Chitral Times

نوائے سُرود –  کہیں ہم مجرم تو نہیں ؟ – شہزادی کوثر

Posted on

نوائے سُرود –  کہیں ہم مجرم تو نہیں ؟  – شہزادی کوثر

” اسراف جرم ہے اور غربت میں اسراف دہرا جرم ہے ” مختار مسعود کی زبانی انقرہ میں ایوان صدر کی گیلری میں بچھے ہوئےپرانے اور گھسے ہوئے قالین نے اہل پاکستان کے نام جو پیغام دیا تھا اس پر کوئی کان دھر کر عمل کرنے کی کوشش کرتا تو آج ہمارے ملک کا وہ حشر نہ ہوتا جو ہم اپنی آنکھو ں سے دیکھ کر بھی کچھ نہیں کر پا رہے ۔ زندہ قومیں عمل اور جرات سے پہچانی جاتی ہیں اشیا اور تعیش سے نہیں ۔  ہمارا رویہ اوپر سے نیچے تک ایسا دوغلا اور دکھاوے پر مبنی ہو گیا ہے کہ کہیں بھی صداقت اور اصلیت کی جھلک نظر نہیں آرہی۔ پاکستان وجود میں آنے سے لے کر آج تک ملک کو خوشحالی کے راستے پہ ڈالنے کے بجائےاسے بے رحمی سے لوٹنے کا جو سلسلہ شروع ہو چکا تھا اس پر بغیر کسی تعطل کے عمل جاری ہے ۔ کوئی نہیں بتا سکتا کہ اسے کب ایک صحیح اور ہمدرد حکمران نصیب ہو گا اورلٹے پٹے عوام کو منصف رہنما میسر ائیں گے۔

 

اس میں قصور بخت کا ہے ،حالات کا ہے یا عوام کا ۔۔۔ اس کا فیصلہ اگر کر بھی لیا جائے تو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا جتنی بے دردی کا مظاہرہ یہاں کیا گیا ہے اس کی مثال مشکل ہے۔ ملکی خزانے پر جتنا بوجھ غیر ضروری اور غیر اہم اخراجات کی مد میں ڈالا جارہا ہے اس سے سب واقف ہیں اگر غیر ملکی ٹھیکہ دار بھی پاکستان آئے تواسے سرکاری پروٹوکول کے ساتھ قیمتی تحائف دئیے جاتے ہیں تفریحی مقامات کی سیر کروائی جاتی ہے ، مہمان کے اعزاز میں دئیے جانے والے ظہرانہ اور عشائیہ پرسینکڑوں دیگر مہمانوں کو مدعو کر کے موجودہ قرضے میں اضافہ کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ بے وقوفی اور اسراف کے کس کس انداز کو روایتی مہمان نوازی کے نام پر جائز قرار دیتے ہیں اس پر حیرت ہوتی ہے۔ وزیرخزانہ کا عہدہ ایسا ہے کہ اسے “مثل مار سر گنج” ملکی خزانے کی حفاظت کرنا پڑتی ہے لیکن ہمارے ہاں ریت ہی الگ ہے، خزانہ خالی کر کے “اپنی ” دولت بیرون ملک منتقل کرنے کا جو طریقہ صاحبان اختیار کو آتا ہے کوئی دوسرا اس کی دھول کو بھی نہیں پہنچ سکتا ۔اس وجہ سے ہر بچہ مقروض پیدا ہوتا ہے اس کی ناتواں کمر پر قرض کی اینٹ اس وقت رکھی جاتی ہے جب وہ اس کارگہ زیست میں اپنی آنکھ کھولتا ہے گزرتے وقت کے ساتھ سود کے اینٹوں کا نہ ختم ہونے والا ڈھیر اس کی کمر توڑ دیتا ہے ۔وہ غلامی کی نادیدہ زنجیروں میں تب تک جکڑا ہوا رہتا ہے جب تک اس کی سانسوں کی زنجیر ٹوٹ نہیں  جاتی  ،اپنی آخری ہچکی کے ساتھ ہی وہ دنیا کی آلائشوں کے ساتھ ذلت و غلامی کے اس طوق کو اتار پھینکتا ہے جو زندگی بھر اسے دوسری اقوام کے سامنے سر نگوں رہنے پر مجبور کرتا ہے ۔

 

پاکستان دنیا کی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونے کے خواب ہی دیکھ سکتا ہے ۔دولت و ترقی میں نوزائیدہ ممالک بھی آگے نکل چکے ہیں مگر اس کا طبقہ اشرافیہ سرکاری رہائش گاہوں ،سرکاری املاک،گاڑیوں کے استعمال،دیگر تعیش،ٹھاٹ باٹھ،اپنے عزیزوں اور دیگر غیر ملکی مہمانوں پر ناجائز خرچ کرنے میں پیش پیش ہیں ۔ ان سب کے اثرات بلند طبقے سے نچلے طبقے کی طرف بھی اتنی تیزی سے اتے ہیں کہ ہر کوئی دولت عیش و آرام،شوکت و شہرت کے پیچھے بھاگ رہا ہے ۔اس کے حصول کی تمام تر کوشش کرتے ہوئے اکثر اوقات شرعی اور قانونی حدود سے بھی متجاوز ہو جاتا ہے۔یہ سوچ ہمارے ذہنوں سے نکل چکی ہے کہ اپنی ضروریات کو پورا کرنے، اپنے خاندان کی کفالت اور اس کی تعلیم وتربیت کے لئے محنت درکار  ہے نہ کہ دوسروں کو دکھانے اور متاثر کرنے کے لئے کالا دھن جمع کرنے کی ضرورت ۔۔

 

