Chitral Times

مہمان نوازی : سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں – خاطرات: امیرجان حقانی

رسولِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم  کو اللہ رب العزت نے نسل انسانی کے لیے ایک کامل نمونہ اور اسوہ حسنہ بنا کر دنیا میں بیجا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی کو قیامت کی صبح تک کے لیے معیار بنادیا۔سیرت طبیہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر گوشہ تابناک اور ہر پہلو روشن ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت سے لے کر رحلت تک کا ہر ہر لمحہ اللہ تعالی کی منشاء سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشینوں نے محفوظ کیا۔ہم اگر عہد رسالت کی بات کریں تو اآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام حالات زندگی، معمولات زندگی،طرز حکومت،طرز تعلیم، طرز تبلیغ ، انداز و اطوار، مزاج و رجحان، حرکات و سکنات، نشست و برخاست اور عادات وخیالات  غرض ہر چیز اس میں شامل ہوگی۔ تاہم ہم کوشش کریں گے کہ اختصار کیساتھ ددینی تعلیمات اور  محمد مدنی العربی  ﷺ کی سیرت کی روشنی میں  مہمان نوازی اور اکرام مسلم کے حوالے سے چند اہم  نکات آپ سامعین کی خدمت میں پیش کریں۔

دنیا کی تمام مہذب قوموں کا شعار ہے کہ وہ مہمانوں کی آمد پر ان کا پرتپاک استقبال کرتی ہیں۔مہمانوں کو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔اور ان کی خاطر مدارت کی جاتی ہے۔ہر ملک اور قوم کے مہمان نوازی کے انداز و اطوار اور طریقے الگ الگ ہیں۔تاہم یہ بات ایک جیسی ہے کہ دنیا کی تمام مہذب قومیں  مہمان کی عزت اپنی عزت  اور مہمان کی توہین اپنی توہین سمجھتی ہیں۔دین اسلام میں مہمان نوازیدین اسلام میں مہمان نوازی کے متعلق جو بہترین اصول و قواعد ہیں اور جس شاندار انداز میں مہمان نوازی کا حکم دیا گیا ہے

اسکا ذکر قرآن کریم میں بھی ہے اور اس کی مثالیں ہمیں آپ ﷺ کی سیرت میں بے تحاشا ملتی ہیں۔ کتب احادیث بھری پڑی ہیں۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور علماء امت کی سیرت بھی اس حوالے سے بہت واضح ہے۔اور مسلمانوں نے مہمان نوازی کو اپنا شعار بنا رکھا ہے۔مہمان نوازی علامات ایمان میں سے ہے۔اور تمام انیباء علہیم السلام کی سنت ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی مہمان نوازی کا ذکر کیا ہے۔سیدنا ابراہیم بڑے مہمان نواز تھے۔اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:وَلَقَدْ جَاۗءَتْ رُسُلُنَآ اِبْرٰهِيْمَ بِالْبُشْرٰي قَالُوْا سَلٰمًا  ،  قَالَ سَلٰمٌ ، فَمَا لَبِثَ اَنْ جَاۗءَ بِعِجْلٍ حَنِيْذٍ (ھود: 69) ترجمہ: اور ہمارے فرشتے(انسانی شکل میں) ابراہیم کے پاس (بیٹا پیدا ہونے) کی خوشخبری لے کر آئے۔انہوں نے سلام کیا۔

ابرہیم علیہ السلام نے بھی سلام کہا۔اور بغیر کسی تاخیر کے گائے کا بھنا ہوا بچھڑا لے آئے۔(ان کی مہمان نوازی کے لیے)حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مہمان نوازی”اس سے معلوم ہوا کہ فرشتے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاں انسانی صورت میں پہنچے تھے اور ابتداء انہوں نے اپنا تعارف نہیں کرایا تھا ۔  اس لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خیال کیا کہ یہ کوئی اجنبی مہمان ہیں اور ان کے آتے ہی فورا ان کی ضیافت کا انتظام فرمایا ۔” ( تفہیم القرآن)حضرت ابراہیم علیہ السلام کا معمول یہ تھا کہ کبھی تنہا کھانا نہ کھاتے،  بلکہ ہر کھانے کے وقت تلاش کرتے تھے کہ کوئی مہمان آجائے تو اس کے ساتھ کھائیں ۔ (قرطبی)حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی عادت مہمان نوازی کے مطابق بشکل انسان آنے والے فرشتوں کو انسان اور مہمان سمجھ کر مہمان نوازی شروع کی اور فوراً ہی ایک تلا ہوا بچھڑا سامنے لا کر رکھ دیا ۔ آنے والوں کی مہمانی کرنا آداب اسلام اور مکارم اخلاق میں سے ہے، انبیاء و صلحاء کی عادت ہے۔

