Chitral Times

ہندوکُش کے دامن سے چرواہے کی صدا ۔ چترال میں بلدیاتی انتخابات کا آغاز ۔ عبدالباقی چترالی

ہندوکُش کے دامن سے چرواہے کی صدا ۔ چترال میں بلدیاتی انتخابات کا آغاز ۔ عبدالباقی چترالی

چترال میں بلدیاتی انتخابات کا آغاز ہوگیا ہے۔لوئر اور اپر چترال میں سیاسی جماعتیں تحصیل کونسل اور ویلج کونسلوں کے لیے امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرادئیے۔ تحصیل کونسلوں اور ویلج کونسلوں میں بڑی تعداد میں آزاد امیدوار بھی حصہ لے رہے ہیں۔ گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں مذہبی جماعتوں نے اتحاد کرکے بلدیاتی انتخابات جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ موجودہ بلدیاتی انتخابات میں مذہبی جماعتیں اتحاد قائم کرنے میں بُری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ موجودہ حالات میں مذہبی جماعتوں کے لیے اتحاد کے بغیر کامیابی ممکن دیکھائی نہیں دے رہی ہے۔ مذہبی جماعتوں کے نمائندوں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے بلدیاتی انتخابات میں مذہبی جماعتوں کے امیدواروں کے لیے مشکلات پیش آرہے ہیں۔ ایم این اے اور ایم پی اے کی ناقص کارکردگی کا خمیازہ مذہبی جماعتوں کو بھگتنا پڑے گا۔موجودہ ایم پے اے چترال کی سیاسی تاریخ میں ناکام ترین ایم پی اے ثابت ہوئے ہیں۔

موجودہ ایم پی اے کی ناتجربہ کاری، نااہلی اور اقرباء پروری کی وجہ سے جے یو آئی کی قیادت، کارکنان اور ووٹر سب شرمندہ ہیں۔اپر چترال میں جے یو آئی کی طرف سے تحصیل موڑکھو کے چئیرمین کے لیے پارٹی کے نائب امیر جناب مولانا فتح الباری صاحب کو پارٹی ٹکٹ دیا گیا ہے۔ مولانا فتح الباری عرصہ دراز سے لوئر چترال کے علاقہ سنگور میں مستقل رہائش پذیر ہیں۔ ضلع سے بارہ رہائش پذیر شخص کو پارٹی ٹکٹ دینے پر جے یو آئی کے کارکنوں اور ووٹروں میں شدید ناراضگی اور مایوسی پھیلی ہوئی ہے اور پارٹی کے اندر اختلافات پیدا ہوئے ہیں۔ اس کا واضح ثبوت مولانا خادم الرحمن کا وائرل شدہ ویڈیو ہے۔ اس ویڈیو میں مولانا خادم الرحمن صاحب آنسو بہا کر پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے ضلع سے باہر رہنے والے شخص کو پارٹی ٹکٹ دینے پر شدید احتجاج کرتا ہوا دیکھائی دے رہے ہیں۔ 2013 کے قومی انتخابات میں بھی جے یو آئی کی پارٹی قیادت نے زمینی حقائق اور ضلعی عہدیداروں کے مشوروں کو نظرانداز کرکے اسلام آباد میں رہائش پذیر شخص کو ٹکٹ دیا تھا۔

اس غلط فیصلے کی وجہ سے پارٹی میں شدید اختلافات پیدا ہوئے تھے جس کی وجہ سے صوبائی کا امیدوار بری طرح ناکام ہوکر تیسرے پوزیشن پر آئے تھے۔ مولانا فتح الباری صاحب ضلع سے باہر رہائش پذیر ہونے کی وجہ اپر چترال کے عوامی مسائل سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں اور عوام کے مزاج سے بھی ناآشنا ہیں۔ ان وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے جے یو آئی کے امیدوار کی کامیابی ممکن دیکھائی نہیں دے رہا ہے۔ اپر چترال میں تحصیل کونسل موڑکھو کے لیے جماعت اسلامی کے امیدوار مولانا جاوید حسین صاحب ہیں جوکہ جماعت اسلامی اپر چترال کے امیر بھی ہیں۔اگرچہ اپر چترال میں جماعت اسلامی کا ووٹ بنک نہ ہونے کے برابر ہے لیکن مولانا جاوید حسین صاحب اس سے پہلے ڈسٹرکٹ ممبر رہ چکا ہے۔ نوجوان ہردلعزیز شخصیت کا مالک ہے۔ جاوید حسین اپنے ذاتی تعلقات اور اثر و رسوخ کی وجہ سے تحصیل کونسل موڑکھو کے لیے مضبوط امیدوار خیال کیا جاتا ہے۔

