Chitral Times

بلدیاتی انتخابات میں تاخیری حربوں کی وجوہات – پروفیسرعبدالشکورشاہ

Posted on

بلدیاتی انتخابات میں تاخیری حربوں کی وجوہات – پروفیسرعبدالشکورشاہ

 

جب مفادات مشترک ہوتے ہیں تو ان کے لیے کوشش بھی مشترکہ اور برابری کی سطح پرکی جاتی ہے۔مشترکہ مفاد لوگوں کوباہمی اعتماد سے زیادہ قربت اور یقین فراہم کرتا ہے۔مشترکہ مفاد کی تازہ ترین مثال آزادکشمیرکی قانون ساز اسمبلی کی جانب سے پیش کردہ بلدیاتی ترمیمی بل اور پندرہویں ترمیم ہے۔ پندرہویں ترمیم، ٹورازم اتھارٹی کی زبانی کلامی مخالفت کرنے والی اپوزیشن نے اپنے مفادات کی خاطر حکومت سے مک مکا کر تے ہوئے ایک بار پھر عوام مینڈیٹ کی بے توقیری کی ہے۔ یہ نہ صرف عوامی منڈیٹ کی بے توقیری ہے بلکہ سپریم کورٹ کے احکامات کو ردی کی ٹوکری میں ڈالتے ہوئے اداروں میں تصادم کی فضاء پیدا کی جارہی ہے۔ حکومت کو ٹورازم اتھارٹی کے قیام اور پندرہویں ترمیم پر مزاحمت کا سامنا تھا جبکہ اپوزیشن کو بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے اپنی اجارہ داری خطرے میں دکھائی دیتی تھی۔ یوں حکومت اور اپوزیشن دونوں نے کچھ لو کچھ دوکے تحت اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے عوامی اور قومی مفادات کی بلی چڑھادی۔اگرچہ قانون سازی کا حق قانون ساز اسمبلی کو حاصل ہے مگر عین اس موقعہ پر ترمیمی بل لانا جب الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کے شیڈول کا اعلان کر چکا ہے اس سے حکومت اور اپوزیشن دونوں کی بدنیتی عیاں ہے۔ حکومت آزادکشمیر کی روزاول سے یہ کوشش رہی ہے کہ عدلیہ کو پنپنے کا موقعہ نہ دیا جائے۔

 

عوام کی تمام تر امیدیں عدلیہ سے وابستہ ہیں اور کسی بھی ناانصافی کی صورت میں عوام عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے۔سپریم کورٹ نے دہائیوں سے بلدیاتی انتخابات کے عدم انعقاد کاسنجیدگی سے نوٹس لیتے ہوئے اقتدار کونچلی سطح تک منتقل کرنے کا حکم صادر کیا۔ طاقت بدعنوان بناتی ہے اور بے جا طاقت بے جا بدعنوان بناتی ہے۔ جب حکومت اور اپوزیشن نے یہ بھانپ لیا کہ اب ترقیاتی بجٹ کی بندربانٹ اور اقتدار کی طاقت میں کمی واقع ہوگی اور ان کی مطلق العنانیت اور منوپلی داو پر لگے گی تو دونوں نے سر جوڑ لیے۔ دونوں کے مشترکہ مفادات نے انہیں ایک دوسرے کے قریب لانے میں فاصلے، ناراضگیاں، گلے شکوے سب راتوں رات ختم کر دیے۔ دونوں نے مک مکا کرتے ہوئے اپنے مفادات کیلیے عدلیہ اور عوام دونوں کو اپاہج کرنے کی منصوبہ بندی اتنی تیزی سے کی کے کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی۔ پندہویں ترمیم سے انکاری وزیر بلدیات خود قراردار پیش کرنے کے لیے حاضر ہو گئے۔بلدیاتی انتخابات کے التواء کے لیے تاخیری حربوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے ایم ایل ایز کو اتنی جلدی انتخابات ہونے کی توقع نہ تھی اور وہ ووٹوں کے حصول کے لیے روائیتی سرمایہ دارانہ طریقہ استعمال کرنے سے قاصررہے۔ کچھ ایم ایل ایز اپنے بجٹ کے پیسے اپنے حواریوں میں ترقیاتی سکیمیوں کے ناموں پر نچھاور کر چکے تھے اوراب ان کے پاس جیب گرم کرنے کے لیے سرکاری پیسہ نہ تھا۔ ایک وجہ یہ بھی ہے میڑک کی شرط کی وجہ سے بہت سے پڑھے لکھے نوجوان میدان میں اترنے کے لیے پر جوش تھے اور بہت سوں نے اپنی مہم بھی شروع کر دی تھی۔ تمام سیاسی پارٹیوں نے عوامی سطح پر اقتدار کی منتقلی سے خائف ہوکر پہلے تو بلدیاتی الیکشن کے خلاف کورٹ کا دروازہ کھٹکٹھانے کا سوچا۔ جب انہیں عدالتی رٹ کی صورت میں اپنی واضع ہار نظر آگئی تو انہوں نے بہانہ بنا کر عدالت ہی کے اختیارات پر ہلا بول دیا اور ترمیمی بل لے آئے۔

 

ہمارے ایم ایل ایز کسی صورت بھی اپنے اختیارات میں کمی کا تصور نہیں کر سکتے اور نہ ہی انہیں یہ گوارہ ہے کے کوئی اور عوامی نمائندہ سامنے آئے اور عوام جو کہ ایم ایل ایز تک پہنچ نہیں سکتے ان کے مسائل ان کے علاقے میں حل ہوں۔ اگر بلدیاتی الیکشن ہو جاتے تو سب سے بڑا فائد ہ عوام کاتھا اور عوام کا فائدہ نام نہاد عوامی نمائندوں کو ایک آنکھ نہیں بہاتا۔بلدیاتی الیکشن کی گہما گہمی کے ساتھ ہی کچھ علاقوں کے مسائل جو عرصہ درازسے سرد خانے کی نظر ہو چکے تھے دوبارہ زندہ ہونے لگے اور بعض علاقوں میں ان پر کام کا آغاز بھی کر دیا گیا تھا۔ پہلے جب عوام اپنے مسائل کے حل کا مطالبہ کرتی تھی تو فنڈز نہ ہونے کی گردان سنائی جاتی تھی مگر بلدیاتی الیکشن کے اعلان کے ساتھ ہی فنڈز بھی مریخ سے آٹپکے۔ جوایم ایل ایز عام انتخابات کے بعد اپنے حلقے میں دکھائی نہیں دیتے تھے وہ بھی اسلام آباد اور مظفرآباد کے یخ بستہ کمرے چھوڑ کر عوام کے درشن کرنے پر مجبور ہو گئے۔ حکومت اور اپوزیشن ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ دونوں کی اولین ترجیح عدالت کے زریعے بلدیاتی انتخابات کو چند ماہ تک لٹکانا تھا اس عرصے کے بعد آزادکشمیر کی بلند وادیوں میں برف پڑنا شروع ہو جاتی ہے تب یہ بہانہ گھڑ لیا جاتا کہ اب عوام اس موسم میں ووٹ ڈالنے کے لیے نہیں آسکتے یوں حیلے بہانوں سے ان انتخابات کو لٹکاتے لٹکاتے مارچ تک لے جاتے۔ مگر سیاسی پنڈتوں کو اس بات کاادراک ہو گیا کہ عدالت کے سامنے ان کا یہ بہانہ زیادہ جاندار ثابت نہیں ہو گا۔ وزراء اور صدر کے لیے مہنگی شیفرڈ گاڑیاں خریدنے کے لیے تو بجٹ ہے مگر بلدیاتی انتخابات کروانے کے لیے بجٹ کی عدم دستیابی، ناکافی بجٹ اور وفاقی کٹ کاجوازپیش کیا جاتا ہے۔ الیکشن کمیشن اور عدالت عظمی چونکہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے تھے اس لیے قانون ساز اسمبلی نے دونوں کے پر کاٹنے کا بل تیار کر لیا۔ ایک طرف تو الیکشن کمیشن کے اختیارات کی منتقلی ہو گی اور دوسری جانب عدلیہ کو یہ باور کروایاگیا ہے کہ اگر آپ ہماری منشاء کے برعکس چلیں گے تو ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔

