی خود بخود چونسٹھ نمبر ملے ہیں اور دونوں پرچوں میں اسی تناسب سے پریکٹیکل کے نمبر بھی ملے ہیں یہی نہیں بلکہ جن کتابوں کا امتحان سرے سے دیا ہی نہیں۔ گیارہویں میں نہ بارہویں میں، ان میں بھی اسی تناسب سے نمبر ملے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس بار دسویں اور بارہویں میں بالترتیب صرف تین اور چار مضامین کا امتحان ہوا۔ پڑھاکو اور محنتی بچے کے لیے تین پرچوں میں اچھے نمبر لینا کوئی مشکل نہیں ہوتا۔


اطہر قاسم میرے محلے کا رہائشی بھی ہے اور دور دراز کا رشتہ دار بھی۔ اطہر کا والد ہی نہیں، والدہ بھی ٹیچر ہے۔ تعلیمی سال کے دوران تمام چیزوں سے لا پروا ہو کر اس بچے نے اپنی پوری توجہ پڑھائی بالخصوص میٹرک میں اچھے نتائج کے حصول پر مرکوز رکھی تھی۔ نویں کی چھوٹی سی اسلامیات کی کتاب کی تیاری بھی اس بچے نے میرے پاس کی تھی۔ روز عشاء کی نماز کے بعد مسجد میں بیٹھتے اور میں اسے تیاری کرواتا۔ تیاری اتنی زبردست کی تھی کہ مجھے یقین تھا کہ پچاس میں سے پچاس نہ لے سکے تو کم از کم اڑتالیس ضرور لے گا۔ وہ الگ بات ہے کہ کرونا کی وجہ سے پچھلے سال پیپرز کی نوبت نہیں آئی۔۔ جو بچہ اسلامیات کی تیاری بھی بہترین استاد کے پاس جا کر اپنے طور پر کرتا ہو، کیا وہ بیالوجی فزکس اور کیمسٹری کی تیاری نہیں کرے گا؟ اتنے محنتی بچے کے لیے صرف چار کتابوں میں اچھے نمبر لینا کون سا مشکل کام ہے؟؟ ۔ اطہر قاسم کے 1054 نمبر آ گئے اور بجا طور پر اطہر ان نمبروں کا مستحق تھا۔ میرے سابقہ سکول جی ایچ ایس ایس برم اویر میں میرے چار اسٹوڈنٹس ملیحہ مہتاب، لائبہ اور محمد عباس اور عائشہ کوثر نے بالترتیب 922,922 ، 920 اور902 نمبرز لیے ہیں۔ ان تینوں بچوں کو میں نے بارہویں کی ہسٹری پڑھائی تھی اور مجھے پہلے سے یقین تھا کہ یہ اچھے نمبرات لیں گے۔ حسبِ توقع ان کا نتیجہ اچھا رہا۔


بروز کے قاضی شریف احمد (ایس ایس ہسٹری) ہمارے ساتھ سکول کے کولیگ ہیں۔ان کا بیٹا قاضی آفاق احمد بھی دسویں کے امتحان میں شریک تھا۔ امتحان سے پہلے ہی قاضی سر ہمیں کہا کرتے تھے کہ میرا بیٹا نو سو پچاس سے زیادہ نمبر لے گا۔ یہ ایسے ہی نیک فالی طور پر نہیں، بلکہ اپنے بیٹے کی پڑھائی اور تیاری مدنظر رکھ کر کہتے تھے۔ اب جب نتیجہ آ گیا تو توقع کے عین مطابق قاضی صاحب کے فرزند نے ایک ہزار اڑتیس نمبر لینے میں کامیابی حاصل کی۔


اسی طرح سوات بورڈ میں 1094 نمبر لے کر والدین اور جملہ رشتہ داروں کی سرخروئی کا سبب بننے والا ہونہار فرقان احمد اگر آغا خان بورڈ سے بھی امتحان دیتا تو اس کے یہی نمبر آنے تھے۔ جس بندے کا کل اوڑھنا بچھونا ہی پڑھائی اور شوق ہی کتب بینی ہو، اور وہ گھر چھوڑ کر سوات (کیڈٹ کالج) میں صرف پڑھائی کے لیے رہتا ہو اس کے لیے چار پرچوں میں غیر معمولی مارکس لینا کم از کم میرے لیے کوئی اچھنبھا نہیں ہے۔ شریف النفس فرقان احمد میرے ابتدائی درجات کے استاد محترم زرتاج احمد مدظلہ کا فرزند ارجمند ہے۔


بڑی شدومد کے ساتھ ایک پروپگنڈا یہ جاری ہے کہ کرونا کی وجہ سے امسال سکول مہینوں بند رہے اسباق ہوئے نہیں پھر بھی نتیجہ ننانوے فی صد آیا۔ پہلی بات یہ ہے ننانوے والی بات درست نہیں لگ رہی، نتیجہ پورا پورا سو فی صد آنا چاہیے کیونکہ جب فیصلہ ہی سب کو پاس کرنے کا ہوا تھا تو پھر سو فی صد پاس نہ ہونے کا سوال ہی کہاں رہا؟؟


دوسری بات یہ ہے نتیجہ سب کے سب کا سب کا اے گریڈ یا اے پلس نہیں آیا ہے۔ مثلاً اس وقت میرے سامنے ایک نامی گرامی گورنمنٹ سکول کا پورا رزلٹ موجود ہے اس میں کسی بھی بچے کا نو سو سے اوپر نمبرز نہیں ہیں چہ جائیکہ ہزار ہوں۔ زیادہ تر تعداد E گریڈ میں پاس ہونے والوں کی ہے۔ ای گریڈ کا مطلب بمشکل بس پاس ہی ہو سکے ہیں۔


تیسری بات یہ ہے نصاب بھی تقریباً زیادہ تر اسکولوں میں مکمل ہوا تھا ایسا نہیں تھا کہ زیادہ تر سکولوں میں ادھورا رہا ہو۔ دس مئی کو گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول سے میرا تبادلہ ہوا تھا تبادلہ ہونے سے پہلے پہلے گیارہویں کی اردو، ہسٹری ، اسلامیات اختیاری اور بارہویں کی اسلامی ہسٹری مکمل پڑھا ہی نہیں چکا تھا بلکہ اعادہ بھی بیچ تک کروایا تھا۔ یہی حال اکثر اساتذہ کا ہے۔ شاید ہی کسی نے کورس مکمل نہ کیا ہو۔ پھر سمارٹ سلیس کی وجہ سے مزید آسانی پیدا ہوئی تھی۔ ایسے میں اُن طلبا کا ہزار سے اوپر نمبر آنا بالکل انہونا نہیں ہے جن کے پیپرز کسی بھی وجہ سے اچھے ہوئے ہوں۔ جنہوں نے خوب محنت کی ہو۔


بورڈ میں بھی پرچہ جات حل کرنے کا باقاعدہ نظم مقرر ہے۔ پرچہ جات کی جانچ پڑتال کے لیے اساتذہ پر مشتمل ٹیم ہی متعین نہیں ہوتی بلکہ باقاعدہ ضابطے بھی پہلے سے طے ہیں کہ کس قسم کی مارکنگ کرنی ہے۔ ہمارے امتحانی نظام میں نقائص و خامیاں اپنی جگہ، کئی پہلوؤں سے اصلاح کی ضرورت اپنی جگہ، لیکن ایسا ہرگز نہیں کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہو اور ہرطرف طوفان ِ ناانصافی تباہی پھیلا رہا ہو۔ پرچہ جات کی جانچ پڑتال کے لیے قائم اساتذہ کی ٹیم میں مزاج اور افتاد ِ طبع کا فرق ہو سکتا ہے اور طبائع کا یہ فرق طالب علموں کے نمبرات میں انیس بیس کا فرق ڈال سکتا ہے لیکن یہ سمجھنا اور پروپگنڈہ کرنا قطعاً خلافِ حقیقت ہے کہ بورڈ میں آنکھیں بند کرکے نمبرات دیے جاتے ہیں۔


ہمارے معاشرے کا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں ڈھنگ سے تنقید بھی نہیں آتی۔ جسے ہم تنقید سمجھ کر برتتے ہیں وہ دراصل تنقید نہیں، الزامات و اتہامات کا پلندہ ہوتا ہے۔ ہم لٹھ لے کر کسی کے پیچھے پڑنے کو تنقید کا نام دیتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں بھی ایسا ہی ہوا کہ خواہ مخواہ بچوں کی محنت کا ٹھٹھہ کیا گیا۔


اس سے بڑی لاپروائی اور کیا ہو گی کہ ایک فیس بکی صارف نے پانچ سطری طنزیہ پوسٹ لکھی کہ میرے 1080 نمبر آئے ہیں چونکہ پوسٹ میں ایک لفظ بھی اردو املا کی رو سے ٹھیک نہیں تھا اس لیے ناقدین نے اس کی پوسٹ کے اسکرین شاٹس دکھا دکھا کر خلاف لوگوں کو گمراہ بھی کیا اور پشاور بورڈ کی مٹی بھی پلید کی کہ یہ دیکھو ایک ہزار اسی نمبر لینے والے کا یہ حال ہے۔ کسی بھی بندے کو پوسٹ نگار کے دعوے کی تصدیق کی توفیق نہیں ہوئی۔ حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ یہ بندہ کراچی بورڈ سے کب کا انٹر بھی کر چکا ہے۔ مذکورہ پوسٹ اس نے طنزیہ لکھی تھی۔


آخر میں ان تمام طالب علموں اور ان کے والدین کو سلام جنہوں نے اچھے نمبر لیے ہیں۔ اور ان طالب علموں کو بھی مبارک باد جو پاس ہوئے یا کیے گئے۔ اگر وہ محنت کرنا چاہیں آگے مستقبل ان کا ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
52652

بھارت اور داعش کا گٹھ جوڑ!- قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

داعش کی جنوبی ایشیا میں موجودگی بالخصوص افغانستان اور پاکستان میں اس کے دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کے ثبوت عالمی برادری کے سامنے آتے رہے ہیں۔ پاکستان نے ایک بار پھر داعش کی تربیت کے حوالے سے بھارتی کردارسے دنیا کے سامنے شواہد رکھ کر تحفظات سے آگاہ کیا۔ اطلاعات کے مطابق مبینہ طور پر راجھستان، اتراکھنڈ اور مقبوضہ کشمیر گلمرگ میں شدت پسندو ں کی موجودگی اور بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کی جانب سے تربیت دینے کا معاملہ سامنے آیا، جب کہ امریکی ادارے فارن پالیسی نے بھی اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ”اب داعش کی کارروائیوں میں حصہ لینے والے شدت پسندوں میں سے اکثریت کا تعلق بھارت ہے۔

رپورٹ کے مطابق سری لنکا میں 2019 کو ایسٹر کے موقع پرکیے گئے حملے میں بھارت کے ملوث ہونے کے ثبوت ملے تھے“۔ صوبہ خراسان میں داعش نے جلال آباد جیل پر حملہ میں کیا تواس کاروائی میں افغان، بھارتی اور تاجک باشندوں نے شرکت کی تھی تاکہ اپنے دہشت گرد ساتھیوں کو رہا کراسکیں۔2017 کوترکی میں نائٹ کلب، اسی برس نیویارک شہر میں ٹرک حملہ اور اسٹاک ہوم میں کیا گیا حملہ بھی اسی سلسلے کی کڑی قرار دیئے گئے بلکہ کابل میں سکھ گوردوارہ پر حملہ بھی بھارت سے داعش کی مدد سے کیا گیا۔2016 میں اتاترک ائیرپورٹ پر حملہ ہو یا زیر زمین پیٹرزبرگ پر حملہ، بھارتی دہشت گردوں نے خاص کر افغانستان اور شام کو اڈہ بنا کر دہشت گردانہ کارروائیوں میں حصہ لیا۔

عالمی سطح پر ثابت ہو چکا کہ ایک خصوصی ایجنڈے کے تحت داعش (ISIS) کی پرورش کی گئی اور عالمی قوتوں نے مشرق وسطیٰ کی طرح داعش (خراساں) کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ امارات اسلامی نے کابل قبضے کے بعد سے مشرق میں واقع ملک کی سب سے بڑی اور بدنام زمانہ جیل ’پل چرخی‘ میں بند قیدیوں کی رہاکیا۔ اسی جیل سے فرار ہونے والوں میں ایک ایسا افغانی دہشت گرد بھی تھا، جس نے26اگست کو کابل ائیر پورٹ میں خودکش حملہ کرکے سینکڑوں انسانوں کی جانیں اُس وقت لیں جب وہ افغانستان سے امریکی و غیر ملکی فوجیوں کے ہمراہ کابل سے جانے کی کوشش کررہے تھے،

بھارت نے اس افغان شہری کو 5برس قبل سابق کابل انتظامیہ کے حوالے کیا تھا۔افغان طالبان کے جیل ’پل چرخی‘ سے اپنے اسیروں کو چھڑانے کے بعد ہزاروں خطرناک قید ی بھی فرار ہوئے اور اب یہ جیل ویرانی کا منظر پیش کررہی ہے۔ اے ایف پی کے رپورٹرز نے جب جیل کا دورہ کیا تو انہیں ایک سیل کی دیوار پر سیاہ رنگ سے داعش کے نعرے اور ’اسلامک سٹیٹ‘ کے الفاظ ایک سیڑھی کے پلستر پر لکھے دکھائی دیئے۔ داعش کے پراپیگنڈا میگزین نے بھی پہلی مرتبہ اپنے خودکش حملہ آور کی بابت حیران کن تفصیلات جاری کیں، حالاں کہ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ شدت پسند نیٹ ورک تنظیمیں اپنے دہشت گردوں کی تفصیلات کو شیئر کریں، بھارتی میڈیا کے مطابق 2020میں پولیس نے داعش کے مبینہ پراپیگنڈامیگزین کے بانی رکن عبداللہ باسط (خطاب بھائی) کو بھارتی شہر حیدرآباد سے گرفتار کیا تھا۔

میگزین میں دعویٰ کیا گیا کہ کرنالا اور کرناٹیکا میں داعش کے تقریباََ 200جنگجو موجود ہیں۔ یہاں تک تو معاملہ تو کچھ سمجھ میں آتا ہے کہ بھارت نے ایسے خطرناک دہشت گرد کو سزا کیوں نہیں دی، غنی انتظامیہ سے تبادلے کی کیا وجوہ تھی، کہیں اصل وجہ یہ تو نہ تھی کہ چونکہ مبینہ طور پر داعش کی تربیت کررہا ہے لہذا انہوں نے افغانی ہونے کے ناتے اس خطرناک شدت پسند کو مناسب وقت کے لئے جیل میں رکھا، تصور کیا جاسکتا ہے کہ دوحہ معاہدے کے بعد غنی انتظامیہ اپنے اقتدار کو بچانے میں تگ ودو کررہی تھی اس لئے اُن کی توجہ حاصل نہ ہوسکی ہو، اسے ایک مضحکہ خیز تصور بھی سمجھنے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن توجہ طلب ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کابل میں ایسی ایسی جگہوں پر دہشت گردی کے واقعات ہوئے جہاں سیکورٹی انتہا ئی سخت تھی اور بقول شخصے پرندہ بھی پَر نہیں مار سکتا،

لیکن جب واقعے کے ذمے داری داعش خراساں قبول کرتے، تو سوال اٹھ جاتے کہ کیا یہ ملی بھگت ہے۔ داعش خراساں کے ساتھ گٹھ جوڑ کے معاملے کو سابق صدر حامد کرزئی کے غنی انتظامیہ اور امریکہ پر داعش کی سرپرستی کے مبینہ الزامات سے سمجھا جاسکتا ہے کہ اصل گیم کیاتھی اور اب اصل گیم کیا ہے، امریکہ جب افغانستان میں آیا تو بموں و بارود کی سونامی کے ساتھ کہ اتنی بارود سرزمین افغانستان میں استعمال ہوا کہ جنگ عظیم اوّل و دوم میں بھی نہیں ہوا تھا اور جب واپسی کے آخری دنوں میں کابل شہر میں 13بے گناہ انسانوں، جن میں سات معصوم بچے بھی شامل تھے،

داعش کے جنگجو قرار دے کر ہلاک کردیئے، ان میں ایک ایسا شخص بھی تھا جو ان کا پرائیوٹ کنٹریکٹر رہ چکا تھا، امریکہ نے اپنی غلطی کی معافی مانگ لی لیکن وہ یہ عمل وہ افغانستان میں کئی بار دوہرا چکا ہے اور سیکڑوں انسانوں کی جان لینے کے بعد ایسے انسانی غلطی قرار دے چکا لیکن عالمی برداری کو پوچھنا ہوگاکہ امریکی ڈھونگڈرون حملہ کی حقیقت کیا تھی جس میں کابل ائیر پورٹ کا ماسٹر مائنڈ اپنی ساتھی سمیت مارا گیا، یہ فلمی اسٹوری سنا کر دنیا کو بے وقوف بنانے کا سلسلہ کب تک جاری رہے گا، پھر کابل میں 13 انسانوں کی جان لی گئی، سات معصوم بچے موت کو گلے لگا بیٹھے،

ان سے یہ بھی پوچھا جائے کہ وہ کون سے راکٹ حملے تھے جو ائیر پورٹ پر فائر ہوئے اور ان کے ڈیفنس سسٹم نے ناکام بنادیئے۔امریکہ سے سلامتی کونسل، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اور حواری کبھی با زپرس نہیں کرسکتے کیونکہ وہ امریکہ کی پھینکی ہوئی ہڈی پر پل رہے ہیں، امریکہ عالمی اداروں کو صرف اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتا ہے اور بھارت میں داعش کے ٹھکانوں و ترتیب پر خاموشی کا واضح مطلب عراق و شام کی طرح ایسے جنگجوؤں کو پالنا ہے جنہیں بقول حامد کرزئی مبینہ طور پر اسلحہ مہیا اور فنڈنگ کرکے اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا جاسکے، کیمیائی ہتھیاروں کے نام پر عراق میں فوجی کشی اور شام میں چشم پوشی کرنے والا امریکہ و ان کے حواری مقبوضہ کشمیر میں ہندو انتہا پسند سرکار کی جانب سے معصوم کشمیریوں پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے شواہد ملنے کے باوجود بھی خاموش ہیں تو اس سے سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں کہ امریکی مفادات کو ہندو انتہا پسند، آر ایس ایس کے فاشٹ پیروکاروں کی سہولت کاری سے حاصل کیا جاسکے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
52646

داد بیداد ۔ معذرت؟ ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

نیو زی لینڈ کی کر کٹ ٹیم نے پا کستان میں اپنی سیریز عین وقت پر منسوخ کر کے واپس وطن لو ٹنے کے بعد معذرت کی ہے اور اس فیصلے سے پا کستان کو جو دکھ ہوا اس پرمعا فی ما نگی ہے ایک روز پہلے امریکہ نے کا بل میں ڈرون حملہ کر کے بے گنا ہ شہریوں کو مار نے پر معذرت کی تھی اس طرح کی معذرت سے معذرت کی مٹی پلید ہو جا تی ہے معذرت کی بھی حد ہو تی ہے .

کوئی وقت ہو تا ہے ہر جگہ،ہر وقت، ہر بات پر معذرت نہیں ہو تی کوئی ایسی معذرت کو قبول کر ے بھی تو ہم ایسی معذرت کو معذرت کر نے والے کے منہ پر دے مارتے ہیں یہ کیا بات ہوئی تم نے دن دیہا ڑے سورج کی روشنی میں ایک جر م کیا اور جرم بھی ایسا جس کی نہ معافی ہے نہ تلا فی ہے اگلے روز تم نے کہا میں اس پر معذرت خواہ ہوں نہیں عالی جاہ! ایسا نہیں ہو تا اگر نیو زی لینڈ کی ٹیم میچ کے دوران امپا ئر یا کھلا ڑی سے بد تمیزی کرتی تو معذرت قبول ہوتی،

اگر امریکی محکمہ دفاع کی گاڑی غلطی سے کسی بلی،کتے یا گیدڑ کو کچل دیتی تو معذرت قبول کی جا سکتی تھی لیکن یہاں کیا ہوا؟ تین ماہ پہلے پا ک نیو زی لینڈ سیریز کا اعلا ن ہوا نیو زی لینڈ کی سیکیورٹی ٹیم پا کستان آگئی سیکیورٹی ٹیم پا کستان میں رہی روزمرہ حالات کا جا ئزہ لیکر اپنے ملک کو رپورٹ بھیجتی رہی تسلی بخش رپورٹوں کے بعد نیوزی لینڈ کی کر کٹ ٹیم پا کستان آگئی راولپنڈی کر کٹ سٹیڈیم میں میچ کے لئے ٹکٹیں جاری کی گئی ہزاروں شائقین کر کٹ نے ٹکٹ خرید لئے میچ کے دن دور دور سے لو گ را ولپنڈی پہنچ گئے میچ کے لئے گھنٹے گنے جا نے لگے لیکن میچ میں دو گھنٹے رہتے تھے.

نیو زی لینڈ کی ٹیم نے کسی اوباش نو جوان کی طرح میچ کو منسوخ کر کے دورہ پا کستان سے ہاتھ کھینچ کر وطن واپس جا نے کا اعلا ن کیا دو بئی سے چارٹر طیارہ منگوا یا اور وطن واپسی کے لئے ائیر پورٹ کا راستہ لے لیا حا لانکہ یہ میچ کے لئے سیٹیڈیم آنے کا وقت تھا اتنی غیر سنجیدہ حرکت کوئی بھی ملک نہیں کرتا کوئی کر کٹ بورڈ نہیں کرتا کوئی بھی کر کٹ ٹیم نہیں کر تی شائقین کر کٹ کا جو نقصان ہو ا وہ ایسا نقصان ہے جس کی تلا فی نہیں ہو سکتی.

پا کستان نے بحیثیت ملک جو نقصان اٹھا یا اُس کا حساب کوئی نہیں دے سکتا پا کستان کر کٹ بورڈ کا جو نقصان ہوا اُس کا ازالہ کوئی نہیں کر سکتاتم کہتے ہو ”معذرت خواہ ہوں“ سوری اس طرح نہیں ہو تا امریکہ بہادر نے ایک دن اعلا ن کیا کہ داعش کا بل میں امریکی شہریوں کو نشا نہ بنا نے والی ہے دوسرے دن امریکی حکام نے کا بل ائیر پورٹ کے قریب ایک گاڑی پر ڈرون حملہ کیا حملے کے بعد فخر کے ساتھ اعلا ن ہو ا کہ پینٹا گان نے داعش کے خطرنا ک دہشت گرد وں کو ڈرون حملے میں مار دیا ہے

ایک ہفتہ بعد تما م ذرائع سے اس بات کی تصدیق ہوئی کہ ڈرون حملہ ایک رضا کار انجینئر کی گاڑی پر ہوا تھا حملے میں رضا کار انجینئر کے ہمراہ 8دیگر بے گنا ہ شہری عورتیں اور بچے شہید ہو گئے تھے 12دیگر لو گ زحمی ہوئے تھے رپورٹروں کی خبروں پر تحقیق اور تفتیش ہوئی روس، فرانس، چین اور بر طا نیہ کے حکا م نے اس بات کی تصدیق میں بیا نا ت دیئے کہ امریکہ بہادر نے داعش کو نشا نہ نہیں بنا یا بے گنا ہ شہریوں اور مخلوق کی خد مت کرنے والے رضا کاروں پر ڈرون حملہ کیا تھا بین الاقوامی سطح پر شر مندگی اور بے عزتی کے بعد امریکہ کی سینٹرل کما نڈ اور پنیٹاگان کے حکا م نے بیا ن جاری کیا کہ داعش کے دہشت گردوں کی مو جو د گی کی اطلا ع ملی تھی جس پر ڈرون حملہ ہوا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ اطلا ع غلط تھی اس لئے ہم معذرت خواہ ہیں شاعر نے 100باتوں

کی ایک بات کہی ہے ؎
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہو نا


مگر یہ شعر بھی اس معذرت کے بخیے ادھیڑ نے کا کا م نہیں دیتا امریکی حکام نے جفا سے تو بہ نہیں کی صرف بے گنا ہ شہریوں کے نا حق قتل پر معذرت کی ہے اور معذرت کا یہ مو قع محل نہیں نا ک رگڑ نے سے شہید وں کا لہو معاف نہیں ہو تا جو دنیا سے گذر گئے وہ واپس نہیں آسکتے ”سوری“ کہنے کا یہ انداز ہمیں با لکل پسند نہیں کسی کی جا ن گئی تیری ادا ٹھہری نیو زی لینڈ کی کر کٹ ٹیم، ان کے کر کٹ بورڈ اور ان کی وزیر اعظم کو ہم نے لا کھ سمجھا یا کہ سیکیورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں ”بس آپ نے گھبر ا نا نہیں ہے“ مگر وہ گھبر اہٹ کا شکا ر ہوئے اس گھبراہٹ کا مدا وا معذرت سے نہیں ہو گا کر کٹ کے بین الاقوامی فورم پر ہر جا نہ ادا کر نا ہوگا ہر جا نہ دینے کے بعد بیشک معذرت کریں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
52644

اصول پسندی – تحریر: صوفی محمد

ایک ویڈیو دیکھ رہا تھا کہ ایک والد اپنی بچی سے کہتا ہے کہ بیٹی کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی نہ کرنا اگر جانے انجانے میں کوئی زیادتی ہوگئ  تو سوری کرنا اور  معافی مانگنا۔ پھر والد بچی کو زیادتی اور ناانصافووں کے کچھ چھوٹے چھوٹے  مثالیں بتاتا ہے۔ مثلا آپ کسی کا مذاق نہ اڑائے، کسی کو گالی نہ دینا، کوئ ایسی بات نہ کرناجس سے کسی کو تکلیف ہوتی ہو، نہ کسی پر طنز،حسد، بدسلوکی کرنا اور نہ کوئی ایسی شرارت کرنا جس سے کسی کو نقصان ہوتی ہو وغیرہ وغیرہ ۔