ہمیں اپنی سوچ بدلنے کرنے کے ساتھ ساتھ خواص کے قدم اکھاڑنے کی ہمت چاہیئے جو پچھلے پچھتر سالوں سے جونک کی طرح ہماری رگوں سے خون چوس رہے ہیں ۔ہمیں بحیثیت عوام اپنا فرض ادا کرنا ہے ہم ان سے پوچھنے کا حوصلہ نہیں رکھتے یہ سب سے بڑی بد بختی ہے کہ حکمران سے سوال کرنے میں ہچکچاہٹ ہو ،جب عوام اپنے حکمران سے پوچھنے کے قابل ہوجائے کہ آپ کے پاس دو چادریں کہا ں سے آ گئیں ؟ تب صحیح معنوں میں عوام اپنا فرض پورا کرے گا ۔چادریں تو دور کی بات یہاں ملک کو کنگال کرنے والوں سے بھی کوئی نہیں پوچھتا بلکہ اسے تخت پہ بٹھایا جاتا ہے۔ ہم گونگے بہرے بنے لُٹ رہے ہیں اور آواز اٹھانے کی جسارت بھی نہیں کر پا رہے۔ طبقہ اشرافیہ سے کسی حاجت کی امیداور ضرورت کی بر آوری کی آس نے ہمیں بے دست و پا کر دیا ہے۔ ہماری حیثیت اپاہچ معذور گونگے کی ہے جو دیکھ تولیتا ہے لیکن کچھ کر پانے کی استطاعت نہیں رکھتا ۔ وہ دن کب آئے گا جب قوم جاگ اٹھے گی ؟  ہم جاگتے تو ہیں مگر صرف ملی نغموں میں ۔۔

 

غیرت و جرات کا پیکر بھی بن جاتے ہیں اپنے دشمن کو مٹی میں ملانا بھی جانتے ہیں لیکن اپنی قوم کی بنیادیں کھوکھلی کرنے والے دشمنوں سے یا تو واقعی بے خبر ہیں یا جا نتے بوجھتے چشم پوشی کر رہے ہیں ۔اگر واقعی ایسا ہے تو ہمیں جوابدہی کے لئے تیار بھی رہنا ہوگا۔ اگر ہم آزاد ہیں ،ایک قوم ہیں  تو قوم ہونے کا ثبوت بھی دینا ہوگا ۔ ٹی وی پر آکر ایک دوسرے کے خلاف زہر اگلنے اور گالم گلوچ سے اگر معاشی مسائل کا کوئی خاطر خواہ حل نکلتا یا غریب کو دو وقت کی روٹی مل جاتی یا بیمار کو آرام و سکون مل پاتاتو کوئی بات بھی تھی۔۔  ہم کہنے کو قوم ہیں لیکن صرف شاعری کی حد تک یا گنگنانے کے لئے۔۔۔ ہم ایک پرچم تلے جمع بھی ہو جاتے ہیں لیکن سچ پوچھیں تو ہمارے مفادات الگ الگ ہیں ،ہر کوئی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے میں جتا ہوا ہے ،اتحاد و اتفاق سے کام لیتے تو پچھتر سالوں سے ہماری ایک ہی دُہائی نہ ہوتی بلکہ ہم نئے زمانے کا راگ الاپتے ہوئے ستاروں کی رہنمائی کر رہے ہوتے۔۔۔

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged ,
63973

نوائے سُرود – گمنام نجانےکتنے ہیں – شہزادی کوثر

6 ستمبر 1965کو دشمن کے دانت کھٹے کر کے اپنی دفاع کو ناقابل شکست بنانے والے سپوت وطن عزیز کا انمول سرمایہ ہیں،جنھوں نے اپنا سب کچھ وطن پر قربان کرنے کا عزم کیا ہے۔ انہی سر فروشوں کی بدولت مادر وطن کا دفاع آہنی ہاتھوں میں ہے جن کی گرفت میں آنے والے دشمن کو دوسرے لمحے کا سانس لینا نصیب نہیں ہوتا، چاہے وہ پاک فضائیہ کے شاہین ہوں،بحر بیکراں کے مرد آہن جان نثار یا بری فوج کے شیر دل جانباز،ہر ایک پاک دھرتی کی حفاظت کی خاطرسر بکف ہے۔                                                                         

اے وطن تو نے پکارا تو لہو کھول اٹھا                     

 تیرے بیٹے تیرے جانباز چلے آئے ہیں                      

تینوں افواج نے ہر میدان میں وطن کی خدمت کا حق ادا کر کے ،ملک کی سالمیت اور وقار کو ناقابل تسخیر بنا کر تاریخ رقم کی ہے۔ 1965 کی جنگ میں دشمن کی لاہور کے جم خانے میں ناشتہ کرنے کی آرزو تو پوری نہ  ہونے دی لیکن  52  برس بعد ایک کپ چائے سے ابی نندن کا تواضع کر کے اپنی مہمان نوازی کا ضرور ثبوت دیا ۔ 6  ستمبر پاکستانی عوام کے دلوں میں موجود جوش و جذبے کو تازہ دم کرنے کا دن ہے پاک افواج کے شانہ بشانہ عوام نے بھی اپنا سب کچھ وطن پر قربان کرنے کی قسم کھائی تھی۔ دشمن کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ رات کی تاریکی میں بھی ہم جس ملک پر قبضہ کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں اس کے بیٹے نیند میں بھی بیدار رہتے ہیں۔ ان کے حوصلے سر بفلک چٹانوں سے اونچے ہیں ۔یہ اقبال کے شاہین ہیں جن کی دوربین نگاہ ہر زاویئے سے دیکھنے،پرکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔اور اپنے شکار کو لمحہ بھر میں دبوچنے کی صلاحیت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔اس کا ثبوت پاک فضائیہ کے لٹل ڈراگن ،اسکوارڈن لیڈرمحمد محمود عالم ستارہ جرات کا بے مثال کارنامہ ہے جنھوں نے   65  کی جنگ میں ایک منٹ کے اندر اندر انڈین ائیر فورس کے پانچ ہاکر ہنٹر ائیر کرافٹس زمین بوس کر دئیے۔ ان کے اس کارنامے سے پاک فضائیہ کا مورال کس حد تک بلند ہوا ہو گا اسے آسانی سے محسوس کیا جاسکتا ہے۔                                       

