Chitral Times

تعلیمی میدان میں حوصلہ افزائی کی اہمیت – علی مراد خان

 لعت کی رو سے حوصلہ افزائی کی معنی ہمت بڑھانا یا شاباش دینا ہے۔ اس کا متضاد لفظ حوصلہ شکنی ہے جس کی معنی ہمت توڑنا یا بے ہمت کرنا لیا جا سکتا ہے۔ ہمت بڑھانا یا بے ہمت کرنا ایسے دو عوامل ہیں جن کا بچوں کی زندگیوں پر دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔


اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ وہ بچے جن کو گھر یا سکول یا دونوں جگہوں سے حوصلہ افزائی ملتی ہے وہ بہتر تعلیمی کارکردگی دیکھاتے ہیں۔ دوسری طرف وہ بچے جن کو کم حوصلہ افزائی ملتی ہے وہ پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اگرہم تھوڑا کچھ لکھے پڑھے لوگ خود اپنی تعلیمی سفر کے بارے میں سوچیں گے تو یہ بات ضرور ذہن میں آئےگی کہ اس سفر کو جاری رکھنے اور تعلیم کے ساتھ دلچسپی برقرار رکھنےمیں خاندان یا معاشرے کے کسی فرد یا افراد کی طرف سےحوصلہ افزائی کا عمل دخل ضرور یاد آئےگا۔ جس کے لئے ہمیں ان لوگوں کا مشکور ہونا چاہیے۔


تعلیمی میدان میں حوصلہ افزائی یا حوصلہ شکنی کی بات ہو تو عام طور پر مشہور سائنسدان ایڈیسن کی مثال دی جاتی ہے۔ جس کو سکول سے نکال کر ایک خط کے ساتھ گھر بھیجا گیا تھا جس میں لکھا گیا تھا کہ آپ کا بچہ کمزور ہے لہٰذا ہم اس کو اپنے سکول میں نہیں رکھ سکتے۔ ماں نے وہ خط پڑھی اور جب بیٹے نے خط میں موجود پیغام کے بارے میں پوچھا تو اس نے یہ کہ کر اس کو مطمیؑن کیا کہ اس میں لکھا ہے کہ ان کے سکول میں آپ کے قابل انتظامات نہیں ہیں۔ سکول سے اس قدر سخت خبر آنے کے بعد بھی ماں نے بیٹے کی ذرا برابر حوصلہ شکنی نہیں کی۔بلکہ گھر میں پڑھائی کا بندوبست کیا۔ ایک دن یہی بچہ ایک سائنسدان بن کے سامنے آیا جس کا ایجاد کردہ بلب ہم آج بھی روشنی جیسی نعمت کے حصول کے لئے استعمال کرتے ہیں۔


ہمارے ہاں حوصلہ افزائی ایسے طالب علموں کی ہوتی ہے جن کی تعلیمی کارکردگی اچھی ہو۔ جبکہ ایسے طالب علم جن کی تعلیمی حالت قدرے کمزور ہو حوصلہ افزائی کے حقدار نہیں پاتے۔ کیونکہ ان کے لئےاس کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ ۔حالانکہ حوصلہ افزائی کے ذریعے آگے لانے کی زیادہ ضرورت دوسری صورت میں ہوتی ہے۔ نیزاکثر گھروں میں ایسے بچوں کے لئے ماحول خوش آئند نہیں ہوتا ۔ مثلاً ہم اکثر یہ الفاظ والدین سے سنتے ہین کہ فلاں بچہ کمزور ہے، فلاں بچہ نالائق ہے ، وہ کچھ نہیں کر سکتا وغیرہ۔ ایسے الفاظ بچوں کی زہنی نشونما کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم سے بھی دوری کی طرف لے جاتے ہیں۔ کچھ والدین بچوں کو ایک دوسرے سے بے جا موازنہ کرتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ ہرانسان کی اپنی خوبیان اور خامیاں ہوتی ہیں۔ وہ بار بار کمزور پہلوؤں کو سامنے لاتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح سے وہ بچوں میں مثبت تبدیلی لائینگے۔حالانکہ اس سے ان کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے۔ اور وہ تعلیم سے دور ہٹ جاتے ہیں۔


سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک بچہ تعلیمی میدان میں کچھ کمزور ہے تو اس کی حوصلہ افرائی کس لئے کی جائے۔ یقیناً اس کا جواب یہ ہوگا کہ یہ اس کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے کی جائے۔ اور اس بات کو مدنظر رکھ کر کیا جائے کہ ہر انسان بے پناہ صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے جن کو ابھارنا والدین اور اساتذہ کی زمہ داری ہوتی ہے۔ لہٰذا بچوں کو نصیحت وصیت کے ساتھ ساتھ پیار اوحوصلہ بھی ملنا چاہیے تاکہ ان کا تعلیمی سفر کامیاب رہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
51258

ہمارے معاشرے میں قانون کی عملداری – علی مراد خان

ہمارے معاشرے میں قانون کی عملداری – علی مراد خان

 ایک ریاست کی یہ اہم زمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنائے اور جہاں کہیں انصاف کی فراہمی کی ضرورت ہو وہاں سستا انصاف مہیا کرے۔ مگر ہمارے معاشرے میں بات اس کی الٹ ہے۔ ہہاں انتظام چلانے والے خود دانستہ طور پر قانون کی دھجیان اڑاتے ہیں۔