 

بل پر کمیٹی بنانا دودھ کی رکھوالی کے لیے بلی رکھنے کے مترادف ہے چونکہ کمیٹی تو عوامی جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے بنائی گئی ہے جبکہ اس میں اکثریت حکومتی ارکان کی ہے اور جو چند ارکان اپوزیشن کے ہیں ان کا کردار بھی ٹورازم اتھارٹی کے قیام، پندرہویں ترمیم اور بلدیاتی انتخابات کے التواء کے لیے پیش کیے جانے والے بل میں کھل کر سامنے آچکاہے۔ بلدیاتی انتخابات کے التواء کے لیے تاخیری حربوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس صورت میں عوام مستقبل کی متبادل قیادت مل جائے گی۔ جب مقابلے کی فضاء مزید بڑھے گی تو یقینا روائیتی سیاستدانوں کے لیے ماضی کی طرح بلدیاتی انتخابات کے بغیرسارے اختیارات کے مجاز کل ہوتے ہوئے الیکشن لڑنا کافی مشکل ہو جائے گا۔ بلدیاتی انتخابات میں پڑھے لکھے نوجوانوں نے روائیتی سیاستدانوں کے لیے کافی مشکلات پیدا کرنی تھیں۔ نئے آنے والے پڑھے لکھے نوجوان روائیتی سیاستدانوں سے زیادہ پرجوش اور کام کرنے کی لگن رکھتے ہیں۔ وہ ووٹ اور عوام کی قدر کرنا جانتے ہیں۔ عوامی کام کیے بغیر سیاسی میدان میں اپنی جگہ بنانا ان کے لیے تقریبا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ یوں بلدیاتی انتخابات کی صورت میں ووٹ کا تناسب متاثر ہونا یقینی تھا۔ سیاستدانوں نے ہمیشہ نوجوانوں کو اپنے مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا ہے۔ آج تک کسی نوجوان کو کئی کلیدی عہدہ نہیں دیا کیونکہ روائیتی سیاستدان پڑھے لکھے جذبہ خدمت خلق سے سرشار نوجوانوں سے خائف ہیں۔ یہ عجب بات ہے ہم باقی سارے کاموں میں پاکستان کی تقلیدکرتے اگر یوں کہا جائے کے ہماری اسمبلی کا بٹن ہی اسلام آباد میں ہے تو بے جا نہ ہو گا۔

 

پاکستان میں تو بلدیاتی انتخابات کے وعدے تقریبا پورے ہو رہے ہیں مگرآزادکشمیر میں ہم الٹی گنگا بہانے کے درپے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے التواء کے تاخیری حربوں کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کے زریعے عوامی توجہ موڑ کر ٹورازم اتھارٹی اور متنازعہ پندہویں ترمیم کے لیے راہ ہموار کی جائے۔ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی صورت میں حکومت غیر آئینی طریقے سے بجٹ میں سے جو رقم پاکستان میں مقیم مہاجرین کے نام پر بانٹتی ہے وہ بھی ختم ہو جانی تھی۔ جتنا پیسہ اور اختیارات بلدیاتی انتخابات کی صورت میں عوام تک منتقل ہونا تھا اس سے ہاتھ دھو بیٹھنا نشے میں دھت ایم ایل ایز کے لیے کیسے قابل برداشت ہو سکتاہے۔ آزادکشمیر میں تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔اگرچہ عام انتخابات میں نوجوانوں نے کوئی بڑی کامیابی تو حاصل نہیں کی اکثر چرنوں میں بیٹھ گئے مگر جو کھڑے رہے اگر وہ جیتے نہیں تو انہوں نے اجارہ دار طبقے کو جیتنے بھی نہیں دیا اور خاطر خواہ ووٹ توڑنے میں کامیاب رہے۔ بلدیاتی نظام قومی سیاست میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور کسی بھی سانحہ کے بعد امدادی سرگرمیوں،جلد بحالی اور تعمیری عمل میں کلیدی کردار ادا کر تاہے۔ مگر بدقسمتی سے حکومت مختلف بہانے بنا کر بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں لیت و لعل سے کام لے رہی ہے۔بلدیاتی نظام کی موجودگی میں عوام اپنے آپ کو حکومت کا حصہ تصور کر تی ہے جبکہ ہماری مقتدرہ کو یہ گوارہ نہیں ہے۔ایم ایل ایز ووٹ کے بعد عوام کو ایک فاصلے پر رکھنے ہی میں اپنی بہتری سمجھتے ہیں۔بلدیاتی نظام کے زریعے لوگوں کے زیادہ تر مسائل ان کے علاقوں میں حل کیے جاتے ہیں جبکہ ایم ایل ایزچاہتے عوام ان کے پیچھے چکر لگائے ان کی خوشامد کرے رشوت دے کمیشن دے تاکہ ان کے لیے نہ صرف مال بنانا آسان ہو بلکہ عوام یا تو چکرلگا لگا کر ایم ایل اے کی طاقت اور اہمیت سے واقف ہو گی یا پھر ایم ایل اے کو بہانہ مل جائے گا آپ تو میرے پاس آئے ہی نہیں ہیں میرا کیا قصور ہے۔تاخیری حربوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے عام انتخابات میں تقریبا ہر کسی سے بلدیاتی ٹکٹ کے جھوٹے وعدے کیے گئے تھے جو کہ اب ممکن نہیں۔ انعقاد کی صورت میں ووٹ جاتے ہیں اس لیے سیاستدانواں کا فائدہ بلدیاتی انتخابات کے التواء ہی میں ہے۔

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
64670

بلدیاتی انتخابات کی گہماگہمی ۔ محمد شریف شکیب

Posted on

بلدیاتی انتخابات کی گہماگہمی ۔ محمد شریف شکیب

خیبر پختونخوا کے اٹھارہ اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے انتخابات 31مارچ کو ہورہے ہیں۔صوبے کے سترہ اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کا پہلامرحلہ 19دسمبر2021کو مکمل ہوا تھا۔ پہلے مرحلے میں تحصیل، ویلج اور نیبرہڈ کونسلوں کے منتخب نمائندوں نے حلف بھی اٹھا لیا ہے۔ دوسرے مرحلے کے انتخابات کے لئے امیدواروں کی انتخابی مہمات زور و شور سے جاری ہیں۔ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے نامزد امیدوار سرگرم عمل ہیں۔بلدیاتی انتخابات میں سیاسی جماعتوں اور عوام کی دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ ایک ایک نشست کے لئے آٹھ دس امیدوار مد مقابل ہیں۔دوسرے مرحلے کے یہ بلدیاتی انتخابات دیہی علاقوں میں ہورہے ہیں جن میں ملاکنڈ، دیر اپر، دیر لوئر، چترال اپر، چترال لوئر، بونیر، سوات، شانگلہ، کولائی پالس، کوہستان اپر، کوہستان لوئر، تورغر، بٹگرام، مانسہرہ اور ایبٹ آباد شامل ہیں۔