پھر والد بچی کو لیکر  مارکیٹ جاتا ہے وہاں ایک صاحب اس بچی کو دھکا دیتا ہے ۔ بچی اپنے والد سے کہتی ہے پاپا آپ نے  تو کہا تھا کہ کسی کے ساتھ زیادتی، ناانصافی  نہ کرنا اگر ایسا ہوجائے تو فورا ًسوری کرنا ۔ اس نے مجھے دھکا دی ہے۔ کیا اب اسے نہیں  چاہئے کہ مجھ سے سوری کرے؟۔ والد اک لمحہ  سوچنے کے بعد اس شخض سے کہتا ہے کہ صاحب آپ میرے بچی کو دھکا مارا ہے اور وہ سمجھتی کہ اپ اس کے ساتھ زیادتی کی ہے۔  وہ بازد ہے کہ آپ اسے سوری کرے۔ وہ شخض نہیں مانے کو تیار نہیں ہوتا ہے کہ اتنی چھوٹی سی بات پر ایک بچی سے سوری کرے۔ والد کہتا ہے بات چھوٹی بڑی کی نہیں ہے بات اصول کی ہے  آپ سے غلطی ہوئی ہے اسلئے  اصولا اپکو اس سے سوری بھی کہنا چاہئے۔ وہ ماننے کو تیار نہیں ہوتا ہے مگر والد اسرار کرتا ہے جناب میری بچی اسے سیریس لیتی ہے اور وہ تربیت کے مراحل میں ہے۔ آپ مہربانی کرے۔  وہ شخض بچی سے سوری کہتا ہے اور بچی ،کوئ بات نہیں ،  کہہ کر مسکراتی ہوئی چلی جاتی ہے۔


اس کہانی کو خاصی اہمت  اس لئے دیا جاتا ہے کہ ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے اصول پسند، تہذیب یافتہ اور اپنی غلطیاں تسلیم کرنے والا والا بنے اور زندگی بہتر سلیقے گزارے اور ان سے یہی توقع رکھتے ہیں ۔سوال یہ ہے کیا ہمارے تمنا، خواہشات، توقعات سے انکے زندگیاں بدل سکتے ہیں  تو جواب ہے نہیں  ۔ بلکہ وہ جو دیکھتے اور سیکھتے ہیں وہی اپناتے ہیں ۔ ایسے چھوٹے چھوٹے واقعات سے زندگی کے ڈنگ سکھتے  ہیں ۔ جو واقعات رونما ہوتے ہیں  اور بڑے ان واقعات کو جس اندازہ  سےڈیل کرتے ہیں انہیں  چن چن کر زندگی کے تجربات حاصل کرتے ہیں ۔ پھر ان تجربات کی روشنی میں  اپنے زندگی گزار نے کی کوشش کرتے ہیں ۔ 


ہمارے معاشرے میں کچھ ایسے پیچیدگیاں ہیں جو لوگوں کے خاص کرکے کے بچوں کے ذہنوں میں منفی اثرات چھوڑتے ہیں  ۔ جیساکہ ہم بچوں کو بڑوں کی عزت و احترام کی تلقین کرتے ہیں ۔ مگر عزت و احترام کے اصول نہیں بتاتے  ۔ اس کے حدودات نہیں سیکھاتے ہیں۔ جانے انجانے میں ہم بچوں کو  بے اصولی کی درس دیتے ہیں۔ بڑوں سے زیادتیاں اور ظلم برداشت کرنے کی ہنر سکھا تے ہیں  جیسا کہ وہ کمزور کا مزاق اڑاسکتا ہے ، ان سے اپنا ہر کام کرواسکتا ہے، انہیں ڈرا دھمکا سکتا ہے، دوسروں کے سامنے انسلٹ کرسکتا نہ وہ معافی مانگے گا نہ اس ایسا کرنے کی ضرورت ہے وغیرہ وغیرہ ۔ یہ کہاں لکھا ہے کہ بڑوں سے غلطیاں نہیں ہوتے ہیں۔ وہ بچوں سے سوری کیوں نہیں کرسکتا۔ ایسے بے ڈنگی اصولوں کی  وجہ سے اصول پسندی کے بجائے قدامت پرست بن جاتے ہیں ۔


ہم سکول میں تھے تو ایک شخض راستے میں کتا باندھا کرتا تھا اور اس کتے کی ڈر سے  ہم راستہ چھوڑ کر بڑی مشکل سے سکول پہنچتے تھے۔  احترام کی وجہ سے نہ کوئ اس سے کہہ سکتا تھا نہ خود اس کو یہ احساس تھا کسی کو میرے وجہ سے تکلیف ہوتی ہے ۔ ہم اپنے مشکلات کسی کو بتا بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ جب ہم  والدین اور استاد  وغیرہ سے شکایت کرتے تو وہ کہتےتھے ہم بچوں کیلئے لڑ تو نہیں سکتے۔یہ ہم عام سنتے تھے کہ وہ تم سے بڑا ہے ایک تھپڑ مار سکتا ہے  ، وہ بڑا ہے ضرور تم نے غلطی کی ہوگی، تمہارے پیچھے کتے بھگایا تو کیا ہوا کتا تمہیں کاٹا تو نہیں نا، وہ مزاق کیا ہوگا۔ وغیرہ وغیرہ ایسے ایسے دلیلین دیکر ہمیں چپ کراتے تھے ۔  اور ہم چپ چاپ بے اصول بڑوں کے برتریاں تسلیم کرتے تھے۔بڑوں کی عزت و احترام کرنا اور بات ہے انکے زیادتیاں سہنا اور بات ہے ۔ اپ کسی کی عزت و احترام کرتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپ کو نشت سے اٹھا کر باہر پھنکب دیں یا لوگوں کے سامنے اپ کے تذلل کرے ۔  ہر روز ہم ایسے چھوٹے بڑے کام کرتے ہیں جو کسی نہ کسی کے ساتھ زیادتی اور ظلم کے زمرے میں آتے ہیں  ۔ مگر نہ ہم کھبی کسی سے سوری کرتے ہیں  اور نہ ایسے چھوٹے باتوں پر ہمیں کوئی شرمندگی محسوس ہوتی ہے ۔ 


بچوں کو ہم جو معاشرہ آج دیتے ہیں کل وہ اپنے معاشرے کو بھی اسی طرز سے تشکیل دیتے ہیں ۔ ہمارے ہر عمل اور بات بچوں کے آئندہ زندگی کیلئے  بہت اہم ہوتی ہے ۔ معاشرے میں اپنی غلطی تسلیم کرنے کی عادت کو عام کرنا چاہیے سب کے ساتھ یکساں سلوک کرنا چاہئیے۔  بگڑتی ہوئی معاشرتی نظام کے بس منظر ایسے چھوٹے بڑے کتاہیوں کو نظرانداز کر نے کی وجہ ہے۔ ایسا کوئ کرامت ہونے والا ہے نہیں کہ ایک چٹکی سے معاشرتی نظام بحال ہوجائے ۔ اس کیلئے ہمیں ہی نکالنا پڑے گا۔  بہتر معاشرتی اصولوں کو اپنانا پڑے گا پھر اپنے بچوں کو سکھا نا چاہئے ۔ بچے بھی وہی سکھتے  جو وہ عمل ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔ 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
52640

بین الاقوامی امن؛ – از:ڈاکٹر ساجد خاکوانی

                بسم اللہ الرحمن الرحیم

بین الاقوامی امن؛

سیکولرازم کے خونین وانسانیت دشمن ہاتھوں سے چکناچورہواعالم انسانیت کاایک خواب

(International Day of Peace)

(21ستمبر،اقوام متحدہ کے عالمی یوم امن کے موقع پر خصوصی تحریر(

از:ڈاکٹر ساجد خاکوانی(اسلا آباد،پاکستان(

                امن و امان اس کائنات کی ریت اور اس عالم کی سنت ہے۔پوری کائنات ایک منظم وجکڑے ہوئے نظام کے تحت مکمل امن و سکون سے متحرک ہے،کائنات کے کل اجسام ایک مقررضابطے کے پابند ہیں اور اپنے اپنے طے شدہ وقت کے مطابق طلوع و غروب اور نمودار و پس پردہ آتے جاتے رہتے ہیں۔پوری کائنات میں کوئی بگاڑ دیکھنے کو نہیں ملتا،سورۃ ملک میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ  الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا مَا تَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ہَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍ(۷۶:۳) ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِءًا وَّ ہُوَ حَسِیْرٌ(۷۶:۴)ترجمہ:”جس اللہ تعالی نے تہہ بہ تہہ سات آسمان بنائے تم رحمان کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہ پاؤ گے،پھر پلٹ کر دیکھوکہیں تمہیں کوئی خلل نظر آتاہے؟؟؟بار بار نگاہ دوڑاؤ تمہاری نگاہ تھک کرنامراد پلٹ آئے گی“۔ اس نظام کے تمام کل پرزے اپنے ذمے لگائے گئے کام سے مکمل آگاہی کے بعد کسی تردد و انتشار کے بغیراپنے مناصب و ذمہ داریوں سے ایک تسلسل کے ساتھ نبردآزما ہوتے چلے جارہے ہیں۔کل کائنات میں بے شمار تضادات کے باوجود کسی طرح کا ٹکراؤ ناپید ہے اورکائنات کے کل اجزا اپنے متضاد سے ایک طرح کی مصالحت کیے ہوئے نظر آتے ہیں،روشنی اور اندھیرا،مشرق اور مغرب،قوت کشش اور قوت دفع،بہت بڑے بڑے اجسام اور بہت چھوٹے چھوٹے جرثومے،ہریالی و خشک سالی اورنہ جانے ان گنت تضادات ہیں جومل کر اس کائنات کے امن و سکون کو پروان چڑھائے چلے جارہے ہیں۔

                انسان کی جائے قرار،اس سیارہ زمین پر بے شمار دیگر مخلوقات بھی اپنا عرصہ حیات پوراکرنے میں مگن ہیں۔ان مخلوقات میں بھی امن و آشتی اور ایک نظم مسلسل نظر آتا ہے،اگرچہ انسان کے پیمانوں کے مطابق دیگرمخلوقات کے ہاں کچھ بگاڑ دیکھنے کو ملتاہے لیکن بنظر غائر مشاہدہ سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ وہ بگاڑ بھی دراصل زمین کی انتظامیات میں توازن کے قیام کا منبہ و مظہرہے۔قدرت کے پیمانے انسان کی پیمائش سے یک گونہ مختلف پائے گئے ہیں،پس بظاہرنظرآنے والا بگاڑ و انتشار دراصل امن الارض کے بقاکا ضامن ہے اور اب تو مشاہدہ برمبنی انسانی تحقیقات بھی اس رازتک پہنچ چکی ہیں۔پھر جانوروں کی فطرت پر بنی کتنی ہی کہانیاں انسانوں کے بنیادی اخلاق کے دروس میں ممدومعاون ہیں اور بہت ہی اوائل عمری میں بچوں کواس طرح کی کہاوتیں سناکر انہیں زندگی کی حقیقتوں سے روشناس کرایا جاتا ہے۔پس کل کائنات کی طرح س زمین پر بھی غیرانسانی مخلوقات ایک امن کی حامل زندگی گزاررہی ہیں اور ان کی زندگی میں بھی صدیوں سے ایک تسلسل و قراراور توازن پیہم کارفرماہے۔یہ امن وآشتی ان مخلوقات کی زندگیوں کو ایک باضابطہ اور بامقصدحیات کا عنوان عطاکرتے ہیں جس کے باعث کوئی مخلوق تو زمین پر ہواؤں کی مقدارکو متوازن رکھتی ہے تو کوئی مخلوق پانیوں کو قابل استعمال بناتی ہے تو کچھ زندہ جرثومے سطح آب پر آلودگی کو کناروں پر دھکیلنے کافریضہ سرانجام دیتے ہیں اوراگر نباتات پر نظر ڈالی جائے توانسانی دسترس نے قدرت کے بنے توازن کواگر برقرارکھاہے توکچھ حاصل بھی کیاہے بصورت دیگر انسان نے اس توازن کو بگاڑ کر کتنے ہی نقصان اٹھائے ہیں اور اپنی نسلوں کو ہی زہر آلود کر ڈالاہے،تو یہ نوشتہ دیوار ہے جو چاہے پڑھ لے۔

                کل کائنات اور کرہ ارض کی دیگر مخلوقات کے علی الرغم انسان کی زندگی میں بگاڑوانتشارکانہ ختم ہونے والا ایک تسلسل ہے جو ہابیل کے قتل سے آج تک نہ صرف یہ کہ رکنے کانام ہی نہیں لے رہا بلکہ بڑھتاہی چلاجارہاہے۔وقت کے ساتھ ساتھ انسان کے ارتقاء میں جہاں جہاں جتنا جتنا اضافہ ہوتاہے تباہی و بربادی میں بھی اسی نسبت سے یا اس سے بھی زیادہ بڑھوتری میں ہوتی چلی جاتی ہے اور یہ زمین ظلم سے بھرتی چلی جارہی ہے۔زمین کے داخلی اور خارجی ماحول کاانسان کے ساتھ آخر کہاں ٹکراؤ ہے کہ جس کے نتائج ایک دوسرے کے بالکل برعکس نظر آنے لگے ہیں؟؟؟اس کا صاف،واضع اور بہت ہی سادہ سا جواب ہے کہ باقی مخلوقات اپنے مالک کے حکم سے سرموچوں و چرانہیں کرتیں اور اپنے ذمے لگے ہوئے کام کو تندہی سے اداکرتی ہیں اور امن و آشتی کے ساتھ رہتی ہیں جبکہ انسان کے ساتھ معاملہ یکسر مختلف ہے۔حضرت انسان کی زندگی میں امن کے نابود ہونے کی واحد وجہ ہی یہی ہے کہ اس نے اپنے مقام کو فراموش کر کے تو اپنے مالک کامقام حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اور عبد کی بجائے معبودبن بیٹھاہے جس کے نتیجے میں انتشار،بگاڑاور ظلم و تعدی نے انسانی بستیوں میں گھرکر لیاہے اور امن عالم ایک سراب بن کر رہ گیاہے۔قرآن مجید نے ہر نبی کے مقابلے میں ایک فرعون کے کردارکو پیش کیاہے اور جس طرح آج تک انبیاء علیھم السلام کی تعلیمات موجود اور ان کے جانشین متحرک ہیں اسی طرح آج تک فرعون کاکردار بھی موجود ومتحرک ہے اور قرآن نے اس کردارپر سورۃ بقرہ میں تبصرہ کیاہے:وَ اِذَا تَوَلَّی سَعٰی فِی الْاَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیْہَا وَ یُہْلِکَ الْحَرْثَ وَ النَّسْلَ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَ (۲:۵۰۲)(ترجمہ:جب اسے اقتدارحاصل ہوجاتاہے توزمین میں اس کی ساری دوڑدوپ اس لیے ہوتی ہے کہ فسادپھیلائے،کھیتوں کوغارت کرے اور نسل انسانی کو تباہ کرے حالانکہ اللہ تعالی فساد کو ہر گزپسندنہیں کرتا)۔

                آج کا سیکولرازم بھی ماضی کے فرعون کا کردار اداکررہاہے جس کے بارے میں قرآن مجید نے سینکڑوں سال قبل یہ حقیقت طشت ازبام کر دی تھی کہ وَ اِذَا قِیْلَ لَہُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ قَالُوْٓا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ(۲:۱۱) اَلآَ اِنَّہُمْ ہُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَ لٰکِنْ لَّا یَشْعُرُوْنَ(۲:۲۱)ترجمہ:”جب کبھی ان سے کہاگیا کہ زمین میں فساد برپانہ کرو تو انہں نے یہی کہاکہ ”ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں“۔۔۔خبردارحقیقت میں یہی لوگ فسادی ہیں مگرانہیں شعور نہیں ہے“۔سیکولرازم کے آغاز سے آج تک انسانوں کے بیوپاری اور خون کی ہولی کھیلنے والوں کی زبان پر انسانیت کے دعوے اور امن عالم کی قراردادیں اس آیت کی حقانیت پردال ہیں۔پوری دنیاپر پر غلامی مسلط کرنے والا،حبشی انسانوں کی منڈیاں لگانے والا،جمہوریت کے نام پر غداروں کا پروردہ،دنیابھر سے نوادرات لوٹ کر اپنے عجائب گھروں کی زینت بنانے والا،غریب اقوام عالم پر سود جیسی لعنت کو مسلط کرنے والا،فرد کاطوق غلامی قوموں کی گردنوں میں ڈالنے والااور دو بڑی بڑی جنگوں کی تباہی کے بعد اسلحے کی بدترین دوڑ لگانے والاایٹم بم،نیوٹران بم اور ہائڈروجن بم کا حامل سیکولرازم آ ج کل انسانیت کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے عالمی یوم امن منانے چلا ہے۔

گزشتہ صدی کے آغاز اور وسط اول میں پہلی جنگ عظیم کے دوران دو کروڑ انسان لقمہ اجل بنے،تین کروڑ زخمی ہوئے اور چار کروڑ لاپتہ ہوگئے،دوسری جنگ عظیم کے دوران تین کروڑ انسان موت کی وادی میں دھکیل دیے گئے،چار کروڑ زخمی ہوئے اور پانچ کروڑ نفوس انسانی کا آج تک کوئی پتہ نہ چل سکااور املاک کی تباہی اورکل زمین پر کاروبار زندگی کی تباہیوں بربادیوں کا تو تو کوئی تخمینہ ہی نہیں اور ان جنگوں کاایک مقصد برطانیہ نے بیان کیا کہ چھوٹے ملکوں کی آزادی مطلوب تھی اور بس۔سیکولرازم کی ”خدمات انسانی“میں لاکھوں قتل سے کم کاتو کوئی ہندسہ ہی نہیں،انقلاب فرانس ہو یا روسی بالشویک انقلاب یاہندوستان سمیت کسی بھی کل نوآبادیات میں آزادی کی تحریکوں کو کچلنے کے اعدادوشمار ہوں یا پھر اس سیکولرازم کے ہاتھوں بنی پردہ اسکرین پر دکھائی جانے والی فلمیں ہوں،سوائے تباہی و بربادی اور قتل و غارت گری کے انسانیت کویہاں سے کچھ بھی میسر نہیں آیا۔

                اس کے مقابلے میں محسن انسانیت ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں کل اٹھارہ جنگوں میں حصہ لیاجو اپنی حیثیت میں مکمل طور پر دفاعی نوعیت کی حامل تھیں اور غزوات و سرایا جن کی کل تعداد اکیاسی(81)ہے ان میں مسلمان اور غیر مسلم کل مقتولین کی تعداد1018ہے،اس کے بعد کم و بیش ایک ہزار سالوں تک مسلمانوں نے تاشرق و غرب پوری دنیاپر حکومت کی ہے،یہ ایک ہزار سالہ دور امن کے حوالے سے انسانیت کا اثاثہ عظیم ہے۔اس پورے دورانیے میں بڑی قوموں نے چھوٹی قوموں پر تہذیبی،تعلیمی،دفاعی یا معاشی غلامی مسلط نہیں کی۔ہرقوم اپنی زبان بولتی تھی اور اپنا مقامی یا قومی لباس پہنتی تھی،ایک ہزار سال طویل دورانیے میں کہیں عرب یا غیرعرب حکمرانوں نے اپنی تہذیب و ثقافت کو عجمی مسلمانوں پر یا غیرمسلموں پر مسلط نہیں کیا۔اس طویل ترین دورانیے میں کوئی جنگ عظیم نہیں ہوئی،اقتدار کی تبدیلی کے لیے اس دوران آسمان نے کہیں لاکھوں انسانوں کے خون سے مستعار انقلابات کی خونین تاریخ رقم نہیں کی،اسلحے کی دوڑاور سود کی نحوست سے اس دورانیے کا مورخ نابلد ہے،ان ایک ہزار سالوں میں حقوق جمہوریت کے نام پر کہیں بھی انسانی طبقوں کو باہم دست و گریبان نہیں دیکھاگیابلکہ اسلامی تہذیب نے فرائض کے نام پر معاشرے کے کل طبقات کو باہم جمع کر دیا۔پس امن عالم کا خواب آج بھی انہیں تعلیمات سے ممکن ہے جو خاتم النبیین ﷺنے پیش کیں اور ان پر عمل کر کے بھی دکھایا،خطبہ حجۃ الوداع وہ قیمتی ترین دستاویز ہے جس کے الفاظ سلسبیل اور کوثرجیسے چشمہ ہائے فردوس کے پانیوں سے گویا لکھے گئے گئے ہیں،اس دستاویزکو ہی منشور انسانیت بنانے سے امن عالم کاخواب شرمندہ تعبیر ہوپائے گا،انشاء اللہ تعالی۔

اس کرہ ارض پر امن کی منزل کے حصول کے لیے مسلمانوں کوایک بارپھر بیدارہوناہوگا۔لفظ”اسلام“کامادہ ”سلم“سے ہے یعنی سلامتی اور امن۔عالم انسانیت نے تمام ترتجربات کر کے دیکھ لیے ہیں۔معاشی خوشحالی کے نعرے پر کیمونزم یااشتراکیت نے انسانیت کے سینے پر کم و بیش پون صدی راج کیا۔کمیونزم کے نعروں میں انسانوں کی معاشی خوشحالی کی نوید عیاں تھی۔گزشتہ صدی کے آغاز میں جب کمیونزم نے دنیائے آدمیت پر اپنے خونین پنجے گاڑے تو بڑے بڑے صاحب ایمان بھی اس نونہال نعروں کے فریب میں بہتے چلے گئے۔کتنے ہی صاحب علم و دانش اور حامل علوم وحی تھے یا پھر میدان قلم کے شہسوارتھے جنہوں نے کمیونزم کے نعروں کو قرین قیاس سمجھ کر انسانیت کانجات دہندہ قراردیا اور اس نظریہ کے حاشیہ برداررہے۔لیکن گزشتہ صدی کے آخرمیں جب USSRٹکڑے ٹکرے ہوااورماسکو کے سب سے بڑے چوک”لینن گراڈ“پر لینن کا بلندوبالا مجسمے کو کرین سے اٹھا کر انتہائی بلندی پر لے جایا گیا اور اسے نیچے گراکر پاش پاش کردیا گیاتو حقیقت کھل گئی کہ سترسالوں تک روس کے باسیوں پر کس قدر حبس طاری کیے رکھاتھا،معاشی خوشحالی کے نعروں نے تاریخ کی بدترین معاشی بدحالی مسلط کیے رکھی اور آجراوراجیر کافرق ختم کرنے کادعوی کرنے والی قیادت نے اپنی فوجی کاروائیوں سے پڑوسی ممالک تک کو غلامی کے بدترین جال میں پھانس رکھاتھا۔دنیامیں معاشی خوشحالی سے امن قائم کرنے کا خواب چکناچورہو گیااور انسانیت کوسرد جنگ کے بھیانک نتائج کی شکل میں بہت بڑی قیمت چکانی پڑی۔

                ”جمہوریت“کے ذریعے امن عالم کاقیام ایک اورناکام ترین تجربہ ہے جس پر قرآن مجید نے بہت پہلے اپنا فیصلہ کن تبصرہ ثبت کردیاتھا کہ ”وَ اِنْ تُطِعْ اَکْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضَ یُضِلُّوْکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ ہُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ(۶:۶۱۱)“ترجمہ:”اوراے محمدﷺاگرآپ  زمین میں بسنے والے لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلے تووہ اللہ تعالی کے راستے سے آپ بھٹکادیں گے (کیونکہ)وہ تومحض گمان پرچلتے ہیں اورقیاس آرائیاں کرتے ہیں“۔ جمہوریت کے نام پر بڑی قوموں نے چھوٹی قوموں کوآزادی کاڈھونگ رچاکے غلام بنانے کادھندا رچارکھاہے۔جمہوریت کے ذریعے چھوٹی قوموں میں سستی قیمت پر غدارمیسرآجاتے ہیں۔ان سستے غداروں کی اکثریتی تعداداکثریت کے نام پر اقلیت کے فیصلے اپنی قوموں پرمسلط کرکے دشمنوں سے اپنی قیمت وصول کرلیتے ہیں۔جب ”امن عالم“کے نام پر کسی ملک کی زمین پر قبضہ کرنا مقصود ہوتاہے تو اس ملک کی پارلیمان کے ذریعے بڑی قومیں اپنی افواج کے دخول کاراستہ ہموارکر لیتی ہیں۔

جب ایساممکن نہ ہو تو اقوام متحدہ کی ”اکثریت“اس مکروہ مقاصد کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔اسی جمہوریت کے ذریعے انسانی عالمی اخلاق کی منڈی لگائی جاتی ہے اور بڑی ہی مختصرسی پونجی کے عوض صدیوں کے قائم کردہ انسانی اقدار بدل دیے جاتے ہیں۔”عالمی امن“قائم کرنے کے لیے جمہوریت کے ذریعے اپنے وطن کادفاع کرنے والے دہشت گرد بنادیے جاتے ہیں،اور یہی جمہوریت بڑی قوموں کی افواج کو امن کاٹھیکیداربناکر دوسرے ملکوں میں داخل کردیتی ہے اوراسے امن قائم کرنے کے لیے اجازت بھی دے دیتی ہے کہ وہاں کی آبادیوں،باراتوں،جنازوں اور تعلیمی اداروں پر ”قیام امن“کے لیے زیادہ سے زیادہ بمباری کرے اور انسانی قتل کے ذریعے کشتوں کے پشتے لگائے۔پھراسی جمہوریت نے بڑی طاقتوں کواجازت دے رکھی ہے کہ عالمی امن کی خاطر دوسرے ملکوں میں اپنے خفیہ اداروں کے ذریعے دہشت گردی کے اڈے کھولیں اور آئے روز بم دھماکوں اور قتل و غارت گری کے ذریعے حکومتوں کو استعمارکی مرضی کے منصوبے نافذکرنے پر مجبورکریں۔اگرعوام میں ایسی خونی جمہوریت کے خلاف کوئی آواز بلندہوتوپھرجمہوریت ایک ”مقدس گائے“بن جاتی ہے اورسستے غداران وطن کے بیانات برائے فروخت میڈیاکے ذریعے عوام کوذہنی بیمارکرنے کے لیے باربارنشرکیے جاتے ہیں۔سستے غداروں پر مشتمل مفلوج وبے عقل اور مصنوعی قیادت جوکسی حساس و سنگین وعظیم قومی تقاضوں پر کبھی بھی جمع نہیں ہوپاتی،وہ اپنے بیرونی آقاؤں کی آشیربادپر ”جمہوریت“کے تسلسل پر سوفیصدمتفق ہوکر پوری قوم سے برسرپیکارنظرآتی ہے۔