ٹھٹھہ میں میں فلمائی گئی ایک ویڈیو انٹرنیٹ پر اپلوڈ ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک پولیس اہلکار ایک غریب شہری کے سینے میں بیٹھ کر گلا دباتا ہے۔ دم گھٹنے سے شہری کا برا حال ہوتا ہے۔ پاس بیٹھی ماں آہ و فریاد کرتی ہے کہ کوئی اس کے بیٹے کو بچائے۔ اس کی پکار کی طرف کوئی کان نہیں دھرتا۔ پولیس اہلکار نوجوان پر تشدد یوں جاری رکھتا ہے جیسا کہ کسی شکاری بھڑیئے نے جنگل میں شکار پکڑا ہو۔ نام نہاد یہ خادم اور قانون کا عملدار دوسروں کی کیا مدد کر سکتا ہے جس کو خود قانون کا کچھ پتہ نہں۔ اردگرد کھڑی ہجوم یہ سب کچھ دیکھ رہی ہوتی ہے۔ لیکن ان میں یہ حوصلہ کہاں کہ وہ پولیس اہلکار کو یہ سمجھائیں کہ وہ مجرمانہ فعل کر رہا ہے۔


اوپر بیاں کئے گئے واقعے کی طرز کے واقعات ملک کے طول و عرض میں روز وقوع پزیر ہوتے ہیں۔ کہیں پولیس کی فائرنگ سے انسانی جانوں سے کھیلا جاتا ہےتو کہیں بے جا شیلنگ سے پر امن شہری لہولہاں ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ گزشتہ برس یہ خبر بھی میڈیا میں گردش کرتی رہی کہ شہر لاہور میں ایک پولیس افسر کی ہدایت پر مظاہرین پر کیمیکل ملا پانی پھینکا گیا جس سے ایک غریب شہری کی جان چلی گئی۔


ڈرائیوروں، ریڑھی بانوں اور معاشرے کے دوسرے غریب طبقات کو بے جا تنگ کرنا، خواہ مخواہ میں چالان کاٹنا، دھمکانا اور قانون کی پاسداری کے بجائے قانون کو ذاتی مفاد اور پسند یا ناپسند کی بنیاد پر استعمال کرنا تو عام سی بات بن گئی ہے۔


سب سے گھناؤنا کام اس وقت ہوتا ہے جب کوئی انتظامی عہدیدار یا اہلکار اپنی رشتہ داری، برادری، دوستی،ذاتی فائدے وغیرہ کی خاطر مجرموں سے ہمدردی کا اظہار کرتا ہےیا مدد کرتا ہے تاکہ وہ قانون کے شکنجے میں نہ آسکے۔ یہ ایک طرح سے ان کی سرپرستی ہوتی ہے۔ جس سے نہ صرف انصاف کی فراہمی رک جاتی ہے بلکہ مجرم کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے۔ اور وہ دوبارہ جرم کرنے، کسی کا حق چھیننے، یا امن و امان خراب کرنے میں خوف محسوس نہیں کرتا۔ اور یوں قانوں کے رکھوالے قانون اور انصاف کی پرچار کرنےکے بجائے معاشرتی بگاڑ کا سبب بنتے ہیں۔ جس سے لوگوں میں عدم اعتماد جنم لیتی ہے۔ لوگ اپنے اپ کو غیر محفوظ پاتے ہیں۔ نتیجتا کئی دوسرے معاشرتی برائیاں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ سب ایسے عملداروں کی وجہ سے ہوتا ہے جو اپنی پیشہ ورانہ زمہ داریوں کی اہمیت سے نا آشنا ہوتے ہیں۔ اور جو اپنی منصب کو ریاست کی امانت نہیں سمجھتے۔ یہی


لوگ معاشرتی برائیوں کی اصل جڑ ہوتی ہیں۔ انہی کی وجہ سے قانون کے نظام پر سوالیہ نشان لگتا ہے۔
صحتمند معاشرے کا قیام صرف اور صرف قانون کی حکمرانی سے ہی ممکن ہے۔ اس کے لئے قانون کو ایسے رکھوالوں کی ضرورت ہوتی ہے جو خود اعلٰی اخلاقی اقدار کے مالک ہو۔ ساتھ ساتھ ملک و قوم کی
ترقی کے لئے ان کے دل میں درد اور خدمت خلق کا جذبہ ہو۔ اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کے دوران تعصب، اقرباء پروری، اور ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر تمام انسانون سے برابری کا برتاؤ کریں۔


کیونکہ صداقت پر مبنی برتاؤ اور فیصلوں سے معشرے میں روشنی پھیلتی ہے۔ سچائی اپنے ساتھ ہمیشہ امن اور آشتی لاتی ہے۔ لوگوں کے درمیاں برادرانہ سوچ کو پروان چڑھاتی ہے۔ معاشرتی اور اخلاقی اقدار ترقی پاتے ہیں اور یوں پورا معاشرہ تہذیب یافتہ بن جاتا ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
51125