ضیافت کا حکمآپ ﷺ نے مہمان کے اکرام اور ضیافت کا واضح حکم دیا ہے۔آپ ﷺ کا  ارشاد گرامی ہے : ’’جو شخص اللہ جل شانہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے۔ مہمان نوازی کی مدتمہمان کا جائزہ (خصوصی اعزاز و اکرام) ایک دن ایک رات ہے، اور مہمانی تین دن تین رات ہے۔ اور مہمان کے لیے یہ بات جائز نہیں کہ وہ اتنا طویل قیام کرے کہ جس سے میزبان مشقت میں پڑجائے۔‘‘(بخاری ح/6019)آپ ﷺ کے الفاظ دھرا رہا ہوں: “ومن کان یومن باللہ والیوم الآخر فلیکرم ضیفہ”۔مہمان نوازی انسانی اور معاشرتی اخلاق کا ایک اہم اور بہترین خلق ہے۔ تعلیمات اسلامی  میں مہمان نوازی پر خوب زور دیا گیا ہے۔

سیرت کی کتب میں آتا ہے: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا سے واپس آئے تو سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو ڈھارس بندھائی اور  فرمایا”اللہ کبھی آپ کو رسوا نہیں کرے گا۔آپ تو اخلاق فاضلہ کے مالک ہیں۔مفلسوں کے لیے آپ کماتے ہیں”۔اور خصوصیت کے ساتھ آپ ﷺ کی مہمان نوازی کے متعلق سیدہ نے فرمایا:”وتقری الضیف “آپ مہمان نوازی کرتے ہیں اورمہمان نوازی میں آپ ﷺ بے مثال ہیں۔(بخاری ح 3)مہمان نوازی نہ کرنے  پر وعیدجو لوگ مہمان نوازی اور اکرام مسلم سے کتراتے ہیں ان کے لیے وعیدیں ہیں۔آپ ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا”لَا خَيْرَ فِيمَنْ لَا يُضِيف”’’ جو شخص مہمان نوازی نہ کرے اس میں کوئی خیر نہیں۔(مسند احمد،ح/ 9087)یعنی  اس شخص میں کوئی بھلائی نہیں جو مہمان نوازی نہیں کرتا۔

مہمان کو کھانا کھلانے کا طریقہآپ ﷺ نے فرمایا: تم اپنے مہمان کے ساتھ کھانا کھالو۔ کیونکہ مہمان اکیلے کھانے سے شرماتا ہے۔(شعب الایمان ح/9186)کافروں کی مہمان نوازییہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ آپ ﷺ صرف مسلمانوں اور جاننے والوں کی مہمان نوازی نہیں کرتے تھے بلکہ کفار کی بھی مہمان نوازی فرماتے تھے۔مہمان نوازی صرف مسلمانوں کے ساتھ خاص نہیں بلکہ اگر کوئی کافر بھی دروازے پر آجائے تو اس کی ضیافت کرنی چاہئے اور اسے پیٹ بھر کھلانا پلانا چاہئے:”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے، کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس ایک مہمان آیا وہ شخص کا فر تھا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کے لیے ایک بکری کا دودھ دوہنے کا حکم دیا اس نے دودھ پی لیا پھر دوسری بکری کا دودھ دوہنے کا حکم دیا اس نے اس کو بھی پی لیا ،پھر ایک اور  ( بکری کا دودھ دوہنے  )  کا حکم دیا اس نے اس کا بھی پی لیا ،حتی کہ اس نے اسی طرح سات بکریوں کا دودھ پی لیا پھر اس نے صبح کو اسلام لے آیا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کے لیے ایک بکری کا دودھ دوہنے کا حکم دیا اس نے وہ دودھ پی لیا  پھر دوسری بکری کا دودھ دوہنے کا حکم دیا،وہ اس کا سارا دودھ نہ پی سکا تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرما یا :   مسلمان  ایک آنت میں پیتا ہے جبکہ کافر سات آنتوں میں پیتا ہے۔

