Chitral Times

امریکہ میں مقیم دس سالہ ارحم احمد شاہ چترالی کا اعزاز، تائکونڈومیں بلیک بیلٹ اور گولڈ میڈل اپنے نام کرلیا

امریکہ ( نمائندہ چترال ٹائمز )امریکہ میں مقیم ارحم شاہ چترالی نے دس سال کی عمر میں تائیکوانڈو میں بلیک بیلٹ اور گولڈ میڈل حاصل کرکے ریکارڈ قائم کیا ہے ۔


ارحم کی عمر 10 سال ہے اور وہ 5 سال سے Taekwondo کی کلاسیں لے رہا ہے وہ سکول کے ساتھ تمام کھیلوں سے لطف اندوز ہوتا ہے لیکن خاص طور پر کراٹے کو پسند کرتا ہے اور اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے اور نئی چیزیں سیکھنے کے لیے سخت محنت کرتا ہے۔ ارحم نے حال ہی میں اٹلانٹا ، GA USA میں 2021 ATU قومی مقابلے میں سونے اور چاندی کا تمغہ حاصل کیا۔

ارحم اپنے تائیکوانڈو کھیل کو جاری رکھنے اور مزید مقابلوں میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ امید ہے کہ ارحم کی محنت اور لگن دوسروں کو بھی کراٹے اور دیگر کھیلوں میں حصہ لینے کی ترغیب دیگی۔


یادرہے کہ ارحم احمدشاہ چترال ہون فیض آباد سے تعلق رکھنے والے جمیل شاہ کا فرزند ارجمند اور چترال میں اوصاف اخبار کے نمائندہ نذیراحمد شاہ کا پوتا ہے ۔

chitraltimes Arham shah Taekwondo black belt usa
chitraltimes Arham shah Taekwondo black belt usa chitrali
chitraltimes Arham shah Taekwondo black belt usa1
chitraltimes Arham shah Taekwondo black belt usa3
chitraltimes Arham shah Taekwondo black belt usa4
chitraltimes Arham shah Taekwondo black belt usa5
chitraltimes Arham shah Taekwondo black belt usa6

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged
53982

امریکہ کی ناکامیوں کے اسباب ۔ محمد شریف شکیب

افغان محاذ پر امریکہ اور نیٹو کی فوجی شکست سے یہ حقیقت آشکارہ ہوگئی کہ دنیا میں کوئی بڑی سے بڑی فوجی طاقت بھی ناقابل تسخیر نہیں ہوتی۔ اور جنگیں ملی و مذہبی جوش و جذبے سے لڑی اور جیتی جاتی ہیں۔ لشکر جرار اور جدید ترین ہتھیار جنگ میں کامیابی میں ضمانت نہیں۔ دوسری جنگ عظیم سے قبل برطانیہ کی آدھی دنیا پر حکمرانی تھی۔ مگر وہ افغانستان کو تسخیر نہ کرسکا۔ جنگ عظیم کے بعد دنیا دو گروپوں میں تقسیم ہوگئی۔ جسے بائی پولر سسٹم کہا جاتا ہے۔ ایک گروپ سرمایہ دارانہ اور جمہوری نظام کے علمبرداروں کا تھا۔ جس کی قیادت امریکہ کررہا تھا۔ جبکہ دوسرا گروپ کمیونسٹوں کا تھا جس کی قیادت سوویت یونین کر رہا تھا۔

1970کے عشرے میں سوویت یونین نے افغانستان پر لشکر کشی کی اور بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانے کے بعد 1979میں اسے نہ صرف وہاں سے ناکام لوٹنا پڑا۔ بلکہ سوویت یونین کا شیرازہ ہی بکھر گیا اور وہ نو مختلف ریاستوں میں تقسیم ہوگیا۔ اور وسطی ایشیائی مسلم ریاستوں تاجکستان، قازقستان، ازبکستان، آذربائیجان اور ترکمانستان کو بھی افغان جنگ کی بدولت آزادی مل گئی۔ بائی پولر سسٹم کا خاتمہ ہوگیا اوردنیا میں یونی پولر سسٹم قائم ہوگیا اور امریکہ دنیا کا واحد سپر پاور بن گیا۔