برادری کا بھرپور تعاون بھی اسے حاصل ہے۔ 2015 میں موڑکھو میں جو تباہ کُن سیلاب آیا تھااُس وقت مولانا جاوید حسین بطور ڈسٹرکٹ ممبر سیلاب زدگان کی بھرپور خدمت انجام دیا تھا جس کی وجہ سے موڑکھو کے عوام میں اس کے لیے ہمدردی پائی جاتی ہے۔ تحصیل کونسل کی سیٹ جیتنے کا امکان موجود ہے۔ حکمران پارٹی پی ٹی آئی کا نامزد امیدوار جمشید صاحب کا تعلق تورکھو سے ہے۔ وہ پہلی بار کسی عوامی عہدے کے لیے منظر عام پر آئے ہیں۔نوجوان سماجی کارکن ہے، عوامی مسائل حل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ حکمران پارٹی میں ہونے کی وجہ سے ووٹروں کو اپنی جانب راغب کرسکتے ہیں۔ لیکن پی ٹی آئی کی آٹھ سالہ دورِ حکومت میں اپر چترال کو مسلسل نظر انداز کردیا گیا ہے۔ اس کا واضح ثبوت چارسالوں تک وزیر اعلیٰ کا اپر چترال کا دورہ نہ کرنا ہے۔ اپر چترال کو ضلع کا درجہ دے کر اس کے لیے کوئی ترقیاتی فنڈ جاری نہیں کیے گئے ہیں اور نہ ہی ان چار سالوں میں ضلعی دفاتر کا قیام عمل میں آیا ہے۔پی ٹی آئی کی حکومت میں بدترین مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے حکومت کے خلاف عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔اس وجہ سے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے تحصیل کونسل موڑکھو کے لیے مستنصر الدین صاحب کو نامزد کیا گیا ہے۔وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ با شعور نوجوان ہیں اور اپنے علاقے کی تعمیر و ترقی کے لیے ہر وقت کوشاں رہتے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی یتیم ہو چکی ہے۔ پیپلز پارٹی کے امیدوار تحصیل کونسل کے صرف ایک سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوا ہے۔ موڑکھو میں مذہبی جماعتوں کا اثر و نفوذ زیادہ ہونے کی وجہ پیپلز پارٹی کے امیدوار کی کامیابی مشکل نظر آرہی ہے۔


تحصیل مستوج میں مذہبی جماعتوں نے تحصیل کونسل کے لیے اپنے امیدوار کھڑے نہیں کیے ہیں۔ جے یو آئی نے مسلم لیگ نون کے ساتھ اتحاد کیا ہے۔ مسلم لیگ نون اور جے یو آئی کا اتحاد کیا رنگ لائے گا؟ اور اس کا انجام کیا ہوگا؟ یہ آنے والے وقت میں معلوم ہوجائے گا۔تحصیل مستوج میں تحصیل کونسل کے لیے پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ نون کے امیدواروں کے درمیان مقابلے کا امکان ہے۔ بیار تحصیل کونسل میں پیپلز پارٹی کا پلہ بھاری دیکھائی دے رہا ہے۔حکمران جماعت پی ٹی آئی کے امیدواروں کو لوئر اور اپر چترال میں عوام کی طرف سے سخت ردعمل کا سامنا کرنے کا امکان ہے کیونکہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت گزشتہ آٹھ سالوں سے چترالی عوام کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کر رہی ہے۔ خاص کر لوئر چترال میں مسلم لیگ نون کے اقتدار میں منظور شدہ گیس پلانٹس منصوبے کو ختم کرکے چترالی عوام کے ساتھ ظلم و زیادتی کی ہے۔اس وجہ سے چترالی عوام میں پی ٹی آئی حکومت کے خلاف سخت ناراضگی پائی جاتی ہے اور پی ٹی آئی کا بلدیاتی انتخابات میں پشاور جیسا حشر ہونے کا قوی امکان ہے۔تحصیل مستوج میں مسلم لیگ نون کی طرف سے تحصیل کونسل کا امیدوار پرویز لال معروف سماجی کارکن ہیں۔ تحریک حقوق اپر چترال کے پلیٹ فارم سے اپر چترال کے مسائل حل کرنے کے لیے کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ پرویز لال حال ہی میں مسلم لیگ نون میں شامل ہوکر تحصیل کونسل کا ٹکٹ حاصل کیا ہے اور انھیں برادری کا تعاون بھی حاصل ہے۔مگر مسلم لیگ نون کی پارٹی اپر چترال میں فعال اور منظم نہ ہونے کی وجہ سے انتخابی مہم کے دوران مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