مسلم،کتاب الاشربہ،ح 5379)اسی طرح ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے پاس ایک مہمان آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے ایک یہودی کے پاس اپنی زرہ رہن (یعنی گروی) رکھ کر اس کی ضیافت فر مائی ۔ مہمان کو رخصت کرنے کا طریقہحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا: مہمان کو دروازہ تک رخصت کرنے جائے(شعب الایمان ح/ 9202) مہمان نوازی پر کچھ واقعاتآپ ﷺ کی بارگاہ میں جو بھی وفود آتے تھے ان کی خوب مہمان نوازی فرماتے تھے۔ احادیث کی کتب میں آتا ہے کہ آپ ﷺ کی خدمت میں جو وفود آتے آپ ﷺ ان کی خاطر داری  اور مہمان نوازی کا فرض صحابہ رضوان اللہ علیہم  کے سپرد فرماتے۔ایک دفعہ قبیلہ عبدالقیس کے مسلمانوں کا وفد آپ ﷺ کی خدمت حاضرہوا۔ تو آپ نے انصار کو ان کی مہمان نوازی کا ارشاد فرمایا چنانچہ انصار ان مہمانوں کو اپنے ساتھ  لے گئے۔ صبح کے وقت وہ لوگ حاضر ہوئے تو آپ نے دریافت فرمایا کہ تمہارے میزبانوں نے تمہاری خاطر مدارت کیسی کی۔

انہوں نے کہا یا رسول اللہ بڑے اچھے لوگ ہیں۔ ہمارے لیے نرم بستر بچھائے، عمدہ کھانے کھلائے اور پھر رات بھر کتاب و سنت کی تعلیم دیتے رہے۔امام غزالی نے اپنی معروف کتاب  احیاء العلوم میں ایک واقعہ نکل کیا ہے:ایک مرتبہ امام شافعیؒ بغداد میں امام زعفرانیؒ کے مہمان بنے۔ امام زعفرانی ؒ روزانہ امام شافعیؒ کی خاطر اپنی ایک باندی کو ایک پرچہ لکھا کرتے تھے، جس میں اس وقت کے کھانے کی تفصیل درج ہوتی تھی۔ امام شافعیؒ نے ایک وقت باندی سے پرچہ لے کر دیکھا اور اس میں اپنے قلم سے ایک چیز کا اضافہ فرما دیا۔دسترخوان پر جب امام زعفرانیؒ نے وہ چیز دیکھی تو باندی پر اعتراض کیا کہ میں نے اس کے پکانے کو نہیں لکھا تھا۔‘‘ وہ پرچہ لے کر آقا کے پاس آئی اور پرچہ دکھا کر کہا کہ : ’’ یہ چیز حضرت امام شافعیؒ نے خود اپنے قلم سے اضافہ فرمائی تھی۔‘‘ امام زعفرانیؒ نے جب اس کو دیکھا اور حضرت امام شافعیؒ کے قلم سے اس میں اضافہ پر نظر پڑی تو خوشی سے باغ باغ ہوگئے اور اس خوشی میں اس باندی کو ہی آزاد فرمادیا۔ ( احیاء العلوم)بعض علماء  کرام نے لکھا ہے  کہ دیہاتوں اور گاؤں والوں پر میزبانی واجب ہے کہ جو شخص ان کے گاؤں میں ٹھہرے اس کی مہمانی کریں؛ کیوں کہ وہاں کھانے کا کوئی دوسرا انتظام نہیں ہوسکتا اور شہر میں ہوٹل اور دیگر رہنے اور کھانے پینے  وغیرہ سے اس کا انتظام ہوسکتا ہے، اس  لیے شہر والوں پر  میزبانی واجب نہیں بلکہ سنت اور مستحب ہے۔