مقامی حکومتوں کے ان انتخابات میں سیاسی پارٹیوں کے منشور سے زیادہ علاقائیت، قومیت اور برادری کی بنیاد پر ووٹ ڈالے جاتے ہیں۔ انتخابی عمل تو چند ہفتوں کے اندر اپنے اختتام کو پہنچتا ہے لیکن انتخابات کی وجہ سے خاندانوں اور قبیلوں کے درمیان چپقلش اورناراضگیاں کبھی ختم نہیں ہوتیں اور بات نفرت، دشمنی، رشتے ناطے توڑنے،دھینگا مشتی اورمارکٹائی تک پہنچ جاتی ہے۔ بلدیاتی نظام میں آئے روز تبدیلیوں کی وجہ سے عام لوگ اور انتخابی عمل میں حصہ لینے والے امیدوار بھی کنفیوژن کا شکار ہیں۔ آئین میں اٹھارویں ترمیم کے ذریعے وفاق سے متعدد وزارتیں صوبوں کو منتقل کی گئی تھیں۔تاہم ان وزارتوں کے اثاثے اب تک وفاق کے پاس ہیں۔ قومی مالیاتی کمیشن کے تحت وفاق قومی وسائل کا 49فیصد صوبوں کو منتقل کرنے کی پابند ہے لیکن گذشتہ آٹھ سالوں میں وفاق اور صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کا مسئلہ حل نہیں ہوسکا۔ آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کو صوبائی مالیاتی کمیشن کے ذریعے وسائل مقامی حکومتوں کو منتقل کرنے ہیں مگر دو سال پہلے تحلیل ہونے والے بلدیاتی ادارے صوبائی مالیاتی کمیشن کے تحت وسائل سے محروم رہے جس کے نتیجے میں ویلج، تحصیل اور ضلع کونسلیں مقامی سطح پر ترقیاتی کام نہیں کرواسکیں۔

منتخب ارکان کو صرف اجلاسوں میں شرکت کے لئے ٹی اے، ڈی اے ملتا رہا۔ پی ٹی آئی نے اپنے ابتدائی انتخابی منشور میں سینیٹرز، اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کے صوابدیدی فنڈز ختم کرنے کا وعدہ کیاتھا۔ کیونکہ منتخب ارکان کو دیا جانے والا ترقیاتی فنڈ ذاتی سیاسی مفادات کے لئے ہی استعمال ہوتا رہاہے۔تاہم پی ٹی آئی حکومت منتخب ارکان کے دباؤ میں صوابدیدی فنڈز ختم نہیں کرسکی۔ بلدیاتی اداروں کو جمہوریت کی نرسری قرار دیا جاتا ہے، سوئزرلینڈ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، امریکہ، ہالینڈ، ناروے اور دیگر جمہوری ملکوں میں ریاستی اور مرکزی اسمبلیوں کے ارکان سے زیادہ اختیارات اور وسائل مقامی حکومتوں کے پاس ہوتے ہیں کیونکہ ان اداروں کو نچلی سطح پر عوام کے ساتھ قریبی رابطہ اور عوامی مسائل کا ادراک ہوتا ہے۔مقامی سطح پر تعلیم اور صحت کی ضروریات پوری کرنا، سڑکوں، پلوں، نہروں، پشتوں کی تعمیر سے لے کر جنازہ گاہوں،قبرستانوں، پبلک پارکس کی تعمیر،توسیع اور دیکھ بھال کے علاوہ کوڑا کرکٹ کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانا، سڑکوں کی صفائی، گلی محلوں کی فرش بندی، نالیوں کی تعمیر جیسے کام بلدیاتی ادارے ہی انجام دیتے ہیں۔سینیٹرز،ایم این ایز اور ایم پی ایز کے پاس ان کاموں کے لئے وقت ہوتا ہے نہ ہی وسائل ہوتے ہیں۔مقامی حکومتوں کو وسائل مہیا کرنا صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ سالانہ بجٹ میں خاطر خواہ فنڈ مختص کرنے کے ساتھ اگر حکومت منتخب اگرایم این ایز اور ایم پی ایز کا صوابدیدی فنڈ مقامی حکومت کی طرف منتقل کرے تو ان اداروں کے قیام کے ثمرات عوام تک پہنچ سکتے ہیں۔

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
59518

ہندوکُش کے دامن سے چرواہے کی صدا ۔ چترال میں بلدیاتی انتخابات کا آغاز ۔ عبدالباقی چترالی

ہندوکُش کے دامن سے چرواہے کی صدا ۔ چترال میں بلدیاتی انتخابات کا آغاز ۔ عبدالباقی چترالی

چترال میں بلدیاتی انتخابات کا آغاز ہوگیا ہے۔لوئر اور اپر چترال میں سیاسی جماعتیں تحصیل کونسل اور ویلج کونسلوں کے لیے امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرادئیے۔ تحصیل کونسلوں اور ویلج کونسلوں میں بڑی تعداد میں آزاد امیدوار بھی حصہ لے رہے ہیں۔ گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں مذہبی جماعتوں نے اتحاد کرکے بلدیاتی انتخابات جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ موجودہ بلدیاتی انتخابات میں مذہبی جماعتیں اتحاد قائم کرنے میں بُری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ موجودہ حالات میں مذہبی جماعتوں کے لیے اتحاد کے بغیر کامیابی ممکن دیکھائی نہیں دے رہی ہے۔ مذہبی جماعتوں کے نمائندوں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے بلدیاتی انتخابات میں مذہبی جماعتوں کے امیدواروں کے لیے مشکلات پیش آرہے ہیں۔ ایم این اے اور ایم پی اے کی ناقص کارکردگی کا خمیازہ مذہبی جماعتوں کو بھگتنا پڑے گا۔موجودہ ایم پے اے چترال کی سیاسی تاریخ میں ناکام ترین ایم پی اے ثابت ہوئے ہیں۔

موجودہ ایم پی اے کی ناتجربہ کاری، نااہلی اور اقرباء پروری کی وجہ سے جے یو آئی کی قیادت، کارکنان اور ووٹر سب شرمندہ ہیں۔اپر چترال میں جے یو آئی کی طرف سے تحصیل موڑکھو کے چئیرمین کے لیے پارٹی کے نائب امیر جناب مولانا فتح الباری صاحب کو پارٹی ٹکٹ دیا گیا ہے۔ مولانا فتح الباری عرصہ دراز سے لوئر چترال کے علاقہ سنگور میں مستقل رہائش پذیر ہیں۔ ضلع سے بارہ رہائش پذیر شخص کو پارٹی ٹکٹ دینے پر جے یو آئی کے کارکنوں اور ووٹروں میں شدید ناراضگی اور مایوسی پھیلی ہوئی ہے اور پارٹی کے اندر اختلافات پیدا ہوئے ہیں۔ اس کا واضح ثبوت مولانا خادم الرحمن کا وائرل شدہ ویڈیو ہے۔ اس ویڈیو میں مولانا خادم الرحمن صاحب آنسو بہا کر پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے ضلع سے باہر رہنے والے شخص کو پارٹی ٹکٹ دینے پر شدید احتجاج کرتا ہوا دیکھائی دے رہے ہیں۔ 2013 کے قومی انتخابات میں بھی جے یو آئی کی پارٹی قیادت نے زمینی حقائق اور ضلعی عہدیداروں کے مشوروں کو نظرانداز کرکے اسلام آباد میں رہائش پذیر شخص کو ٹکٹ دیا تھا۔

اس غلط فیصلے کی وجہ سے پارٹی میں شدید اختلافات پیدا ہوئے تھے جس کی وجہ سے صوبائی کا امیدوار بری طرح ناکام ہوکر تیسرے پوزیشن پر آئے تھے۔ مولانا فتح الباری صاحب ضلع سے باہر رہائش پذیر ہونے کی وجہ اپر چترال کے عوامی مسائل سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں اور عوام کے مزاج سے بھی ناآشنا ہیں۔ ان وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے جے یو آئی کے امیدوار کی کامیابی ممکن دیکھائی نہیں دے رہا ہے۔ اپر چترال میں تحصیل کونسل موڑکھو کے لیے جماعت اسلامی کے امیدوار مولانا جاوید حسین صاحب ہیں جوکہ جماعت اسلامی اپر چترال کے امیر بھی ہیں۔اگرچہ اپر چترال میں جماعت اسلامی کا ووٹ بنک نہ ہونے کے برابر ہے لیکن مولانا جاوید حسین صاحب اس سے پہلے ڈسٹرکٹ ممبر رہ چکا ہے۔ نوجوان ہردلعزیز شخصیت کا مالک ہے۔ جاوید حسین اپنے ذاتی تعلقات اور اثر و رسوخ کی وجہ سے تحصیل کونسل موڑکھو کے لیے مضبوط امیدوار خیال کیا جاتا ہے۔