۱۲ فروری ۲۲۰۲

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
58742

ہندوکُش کے دامن سے چرواہے کی صدا -سیاسی جما عتوں کی کارکردگی – عبدالباقی چترالی

سیاسی جماعتوں کی کارکردگی) ہندوکُش کے دامن سے چرواہے کی صدا)



2008 کے انتخابات میں اے این پی و دیگر جماعتوں کی خیبر پختونخوا میں مخلوط حکومت قائم ہوگئی اور رامیر حیدر خان ہوتی پختونخوا کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔ اپر چترال سے غلام محمد صوبائی اسمبلی کی سیٹ جیت گئے۔ اس کا سیاسی تعلق پرویز مشرف کی پارٹی (ق) لیگ سے تھا۔ 2008 کے انتخابات میں اے این پی کا کوئی امیدوار چترال سے کامیاب نہیں ہوا تھا۔ اس کے باوجود اے این پی چترالی عوام کے لیے رحمت ثابت ہوئی۔ چترال کی ترقی کے لیے بڑے بڑے منصوبے شروع کیے گئے۔ ان بڑے منصوبوں میں چند یہ ہیں: بائی پاس روڈ چترال، یونیورسٹی کیمپس چترال، آبنوشی کا بڑا منصوبہ جس میں گولین گول سے لیکر چمرکھن تک پائپ لائن بچھائے گئے، ڑاوی بجلی گھر کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔


بائی پاس روڈ چترال کی تعمیر کے لیے سابق وزیر اعلیٰ شیر پاؤ نے افتتاحی بورڈ لگایا تھا لیکن فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے ناکام ہوئے۔ اس کے بعد ایم ایم اے کے دور اقتدار میں اکرم خان دورانی نے بھی اس سڑک کے لیے افتتاحی بورڈ لگائے لیکن ترقیاتی فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے بائی پاس روڈ تعمیر نہیں کر سکے تھے۔ اے این پی کے دور حکومت میں چترال کی ترقی کے لیے بھر پور کوشش کی گئی۔ ان کی حکومت میں اپر چترال میں کئی پن بجلی گھروں کے سروے مکمل کیے گئے۔ ان میں سے دو بجلی گھروں کی فزیبیلٹی بھی تیار کی گئی۔


اے این پی کی چترال سے اپنے دونوں سیٹ ہارنے کے باوجوداپر چترال میں ریکارڈ ترقیاتی کام کیے۔ خاص کر موڑکھو میں ان کا ووٹ بینک برائے نام ہونے کے باوجود موڑکھو کی ترقی کے لیے قابل قدر کام کیے۔ موڑکھو میں کیے گئے ان کے بڑے منصوبوں میں زنانہ ہائی سکول وریجون کو ہائرسیکنڈری کا درجہ دینا، مردانہ ہائی سکول وریجون میں امتحانی ہال کی تعمیر، سہت میں زنانہ مڈل سکول کا قیام، ایک کلومیٹر بلیک ٹاپ روڈشامل ہیں۔ علاوہ ازیں آر ایچ سی ہسپتال موڑکھو کا افتتاح بھی حاجی غلام محمد صاحب نے کیا۔ ان کے علاوہ بھی کئی عوامی مسائل حل کیے گئے۔ موجودہ ایم پی اے کا تعلق موڑکھو سے ہے اور اپر چترال میں اکثریتی ووٹ بھی موڑکھو سے ہی ان کو ملے ہیں۔ ان سب کے باوجود وہ اپنے حلقے کے مسائل ان تین سالوں میں حل کرنے میں ابھی تک ناکام رہے ہیں۔ ان مسائل میں سرفہرست ٹی ایچ کیو ہسپتال بونی کو ڈی ایچ کیو کا درجہ دینا، مردانہ ہائی سکول وریجون کو ہائرسیکنڈری کا درجہ دینا اور موڑکھو کے آر ایچ سی ہسپتال کو ٹی ایچ کیو کا درجہ دینا شامل ہیں۔