خلاصہ کلامانتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آپ ﷺ اور صحابہ کرام و بزرگوں کے اتنے شاندار اسوہ ہونے کی باوجود بھی مسلمانوں  میں مجموعی طور پر مہمان نوازی کی صفت ختم ہوتی جارہی ہے۔اور جو لوگ مہمان نوازی میں تکلفات میں پڑتے ہیں دراصل انہوں نے تمدن اسلامی کی سادگی کو کھو دیا ہے۔ہمیں مہمان نوازی میں وضعداری اور بے جا تکلفات نے بری طرح جھکڑ  لیا ہے۔ہمیں چاہیے کہ وضعداری کی بجائے گھر میں جو ماحضر ہے  اس کو مہمان کے سامنے خندہ پیشانی سے پیش کریں تاکہ مہمان نوازی بھی ہو اور ثواب بھی ملے۔گھر میں کچھ خاص نہ ہونے کی وجہ سے مہمان نوازی کو ترک کرنا مناسب نہیںآپ ﷺ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام و اہل بیت کی سیرت ہمارے سامنے ہے۔آپ ﷺ نے کبھی بھی مہمانوں کو بغیر مہمان نوازی اور اکرام کے نہیں جانے دیا۔

آپ  ﷺ نے ہمیں وہ طریقے بھی سکھائے کہ کس طرح مہمان کی مہمان نوازی کرنی ہے اور کتنے دن تک کرنی ہے۔ اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ میزبان کو کیا کرنا چاہیے اور ان تمام حرکات و سکنات سے بچنے کی ترغیب دی جن سے مہمان کو تکلیف کا احساس ہوا۔یقینا ایسا کرنے سے باہمی محبت کم ہوکر مہمان نوازی ایک رسم بن جاتی ہے جس سے اسلامی اخوت ومحبت کا رشتہ کم ہوجاتا ہے اور معاشرہ  تباہی کی طرف جاتا ہےیہ ہمارے لیے باعث اطمینان ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگ بہت مہمان نواز ہیں۔ آپ گلگت بلتستان کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں لوگ انتہائی خلوص کیساتھ آپ کی مہمان نوازی کریں گے۔ گلگت بلتستان کے لوگوں کی مہمان نوازی کا سارا کا سارا صلہ تعلیمات اسلامی، آپ ﷺ ، اہل بیت کرام اور صحابہ رضوان اللہ علیہم کے طفیل اور مرہون منت ہے۔وماعلینا الا البلاغنوٹ: یہ تحریر/ مقالہ  ریڈیوپاکستان کے 2021 کی ربیع الاول ٹرانسمیشن کے لیے خصوصی لکھی گئی ہے اور ریکارڈ کروائی گئی ہے.ریڈیو پاکستان گلگت میں منعقدہ قومی سیرت سیمنار میں اپنے عزیز طلبہ کے ساتھ مقالہ پڑھنے کی سعادت حاصل کی، پروڈیوسر ڈاکٹر شیر دل جبکہ میرمحفل شیخ شرافت ولایتی تھے. 

chitraltimes radio program gilgit seratun nabavi
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
53413

مہمان نوازی – (فہم حدیث نبوی ﷺ کے حوالے سے) – ڈاکٹر ساجد خاکوانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مہمان نوازی – (فہم حدیث نبوی ﷺ کے حوالے سے) – ڈاکٹر ساجد خاکوانی

                حضرت ابو شریح قاضی سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالی اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتاہے اسے چاہیے کہ مہمان کا اکرام کرے اور ایک دن اور ایک رات تک اسے پر تکلف کھانا کھلائے،اور تین دنوں تک اس کی مہمان نوازی کرے اس کے بعد صدقہ ہے پھر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مہمان کے لیے بھی جائز نہیں کہ میزبان کے ہاں اتنا عرصہ قیام کرے کہ اسے مشقت میں ڈال دے۔