عقابوں کے تسلط پر فضائیں فخر کرتی ہیں              

خودی کے رازدانوں پر دعائیں فخر کرتی ہیں            

بطن سے جن کے بیٹے ہوں فقط محمود عالم سے          

وہ دھرتی سر اٹھاتی ہے وہ مائیں فخر کرتی ہیں           

بری فوج کے میجر عزیز بھٹی نے دشمن کی طرف سے ہونے والی شیلنگ کو اپنے سینے پر روک کر وطن کی سلامتی پر قربان ہو گئے۔ اسی طرح نشان حیدر پانے والے اور ملکی وقار کے لئےاپنی جان وطن پر بخوشی نچھاور کرنے والوں سے تو سب واقف ہیں لیکن ان تمام عظیم ہستیوں کے علاوہ اور کتنے سپاہی،نائیک ،لانس نائیک،صوبیدار، لفٹننٹ،اور کیپٹن ہوں گے جنھوں نے مادر وطن کی مٹی کو اپنے لہو کے پھولوں سے گلزار بنا دیا لیکن ان کے ناموں سے ہم آج بھی نا واقف ہیں۔                                                     

دو چار سے دنیا واقف ہے                   

 گمنام نجانے کتنے ہیں                        

ہزاروں سپاہیوں نے وطن کے نام کی لاج رکھنے کے لئے وطن کا قرض اپنے لہو سے اتارا۔آج ان کی قربانیوں کی بدولت ہم آزادی کی نعمت سے سرفراز ہیں۔ اگر انہیں چاند تارا والے پرچم میں لپٹنا  نصیب نہیں ہوا یا ستارہ جرات یا نشان حیدر نہیں ملا اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی قربانیاں رائیگاں چلی گیئں۔اس مٹی کا ہر ذرہ ان کی عظمت کو سلام پیش کرتا ہے ۔انہون  نے اپنے لہو کے چراغ جلا کر سر راہ رکھ دئیے تا کہ ملک کا ہر جوان اس روشنی میں اپنی منزل کا تعین کر سکے ۔ ملکی سالمیت کے لئے ہماری افواج ہر دم تیار ہیں۔ان کا عزم ویقین اور بلند حوصلہ بڑے سے بڑے دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی قوت عطا کرتا ہے۔۔پاک افواج نے نہ صرف حالت جنگ میں بلکہ قدرتی آفات میں بھی  پیش پیش ہیں ۔سرحدوں کی حفاظت سے لے کر اندرون ملک امن وامان کی صورت حال تک ہمیشہ ہراول دستہ کا فریضہ انجام دیا ہے ۔اللہ انہیں اپنی امان میں رکھے اور مادر وطن کو تا قیامت آباد رکھے ۔۔۔۔     آمین           

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged ,
52136

نوائے سُرود ۔ ’’کسی کے تشنہ لبوں پرسوال تھا پانی‘‘۔ شہزادی کوثر

نوائے سُرود ۔ ’’کسی کے تشنہ لبوں پرسوال تھا پانی‘‘۔ شہزادی کوثر

بے آب و گیاہ ریگستان، سبزہ وسایہ ناپید، زمین پہ کوئی جانور اور آسمان میں کوئی پرندہ نظر نہیں آرہا تھا ،آگ برساتے سورج اور لو کی تپش سے وجود جھلستا محسوس ہو رہا تھا ۔جگر گوشہ بتول رضی اللہ عنھا اورشیر خدا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نور نظر اپنے اہل وعیال اور ساتھیوں سمیت کرب وبلا کی سرزمین میں خیمہ زن ہوا۔ ان  جانثاروں میں خواتین ،بچے،جوان اور بزرگ موجود تھے جو حالات کی سنگینی اور کرختگی سے غافل نہیں تھے بلکہ انہیں یقین تھا کہ جو رستہ ہم نے چنا ہے وہ سیدھا بہشت کی طرف جاتا ہے اور نواسہ رسولﷺ نے جو فیصلہ کیا ہے وہ حق و باطل کو تمام انسانیت کے سامنے واضح کرے گا۔

خلفائے راشدین کے عہد کے بعد اسلام کی دینی ،سیاسی ،اور اجتماعی تاریخ پر جس نے سب سے زیادہ اثر ڈالا وہ کربلا کا واقعہ ہے، ساتھ ہی سنگدلی،اور بے حسی کی جو داستان اس واقعے کے ساتھ منسوب ہے اس پر نسل انسانی کا سر شرم سے جھکا رہے گا۔ دھوکہ،مکراور فریب کی ایسی اوچھی چال کوفہ والوں نے چلی کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور اہل بیت کے طرفداروں کی کثیر تعداد کوفہ میں موجود تھی وہ حضرت حسینؑ کو خط پر خط بھیجتے رہے کہ  ہم آپ کا ساتھ دیں گے ۔۔ لیکن ان کی تلواریں ابن زیاد کے حکم کی تعمیل پرمائل تھیں ۔وہ حسینؑ ابن علی کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھنے کی طاقت کے باوجود ایسا کرنے کے لیے تیار نہیں تھے ،انہوں نے عہد شکنی کی، اپنی گردن سے بیعت کا حلقہ اتار پھینکنے اور  امام حسینؑ کو دشمنوں کے حوالے کرنے تک کے روادار تھے۔ ان کی تمام ہمدردیاں اہل بیت کے بر عکس دشمنوں کے ساتھ تھیں۔ مسلم بن عقیل کو شہید کرنے کے ساتھ امام حسینؑ کے قاصد قیس بن مسہر کو بھی ابن زیاد نے قتل کر ڈالا تھا اب وہ لوگ بھروسے کے قابل نہیں رہے تھے۔                

     کوفے  کے بعد ایسی ہوا دل میں چل پڑی                        

     ہم نے کسی بھی خط پہ بھروسہ نہیں کیا                          

ابن زیاد نے حُر کو خط لکھا کہ حسینؑ کو کہیں ٹکنے نہ دو،وہ کھلے میدان کے سوا کہیں اترنے نہ پائے وہ قلعہ بند نہ ہونے پائے،انہیں سرسبزوشاداب جگہ پر پڑاو ڈالنے کی اجازت نہ دو۔۔۔۔۔      مجبورا اہل بیت کو کربلا کی سرزمین پر پڑاو ڈالنا پڑا۔ کہنے کو تو دریائے فرات سامنے تھا لیکن ابن زیاد کی سختی کی وجہ سے عمر بن سعد نے مجبور ہو کر گھات کی حفاظت پر سپاہی تعینات کر دئیے تا کہ اہل بیت تک پانی کا ایک قطرہ بھی نہ پہنچ سکے ۔                                                                              