وریجون ہیڈکوارٹر تک دو کلومیٹر بلیک ٹاپ روڈ تاحال تعمیر نہ ہوسکا۔ابھی تک ان عوامی مسائل کو حل کرنے کے لیے ایم پی اے نے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیے ہیں۔ موجودہ قومی اسمبلی کا ممبر جناب عبدالاکبر صاحب نے اپنے پچھلے دورِ حکومت میں اپر چترال کے عوام کو محض وعدوں اور نغروں سے بہلاتا رہا۔ اس وقت بھی ایم این اے صاحب کے فنڈ سے اپر چترال میں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہورہے ہیں۔2018 کے انتخابات میں موڑکھو سے مولانا عبدالاکبر صاحب کو سب سے زیادہ ووٹ ملے تھے لیکن جب وہ انتخابات میں کامیاب ہوئے تو موڑکھو کے عوام کو جلد نظر انداز اور فراموش کردیا۔ ایم این اے صاحب گزشتہ انتخابی مہم کے دوران موڑکھو کے عوام کے ساتھ نہر اتہک کے مسئلے کو جلد حل کرنے کا وعدہ کیا تھا جو ابھی تک پورا نہیں ہوا اور آئندہ بھی ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اپر چترال میں خاندان کے مقام پر سابق ایم این اے افتخار الدین صاحب کی کوششوں کے نتیجے میں گرڈ سٹیشن کی منظوری ہو چکی تھی جوکہ موجودہ ایم این اے کی عدم توجہ کے باعث ابھی تک گرڈ سٹیشن کا قیام عمل میں نہیں آیا۔ گرڈ سٹیشن کے قیام میں تاخیر کی وجہ سے اپر چترال کے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

ایم این اے کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے اپر چترال کے عوام مایوس ہوچکے ہیں۔ اب ان کی پارٹی کے لوگ بھی ان سے ناخوش اور ناراض دکھائی دے رہے ہیں جوکہ آنے والے وقتوں میں مولانا صاحب کی سیاسی مستقبل کے لیے اچھی شگون نہیں ہے۔ ان کی مایوس کن کارکردگی پارٹی کو بھی لے ڈوبے گی۔ اس وقت خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت کو آٹھ سال پورے ہوچکے ہیں۔ گزشتہ آٹھ سالوں سے پی ٹی آئی کی صوبائی قیادت چترالی عوام کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کررہی ہے اور اپنی پارٹی کا امیدوار منتخب نہ ہونے پر چترالی عوام سے سیاسی انتقام لیا جارہا ہے۔موجودہ صوبائی حکومت چترال لوئر اور اپر میں کوئی بڑے ترقیاتی منصوبے تعمیر نہیں کر سکے۔ خاص کر اپر چترال کو مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے۔ اس کا واضح ثبوت وزیر اعلیٰ کے دورے کا شیڈول طے ہونے کے باوجود اپر چترال کا دورہ منسوخ کرنا ہے۔

بار بار اپر چترال کو نظر انداز کرنے پر پی ٹی آئی کے عہدیداراں اور کارکنوں میں بھی مایوسی اور بددلی پھیلی ہوئی ہے۔ موجودہ صوبائی حکومت اپر چترال کو الگ ضلع کا درجہ دینے کے بعد اس نئے اور پسماندہ ضلعے کی تعمیر و ترقی کے لیے کوئی خصوصی فنڈ فراہم نہیں کی۔ ترقیاتی فنڈ مہیا نہ ہونے کی وجہ سے کاغذی ضلع بنا ہوا ہے۔ پی ٹی آئی کی ضلعی قیادت کو اپر چترال کی ترقی اور عوامی مسائل کو حل کرنے کی طرف بھر پور توجہ دینی چاہیے۔ اگر حالات جوں کے توں رہے تو آنے والے انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدوار کے لیے عوام کا سامنا کرنا مشکل ہوگا۔ اپر چترال میں ترقیاتی کام نہ ہونے کی وجہ سے بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ دوسری طرف مہنگائی میں بے تحاشہ اضافہ ہونے کی وجہ سے موجودہ حکومت کے خلاف عوام میں غم وغصہ بڑھ رہا ہے۔