                عالمی امن صرف اسلام کے پیش کردہ سیاسی نظام میں ہی مضمرہے۔قرآن مجیدنے خلافت ارضی کے عنوان سے باراقتدارکوجوتصور امانت دیاہے اور اس کے بعد جوابدہی کے عقیدے نے جس طرح انسان کے اندر احساس ذمہ داری پیداکیاہے وہ صرف وحی الہی کو ہی سزاوارہے۔انسانی عقل اس طرح کے تصورات پیش کرنے میں کلیتاََ ناکام ثابت ہوئی ہے۔جب بھی کسی انسانی عقل نے انسانوں کے لیے قانون سازی کی کوشش کی ہے اس نے اپنی ذات یااپنے خاندان یااپنے قبیلہ اوریاپھراپنی قوم،رنگ،نسل یاعلاقہ کے لیے خصوصی مراعات رکھی ہیں۔یہ برہمنی وشائلاکی فکر کبھی بھی اس دنیامیں امن قائم نہیں کرسکتی۔دنیائے امن کا خواب کسی فقیرمنش صاحب ایمان گروہ کے ذریعے ہی ممکن ہوسکتاہے جسے دنیاکی باگ دوڑ تھمادی جائے اوروہ خلفائے راشدین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قربانی دینے میں سب سے آگے ہوں اور بدلہ لیتے وقت صرف اللہ تعالی کی ذات سے توقع رکھیں۔تکلفات وتعیشات کے مارے ہوئے کمشن خوراور”بیک ڈورڈپلومیسی“کے خوگراور خفیہ اداروں کی ترجیحات کو جمہوری اداروں کے ذریعے نافذکرنے والے حکمران قبیلہ بنی آدم میں بھیڑیوں کاکرداراداکررہے ہیں اوران سے امن عالم کی توقع لگانے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔حقیقت وہی ہے کہ نبی مکرم ﷺکا آخری خطبہ ہی امن عالم کا ضامن ہے۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
52637

”مختصر تاریخ زبان و ادب کھوار“ایک شاندار تصنیف ۔ حافظ نصیر اللہ منصور چترالی

پروفیسر مولانا نقیب اللہ رازی صاحب کا قلم روان دوان ہے وہ اب تک مختلف اہم موضوعات پرکئی کتابیں اور مقالات لکھ چکے ہیں ان کی کتابیں پورے پاکستان میں بڑی دلچسپی کے ساتھ پڑھے جاتے ہیں۔ان کی شخصیت علوم دینی کے ساتھ علوم عصری سے بھی آراستہ ہے۔ وہ ایک عالم دین محقق ہیں اور کئی زبانوں میں مہارت رکھتے ہیں اس پر مستزاد یہ کہ وہ فعال و متحرک لکھاری ہیں۔میرے انتہائی مشفق اور قابل فخر دوست ہیں ان کی نابغہ روزگار تصنیف”مختصر تاریخ زبان و ادب کھوار“انتہائی شدتِ انتظار کے بعد آج میرے ہاتھ میں ہے۔

مولانا صاحب کی محنت اور تبحر علمی کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا لیکن اس شاندار کتاب کو کمپائل کرکے چترال اور اہل چترال پر احسان عظیم کیا ہے۔کھوار ہماری مادری زبان ہے سب کا جواب ”ہاں“ میں ہوگا۔اس زبان کے ذریعے ہم اپنے مافی الضمیر کو بیان کرتے ہیں اور یہ ہی ہماری ہر قسم کی ترجمانی اور راہنمائی کرتی ہے بلکہ ہماری پہچان ہے۔لیکن ہم نے اس کے لئے کچھ نہیں کیا ہم نہیں جانتے کہ یہ زبان کتنی فصاحتوں اور بلاغتوں کا مجموعہ ہے۔ مولانا رازیؔ صاحب نے وہ کام کر دکھایا جو خطے میں بسنے والے ہر اہل علم کے عملی کاوشوں کا تقاضا تھا کھوار زبان وادب میں اس طرح بہترین کتاب کا ہمیں اور ہماری نسلوں کو صدیوں انتظار رہتا۔کتاب کا انداز و اسلوب سادہ او ر عام فہم ہونے کی وجہ سے قاری کو اپنی طرف کھینچ کر لاتی ہے۔

ایک مرتبہ پڑھنا شروع کرلے تو سمیٹنے یا وقفہ لینے کو بھی دل نہیں چاہتا۔پیش نظر کتاب اپنے ناظرین کے دل میں انھیں تمام احساسات کو ابھارتی ہے اوران تمام حقائق کو دل میں اتارتی چلی جاتی ہے لیکن کتاب کا اسلوب یہ نہیں ہے کہ صرف جذبات ابھاردے اس میں اپنی دعوی کے ثبوت میں ٹھوس علمی حقائق سے کام لیا گیا ہے۔ تاریخی واقعات اور اس عصر کے ماحول و متعلقات ایسے منصفانہ طریقہ پر پیش کئے گئے ہیں جس میں مصنف کی روشن دماغی صاف جھلکتی ہے پھر فیصلہ واقعیت و صداقت اور قلب و ضمیر کی بصیرت کے سپرد کیا گیا ہے جس کی وجہ سے کتاب کے مباحث کی تمام کڑیاں مربوط اور ایک دوسرے سے پیوست نظر آتی ہیں اور کہیں بھی کسی مسئلہ میں مقدمات سے نتائچ اخذ کرنے میں غیر واقفیت یا تکلف کا ثبوت نہیں ملتا یہ اس کتاب کی اولین خصوصیت ہے۔

کتاب کے ذیل میں پہلا باب کھو اور کھوار کی بحث انتہائی دلچسپ ہے پندرہ ابواب پر منقسم یہ شاندار تصنیف چار سو تہتر صفحات پر مشتمل ہے جس میں کھواور کھوار،کے باب کے ضمن میں چترال کا محل وقوع،چترال کا اصل نام،کھوقوم اور کھوار زبان پر مفصل گفتگو کی ہے۔کھوار کا صوتی نظام،کھوار ادب کے لسانی اسلوب،کھوار پر اثر انداز ہونے والے عوامل،کھوار رسم الخط اور املا،کھوار ادب کا ارتقائی دور، اس باب میں فاضل مصنف نے کھوار پر کئے گئے ابتدائی پروگراموں کا ذکر کیا ہے۔کھوار زبان کی ادبی صلاحتیں اور خصوصیات،کھوار زبان و ادب پر تحقیقی کام،کھوار زبان و ادب پر اردو میں کئے گئے کا موں جائزہ،کھوار اصناف شاعری،کھوار شعرائے قدیم،کھوار شاعری کا ارتقاء،کھوار شاعری میں خواتین کا حصہ،کھوار شاعری اور کلاسیکی موسیقی، کھوار اصناف نثر کا ارتقائی پس منظر،کھوار کے حوالے سے ان تمام مباحث پر سیر حاصل گفتگو کر نا کسی عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے ایسے اہم کاموں کا طرہ امتیازدور حاضر میں مولانا رازی، ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی،پروفیسر اسرار الدین اور شہزادہ تنویر الملک تنویر ؔجیسے تبحر علم شخصیات سے ہی توقع کیا جا سکتی ہے۔

ان تینوں حضرات نے ہیت تاریخ چترال اور کھوار زبان و ادب کو تاریخ عالم کا حصہ بنا دیا ہے۔ ان حضرات کی کوششوں سے کھوار کے حوالے سے ایسے مواد سامنے آئے جنہیں معاشرے اور کھو قوم کو ضرورت تھی ورنہ ہم آج بھی اپنی ضرورت کے مطابق انگریزوں کی تختیوں کے لائبریریوں میں متلاشی تھے۔ رازیؔ صاحب کی مرہون منت ہم اپنی زبان کی صوتی تغیرات اور حرکاتی تغیرات اور صوتی تخفیفات پر گفتگو کر سکتے ہیں ویسے تو رازیؔ صاحب ان چنیدہ صاحبان دانش میں سے ہیں جس کا مطالعہ متنوع او روسیع ہے وسعت مطالعہ اور تفکر سے وسعت نظری پیدا ہوتی ہے مولانا رازیؔ ایک وسیع النظر عالم دین ہیں عربی دانی میں کمال کی مہارت رکھتے ہیں۔تاریخ کا مطالعہ ان کا معمول رہاہے مطالعہ تاریخ او رزبان و ادب کے علاوہ مولانا نے مزید جدید موضوعات پر بھی قلم اٹھایا ہے جن میں ”عرف کی شرعی حیثیت“ بھی مولانا کی اہم خدمات میں سے ہے۔

محبت رسول سے لبریز مولانا کی صدارتی انعام یافتہ تصنیف”آقائے نامدار“ہر قاری کے دل ودماغ میں عشق رسول بٹھا دیتی ہے۔بہر حال اس عنوان پر ان کی محنت اور دلائل کا جمع کرنا ان کے ذوق مطالعہ کی عکاسی کرتا ہے اس قسم کے علوم کو اکھٹا کر نا ہر دو ر میں مقتدر اور اہل علم اور جید علماء کرام کا وطیرہ رہا ہے یہ کتاب اہل علم اور طلباء کرام کے لئے ایک نادر تخفہ ہے مولانا رازیؔ صاحب نے عظیم کام سر انجام دیا ہے۔ چترال کی تاریخی پس منظر میں مرزا غفران جیسے عظیم لوگوں کی صف میں ان کو یاد رکھا جائے گا،میں نے اس کتاب کا اجمالی مطالعہ کیا ہے ۔

مولانا نے چترال کی تاریخ اور کھوار زبان و ادب کے اہم پہلوں کو بہت خوبی سے اس کتاب میں جمع فرمایا ہے اور ہر ہر اعتبار سے فاضلانہ مباحث ترتیب دی ہے اس موضوع پر کام کرنے کے لئے متعلقہ عملی صورت حال کو بھی احسن طریقے سے پیش نظر رکھا ہے۔فاضل مصنف نے انتہائی بالغ نظری سے تاریخ کا مطالعہ کیا ہے اور تحقیقی امور پر انتہائی دقیق نظری سے بحث کی ہے مجھے امید ہے کہ آنے والی نسلوں، تحقیقی اداروں، اسکالروں اور مقالہ نگاروں کے لئے نہایت مفید ثابت ہوگی اس کتاب سے تحقیق کے نئے دروازے کھلیں گے۔  ان کی شب وروز کی مصروفیات و جدوجہد کو دیکھتے ہوئے ان سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ مستقبل میں بھی اسی مستعدی کے ساتھ مذکورہ تمام کاموں کو جاری رکھیں گے میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالی ان سے مزید دینی،اصلاحی، ادبی اور تاریخی کام لے  اور ان کے فیوض و برکات سے میرے جیسے ہزاروں مستفید ہوں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
52622

بزمِ درویش ۔ بے لگام آزادی ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

ٹی و ی سکرین پرچلنے والی خبر اور تصویریں دیکھ کر میں کھانا کھاتے کھاتے رک گیا تیز بھوک چند نوالوں سے ہی اڑ گئی طبیعت بوجھل اور اداس سی ہو گئی دل و دماغ کو شل کرنے والی خبر نے میری حالت غیر کر دی ظاہر باطن پر اداسی غم کے اثرات اترتے چلے گئے اداسی پریشانی غم کی شدت اس قدر بڑھی کہ ٹی وی آف کر کے اٹھ کر باہر کھلے آسمان تلے آکر لمبے لمبے سانس لینے لگا خبر کی تفصیلات نوک دار خنجر کی طرح میرے رگ و پے کو کاٹ رہی تھیں کہ کوئی انسان کس قدر گر سکتا ہے کہ انسانیت درندے کا روپ دھار کر شیطان کو بھی شرمندہ کر دے میں بار بار اپنے دل و دماغ کو واقعہ کی جزیات سے ہٹا کر اِدھر ادھر کی سوچو ں میں مصروف کر نا چاہ رہا تھا لیکن دماغ بار بار اُسی واقعے میں الجھ رہا تھا بارہ سالہ معصوم ذہنی طور پر معذور بچی کا چہرہ بار بار میری سوچوں میں آکر بچھو کی طرح کاٹ رہا تھا .

خبر کے مطابق بارہ سے چودہ سالہ معصوم ذہنی معذور بچی پر جنسی درندے کی بار بار درندگی کہ وہ بیچاری حاملہ ہو گئی ذہنی معصوم بارہ سالہ بچی جس کو اپنی خبر نہیں جو قدرت کا معصوم پھول ہوتی ہے سمجھ شعور عقل و فہم سے عاری قدرت کا معصوم پھول کس طرح جنسی درندے نے معصوم پھول کو درندگی کا نشانہ بنایا رہا توبہ میری روح بار بار کٹ رہی تھی کہ کوئی انسان اِس قدر گھٹیا درندہ عفریت بن سکتا ہے کہ معصوم معذور بچی جس کو اپنی خبر نہیں ہو ش نہیں کس طرح شیطانی درندے نے اُس کی پامالی کی یہ واقعہ تو میڈیا پر آنے کی وجہ سے لوگوں کو پتہ چل گیا اِس ملک میں پتہ نہیں کہاں کہاں کیسے کیسے جنسی درندے اِس طرح کی حرکات کرتے ہیں بیچارے متاثرہ خاندان اپنی عزت کو بچانے کے لیے خاموش ہو جاتے ہیں آپ زینب کیس سے لے کر بے شمارکیسوں کا اگر مطالعہ کریں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ کس طرح انسان دوسال سے دس سال کی معصوم بچیوں کو ٹافیوں کھلونوں کا لالچ دے کر اپنی جنسی درندگی کا شکار کر تے ہیں.

اِن جنسی درندوں کے واقعات سن کر نارمل انسان عقل و شعور کھو دیتا ہے کہ کس طرح نازل پھول جیسی بچیوں کو بانجھ بنجر معاشرے کے جنسی درندے مسلتے ہیں پھر اِن بچیوں کو بے رحمی سے موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں حیران کن ہو شر با دلوں کو چیرنے والے حقائق یہ بھی سامنے آتے ہیں کہ ایسے جنسی درندے ایک بار ایسے شیطانی درندگی کا مظاہرہ نہیں کرتے بلکہ نفسیاتی مادی مجرم بن کر بار بار ایسے جنسی واقعات کا موجب بنتے ہیں ایسے جنسی درندے معاشرے میں شرافت نیکی کا لبادہ اوڑھ کر کتنے آرام سے معصوم بچیوں کا شکار کرتے ہیں اور پھر کتنے مہینوں سالوں تک اس درندگی کو جاری رکھتے ہیں عام انسان اگر کوئی غلطی گناہ کرے تو اُس کا ضمیر جاگ جاتا ہے اور وہ پھر ساری زندگی عرق ندامت میں غرق رہ کر اپنے گناہ کی تلافی کی کو شش کرتا ہے ایک گناہ ساری زندگی اُس کو ندامت کی آگ جھلساتا رہتا ہے.

لیکن یہ جنسی درندوں کی کونسی نسل ہے یہ عفریت نما جنسی جانور کہاں سے آگئے ہیں کہ مسلسل جنسی درندگی کتنے آرام سے شرافت کا لبادہ اوڑھ کر کئے جاتے ہیں پچھلے چند مہینوں سے جنسی بے راہ روی درندگی اِس قدر بڑھ گئی ہے کہ وطن عزیز کا کونہ کونہ اِس آگ سے جھلس رہا ہے اسلام آباد میں عثمان مرزا پھر ظاہر جعفر نے جس طرح جنسی آزادی شیطانیت کے ریکارڈ توڑ کے شیطان بھی سر چھپا کر بیٹھ گیا ہو گا کہ کس طرح دونوں جنسی درندوں نے ڈھٹائی جرات اور پاگل پن کے مظاہرے کئے پھر سڑک پر رکشہ میں سوار شریف زادیوں پر آوارہ قماش جوانوں کے حملے اور جنسی دست انگیزی اور پھر مینار پاکستان پر سینکڑوں جوانوں نے بے شرمی شیطانیت کے سارے ریکارڈ ہی توڑ دئیے مختلف پارکوں میں لڑکیوں پر جنسی حملے چھیڑ خانی تنگ کر نے کے واقعات کی فصل سے اُگ آئی ہے آپ اخبار اٹھائیں میڈیا کو دیکھ لیں یا پھر ٹی وی چینل کو آن کرلیں بے لگام جنسی درندوں کی یلغار آ پ کو ہرطرف نظر آئے گی یہ جنسی بے لگام آزادنسل کسی بھی خوف سے طاری کس طرح دھڑلے سے خواتین پر حملہ آور نظر آتے ہیں اور پھر سردیواروں میں مارنے کو دل آتا ہے کہ اِن کی جنسی درندگی معصوم معذور بچیوں تک کو پامال کر تی نظر آتی ہے۔

ایک واقعے سے وطن عزیز کے لوگ ابھی سنبھلتے نہیں کہ اُس سے زیادہ خطرناک خوفناک واقعہ اورسامنے آجاتاہے کہ عقل و شعور دماغ شل ہو کر رہ جاتا ہے ابھی عوام اُس حادثے سے نہیں نکلتے کہ پچھلے واقعہ سے زیادہ ہولناک واقعہ سامنے آجاتا ہے یہاں تک کے پے در پے ایسے جنسی واقعات نے عوام انسانوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے کہ یہ جنسی درندوں کی فوج کہاں سے ملک پر حملہ آور ہو گئی ہے جس کو کوئی خوف ڈر نہیں یہ آزاد بے لگام جنسی جانوروں کا ریوڑ ہے جو دیہات اور شہروں پر حملہ آور ہو گیا ہے اور درندگی کے ریکارڈ پر ریکارڈ توڑے جا رہے ہیں آپ پاکستان کا کوئی گاؤں شہر علاقہ دیکھ لیں ہر جگہ آپ کو یہ جانوروں کا ریوڑ نظر آئے گا جو بے لگامی سے اپنی ناپاک شیطانی خواہشات کی تکمیل میں لگا ہوا ہے اب وہ وقت آگیا ہے جب معاشرے اور ریاست کو اپنا کردار ادا کر نا ہوگا والدین اور معاشرے کو ایسے جنسی درندوں کی اصلاح کر نا چاہیے۔

ریاست کو کڑی سزائیں دینی چاہیں تاکہ یہ جانوروں کا ریوڑ جو ہر جگہ پر حملہ آور ہے اِس کو کنڑول کیا جاسکے تربیت اصلاح کا عمل ہر گھر سے ہونا چاہیے دوسروں کی بہو بیٹیوں کو اپنی بیٹیاں ہونے کا سبق دینا ہو گا اور تربیت کرنی ہو گی پھر ریاست نظام عدل کو اتنا مربوط طاقت ور برق رفتار بنائے کہ ایسے جنسی درندوں کو سلاخوں کے پیچھے بند کیا جاسکے اگر والدین معاشرے اور ریاست نے اپنا اپنا کردار ادا نہ کیا تو جنسی درندوں کی بے لگامی اِس قدر بڑھ جائے گی کہ پھر کوئی ماں بہن بیٹی گھر سے نہیں جائے گی ہر گلی محلے گاؤں شہر میں ان درندوں کی حکومت ہو گی فوری اِن بے لگام جانوروں کو لگام ڈالنی ہو گی۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
52620

کامیابی کے لئے اچھے نمبر نہیں چایئے! – تحریر: نورالہدیٰ یفتالیٰ

یہ قطا ضروری نہیں کہ کامیابی کے لئے آپ کو اچھے نمبروں سے پاس ہونا چایئے،یہ بھی ضروری نہیں کہ آپ کو اچھے نمبر لینے کے لئے فرنٹ بنچ پر بٹھنا ہوگا،اچھے نمبر لینا  اتنا ضروری نہیں جتنا   اس کامیابی کو  برقرار رکھنا   ہے،اچھے نمبر تو ہر کوئی لے سکتا ہے۔یا   کامیاب ہونے کے لئے ڈگری  ہی کافی نہیں ہے،ہم  کامیابی کے لئے صرف اچھے نمبروں کو ترجیح  دیتے ہیں،ہم تعلیم بھی صرف روز معاش کے لئے  حاصل  کرتے ہیں،کامیابی کے  لئے اچھے نمبر یا    تعلیم  ہی حاصل کر نا ضروری نہیں بلکہ زندگی میں  اچھے معیار   پروفشنل  ،ٹیکنکل    ہونا چاہیے،اور زندگی کے ان فن  کو سیکھنا ہو گا، جو موجودہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔تاکہ ہم  موجودہ وقت کے ساتھ چل سکیں۔

کامیابی کے لیے خاموشی سے آگے  بڑھنا ہوگا، تسلسل کے ساتھ محنت کرنا ہوگی، کامیابی  کے لئے کامیاب سوچ کی ضرورت ہوگی،دنیا کی ہر چیز اپنے وقت پر ہوتا ہے۔ دنیا کی کامیاب ترین  افراد کی زندگی پر نظر ڈالی جائے، وہ اپنے زندگی کے ابتدائی  دور میں ناکام رہے ہیں،ان کی یہ ناکامی  ان کی  شاندار کامیابی کی پہلی  سیڑھی  ثابت ہوئی،اس ناکامی  کو سامنے رکھ کر  ان  لوگوں نے منصوبہ بندی کی اور شاندار تایخ رقم کی۔ وہ اچھے نمبر تو نہیں لے سکے لیکن   دنیا  کی اچھے نمبر لینے والے ان  کی زیر نگرانی  روز معاش کما رہے ہیں۔

ایک طوطے کی مانند زندگی  مت جیئو،لوگوں کو خوش رکھنے کے لئے   بولتا رہتا ہے اور اس میں خوش ہے،اگر کامیاب بننا چاہتے ہیں تو شاہین کی زندگی جیئو ،شاہین کو دیکھنے کے لئے آپکو سر اٹھانا ہو گا، آسمان کی طرف دیکھنا ہو گا۔ایک شاہین آسمان کا سینہ چھیڑ کر بلند  فضاوں میں پرواز کرتا ہے،شاہین اتنی بلندی میں  جا کر بھی شور نہیں مچاتا، اس میں اتنی  ہمت اور حوصلہ ہوتی ہے ،وہ طوفانوں سے نہیں ڈرتا، جب ہوایئں تیز اور   طوفانی بارش ہوتی ہے ۔سب پرندے چھپ جاتے ہیں ،ایک شاہین ہی تو ہے وہ  ان تیز ہواوں اور طوفان کا مقابلہ کرتی  ہے۔ان تیز  ہواوں اور طوفانی موسم میں شاہین  جذباتی ہوتا ہے اور طوفا ن کی سمت اڑان بھرتی ہے کیونکہ وہ شاہین ہے اسے مشکل وقت  کامقابلہ کر نا آتا ہے، وہ اکیلے ہی اڑان بھرتا  ہے،اسے کسی دوسرے کی سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی۔آخر شاہین میں اتنی  ہمت اور حوصلہ کہاں سے آتا ہے کہ وہ   پرندوں کی دنیا  کا راجہ کہلاتا ہے۔

وہ بلندی پر اکیلے ہی   اڑتا ہے   ،اس کی سوچ  اس کی پرواز کی مانند  اونچا ہے وہ  ناکامی سے نہیں ڈرتا، وہ ایک وقت میں ایک ہی چیز پر  دہیاں دیتا ہے ایک  ٹارگیٹ کو فوکس کرتا ہے جب تک وہ اس ٹارگیٹ کو حاصل نہ کرے سکوں نہیں پاتا،وہ بلند فضاوں میں رہ کر  خاموشی سے   دیکھتا ہے ، یہ  فضاوں میں اڑان ، طوفانوں کا مقابلہ   تیز بارش میں  یخ  ہواوں کا مقابلہ یہ سب اس کی محنت کا نتیجہ  ہے ،تب جا کے وہ  پرندوں کا راجہ کہلاتا ہے۔کیونکہ زندگی  مسلسل جدوجہد کا نام ہے،جب اس دنیا  میں ہیں آپ کو جینا ہوگا آپ کو مقابلہ کرنا ہوگا، آپ کو شاہین بننا ہوگا۔

حوصلہ افزائی کرنےوالے بن جاو اس معاشرے میں پہلے ہی دلشکنی کرنےوالوں کی کوئی کمی نہیں، عظیم ہیں وہ لوگ جو   کامیابی اور ناکامی کو  برداشت کرتے ہیں،اور اپنے معاشرے میں اپنے محلے میں اپنوں کا خیال رکھتے ہیں۔تحمل  اور برداشت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
52616