                بظاہر دیکھنے سے اس حدیث میں تین امورکا ذکر ملتا ہے،پہلا امر یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے مسلمانوں کو انکے نام سے نہیں پکارا بلکہ فرمایا ”جو شخص اللہ تعالی اور یوم آخرت پر ایمان رکھتاہے“،یعنی اسم ذات کی کی بجائے اسم صفت سے یا د کیااور مسلمانوں کو بتایا ان کی اصل پہچان یہ ہے کہ وہ توحید کے ماننے والے ہیں اور ایک دن مرنے کے بعد جی اٹھنے پر یقین رکھتے ہیں۔ایمانیات کے ان دو اجزا کا حدیث کے نفس مضمون سے بہت گہرا تعلق ہے،جو شخص اللہ تعالی پر ایمان رکھے گا وہ اپنے دل کی گہرائیوں سے اس بات کا ایقان رکھے گا کہ کل کائنات اور اسکے خزانے اللہ تعالی کی ملکیت ہیں اور وہ تن تنہا ان سب کا مالک ہے۔وہ مسلمان جو اللہ تعالی پر یقین رکھتا ہے وہ اس بات پر بھی یقین رکھتا ہے کہ بحیثیت خلیفہ اس کے پاس جو کچھ بھی وہ سب اللہ تعالی کی دی ہوئی امانت ہے اور اللہ تعالی نے اسے اس لیے دیا ہے کہ وہ اس سب مال کو اللہ تعالی کے راستے میں اس کی مخلوق پر خرچ کرے اور اللہ تعالی کو مال جمع کرنا اور اسے سینت سینت کر رکھنا سخت ناپسند ہے،دوزخ میں سانپ اور بچھو دوزخی کی طرف لپکیں گے اور وہ دوزخی ان سے دور بھاگے گا تب وہ زہریلے جانور کہیں گے کہ اب ہم سے دور کیوں بھاگتاہے ہم وہی سوناچاندی ہیں جو تو دنیا میں سنبھال سنبھال کر رکھتاتھا۔پس جو شخص بھی اللہ تعالی پر ایمان کا دعوی کرتا ہے وہ مال کی محبت سے بے گانہ ہوگا اور مال کو سنت نبوی ﷺ کے طریقے کے مطابق اللہ تعالی کی مخلوق پر خرچ کرے گا۔

                ایمانیات کا دوسرا جزو جو اس حدیث میں ذکر کیاگیاہے وہ ایمان بالآخرت ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ نیکی کا بدلہ اور برائی کا بدلہ بھی اللہ تعالی نے ہی دینا ہے۔جو شخص کسی سے برائی کر کے یہ توقع رکھے کہ اسے کوئی نہیں دیکھ رہااور کسی نے اس سے اس برائی کی بابت استفسارنہیں کرنااور کوئی مجھے پوچھنے والا نہیں ہے اور کوئی مجھے اس برائی کا بدلہ نہیں دے سکتا اس کا گویا آخرت کے دن پر ایمان نہیں ہے اور جو شخص کسی سے نیکی کر کے اسی سے یہ توقع رکھے کہ وہ اسے اس نیکی کا اجر دے گایا اس فرد کی بجائے اسکے والدین سے یہ توقع رکھے کہ وہ اسے اپنے بچے کے ساتھ بھلا کرنے کا بدلہ دیں گے یا پھر کسی گروہ کے ایک فردکے ساتھ بھلا کرکے کل گروہ سے اسکے اچھے بدلے کی توقع کرے تو اس کا بھی گویاآخرت کے دن پر ایمان نہ ہوا۔یہ ایک حقیقت ہے کہ قیامت کے دن صرف اسی نیکی کا بدلہ ملے گا جو محض اللہ تعالی کی خاطر ہی کی گئی ہو گی اورجس نیک عمل میں تھوڑا سا بھی شرک شامل ہو گا اس کے اجر کے لیے حکم ہوگا کہ اسی سے اجر مانگو جس کے لیے یہ کام کیا تھا۔

                حدیث کے اندر دوسرا مضمون جس کی خاطر آنحضرت ﷺ نے ایمانیات کی تمہید باندھی وہ مہمان نوازی کی ترغیب ہے۔مہمان نوازی حقوق العباد میں سے ہے اورجو اللہ تعالی پر ایمان رکھتاہے وہ مہمان پر خرچ کرے کیونکہ اس کے پاس موجود مال اللہ تعالی کا ہی دیا ہوا ہے اور اسی کے نبیﷺ یہ حکم دے رہے ہیں کہ مہمان پر اپنے مال میں سے خرچ کرو اورجو آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ مہمان پر اس لیے خرچ کرے کہ اسے اللہ تعالی سے اس کا اجر لینا پے اور کسی نے اس نیت سے مہمان پر خرچ کیا کہ کل کو میں جب اس کا مہمان بنوں گا تو یہ بھی میری خدمت کرے گا یا اس سے میرا فلاں کام پڑنے والا ہے اور اس مہمان نوازی کے عوض میرا مسئلہ حل ہو جائے گایا اس لیے مہمان نوازی کی کہ یہ ہماری خاندانی روایات ہیں جس کے عوض ہمیں نیک نامی میسر آتی ہے تو اس نے گویا آخرت کے دن کواس طرح نہیں مانا جس طرح اللہ اور اسکے رسول ﷺ نے اس کا حکم دیاتھا۔