برادری کا بھرپور تعاون بھی اسے حاصل ہے۔ 2015 میں موڑکھو میں جو تباہ کُن سیلاب آیا تھااُس وقت مولانا جاوید حسین بطور ڈسٹرکٹ ممبر سیلاب زدگان کی بھرپور خدمت انجام دیا تھا جس کی وجہ سے موڑکھو کے عوام میں اس کے لیے ہمدردی پائی جاتی ہے۔ تحصیل کونسل کی سیٹ جیتنے کا امکان موجود ہے۔ حکمران پارٹی پی ٹی آئی کا نامزد امیدوار جمشید صاحب کا تعلق تورکھو سے ہے۔ وہ پہلی بار کسی عوامی عہدے کے لیے منظر عام پر آئے ہیں۔نوجوان سماجی کارکن ہے، عوامی مسائل حل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ حکمران پارٹی میں ہونے کی وجہ سے ووٹروں کو اپنی جانب راغب کرسکتے ہیں۔ لیکن پی ٹی آئی کی آٹھ سالہ دورِ حکومت میں اپر چترال کو مسلسل نظر انداز کردیا گیا ہے۔ اس کا واضح ثبوت چارسالوں تک وزیر اعلیٰ کا اپر چترال کا دورہ نہ کرنا ہے۔ اپر چترال کو ضلع کا درجہ دے کر اس کے لیے کوئی ترقیاتی فنڈ جاری نہیں کیے گئے ہیں اور نہ ہی ان چار سالوں میں ضلعی دفاتر کا قیام عمل میں آیا ہے۔پی ٹی آئی کی حکومت میں بدترین مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے حکومت کے خلاف عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔اس وجہ سے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے تحصیل کونسل موڑکھو کے لیے مستنصر الدین صاحب کو نامزد کیا گیا ہے۔وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ با شعور نوجوان ہیں اور اپنے علاقے کی تعمیر و ترقی کے لیے ہر وقت کوشاں رہتے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی یتیم ہو چکی ہے۔ پیپلز پارٹی کے امیدوار تحصیل کونسل کے صرف ایک سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوا ہے۔ موڑکھو میں مذہبی جماعتوں کا اثر و نفوذ زیادہ ہونے کی وجہ پیپلز پارٹی کے امیدوار کی کامیابی مشکل نظر آرہی ہے۔


تحصیل مستوج میں مذہبی جماعتوں نے تحصیل کونسل کے لیے اپنے امیدوار کھڑے نہیں کیے ہیں۔ جے یو آئی نے مسلم لیگ نون کے ساتھ اتحاد کیا ہے۔ مسلم لیگ نون اور جے یو آئی کا اتحاد کیا رنگ لائے گا؟ اور اس کا انجام کیا ہوگا؟ یہ آنے والے وقت میں معلوم ہوجائے گا۔تحصیل مستوج میں تحصیل کونسل کے لیے پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ نون کے امیدواروں کے درمیان مقابلے کا امکان ہے۔ بیار تحصیل کونسل میں پیپلز پارٹی کا پلہ بھاری دیکھائی دے رہا ہے۔حکمران جماعت پی ٹی آئی کے امیدواروں کو لوئر اور اپر چترال میں عوام کی طرف سے سخت ردعمل کا سامنا کرنے کا امکان ہے کیونکہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت گزشتہ آٹھ سالوں سے چترالی عوام کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کر رہی ہے۔ خاص کر لوئر چترال میں مسلم لیگ نون کے اقتدار میں منظور شدہ گیس پلانٹس منصوبے کو ختم کرکے چترالی عوام کے ساتھ ظلم و زیادتی کی ہے۔اس وجہ سے چترالی عوام میں پی ٹی آئی حکومت کے خلاف سخت ناراضگی پائی جاتی ہے اور پی ٹی آئی کا بلدیاتی انتخابات میں پشاور جیسا حشر ہونے کا قوی امکان ہے۔تحصیل مستوج میں مسلم لیگ نون کی طرف سے تحصیل کونسل کا امیدوار پرویز لال معروف سماجی کارکن ہیں۔ تحریک حقوق اپر چترال کے پلیٹ فارم سے اپر چترال کے مسائل حل کرنے کے لیے کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ پرویز لال حال ہی میں مسلم لیگ نون میں شامل ہوکر تحصیل کونسل کا ٹکٹ حاصل کیا ہے اور انھیں برادری کا تعاون بھی حاصل ہے۔مگر مسلم لیگ نون کی پارٹی اپر چترال میں فعال اور منظم نہ ہونے کی وجہ سے انتخابی مہم کے دوران مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

۱۲ فروری ۲۲۰۲

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
58742

بلدیاتی انتخابات؛ چترال میں جمعیت علماء اسلام اور مسلم لیگ ن کا اتحاد، دروش اور مستوج کی تحصیلیں مسلم لیگ کو ملیں گی

چترال(چترال ٹایمزرپورٹ) بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے سلسلے میں چترال کے دونوں اضلاع میں جمعیت علماء اسلام اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے درمیان انتخابی اتحاد عمل میں آگیا ہے۔ اس حوالے سے دونوں جماعتوں کے ذرائع نے اعلان کیا ہے کہ پی ڈی ایم میں موجود جمعیت علماء اسلام اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے چترال کے دونوں اضلاع کی سطح پر انتخابی اتحاد کر لیا ہے جس کی رو سے ضلع لوئر چترال میں تحصیل چترال کی نشست جمعیت علماء اسلام کو ملی اور جے یو آئی کے ضلعی امیر مولانا عبدالرحمن امیدوار ہونگے جبکہ تحصیل دروش کی نشست پاکستان مسلم لیگ (ن) کو ملی اور یہاں سے امیدوار کا اعلان پی ایم ایل این کریگی۔ ضلع اپر چترال میں تحصیل تورکہو موڑکہو کی نشست جے یو آئی کے حصے میں جبکہ تحصیل مستوج کی نشست مسلم لیگ کے حصے میں آگئی ہے۔
اس حوالے سے میڈیا سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے جمعیت علماء اسلام ضلع چترال کے سیکرٹری اطلاعات قاضی محمد نسیم نے انتخابی اتحاد کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ دونوں جماعتوں کی باہمی مشاورت سے یہ اتحاد طے پایا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں قاضی محمد نسیم نے کہا کہ انتخابی اتحاد سے قبل جمعیت علماء اسلام کے ضلع چترال لوئر اور اپر دونوں کے چاروں تحصیلوں کے لئے امیدواروں کا اعلان کیا تھا جن میں اپر چترال کے تحصیل تورکہو موڑکہو کے لئے مولانا فتح الباری، تحصیل مستوج کے لئے شہزاد خان جبکہ لوئر چترال میں تحصیل چترال کے لئے مولانا عبدالرحمن اور تحصیل دروش کے لئے شیر محمد جمعیت علماء اسلام کے امیدوار نامزد ہوئے ہیں تاہم اب اتحاد کا مرحلہ طے پانے کے بعد لوئر چترال میں تحصیل دروش اور اپر چترال میں تحصیل مستوج پاکستان مسلم لیگ کے حصے میں آئے ہیں اور ان دو تحصیلوں سے مسلم لیگ ن اپنے امیدواروں کا اعلان کریگی اور جے یو آئی یہاں سے دستبردار ہوگی۔
اسی حوالے سے جمعیت علماء اسلام کے ضلعی امیر مولانا عبدالرحمن کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے بھی پوسٹ کرکے انتخابی اتحاد اور سیٹوں کی تقسیم کی بابت اعلان کیا گیا ہے جبکہ ایسے ہی اعلانات مسلم لیگ کے ضلعی عہدیداروں کی طرف سے کئے گئے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged
58489

بلدیاتی انتخابات کا اعلان ہوتے ہی چترال میں کاغذات نامزدگی جمع کرنے اور فارم لینے کا سلسلہ شروع

بلدیاتی انتخابات کا اعلان ہوتے ہی چترال میں کاغذات نامزدگی جمع کرنے اور فارم لینے کا سلسلہ شروع