دھڑکنوں کی زبان – پہاڑوں کا شہزادہ – محمد جاوید حیات


ہائی سکول بمبوریت کے گراونڈ میں ولی بال کا میچ ہو رہا تھا ہمارے مخالف ٹیم مضبوط تھی۔باہر سے ایک مہمان نے کھیلنے کی خواہش ظاہر کی۔مخالف ٹیم نے کہا ہم مضبوط ہیں تمہیں کھیلا نہیں سکتے ہم نے کہا مہمان ہے ہم ان کو کھیلائیں گے ہم نے اس کو کھیلنے کی دعوت دی مسکرا کرقبول کیا اور کنارے میں ایک سایڈ پہ کھڑا رہا۔ظالم نے چپل پہن رکھا تھا۔۔مہمان تھا ہم کیسے کہتے بھائی چپل پہن کرکھیلا نہیں کرتے۔۔مہمان کا قدکاٹھ کھلاڑیوں کاتھا۔چریرابدن،ہنستامسکراتاچہرہ،نرم لہجہ،لمبوتراقد،،مخالف ٹیم نے زور جمائی۔nine…love..ہائے اللہ اب ہم ہارینگے بُری طرح شکست کھائیں گے۔۔

اس سمے مہمان نے کہا ذرا سروس مجھے پکڑوا دو۔گراونڈ سے ذرا پرے ہٹ کر بال اوپر اچھالا اور خود بھی چھلانگ لگا کر بال کو مارا مخالف ٹیم پر ہیبت طاری ہو گئی کوئی بھی بال اٹھا کر نہیں کھیل سکتا تھا۔ ہر سروس پائنٹ پہ تھا مسلسل نو سروس بال نو پائنٹ۔۔لو nine each.. اس نے سروس چھوڑ دیا تماشائی چیخ رہے تھے۔ہم نے ایک دوسرے کے کان میں کہا۔۔۔

پشاور میں کسی کلب کا کھیلاڑی ہو گا۔۔واقعی ایسا تھا۔نام ذوہیب اللہ تھا۔۔اپر دیر سے تعلق تھا پشاور میں ایک نامی گرامی کلب کا کھیلاڑی تھا۔کلب میں نام ذہیب جان تھا واقعی کھیل کی جان تھا۔۔ذوہیب نے پشاور یونیورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کیا۔سرحد یونیورسٹی سے sports science میں ماسٹر کیا۔۔پشاور ڈایریکٹریٹ ٹوریسٹ سروس جائن کیا سب انسپکٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ولی بال اس کا ٹیلنٹ اور Identity ہے۔ولی بال اس سے سجتی ہے۔صوبہ خیبر پختونخواہ صلاحیتوں کے لحاظ سے بھر پور ہے کوئی بھی میدان ہو اس کے جوان اپنا لوہا منواتے ہیں۔

ذوہیب کا تعلق دیر اپر سے ہے اس لیے میں اس کو پہاڑوں کا شہزادہ کہتا ہوں۔ اس نے ولی بال سکول سے سیکھی اساتذہ نے حوصلہ دیا تو گاؤں سے سیکھی پھر کالج اور یونیورسٹی کی سطح پہ کھیلا اور نام پایا۔ذوہیب ہمارے ساتھ دو دن رہے سارا گاؤں ان کا کھیل دیکھنے امڈ آیا۔ سوال ٹیلنٹ کا ہے اگر ذوہیب کسی دوسرے ملک میں ہوتا تو قیمتی ترین کھیلاڑی ہوتا۔۔بڑے بڑے کلب اس کو افر کرتے کروڑوں کماتے لیکن یہاں پہ ٹیلنٹ کی قدر نہیں۔۔ہنر ہنرور کے ساتھ مر جاتا ہے۔ذوہیب اس علاقے میں اپنا نشان چھوڑ گیا اس کا اخلاق اس کا نرم رویہ اس کا ٹیلنٹ سب نمایان تھے۔وہ قوم کا ایک ایسا فرزند ہے جو بقول اقبال قبیلے کی آنکھ کا تارا ہے۔

اس سے ملنا اس کو جانچ پرکھنا اس کی صلاحیتوں کو اُجاگر کرکے پھیلانا ہمارا فرض بنتا ہے کیونکہ موتی سیپی کے اندر جب تک ہے اس کی قدر کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ذوہیب کے ہنر کی قدر ہونی چاہیے۔اور اس کو موقع فراہم کرنا چاہیے کہ وہ ٹیلنٹ (ہنر) دوسروں تک منتقل کرے۔ذوہیب بہت دلکش شخصیت کے مالک ہیں صرف دو دن میں ہم سب سے ایسے گل مل گئے کہ سب اس کو یاد کرتے ہیں۔ایسی کرشماتی شخصیت کے لوگ کم کم ملتے ہیں۔

ان کی وجہ سے اس کے ڈیپارٹمنٹ کی عزت افزائی ہوئی کہ یہ ڈیپارٹمنٹ ایسے ہیروں کو پالتا ہے۔ذوہیب ایسے اردو بولتے تھے کہ ہمیں اردو سے پیار آیا۔لوگوں سے ایسے ملتے تھے ہمیں اس کے اخلاق پہ حیرانگی ہوئی۔یہ لوگ مثل موتی ہوتے ہیں اور ہر کہیں اپنے ادارے اپنے علاقے اپنے قبیلے اور اپنی اور ملک کے سفیر ہوتے ہیں۔ذوپیب جان کے جانے کے بعد سب نے اس کو بہت مس کیا۔سب نے اس کا پوچھا۔اس گراونڈ میں ولی بال اب بھی کھیلا جا تا ہے لیکن ذوہیب جان نہیں البتہ ان کے نام کی لاج سے ہم ولی بال کھیلتے رہیں گے۔۔ذویب جان کو ہم یاد کرتے ہیں۔اللہ اس کو خوش رکھے۔۔۔۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
52614

جدید معاشرے میں ڈیجیٹل تربیت کی اہمیت – پروفیسر عبدالشکورشاہ

کیا آپ کا بچہ محفوظ ہے؟ اولاد کے معاملے میں والدین بہت حساس ہو تے ہیں۔ یونیسیف کی ایک مصدقہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں 3میں سے 1بچہ انٹرنیٹ کی تباہ کاریوں کا شکار ہو رہا ہے۔ بلخصوص نوجوان کو اس ڈیجیٹل لہر میں بہت زیادہ خطرات کا سامنا ہے۔موجودہ نسل ڈیجیٹل دور میں پروان چڑھنے والی پہلی نسل ہے۔ ڈیجیٹل مشینیں جیسا کہ موبائل،کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ وغیرہ زندگی کا ایک اہم جزو بن چکے ہیں۔اس ضمن میں والدین کی ڈیجیٹل ذمہ داری اور تربیت کی اہمیت کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ ڈیجیٹل تربیت کا مطلب صرف بچوں کو مختلف اشیاء کا استعمال سکھانا یا مہیا کرنا ہی نہیں بلکہ انہیں ان مشینوں کا درست استعمال سکھانے کے ساتھ خود بھی سیکھنا شامل ہے تاکہ والدین بچوں کی ڈیجیٹل تربیت میں مثبت کردار ادا کر سکیں۔

ٹیکنالوجی کے استعمال سے لاعلم  والدین کسی صورت بھی اپنے بچوں کو انٹرنیٹ کے منفی استعمال سے نہیں روک سکتے۔ موجودہ دور میں تربیت کا پرانا طریقہ جدید طرز پر منتقل ہو چکا ہے۔ والدین کو اپنے بچوں کی بہترین تربیت کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال، کنڑول، انتظام اور تحفظ سے متعلق مہارتیں سیکھنی ہو ں گی۔ دنیا بھر میں کل آبادی کا 71%آن لائن رہتا ہے، 56%ویب سائٹس انگریزی میں دستیاب ہیں جو انگریزی نہ جاننے والوں کی مذہبی، ثقافتی، زبانی اور اخلاقی اقدار کے یکسر منافی ہیں اور انہیں متعلقہ مواد کی تلاش میں سخت مصائب کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔ 12سال سے کم عمر کے 71%والدین کو اپنے بچوں کے بے تحاشہ موبائل وغیرہ کے استعمال پر شدید تشویش ہے جن میں سے 31%اس حوالے سے ہیجانی کیفیت کا شکارہ ہیں تاہم 39%والدین ٹیکنالوجی کے استعمال کے حوالے سے مطمئن ہیں اور 45%اپنے بچوں کو موبائل، کمپیوٹر اور لیپ ٹا پ وغیرہ کے استعمال کے لیے مخصوص وقت دیتے،ان کی نگرانی کر تے اور بہتر استعما ل کے مشوروں کی حوصلہ افزائی بھی کر تے ہیں۔

11سال سے کم عمر کے 61%والدین ڈیجیٹل کے استعمال کے حوالے سے صرف پیشہ وارانہ ماہرین سے مشاورت کو ترجیح دیتے، 55%دوسرے والدین سے مشاورت کو ترجیح دیتے جبکہ 45%اس ضمن میں اساتذہ سے مدد لیتے۔ والدین بچوں کی نشوونما میں کمی کی وجہ سمارٹ فونز کو قرار دیتے ہیں اور ان کے دیرپا مضمرات کی وجہ سے بہت پریشان ہیں۔ 71%والدین کا ماننا ہے کہ سمارٹ فون کے بے تحاشہ استعمال فائدے سے کہیں زیادہ نقصان دہ ہے۔80%والدین کاکہنا ہے کہ ان کا 5سے11سال کا بچہ کبھی کبھار فون استعمال کر تا ہے، 63% نے یہی رائے سمارٹ فونز کے بارے دی جبکہ 5سال سے کم عمر کے بچوں کے والدین کی رائے بلترتیب48%اور 55%رہی۔ 11سال سے کم عمر کے بچوں کے محض36%والدین نے کہا کے ان کے بچے کبھی کبھار وائس ایکٹیویٹڈ مدد سے موبائل استعمال کر تے ہیں جیسا کہ ایپل سیری یا امازون الیکسا۔ 5سال سے 11سال عمر کے بچوں کے 46%والدین میں بچوں کے ڈیجیٹل استعمال سے متعلق تحفظات ہیں جبکہ 3سے4سال کی عمر میں یہ شرح 30%ہے اور 3سال سے کم یہ شرح14%رہ جاتی ہے۔

56%والدین اپنے بچوں سے کہیں زیادہ وقت اپنے موبائل فون کے ساتھ گزارتے ہیں اور 68%والدین بچوں اور خاندان کے ساتھ وقت گزارتے ہوئے فون کی طرف مگن ہو جاتے ہیں۔73%والدین کی نظر میں بچوں کو اپنا موبائل 12سال کی عمر کے بعد لیکر دینا چاہیے، سمارٹ فون کے حوالے سے 45%والدین کی رائے بھی یہی ہے جبکہ 28%والدین کے مطابق بچوں کو موبائل 15-17سال کی عمر کے درمیان لیکر دینا چاہیے۔صرف 22%والدین کے مطابق بچوں کو 12سال کی عمر سے پہلے موبائل لیکر دینا درست ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق70.55%والدین طلبہ کی جانب سے سکولزسے متعلق انٹرنیٹ کے استعمال کے بارے منفی جبکہ29.45%مثبت رائے کے رکھتے ہیں۔

اگرچہ تعلیمی اداروں میں طلبہ کے موبائل فونز کے استعمال پر پابندی ہے تاہم اس کے باوجود 9-11سال کی عمر کے 30%طلبہ تعلیمی اداروں میں موبائل فونز استعمال کر تے ہیں۔ دنیا بھر میں دیگر عدم مساوات کے برعکس ڈیجیٹل کے استعمال میں کوئی خاطر خواہ فرق دیکھنے میں نہیں ملتا۔ افریقہ میں 0.9%,جنوبی امریکہ کے کچھ حصوں میں 2.9%اٹلی میں 2.6%,،گاہنا میں 12%، فلپائن میں 21%، اور البانیہ میں 26%بچے انٹرنیٹ استعمال کر تے ہیں جبکہ اس کے برعکس جنوبی امریکہ اور یورپ کے دیگر حصوں میں انٹرنیٹ سے منسلک بچوں کی تعداد54-63%ہے۔مغربی ممالک میں والدین کے نصیحت آموز اور سمجھانے کے انداز کے برعکس مشرقی ممالک میں بچوں کو سمجھانے کے بجائے ان کے ساتھ سختی سے پیش آیا جاتا ہے اور ان پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔ اس سخت روئے، ڈانٹ اور پابندیوں کی بنیادی وجہ والدین یا نگران کے پاس ڈیجیٹل سکلز کی کمی ہے۔ تحکمانہ اور اجارہ دارانہ رویہ بچوں کی ڈیجیٹل اور تخلیقی صلاحیتوں کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔

جدید معاشرے میں والدین کے پاس ڈیجیٹل رہنمائی اور نگرانی کی مہارتوں اور علم کی کمی کی وجہ سے وہ بچوں پر سختی کرنے کا طریقہ اختیار کرتے جس کی وجہ سے بچے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال میں دوسرے بچوں سے کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ موجودہ ڈیجیٹل نسل کو مناسب مشاورت، رہنمائی تربیت اور نگرانی کی ضرورت ہے جیسا کہ والدین ڈیجیٹل دور سے پہلے یہ کام کیا کرتے تھے۔ اگر ہم تربیت کا وہی طریقہ ڈیجیٹل انداز میں اختیار کر لیں تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ ترقی پذیر یا کم ترقی تیافتہ ممالک کے بچوں کے ساتھ بیشتر مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ زیادہ تر بچے والدین میں سے کسی ایک یا دونوں کے بغیر اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رہتے ہیں۔اس کے نتیجے میں بچوں کی ڈیجیٹل مہارتیں ختم ہو کر رہ جاتی ہیں اور وہ ٹیکنالوجی کی محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کم ترقی یافتہ ممالک میں ٹیکنالوجی کی اس تقسیم اور عدم مساوات کو ختم یا کم کرنے کے لیے ادارے اتنے مضبوط نہیں ہیں۔ اوسطا والدین کی ڈیجیٹل مہارت اور معلومات 14سالہ بچے کے برابر یا اس سے قدرے کم ہے۔

بچے والدین کی عدم ڈیجیٹل مہارت اور معلومات کا فائد ہ اٹھاتے ہوئے انٹرنیٹ کا غیرضروری اور غیر متعلقہ استعما ل کر تے ہیں۔ مغربی ممالک میں بچے اپنے ساتھ ہونے والے تجربات اور واقعات کا تبادلہ والدین سے کر تے ہیں جبکہ مشرقی ممالک میں یہ رجحان انتہائی کم ہے۔ کچھ والدین بچوں کو مہارتوں اور ڈیجیٹل لرننگ کے لیے پیشہ وارانہ افراد کے ذمہ لگاتے ہیں مگر وہ تمام زرائع بھی کسی طرح قابل اعتماد اور قابل بھروسہ نہیں ہیں۔ 2007میں WHOنے والدین کی ڈیجیٹل تربیت اور مہارتوں کے لیے ایک فریم ورک ترتیب دیا تھا جس کو اختیار کر کے بچوں کی درست ڈیجیٹل رہنمائی کی جا سکتی ہے۔ دنیا بھر کے والدین میں سے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے والدین اپنے بچوں کے ڈیجیٹل استعمال کے بارے میں بہت زیادہ پریشان ہیں۔ اگرچہ مختلف فورمز، ڈیجیٹل کمپنیاں او ر ماہرین بھی رہنمائی کے لیے اپنی خدمات دے رہے ہیں تاہم والدین ان پر مکمل اعتماد کرنے سے گریزاں ہیں۔

24ممالک سے لیے گئے ڈیٹا کے مطابق97%حاملہ خواتین رہنمائی کے لیے انٹرنیٹ، 94% انٹر نیٹ سپلیمنٹ معلومات استعمال کرتی ہیں جبکہ 48.6%طبعی ماہرین سے نالاں اور غیر مطمئن دکھائی دیں کیونکہ یا تو ان کے پاس پیشہ وارانہ ماہرین کے سوالوں کے جوابات نہیں یا وقت کی شدید قلت ہے۔سال 2015میں ایپل نے رنگ ٹونز خواتین کی صحت سے متعلق سیٹ کیں تاہم انٹر نیٹ کا استعمال کر نے والی غیر سفید فارم، کم آمدنی والی اور انگریزی زبان میں مہارت نہ رکھنے والے افراد ڈیجیٹل دنیا کے وحشیانہ چکر میں پھنس جاتے ہیں۔ مختلف ایپس پر دی جانے والی رائے بھی جعلی ہوتی اور اکثر درج کچھ ہوتا اور جب استعمال کریں تو عملی طور پر ایپ اس کے برعکس ہوتا۔

ایپس انفرادی ڈیٹا چوری کرنے کے لیے بھی بدنام ہیں اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا جس کی سب سے بڑی وجہ ڈیجیٹل کرائم سے متعلق آگاہی کی کمی اور ٹھوس قوانین کی عدم موجودگی ہے۔ اکثر اوقات استعمال کرنے والا یا تو شرائط کو پڑھتا ہی نہیں اگر پڑھ بھی لے تو ڈیجیٹل معلومات کی کمی کی وجہ سے انہیں سمجھنے سے قاصر رہتا۔ ایک تحقیقی فرم کے مطابق آئیندہ سالوں میں بچوں سے متعلق ڈیجیٹل کی دنیا میں بہت تیزی سے اور بہت زیادہ ترقی دیکھنے کو ملے گی جس کی وجہ سے والدین کی پریشانی میں مزید اضافہ ہو گا۔ بچوں کے تحفظ سے متعلق والدین کا فلسفہ ڈیجیٹل تحفط مزید تقویت اختیار کرے گا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2010میں ایسٹونین کے محض 16%لوگ اپنے بچوں کے انٹرنیٹ استعمال کے بارے تکنیکی فکر مند ی کا شکارتھے2018میں یہ تعداد بڑھ کر 37%سے تجاوز کر چکی ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
52609

عظیم محدث: امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ۔ (13صفریوم وفات کے موقع پر خصوصی تحریر)۔ ڈاکٹر ساجد خاکوانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

                امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کا اصل نام ابو عبدالرحمن احمن بن شعیب ہے۔آپ چونکہ خراسان کے شہر”نساء“ میں پیدا ہوئے اس لیے اس نسبت سے آپ کو”نسائی“کہتے ہیں۔امت مسلمہ میں آپ کی پہچان ایک محدث کی ہے،آپ نے سنن نسائی کے نام سے صحیح احادیث کا ایک عظیم الشان مجموعہ ترتیب دیا۔آپ نے بڑی عرق ریزی سے قابل اعتماد احادیث نبویﷺکو جمع کیا،اس مقصد کے لیے آپ نے دوردراز کے سفر کیے  اوربہت تکالیف بھی برداشت کیں۔امت مسلمہ میں کل دس کتب احادیث کو سند کادرجہ حاصل ہے،چھ اہل سنت کے ہاں جنہیں صحاح ستہ کہاجاتا ہے جس کامطلب ”چھ صحیح کتابیں“ہے اور چار اہل تشیع کے ہاں جنہیں ”کتب اربعہ“کہاجاتا ہے یعنی ”چارکتابیں“۔امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کی سنن نسائی کاشمار صحاح ستہ میں ہوتاہے۔

                امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدئش 215ھ میں ہوئی،اس وقت”خراسان“ ممالک اسلامیہ کا بہت اہم صوبہ سمجھاجاتاتھا۔خراسان کا اسلامی تاریخ میں جہاں بہت اہم سیاسی کردارہے وہاں یہ علاقہ اپنی علمی کاوشوں میں بھی پیچھے نہیں رہا،امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ سمیت امت کے بہت وقیع بزرگ اس خطے سے تعلق رکھتے ہیں۔امام نسائی نے پندرہ سال کی عمر میں حدیث کاعم سیکھنا شروع کیا۔علم حدیث نبویﷺ کے حصول کے لیے آپ نے خراسان جیسے دوردراز علاقے سے حجاز،عراق،شام اور مصر جیسے ممالک تک کا سفر کیا۔اس زمانے میں علم کے حصول کے لیے سفر کرنا بہت ضروری خیال کیاجاتا تھا،کسی کو اس وقت تک اچھاعالم نہ سمجھاجاتا جب تک کہ وہ دوردرازکے سفر کر کے تو اچھے اچھے اور قابل اساتذہ فن سے حصول علم نہ کرآتا۔آپ کاآبائی وطن اگرچہ خراسان تھا لیکن آپ نے خدمت حدیث نبویﷺ کے لیے ہجرت کی اور مصر میں مستقل سکونت اختیارکرلی۔

                علمی دنیاکی یہ حسین روایت ہے کہ استاد اپنے شاگرد سے اور شاگرد اپنے استاد سے پہچانا جاتاہے۔گم نام اساتذہ کو انکاکوئی شاگرد روشن کردیتاہے اور نالائق طالب علم کسی استاد کی نسبت سے آسمان کا ستارہ بن جاتاہے۔لیکن علمی تاریخ انسانیت نے وہ دن بھی دیکھے کہ جب استاد اور شاگرد دونوں آسمان علم کے سورج چاند ستارے تھے۔حضرات قتیبہ بن سعید،اسحاق بن راہویہ،سلیمان بن اشعث جو امام ابو داؤد کے نام سے معروف ہیں اور ابوعبداللہ بن اسمائیل جنہیں ایک زمانہ امام بخاری کے نام سے پہچانتاہے اور سعید بن نصر،محمد بن غشار اور علی بن حجرجیسے نابغہ روزگار لوگوں امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے حصول علم کیا۔

                آپ سے اگرچہ ہزارہالوگوں نے سماع حدیث کیا یعنی حدیث کاعلم حاصل کیا۔آپ جب درس حدیث دیاکرتے تھے تو مساجد کے صحن میں جگہ کم پڑ جاتی تھی،مخلوق خدا امڈ امڈ کر آپ کے درس میں شرک سماع ہوتی۔نہ صرف قرب و جوار سے بلکہ دوردراز سے اور بہت اچھے اوراعلی دینی و دنیاوی مراتب کے لوگ آپ کے سامنے طالب علم بن کر بیٹھتے تھے۔تاہم تاریخ نے آپ کے جن شاگردوں کے نام اپنے سینے میں محفوظ کیے ہیں ان میں سے حافظ ابوقاسم اندلسی،علی بن ابوجعفرطحاوی،ابوبکربن حداد فقیہ،ابوالقاسم الطبرانی،حافظ ابوعلی نیشاپوری،ابوعلی حسن السیوطی اور الحسن العسکری لوگ قابل ذکرہیں،یہ اگرچہ اپنی اپنی جگہ مکمل دبستان علوم ورشدہیں لیکن امام نسائی کا شاگرد ہونا بھی انکے لیے قابل فخر امور میں شامل ہے۔

                دولت مندلوگ جس طرح اپنا سرمایا اپنی اولاد میں چھوڑ جاتے ہیں،اہل اقتدار جس طرح اپنی جاگیر اپنے وارثوں کے نام کر جاتے ہیں اسی طرح اہل علم لوگوں کی میراث انکی کتب اور انکی نصانیف ہوتی ہیں جو انکی روحانی اولاد اپنے سینے سے لگا  امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے اگرچہ بہت سی نصانیف چھوڑیں اور ان میں سب سے اہم سنن نسائی ہی ہے لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سی تصانیف آپ کا روشن سرمایا ہیں۔ان تصانیف میں سے خصائص علی رضی اللہ عنہ،المجتبی،مسندامام مالک ؒ،فضائل صحابہ رسول ﷺ،کتاب الجرح والتعدیل،اسماء الرواۃ اور مناسک حج زیادمشہور ہیں۔آپ چونکہ بنیادی طور پر محدث تھے اس لیے اسی میدان علم سے متعلق کتب و تصانیف ہی آپ کے قلم سے پھوٹنے والی روشنیاں ہیں۔

                امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ سرخ و سفید چہرے اوروجیہ شخصیت کے مالک تھے۔آپ کا دسترخوان انواع و اقسام کے کھانوں سے پر رہتاتھا۔خوش لباسی اور خوش خوراکی کے کئی قصے آپ سے منسوب ہیں۔اما م نسائی رحمۃ اللہ علیہ بھناہوا مرغ بہت شوق سے کھاتے تھے اور اس وقت کے مروج بہت اچھے اچھے مشروب کھانے کے بعد پیاکرتے تھے۔آپ کچھ عرصہ”حمص“شہر میں قاضی بھی رہے لیکن بوجوہ یہ منصب ترک کردیااور زیادہ وقت تصنیف و تالیف اور درس و تدریس کو دینے لگے۔دمشق کی ایک مسجد میں ایک بار آپ حضرت علی کی منقبت میں اپنی کتاب کے اقتباسات سنا رہے تھے تو بعض لوگ طیش میں آگئے اورحضرت کو مارناپیٹناشروع کر دیا۔بہت زخمی حالت میں جوش ایمان آپ کو حجاز مقدس کھینچ چلا،حرم کعبہ پہنچ جانے کے باوجود بھی آپ کی علالت باقی تھی اور اسی حالت میں صفاومروہ کے درمیان خالق حقیقی سے جا ملے۔یہ13صفر 303ھ کی تاریخ تھی۔

                امام ابو عبدالرحمن نسائی رحمۃ اللہ علیہ کی وجہ شہرت انکی شہرہ آفاق تالیف ”سنن نسائی شریف“ ہے۔اسکا شمار صحاح ستہ میں ہوتا ہے۔”سنن“اس کتاب حدیث نبوی ﷺ کو کہتے ہیں جس کے ابواب کی ترتیب فقہ کی کتابوں کے مطابق تیار کی گئی ہو۔ امت کے بے شمار بزرگ اس کتاب”سنن نسائی شریف“ کی تعریف میں رطب اللسان ہیں حتی کہ بعض علمائے حدیث نبویﷺاس کتاب ”سنن نسائی شریف“کو بخاری و مسلم پر بھی ترجیح دیتے ہیں۔پہلے امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے ”سنن کبری“تصنیف کی تھی۔یادرہے کہ یہ وہ وقت تھا جسے تاریخ حدیث میں دور فتن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ کتاب جب امیر رملہ کو پیش کی تو اس نے پوچھا کیا اس میں سب صحیح احایث ہیں؟آپ نے جواب دیا نہیں،تب امیر رملہ نے کہا کہ میرے لیے ایک ایسی کتاب تیار کریں جس میں سب احادیث صحیح ہوں۔اس پر امام صاحب نے ”سنن نسائی شریف“کی تدوین کی۔