                ایک بار خدمت اقدس ﷺ میں ایک مسافرحاضر ہوا،رات ہوجانے پر محسن انسانیت ﷺنے بلند آواز سے پوچھا کون اس مسافر کو مہمان بناکر اپنے گھر لے جائے گا؟؟غربت کازمانہ تھاجس کے باعث سب خاموش رہے تاہم تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد ایک مسلمان نے حامی بھر لی اور اس مسافرکو مہمان بناکر گھر لے گیا۔گھرآنے پر بیوی نے بتایا کہ کھانا تو صرف ایک ہی آدمی کا ہے،اس مسلمان نے کہاکہ جب مہمان کھاناشروع کرے تو تیل ختم ہونے کے بہانے چراغ گل کردینایوں میں بس منہ چلاتارہوں گااورمہمان سیرہوکرکھاناکھالے گا۔ سارا کھانا مہمان کو کھلا دیااورمیزبان اور اسکی بیوی بچے بھوکے سو گئے،اللہ تعالی کو یہ عمل اس قدر پسند آیا کہ اس مسلمان کی تعریف وتوصیف میں حضرت جبریل علیہ السلام اگلے دن قرآن مجید کی یہ آیت لے کر حاضر ہوئے کہ ”اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں،حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں“(سورۃ حشر آیت9)۔اس مسلمان کی شان میں نازل ہونے والی یہ آیت قیامت تک تلاوت ہوتی رہے گی کیونکہ اس نے مہمان نوازی میں اپنے گھرکاساراکھانا پیش کر دیا تھا۔

                اس دنیا میں مسلمانوں کے ایک ہزارسالہ دوراقتدار میں بڑے بڑے شہروں کے اندر بھی کسی ہوٹل اور ریسٹورینٹ کا سراغ نہیں ملتا کیونکہ مہمان نوازی ایک قومی و ملی شعار کی صورت میں معاشرے کے اندر موجود رہی۔فجر کی نماز اور عشاء کی نماز میں مقامی لوگ مسجدوں کے اندر باقائدہ آواز لگایا کرتے تھے کہ کوئی مسافر ہے تو ہمارے گھر چلے،نوابین نے اپنی اپنی جاگیروں میں سرراہ مسافر خانے بنواتے تھے جس میں قیام کرنے والوں سے یہ نہیں پوچھا جاتا تھا کہ وہ کب روانہ ہوں گے؟ اور اعلی درجے کا کھانا پورے مہمان نوازی کے آداب کے ساتھ پیش کیاجاتاتھااور نوابین اور سرداران قوم جب باہم ملتے تو مہمانوں کی کثرت پر فخر کرتے تھے۔مدارس کے طلبہ مستقل طور پر مقامی افراد کے مہمان سمجھے جاتے تھے اور مقامی افراد کے ہاں سے قسم قسم کے پکوان ان کے طعام کے طور پر مدارس کے دسترخوانوں پر بھیجے جاتے۔اس طرح معاشرے کے افراد کے درمیان پیارومحبت کا جذبہ پروان چڑھتا،امیروغریب کے درمیان فاصلے سمٹ جاتے اور منعم اورگداباہم دو مضبوط اینٹوں کی مانندناقابل تسخیرمعاشرے کی بنیاد رکھتے۔