اپنے معاشی اور فوجی طاقت کے زغم میں امریکہ نے ویت نام میں فوجی مداخلت کی۔ مگر وہاں سے ناکام لوٹ گیا۔ پھر عراق پر لشکر کشی کی اور بغداد سے بھی کچھ حاصل کئے بغیر نکلنا پڑا۔ 2001میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں افغانستان پر یلغار کی۔اور بیس سالوں میں کھربوں ڈالر کا معاشی اور ہزاروں فوجیوں کا جانی نقصان اٹھانے کے بعد کابل سے بھی رات کی تاریکی میں فرار ہوگیا۔ دنیا کا سب سے طاقتور ملک جس کے پاس جدید ترین فوج، جدید ترین ٹیکنالوجی اور جدید ترین فضائیہ اور بحری بیڑے ہیں وہ طالبان کو شکست کیوں نہیں دے سکا؟ دنیا بھر کے دانشور اس بات پر حیران ہیں کہ امریکہ دورِ جدید میں جنگیں کیوں نہیں جیت پاتا؟ امریکیوں کا دعویٰ ہے کہ امریکہ کو افغانستان اور عراق میں بہت سی کامیابیاں ملی ہیں۔

امریکی فوج نے اسامہ بن لادن کو ڈھونڈ کر مارا ڈالا، القاعدہ کے کئی سرکردہ رہنما یا تو مارے گئے یا گرفتار کر لیے گئے۔ ’افغانستان میں انفراسٹرکچر کو فروغ ملا، خواتین کو تعلیم کے مواقع فراہم کئے گئے۔ ایک تعلیم یافتہ متوسط طبقہ ابھر کر سامنے آیا۔ عراق میں دولت اسلامیہ جیسے خطرناک دہشت گرد وں کوتباہ کیاگیا، لیبیا میں صدام حسین اور کرنل قذافی جیسے آمروں کا تختہ الٹ کر وہاں کے عوام کو بدترین آمریت سے نجات دلائی گئی۔امریکہ کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو امریکہ 1945 تک تقریباً تمام بڑی جنگیں جیت چکا تھا، لیکن 1945 کے بعد سے امریکہ کوکسی جنگ میں قابل ذکر کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ جن میں کوریا، ویت نام، خلیجی جنگ، عراق اور افغانستان کی جنگیں شامل ہیں۔”دی امریکن وار ان افغانستان اے ہسٹری“ نامی کتاب کے مصنف کارٹر ملکاسین کا کہنا ہے کہ دوسری جنگ عظیم سے پہلے لڑی جانے والی جنگیں ممالک کے درمیان تھیں اور امریکہ کو ان جنگوں میں کامیابی ملی۔

نئے زمانے کی جنگوں میں امریکہ کی ناکامی کی بنیادی وجہ یہ ہے یہ جنگیں ریگولر افواج کے درمیان نہیں لڑی گئیں بلکہ جنگجووں کے ساتھ تھیں جو اگرچہ فوجی طاقت میں کمزور ہیں مگروہ امریکی فوج کے مقابلے میں زیادہ حوصلہ مند اور پرعزم ہیں۔جس طرح سے امریکی فوجی بن غازی، صومالیہ، سائیگون اور اب کابل سے بے بسی کی حالت میں واپس آئے ہیں اس نے امریکی شکست کو مزید شرمناک بنا دیا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ جدید دور کی جنگوں میں امریکی فوج کی شکست کی کئی وجوہات ہیں، جن میں مقامی ثقافت کو نہ سمجھنا سب سے اہم ہے۔افغانستان، عراق، شام اور لیبیا جیسی جنگیں بڑی خانہ جنگیاں ہیں۔ فوجی یا مادی طاقت ان جنگوں میں فتح کی ضمانت نہیں۔خاص طور پر جب امریکہ جیسا ملک مقامی ثقافت سے ناواقف ہو اور ایسے دشمن سے لڑے جو زیادہ باخبر اور زیادہ پرعزم ہو۔ایسی جنگ میں قابض فوج کی ناکامی فطری امر ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
52106