کتنے یزید وشمر ہیں کوثر کی گھات میں                        

پانی حسین کو نہیں ملتا فرات کا                                 

ریگستان کی ہوا اور پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے معصوم بچوں کے پھول جیسے چہرے مرجھانے لگے تو امامؑ اعلی مقام نے اپنے بھائی اور علمدار حضرت عباسؑ بن علی کو حکم دیا  کہ تیس سوار اور بیس پیادے لے کر جائیں اور پانی بھر لائیں لیکن پانی کے محافظ نے رستہ روکا، اس پر باہم لڑائی ہوئی اور حضرت عباسؑ بیس مشکیں بھر لائے۔ شدید گرمی اور دو دن کی پیاس کی وجہ سے ان سپاہیوں کو پانی کی طلب تھی لیکن امام حسینؑ اور ان کے اہل وعیال کی پیاس جب تک نہیں بجھتی انہوں نے پانی پینا اپنی غیرت کے منافی سمجھا حضرت عباس سکینہ کی بیقراری دیکھ کر کیسے پہلے پانے پی سکتے  ۔ٰ میر انیس کہتا        ہے                                                                                     

گرمی سے تشنگی میں کلیجہ تھا آب آب                                       

تڑپا رہا تھا قلب کو موجوں کا پیچ وتاب                                       

آجاتے تھے قریب جو ساغر بکف حباب                                       

کہتا تھا منہ کو پھیر کہ وہ آسماں جناب                                        

عباس آبرو میں تیری فرق آئے گا                                             

پانی پیا تو نام وفا ڈوب جائے گا                                               

امام اعلی مقام کے ساتھیوں میں وفاداری اور آل رسولﷺ سے محبت کی ایسی صفات تھیں جس کی وجہ سے انہوں نے آپ کو چھوڑ کر جانے کی تجویر یکسر مسترد کر دی ۔رات کے وقت حضرت نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا تم سب خاموشی سے نکل جاو میں چراغ بجھاتا ہوں میرے اہل بیت کا ہاتھ پکڑو اور تاریکی میں ادھر اُدھر چلے جاو،میں خوشی سے تمہیں رخصت کرتا ہوں ،یہ لوگ صرف مجھے چاہتے ہیں میری جان لے کر تم سے غافل ہو جائیں گے۔۔۔                                                                                  

شبیر نے اس رات کے رتبے کو بڑھایا                                                                                                                             

ہر نور سے پُر نور تھا اس رات کا سایہ                    

شبیر نے جس وقت چراغوں کو بجھایا                    

محشر کے اجالوں کو اندھیروں میں دکھایا                 

شبیر سلاتا ہے مقدرکو جگا کر                             

کردار پرکھتا ہے چراغوں کو بجھا کر                     

لیکن تمام ساتھیوں نے آپ کے ساتھ جان دینے کو اپنی سعادت سمجھا اور اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہانے کے لیے تیار ہوگئے۔ان اعلی مرتبت جان نثاروں نے راستے کی تھکان ،پیاس کی شدت ،ظلم وجبر کو برداشت کرنے اور حسینؑ کی آخری دم تک حفاظت کرنے کی قسم کھائی ،اپنی جان ،مال اور اولاد کو بھی آل رسولﷺ پر بخوشی قربان کرنے پر کمر بستہ ہو کر اعلی کردار کا ثبوت دیا۔ دنیاوی محبت اور سکون کی زندگی کے حصول کے لیے نفس وشیطان کی بے صبریاں ان کے ایمان واستقامت پر غالب نہ آسکیں ،صبر ورضا ،توکل اور استقامت کی ایسی مثال کہیں نہیں ملتی۔ امام حسینؑ نے ہر سختی اور مصیبت میں اللہ پر توکل کیا سچائی اور حق پرستی کو قربان نہیں ہونے دیا ۔ریا کاری سے حق چھیننے والوں کے آگے سینہ سپر ہو کر آنے والے زمانوں پریہ ثابت کر دیا کہ فریب کے مقابلہ میں جیت ہمیشہ راست بازی کی ہوتی ہے۔

دین حق پر کٹ مرنے والوں کی ہمیشہ جیت ہوا کرتی ہے۔ اسلام کی شمع کو روشن رکھنے کے لیےلہو کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر چہ  اقتدار کے بھوکے بھیڑیوں نے حق کے راستے میں رکاوٹیں ڈال کر انہیں منزل سے دو ر کرنے کی کوشش کی لیکن امام اعلی مقام نے اپنی جان دے کر یہ ثابت کر دیا کہ حق کا راستہ اپنانا آسان نہیں ، یہ تلوار کی دھار پر چلنے جیسا ہے ،لیکن لگن سچی اور اللہ پر توکل ہو توشیر خوار  بچے سے لے کر ستر سال کے بزرگ تک طوفان کا رخ موڑ سکتے ہیں۔  کربلا صرف زمیں کا ٹکڑا نہیں جہاں نواسہ رسولﷺ اور اہل بیت شہادت کا جام پی کر امر ہو گئے، بلکہ یہ صفحہ دہر پر ثبت ہونے والا وہ نقش ہے جو نورو ظلمت کے درمیان حد امتیاز ہے، یہ انسانیت اور    شیطانیت کو پرکھنے کی کسوٹی ہے، یہ شفقت و محبت کے مقابلے میں حیوانیت و بربریت  کی ایسی المناک داستان ہے جسے نسل انسانی تا قیامت یاد رکھے گی اور اس پر خون کے آنسو بہاتی رہے گی۔                                                                    