                مغربی سیکولرتہذیب نے جہاں انسانیت کے متعدد شعائر پر اپنا تیشہ چلایا ہے وہاں مہمان نوازی پر بھی کمرشل ازم کا نشترگارگر ثابت ہواہے جس کے نتیجے میں گھروں کے دستر خوان سکڑ گئے ہیں اور ہوٹلوں اور ریستورانوں کی لمبی لمبی قطاریں بازاروں کی زینت بن گئی ہیں۔گھروں میں مہمان داری سے پیارومحبت پروان چڑھتاہے جبکہ ہوٹلوں میں منافع خوری کا رجحان گرم رہتاہے،گھریلوکھانا صحت بخش ہوتا ہے جبکہ بازاری کھانے میں وہ احتیاط ممکن نہیں ہوتی جو گھر میں کی جاتی ہے،گھریلودسترخوان پر کھانا کھانے سے احسان مندی کاعنصر پھلتاپھولتاہے جس کے باعث لوگ جس کے دسترخوان پر کھاناکھاتے ہیں پھر اس سے حیاکرتے ہیں اور اس سے عزت و احترام سے پیش آتے ہیں جبکہ بازاری ہوٹلوں میں گاہکی بڑھتی ہے اور مغربی سیکولر تہذیب کے معاشی جاگیردارانہ نظام کے ”مقابلے کے رجحان“میں اضافہ ہوتاہے اور گھریلو دسترخوان پر مہمان فطرتاََکم کھانا کھاتا ہے جس سے صحت برقرار رہتی ہے جبکہ ہوٹل اور ریسوران میں رقم پوری کرنے کی خاطر بسیاخوری کی جاتی ہے جو صحت کی تباہی کا باعث بنتی ہے۔

                مہمان نوازی سے اللہ تعالی کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں،آنے والے سے پہلے اسکا رزق میزبان کے دسترخوان پر اترآتاہے،خاندانوں کے درمیان تعلقات مضبوط ہوتے ہیں،دسترخوان وسیع ہوتے ہیں،ظرف بڑھتے ہیں،وسعت نظر پیدا ہوتی ہے،بہت سارے لوگوں کے درمیان بیٹھ کر انسان کی سوچ اور فکر میں گہرائی پیدا ہوتی ہے،ملنے جلنے سے ذہنی دباؤختم ہوتاہے،باہم مشورے کرنے سے مسائل کے نئے نئے حل نکلتے ہیں جبکہ مہمان نوازی ختم ہو جانے سے انسان آہستہ آہستہ تنہائی کا شکار ہوکر ذہنی دباؤ میں الجھ جاجاتاہے اور چھوٹی چھوٹی پریشانیاں اسے اس طرح گھیر لیتی ہیں کہ وہ ان کوبہت بڑی مصیبت سمجھ بیٹھتاہے اوریہ سب اس بات کا نتیجہ ہوتا ہے کہ مہمان نوازی سے دستکش ہو کر اللہ تعالی کی رحمتوں سے دور ہٹ جاتاہے۔

                اللہ تعالی کے رسول ﷺ نے حکم دیا ہے کہ ایک دن تک مہمان کو پر تکلف کھانا کھلایا جائے ظاہر ہے یہ کھانا اپنی حیثیت کے مطابق ہی ہونا چاہیے،پھر تین دن تک میزبان اپنے گھر میں جو بھی تیار کرے اسے مہمان کے سامنے لاکر پیش کردے اور بہت اچھی روایت ہے کہ مہمان کے ساتھ ہی مل کر کھانا کھائے۔اس کے بعد بھی اگر مہمان قیام پزیر رہتاہے تو پھر اسکو جو کھانا پیش کیاجائے گا وہ مہمان نوازی کی بجائے صدقہ کے زمرے میں لکھاجائے گا۔مہمان اپنی مجبوری کے تحت کتنا قیام کرتا ہے؟؟یہ تو اس کام کی نوعیت پر منحصرہے جس کی خاطر وہ اپنا وطن چھوڑ کر دوسرے شہر میں داخل ہوا ہے لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کہ مہمان کو بھی اتنا عرصہ قیام کرنا چاہیے کہ میزبان اسے بوجھ نہ سمجھنے لگے۔اگر میزبان صاحب استطاعت ہے تو مہمان کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں لیکن اگر میزبان سفیدپوش ہے اوراسکے دسترخوان کے ساتھ ساتھ گھر کے ایک حصے پر بھی مہمان عرصے سے جما بیٹھاہے تو ایسے میں مہمان کوچاہیے کہ وہ میزبان کی پریشانی کا مناسب مداواکرے۔

drsajidkhakwani@gmail.com

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51882