پی ٹی آئی کی ضلعی قیادت کو اپر چترال کی تعمیر و ترقی اور عوامی مسائل کے حل کی طرف صوبائی حکومت کی توجہ مبذول کراکے اپنے علاقے کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
55459

ہندوکُش کے دامن سے چرواہے کی صدا – تماشائی اپوزیشن -عبدالباقی چترالی

ہندوکُش کے دامن سے چرواہے کی صدا – تماشائی اپوزیشن -عبدالباقی چترالی

کسی بھی جمہوری ملک میں حکمران اور اپوزیشن لازم و ملزوم ہوتے ہیں۔ دونوں کا مقصد ملک اور قوم کی خوشحالی اور بہبود ہوتا ہے۔ جب حکمران جماعت ملکر اور قوم کی ترقی کی خاطر پالیسی اور منصوبے بناتے ہیں تو اپوزیشن جماعتیں ان پالیسیوں اور منصوبوں پر نظر رکھتی ہیں۔ ان میں کوئی کمی خامی ہو تو وہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں ان پر بحث کرکے ان کمیوں اور خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے متعلق متبادل رائے دیتے ہیں۔ حکمران پارٹی کوئی اہم قومی پالیسی یا بڑے منصوبے شروع کرتے وقت اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لیتی ہے اور ان سے صلاح مشورہ کرتا ہے۔ بدقسمتی سے موجودہ حکمران جماعت اپوزیشن جماعتوں سے مشورہ کرنا تو دُور کی بات ہے اپوزیشن لیڈر سے ہاتھ ملانا اور سلام دعا کرنا بھی اپنی توہین سمجھتی ہے۔وہ اپوزیشن جماعتوں کے نمائندوں کو چور، ڈاکواور لٹیرے جیسے القاب سے نوازتی ہے۔

قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہی قانون سازی ہونے کی بجائے ہنگامے اور شور وغُل شروع ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے حکمران اور اپوزیشن دونوں جماعتوں میں بعض ایسے ممبران موجود ہیں جو پارلیمنٹ کو مچھلی منڈی بنانے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ ملک کا پارلیمنٹ گالیوں کی ڈکشنری بن چکی ہے جہاں سے عوام کو وافر مقدار میں نئی نئی گالیاں سننے کو ملتی ہیں۔ ملک کا حکمران عوام کو مدینہ کا درس دیتے ہیں مگر اگلے ہی روز پارلیمنٹ کو گالیوں سے سجا دیتے ہیں۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں گزشتہ تین سالوں سے کرپشن کے کیسز بھگت رہے ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں اپنا آئینی رول ادا کرنے کی بجائے وہ خود کو حکومت وقت کے انتقام سے بچانے اور اپنی ناجائز دولت اور پارٹیوں کو بچانے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کو عوام کی مشکلات اور مسائل کا احساس ہی نہیں۔ موجودہ حکمرانوں کی نااہلی اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے ملک میں مہنگائی کا طوفان آیا ہوا ہے۔ یہ ملکی تاریخ کی بدترین مہنگائی ہے اور یہ موجودہ حکمرانوں کی ناقص معاشی پالیسیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔


مشکل کی اس گھڑی میں اپوزیشن جماعتیں عوام کا ساتھ دینے کی بجائے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ کبھی کھبار چھوٹے موٹے جلسے جلوس کرکے عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی ناکام کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ اس بدتریں مہنگائی کے خلاف کوئی بڑی تحریک چلانے کے لیے آمادہ نظر نہیں آرہے۔ اپوزیشن جماعتوں کو عوام کی مشکلات اور ملک سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ان کو اپنے سیاسی مفادات عزیز ہیں۔ اگر اپوزیشن جماعتیں حقیقت میں عوام کی نمائندگی کرتیں توموجودہ نااہل حکمرانوں کا تین سال تک اقتدار میں رہنا ناممکن تھا۔موجودہ حکومت اپوزیشن کی نااہلی کا فائدہ اٹھا کرغریب عوام پر مہنگائی کا بم برسا رہی ہے کیونکہ حکمرانوں کا راستہ روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت لندن میں بیٹھ کر ملکی حالات کا تماشہ دیکھ رہی ہے اور ملک کے غریب عوام کی بے بسی پر خوش ہورہی ہے۔ وہ پاکستانی عوام سے اس لیے ناراض اور ناخوش دیکھائی دے رہا ہے کیونکہ جب ان کو اقتدار سے ہٹایا گیا تو ان کا خیال تھا کہ پاکستانی عوام بھی ایسے ہی ان کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرے گی جس طرح چند سال قبل ترکی میں اردگان حکومت کو ختم کرنے کے لیے فوجی کاروائی کی گئی تو ترکی کے عوام نے اردگان کی حکومت کو بچانے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔


اردگان ترکی کے عوام کے لیے سایہ کی طرح ہیں اور انکے دکھ درد کا ساتھی ہیں۔ اس لیے ترک عوام نے حکومت بچانے کے لیے اپنی جانوں کی قربانی دی۔ ہمارے ملک کے سابق وزیر آعظم نواز شریف صاحب بھی پاکستانی عوام سے ایسی ہی قربانی چاہتے تھے کہ پاکستانی عوام بھی ترک عوام کی طرح ان کے اقتدار کو بچانے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کریں۔ ہمارے سابق وزیر آعظم صاحب کو یہ بات سوچ لینی چاہیے تھی کہ تین بار ملک کا وزیر آعظم رہنے کے باوجود غریب عوام کی بہتری کے لیے کیا خدمات انجام دیا۔ نواز شریف صاحب کو پاکستانی عوام کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ پاکستانی عوام نے تین بار آپ کو ملک کا سربراہ بنادیا۔


پیپلز پارٹی کی قیادت اپنے کرپشن اور لوٹی ہوئی ناجائز دولت کو بچانے کی خاطر کسی بھی در پہ ہمہ وقت سجدہ کرنے کو تیار رہتی ہے۔ ان کو نہ ملک سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی عوامی مسائل کا احساس ہے۔ ان کو اپنی مفادات کی فکر ہے۔ اگر وہ ملک اور قوم سے مخلص ہوتا تو پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے تحریک چلا کر ملک اور قوم کو موجودہ نالائق حکمرانوں سے نجات دلاتا۔ ملک کے عوام حکمرانوں اور اپوزیشن جماعتوں کی کارکردگی جان چکے ہیں اور اپنے اوپر ہونے والے ظلم و زیادتی سے نجات حاصل کرنے کے لیے اس ملک کے غریب عوام کو خود ہی کوئی بڑا فیصلہ کرنا چاہیے۔ 73 سالوں سے ملک میں کبھی فوجی اور کبھی سول حکومتوں کے تحت چلتے ہوئے امیر امیرتر ہوگیا اور غریب غریب تر ہوگیا۔ اب حکومت بدلنے کی بجائے نظام کو بدلنے کا وقت آگیا ہے۔ حکومت بدلنے سے غریب عوام کی حالت نہیں بدلتی ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی بار حکمومتیں تبدیل ہوچکی ہیں مگر عوام کی حالت بد سے بدتر ہوتی گئی۔ اس نظام کی تبدیلی کے بغیر ملک اور قوم کی حالت بہتر نہیں ہوسکتی۔ اس نظام کے تحت غریبوں کے لیے الگ قانوں ہے اور امیروں کے لیے الگ قانون موجود ہے۔ جس ملک کا قانون کمزوروں کو سزا دے اور طاقتور وں کو چھوڑدے وہ ملک اور قومیں تباہی و بربادی سے دوچار ہو جاتے ہیں اور ایسے قانون کو جنگل کا قانون کہا جاتا ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
55233

ہندوکُش کے دامن سے چرواہے کی صدا -عوامی نمائندوں کی کارکردگی -عبدالباقی

اپر چترال کو نیا ضلع بنے ہوئے تین سال کا عرصہ گزرگیامگر اب تک نئے ضلعی دفاتر تعمیر نہیں ہوئے۔ نئے دفاتر تعمیر ہونا تو دور کی بات ہے ا بھی تک ضلعی دفاتر کے لیے جگہے کا تعین بھی نہیں ہوا ہے اور نہ ہی بجٹ میں ان دفاتر کے لیے کوئی فنڈ رکھا گیا ہے۔
موجودہ ضلعی انتظامیہ کے اہلکار پرانے ٹوٹے پھوٹے کمروں میں رہ کر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ان دفاتر میں جدید دور کے مطابق کوئی سہولت موجود نہیں۔ دفاتر میں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ملازمین کو بھی مشکل پیش آرہے ہیں۔