چترال ( نمایندہ چترال ٹایمز ) بلدیاتی انتخابات کا اعلان ہوتے ہی لویر اور اپر چترال میں انتخابی سرگرمیاں شروع ہوگی ہیں ۔لویرچترال میں ریٹرننگ آفیسرحفیظ اللہ کے آفس میں آج بلدیاتی انتخابات کے امیدواروں کا تانتا بندھا رہا۔آر او اور اے آر او نے بعض امیدواروں کی کاغذات نامزدگی کی غلطیوں کی موقع پر تصحیح بھی کرائی۔ 9 ویلیج کونسلز سے اس وقت تک کل 38 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔ پریس ریلیز کے مطابق زیادہ تر کاغذات نامزدگی کیلاش ویلیز سے موصول ہوئیں۔امیدواروں کو سکروٹنی کے لئے 21، 22 اور 23 فروری کی تاریخیں دی گئیں۔آج 27 مزید فارمز بھی جاری کئے گئے۔ امیدوار 18 فروری کے شام 5بجے سے پہلے تک نامزدگی فارم لے بھی سکتے ہیں اور جمع بھی کرسکتے ہیں۔ امیدواروں کے اطلاع کے لئے عرض ہے کہ الیکشن فارم کی فلنگ کی کوئی فیس مقرر نہیں ہے اسلئے وہ کسی کو پیسے دینے گریز کریں۔اسی طرح دیگر تحصیلوں میں بھی کاغذات نامزدگی جمع کرنے اور فارم لینے کا سلسلہ جاری رہا ۔

Aac lower chitral returning officer hafizullah2
Aac lower chitral returning officer hafizullah
Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged
58430

جو لوگ اپنے گھر میں بلدیاتی انتخابات نہیں جیت سکتے وہ حکومت گرانے کی باتیں کر رہے ہیں۔محمود خان

چترال (چترال ٹائمز رپورٹ) یونین کونسل ایون چترال کے علاقہ رمبور میں مختلف پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے درجنوں خاندان پاکستان تحریک انصاف شمولیت کا اعلان کیا‘پیر کے روز کیلاش وادی رمبور کے علاقہ شیخاندہ میں شمولیتی جلسے کا نعقاد کیا گیا‘جلسے میں پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنماء عبداللطیف اور تحصیل چترال کے میئر کے عہدے کیلئے پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار شہزادہ آمان الرحمان نے خصوصی طور پر شرکت کی‘ وادی کیلاش کے علاقہ شیخاندہ کے درجنوں خاندانوں کے افراد پاکستان پیپلز پارٹی‘ پاکستان مسلم لیگ‘ جماعت اسلامی سمیت دیگر جماعتوں سے مستعفی ہوکر پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوگئے‘تحریک انصاف میں شامل ہونے والے افراد کو عبداللطیف اور شہزادہ آمان الرحمان پی ٹی آئی کی ٹوپی اور مفلر پہنا کر پارٹی میں خوش آمدید کہا‘ اس موقع پر جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار شہزادہ آمان الرحمان نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات میں عوام اپنا قیمتی ووٹ ضائع کرنے کی بجائے پاکستان تحریک انصاف کے حق میں استعمال کریں‘ کیونکہ چترال کی ترقی کیلئے پاکستان تحریک انصاف کی کامیابی ضروری ہے‘صوبے اور مرکز میں پی تی ٓائی کی حکومت ہونے کی وجہ سے تحصیل میں بھی پی ٹی آئیہو تو ورکنگ ریلیشن کے باعث چترال کے مسائل حل ہونے میں آسانی ہوگی‘

اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنماء عبداللطیف نے کہا کہ چترال کی ہمیشہ بد قسمتی رہی ہے کہ ہم دیگر اقوام کے برعکس ووٹ دیتے ہیں‘ گزشتہ انتخابات میں جن لوگون کو عوام نے منتخب کیا وہ صرف تنخواہیں لینے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کرسکے‘ قوم کی کدمت نہ کرنے کا بوجھ اقلیتی ممبر وزیر زادہ کر رہے ہین‘ جن کی انتھک کوششوں کے باعث اپر اور لوئر چترال میں کروڑوں کے چھوٹے منصوبوں پر کام شروع کردیا گیا‘ جبکہ چترال‘ بونی اور شندور روڈ کی تعمیر کی علاوہ ایون بموریت روڈ پر عنقرب کام کا آغاز ہوگا‘جس پر اربوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں انہوں نے کہا کہ گنگل بٹ اور تڑک درہ کیلئے سیاحتی روڈ کی منطوری ہوگئی ہے جس پر 18 کروڑ کی لاگت آئے گی اس کے علاوہ شیخاندہ میں مڈل اسکول کی منطور ی بھی دی گئی ہے‘انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ ووٹ اپنے علاقے کے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے دیں ناکہ مذہب اور مسلکی بنیادوں پر ووٹ کا استعمال کریں‘ انہوں نے کہا‘ اب بھی قوم کے پاس ایک موقع آیا ہے کہ اپنے علاقوے کی ترقی کیلئے اپنے ووٹون کو ضائع نہ کریں‘قبل ازیں علاقے کے عوام نے مہمانوں کو گھوڑوں پر سوار کر کے جلسہ گاہ لاتے ہوئے ان کا شاندار استقبال کیا۔ یکسرمسترد کردیا ہے اور اب پی ٹی آئی ہی عوام کی اُمیدوں کا واحد مرکز ہے۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
58410

خیبر پختونخواہ میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ موخر کرنے کا حکم معطل

اسلام آباد(سی ایم لنکس)سپریم کورٹ نے خیبر پختونخواہ میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ موخر کرنے کا پشاور ہائیکورٹ کا حکم معطل کردیا۔جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے کے پی میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ موخر کرنے کے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے۔الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ ایبٹ آباد بنچ نے الیکشن کمیشن کو سنے بغیر بلدیاتی انتخابات کا شیڈول موخر کر دیا، یکم فروری کی سماعت کا نوٹس دو فروری کو موصول ہوا، جو ملنے تک ہائیکورٹ بلدیاتی انتخابات موخر کر چکی تھی، ہائی کورٹ میں پانچ اضلاع کا الیکشن موخر کرنے کی درخواست دائر کی گئی تھی جس پر 18 اضلاع کا الیکشن موخر کر دیا گیا۔شکایت کنندگان کے وکیل نے کہا کہ موسمی حالات کے پیش نظر 27 مارچ کو انتخابات نہیں ہو سکتے۔جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ ہائیکورٹ کو فیصلے سے پہلے الیکشن کمیشن کا موقف سننا چاہیے تھا، اس بات کی تصدیق نہیں ہوئی کہ کے پی میں موسمی حالات الیکشن میں رکاوٹ ڈال سکتے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ محکمہ موسمیات کی رپورٹ کو الیکشن کمیشن نے دیکھنا تھا عدالت نے نہیں، ہائیکورٹ کو فیصلہ دینے کی اتنی جلدی کیا تھی؟عدالت نے کیسں کی سماعت پیر 14 فروری تک ملتوی کردی۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
58229

چترال میں بلدیاتی انتخابات موخر کرنے کیلئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سامنے مظاہرہ

چترال میں بلدیاتی انتخابات موخر کرنے کیلئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سامنے مظاہرہ