                احادیث نبوی ﷺ کے اس مجموعہ ”سنن نسائی شریف“میں  امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے وہی اسلوب اختیار کیا ہے جو امام بخاری اؒور امام مسلم ؒنے اپنی تالیفات میں اختیار کیا ہے۔ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک حدیث کو متعدد مقامات پر تحریر کیاہے اور اس سے مسائل بھی اخذ کیے ہیں۔امام صاحب نے متعدد مسائل کے لیے مختلف ابواب تشکیل دیے ہیں۔ایک حدیث کو بہت سارے لوگ روایت کر رہے ہوں تو  امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے سب راویوں کا ذکر کر دیتے ہیں۔فن اصول حدیث کی اصطلاح میں ایک حدیث کے بہت سارے راویوں کے سلسلے کو ”طرق“کہتے ہیں۔حدیث کا بیان کرنے والا راوی اپنے سے زیادہ مرتبہ کے آدمی کی مخالفت کرے تو  امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ اس کا بھی تفصیل سے ذکر کرتے ہیں ایسی حدیث کو”شاذ“کہتے ہیں۔

                حدیث بیان کرنے والے پہلے زمانے کے لوگ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین تھے،ان کے بعد تابعین آئے،پھر تبع تابعین آئے اس کے بعد فقہا کا دور شروع ہوتا ہے تب محدثین کا زمانہ آتاہے۔کسی بھی حدیث میں کسی بھی زمانے کے راوی میں کوئی خامی ہو تو  امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ اسکا بھی ذکر کرتے ہیں اس عمل کو فن اصول حدیث کی اصطلاح میں ”راوی پر نقدکرنا“کہتے ہیں۔بعض اوقات متن حدیث پر بھی نقد و جرح کرتے ہیں اور یہ آپ کی کسر نفسی ہے کہ بعض اوقات طویل بحث کر چکنے کے بعد بھی لکھ دیتے ہیں کہ ”میں اس بات کو حسب منشا نہیں سمجھا“۔

                علمائے حدیث نے  امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کی اخذکردہ احادیث کو تین اقسام میں تقسیم کیا ہے،پہلی قسم کی وہ احادیث ہیں جو امام بخاری ؒاور امام مسلم ؒنے بھی اپنی کتابوں میں درج کی ہیں،یہ اعلی درجے کی احادیث ہیں۔دوسری قسم کی وہ احادیث ہیں جو  امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے درج کی ہیں اور وہ امام بخاری ؒ اور امام مسلم ؒ کی قائم کردہ سخت شرائط پر بھی پوری اترتی ہیں لیکن ان دونوں بزرگوں امام بخاری ؒو امام مسلم ؒنے بوجوہ ان حدیثوں کو درج نہیں کیا۔تیسری قسم کی احادیث وہ ہیں مزکورہ بالا دونوں اقسام میں نہیں آتیں۔

                امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس نابغہ روزگار کتاب ”سنن نسائی شریف“میں کم و بیش ساڑھے پانچ ہزار احادیث رقم کی ہیں۔اس کتاب کے قبول عام کا اندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ صدیاں گزرجانے کے باوجود یہ کتاب زندہ ہے،آج بھی مشرق سے مغرب تک علوم اسلامیہ کے طلبہ و طالبات اور علماء و عالمات اس کتاب کی درس و تدریس سے وابسطہ ہیں۔اس کتاب کی بہت سی شروحات لکھی گئی ہیں،”الاعان فی شرح سنن نسائی“،”زوائد نسائی“اور زہرالربی علی اللمجتبی“بہت مشہور ہیں آخرالزکرشرح کی تالیف حافظ جلال الدین سیوطی ؒ جیسی ہستی کے قلم کامبارک نتیجہ ہے۔اللہ تعالی امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کو غریق رحمت کرے اور اللہ کرے اس کتاب سے پھوٹنے والی کرنیں باغ حدیث نبویﷺ کو تاقیامت روشن و تابندہ رکھیں۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
52604

داد بیداد ۔ دل پشو ری ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

پشاور کی بس رپیڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) خیبر پختونخوا کا روشن اور تابنا ک چہرہ ہے جب کبھی اس میں سفر کر تا ہوں خیا لوں میں کھو جا تا ہوں کبھی ہم بنکا ک، بیجنگ اور فرنکیفرٹ کے میٹرو اور لندن کے ٹیوب کو رشک کی نگا ہ سے دیکھتے اور پرکھتے تھے آج ہم پشاور میں میٹرو اور ٹیوب جیسے ذرائع سفر سے لطف اندوز ہورہے ہیں الیکٹر انک ٹکٹ، صاف ستھری بسیں، صاف ستھرا سفر، اس پر روپے اور پیسے کی حیرت انگیز بچت اس کا نا م ہے خدا دے اور بندہ لے میں خیا لوں میں کھو یا ہوا تھا بس آنکھ جھپکتے ہی حیات اباد کے آخری سٹیشن پر آگئی بس سے اتر نے کو جی نہیں چاہ رہا تھا باہر سے آنے والے کسی بھی شہر کو ٹرا نسپورٹ کی وجہ سے پہچا نتے ہیں ٹرانسپورٹ اچھی ہو تو شہر کے گر ویدہ ہو جا تے ہیں ٹرانسپورٹ کا سسٹم خراب ہو تو دونوں کا نوں کو ہاتھ لگا کر تو بہ کر تے ہیں کہ کس مصیبت میں پھنس گئے میں نے تین سال پہلے جر من دوست کے ساتھ حا جی کیمپ اڈہ سے حیات اباد کا رخانہ مارکیٹ کا سفر کیا یہ میرے دوست کی خواہش تھی کہ شہر کے ٹرانسپورٹ سسٹم کا تجربہ کیا جا ئے منی بس مسافر وں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا

پشتو فلم کا گا نا ”یمہ دٹرک ڈرائیور“ فل والیوم میں بج رہا تھا ایک کلینر اونچی آواز میں کرایہ، کرایہ کی جگہ کارئیے کارئیے کی سریلی اواز یں لگا رہا تھا دوسرا کلینر دروازے پر کھڑے زور زور سے بس کی باڈی کو بجا تا اور ادریگہ استاذکے ساتھ زہ استاذ کا شور مچا رہا تھا جر من دوست اس کلچر سے لطف اٹھا رہا تھا ہم نے 30منٹ کا سفر ڈیڑھ گھنٹے میں طے کیا جر من دوست نے کہا ہم اتنی مدت میں فرنکیفرٹ سے ہا ئیڈل برگ پہنچ جا تے ہیں شکر ہے کہ میرے دوست کو اردو، پشتو اور ہند کو نہیں آتی تھی ورنہ وہ یہ بھی نوٹ کرتا کہ بس کا کلینر کچہری سٹاپ کو ”قاچرو“ کہتا ہے ٹاون سٹاپ کو ”ٹون“ کہتا ہے جر من سیاح کو بڑی حیرت اس پر ہوئی کہ بہت سے لو گ بس کے چمن میں چھت پر لگے ہوئے دستے پکڑ کر سفر کر رہے ہیں اگر کسی سٹاپ پر ایک سیٹ خا لی ہو تی ہے تو آگے پیچھے کھڑے ہوئے چار بندے اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں.

بس سے اتر نے کے بعد میں نے اپنے دوست کو بتا یا کہ میرا ساتھی ایسے مواقع پر مجھے آگے کر کے زور سے کہتا ہے ”حا جی صاحب تم بیٹھو“آس پا س کے چار بندے پیچھے ہٹتے ہوئے کہتے ہیں ”حا جی صاحب کو بیٹھنے دو“ حقیقت یہ ہے کہ میں داڑھی اور روما ل کی وجہ سے حا جیوں جیسا لگ رہا تھا اور اس حلیے کی بدولت منی بس میں سیٹ مل جا تی تھی میں نے اپنے جرمن دوست کو بتا یا کہ ہمارا ما ضی درخشان تھا 1971ء میں گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس کی صاف ستھری بسیں چلتی تھیں ان میں ڈبل ڈیکر بسیں بھی ہوتی تھیں کلینر صاف ستھرا وردی والا بندہ ہوتا تھا چپ کرکے آپ کو ٹکٹ تھما تا اور کچھ بولے بغیر کرایہ لیتا تھا سٹاپ پر رکنے اور سٹاپ سے آگے بڑھنے کا کام ڈرائیور خود جا نتا تھا بس کی باڈی کو بجا نے اور زور زور سے آواز لگا نے کی ضرورت نہیں پڑ تی تھی سٹاپ پر کھڑے لو گ بھی بس کے نمبر کو دیکھ کر پہچان لیتے ان کو ہا نک کر لا نے کی ضرورت نہیں تھی آواز کی آلو د گی نہیں ہو تی تھی چمن میں کوئی مسا فر کھڑا نہیں ہوتا تھا جی ٹی ایس کو ختم کر دیا گیا تو ارام دہ سفر کا باب بھی بند ہوا اور شہر کے اندر منی بسوں کا سیلا ب آیا اس سیلا ب میں سب کچھ چلتا ہے .

میرے جر من دوست نے پشاور کے ما ضی کا اچھا تا ثر لیا مگر ہمارے سامنے جو تجربہ تھا وہ کسی بھی لحا ظ سے قابل رشک نہیں تھا پشاور کے با سیوں کو وہ دن بھی یا د ہیں جب ہشتنگری اور کا بلی گیٹ پر تا نگوں کے اڈے ہوتے تھے دس بارہ تا نگے کھڑے رہتے شہر سے صدر کا سفر تا نگوں میں ہو تا تھا 4آنہ فی سواری کے حساب سے چھ سواریوں کا کرا یہ ڈیڑھ روپے بنتا تھا کوچوان چا بک لہرا تا تو ایسے لگتا تھا گویا اس کو دنیا جہاں کی سب سے بڑی دولت مل گئی ہے نا ز سینما روڈ پر بخاری پلا ؤ اور قصہ خوانی بازار میں تاوانی پلا ؤ 8آنے میں آتا تھا فردوس سینما روڈ پر جلیل کبا بی کے ہاں 3روپے میں چھ بندے کباب کے لنچ سے لطف اندوز ہوتے تھے

پشاور غریبوں شہر کہلا تا تھا آج میں نے بی آر ٹی کے سفر کا جو لطف اٹھا یا بڑا مزہ آیا صحیح معنوں میں ”دل پشوری“ ہو گیا دل پشوری کی تر کیب ہی ایسی ہے جب آپ کو بے پنا ہ لذت اور خو شی یا مسرت حا صل ہو تو اس کیفیت کو ”دل پشوری“ کہتے ہیں بی آر ٹی میں سفر کر تے ہوئے میں نے اپنے جر من دوست کو فون کر کے صورت حال سے آگا ہ کیا اس کو ایک بار پھر پشاور آکر ”دل پشوری“ کر نے کی دعوت دی

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
52596

جبرواستبداد کی ہوشرباء داستان ۔ محمد شریف شکیب

دہشت گردی عالمی امن کے لئے سنگین خطرہ بن چکا ہے۔نائن الیون کے بعد امریکہ کی قیادت میں دنیا کے بیشتر ممالک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں۔ اس مرحلے پر بھارت کی طرف سے عالمی دہشتگرد تنظیم داعش کے پانچ تربیتی کیمپ چلانے کا انکشاف ہوا ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار نے پریس بریفنگ میں بھارت کی طرف سے دہشت گردوں کی سرپرستی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے پورے خطے اور عالمی امن کے لئے خطرناک قرار دیا۔ بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں ڈھائے جانے والے مظالم کے حوالے سے دفتر خارجہ نے جو دستاویزات جاری کی ہیں ان میں دل دہلا دینے والے انکشافات ہوئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں 8 ہزار 226 اجتماعی قبریں دریافت کی گئی ہیں، یہ ان کشمیریوں کی قبریں ہیں جنہیں بھارتی افواج نے حق خود ارادیت کے لئے آواز اٹھانے پر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ بھارتی افواج نے مقبوضہ وادی میں 239 ٹارگٹ سیل قائم کر رکھے ہیں 2014 سے اب تک ان عقوبت خانوں میں 30 ہزار سے زائد افراد کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا،231 کشمیریوں کو بجلی کا کرنٹ لگاکر موت کی نیند سلادیا گیا۔مقبوضہ کشمیر میں اپنے حقوق کے لئے احتجاج کرنے والوں کے خلاف کیمیکل ہتھیار استعمال کرنے کے شواہد بھی ملے ہیں۔ بھارتی فوج نے 3 ہزار 800 سے زائد خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا جن میں نوعمر بچیاں بھی شامل ہیں۔

گذشتہ ایک عشرے کے دوران مقبوضہ وادی میں 10 ہزار افرادکے لاپتہ ہونے کی برطانوی میڈیا نے تصدیق کی ہے۔ بھارتی فوج احتجاج کرنے والے کشمیریوں کے خلاف پیلٹ گن استعمال کررہی ہے جس سے 15 ہزار سے زائد افرادبینائی سے محروم ہوچکے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں 13 ہزار بچوں کو قید کرنے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔داعش کے تربیتی کیمپ چلانے کے علاوہ بھارت حامد کرزئی اور اشرف غنی کے دور حکومت میں افغانستان میں بھی دہشت گردی کے کیمپ چلاتا رہا ہے مختلف افغان شہروں میں قائم بھارتی قونصل خانے تربیتی مراکز کے طور پر کام کرتے رہے۔

اور وہاں سے دہشت گردوں کو تربیت اور اسلحہ فراہم کرکے خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں اور چمن کے راستے بلوچستان پہنچایاجاتا تھا۔ آج مودی حکومت کی طرف سے طالبان حکومت سے یہ مطالبہ کرنا انتہائی مضحکہ خیز لگتا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کو کسی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال نہ ہونے کی ضمانت دی جائے۔ حالانکہ طالبان نے بھارتی دہشت گردی کے مراکز پہلے ہی بند کردیئے ہیں۔ پاکستان نے کلبھوشن یادیو سمیت کئی بھارتی دہشت گردوں اور جاسوسوں کو پکڑ رکھا ہے۔

اقوام متحدہ اورعالمی برادری کے سامنے بھارتی دہشت گردی کے ٹھوس ثبوت بھی پیش کردیئے ہیں۔اس کے باوجود اقوام عالم کی طرف سے اپنے تجارتی مفادات کی وجہ سے خاموشی اختیار کرنا نہ صرف افسوس ناک بلکہ نہایت تشویش ناک ہے۔ دہشت گردی کی ریاستی سطح پر سرپرستی عالمی امن کے لئے خطرہ ہے جس کا اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں کو احساس کرنا ہوگا۔آزادی اور خود ارادیت کے پیدائشی حق کے لئے آواز اٹھانے کی پاداش میں کشمیریوں پر جبروتشدد انسانی حقوق کے علمبرداروں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

جس آزادی کو امریکہ، برطانیہ، ہالینڈ، ناروے، جرمنی، فرانس اور دیگر ترقیافتہ ممالک اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ وہی حق کشمیریوں کو دلانے سے انکار عالمی برادری کے دوغلے پن کا کھلا ثبوت ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 70سال قبل کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا تھا۔ سات عشرے گذرنے کے باوجود عالمی ادارہ اپنے فیصلوں پر عمل درآمد نہیں کراسکا۔ مسئلہ کشمیر جنوبی ایشیا کے دو جوہری صلاحیت رکھنے والے ملکوں کا دیرینہ حل طلب مسئلہ ہی نہیں بلکہ جوہری تصادم کے حوالے سے فلیشن پوائنٹ ہے۔ اگر بھارتی مہم جوئی کے نتیجے میں اس خطے میں جنگ کی آگ بھڑک اٹھی تو اس سے کوئی بھی ملک محفوظ نہیں رہے گا۔ بقول راحت اندوری۔”لگے گی آگ تو آئیں گے کئی گھر زد میں۔۔ یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے“۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
52594

اندلس کی یادیں – (قسط نمبر-1) – تحریر:عمران الحق

اندلس کی یادیں – (قسط نمبر-1) – تحریر:عمران الحق

۔2019 سات فروری کی شب لاہور ائیرپورٹ سے اسپین کا سفر شروع  کیا۔۔۔۔۔۔ اسپین، جسے ہسپانیہ بھی کہا جاتا ہے اور قدیم زمانے میں جب مسلمان اس کے تاج و تخت کے مالک تھے تب اسکو اُندلس کہتے تھے جسکا عربی الاصل الاَندَلُس ہے۔۔۔۔۔ کہنے کو تو یہ ایک سفر تھا جسے میں تعلیم کی حصول کیلئے طے کررہا تھا۔  میں کیمسٹری میں یوروپین ماسٹر (ایم فل) کی ڈگری حاصل کرنے کیلئے غازم سفر تھا لیکن اس کے پیچھے بےشمار احساسات وجذبات پنہاں تھیں۔


ہوا  کی بلندی میں چاروں طرف مختلف خیالات  مجھے گھیرے ہوئے تھے۔  ایک ماضی کی خوشگوار یادیں تھی تو دوسری طرف مسقبل کے بارے دلربا توقعات ،،، ماضی کی یادیں بھی متنوع رنگوں میں بکھری ہویں تھیں۔ چترال کے ایک دورافتادہ گائوں سے لیکر یورپ کے سفر تک زندگی کی بےشمار لہریں دماغ میں امنڈ رہی تھیں۔کچھ گھنٹے آسمان کی بلندیوں میں سفر کرنے کے بعد میں اگلے دن دوپہر کو اسپین کے مشہور شہر بارسِلونا اترا۔ بارسلونا ائیرپورٹ میں زیادہ تر دوسرے یورپی ممالک کے سیاح موجود تھے جو شمالی یورپ کی سردی سے تنگ اکر بارسلونا کے نسبتا گرم علاقے میں گھومنے اور ساحلی ریت (Beaches) کا مزا لینے کیلئے ائے ہوئے تھے۔

Barsalona night

ہر سال چھ سے سات کروڑ لوگ اسپین گھومنے اتے ہیں جبکہ اسپین کی اپنی ابادی پانچ کروڑ ہے۔ ائیرپورٹ سے باہر نکلا تو بارسلونا کا خوبصورت شہر میرا انتظار کر رہا تھا۔ شہر کو پہلی نظر میں دیر تک نظریں گھوما گھوما کر دیکھا اور اسکے  درو دیوار کو اپنی ذہن پر بٹھانے کی کوشش کی اور دل ہی دل میں سوچا کہ اب انے والے کئی سال اس شہر میں بیتانے ہیں۔ یہاں سے کیمسٹری میں ایم فل کرنا ہے اور پھر یہیں سے پی ایچ ڈی۔ اسپین کے سترہ صوبے ہیں ان میں سے ایک صوبے کا نام کیتالونیہ ہے۔

یہاں کے لوگوں کی اپنی الگ زبان (کیتالان)، کلچر اور تاریخ ہے اور نسلی اعتبار سے خود کو غیر کیتالان سے فائق تر سمجھتے ہیں۔ بارسلونا اسی صوبے کا دارالحکومتی شہر ہے۔ بارسلونا مشرق میں بحیرہ روم کیساتھ لگتا ہے اور تجارتی لحاظ اسکی حیثیت ایسی ہے جیسے پاکستان میں کراچی۔ چنانچہ یورپ، افریقہ، وسط ایشیا، ترکی ، برصغیر اور چائنہ سے تجارتی سامان سب بارسلونا اترتا ہے اسلئے یہ شہر معاشی لحاظ سے سب سے تگڑا ہے۔

عالمی تجارت کی وجہ سے اسپین کا سب سے زیادہ ریوینیو اس شہر میں پیدا ہوتا ہے۔ کیتالان کا خیال ہے کہ انکا  پیسہ دوسرے اسپینش مفت میں کھارہے ہیں اسلئے یہ گزشتہ کئی سالوں سے علیحدگی کی تحریک چلارہے ہیں اور ائے روز جلسہ نکال کر سڑکوں پر نکل اتے ہیں اور اپنا الگ پرچم لہراتے ہیں۔  اسپین کے مشرق اور جنوب میں بحیرہ روم واقع ہے جبکہ مغرب میں پرتگال اور شمال میں فرانس واقع ہیں۔ شمال میں فرانس اور اسپین کے درمان ایک چھوٹا سا ملک ہے جسکا نام انڈورا ہے۔ انڈورا ایک ازاد ریاست ہے البتہ اسکی دفاع کی ذمہ داری اسپین اور فرانس مشترکہ طور مہیا کرتے ہیں۔ کسی زمانے میں کشمیر کے مسئلے کو بھی اسی طرز پر حل کرنے کی تجویز دی گئی تھی جسے آنڈورا پلان (Andora Plan) کہا جاتا ہے۔اسپین میں صنعت و حرفت کیساتھ زراعت بھی بہت جدید ہے۔ زیتون کی پیدوار میں اسپین دنیا میں اول نمبر پر ہے۔

Barsalona

زیتون کی فاروانی کی وجہ سے خوراک کے تمام اقسام زیتون میں پکتے ہیں اسلئے یہاں کے لوگ جسمانی طور پر توانا اور صحت مند ہیں،،، جہاں موٹا یا نکلا ہوا توند دیکھنے کو ملے تو اسکے غیر ملکی ہونے میں شائبہ نہیں رہتا۔اسپین جانے سے پہلے کچھ عرصہ لاہور میں سی ایس ایس (مقابلے کا امتحان) کی تیاری نہایت دلجمعی کیساتھ کی تھی اور سیلبس کیساتھ کافی کتابیں اضافی بھی پڑھ لیا تھا۔ جن میں اکثر  اسلام، امریکہ اور یورپ کی تاریخ سے متعلق تھیں۔ اسپین کی تاریخ کا اسلام اور امریکہ دونوں کیساتھ کافی رقبت ہے

امریکہ کیساتھ اسلئے کہ اسکو دریافت کرنے والے اسپین سے تھا اور اسلام کیساتھ قربت اسلئے کہ اٹھویں صدی عیسوی سے لیکر پندھویں تک اسپیں میں مسلمانوں کی حکومت رہی ہے تب اس کا نام اندلس ہوا کرتا تھا۔ اندلس علمی لحاظ سے اس وقت کا سب ترقی یافتہ علاقہ تھا یہاں کی جامعات سے نکلنے والے علماء اور فُقہاء نے اسلامی علوم کیساتھ ساتھ سائنسی تحقیقات کو بھی بام عروج تک پہچادیا۔ اس حوالے سے اندلس کے جو شہر مشہور تھے ان میں قرطبہ، غرناطہ، اشبیلیہ، طلیطہ، لوشا، قشتالیہ اور مالقہ زیادہ نمایاں تھے۔ مسلمانوں کا یہ درخشان دور 1492ء کو اپنی اختتام کو پہنچا اور یوں یورپ سے مسلمان آٹھ صدیوں تک گھوڑے دوڑانے اور شمشیر لہرانے کے بعد ایسے ناپید ہوگئے کہ اج اس سرزمیں پر انکے نام تک لینے والا کوئی نہیں۔

Barsalona airport

یہی (1492) وہ سال تھا جب کولمبس نے امریکہ دریافت کیا اور اسپین نے براعظم امریکہ کو اپنا غلام بنانا شروع کیا اور یوں اس نئی دریافت شدہ  دنیا میں عسائیت بطور مذہب پھیلنا شروع کیا جبکہ اِدھر یورپ سے مسلمان اپنی اخری خلافت غرناطہ کو عیسائیوں کے حوالہ کرکے ہمیشہ کیلئے افریقہ کی طرف نکل گئے۔ جب بھی تاریخ کو پڑھتا ہوں مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ایک ہی سال ، اتفاق ہے یا کچھ اور، یورپ کی تاریخ اچانک سے تین کروٹ لیتی ہے۔ 

پہلی کروٹ میں یورپ سے مسلمانوں کا صفایا ہوتاہے جسے نصٰرٰی فخر  سےری کنکسٹہ (Reconquista ) کہتے ہیں جس سے مراد دوبارہ فتح کرنے کے ہیں۔ دوسری کروٹ میں امریکہ کو دریافت کیا جاتا ہےاور یوں اس نئی دنیا سے حاصل ہونے والا مال غنیمت یورپ کو اس ترقی تک پہنچانے میں مدد  فراہم کرتا ہے جسے صنعتی ترقی کہتے ہیں اور مسلمانوں سے حاصل شدہ اس سرزمیں کو ایک لامتناہی اور عظیم الشان ترقی کی طرف گامزن میں کرنے میں اسانی پیش اتی ہے،  جس پر یورپ اج بھی قائم ہے۔ آخری سب سے اہم کروٹ یورپ کی نشاۂ ثانیہ ہے۔

1492 میں جب یورپ سےمسلمانوں کو نکالا گیا تو انکی کتابوں کو عربی سے اسپینش اور لاطینی مین ترجمہ کیا گیا اس طرح علم کا انمول خزانہ قلیل مدت میں یورپ منتقل ہوگیا اور یوں صدیوں تک پھیلی جہالت  بہت تیزی کیساتھ صبح صادق کی طرف چلنے لگی۔ اور اس سفر کے ڈھیڑہ سو سال ہی گزرے ہونگے کہ یورپ میں گلیلو پیدا ہوئے جو ان ہی ترجمہ شدہ علوم کا پیدوار تھا اور انہوں نے جدید علم و تحقیق کو سائنس کے ان اصولوں پر قائم کیا جسے ہم سائنٹیفک اسٹڈی کہتے ہیں ۔

Barsalona 1

اس مفصل تاریخی پس منظر کو لیکر میں اسپین میں اپنی قیام کی شروعات کی اور  آنے والے وقتوں میں جس جگہ بھی گیا اور جس چیز کو بھی دیکھا، سب کو تاریخ کی اس عینک سے مشاہدہ کیا تاکہ عبرت کیساتھ ساتھ مستقبل کیلئے بھی کچھ سامان ملے اور یوں کیمسٹری کیساتھ حقیقی معنوں میں بھی کچھ سبق سیکھنے کو ملے جو میری ملکی ترقی میں کردار ادا کرنے میں مددگار ہو۔ یوں  میں جہاں بھی جاتا، یورپی ترقی کو بڑے انہماک سے دیکھتا اور ان کے جملہ پہلوؤں پر غور کرتا اور جاننے کی کوشش کرتا کہ ہم کس اعتبار سے ان سے پیچھے ہیں اور اس مشاہدے کی عادت کو اخر تک جاری رکھا، جس سے کافی حد تک فائدہ بھی ہوا اور بیشمار پیچیدہ معمے بھی حل ہوگئے۔ ان تمام پہلووں کا تذکرہ او ر پھر اسپین کے مختلف حصوں سے جڑی تاریخ پہلوؤں کو اگے آنے والی تحاریر میں اپ کیساتھ بانٹوں گا۔

Barsalona imranul haq
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
52582

قدرتی ماحول میں انسانی عمل دخل ۔ محمد شریف شکیب

عالمی موسمیاتی ادارے نے گذشتہ پچاس سالوں میں آب و ہوا میں تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والی قدرتی آفات میں 5 گنا اضافے کا انکشاف کیا ہے۔ عالمی موسمیاتی ادارے اور اقوام متحدہ کے آفات کے خطرات کو کم کرنے والے ادارے یو این ڈی ڈی آر نے 1970 اور 2019 کے درمیان ہونے والی قدرتی آفات پر تحقیقاتی رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایاگیا ہے کہ پچاس سالوں کے اندر دنیا بھر میں مجموعی طور پر 11ہزارقدرتی آفات رپورٹ کی گئیں جن میں 20 لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے.