 فرات میری آنکھوں کا سوکھتا ہی نہیں                       

کسی کے تشنہ لبوں پرسوال تھا پانی                        

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51577

نوائے سُرود – دلخراش سچائی – شہزادی کوثر

دنیا کا نظام ازل سے ایک ہی تسلسل سے رواں ہے ۔شب و روز کی تبدیلی ،موسموں کا تغیر۔ مہینوں اور سالوں کا ایک ہی میعاد مقرر میں بدل کر دنیا کا نیا نقشہ پیش کرنا ہمیں پیغام دیتا ہے کہ بدلاو نظام کائنات کا لازمی جزو ہے۔ماہ وسال اور بدلتے اوقات یقین دہانی کرواتے ہیں کہ اگر کسی چیز میں زندگی ہے تواس میں ٹھہراو کبھی نہیں ہو گا کیونکہ ٹھہراو کا مطلب ہے جمود،سکوت اور موت۔۔۔ اس کے بر عکس زندگی اپنے اندر تغیر کی ہزار داستانیں سموئے ہوئے ہے جن سے حیات انسانی میں رنگا رنگی اور خوب صورتی ہے۔ ہر گزرتا سمے ایک رفتار سے اپنی منزل کی طرف بڑھتا جا رہا ہے اس کی راہ میں کوئی بھی رکاوٹ حائل نہیں ہو سکتی چاہے آندھی ہو یا طوفان بادوباراں،سیلاب ہو یا زلزلہ، قدرت کی کوئی طاقت وقت کی رفتار کومدہم نہیں کر سکتی، وقت پہ کسی کا زور نہیں چلتا اور نہ ہی اسے لگام ڈال کر اپنے قبضے میں کرنا ممکن ہے۔ گویا وقت ایک منہ زور گھوڑا ہے جسے تازیانے اور لگام کی ضرورت نہیں پڑتی ، اسی رفتار کے ساتھ انسان کی عمر بھی گزرتی جا رہی ہے                                                                        

رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیئے تھمے            

نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں                

اسی گردش دوراں میں کیسے کیسے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ہر پل کے ساتھ تجربات کا ایک بڑا ذخیرہ وجود میں آتا ہے  اور آنے والی نسل اس تجربے کو بنیا د بنا کر اپنی زندگی کی عمارت کھڑی کرتی ہے ۔عروج و زوال کے بیسیوں افسانے نیلے اسمان تلے وجود میں اتے ہیں اور دھرتی کے سینے پہ کئی عبرت انگیز واقعات کی مہر ثبت ہوتی ہے ۔ وقت کی اس بہتی دھارا میں انسانی خدو خال سے لے کر پسند ،نا پسندیدگی،سوچ ،حالات ،نفسیات اور معیار تک بدل جاتے ہیں۔ سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہونے والا تقدیر  کی گردش میں پس کر کاسئہ گدائی کا مستحق بنتا ہے اور کوئی خاک نشینی سے تخت نشینی کا حقدار بن جاتا ہے ۔

اپنے زور بازو سے زمانے کا رخ موڑنے کی صلاحیت رکھنے والا اس منزل پہ بھی پہنچتا ہے جب اس کے اعضا زوال پذیر ہونے لگتے ہیں ۔بینائی اتنی کمزور ہو جاتی ہے کہ اپنی اولاد کو پہچاننا بھی دشوار لگتا ہے ،ہاتھوں میں رعشہ کی وجہ سے پیالی نہیں پکڑی جا سکتی، پہاڑ کی چوٹییوں کو سر کرنے والا بغیر لاٹھی کے ایک قدم بھی نہیں اٹھا پاتا ۔ جس  چہرے پہ کبھی تابندگی کھیلا کرتی تھی وہ جھریوں سے اٹ جاتا ہے ، جس پیشانی پہ ماہتاب کا نور دمکتا تھا اس پہ گہری لکیروں کی دراڑیں پڑ جاتی ہیں ۔جن آنکھوں کی چمک میں خوشیوں کی نوید ہوتی تھی وہ چمک ماند پڑ جاتی ہے ،جن زلفوں پہ شب ہجراں کا گماں ہوتا تھا وہ چاندی کے تاروں میں ڈھل جاتے ہیں ۔۔۔۔   وقت کتنا ظالم ہے ۔زمین کا سینہ چیر کر جوئے شیر نکالے والے زندگی کی اس موڑ پہ پہنچ جاتے ہیں کہ اپنی ناک پہ بیٹھنے والی مکھی کو بھی نہیں اڑا سکتے ۔عظیم الشان محلات اور مضبوط قلعے بنا کر خود کو ناقابل شکست تسلیم کروانے والے وقت کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔

ایسی ہستیاں بھی زوال کا شکار ہو گئیں جن کے سامنے دنیا گھٹنے ٹیکا کرتی تھی ۔تاریخ عالم ایسے ناموں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے اپنی شجاعت ،طاقت واختیار اور ذہانت سے کارہائے نمایاں انجام دیئے لیکن گزرتے پل کے ساتھ یہ سب کچھ ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ عروج وزوال کے اسی کھیل سے یہ نظام قائم ہے۔ ہر شخص اپنے حصے کا کام کرنے کا پابند ہو کر دنیا میں آتا ہے شیکسپئیر کے بقول ہر شخص اداکار ہے ،دنیا کے اسٹیج پہ اپنی اداکاری کا جوہر دکھا کر روانہ ہوتا ہے لیکن یہ اس اداکار پہ ہی منحصر ہے کہ وہ اپنے کردار میں کتنی جان ڈالتا ہے اور لوگوں کے ذہنوں پراس کا کتنا  اثر ثبت کرپاتا ہے۔ دینا کے اس اسٹیج پہ بچپن۔ لڑکپن، جوانی ،ادھیڑ عمر اور سب سے مشکل مرحلہ بڑھاپا ہے جن سے بہت سے لوگوں نے گزرنا ہوتا ہے۔ جو لوگ اس منزل پہ پہنچ چکے ہیں اگر ان کی زندگی با مقصد اور کامیاب گزری ہے تو انہیں ایک طرف خوشی اور دوسری جانب رنج بے سبب کا دکھ بھی ہوتا ہے۔ خوشی کے پیچھے وجہ ان کی مسلسل محنت کامیابی اولاد کی خوشحالی ،تندرستی اور کامل ایمان ہے،لیکن دامن گیر ہونے والے رنج کی وجہ اور کچھ نہیں صرف یہ بات ہوتی ہے کہ                                                                                          