دوسرا بڑا مسلہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کا ہے۔ اپر چترال میں سردیوں کا موسم شروع ہوتے ہی لوڈشیڈنگ شروع ہو جاتا ہے۔ اس وقت بھی اپر چترال میں بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے دفتری کام بھی متاثر ہوتے ہیں اور عوام کو بھی مشکل حالات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ لہٰذا عوامی نمائندوں کو چاہیے کہ ترجیحی بنیادوں پر ان مسائل کی طرف توجہ دیں۔


صوبائی حکومت اور عوامی نمائندوں کو اپر چترال کی ترقی کے لیے بھر پور کوشش کرنی چاہیے۔ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے اپر چترال کو الگ ضلع بنایا ہے مگر اس کے لیے ترقیاتی فنڈ فراہم نہیں کیے گئے۔ اپر چترال کے عوام وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سے پُر زور گزارش کرتے ہیں کہ وہ مہربانی کرکے اس نئے اور پس ماندہ ضلع کے لیے خصوصی ترقیاتی فنڈ فراہم کریں تاکہ حکومتی وعدوں کے مطابق ان دُورافتادہ علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو ان کے دہلیز پر سہولیات فراہم ہوسکیں۔ ہمارے موجودہ صوبائی اسمبلی کا ممبر اس نئے ضلع کی ترقی کے لیے گزشتہ تین سالوں میں کچھ بھی نہیں کرسکا۔ موجودہ ایم پی اے کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ تحصیل موڑکھو میں سابقہ ایم پی اے سردار حسین کی کوششوں کے نتیجے میں دو کلومیٹر کچی سڑک تعمیر ہوئی تھی جوآج بھی اُسی حال میں موجود ہے۔ یہ ایم پی اے صاحب کا آبائی حلقہ ہونے کے باوجود تین سالوں میں دو کلومیٹر سڑک بلیک ٹاپ نہیں ہوسکا۔ موجودہ ایم پی اے کی اس ناقص کارکردگی کی وجہ سے اس کے حلقے کے لوگ بھی نالاں ہیں اور پارٹی کارکنان بھی شدید ناراض ہیں۔ عالم دین ہونے کے باوجود لوگوں سے جھوٹے وعدے کرتا ہے اور زیادہ تر پشاور میں رہتا ہے۔ کبھی کبھار ہی چترال کا رُخ کرتا ہے تو اپنے رشتہ داروں اور پارٹی کے چند افراد سے مل کر واپس چلا جاتا ہے۔ ان تین سالوں میں موڑکھو میں ایک بار بھی کھلی کچہری نہیں کیا ہے۔


موڑکھو کے عوام میں ایم پی اے کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے جبکہ تحصیل موڑکھو کو جے یو آئی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ ایم پی اے کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے پارٹی کو شدید سیاسی نقصان پہنچ رہا ہے جس کا خمیازہ آنے والے انتخابات میں جے یو آئی کو بگھتنا پڑے گا۔ جے یو آئی کی اعلیٰ قیادت اپنے پارٹی ٹکٹ دیتے وقت امیدوار کی اہلیت اور قابلیت کو مدنظر رکھ کر ٹکٹ دینا چاہیے۔ نااہل امیدوار پارٹی کے لیے تباہی و بربادی کا باعث بنتا ہے۔


ہمارے قومی اسمبلی کا ممبر زیادہ تر سودی نظام معیشت، کشمیر اور فلسطین کے مسلے پر قومی اسمبلی میں تقریر کرتا رہتا ہے۔ اپنے پسماندہ ضلع چترال کے مسائل کی طرف بہت کم توجہ دیتا ہے اور عوامی مسائل کی طرف ان کی توجہ دلانے پر شدید ناراضگی کا اظہار کرتا ہے۔