چترال ( نمائندہ چترال ٹائمز ) چترال کی سول سو سائٹی کےنمایندگان اورپاکستان تحریک انصاف کے رہنماوں عبد الطیف ، اسرار صبور ، حاجی فرید ، تقدیرہ خان رضا خیل ، محمد حسین، زاہدہ شاہ سنگین اور بڑی تعداد میں پارٹی ورکرز نے ہفتے کے روز اسلام آباد میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے۔ کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعلان کردہ شیڈول کے مطابق 4 فروری سے 27 مارچ تک بلدیاتی انتخابات کے دوران چترال کے موسمی حالات اجازت نہیں دیتے ۔ اور ان مہینوں میں بارشوں ، برفباری ، لینڈ سلائیڈنگ اور برف کے تودے گرنے کے شدید خطرات ہیں ۔ اور الیکشن کا انعقاد صحیح معنوں میں انجام پانا ممکن نہیں ہے ۔ خصوصا دشوار گزار وادیوں میں عمر رسیدہ بزرگ افراد اور خواتین کا پولنگ کیلئے گھروں سے نکلنا بہت ہی مشکل ہے ۔ ایسے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان چترال کے سخت موسمی حالات کےتناظر میں بلدیاتی الیکشن کو ماہ رمضان کے بعد تک ملتوی کرنے کے احکامات صادر کرے ۔ اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عبد الطیف نے اسلام آباد سے فون پر بات کرتے ہوئےمقامی میڈیا کو بتایا ۔ کہ بلدیاتی الیکشن ملتوی کرنے کے حوالے سے ایک پٹیشن فائل کی گئی ہے ۔ جس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان سے استدعا کی گئی ہے ۔ کہ انتہائی سخت موسمی حالات کی وجہ سے مارچ میں انتخابات ممکن نہیں ۔ لہذا تاریخ ملتوی کی جائے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ چونکہ وقت بہت محدود تھا ۔ اس لئے ہمیں یہ قدم عجلت میں اٹھانا پڑا ۔ گو کہ میں نے اس سلسلے میں پاکستان پیپلز پارٹی کی ضلعی قیادت اور جماعت اسلامی چترال سے رابطے کئے تھے ۔ لیکن انتظار کے باوجود ان کی طرف سےکوئی رسپانس نہیں آیا ۔ اس لئے یہ قدم اٹھانے پر ہم مجبورہوئے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ یہ پاکستان تحریک انصاف کا نہیں بلکہ چترال کے سول سوسائٹی کا مطالبہ تھا ۔کہ الیکشن ملتوی کئے جائیں ۔ اور یہ صرف چترال کا نہیں ۔ بلکہ دیر اپر دیر لوئر اور سوات وغیرہ میں بھی الیکشن ملتوی کرنے کی آوازیں سنی جارہی ہیں ۔ اور اس کی بنیادی وجہ سخت موسم ہے ۔

اس حوالے سے قیم جماعت اسلامی چترال وجیہہ الدین نےکہا ۔ کہ جماعت اسلامی کا شروع دن سے یہ موقف رہا ہے ۔ کہ بلدیاتی انتخابات مقررہ تاریخ پر 27مارچ کو ہی منعقد کئے جانے چائیں ۔ یہ الیکشن کیلئے بالکل موزون وقت ہے ۔ اور ہم اس کی مکمل تیاری کر چکے ہیں ۔

پاکستان پیپلز پارٹی کا موقف بھی جماعت اسلامی سے کوئی زیادہ مختلف نہیں ہے ۔ اس سلسلے میں ضلعی صدر انجینئر فضل ربی جان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے اس امر کا اظہار کیا ۔ کہ پاکستان پیپلز پارٹی بلدیاتی الیکشن کو ملاکنڈ ڈویژن کی سطح پر دیکھتی ہے ۔ اور ملاکنڈ میں پارٹی الیکشن کیلئے تیار ہے ۔ ایسے میں اگر ہم چترال میں الیکشن کے التوا کی بات کریں ۔ تو سیاسی طور پر یہ نامناسب ہے ۔ اور ہماری بات بھی نہیں سنی جائے گی ۔ صرف چترال کی بات کرنے سے موقف بہت کمزور ہوگا ۔ انہوں نے کہا ۔ میری ذاتی رائے میں مارچ کی بجائے ماہ رمضان کے بعد الیکشن کرنا بہتر ہے ۔ لیکن یہ پارٹی کا موقف نہیں ہے ۔ اور ہمیں پارٹی کے موقف کو ہر صورت فالو کرنا ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ رہنما پی ٹی آئی عبدالطیف نے ان سے اس حوالے سے بات کی تھی ۔ لیکن پارٹی کے موقف پر عمل کرنا میرے لئے لازمی ہے۔

جمیعت العلماء اسلام چترال کے ترجمان قاری نسیم نے جماعت کی حتمی رائے سےضلعی کابینہ کی مشاورت کے بعد ہی آگاہ کرنے کا اظہار کیا ۔ تاہم انہوں نے کہا ۔ کہ ہماری پارٹی کا موقف بھی طے شدہ شیڈول کے مطابق بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی حمایت میں رہا ہے ۔ لیکن جماعت کی کابینہ کی رائے حتمی ہوگی ۔

chitraltimes protest at election commission islamabad
chitraltimes protest at election commission islamabad2
chitraltimes protest at election commission islamabad by chitralis
Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged
57627

خیبر پختونخوا میں دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات 27 مارچ کورکھاجائے۔ چیف الیکشن کمشنر

پشاور(چترال ٹائمز رپورٹ)خیبرپختونخوا حکومت چاہتی ہے کہ بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ مئی میں ہو، جب کہ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت نے خود کہا تھا کہ رمضان سے قبل ہی دوسرا مرحلہ ہوگا۔ مرتضی جاوید عباسی کی درخواست پر الیکشن کمیشن میں چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی، چیف سیکریٹری خیبر پختونخوا الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہوئے۔چیف الیکشن کمشنرخیبر پختوانخوا میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ 27 مارچ کو ہو گا۔ جس پر چیف سیکریٹری خیبر پختونخوا نے جواب دیا کہ خیبر پختوانخوا صوبائی کابینہ نے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کی تاریخ دسمبر اور دوسرے مرحلے کی مئی میں کہی تھی۔چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ خیبر پختوانخوا حکومت نے کہا تھا کہ دو مرحلوں میں الیکشن کرائیں گے، اور کہا تھا بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ دسمبر دوسرا مارچ میں ہوگا، صوبائی حکومت نے مانا تھا کہ بلدیاتی انتخابات مارچ میں رمضان سے قبل ہوں گے،

چیف سیکریٹری خیبر پختوانخوا نے الیکشن کمیشن سے کہا کہ پھر آپ خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات مارچ کے اختتام پر رکھ لیں۔ چیف الیکشن کمشنر نے ریمارکس دیئے کہ رمضان کے بعد الیکشن ہونے سے بہت آگے چلے جائیں گے، رمضان 3 یا چار اپریل سے شروع ہو گا، اس سے قبل مارچ کا آخری اتوار 27 مارچ کو رکھ لیں۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
56743

خیبرپختونخوا بلدیاتی انتخابات: الیکشن کمیشن نے دوسرے مرحلے کا شیڈول روک دیا

Posted on

اسلام آباد(چترال ٹائمز رپورٹ) الیکشن کمیشن نے دوسرے مرحلے کا شیڈول تاحکم ثانی جاری کرنے سے روک دیا۔خیبرپختونخوا بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ تاخیر سے شروع ہونے کا امکان ہے۔ موسم کی صورتحال کے باعث بلدیاتی انتخابات مارچ یا اپریل میں کرانے پر مشاورت شروع کر دی ہے۔ الیکشن کمیشن حکام کے مطابق جنوری اور فروری میں بیشتر اضلاع میں شدید برف باری کا امکان ہے۔

ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن حکام نے دوسرے مرحلہ کا شیڈول تاخیر سے جاری کرنے کی تجویز دی۔ الیکشن کمیشن کو ن لیگ سمیت متعدد جماعتوں نے دوسرے مرحلہ کا انتخاب تاخیر سے کرانے کی درخواست دی تھی۔ الیکشن کمیشن جلد کے پی کے بلدیاتی انتخاب کے دوسرے مرحلہ پر جلد فیصلہ کریگا۔خیال رہے الیکشن کمیشن نے نومبر میں دوسرے مرحلے کا انعقاد 16 جنوری کو کرانے کا اعلان کیا تھا۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
56579