جھک جھک کے ڈھونڈتا ہوں جوانی کدھر گئی۔۔۔                  

جب وہ جان محفل ہوا کرتے تھے ان کے آگے پیچھے لوگوں کا ہجوم ہوتا تھا ،عہدہ اختیار ،طاقت ۔توانائی حسن ،جوانی ہر نعمت سے مالا مال تھے اور اب ہر چیز ساتھ چھوڑ گئی۔ دوست احباب دوسرے آگے پیچھے پھرنے والے اب سلام تک کرنا گوارا نہیں کرتے ،ہم عمر اور ہم نوالہ دنیا چھوڑ گئے، جوان لوگ پاس بیٹھنا نہیں چاہتے، اولاد اپنے کاموں اور دنیا داری کے پیچھے بھاگ رہی ہے ،پاس بیٹھ کر بات کرنے اور دل بہلانے والا کوئی نہیں۔ صبح سے شام تک اپنے کمرے کی دیواریں تکتے تکتے یہ قابل رحم ہستیاں اس انتظار میں ہوتی ہیں کہ اب کوئی آ کر پاس بیٹھے گا ہم پر توجہ دے گا ۔میرے بیٹے اپنے دیدار سے میری بے نور آنکھوں کی تشنگی دور کریں گے ۔لیکن بچے ماں باپ کو وقت دینا بھول جاتے ہیں۔جن کی دعاوں کی برکت سے دنیا کی آسائشیں حاصل ہوئی ہیں اب ان ہاتھوں کے لمس کو ہی فراموش کر دیتے ہیں ۔

  پیسے کے عشق میں اللہ کی ان رحمتوں سے غافل ہو جاتے ہیں جو ماں باپ کی شکل میں ان کے گھر کے کسی کمرے میں منتظر ہوتے ہیں ۔ اولاد کو سوچنا چاہیے کہ نظرانداز کرنے کا دکھ کتنا شدید ہوتا ہے اوران  کمزور دلوں پہ کیا گزرتی ہوگی جو اولاد کی خوشی کی خاطر اپنی ضرورتوں کوبھی قربان کر چکے ہیں۔ اب ان کی جوانی اور توانائی تو واپس نہیں آسکتی لیکن اولاد کی صورت دیکھ کر جو روشنی ان کی آنکھوں میں پیدا ہوتی ہے اسے انہیں محروم کرنا اولاد کی سیاہ بختی ہے۔ وہ اپنا زمانہ گزار چکے لیکن زندگی کی کچھ مہلت انہیں ملی ہے ان کی حیثیت چراغ سحری کی سی ہے کہ کسی بھی لمحے تیز ہوا کا جھونکا اسے بجھا سکتا ہے ،ناتوانی کی وجہ سے ان کا دل ذود رنج اور شکستہ ہو جاتا ہے کہ بہت معمولی بات بھی انہیں ناگوار گزر سکتی ہے  کیونکہ انہیں اس بات کا شدید احساس ہوتا ہے ۔۔۔۔                                  

محسن ہمارے ساتھ عجب حادثہ ہوا                    

ہم رہ گئے ہمارا زمانہ گزر گیا                         

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged ,
51049

نوائے سُرود ۔ الفاظ کا جُھنجُھنا ۔ شہزادی کوثر

نوائے سُرود ۔ الفاظ کا جُھنجُھنا ۔ شہزادی کوثر

اپنی جنم بھومی سے محبت اور عقیدت کا بڑا اٹوٹ اور گہرا رشتہ ہوتا ہے جو انسان کے رگ وریشے میں ساری زندگی کے لیے سرایت کر جاتا ہے ۔جس میں آب و ہوا ،علاقے کی روایات، لوگوں کے آپس کے تعلقات شامل ہیں ،ان ہی چیزوں سے ہماری شخصیت سازی میں مدد ملتی ہے۔ بچپن سے جو کچھ ہم اپنے ارد گرد کی دنیا میں دیکھتے ،جو کھاتے پیتے ہیں ،زمین کی کوکھ سے ہر طرح کی لذت ،طاقت اور توانائی حاصل کرتے ہیں انہی کے سہارے ہماری زندگی کی بنیادیں مضبوط ہوتی ہیں جو آگے جا کر ہمارے وجود اور شخصیت کی عمارت کو خدوخال اور دلکشی عطا کرتے ہیں ۔

جس طرح والدین رشتہ داروں اور اولاد کے حقوق ہیں ،اسی طرح علاقے اور وطن کے بھی کچھ حقوق ہیں ۔جنھیں ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے عمدگی سے ادا کرنا ہونگے۔ صرف زبانی کلامی محبت کے اظہار سے یہ حق ادا نہیں ہوا کرتا ۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں عملی کام کی روایت نہ ہونے کے برابر ہے ۔اس کے بر عکس اگر صرف بولنے کا مقابلہ کروایا جائے تو کوئی بھی ہم سے نہیں جیت سکتا ۔ بڑے بڑے دعوے کر کے عوام کو بےوقوف بنانے سے لے کر اپنے بے روح وعدوں کے ذریعے انہیں سبز باغ دکھانے تک کا کام بڑی آسانی سے انجام دیا جاتا ہے۔ ساری گفتگو ” چاہییے ” کے گرد گھومتی ہے۔ کوئی کام عملی شکل میں کم ہی سامنے اتا ہے ۔ جن کے پاس طاقت اور اختیار ہے وہ اسے استعمال کرنے کے فن سے نا واقف ہیں۔ 

اس وقت بہت سے مسائل منہ کھولے ہمیں نگلنے کے لیے تیار ہیں جن میں مہنگائی، بے روزگاری، غربت،بنیادی سہولیات کا فقدان، سڑکوں کی خستہ حالت، صاف پانی کی عدم دستیابی، ہسپتالوں میں ناقص انتظام ،اشیا خورد ونوش میں ملاوٹ ،بڑھتی ہوئی آبادی،زمینی آبی اور فضائی آلودگی ان کے علاوہ بے شمار معاشی معاشرتی اور اخلاقی مسائل ہیں جن میں ہم بری طرح سے پھنسے ہوئے ہیں ۔ان تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی خضر ملے گا یا آسمان سے کسی فرشتے کے اترنے کا انتظار ہے؟  یہ ہمارے اپنے پیدا کردہ مسائل ہیں اور ان کو خود ہی حل کرنا ہوگا۔ اگر چھوٹے پیمانے پہ کوئی مسلہ پیدا ہو تو اسی وقت اس کا تدارک کرنے سے معاشی مشکلات میں کافی حد تک کمی آئی گی۔