ان قدرتی آفات سے دنیا کو 3.64 کھرب ڈالر کا نقصان ہوا۔قدرتی آفات کے نتیجے میں ہونے والی اموات میں 91 فیصد ترقی پذیر ممالک میں واقع ہوئیں۔رپورٹ کے مطابق1970 کے عشرے میں 50 ہزار لوگ زلزلے، سیلاب اور طوفان سے مارے گئے۔موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے قحط سالی سب سے زیادہ جان لیوا آفت ثابت ہوئی جس کے باعث6 لاکھ 50 ہزار لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

دنیا میں آنے والے طوفانوں میں پانچ لاکھ77ہزار سے زائد اموات ہوئیں۔سیلابوں میں 58ہزار 700لوگ مارے گئے۔شدید گرمی اور سردی سے 55ہزار 800افراد ہلاک ہوئے۔رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ہونے والے سمندری طوفان ہاروی نے 96.9 بلین ڈالرنقصان کیا۔قدرتی آفات نے براعظم ایشیا میں سب سے زیادہ تباہی مچائی۔یہاں قدرتی آفات کے 3454 واقعات رونما ہوئے ہوئے جن میں 9لاکھ 75ہزار622 افراد اپنی جانوں سے گئے اور مختلف ملکوں کو2 کھرب ڈالر کا نقصان ہوا۔

دنیا بھر میں ہونے والی موسمی، ماحولیاتی اور پانی سے متعلقہ آفات میں سے 36 فیصد ایشیائی ممالک میں ہوتی ہیں ان آفات میں 45 فیصد سیلاب اور 36 فیصد طوفان شامل ہیں طوفانون میں 72 فیصد جبکہ سیلابوں کے نتیجے میں ہونے والے اقتصادی نقصان کی شرح 57 فیصد رہی۔ براعظم افریقہ میں قحط سالی سب سے زیادہ جان لیوا ثابت ہوئی اور افریقہ میں تمام اموات میں سے 95 فیصد قحط کی وجہ سے ہوئیں۔قدرتی آفات میں زلزلے سب سے زیادہ خوفناک اور تباہ کن ہوتے ہیں۔سائنس ترقی کے عروج پر پہنچنے کے باوجود زلزلوں کے بارے میں پیشگی بتانے سے قاصر ہے۔

پاکستان میں کوئٹہ اور شمالی علاقوں میں ہونے والے تباہ کن زلزلوں کے اثرات ابھی تک محسوس کئے جارہے ہیں۔ خشک سالی، اچانک بارشوں اور سیلاب جیسے قدرتی آفات میں انسانوں کا عمل دخل ہوتا ہے جب انسان قدرتی ماحول کو دانستہ یا نادانستہ طور پر نقصان پہنچاتا ہے توشدید گرمی،طوفانی بارشوں اور سیلاب کی صورت میں قدرتی آفات نازل ہوتی ہیں اور تباہی و بربادی کی داستانیں چھوڑ جاتی ہیں۔ پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں جنگلات پائے جاتے ہیں۔

جن میں ہزارہ ڈویژن، کشمیر اور ملاکنڈ ڈویژن شامل ہیں ٹمبر مافیا گذشتہ کئی عشروں سے جنگلات کی وسیع پیمانے پر کٹائی میں مصروف ہے جس کی وجہ سے گھنے جنگلات اب چٹیل پہاڑوں میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ یہ مافیا اتنا طاقتور اور منہ زور ہے کہ کسی بھی حکومت کے قابو میں نہیں آرہی۔ جنگلات اور جنگلی حیات کے محکمے بھی ان کے سامنے بے بس ہیں۔ ملک میں ہر سال موسم گرما، سرما، بہار اور خزاں میں شجرکاری مہمات چلائی جاتی ہیں۔

جن میں کروڑوں اربوں روپے لگائے جاتے ہیں۔ ان مہمات کے دوران لاکھوں کروڑوں پودے لگانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے مگر مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے یہ پودے بہار کا ایک موسم بھی نہیں دیکھ پاتے۔ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت نے خیبر پختونخوا میں بلین ٹری سونامی منصوبہ شروع کیا۔ اور پھر وفاقی سطح پر بھی دس ارب درخت لگانے کی مہم شروع کی گئی ہے ان مہمات کو عالمی سطح پر بھی کافی پذیرائی ملی ہے مگر برسرزمین ان مہمات کے بھی زیادہ حوصلہ افزاء نتائج نظر نہیں آرہے۔تاہم یہ امر باعث اطمینان ہے کہ حکومت کو قدرتی ماحول کے تحفظ کا احساس ہے۔ان مہمات کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے ان میں عوامی اشتراک ناگزیر ہے تاکہ پودے لگانے کے ساتھ ان کی نگہداشت بھی ہوسکے۔ قدرتی آفات کی شدت اور ان کے نتیجے میں جانی و مالی نقصانات کو کم کرنے کا یہی واحد ذریعہ ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , ,
52571

شمال کے ایدھی – تحریر: شیرولی خان اسیر

شمال کے ایدھی – تحریر: شیرولی خان اسیر

گلگت میں قیام کے دوران کافی دنوں سے قدرت کی صناعیوں میں کھویا رہا جب گلگت کے دیہات اور ہنزہ و نگر، استور، دیوسائی، سکردو, شگراور غیرز کے ویشرگوم ( ورشگوم) گھومنے گیا۔ کہیں ماضی کی گلی کوچوں میں گھومتا رہا، کہیں پیارے لوگوں کی محفلوں سے محظوظ ہوا تو کہیں انواع و اقسام کی ضیافتیں اڑاتا رہا۔آج ایک ایسا منظر دیکھنے کو ملا ہے جہاں ایک طرف دل و جگر کے ٹکڑے ٹکڑے ہوتے جاتے ہیں تو دوسری طرف ان ٹکڑوں کو جوڑ کر اس میں نئی زندگی پھونکی جارہی ہے جس سے دل کو ایک زبردست روحانی سرشاری مل جاتی ہے کہ دنیا میں دکھی انسانیت کے دردناک زخموں پر پھاہا رکھنے والے انسان ابھی اس بے درد دنیا میں موجود ہیں۔ میری ملاقات ایک ایسی شخصیت سے ہوئی جن کو ایدھی ثانی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

اس بے رحم دنیا میں ٹھکرائے ہوئے انسانوں کو سینے سے لگانے والے شاذ و نادر ہی ملیں گے۔ ہمارے ملک میں عبدالستار ایدھی مرحوم ہی تھے جس نے اپنی اور اپنے خاندان کی زندگیاں دکھی انسانیت کے لیے وقف کردی تھیں اور رضاکارانہ خدمت خلق کا سورج بن کر آسمان انسانیت پر چمکا اور ان کے گزرنے کے بعد بھی اس کی روشنی ہمارے کیے مشعل راہ اور مظلوم آدم زاد کے لیے امید کا روشن چراغ ہے۔ ان کی جہد مسلسل نے لاکھوں دکھی انسانوں کی نہ صرف زندگیاں بچائیں۔ بلکہ ان کو باعزت شہری کی زندگیاں گزارنے میں مالی، جسمانی اور روحانی مدد بہم پہنچائی۔

قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد عبدالستار ایدھی ہی پاکستان اور اہل پاکستان کے سچے ہمدرد تھے۔15 ستمبر کے دن کے تیسرے پہر مجھے اپنی بیگم، بیٹی ڈاکٹر زبیدہ اسیر اور برخوردارم نیر شمس کے ساتھ سینا ہیلتھ اینڈ ویلفیئر سروسز جوٹیال گلگت کے مکینوں سے ملنے کا موقع ملا۔ دخترم ڈاکٹر زبیدہ سرنگ نے بذریعہ فون ادارے کے چیرمین جناب شیرباز خان سے وقت لیا تھا۔ شیر باز خان اور ان کی دختر نیک اختر مس صدف نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ دو پیارے پھول جیسے بچوں نے گلدستہ پیش کرکے ہمارا استقبال کیا۔

اس کے بعد سینا سروسز کے دفتر میں ہمیں بریفنگ دی گئی۔ شیربازخان کے اس عظیم الشان سفر خدمت کے دوران پیش آنے والے واقعات کی پردرد جھلکیاں دیکھ کر ایک طرف دل لہولہاں ہوتا گیا تو دوسری طرف اس بڑے آدمی کی عظمت کو سلام کرتا گیا کہ اس نے ایدھی کے نقش قدم پر چل کر دکھی انسانیت کو گلے لگایا ہے۔ اس کے بعد نرسری میں بچوں سے ملاقات کی۔ ایک بچہ عرفان اور بچی کائینات معذور تھے۔ انہیں دیکھ کر میں اپنے آنسو نہ روک سکا۔ ان کے سروں پر ہاتھ پھیر کر پیار دینے کے سوا کیا کر سکتا تھا؟ ایک ڈیڑھ سال کی بچی اپنی آیا کی گود میں کھیل رہی تھی۔ یہ لاوارث بچے ہیں جنہیں ان کے بیالوجیکل ماں باپ نے اپنی جھوٹی عزت بچانے کے لیے پھینک دیا تھا۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے شیر باز خان جیسے پیار کرنے والے باپ اور ان کی اہلیہ جیسی ممتا سے لبریز ماں اور اس کے خاندان کے سپرد کیا ہے۔

chitraltimes sher wali khan aseer and mrs hunza visit sher baz khan

ان بن ماں باپ کے بچوں کی بہترین پرورش کا انتظام دیکھا اور دل سے سراہا۔ ہوسٹل کے ہال میں بڑے بچوں سے ملاقات کی۔ چار پانج سال سے لے کر پندرہ سولہ سال کے بچے اور بچیاں یہاں موجود تھے۔ بچوں کو صحت مند اور خوش و خرم پایا۔ البتہ ایک چند بچے مجھے افسردہ اور بجھے بجھے بھی نظر آئے۔ غالباََ یہ وہ بچے تھے جن کو شدید جذباتی صدموں سے گزرنا پڑا تھا اور وہ اس درد کو بھول نہیں پائے تھے۔ ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے والدین کسی نہ کسی حادثے میں مرگئے تھے یا مارے گئے تھے اور یہ دنیا میں تن تنہا رہ گئے تھے۔ ان میں ایسے بچے بھی تھے جن کے والدین تو زندہ تھے لیکن مالی مشکلات کی وجہ سےان کو پالنے سے معذور تھے۔ شیرباز خان نے اپنی بیگم اور بچوں کی مدد سے ان بچوں کے لیے یہاں گھر کا اعلے ماحول مہیا کیا ہوا ہے۔ ان کو والدین کا پیار مل رہا ہے۔ ان کو کھانے پینے کے لیے معیاری خوراک، صاف ستھرے کپڑے، اچھی رہائش گاہ، صحت کی بہترین نگہداشت اور تفریح کی تمام سہولیات موجود ہیں۔

یہ بچے اپنی صلاحیتوں کے مطابق شہر اور باہر کے بہترین تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہیں۔ شیرباز خان صاحب کا یہ فلاحی ادارہ ان بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے اخراجات بھی اٹھاتا ہے۔ گزشتہ تیس سالوں سے مسٹر شیر باز خان خدمت خلق کا یہ اعلےٰ و ارفع کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے 1990 میں اپنے دوست احباب کے تعاون سے بطور بلڈ ڈونر ایک چھوٹا ادارہ قائم کیا۔ بلڈ ڈونیشن کا خیال اسے اس وقت پیدا ہوا تھا جب ایک دن مقامی ہسپتال میں جوان سال خاتون خون نہ ملنے کی وجہ سے زچگی کے عمل سے گزرتے ہوئے فوت ہوگئ تھی۔ اس عورت کو اس کے شوہر نے خون دینے سے انکار کیا تھا۔ اس واقعے نے رحم دل شیرباز خان کو بہت متاثر کیا تھا۔ اس نے بلڈ ڈونرز گروپ تشکیل دیا۔گلگت میں مقیم پاک آرمی کے اس وقت کے کمانڈنٹ سے ملاقات کرکے ان سے مدد مانگی تو اس صاحب نے سی ایم ایچ کی لیبارٹری اور ٹیکنیشن کی خدمات فراہم کیں۔

اس کے علاؤہ یہ چھوٹا فلاحی ادارہ نادار مریضوں کی ادویات اور ماہرانہ علاج کے لیے اسلام آباد اور کراچی بھیجنے کا انتظام بھی کرنے لگا۔لاوارث اور انتہائی غربت کا شکار بچوں کے لیے گھر کا انتظام کرنے کا خیال بھی اسی طرح کے دردناک واقعے سے ہوا تھا جب ایک دن شیر باز خان کی بیگم کو اس کے اپنے گھر کے دروازے کے باہر ایک لاوارث نومولد بچی ملی تھی۔ بیگم شیرباز خان ملازمت سے چھٹی ہوکر جب اپنے گھر کے قریب پہنچی تو پڑوسی خواتین کا ایک جمگھٹا دیکھا۔ دھڑکتے دل کے ساتھ دریافت کیا تو اسے چھیتڑوں میں لپٹی بچی فرش پر پڑی دکھائی گئی۔ بیگم شیرباز نے ان سے پوچھا، ” تم لوگوں نے اسے اٹھایا کیوں نہیں؟” انہوں نے کانوں کو ہاتھ لگایا اور کہا،” یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم ایک ناجائز بچی کو ہاتھ لگائیں” ۔ بیگم شہباز نے انہیں ڈانٹ کر بھاگا دیا اور بچی کو اپنے گھر لاکر نہلائی اور کپڑے پہنائے۔ بوتل کے ذریعے دودھ پلائی۔

جب شیرباز اپنے دفتر سے گھر پہنچا تو یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا تھا کہ اس کی بیگم نے ایک ننھی جان کو بچانے کی کوشش کی تھی۔شیرباز خان اور اس کی بیگم کے لیے مسلہ یہ تھا کہ دونوں ملازمت کر رہے تھے۔ بچی کو سنبھالنے والا کوئی نہیں تھا۔ اس لیے انہوں نے محترمہ بلقیس ایدھی سے کراچی رابطہ کیا تو انہوں نےبچی کو اسلام آباد لاکر ایدھی ٹرسٹ کے اہل کاروں کے حوالے کرنے کو کہا۔ شیرباز خان اور بیگم نے وہ بچی اسلام آباد کے جاکر ایدھی ٹرسٹ کے سپرد تو کیا لیکن ان کو اس قسم کے دوسرے بچوں کی فکر بھی لاحق ہوئی۔ اس نے بے سہارا بچوں کے لیے ایک گھر قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔

اپنے حلقہ یاراں کے ذریعے گلگت بلتستان کا سرسری سروے کرایا تو دس بارہ ایسے بچے مل گئے جو اپنے ماں باپ سے محروم تھے یا غربت کی لکیر سے نیچے گھرانے کے تھے جن کی تعلیم تربیت والدین کے لیے ممکن نہ تھی۔ شیرباز خان کا کہنا تھا کہ اس پروجیکٹ کے لیے اس کے پاس کوئی سرمایہ نہیں تھا۔ اللہ کا نام لے کر کام کا آغاز کیا تو مخیر حضرات سامنے آنے لگے اور یہ کار خیر عظیم آگے بڑھتا گیا۔ شیرباز خان کے اس فلاحی ادارے کی مدد سے اب تک ساٹھ بچے بچیاں اعلے تعلیم حاصل کر چکے ہیں اور با عزت زندگی گزارنے کی طرف گامزن ہیں۔ ایک جوان کمرشل پائلیٹ بھی بن گیا ہے۔ کئی ایک پیشہ وارانہ شعبوں میں بی ایس کر چکے ہیں۔ فی الوقت کل 95 بچے اور بچیاں سینا ہیلتھ اینڈ ویلفیئر سروسز کی زیر کفالت روشن مستقبل کی طرف محو سفر ہیں ۔

ان میں سے 16 بچے یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں۔شیرباز خان اور ان کی بیگم کا اپنے ادارے کے بچوں سے اتنا پیار ہے کہ انہوں نے اپنے دو بیٹوں کے لیے بہویں بھی اسی ادارے کی پروردہ بچیوں میں سے ہی چن لی ہیں۔ اب تک درجنوں بچوں کو بہترین ماں باپ کو بحیثیت متنبی سونپ دیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نا معلوم شناخت کے بچوں کو وہ ہر صورت میں اڈاپشن کے لیے بہترین جوڑیوں کے حوالے کرتے ہیں کیونکہ اس کے بغیر یہ ظالم معاشرتی نظام انہیں جینے نہیں دے گا۔ شیرباز خان کا کہنا سو فیصد درست ہے۔ یہاں گناہ کرنے والے قابل صحبت اور معصوم قابل نفرت ہوتے ہیں۔

زنا کاروں سے نفرت کے بجائے اس کے نتیجے میں دنیا میں آنے والی معصوم جان کو لغنت ملامت کا نشانہ بناتے ہیں۔ اس قسم کے بچوں کے حقوق کے لیے قانون سازی ہونی چاہیے۔اس وقت سینا ہیلتھ اینڈ ویلفیئر سروسز گلگت ایک مستحکم بڑا ادارہ بن گیا ہے جس کے پاس سو بچے بچیوں کے لیے رہائش گاہ کی گنجائش اور دیکھ بال کے لے سٹاف موجود ہے۔ میں اپنے دوستوں اور عزیزوں سے گزارش کروں گا کہ جس سے جو کچھ بھی ہوسکے سینا ہیلتھ اینڈ ویلفیئر سروسز گلگت کے بچوں کے لیے کریں۔ اس سے بہتر کار خیر نہیں ہوسکتا۔ اس ادارے کو مالی استحکام ہوجائے تو اس کی شاخیں ملک کے دوسرے حصوں میں بھی کھولی جا سکتی ہیں ۔

سکول کے ایک بچے کی پرورش ( جملہ اخراجات بشمول تعلیم و تربیت) پر سالانہ خرچہ 149000 پاکستانی روپیہ آتا ہے جبکہ یونیورسٹی کے ایک طالب العلم پر 4 لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ اگر میری جتنی مالی حالت رکھنے والے خواتین و حضرات کے گھرانے ایک ایک طالب العلم کو سپانسر کرنے کا بیڑہ اٹھائیں تو ان جیسے کروڑوں بچوں کا مستقبل سنور سکتا ہے۔ ملک کا کوئی بچہ تعلیم، صحت اور معاشی لحاظ سے محروم نہیں رہ سکتا۔ اللہ پاک ہمیں بھی توفیق عطا کرے کہ ہم بھی عبدالستار ایدھی اور شیرباز خان کی تقلید کر سکیں۔

chitraltimes sher wali khan aseer and mrs hunza visit
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
52555

دھڑکنوں کی زبان – حبیب استاد۔۔”محکمہ تعلیم کا ایک چمکتا ہیرا“ – محمد جاوید حیات


استاد قوم کا محسن اس وقت بنتا ہے جب وہ قوم بنانے کا صحیح حق ادا کرے۔اس کے ہاتھوں ایسے نابعہ روزگار شیروں کی پرورش ہو جو آگے جا کے شیر خدا ؓ، سیف اللہ ؓ،کشتیاں جلانے والے، صلاح الدین، اقبال اور قائد اعظم بن جائیں جو قوموں کی تقدیریں بدلیں یہ قوم کے اصل محسن ہیں۔ محسنان قوم کی فہرست لمبی ہے کسی نہ کسی دور میں ایسے اساتذہ کی ان اداروں میں تشریف اوری ہوئی جنہوں نے ایوان علم و عمل جگمگائے۔ان کی روشنی تا دیر رہی ان میں سے محمد حبیب لال ایک ہیں۔محمد حبیب لال رضا خیل خاندان کی مشہور شخصیت روشن علی خان کے خانوادے میں شیر حبیب لال کے ہاں گیارہ ستمبر 1961ء کو وریجون موڑکھو میں پیدا ہوئے۔روشن علی خان کی جائیدائیں تورکھو ریچ اور موڑکھو وریجوں میں تھیں.