بلدیاتی انتخابات اور جمعیت علمائے اسلام کی برتری – تحریر :محمد نفیس دانش

ہر طرف خیبر پختونخوا کے بلدیاتی الیکشن کے چرچے ہیں , پاکستان میں آج تک کا ریکارڈ ہم نے یہی دیکھا ہے کہ صوبائی حکومت بلدیاتی انتخابات کرواتی ہے اور صوبائی حکومت ہی بلدیاتی انتخابات میں جیت جاتی ہے , 2005 میں سندھ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں پیپلزپارٹی صرف دو اضلاع میں ضلعی ناظم بنانے میں کامیاب ہوئی تھی ایک ضلع جامشورو اور دوسرا ضلع نوابشاہ , باقی سندھ بھر میں مشرف کی ق لیگ نے جھاڑو پھیر دی تھی , یعنی صوبائی گورنمنٹ بلدیاتی انتخابات جیت جاتی ہے یہی روایت رہی تھی , لیکن گذشتہ دنوں خیبرپختونخوا میں تاریخ بدل گئی , 64 تحصیلوں اور سٹی کے پہلے مرحلے میں انتخابات ہوئے , 55 کے نتائج آگئے , 9 کے نتائج 24 دسمبر تک آئیں گے , لیکن 2018 میں خیبر پختونخوا میں کلین سوئیپ کرنے والی تحریک انصاف اب تک 64 میں سے صرف 13 تحصیل یا سٹی جیت سکی ہے ,

یہ حقیقت میں شرمناک رزلٹ ہے , جس کے بعد یقیناً فیصلہ ساز بھی 2023 کے عام انتخابات کے حوالے سے ضرور سوچیں گے , میں نے گذشتہ کالموں میں ذکر کیا تھا کہ 2023 میں ن لیگ آئے گی , اب یہ رائے مزید مضبوط ہوگئی ہے کیونکہ ن لیگ کی سینئر قیادت نے بطور وزیراعظم میاں شہباز شریف کا نام لینا شروع کر دیا ہے , مریم نواز کے نام کی ضد سے نقصان ہو سکتا تھا اور سیاست اسی چیز کا نام ہے کہ کبھی دو قدم پیچھے ہٹ کر بھی راستے بنائے جاتے ہیں , ن لیگ اور بالخصوص میاں شہباز شریف راستے بنانے کے ماہر ہیں , اس لئے ایک بار نہیں کئی بار وہ اپنی پارٹی کو بحرانوں سے نکالنے میں کامیاب رہے ہیں , خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں جمعیت کی شاندار کامیابی یقننا اس اعتبار سے خوش آیند ہے کہ تمام تر حربوں اور پروپیگنڈوں کے باوجود دینی ووٹ بینک آج بھی موجود ہے , اس کے ساتھ جمعیت کے کارکنان کا امیر کی اطاعت کا جذبہ بھی ان کی 20 سیٹوں پر کامیابی کا سبب بنا کیونکہ جمعیت کے کارکنان مولانا فضل الرحمن صاحب کے ہر درست اور غلط فیصلے کو من و عن قبول کرتے ہیں.

دراصل جمعیت علمائے اسلام اسی جمعیت علمائے ہند کی وارث ہے دارالعلوم دیوبند سے اٹھنے والی تحریک احیا نے اپنی سرگرمیوں کو تین دائروں میں منظم کر دیا تھا:1:علمی سرمائے کے تحفظ کے لئے مدارس. 2:دعوت و تبلیغ کے لیے تبلیغی جماعت. 3:اور سیاست کے لیے جمعیت علمائے ہند. مولانا فضل الرحمن صاحب جس جمعیت علمائے اسلام کے رہنما ہیں وہ اسی روایت کے امین ہیں. تحریک انصاف کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ان میں ماننے والا مادہ نہیں چنانچہ تحریک انصاف کے ایک صوبائی وزیر کہہ رپے تھے کہ ہماری پارٹی میں امیر کی اطاعت کا کلچر نہیں ہے , کارکنان کو جو بات اچھی نہ لگے وہ کسی کی بھی نہیں مانتے , بالخصوص نچلی سطح پر تو تحریک انصاف کے کارکنان ایک دوسرے کی عیب جوئی میں ہی لگے رہتے ہیں , جس کی وجہ سے حکومت میں ہونے کے باوجود تحریک انصاف ایک منظم جماعت نہیں بن پائی ہے , تحریک انصاف میں جس کے ساتھ 10 بندے ہیں وہ الگ سے لیڈر ہے ,

یہی وجہ بنی کہ ہر خودساختہ لیڈر پارٹی ڈسپلین کو توڑ کر خود امیدوار بن گیا , اپنی ہی پارٹی کے مقابل الیکشن لڑا , تصویر عمران خان کی لگائی , سو نتیجہ بھی سب نے دیکھ لیا , یاد رکھیں پارٹی ڈسپلین یعنی نظم و ضبط پر کبھی کمپرومائز نہ کریں , پارٹی کے مقابل الیکشن لڑنا یا پارٹی کے مقابلے میں آکر جلسے کرنا یہ جماعت کی بنیادیں ہلانے والی باتیں ہیں , ایسے لوگ جتنی مرضی مخلصی کے دعوے کریں حقیقت میں وہ جماعت کو نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں , خیبر پختونخوا کا بلدیاتی الیکشن تحریک انصاف کے لئے ڈراؤنا خواب ثابت ہوا ہے اس کے بعد ممکنہ طور پر تحریک انصاف کے خلاف ہوائیں چلیں گی اور لوگ اب اس کشتی سے اترنا شروع ہوں گے , خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات جماعت اسلامی کے لئے بھی دھچکا ثابت ہوئے ہیں ,

جماعت اسلامی نے گذشتہ 3 سالوں میں جو عجیب و غریب سیاست کی اور دو ٹوک فیصلوں سے دور رہی اس کا نقصان جماعت اسلامی نے اٹھایا اور صرف دو سیٹوں پر ہی کامیاب ہو سکی , اس سے پہلے جماعت اسلامی کے احباب تحریک انصاف کی اتنی تعریف کرتے تھے کہ جماعت اسلامی کا اکثریتی ووٹر تحریک انصاف میں منتقل ہو گیا.اس صورتحال میں مسلم لیگ ن نے بھی تیاریوں کا آغاز کر دیا ہے۔ترجمان مسلم لیگ ن عظمی بخاری نے بیان دیا ہے کہ ’جس طرح کے پی کے میں جے یو آئی نے پی ٹی آئی کو شکست دی اسی طرح پنجاب میں مسلم لیگ ن انہیں ہرانے کی تیاری کر چکی ہے۔ تبدیلی جس طرح آئی تھی اسی طرح روانہ ہوجائے گی۔‘واضح رہے کہ سابقہ دور حکومت میں پنجاب کے بلدیاتی انتخابات میں بھی مسلم لیگ ن کے امیدواروں نے اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی اور لاہور سمیت بیشتر شہروں میں ن لیگ کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔اور ابھی بھی صورتحال کچھ یہی نظر آ رہی ہے. 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
56541

خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوں گے،سپریم کورٹ

اسلام آباد( چترال ٹائمز رپورٹ) بلدیاتی انتخابات کے الیکشن شیڈیول میں تبدیلی کیلئے خیبر پختونخوا حکومت کی درخواست مسترد کردی۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوں گے۔بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر کرانے کے ہائیکورٹ کے حکم کیخلاف خیبرپختونخوا حکومت کی اپیل پر سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کی۔ سپریم کورٹ نے الیکشن شیڈول میں تبدیلی کیلئے صوبائی حکومت کی درخواست مسترد کردی۔سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوں گے۔ الیکشن کمیشن پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کیلئے تمام اقدامات کر چکا ہے۔ بلدیاتی الیکشن شیڈیول جاری کرنے میں پہلے ہی دو سال تاخیر ہوچکی ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا نے عدالت کو بتایا کہ صرف الیکشن نہیں صحیح معنوں میں نمائندگی کی ضرورت ہے۔ جسٹس عمرعطا بندیال نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جماعتی بنیادوں پر الیکشن سے برادریوں میں ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہے۔ ملک میں جمہوریت کو تقویت دینے کیلئے سیاسی جماعتوں کو مضبوط کرنا ضروری ہے۔ سیاسی جماعتوں کو سیاسی عمل سے نہیں نکالا جاسکتا۔جسٹس منصور علی شاہ بولے کوئی بھی سیاسی جماعت عدالت میں نہیں آئی۔ سیاسی جماعتوں کو آکر کہنا چاہیئے کہ ہائیکورٹ کے فیصلے سے نقصان ہورہا ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے عدالت کو بتایا کہ ہائیکورٹ کے حکم کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں اگر عدالت حکم امتناع نہیں دیتی تو الیکشن کی تاریخ بدلنے کی اجازت دے۔ جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ تاریخ تبدیل کرنے کے ہم سخت مخالف ہیں۔ کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی گئی۔