ہم بھی عجیب قوم ہیں ایک طرف غربت ،تنگدستی اور معاشی ابتری کا رونا روتے ہیں تو دوسری طرف  فضولیات لاکھوں خرچ کرتے ہیں ۔اگر واقعی میں ملکی حالات ناگفتہ بہ ہیں تو اخراجات کی مد میں خرچ ہونے والی رقم کا جائزہ لیں کہ کہیں بے مصرف جگہ پہ خرچ تونہیں ہو رہا ؟ اگر کوئی فنڈ ملا ہے تو ایسے کاموں میں لگا دیا جائے جس سے عوام کو فائدہ پہنچے۔ ملک وقوم سے محبت کے دعوے دار صرف ” آئی لو چترال ” کے بورڈ لگا کر کیا اپنی ذمہ داریوں سے فارغ ہو گئے۔۔؟

محبت چار حروف کی ادائیگی کا نام نہیں یہ عملی طور پر کچھ کرنے کا نام سے جس سے سب کا بھلا ہو سکے۔ یہ جولاکھوں روپے لگا کر اظہار محبت کیا گیا ہے بے شک اچھا لگ رہا ہے لیکن  میری ناقص رائے ہے کہ کیا ہی اچھا ہوتا اگر ان پیسوں سے کہیں کنواں کھودا جاتا ،کسی یتیم خانے کی مالی معاونت کی جاتی ،کسی غریب طالب علم کے لیے ماہوار وظیفہ مقرر کیا جاتا تا کہ وہ بغیر مالی پریشانی کے اپنے تعلیمی اخراجات پوری کرتا، کسی خیراتی ادارے میں لگائے جاتے،سڑکوں پہ پڑا ہوا ملبہ ہٹایا جاتا ، کہیں پودے لگا کر ان کی دیکھ بھال کی جاتی ،شہر میں کچھ جگہوں پے کوڑے دان رکھوائے جاتے ، کچرا تلف کرنے کے لئے بڑے بڑے گڑھے کھودے جاتے یا  مختلف جگہوں پر انتظار گاہ بنوائے جاتے تاکہ سکول جانے والے بچے بارش اور سورج کی تمازت سے بچ جاتے ڈیوٹی پہ جانے والی خواتین کو سہولت مل جاتی ، سڑکوں میں جگہ جگہ گڑھے بنے ہیں ان کی پیوند کاری کروائی جاتی ۔۔۔،

ہزاروں ایسے کام  ہیں جو بہت کم پیسوں سے کیے جا سکتے ہیں ۔۔  صرف” آئی لو یو ” کہنے سے ملک اور علاقے کا حق  ادا نہیں  ہوتا۔ جن کے  ہاتھ میں اختیار ہے جو علاقے کی خدمت پر مامورہیں حکومت کی طرف سے لاکھوں روپے تنخواہ لیتے ہیں جن کے ہاتھ میں فنڈز آتے ہیں انہیں زیب نہیں دیتا کہ عوام کو ان چیزوں سے ٹرخائیں۔۔۔ 

بیوٹیفیکیشن کے نام پہ بڑی بڑی اسکرین لگانے یا گراونڈ کے چاروں طرف برقی قمقمے لگوانے سے پسی ہوئی عوام کو کیا فائدہ پہنچے گا۔۔؟ ہم غریب ملک کیےلٹے پٹےاور مقروض باشندے ہیں ہماری معیشت اجازت نہیں دیتی کہ ہم دوسروں کی دیکھا دیکھی ان کا معیار زندگی اپنانے کی کوشش کریں ۔

ہمارا بال بال قرض کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے ۔ہمارے ہاتھ سے گدائی کا کشکول ابھی نہیں گرا اس لیے ہم ان عیاشیوں کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔ہہمیں سائن بورڈ اور اسکرین کی ضرورت نہیں بلکہ ہمارے بنیادی مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے مسائل تبہی حل ہوں گے جب عوام کا پیسہ انہی کے کام ائے انہیں سہولیات دی جائیں اوران کا پیسہ صحیح جگہ پر استعمال ہو۔ جہاں عملی اقدام کی ضرورت ہے وہاں محبت کی افیون سے کام نہیں لیا جاتا۔ اگر ذاتی ۔

انفرادی اور اجتماعی طور پر صحیح کام کریں گے اپنے علاقے کے مسائل کو حل کرنے کا تہیہ کر کے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کریں گے تو وطن کا حق ادا ہو گا ورنہ صرف “آئی لو چترال ” کہنا بھوک سے بلکتے بچے کے ہاتھ میں جھنجھنا دینے کے مترادف ہے۔                                                                                        

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
50716

نوائے سُرود۔۔۔۔۔۔۔بے عملی اور جمود کی وبا۔۔۔۔۔۔۔شہزادی کوثر

بے عملی اور جمود کی وبا

فطرت کی طبیعت میں کہیں بھی ٹھراو نہیں ہے۔ بہتے پانی کی رفتار اگرچہ  یکساں نہیں ہوتی،کہیں جوئے بار کی صورت میں اپنی شوریدہ سری اور جوش وخروش کا مظاہرہ پتھروں سے سر ٹکرا کر کرتا ہے ،کہیں کناروں  پراپنی بے قرار لہروں کے تھپیڑوں سے ہنگامہ برپا کرتا ہے ۔کسی جگہ جھرنا بن کر اپنی مدہر آواز کا جادو جگاتا ہے اور کہیں بے صدا ہو کے بہتا ہے لیکن اس کی  گہرائیوں میں جو شور موجزن ہوتا ہے اسے ہر کوئی نہیں سن پاتا۔ خاموش بہتے سمندر میں بلا خیز ہنگامہ ارائیوں کی کئی داستا نیں پوشیدہ ہوتی ہیں ۔سر بہ فلک پہاڑوں کی صدائے بے آواز کتنے لوگوں کے لئے ترقی کا سندیسہ لئے آتی ہے تو کوئی ان سے عزم وحوصلے کی کہانی خاموش سرگوشیوں میں سن لیتا ہے۔