پاکستان کی امریکہ کے لیے سہولت کاری . غزالی فاروق

پاکستان کی امریکہ کے لیے سہولت کاری . غزالی فاروق


 ایک حالیہ  شائع ہونے والی  رپورٹ کے مطابق   امریکی انٹیلی جنس برادری کا اندازہ ہے کہ افغان حکومت مکمل امریکی انخلاء کے بعد زیادہ سے زیادہ چھ ماہ سے ایک سال  کے دوران  طالبان کے ہاتھوں  ختم ہوجائے گی۔ وال اسٹریٹ جرنل کی جانب سے جاری  کردہ یہ  رپورٹ  امریکی انٹیلی جنس برادری  کےپچھلے زیادہ امید افزا اندازوں کے برخلاف ہے جن میں یہ کہا گیا تھا کہ افغان حکومت امریکی انخلاء کے بعد دو سال تک برقرار رہ سکے گی۔

افغانستان کی تیزی کے ساتھ بدلتی ہوئی  صورتحال میں  امریکہ کی انٹیلی جنس برادری  نے اپنے پچھلے اندازوں کو تبدیل کردیا ہے،   کیونکہ گزشتہ چند روز  میں  طالبان نے افغانستان میں  اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔   افغان حکومت کی فوج اس وقت طالبان کے خلاف   مختلف مقامات پر محاذ آرا ہیں لیکن  طالبان   ایران، تاجکستان، ترکمانستان، چین اور پاکستان  پر مشتمل   پانچ ممالک  کے ساتھ  قائم مرکزی بارڈر کراسنگ پر  کنٹرول حاصل  کر چکےہیں۔ خود طالبان کا یہ  دعویٰ ہے کہ وہ افغانستان  کے 85 فیصد علاقے  پر کنٹرول حاصل کر چکے ہیں۔ لیکن  بعض ذرائع کے مطابق افغانستان کے تقریباً  400 اضلاع میں سے ابھی تک  ایک تہائی کا کنٹرول طالبان کے ہاتھ میں آیا  ہے۔

آج امریکہ بگرام ائیربیس کو رات کی تاریکی میں اور مکمل خاموشی کے ساتھ  چھوڑ کر  بھاگ  چکا ہے۔ یہ وہ فضائی اڈہ تھا  جو  افغانستان میں امریکا کا بنیادی جنگی مرکز تھا اور دسیوں ہزار امریکی فوجیوں کا گڑھ  بھی تھا۔ لیکن امریکہ کو برسرپیکار جنگجوؤں  کا خوف اس قدرزیادہ  تھا  کہ امریکہ نے اس معاملہ میں افغان حکومت کو بھی اپنے  اعتماد میں لینا  مناسب  نہ  سمجھا کہ کہیں جنگجوؤں کو کان و کان خبر نہ ہو جائے اور وہ بھاگتی ہوئی  امریکی افواج کو نشانہ نہ بنا لیں۔ اور نہ ہی امریکہ یہ چاہتا ہے کہ اس کی فوج کی ویسی ہی تصویریں میڈیا کی زینت بنیں جو ویتنام سے بھاگتے ہوئے بنیں تھیں!