2018 کے انتخابات میں چترالی عوام نے مذہبی جماعتوں پر اعتماد کرکے ان کو ووٹ دیا تھا۔ موجودہ مذہبی جماعت کے نمائندوں نے اپنی ناقص کارکردگی کی وجہ سے چترالی عوام کو مایوس کردیا ہے۔ دو سال بعد آنے والے انتخابات میں وہ اپنی ناقص کارکردگی کاچترالی عوام کے سامنے کیا جواز پیش کریں گے؟ اب چترالی عوام بیدار ہوچکی ہے۔ اب ان کو دلفریب نعروں اور جھوٹے وعدوں سے نہیں بہلایا جاسکتا۔ موجودہ مذہبی جماعت کے نمائندوں نے اپنے مایوس کُن کارکردگی سے آئندہ انتخابات جیتنے کا راستہ کھو دیا ہے۔ اب مذہبی جماعتوں سے چترالی عوام کااعتماد اور اعتبار اٹھ چکا ہے کیونکہ چترالی عوام نے ویلج کونسل سے لے کر قومی اسمبلی تک مذہبی جماعتوں کو ووٹ دیا تھا مگر یہ مذہبی جماعتیں عوام کے مسائل حل کرنے میں بُری طرح ناکام ہوئے۔
کاش کہ اے بسا آرزو کہ خاک شُد!

عبدالباقی چترالی موڑکھو

Posted in تازہ ترینTagged
54981

ہندوکُش کے دامن سے چرواہے کی صدا -عبدالباقی چترالی موڑکھو

ضلع اپر چترال عوامی نمائندوں کی عدم توجہی کے باعث مختلف مسائل کا شکار ہے۔ان میں خاص کر نادرا آفس بونی میں حد سے زیادہ رش ہونے کی وجہ سے دُور دراز علاقوں سے آنے والے مرد و خواتین کو شناختی کارڈ اور بچوں کے فارم(ب) بنوانے کے لیے اس سردی کے موسم میں سارا دن قطار میں کھڑا رہنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات سارا دن قطار میں کھڑا رہنے کے بعد بھی ان کی باری نہیں آتی ہے تو مجبوراً بونی کے کسی ہوٹل یا پھر کسی کے گھر میں رات گزار کر دوسرے دن آنا پڑتا ہے۔


اس مسلے کی طرف کئی بار عوامی نمائندوں کی توجہ مبذول کرانے کے باوجود تاحال یہ مسلہ حل نہیں ہوا۔ تحصیل موڑکھو وریجون میں نادرا آفس کھولنے سے یہ مسلہ با آسانی حل ہوسکتا ہے مگر نادرا حکام اور عوامی نمائندوں کی غفلت و لاپرواہی کی وجہ سے یہ مسلہ حل نہیں ہورہا۔


ایم این اے چترال مولانا عبدالاکبر صاحب اپنے پس ماندہ حلقہ چترال کے عوام کے مسائل حل کرانے کی بجائے قومی اسمبلی میں کشمیر اور فلسطین کے مسلے پر زور دے رہے ہیں۔مولانا صاحب کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ انھیں ووٹ چترال کے غریب عوام نے دیے ہیں۔ ان کی قومی اسمبلی میں تقریر کرنے سے نہ تو کشمیر کا مسلہ حل ہوگا اور نہ فلسطین کا۔ لہٰذا آپ مہربانی کرکے اپنے پسماندہ ضلع چترال کے عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔


تحصیل موڑکھو وریجون میں نادرا آفس کھولنے سے تحصیل مستوج کے عوام کو بھی آسانی ہوگی کیونکہ نادرا آفس بونی پر بوجھ کم ہوگااورتحصیل موڑکھو کے عوام کو سہولت میسر ہوگی۔ لہٰذا ہم تحصیل موڑکھو اور تحصیل مستوج کے عوام نادرا حکام اور عوامی نمائندوں سے پُرزور اپیل کرتے ہیں کہ وہ ان عوامی مسائل کی طرف اپنی توجہ مبذول کریں اور فوری طور پر موڑکھو وریجون میں نادرا آفس کھولا جائے۔ بصورت دیگر عوام سڑکوں پر آنے پر مجبور ہونگے جس کی تمام تر ذمہ داری عوامی نمائندوں اور نادرا حکام پر عائد ہوگی۔


عبدالباقی چترالی موڑکھو

Posted in تازہ ترین, خطوطTagged
54853