گھٹاوں کی با معنی جنبش ہو یا باد بہاری کے جھونکوں کی کومل سرسراہٹ،انسان کو یقین و ایمان اور استقلال کی دولت سے مالامال کرنے کے لیئے کافی ہے۔کائنات کی کسی تخلیق کو سکون وسکوت میسر نہیں۔ ہر صبح سورج نئی تازگی اور یقین سے آتا ہے جیسے کسی کے نقش پا کی تلاش میں ہو،چاند اپنی منزل کی جستجو میں کتنے ہی صحراوں کی خاک چھانتا اور بیابانوں میں گھومتا رہتا ہے جیسے کسی بھی لمحے وہ اپنے مطلوب کو پا لے گا۔ حرکت و عمل کا درس کائنات کے ہر گوشے اور زمانے کے ہر سمے میں  چھپا ہوا ہے۔ سمجھنے والے اپنے مقصد کے حصول کے لیے اسے اپنا رہبر بنا لیتے ہیں ،لیکن کتنے ہی ہم میں سے ایسے ہیں جو حد نظر تک پھیلی ہوئی امید کی ان کرنوں اور منزل کے نشانات کو نہیں پہچان پاتے۔ حالانکہ یہی عناصرایمان کے لیئے دل کو روشن  کرتے ہیں ۔جوش ملیح آبادی نے کہا ہے۔۔۔۔                                                                

ہم ایسے اہل نظر کو ثبوت حق کے لیئے                       

اگر رسول نہ آتے تو صبح کافی تھی                           

گویا حرکت و عمل ہی خالق کا عرفان حاصل کرنے اور مخلوق کو سمجھنے میں مددگار ہوتی ہے جس کے لیئے سکوت سے زیادہ تڑپ اور سکون سے زیادہ تگ ودو کی ضرورت ہے۔ علامہ اقبال کی نظر میں بھی قرار موت کے مترادف ہے۔ جو انسان محنت سے جی چرا کر تن آسانی میں مبتلا ہو جائے ،عمل سے فرار اختیار کرنے کے طریقے ڈھونڈے ،اپنے متلاطم جذ بات کو تھپک کر سلا دے تو اس کا صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹنا یقینی ہو جاتا ہے ۔وجود عالم اور وجود کائنات میں کہیں بھی بے عملی کا ثبوت نہیں ملتا ۔ روز ازل سے ہی کارخانہ قدرت جس ذمہ داری کی انجام دہی میں لگا ہوا ہے اس میں پل بھر کے لیئے بھی تعطل یا جمود کا کوئی لمحہ نہیں آیا ،زندگی کا اصل جوہر اس کی روانی میں پوشیدہ ہے جس انسان کے لیئے اس دنیا کی تخلیق ہوئی اسے کیسے زیب دے گا کہ وہ ہاتھ پاوں توڑ کر بیٹھے،یا کاہلی کا شکار ہو کراپنے مقصد سے بے خبر ہو جائے ۔

دنیا جتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہے ۔ذہن انسانی نئی دنیاوں کی کھوج میں لگا ہوا ہے کائنات کے سینے میں دفن رازوں کو افشا کیا جا رہا ہے تو کچھ ایسے بھی نوجوان دیکھنے کو ملتے ہیں جن کی زندگی کا مقصد دریا کے کنارے کسی پتھر سے ٹیک لگا کر بےہودہ سی وڈیو دیکھے  یا چنار کی ٹھنڈی چھاوں میں بیٹھ کر تصور جاناں میں ڈبکیاں لگائے  غریب والدین نے خون پسینے کی کمائی سے موبائل خرید کر دیا ہوتا ہے کہ میرا لعل آن لائن کلاس لے رہا ہے اس کی پڑھائی کا کوئی نقصان نہیں ہونا چاہییے  لیکن وہ اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ ان کا ”لعل”  لال دوپٹے کے سپنوں میں کھویا ہوا ہے۔ جو وقت پڑھنے لکھنے اور مستقبل سنوارنے کا ہوتا ہے وہ ٹک ٹاک  ویڈیو اور وٹس ایپ کی جادوئی دنیا میں کھو کر برباد کر رہا ہے۔

حالات کی ستم ظریفی کہیں یا نسل نو کی سیاہ نصیبی کہ ان کا مستقبل بے یقینی کے سمندر میں ڈانواں ڈول کشتی کی مانند ہچکولے کھا رہا ہے۔آنے والے وقت اور درپیش حالات کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا  لیکن ا پنی آنکھوں سے نوجوانوں کے برباد ہوتے مستقبل کو دیکھ کر دل رنجورہے۔ محنت کرنے کا وقت ویڈیو گیمز کی نذر ہو رہا ہے اور بقیہ اوقات کھانے پینے اور سونے میں بیت جاتے ہیں۔ ان میں بے عملی اور جمود کی ایسی وبا پھوٹ پڑی ہےجس کا علاج ضروری ہے،ورنہ خاکم بدہن اپنے اجداد کے نام پر کلنک کا ٹیکہ ثابت ہونے کا اندیشہ ہے۔ آنے والے دنوں سے امید وابستہ کرنا مثبت سوچ کی علامت سمجھی جاتی ہے لیکن موجودہ حالات کے پیش نظر کچھ سمجھ نہیں آرہا ۔اس صورت حال سے سب واقف ہیں اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر سب کو ہے لیکن عملا کوئی بھی کچھ نہیں کر پا رہا ،کوئی ایسا طریقہ کار اپنانے کی اشد ضرورت ہے کہ نوجوان اپنی زندگی کو با مقصد کاموں میں لگا دیں اپنے سامنے ایک نصب العین رکھیں اور اس کے حصول کی کوشش میں لگ جائیں تا کہ ہم انے والے زمانے کی مشکلات کو اپنے زوربازو سے آسانیوں میں بدل سکیں ۔  

بے عملی اور جمود کی وبا

بے عملی اور جمود کی وبا

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged , ,
49834