برطرفی کے 10 سال بعد سول جج عہدے پر بحال


لاہور(سی ایم لنکس)لاہور ہائیکورٹ نے کرپشن و نااہلی کے الزامات ثابت ہونے پر ایک سول جج کو عہدے سے فارغ کر دیا جبکہ برطرفی کے 10 سال پورے ہونے پر ایک سول جج کو بحال کر دیا۔لاہور ہائیکورٹ نے سول جج شرافت علی ناصر کو نوکری سے فارغ کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔ نوٹیفکیشن کے مطابق سول جج شرافت علی ناصر کیخلاف 2014ء کی کرپشن کی شکایت پر الزامات ثابت ہوئے۔شرافت علی ناصر کو قانون کے مطابق وضاحت و دفاع کے تمام مواقع فراہم کئے گئے جس میں وہ اپنا دفاع نہ کر سکے۔ایک اور نوٹیفکیشن کے ذریعے برطرفی کے دس سال بعد سول جج محمد خالد کو عہدے پر بحال کر دیا گیا۔ انہیں 2011 میں عہدے سے برطرف کیا گیا تھا۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
55522

کے پی میں بلدیاتی انتخابات; الیکشن کمیشن کی ہدایات جاری

اسلام آباد(سی ایم لنکس) الیکشن کمیشن نے صوبی خیبر پختونخوا کے انتخابی عمل کیلئے ہدایات جاری کردیں، خلاف ورزی پر متعلقہ شخص کیخلاف سخت کارروائی کا عندیہ دیا ہے۔اس حوالے سے ذرائع نے بتایا ہے کہ ہدایات کے مطابق پولنگ اسٹیشن کے اندر موبائل فون یا تصویر بنانے والے آلات پر پابندی ہوگی، الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی پر تادیبی کارروائی کی جائے گی اور ووٹنگ کے عمل پر کسی کو اثر انداز نہیں ہونے دیا جائے گا۔مردوں اور خواتین کی آمد کیلئے پولنگ اسٹیشن پر الگ الگ راستے بنائے جائیں، پریذائیڈ نگ افسر تمام اانتظامات کی نگرانی خود کریں گے۔مشترکہ پولنگ اسٹیشن کی صورت میں فارم 17کی کالم میں ووٹوں کا لاگ اندراج کرنا ہوگا، کاؤنٹ فارمز کی کاپیاں پولنگ اسٹیشن پر موجود ایجنٹس کو فراہم کرنا ہونگی۔امیدواروں اور ایجنٹس کے دستخط بھی لینے ہونگے، دونوں فارمز پر سینئر ایپی او کیدستخط کروانے ہونگے، یہ دونوں فارم مکمل کرکے آر او کو جلد از جلد پہنچانا ضروری ہوگا۔

تمام انتخابی سامان متعلقہ آراوز کو پہنچانا ضروری ہے، کورونا سے متعلق حفاظتی اقدامات کی ہدایت بھی کی گئی ہے، پولنگ افسر ووٹر کا اصلی شناختی کارڈ چیک کریں گے۔سیکیورٹی اہلکار پریذائنڈنگ افسر کے احکامات کے پابند ہونگے، انتخابی سامان کی نقل وعمل کیدوران سیکیورٹی اہلکاروں کی ذمہ داری ہوگی۔الیکشن ایجنٹ کو ووٹنگ کے عمل کا جائزہ لینے کا اختیار ہے، ریٹرننگ افسر کی جانب سے اجازت نامہ الیکشن ایجنٹ اپنے پاس رکھیں گے۔الیکشن ایجنٹ ذاتی سیکیورٹی گارڈ وغیرہ پولنگ اسٹیشن میں نہیں لاسکتے، پولنگ ایجنٹ کسی ووٹر سیبراہ راست سوال یا بات نہیں کرسکتے۔گنتی کے دوران صرف ایک پولنگ ایجنٹ مشاہدہ کرنے کا مجاز ہے، مبصرین ووٹنگ کے عمل کا مشاہدہ کرسکتے ہیں، مبصرین کے پاس اجازت نامہ ضروری ہے، پریذائیڈنگ افسر تھیلیکو ووٹنگ شروع ہونے سے پہلے نہیں کھول سکتا۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
54924

خیبر پختونخوا حکومت اسی سال نومبر میں مرحلہ وار بلدیاتی انتخابات کرائیں گی۔ کامران بنگش

خیبر پختونخوا حکومت کا لوکل کونسل ایکٹ 2013 بلدیاتی نظام کے لئے ایک گیم چینجر ثابت ہوا۔ کامران بنگش۔


پشاور (چترال ٹائمز رپورٹ) وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے معاون خصوصی برائے اطلاعات و اعلی تعلیم کامران بنگش نے کہا کہ حکومت خیبرپختونخوا اسی سال نومبر میں مرحلہ وار بلدیاتی انتخابات کروا کر اپنے ایک اور وعدے کو عملی جامہ پہنائے گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں یورپی یونین اور لوکل کونسل ایسوسی ایشن پنجاب کے تعاون سے بلدیاتی نظام اور انتخابات کے حوالے سے ایک قومی کانفرنس کے انعقاد کے موقع پر کیا۔ جس میں چاروں صوبوں کے لوکل کونسل ایسوسی ایشن کے ممبرز اور حکومتی و اپوزیشن جماعتوں کے ممبران اور و وفاقی و صوبائی وزرا ء نے شرکت کی۔

اس موقع پر پر وزیر اعلی کے معاون خصوصی برائے اطلاعات وتعلقات عامہ کامران بنگش نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد پی ٹی آئی حکومت کے ایجنڈے کا حصہ ہے اور وزیراعظم عمران خان کے نظریے اور سوچ کے مطابق خیبر پختونخوا حکومت نے بلدیاتی انتخابات اسی سال نومبر میں کرانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس طرح سے انشاء اللہ خیبرپختونخوا حکومت پاکستان میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں سبقت حاصل کر لے گی۔ اس موقع پر ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا حکومت کا لوکل کونسل ایکٹ 2013 بلدیاتی نظام کے لئے ایک گیم چینجر تھا جو کہ مشرف حکومت کی بلدیاتی نظام سے بھی بہتر تھا اور اب وقت کے تقاضے کے لحاظ سے اس میں مزید تبدیلیاں کی گئی ہیں۔

صوبائی حکومت نے بلدیاتی نظام کو مکمل طور پر با اختیار بنانے کے لیے قواعد وضع کر لیے ہیں۔ اس حوالے سے خیبر پختونخوا حکومت نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی مشاورت سے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لیے تمام تر ضروریات کو حتمی شکل دے دی ہیں اور ابھی بھی خیبر پختونخوا حکومت بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت اقتدار کی منتقلی کیلئے پرعزم ہیں اور اس نئے بلدیاتی نظام کا واحد مقصد عوام کی خدمت ان کی دہلیز پر کرنا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا حکومت نے بلدیاتی انتخابات مرحلہ وار کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پہلے مرحلے میں بلدیاتی انتخابات ویلج اور نیبرہوڈ کونسلوں میں ہونگے تحصیل اور ضلعی سطح پر انتخابات اگلے مرحلے میں ہونگے۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged , ,
52993