یہ بات بہت عرصے سے واضح ہو چکی تھی کہ امریکہ افغانستان میں اپنے قبضے کے خلاف جاری مزاحمت کو ختم کرنے میں ناکام ہو چکا ہے، جسے افغان قبائلی آبادی کی حمایت اور شمولیت حاصل تھی۔ امریکہ نے خود  بھی یہ  تسلیم کر لیا تھا  کہ اس کی کابل میں قائم کٹھ پتلی  حکومت بھی  ملک کے کئی علاقوں پر اپنا کنٹرول اور اختیار لاگو کرنے میں ناکام ہے۔ لہٰذا امریکہ نےطالبان کے ساتھ  اِس امید پر سفارتی حل کا رستہ اختیار کیا کہ جو مقصد وہ جنگ کے ذریعے حاصل نہیں کرسکا تھا  وہ اس طرح سے حاصل کرلے گا۔ لیکن امریکہ  مذاکرات کے ذریعے بھی مکمل سفارتی کامیابی اور اپنی مرضی کا سیٹ اپ حاصل نہیں کرسکا کیونکہ مذاکرات کرنے والے افغان مجاہدین کی مکمل نمائندگی نہیں کرتے بلکہ اس کے ایک  حصے کی نمائندگی کرتے ہیں۔

یہ بات امریکہ کو گوارا نہیں کہ وہ  افغانستان سے ایسے انخلاء کرے کہ خطے میں اس کا عمل دخل ہی ختم ہو جائے۔ امریکہ یہ خواہش رکھتا  ہے کہ طالبان  کابل حکومت کے اہم مراکز پر قبضہ نہ کرسکیں۔  امریکہ کو اس بات میں کوئی تامل نہیں اگر وہ افغانستان میں بھی عراق والی صورتحال کو دہراتا ہے، جہاں امریکہ نے عراق سے ایسی صورتحال میں انخلاء کیا تھا کہ ملک افراتفری کا شکار تھا،  اور کسی بھی گروہ کو ملک پر مکمل کنٹرول حاصل نہ تھا، مخلص لوگ اقتدار سے باہر تھے اور بغداد کی کٹھ پتلی  حکومت امریکی مفادات کا تحفظ کررہی تھی۔ عراق کی حکومت نے یہ کوشش نہیں کی تھی کہ اس کا اقتدار پورے ملک پر قائم ہوجائے، لیکن وہ اس قابل تھی کہ تیل کے کنوؤں کی حفاظت کرسکے جنہیں امریکی کمپنیاں لوٹ رہی تھیں۔ حکومت اس قابل بھی تھی کہ وہ عراق میں امریکہ مخالف لوگوں، چاہے وہ مسلمانوں میں سےہوں یا بعث پارٹی سے، مکمل اقتدارحاصل کرنے سے  روک سکے۔لہٰذا   اگر افغانستان  کی صورتحال  بھی عراق کی سی   شکل اختیار کر  لیتی ہے اور خونریزی جاری رہتی ہے تو   ایسا  امریکہ کے لیے قابل قبول ہو گا۔ اور امریکہ اس صورت حال کو چین اور روس کی راہ روکنے کے لیے بھی استعمال کر سکے گا جو افغانستان کے لیے اپنے منصوبے بنائے بیٹھے ہیں۔

لہٰذا  امریکہ کی یہ خواہش ہے  کہ طالبان افغانستان کے حساس علاقوں جیسا کہ کابل کا گرین زون، ائر پورٹ، سپلائی روٹس  اور دیگر اہم تنصیبات پر قبضہ نہ کرسکیں اور ایسا وہ  پاکستان اور ترکی جیسے ممالک  کے تعاون اور  ان کے  اثر و رسوخ  کو استعمال میں لا کر ممکن بنانا چاہتا ہے۔ چنانچہ  امریکہ پاکستان پر  Financial Action Task Force (FATF) کے ذریعے دباؤ کو  برقرار رکھے ہوئے ہے جس نے پاکستان کو مزید ایک اور سال کے لیے ‘گرے لسٹ’ سے نکالنے سے انکار کر دیا ہے۔ پاکستانی حکومت اس وقت  اعلانیہ طور پر تو امریکی دباؤ کے خلاف ردعمل ظاہر کر رہی ہے اور امریکی اڈوں کی اجازت دینے سے بھی  انکار کر رہی ہے مگر دوسری طرف  پاکستان  نے  امریکہ کے ساتھ 2001 ءمیں  طے پائے جانے   والے ” ایئر لائن آف کمیونیکشن (اے ایل او سی) اور گراؤنڈ لائن آف کمیونیکشن (جی ایل او سی)” کی تجدید کر دی ہے بلکہ ان کے بارے میں برملا اعلان کیا جا رہا ہے کہ وہ معاہدے  اب بھی اپنی جگہ   برقرار  ہیں!