شیر حبیب لال موڑکھو وریجون آکر آباد ہوئے وہ اپنی بذلہ سنجی اور کرشماتی شخصیت کے لحاظ معاشرے میں اپنے دور کے مشہور کردار تھے جو”دکانچی لال“ کے نام سے مشہور تھے۔محمد حبیب اپنے باپ کے اکلوتے تھے۔ناز سے پرورش پائی موضع اُجنو تورکھو ننھیال تھا آپ کا بچپن تورکھو ریچ اُجنو اور وریجون موڑکھو میں گزرا۔ بچپن سے بے مثال صلاحیتوں کے مالک تھے کھیل کے میدانوں میں ایک ناقابل شکست اور بے مثال کھیلاڑی بن کے اُبھرے۔شکار گاہ میں اچھے شکاری رہے اپنے باپ اور خاندانی روایات شخصیت میں کوٹ کوٹ کر بھر دی گھر میں مہمانوں کی بھیڑ لگتی ان کی خدمت نے سوشل بنا دیا۔

محفلوں کی جان رہے ادب سے شغف رہا۔1979ء کو ہائی سکول دراسن موڑکھو سے میٹرک پاس کیا 1981ء کو پی ٹی سی استاد بن کر محکمہ تعلیم میں شمولیت اختیار کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا ایم اے بی ایڈ تک کی ڈگریاں لیں۔1983ء کو سٹی استاد بنا 1999ء کو ایس ایس ٹی بنا اور مڈل سکول جنجریت میں بطور ہیڈ ماسٹر تعیناتی ہوئی۔2017ء کو سترہ سکیل پہ ترقی ہوئی۔گیارہ ستمبر 2021 ء کو مڈل سکول وریجون سے بطور ہیڈ ماسٹر ریٹائر ہوئے۔ لیکن ان کی شخصیت اورصلاحیت ہی ایسی ہے کہ وہ صرف ایک کلاس کے استاد ہی نہیں ہیں وہ ایک متحرک شخصیت رہے ہیں۔

وہ دس سال تک اپر چترال کے اے ٹی اے کے صدر رہے ہیں اساتذہ کے حقوق کے لیے لڑتے رہے ہیں۔ہر فورم میں ان کی نمایندگی کا حق ادا کرتے رہے ہیں۔گاؤں اور علاقے کی سطح پر فعال سماجی کارکن رہے ہیں۔علاقہ وریجون میں پانی کی قلت کو دور کرنے کے لیے منیجر ظہیر الدین کے ساتھ مل کر قاقلشٹ نہر کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔دریا سے آپاشی کے لیے پانی مہیا کرنے کے لیے سولیرایشن کی ابتداء میں بنیادی کردار ادا کرتے رہے ہیں۔کے ایل ایس او کے بنادی رکن رہے ہیں۔

حبیب لال اپنے شاگردوں میں ایک مثالی استاد رہے ہیں آپ کھیلوں کے میدان میں ایک مشہور فٹبالر مانے جاتے ہیں آپ نے محکمے کے لیے کئی اعزازات جیتے۔آپ جب فٹبال کھیلنے میدان میں اُترتے تو مخالف ٹیم پر پریشر پڑتا آپ جیت کر ہی میدان سے لوٹتے۔آپ ولی بال پولو کرکٹ اور انڈور گیموں کے بھی ہیرو رہے ہیں۔حبیب لال اپنے اداروں میں ہم نصابی سرگرمیوں میں بچوں کی بہت اچھی تربیت کرتے رہے ہیں خود بڑے ادب دوست واقع ہوئے بہترین مقرر رہے آواز بھی شیرین پائی۔۔حبیب استادنے بچوں کے استاد، مربی راہنما اور سرپرست کے طور پر زندگی گزاری۔اس کے کسی طالب علم کو مالی شکلات ہوں علمی مسئلہ ہو گھریلو مسئلہ ہو حبیب استاد اس کے مسیحا کے طور پر اس کے ساتھ رہے۔ان کے دل میں بچوں کے لیے ایک درد محبت اور احترام ہے۔

حبیب لال بڑے بذلہ سنج ہیں محفل میں جب بات کرنے لگتے ہیں تو محفل لوٹ لیتے ہیں۔کہاوتیں قصے کہانیاں اور لطیفے بے مثال سناتے ہیں۔بہت مہمان نواز واقع ہوئے ہیں۔دسترخوان بڑا ہے۔صاحب جائیداد ہیں ساتھ فیاض ہیں ان کی زمینوں پر کام کرنے والے معاوضے سے زیادہ فیض اُٹھاتے ہیں۔ حبیب لال ایک اچھے منتظم رہے ہیں۔اپنے اداروں کو ہر لحاظ سے بہتر بنانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ایک فعال اور ہمہ جہت استاد کی حیثیت سے نمایان رہے ہیں۔وہ نڈر اور بیباک ہیں۔وہ کمپرومایز نہیں کرتے چیلنج قبول کرتے ہیں اور ہر رکاوٹ سے درانہ گزرتے ہیں


حبیب لال محکمہ تعلیم میں ایک خلاء چھوڑ گئے شاید اب کے بعد شاگردوں کو ایسا استاد نہ مل جائے جو ہر میدان کا مردمیدان ہو۔۔استاد کے بارے میں راے ہے کہ کبھی ریٹائر نہیں ہوتا شگردوں کے دلوں میں زندہ رہتا ہے لیکن شرط یہ ہے یہ استاد ایک Reference ہو کوئی حوالہ۔۔جس سے جد و جہد کے راستے روشن ہوں۔۔۔اگر ایسا ہے تو حبیب لال مینارہ نور ہے۔۔۔۔اور ایک حوالہ۔۔۔اللہ اس کو شاد و آباد رکھے

Posted in تازہ ترین, مضامین
52535

امارات اسلامی کی اجتہادی غلطی؟ – قادرخان یوسف زئی

دور ِ جدید میں کسی بھی ملک کی خود مختاری اور عوام کو ریلیف دینے کے لئے مضبوط معاشی ریاست کا  ہونا ضروری ہے۔ یہ مملکت کو فلاحی ریاست بنانے کے لئے اہم کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ 102 برس کی  3 جنگوں کے بعد افغانستان کو قیام امن کے لئے سنہرے دور کے آغاز کا ایک بہترین موقع ملا۔ عالمی برادری سے سفارتی تعلقات اور خطے میں افغانستان کی اہمیت کے پیش نظر اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری نے عالمی برداری سے اپیل کی وہ اس ملک کے لئے عطیات دیں کہ انسانی ہمدردی کی مددکے لئے لاکھوں ڈالر کی ضرورت  ہے۔ امریکہ نے اپنے زیر اثر بنکوں میں افغان حکومت کے20 ارب ڈالر کے اثاثے منجمد کردے، اگر ان اثاثوں کو منجمد کرنے کے بجائے نئی افغان عبوری حکومت کا حق انہیں دے دیا جائے تو افغان عوام کو پریشانی کم ہوسکتی ہے لیکن عالمی برادری افغانستان کے ساتھ صدقے خیرات کے نام پر دی جانے والی مالی امداد کے نام پر دباؤ کی ایک ایسی پالیسی کو اختیار کئے ہوئے ہیں کہ وہ چاہتی ہیں کہ طوعاََ کرھاََنئی افغان عبوری حکومت ان کی منشا کے مطابق چلے۔


گذشتہ دنوں امریکہ نے ہی افغانیوں کے لئے ڈونر کانفرنس کا انعقاد کرایا، جس میں افغانستان کے لئے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ایک ارب 26 کروڑ ڈالر سے زائد امدادی رقوم  کے وعدے کئے گئے۔ اسے مثبت اقدام قرار دیں گے لیکن گھوم پھیر کر بات وہیں پر آجاتی ہے کہ عالمی امداد ی رقوم براہ راست افغان حکومت کو نہیں ملے گی بلکہ عالمی امدادی تنظیموں کے توسط سے عوام پر خرچ کی جائے گی، اس کا پہلا تاثر یہی دیا جائے گا کہ افغان طالبا ن جنگ تو کرسکتے ہیں لیکن معاشی چیلنجز کو دور کرنے کی صلاحیت ان میں موجود نہیں اور اگر کچھ عرصہ یہی صورت حال رہی تو عوام تنگ آمد بجنگ آمد، نئی افغان حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ افغان حکومت نے طویل مشاورت کے بعد عبوری سیٹ اپ میں جن شخصیات کا تقرریاں کیں، اُن سب کا تعلق تحریک امارات اسلامیہ افغانستان سے ہے، نسلی بنیادوں پر  کلیدی تقرریاں کرکے ا نہوں نے ظاہر کرنے کی کوشش ضرور کی کہکابینہمیں ازبک، تاجک، ہزارہ اور پشتو ن بھی ہیں، لیکن وابستگی تو افغان طالبان سے ہی ہے۔


نئی عبوری حکومت کی تشکیل کے لئے دو لائحہ عمل ان کے سامنے تھے کہ ماضی کی طرح تنہا حکومت سازی کریں اور اپنے محدود وسائل کے ساتھ ملک کا نظام ا انصرام چلائیں، ملا عمر مجاہد مرحوم نے یہ کر  چکے تھے، گو کہ ان کی مالی امداد مسلم اکثریتی ممالک کررہے تھے، لیکن اس وقت  مکملفغانستان پر ان کا  مکملکنٹرول بھی نہیں تھا اور وہ چند حصوں تک ہی محدود تھے، اس لئے انہیں دنیا سے مالی امداد کی ضرورت نہیں پڑی۔  اب افغان طالبا ن نے جنگ کے نت نئے طریقے، سفارت، سیاست بھی سیکھ لی ہے اور وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر انہیں عالمی برداری سے تعلقات بحال رکھنے ہیں توعبوری دور کے تقاضوں کے مطابق چلنا ہوگا، انہوں نے کئی معاملوں میں ماضی کے بانسبت اپنا امیج مثبت ظاہر کرنے کے اقدامات کئے، جانی دشمنوں کو عام معافی دی، سرکاری ملازمین کو تحفظ اور تنخواہوں کی ادائیگی کی یقین دہانی کرائی، شخصی آزادی کی ضرورت پر زور دیا، کیمروں کے سامنے بیٹھ کر اپنا دفاع کیا، کابل ائیر پورٹ کو فعال کرانے کے لئے قطر اور ترکی سے تکینکی امداد حاصل کی، چین کو گیم چینجر قرار دیا،ایران  سے قربتیں بڑھائی، پنج شیر جھڑپ میں تحفظات سامنے آئے لیکن یہ کسی بھی ریاست کے لئے اہمیت کا حامل ہوتا ہے کہ اُس کی رٹ کو تسلیم نہ کرنے والوں کے خلاف کاروائی کی جائے۔ شمالی مزاحمتی اتحاد سے مذاکرات میں ناکامی کے بعد رٹ قائم کی جس سے  کچھ ممالک کو تکلیف بھی ہوئی۔


 این جی اوز نے خواتین کا کندھا استعمال کرکے عبوری حکومت مخالف احتجاجی مظاہرے کرائے، چونکہ امارات اسلامی کی مسلح دستوں کی تربیت ہر ملک کے فوجی کی طرح، بلکہ بڑھ کر ہے، ا س لئے انہیں عوام کے ساتھ گھل ملنے اور نصیحتوں کے لئے نہیں، بلکہ دشمن اور مخالفین کے خلاف سخت گیر  تربیت دی  گئی اس لئے دودہائیوں بعدمسلح فوجیوں کے  نزدیک  افغان روایات و ثقافت کے برعکس خواتین کے مظاہروں سے جو ردعمل آ تا رہے گا جو فطری ہوگا، جو کہ دنیا بھر میں ہوتا ہے۔افغان طالبان سیاسی ونگ نے ایک حکمت عملی کے تحت افغان باحجاب خواتین  سڑکوں پر لائے اور امارات اسلامی کے حق میں ریلی اور تقاریر ہوئیں، لیکن ان کی اس پیش رفت کو نئے برقعے کے عجیب ڈئزائن نے دنیا کی توجہ حاصل کر کے پانی پھیر دیا  کہ ایسا پردہ تو پوری دنیا میں بالخصوص افغانستان کی ثقافت میں بھی نہیں، اصل مقصد گم ہوگیا تو ایک مرتبہ پھر افغان روایت کے مطابق مروجہ توپ برقعے و حجاب میں خواتین کی بہت بڑی ریلی نکالی گئی اور عالمی برداری کو باور کرایا گیا کہ لبرلز و سیکولر طبقے سے زیادہ خواتین اسلامی امارات کی خواہش مند ہیں، لیکن یہاں ان ریلیوں و احتجاجی مظاہرے کے موازنہ کرنے کا مقصد نہیں بلکہ افغان طالبان کی نئی سوچ کو سمجھنا ہے کہ وہ عالمی سیاست کے تمام گر سمجھ گئے ہیں اور جو خواتین کی آواز بھی نامحرم کو سنائی دینے پر   بھی یقین رکھتے تھے،

اب سینکڑوں خواتین کی اخلاقی مدد اس لئے حاصل کی کیونکہ انہیں عالمی برداری میں تنہا نہیں رہنا اور افغانستان کی تعمیر نو اور بہتر مستقبل کے لئے اُن ہی ممالک سے مالی امداد کی ضرورت ہے جو ایک دوسرے کے خلاف گذشتہ102برسوں سے لڑتے رہے۔
 جنگ ختم ہوئی امن کا دور شروع ہوا، جرائم میں کمی آئی، تشددکا خاتمہ ہوا،خانہ جنگی اپنی اختتام کو پہنچی اور عالمی برداری کو خیر سگالی کے پیغامات بھیجے گئے، لیکن یہاں  عبوری حکومت کی تشکیل میں ان سے ایک اجتہادی غلطی ہوئی۔ اجتہادی غلطی اس لئے کہ جب عالمی برداری سے امداد و سفارتی تعلقات کے طلب گار اور معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں دقت کا سامنا ہے، نیز کوئی ایک یا دو ممالک اب افغان مملکت کا اتنا بھاری بوجھ کو نہیں اٹھا سکتے کہ یومیہ 29 کروڑ ڈالرخرچ کریں، چین اپنے مفادات کے لئے کسی حد تک تعاون کرسکتا ہے، لیکن افغانستان کو گود لے کر امریکہ کے بعد پوری دنیا کو اپنا دشمن نہیں بنا سکتا، اس لئے عبوری دور میں کم ازکم ایسی قابل قبول شخصیات بالخصوص دو تین خواتین کو شامل  کیا جاسکتا تھا جن کا تعلق کم ازکم افغان طالبان سے نہ ہوتا تو یہ اُن کے حق میں زیادہ بہتر ہوتا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
52521

سہارے کی انگلی – تحریر : اقبال حیات اف برغذی

شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بچپن میں ایک دفعہ اپنے والد صاحب کی انگلی پکڑ کر ان کے ساتھ کہیں جارہا تھا۔راستے میں میں ایک جگہ ایک شخص بند ر کونچا رہا تھا۔بڑی تعداد میں لوگ تماشہ دیکھ رہے تھے۔ میرے والد صاحب وہاں پر کھڑے اپنے ایک شناسا سے محو گفتگو ہوئے تو میں ان کی انگلی چھوڑ کر تماشائیوں میں گھس گیا۔ کچھ عرصہ بعد تماشے سے لطف اندوز ہوکر جب باہر نکلا تو والد صاحب کو موجود نہ پاکر زارو قطار رونے لگا۔ اسی دوران وہ مجھے ڈھونڈتے ہوئے مجھ تک پہنچے اور ڈانٹتے ہوئے کہا کہ “نادان لڑکا اگر بڑوں کی انگلی چھوڑ کر زندگی گزاروگے تو زندگی بھر رونے سے واسطہ پڑے گا”۔

یہ چند الفاظ اپنی نوعیت کے لحاظ سے پتھر پر لکیر کی حیثیت رکھتے ہیں ۔کیونکہ عمر کے لحاظ سے بڑے اور خصوصاً والدین زندگی کے سفر میں تجربات کی بنیاد پر اولاد کے لئے مشعل راہ کا کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ اور ساتھ ساتھ ان کی خیر خواہی زار راہ کی حیثیت کا حامل ہوگی۔ البتہ نافرمانی کی صورت میں اس کے منفی اثرات سے واسطہ پڑنا یقینی امر ہے۔ اولاد اگر گھر کے بڑوں اور خصوصاً والدین کی رہنمائی کے سائے میں پلنے کو اپنا شعار بنائیں گے۔ تو زندگی کے کسی مرحلے پر بھی ٹھوکر کھانے یا ناکافی کا منہ دیکھنے سے دوچار  نہ ہونگے۔ اور اس کے برعکس ہٹ دھرمی کی بنیاد پر زندگی کے امور سے متعلق فیصلے کرنے کی صورت میں پچھتاوے کا شکار ہوکر زندگی کی لذتوں سے محرومی سے واسطہ پڑنے کے بارے میں دورائے نہیں ہوسکتی ۔

بھلا جنہوں نے انگلی پکڑ کر سفرحیات میں قدم رکھنے کے ڈھنگ سکھائے ہوں اور ٹھوکر کھا کر منہ کے بل گرنے سے بچنے کے اسلوب بتائے ہوں وہ کیسے اپنی اولاد کی زندگی کے معاملات کے سلسلے میں بدخواہی کرسکتے ہیں۔ بدقسمتی سے آج سوشل میڈیا نے رشتوں ،ناطوں کی عزت وتوقیر کو ملیا میٹ کرکے رکھ دی ہے۔ مجموعی طور پر پوری معاشرتی زندگی چاہے کوئی خاندانی ،علمی اور منصبی حیثیت کے حامل کیوں نہ ہوں والدین اور گھر کے بڑوں کی آراء سے بے نیاز من چاہے زندگی اپنانے کو اپنا حق تصور کرتے ہیں ۔خصوصا شریک حیات کے انتخاب میں کسی کی مداخلت کو برداشت تک نہیں کرتے۔ اور بسا اوقات اس سلسلے میں حالات خودکشی پر منتج ہوتے ہیں۔

اخلاق،شرافت ،شرم وحیا اور دینداری کی کسوٹی میں پرکھے بغیر چہرے پر ملے رنگ وروغن کے دھوکے میں آکر جو فیصلے کرتے ہیں ۔ اس کے منفی اثرات کا خمیازہ پوری زندگی بھگتنا پڑتا ہے۔ کیونکہ اس حقیقت سے انکار کی گنجائش نہیں کہ والدین کے سامنے اُف  تک نہ کہنے کی حکم عدولی اور زندگی کے معاملات باہمی مشاورت کے ساتھ نمٹانے کے قرآنی ہدایات سے روگردانی کی بنیاد پر کئے جانے والے  فیصلوں کا برکات سے خالی ہونا ایک مسلمہ حقیقت ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامین
52519

داد بیداد ۔ خبر دار ہو شیار! ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

ایک ہی روز اخبارات میں دو خبریں آگئیں پا کستان کے ما یہ نا ز ایٹمی سائنسدان محسن پا کستان ڈاکٹر عبد القدیر خان نے تردیدی بیان جاری کیا کہ میری وفات کی خبر جھوٹی ہے میں زندہ ہو ں اور تندرستی کے قریب ہوں اسی صفحے پر دو کا لمی خبر میں پڑوسی ملک افغا نستان کی امارت اسلا می کے نائب وزیر اعظم ملا عبد الغنی برادر کا تردیدی بیان آیا ہے کہ میری وفات کی خبر غلط ہے میں صحت مند ہوں اور دفتری فرائض انجام دے رہا ہوں تردیدی خبروں کو پڑھنے کے بعد خیال آیا کہ آج کل ابلاغ عامہ کے ذرائع کسی بھی وقت کسی بھی زندہ شخصیت اور خا ص کر کے نا مور شخصیت کی وفات کی غیر مصدقہ خبردے سکتے ہیں خدا نہ بھی مارے ہمارے ذرائع ابلا غ کسی کی مو ت کا اعلا ن کر سکتے ہیں.

پا بندی کوئی نہیں جر ما نہ کوئی نہیں سزا کوئی نہیں تر دید کرنے والا اگر ہر جا نے کا دعویٰ کرے تو عدا لتوں سے مقدمے کا فیصلہ آنے سے پہلے مو ت کا پروانہ آجا ئے گا اور خبر سچ ثا بت ہو نے کے بعد مقدمہ خارج کیا جا ئے گا محسن پا کستان ڈاکٹر عبد القدیر خان کے بارے میں پہلے بھی ایسی افواہ اڑائی گئی تھی اور شکر ہے کہ وہ بھی غلط تھی یہ وہ دور ہے جس کے بارے میں کسی شاعر نے ایک مصر عے میں پتے کی بڑی بات کہی ہے ”دوڑ و زما نہ چال قیامت کی چل گیا“ اب کوئی بڑی شخصیت اپنے گھر میں راکٹ، میزائیل، بم اور گو لی سے لا کھ محفوظ ہو مو ت کی افواہ سے محفوظ نہیں کسی سہا نی شام یا سہا نی صبح کسی بھی بڑی شخصیت یا سیلبریٹی (Celebrity) کے ”انتقال پر ملا ل“ کی جھو ٹی خبر آ سکتی ہے.

خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلے گی تعزیت، فاتحہ خوانی کے لئے آنے والوں کی قطار یں لگ جا ئینگی ٹیلیفون پر پیغا مات آنے لگینگے پھر ممتاز شخصیت کو ڈاکٹر عبد القدیرخان اور ملا عبدا لغنی برادر کی طرح اپنی وفات حسرت آیات کی تر دید میں بیان دینا پڑے گا اگر یہ سلسلہ اس طرح جاری رہا تو تردیدی بیان کے بعد ایک اور بیان کے ذریعے مر نے کی افواہ پر تعزیت اور جنا زے کے لئے آنے والوں کا شکریہ بھی ادا کر نا پڑے گا آخر وہ لو گ زحمت کر کے تشریف لائے تھے اس نا گوار صورت حال کا خو ش گوار پہلو یہ ہے کہ بندے کو جیتے جی اندازہ ہو جا تا ہے کہ میرے مر نے پر کون کون تعزیت کرے گا کون جنازے پر آئے گا کس کا فو ن آنے کی امید ہے اور کون میری جدائی کو ملک اور قوم کا نا قا بل تلا فی نقصان قرار دے گا اور کون دور کی یہ کوڑی لائے گا کہ مر حوم کی مو ت سے پیدا ہو نے والا خلا کبھی پُر نہیں ہو گا.

1970کے عشرے میں تعلیمی اداروں کے اندر طلبہ کی یو نین فعال ہو اکر تی تھی مختلف نا موں سے دائیں اور با ئیں بازو کی طلبہ تنظیمیں کا م کر رہی تھیں ان دنوں ہما ری یو نیورسٹی کی دیوار وں پر مسلسل چا کنگ ہو رہی تھی ”طو فا ن کو رہا کرو“ایسا لگتا تھا بہت بڑا لیڈر گرفتار ہوا ہے ان کی رہا ئی کے لئے اتنی زبردست تحریک اُٹھے گی کہ یو نیور سٹی کو بند کر نا پڑے گا امتحا نات منسوخ کر نے پڑینگے ہاسٹلوں کو خا لی کیا جا ئے گا مہینہ دو مہینہ تک کچھ بھی نہیں ہوا تو تجربہ کار دوستوں نے ہمارے علم میں یہ کہہ کر اضا فہ کیا کہ طوفان خود راتوں کو گھومتے ہوئے دیواروں پر اپنی گرفتاری کی خبر اور رہا ئی کی اپیل لگا تا جا تا تھا.

اس نے جستی چادر کا ایک بلا ک تیار کیا تھا اس بلا ک کے ساتھ ایک سیڑھی اور کا لے رنگ کے ڈبے اوربرش کو ہاتھ میں لیکر یہ ڈرامہ رچا تا تھاا ور خود کو اس طریقے سے مشہور کر تا تھا اُس وقت سو شل میڈیا ہو تاتو وہ اپنے کمرے میں بیٹھ کر ارام سے اس طرح کا ڈرا مہ رچا تا ہمارے استاد جی کہتے ہیں کہ مو جود ہ دور کے ڈرامہ باز سیا ستدان اس طرح کے پرو پیگینڈے سے فائدہ اٹھا نے میں ننگ اور عار محسوس نہیں کرینگے خو د اپنی مو ت کی خبر سو شل میڈیا پر وائرل کرینگے اور پھر خو د اس کی پرزور تردید کر کے دو ہفتوں کی مفت پبلسٹی کا لطف اٹھا ئینگے استاد جی کہتے ہیں کہ ”خبر دار ہوشیار“ کی تختی ہر گھر کے دروازے پر لگا نی ہو گی پتہ نہیں کس کی مو ت کی جھوٹی خبر دشمن پھیلا ئے اور کس کی مو ت کی افوا ہ دوستوں کی طرف سے وائر ل ہو جا ئے اگر بندہ خبردار اور ہوشیار رہے گا تو بروقت اپنی مو ت کی تر دید کر سکیگا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
52475

پبلک سیکٹر کے میگامنصوبے ۔ محمد شریف شکیب

رواں مالی سال کے لئے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام میں خیبرپختونخوا کے 33 نئے منصوبوں کو شامل کرلیاگیا جن میں سے 14 منصوبوں پر صوبائی حکومت اور 19 منصوبوں پر وفاقی حکومت عمل درآمد کرے گی۔جبکہ اگلے مالی سال کے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام میں شمولیت کے لئے خیبرپختونخوا حکومت نے مختلف شعبوں میں 66 اہم منصوبوں کی نشاندہی کی ہے جن میں مواصلات کے 13، زراعت کے 12، آبپاشی کے آٹھ، اعلیٰ تعلیم کے نو، توانائی کے پانچ اور کھیل و سیاحت کے چار منصوبے شامل ہیں۔

وزیراعلیٰ کی زیرصدارت اجلاس کو اگلے پی ایس ڈی پی میں شامل کرنے کیلئے صوبائی حکومت کے مجوزہ ترقیاتی منصوبوں کے بارے میں بریفنگ کے دوران بتایاگیاکہ مجوزہ منصوبوں میں انڈس ہائی وے تا بنوں سٹی سڑک کو دو رویہ کرنا، ٹل پاڑا چنار روڈ کی بحالی، مہمند ڈیم سے پشاور شہر کو پانی کی فراہمی،تمام ضم اضلاع میں سوشل ویلفیئر دفاتر کی تعمیر، پانچ بندوبستی اضلاع میں سوشل ویلفیئر کمپلیکس کی تعمیر، درابن میں اکنامک زون، پشاور میں ویمن بزنس پارک کا قیام، ریگی للمہ ٹاؤن پشاور میں اسپورٹس کمپلیکس کی تعمیر، لوئر دیر میں خال گریٹر واٹر سپلائی سکیم اور لوئر چترال میں 495 میگاواٹ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی تعمیر شامل ہیں۔

وزیراعلیٰ نے متعلقہ حکام کو خیبرپختونخوا کے زیادہ سے زیادہ منصوبوں کی پی ایس ڈی پی میں شمولیت یقینی بنانے کیلئے پیشگی تیاریاں اور لوازمات بروقت مکمل کرنے کی ہدایت کی اور نئے منصوبوں کی پی سی ونز،فزبیلٹی اسٹڈیز اور انجینئرنگ ڈیزائن رواں سال کے آخر تک مکمل کرکے منظوری کیلئے متعلقہ وفاقی فورم کو ارسال کرنے کی ہدایت کی۔وفاق اور صوبائی حکومت کے اشتراک سے پی ایس ڈی پروگرام کے تحت زندگی کے مختلف شعبوں کے لئے میگاترقیاتی منصوبوں کی منظوری خوش آئند ہے۔ تاہم ان منصوبوں میں سیاحت اور معدنیات کے شعبوں کو شامل نہیں کیاگیا جو صوبائی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہیں اور صوبے کی معاشی ترقی، خوشحالی، روزگار کی فراہمی اور غربت کی شرح کم کرنے میں ان دو شعبوں کا مستقبل میں اہم کردار ہوگا۔

شاہراہوں کی تعمیر سیاحتی مقامات اور معدنی ذخائر تک رسائی کے لئے ضروری ہیں تاہم سیاحتی مقامات کی ترقی اور وہاں ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کو تمام ضروری سہولیات کی فراہمی پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ صوبائی حکومت نے گذشتہ سال دیر کے خوبصورت سیاحتی مقام کمراٹ سے چترال کے ہل سٹیشن مداک لشٹ تک کیبل کار چلانے کے منصوبے کا اعلان کیاتھا۔ یہ سیاحت کے فروغ کا ایک اہم منصوبہ ہے توقع ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل سے لاکھوں سیاح اس خطے کا رخ کریں گے۔ ہزاروں افراد کو روزگار ملے گا اور صوبائی حکومت کو سالانہ اربوں کی آمدنی حاصل ہوگی تاہم منصوبے پر دوسال گذرنے کے باوجود ابتدائی کام بھی شروع نہیں ہوسکا۔

کمراٹ اور مداک لشٹ میں سٹیشن، پارکنگ، ہوٹل اور تفریحی پارک کے لئے زمین کی خریداری کا عمل بھی اب تک شروع نہیں ہوسکا۔ اگر اسی رفتار سے کام ہوتا رہا۔توآئندہ دس پندرہ سالوں میں بھی یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکے گا۔ وزیراعلیٰ صوبے کی تعمیر و ترقی میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں وہ ہر اجلاس میں ترقیاتی منصوبوں کے لئے ٹائم لائن مقرر کرنے اور مقررہ مدت کے اندر منصوبہ مکمل کرنے کی بات کرتے ہیں مگر وزیراعلیٰ کے احکامات پر عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آتا۔حکومت نے دو سال قبل صوبے کے مختلف علاقوں میں سرکاری زمینوں پر ٹاؤن شپ تعمیر کرنے کااعلان کیاتھا اور بجٹ میں بھی اس کے لئے فنڈز مختص کئے گئے تھے۔ غالباً سرخ فیتے کی رکاوٹ کے باعث ان منصوبوں کو اب تک معرض التواء میں رکھا گیا ہے۔قومی تعمیر کے ان اہم منصوبوں میں تاخیر کا وزیراعلیٰ کو خود نوٹس لینا لینا چاہئے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
52473

