ہندوکُش کے دامن سے چرواہے کی صدا – تماشائی اپوزیشن -عبدالباقی چترالی
ہندوکُش کے دامن سے چرواہے کی صدا – تماشائی اپوزیشن -عبدالباقی چترالی
کسی بھی جمہوری ملک میں حکمران اور اپوزیشن لازم و ملزوم ہوتے ہیں۔ دونوں کا مقصد ملک اور قوم کی خوشحالی اور بہبود ہوتا ہے۔ جب حکمران جماعت ملکر اور قوم کی ترقی کی خاطر پالیسی اور منصوبے بناتے ہیں تو اپوزیشن جماعتیں ان پالیسیوں اور منصوبوں پر نظر رکھتی ہیں۔ ان میں کوئی کمی خامی ہو تو وہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں ان پر بحث کرکے ان کمیوں اور خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے متعلق متبادل رائے دیتے ہیں۔ حکمران پارٹی کوئی اہم قومی پالیسی یا بڑے منصوبے شروع کرتے وقت اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لیتی ہے اور ان سے صلاح مشورہ کرتا ہے۔ بدقسمتی سے موجودہ حکمران جماعت اپوزیشن جماعتوں سے مشورہ کرنا تو دُور کی بات ہے اپوزیشن لیڈر سے ہاتھ ملانا اور سلام دعا کرنا بھی اپنی توہین سمجھتی ہے۔وہ اپوزیشن جماعتوں کے نمائندوں کو چور، ڈاکواور لٹیرے جیسے القاب سے نوازتی ہے۔
قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہی قانون سازی ہونے کی بجائے ہنگامے اور شور وغُل شروع ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے حکمران اور اپوزیشن دونوں جماعتوں میں بعض ایسے ممبران موجود ہیں جو پارلیمنٹ کو مچھلی منڈی بنانے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ ملک کا پارلیمنٹ گالیوں کی ڈکشنری بن چکی ہے جہاں سے عوام کو وافر مقدار میں نئی نئی گالیاں سننے کو ملتی ہیں۔ ملک کا حکمران عوام کو مدینہ کا درس دیتے ہیں مگر اگلے ہی روز پارلیمنٹ کو گالیوں سے سجا دیتے ہیں۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں گزشتہ تین سالوں سے کرپشن کے کیسز بھگت رہے ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں اپنا آئینی رول ادا کرنے کی بجائے وہ خود کو حکومت وقت کے انتقام سے بچانے اور اپنی ناجائز دولت اور پارٹیوں کو بچانے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کو عوام کی مشکلات اور مسائل کا احساس ہی نہیں۔ موجودہ حکمرانوں کی نااہلی اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے ملک میں مہنگائی کا طوفان آیا ہوا ہے۔ یہ ملکی تاریخ کی بدترین مہنگائی ہے اور یہ موجودہ حکمرانوں کی ناقص معاشی پالیسیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
مشکل کی اس گھڑی میں اپوزیشن جماعتیں عوام کا ساتھ دینے کی بجائے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ کبھی کھبار چھوٹے موٹے جلسے جلوس کرکے عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی ناکام کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ اس بدتریں مہنگائی کے خلاف کوئی بڑی تحریک چلانے کے لیے آمادہ نظر نہیں آرہے۔ اپوزیشن جماعتوں کو عوام کی مشکلات اور ملک سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ان کو اپنے سیاسی مفادات عزیز ہیں۔ اگر اپوزیشن جماعتیں حقیقت میں عوام کی نمائندگی کرتیں توموجودہ نااہل حکمرانوں کا تین سال تک اقتدار میں رہنا ناممکن تھا۔موجودہ حکومت اپوزیشن کی نااہلی کا فائدہ اٹھا کرغریب عوام پر مہنگائی کا بم برسا رہی ہے کیونکہ حکمرانوں کا راستہ روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت لندن میں بیٹھ کر ملکی حالات کا تماشہ دیکھ رہی ہے اور ملک کے غریب عوام کی بے بسی پر خوش ہورہی ہے۔ وہ پاکستانی عوام سے اس لیے ناراض اور ناخوش دیکھائی دے رہا ہے کیونکہ جب ان کو اقتدار سے ہٹایا گیا تو ان کا خیال تھا کہ پاکستانی عوام بھی ایسے ہی ان کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرے گی جس طرح چند سال قبل ترکی میں اردگان حکومت کو ختم کرنے کے لیے فوجی کاروائی کی گئی تو ترکی کے عوام نے اردگان کی حکومت کو بچانے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔
اردگان ترکی کے عوام کے لیے سایہ کی طرح ہیں اور انکے دکھ درد کا ساتھی ہیں۔ اس لیے ترک عوام نے حکومت بچانے کے لیے اپنی جانوں کی قربانی دی۔ ہمارے ملک کے سابق وزیر آعظم نواز شریف صاحب بھی پاکستانی عوام سے ایسی ہی قربانی چاہتے تھے کہ پاکستانی عوام بھی ترک عوام کی طرح ان کے اقتدار کو بچانے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کریں۔ ہمارے سابق وزیر آعظم صاحب کو یہ بات سوچ لینی چاہیے تھی کہ تین بار ملک کا وزیر آعظم رہنے کے باوجود غریب عوام کی بہتری کے لیے کیا خدمات انجام دیا۔ نواز شریف صاحب کو پاکستانی عوام کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ پاکستانی عوام نے تین بار آپ کو ملک کا سربراہ بنادیا۔
پیپلز پارٹی کی قیادت اپنے کرپشن اور لوٹی ہوئی ناجائز دولت کو بچانے کی خاطر کسی بھی در پہ ہمہ وقت سجدہ کرنے کو تیار رہتی ہے۔ ان کو نہ ملک سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی عوامی مسائل کا احساس ہے۔ ان کو اپنی مفادات کی فکر ہے۔ اگر وہ ملک اور قوم سے مخلص ہوتا تو پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے تحریک چلا کر ملک اور قوم کو موجودہ نالائق حکمرانوں سے نجات دلاتا۔ ملک کے عوام حکمرانوں اور اپوزیشن جماعتوں کی کارکردگی جان چکے ہیں اور اپنے اوپر ہونے والے ظلم و زیادتی سے نجات حاصل کرنے کے لیے اس ملک کے غریب عوام کو خود ہی کوئی بڑا فیصلہ کرنا چاہیے۔ 73 سالوں سے ملک میں کبھی فوجی اور کبھی سول حکومتوں کے تحت چلتے ہوئے امیر امیرتر ہوگیا اور غریب غریب تر ہوگیا۔ اب حکومت بدلنے کی بجائے نظام کو بدلنے کا وقت آگیا ہے۔ حکومت بدلنے سے غریب عوام کی حالت نہیں بدلتی ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی بار حکمومتیں تبدیل ہوچکی ہیں مگر عوام کی حالت بد سے بدتر ہوتی گئی۔ اس نظام کی تبدیلی کے بغیر ملک اور قوم کی حالت بہتر نہیں ہوسکتی۔ اس نظام کے تحت غریبوں کے لیے الگ قانوں ہے اور امیروں کے لیے الگ قانون موجود ہے۔ جس ملک کا قانون کمزوروں کو سزا دے اور طاقتور وں کو چھوڑدے وہ ملک اور قومیں تباہی و بربادی سے دوچار ہو جاتے ہیں اور ایسے قانون کو جنگل کا قانون کہا جاتا ہے۔