حقیقت تو یہ ہے کہ اشد ضرورت کے وقت پاکستان کے فرمانبردار حکمرانوں نے امریکہ کو کبھی مایوس نہیں کیا۔ پاکستان ہی وہ بڑا سہولت کار  تھا جس کی مدد   سے امریکہ افغانستان پر اپنے قبضے کو  ممکن بنا پایا   تھا۔ اور یہ پاکستان ہی تھا جس نے مزاحمت کاروں کے ساتھ مذاکرات کی بساط بچھانے میں امریکہ کی بھرپور مدد کی۔  اور  اس وقت بھی  امریکی افواج کے  افغانستان  سے انخلاء کے موقع پر اور اس کے نتیجہ میں  افغانستان  میں پیدا ہونے والی  اندرونی صورتحال سے  متعلق   پاکستان کی جانب سے امریکہ کے لیے سہولت کاری  زور و شور سے      کے ساتھ  جاری ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا ازبکستان کا دورہ اسی سلسلے کی کڑی ہے، جبکہ اس سے کچھ ہی دن قبل ازبکستان کے وزیر خارجہ امریکہ کا دورہ کر واپس لوٹے ہیں۔ 

ہم نے ستر سال امریکی علاقائی منصوبوں کا ایندھن بن کر دیکھ لیا،  اور ان منصوبوں میں اپنی ریاستی طاقت کا مشاہدہ بھی کر لیا کہ ہماری طاقت کے بل بوتے پر ہی امریکہ سوویت یونین کو شکست دینے میں کامیاب ہوا،  پاکستان کے ذریعے ہی امریکہ نے دہائیوں تک بھارت کے ناک میں دم کیے رکھا اور پھر اسے اپنے کیمپ میں کھینچنے پر قادر ہوا۔ امریکہ وسطی ایشیا تک ہماری طاقت کو استعمال کرتا رہا۔ لیکن اس سب سے ہمیں کیا حاصل ہوا، سوائے یہ کہ ہمارا ملک دولخت ہوا، سیاچن اور تین دریا بھارت نے چھین لئے، اکسائی چن  چین نے لے لیا، ہمارے قبائلی علاقے اور پھر پورا ملک  انتشار کا شکار ہوا اور آج مقبوضہ کشمیر پر ہندو ریاست کے جبری قبضے پر ہم چپ سادھے بیٹھے  ہیں، اور اسے سرکاری طور پر سرنڈر کرنے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔  تو جب امریکہ ہماری طاقت کے بل بوتے پر پورے خطے میں اپنا کھیل کھیل کر اپنے  استعماری مفادات حاصل کر سکتا ہے، تو ہم اس طاقت کی بنیاد پر اللہ کی رضا حاصل کرتے ہوئے  اسے خطے کے مسلمانوں کے مفاد کے لیے کیوں استعمال نہیں کر سکتے؟ افغانستان میں ذلت آمیز شکست کے بعد یہ تصور کرنا محال ہے کہ امریکہ اب دوبارا اپنی فوجیں لے کے اس خطے پر حملہ آور ہو گا تو کیا اب وقت نہیں آ گیا کہ پاکستان جرات مندانہ قدم اٹھا کر خطے سے امریکی اثرورسوخ کا جڑ سے خاتمہ کردے؟

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
50653