”سب اچھا“ والی سرکاری رپورٹ۔محمد شریف شکیب

خیبر پختونخوا حکومت نے عوام کو تسلی دی ہے کہ دیگر صوبوں کی نسبت یہاں اشیائے خوردونوش کی ہول سیل اورپرچوں قیمتوں میں فرق سب سے کم ہے۔چینی کے ہول سیل اور پرچون قیمت میں فرق صرف 2 فیصد ہے۔آٹے کی ہول سیل اورپرچون قیمت میں فرق پچھلے ہفتے 3 فیصد سے کم ہوکر اب 2 فیصد پر آگیا ہے،مرغی کے گوشت کی ہول سیل اورپرچون قیمت میں فرق پچھلے ہفتے 9 فیصد سے کم ہوکر اب 6 فیصد پر آگیا ہے،

وزیراعلیٰ کی زیرصدارت اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کا جائزہ لینے کے لئے بلائے گئے اجلاس کو بتایاگیا کہ صوبہ بھر میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کی چیکنگ،نرخ ناموں کی عدم دستیابی، ملاوٹ، غیر معیاری اشیاء کی فروخت، ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ کے خلاف کاروائی کے دوران 38لاکھ 32ہزار روپے سے زائدجرمانے عائد کیے گئے، 304 ایف آئی آرز درج کی گئیں، 716 یونٹس سیل کئے گئے۔مقررہ نرخوں سے زائد قیمت وصول کرنے کی پاداش میں ساڑھے آٹھ لاکھ روپے جرمانے عائد کئے گئے،

45 گرانفروشوں کے خلاف ایف آئی آرز درج کی گئیں اور 74 دکانوں کو سیل کیا گیا۔ نرخنامے آویزاں نہ کرنے پر ڈھائی لاکھ روپے جرمانے عائد کئے گئے اور 72 دوکانیں سیل کی گئیں۔اجلاس میں فیصلہ کیاگیا کہ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لئے وزیر اعلی کی زیر صدارت ہر ہفتے اجلاس منعقد کیا جائے گا۔وزیراعلی نے انتظامیہ کو ہدایت کی کہ ذخیرہ اندوزی میں ملوث عناصر کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔

وزیراعلیٰ نے مختلف محکموں کی طرف سے الگ الگ چھاپوں کا سلسلہ ختم کرنے اوراشیائے ضروریہ کی قیمتوں کی نگرانی کے لئے ضلعی انتظامیہ، فوڈ اتھارٹی اور دیگر متعلقہ اداروں پر مشتمل مشترکہ ٹیمیں تشکیل دینے کی ہدایت کی۔افسرشاہی ہمیشہ حکمرانوں کو اعدادوشمار کے ذریعے یہ باور کرانے کی کوشش کرتی ہے کہ دوسرے صوبوں کی نسبت ہمارے ہاں امن و امان کی صورت حال مثالی، اشیائے ضروریہ کی قیمتیں اور جرائم کی شرح انتہائی کم ہے۔ اوراس ”کامیابی“ کو حکمرانوں کے حسن انتظام سے تعبیر کرکے انہیں شیشے میں اتار کر بوتل میں بند کردیا جاتا ہے اور عوام کو ملاوٹ کرنے والوں، ذخیرہ اندوزوں اور گرانفروشوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔

چونکہ حکمرانوں کو آٹے دال کا بھاؤ معلوم نہیں ہوتا اس لئے وہ افسر شاہی کی رپورٹ کا حرف آخر سمجھتے ہیں۔ ایک حکمران حضرت عمر فاروقؓ تھے جو راتوں کو بھیس بدل کر مدینے کی گلیوں میں پھیرتے تھے کہ کسی گھر سے بھوکے بچے کے رونے کی آواز تو نہیں آرہی۔ ہمارے حکمران عوام کے سامنے یہ تاویل پیش کرکے انہیں بہلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ خطے کے دیگر ملکوں کے مقابلے میں ہمارے ہاں پٹرول، ڈیزل، بجلی، گیس اور اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بہت کم ہیں۔ یہ نہیں بتایا جاتا کہ ان ملکوں میں ملازمین کی تنخواہیں کتنی ہیں اور مزدور کو کتنی اجرت ملتی ہے۔ ہمارے ملک میں صرف مہنگائی ہی عوام کا واحد مسئلہ نہیں۔ ملاوٹ، جعل سازی اور ذخیرہ اندوزی بھی بڑے مسائل ہیں۔

دودھ، آٹا، پکانے کا تیل، گھی،گوشت اور پانی بھی خالص نہیں ملتا۔ دودھ میں آدھا پانی اور آدھا کیمیکل ملاکر اصلی دودھ کی قیمت پر بیچا جاتا ہے۔ آٹے میں خشک روٹی کے ٹکڑے پیس کر اور چوکر ملائے جاتے ہیں۔ مردہ جانوروں کی ہڈیوں کے گودے پگھلا کر اور چربی میں کیمیکل ڈال کر انہیں گھی اور کوکنگ آئل کا لیبل لگا کر بیچا جاتا ہے۔ چائے کی پتی میں لکڑی کے برادے، چنے کے چھلکے اور مصالحوں میں اینٹیں پیس کر ملائے جاتے ہیں۔ بے چارے عوام اصلی چیز کی پوری قیمت دے کر نقلی اور مضرصحت اشیائے خوردونوش خریدنے پر مجبور ہیں۔ گذشتہ دوسالوں کے اندر ضرورت کی ہر چیز کی قیمت میں سو فیصد سے دوسو فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ یہ بات طے ہے کہ جب تک مجسٹریسی نظام بحال نہیں ہوتا۔ مہنگائی، ذخیرہ اندوزی، چور بازاری، ملاوٹ، جعل سازی اور گرانفروشی پر قابو پانے کی باتیں دیوانے کا خواب ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
52466

داد بیداد ۔ اعتماد سازی ۔ ڈاکٹرعنا یت اللہ فیضی

داد بیداد ۔ اعتماد سازی ۔ ڈاکٹرعنا یت اللہ فیضی

حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان خلیج روزبروز بڑھتی جا تی ہے تعلقات میں تعطل روبروز بڑھتا جا تا ہے یہاں تک نو بت آگئی ہے کہ دنوں بند گلی میں داخل ہو چکے ہیں اس گلی میں نہ پیچھے مڑ نے کی گنجا ئش ہے نہ آگے جا نے کا راستہ ہے سوشل میڈیا پر ایک بڑے پا یے کے دانشور نے تجویز دی ہے کہ جمہوریت ہمارے ملک کے لئے مو زوں طرز حکومت نہیں اس کا کوئی بہتر نعم البدل ڈھونڈ لیا جا ئے یعنی بادشاہ ہت لائی جا ئے اور ”مغل اعظم“ کے دور میں سکون امن یا آشتی کی زندگی گذار ی جا ئے دانشور نے طنزاً یہ بات نہیں لکھی انہوں نے دلیل دی ہے کہ جمہوریت میں اخراجات بہت ہیں الیکشن کا خر چہ، ارا کین پا رلیمنٹ کا خر چہ، کا بینہ کا خر چہ، پھر الیکشن،پھر اتنے سارے انتشار، غل غباڑے، ہلہ گلہ، شور شرابہ اور بے اطمینا نی کے سوا کچھ نہیں سوشل میڈیا پر دانشور کی یہ تجویز سب کو بری گلی سب نے اس کی مخا لفت کی بعض دوستوں نے دانشور کو جلی کٹی سنا ئیں.

اب یہ طوفان نہیں تھما تھا کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلا س سے صدر مملکت کے خطاب کی گھڑی آگئی یہ چو تھے پارلیمانی سال کے آغاز پر ہو نے والا آئینی خطاب تھا اس کو دستور یا Ritualکی حیثیت حا صل ہے صدر مملکت خطاب کے لئے روسٹرم پر آئے تو حزب اختلا ف نے شور شرابہ کر کے آسمان سر پر اٹھا لیا پہلے ایوان کو مچھلی بازار بنا یا پھر واک آوٹ کر کے با ہر نکل گئے اندر والوں نے سُکھ کا سانس لیا ”جان بچی لا کھوں پا یے“ یہ واقعہ پہلی بار نہیں ہوا 1989سے مسلسل ایسا ہو تا آرہا ہے غلا م اسحا ق خان کے خطاب سے یہ منفی روایت شروع ہوئی فاروق لغا ری، رفیق تارڑ، پرویز مشرف، آصف زرداری اور ممنون حسین سے ہوتی ہوئی یہ روایت عارف علوی تک آگئی ہے کسی بھی حزب اختلا ف کو اس روایت سے انحراف کی تو فیق نہیں ہوئی.

شا ید فیس بک والے دانشور نے درست بات کہی ہے ہمیں مغل اعظم کی باد شا ہت چاہئیے مگر یہ تفنن کی بات نہیں طنز و تشنیع کا معا ملہ نہیں سنجیدہ مو ضوع ہے حا لات حا ضرہ کی ایک تصویر ہے قومی زند گی کا ایک عکس ہے ہماری جمہوریت کا آئینہ ہے پارلیمنٹ کے اندر ہٹلر بازی کی طرح پارلیمنٹ سے باہر بھی رسہ کشی اور کھینچا تا نی ہورہی ہے گرما گرم مو ضوع الیکٹر انک ووٹنگ مشین ہے جس طرح حکومت نے قومی مفا ہمت (NRO) کو گا لی کا در جہ دیا ہے با لکل اسی طرح حزب اختلاف نے الیکٹرا نک ووٹنگ مشین کو دھا ندلی کا معمہ بنا دیا ہے حالانکہ نہ این آر او بری چیز ہے نہ الیکٹرا نک ووٹنگ مشین دھا ندلی کی نشا نی ہے.

حکومت نے اسمبلی میں پیش کر نے کے لئے جو بل تیار کیا ہے اس بل میں انتخا بی اصلا حات کا پورا پیکچ ہے چو نکہ اسمبلی میں حکومت کے پاس دو تہا ئی اکثریت نہیں اس لئے اس بل کو مشتہر نہیں کرتی اچا نک پا س کر نا چا ہتی ہے حکومت کو شک ہے کہ حزب اختلاف نے اگر بل کو پڑھ لیا تو پا س کرنے نہیں دیگی حزب اختلا ف کو شک ہے کہ حکومت الیکٹرا نک ووٹنگ مشین کے ذریعے ووٹ چوری کرنا چا ہتی ہے گو یا ”دنوں طرف آگ ہے برا بر لگی ہوئی“ دونوں ایک دوسرے پر اعتما د نہیں کر تے جس طرح دو دشمن ملکوں کو مذ اکرات کی میز پر لا نے کے لئے اعتما د کی فضا پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے اعتما د سازی کو CBM کہا جا تا ہے اسی طرح ملک کے اندر دو متحا رب دھڑوں کو ایک دوسرے کے قریب لا نے کے لئے اعتما د سازی ہو نی چاہئیے اعتما د بحا ل ہو گا تو بات آگے بڑھے گی.

ہونا یہ چا ہئیے تھا کہ حکومت اور حزب اختلا ف مل کر عبوری حکومت کی ضرورت کو ختم کر کے بر سر اقتدار جما عت کو انتخا بات کر انے کی ذمہ داری دیدیتے ساری دنیا میں ایسا ہی ہو رہا ہے کتنی خوش آئیند بات ہو تی اگر مو جودہ حزب اختلا ف الیکٹر انک ووٹنگ مشین کا خیر مقدم کر تی پوری دنیا میں یہ مشین استعمال ہور ہی ہے پڑوسی ملک میں بھی اس کو کا میا بی سے استعمال کیا جا رہا ہے ہم مشین سے کیوں خوف زدہ ہیں؟

یہ احساس کمتری کی علا مت ہے ہم نے یہ کیسے فرض کر لیا کہ حکومت مشین کے ذریعے ہمیں ہرا نا چاہتی ہے ہم نے کیسے فرض کر لیا کہ سمندر پار پا کستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کی صورت میں ہم شکست کھا ئینگے حکومت اور حزب اختلا ف کے درمیان حا ئل اس خلیج اور تعطل کو دور نہ کیا گیا تو ”مغل اعظم“ کو واحد حل کے طور پر سامنے لا نے والوں کی تعداد میں روز بروز اضا فہ ہو گا، جمہوریت پر سے عوام کا اعتما د اُٹھ جا ئے گا اعتما د سازی کے لئے حکومتی حلقوں سے صدر عارف علوی، سپیکر اسد قیصر اور وزیر دفاع پرویز خٹک موثر کر دار ادا کر سکتے ہیں حزب اختلا ف کے کیمپ میں مو لا نا فضل الرحمن، میاں شہباز شریف اور آصف زرداری ایسے قائدین ہیں جو تعطل کو دور کر کے اعتما د کی فضاء بحال کر سکتے ہیں سیا ست میں دو جمع دو کا جواب ہمیشہ چار نہیں آتا تین کو بھی درست ما نا جا تا ہے پا نچ کو بھی درست ما نا جا تا ہے یہی جمہوریت کو بچا نے کا فارمو لا ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
52434

پھر کہتے حکمران غلط ہیں!! – پروفیسرعبدالشکورشاہ

پیڑول مہنگا ہو گیا آپ کیا کہیں گے؟ حکمران اچھے نہیں ہیں۔علاج مہنگا ہو جائے تو حکمران اچھے نہیں ہیں۔ اشیاء خوردونوش مہنگی ہو جائیں تو حکمران اچھے نہیں ہیں۔ ملک میں کچھ بھی غلط ہو جائے تو سارا ملبہ حکمرانوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ یا یہ ہماری عادت بن چکی ہے؟ اپنے آپ کو معصوم اور بے گنا ہ ثابت کرنے کے لیے ذمہ داری یا تو شیطان کے سر تھونپ دیں یا حکمران اور سیاستدان کے۔ اگر ہم اپنے گریبان میں جھانکیں تو معلوم ہوگاحکمرانوں سے زیادہ اس سب کے ذمہ دار ہم خود ہیں اور ایسے حکمران اللہ تعالی نے ہم پر ہمارے اعمال کی وجہ سے مسلط کیے ہوئے ہیں۔جیسی عوام ویسے حکمران۔ پٹرول پمپ پرکم پٹرول ہم ڈالیں،پانی میں دودھ ہم ملائیں، شہد میں شیرہ ہم ملائیں، گھی میں کیمیکل ہم ملائیں،ہلدی میں مصنوعی رنگ ہم ملائیں،مرچوں میں سرخ اینٹیں پیس کرہم ملائیں پھر کہتے حکمران غلط ہیں!! چینی کے تھیلے میں پانی ڈال کر وزنی ہم کریں، سٹابری اور تربوز کو رنگ کے ٹیکے ہم لگائیں، ادرک کو پانی میں ڈال کر ہم وزنی کریں،چھوارے گیلے کر کے رمضان میں کجھور بتا کر ہم بیچیں پھر کہتے حکمران غلط ہیں!!ہوٹلوں میں مردار گوشت ہم کھلائیں، پرانی باسی دال سبزی تازہ میں

ہم مکس کریں، روٹی کا ریٹ زیادہ اور وزن ہم کم کریں، بجلی کے بل کے بجائے کونٹی ہم ڈالیں، بجلی کے بل میں میڑ ریڈر سے مل کر ہیرا پھیری ہم کریں،لائین مین سے ملک کر میڑ کی رفتارہم کم کروائیں، ٹیکس کے بجائے رشوت ہم دیں پھر کہتے حکمران غلط ہیں!!مہنگے ہوٹل پر ویٹر کو ٹپ اور ڈھابے پر غریب ویٹر کو جھاڑ ہم پلائیں، ناچنے والوں پر پیسے نچھاور اور مانگنے والوں کوہم کہیں مانگتے شرم نہیں آتی،بہن کو ڈانٹ کر گرل فرینڈ سے میٹھی باتیں ہم کریں، نماز میں ریاکاری ہم کریں،ناپ تول میں کمی ہیں کریں پھر کہتے حکمران غلط ہیں! جہیز بناتے بناتے بیٹیوں کو بوڑھا ہم کریں، اپنے تین فٹ کی بیٹی اور بہو قدآور ہم تلاش کریں، مذہبی حلیہ کے ساتھ منگنی اور ولیمے کا خرچہ ہم پوچھیں، نماز روزہ کے پابندی کی باتیں کر کے مہنگے شادی حالوں میں شادیاں ہم کروائیں، کولیگز کو ہر ہفتے اور بہنوں کو سال بعد عید پر فون ہم کریں پھر کہتے حکمران غلط ہیں!!بریانی کھا کے ووٹ ہم دیں، نوکری کے لیے رشوت ہم دیں،فائلوں کے لیے جیب ہم گرم کریں، بچوں کی فیس لیٹ مگر پولیس والے کے لیے پیسوں کا بندوبست فورا ہم کریں،اشارہ کاٹ کر ایمرجنسی میں ہسپتال پہنچنے کا بہانہ ہم کریں پھر کہتے حکمران غلط ہیں!!

روزانہ ایک پیکٹ سگریٹ ہم پئیں، نسوار کی تھیلیاں ہم خالی کریں، پکے سگریٹ ہم بنائیں، اوبر کی سواری بیٹھا کرکینسل کر کے سواری سے مطلوبہ کرایہ بے ایمانی کرتے ہوئے ہم لیں، رکشہ میں سواری کو جان بوجھ کر لمبے راستے سے لیجا کر اپنا کرایہ ہم بڑھائیں، سی این جی پر گاڑی چلا کر پیڑول کے حساب سے کرایہ ہم لیں پھر کہتے حکمران غلط ہیں!سرکاری سکول سے تنخواہ لیکر پرائیویٹ کالجوں، اکیڈمیوں اور یونیورسٹیوں میں ہم پڑھائیں، مسجد میں دس روپے چندہ وہ بھی پرانا نوٹ اور شادی میں ناچنے والوں پر نوٹوں کی بارش ہم کریں، محلے والوں کی کمیٹی کے پیسے ہم کھا جائیں، سیکھنا دین ہے تنخواہ چندہ کر کے چند ہزار ہم دیں،دین کے لیے مرنے کو تیار مگر مولوی صاحب کو اچھی تنخواہ ہم نہ دیں، ختم نبوت کے جلسے سے واپس آکر ٹک ٹاک ویڈیوز ہم دیکھیں، گھر میں پردے کی تلقین کرتے ہوئے پڑوسیوں کے گھروں میں ہم جھانکیں پھر کہتے حکمران غلط ہیں!! بارش میں پیدل چلنے والوں پر گاڑی سے کیچڑ ہم اچھالیں، اپنے گھر کا کوڑا باہر گلی میں ہم پھینکیں،نلکہ کھلا چھوڑ کر پانی ہم ضائع کریں،کمپریسر لگا کر پورے محلے کی گیس ہم استعمال کریں، کونٹی ڈال کر اے سی میں ہم سوئیں، اللہ سے بہتر کی دعائیں اوراللہ کے نام پر پھٹے پرانے کپڑے، ٹوٹی ہو پلیٹیں، مڑی ہوئی چمچ، بغیر ہتھی والے کپ ہم دیں پھر کہتے حکمران غلط ہیں!!

دہائیوں تک ایک ہی پارٹی کو ووٹ دے کر ہم جتوائیں، ایم این اے، ایم پی اے، ایم ایل اے کی گاڑی کے ساتھ لٹک کر نعرے ہم لگائیں، امیدوار کے جیتنے پر بھنگڑے ہم ڈالیں، مٹھائیاں ہم تقسیم کریں، پورا سال بھوکے رہ کر حلیم کی پلیٹ پر ووٹ ہم بیچیں، اپنے لیڈروں کا دفاع اور دوسروں کو گالیاں ہم دیں، گھر میں نخرے اور کے ایف سی پر لائین میں لگ کر آرڈر خود ہم لیں پھر کہتے حکمران غلط ہیں!!حافظہ عالمہ فاضلہ بن کر میک اپ ہم کریں، داڑھی رکھ کر ٹوپی پہن کر تسبیح جیب میں ڈال کر ٹک ٹاک ہم بنائیں، آدھی آدھی رات تک فون پہ لمبی کالیں ہم کریں، فیشن اور اوپن مانڈیڈ کے نام پر بے حیائی اور فحاشی ہم پھیلائیں، برقعہ پہن کر نکلیں پھر اسے اتار کر بیگ میں ہم چھپائیں، گھر سنبھالنا عورت کا کام ہے اور روٹیاں تندور سے منگوائیں، دن 12بجے سو کر ہم جاگیں، نہ نماز نہ عبادت اللہ سے سب کچھ ملنے کی امید ہم لگائیں پھر کہتے حکمران غلط ہیں!مریض کو ٹھیک کرنے کے بجائے ٹیسٹوں اور ادوایات کے تھیلوں سے نفسیاتی ہیجان میں ہم مبتلا کریں، ساری زندگی سروس میں گزارنے والے ادھیڑ عمر افراد کو پنشن کے لیے خوار ہم کریں،

بس میں خواتین کی سیٹوں پر ہم بیٹھ جائیں، عورت سے معاشقے کرنے اور نچانے کو ہم تیار مگر شادی کے لیے تیار نہیں، سارا سال پڑوس میں غریب بھوکے رہتے، ان کے بچے ہوٹلوں پہ کام کرتے مگر ہم قربانی ضرور دیتے اور حج کرنے چلے جاتے، قرض ادا نہیں کرتے مگر سیر و تفریح کے لیے پیسوں کا بندوبست کر لیتے، مفلسی کا رونا روتے مگر شادیوں پر جی بھر کے فضول خرچی کرتے، پالتوں کتوں کو لے کر پارک میں گھومتے مگر بوڑھے والدین کو ساتھ نہیں لاتے، کبوتروں کے پیچھے جون کی گرمی میں دھوپ میں کالے ہو جاتے مگر بچوں کو سکول سے لینے کے لیے ماں جاتی، مرغ اور کتے لڑانے کے لیے ان کی تربیت کرے مگر بچوں کی تربیت نہیں کرتے، بچوں کو موبائل پہ لگا کر خود بھی موبائل لیکر گھنٹوں نیکی کی پوسٹیں کرتے مگر اٹھ کر نماز پڑھنے مسجد نہیں جاتے، مہنگے ہوٹلوں اور کیفے ٹیریاز، کے ایف سی، میکڈونلڈ پر کھانے کی تشہر کرتے مگر مسجد جا کر نماز پڑھنے اورکسی کی مدد کرنے کی سیلفی نہیں بناتے پھر کہتے حکمران ٖغللط ہیں!

سینما کے باہر فلم کے بعد بند ہونے کا نہیں لکھا ہوا مگر مسجد کے باہر درج ہے، سینما سے آرام سے فلم پر تبصرے کر تے نکلتے مگر مسجد سے یوں بھاگتے جیسے جیل سے آزاد ہوئے ہوں، سینما فلم لگنے سے پہلے جا کر انتظار کرتے جبکہ جمعہ پڑھنے دوسری اذان سن کر ہی جاتے، سارا سال ایک نماز بھی ادا نہ کرنے والے عید پڑھنے ضرور جاتے، سڑک پر حادثہ ہوجائے رک کر دیکھ کر گزر جاتے یا ویڈیو بنانے کی کوشش کرتے، ون اویلنگ کرتے، بائیک کے سلنسر نکال کر ناک میں دم کردیتے،باجے بجا بجا کر جینا محال کر دیتے، شادی پر تین دن گانے بجانے اور ناچنے کے بعد رخصتی پر قرآن کے سائے میں بیٹی رخصت کرتے پھر کہتے حکمران غلط ہیں!نبی کے دفاع کے لیے تاویلیں پیش کرتے مگر اپنے سیاسی لیڈر کے لیے دھرنے، احتجاج، ہڑتالیں اور مظاہرے کرتے، فرضی بھوک ہڑتالی کیمپ لگاتے، سود کا کاروبار کرتے، یتیموں کا حق مارتے، محتاجوں کو دھکے دیتے، بیواوں اور غریبوں کی زمینوں پر قبضے کرتے پھر کہتے حکمران غلط ہیں!نلکے کا پانی منرل واٹرل بناکر ہم بیچتے، مردہ مرغیوں کے شوارمے ہم کھلاتے، جانوروں کی آنتوں سے گھی ہم بناتے، گلے سڑے پھل کاٹ کر جو س، فروٹ چاٹ، دہی بھلے وغیرہ ہم بیچتے،پھل بیچتے  ہوئے خراب پھل ہم شامل کر دیتے، سبزی میں خراب سبزی ہم ڈال دیتے، گھر سے سامان کے لیے دیے گئے پیسوں میں سے پیسے ہم مارتے،پھر کہتے حکمران غلط ہیں!ہمیں اپنے آپ کو درست کرنے کی ضرورت ہے جب ہم یہ سب چھوڑ دیں گے تو اللہ ہم پر ایسے حکمران بھی مسلط نہیں کرے گا۔ مگر ہم نے خود کو درست کرنے کے بجائے دوسروں کو مورد الزام ٹھہرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ جتنا وقت ہم دوسرں کے لیے نکالتے اتنا وقت اگر ہم اپنی اصلاح کرنے میں صرف کریں تو ہم بہت حد تک دل چکے ہوتے۔جب تک ہم نہیں بدلیں گے تب تک کچھ نہیں بدلنے والا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
52419